بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحیم‌

آٹھویں امام حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقعے پر حضرت کے روضہ اقدس کے پاکیزہ جوار میں امام کی زندگی پر علمی کانفرنس کا انعقاد ائمہ معصومین علیہم السلام کی تابناک شخصیتوں پر روشنی ڈالنے اور ان عظیم پیشواؤں کی پرمحن اور مجاہدانہ زندگی کو متعارف کرانے کی سمت میں اہم قدم ہے۔ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ائمہ علیہم السلام کی زندگی کو ہم کما حقہ پہچان نہیں سکے ہیں اور ان کے انتہائی دشوار جہاد کا مقام و مرتبہ شیعوں کی نظر سے بھی ہنوز پوشیدہ ہے۔ ائمہ علیہم السلام کی زندگی پر ہزاروں چھوٹی بڑی اور قدیم و جدید کتب ضبط تحریر میں آ چکی ہیں لیکن آج بھی ان عظیم ہستیوں کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پردے میں ہے۔ خاندان نبوت کی نمایاں ترین ہستیوں کی سیاسی زندگی جو تاریخ اسلام کے انتہائی حساس ڈھائی سو سالہ دور کا احاطہ کئے ہوئے ہے بہت سے محققین اور مصنفین کی بے توجہی، کج فہمی یا تعصب کا نشانہ بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان عظیم پیشواؤں کی نشیب و فراز سے پر زندگی کے بارے میں باقاعدہ مدون شدہ تاریخچہ سے ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ امام ہشتم کی زندگی اس عظیم اور فیصلہ کن دور کی بیس سالہ مدت کا احاطہ کرتی ہے جو اس دور کا بڑا نمایاں باب ہے۔ لہذا بہت مناسب ہے کہ اس کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کیا جائے۔
ائمہ کی زندگی میں جس اہم ترین چیز پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی وہ ان کی پرزور سیاسی جدوجہد ہے۔ پہلی صدی ہجری کے دوسرے نصف کے آغاز سے جب اسلامی خلافت پر با قاعدہ شہنشاہیت کا رنگ چڑھ گیا اور اسلامی حکومت جابرانہ بادشاہت میں تبدیل ہو گئی، ائمہ علیہم السلام نے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی سیاسی جد و جہد کو تیز کر دیا۔ اس جدوجہد کا سب سے بڑا مقصد اسلامی نظام کی تشکیل اور امامت کے محور پر حکومت کا قیام تھا۔ خاندان وحی کے خاص نقطہ نگاہ کی بنیاد پر دین کی تفسیر و تشریح، اسلامی تعلیمات و احکامات سے تحریف اور کج فہمی کی گرد و غبار کو جھاڑنا، اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے جہاد کا اہم ہدف تھا لیکن مصدقہ اور مسلمہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کا جہاد اسی ہدف تک محدود نہیں تھا۔ ائمہ کا بنیادی ہدف علوی حکومت کی تشکیل اور عادلانہ اسلامی نظام کا قیام تھا۔ اسی آخر الذکر ہدف کی وجہ سے ائمہ اور آپ کے اصحاب خاص کی زندگی سختیوں اور دشواریوں سے پر نظر آتی ہے۔ ائمہ علیہم السلام نے واقعہ عاشورا کے بعد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے دور سے ہی اس ہدف کے لئے دراز مدتی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ واقعہ عاشورا سے امام ہشتم کی ولی عہدی کے زمانے تک کی ایک سو چالیس سالہ درمیانی مدت میں ائمہ علیہم السلام سے وابستہ حلقے یعنی شیعہ ہمیشہ خلافت کے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اس مدت میں بارہا سازگار حالات پیش آئے اور اہل تشیع کی تحریکیں جنہیں علوی تحریک کہنا چاہئے بڑی اور فیصلہ کن کامیابیوں کے قریب تک پہنچیں، لیکن ہر دفعہ کسی نہ کسی رکاوٹ سے حتمی فتح نہ مل سکی۔ عام طور پر یہ ہوتا رہا کہ تحریک کے اصلی ترین محور و مرکز یعنی زمانے کے امام پر حملہ ہو جاتا تھا اور انہیں پابند سلاسل کر دیا جاتا تھا یا زہر دغا سے شہید کر دیا جاتا تھا۔ پھر جب بعد والے امام کا زمانہ شروع ہوتا تو دباؤ اور سختی اتنی بڑھا دی جاتی کہ تحریک کا مقدمہ تیار کرنے کے لئے نئے سرے سے طویل مساعی کی ضرورت ہوتی تھی۔ ائمہ علیہم السلام نے حوادث کے ان طوفانوں میں بڑے شجاعانہ اور دانشمندانہ انداز سے تشیع کی چھوٹی لیکن انتہائی عمیق، تیز رفتار اور پائیدار تحریک کو خطرناک اور دشوار گزار نشیب و فراز سے گزارا۔ اموی اور عباسی خلفاء کسی بھی دور میں امام کو شہید کرکے اس تحریک کو نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور یہ تیز خنجر ہمیشہ نظام خلافت کے پہلو میں پیوست رہا اور دائمی خطرے کے طور پر خلیفہ کا چین و سکون سلب کرتا رہا۔ جب ہارون کی جیل میں برسوں کی قید کے بعد حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام کو زہر دیکر شہید کیا گیا، اس وقت اس عباسی خلیفہ کے پورے قلمرو میں سخت گھٹن کا ماحول تھا۔ اس طاقت فرسا گھٹن کے ماحول میں جس کے بارے میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ایک صحابی کا کہنا ہے کہ ہارون کی شمشیر سے خون ٹپکتا تھا، ہمارے عظیم الشان امام معصوم کا بڑا کارنامہ یہ رہا کہ کاروان تشیع کو خطرناک طوفان کے گزند سے صحیح و سالم باہر نکالا اور اپنے والد گرامی کے اصحاب اور جاں نثاروں کے حوصلے بلند رکھے۔ امام نے حیرت انگیز تقیہ کے ذریعے اپنی زندگی کی حفاظت کی جو شیعوں کے لئے روح اور محور کا درجہ رکھتی تھی اور بنی عباس کے خلفاء کے سب سے مضبوط دور میں بھی امام کی انتہائی عمیق جدوجہد کا سلسلہ رکنے نہیں دیا۔ تاریخ ہارون کے زمانے میں امام ہشتم کی دس سالہ امامت اور ہارون کے بعد کے پانچ سالہ دور کے بارے میں جس میں خراسان اور بغداد کے مابین داخلی جنگیں اوج پر رہیں، کوئی واضح تصویر نہیں پیش کرتی لیکن غور و تفکر کے ذریعے اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے کہ امام ہشتم نے اس دور میں بھی اہل بیت علیہم السلام کی اسی دراز مدتی اور دور رس جدوجہد کو جو عاشورا سے شروع ہوئی، انہیں اہداف اور مطلوبہ سمت کے تناظر میں آگے بڑھایا۔
جس وقت سنہ ایک سو اٹھانوے ہجری میں مامون کو امین کے ساتھ جنگ سے فرصت ملی اور خلافت پر بلا شرکت غیرے اس کا قبضہ ہو گیا تو اس نے سب سے پہلے اہل تشیع کی تحریک اور علوی جدوجہد کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ تمام سابقہ خلفاء کے تجربات اس کے پیش نظر تھے اور یہ تجربات اس تحریک کی گہرائی و گیرائی اور طاقت و قوت میں مسلسل اضافے اور تحریک کی بیخ کنی بلکہ اسے وقتی طور پر روکنے یا حتی محدود کرنے میں بھی حکومت کی ناتوانی و عاجزی کے غماز تھے۔ مامون نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ ہارونی سطوت و رعونت ساتویں امام کو طویل مدت تک عقوبت خانے میں محبوس کرکے اور سرانجام زہر سے شہید کرکے بھی شیعوں کی سیاسی، فوجی، تشہیراتی اور فکری تحریک کا قلع قمع نہیں کر سکی۔ اب حالات یہ تھے کہ مامون کے پاس اپنے باپ اور اس سے قبل کے خلفاء والی طاقت بھی نہیں تھی اور بنی عباس کے درمیان خانہ جنگی کے نتیجے میں عباسی حکومت سخت مشکلات و خطرات سے دوچار تھی تو ایسے میں علویوں کی تحریک پر زیادہ سنجیدگی سے توجہ دینا فطری تھا۔ مامون نے اپنی چالاکی سے اس خطرے کی گہرائی کو بھانپ لیا اور اس کے سد باب کے لئے کمربستہ ہو گیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مامون نے امام ہشتم کو مدینے سے خراسان بلایا اور آپ کے سامنے ولی عہدی کی جبری تجویز رکھی اور یہ واقعہ جو تاریخ امامت میں کم نظیر بلکہ عدیم المثال ہے، رونما ہوا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ حضرت کی ولی عہدی کے واقعے کا جائزہ لیا جائے۔ اس واقعے میں امام ہشتم ایک عظیم تاریخی آزمائش سے گزرے ہیں اور آپ نے خفیہ سیاسی معرکہ آرائی کا سامنا کیا ہے جس میں فتح یا ناکامی دونوں تشیع کی سرنوشت کے لئے انتہائی فیصلہ کن ثابت ہونے والی تھی۔
اس معرکہ آرائی میں جس فریق نے پہل کی اور تمام وسائل اور گوناگوں حربوں کے ساتھ میدان میں اترا تھا وہ عباسی خلیفہ مامون تھا۔ مامون نے بے حد چالاکی، منصوبہ بندی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھا۔ اگر وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو جاتا اور تمام امور اس کے منصوبے کے مطابق انجام پا جاتے تو یقینا اس مقصد کی تکمیل ہو جاتی جسے سنہ چالیس ہجری یعنی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنی تمام کوششوں کے باوجود کوئی بھی اموی یا عباسی خلیفہ پورا نہیں کر سکا تھا۔ یعنی مامون تشیع کے شجر طیبہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو جاتا اور طاغوتی حکومتوں کی آنکھ میں ہمیشہ کھٹکنے والا یہ کانٹا نکل جاتا۔ لیکن امام علی رضا علیہ السلام نے تدبیر الہی کی مدد سے مامون کے منصوبے پر پانی پھیر دیا اور اس سیاسی معرکہ آرائی میں جس کا آغاز مامون نے کیا تھا اسے بری طرح شکست دی۔ اس معرکے کے نتیجے میں تشیع کی نہ تو بیخ کنی ہوئی اور نہ اس میں کوئی کمزوری آئی بلکہ سنہ دو سو ایک ہجری قمری یعنی حضرت کی ولی عہدی کا سال تاریخ تشیع کے انتہائی کامیاب اور بابرکت برسوں میں سے ایک ثابت ہوا اور علوی تحریک میں نئی جان پڑ گئی۔ یہ سب امام ہشتم کی خداداد مدبرانہ کاوشوں اور حکیمانہ طرز عمل کا ثمرہ تھا جس کا مظاہرہ امام معصوم نے اس عظیم آزمائش کے وقت کیا۔
اس عجیب و غریب واقعے کی حقیقت کو بخوبی سامنے لانے کے لئے ہم مامون کی چالوں اور امام کی مدبرانہ حکمت عملی کی اجمالی تفصیل پیش کر رہے ہیں۔
امام علی رضا علیہ السلام کو مدینے سے خراسان بلانے کی مامون کی چال کے چند مقاصد:۔
اول: سب سے پہلا اور سب سے اہم مقصد شیعوں کی پر زور انقلابی جد وجہد کو بے خطر سیاسی سرگرمیوں میں تبدیل کرنا تھا۔ میں نے جیسا کہ عرض کیا، شیعہ تقیہ کے پردے میں بڑی پر زور اور ختم نہ ہونے والی لڑائی لڑ رہے تھے۔ اس جد و جہد میں بساط خلافت کو درہم برہم کر دینے والے دو انتہائی اہم عوامل تھے۔ ایک تھی مظلومیت اور دوسرے تقدس۔
شیعوں نے ان دونوں صفات پر تکیہ کرتے ہوئے شیعی نظریات کو جو اہل بیت پیغمبر کے نقطہ نگاہ سے اسلام کی تفسیر و تشریح سے عبارت تھے، اپنے مخاطب افراد کے دل و ذہن کی گہرائیوں تک پہنچایا اور ان افراد کو راغب اور گرویدہ کر لیا جن میں تھوڑی بھی رغبت اور صلاحیت تھی۔ اس کے نتیجے میں عالم اسلام کے اندر شیعوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ یہی مظلومیت اور تقدس کے صفات تھے جو شیعہ نقطہ نظر کی مدد سے جا بجا خلیفہ کے خلاف مسلحانہ بغاوت اور انقلابی جدوجہد کو جنم دیتے تھے۔ مامون نے سوچا کہ یکبارگی تمام جیزوں سے پردہ اٹھ جائے اور امام ہشتم کو میدان سیاست میں گھسیٹ کر اہل تشیع کی تحریک کی افادیت و تاثیر کو جو خفیہ طور پر پوری شدت سے آگے بڑھ رہی تھی ختم کر دے۔ مامون اس میں کامیاب ہو جاتا تو علویوں کی وہ دونوں کلیدی اور موثر خصوصیات بھی ختم ہو جاتیں۔ کیونکہ جس جماعت کا رہبر نظام خلافت کا ممتاز عہدیدار اور مطلق العنان بادشاہ کا ولی عہد اور امور مملکت میں خاص مقام کا حامل بن جائے وہ نہ تو مظلوم ہو سکتی ہے اور نہ ہی پاک و پاکیزہ۔ یہ چال شیعہ نقطہ نگاہ کو بھی ان بقیہ مکاتب فکر کے زمرے میں شامل کر سکتی تھی جو معاشرے کے گوشہ و کنار میں موجود تھے۔ اسی طرح اس مکتب فکر کو جو حکومت مخالف اور عوام بالخصوص مستضعفین کے لئے انتہائی پرکشش اور جاذب نظر نظر تھا، اس حالت سے خارج کر سکتی تھی۔
دوم: دوسرا مقصد تھا اموی اور عباسی خلافتوں کے غاصبانہ ہونے کے اہل تشیع کے دعوے پر خط تنسیخ کھینچنا اور ان خلافتوں کو صحیح اور برحق ثابت کرنا۔ مامون اپنی اس چال سے تمام شیعوں پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ مسلط شدہ خلافتوں کے غیر شرعی اور غاصبانہ ہونے کا دعوی جو شیعوں کے عقائد کا جز تھا بے بنیاد اور احساس حقارت کا نتیجہ تھا۔ اس لئے کہ اگر دوسری خلافتیں ناجائز اور ظالم و جابر تھیں تو مامون کی خلافت بھی جو ان کا جانشین تھا ناجائز اور غاصبانہ ہی ہوگی۔ اب اگر امام علی رضا علیہ السلام اس خلافت کا جز بن جاتے ہیں اور مامون کا جانشین بننا قبول کر لیتے ہیں تو گویا انہوں نے اس خلافت کو قانونی اور جائز مان لیا ہے نتیجتا تمام سابقہ خلافتوں کو بھی شرعی اور جائز تسلیم کرنا ہوتا اور یہ تمام شیعوں کے دعوے پر خط بطلان کھینچنے کے مترادف تھا۔ اپنے اس حربے سے مامون، حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے اپنی خلافت اور خلفائے سابق کی حکومت کا جواز ہی حاصل نہ کرتا بلکہ شیعوں کا یہ بنیادی عقیدہ بھی باطل قرار پاتا کہ سابقہ حکومتیں مستبد و ظالم تھیں۔ اسی طرح دنیا سے ائمہ علیہم السلام کی بے رغتبی و بے اعتنائی کا شیعوں کا دعوی بھی غلط ‎ثابت ہو جاتا اور یہ تاثر ملتا کہ حضرت صرف ایسے حالات میں جب حکومت سے محروم تھے زہد و پارسائی کا نمونہ تھے، اب جبکہ دنیوی جنت کے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں تو دوسروں کی مانند وہ بھی جھپٹ کر اس میں داخل ہو گئے ہیں اور اس موقعے کو گنوانا انہوں نے گوارا نہیں کیا۔
سوم: تیسرا مقصد یہ تھا کہ امام کو جو انقلاب اور جد و جہد کا محور تھے اپنی حکومت کے کنٹرول میں رکھا جائے اور حضرت کے ساتھ ہی تمام باغی علوی سرداروں اور رہنماؤں کو بھی اپنی مٹھی میں کر لیا جائے۔ یہ اتنی بڑی کامیابی ہوتی جو مامون سے پہلے بنی امیہ اور بنی عباس کے کسی بھی خلیفہ کو نہیں ملی تھی۔
چہارم: چوتھا مقصد یہ تھا کہ امام کو جو عوام الناس کی امیدوں کا قبلہ، تمام امور میں مرجع خلائق اور انتہائی مقبول عام ہستی تھے حکومتی اہلکاروں کے محاصرے میں لایا جائے اور رفتہ رفتہ انہیں حاصل قبول عام ختم ہو جائے اور رفتہ رفتہ عوام سے ان کی دوری بڑھے اور پھر ان سے عوام الناس کا جذباتی و احساساتی لگاؤ بھی ماند پڑ جائے۔
پنجم: پانچواں مقصد یہ تھا کہ مامون کو بھی روحانی مقام حاصل ہو جائے۔ یہ فطری امر تھا کہ اس زمانے میں لوگ مامون کی اس بات پر تعریف کرتے کہ اس نے فرزند رسول کو جو روحانی و معنوی شخصیت کے مالک ہیں اپنا ولی عہد چنا ہے اور اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو اس عہدے سے محروم رکھا ہے۔ یہ دنیا کا دستور رہا ہے کہ اگر اہل دین، دنیا پرستوں کے قریب ہو جاتے ہیں تو ان کے وقار اور مقبولیت میں کمی آ جاتی ہے اور دنیا پرستوں کی واہ واہی ہوتی ہے۔
ششم: مامون اس خیال میں تھا کہ امام اس کے ولی عہد بن جائیں گے تو اس کی خلافت کا دفاع کرنے لگیں گے۔ ظاہر ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام جیسی علمی و دینی ہستی اپنی اس عظمت و جلالت کے بعد اگر حکومت کے اندر رونما ہونے والی باتوں کی توجیہ اور دفاع کا کام کرتی تو کوئی بھی حکومت مخالف آواز اس حکومت کو داغدار ثابت نہیں کر سکتی تھی۔ یعنی یہ ایک ظریف جال تھا جو خلافت کی تمام پستیوں اور خطاؤں پر پردہ ڈال سکتا تھا۔
ان کے چھے مقاصد کے علاوہ بھی کچھ اہداف تھے جو مامون کے پیش نظر تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ روش اتنی پیچیدہ اور گہری تھی کہ مامون کے علاوہ کوئی بھی اس پر بخوبی عملدرآمد نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مامون کے قریبی افراد اور رشتے دار بھی اس کے تمام پہلؤوں اور مضمرات سے بے خبر تھے۔ بعض تاریخی حقائق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فضل ابن سہل بھی جو خلیفہ کا قریبی ترین عہدیدار اور وزیر تھا، اس سیاسی حربے کی حقیقت و ماہیت سے لاعلم تھا۔ مامون نے اس مقصد سے کہ اس کی اس گہری سیاسی چال کے اہداف کو کوئی نقصان نہ پہنچے اپنے اس اقدام کے لئے جعلی کہانیاں سنائیں اور بہانے تراشے اور لوگوں کو بتائے۔
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مامون کی یہ سیاست واقعی بہت گہری اور سوچی سمجھی تھی لیکن اس کے مقابلے میں دوسرے فریق کے طور پر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی مقدس ذات تھی۔ اسی لئے مامون کی شیطنت آمیز چالاکی اور اس کی پختہ و پہلو دار تدبیر بچکانہ کھیل بن کر رہ گئی۔ اتنی زحمتیں اٹھانے اور اس حربے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خاصا سرمایہ صرف کرنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ مامون اپنے مقصد کی برآری نہ کر سکا بلکہ اس کا یہ وار خود اسی پر پڑا۔ اس نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شخصیت اور وقار کو مجروح کرنے کے لئے جو تیر چلایا تھا وہ خود اس کے اپنے سینے میں پیوست ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑا ہی عرصہ گزرنے کے بعد وہ اپنی ساری سیاسی مہارت بھول کر اسی پست حرکت پر اتر آیا جو اس کے پیشرؤوں نے اپنائی۔ یعنی قتل! مامون نے خود کو دانشمند، مقدس اور مقبول عام خلیفہ کی حیثیت سے متعارف کرانے کے لئے جو محنت کی تھی، سیاسی چالیں چلی تھیں رائگاں گئیں اور وہ بھی سرانجام اسی کھائی میں گرا جس میں اس کے پیشرو خلیفہ گرے تھے۔ یعنی فساد، فحشاء، عیش و عشرت اور ظلم و تکبر کی کھائی میں۔
مامون نے تقوای و انصاف پسندی کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر پندرہ سال کا وقت گزارا لیکن امام علیہ السلام کو ولی عہد بنانے کے بعد کی کوتاہ مدت میں دسیوں مواقع ایسے آئے جب مامون کی ریاکاری کا پردہ چاک ہوا۔ جیسے یحیی بن اکثم جیسے فاسق و فاجر اور عیاش انسان کو قاضی القضاۃ کے طور پر منصوب کرنے کا موقعہ، اسی طرح اپنے منہ بولے چچا ابراہیم بن مہدی جیسے عیش پرست شخص کی ہمنشینی اور بغداد میں دار الخلافہ کے اندر عیش و نوش کی محفلوں کا اہتمام۔
اب ہم جائزہ لیں گے امام علی رضا علیہ السلام کی مدبرانہ سیاست کا جو حضرت نے اس مسئلے میں اختیار کی؛۔
1- جب امام علیہ السلام کو مدینہ منورہ سے خراسان کا سفر کرنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے اس پر ایسی کراہیت اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ آپ کے گرد و پیش رہنے والے تمام افراد کو یقین ہو گیا کہ مامون کسی بری نیت کے تحت امام کو مدینے سے دور کرنا چاہتا ہے۔ امام نے مامون کے سلسلے میں اپنی ناپسندیدگی سے حتی الامکان تمام لوگوں کو آگاہ کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے وقت، حرم پیغمبر سے الوداع کے موقعے پر اور اپنے اہل خاندان سے رخصتی کے موقعے پر، کعبے کے الوداعی طواف کے موقعے پر خضرت نے اپنی گفتار و رفتار سے اور دعا و اشک کی زبان میں سب کو پیغام دے دیا کہ ان کا یہ سفر، سفر شہادت ہے۔ مامون جن لوگوں کے ذہن میں اپنی اچھی شبیہ قائم ہونے اور امام کی نسبت بد گمانی پیدا ہونے کی امید لگائے بیٹھا تھا ان کے دل اس بات پر مامون کی نسبت نفرت سے بھر گئے کہ وہ ان کے پیارے امام کو اس ظالمانہ انداز میں قتل گاہ کی طرف لے جا رہا ہے۔
2- جب شہر مرو میں حضرت کو ولی عہدی کی پیشکش کی گئی تو آپ نے شدت کے ساتھ اس کی مخالفت کی اور اسے تب قبول کیا جب مامون نے صریحی طور پر آپ کو قتل کی دھمکی دے دی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی کہ امام نے مامون کا ولی عہد بننےاور اس کے بعد خلافت کی مسند پر بیٹھنے کی تجویز قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دربار کے افراد نے جنہیں مامون کی سیاسی چال کی ظرافت اور باریکیوں کا علم نہیں تھا امام کے انکار کی خبر چہار سو عام کر دی۔ یہاں تک کہ فضل ابن سہل نے حکومتی عہدیداروں کے ایک اجتماع میں کہا کہ میں نے خلافت کو کبھی اتنا رسوا و خوار ہوتے نہیں دیکھا۔ امیرالمومنین (خلیفہ مامون) نے اسے علی ابن موسی الرضا کی خدمت میں پیش کیا علی ابن موسی نے اسے ٹھکرا دیا۔
خود امام علیہ السلام بھی جب بھی موقعہ ملتا لوگوں پر ظاہر کر دیا کرتے تھے کہ یہ عہدہ آپ پر جبرا مسلط کر دیا گیا ہے۔ آپ بار بار فرماتے تھے کہ میں نے قتل کی دھمکی ملنے کے بعد ولی عہدی کو قبول کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سیاسی لحاظ سے بڑی عجیب و غریب بات تھی۔ لہذا بڑی تیزی سے شہر بشہر پھیل گئی اور عالم اسلام کے گوشے گوشے میں لوگوں کو اسی وقت یا بعد میں معلوم ہو گیا۔ اسی زمانے میں جب مامون اپنے بھائی کی ولی عہدی سے معزول ہو جانے کے باعث ایسی جنگ میں کود پڑا جو کئی سال تک چلتی رہی اور جس میں اس کے بھائی امین سمیت ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے اور پھر اس کے بھائی کا سر کاٹ کر شہر شہر، بستی بستی پھرایا گیا، اسی دور میں علی ابن موسی الرضا جیسی ہستی نمودار ہوتی ہے جو ولی عہدی سے اس درجہ بے اعتنائی برت رہی ہے کہ اسے اس صورت میں قبول کرتی ہے جب قتل کی دھمکی ملنے لگتی ہے۔ ان دونوں واقعات کے باہمی موازنے سے جو تصویر ابھر کر آتی ہے وہ مامون کے اس منصوبے کے بالکل برخلاف ہے جس کے لئے مامون نے اتنی محنت کی اور پیسہ خرچ کیا۔
3- اس سب کے باوجود امام علی رضا علیہ السلام نے ولی عہدی کا منصب اس شرط پر قبول کیا کہ امور مملکت میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے اور جنگ و صلح اور تقرری و معزولی جیسے معاملات میں ہرگز کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ مامون نے اس خیال کے تحت کہ شروع میں اس شرط کو برداشت کر لیا جائے، بعد میں امام کو خلافت کے امور میں گھسیٹ لیا جائے گا، حضرت کی یہ شرط مان لی۔ ظاہر ہے کہ یہ شرط پوری ہو جانے کی صورت میں مامون کے سارے کئے دھرے پر پانی پھر جاتا اور اس کے مقاصد کی تکمیل نہ ہو پاتی۔
امام علی رضا علیہ السلام نے ولی عہد کا منصب مجبورا قبول کر لیا تھا اور خلیفہ کی جانب سے آپ کے لئے گوناگوں وسائل بھی فراہم کئے گئے لیکن حضرت نے ایسی روش اختیار کی جس سے ہمیشہ یہ حقیقت عیاں رہی کہ امام، حکومت سے بیزار ہیں۔ آپ نہ تو کبھی کوئی حکم دیتے، نہ کسی چیز سے روکتے تھے، نہ کوئی ذمہ داری قبول کرتے تھے، نہ کوئی حکومتی کام انجام دیتے تھے، نہ حکومت کا دفاع کرتے تھے اور نہ ہی حکومت کے کسی فعل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی حکومت کا کوئی عہدیدار اپنی مرضی اور ارادے سے خود کو اس طرح تمام ذمہ داریوں سے کنارہ کش کر لے تو ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اس حکومت کا حامی اور طرفدار ہو۔ مامون کو اپنی چال کی ناکامی کا بھرپور احساس تھا۔ اسی لئے ولی عہد کی تنصیب کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد اس نے کئی بار یہ کوشش کی کہ شرط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ظریفانہ چالوں سے امام کو حکومتی امور میں گھسیٹ لے اور امام علیہ السلام کی مدبرانہ سیاست کو ناکام بنا دے لیکن امام علیہ السلام نے ہر موقع پر اس کی چال کو ناکام بنایا۔
اس کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جسے معمر بن خلاد نے خود امام ہشتم سے نقل کیا ہے کہ مامون نے امام سے کہا کہ اگر ممکن ہے تو ان لوگوں کو جو حضرت کے فرمانبردار ہیں ان علاقوں کے بارے میں جہاں آشوب برپا ہے کچھ ہدایات تحریر کر دیں تو امام نے انکار کر دیا اور امور مملکت میں عدم مداخلت کی اپنی شرط یاد دلائی۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم مثال نماز عید کی ہے۔ مامون نے امام کو نماز عید کی امامت کرنے کی دعوت دی اور یہ بہانہ پیش کیا کہ اس طرح لوگ آپ کی قدر و منزلت کو سمجھیں گے اور ان کے دلوں کو قدرے سکون حاصل ہوگا۔ امام علیہ السلام نے انکار کیا لیکن مامون نے اصرار کی انتہا کر دی۔ سرانجام امام نے نماز عید کی امامت اس شرط پر قبول کی کہ پیغمبر اسلام اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے انداز میں نماز پڑھائیں گے۔ امام علیہ السلام نے اس موقع کا ایسا فائدہ اٹھایا کہ مامون اپنے فعل پر پچھتانے لگا اور اس نے امام کو بیچ راستے سے واپس بلا لیا۔ یعنی اس کی حکومت کی ریاکارانہ ظاہری شکل پر ایک اور کاری ضرب لگی۔
4- امام علیہ السلام نے اس پورے قضیئے سے جن اہداف کی تکمیل فرمائی وہ ان باتوں سے کہیں زیادہ اہم اور وسیع تر ہیں:۔ امام علیہ السلام نے ولی عہد بننا قبول کرکے وہ عمل انجام دیا جو ائمہ علیہم السلام کی تاریخ میں سنہ چالیس ہجری میں اہل بیت پیغمبر کی خلافت کے اختتام کے بعد سے لیکر امام ہشتم کے دور تک اور پھر خلافت کی تاریخ کے آخر تک بے نظیر ہے۔ آپ کا ایک عظیم کارنامہ یہ رہا ہے کہ آپ نے شیعوں کے دعوائے امامت کو پورے عالم اسلام کی سطح پر پیش کیا، تقیہ کے پردے کو ہٹا کر تشیع کا پیغام تمام مسلمانوں کے کانوں تک پہنچایا۔ امام علیہ السلام کو وسیع میدان مل گیا اور آپ نے وہ باتیں جو ڈیڑھ سو سال سے خفیہ طور پر اور خاص اصحاب و معتقدین سے بیان کی جاتی تھیں ببانگ دہل بیان کیں اور اس زمانے کے معمولی وسائل کی مدد سے جو عموما خلفا اور ان کے نزدیکی افراد کو ہی حاصل ہوتے تھے اپنا پیغام ہر چھوٹے بڑے کے گوشزد کر دیا۔
مامون کی موجودگی میں منعقد ہونے والی علماء کی نشستوں میں امام نے جو مناظرے کئے، جن میں آپ نے امامت کی محکم ترین دلیلیں پیش کیں، جوامع الشریعہ سے موسوم تحریر جس میں آپ نے فضل ابن سہل کے لئے، تشیع کے تمام بنیادی عقیدتی اور فقہی موضوعات کو قلمبند کیا، امامت کے موضوع پر بہترین گفتگو جو آپ نے مرو میں عبد العزیز بن مسلم کے سامنے پیش کی، حضرت کی ولی عہدی کے موقع پر آپ کی مدح میں جو قصائد لکھے گئے، دعبل اور ابو نواس کے قصیدے تو عربی ادب کے ممتاز ترین قصائد میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ سب امام علیہ السلام کی عظیم کامیابیاں ہیں۔
اس سال جب حضرت کی ولی عہدی کی خبر مدینہ اور عالم اسلام کے دیگر شہروں میں پہنچی تو فضائل اہل بیت خطبوں میں بیان کئے گئے۔ ستر سال سے اہل بیت پیغمبر پر منبروں سے اعلانیہ لعن طعن کیا جاتا تھا، برسوں سے کسی میں جرئت نہیں تھی کہ اہل بیت کی کوئی فضیلت بیان کرتا، لیکن اس سال جا بجا اہل بیت کی عظمت کے قصیدے پڑھے گئے، اہل بیت کے عقیدتمندوں کو اس سے حوصلہ ملا اور تقویت پہنچی۔ حقیقت سے بے خبر افراد کو اس نئی حقیقت کا علم ہوا اور ان میں اہل بیت کی نسبت رغبت پیدا ہوئی، دشمنوں کو احساس شکست ہوا اور وہ خود کو کمزور محسوس کرنے لگے۔ اس سے پہلے تک شیعہ مفکرین اور محدثین جو تعلیمات اور جو معارف خفیہ طور پر بیان کرنے پر مجبور تھے، اپنے دروس کی نشستوں میں اعلانیہ بیان کرنے لگے۔
5- مامون چاہتا تھا کہ امام کو عوام الناس سے دور کر دے اور اس دوری کے نتیجے میں عوام الناس اور امام کے درمیان پایا جانے والا روحانی رابطہ منقطع ہو جائے لیکن جب بھی موقعہ ملتا امام لوگوں کے درمیان پہنچ جاتے تھے۔ مامون نے امام علیہ السلام کو مدینے سے مرو لانے کے لئےعمدا ایسے راستے کا انتخاب کیا تھا کہ کوفہ و قم جیسے شہر جو محبین اہل بیت کی آبادی والے شہر سمجھے جاتے تھے راستے میں نہ آئیں لیکن اس کے باوجود امام نے راستے میں لوگوں کے درمیان خود کو پہنچایا۔ (ایران کے شہر) اہواز میں آپ نے آیات امامت دکھائیں، بصرہ میں آپ نے لوگوں کو اپنی شخصیت سے ایسا متاثر کیا کہ اہل بیت سے کوئی وابستگی نہ رکھنے والوں کے قلوب بھی ان کی محبت سے لبریز ہو گئے، نیشاپور میں آپ نے حدیث سلسلۃ الذھب کو لا زوال یادگار کے طور پر پیش کر دیا۔ آپ نے بہت سی کرامتیں بھی دکھائیں اور اثنائے سفر جگہ جگہ لوگوں کی ہدایت کی۔ مرو میں بھی جو خلافت کا مرکز تھا حضرت جب بھی موقعہ ملتا حکومت کے حفاظتی انتظام سے باہر نکل کر لوگوں کی بھیڑ میں پہنچ جاتے تھے۔
6- امام نے (ولی عہدی کا منصب قبول کرنے کے بعد) نہ صرف یہ کہ عمائدین تشیع کو سکوت کی تلقین نہیں کی بلکہ قرائن سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں مزید حوصلہ ملا۔ نتیجے میں جو باغی گروہ اس سے پہلے تک صعب العبور پہاڑیوں اور دور دراز کی بستیوں میں سختی و دشواری میں روپوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے، امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی ہدایات کے باعث حکومتی عہدیداروں اور اہلکاروں نے ان کے ساتھ نرمی برتنا شروع کر دیا۔ دعبل جیسے صاحب کردار اور خوددار شاعر نے جو کبھی بھی کسی خلیفہ، وزیر اور حاکم کی قصیدہ خوانی کے لئے تیار نہ ہوئے اور دربار سے خود کو ہمیشہ دور رکھا، یہی نہیں دربار اور حکومت کے عہدیدار ان کی تنقید کے تیروں کی آماجگاہ رہتےتھے، لہذا ہمیشہ انہیں پریشان کیا جاتا تھا، بار بار تفتیش اور بازپرس ہوتی تھی اور ایک شہر سے دوسرے شہر سرگرداں رہتے تھے، ان کو یہ موقع ملا کے اپنے مقتدا و مولا کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اپنا معروف قصیدہ حضرت کو سنائیں جو در حقیقت اموی اور عباسی خلافتوں کے خلاف علوی تحریک کا آئینہ ہے۔ ان کا یہ قصیدہ نہایت محدود مدت میں گوشے گوشے میں پھیل گیا۔ عالم یہ تھا کہ امام کو قصیدہ سنا کر دعبل لوٹ رہے تھے تو راستے میں رہزنوں کے سردار کی زبان سے انہیں یہ قصیدہ سننے کو ملا۔
اب ہم ایک کلی نظر ڈالیں گے اس میدان پیکار پر جسے مامون نے خفیہ انداز میں اور اپنی خاص چالاکی سے سجایا تھا اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو جس میں اس نے گھسیٹ لیا تھا:۔
مامون نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو حد سے سوا وسائل اور آسائش فراہم کی تھی لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ عظیم المرتبت ولی عہد امور مملکت میں کوئی مداخلت نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے خلافت کے جملہ مسائل سے کنارہ کشی کئے ہوئے ہے۔ سب اس سے بھی واقف ہیں کہ اس عظیم شخصیت نے اسی شرط پر ولی عہد کا منصب قبول کیا ہے کہ امور مملکت میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
مامون نے ولی عہدی سے متعلق اپنے فرمان میں بھی اور اپنے دیگر بیانوں میں بھی امام کی فضیلتوں، حسب و نسب، زہد و تقوا اور عظیم علمی مرتبے کا ذکر کیا ہے، لوگوں نے حضرت کو، جن کا بعض نے پہلے صرف نام ہی سنا ہوگا، بعض نے شاید نام بھی نہ سنا ہوگا، کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو آپ سے دشمنی رکھتے ہوں گے، اب ایک قابل تعظیم انسان، خلافت کے لئے سزاوار ہستی اور علم و تقوی و پیغمبر اسلام سے قرابت کے اعتبار سے خلیفہ سے زیادہ بہتر شخص کی حیثیت سے پہچانا۔
مامون، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو اپنے دربار میں بلانے کے باوجود شیعہ مخالفین کے اندر اپنے بارے میں کوئی حسن ظن پیدا کرنے میں ناکام رہا اور خلافت اور خلیفہ کے خلاف تنقید کا سلسلہ جاری رہا۔ یہی نہیں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی وجہ سے ان کے اندر ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہو گیا۔ مکہ ہو یا مدینہ یا دیگر اسلامی خطے، کہیں بھی حضرت امام علی رضا علیہ السلام پر حب دنیا کی تہمت اور مقام و منصب کی چاہت کا کوئی الزام نہیں لگ سکا، بلکہ حضرت کی روحانی عظمت و جلالت میں اضافہ ہی ہوا اور دسیوں سال کی گھٹن کے بعد زبانیں حضرت کے مظلوم اجداد کی مدح و ثنا کے لئے کھلنے لگیں۔ مختصر یہ کہ مامون اس خفیہ جنگ میں کچھ بھی حاصل نہیں کر سکا بلکہ بہت کچھ اس نے گنوا دیا اور اسے خوف لاحق ہوا کہ اور بھی بہت کچھ اس کے ہاتھ سے جا سکتا ہے۔ خسارے اور شکست کے احساس سے مامون پیچ و تاب کھا رہا تھا اور اس نے اپنی غلطی کا تدارک کرنے کی کوشش کی اور اتنا سرمایہ خرچ کرنے کے بعد سرانجام خلافت کے مخالفین یعنی ائمہ علیہم السلام کے سلسلے میں اپنے ظالم پیشرؤوں کے اسی پرانے طریقے کو اپنایا اور قتل کر دینے کا فیصلہ کیا۔
ظاہر ہے کہ جس نمایاں مقام پر امام علی رضا علیہ السلام تھے اس کے پیش نظر آپ کو قتل کر دینا آسان کام نہیں تھا۔ قرائن سے واضح ہے کہ مامون نے امام علیہ السلام کو قتل کرنے سے پہلے دوسرے متعدد اقدامات کئے کہ اس آخری حربے کو آسان بنائے۔ اچانک مرو میں امام علیہ السلام کے بارے میں یہ افواہ اور جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ آپ عوام الناس کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، یہ افواہ مامون کے کارندوں کے بغیر پھیل ہی نہیں سکتی تھی۔ جب ابو الصلت نے امام کو آکر یہ خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ بار الہا، اے آسمانوں اور زمین کو وجود عطا کرنے والے تو گواہ ہے کہ میں نے یا میرے اجداد نے کبھی بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے اور یہ (تہمت) بھی ان لوگوں کی طرف سے ہمارے اوپر ہونے والے مظالم میں سے ایک ہے۔
ایسے لوگوں سے بار بار امام کا مناظرہ کروانا کہ امام پر جس کے غالب آنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا تھا، مامون کی انہی ناکام تدابیر کا جز تھا۔ جب امام مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کی طرف سے مناظرے کرنے والوں کو اپنی مدلل گفتگو سے مغلوب کر لیتے تھے اور آپ کی دلیلوں اور علمی بلندی کا چرچا چہار سو دوہرایا جاتا تھا، مامون امام علیہ السلام کو شکست دلانے کی چاہ میں ہر متکلم اور مناظرہ کرنے والے کو مناظرے کی نشست میں بلاتا کہ شاید ان میں سے کوئی، امام کو شکست دیدے۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ مناظروں اور بحثوں کا سلسلہ جیسے جیسے آگے بڑھا امام علیہ السلام کا علمی وقار اور بھی نمایاں ہوتا گیا اور مامون پر مایوسی چھاتی رہی۔ مامون نے ایک دو دفعہ اپنے کارندوں کے ذریعے امام کے قتل کی سازش رچی اور ایک بار اس نے آپ کو سرخس کی جیل میں ڈال دیا لیکن اس سب کے بعد بھی امام سے لوگوں کی عقیدت میں مزید اضافے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور مامون کی جھلاہٹ بڑھتی گئی۔ سرانجام اس نے محسوس کیا کہ امام کو خود اپنے ہاتھوں قتل کر دینے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس نے یہی کیا اور سنہ دو سو تین ہجری قمری کے ماہ صفر میں یعنی حضرت کے مدینے سے مرو بلانے کے تقریبا دو سال بعد اور حضرت کی ولی عہدی کا فرمان صادر ہونے کے ایک سال اور چند مہینے بعد مامون اس گناہ عظیم کا مرتکب ہوا اور امام کو زہر دغا سے شہید کر دیا۔
یہ ائمہ علیہم السلام کی ڈھائی سو سالہ سیاسی زندگی کے ایک اہم باب کا اجمالی جائزہ تھا۔ امید کی جاتی ہے کہ صدر اسلام کے ادوار کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کرنے والے مفکرین اور محققین اس کی تحقیق و تشریح پر توجہ دیں گے۔ رضوی اسلامی یونیورسٹی جس کا ہمارے عظیم الشان امام علی رضا علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقعے پر حضرت کے روضہ اطہر کے فیوضات کے زیر سایہ افتتاح ہو رہا ہے، مناسب ہوگا کہ اپنی علمی کاوشوں کا ایک حصہ تاریخ کے اس سبق آموز باب کی تعلیم و تفسیر سے مختص کرے۔ ائمہ علیہم السلام کی سیاسی زندگی کو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے اجتماعی مساعی انجام دی جائیں۔ میں اس عظیم صوبے میں اس پرشکوہ درس گاہ کے قیام کو خاص امید کی نظر سے دیکھتا ہوں اور اسے نیک شگون سمجھتا ہوں۔ میں امام ہشتم کے روضہ اقدس کے محترم متولی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس خلا کو محسوس کیا اور پھر اسے پر کرنے کا حوصلہ دکھایا۔ میں اس درس گاہ کے طلبا کے لئے علم و فضل و تقوی سے سرشار مستقبل کی دعا کرتا ہوں۔

سید علی خامنه‌ای‌
صدر اسلامی جمہوریہ ایران‌
18/5/63