رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی نظام کا دشمن محاذ، ایرانی نوجوانوں کی انقلابی و دینی ماہیت کو دگرگوں کر دینے کی کوشش میں ہے اور ان کا جذبہ امید و نشاط سلب کر لینا چاہتا ہے جبکہ اس پنہاں اور پیچیدہ تصادم میں کامیابی کا واحد طریقہ اس نرم جنگ کے افسروں کا کردار نبھانے والے دیندار، انقلابی، پاکدامن، پرعزم، ہوشیار، جوش و جذبے سے سرشار، فکر و تدبر سے آراستہ اور شجاع و فداکار نوجوانوں کی تربیت ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مغربی ایشیا کے علاقے اور عالمی سطح پر ایران کی محکم پوزیشن، مسئلہ فلسطین، اسلامی مزاحمتی محاذ اور ایرانی و اسلامی طرز زندگی کو بھی اسلامی جمہوری نظام اور استکباری محاذ کے تصادم کے کچھ دیگر موضوعات سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اگر کسی ملک میں مغربی طرز زندگی رائج ہو جائے تو اس سماج کی ممتاز شخصیات استکبار کی پالیسیوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کی عادی ہو جاتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ نوجوانوں کی دینداری، پاکدامنی اور پارسائی نیز لذات و شہوات سے اجتناب پر مسلسل تاکید کو رجعت پسندی اور دقیانوسیت نہیں کہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ اہل مغرب بالخصوص امریکی اس کوشش میں ہیں کہ ایرانی نوجوان زیور ایمان سے محروم، بزدل، جوش و جذبے سے عاری، جذبہ عمل سے بے بہرہ، مایوس، دشمن کے سلسلے میں خوش فہمی اور اپنے توانائیوں کے سلسلے میں بدگمانی میں مبتلا انسان بن جائے، جبکہ اسلامی نظام ایسے نوجوانوں کی تربیت کے لئے کوشاں ہے جو استکباری محاذ کی مرضی کے برخلاف سمت میں قدم بڑھائے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

عزیزان محترم آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ نشست میرے لئے بڑی دل آویز اور شیریں ہے۔ اس جوش و خروش کے ساتھ نوجوانوں کی یہاں تشریف آوری، ان کی اچھی اچھی باتیں، یہ شائستہ استدلال، یہ جو پروگرام پیش کئے گئے۔ حقیقت میں ان چیزوں سے ہماری اس نشست میں شیرینی گھل گئی۔ میرے لئے آج کا یہ دن یادگار بن گیا۔
سب سے پہلے ایک چیز ماہ رجب کے باب میں عرض کرنا چاہوں گا۔ ہر انسان کے وجود میں ایک لطیف اور روحانی پہلو ہوتا ہے۔ انسان مختلف پہلوؤں، فطری میلانات اور احتیاجات کا مجموعہ ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک روحانی و معنوی پہلو ہوتا ہے، ہر انسان کے اندر۔ یہ بڑا لطیف اور ظریف پہلو ہے۔ نوجوانی کے ایام میں اس پہلو کی لطافت و شفافیت زیادہ نمایاں ہوتی ہے اور یہ زیادہ درخشاں ہوتا ہے۔ اس پہلو کو اگر ہم اپنے وجود کے اندر تقویت پہنچانے میں کامیاب ہوں تو وہ ہمارے وجود کے دوسرے پہلوؤں کی بھی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ روحانی و معنوی پہلو فطری خواہشات کے پہلو کو، احتیاجات کے پہلو کو، تدبر اور عقل پسندی کے پہلو کو مسدود کر دیتا ہے۔ نہیں، یہ سارے پہلو اپنی جگہ محفوظ رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وجود انسانی کا یہ روحانی و معنوی پہلو تمام دیگر پہلوؤں کی رہنمائی کرتا ہے، انھیں سنوارتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے وجود کا یہ پہلو باقی رہے اور اسے تقویت پہنچائی جائے۔ آپ دنیا میں جو خباثتوں میں ڈوبے ہوئے انسان دیکھتے ہیں؛ ظلم کر رہے ہیں، سفاکیت پر تلے ہوئے ہیں، پیسے کے لالچی ہیں، شہوانی خواہشات کے اسیر ہیں، شکم پرست ہیں اور مادی پہلوؤں کا ان کے وجود پر غلبہ ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنے وجود میں اس روحانی و معنوی پہلو کو نمو کا موقع نہیں دیا ہے جس کی وجہ سے وہ رفتہ رفتہ مضمحل ہوتا چلا گیا ہے، یا بالکل نابود ہو گیا ہے۔ میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ماہ رجب سے بھرپور کسب فیض کیجئے اور اس روحانی پہلو کی تقویت کے لئے اس مہینے سے استفادہ کیجئے۔
ماہ رجب کے بعد ماہ شعبان ہے اور پھر ماہ رمضان ہے جو روحانیت و معنویت کی بہار ہے۔ آپ سب بھی، جیسا کہ جناب الحاج علی اکبری صاحب نے فرمایا، مظہر بہار انسانیت ہیں۔ اس لئے کہ عمر کے موسم بہاراں سے آپ گزر رہے ہیں۔ لہذا اس بہار روحانیت سے کما حقہ مستفیض ہونے کی کوشش کیجئے۔ ذکر و مناجات، جو دعائیں وارد ہوئی ہیں، ان دعاؤں کے مضامین پر توجہ، تلاوت کلام پاک، اول وقت نماز، گناہوں سے پرہیز، اچھے اخلاقیات، ان ساری چیزوں کے لئے اس مہینے میں بڑا عظیم موقع ہے جو ہم سب کو ملا ہے، تاہم آپ نوجوان ان مواقع سے زیادہ بہتر انداز میں کسب فیض کر سکتے ہیں، بالکل مادی مواقع کی طرح۔ آپ ایک میدان کا تصور کیجئے۔ اس میدان کے دوسرے سرے پر ایک علامت رکھ دی گئی ہے۔ اب ہم سے اور آپ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ جو جلدی پہنچے اس علامت کو اٹھا لے۔ آپ بتائیے کہ وہاں جلدی کون پہنچے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ نوجوان ہیں، جسمانی توانائی رکھتے ہیں، نشاط و شادابی سے سرشار ہیں۔ جب تک میں اپنی جگہ سے ہلوں گا آپ وہاں پہنچ کر وہ علامت اٹھا چکے ہوں گے۔ روحانی و معنوی معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اسے آپ ذہن نشین کر لیجئے۔ روحانی امور میں بھی آپ زیادہ تیزی سے، زیادہ آسانی سے، زیادہ جلدی اور زیادہ شیریں انداز میں منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو آپ نے دیکھا کہ ہمارے زمانے کی نورانی ہستیوں میں شامل ہوئے، جیسے آیت اللہ بہجت مرحوم کی مثال لے لیجئے، جو ایک نورانی ہست تھے، ضعیف العمر اور حد درجہ نورانی ہستی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے نوجوانی کے ایام سے، یعنی زندگی کے اسی دور سے جس میں اس وقت آپ ہیں اپنے اعمال اور حرکات و سکنات کے بارے میں بہت احتیاط سے عمل کیا۔ جو لوگ تاخیر سے اس جانب متوجہ ہوتے ہیں ان کی توفیقات بھی کم ہوتی ہیں۔ جو لوگ آخر تک متوجہ نہیں ہوتے وہ نورانیت، شفافیت اور اس درخشندگی سے بالکل محروم ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی دنیا کے دوسرے بہت سے انسانوں کی طرح بن جاتے ہیں۔ یہ ہماری پہلی بات ہے۔
آپ نوجوانوں سے مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ مختلف موضوعات اور میدانوں کے بارے میں آپ سے مجھے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ آپ سب ایک اعتبار سے اس حقیر کے بھائی اور بہنیں ہیں اور ایک اعتبار سے میرے بچے ہیں، ایک اعتبار سے میرے پوتے اور پوتیوں کا حکم رکھتے ہیں۔ آپ سب میرے عزیز اور پیارے ہیں۔ یہاں تشریف فرما آپ سب بھی اور اسی طرح وہ کئی ہزار طالب علم، اسکولی طلبہ اور اور بارہ ہزار یونیورسٹی طلبہ جیسا کہ ہمارے اس عزیز نوجوان نے بتایا، سب کے سب وہی درجہ رکھتے ہیں جو میں نے عرض کیا۔ آپ سے مجھے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ مجھے آج ایک بہت بنیادی بات عرض کرنی ہے جس میں ایک مطالبہ بھی شامل ہے، طلبہ کی انجمنوں اور ان انجمنوں کی یونین سے۔ تھوڑی تمہیدی گفتگو کروں گا؛ ہم ایک دشمن محاذ سے جو استکبار، اس کے آلہ کاروں اور حلقہ بگوشوں کا محاذ ہے بر سر پیکار ہیں، یہ بات بالکل واضح ہے۔ اس محاذ کا محور امریکا اور صیہونزم ہے۔ اس کے آلہ کار اور حاشیہ بردار بعض طاقتیں یا نام نہاد طاقتیں ہیں جنھیں آپ دیکھ رہے ہیں۔ ہم ان سے روبرو ہیں۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کا مقابلہ ان سے ہے۔ یہ مقابلہ آرائی کس بات پر ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں، استکبار سے ہمارا تنازعہ کن میدانوں میں ہے؟ اگر ہم ان میدانوں کو شمار کرنا چاہیں جن میں استکبار سے ہمارا مقابلہ ہے تو شاید اس وقت میں دس میدان گنوا سکتا ہوں۔ اب اگر ہم بیٹھیں اور غور کریں تو ممکن ہے کہ کچھ اور میدانوں کے بارے میں بھی معلوم ہو۔ شاید بیس تیس یا اس سے زیادہ میدان ہیں جہاں استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی جاری ہے۔
مثال کے طور پر آپ ملک کی خود مختاری کے مسئلے کو لے لیجئے! اقتصادی خود مختاری، سیاسی خود مختاری، ثقافتی خود مختاری، یہ استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کا ایک میدان ہے۔ استکبار اور مستکبر طاقتوں کی سرشت یہ ہے کہ دخل اندازی ضرور کرتی ہیں۔ استعمار کے زمانے میں بھی جو اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران اور بیسویں صدی تک جاری رہا اور اس جدید استعمار کے دور میں بھی جسے بعد میں شروع کیا گيا ہے اور اب اسے جاری رکھنے کے لئے دائمی طور پر روز بروز نئے نئے طریقے ایجاد کئے جا رہے ہیں۔ ان کا مقصد مداخلت کرنا ہے۔ قوموں کے مفادات میں مداخلت کرنا ہے اور ملکوں پر اپنا غلبہ قائم کرنا ہے۔ استکبار کا مقصد یہ ہے۔ اب اگر کوئی ملک اس مقصد میں آڑے آتا ہے اور اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ ثقافتی خود مختاری ہو، سیاسی خود مختاری ہو یا اقتصادی خود مختاری ہو، اس کا اگر دفاع کرنا چاہے تو ٹکراؤ ہونا لازمی ہے۔ استکبار سے ہمارے تصادم کا ایک میدان یہ بھی ہے۔
ہمارے باہمی نزاع کا ایک اور میدان ہے پیشرفت۔ اگر ایران جیسا ملک جس نے عالمی طاقتوں سے اپنی بے نیازی کا ثبوت بار بار پیش کیا ہے اور کبھی انھیں لائق اعتنا نہیں سمجھا ہے، ان پر انحصار کی صورت حال پیدا نہیں ہونے دی اور ان پر تکیہ نہیں کیا ہے اور ان تمام کوائف کے باوجود پیشرف کی شاہراہ پر آگے بڑھ رہا ہے تو یہ مثالی پیشرفت مانی جائے گی۔ یعنی دیگر ملکوں کے لئے اور دوسری قوموں کے لئے نمونہ عمل قرار پائے گی۔ یہ پیشرفت بھی استکبار سے ہمارے تنازعے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہم اس پیشرفت کے لئے کوشاں ہیں جبکہ عالمی طاقتیں ہمیں اس قسم کی پیشرفت سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔
وہ بنیادی محرکات جنھوں نے ایٹمی مسئلے میں استکباری طاقتوں کو ہمارے خلاف صف آرا ہونے پر مجبور کر دیا ان میں ایک یہی تھا۔ وہ وجوہات تو دوسری بھی گنواتے ہیں لیکن کچھ محرکات بہت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک وجہ تو یہی تھی کہ ایک ملک امریکا، برطانیہ یا کسی بھی دوسری بڑی طاقت کی مدد لئے بغیر بے پناہ حساس اور اہمیت کے حامل علمی شعبے میں، جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں ارتقائی منزلیں طے کرے تو یہ ان طاقتوں کو ہرگز برداشت نہیں ہے، وہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ ایسا کبھی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم انھیں ذرا سی ڈھیل دیں تو کل کو وہ بایو ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی اور دوسرے علمی و سائنسی موضوعات کے بارے میں بھی بہانہ جوئی میں لگ جائیں گی۔ خامیاں اور قابل گرفت باتیں تلاش کرنا شروع کر دیں گی۔ علمی پیشرفت، اقتصادی پیشرفت، تمدنی پیشرفت یہ سب وہ میدان اور موضوعات ہیں جن کے بارے استکبار سے اسلامی جمہوریہ کے شدید اختلافات ہیں۔
اختلاف کا ایک اور موضوع علاقے اور دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مقتدرانہ پوزیشن اور شراکت ہے۔ ایران کی یہ مقتدرانہ موجودگی استکبار کی سازشوں کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ امریکا نے مغربی ایشیا کے علاقے کے لئے جسے وہ مشرق وسطی کہتا ہے اور میرا پر زور مطالبہ ہے کہ یہ لفظ ان وجوہات کی بنا پر جن کا میں ذکر کر چکا ہوں، ہرگز نہ استعمال کیا جائے، ایک موقع پر میں نے یہ وجوہات بیان کی تھیں (2)۔ اس علاقے کے لئے اس نے منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ یہ سازش گریٹر مڈل ایسٹ کے زیر عنوان تیار کی گئی ہے۔ جدید مشرق وسطی کی اصطلاح انھوں نے پچھلے دس بارہ سال کے دوران بار بار دہرائی ہے، اس کے لئے انھوں نے پہلے سے سازشیں تیار کر رکھی ہیں۔ اپنے اسی منصوبے کے تحت انھوں نے کچھ اقدامات شروع کر دئے تھے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی مقتدرانہ موجودگی کی وجہ سے ان کے منصوبے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں۔ یہ بھی ان سے اختلاف اور ٹکراؤ کا ایک میدان ہے۔
اختلاف کا ایک موضوع ہے مسئلہ فلسطین۔ اسلامی مزاحمت کے معاملے میں بھی اختلاف ہے، مغربی ثقافت اور مغربی طرز زندگی کی ترویج کے بارے میں بھی تصادم ہے۔ کیونکہ اگر کسی ملک میں مغربی یا امریکی طرز زندگی عام ہو جائے تو وہاں کے دانشور اور مفکرین امریکا اور مغرب کی پالیسیوں کے سامنے بندہ بے دام بن جائیں گے۔ یہ طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں کہ ایسا ہو جائے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران یہ ہونے نہیں دے رہا ہے۔
میں نے ٹکراؤ کے یہ بعض میدان گنوائے۔ میں یونہی جو ذہن میں ٹکراؤ کے اور میدان ہیں اگر گنواؤں تو مزید دس بارہ موضوعات کا ذکر کر سکتا ہوں، لیکن اگر ہم بیٹھ کر غور کریں، اگر ہم اور آپ دھیان دیں تو بیس تیس اہم اختلافی مسائل کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس بنیادی مسئلے کی جانب جو میرے پیش نظر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور استکبار کے درمیان شدید ٹکراؤ کا ایک اور موضوع نوجوانوں سے متعلق ہے۔ نوجوانوں کا مسئلہ ہے۔ آج نوجوانوں کے معاملے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکا، اس کے ہم نواؤں اور صیہونیوں کی بڑی وسیع سرد جنگ جاری ہے۔ میں نے چند سال پہلے طلبہ سے اپنے خطاب میں آپ یعنی نرم جنگ کے افسران سے (3)، آپ سب نرم جنگ کے افسران ہیں، میں یہ عرض کر چکا ہوں۔ اگر نوجوان کے اندر جذبات موجزن ہیں، خود اعتمادی ہے، تفکر و تدبر کی قوت ہے، شجاعت کا جذبہ ہے تو وہ افسر ہے۔ نرم جنگ کا افسر ہے، یہ نوجوان کی خصوصیت ہے۔
اب آپ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ کی پسندیدہ شناخت رکھنے والے افسر کا مقابلہ اسلامی جمہوریہ کے دشمن کو مطلوب تشخص والے افسر سے کیجئے اور دیکھئے کہ کیا شکل سامنے آتی ہے۔ ہماری بحث اس وقت نرم جنگ کے بارے میں ہو رہی ہے جو باقاعدہ عسکری تصادم سے زیادہ خطرناک ہے۔ کبھی کبھی ہمیں فوجی حملےاور بمباری وغیرہ کی بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں، لیکن یہ ان کی کوری حماقت ہے۔ یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے، ان کی اتنی اوقات نہیں ہے۔ ان کے پاس ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہے اور اگر انھوں نے حملہ کیا تو منہ کی کھائیں گے۔
البتہ نرم جنگ کے امکانات بیشک موجود ہیں، بلکہ یہ جنگ اس وقت بھی جاری ہے۔ فریق مقابل اس وقت بھی حملے کر رہا ہے اور ادھر ہم بھی کارروائی میں مصروف ہیں، اب ہماری یہ کارروائی اقدامی ہے یا دفاعی یہ ایک الگ بحث ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ ہماری طرف سے بھی صرف دفاع کے بجائے حملہ بھی ہونا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ دفاعی مراکز کو بھی محفوظ رکھنا چاہئے۔ تو ایک جنگ جاری ہے۔ اس نرم جنگ کو آپ باقاعدہ عسکری ٹکراؤ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ان حالات سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو اس وقت شام، عراق یا یمن اسی طرح دوسری جگہوں پر ہیں۔ یہ جنگیں جو آج ہو رہی ہیں، یا مقدس دفاع کے دوران جو جنگ تھی، اس وقت آٹھ سال تک ایران میں جنگ رہی۔ جنگ کے ان حالات میں آپ ایک افسرے کے بارے میں سوچئے جو اپنی چھاونی میں یا اپنے بنکر میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ افسر دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ اس افسر کا دو طرح کا تشخص ہو سکتا ہے، اس کی دو طرح کی تعریفیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ پرعزم، ہوشیار، جوش و جذبے سے سرشار، بلند ہمت، محنتی، صاحب فکر، شجاع اور فداکار ہو۔ اگر ان خصوصیات اور اوصاف کا افسر چھاونی یا بنکر میں موجود ہے تو اس جنگ کے ممکنہ نتیجے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ افسر شجاع ہے، ذی فہم ہے، صاحب فکر ہے، ایمان، امید اور عزم و جزم رکھتا ہے۔ یہ الگ انداز کا افسر ہے۔ اسی طرح ایک الگ انداز کا افسر بھی ہو سکتا ہے، جس کی الگ شخصیت اور الگ تشخص ہے۔ مثال کے طور پر وہ ایسا آدمی ہے جس پر مایوسی طاری ہے، یعنی وہ سوچتا ہے کہ لڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، کہتا ہے کہ ہم بلا وجہ یہاں محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں، کوئی فائدہ نہیں ہے، ناامیدی میں مبتلا ہے۔ یا وہ کوئی ایسا انسان ہے جو بہ آسانی ہتھیار ڈال دینے والا ہے، مزاحمت کرنے اور استقامت دکھانے کا حوصلہ نہیں رکھتا، ممکن ہے کہ تھوڑی دیر مقابلہ کرے لیکن جب دباؤ بڑھ جائے تو ہتھیار ڈال دینے میں عافیت سمجھے، اس طرح کا مزاج رکھتا ہو۔ یا فریب کھا جانے والا انسان ہو۔ دشمن اگر مسکرا کر بات کر لے تو اس پر فورا فریفتہ ہو جائے۔ فریب میں آکر بھروسہ کر بیٹھے، سمجھ ہی نہ پائے کہ اسے دھوکا دیا جا رہا ہے۔ جنگ فریب اور دھوکے سے بھری ہوتی ہے۔ ساری جنگوں میں یہی ہوتا ہے؛ اَلحَربُ خُدعَة (۴)، انھیں عسکری مقابلہ آرائیوں میں ایک بنیادی کام جو مقتدر کمانڈر ہی انجام دے پاتا ہے، یہ ہے کہ کسی کارروائی سے، کسی اقدام سے دشمن کو دھوکا دے۔ دشمن کو یہ محسوس ہو کہ اس جگہ سے حملہ ہونے والا ہے، اس کی توجہ اسی جانب مرکوز ہو اور پھر پیچھے سے زوردار حملہ کیا جائے۔ اب اگر یہ افسرا ایسا ہے جو آسانی سے دھوکا کھا جائے، دشمن کے فریب کو سمجھ نہ پائے، پہچان نہ سکے۔ یا حوصلہ ہارا ہوا انسان ہے۔ بس چاہتا ہے کہ کوئی گوشہ عافیت مل جائے اور وہ وہیں سکون سے سو جائے۔ منشیات کا عادی ہے، شہوانی خواہشات کا اسیر ہے، یا اسے ان کمپیوٹر کھیلوں کا نشہ ہے جو آج کل بہت رائج ہو گئے ہیں، میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس کا بھی نشہ ہو جاتا ہے، اسے نہ اپنی فکر ہے اور نہ ان لوگوں کی جنھوں نے اس کے وجود سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ یا محاذ میں بیٹھ کر عیش و عشرت میں مصروف ہے۔ ایسے بھی افسر ہو سکتے ہیں۔ مگر اس صورت میں جنگ انجام کیا ہوگا؟ بالکل واضح ہے۔ جنگ کے افسروں کی دو طرح کی تعریفیں ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی دشمنوں اور ہمارے درمیان اختلاف کا بڑا اہم مسئلہ ہے۔
دشمن کی مرضی ہے کہ ہمارے جنگ کے افسران کسی اور طرح کے ہوں جبکہ اسلامی جمہوریہ الگ فکر و مزاج کے افسران کی خواہشمند ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں یہ جو دینداری، پاک دامنی، پارسائی اور پرہیزگاری پر اتنی زیادہ تاکید کی جاتی ہے، اسے رجعت پسندی اور بنیاد پرستی وغیرہ پر محمول نہ کیا جائے۔ ہرگز نہیں، یہ تربیت کی روش ہے۔ یہ نرم جنگ کے افسر کی تعریف سے ماخوذ ہے۔ یہ امریکا سے ہمارے ٹکراؤ کا ایک میدان ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں وہ شجاعت نہ ہو، وہ جذبہ امید نہ ہو، وہ حوصلہ و ہمت نہ ہو، وہ تحرک اور جذبہ عمل نہ ہو، وہ جسمانی توانائی نہ ہو، وہ فکری استعداد نہ ہو، وہ اپنے دشمن کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہو جائیں، اپنے فوجیوں اور اپنی سپورٹ کو کمزور اور بے لیاقت تصور کرنے لگیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہمارے افسران ایسے ہوں۔ ریڈیو، ٹیلی ویزن اور انٹرنیٹ کی مدد سے دشمن کے پروپیگنڈے اور گوناگوں سرگرمیوں کا مقصد یہی ہے۔ ان کے حملوں کی آماجگاہ ہمارے نوجوان ہیں۔ ایرانی نوجوان کو وہ ایسے عناصر میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں جس کے اندرہ نہ صحیح جذبہ ایمانی ہو، نہ یہ شجاعت ہو، نہ جوش و جذبہ ہو، نہ امید و نشاط ہو، ایسا بنا دینا چاہتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ اس کے بالکل برخلاف سمت میں ہے۔ اسلامی جمہوریہ چاہتی ہے کہ یہ نوجوان فعال اور اثرانگیز بنے۔
یہاں آپ عزیزوں سے، اپنے پیارے بچوں سے میری گزارش ہے؛ آپ کردار ادا کیجئے، اپنے ہم عمر نوجوانوں کو، ہائی اسکول کے اپنے ساتھیوں کو، اس تعریف کے مطابق ڈھالئے اور ایسا بننے میں ان کی مدد کیجئے۔ یہ اسلامی انجمنوں کا فریضہ ہے۔ ظاہر ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب آپ خودسازی میں اور خود کو سنوارنے میں پہلے کامیابی حاصل کر چکے ہوں گے۔ بحمد اللہ جیسا کہ ابھی جناب الحاج علی اکبری نے فرمایا، میں واقعی آپ کی رپورٹ سے بہت خوش ہوا، کم و بیش اسی طرح کی رپورٹ میرے پاس تھی، مجھے اطلاع تھی، لیکن آپ نے آج یہاں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا، کافی حد تک ایسا ہی ہے۔ تو آپ خود سازی بھی کیجئے اور دوسروں کو بھی سنوارئے۔ یہ فریضہ صرف آپ اسکولی طلبہ کی اسلامی انجمنوں تک محدود نہیں ہے، یونیورسٹی طلبہ کی اسلامی انجمنوں کا بھی یہ فریضہ ہے۔ جہاں کہیں بھی اسلامی انجمن، خواہ وہ اسکولی بچوں کی ہو یا یونیورسٹیوں کے طلبہ پر مشتمل ہو، اگر ان مذکورہ اوصاف اور شمائل والے نوجوانوں کی تربیت کے بجائے، برعکس سمت میں کام کرے، یا تربیت میں کوتاہی برتے تو اس نے گویا اپنے فریضے کے برخلاف عمل کیا ہے۔ اس نے اللہ کی مرضی کے برخلاف عمل کیا ہے۔ دعائے مکارم الاخلاق میں انسان اللہ تعالی سے درجنوں چیزوں کی التجا کرتا ہے جو بڑی اہم ہیں۔ منجملہ؛ وَ استَعمِلنی لِما تَسأَلُنی غَدًا عَنه (۵) مجھے ایسے کاموں میں مصروف کر دے جن کے بارے میں روز قیامت تو مجھ سے سوال کرے گا۔ ہم سب کو جواب دینا ہے، ہم سب جوابدہ ہیں۔ آپ نوجوان ہیں، ہم بوڑھے ہیں، لیکن جواب سب کو دینا ہے۔ نوجوان بھی بوڑھوں کی مانند جوابدہ ہیں، کوئي فرق نہیں ہے۔ آپ محنت کیجئے، یونین کی کوشش یہ ہونا چاہئے کہ اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ نوجوانوں تک پہنچائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلامی انجمنوں کی تعداد بڑھائيے، بلکہ اپنی تبلیغ اور اطلاع رسانی اور نوجوانوں پر اسلامی انجمنوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ کیجئے۔ ممکن ہے کوئی نوجوان، انجمن میں شامل نہیں ہے اور آئندہ بھی شامل نہیں ہونا چاہتا، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلامی انجمنوں کو اس انداز سے کام کرنا چاہئے کہ ان کی بات سننے والوں کی تعداد بڑھے۔ لوگوں پر ان کی بات کا اثر ہو۔ اثر پیدا کرنے کا طریقہ یہی ہے جو میں نے عرض کیا، یعنی اسلامی نوجوان کی شخصیت و تشخص کی اس طرح سے تعمیر جس طرح اسلامی جمہوریہ چاہتی ہے۔ جس طرح اسلامی جمہوریہ تعریف کرتی ہے، اس طرح نہیں جو امریکا اور صیہونی سرمایہ داروں کو پسند ہے۔ یہ فریضہ ہے۔ یہ کام آپ توجہ سے کیجئے۔ مجھے یونین کے پروگراموں کی اطلاع ہے۔ مجھے رپورٹ بھی سونپی گئی، میں نے اسے دیکھا۔ رپورٹ بھی اچھی تھی۔ پروگرام بھی اچھے تھے، لیکن اس کی روز بروز تقویت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے معیار اور اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہونا چاہئے۔
ملک کو آپ کی احتیاج ہے۔ ملک کو ان دسیوں لاکھ اسکولی اور یونیورسٹی طلبہ کی شدید ضرورت ہے جو ملک میں موجود ہیں۔ ہمیں مومن، وفادار، پرامید، پرعزم، فعال اور اختراعی صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ ملک کو اور ملک کے مستقبل کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی عمر 37 سال ہو چکی ہے اور 37 سال کے اس عرصے میں دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ یہ بالکل صحیح ہے، لیکن؛
«دشمن نتوان حقیر و بیچاره شمرد»؛(6)

دشمن نے دراز مدتی منصوبے بنا رکھے ہیں۔ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ پچاس سال بعد کے لئے، مثلا میں نے تین چار سال قبل کہا تھا (7) کہ پچاس سال بعد کے لئے علمی میدان میں ہمارا منصوبہ یہ ہے۔ یعنی ہم پچاس سال بعد کے بارے میں ابھی سے غور و فکر کر رہے ہیں۔ دشمن بھی پچاس سال بعد کے لئے ابھی سے فکر میں لگا ہوا ہے۔ اس کی بھی کوششیں جاری ہیں۔ وہ بھی اسی فکر میں لگا ہوا ہے کہ کس طرح اس لہر کو، جو ایران کے اندر محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا تسلسل قائم رہا اور مختلف جگہوں پر، مختلف شکلوں میں پھیلتی جا رہی ہے، دبا دیا جائے۔ دشمن کی اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دینا ہے۔ یہ کام کون کرے گا؟ آپ کریں گے۔ آپ نوجوانوں کو یہ کام انجام دینا ہے۔ مستقبل آپ کا ہے۔ آپ حقیقی معنی میں خود سازی بھی کیجئے، ثابت قدم رہئے۔ کل آپ یونیورسٹی میں قدم رکھیں گے، یونیورسٹی میں پہنچنے کے بعد آپ کے دینی و انقلابی تشخص کو تقویت ملنی چاہئے، اس میں کمزوری نہیں آنا چاہئے۔ بعض نوجوان ایسے ہوتے ہیں کہ یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے تک کسی اور وضع قطع میں رہتے ہیں اور یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہی بالکل بدل جاتے ہیں۔ انقلابی تشخص میں استحکام پیدا ہونا چاہئے۔ یونیورسٹی بھی اسلامی دانشگاہ ہے، یونیورسٹی بھی اسلام سے متعلق ہے، انقلاب سے متعلق ہے، اسی مسلمان ملت سے متعلق ہے۔ یہ تشخص اسی طرح قائم رہنا چاہئے، ثبات قدم پیدا ہونا چاہئے۔ ثبات قدم بہت ضروری ہے۔
آپ کا باہمی رابطہ بھی ہرگز نہیں ٹوٹنا چاہئے۔ اس وقت انجمنوں کے درمیان رابطہ ہے۔ یہ رابطہ ہرگز منقطع نہیں ہونا چاہئے۔ اس رابطے کو قائم رکھنے کی کوشش کیجئے۔ اس مبارک اتصال کو، اس رابطے کو اس وقت بھی اور مستقبل میں یونیورسٹی یا کہیں اور جانے کے بعد بھی قائم رکھئے۔ «وَ تَواصَوا بِالحَقِ‌ّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر» (8) کے مصداق بنئے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہئے۔ جیسے کوہ پیمائی کرنے والے خطرناک جگہوں پر پہنچنے پر رسی کمر سے باندھ کر ایک دوسرے سے متصل ہو جاتے ہیں، کہ اگر کسی کا پیر پھسلے تو وہ نیچے نہ گر جائے۔ اگر سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں، رسی سے بندھے ہوئے ہوں، ایسے میں کسی ایک کا پاؤں لڑکھڑایا تو دوسرے ساتھی جن کے پاؤں نہیں پھسلے ہیں، اسے بھی گرنے سے بچا لیں گے، اوپر کھینچ لیں گے۔ رابطہ اور اتصال کا یہ فائدہ ہوتا ہے۔ تَواصَوا بِالحَقِ‌ّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر، راہ حق پر گامزن ہونے کی بھی ایک دوسرے کو سفارش کیجئے اور صبر و تحمل کی بھی نصیحت کیجئے۔ صبر یعنی استقامت، پائیداری، ثابت قدمی، تلخ حوادث کا سامنا ہونے پر بھی پاؤں کا نہ ڈگمگانا، نہ لرزنا، شک و تردد میں نہ پڑنا۔ یہ آپ کے لئے ہمارے معروضات تھے۔
حکام کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کو اس وقت دیندار سربراہ ملا ہے۔ یہ بڑا اچھا موقع ہے اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ جب کسی ادارے کی قیادت کی سطح پر دینداری ہو تو بہت سے اچھے کام انجام دئے جا سکتے ہیں۔ ان بچوں نے، میرے ان دو عزیز بچوں نے، اس بچی اور اس بچے نے بڑی اچھی باتیں کیں۔ یعنی جن نکات کے بارے میں انھوں نے یاددہانی کرائی وہ واقعی بہت اہم نکات ہیں۔ میں اپنے دفتر سے بھی اور تعلیم و تربیت کے شعبے سے بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ ان نکات کو نوٹ کریں اور ان کے سلسلے میں کام کریں۔ میں جو عرض کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تو اسکولی طلبہ کو یعنی صرف اسلامی انجمنوں کو نہیں، سارے طلبہ کو انقلابی کاموں کی انجام دہی کا موقع دیا جائے۔ تعلیم و تربیت کے عمل کو، خاص طور پر تعلیمی نظام الاوقات کو اس طرح تیار کریں کہ ہمارے طالب علم کا سارا وقت، ساری انرجی اور ساری توانائی و استعداد اور فکری و جسمانی قوت ان کتابوں کے اوراق پر صرف نہ ہو جائے۔ کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ طالب علم کی ساری فکری و جسمانی توانائی انھیں کتابوں پر صرف ہو رہی ہے، اس کے پاس نہ تو تفریح کا موقع ہے، نہ کھیل کود کا وقت ہے، نہ انقلابی کام انجام دینے کی فرصت ہے۔ یہ غلط ہے۔ ایسا پروگرام بنایا جائے کہ طالب علم کو وقت ملے۔ البتہ یہ ایک دو دن کا کام نہیں ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے ایک دو دن میں یہ کام نہ ہو پائے لیکن بہرحال اس کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔ بچوں کو انقلابی بنائیں، انھیں انقلابی کام انجام دینے کا موقع دیں۔ انقلابی انداز میں سوچنے کا موقع دیں۔ یہ تو رہی ایک بات۔
دوسری بات یہ ہے کہ طلبہ کی دیانتدار تنظیموں کو پلیٹ فارم مہیا کرائیے۔ جیسے یہی اسلامی انجمنیں ہیں، یا یہی یونین ہے، یہ بھی تنظیمیں ہیں۔ یہ دیندار اور دیانت دار تنظیمیں ہیں۔ اسی طرح رضاکار طلبہ کی تنطیم ہے۔ یہ بھی ایک تنظیم ہے۔ یہ بھی دیانتدار تنظیم ہے۔ انھیں پلیٹ فارم دیا جانا چاہئے تاکہ وہ کام کر سکیں۔ انھیں موقع دیں، انھیں وسائل فراہم کریں۔ جیسا کہ ان بچوں نے یہاں کہا؛ انھیں مادی وسائل اور فکری و روحانی امکانات فراہم کرائے جائیں، انھیں کام کا میدان دیا جائے۔ ان کی قدر کی جائے۔ جو جذبہ آپ کے اندر موجود ہے، اگر ہم اسے پیسے سے اور پروپیگنڈے کے ذریعے پیدا کرنا چاہتے تو ہرگز ایسا ممکن نہیں تھا۔ خواہ؛ لَو اَنفَقتَ ما فِی الاَرضِ جَمیعًا مآ اَلَّفتَ بَینَ قُلوبِهِم (9) میں بھی یہی عرض کروں گا کہ اگر ہم ساری دولت خرچ کر دیتے تب بھی ہم یہ عزائم، یہ جوش و جذبہ، یہ توانائی اور یہ شوق و دلچسپی پیدا نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تو اندر سے جاری ہونے والا چشمہ ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے۔ دلوں پر اللہ کا اختیار ہوتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ہمیں اس کی قدر و قیمت سمجھنا چاہئے۔ ہمارے طلبہ میدان میں اترے ہیں، خواہ اسلامی انجمنوں کی شکل میں یا رضاکار طلبہ کی شکل میں، وہ اللہ کے لئے، انقلاب کے لئے اور ملک کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں موقع دینا چاہئے، ان کی مادی و فکری اعتبار سے مدد کرنا چاہئے۔
تیسرا نکتہ؛ بعض اسکولوں میں، جیسا کہ آج بھی ہمارے ایک دو عزیز نوجوانوں نے بتایا اور مجھے بھی اطلاعات ملی تھیں، میں پہلے بھی سن چکا ہوں کہ انقلابی سرگرمیوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر بچے 11 فروری (اسلامی انقلابی کی سالگرہ کی تاریخ) کے لئے کوئی پروگرام رکھنا چاہتے ہیں، اس کی تیاری کر رہے ہیں، منصوبہ بندی کر رہے ہیں، لیکن اسکول کے عہدیداران تعاون کرنے کے بجائے بہانہ جوئی کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو باقاعدہ منع کر دیتے ہیں۔ اس قسم کے رجحان کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ بچوں کو چاہئے کہ اپنا درس وہ بخوبی پڑھیں، بہترین انداز میں پڑھیں، میں تعلیم و تعلم کی ہمیشہ حمایت کرتا رہا ہوں، یہ آپ بھی جانتے ہیں، لیکن پڑھائي لکھائی کے ساتھ یہ انقلابی سرگرمیاں بھی انجام دی جانی چاہئے۔
میرے عزیزو! ہمارے ملک کا نوجوان امید افزا ہے، ہمارے ملک کے نوجوانوں کا ماحول امید بخش ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے ان مٹھی بھر نوجوانوں کی اطلاع نہ ہو جو غلط راستے پر نکل جاتے ہیں، برے افعال انجام دیتے ہیں، مجھے اس کی بھی خبر ہے، لیکن مجموعی طور پر جب میں ملک کے نوجوانوں کے ماحول کو دیکھتا ہوں تو اللہ تعالی کا شکر بجا لاتا ہوں۔ انحراف اور گمراہی کے اتنے محرکات و اسباب کے باوجود دشمن کے اس وسیع محاذ اور نوجوانوں پر اس محاذ کی خاص نظر کے باوجود ہمارے پاس نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو مومن، دیندار، انقلابی، اہل مناجات اور روحانی عشق سے آراستہ ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ بہت بڑی بات ہے۔ ان میں قرآن سے مانوس نوجوان ہیں، اعتکاف میں نظر والے نوجوان ہیں، اربعین کے موقع پر پیدل سفر کرنے والے نوجوان ہیں، انقلاب کے میدانوں میں ڈٹے رہنے والے نوجوان ہیں جو مظہر انقلاب ہیں۔ یہ بڑی باعظمت چیز ہے۔ اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ دشمن ان ساری چیزوں کا مخالف ہے۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ دشمن کو تاحال اسلامی جمہوریہ کے خلاف شکست پر شکست ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اسے آپ پورے یقین سے دل میں بٹھا لیجئے۔ دشمن کو اب تک ہزیمت ہی ہوئی ہے۔ میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہوں۔ اس کے دلائل اور ثبوت بالکل سامنے ہیں۔ اس کے دلائل ایسے پیچیدہ اور غیر واضح نہیں ہیں کہ سمجھ میں نہ آئیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور اسلامی نظام کی تشکیل عمل میں آئی تو روز اول سے ہی دشمن طاقتوں کی یہی نیت تھی کہ اس نظام کو مٹا دینا ہے یا کم از کم اتنا تو ضرور کرنا ہے کہ یہ نظام ترقی نہ کر سکے۔ مگر آج سینتیس سال ہو رہے ہیں اور اسلامی نظام روز بروز ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ روز بروز اس کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ آج تناور درخت بن چکا ہے، اس میں کونپلیں اور پھل لگے ہیں اور دشمن کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
اب تک وہ کچھ نہیں کر پایا۔ یہ صرف ہمارے ملک کی بات نہیں ہے۔ آپ عالم اسلام میں دیکھئے کہ لبنان اور فلسطین میں مجاہد و مومن نوجوانوں کے خلاف دشمن طاقتوں نے کیا نہیں کیا لیکن ان کا کیا بگاڑ لیا؟ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف انھوں نے کیسا زہریلا پروپیگنڈا کیا اور کیسے کیسے اقدامات انجام دئے، دھمکیاں دیں، دھمکیوں کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن حزب اللہ آج عالم اسلام میں اپنا وجود ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ کوئی بدعنوان، کھوکھلی اور دوسروں پر منحصر حکومت کسی بیان میں پیسے اور پیٹرو ڈالر کی وجہ سے حزب اللہ کی مذمت کر دیتی ہے، تو اس کی کیا حیثیت ہے، جہنم میں جائے ایسا بیان۔ حزب اللہ تو وہاں خورشید درخشاں کی مانند اپنی روشنی بکھیر رہی ہے۔ حزب اللہ ساری دنیائے اسلام کے لئے باعث افتخار ہے۔ حزب اللہ لبنان کے جوانوں پر پورے عالم اسلام کو فخر ہے۔ انھوں نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو تین عرب ملکوں کی افواج دو تین جنگوں میں نہیں کر پائیں۔ ان جوانوں نے اسرائیل کو شکست کا مزہ چکھایا۔ اسرائیل کو ہزیمت سے دوچار کرنے سے قبل کم از کم دو جنگوں میں، پہلی جنگ میں تو سارے ممالک شریک نہیں تھے لیکن بعد کی دو جنگوں میں مصر، اردن اور شام کی افواج اسرائیل کے مقابل صف آرا ہوئی تھیں لیکن انھیں شکست ہوئي۔ تین ملکوں کی فوجیں جن میں مصر جیسے ملک کی طاقتور فوج بھی شامل تھی اسی طرح شام کی فوج بھی شامل تھی جو طاقتور فوج تھی، اسی طرح اردن کی فوج بھی اسرائیل کے سامنے صف آرا ہوئي مگر اس عسکری تصادم میں انھیں شکست ہوئی۔ مگر یہی صیہونی حکومت بعد میں جب اس کی طاقت اور بھی بڑھ چکی تھی، تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی۔ یہ معمولی بات ہے؟ یہ کچھ کم ہے؟ اگر ہم کہتے ہیں کہ حزب اللہ سارے عالم اسلام کے لئے باعث افتخار ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟ اب اگر کسی جگہ کاغذ کا کوئی ٹکڑا حزب اللہ کی مذمت میں جاری ہوتا ہے تو ہوتا رہے، اس کی حیثیت کیا ہے؟
حقیقت نمو کے مراحل طے کر رہی ہے، حقیقت ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ حقیقت ممکن ہے کہ اپنے سفر میں سختیوں سے دوچار ہو جائے، لیکن سر انجام فتح اسی کی ہوتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے؛ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذهَبُ جُفآء؛ پانی کے اوپر نظر آنے والے کف کی ظاہر شکل تو پرکشش ہوتی ہے۔ دریا میں آپ دیکھتے ہیں کہ پانی کی لہروں کے ٹکراؤ سے کف پیدا ہو جاتا ہے، لیکن یہ پائيدار نہیں ہوتا۔ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذهَبُ جُفآء، پانی کے اوپر نظر آنے والا یہ کف ختم ہو جاتا ہے، مٹ جاتا ہے۔ وَ اَمّا مایَنفَعُ النّاسَ فَیمکُثُ فِی الاَرض (10) جو چیز انسانوں کی زندگی کے لئے اہم ہے، یعنی آب رواں، صاف و شفاف پانی وہ باقی رہتا ہے۔ حقیقت کا بھی یہی عالم ہے۔ حقیقت کی فتح ہوتی ہے۔ حقیقت اپنے اہداف تک پہنچتی ہے۔ بیشک اس کے راستے میں رکاوٹیں تو ہوتی ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ان رکاوٹوں کو دیکھ کر ہمت نہ ہاری جائے۔ حقیقت کا سپاہی اور محاذ حقیقت کا افسر ان مشکلات کے سامنے مضطرب نہیں ہوتا، اگر وہ نہیں گھبرایا، بلکہ ڈٹ گیا، مشکلات برداشت کیں تو یقینا اسے نتیجہ ملے گا۔ چنانچہ پہلے بھی نتیجہ مل چکا ہے، صدر اسلام میں، جہاں بھی استقامت و پامردی تھی نتیجہ ملا۔ آج ہمارے اس زمانے میں بھی جب مادیت کا غلبہ ہے، یہی صورت حال موجود ہے۔
میرے عزیزو! حقیقت آپ کا سرمایہ ہے، آپ حقیقت کے راہگیر ہیں۔ مستقبل آپ کا ہے، ان شاء اللہ وہ دن آئےگا جب آپ کی اس استقامت کی برکت سے مشکلات ختم ہو چکی ہوں گی، بہت کم ہو چکی ہوں گی، بتدریج حل ہو چکی ہوں گي اور آپ بام ثریا پر کھڑے نظر آئیں گے۔ جو بچے یہاں نہیں آئے ہیں انھیں ہمارا سلام کہئے۔ یہ جو تجویز دی گئی کہ یہ نشست ہر سال منعقد کی جائے تو میں تاریخ تو نہیں بتا سکتا لیکن میری طرف سے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ میں جتنا زیادہ آپ سے ملوں گا، میرے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس ملاقات میں طلبہ کی اسلامی انجمنوں کی یونین میں ولی امر مسلمین کے نمائندہ حجت الاسلام الحاج علی اکبری نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) اہلبیت (علیہم السلام) عالمی اسمبلی اور اسلامی ریڈیو ٹیلی ویزن یونین کے ارکان سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 17 اگست 2015 کا خطاب
۳) طلبہ سے مورخہ 6 اگست 2012 کا خطاب
۴) کافی، جلد ۷، صفحہ ۴۶۰
۵) صحیفه‌ سجّادیّه، بیسویں دعا (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
6) سعدی. گلستان، باب اوّل‌
7) منحملہ ملک کے الیٹ نوجوانوں کی ساتویں قومی کانفرنس کے شرکا سے مورخہ 9 اکتوبر 2013 کا خطاب
8) سوره‌ والعصر، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ «اور ایک دوسرے کو حق اور صبر و تحمل کی سفارش کی۔»
9) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۳ کا ایک حصہ «اگر روئے زمین پر جو کچھ ہے سب صرف کر دیتے تب بھی تم ان کے دلوں میں محبت نہیں ڈال سکتے تھے۔»
10) سوره‌ رعد آیت نمبر ۱۷ کا ایک حصہ