بسم ‌اللّہ ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین۔

السلام علی الحسین و علی علی بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین الذین بذلوا مھجھم دون الحسین علیہ السلام۔

مومن، شجاع اور بابصیرت نوجوانوں کی پرورش پر ایرانی قوم کو مبارکباد

یہ تقریب ایسے عالم میں منعقد ہو رہی ہے کہ ابھی اربعین حسینی کی خوشبو سے بیدار دل اور قلوب معطر ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم سب مکتب حسینی سے تعلیم حاصل کریں گے۔ میں پرامید ہوں کہ آپ نوجوان، حسینی یونیورسٹی میں ممتاز نمبروں سے پاس ہوں گے، ویسے ہی جیسے آپ نے اپنے اپنے کیڈٹ کالج میں رینک حاصل کیا ہے۔ میں کیڈٹ کالجوں سے تعلیم مکمل کرنے والے سبھی کیڈٹس کو، جو آج سے مسلح فورسز کے اجرائی مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں اور اسی طرح ایپالیٹ (epaulette) حاصل کرنے والے ان تمام نوجوانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز میں داخلے کی راہ میں پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ میں مومن، صالح، شجاع، پرعزم اور بابصیرت جوان اور کمانڈر پیدا کرنے والی ایرانی قوم کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اس راہ کے لئے ان کی تربیت کر رہی ہے۔

مسلح فورسز، ملک و قوم کے لیے ایک مضبوط فصیل

میرے عزیزو! ہماری مسلح فورسز کا افتخار یہ ہے کہ ہمارے پیارے ملک میں مسلح فورسز، ملک و قوم کے لیے مضبوط فصیل ہیں، ایک مستحکم قلعہ ہیں۔ جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے: "والجنود باذن اللہ حصون الرعیۃ"(2) اس فکر نے حقیقی معنی میں ہمارے ملک میں جامۂ عمل پہنا ہے اور آج مسلح فورسز، فوج، سپاہ پاسداران، پولیس اور رضاکار فورس صحیح معنی میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے فوجی خطروں کے مقابلے میں دفاعی ڈھال ہیں۔

ایران کے اسلامی و قومی تشخص کے دفاع کا سپاہی ہونا باعث فخر ہے

ایسی قوم کا سپاہی ہونا، باعث فخر ہے۔ آپ نے، مسلح فورسز میں سے جس ادارے کی بھی وردی زیب تن کی ہے، در حقیقت آپ کو یہ فخر حاصل ہوا ہے کہ آپ نے خود کو ایرانی قوم کے دفاع کے لیے، اس ملک کے اسلامی، قومی اور انقلابی تشخص کے دفاع کے لیے اور اس ملک کی سلامتی کے دفاع کے لیے تیار کر لیا ہے۔

سیکورٹی، ملک کی پیشرفت کا بنیادی ڈھانچہ

سلامتی وہ سب سے اہم مسئلہ ہے جس پر مسلح فورسز کو مد نظر رکھتے ہوئے توجہ دی جانی چاہیے۔ کسی ملک کی سیکورٹی، اس ملک میں پیشرفت کی راہ میں تمام سرگرمیوں کا انفراسٹرکچر ہے۔ تمام اقتصادی سرگرمیوں، علمی و سائنسی سرگرمیوں، صحت و سلامتی سے متعلق سرگرمیوں، سیاسی مسائل سے متعلق سرگرمیوں اور ملک و عوام کو دی جانے والی مختلف قسم کی خدمات اور سہولتوں کی سرگرمیوں کا بنیادی ڈھانچہ، سیکورٹی ہے۔ اگر کسی ملک میں سیکورٹی نہیں ہوگي تو ان تمام پیشرفتوں میں اور ان تمام ضروری سرگرمیوں میں خلل پیدا ہو جائے گا۔ بنابریں مسلح فورسز کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ اپنے عزم سے، اپنے ارادے سے اور اپنی جان کی بازی لگاکر اس بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کر رہی ہیں؛ اس بات پر توجہ رکھیے۔ آپ جو بھی قدم اٹھاتے ہیں، وہ اس بڑے ہدف کی راہ میں ہے اور یہ وہ کام ہے جو خداوند عالم کو پسند ہے اور اولیائے الہی کو خوشنود کرنے والا ہے۔

اپنی ہی مسلح فورسز کے ذریعے سیکورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت

سیکورٹی کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک کی سلامتی اغیار کے قبضے میں نہیں ہونی چاہیے؛ یہ بہت اہم چیز ہے۔ آج ہمارے عوام کے لیے اور ہمارے ملک کے لیے یہ ایک عام بات ہے کہ ملک کی سلامتی، اپنی ہی مسلح فورسز اور اس ملک کے فرزندوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن دنیا میں ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔ حتی پیشرفتہ ممالک میں بھی نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ حال ہی میں یورپ اور امریکا کے درمیان جو یہ چپقلش ہوئي اور یورپ والوں نے کہا کہ امریکا نے ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے(3)، ساری بحث اس بات پر ہے کہ یورپ کو یہ ضرورت پیش آ گئی ہے کہ وہ اپنی سیکورٹی کے لئے خود اپنی فورسز کو استعمال کرے، یعنی نیٹو سے قطع نظر کرتے ہوئے جس کے سیاہ سفید کا مالک امریکا ہے؛ یعنی یورپ کے پیشرفتہ ممالک بھی، جب ان کی سیکورٹی ایک باہری فورس کے قبضے میں یا ہاتھ میں ہے، چاہے وہ بظاہر ان کی دشمن بھی نہ ہو، یعنی یہ سب ایک ہی تنظیم میں شامل ہیں، پھر بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اندر ایک کمی ہے؛ واقعی ہے بھی ایسا ہی، واقعی ایسا ہے کہ ان میں کمی ہے۔ اب جو ممالک چنداں پیشرفتہ بھی نہیں ہیں اور ان کی فوجیں امریکا اور امریکا جیسے ممالک کی مسلح فورسز کے اختیار میں ہیں، ان کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ کوئي ملک اپنی سلامتی کو اپنی طاقتور، توانا اور مضبوط مسلح فورسز کے ذریعے یقینی بنائے۔ جو لوگ دوسروں پر بھروسہ کر کے یا دوسروں پر بھروسے کے وہم میں پڑ کر یہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنی سیکورٹی کو یقینی بنا سکتے ہیں، انھیں جان لینا چاہیے کہ عنقریب ہی وہ اس کا خمیازہ بھگتیں گے۔

ملک کی سلامتی میں اغیار کی مداخلت، تباہ کن مسئلہ

دنیا کے ملکوں کے لیے ایک انتہائي تباہ کن مسئلہ یہ ہے کہ اغیار ان کے سیکورٹی کے مسائل میں مداخلت کریں، ان کی جنگ و صلح کا منصوبہ بنائیں اور انھیں گائيد لائن دیں۔ یہ ہر اس ملک کے لیے ایک تباہ کن صورت حال ہے جو اس حالت سے دوچار ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا اور ہم نے عرض کیا کہ آج یورپی ممالک تک، جو نیٹو کی چھاؤں میں سانس لے رہے ہیں، خودمختار ہوکر اپنا راستہ طے کرنا چاہتے ہیں۔

ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی کامیابی

بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز نے انتہائي دشوار اور بہت اہم آزمائشوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کی سیکورٹی کو، چاہے سرحدوں کی حفاظت ہو یا پھر داخلی سلامتی ہو، یقینی بنا سکتی ہیں۔ اس کا ایک اہم اور کبھی نہ مٹنے والا نمونہ، مقدس دفاع کے آٹھ برسوں کا عرصہ ہے جس میں ہماری مسلح فورسز، ملک کی سلامتی کو بھرپور طاقت سے، پورے افتخار سے، سربلندی سے اور عزت سے محفوظ رکھنے، غاصب فورسز کو باہر نکالنے، انھیں نقصان پہنچانے اور سر بلندی کے ساتھ جنگ سے باہر نکلنے میں کامیاب رہیں۔ اس طرح "حصون الرعیۃ" کے لفظ نے حقیقی معنی میں عملی جامہ پہنا۔

مسلح فورسز کی طاقت میں معنویت اور دینی و اخلاقی بھلائي کا بنیادی کردار

اب سوال یہ ہے کہ مسلح فورسز کی طاقت کا کیا مطلب ہے؟ یہ اہم نکتہ ہے؛ البتہ مسلح فورسز کی طاقت، تعلیم اور ٹریننگ، جدت عملی، مختلف سائنسی پیشرفتوں، وسائل، تنظیمی نظم و نسق وغیرہ پر منحصر ہوتی ہے، یہ سب اپنی جگہ ضروری چیزیں ہیں اور یقینی طور پر مسلح فورسز کو دیگر اداروں کی طرح  ہی بلکہ ان سے زیادہ ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک بہت ہی اہم عنصر موجود ہے جو جذبے، معنویت اور دینی و اخلاقی بھلائي سے عبارت ہے۔ یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے جو مسلح فورسز کی طاقت میں غیر معمولی کردار کا حامل ہے۔ اگر کسی فوج میں یہ عنصر نہ ہو تو اس کے پاس جتنے بھی ہتھیار اور وسائل ہوں، وہ فوج یہ دعوی نہیں کر سکتی کہ وہ ایک طاقتور فوج ہے۔

امریکی فوج میں معنویت کا فقدان اور طالبان سے مقابلے کا ناکام تجربہ

آپ نے دیکھا کہ امریکی فوج، جو مختلف طرح کے روایتی و غیر روایتی ہتھیاروں سے لیس ہے، ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں داخل ہو گئي تاکہ طالبان کی حکومت کو سرنگوں کر دے؛ وہ بیس سال تک اس ملک میں رہی اور اس نے قتل عام اور جرائم کیے، غاصبانہ قبضہ کیا، منشیات کو پھیلایا اور اس ملک کے محدود اور مختصر بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ بیس سال بعد اس نے حکومت طالبان کے حوالے کر دی اور افغانستان سے نکل گئي! وہ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے آئي تھی، بیس سال تک اس طرح اور اس صورتحال میں اس ملک میں رہی اور اتنے جرائم، اتنی اموات اور اتنے مادی و انسانی اخراجات کے بعد آخر میں اقتدار کو طالبان کے ہاتھ میں تھما دیا اور ملک سے باہر نکل گئي۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فوج میں ایک بنیادی اور حیاتی عنصر نہیں ہے اور وہ، معنوی عنصر ہے، اخلاقی جذبے کا عنصر ہے، خداوند عالم اور معنویت پر توجہ کا عنصر ہے؛ یہ تمام ملکوں کے لیے سبق ہے۔

امریکی فوج؛ اقوام کی نظروں میں ایک نفرت انگیز ادارہ

یہیں پر ہمیں اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ امریکی فوج کی ماہیت یہی ہے؛ امریکا اور امریکا جیسے ممالک اپنی فوجوں کی جو ہالیووڈی تصویریں دکھاتے ہیں، ان کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے؛ ان کی فوج کی حقیقت وہی ہے جو آپ نے دیکھی؛ اس انداز سے افغانستان میں آئی اور اس کیفیت سے نکل گئي؛ دوسری جگہوں پر بھی تقریبا ایسا ہی ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی جہاں امریکی فوج موجود ہے، اگر بالفرض وہاں کے حکام کی غیرت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ اسے نکال باہر کریں، تب بھی وہ قوموں کی نظروں میں نفرت انگيز ہے؛ جس ملک میں بھی امریکی فوج ہے، مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ مشرقی ایشا کے ممالک میں برسوں سے امریکی فوج موجود ہے(5)، تو وہ وہاں کی اقوام کی نظر میں ایک نفرت انگیز فوج ہے۔

خطے میں اغیار کی فوجوں کی موجودگي، تباہی اور جنگ کا باعث

ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ خود ہمارے علاقے میں امریکی فوج سمیت بیرونی فوجوں کی موجودگي، تباہی اور جنگ بھڑکنے کا سبب ہے۔ سبھی کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی فوجوں کو خود مختار، اپنی قوم پر منحصر اور ہمسایہ فوجوں اور خطے کی دیگر فوجوں کے ساتھ تعاون کرنے والی بنائيں۔ اس خطے کی بھلائی اسی میں ہے۔ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ اغیار کی فوجیں، اپنے قومی مفادات کی تکمیل کے لیے، جن کا ان علاقائی اقوام سے کوئي تعلق نہیں ہے، ہزاروں میل دور سے آئيں اور ان ممالک میں مداخلت کریں، یہاں ان کی فوجی موجودگي ہو اور وہ ان کی فوجوں میں مداخلت کریں۔ خطے کی ان اقوام کی فوجیں، خود ہی اس علاقے کو کنٹرول کر سکتی ہیں۔ دوسروں کو یہاں آنے کی اجازت نہ دیجیے۔

طاقت اور دانشمندی؛ ہماری مسلح فورسز کی کارکردگی کی بنیاد

یہ واقعات جو ہمارے ملک کے شمال مغرب میں بعض ہمسایہ ممالک میں ہو رہے ہیں، انھیں بھی اسی سوچ اور اسی منطق سے حل کیا جانا چاہیے۔ البتہ ہمارا ملک اور ہماری مسلح فورسز دانشمندی کے ساتھ عمل کرتی ہیں؛ تمام مسائل میں طریقہ اور روش، دانشمندانہ ہی ہے، دانشمندی کے ساتھ طاقت۔ دوسروں کے لیے بھی بہتر ہے کہ دانشمندی کے ساتھ کام کریں اور خطے کو کسی مشکل میں نہ پڑنے دیں۔ جو لوگ اپنے بھائيوں کے لیے گڑھا کھودتے  ہیں، وہ پہلے خود گڑھے میں گرتے ہیں: مَن حَفَرَ بِئراً لِاَخيہِ وَقَعَ فيہ۔(6)

مجھے امید ہے کہ خداوند متعال آپ تمام عزیزوں، مسلح فورسز کے محترم کمانڈروں، مختلف رینکوں کے کمانڈروں اور آپ تمام عزیز نوجوانوں کو جو بڑی اور مؤثر تعداد میں مسلح افواج میں موجود ہیں، ہمیشہ اس ملک کی خدمت، اس نظام کی خدمت، انقلاب کی خدمت اور ان مومن و باوفا عوام کی خدمت کا شرف عطا کرتا رہے گا اور آپ کو روز بروز اپنی توانائی میں اضافے کی توفیق عطا کرے گا۔

مسلح فورسز کی اکادمیوں کی بہتر صورتحال

بحمد اللہ ہماری مسلح افواج کے کالج اور اکادمیاں، پیشرفت کی راہ پر گامزن ہیں۔ البتہ سب، ایک سطح کی نہیں ہیں؛ بعض کی رفتار زیادہ تیز، زیادہ کامیاب اور زیادہ اچھی ہے، بعض کو کوشش کرنی اور رفتار بڑھانی ہوگي۔ میرے پاس کیڈٹ کالجز اور ملٹری اکیڈمیز کی جو رپورٹیں ہیں، وہ کل ملا کر مسرت بخش ہیں اور جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، ایرانی قوم کو ایسے مومن، پر عزم اور شجاع جوانوں کی خاطر مبارکباد دینی چاہیے۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ سب کو محفوظ رکھے اور عزیز شہیدوں کو ان کے اولیاء اور پیغمبر کے ساتھ محشور کرے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس تقریب کی ابتدا میں ایران کی مسلح فورسز کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر جنرل محمد باقری، امام حسین (علیہ السلام) کیڈٹ کالج کے کمانڈر بریگیڈیر جنرل نعمان غلامی، شہید ستاری کیڈٹ کالج کے کمانڈر سیکنڈ بريگیڈیر جنرل علی رضا رودباری اور امین پولیس کیڈٹ کالج کے کمانڈر سیکنڈ بريگیڈیر جنرل لطف علی بختیاری نے ان کیڈٹ کالجز کی سرگرمیوں، اقدامات اور تعلیمی پروگراموں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ حلف برداری، پرانے کیڈٹس کی جانب سے نئے کیڈٹس کو پرچم عطا کرنا اور میدان میں موجود کیڈٹس کی جانب سے مل کر ترانہ پڑھا جانا، مسلح فورسز کے کیڈٹس کی اس تقریب کے پروگراموں میں شامل تھے۔ اسی طرح چیف آف اسٹاف نے مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر کی اجازت سے کیڈٹ کالجوں کے کچھ برگزیدہ افراد کو فوجی رینک اور ایپالیٹ (epaulette) عطا کیے۔

(2) نہج البلاغہ، مکتوب - 53 (مالک اشتر کے نام عہد نامہ) اور لشکر، خدا کے اذن سے عوام کے مضبوط قلعے ہیں۔

(3) امریکا، آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان ایک سہ فریقی سیکورٹی معاہدے پر دستخط کے بعد، جو آسٹریلیا کے ساتھ ایٹمی آبدوزوں کی فروخت کے فرانس کے معاہدے کی منسوخی پر منتج ہوا، فرانس کی حکومت اور ان تین ملکوں کے درمیان شدید سفارتی بحران پیدا ہو گيا۔ اس سے آسٹریلیا اور امریکا کے ساتھ فرانس کے تعلقات میں کشیدگي آ گئي اور فرانس کی حکومت نے اسے پیٹھ میں خنجر گھونپنا بتایا۔ اسی تناظر میں فرانس کے صدر نے اپنے ایک بیان میں امریکا سے یورپ کی فوجی خود مختاری کا مطالبہ کیا اور سیکورٹی اور دفاع کے میدان میں امریکا پر یورپ کے عدم انحصار کی ضرورت پر زور دیا۔

(4) شمالی اٹلانٹک معاہدے کی تنظیم (NATO) ایک فوجی معاہدے میں شامل ملکوں کی تنظیم ہے۔ اس معاہدے کے تحت، جس کے اراکین میں امریکا اور یورپی ممالک شامل ہیں، اراکین ایک دوسرے سے سیاسی و فوجی تعاون کرتے ہیں۔

(5) اس سلسلے میں جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ویتنام، فلپائن، تھائی لینڈ اور گوآم جیسے ممالک میں امریکا کی فوجی موجودگي کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ جاپان میں امریکا کے فوجی آلات حرب کے علاوہ اس ملک کی ایک سو بارہ چھاؤنیوں میں تقریبا چالیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ اسی طرح تقریبا تیئیس ہزار امریکی فوجی، جنوبی کوریا کے تراسی فوجی اڈوں میں اور چار ہزار، گوآم جزیرے میں تعینات ہیں۔

(6) تحف العقول، صفحہ 88 (جو اپنے بھائي کے لیے کوئي گڑھا کھودتا ہے، وہ پہلے خود اس میں گرتا ہے۔)