بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین.

 خود مختاری میں ایرانی قوم کی پیشرفت

عزیز ایرانی عوام کو ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ یہ سال ان کے لئے اچھا اور مبارک ہو۔ ہم سن 1400 (ہجری شمسی) میں داخل ہو گئے ہیں۔ رائج نقطہ نگاہ سے یہ سال نئی صدی کا آغاز شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ دقیق تخمینے کے لحاظ سے ایسا نہ ہو، لیکن عام طور پر کہتے ہیں کہ نئی صدی میں داخل ہو گئے ہیں۔

اگر ہم گزشتہ صدی، 1300 (ہجری شمسی) کے آغاز سے  اس  کا مختصر لیکن با معنی موازنہ کریں، تو کہنا چاہئے کہ اس وقت اغیار کے فرماں بردار رضا خان کی آمریت تھی۔ درحقیقت برطانیہ نے رضا خان کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹا تھا اور ملک میں برطانیہ سے وابستہ آمرانہ حکومت بر سر اقتدار تھی۔ یہ سن 1300 کا آغاز تھا۔ یہ سال 1400 (ہجری شمسی) انتخابات کا سال ہے۔ یعنی ملک میں عوام کے ووٹوں سے بر سر اقتدار آنے والی خودمختار حکومت ہے جو خود اعتمادی، ملی خود اعتمادی پر استوار ہے۔ یہ اس سال نئی صدی میں ہمارا ورود ہے۔ یہ تیرہویں صدی اور چودہویں صدی کے آغاز کا ایک اہم فرق ہے۔ امید ہے کہ خداوند عالم سبھی امور میں اسی نسبت سے آگے کی جانب بڑھنے اور پیشرفت میں ہماری ہدایت فرمائے گا۔

کچھ نکات میں نے تیار کئے ہیں جو عرض کرتا ہوں: ایک تو اس سلوگن کے بارے میں ہے جو اس سال پیش کیا گیا۔(1) درحقیقت یہ بھی پیداوار کا سلوگن ہے جو ضروری حمایت پر استوار ہے۔ یعنی پیداوار کی جو حمایت لازمی ہے وہ انجام پائے اور رکاوٹیں دور کی جائيں۔ اس کے بعد انتخابات کے مسئلے پر بولوں گا اور چند نکات انتخابات کے بارے میں عرض کروں گا۔

بعض شعبوں میں پیشرفت کے باوجود پیداوار میں تیز رفتار ترقی کا ہدف پورا نہ ہوا

جیسا کہ میں نے پیغام نوروز میں عرض کیا،(1) سن  99 (ہجری شمسی) میں پیداوار میں  تیز رفتار ترقی کا سلوگن (2) اور ہدف مکمل طور پر پورا نہیں ہوا۔ لیکن حق و انصاف یہ ہے کہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ اہم شعبوں میں پیداوار میں پیشرفت ہوئی ہے۔ بعض معاملات میں پیداوار میں اچھال کا اطلاق بھی کیا جا سکتا ہے اور بعض شعبوں میں اگر اچھال نہیں ہے تو پیشرفت ضرور ہے۔ البتہ میں اس کی پوری فہرست بیان نہیں کروں گا۔ زیادہ تر گھریلو استعمال کی مصنوعات میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ گاڑیوں کے ٹائر، المونیم، پیٹروکیمکل، اسٹیل وغیرہ ایسی مصنوعات ہیں جن میں پیشرفت اور ترقی ہوئی ہے۔ اس کو جاری رہنا چاہئے۔ ملک میں پیداوار میں یہ پیشرفت جاری رہے اور پیداوار کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائيں۔

پیداوار میں بعض اہم رکاوٹیں اور ان کا ازالہ

اب پیداوار میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں دو تین باتیں جو شاید پہلے بھی گوش گزار کر چکا ہوں، عرض کروں گا۔ مثال کے طور پر فرض کریں، بلا ضرورت بے تحاشا درآمدات یا اسمگلنگ یا ہاتھ پیر باندھنے والے عبث اور غیر ضروری ضوابط یا پیداوار میں بنکاری سسٹم اور بینکوں کی جانب سے مدد کا فقدان، یہ سب باتیں ہیں۔ لیکن رکاوٹیں صرف یہی نہیں ہیں۔ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس میں پیداوار میں حائل رکاوٹیں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ میرے خیال میں بہتر ہوگا کہ یہ رپورٹ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے توسط سے اور ان لوگوں کے ذریعے جو ان مسائل سے آگاہ ہیں، عوام کے سامنے پیش کی جائے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ان میں سے بعض رکاوٹوں کو دور کرنا خود عوام کی ذمہ داری ہے اور بعض سرکاری اداروں اور مجموعی طور پر حکومتی نظام کی ذمہ داری ہے۔ اس میں مجریہ اور دیگر سبھی شعبے شامل ہیں۔ بہرحال پیداوار میں حائل رکاوٹیں بہت ہیں جنہیں برطرف کرنا ضروری ہے۔

پیداوار کی حمایت کی  بعض راہیں

ایک حمایت ہے۔ جیسے قانونی ترغیبی پیکیج اور ان چیزوں کی درآمد میں مدد ہے جن پر پیداوار کا انحصار ہے۔ (مثال کے طور پر) بعض مصنوعات کے لئے ایسے خام مال کی ضرورت ہے جو بیرون ملک دستیاب ہیں۔ یا مثال کے طور بعض مشینوں اور فاضل پرزہ جات وغیرہ کی ضرورت ہے، اس میں مدد کی جائے اور آسانیاں پیدا کی جائيں۔ پیداوار بڑھانے میں ایک مدد یہ ہو سکتی ہے کہ عوام کی قوت خرید بڑھائي جائے، ورنہ اگر پیداوار تو ہو لیکن عوام میں اس کا تقاضا نہ ہو تو یہ پیداوار شکست سے دوچار ہو جائے گی۔ عوام کی قوت خرید یہ (وہی) ملکی کرنسی کی قدر کا مسئلہ ہے، جو بہت اہم ہے اور متعلقہ ماہر افراد کو اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ یا مثال کے طور پر بیچ سے دلالی ختم کرنے میں مدد ہے۔ دلالی قیمتیں بڑھاتی ہے، اس سے  پیداوار تیار کرنے والے کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور صارف کو بھی، دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر بلاوجہ کی دلالی ختم ہو جائے تو یہ پیداوار میں بہت بڑی مدد ہوگی۔ اسی طرح کے دوسرے کام ہیں جو اس سال، 1400 میں سنجیدگی کے ساتھ انجام دئے جائيں تو یہ معیشت میں بڑا تغیر ہوگا۔

 بدعنوانی کے خلاف جنگ اور اس کی بعض راہیں

البتہ دیگر شرائط بھی ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر بدعنوانی کے خلاف جنگ ہے۔ کرپشن سے جنگ بہت ضروری ہے۔ بدعنوانی کے راستوں کو بند کرنا ضروری ہے۔ یہ درحقیقت بنکاری کے نظام اور کسٹم وغیرہ کے سسٹم میں اصلاحات ہیں جن کے ذریعے بدعنوانی کے سارے راستوں کو بند کرنا ضروری ہے۔

ایران کی اقتصادی ترقی کی شرط کرپشن کو برداشت نہ کرنے والی مضبوط انتظامیہ اور زیادہ گنجائش

 یہاں جو بات میں اپنی عزیز قوم سے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس بے سروسامانی سے  جو عوام کی معیشت اور اقتصاد میں پائی جاتی ہے، بعض مواقع بھی وجود ميں آئے ہیں۔ منفی سوچ (پھیلائي جا رہی ہے) اور مایوسی کی باتیں (کی جارہی ہیں) کہ "جناب کوئی فائدہ نہیں ہے، کچھ نہیں کیا جا سکتا" بعض افراد ایسے ہیں۔  قابل افسوس ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اور اخبارات و جرائد میں بھی اور زیادہ تر بیرونی پروپیگنڈوں میں، چونکہ مشکلات عوام کے سامنے موجود ہیں، اس لئے ان کا سہارا لیکر یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ سارے راستے بند ہیں، اب کچھ نہیں کیا جا سکتا! جی نہیں! میں کہتا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہماری معیشت اندرونی صلاحیتوں اور گنجائشوں کی وجہ سے، خطے کی پیشرفتہ ترین معیشت ہو سکتی ہے۔ حتی دنیا کی ترقی یافتہ ترین معیشت بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے پاس گنجائشیں بہت ہیں، امکانات و وسائل بہت ہیں۔ ان امکانات و وسائل کو بروئے کار لانے کے لئے کسی معجزے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جنہیں متعلقہ عہدیداران اور حکام احساس ذمہ داری اور بلند ہمتی سے حل کر سکتے ہیں۔ اس کی شرط مضبوط مینیجمنٹ ہے۔ ملک میں بدعنوانی مخالف مضبوط انتظامیہ کی حکمرانی اور جامع اقتصادی منصوبہ ہو تو ان گنجائشوں سے جو پائي جاتی ہیں، استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت بھی عالمی بینک کے ماہرین، یہ ہماری بات نہیں ہے، درحقیقت دنیا کے درجہ ایک کے معروف ماہرین اقتصادیات کی بات ہے جو عالمی بینک کے ماہرین ہیں، کہتے ہیں کہ ایران کی معیشت دنیا کی برتر معیشتوں میں اٹھارہویں نمبر ہے۔ یعنی دنیا کے دو سو کچھ ملکوں میں  اٹھارہویں معیشت ہم ہیں، ( وہ بھی) اس وقت پابندیوں اور کافی مشکلات کے باوجود۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان صلاحیتوں کو جنہیں اب تک استعمال نہیں کیا گيا ہے، ان میں سے بعض صلاحیتوں کا میں مختصرا ذکر کروں گا، استفادہ کیا جائے تو ایران کی معیشت چھے درجہ اوپر اٹھ کے بارہویں نمبر پر آ جائے گی۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ آٹھ کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ،ان تمام مشکلات کے باوجود، جیسے پابندیاں وغیرہ ہیں، جو دوسروں نے ہم پر مسلط کی ہیں، الحمد للہ ملک زندہ ہے، اپنے پیروں پر کھڑا ہے، دنیا کی اٹھارہویں برتر معیشت ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  1. زمینی سطح کے وسائل

عالمی بینک کی رپورٹ میں جن وسائل کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ بتاتے ہیں، دو طرح کے ہیں۔ ایک زمینی سطح کے وسائل ہیں اور دوسرے افرادی قوت ہے۔ زمینی سطح کے وسائل (جیسے) ملک کا وسیع رقبہ اور بین الاقوامی پانیوں تک دسترسی۔ ہم بحیرہ عمان اوربحر ہند کے کنارے آباد ہیں اور بین الاقوامی پانیوں تک ہماری دسترسی ہے۔ ہمارے پڑوسی چودہ پندرہ ملک ہیں جن کی آبادی تقریبا ساٹھ کروڑ ہے۔ یہ بہت اچھی پوزیشن اور گنجائش ہے۔ (ہمارا ملک) مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے درمیان نقل و حمل اور ٹرانزٹ کا راستہ ہے۔ ہمارے ملک کی پوزیشن یہ ہے۔ یہ ملک اس گنجائش کا مالک ہے۔ ہاں ہمارے دشمنوں کی کوشش ہے کہ ان گنجائشوں سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکے، لیکن بھرپور محنت اور مساعی جمیلہ کے ذریعے ان گنجائشوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ زمینی سطح کی گنجائشیں ہیں۔

2- افرادی قوت کی گنجائشیں

افرادی قوت کی گنجائش سے مراد ملک کی آبادی کا وہ حصہ ہے جو کام  کی عمر میں ہے۔ دیکھئے!  1980 کے عشرے میں آبادی ميں اضافے کی برکت سے، کچھ لوگ شور مچا رہے تھے کہ بے حساب کتاب آبادی کیوں بڑھا رہے ہيں؟ آج وہی نوجوان، کام کے میدان میں ہیں، یعنی ملک جوان ہے۔ افرادی قوت کافی ہے جس سے کام لیا جا سکتا ہے۔ (ضروری ہے کہ) جو لوگ کام کرنے کی عمر میں ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، ان کو فعال کیا جائے۔ یونیوسٹیوں کی تعلیمات مکمل کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد، اتنے یونیورسٹی طلبا اور فارغ التحصیل ہونے والے افراد، ہمارے اکثر نوجوان تعلیم یافتہ، یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے، پڑھے لکھے اور کام کی مہارت رکھنے والے ہیں۔ یہ وہ گنجائشیں ہیں جن کا ذکر عالمی بینک کی رپورٹ میں ہے لیکن ان کے علاوہ بھی اہم گنجائشیں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں اشارہ کروں گا۔

3- اندرونی بازار کی گنجائش اور قدرتی وسائل

 ایک گنجائش اندرونی منڈی ہے۔ یعنی آٹھ کروڑ افراد کی ایک منڈی ایران کے پیداواری طبقے کے پاس ہے۔ یعنی پیداوار کرنے والا، خود ہی صارف بھی ہے، مجموعی طور پر آٹھ کروڑ افراد کی منڈی ایرانی صنعتکاروں کے اختیار میں ہے، یہ خود بہت اہم گنجائش ہے۔

ایک اور اہم گنجائش قدرتی وسائل ہیں۔ ان میں سب سے نہیں، بعض قدرتی وسائل سے ہم استفادہ کر رہے ہیں، لیکن خام مال کی صورت میں۔ ان میں سے بہت سے سرمائے سے ہم خام صورت میں، جیسے تیل ہے جیسے گیس ہے، جنھیں ہم خام شکل میں استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم ان سے بہتر، ایڈڈ ویلیو کے ساتھ استفادہ کر سکتے ہیں۔ یا ہماری زراعت کی زمینیں، چراگاہیں اور جںگلات ہیں، یہ عظیم سرمائے ایرانی قوم کے پاس ہیں۔ ہم زیر زمین معدنیات جیسے تیل، جیسے گیس، جست، تانبے، جیسے کچے لوہے وغیرہ کے ذخائر میں دنیا میں برتر درجہ رکھتے ہیں۔ ہم پہلے اور دوسرے درجے سے لیکر نویں درجے تک ہیں۔ ہمارے پاس یہ عظیم قدرتی ذخائر ہیں۔ یہ بہت اہم گنجائش ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ تیس سال میں ہمارے یہاں بنیادی ڈھانچے تیار ہوئے۔ یہ ملک میں نہیں تھے۔ ڈیم، بجلی گھر، ریلوے لائنیں، سڑکیں اور اسی طرح کے بہت سے بنیادی ڈھانچے وجود میں آئے ہیں۔ جس ملک میں یہ سب خصوصیات ہوں، اتنی ساری گنجائشیں ہوں، اگر اس کے پاس صحیح اقتصادی منصوبہ بندی ہو اور مضبوط مینیجمنٹ اور منتظمہ کی حکمرانی ہو،  میں بعد میں انتخابات کے مسئلے میں اس کی طرف اشارہ کروں گا، البتہ ایسی منتظمہ جو مضبوط ہو، عوامی ہو، بد عنوانی کی مخالف ہو، جو ملک کو پیشرفتہ معیشت میں تبدیل کر سکے، تو پھر کوئی بھی پابندی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔ یہ نہیں کہ پابندیاں اٹھائی جائيں! اٹھائي جائيں یا نہ اٹھائی جائيں! جب معیشت پیشرفتہ اور آگے بڑھنے والی ہو تو دوسرے اس کے محتاج ہوتے ہیں، پھر پابندیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔

مشکلات برطرف کرنے میں عوام کے تعاون اور ہمدلی کی ضرورت

 ملک کی معیشت کے سلسلے  میں ایک اور نکتہ  جس کو بیان کرنا ضروری ہے، یہ ہے کہ مشکلات دور کرنے میں، عوام کی ہمراہی اور ہمدلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کام میں بھی عوام شامل ہو جاتے ہیں، اس میں یقینا بند راستے کھل جاتے ہیں۔ اب تک یہی ہوا ہے۔ ان تمام امور میں جن میں عوام شامل ہوئے ان میں راستے کھل گئے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سرمایہ کاری اور پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری میں خود عوام کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے اور وہ اس کو بے مصرف سوداگری اور لین دین میں لگاتے ہیں، وہ اس کو پیداوار میں لگا سکتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو دوسروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جیسے کورونا کے قضیے میں مومنانہ امداد کی صورت میں یہ عمل انجام پایا کہ سبھی لوگ اس میں شامل ہوئے، پیداوار میں بھی ان کے اندر اس کام کی توانائي ہے۔ ایک، دو اور دس افراد کے لئے روزگار پیدا کریں اور روزگار سے لگنے میں ان کی مدد کریں۔

ملک میں پیداواری سیکٹر کی مدد میں مخیّر اور انقلابی تنظیموں کی شمولیت اور منصوبہ بندی کی ضرورت  

البتہ اس (کام) کے لئے عوامی تنظیموں کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو مدد کرنا چاہتے ہيں مگر یہ نہیں جانتے کہ کیسے مدد کریں۔ عوامی رفاہی تنظمیں، انقلابی ادارے، مساجد کی منتظمہ کمیٹیاں جو بعض دیگر شعبوں میں اس طرح کے کاموں میں سرگرم ہیں، وہ یہ منصوبہ بندی کریں کہ  ہر ایک اپنے چھوٹے سے سرمائے سے کس طرح ملک کی پیداوار میں مدد کر سکتا ہے۔ یعنی لوگ یہ نہ سوچیں کہ ان کے پاس اربوں کا سرمایہ ہو تبھی پیداواری شعبے میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ نہیں! بعض اوقات  کم سرمائے سے بھی ملک کی پیداوار میں مدد کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات ایک دیہی کنبے کو چند جانوروں کے ذریعے اپنے پیر پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اس کو خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ کسی شہری کنبے کو بنائی یا سلائی کی ایک مشین دیکر، اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کے بے  شمار کام ہیں جو کئے جا سکتے ہیں جو عوام کی مدد بھی ہے، غربت ختم کرنے کی مہم بھی ہے اور پیداوار میں معاونت بھی ہے۔

 اقتصادی ناکہ بندی اور پابندیاں مجرمانہ عمل

اسی مناسبت سے میں چند جملے پابندیوں کے بارے میں عرض کروں گا- پھر اپنی گفتگو پر واپس آؤں گا اور تھوڑی سی وضاحت کروں گا- یہاں اقتصادی مسئلے کی مناسبت سے عرض کروں گا کہ اقتصادی ناکہ بندی اور پابندیاں جو امریکا نے ہمارے خلاف لگائیں اور بعض ملکوں کے خلاف لگا رہا ہے، بڑا ریاستی جرم ہے۔ پابندی کے مسئلے کو ایک سیاسی اور سفارتی امر کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ یہ واقعی جرم ہے۔ کسی قوم پر پابندی لگ جائے کہ وہ دوائیں درآمد نہ کر سکے، طبی وسائل نہ لا سکے، غذائي اشیا نہ حاصل کر سکے- ہم نے تو خود کو ان مشکلات سے نکال لیا ہے اور نکال رہے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ملک ہیں جو یہ کام نہیں کر سکتے- واقعی بڑا جرم ہے اور یہ جرم امریکی حکومت سے ہی ممکن ہے جو ایک دن میں دو لاکھ بیس ہزارلوگوں کا قتل عام کر سکتی ہے۔(3) یہ جرم بعض طاقتوں منجملہ امریکا نے کیا ہے۔ یہ جان لیجئے کہ پابندیاں اور اقتصادی ناکہ بندی یقنیا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ یہ پہلی بات۔

مقامی ٹیکنالوجی کا ڈیولپ ہونا ہمارے ملک کے لئے پابندیوں کا ایک ثمرہ

اس کے باوجود، ہمارے ملک کے لئے پابندیوں کا– یہ جرم ہمارے ملک کے تئيں کیا گیا، ایک فائدہ یہ رہا کہ اس نے پابندیوں کو ایک موقع میں تبدیل کر دیا۔ یعنی ہمارے باہمت اورمحنتی نوجوانوں نے کمر کسی، بعض شعبوں میں جو پوری طرح بیرون ملک پر منحصر تھے، ملک کو اغیار سے بے نیاز کر دیا۔ یعنی ملک کے اندر وہ چیزیں تیار کر لیں۔ داخلی پیداوار۔ یہ پیداوار میں تیز رفتار ترقی اور اچھال کے معاملے سے الگ ہے۔ یہ ملک کے اندر ٹیکنالوجی ڈیولپ کرنا کا معاملہ ہے۔ یہ درحقیقت ملک کے اندر ایک نیا کام ہے۔ بعض اوقات آپ ٹیلیویژن پر جو رپورٹیں دیکھتے ہیں، جن میں کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کام کر لیا۔ ایسی مصنوعات تیار کرتے ہیں جو ملک سے باہر کی محتاجی سے نجات دلا دیتی ہیں اور خود وہ مصنوعات، اسی نوع کی بیرونی مصنوعات سے زیادہ اچھی اور سستی ہوتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنے لوگوں کی  تیار کردہ ہوتی ہیں جنہيں انسان زیادہ ذوق و شوق  کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ اس  چیز نے بعض شعبوں میں دوسروں پر انحصار ختم کر دیا۔ یہ ہمارے لئے ایک اچھی مثال ہے۔ یہ جو آپ ٹیلیویژن پر دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے یا چند لوگوں نے مل کے یہ کام کیا ہے، یہ اقدام کیا، واقعی ہمارے لئے، مثال اور سبق آموز ہے۔

پابندیوں سے نمٹنے کے راستے:

1- پابندی لگانے والے سے التجا 2- ملکی افرادی قوت کو میدان ميں لانا اور پیداوار کو فروغ دینا

پابندیوں سے نمٹنے میں ہم دو میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ پابندی لگانے والے کے پاس جائيں اور اس سے درخواست کریں! کہیں کہ "جناب آپ نے ہم پر پابندی لگائی ہے، ہماری درخواست ہے کہ یہ پابندی اٹھا لیں یا کم کر دیں۔" وہ کہے کہ بہت اچھا کوئی بات نہیں ہے تم یہ کام کرو۔ چند سامراجی مطالبات آپ کے سامنے رکھے اور کہے کہ یہ کام کرو تو میں تھوڑی سی پابندی کم کر دوں گا۔ یہ ایک راستہ ہے جو درحقیقت ذلت کا راستہ ہے، پستی کا راستہ ہے، پسماندگی کا راستہ ہے۔

ایک راستہ اور ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی افرادی قوت کو فعال کریں۔ ہمارے اندر کافی توانائياں ہیں۔ ان قوتوں سے کام لیں اور جس چیز پر پابندی ہے وہ ملک کے اندر تیار کریں۔ وہ مقابل فریق جب دیکھے گا کہ یہ سامان ملک کے اندر تیار ہو رہا ہے تو وہ خود گھبرا جائے گا۔ کیونکہ اس سامان کی تجارت سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے، ملکوں کی منڈیوں سے ان حکومتوں کا ایک بڑا فائدہ اسی چیز کی فروخت سے ہوتا ہے، لہذا یہ اقدام خود اس بات کا باعث بنے گا کہ پابندیاں اٹھا لی جائيں،ختم ہو جائيں یا پھر بے اثر ہو جائيں۔

ہماری قوم نے دوسرا راستہ اپنایا اور بڑی کامیابیاں حاصل کیں

بنابریں ہماری قوم نے اس دوسرے راستے کا اںتخاب کیا ہے۔ یعنی واقعی اس طرح ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری عزیز قوم نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور بڑی کامیابیاں حاصل کیں جن میں سے تازہ ترین یہی کورونا وائرس کے مسئلے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں ہیں۔ شروع میں جب کورونا وائرس آیا تو آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے پاس ماسک بھی نہیں تھے۔ ملک کے اندر اس بات کے کافی امکانات و وسائل نہيں تھے کہ لوگ آرام سے ماسک استعمال کر سکیں۔ یا یہی سینیٹائزر نہیں تھے۔ ملک کے اندر محنت سے کام شروع کر دیا گیا تو ہم ماسک کی پیداوار میں خود کفیل ہو گئے۔ دوسرے، ماسک کی چوری کر رہے تھے۔ یہ گزشتہ برس سے پہلے کے سن 98 کے اسفند ماہ اور 99 کے فروردین  مہینے ( دو ہزار انیس کے فروری مارچ اور دو  ہزار بیس کے مارچ  اپریل) کی بات ہے۔ ایک یورپی ملک نے چین سے ماسک خریدے تھے اور دوسرا ملک آیا اور راستے سے چوری کرکے، اٹھاکے لے گیا! دنیا میں ماسک کی یہ صورت حال تھی۔ ہم نے خود ( تیار کیا) ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے عوام نے اپنے گھروں میں اور مسجدوں میں ماسک اور سینیٹائزر تیار کئے ۔ یہ بیرونی ممالک پر انحصار پوری طرح  ختم ہونے کا مظہر تھا۔ ہم اسی طرح آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ویکسین تک پہنچ گئے۔ آج الحمد للہ (کووڈ 19) ویکسین مختلف روشوں کے تجربات اور پیداوار کے مرحلے میں ہے اور پروڈکشن کے مرحلے تک پہنچ رہی ہے۔ یہ ملک کے لئے باعث فخر ہے۔ بعض غیر ملکی تجزیہ نگار جو واقعی منصف مزاج ہیں، ہمارے ملک کی تعریف کر رہے ہیں۔ ایرانی قوم نے اس راستے کو آزمایا ہے اور ان شاء اللہ اسی راستے پر چلتی رہے گی۔

ملک کی نوجوان افرادی قوت کی صلاحیت سے پابندیوں کو مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے

 اس وقت نالج بیسڈ اور پیداواری شعبے میں کام کرنے والی  دیگر نوعیت کی کمپنیوں میں ہزاروں نوجوان وہ مصنوعات تیار کر رہے ہیں جن پر پابندی ہے۔ ان کی تیار کردہ مصنوعات کی کیفیت بھی بہتر ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ سستی بھی ہیں۔  سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یعنی واقعی اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کے بارے میں ہم  نے جو بھی کہا ہے وہ مبالغہ نہیں بلکہ بہت محدود بیان ہے۔  جدید سائنس جیسے نینو سائنس میں آج ہم نینو ٹیکنالوجی اور نینو پروڈکٹس میں، دنیا کے چند اعلی ترین درجے کے ملکوں میں شامل ہیں۔ سائنسی ریسرچ اور تحقیقات کے  مقالات، ان مقالات سے جو ماخذ کا درجہ رکھتے ہیں، عالمی سائںسی مراکز کہتے ہیں کہ گزشتہ بیس برس میں- چونکہ نینو سائنس نئی ہے- مثال کے طور پر دو ہزار ایک میں نینو کے بارے میں ایران نے دس ریسرچ پیپر پیش کئے تھے مگر دو ہزار بیس میں بارہ ہزار تحقیقی مقالے پیش کئے ۔ یعنی بیس سال میں ہم نینو کے بارے میں دس تحقیقی مقالوں سے بارہ ہزار سائنسی مقالوں تک پہنچ گئے۔ ملک کے اندر الحمد للہ اس طرح کے کام کئے جا رہے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔

دفاعی شعبے میں بھی آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ دفاعی شعبے میں الحمد للہ ملک کی پیشرفت روز بروز نمایاں تر، درخشاں تر اور بعض لوگوں کے مطابق حیرت انگیز ہوتی جا رہی ہے۔ یہ دفاعی مصنوعات ملک کی بیرونی سلامتی کی سطح کو اوپر لے جا رہی ہیں۔ یہ ملک کے لئے بہت اہم ہے۔ یعنی "حصون  الرعیۃ" (4) درحقیقت یہ ملک کی سلامتی کے قلعے اور حصار ہیں۔ بنابریں پابندی کے خطرے کو جو واقعی ایک خطرہ اور حقیقت میں ایک مجرمانہ عمل ہے، اس کو ایک موقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کہ ہم ملک کی اندرونی گنجائشوں، صلاحیتوں اور ملک کی افرادی قوت پر بھروسہ کریں۔

ملک کی معیشت کو پابندیوں کے خاتمے کے انتظار میں معطل نہ رکھا جائے

معیشت کے مسائل میں آخری نکتہ۔ ملک کے عزیز حکام سے چاہے وہ موجودہ حکام ہوں جو اقتدار میں ہیں، یا وہ جو بعد میں آئيں گے، ہماری تاکیدی نصیحت یہ ہے کہ ملک کی معیشت کے مسئلے کو پابندیوں کے خاتمے سے مشروط نہ کریں۔ انتخابات کی تشہیراتی مہم میں بھی معیشت کا مسئلہ سامنے آئے گا۔ ملک کی معیشت کے مسئلے کو دوسروں کے فیصلے کے انتظار میں، ہوا میں  معطل نہ رکھیں کہ اگرپابندیاں ختم ہو گئيں تو ہم یہ کام کریں گے، وہ کام کریں گے۔ فرض کریں پابندیاں باقی رہیں گی۔ ملک کی معیشت کی منصوبہ بندی پابندیوں کے باقی رہنے کو مد نظر رکھ کے کریں۔ یہ منصوبہ بندی  کی جا سکتی ہے۔ کسی کے منتظر نہ رہیں۔ گزشتہ تین چار سال میں ہماری ایک مشکل یہی تھی کہ ہم تسلسل کے ساتھ کہتے رہے کہ ( اگر)پابندیاں ختم ہو گئيں تو فرض کریں کہ یہ ہوجائے گا، پابندیاں اٹھا لی گئيں تو وہ ہوجائے گا، بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تو یہ ہو جائے گا۔ یہ "اگر اگر" معیشت کو معطل کر دیتا ہے۔ معیشت  میں تعطل نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے بہت  ن‍قصان ہوتا ہے۔  یہ چند باتیں معیشت اور اس سال کے سلوگن کے بارے میں تھیں۔ ان شاء اللہ سبھی کوشش کریں کہ پیداوار کی حمایت اور رکاوٹوں کے ازالہ کو عملی شکل دیں۔

انتخابات کی اہمیت

ایک اور ہم مسئلہ صدارتی اور شہری کونسلوں کے انتخابات کا ہے جو خرداد مہینے (مئی-جون) میں ہوں گے یعنی تقریبا ڈھائی سے تین مہینے بعد۔ یہ انتخابات بہت زیادہ اہم ہیں اور میں اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔

 

ملکی انتظامیہ میں تازہ دم افراد کی شمولیت؛ انتخابات کا داخلی پہلو

پہلی بات انتخابات کی صلاحیتوں کی اہمیت کے بارے میں ہے۔ ملک میں انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے، داخلی پہلو سے بھی اور بین الاقوامی ساکھ کے پہلو سے بھی۔ داخلی پہلو سے انتخابات دراصل ملک میں ایک تازگي لاتے ہیں، جب انتخابات ہو جاتے ہیں تو کچھ تازہ دم لوگ میدان میں آتے ہیں، کام میں شامل ہوتے ہیں، ملک کی انتظامیہ میں ایک تازگي وجود میں آتی ہے جو بہت اہم چیز ہے۔ گویا انتظامیہ میں ایک نئي روح پھونک دی جائے گي، ملک کی انتظامیہ کا کام بڑا بھاری ہے جس کے بارے میں ان شاء اللہ بعد میں مختصر گفتگو کروں گا۔ تو انتخابات سے ملک کی انتظامیہ میں نئي روح پھونکی جاتی ہے۔ اس طرح تازہ دم اور پرجوش لوگوں کا ایک گروہ، کام کے لیے آ جاتا ہے اور یہ ملک کے لیے بڑی اچھی اور مبارک چیز ہے۔

 

قومی اقتدار، انتخابات کا بین الاقوامی پہلو

غیر ملکی شبیہ کے پہلو سے بھی انتخابات، عوام کی موجودگي اور عوام کی شرکت، قومی اقتدار کا مظہر ہے۔ اسے ہم سب کو جان لینا چاہیے اور اس پر یقین رکھنا چاہیے۔ ہاں، دفاعی وسائل، سفارت کاری کی طاقت اور اس طرح کی چیزیں ملک کو قوت عطا کرتی ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر کسی ملک کے عوام ہیں، قوم ہے جو قوت عطا کرتی ہے۔ جب دنیا میں سب یہ محسوس کرنے لگیں، دوست دشمن سبھی کو یہ احساس ہونے لگے کہ یہ قوم ہوشیار ہے، جاگ رہی ہے، ثابت قدم ہے، پرعزم ہے، پرجوش ہے تو یہ چیز سبھی کی نظروں میں اس ملک کے لیے ایک طاقت اور ایک وقار پیدا کرتی ہے، چاہے وہ دوست ہوں یا دشمن۔ بنابریں عوام کی شراکت ملک کی طاقت و قوت کا سبب ہے اور یہ چیز الیکشن میں عوام کی موجودگی کا مظہر ہے۔ انقلابی اجتماعات عوام کی موجودگي کا مظہر ہیں۔ البتہ سب سے اہم چیز انتخابات ہیں۔

 

عوام کی شرکت، قومی طاقت و اقتدار میں مؤثر عنصر

میں نے طاقتور ایران کے بارے میں کئی بار بات کی ہے۔(5) ہمیں اپنے ملک کو طاقتور بنانا چاہیے۔ جس ملک اور جس قوم سے دشمنوں، تسلط پسندوں اور سامراجیوں کی دشمنی زیادہ ہو اس کا چارہ اور علاج یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مضبوط بنائے۔

ملک کی طاقت اور مضبوط ایران ایک عمومی نعرہ ہے، اسے سب مانتے ہیں۔ جو شخص مجھے بھی تسلیم نہیں کرتا، وہ بھی مضبوط ایران کے نعرے کو مانتا ہے۔ یقینی طور پر مضبوط ایران، کمزور، ناتواں اور پٹنے والے ایران سے بہتر ہے۔ مضبوط ایران، ناقابل دراندازی ایران، عزت والا ایران ہے۔ رہی یہ بات کہ ایران کو طاقت کون عطا کرتا ہے؟ تو جیسا کہ میں نے عرض کیا: قوم، یہ قوم ہے جو ملک کو یہ طاقت و قوت عطا کرتی ہے اور قوم کی موجودگی، قوم کی شرکت اور قوم کی شرکت کی سطح یقینی طور پر اس قومی طاقت و اقتدار کے سلسلے میں مؤثر ہے۔

 

انتخابات کی طرف سے عوام کو مایوس کرنے کی دشمن کی کوشش

میں یہ بھی عرض کرتا چلوں، ہمارے پاس پختہ اطلاعات ہیں اور عزیز عوام بھی جان لیں کہ کچھ ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں، امریکا اور اسی طرح صیہونی حکومت کے جاسوسی کے ادارے اور انٹیلیجنس سروسز آج سے نہیں بلکہ کافی پہلے سے کوشش کر رہی ہیں کہ 'خرداد مہینے' میں ہونے والے انتخابات کو بے رونق بنا دیں۔ یا انتخابات کرانے والوں پر یہ الزام لگا رہی ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، یہ ہوا ہے، وہ ہوا ہے۔ درحقیقت وہ لوگ انتخابات منعقد کرانے والوں پر الزام لگا رہے ہیں، محترم نگراں کونسل پر الزام لگا رہے ہیں یا عوام کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمھارے ووٹوں کا کچھ اثر نہیں ہے، حالات کو بہتر بنانے میں اس کا کوئي اثر نہیں ہے، کیوں بے کار میں اپنے آپ کو تھکاتے ہو۔ وہ لوگ اس طرح کے کام پوری شدت سے کر رہے ہیں۔

 

قوم کے خلاف سازش کے لیے دشمن کی جانب سے ہمارے ملک کے سائبر اسپیس سے استفادہ اور متعلقہ عہدیداروں کی بے توجہی

وہ سائبر اسپیس سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اٹھا رہے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ملک کے سائبر اسپیس میں بھی، میری اتنی تاکید کے باوجود ضروری احتیاط نہیں ہو رہی ہے اور بعض پہلوؤں سے وہ بے لگام ہے۔ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں، انھیں اس سلسلے میں ضرور چوکنا رہنا چاہیے۔ پوری دنیا، دنیا کے تمام ممالک اپنے سائبر اسپیس کا صحیح طریقے سے مینیجمنٹ کر رہے ہیں۔ ہم اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے سائبر اسپیس کو بے لگام چھوڑ دیا ہے۔ اس میں فخر کی بات نہیں ہے، یہ کسی بھی صورت میں قابل فخر بات نہیں ہے۔

سائبر اسپیس کا مینیجمنٹ ہونا چاہیے۔ اس چیز سے لوگوں کو استفادہ کرنا چاہیے، بلاشبہ یہ عوام کے لیے آزادی کا ذریعہ ہے، بہت اچھی بات ہے لیکن اس اسپیس کو دشمن کے اختیار میں نہیں دینا چاہیے کہ وہ ملک کے خلاف اور قوم کے خلاف استعمال کرے اور سازش کرے۔

ان کا ہدف یہی ہے کہ نفسیاتی طریقوں کے ذریعے انتخابات میں عوام کی شرکت کو کم کر دیں۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ عوام انھیں منفی جواب دیں گے اور ایسا کام کریں گے کہ دشمن نا امید ہو جائے اور یہ بہت اہم ہے۔ تو یہ پہلی بات تھی انتخابات کی اہمیت کے بارے میں۔

 

ملک کے سب سے زیادہ ذمہ دار انتظامی عہدے کی حیثیت سے صدارت کی اہمیت

دوسری بات صدارت کی اہمیت کے بارے میں ہے۔ صدارت بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔ مطلب یہ کہ ملک کا سب سے اہم اور سب سے مؤثر انتظامی عہدہ، صدارت کا ہے۔ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ صدر کا اختیار کچھ ہی برسوں کا ہوتا ہے! اس طرح کی باتوں سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ صدر کے پاس کوئي اختیار ہی نہیں ہے، صدر تو لوگوں کو چیزیں فراہم کرنے والا ہوتا ہے، صدر کے پاس تو دس فیصد، پندرہ فیصد - یہ لوگ کس طرح حساب کرتے ہیں مجھے نہیں معلوم - اختیار ہے! یہ ساری باتیں غلط ہیں۔ یا تو غیر ذمہ داری کی بنا پر ایسا کہا جاتا ہے، یا لاعلمی کی بنا پر کہا جاتا ہے یا پھر خدا نخواستہ دشمنی کی وجہ سے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ صدر کا عہدہ سب سے اہم اور سب سے زیادہ ذمہ داری والے عہدوں میں سے ایک ہے بلکہ ملک کے تمام انتظامی عہدوں کے مقابلے میں صدر کا عہدہ سب سے زیادہ مشغولیت اور ذمہ داری کا عہدہ ہے۔ ملک کے لگ بھگ تمام انتظامی مراکز صدر کے اختیار میں ہیں۔ یعنی فرض کیجیے کہ عدلیہ میں انتظامی عہدے ہیں یا فوجی اداروں میں بھی کچھ انتظامی عہدے ہیں لیکن سمجھ لیجیے کہ یہ انتظامیہ کے مقابلے میں صفر ہیں، صفر سے تھوڑا سا زیادہ ہیں۔ صفر کے اوپر کچھ معمولی سے فیصد ہیں۔ ملک کے اہم اور تقریبا تمام انتظامی امور جن میں ہزاروں انتظامی عہدے ہیں، سب انتظامیہ کے سربراہ یعنی صدر کے اختیار میں ہیں۔ ملک کا منظور شدہ بجٹ اس کے ہاتھ میں ہے کیونکہ بجٹ اور پلاننگ کے ادارے کا سربراہ صدر کا معاون اور براہ راست صدر کی نگرانی میں ہے۔ اسی طرح ملک کے حکومتی وسائل بھی زیادہ تر صدر کے اختیار میں ہیں۔ بنابریں دوسرے اداروں کے انتظامی عہدے، در حقیقت انتظامیہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ تو صدارت کو اس طرح کی اہمیت حاصل ہے۔ اب آپ صدر کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو یہ دیکھیے کہ مجھ پر اور آپ پر کیا ذمہ داری ہے کہ ہمیں جاکر ووٹ دینا ہے۔ البتہ میرے ووٹ اور ایک سولہ، سترہ سال کے لڑکے کے ووٹ کا وزن ایک ہی ہے، کوئي کمی بیشی نہیں ہے۔ ہم ووٹ دینا چاہتے ہیں اور ایک صدر کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں، ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ صدر کے کندھوں پر کیا ذمہ داری ہے۔ یہ ایک بات ہوئي۔

 

امیدواروں کی جانب سے ذمہ داری کی سنگينی پر توجہ، مشکلات اور ان کے حل سے آشنائی کی ضرورت

تیسری بات میں امیدواروں سے عرض کرنا چاہتا ہوں، ان لوگوں سے جو صدارتی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، اب شروع ہو چکا ہے، کچھ عرصے سے لوگ یکے بعد دیگرے اعلان کر رہے ہیں کہ وہ انتخابات میں شرکت کرنا چاہتے ہیں، میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں توقع ہے کہ آپ اس کام کی سنگینی کو سمجھیے، آپ جو امیدوار بنے ہیں تو یہ بات جان لیجیے کہ آپ اپنے کندھوں پر کون سا بھاری بوجھ اٹھانا چاہتے ہیں؛ یہ معلوم ہونا چاہیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کام کر سکتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے، انتخابی مقابلے میں داخل ہو جائيے؛ لیکن ایسا نہ ہو کہ آپ کو کام کی سنگینی کا ہی پتہ نہ ہو۔ سب سے پہلے تو ملک کی کلیدی مشکلات اور مسائل کو سمجھیے۔ ملک کے مسائل ایک دو تو ہیں نہیں، سیکڑوں مسئلے ہیں اور ان سیکڑوں مسائل میں سے کم از کم دسیوں مسائل، ملک کے بنیادی اور اہم مسائل میں شامل ہیں؛ ان کو سمجھیے۔ یہ جانیے کہ ملک کی مشکل کہاں ہے اور ملک کے مسائل کیا ہیں؟ ان کے حل کے لیے بھی آپ کے پاس کوئي پروگرام اور راہ حل ہونا چاہیے، چاہے اجمالی ہی ہو، میں نہیں کہتا کہ تفصیلی ہو، چاہے مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن کوئي راہ حل آپ کے پاس ضرور ہونی چاہیے۔ معیشت کے مسئلے کو سمجھیے! اقتصادیات کی بڑی اہمیت ہے۔ خود معیشت کے مسئلے میں بڑے اہم کام ہیں، قومی پیداوار میں پیشرفت، قومی سرمایہ کاری میں پیشرفت، قومی کرنسی کی تقویت، افراط زر کا مسئلہ اور اسی طرح کے دیگر مسائل، اقتصادیات کے ذیل میں ہیں۔ اس کے بعد ملک کی سلامتی کا مسئلہ بہت زیادہ اہم ہے۔ سماجی مشکلات کا بھی موضوع ہے، ملک کے اہم مسائل میں سے ایک سماجی مشکلات کا مسئلہ ہے۔ دنیا کی پیچیدہ سیاست سے روبرو ہونا، آپ کو ان پالیسیوں کا سامنا کرنا ہے، خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ثقافت کا انتہائي اہم مسئلہ ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، توقعات کیا ہیں اور کون سا کام انجام پانا ہے، یہ سب آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس بھاری اور اہم بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتے ہیں تو پھر بسم اللہ! میدان میں اتر جائيے لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر میدان میں نہ آئيے کہ روایت میں ہے کہ جو شخص کوئي کام نہیں کر سکتا اور پھر بھی اس کام میں داخل ہو جاتا ہے تو اس سے بہت برا وعدہ کیا گيا ہے اور میں وہ وعدہ یہاں عرض نہیں کروں گا۔ تو یہ بات امیدواروں کے سلسلے میں تھی۔

 

اہلیت، ایمان، انصاف پسندی، ملکی صلاحیتوں اور جوانوں پر اعتماد، ایک مطلوبہ صدر کی خصوصیات

ایک دوسری بات، عوام سے مخاطب ہو کر کہنا چاہتا ہوں کہ ایک صدر کی خصوصیات کیا ہونی چاہیے؟ ایسا لگتا ہے کہ ایک اچھے صدر میں کچھ خصوصیات ہونی چاہیے، تو آپ دیکھیے کہ وہ امیدوار واقعی ایسا ہے یا نہیں؟ یہ صرف میرا ذاتی خیال نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جو بھی اپنے ملک کی سعادت و کامرانی کا خواہاں ہے وہ ایسا ہی صدر چاہتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ وہ اہل ہو، اس میں مینیجمنٹ اور مینیجمنٹ کی اہلیت ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ وہ با ایمان ہو کیونکہ اگر وہ بے ایمان ہوگا تو اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ بے ایمان انسان ملک کو، ملک کے مفادات کو اور عوام کو بیچ سکتا ہے اس لیے اسے باایمان ہونا چاہیے۔ اس کے بعد اسے انصاف پسند ہونا چاہیے، بدعنوانی کا مخالف ہونا چاہیے اور یہ ایک اہم ترین خصوصیت ہے جو صدر میں ہونی چاہیے اور یہ کہ وہ حقیقی معنی میں انصاف قائم کرنے کے لئے کوشاں ہو اور حقیقی معنی میں بدعنوانی سے لڑے۔ اس کی کارکردگي انقلابی اور جہادی ہونی چاہیے، یعنی سوٹ بوٹ والی کارکردگي سے کام نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں پائے جانے والے اتنے سارے بنیادی مسائل کے لیے ایک جہادی اور انقلابی حرکت ضروری ہے، اس کی کارکردگي ایسی ہونی چاہیے۔

وہ ملکی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھتا ہو۔ بعض لوگ ہیں جو ملکی صلاحیت کو مانتے ہی نہیں ہیں، وہی پرانی بات کرتے ہیں کہ ملک کے اندر صرف مٹی کا لوٹا بنایا جا سکتا ہے، وہ نہیں جانتے کہ ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ ایک بار ایک صاحب نے ایک دفاعی مسئلے کے بارے میں کچھ کہا تھا، میں نے کہا کہ (6) ایک دفاعی ٹور کرایا جائے تاکہ یہ حضرات آئيں، تھوڑا سا گھومیں اور دیکھیں کہ دفاعی لحاظ سے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ تو صدر کو ملکی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہونا چاہیے اور ان صلاحیتوں پر اعتماد ہونا چاہیے۔ جوانوں پر بھروسہ ہونا چاہیے، جوانوں کی صلاحیتوں کو ماننا چاہیے، جوانوں کو ملک کو آگے لے جانے والی قوت کی حیثیت سے پہچاننا چاہیے اور ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔ حقیر شروع سے ہی نوجوانوں سے رابطے میں رہا ہے اور برسوں سے میں مختلف مسائل میں ان پر اعتماد کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ بھی جوان میدان میں آتے ہیں - میں جگہ یا عہدے وغیرہ کا نام نہیں لینا چاہتا – تو وہ سخت گرہیں بھی کھول دیتے ہیں اور مشکلات کو برطرف کر دیتے ہیں۔ صدر کو جوانوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ صدر کو عوامی ہونا چاہیے، پرامید ہونا چاہیے، اسے مایوسی اور بدگمانی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، تلخ نظروں سے مستقبل کو نہیں دیکھنا چاہیے۔

اگر اس طرح کا کوئي شخص ہو جو مشکلات کو حل کر سکتا ہو اور وہ صدر بنے تو یقینی طور پر یہ چیز ملک کو ایک اچھے اور مطلوبہ مقام تک لے جائے گي۔ آپ ان خصوصیات والے کسی صدر کو تلاش کیجیے، البتہ یہ تلاش عوام کے سارے طبقوں کے لیے آسان نہیں ہے لیکن وہ دوسروں سے رابطہ کر سکتے ہیں اور ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ بہرحال کوشش یہ ہونی چاہیے کہ صدارتی امیدوار میں یہ خصوصیات تلاش کر سکیں اور خداوند عالم سے دعا کریں کہ وہ ان شاء اللہ ایرانی قوم کی مدد کرے اور اس کی رہنمائي کرے کہ وہ ان خصوصیات والے کسی شخص کو تلاش کر سکے اور اسے صدر بنائے۔

 

انتخابات، قومی اتحاد کا مظہر

انتخابات کے سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ ہماری عزیز قوم، انتخابات کو انتشار اور تفرقے کا نہیں بلکہ قومی اتحاد کا مظہر قرار دے۔ دائيں اور بائيں اور اسی طرح کی غلط تقسیم بندیوں کو کنارے رکھ دیا جائے۔ جو چیز اہم ہے، وہ ملک کا مستقبل ہے، جو چیز اہم ہے وہ ہماری آئندہ نسل ہے، جو چیز اہم ہے وہ ملک میں باعزت اسلامی نظام ہے، یہ سب اہم ہیں، ان کو نظر میں رکھنا چاہیے اور حقیقی معنی میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ البتہ ذوق مختلف ہوتا ہے، پسند مختلف ہوتی ہے، سیاسی نظریے میں اختلاف ہوتا ہے، قومیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، مسلک الگ الگ ہوتے ہیں، اس میں کوئي قباحت نہیں ہے، یہ چیز پہلے بھی تھی، اب بھی ہے اور بعد میں بھی رہے گی، اس میں کوئي برائي نہیں ہے لیکن یہ چیزیں قومی اتحاد کو نقصان نہ پہنچائيں، یعنی قوم کے افراد کو ایک دوسرے کے مقابل نہ لے آئيں، ملک کو دو حصوں میں نہ بانٹیں۔ تو یہ کچھ باتیں انتخابات کے بارے میں تھیں۔

 

ایران کے سلسلے میں امریکا کے شدید ترین دباؤ کی شکست

آخری بات، ایٹمی معاہدے اور علاقائي مسائل سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں بھی کچھ جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ امریکا کا شدید ترین دباؤ ناکام ہو گيا۔ اس پچھلے احمق (7) نے شدید ترین دباؤ کی اس پالیسی کو اس لیے تیار اور نافذ کیا تھا کہ ایران کو کمزور پوزیشن میں لے آئے تاکہ بعد میں ایران کمزوری کے سبب مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہو جائے، ناچار ہوجائے اور پھر وہ اپنے سامراجی مطالبات کو کمزور ایران پر تھوپ دے؛ اس کا ہدف یہ تھا۔ خیر وہ تو دفع ہو گيا اور وہ بھی کتنی ذلت سے!(8) اس کا جانا خیر و عافیت کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ذلت و رسوائي کے ساتھ تھا اور وہ خود تو ذلیل ہوا ہی، اپنے ملک کو بھی رسوا کر گيا۔ بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ ایران پوری طاقت و قوت کے ساتھ کھڑا ہے اور خدا کے فضل و کرم سے یہ قوم عزیز اور ناقابل شکست ہے۔ بنابریں یہ جان لیں کہ شدید ترین دباؤ اب تک تو ناکام ہی رہا ہے اور اس کے بعد بھی اگر امریکا کی یہ نئي حکومت شدید ترین دباؤ کی پالیسی کو ہی آگے بڑھانا چاہے گي تو وہ بھی شکست سے دوچار ہوگي، یہ بھی دفع ہو جائيں گے اور اسلامی ایران پوری طاقت اور پورے وقار کے ساتھ باقی رہے گا۔ ہم نے یہ جو سفارشیں کی ہیں، یہ اس بات کا باعث بنیں گی کہ ان شاء اللہ ایران، روز بروز زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتا جائے۔

 

ایٹمی معاہدے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے حتمی موقف سے عبور ممنوع!

دوسری بات یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے کے فریقوں اور خود ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ملک کے موقف کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا جا چکا ہے؛ اس موقف سے کسی بھی صورت میں نہیں ہٹنا چاہیے، یہ وہ موقف ہے جس کا اعلان کیا جا چکا ہے اور اس پر اتفاق بھی تھا، یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ موقف، دیگر پالیسیوں کے درمیان کوئي استثنائي موقف ہو، نہیں! یہ وہ موقف ہے جس پر سب متفق تھے۔ وہ موقف یہ ہے کہ امریکی، تمام پابندیوں کو ختم کریں، پھر ہم ان کی سچائي کو پرکھیں گے۔ اگر صحیح معنی میں پابندیاں ہٹ گئي ہوں گي تب پھر ہم ایٹمی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کی طرف لوٹ آئيں گے، یعنی بغیر کسی مشکل کے اپنی ذمہ داریوں کی طرف پلٹ آئيں گے، یہ قطعی موقف ہے۔ ہم امریکیوں کے وعدے کو سچ نہیں سمجھتے، یہ کہ وہ کہیں کہ ہم پابندیاں ختم کر دیں گے اور کاغذ پر ختم کر دیں، اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے، عمل ضروری ہے، عملی طور پر پابندیوں کو ختم کریں، ہم ان کی سچائي پرکھیں گے اور جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ پابندیاں اٹھا لی گئي ہیں تب ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا شروع کر دیں گے۔

 

حالات ایران کے حق میں تبدیل ہوئے ہیں، امریکا نہیں بلکہ ایران مزید طاقتور ہوا ہے

کچھ امریکیوں کو تو موجودہ ایٹمی معاہدے پر بھی اعتراض ہے۔ میں نے سنا کہ بعض امریکی کہتے ہیں کہ آج کے حالات سنہ دو ہزار پندرہ اور دو ہزار سولہ کے حالات سے، جب ایٹمی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، کافی بدل چکے ہیں، تبدیل ہو چکے ہیں اس لیے ایٹمی معاہدے میں بھی تبدیلی ہونی چاہیے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں، جی ہاں! آج حالات سنہ دو ہزار پندرہ اور دو ہزار سولہ کی نسبت کافی بدل ہو چکے ہیں لیکن امریکا کے حق میں نہیں بدلے ہیں بلکہ ہمارے حق میں بدلے ہیں۔ حالات ایران کے حق میں بدلے ہیں، آپ کے حق میں نہیں! ایران، سنہ دو ہزار پندرہ کی نسبت آج زیادہ طاقتور ہو چکا ہے، وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ہوا ہے اور اس نے خود اعتمادی حاصل کر لی ہے۔ آپ سن دو ہزار پندرہ سے اب تک بے عزت ہوئے ہیں۔ امریکا میں ایک ایسی حکومت اقتدار میں آئي جس نے اپنی باتوں، اپنے عمل اور اپنے رویے سے اور پھر اقتدار سے ہٹنے کے طریقے تک سے آپ کے ملک کو ذلیل و رسوا کیا۔ معاشی مشکلات نے آپ کے پورے ملک کو گھیر رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ حالات آپ کے حق میں ہوں۔ ہاں حالات بدلے ہیں لیکن آپ کے نقصان میں اور اگر ایٹمی معاہدے میں تبدیلی ہونی ہے تو اسے ان کے نہیں بلکہ ایران کے حق میں تبدیل ہونا چاہیے۔ بحمد اللہ ہم نے بے شمار نالج بیسڈ کمپنیوں، جوانوں کی عظیم تحریک اور اس سلسلے میں مختلف جدت طرازیو‎ں سے پابندیوں کو بے اثر بنا دیا، ان شاء اللہ ہم اس راستے پر چلتے رہیں گے لیکن آپ لوگ روز بروز زیادہ پھنستے چلے گئے، آج تک آپ لوگ مسائل میں مبتلا ہیں، یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ اس صدر کا انجام کیسا ہونے والا ہے۔

 

ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ایران کے موقف میں جلد بازی سے پرہیز

یہیں پر میں یہ بھی عرض کر دوں کہ ہم نے راہ حل کے عنوان سے جو تجویز دی ہے، اس میں ہمیں بالکل بھی جلدی نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں: "جناب موقع ہے، موقع نہیں گنوانا چاہیے۔" ہاں ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ موقع کا صحیح وقت پر فائدہ اٹھایا جانا چاہیے اور موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے لیکن جلد بازی بھی نہیں کرنی چاہیے۔ بعض مواقع پر جلد بازی کا خطرہ اور اس کا نقصان، موقع گنوانے سے زیادہ ہوتا ہے، جیسا کہ ہم نے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں جلد بازی کی، ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے تھی، ان کے سارے کام کاغذ پر تھے اور ہمارے سارے کام زمین پر اور عمل میں تھے۔ ہم نے جلد بازی کی اور اپنے کام انجام دیے۔ انھوں نے اپنے کام انجام نہیں دیے، اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ البتہ یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم اس بات کی جانب متوجہ رہیں کہ ہمارا صبر و تحمل زیادہ ہے اور ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ اگر انھوں نے اسی پالیسی کو، جسے ہم نے بتایا، مان لیا اور اس پر عمل کیا تو پھر ہر چیز ٹھیک ہو جائے گي اور اگر انھوں نے تسلیم نہیں کیا تو پھر، جیسا آج ہے، ویسا ہی آگے بھی رہے گا، اس میں کوئي برائي بھی نہیں ہے۔

 

امریکا پر عدم اعتماد اور امریکیوں کے کھوکھلے وعدے

اس سلسلے میں ہم جو یہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر پہلے وہ پابندیاں ختم کریں۔ میں نے سنا ہے کہ بعض افراد، دنیا کے بعض سیاستداں وغیرہ کہتے ہیں کہ جناب اس "پہلے میں، پہلے آپ" سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ پہلے امریکا، امریکا کہہ رہا ہے کہ پہلے آپ! دیکھیے بات پہلے میں، پہلے آپ کی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم نے اوباما کے زمانے میں امریکیوں پر اعتماد کیا تھا اور جو کام ہمیں ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر کرنے چاہیے تھے وہ ہم نے کیے تھے لیکن انھوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا، یعنی صرف کاغذ پر کہا کہ پابندیاں اٹھا لی ہیں لیکن ان کے افراد نے، ہر اس کمپنی سے، جو ہم سے سمجھوتا کرنا چاہتی تھی، کہا کہ "جناب اس میں خطرہ ہے، اس میں رسک ہے، پتہ نہیں آگے کیا ہوگا۔" مطلب یہ کہ سرمایہ کاری کرنے والے کو ڈرایا، ان لوگوں نے اس طرح کام کیا، ہمیں ان کے کام پر بھروسہ نہیں ہے، ان کے وعدوں کی ہمارے نزدیک کوئي وقعت نہیں ہے۔

 

خطے اور ہمارے سلسلے میں امریکی حکومت کی غلط پالیسیاں اور علاقائي اقوام کے بارے میں اس کی ناآشنائی

البتہ امریکیوں نے ہمارے سلسلے میں غلطی کی، علاقے کے تمام مسائل کے بارے میں بھی افسوس کہ امریکی غلط فہمی میں ہیں۔ اس وقت بھی وہ غلطی کر رہے ہیں۔ وہ صیہونی حکومت کی جو ظالمانہ حمایت کر رہے ہیں، غلط ہے۔ شام میں ان کی غاصبانہ موجودگي ہے، مشرقی فرات کے علاقے میں وہ وسیع پیمانے پر موجود ہیں، یہ یقینی طور پر غلط ہے اور یمن کے مظلوم عوام کی سرکوبی میں سعودی عرب کی حکومت کا ساتھ دینا بھی سراسر غلط ہے۔

 

صیہونی حکومت سے بعض حقیر حکومتوں کے تعلقات سے مسئلۂ فلسطین فراموش نہیں ہوگا

فلسطین کے بارے میں ان کی پالیسیاں، غلط ہیں، عالم اسلام میں مسئلۂ فلسطین کبھی فراموش نہیں ہوگا، یہ اس بات پر خوش ہیں کہ دو چار حقیر حکومتیں صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کر لیں اور روابط کو معمول پر لے آئیں۔ ان دو چار حکومتوں کا کوئي خاص اثر نہیں ہے۔ امت مسلمہ مسئلۂ فلسطین کو فراموش نہیں کرے گی، مسئلۂ فلسطین کو نظر انداز نہیں کرے گي، امریکی یہ بات جان لیں۔

 

یمن کے عوام کو جھکانے میں آل سعود کی ناکامی

 یمن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یمن کے خلاف جارحیت ٹرمپ سے پہلے کی ڈیموکریٹ حکومت کے زمانے میں شروع ہوئي، یعنی یمن کی جنگ ٹرمپ نے شروع نہیں کی تھی۔ یمن کی جنگ اوباما کی ڈیموکریٹ حکومت کے زمانے میں آل سعود نے شروع کی اور امریکا کے گرین سگنل دکھانے پر شروع کی۔ امریکا نے انھیں اجازت دی اور ان کی مدد کی۔ بے شمار فوجی وسائل ان کے حوالے کیے۔ کس لیے؟ اس لیے کہ یمن کے نہتے عوام پر اتنے بم برسائيں کہ پندرہ دن میں یا ایک مہینے میں وہ ان کے سامنے جھک جائيں۔ انھوں نے غلطی کی۔ اب چھے سال ہو چکے ہیں اور وہ ایسا نہیں کر سکے۔ مارچ کے یہی ایام تھے (9) کہ ان کی جنگ اور یمن پر حملہ شروع ہوا تھا۔ اس وقت سے اب تک چھے سال گزر چکے ہیں اور یہ لوگ یمن کے عوام کو جھکا نہیں سکے۔ میں امریکیوں سے پوچھتا ہوں: جس دن تم نے آل سعود کو یمن کی جنگ شروع کرنے کا گرین سگنل دیا تھا کیا تمھیں معلوم تھا کہ ان کی مشکلات کا انجام کیا ہوگا؟ تم جانتے تھے کہ سعودی عرب کو کس دلدل میں پھنسا رہے ہو کہ اب وہ نہ تو اس میں رہ سکتا اور نہ ہی باہر نکل سکتا ہے؟ اب سعودی عرب کے لیے مشکل دو طرفہ ہے۔ نہ تو وہ جنگ کو روک سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کے لیے دونوں صورتیں نقصان دہ ہیں۔ کیا تم امریکی جانتے تھے کہ سعودی عرب کو کس مصیبت میں دھکیل رہے ہو؟ اگر جانتے تھے اور پھر بھی تم نے ایسا کیا تو قابل رحم ہیں تمہارے حلیف کہ تم ان کے بارے میں اس طرح عمل کرتے ہو۔ اگر نہیں جانتے تھے تب بھی تمھارے حلیفوں پر وائے ہو جو تم پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے پروگراموں کو تم سے اتفاق رائے کے بعد تیار کرتے اور آگے بڑھاتے ہیں۔ جبکہ تم خطے کے حالات سے ناواقف ہو۔ بنابریں یہ جان لو کہ تم اس خطے کو نہیں پہچانتے، اقوام سے آشنا نہیں ہو اور غلطی کر رہے ہو۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم دنیا کے تمام گمراہوں کو ان کی گمراہی سے نکالے گا اور انھیں ان کی غلطیوں سے لوٹائے گا اور ہم پرامید ہیں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ایرانی قوم کو روز بروز زیادہ عزیز، زیادہ طاقتور اور زندگی کے وسائل سے زیادہ بہرہ مند کرے گا اور اسے سعادت و کامرانی عطا کرے گا۔ وہ ان کی مادی اور معنوی زندگي کی اصلاح کرے گا، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا قلب مبارک ایران کے عوام سے راضی و خوشنود رہے گا اور ان حضرت کی دعا ہمارے تمام عوام اور اس حقیر کے شامل حال رہے گي، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح مطہر ہم سے راضی و خوشنود رہے گي اور شہیدوں کی پاکیزہ روحیں ہم سے راضی رہیں گي۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) سال نو کی مناسبت سے نئے نعرے کا اعلان "پیداوار، حمایت، رکاوٹوں کا ازالہ" مورخہ 20 مارچ 2021

(2) پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت» سنہ 1399 ہجری شمسی کے آغاز کی مناسبت سے تقریر

(3)) سنہ 1945 میں جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی شہروں پر امریکہ کی ایٹمی بمباری کی جانب اشارہ

(4) نهج‌ البلاغه، مکتوب نمبر ۵۳

(5) منجملہ، مشرقی آذربائيجان کے لوگوں سے اجتماعی ملاقات میں کی گئي تقریر۔

(6) منجملہ، دو جولائي سنہ 2014 کو یونیورسٹیوں کے بعض پروفیسروں سے ملاقات میں کی گئي تقریر۔

(7) سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ

(8) ڈونلڈ ٹرمپ (سابق صدر، امریکا) کی جانب سے صدارتی انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا اور اپنے حامیوں کو کانگریس کی عمارت پر حملے کے لیے ورغلانا جس کی وجہ سے پولیس اور ٹرمپ کے حامیوں میں جھڑپ ہوئي۔ یہ واقعہ اس بات کا سبب بنا کہ امریکا کی مختلف ریاستوں میں کئي دن تک ہنگامی حالات اور کرفیو کا نفاذ رہا۔

(9) چھبیس مارچ سنہ 2015