28 فروردین 1375 مطابق 16 اپریل 1996 کو قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں زور دیکر کہا کہ اداروں کو چاہئے کہ وہ خود اپنا ناقدانہ جائزہ لیں تاکہ خامیوں اور کمیوں کا اندازہ ہو اور پھر ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اغیار پر انحصار سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ اغیار اس انحصار کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں کی خود مختاری چھین لیتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

خوش آمدید؛ میرے عزیزو! یوم مسلح افواج اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو مبارک ہو، پرثمر اور مستقبل ساز ہو۔ یہ یادگار ایام اور ہفتے، جیسے یوم مسلح افواج، یوم اساتذہ، یوم محنت کشاں، یوم سپاہ پاسداران وغیرہ، اپنا جائزہ لینے کے ایام ہیں۔ ہر ادارے کے لئے ضروری ہے کہ کبھی کبھی اپنا محاسبہ کرے۔ باہر سے خود کو دیکھے۔ اندر سے خود کو (تعریفی نگاہ سے) دیکھنا خود بینی ہے؛ لیکن باہر سے جائزہ لینا در حقیقت تنقیدی نگاہ سے دیکھنے اور اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کے معنی میں ہوتا ہے ۔ باریک بینی اور گہرائی سے اپنا جائزہ لینا ہے۔
خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ فوج نے گزشتہ برسوں کے دوران روز بروز الحمد للہ، پیشرفت کی ہے۔ آج کی فوج گزشتہ برسوں اور ان سے پہلے کے برسوں کی فوج سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ آج فوج نے کافی پیشرفت کر لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود خود کو دیکھنا، اپنا جائزہ لینا اور اپنا محاسبہ کرتے رہنا ہمیشہ ضروری ہوتا ہے۔ افراد کے لئے شخصی طور پر بھی یہی ہے۔ ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ کبھی کبھی اپنے اندرونی خول سے باہر آئے اور یہ کسی جماعت اور مجموعے سے باہر نکل کر اس کا جائزہ لینے سے زیادہ ‎سخت ہے۔ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نفسانیّت، خودبینی اور غرور سے باہر آئے اور باہر سے خود کو ناقدانہ طور پر دیکھے۔ ہم سب کو اس تغیر کی ضرورت ہے۔ انسان کی جبلّت نقائص سے آمیختہ ہے۔ ہم کب ان نقائص کو دور کر سکتے ہیں؟ جب انہیں دیکھیں؛ جب انہیں پہچانیں اور جب تسلیم کریں کہ ہمارے اندر نقائص ہیں۔ اگر خود کو بالکل آزاد سمجھا تو مغرور ہو جائيں گے۔ اگر سمجھ لیا ہے کہ ہمارے اندر نقص نہیں ہے۔ تو پھر اپنے علاج کی فکر ہم کب کریں گے؟ جب اپنے نقائص کو دیکھیں گے اور پہچانیں گے۔ آپ دیکھیں کہ انسانوں کے روحانی معلمین یعنی پیغمبران الہی، آئمہ ہدی علیہم الصّلاۃ و السّلام، مسلسل ہمارے نفس کو جھنجھوڑتے رہتے تھے (یعنی ہمارے نفس کی اصلاح کی بات کرتے تھے۔) نفس یعنی ہمارے وجود کا وہ پہلو جو پستی کی طرف لے جاتا ہے؛ وہ پہلو ہمیں ہماری نفسانی خواہشات کی طرف مائل کرتا ہے اور دنیوی لذتوں کی طرف گھسیٹتا ہے۔ ہمارے اندر نقائص اور کمزوریاں وہیں سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کمزوریوں کو دیکھنے کے لئے اپنا جائزہ لینا ضروری ہے۔
آپ ملاحظہ فرمائيں کہ مرکز نورانیت، معدن معنویت و کمال، زینت عابدین عالم، امام سجاد علیہ الصّلاۃ و السّلام، صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں خود کو کس طرح دیکھتے ہیں، کس طرح خود کو پروردگار عالم کے سامنے لاتے ہیں اور استغاثہ کرتے ہیں! نصف شب میں، نماز شب کے بعد، ظاہر ہے یہ کسی عام انسان کی نماز شب نہیں ہے، بلکہ سید سجاد کی نماز شب ہے، ہمارا یہ امام پروردگار سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے؛ و ھذا مقام من استجبی لنفسہ منک و سخط علیھا و رضی عنک (1) یعنی پالنے والے! یہ جملے امام سجاد علیہ الصّلاۃ و السّلام اپنے پروردگار سے کہتے ہیں :خود کا جائزہ لینا یہ ہے کہ انسان، کمال کی بلندیوں کو مرحلہ بہ مرحلہ طے کرتا ہے اور کامل ہوتا۔ اعلی و ارفع انسان پیدا ہوتے ہیں اور ان کی روحانیت اور خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں اور سب کو نظر آتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور اپنے عیوب اور نقائص کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ (یہ ہستیاں) اس انسان کے برعکس (ہیں) جو اپنی آنکھیں بند کر لے، کمزوریوں کو نہ دیکھے؛ خود کو فارغ سمجھے، اپنے آپ پر اور خدا کے سلسلے میں مغرور ہو جائے، نورانیت کے اس معمولی سی رمق پر مغرور ہو جائے جو ہر انسان میں ہوتی ہے اور خود کو کبھی کبھی ظاہر کرتی ہے اور سرانجام اسی پر قناعت کر لے۔ بعض لوگ اپنے وجود کی کمترین خوبی اور اچھائی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ ایسا انسان، کمال کی منزلیں نہیں طے کر سکتا۔
جماعت اور مجموعے کے لئے بھی یہی اصول ہے۔ دیکھئے کہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس قوم نے بھی، جس دن اپنے نقائص کی طرف متوجہ ہوئی اور اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی، اسی دن سے آگے بڑھنا، ترقی کرنا اور کمال کی منزلیں طے کرنا شروع کیا۔ آپ یہ سمجھیں کہ فوج اعلی ترین آرزوؤں، نظریات اور انسانی اقدار کی مالک ایک آزاد اور خودمختار قوم ہے، تو اس کو کیسا ہونا چاہئے۔ اس کو اپنا ہدف قرار دیں اور اس سمت میں آگے بڑھیں۔
اس انقلاب اور اس ملک میں بنیادی مسئلہ خودمختاری کا ہے۔ آزادی و خودمختاری کے بعد ملک کو تمام اچھائیاں اورخوبیاں، سبھی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ جس طرح کہ کسی بیرونی ملک پر انحصار سے کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ انحصار قوم کو خدا کی طرف سے ملنے والی چیزوں اور اس کی نعمتوں کو نظرانداز کرنے کا نقطہ آغاز ہے۔ طاقت کے کسی بھی مرکز سے وابستہ ہونا، وہ چاہے جس سطح کا ہو، اس کی پیروی کرنا اور اس کے پیچھے چلنا، عقائد کو نظرانداز کرنے ، اپنی ثقافت کو نظرانداز کرنے، عوام کے مطالبات پر توجہ نہ دینے، حتی قومی مصلحتوں کو سے بے اعتنائی برتنے پر منتج ہوتا ہے۔ بدترین حکومتیں وہ ہیں جو اپنی قوم پر وابستگی مسلط کرتی ہیں۔ اقوام وابستہ ہونا نہیں چاہتیں۔ ایک گاؤں کے لوگوں کو دیکھیں! اگر ممکن ہو تو ان کا دل یہی چاہتا ہے کہ گاؤں کے مرکز اور شہر کے مرکز پر منحصر نہ ہوں۔ دوسروں پر انحصار انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ لیکن حکومتیں اس کو اپنے عوام پر مسلط کر دیتی ہیں اور اسی انحصار کی راہ میں اپنی قوم کی سرکوبی کرتی ہیں۔ کل یہ بات کسی اور شکل میں تھی اور آج کسی اور شکل میں ہے۔
آج دنیا میں انحصار پروپیگنڈوں کے ذریعے مسلط کرتے ہیں۔ چونکہ اقوام کے کان اور آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، وہ سمجھتی ہیں۔ اس لئے انحصار مسلط کرنے والے عوامل زور زبردستی سے انحصار مسلط نہیں کر سکتے تو پروپیگنڈوں کے ذریعے یہ کام کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں، اسی لبنان کے مسئلے میں، جو ایک بڑا انسانی المیہ ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، عرب ملکوں نے سانس بھی نہیں لی (معمولی سی جنبش بھی نہیں کی) اسلامی ممالک اور بعض دوسرے ملکوں کا بھی یہی حال ہے۔ جبکہ لبنان کا المیہ بہت بڑا اسلامی المیہ ہے۔ یہ بدترین جارحیت ہے جو انجام دی جا رہی ہے۔ یہ لبنان اور لبنانی عوام کے خلاف خبیث، سنگدل اور انسانیت دشمن صیہونیوں کی ننگی جارحیت ہے۔
حزب اللہ اور لبنانی عوام کا موقف دفاعی ہے۔ وہ اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ حزب اللہ، لبنان کے عوام اور ان کے حق کا دفاع کر رہی ہے۔ وہ لبنانی عوام کے حق اور لبنان کی خودمختاری کے دفاع میں خود کو فدا کر رہے ہیں۔ فلسطین پر قابض حکومت نے سرزمین فلسطین کو غصب کرنے پر اکتفا نہیں کیا اور جنوبی لبنان کے ایک حصے پر بھی قبضہ کر لیا۔ لبنان کے عوام جارحین کے مقابلے میں اپنا دفاع کر رہے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ؛ ہماری سرزمین سے باہر نکلو آج دنیا میں کون سی حریت پسند تحریک ہے جو بیرونی طاقت سے کہے؛ ہماری زمین سے نکلو اور دوست اور دشمن اس کی تعریف نہ کریں؟ یہ پہلا موقع ہے کہ خبیث اور ذلیل امریکا کی سرکردگی میں سامراجی دنیا اس حریت پسند تحریک کی جو غاصب سے کہہ رہی ہے کہ ہماری سرزمین سے باہر نکلو نہ صرف یہ کہ حمایت نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کی سرزنش بھی کر رہی ہے۔
لبنان کی لڑائي میں معاملہ اس سے بھی بڑا ہے۔ صیہونیوں نے لبنان میں ایک بچے کو قتل کر دیا۔ لبنانی مجاہدین نے اس بچے کے خون کا بدلہ لینے کے لئے، صیہونی حکومت پر محدود حملہ کیا، لیکن اسرائیل نے وسیع اور ہمہ گیر حملہ کر دیا۔ اس ہمہ گير حملے میں بھی متعدد بچے مارے گئے۔ اس وقت مارے جانے والے لبنانیوں میں اکثر، جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے، بچے ہیں۔ صیہونی، بچوں کے قاتل ہیں! آپ دیکھئے! المیہ کتنا واضح اور آشکارا ہے؟! کتنا بڑا گناہ ہے؟! حقیقت کتنی روشن ہے؟! اور پھر امریکی حکومت اور اس کا صدر بجائے اس کے کہ اپنے پروردہ اس ذلیل، یعنی اسرائیل اور اس کے سربراہ کو روکتا، اس سے کہتا کہ اتنا قتل نہ کرو، اتنی جارحیت نہ کرو، اس پر چیختا، حزب اللہ اور لبنانی عوام پر سیاسی یلغار کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تم دستبردار کیوں نہیں ہوتے؟ آپ دیکھیں کہ ان کی سیاسی ثقافت اور اصول کتنے الٹے ہیں؟! دیکھئے یہ کتنے قابل مذمت ہیں؟ آپ دیکھیں کہ آج دنیا میں انسان کا پالا کن لوگوں سے پڑا ہے؟ تو سمجھ میں آئے گا کہ اسلامی جمہوریہ کیا کہتی ہے، امام (خمینی) کیا کہتے تھے اور انقلاب کیا کہتا ہے؟! ان کی سوچ اور عمل اتنا الٹا، غیر منصفانہ اور انسانیت مخالف ہے۔ اس کے باوجود وہ سینہ تان کے اور سر اٹھا کے چلتے ہیں اور انہیں شرم بھی نہیں آتی۔ واقعی تعجب ہوتا ہے! مقبوضہ فلسطین میں کہیں معمولی سی کوئی حرکت ہوتی ہے تو امریکی صدر بلیک ہاؤس سے باہر آتا ہے اور اپنے پالے ہوئے اسرائیلی کتوں سے ہم آہنگی کے لئے اقدامات انجام دیتا ہے۔
حالیہ واقعے میں دسیوں انسان اپنے گھر کے اندر، اپنے دفاع میں ، ظلم و زیادتی کا نشانہ بن کر قتل ہو گئے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی حمایت نہیں کی جاتی بلکہ ان پر حملہ کیا جاتا ہے۔ یہ جو اسلام کے رہنماؤں نے بتایا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب دنیا میں اچھائی برائی اور برائی اچھائی بن جائے گی، آج وہی زمانہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ آج دنیا میں کس طرح اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی بناکے پیش کر رہے ہیں! آج اس تباہی و برائی کے مقابلے میں کون کھڑا ہو؟ عالم یہ ہے کہ حکومتیں اپنی اقوام کو دست بستہ بڑی طاقتوں کے حوالے کر رہی ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ؛ ہم دنیا کے لیڈر ہیں۔ یہ دعوی ان کی ماضی کی کرتوتوں سے بھی زیادہ برا ہے۔ کچھ غنڈے اور بد معاش جن سے ابتدائی ترین انسانی اخلاق چھوکے بھی نہیں گزرا ہے، وہ یہ دعوی کریں کہ کئی ارب انسانوں کے لیڈر ہیں، میری نظر میں یہ انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے۔
امریکیوں کو یقین آ گیا کہ وہ انسانیت کے لیڈر ہیں! آج نیویارک، واشنگٹن اور دیگر امریکی شہروں میں، رات کے وقت کوئی انسان بغیر اسلحہ ہاتھ میں لئے نہیں چل سکتا! وہاں امن و امان کی صورتحال یہ ہے۔ آج دین اور معنویت سے عاری اس ملک میں، بچے اپنے گھروں میں، اپنے منہ بولے باپ کی جنسی زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں! ان کی اخلاقی پستی کی حالت یہ ہے۔ آج خواتین کو ایذائیں دینے اور لاتوں اور گھونسوں سے مار مار کے انہیں قتل کر دینے کے واقعات امریکا سے زیادہ دنیا میں کہیں نہیں رونما ہوتے۔ آج بچوں کے تعلق سے جرائم، خواہ وہ بچوں کے قتل کی شکل میں ہوں یا بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی شکل میں، جتنے امریکا میں ہوتے ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ہوتے۔ امریکا کی سڑکوں پر بارہ تیرہ سال کے بچے اسلحہ لیکر گھومتے ہیں، سگریٹ اور شراب پیتے ہیں! اس عالم میں وہ دنیا کی لیڈرشپ اپنے ہاتھ میں لینے کا دعوی کرتے ہیں! یہ شرمناک نہیں ہے؟!
یہ باتیں انسان کو قوم کی آزادی و خودمختاری کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ان حالات میں کوئی حکمراں اپنے ملک اور قوم کو ایسے جلادوں کے سپرد کر دے! قوم میں کتنی نمایاں انسانی خصوصیات اور امتیازات پائے جاتے ہیں! ایک قوم میں کتنے علما، کتنے دانشور، کتنے سائنسداں، کتنے معلم اور اساتذہ کتنے فدارکار، کتنی درخشان انسانیت کتنی فداکاریاں اور کتنی استعداد اور صلاحیتیں پائی جاتی ہیں! ان تمام خوبیوں کے مجموعے کو ایسے جلادوں کے اختیار میں دے دینے کا مطلب ان کی سیاست کی پیروی کے علاوہ اور کیا ہے؟ ان کی سیاست کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر کہیں؛ تم مشرق وسطی کے معاملے میں یہ موقف اختیار کرو تو آپ کہیں؛ سرآنکھوں پر وہ کہیں؛ بوسنیا کے مسئلے میں اس طرح عمل کرو تو آپ کہیں؛ سرآنکھوں پر کیا یہ صحیح ہے؟
کسی قوم کے لئے دوسروں پر انحصار سے بڑی ذلت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ کسی بھی قوم کے حق میں اس سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ اس کے حکام اس کو اغیار کا محتاج بنا دیں۔ اس کے بر عکس کسی بھی قوم کے حکام کے لئے اس سے بڑا فریضہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ قوم کی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کریں۔ البتہ خود مختاری کے بھی مرتبے اور درجے ہیں۔ اس کا پہلا درجہ سیاسی خود مختاری ہے ۔ سب سے آسان خود مختاری سیاسی خود مختاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حکومت اقتدار میں آئے جو (بیرونی) طاقتوں سے وابستہ نہ ہو۔ اسلامی انقلاب ایسا ہی ہے۔ منحوس طاغوتی دور میں ذلیل اور بدعنوان شاہی دور میں جو گردن تک دوسروں پر انحصار کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی، حکومت اغیار پر مکمل انحصار کے ساتھ ہی وجود میں آئي تھی۔ محمد رضا جس کا باپ بیرونی طاقتوں کا غلام تھا، اسی غلامی کے دور میں ہی پیدا ہوا، اغیار پر انحصار کے عالم میں ہی اس نے آنکھ کھولی، وہ دوسروں پر منحصر رہنے کے علاوہ اور کچھ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ قوم کو بھی دوسروں کی محتاجی کی طرف لے گئے۔ اسلامی انقلاب آیا اور اس نے قوم سے اس کو زائل کیا۔ واقعی یہ غلامی زائل ہو گئی؛ جیسے نماز کے لباس اور بدن سے نجاست زائل ہو جاتی ہے! اسلامی انقلاب نے اس قوم کے پیکر سے (دوسروں پر انحصار کی) نجاستوں کو زائل کر دیا۔ اسلامی انقلاب ایسی حکومت وجود میں لایا جو خود مختار ہے۔ امریکا کی بات نہیں سنتی۔ کسی کی بھی بات نہیں سنتی، نہ ہی کسی سے ڈرتی ہے۔
آج خدا کے فضل سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایسی ہے۔ ایران کا صدر، ملک کے حکام اور اراکین پارلیمنٹ اس مزاج اور انداز کے ہیں۔ ایران کا صدر دنیا کی استفسار طلب آنکھوں کے سامنے فلسطین، لبنان اور بوسنیا کے مسائل میں ایسا موقف اختیار کرتا ہے کہ دشمن دانت پیستے ہیں اور غصے سے لال پیلے ہو جاتے ہیں۔ یہ محکم سیاسی موقف کے ساتھ سیاسی خود مختاری کی علامت ہے۔ لیکن سیاسی خودمختاری سے بھی بالاتر اقتصادی خودمختاری ہے۔ ملک کے حکام ، اراکین پارلیمنٹ، اقتصادی امور کے ذمہ داروں کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ پیسے کے معاملے میں ، اقتصادی امور میں، اقتصادی سرگرمیوں میں تمام شعبوں میں دوسروں پر انحصار ختم کریں۔ ایک شعبہ آپ فوجیوں کا بھی ہے؛ آپ کا انحصار بھی ختم ہونا چاہئے۔
اس وقت ہمارے پاس جو وسائل ہیں وہ اغیار کے بنائے ہوئے ہیں۔ وہ بھی سمجھ رہے تھے کہ چونکہ یہ وسائل ان کے بنائے ہوئے ہیں لہذا ہم ان کے محتاج ہیں! انقلاب کے بعد اور مسلط کردہ جنگ میں وہ اسی بات پر خوش تھے۔ آپ نے ان وسائل کا رابطہ ان کے بنانے والوں سے کاٹ دیا اور ان پر انحصار ختم ہو گیا، یعنی خود مختار ہو گئے۔ جی ہاں، اسلامی جمہوریہ ایران میں موجود وسائل ایک زمانے میں اغیار کے دائرہ اختیار میں رہتے تھے ۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے اور ملک آزاد ہو گیا ہے۔ یہ کام آپ نے کیا ہے۔ یہ کام ملک کے ہمدرد حکام نے، ملک سے دلچسپی رکھنے والوں نے، مومن اور حزب اللّہی افراد نے کیا ہے۔ یاد رکھیں: حزب اللّہی!
کوئی، لفظ حزب اللّہی کی اہمیت کم کرنے کی کوشش نہ کرے۔ حزب اللہ نے اس مملکت کو نجات دلائی ہے۔ حزب اللہ نے مسلط کردہ جنگ میں وہ کام کئے ہیں۔ حزب اللہ نے فوج کو بچایا ہے۔ اگر فوج کے حزب للّہی افراد نہ ہوتے تو شہید نوژہ چھاؤںی کی بغاوت میں فوج بدترین تجربے سے گزری ہوتی۔ فوج کے حزب اللّہی افراد اس بات کا موجب بنے کہ اس بغاوت میں جس کا منصوبہ فوج کے چار بکے ہوئے عناصر نے تیار کیا تھا، فوج سرخرو اور سربلند رہے۔ فوج کے حزب اللّہیوں کا اس فوج پر بڑا حق ہے۔ حزب اللہ کی عظمت کو سمجھیں۔
جنگ میں بھی اس حزب اللہی کمانڈر نے اس طرح کام کیا۔ فوج کی کمان میں بھی حزب اللّہی کمانڈروں نے، کل بھی اور آج بھی، ہمیشہ سعی و محنت کی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں بھی ایسا ہی ہے۔ بہرحال فوج پر بھی اپنے اندر اقتصادی انحصار ختم کرنے کی ذمہ داری ہے اور وہ فنی اور سائںسی میدان میں بھی اغیار پر انحصار ختم کرے۔ یہاں صرف اقتصادی انحصار نہیں ہے؛ فنی انحصار بھی ہے، سائنسی انحصار بھی ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان کا انحصار بھی ہے۔ یہ انحصار پوری طرح ختم ہونا چاہئے۔ البتہ انحصار ختم ہو رہا ہے لیکن اسے پوری طرح ختم کریں۔ خود بنائیں! فوج کے اندر لوگ خود سے اٹھیں، جوش و ولولہ پیدا کریں! یہ جو میں فوج میں تعمیر نو، جدید کاری، تعمیر اور ایجادات پر اتنا زور دیتا ہوں وہ اسی لئے ہے۔ آپ کے اندر توانائی ہے۔ فضائیہ میں کافی توانائی ہے۔ بحریہ میں کافی توانائی ہے۔ بری فوج میں کافی توانائی ہے۔ آپ کے اندر مختلف شعبوں میں سائنسی اور فنی کاموں اور نئی نئي ایجادات صلاحیتیں بمقدار کافی موجود ہیں۔ یہ کبھی نہ کہئے کہ چونکہ فلاں چیز نہیں خریدی گئی اس لئے ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم نے فلاں سامان نہیں خریدا تو اچھا ہوا! فلاں نئی مشین درآمد نہیں کی تو اچھا ہوا! اگر درآمد کر لی ہوتی تو آپ جدیدکاری کے لئے اتنا پسینہ نہ بہاتے۔ اگر کہیں ہمارے اوپر دروازے بند ہیں تو اس کی قدر کو سمجھیں۔ اگر دروازے کھلے ہوں تو آرام طلبی اور کاہلی انسان کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ سعی و کوشش اور محنت کے لئے بڑے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ جو مستقل طور پر ایجادات میں لگے ہوئے ہیں، انہیں ان کی سائنسی پیشرفت نے اس پر مجبور کیا ہے اور اس کے بعد ان کا کام شروع ہوا ہے اور پھر دولت اور استعمار نے دنیا کو اپنی پیروی کرنے پر مجبور کر دیا۔ آج مغرب والوں نے سائںس کے ذریعے خود کو دنیا پر مسلط کیا ہے۔ اس کے لئے ان کے پاس محرک ہے۔ پسماندہ رکھے گئے ملکوں کو بھی حرکت میں آنے اور آگے بڑھنے کے لئے اپنے اندر محرک اور جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ محرک اور جذبہ پیدا ہونے کے عوامل میں سے ایک یہ ہے کہ راستے بند ہوں۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ راستے پوری طرح کھلے نہیں ہیں اور کہیں کہیں بند ہیں۔
لیکن اس سے بھی اعلی، ث‍قافتی خود مختاری ہے : خود مختاری کی ثقافت اور خود مختاری پر یقین ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہر طرح کا انحصار ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب کوئی قوم اس منزل تک پہنچ جائے تو پھر کوئی مشکل باقی نہیں رہے گی۔
ان دنوں انتخابات کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ میں نے انتخابات کے بارے میں تسلسل کے ساتھ بات کی ہے اور ضروری باتیں بیان کی ہیں۔ انتخابات کے معاملے میں اور اہل ترین افراد کے انتخاب پر ہماری ساری تاکید اس لئے ہے کہ اس ملک کو خود مختاری آسانی سے نہیں ملی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ پارلیمنٹ میں کوئی ایسا شخص چلا جائے جو امریکا اور مغرب سے ہدایات لے اور ان کے احکام کا منتظر رہے۔ ایسا نہ ہو کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگ چلے جائیں جن کی ساری فریکوئنسیاں اغیار سے ہم آہنگ ہوں۔ ادھر سے جو بھیجا جائے اس کو لیں اور دوسرے الفاظ میں نشر کریں۔ مجھے اس بات کی تشویش ہے۔
البتہ یہ قوم بیدار ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اگر کچھ لوگ عوام کے حسن ظن یا غفلت سے فائدہ اٹھا کے پارلیمنٹ میں پہنچ گئے تو محفوظ ہو جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ باخبر اور ہوشیار قوم ہے۔ اس نے مصیبتیں اٹھائي ہیں اور خون دیا ہے، اگر اس نے دیکھا کہ (غیروں) سے وابستہ عناصر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں تو ہاتھ بڑھائے گی اور انہیں پارلمینٹ سے نکال باہر کرے گی۔ ہم جو دینداری پر اتنی تاکید کرتے ہیں، وہ اسی لئے ہے۔
میرے عزیزو! (غیروں سے) وابستگی، دین سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی متدین نہیں ہے وہ (اغیار سے) وابستہ ہے؛ نہیں، محرک اور جذبے گوناگوں ہیں۔ لیکن جو متدین ہے اس کے سامنے دوسروں کی غلامی کا راستہ اپنانے کے سلسلے میں ایک اضافی رکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ سنا ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران بعض لوگوں نے کہا تھا کہ بعض حضرات تدین پر اتنی تاکید کرتے ہیں، اس کی کیا اہمیت ہے؟ ماہر افراد کو پارلیمنٹ میں جانا چاہئے۔ ڈاکٹروں اور انجینیئروں کو پارلیمنٹ میں جانا اور امور مملکت چلانا چاہئے! یہ غلط ہے۔ آج ہمارے پاس مہارت کی کمی نہیں ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ایرانی عوام انہیں انجینیئروں اور ڈاکٹروں میں سے انہیں ماہرین میں سے متدین افراد کو منتخب کریں۔ صرف دعوے پر اکتفا نہ کریں۔ جس فرد کو منتخب کرنا جاہتے ہیں اس کو متدین ہونا چاہئے۔ اگر وہ متدین ہوا تو انسان اطمینان کا احساس کرتا ہے۔
میں نے انتخابات کی تشیہراتی مہم کے دوران بعض جگہوں پر مشاہدہ کیا ہے کہ بعض امیدواروں نے اتنی بھی زحمت نہیں کی ہے کہ اپنی کوئي ایسی تصویر ہی شائع کر دیتے کہ جس میں مذہب کی ظاہری باتوں کی پابندی کی گئی ہوتی! اس طرح کی باتیں انسان کو متنبہ کرتی ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اب ان باتوں کا زمانہ نہیں ہے اور لوگ دین، علما اور داڑھی وغیر کو اہمیت نہیں دیتے، تو یہ غلط ہے۔ آج بھی عوام متدین افراد پر، متدین امیدواروں پر اور علمائے دین پر اعتماد کرتے ہیں ۔اس لئے کہ دین دوسروں کی غلامی اختیار کرنے کر راستے میں مانع ہے۔ دینداری نہ ہو تو اغیار پر انحصار آسان ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرے لگائے کہ نہ صرف یہ کہ دینی اور انقلابی جوش وجذبہ نہیں رکھتا بلکہ دینی، ملی اور انقلابی باتوں کا مخالف ہے، کیا ایسے فرد کا پارلیمنٹ میں جانا خطرناک نہیں ہے؟!
البتہ مجھے اپنے عوام کی ہوشیاری پر اطمینان ہے۔ مجھے اپنے عوام کی ہوشیاری پر پورا بھروسہ ہے۔ ہمارے عوام ہوشیار ہیں؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دھوکے اور فریب سے کام لینے والا، مختلف قسم کے پروپیگنڈوں سے کام لے کے فضا کو خراب کرنے اور اپنا مطلب نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ عوام ہوشیار ہیں لیکن اس کے باوجود ممکن ہے کہ کوئی مختلف طریقوں اور پرپیگنڈوں سے فضا کو خراب کرکے اپنا مقصد پورا کرے۔ باہر والے ان باتوں کو ہوا دیتے ہیں اور بے بنیاد طور پر لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ بیرونی طاقتیں لوگوں کو جو کچھ کہہ کر تقسیم کرتی ہیں وہ حقیقت کے خلاف اور جھوٹ ہے۔ کچھ لوگ دائیں بازو کے کچھ بائيں بازو کے ، کچھ روایت پسند کچھ ماڈرن، یہ سب بے سر پیر کی بیکار کی باتیں ہیں جو باہر والے کرتے ہیں۔ البتہ ملک کے اندر کچھ سادہ لوح بھی ہیں جنہیں یہ کہنا برا نہیں لگتا کہ ہم فلاں دستے سے ہیں! سمجھتے ہیں کہ یہ قابل فخر ہے۔ نہیں جناب! ایرانی قوم میں رہیں۔ انقلابی عوام میں شامل رہیں۔ دین پر عقیدہ رکھنے والی اس ملت اور جماعت میں رہیں۔ دائیں، بائیں، قدیم اور جدید، یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ جن گروہوں کا وہ ذکر کرتے ہیں ان میں سے کسی نے بھی کوئی تدوین شدہ طرز تفکر پیش نہیں کیا ہے۔ گروہوں کی دستہ بندی، تدوین شدہ طرز تفکر کی اساس پر ہو سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں، ان گروہوں کے پاس کون سا تدوین شدہ طرز تفکر ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جا سکے کہ وہ ان سے مختلف ہے! یہ ماڈرن ہے، یہ بائيں بازو کا ہے، یہ دایاں بازو ہے! یہ بے معنی باتیں ہیں۔ یہ بے سر پیر کی باتیں ہیں جو باہر کے لوگوں کے ذریعے اور بیرونی پرپیگنڈوں میں پھیلائی جاتی ہیں۔ ہاں، ایک انقلاب مخالف اور دین مخالف تحریک ہے۔ ہمارے ملک میں اغیار سے وابستہ ایک لبرلزم موجود ہونے کا دعوی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نہ ہو۔ کچھ لوگ ہیں جو ماضی کی ظالم اور بدعنوان شاہی حکومت کے دور میں، اس کے اشاروں پر ناچتے تھے، اس سے تعاون کرتے رہے، اس کی اطاعت اور غلامی کرتے رہے، ان حالات کو برداشت کیا اور آواز نہیں نکالی۔ (اب چاہے وہ قلمکار رہے ہوں، شاعر رہے ہوں، فنکار رہے ہوں، اخبارات و جرائد سے وابستہ لوگ رہے ہوں، جو بھی رہے ہوں!) جب اسلامی جمہوریہ قائم ہوئی اور سب کو معقول آزادی دی گئی اور لوگوں کو یہ اختیار ملا کہ آزادی کے ساتھ اپنے افکار بیان کریں اور اپنی بات زبان پر لائیں اور لکھیں، تو یہ اسلامی جمہوریہ پر غرانے لگے! اب وہ اپنے جرائد میں جس کے لئے پیسہ باہر سے آتا ہے اور غالبا اس کی کلی پالیسی بھی باہر سے ہی دی جاتی ہے، اسلامی جمہوریہ کو مورد الزام قرار دیتے ہیں اور بعض جزوی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اور کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ ہیں ۔ ان سے شدت سے دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن خود قوم بہت اچھی ہے، قوم متدین ہے۔ امید ہے کہ خداوند عالم اپنا فضل و کرم نازل فرمائے گا، اس منزل میں بھی عوام کی ہدایت ہوگی- جس طرح اب تک ہدایت ہوئی ہے اور عوام اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہوں گے۔
ان شاء اللہ ایک خود مختار اور کارآمد پارلیمنٹ تشکیل پائے گی ، جس کے اراکین مومن اور متدین ہوں گے تاکہ قوم کو اطمینان حاصل ہو کہ یہ پارلیمنٹ آزادی و خودمختاری کے راستے پر انقلاب اور خدا کے راستے پر چلے گی، تمام دشواریاں دور ہوں گی، راہ زندگی ہموار ہوگی اور خدا نے چاہا تو روز بروز ہموار تر ہوگی۔ خداوند عالم حکام اور اس عظیم فریضے سے تعلق رکھنے والوں کی مدد کرے تاکہ وہ بہتر انداز میں ان اہداف کو پورا کریں ۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1-صحیفہ سجادیہ : دعا نمبر 32