بسم اللہ الرحمن الرحیم

سبھی برادران و خواہران گرامی، بالخصوص ان بھائیوں اور بہنوں کا خصوصی طور پر خیرمقدم کرتا ہوں جو دور دراز کے علاقوں سے تشریف لائے ہیں۔ یہ اجتماع بہت اچھا اور شیریں ہے۔ کیونکہ یہ علمی کاوشوں میں صف اول میں موجود نوجوانوں کا اجتماع ہے۔ یہ اجتماع، یونیورسٹیوں اور اسکولوں نیز کالجوں کے طلبا، معلمین، (ولی فقیہ کے) نمائندہ دفاتر کے اراکین اور ان لوگوں کا اجتماع ہے جو علم و معرفت سے سروکار رکھتے ہیں ۔
چونکہ یہ اجتماع تیرہ آبان (مطابق چار نومبر) سامراج کے خلاف مجاہدت کے قومی دن کی مناسبت سے انجام پایا ہے، اس لئے مناسب ہے کہ اس بنیادی نعرے، یعنی سامراج کے خلاف مجاہدت کے بارے میں تھوڑی گفتگو کی جائے۔ بنیادی طور پر کسی بھی ملک اور نظام میں نعروں کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے اور ہر ملک میں نعروں کے تعلق سے طرزعمل میں خاص ظرافت اور حساسیت پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی قوم اور اس کے حکام یہ نہ جانتے ہوں کہ سلوگون اور نعروں کے تعلق سے کیسا طرز عمل اختیار کریں تو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
البتہ بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نعروں کا نہیں عمل کا زمانہ ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ ویسے یہ بات کہنے والے بعض لوگوں کی نیت صحیح ہوتی ہے اور وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف نعروں سے ملک کو نہیں چلایا جا سکتا۔
یہ بات صحیح ہے کہ صرف نعروں سے ایک ملک تو کیا ایک گاؤں کو بھی صحیح طریقے سے چلایا جا سکتا ہے نہ ترقی دی جا سکتی ہے۔ نعروں کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔ لیکن بعض لوگ سادہ لوحی میں اور بعض شاید خاص مقصد سے اس کی تعبیر کسی اور طرح کرتے ہیں۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نعروں کو ہٹا دینا چاہئے۔ یہ غلط ہے۔ نعرہ علامت اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ نعرے کے بغیر عمل بھی، عمل کے بغیر نعرے کی طرح ہے۔
قوم کو یہ سمجھنے کے لئے کہ اس کو کیا کرنا ہے، اپنے نعروں کو بالکل واضح اور شفاف انداز میں محفوظ رکھنا چاہئے۔ نعرے ختم ہو جائیں تو بالکل ایسا ہے جیسے کسی بیابان میں بہت بڑا مجمع کسی نشانی اور علامت کے بغیر چلے اور پھر اس کو معلوم ہو کہ کہیں اور پہنچ گیا ہے۔ نعرے کی خصوصیت ہے کہ ملک اور قوم کو غلط راستے پر نہیں جانے دیتا۔ اس کو بھی ایک سلوگن اور نعرہ بنا لینا چاہئے کہ نعرہ بھی اور عمل بھی؛ عمل کے ساتھ نعرہ؛ نعرے کے سائے میں عمل۔
ایرانی قوم کا اہم ترین نعرہ آزادی اور خودمختاری تھا جو آگے بڑھ کے اسلامی جمہوریہ پر ختم ہوا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، انقلاب آگے بڑھتا گیا، آزادی و خومختاری کا نعرہ واضح تر اور شفاف تر ہوتا گیا۔ یعنی ان نعروں سے نئے نعروں نے جنم لیا جن سے راستے کا تعین ہوا۔ انھیں میں سے ایک نعرہ، استکبار کے خلاف مجاہدت کا نعرہ ہے۔
استکبار کے معنی بہت وسیع ہیں۔ قرآن کریم میں استکبارسے نکلے ہوئے الفاظ اور مشتقات کا بارہا ذکر ہوا ہے۔ خود استکبار کا لفظ بھی قرآن کریم میں استعمال ہواہے۔(1)
استکبار تکبرکے علاوہ ہے۔ شاید اس طرح کہنا مناسب ہوگا کہ تکبر ایک قلبی اور باطنی صفت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جس میں تکبر پایا جاتا ہے وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ لیکن استکبار میں تکبر کا عملی پہلو سامنے آتا ہے۔ استکبار کا مطلب یہ ہے کہ جس میں تکبر پایا جاتا ہے جو خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتا ہے، وہ اس طرح عمل کرتا ہے کہ تکبر اس کے عمل میں واضح ہوتا ہے، وہ دوسروں کو ذلیل کرتا ہے، دوسروں کی توہین کرتا ہے، دوسروں کے امور میں مداخلت کرتا ہے اوردوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے والا بن کے سامنے آتا ہے۔
استکبار کے معنی یہ ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں مستکبرین کی بات کی جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ فلمّا جاء ھم نذیر ما زادھم الا نفورا، استکبارا فی الارض و مکرالسّی۔ یعنی انھوں نے پیغمبر اور حق بات کے مقابلے میں استکبار کیا ۔ یہ نہیں کہا کہ ہم بالاتر ہیں؛ بلکہ اس بالاتر ہونے، زیادہ حق رکھنے، اپنے لئے زیادہ اختیارات کے قائل ہونے کو اپنے عمل میں مجسم کیا۔ حق، معنویت، نور اور ہدایت کے پیغام کے محاذ سے کفر، عناد اور سرکشی کے محاذ کی طولانی جنگیں، یہ سب استکبار ہے۔
البتہ ممکن ہے کہ ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے استکبار کے خاص معنی ہوں۔ ہماری ایرانی قوم کے لئے، انقلاب کے دوران، انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد اس وقت تک استکبار کے خاص معنی رہے ہیں۔ ایرانی قوم کے لئے استکبار کا اطلاق دنیا پر اپنا تسلط جمانے والی ان طاقتوں پر ہوتا ہے جنھوں نے اس ملک کے مسائل اور اس قوم کے امور میں زور زبردستی اور ظالمانہ و جابرانہ مداخلت کی روش اپنائی ہے۔ ہمارے لئے استکبار کے معنی یہ رہے ہیں۔
اگر ہم دنیا کی حکومتوں میں مستکبر کو تلاش کرنا چاہیں تو ہمیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ امریکی حکومت کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بڑے شیطان کا لقب دیا ہے۔ ایرانی قوم کی صدائے حق کے مقابلے میں امریکی حکومت مستکبر رہی ہے۔ ہمارے زمانے میں جو استکبار وجود میں آیا، وہ امریکی استکبار تھا۔ انقلاب سے پہلے بھی ایسا ہی تھا، انقلاب کے دوران یہی تھا اور آج تک یہی ہے۔
تیرہ آبان (چارنومبر) کے یہ تین واقعات بھی اسی مسئلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انقلاب سے پہلے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ملک میں امریکا کی مداخلت اور کیپیچولیشن کی مخالفت کی۔ اس مجاہدت کی وجہ سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو چارنومبر کو جلاوطن کر دیا گیا۔ یہ استکبار ہے۔ اپنے خیال باطل میں انھوں نے حق کی آواز کا گلا گھونٹ دیا۔ لیکن حق کی آواز زندہ رہی اور الحمد للہ شجرہ طیبہ بن گئی ہے۔
انقلاب کے دوران اسی تاریخ کو ہمارے طلبا سڑکوں پر آئے اور امریکا مردہ باد کا نعرہ لگانے اور امریکی محاذ کے خلاف مجاہدت کی پاداش میں شہید کر دیئے گئے۔ اس کا تعلق بھی بعد میں امریکی استکبار سے ظاہر ہوا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی نو تشکیل یافتہ اسلامی نظام کے خلاف امریکی سازشیں مختلف شکلوں میں جاری رہیں یہاں تک کہ ہمارے یونیورسٹی طلبا نے تہران میں امریکی سازشوں کے مرکز، امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر لیا جو دراصل جاسوسی کا اڈہ تھا۔ یہ بھی استکبار کے خلاف مجاہدت کا ایک واقعہ تھا۔ یعنی سامراج اور ریاستہائے متحدہ امریکا کی شکل میں استکبار کے خلاف جدوجہد انقلاب سے پہلے شروع ہوئی اور انقلاب کے بعد بھی آج تک جاری ہے۔
بنابریں ایرانی قوم کو استکبار اور سامراج کے خلاف مجاہدت کے نعرے کو ایک پرچم اور مشعل راہ کے عنوان سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر اس پرچم کی حفاظت نہ کی گئی اور یہ نعرہ کمزور اور ختم ہو گیا تو قوم اپنے راستے سے بھٹک جائے گی۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ اس دشمن کی دشمنی آشکارا ہے۔ فریب دینے کے لئے اس کے پاس بہت سے طریقے ہیں۔ دھوکہ کھانے والی اکثر اقوام اور خطا کرنے والی اکثر حکومتوں سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے دشمن کی روشوں کو صحیح طور پر نہیں پہچانا۔ اگر ہم نے دشمن کی روشوں کو نہ پہچانا اور جو دشمن ہم کو ختم کر دینا چاہتا ہے، اس کے خلاف مجاہدت کو ہم نے فراموش کر دیا تو ظاہر ہے کہ ہم اس راستے پر چلیں گے جو دشمن کی خواہش کے مطابق ہوگا۔ یعنی ہم اپنی نابودی اور تباہی کا راستہ اختیار کریں گے۔
لہذا استکبار اور سامراج کے خلاف جدوجہد کا نعرہ ہمیشہ باقی رہنا چاہئے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ہوشیار اقوام اپنے نعروں کے تعلق سے صحیح طرز عمل بھی اختیار کرتی ہیں۔ کبھی انسان نعرے کی صرف تکرار کرتا ہے۔ بار بار زبان سے اس کو دہراتا رہتا ہے؛ یہ کوئی بڑاکام نہیں ہے۔ کبھی اس کی تہہ تک جاتا ہے، اس پر غور کرتا ہے اور اسی کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ یہ صحیح ہے۔ استکبار اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے تعلق سے میں نے کہا کہ آج استکبار اور سامراج کا اطلاق جارحیت پسند امریکی حکومت پر ہوتا ہے۔ خود امریکیوں اور امریکی حکام نے ابتدائے انقلاب سے آج تک یہ کوشش بہت کی ہے کہ ایران کی فضاؤں میں یہ نعرہ نہ گونجے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جب تک یہ نعرہ موجود ہے، جب تک لوگوں کے ذہنوں میں امریکا مردہ باد موجود ہے، اس وقت تک اس ملک پر دوبارہ امریکا کا تسلط قائم ہونا ممکن نہیں ہے۔
بنابریں ملک کی فضا میں جارحیت پسند امریکی حکومت کی مخالفت، مذکورہ شکل میں جب تک موجود رہے گی اس وقت تک امریکا کو اس ملک میں اثر و نفوذ قائم کرنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ نہ وہ اس ملک کی سیاست میں مداخلت کر سکتا ہے، نہ اس ملک کے اقتصادی وسائل پر تسلط جما سکتا ہے اور نہ ہی اس ملک میں اپنا کلچر پھیلا سکتا ہے۔ اس کے اس ملک میں واپس آنے کا راستہ یہ ہے کہ پہلے یہ نعرہ ختم ہو۔ پہلے ایرانی قوم میں تسلط پسند سامراجی اور استکباری امریکا کی دشمنی ختم کی جائے۔
اس کے لئے ان (امریکیوں) کے پاس راستے ہیں۔ ابتدائے انقلاب سے مختلف شکلوں میں انھوں نے یہ کوشش کی ہے۔ ایک راستہ ان کا یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیں کہ امریکا ناقابل شکست طاقت ہے۔ وہ دنیا کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ اس کے خلاف مجاہدت ممکن نہیں ہے۔ یاد کریں، امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کے دور میں اور آپ کی رحلت کے بعد سے آج تک مختلف طریقوں سے، مضامین اور مقالوں کے ذریعے، اشعار کے ذریعے، پالیسیوں کے ذریعے، واضح طور پر امریکا سے وابستہ اور حتی ملک کے اندر موجود ان لوگوں کے تجزیوں میں بھی جو آشکارا طور پر امریکا سے وابستہ نہیں ہیں یہ فکر پیش کی جارہی ہے۔ آگر آپ اہل مطالعہ ہوں، جو کہ آپ یقینا ہیں، تو آپ کی یادداشت میں اس قسم کی باتیں موجود ہوں گی۔ یعنی وہ قوم سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بلاوجہ محنت کر رہے ہو۔ کس سے لڑنا چاہتے ہو؟ یہ فکر غلط ہے۔
ایرانی قوم کہتی ہے کہ ہم استکبار اور سامراج کے خلاف مجاہدت کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم لشکر کشی کریں گے اور خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑے پر بمباری کر دیں گے! ہماری مجاہدت یہ نہیں ہے۔ حتی ایرانی قوم اور ملک کے حکام یہ نہیں کہتے کہ ہم ایسا کام کریں گے کہ امریکا کو بہانہ مل جائے اور وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کوئی پاگل پن کی حرکت کرے۔ بنابریں ہماری مجاہدت کا مطلب عسکری مجاہدت نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی دن فوجی جارحیت اور حملہ ہو گیا تو ایرانی قوم اس کا بھی بہت سخت جواب دے گی۔ ایرانی قوم دشمن کے مقابلے میں عاجز نہیں ہے۔
مجاہدت کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم دشمن کی سیاسی چالبازی، دھوکے، فریب اور اس ملک پر دوبارہ اپنا تسلط جمانے کے لئے اس کی کوششوں کے مقابلے میں پوری قوت سے مزاحمت کرے گی۔ مجاہدت کا مطلب یہ ہے۔ استکبار کے خلاف مجاہدت یعنی عالمی سطح پر جہاں تک ہماری رسائی ہوگی ہم حقیقت بیان کریں گے۔ جہاں بھی کسی مظلوم کو استکبار سے نقصان پہنچے گا، اس پر ظلم ہوگا، ہم سے جس طرح بھی ممکن ہوگا، اس کی حمایت کریں گے اور اس کا ساتھ دیں گے۔
مشرق وسطی کے مسئلے میں امریکیوں نے مختلف طریقوں سے خیانت پر مبنی اپنی سازباز کی روش میں، جس کو انھوں نے امن مذاکرات کا نام دیا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کو شامل کرنے اور نزدیک لانے کی بہت کوشش کی؛ لیکن ایران اسلامی نے پوری قوت سے مخالفت کی اور اس کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ یہ روش ناکام رہے گی۔ اس لئے کہ حق کے خلاف ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ایساہی ہوا۔ آج پوری دنیا تصدیق کرتی ہے کہ ہماری بات صحیح تھی۔ استکبار کے خلاف مجاہدت کا مطلب یہ ہے کہ عالمی سطح پرجہاں بھی امریکی کسی قوم کے خلاف، کسی اسلامی اصول کے خلاف اور کسی ایسی حقیقت کے خلاف جس کے ہم پابند ہیں، چال چلیں گے اور حیلہ کریں گے، ہم اس حیلے کو بے نقاب کریں گے اور ان کی چال کو ناکام بنائیں گے اور اب تک ہم نے یہی کیا ہے۔
اس جنگ میں امریکا ناقابل شکست نہیں ہے، بلکہ بہت زیادہ کمزور ہے۔ آپ جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کئی محاذوں پر امریکا کو شکست ہوئی ہے۔ وہ افغانستان میں آئے تاکہ اس وقت کی حکومت کو ہٹاکے ایسی حکومت اقتدار میں لائیں جو ان سے وابستہ ہو۔ لیکن نہیں کر سکے۔ عراق میں دوسری طرح سے کوشش کی، لیکن نہیں کر سکے۔ مشرق وسطی میں بہت کوشش کی لیکن نہ کر سکے۔ عالمی سیاسی مسائل میں، یورپ کو ایران کے مقابلے پر لانے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں لا سکے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتصادی محاصرے کی کوشش کی، نہیں کر سکے۔ عالمی رائے عامہ کو ہمارے خلاف ورغلانے کی کوشش کی، لیکن ایک چھوٹی سی اقلیت کے علاوہ جو خود امریکیوں کی طرح اقلیت میں ہے اور انھیں کی طرح ہی سوچتی ہے، بقیہ ملکوں کو وہ ورغلا نہ سکے۔
آج دنیا کی سطح پر، ایشیا، افریقا حتی یورپ میں اسلامی جمہوریہ کے نام پر اور اس کے ہمیشہ باقی رہنے والے مثالی رہبر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نام پر لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہو جاتا ہے اور جہاں ممکن ہوتا ہے وہ نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ تو ایسا نہیں ہے کہ امریکا کو زک نہ پہنچائی جا سکے۔ ملک کے اندر انھوں نے بہت کوشش کی کہ لوگوں کی نظر میں اس نظام کی مقدس اقدارکے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر سکیں، لیکن نہیں کر سکے۔
لہذا یہ بات غلط ہے جو بعض لوگ سوچتے ہیں، ترویج کرتے ہیں، لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیوں بلاوجہ زحمت کر رہے ہو! بلا وجہ زحمت نہیں کر رہے ہیں۔ اگر بلا وجہ زحمت کی ہوتی تو اسلامی جمہوریہ کو خاک میں ملے پندہ سال ہو گئے ہوتے۔ اس کا کفن بھی بوسیدہ ہو گیا ہوتا۔ آج آپ دیکھیں کہ اسلامی جمہوریہ اگر کسی دن پودا تھی تو آج ایک تناور درخت بن چکی ہے۔
ہمارے نوجوان توجہ کریں کہ استکبار اور سامراج کی ایک کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جس کو ختم کرنا چاہتا ہے اور میدان سے باہر کرنا چاہتا ہے، اس کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ سترہ سال کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اس نے بہت ہی شد و مد کے ساتھ یہ کوشش کی ہے۔ ہمارے نوجوانوں، روشن خیال حضرات اور ان لوگوں کو جو عالمی اور سیاسی مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں اور حقیقت سمجھنا چاہتے ہیں، اس نکتے پر توجہ دینی چاہئے ۔
امریکی صرف ایران کے ہی خلاف نہیں بلکہ دنیا کی ہر اس حکومت کے خلاف پالیسی بناتے ہیں جو ان کو پسند نہیں ہوتی۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے وجود کے ہی مخالف ہیں۔ ایسی حکومتیں بھی ہیں جن کا کوئی اقدام یا کوئی موقف انہیں پسند نہیں ہے۔ یہ سیاست امریکیوں سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ دنیا کی سبھی تسلط پسند طاقتیں ماڈرن ٹیکنالوجی اور جدید مواصلاتی دور میں ایسی ہی پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیکن ہمارے خلاف آج امریکیوں نے یہ غیر شریفانہ موقف اختیار کر رکھا ہے۔
وہ سیاست یہ ہے کہ جس حکومت کو وہ پسند نہیں کرتے، ایک طرف اس کے خلاف اتنا زیادہ دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے خیال میں اس کو بے دست و پا کر دیں۔ یعنی دنیا میں اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اس ملک کے اندر، لوگوں کو حکومت کا مخالف بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اقتصادی میدان میں، اس کی ناکہ بندی کی کوشش کرتے ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی اور جدید صنعت کے میدان میں اس کی پیشرفت روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ ایٹمی بجلی گھر اور ایٹمی بھٹی کے بارے میں کتنا ہنگامہ کیا۔ کہا کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایٹمی ٹیکنالوجی اس ملک میں نہ آئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئے طریقے اور نئی ٹیکنالوجی اس قوم کو نہ ملے۔ کیونکہ اس قوم میں ایسی استعداد ہے کہ اگر جدید ٹیکنالوجی اس کو حاصل ہو گئی تو پھر اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان کی پالیسیوں میں شامل ہے۔
بنابریں ایک طرف وہ سیاسی، اقتصادی، علمی اور تشہیراتی دباؤ ڈالتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے برائی کرتے ہیں اور ماحول بناتے ہیں اور دوسری طرف جب انھیں یہ لگتا ہے کہ اب وہ حکومت ان کی نظر میں اچھی ہو گئی ہے تو سبز چراغ دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ گفتگو اور کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ عام طور پر جو حکومتیں اور جو حکام کمزور ہوتے ہیں ، ان کے پیروں میں، زانوؤں میں لرزش آ جاتی ہے۔ بنابریں وہ ایک طرف تو کافی دباؤ ڈالتے ہیں اور دوسری طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس حکومت سے وہ دشمنی کرنا چاہتے ہیں، اگر اس نے یہ غلطی کر دی کہ ان کی دعوت کو قبول کر لیا تو اس کو آزادی اور خودمختاری کی وجہ سے جو عزت اور حیثیت ملی ہوتی ہے، وہ خاک میں مل جاتی ہے۔ اگر اس کو عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو وہ ختم ہو جاتی ہے۔ اگر عالمی حمایت حاصل ہوتی ہے تو وہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر اس کے اندر عزم و ارادہ ہوتا ہے تو وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ دباؤ بڑھا دیتے ہیں اور اس کو اپنے چنگل میں لے لیتے ہیں۔ یعنی چاہتے ہیں تو اس کو نابودی کی حد تک کمزور کر دیتے ہیں اور چاہتے ہیں تو اس پر اپنی بات مسلط کرتے ہیں اور وہ حکومت بھی آسانی سے اس کو قبول کر لیتی ہے۔ یہ کھلی روش ہے۔
امریکی حکام کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی یہی روش ایران کی عظیم قوم کے خلاف بھی آزمانا چاہتے ہیں جو پختہ عزم و ارادے اور خود اعتمادی کی مالک ہے۔ امریکیوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ جس روش سے ان حکومتوں کے سلسلے میں کام لیتے ہیں جن کا عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے، اسی حربے کا استعمال ایران کی عظیم قوم کے سلسلے میں بھی کرنا چاہتے ہیں جس کی جڑیں بہت مضبوط اور تاریخ بہت درخشاں ہے۔ ہماری قوم مہذب، طاقتور اور مضبوط عزم و ارادے کی مالک ہے اور اس نظام کی جڑیں اس قوم کے اندر گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام اشخاص اور حکومتوں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ قوم کی حمایت پر قائم ہے۔
میری نظر میں ہمارے عظیم رہبر (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اہم ترین ارشادات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ نظام مجھ پر یا کسی اور پر منحصر نہیں ہے۔ بابائے قوم امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس نظام کو قائم کرنے والے اور اس قوم کے معلم تھے۔ آپ نے اپنے توانا ہاتھوں سے یہ معجزہ اور کارنامہ انجام دیا۔ مگر آپ کہتے تھے کہ یہ نظام مجھ پر منحصر نہیں ہے۔ میں نہیں رہوں گا لیکن یہ نظام رہے گا اور یہ قوم رہے گی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ جب امام کے تعلق سے یہ بات ہے تو سبھی کے تعلق سے یہ بات صحیح ہے۔
یہ نظام اشخاص پر منحصر نہیں ہے۔ حقائق اور قوم کی ایک ایک فرد پر منحصر ہے۔ اس معنویت پر منحصر ہے جو قوم کے اندر پائی جاتی ہے اور خدا کے لطف و کرم کا باعث ہے۔ جب تک قوم اسی ایمان، اسی اخلاص اور اسی پاکیزگی کے ساتھ آگے بڑھتی رہے گی اور جدوجہد جاری رکھے گی، اس دنیا میں اور اس نظام میں کوئی رہے یا نہ رہے، خدا کا لطف و کرم اس نظام کے شامل حال رہے گا اور اس نظام کی طاقت و توانائی، شادابی اور غیر معمولی قوت باقی رہے گی۔
بنابریں استکبار اور سامراج کے خلاف مجاہدت کا نعرہ، ایک زندہ نعرہ ہے۔ خود سامراجیوں نے جو پروپیگنڈہ کیا ہے اس کے برخلاف، سامراج اور استکبار کے خلاف مجاہدت ممکن بھی ہے، اس مجاہدت کا مستقبل درخشاں بھی ہے اور آج یہ ایرانی قوم کا فریضہ بھی ہے۔ لیکن نوجوانوں اور ذہانت کے مالک صاحبان فکرکو اس مجاہدت کی گوناگوں روشیں تلاش کرنی ہیں۔ یہ ہماری بنیادی بات ہے۔
دشمن کو پہچانیں، ملک کے اندر دشمن کی صفوں کو پہچانیں، دشمنی کی روشوں کو پہچانیں، ملک کے اندر ان روشوں کی بدلی ہوئی شکل کو پہچانیں، یونیورسٹیوں میں، کالجوں میں، معاشرے کے اندر، ملک کی سرگرمیوں میں، اخبارات و جرائد میں، تشہیرات میں استکبار اور سامراج کے اثرونفوذ کو پہچانیں۔ استکبار اور سامراج چاہتا ہے کہ اس ملک میں اور قوم کے اندر محکم ایمان نہ رہے۔ لہو و لعب کی سرگرمیاں ہوں۔ اسلامی احکام نہ ہوں جن چيزوں سے اسلام نے روکا ہے وہ رائج ہوں۔ سامراج چاہتا ہے کہ ملک کے اندر تساہلی اور بیکاری ہو۔ تعمیر، ایجادات، عوام کے اقتصادی، سماجی اور ثقافتی امور کی اصلاح کچھ نہ ہو۔ سامراج چاہتا ہے کہ ملک میں علم و دانش کی پیشرفت نہ ہو، تحقیقات نہ ہوں، تعلیم کی کلاسیں نہ ہوں۔
جانے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے پر فریب نعروں کے ذریعے وہی کام کرنا چاہتے ہوں گے جو سامراج چاہتا ہے۔ آپ ان کی طرف سے ہوشیار رہیں۔ نوجوان نسل سے ہماری توقع یہ ہے کہ امریکا مردہ باد اور سامراج مردہ باد کہنے پر ہی اکتفا نہ کریں۔ یہ ایک نعرہ ہے، ضروری ہے لیکن سب کچھ یہی نہیں ہے۔ جو اعمال اس نعرے کے ساتھ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نعرے پر کام ہونا چاہئے۔ آج نوجوان ایک ساتھ بیٹھیں، باہم گفتگو کریں۔ میں نے یہ جو کہا ہے کہ یونیورسٹیوں اور نوجوانوں کے ماحول کو سیاسی ہونا چاہئے، اس کا مطلب یہی ہے ۔ اس چیز کی جو اس ملک اور قوم کے راستے کی علامت شمار ہوتی ہے، یعنی 'عالمی سامراج کے خلاف مجاہدت' کی تشریح کریں اس کو بیان کریں۔
آج امریکی اپنے نعروں میں استبداد کی مخالفت کرتے ہیں۔ کہیں استبدادی حکومت ہو تو کہتے ہیں کہ ہم استبداد کے مخالف ہیں! اس وقت میں یہ بات نہیں چھیڑنا چاہتا کہ آپ ان ملکوں کو جانتے ہیں اور میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا ہوں، جن کی حکومتوں میں بدترین استبداد پایا جاتا ہے، وہ خود ان کی حمایت کرتے ہیں اور خود بدترین استبدادی حکومتوں سے ان کے روابط بہت اچھے ہیں اور عالمی سطح پر وہ خود بھی استبداد کے طرفدار ہیں۔ امریکی استبداد یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو اقوام اور عوامی حکومتیں چاہتی ہیں وہ نہ ہو بلکہ وہ ہو جو امریکی چاہتے ہیں۔
ملکوں کے تمام امور میں، خاص طور پر تیل کی دولت سے مالامال اس خطےکے مسائل میں اور جو کچھ اسلامی جمہوری نظام سے متعلق ہے اس میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ اس مداخلت اورسامرج کی اس جارحانہ فکر کے مقابلے میں ایرانی قوم کی ایک ایک فرد کو استکبار و سامراج کے خلاف مجاہدت کے اس نعرے پر غور کرنا چاہئے اور آپ نوجوانوں کو اس نعرے پر زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
وہ قوم جو کام کرنے والی ہے، فعال ہے اور محنت سے نہیں تھکتی؛ اس کے نوجوان علم حاصل کرتے ہیں، اس کی یونیورسٹیاں علم کے فروغ ، تحقیقات اور نوجوانوں کی علمی و سماجی سرگرمیوں سے متعلق دیگر امور انجام دیتی ہیں، اس کی حکومت عوام کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے، ان کی ہمدرد ہے اور ان کی فکر میں رہتی ہے اور ان کے لئے کام کرتی ہے، اس کے علما پورے خلوص اور اخلاص کے ساتھ راہ خدا میں تبلیغ کرتے ہیں، وعظ کہتے ہیں اور محنت کرتے ہیں، عوام صحیح معرفت کی سمت میں آگے بڑھتے ہیں، راہ خدا میں استقامت سے کام لیتے ہیں اور میدان میں اپنی انقلابی موجودگی کو قائم رکھتے ہیں۔
الحمد للہ یہ معیار بہت حد تک ہمارے ملک میں موجود ہے۔ البتہ اس سے بہتر بھی ہو سکتا ہے اور ہونا چاہئے۔ جس ملک میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جس کے طلبا ایسے ہیں، جس کے کاروبار کرنے والے ایسے ہیں، جس کے روشن فکر حضرات ایسے ہیں، جس کے دینی طلبا ایسے ہیں، جس کے علما ایسے ہیں ، جس کے اسکولی طلبا ایسے ہیں، جس کی حکومت ایسی ہے، جس میں ایسا ایمان پایا جاتا ہے، جس میں ایسا جذبہ پایا جاتا ہے، جس میں ایسا خلوص پایا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں ایک امریکا تو کیا امریکا جیسی دس طاقتیں بھی، عالمی سیاست کے میدان میں ایسی قوم کی مجاہدت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتیں اور اس قوم کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتیں ۔
لہذا نوجوانوں سے چاہے لڑکیا ہوں یا لڑکے، میری سفارش یہ ہے کہ آپ علمی، تعلیمی، تحقیقی، سیاسی اور گوناگوں سماجی سرگرمیاں پورے جوش و ولولے کےساتھ جاری رکھیں، ثقافتی امور، اخبارات و جرائد سے متعلق اور کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ لیں اور اپنی پاکیزگی، تقوے، ایمان اور اخلاص کی حفاظت کریں۔ حق یہ ہے کہ دنیا کے نوجوانوں میں آپ مثالی ہیں۔ اگر ہمارے نوجوانوں اور بقیہ عوام کے اندر ایمان، خلوص اور اخلاص کے ساتھ سعی و کوشش کا یہ جذبہ موجود رہے تو ایرانی قوم کے خلاف اپنی مہم میں استکبار اور سامراج کو ایک بار نہیں بلکہ بار بار اور ہمیشہ شکست ہوگی ۔ اس میں شک نہیں ہے۔
ہمیں کس بات کی پریشانی ہو؟ کیوں پریشانی ہو؟ البتہ ظاہر ہے کہ جب ہم مجاہدت کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری قوت اور ایمان و ارادے کے ساتھ اپنے موقف پر باقی رہیں گے اور کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی پر لشکر کشی کریں گے اور امریکا سے جنگ کریں گے۔ ہمارا کام اور ہدف یہ نہیں ہے۔ البتہ کسی بھی جارح نے اگر ہمارے خلاف جارحیت کی تو چاہے کوئی بھی ہو، چاہے امریکا ہو یا دنیا میں کہیں بھی اس کے چھوٹے بڑے کارندے اور زرخرید عوامل ہوں، انھیں ہماری قوم کے منہ توڑ جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس میں شک نہیں ہے۔ ہمارے لئے، اس قوم کے لئے جو چیزبنیادی حیثیت رکھتی ہے وہ وہی استقامت و پائیداری اور وہ حقیقی جدوجہد ہے جو خداوند عالم کی خوشنودی کا باعث ہو اور حضرت ولی عصر اروحنا فداہ (امام مہدی علیہ السلام) کے قلب مطہر کو شاد کر دے۔ خدا آپ کے اندر حضرت امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے انتظار کے جذبے کی تقویت فرمائے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح کو آپ سے راضی اور خوش رکھے اور آپ کے دشمن کو ناکام کرے۔ خداوند عالم آپ سب کو یہ توفیق عنایت فرمائے۔

 

 

والسلام علیکم ورحمت اللہ

1-فاطر:آیات 22 و 24