رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ صحتمند رقابت کی اہم ترین شرط حق رائے دہی رکھنے والے تمام افراد حتی ان لوگوں کی بھرپور شرکت ہے جنھیں اسلامی نظام سے کچھ شکایتیں بھی ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے کچھ افراد کو اسلامی نظام سے کچھ شکایت ہو لیکن فطری طور پر ان افراد کو ملک کی ترقی، وقار اور سیکورٹی سے کوئی بیر نہیں ہوگا، اسی لئے اگر وہ قومی سلامتی کا تسلسل، ملی وقار میں اضافہ اور وطن عزیز کی پیشرفت کی ضمانت چاہتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ انتخابات میں ضرور شرکت کریں۔ آپ نے مزید فرمایا کہ جو لوگ احساس ذمہ داری اور الہی نیت کے ساتھ انتخابات میں شرکت کرتے ہیں، یقینا وہ رضائے پروردگار کے حقدار قرار پائیں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ کچھ لوگ گھات میں بیٹھے ہیں کہ انتخابات میں عوام کی عدم شرکت اور انتخابات کے بائیکاٹ کے بہانے اسلامی جمہوریہ پر اعتراضات کریں، لیکن گھات میں بیٹھے ان نابکار عناصر کے مقابلے میں ملت ایران نے ہمیشہ اپنی کارگر روش کا مظاہرہ کیا ہے اور اس بار بھی اسی روش کا مظاہرہ کرے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم ‌(۱)
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

برادران گرامی، بھائیو اور بہنو! آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ پرتپاک اور گرمجوشی کے ماحول میں ایسے زحمت کش افراد کا یہ اجتماع جو بڑے اہم فریضے سے تعلق رکھتے ہیں، واقعی بڑا بابرکت اجتماع ہے۔ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب پر، آپ کے درمیان ایک ایک فرد پر لطف و کرم فرمائے گا اور آپ کو اپنی اس مہم میں جس کی ذمہ داری آپ کے دوش پر ہے اور جو کسی حد تک جناب جنتی صاحب کے ذریعے بیان کئے گئے حال دل میں نمایاں بھی تھی، کامیاب فرمائے اور اپنی کرم فرمائی آپ کے شامل حال رکھے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو ہمارے آقا، ہمارے سید و سالار اور ہمارے مولا کے والد بزرگوار ہیں۔ ماہ بہمن (جنوری-فروری) کی آمد کی بھی مبارباد پیش کرتا ہوں۔ یہ افتخار کا مہینہ ہے، ملت ایران کی تاریخ میں عظیم تبدیلی کا مہینہ ہے، بڑے اہم واقعات کا مہینہ ہے۔ خداوند عالم ہمیں یہ توفیق دے کہ خود کو اس کے شایان شان بنا سکیں اور اس مہینے پر اور اس میں رونما ہونے والے واقعات پر افتخار کریں۔
دو تین باتیں انتخابات کے تعلق سے عرض کرنی ہیں۔ کچھ باتیں جناب جنتی صاحب حفظہ اللہ تعالی و ادام اللہ وجودہ و برکاتہ نے اور اسی طرح محترم وزیر داخلہ جناب رحمانی فضلی نے بیان فرمائیں۔ بڑے اچھے نکات تھے۔ جتنی باتیں بیان کیں بالکل صحیح اور دقت نظری پر مبنی تھیں۔ میں بھی چند جملے عرض کروں گا۔ ہم نے پہلے بھی کچھ باتیں عرض کی ہیں اور اگر وقت رہا تو کچھ باتیں اس حالیہ مسئلے یعنی ایٹمی معاملے میں جامع مشترکہ ایکشن پلان کے تعلق سے عرض کروں گا۔ انتخابات کے سلسلے میں ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہے کہ یہ ایک مسابقتی مقابلہ ہے، یہ عوام کے درمیان ایک ملی مقابلہ ہے۔ اگر یہ مقابلہ بہترین اور محکم انداز میں منعقد ہوتا ہے ان مختلف ٹیموں کے درمیان جو میدان میں ہیں، فاتح خواہ کوئی بھی ٹیم ہو، فیڈریشن کا افتخار بڑھے گا۔ یہی تو ہوتا ہے۔ جب ٹیمیں اچھے کھیل کا مظاہرہ کرتی ہیں تو خواہ اے ٹیم کامیاب ہو یا بی یا سی ٹیم کو کامیابی ملے، فیڈریشن کو اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ میچ بہترین انداز میں کھیلے گئے۔ انتخابات کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اگر ملت ایران پورے عزم و ارادے کے ساتھ، یقین و اطمینان کے ساتھ محکم انداز میں میدان میں اترتی ہے اور بیلٹ باکس کو اپنے عزم و نظریات سے پر کر دیتی ہے تو ایران کو ناز ہوگا، اسلامی جمہوریہ کو اپنے اوپر فخر ہوگا۔ فاتح خواہ کوئی بھی ہو اور شکست چاہے جس کی ہوئی ہو۔ ملت کی ہار یا جیت نہیں ہوتی، قوم تو ہر صورت میں فاتح رہتی ہے۔ انتخابات کے سلسلے میں یہ بڑا کلیدی نکتہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ صحتمند رقابت اور شفاف مقابلہ کیا ہے؟ صحتمند مقابلہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے جوہر دکھائے، سب بہترین کھیل کا مظاہرہ کریں۔ پہلی شرط جیسا کہ میں نے عرض کیا سب کی شرکت ہے۔ سب آئيں اور شریک ہوں۔ میں نے اس سے پہلے بھی اپنی تقریر میں یہ بات عرض کی کہ جو لوگ اسلامی جمہوری نظام سے شاکی ہیں انھیں بھی ملک کے امن و استحکام سے تو کوئی بیر نہیں ہے، ملک کی قوت و طاقت سے تو شکایت نہیں ہے۔ آج اسی اسلامی جمہوری نظام نے ملکی امن و سلامتی کی بخوبی حفاظت کی ہے، ملک کی ترقی کے عمل کو تیز رفتار بنایا ہے، اس قوم کو وقار بخشا ہے، ان چیزوں کا تو کوئی انکار نہیں کر سکتا، ان چیزوں کو تو ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ تو سب کو چاہئے کہ اس میدان میں آئیں ایران اور ایرانیت کو عزت بخشنے کے لئے، قومی سلامتی کو اسی طرح قائم رکھنے کے لئے، اس پیشرفت کی ضمانت کے لئے جس کا سلسلہ بحمد اللہ اوائل انقلاب سے شروع ہوا اور آج تک بلا وقفہ جاری ہے۔ ان چیزوں کے لئے سب کو میدان میں آنا چاہئے۔ سب کو چاہئے کہ میدان میں قدم رکھیں۔ البتہ جو شخص رضائے خدا کے لئے اور احساس ذمہ داری کے ساتھ میدان میں آئے گا، اسے ان مذکورہ ثمرات کے ساتھ ہی ایک اور ثمرہ بھی حاصل ہوگا جس کی بڑی عظمت ہے اور وہ ہے رضائے الہی، خوشنودی پروردگار۔ تو یہ پہلی شرط ہے کہ سب انتخابات میں شریک ہوں، پورے جوش و خروش کے ساتھ۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کر دوں کہ ایسا ہی ہوگا، سب انتخابات میں حصہ لیں گے۔ جس قوم کو ہم اب تک دیکھتے آئے ہیں اور اس نے اب تک جس آگاہی و بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے مد نظر، بفضل پروردگار، باذن خداوندی، بتوفیق الہی ہمارے عزیز عوام ان شاء اللہ ایک بار پر میدان میں اتریں گے۔
کچھ لوگ ہیں جو گھات میں بیٹھے ہیں کہ کسی صورت سے عوام الناس انتخابات سے دور ہو جائیں، انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں یا انتخابات بالکل پھیکے رہیں، اس بارے میں ابھی میں کچھ تفصیل بیان کروں گا، تو وہ فورا اسلامی جمہوری نظام پر سوالیہ نشان لگائیں۔ کچھ لوگ گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ملت ایران نے گھات میں بیٹھے ان نابکار عناصر کے مقابلے میں ہمیشہ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے اور اس بار بھی وہ ایسا ہی کرے گی۔ تمام انتخابات کے سلسلے میں یہ میری اولیں اور سب سے اہم بات رہی ہے۔ آج بھی میں اسے دہرا رہا ہوں کہ عوام کی عمومی اور پرجوش شرکت۔
دوسری چیز جو انتخابات کی شفافیت اور رقابت کی صحتمندی کی ضمانت دے سکتی ہے وہ یہ ہے کہ عوام الناس بصیرت کے ساتھ اور فکر و تدبر کے ساتھ اقدام کریں اور لیاقت اور اہلیت رکھنے والے افراد کا انتخاب کریں۔ ایسے افراد کا انتخاب کریں کہ جب وہ منتخت ہوکر منصب پر پہنچیں، اب وہ منصب جو بھی ہو، خواہ ماہرین اسمبلی کی سیٹ ہو یا پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی سیٹ ہو یا صدر جمہوریہ کا عہدہ ہو، تو مشکلات کا سامنا ہونے پر وطن عزیز کے لئے ڈھال بن جائیں۔ عوام الناس کے مفادات اور خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیں۔ ملک کو دشمن کے ہاتھوں فروخت نہ کریں۔ وطن عزیز کے مفادات کو تکلف اور شرما حضوری میں پامال نہ کریں۔ ایسے افراد کا انتخاب کیا جانا چاہئے۔ اسے اچھا انتخاب کہا جا سکتا ہے۔
بیشک میں نے یہ بات کہی ہے اور ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ جو لوگ اسلامی نظام کو قبول نہیں کرتے وہ بھی آئیں اور انتخابات میں شرکت کریں، ووٹ دیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ اسلامی نظام کو قبول نہیں کرتے وہ بھی پارلیمنٹ کے ممبر چنے جا سکتے ہیں۔ ساری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ہم نے یہ کہہ دیا کہ جناب آپ اسلامی نظام کو قبول نہیں کرتے مگر کوئی بات نہیں آپ آئیے اور ووٹ ڈالئے تو اس پر آپ کہیں کہ اگر مجھے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے تو مجھے یہ اجازت بھی دی جائے کہ ایسے شخص کو ووٹ دوں جو اس نظام کو قبول نہیں کرتا۔ یہ مطالبہ بے معنی ہے۔ ساری دنیا میں کہیں بھی پالیسی ساز اور اہم فیصلے کرنے والے مراکز میں ایسے افراد کو جگہ نہیں ملتی جو ملک کے نظام کو قبول نہیں کرتے۔ بلکہ بعض جگہوں پر تو ذرا سی تہمت لگنے پر ہی لوگوں کو کنارے کر دیا جاتا ہے۔ یہی امریکا جو آج خود کو آزادی وغیرہ کا علمبردار کہتا ہے اور کچھ سادہ لوح افراد اس پر یقین بھی کر لیتے ہیں اور اس کی ترویج بھی کرتے ہیں، جب دنیا میں بایاں محاذ موجود تھا، البتہ اب یہ چیز زیر بحث نہیں ہے، اس زمانے میں امریکی ایسے افراد کو ایسے معمولی سے بیان کی وجہ سے بھی سختی سے مسترد کر دیتے تھے جس میں سوشیلسٹ اقتصادی فکر کی جھلک نظر آتی ہو۔ یعنی یہ شخص کمیونسٹ نہیں تھا، کمیونزم پر یقین بھی نہیں رکھتا تھا، سوشیلزم کا ماننے والا نہیں تھا، مگر اقتصادی مسائل میں بس ذرا سا سوشیلسٹ شائبہ نظر آتے ہی اسے مسترد کر دیا جاتا تھا۔ یہ اسی ملک کی بات ہے جہاں آج آزادی اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور ہمارے اوپر ان کا اعتراض رہتا ہے کہ آپ کے یہاں 'شورائے نگہبان' (نگراں کونسل) کیوں ہے۔ بے شرم لوگ!
تو اگر ہم اس کے پابند ہیں کہ پارلیمنٹ میں ایسے افراد جائیں جو ملکی مفادات اور وطن عزیز کے بنیادی اقدار کی پاسبانی کریں، انھیں تقویت پہنچائیں، ان کے لئے فکرمند رہیں تو یہ حق الناس کی ادائیگی ہوگی۔ یہ چیز بھی انتخابات کی سلامتی و صحتمندی میں موثر ہے۔
اس کے علاوہ کچھ دوسرے نکات بھی ہیں۔ سب قانون کی بالادستی قبول کریں۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ محترم حضرات نے، جناب جنتی صاحب حفظہ اللہ نے بھی، جناب رحمانی فضلی صاحب نے بھی، قانون پسندی کے موضوع پر تاکید کی۔ یہ ہماری دائمی سفارش رہی ہے۔ میں نے انتخابات سے تعلق رکھنے والے عہدیداران سے ہمیشہ یہی سفارش کی ہے کہ 'محکم زمین' کو سہارا بنائیں، محکم زمین یہی قانونی پہلو ہے، قانون ہے۔ قانون کی اصلی ماہیت کو مد نظر رکھئے۔
قانونی و آئینی اداروں کی توہین ہرگز نہ کی جائے۔ اس پر سب توجہ دیں۔ کسی آئینی ادارے پر جو اپنے قانونی فرائص کی انجام دہی میں مصروف ہے، تہمت زنی نہیں کی جانی چاہئے، اس کی توہین نہیں کی جانی چاہئے۔ قانونی ادارہ قانونی ادارہ ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی قانونی ادارہ ہو عام انسانوں کی طرح اس سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ جس طرح مجھ حقیر سراپا تقصیر سے غلطیاں سرزد ہونا ممکن ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم قانونی ادارے کی توہین شروع کر دیں۔ لوگوں کی نظر میں اپنے پروپیگنڈوں میں، اپنی تقاریر میں اس کی تحقیر کریں۔ ہرگز نہیں۔ ایک بار اگر یہ دروازہ کھل گیا تو نراجیت کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اگر جناب عالی کے خیال میں کسی ایک آئینی اور قانونی ادارے کی توہین کی جا سکتی ہے تو ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی سوچ یہ ہو کہ وہ کسی دوسرے آئینی ادارے کی توہین کرے جس سے آپ وابستہ ہیں۔ یہ اچھی بات ہوگی؟ یہ راستہ نہیں کھلنا چاہئے۔
عوام کے ذہنوں کو مضطرب نہ کیا جائے کہ جناب معلوم نہیں کیا ہوگا، ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ کیا نتیجہ نکلے گا۔ اس طرح کی باتیں کرنا بہت غلط ہے۔ میں پہلے بھی متنبہ کر چکا ہوں کہ عوام کے سامنے وہی بات رکھی جائے جو عین حقیقت ہے، جو صحیح صورت حال ہے اور عوام شوق و رغبت کے ساتھ اور جوش و جذبے کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں۔ عوام کے ذہنوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا بہت غلط بات ہے۔ عوام کو انتخابات کے تعلق سے بدگمانی میں مبتلا نہ کیا جائے۔
انتخابات کے امیدوار ایک دوسرے کی توہین نہ کریں۔ جب آپ کینڈیڈیٹ بنے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اہلیت اور لیاقت رکھنے والے انسان ہیں، آپ ایک نمایاں شخصیت کے مالک ہیں، تو ٹھیک ہے جتنا دل چاہے آپ اپنی تعریف کیجئے! مگر اپنے حریف کی توہین تو نہ کیجئے، اس پر تہمت تو نہ لگائيے، اپنے حریف کی غیبت تو نہ کیجئے۔ تہمت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایسی چیزوں کی نسبت دیں جو اس شخص میں نہ پائی جاتی ہوں اور غیبت یعنی وہ برائی بیان کرنا جو حقیقت میں موجود ہے۔ تو غیبت بھی نہ کیجئے! یہ فریضہ بھی ہے اور انتخابات کی شفافیت و صحتمندی کا معیار بھی ہے۔ امیدوار جائیں، ان کے اندر جتنی صلاحیت ہے، جتنی توانائی ہے اور جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے عوام کے سامنے اپنی لیاقت بیان کریں۔ عوام دیکھیں گے اگر انھیں پسند آیا تو ووٹ دیں گے اور پسند نہیں آیا تو آپ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ یہی صحتمند الیکشن ہے۔
ایسے وعدے ہرگز نہ کریں جنھیں پورا نہ کیا جا سکتا ہو۔ بعض امیداوار عوام سے ایسے وعدے کرتے ہیں کہ جن کے بارے میں وہ خود بھی بخوبی جانتے ہیں کہ پورا نہیں کر پائیں گے۔ جب آپ اس وعدے پر عمل نہیں کر سکتے تو کیوں عوام سے یہ وعدہ کرتے ہیں؟ آپ عوام الناس کو ایسی چیزوں کا آسرا کیوں دلاتے ہیں جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ یہ حاصل ہونے والی نہیں ہیں۔ کبھی کبھی غیر قانونی وعدے کئے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کام انجام دیں گے! جبکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ عمل خلاف قانون ہے۔ یا تو عام قوانین کے خلاف ہے یا خود دستور ایران کے خلاف ہے۔ تو اس طرح کے وعدے نہ کریں۔ غیر قانونی نعرے نہ لگائیں۔ عوام کے ساتھ صداقت و صدق دلی سے پیش آئیں۔ ہماری قوم ایسی ہے کہ صداقت کو بخوبی محسوس کر لیتی ہے، پوری طرح سجمھ لیتی ہے۔ اگر ہم نے صداقت و سچائی کا دامن چھوڑا تو ممکن ہے کہ کچھ لمحات کے لئے چند افراد کسی غلط فہمی میں پڑ جائیں، مگر بعد میں حقیقت کھل جائے گی۔ تو عوام کے ساتھ صداقت سے پیش آنا چاہئے، عوام سے صدق دلی کے ساتھ ہمکلام ہونا چاہئے۔ یہ صحتمند انتخابات کے مسلمہ آداب و ضوابط کا جز ہے۔ کچھ لوگوں کی عادت سی پڑ گئی ہے اور 'انتہا پسند انتہا پسند' کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ بیشک انتہا پسندی اور کوتاہی دونوں ہی چیزیں بری ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی کسے کہتے ہیں اور تساہلی کی کیا تعریف ہے، اعتدال پسندی کا راستہ کون سا ہے۔ یہ چیزیں زیادہ واضح اور روشن نہیں ہیں۔ مسلمہ اور نمایاں چیزیں نہیں ہیں۔ ان کی تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بار بار خبریں مل رہی ہیں۔ ان اخبارات و جرائد میں بھی نظر آتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ جب 'انتہا پسند' کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کی مراد انقلابی و مومن افراد سے ہوتی ہے۔ انقلابی، مومن اور 'حزب اللہی' افراد پر آپ انتہا پسندی کا الزام نہ لگائيے۔ یہ وہ افراد ہیں جو اپنے پورے وجود کے ساتھ اور صدق دلی سے میدان عمل میں حاضر رہتے ہیں۔ جب سرحدوں کی حفاظت کی بات آتی ہے، جب قومی تشخص کے دفاع کا موقع آتا ہے، جب خون دینے اور جانیں قربان کرنے کی باری آتی ہے تو یہی وہ افراد ہیں جو میدان میں اترتے ہیں۔ جیسے ہی کہیں کوئی واقعہ ہوا جو ناقابل قبول اور ناپسندیدہ ہے، فورا انقلابیوں پر انگلی اٹھ جاتی ہے۔ جیسے سعودی عرب کے سفارت خانے کا قضیہ پیش آیا، البتہ یہ بہت غلط اقدام تھا، بہت بری کارروائی تھی، جس نے بھی یہ اقدام کیا بہت غلط کیا ہے، فورا مومن افراد اور انقلابی نوجوانوں پر الزام لگا دیا۔ یہ انقلابی افراد جن سے مجھے انسیت بھی ہے، انقلابی جذبہ بھی رکھتے ہیں اور بہت سے معاملات میں ان کا فہم و شعور اور ان کی فکری سطح بہت سے بڑوں کے مقابلے میں کافی اچھی ہے۔ انھیں بخوبی ادراک ہوتا ہے، بہترین تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں، وہ انقلاب کے شیدائی ہیں، وہ اسلام کے شیدائی ہیں۔ اب انھیں کو ہم کسی جگہ کوئي واقعہ رونما ہو جانے کی وجہ سے کمزور کرنا شروع کر دیں! سعودی عرب کے سفارت خانے کا جو واقعہ ہوا بہت برا واقعہ تھا۔ سعودی عرب کے سفارت خانے کی تو بات ہی چھوڑئے چند سال قبل برطانیہ کے سفارت خانے کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ بھی مجھے بہت برا لگا۔ اس طرح کے اقدامات ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ اس طرح کی کارروائیاں بہت غلط ہیں۔ یہ ملک کے نقصان میں، اسلام کے نقصان میں اور سب کے نقصان میں ہیں۔ البتہ اس کو بہانہ بناکر انقلابی نوجوانوں پر حملہ نہ کیا جائے۔ یہ چیز بھی بہت اہم ہے۔
انتخابات کے سلسلے میں جناب جنتی صاحب نے بالکل بجا فرمایا کہ یہ عظیم نعمت اور بہت اہم موقع ہے۔ اس عظیم نعمت کا شکرانہ لازمی ہے۔ اس کا شکرانہ یہ ہے کہ ہم جہاں بھی ہیں یہ کوشش کریں کہ انتخابات کا بہترین انداز میں انعقاد ہو، شفافیت کے ساتھ انعقاد ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے بیانوں سے، ہمارے اقدامات سے اور ہماری بغیر سوچی سمجھی سرگرمیوں سے جن کے بارے میں گوشہ و کنار سے خبریں ملتی ہیں، یہ عظیم عمل اور یہ عظیم افتخار مسخ ہو جائے۔ اس کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے۔ یہ بہت اہم موقع ہے۔
آپ لوگ جو اس عظیم عمل کی انجام دہی سے تعلق رکھتے ہیں، یاد رکھئے کہ بیشک اس میں زحمتیں بہت زیادہ ہیں، مشکلات بہت زیادہ ہیں، توقعات بھی بہت زیادہ وابستہ کی گئی ہیں، بعض اوقات تہمتوں کے تیروں کا بھی آپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ کہیں بھی ہوں، کسی بھی عہدے پر ہوں، خواہ کسی اجرائی ادارے میں ہوں، کسی نگراں کمیٹی میں شامل ہوں، وزارت داخلہ میں ہوں یا نگراں کونسل 'شورائے نگہبان' میں ہوں، آپ کو ان چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن آپ یاد رکھئے کہ اللہ تعالی کے پاس آپ کا اجر بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ آپ جو کام انجام دے رہے ہیں وہ بہت عظیم ہے۔ آپ بہت بڑے کام کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ اگر آپ کی نیت خداپسندانہ نیت ہوئی، انقلابی و اسلامی فریضہ انجام دینے کی نیت رہی تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کو بہت بڑا اجر ملے گا۔ لہذا اس کام کی سختی سے اور اس راہ کی دشواریوں سے مت گھبرائیے، بلکہ خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا کام انجام دیجئے۔ یہ کچھ باتیں تھیں انتخابات کے تعلق سے۔
کچھ باتیں مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں؛ یہ ایک واقعہ تھا، بڑا اور اہم واقعہ۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑی محنت کی گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے سارے مطالبات پورے ہو گئے ہوں، نہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ کے جتنے مطالبات پورے ہوئے اس کے لئے ہمارے برادر عزیز محترم وزیر خارجہ، مذاکراتی ٹیم اور خود محترم صدر جمہوریہ نے واقعی بڑی محنت کی۔ ہم دیکھتے تھے کہ وہ غور و فکر، سعی و کوشش، بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے تھے۔ طولانی اجلاس، راتوں کو جاگنا اور دوسرے گوناگوں اقدامات، یہ سب ہوا۔ خدائے تعالی ان شاء اللہ ان سب کو اجر دیگا اور ان کی محنتوں کا بدلہ انھیں عنایت فرمائے گا۔ یہ اپنی جگہ پر مسلمہ ہے۔ لیکن کچھ لوگ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ گویا امریکا نے احسان کیا ہے کہ ہمارے اوپر عائد پابندیوں کو اٹھا لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس موقع سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ استکبار کے مکروہ چہرے کو سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ احسان کیسا؟ آپ نے محنت کی، پیسے جمع کئے اور ایک گھر تعمیر کیا۔ محلے کا غنڈہ آیا اور اس نے آپ کے ہاتھ سے چابی چھین لی اور آدھا گھر ہڑپ کے بیٹھ گیا۔ آپ کے اوپر خوب سختی کی۔ آپ نے بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد، اپنی فکری توانائی، جسمانی قوت، وسائل اور تشہیرات کے ذریعے اسے اپنے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا، لیکن اس کے بعد بھی دو کمرے اس نے نہیں چھوڑے۔ تو کیا وہ جو گھر سے باہر چلا گیا ہے، غاصبانہ قبضہ محدود کر لیا ہے تو اس نے احسان کیا ہے؟! امریکی اس مزاج کے لوگ ہیں۔ ہم نے ایٹمی توانائی کو اپنی فکری قوت سے، اپنے سائنسدانوں کی استعداد سے، اپنی مختلف حکومتوں کی حمایت و پشت پناہی سے، اس راستے میں چار شہیدوں کی قربانی دیکر خود کو اس مقام پر پہنچایا ہے، یہ کوئی مذاق ہے؟ ہم نے وہ کام کیا کہ دشمن جو کسی زمانے میں ایک سنٹری فیوج مشین چلنے کی اجازت دینے پر بھی آمادہ نہیں تھا، زمینی حقائق کی وجہ سے ہماری کئی ہزار سنٹری فیوج مشینیں برداشت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ ان کا کوئی احسان نہیں ہے۔ یہ ملت ایران کی مشقتوں کا ثمرہ ہے، یہ سائنسدانوں کی جفاکشی کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے پابندیاں عائد کی تھیں عوام الناس کو برافروختہ کرنے کے لئے اور سڑکوں پر لانے کے لئے۔ حقیر نے یہ بات کئی سال پہلے ہی کہہ دی تھی (2)۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ یہ صرف اندازہ اور تجزیہ ہے۔ اگر یہ بات اس وقت ایک اندازہ اور تخمینہ تھی تو آج مصدقہ خبر بن چکی ہے۔ انھوں نے خود کہا، ان میں سے متعدد افراد نے اپنے الگ الگ بیانوں میں یہ بات کہی کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ عوام کے اندر اسلامی جمہوری نظام کے خلاف اور ایران کی حکومت کے خلاف غم و غصہ بھر دیں۔ وہ عوام کو مخالفت کے لئے سڑکوں پر لانا چاہتے تھے۔ مگر ہمارے عوام نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ عوام کی یہی استقامت و مزاحمت بنیاد اور مقدمہ بنی سیاسی و سفارتی کوششوں اور مذاکرات کا۔ دشمن مجبور ہو گیا۔ اس نے جو بھی پسپائی اختیار کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ملت ایران نے استقامت کا مظاہرہ کیا، اسلامی جمہوری نظام نے مقتدرانہ انداز میں عمل کیا اور پروقار انداز میں قدم بڑھایا۔ البتہ میرا ذاتی طور پر ماننا یہ ہے کہ ہم یہ عمل اور بہتر انداز میں انجام دے سکتے تھے۔ لیکن بہرحال توانائی، مواقع اور وسائل کا تقاضا یہی تھا۔ مگر جتنی پیشرفت ہوئی وہ قابل قدر ہے، یہ بہت اہم کام انجام پایا ہے اور یہ قوم کی پشت پناہی، قومی اقتدار اعلی اور عوام الناس سے اسلامی جمہوری نظام کی گہری وابستگی کا نتیجہ ہے۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایٹمی مسئلہ اور سامراجی محاذ کا جھگڑا، جس میں سرغنہ امریکا ہے، بڑا بت یہی امریکا ہے، بقیہ مغربی حکومتیں تو اس معاملے میں کود پڑیں، صرف ایٹمی مسئلے کا نہیں تھا۔ اس بات کی تو قسم کھائی جا سکتی ہے کہ انھیں بخوبی معلوم تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایٹم بم بنانے کی کوشش میں نہیں ہے۔ اس پر تو قسم کھائی جا سکتی ہے۔ اصل ماجرا کچھ اور تھا۔ یہ ملت ایران پر دباؤ ڈالنے، اعلی اہداف کی جانب ملت ایران کی انقلابی پیش قدمی کے عمل کو روکنے اور علاقائی و عالمی سطح پر اسلامی جمہوری نظام کے روز افزوں اثر و نفوذ کو روکنے کے وسیع منصوبے کا ایک حصہ تھا، یہ ایک حقیقت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم باقاعدہ اس مشن پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک فطری چیز ہے۔ نئی بات ہمیشہ پرکشش ہوتی ہے، پاکیزہ دل اور نیک نیت افراد اسے پسند کرتے ہیں، اسی کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ کا اعتبار اور اثر و نفوذ بڑھ رہا ہے۔ یہی چیز انھیں وحشت زدہ کئے ہوئے ہے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ اس سلسلے کو روک دیں۔ ان کی کوشش ہے کہ قوموں کو یہ باور کرا دیں کہ اسلامی جمہوریہ بھی دین کی اساس پر نظام حکومت قائم رکھنے، اسے چلانے اور باقی رکھنے پر قادر نہیں رہا۔ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کا ہدف یہ ہے۔ اس بات کو سب ذہن میں رکھیں۔ حکام کو بھی چاہئے کہ اس طرف توجہ دیں اور عوام بھی اسے مد نظر رکھیں۔
امریکا طاقت اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے۔ اس کی طاقت اور جھوٹی تشہیراتی مہم کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس وقت تمام عہدیداران، حکومت کے عہدیداران اور اس نگراں کمیٹی کے ارکان جس کی ہم نے ہدایت دی ہے (3)، ہوشیار رہیں کے فریق مقابل دھوکا نہ دینے پائے، کیونکہ ہمارا فریق مقابل دھوکے باز ہے، نیرنگ کا عادی ہے۔ اس کی مسکراہٹوں اور چہرے پر چڑھے نقاب کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چا ہوں گا کہ ریگن اور بوش کے زمانے کے امریکا اور آج کے امریکا میں کوئی فرق نہیں ہے، کوئی تفاوت نہیں ہے۔ جس طرح ریگن کے زمانے کا امریکا جب ضروری سمجھتا تھا تو ہمارے علاقے میں اور خلیج فارس میں اپنے بغض و کینے کی وجہ سے بمباری کر دیتا تھا، آج بھی اگر امریکا کا بس چلے تو وہ یہی کرے گا۔ امریکا میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے۔ اسلام کے سلسلے میں اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف امریکا کی پالیسیاں اپنی پرانی شکل میں باقی ہیں۔ البتہ ان کی روشیں مختلف ہوتی ہیں۔ کوئی کسی روش پر چلتا ہے کوئی دوسری روش اختیار کر لیتا ہے، مگر ہدف سب کا ایک ہے۔ اسے سب ذہن میں رکھیں۔ یہ دھوکے باز لوگ ہیں، فریب دیتے ہیں۔ ان کے فریب کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ باریکی سے نظر رکھیں کہ وہ جو اقدامات انجام دے رہے ہیں وعدوں کے مطابق ہیں یا نہیں۔ فریق مقابل کی فریب دہی کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جیسے ہی فریق مقابل کوئی دھوکے بازی کرتا دکھائی دے فورا اسی انداز میں اس کا جواب دیا جائے۔ یعنی اگر فریق مقابل نے وعدہ خلافی کی تو ہمیں بھی وعدے پر عمل ترک کر دینا چاہئے، استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
پاسداران انقلاب فورس کے ہمارے عزیز جوانوں نے سمندری حدود میں جو اقدام انجام دیا اور دشمن کی جارحیت کے جواب میں اپنی قوت و شناخت کا شاندار مظاہرہ کیا، مجھے موقع نہیں مل سکا کہ ان کا شکریہ ادا کروں، میں دل سے ان کا شکر گزار ہوں، یہ بالکل درست اقدام تھا۔ دشمن نے ہماری آبی حدود میں قدم رکھا، ان جوانوں نے جاکر دشمن کو گھیر لیا۔ سیاسی میدان کے عہدیداران کو بھی چاہئے کہ ہر جگہ اسی انداز سے عمل کریں۔ نظر رکھیں کہ دشمن اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے، دیکھتے رہیں کہ دشمن کہاں ریڈ لائن عبور کر رہا ہے، فورا سختی کے ساتھ اس کا سد باب کریں۔
ایک اور نکتہ ہے جس کے تعلق سے میں کئی بار انتباہ دے چکا ہوں کہ اب جب پابندیاں اٹھ گئی ہیں تو کیا ملکی اقتصاد کی مشکلات اور عوامی معیشت اور عام شہریوں کے دسترخوان کے تمام مسائل پابندیاں ہٹ جانے سے ختم ہو جائیں گے؟ نہیں، اس کے لئے منصوبوں کی ضرورت ہے، انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ میں نے موجودہ حکومت کے دور میں بھی اور سابقہ حکومت کے زمانے میں بھی جب اہم پابندیاں شروع ہوئی تھیں اور کچھ شروع ہونے والی تھیں، یہ عرض کیا تھا کہ ملک کی اقتصادی مشکلات میں سے ممکن ہے بیس فیصدی، تیس فیصدی یا چالیس فیصدی کا تعلق پابندیوں سے ہو، بقیہ مسائل کا تعلق ہماری اپنی منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیتوں سے ہے۔ ہمیں چاہئے کہ صحیح انتظامی اقدامات انجام دیں۔ ہمیں چاہئے کہ صحیح طریقے سے کام کریں۔ درست راستہ ہے استقامتی معیشت۔ استقامی معیشت کی تائید سب نے کی، سب نے اس کی حمایت کی، اس کے لئے منصوبہ بندی کی گئی۔ الحمد للہ حکومتی ادارے، کابینہ میں ہمارے احباب اس مہم کو آگے بڑھانے کے لئے منصوبے بنا چکے ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے اور ملک کو اقتصادی اعتبار سے مستحکم اور خود کفیل بنانے کی احتیاج ہے۔ اگر ہم اغیار کے فیصلوں سے آس لگائیں گے، دوسروں کے دست نگر بنے رہیں گے تو کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔ ہمارے تیل کی قیمت کو انھوں نے گھٹا کر بیس فیصدی تک پہنچا دیا ہے۔ تیل جو ہماری معیشت کا اصلی سرمایہ ہے اس کی قیمت گھٹ کر بیس فیصدی رہ گئی ہے۔ جبکہ جس وقت قیمت 100 ڈالر، 110 ڈالر اور 120 ڈالر تھی تو وہ بھی صحیح قیمت نہیں تھی۔ تیل کی صحیح قیمت اس سے زیادہ ہے۔ میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں (4)۔ لیکن قیمت یہاں تک بھی جو پہنچی تھی اسے بھی گھٹاکر پچیس فیصد یا بیس فیصد تک پہنچا دیا ہے۔ اگر انسان دشمن سے آس لگائے گا تو یہی سب ہوگا۔ یہ ایسے لازمی جھٹکے ہیں کہ جن سے انسان بچ نہیں سکتا، ان کے سامنے بے دست و پا ہو جائے گا۔ ہمیں اپنی معیشت کو اس شکل میں ڈھالنا چاہئے کہ اس طرح کے جھٹکوں کا سامنا کرے اور دباؤ میں نہ آئے۔
اس وقت وفود آ رہے ہیں جا رہے ہیں تو حکومتی عہدیداران بہت محتاط رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ دوروں پر آنے والے اقتصادی، تجارتی اور صنعتی وفود کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کر لئے جائیں کہ ان سے ملکی صنعتوں کو، ملک کے اندر موجود کارخانوں کو نقصان پہنچے، زراعت کو ضرر پہنچے۔ ہم نے محترم حکام سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی یہ بات عرض کی ہے کہ بہت محتاط رہیں۔ یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔ ہمارا ملک با استعداد اور اچھی خاصی آبادی کا مالک ہے۔ ہماری آبادی تقریبا آٹھ کروڑ ہے، یہ کم آبادی نہیں ہے۔ کروڑوں تعلیم یافتہ نوجوان ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ ہر شعبے اور ہر میدان میں ہمارے پاس با صلاحیت اور بااستعداد افراد موجود ہیں۔ ہمارے پاس زیر زمین ذخائر بھی موجود ہیں، آب و ہوا کا حیرت انگیز تنوع بھی ہمارے ملک میں موجود ہے۔ یہ سب وسائل اور امکانات ہیں۔ یہ سب مواقع ہیں۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے۔ دوسروں کا محتاج نہیں بننا چاہئے۔
دشمن تو دشمن ہوتا ہے۔ اس کے منصوبے قوموں کو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں یہی صورت حال ہے۔ آپ کو یاد ہے چند سال قبل امریکیوں نے 'جدید مشرق وسطی' کی بات کہی تھی۔ اس وقت ہم بخوبی سمجھ نہیں سکے تھے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں جس کا نام وہ 'جدید مشرق وسطی' رکھ رہے ہیں۔ مگر اب ہماری سمجھ میں آیا ہے کہ جدید مشرق وسطی کیا ہے؟ جنگ میں ڈوبا ہوا مشرق وسطی، دہشت گردی کا شکار مشرق وسطی، تعصب و رجعت پسندی میں مبتلا مشرق وسطی، آپس میں دست و گریباں مشرق وسطی! شام میں جنگ ہے، عراق میں جنگ کے شعلے ہیں، لیبیا میں لڑائی جاری ہے، ان تمام ملکوں میں دہشت گردی پھیلی ہوئی ہے۔ ترکی میں دہشت گردی ہے، دوسری جگہوں پر دہشت گردی ہے۔ یہ ہے 'جدید مشرق وسطی'۔ وہ اسی کی کوشش میں تھے۔ وہ انکار تو ضرور کرتے ہیں لیکن بہرحال انسان آنکھ رکھتا ہے، عقل رکھتا ہے، دیکھتا ہے، سمجھتا ہے۔ شیعہ سنی جنگ کروا رہے ہیں، کسی ملک کے اندر موجود کسی گروہ کو ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں اور اس سے عوام اور حکومت کے خلاف حملے کروا رہے ہیں۔ یہ ہے ان کا 'جدید مشرق وسطی'۔ امریکا کو پہچانئے! ہمارا ملک تو بحمد اللہ عوام کے دیندار ہونے کی وجہ سے، ان کے انقلابی جذبے اور بصیرت کی وجہ سے بہت حد تک 'قسم خوردہ' دشمنوں کی دست برد اور جارحانہ اقدامات سے محفوظ رہا۔ بیشک انھوں نے وار تو کئے، اپنا کام کیا لیکن کوئی کاری ضرب نہیں لگا سکے اور توفیق خداوندی کے نتیجے میں ان شاء اللہ وہ ایسی کوئی ضرب آئندہ بھی نہیں لگا سکیں گے۔ ان شاء اللہ ایران کے عوام وہ دن ضرور دیکھیں گے جب یہ قوم استکبار کی تمام سازشوں پر غلبہ حاصل کر چکی ہوگی اور اپنے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچا چکی ہوگی۔ تمام اعلی اسلامی اہداف و مقاصد کی تکمیل میں کامیابی کی شیرینی سے لطف اندوز ہوگی۔ اس کے لئے ہماری عمومی کوششوں کی ضرورت ہے۔ پرخلوص سعی و کوشش کی ضرورت ہے، ہمارے تعاون کی ضرورت ہے، آپس میں مہر و محبت کا ماحول بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں مل جل کر رہیں، ایک دوسرے سے میل محبت رکھیں، مل کر کام کریں، اہداف کو ہرگز فراموش نہ کریں، اعلی مقاصد کو نظر انداز نہ کریں، تمام میدانوں میں باہمی قلبی وابستگی کے ساتھ کام کریں۔ خداوند عالم ملت ایران کے ہمراہ ہے ان شاء اللہ فتح و کامرانی ملت ایران کا مقدر بنے گی۔ خداوند عالم آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے۔ ہمارے عزیز شہدا کو اور ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کو انبیاء کے ساتھ محشور فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) پارلیمنٹ کے دسویں دور اور ماہرین اسمبلی کے پانچویں دور کے انتخابات 26 فروری 2016 کو منعقد ہونے والے ہیں۔ اس ملاقات کے آغاز میں نگراں کونسل کے سربراہ آيت اللہ جنتی اور وزیر داخلہ عبد الرضا رحمانی فضلی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ ان دونوں اداروں پر انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
2) منجملہ رہبر انقلاب اسلامی کی مورخہ 21 مارچ 2014 کی تقریر
3) مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ کے تقاضوں کے سلسلے میں صدر مملکت کے نام رہبر انقلاب کا خط، مورخہ 21 اکتوبر 2015
4) حرم امام علی رضا علیہ السلام کے اندر زائرین اور خدام کے اجتماع سے خطاب مورخہ 25 مارچ 2000