بسم اللہ الرحمن الرحیم

 و الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و ‏نبینا ابا القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ ‏المھدیین العصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.

سب سے پہلے تو میں تمام محترم حاضرین، پیارے بھائيوں اور بہنوں کی خدمت میں، جو اس پرشکوہ پروگرام میں شامل ہوئے ہیں، سلام و تحیت پیش کرتا ہوں۔ خداوند عالم آپ کو کامیاب کرے۔

امام خمینی اور اس پرخلوص پروگرام کے لیے جو امام خمینی کے مقدس مزار پر ہر سال منعقد ہوتا رہا ہے، ہمیں بڑا اشتیاق تھا۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اس سال پھر یہ پروگرام، یہ پرخلوص اور معنویت سے لبریز پروگرام منعقد ہوا۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اسلامی جمہوریہ کی روح ہیں۔ اگر اس روح کو اسلامی جمہوریہ سے لے لیا جائے اور اسے نظرانداز کر دیا جائے تو یہ بے جان تصویر بن کر رہ جائے گي۔ میری آج کی گفتگو ہمارے عظیم اور عزیز امام خمینی کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کے بارے میں ہے۔ البتہ گزشتہ برسوں میں، گزشتہ کئي برسوں میں امام خمینی کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کے بارے میں باتیں کی گئي ہیں۔ ہم نے بھی باتیں کی ہیں، دوسروں نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے لیکن  اس کے باوجود، 'ان کہی' باتیں ابھی بہت ہیں۔

"میں عشق کی جتنی بھی تشریح کروں

جب عشق کی کیفیت میں آتا ہوں تو اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔" (2)

امام خمینی کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی ناشناختہ ہیں۔ یعنی انقلاب کی موجودہ نسل، خاص کر ہماری نوجوان نسل، ہمارے عزیز امام خمینی کو صحیح طرح سے نہیں پہچانتی، نہیں جانتی۔ امام خمینی کی عظمت سے واقف نہیں ہے۔ امام خمینی کا موازنہ مجھ حقیر جیسے لوگوں سے کرتے ہیں جبکہ فاصلہ بہت زیادہ ہے، میلوں کا فاصلہ ہے۔ امام خمینی حقیقی معنی میں ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔

نوجوان نسل کو ان کی شخصیت سے آشنا کرنا اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ چیز مستقبل میں خوش اسلوبی سے ملک چلانے میں ان کی مدد کرے گي۔ امام خمینی صرف کل کے امام نہیں ہیں، آج کے بھی امام ہیں اور آئندہ کل کے بھی امام ہیں۔ ہماری نوجوان اور ذی فہم نسل کو، جو اس انقلاب کے 'دوسرے قدم' (انقلاب کو چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد شروع ہونے والے دوسرے مرحلے) کی قومی اور انقلابی ذمہ داری سنبھالنے والی اور ملک کے مستقبل کا انتظام سنبھالنے والی ہے، ایک حقیقی سافٹ ویئر کی ضرورت ہے تاکہ وہ انقلاب کے راستے پر قدم جما کر چل سکے اور یہ راستہ ایران کے انقلاب کو، ایرانی قوم کو چوٹی کے سب سے اونچے حصے تک پہنچائے گا، اس کے لیے ایک سافٹ ویئر کی ضرورت ہے، ایک قابل اعتماد اور جامع سافٹ ویئر جو اس کی مدد کر سکے، یہ سافٹ ویئر، جو رفتار بڑھانے والا اور مددگار ہو سکتا ہے، حتی بعض مواقع پر تبدیلی لانے والا ہو سکتا ہے، امام خمینی سے ملنے والے سبق ہیں۔ وہ اسباق جو امام خمینی کی گفتار میں بھی اور ان کے کردار میں بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

امام خمینی کے سلسلے میں سب سے پہلی بات جو عرض کرنی چاہیے، وہ انقلابوں کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کی رہبری ہے۔ میں اس قیادت کے بارے میں آگے چل کر کچھ روشنی ڈالوں گا۔

ہم کیوں کہتے ہیں کہ انقلابوں کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب؟ انقلابوں کی تاریخ میں، چھوٹے بڑے بہت سے انقلاب ہیں، ان میں سب سے مشہور، فرانس کا انقلاب ہے – اٹھارویں صدی میں، سنہ 1789 میں – اس کے بعد سوویت یونین کا انقلاب ہے – سنہ 1917 میں، بیسویں صدی میں – یہ دو انقلاب، انقلابوں کی تاریخ کے سب سے مشہور اور بڑے انقلاب ہیں۔

لیکن اسلامی انقلاب، ان دونوں سے بڑا ہے۔ کیوں؟ اس کی کئي دلیلیں ہیں۔ میں ایک بنیادی اور اہم بات کی طرف اشارہ کروں گا اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں انقلاب یعنی انقلاب فرانس اور انقلاب روس، دونوں ہی عوام کے ہاتھوں کامیاب ہوئے۔ لوگوں نے ان انقلابوں کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا لیکن جب انقلاب کامیاب ہو گيا تو عوام کی کوئي حیثیت ہی نہیں رہ گئي، انھیں حاشیے پر ڈال دیا گيا۔ عوام، اس انقلاب میں، جسے خود انھوں نے اپنے جسم و جان سے اور سڑکوں پر اپنی جدوجہد سے کامیاب کیا تھا، آگے چل کر اس انقلاب میں کوئي رول نہیں نبھا سکے، اپنی کوئي شراکت نہیں دکھا سکے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دونوں انقلاب بڑی تیزی سے اپنی عوامی ماہیت سے ہٹ گئے۔ انقلاب فرانس کے بارہ تیرہ سال بعد، وہ انقلاب جو بادشاہت اور سلطنتی نظام کے خلاف آيا تھا، اس کے بارہ تیرہ سال بعد فرانس دوبارہ ایک سلطنتی ریاست بن گيا۔ نیپولین اقتدار میں آ گيا، اس نے سر پر تاج سلطنت رکھا، بادشاہت لوٹ آئي۔ وہ تقریبا پندرہ سال تک اقتدار میں رہا، اس کے بعد اسے ہٹا دیا گيا، وہی خاندان، جس کے خلاف فرانس کا انقلاب آیا تھا، وہی خاندان لوٹ آيا اور اس نے فرانس کے امور کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ بربن خاندان۔ وہی خاندان پھر سے لوٹ آيا، جب عوام میدان میں نہ ہوں تو یہ ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے انقلاب میں تو بارہ سال بھی نہیں لگے۔ جب انقلاب آيا تو، عوام انقلاب لائے لیکن کچھ ہی برس میں اسٹالن (3) اور اس کے جانشینوں نے سوویت یونین کے ملکوں پر، وہ ممالک جو مل کر سوویت یونین کو تشکیل دیتے تھے، ایسی آمریت اور ڈکٹیٹر شپ مسلط کی کہ ان سے پہلے کی سلطنتوں نے ایسی آمریت نہیں دیکھی تھی، پھر عوام کی کوئي حیثیت نہیں تھی اور ان کی کوئي وقعت نہیں رہ گئي۔ لیکن اسلامی جمہوریہ میں ایسا نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ میں اسلامی انقلاب عوام کی شرکت سے اور عوام کے جسم و جان سے کی گئی جدوجہد سے کامیاب بھی ہوا اور پھر عوام کو حاشیے پر نہیں ڈالا گيا۔ پچاس دن میں یعنی انقلاب کی کامیابی کے بعد دو مہینے سے بھی کم کے عرصے میں ملک گیر سطح پر عوامی ریفرنڈم منعقد ہوا اور عوام نے حکومتی نظام کا انتخاب کیا۔ اختیار عوام کو دیا گيا۔ لوگوں نے ایک ریفرنڈم میں، ایک شفاف اور آزاد ریفرنڈم میں اسلامی جمہوریہ کو نظام حکومت کے طور پر منتخب کیا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو تقریبا ایک سال کا عرصہ ہوا تھا کہ عوام کے ووٹوں سے پہلے صدر کا انتخاب ہوا۔ کچھ ہی مہینے بعد مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کا الیکشن ہوا، عوام کے ووٹوں سے قانون ساز اسمبلی تشکیل پائي۔ اس دن سے لے کر آج تک، تقریبا تینتالیس چوالیس سال کے عرصے میں ملک میں قریب پچاس الیکشن ہو چکے ہیں، لوگ میدان میں آئے، لوگ میدان میں موجود ہیں، وہی چنتے ہیں، ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس انقلاب کی عظمت کا راز یہ ہے۔ امام خمینی ایک ایسے انقلاب کے رہنما تھے۔

البتہ یہ جو کچھ ہم نے عرض کیا، یہ اسلامی انقلاب کی عظمت کا صرف ایک پہلو ہے، اور بھی کئي پہلو ہیں جو اس انقلاب کو، اسلامی انقلاب کو، دوسرے انقلابوں سے ممتاز بناتے ہیں جن میں سے ایک اس انقلاب میں روحانیت کا عمل دخل ہے۔ پچھلے چھوٹے بڑے انقلابوں میں، چاہے فرانس اور روس کے ان دو انقلابوں میں اور چاہے انیسویں اور بیسویں صدی کے ان برسوں میں رونما ہونے والے چھوٹے انقلابوں میں، روحانیت کا فقدان تھا۔ انسان کا روحانی پہلو، جو انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے، پوری طرح سے غائب تھا اور اس پر بالکل بھی توجہ نہیں دی گئي تھی۔ کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ اسلامی انقلاب، ایک ایسا انقلاب ہے جو انسان کے مادی پہلو پر بھی اور اس کے روحانی پہلو پر بھی توجہ دیتا ہے۔ اس نے  توجہ بھی دی ہے اور اس پر کام بھی کیا ہے۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس انقلاب کے رہبر تھے اور ایک ایسی تحریک کے رہبر تھے جو اس انقلاب پر منتج ہوئی۔ اب سوال یہ ہے کہ تحریک انقلاب کے رہبر کا کیا مطلب ہے؟ یہیں سے اس کارنامے کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ البتہ انقلاب کو عوام نے کامیابی تک پہنچایا، اس میں کوئي شک نہیں ہے، اگر لوگ میدان میں نہیں آتے، اپنی فداکاری سے، اپنے جسم و جان سے، اپنی موجودگي سے، اپنے ایثار سے، شہیدوں کا نذرانہ پیش کر کے میدان میں نہیں آتے تو یہ انقلاب کامیاب نہیں ہوتا، انقلاب کو عوام نے کامیاب بنایا، لیکن وہ مضبوط ہاتھ جس نے اس سمندر کو متلاطم کرنے میں کامیابی حاصل کی، وہ مضبوط ہاتھ کس کا تھا؟ وہ مضبوط ہاتھ، وہ فولادی شخصیت، وہ اطمینان سے لبریز دل اور وہ ذوالفقار جیسی زبان، جس نے مختلف ط‍بقوں کے دسیوں لاکھ لوگوں کو میدان میں اتار دیا، انھیں میدان میں باقی رکھا، ان سے مایوسی اور ناامیدی کو دور کیا اور انھیں آگے بڑھنے کی سمت دکھائي، وہ ہمارے عظیم امام تھے، عظیم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

امام خمینی نے لوگوں کو میدان میں اتارا، انھیں راستہ دکھایا، انھیں میدان میں باقی رکھا، ان سے مایوسی اور ناامیدی کو دور کیا، اس ملک میں کوئي بھی دوسرا شخص یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ ہم پہچانتے تھے، سیاسی شخصیات کو، مذہبی شخصیات کو، بہت سے لوگوں کو قریب سے جانتے تھے، کچھ کو دور سے، کوئي بھی یہ بڑا کام کرنے، اس بھاری ذمہ داری کو کندھے پر اٹھانے اور منزل تک پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ یہ صرف اور صرف عظیم امام خمینی کا کام تھا۔ وہی تھے جو اس کام کو انجام دینے میں کامیاب ہوئے۔

امام خمینی مختلف ادوار میں مقابلے کے اصلی میدان کی نشاندہی کر دیتے تھے۔ لوگوں کو بتاتے تھے کہ جدوجہد کا میدان کہاں ہے۔ مختلف اوقات میں، مختلف حالات کے تحت۔ تحریک کے دوران ایک طرح سے، انقلاب کی کامیابی کے خونیں ایام کی تپش میں دوسری طرح سے۔ جب آخری سانسیں لے رہی (آمر) حکومت، امریکا کی مدد سے اس چکر میں تھی کہ تہران میں کرفیو لگا دے، لوگوں کو ان کے گھروں میں محبوس کر دے اور عوامی قیام کی جڑیں کاٹ دے تو امام خمینی نے خدائي الہام سے، حقیقت میں خدائي الہام سے، جسے انھوں نے خود بعد میں کہا بھی، لوگوں سے کہا کہ سڑکوں پر آ جائیے، بہت سے انقلابی سیاستداں اس وقت اس اقدام کے خلاف تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ یہ لوگوں کے لیے خطرناک ہے، امام خمینی نے کہا کہ جی نہیں! انھوں نے اعلان کیا کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں، یہ مقابلے کے میدان کی نشاندہی تھی۔ پتہ چلا کہ اس وقت، اس دن جدوجہد یہ ہے کہ لوگ گھروں سے سڑکوں پر آ جائیں، وہ اس طرح میدان کا تعین کرتے تھے۔

ابتدائي مہینوں میں جدوجہد کا میدان امام خمینی طے کرتے تھے۔ انقلاب کے دوسرے مہینے میں جدوجہد کا میدان، ریفرنڈم اور اسلامی حکومت کو ووٹ دینے سے عبارت تھا۔ انقلاب مخالف افراد سے مقابلہ۔

کبھی پاوہ کا مسئلہ۔ پاوہ اور انقلابی و اسلامی فورسز کے محاصرے کے معاملے میں امام خمینی نے  حکم دیا کہ سبھی جائيں۔ اس دن کی شام میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ تہران کا ایک عجیب سماں ہو گیا تھا، سبھی سڑکوں پر تھے، گویا سبھی پاوہ جانا چاہتے تھے، گاڑی تلاش کر رہے تھے، کوئي ذریعہ تلاش کر رہے تھے کہ کسی طرح پاوہ کی طرف نکل پڑیں کیونکہ امام خمینی نے کہا تھا۔ وہ جدوجہد کا میدان معین کر دیتے تھے۔

مسلط کردہ جنگ کے دوران ایک الگ طریقے سے، ہمدان کی ہوائي چھاؤنی میں امریکی بغاوت کے مسئلے میں، کسی اور طرح سے۔ یہ واقعہ بھی سناتا چلوں کہ جب فضائیہ کے ایک نوجوان دیندار اور باضمیر پائلٹ نے آدھی رات کو، سحر کے وقت آ کر مجھے اطلاع دی کہ بغاوت ہونے والی ہے تو ہم نے مختلف اداروں کو با خبر کر دیا اور تیاری کر لی گئي، اس کے بعد میں اور مرحوم جناب ہاشمی رفسنجانی امام خمینی کی خدمت میں پہنچے، ہمیں تشویش تھی کہ کہیں امام کے ساتھ کوئي ناگوار واقعہ پیش نہ آ جائے۔ ہم نے تجویز دی کہ وہ اپنے جماران والے گھر کو چھوڑ دیں، انھوں نے یہ بات تسلیم نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا، میں یہیں رہوں گا لیکن آپ لوگ جائیے، فلاں جگہ کی حفاظت کیجئے، ایک خاص جگہ تھی - میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا - انھوں نے کہا کہ جائيے اسے محفوظ بنائیے، تو وہ جدوجہد کے میدان کو طے کر دیتے تھے۔

مقدس دفاع کے دوران، صدام کے سلسلے میں، (اقوام متحدہ کی) قرارداد کو منظور کرنے کے سلسلے میں بھی ایسا ہی تھا۔ آپ دیکھیے کہ امام خمینی نے اس قرارداد کو قبول کرنے کے سلسلے میں جو بیان جاری کیا تھا اس میں بھی انھوں نے قرارداد قبول کرنے کے بعد لوگوں کی ذمہ داری طے کر دی تھی، انھوں نے اپنے جانے کے بعد بھی لوگوں کے لیے جدوجہد کے میدان کو واضح طور پر بیان کر دیا تھا، ان کی وصیت، ان کے بیانات، ان کی حیات کے آخری سال کے بیانات، یہ سب ان کے بعد جدوجہد کے میدان کو معین کرنا ہے۔

تو قیادت کا مطلب یہ ہے۔ انقلاب کی قیادت، امام خمینی کے سلسلے میں بڑا پرمغز اور گہرے معانی کا حامل لفظ ہے۔ اس عظیم رہبر کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی ذاتی خصوصیات کا بھی تذکرہ کر سکتے ہیں اور ان کے مکتب فکر کے بارے میں بھی بات کر سکتے ہیں کہ جو بڑی طویل بحث ہے، میں  بہت اختصار سے اس سلسلے میں کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔

جہاں تک ذاتی خصوصیات کی بات ہے تو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ حقیقی معنی میں ایک ممتاز اور غیر معمولی انسان تھے، واقعی منفرد انسان تھے۔ ان کی ذاتی خصوصیات، ایسی تھیں کہ شاید ہی کسی ایک شخص میں ایک ساتھ مجتمع ہوں، ہمیں تو ایسا کوئي نظر نہیں آتا، ہماری پوری تاریخ میں بھی ہمیں ایسا کوئي انسان نظر نہیں آتا جس میں یہ ساری صفات ایک ساتھ موجود ہوں۔

سب سے پہلے تو یہ کہ وہ پاکیزہ اور پرہیزگار انسان تھے، امام خمینی حقیقی معنی میں ایک باتقوی، پرہیزگار اور پاکيزہ انسان تھے۔ دوسرے یہ کہ روحانیت اور عرفانی حالات والے انسان تھے، سحر کے وقت خدا کے حضور گریہ کرنے والے تھے۔ مرحوم الحاج احمد صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ سحر کے وقت جب امام خمینی اٹھتے ہیں اور نماز و دعا میں گریہ کرتے ہیں تو وہ عام رومال جو ان کے پاس ہوتا ہے، وہ آنسو پوچھنے کے لئے ناکافی ہوتا ہے، ان کے لیے ہم تولیہ رکھ دیتے ہیں، ہاتھ منہ پونچھنے والا تولیہ، آنسو کے لیے! وہ اس طرح کی روحانیت والے انسان تھے۔

روحانی لطافت کے حامل تھے، ان کی یہ معنوی کتابیں جیسے آداب الصلاۃ، جیسے شرح حدیث جنود اور عقل و جہل وغیرہ کو امام خمینی نے اپنی جوانی یا ادھیڑ عمر کے اوائل میں - تقریبا چالیس سال کی عمر میں - لکھا تھا۔ وہ جوانی سے ہی ایسے تھے۔

انھوں نے رزم اور عرفان کو اکٹھا کر دیا تھا، وہ رزم کے میدان کے بھی انسان تھے اور معرفت و روحانیت کے بھی حامل تھے۔

اخلاقی لحاظ سے حقیقی معنی میں وہ شجاع تھے، ان کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے - میں نے خود یہ بات نہیں سنی- کہ امام خمینی نے کہا تھا کہ "خدا کی قسم میں آج تک نہیں ڈرا۔" لیکن جو چیز میں نے خود دیکھی ہے اور خود ان سے سنی ہے وہ یہ ہے کہ ایک بار میں کسی مسئلے میں ان سے بات کر رہا تھا - کوئي مسئلہ تھا جس کی میں ان کے سامنے وضاحت کر رہا تھا اور میری ایک تجویز تھی - بات کے دوران میں نے ان سے کہا کہ "آپ یہ کام نہیں کریں گے کیونکہ آپ ڈرتے ہیں کہ..." میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ کو تشویش ہے کہ کہیں فلاں مشکل پیش نہ آ جائے! جیسے ہی میں نے کہا کہ آپ ڈرتے ہیں کہ... انھوں نے کہا کہ میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا! ان کی خصوصیت یہ تھی۔ میں یہ نہیں کہنا چاہ رہا تھا کہ "آپ ڈرپوک ہیں" بلکہ یہ عام بول چال کا ایک انداز ہے یعنی آپ چاہتے ہیں کہ یہ کام نہ ہو جائے لیکن جیسے میں نے ڈر لفظ کا استعمال کیا، انھوں نے برجستہ کہا کہ میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ وہ حقیقی معنی میں بہادر تھے۔

امام خمینی حکمت اور عقلمندی کے حامل تھے، پہلے ہی تخمینہ لگاتے تھے، بغیر تخمینے اور حساب کتاب کے کوئي کام نہیں کرتے تھے، کوئي قدم نہیں اٹھاتے تھے، پہلے تخمینہ لگاتے تھے اور جب اس میں کسی نتیجے تک پہنچ جاتے تھے تو پھر ٹھوس طریقے سے وہ کام انجام دیتے تھے۔ ان کے کام میں تذبذب، شک اور تزلزل نہیں ہوتا تھا۔

وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوتے تھے، اتنے سارے حادثات، انقلاب کے ان ابتدائي برسوں میں ہی ہوئے -یہ شہادتیں، اجتماعی شہادتیں، مختلف حادثات- لیکن امام خمینی کے دل پر بالکل بھی ایسا اثر نہیں ہوتا تھا کہ وہ مایوس ہو جائيں۔ حقیقی معنی میں وہ اہل صداقت تھے، سچے انسان تھے، خدا کے سامنے بھی صادق تھے اور لوگوں کے سامنے بھی سچے تھے۔ اپنے وعدے اور اپنے عہد کے پابند تھے۔ سنہ انیس سو اناسی میں تہران آمد کی ابتداء میں ہی، بارہ بہمن سنہ تیرہ سو ستاون (ہجری شمسی بمطابق پہلی فروری سنہ انیس سو اناسی) کو اپنی تقریر میں، جو انھوں نے اسی بہشت زہرا میں کی تھی، کہا تھا کہ میں حکومت تشکیل کروں گا، چار دن بعد ہی انھوں نے حکومت کی تشکیل کر دی۔ ان چار دنوں کے دوران انھوں نے انقلابی کونسل کو طلب کیا، ہم وہاں گئے۔ بظاہر انھوں نے شہید مطہری اور شہید بہشتی وغیرہ جیسے انقلابی کونسل کے افراد سے کہا تھا کہ وہ کسی کو تلاش کریں لیکن ان لوگوں نے ابھی اقدام نہیں کیا تھا، امام خمینی ناراض تھے، انھوں نے سختی سے کہا کہ کیوں اقدام نہیں کرتے؟ وہ ایسے تھے۔ نظم و ضبط کے بڑے پابند اور وقت شناس تھے، ہم نے اس سلسلے میں ان کے بہت سے واقعات دیکھے ہیں۔ وہ صحیح معنی میں اللہ پر توکل کرنے والے تھے، اللہ کے وعدے پر ایمان رکھتے تھے، بھروسہ رکھتے تھے۔ "وَ مَن یَتَوَکَّل عَلَی اللَہِ فَھُوَ حَسبُہ"(4) وہ اس جملے کے حقیقی مصداق تھے۔ جدوجہد کرنے والے تھے، میں مجاہدت پر بعد میں روشنی ڈالوں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس طرح کی کئي اور خصوصیات، ممتاز خصوصیات امام خمینی کے اندر تھیں، یہ ان کی ذاتی خصوصیات تھیں۔

جہاں تک مکتب فکر، اصولوں اور اہداف کی بات ہے تو اگر ہم امام خمینی کی مجاہدت اور ان کے انقلابی مکتب فکر کے بنیادی ڈھانچے کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا ہوگا کہ ان کی تمام سرگرمیوں کا بنیادی ڈھانچہ، "اللہ کے لیے قیام" تھا، ہدف اللہ کے لیے قیام تھا، وہی چیز جو انھوں نے اپنی نوجوانی میں مرحوم وزیری یزدی رحمۃ اللہ علیہ(5) کی ڈائری میں اپنے مشہور جملے میں لکھی ہے: قُل اِنَّمآ اَعِظُکُم بِواحِدَۃٍ اَن تَقوموا لِلّہِ مَثنَی وَ فُرادَی(6) اللہ کے لیے قیام، جس کا بڑا مضبوط قرآنی پس منظر ہے۔ سورۂ سبا کی اسی آيت - قُل اِنَّمآ اَعِظُکُم -  میں اللہ کے لیے قیام کے موضوع کو بیان کیا گيا ہے۔ یا قوموا لِلّہِ قانِتین(7) جس کا ذکر سورۂ مبارکۂ بقرہ میں ہے یا بعثت کے آغاز میں سورۂ مدثر کی ایک دوسری آیت میں: یا اَیُّھَا المُدَّثِّر. قُم فَاَنذِر(8) اللہ کے لیے قیام کا مطلب یہ ہے۔ اب اللہ کے لیے یہ قیام، ہر زمانے میں ممکنہ طور پر ایک الگ طریقے سے ہو سکتا ہے۔

اللہ کے لیے قیام ہمیشہ ایک طرح سے نہیں ہوتا لیکن اللہ کے لیے قیام کے ان تمام طریقوں میں ہدف ایک چیز کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور وہ ہے حق قائم کرنا، عدل و انصاف کا قیام اور روحانیت و معنویت کی ترویج، ہر زمانے میں ہدف یہی رہا ہے یعنی حق قائم کرنا۔ اللہ کے لیے قیام کسی وقت میں مجاہدت کی کسی خاص شکل میں ہے، کبھی علمی کام کی شکل میں ہے، کسی زمانے میں سیاسی اقدام کی شکل میں ہے لیکن ان سب میں اللہ کے لیے قیام کا ہدف، حق قائم کرنا ہو، یہ ایک۔ عدل و انصاف قائم کرنا ہو، یہ دو۔ روحانیت و معنویت کی ترویج ہو، یہ تین۔ اہداف یہ ہیں۔ میں نے قرآن مجید کی کچھ آیات نوٹ کی ہیں، آپ (عربی ڈکشنری) المعجم میں "قام" لفظ کے تحت دیکھ سکتے ہیں، معلوم ہو جائے گا کہ یہ قیام کس لیے ہے۔ فرض کیجیے "لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط"(9) کہ پیغمبروں کی آمد، رسولوں کو بھیجے جانے اور کتابوں کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ "لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط"، یہ ایک آیت۔ یا سورۂ نساء کی یہ آیت کریمہ: "اَن تَقوموا لِلیَتامیٰ بِالقِسط"(10) یا سورۂ رحمن کی یہ آیت: "وَ اَقیمُوا الوَزنَ بِالقِسط"(11)، یا سورۂ شوری میں آيا ہے: اَقیمُوا الدّین(12) یا سورۂ مائدہ کی آيت: "حَتّی تُقیمُوا التَّوراتَ وَ الاِنجیل"(13) اور قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر آيا ہے: اَقیمُوا الصَّلوۃ (14) اور دوسرے مقامات جہاں کہا گيا ہے کہ اللہ کے لیے قیام، ان باتوں پر منتج ہونا چاہیے، اللہ کے لیے قیام کا ہدف یہ ہے۔

تو ہم نے کہا کہ امام خمینی مجاہدت کرنے والے تھے، اس معنی میں کہ وہ اللہ کے لیے قیام کے میدان میں مستقل موجود رہے۔ حقیقی معنی میں وہ اللہ کے لیے قیام کا عقیدہ رکھتے تھے۔ حق و انصاف کا قیام، طبیعی طور پر امام خمینی کا ہدف تھا؟ یہ ہدف کس طرح عملی جامہ پہن سکتا ہے؟ حق و انصاف کا قیام، امام خمینی کا ہدف تھا لیکن کیا رسوائے زمانہ پہلوی حکومت یا کسی بھی دوسری پٹھو حکومت کی چھت تلے حق و انصاف قائم کیا جا سکتا تھا؟ نہیں، تو پھر اگلا ہدف یہ ہوگا کہ اس چھت کو تبدیل کیا جائے۔ امام خمینی یہ چاہتے تھے کہ اس قوم کے سر پر سے پہلوی حکومت کا ذلت بار سایہ ہٹا دیں اور قوم کے اٹھ کھڑے ہونے، قیام اور پیشرفت کی راہ ہموار کریں:

 "فلک را سقف بشکافیم و طرحی نو دراندازیم"(15)

اثبات بھی اور نفی بھی۔ پہلے اس طاغوتی حکومت کی نفی اور پھر ایک مطلوبہ سیاسی میدان کا اثبات جو لوگوں کو آگے بڑھائے۔ تو یہ نفی اور اثبات پر مشتمل امام خمینی کا اقدام تھا۔

امام خمینی کی عظیم تحریک میں کچھ نمایاں نکات تھے: سب سے پہلے تو یہ کہ ان میں ڈر نہیں تھا۔ انھیں کوئي خوف نہیں تھا، کسی کی خوشامد نہیں کرتے تھے، صاف بات کرتے تھے، لوگوں سے کھل کر بات کرتے تھے، یہ تحریک کے دوران کی بات ہے، چاہے وہ قم میں ہوں یا نجف میں، عوام الناس سے بات کرتے تھے، لگاتار ان کے لیے امور کی تشریح کرتے تھے، رہنمائي کرتے تھے۔ واقعی ان کی زبان ذوالفقار سی کاٹ رکھتی تھی اور اس طرح اس عظیم شخصیت نے اپنا مشن آگے بڑھایا، کھل کر اور صاف بات کرتے تھے۔

دوسرے یہ کہ عوام پر بھروسہ کرتے تھے۔ امام خمینی کی ایک اہم خصوصیت روز اول سے عوام پر اعتماد تھا۔ ایسے لوگ تھے، جن کا دل تو چاہتا تھا کہ جدوجہد کریں، مجاہدت کریں لیکن کہتے تھے کہ لوگ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔ مگر امام خمینی ایسے نہیں تھے، وہ پہلے دن سے یہ مانتے تھے کہ اگر ہم میدان میں آ جائيں تو لوگ بھی آ جائيں گے۔ تحریک کے آغاز میں، سنہ باسٹھ میں، قم میں اپنے درس کے بعد تقریر میں انھوں نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کہ اگر ہم عوام سے کہیں یا لوگوں سے چاہیں -ایسی ہی کوئي بات کہی تھی- تو لوگ اس صحرا کو بھر دیں گے۔(16) یہ سنہ باسٹھ کی بات ہے جب بہت سے لوگ امام خمینی کو نہیں پہچانتے تھے۔ انھوں نے امام خمینی کا نام بھی نہیں سنا تھا، وہ عوام پر ایسا اعتماد کرتے تھے۔ وہ عوام کی جدوجہد کی قدروقیمت سمجھتے تھے، حقیقی معنی میں تحریک کی قیادت کرتے تھے، اپنے 'انفاس قدسیہ' سے دلوں کو روشن رکھتے تھے، ہمیں مایوس نہیں ہونے دیتے تھے، ہمیں تذبذب کا شکار نہیں ہونے دیتے تھے، عوام کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے تھے۔ تو یہ چیز نفی کے زمانے کی ہے، ظالم اور طاغوتی حکومت سے مقابلے کے زمانے کی۔

اب اثبات کے زمانے کی طرف آتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے زمانے میں - اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے زمانے میں امام خمینی کے اقدامات بہت اہم ہیں - ان کی کوشش یہ تھی، ان کا روڈ میپ یہ تھا کہ نئے منصوبے کو ملک کے انحطاط کے شکار ماضی سے الگ کر دیں، مستقبل کو ماضی سے پوری طرح علیحدہ کر دیں۔ وہ اس مستقبل کو کس طرح الگ کر سکتے تھے؟ اس طرح سے کہ وہ ملک کا انتظام چلانے کے لیے ایک منصوبہ پیش کرتے، ایک تجویز پیش کرتے جو مغربی کلچر، تمدن اور ڈکشنری سے ماخوذ نہ ہو۔ امام خمینی کا اصرار تھا کہ یہ تجویز، اسلامی جمہوریہ کی تجویز، اس چیز کے ذیل میں نہ آنے پائے جسے مغرب جمہوریت یا ڈیموکریسی کہتا ہے۔ اس لیے میں نے بیان کیا تھا، پچھلے سال اسی دن کی تقریر میں تشریح کی تھی کہ جمہوریت، اسلام کی ہے، جمہوریت، مغرب سے مستعار نہیں کی گئی ہے، خود اسلام سے ماخوذ ہے۔ یہ جو امام خمینی عوام کے ووٹوں پر اتنا زیادہ زور دیتے تھے، یہ اس معرفت کا نتیجہ تھا جو وہ اسلام کے سلسلے میں رکھتے تھے۔ اس لیے امام خمینی پرعزم تھے کہ اس وقت دنیا میں رائج دو مکاتب فکر، یعنی سرمایہ داری پر مبنی لبرل ڈیموکریسی اور آمریت پر مبنی اشتراکیت، دونوں سے اسلامی جمہوریہ کو الگ کریں، اسی لیے امام خمینی کا ایک بنیادی نعرہ "نہ شرقی، نہ غربی" (نہ مشرق اور نہ مغرب) تھا۔ نہ کمیونزم اور نہ ہی لبرل ازم، نہ مغرب کا معیشت میں وہ سرمایہ دارانہ نظام اور بے راہروی والی آزادی اور نہ مشرقی نظاموں میں موجود وہ آمریت اور گھٹن۔ ان میں سے کسی کو بھی امام خمینی تسلیم نہیں کرتے تھے، نہ ہی مشرق اور نہ ہی مغرب، امام خمینی نے اسلامی جمہوری نظام کے لیے ایک نیا ماڈل پیش کیا جو ان دونوں نظاموں سے پوری طرح الگ تھا۔

امام خمینی کے پیش کردہ ماڈل میں دو چیزیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئيں، یہ دو چیزیں، جنھیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل لانے اور متضاد ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، امام خمینی کے ماڈل میں ایک ساتھ آ گئيں، روحانیت بھی - مذہبی روحانیت - اور عوامی رائے بھی۔ روحانیت بھی اور عوامی رائے بھی، ہمیشہ کوشش کی جاتی تھی کہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کیا جائے۔ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل نہیں کھڑے ہوئے، امام خمینی نے انھیں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑا کیا۔

عمومی و سماجی ضرورتوں اور مصلحتوں کے ساتھ ہی الہی احکام کا نفاذ۔ تشخیص مصلحت نظام کونسل کی تشکیل امام خمینی نے کی۔ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اسے میں نے تشکیل دیا ہے۔ نہیں! میں صدر تھا اور امام خمینی نے مجھے خط لکھا اور وہی یہ ادارہ مصلحت کی تشخیص کے لیے وجود میں لائے، اسلامی احکام کا نفاذ ہوتا ہے لیکن وقت کی ضرورتوں اور سماج کی عمومی مصلحتوں کا بھی لحاظ کیا جائے۔ مصلحت سے یہ مراد ہے، مصلحت سے مراد افراد نہیں ہیں۔

دولت و ثروت کی پیداوار کے ساتھ ہی کمزوروں کی حالت پر توجہ اور معاشی انصاف پر تاکید، معاشی انصاف خاص طور پر، دولت و ثروت پیدا کرنا بھی جائز ہے اور ملک میں انصاف کا ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے اور کمزوروں کی صورتحال کا بھی لحاظ ہونا چاہیے۔ ظلم کرنے کی بھی نفی اور ظلم برداشت کرنے کی بھی نفی۔ ایک حکومت کی حیثیت سے دوسری حکومتوں پر، دوسری اقوام پر نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ان کا ظلم برداشت کرتے ہیں، نہ منہ زوری دکھاتے ہیں اور نہ ہی منہ زوری کے سامنے جھکتے ہیں، ہم علم و دانش اور معیشت کی بھی تقویت کرتے ہیں اور ملک کے دفاع کو بھی مضبوط بناتے ہیں، مطلب یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف اقتصادیات کے بارے میں سوچیں اور ملک کے دفاع اور سیکورٹی کی طرف سے غافل رہیں، اس کی برعکس شکل بھی ایسی ہی ہے۔ ملک کا قومی اتحاد اور یکجہتی کا بھی لحاظ کیا جانا چاہیے اور مختلف طرح کی آراء اور سیاسی رجحانات کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے، یہ بھی بظاہر دو متضاد چیزیں ہیں۔ حکام کا تقوی اور پاکیزگي بھی ضروری ہے اور کام میں ان کی مہارت بھی ضروری ہے۔ ذمہ داری کا احساس اور مہارت دونوں ایک ساتھ۔ دیکھیے، یہ ایسی دو چیزیں ہیں جنھیں کچھ لوگ انقلاب کے اوائل میں انقلاب سے پہلے ایک دوسرے کے مدمقابل قرار دینا چاہتے تھے، امام خمینی نے ان چیزوں کو ہم آہنگ کیا، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا کیا۔ یہ امام خمینی کے مکتب فکر کی خصوصیات ہیں۔

ممکن ہے آپ یہاں پر ایک سوال کریں، پوچھیں کہ یہ مکتب فکر جسے امام خمینی نے تیار کیا تھا، خود ان کے زمانے میں یا ان کے بعد کس حد تک عملی جامہ پہن سکا؟ یہ اہم سوال ہے، یہ وہ سوال ہے جو ممکن ہے کہ دنیا میں بھی ہم سے پوچھا جائے۔ میں جو جواب دوں گا وہ معلومات اور ملک کے حقائق کی بنیاد پر ہوگا۔ میرا جواب یہ ہے کہ ہم نے ان تمام شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر کوئي کامیابیوں کا انکار کرتا ہے تو قطعی طور پر وہ ناانصافی کر رہا ہے۔ ان تمام میدانوں میں، ڈیموکریسی کے میدان میں بھی، سائنسی پیشرفت کے میدان میں بھی، سفارتی مسائل کے میدان میں بھی، دنیا میں ملک کی پوزیشن کے معاملے میں بھی، معیشت کے شعبے میں بھی، عمومی اور سماجی سروسز کے میدان میں بھی ہم نے بہت زیادہ پیشرفت کی ہے۔

البتہ ہماری ناکامیاں بھی کم نہیں رہی ہیں۔ ہم نے پیشرفت بھی کی ہے اور ہماری کمزوریاں اور ناکامیاں بھی رہی ہیں۔ یہاں بھی امام خمینی نے حکمت آمیز طریقے سے ہماری رہنمائي کی ہے۔ اس معاملے میں بھی ان کی ہدایات ہماری مددگار ہیں۔ امام خمینی نے اپنی عمر کے آخری سال میں شہداء کے بچوں کے سامنے کچھ باتیں کی تھیں۔(17) انھوں نے کہا تھا: "آپ کی کارکردگي کا نتیجہ، آپ کی کوشش اور مجاہدت پر منحصر ہے۔" آپ جتنی بھی کوشش کریں گے، جتنی بھی مجاہدت کریں گے، اس کا نتیجہ اکٹھا دیکھیں گے۔ انھوں نے اپنے بیان میں آگے کہا تھا: "آج کی دنیا میں زندگي بسر کرنا، عزم کی درسگاہ میں زندگي گزارنا ہے۔" ارادے کے تابع ہے۔ جہاں بھی عوام اور حکام، مضبوط ارادے کے ساتھ میدان میں اتریں گے، کامیابی ملے گي، جہاں بھی ارادہ کمزور ہوگا، کوشش کم ہوگي، وہاں پسماندگي ہے۔ جی ہاں، ہمارے یہاں کچھ پسماندگی بھی ہے، پیشرفت بھی ہے، تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ یہ ہم تھے، ہم عہدیداران تھے، معاشرے کے مختلف بااثر طبقے تھے جنھوں نے کہیں پر اچھی کارکردگی دکھائی، وہاں کامیابی حاصل ہوئي، کہیں ہم نے کوتاہی کی، تساہلی سے کام لیا، محنت نہیں کی، تو ظاہر ہے وہاں ہم پیچھے رہ گئے، اس کا انکار کیا ہی نہیں جا سکتا۔ مکتب فکر صحیح ہے، روڈ میپ صحیح ہے، راستہ صحیح ہے، راستے پر صحیح طریقے سے چلنا چاہیے۔ جہاں بھی ہم نے صحیح قدم بڑھائے، وہاں ہم نے پیشرفت کی، جہاں ہم نے کوتاہی اور تساہلی کی، وہاں پیچھے رہ گئے۔ ان برسوں میں اس کی مثالیں بہت ہیں، خود امام خمینی کے زمانے میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی۔

البتہ دشمنوں کی دشمنی کے رول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انقلاب کی کامیابی کی ابتدا سے ہی دشمنوں کا وسیع محاذ حرکت میں آ گيا تھا۔

 بعض لوگ سوچتے ہیں کہ ہم نے دشمنوں کو دشمنی پر اکسایا ہے۔ نہیں! اسلامی جمہوریہ کی ماہیت ہے جو کہتی ہے کہ ظلم کی مخالفت کرو، فطری طور پر وہ ظالم کو اپنا مخالف بنا لیتی ہے۔ کیا آپ نہیں کہتے کہ ہم سامراج کے مخالف ہیں، ظلم کے خلاف ہیں؟ تو ٹھیک ہے جو بھی مستکبر ہوگا، جو بھی ظالم ہوگا، جس حکومت میں بھی یہ مذموم صفات ہوں گي وہ آپ کا دشمن بن جائے گا، اسلامی جمہوریہ یہ ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم روحانیت کو پسند کرتے ہیں تو جو لوگ عوام کی روحانیت کے دشمن ہیں، وہ آپ کے مخالف ہو جائيں گے۔ اسلامی جمہوریہ کہتی ہے کہ ہم برائيوں کے خلاف ہیں، جن لوگوں کو برائيوں کی عادت پڑ چکی ہے، جو برائيوں کے در پے ہیں اور برائيوں کو چھوڑ نہیں سکتے، وہ فطری طور پر اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہو جائيں گے۔ یہ فطری چیز ہے۔ تو دشمن کے محاذ اور دشمنیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

یہ دشمنیاں بھی کئي طرح کی تھیں۔ انقلاب کی کامیابی سے متصل انہی دنوں میں امریکیوں نے اپنے جنرل(18) کو بغاوت کے لیے تہران بھیجا جو بحمد اللہ نامراد اور مایوس واپس لوٹا۔ بہت سے دوسرے مسائل میں بھی امریکی اور دوسرے دشمن ناکام اور مایوس رہے۔ مغرب والوں سے دوری رکھنے کی امام خمینی کی سنجیدہ پالیسی خود بخود دشمن پیدا کرتی تھی، انھیں مداخلت نہیں کرنے دیتی تھی۔ فلسطین کے سفارتخانے کو، فلسطین کے آفس کو جو غاصب کے ہاتھ میں تھا، اس سے لے لیا اور فلسطینیوں کو دے دیا جو فلسطین کے مالک ہیں۔ تو یہ چیزیں فطری طور پر دشمنی پیدا کرتیں، یہ تو ہونا ہی ہے۔

ہمارے جوان اس بات پر توجہ دیں: مغرب والوں نے تین صدی تک دنیا کو لوٹا کھسوٹا، تین صدی تک! دنیا کو لوٹتے رہے۔ مشرقی ایشیا، انڈونیشیا، فلپائن، نیپال، برصغیر ہند سے لے کر وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا تک، افریقا کے مغربی حصوں سے لے پورے سب صحارا افریقا (Sub-Saharan Africa)  تک مغرب والوں نے تین صدیوں تک لوٹ مار کی، صرف اسی پر اکتفا نہیں کی، جنوبی امریکا کو بھی لوٹا۔ براعظم امریکا کو! براعظم امریکا کے مالک موجود تھے، وہاں کا تمدن تھا، وہاں کی اقوام تھیں، ان لوگوں نے مختلف حربوں اور چالوں سے، جن میں سے ہر ایک چال تاریخ میں رقم ہے - کتابیں پڑھیے اور ان شاء اللہ ان حقائق کو زیادہ قریب سے محسوس کیجیے- ان لوگوں نے وحشت ناک جرائم کیے، قتل، غارتگری، اجتماعی قتل عام، ایذا رسانی، دباؤ، بردہ فروشی، یہ سارے کام مغرب والوں نے کیے۔ ان تین صدیوں میں جب مغرب والے عملی طور پر اس طرح جرائم میں مصروف تھے، ان کے روشن فکر افراد اور مفکرین دنیا کے لیے انسانی حقوق کے قوانین منکشف کر رہے تھے، وضع کر رہے تھے! مطلب یہ کہ مغرب والوں کے قول و فعل میں یہ نفاق اور یہ ریاکاری پوری طرح سے عیاں ہے۔ عمل میں کچھ اور، زبان سے کچھ اور! یورپی ملکوں نے اور پھر امریکا نے حقیقی معنی میں پوری دنیا میں طرح طرح کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ یہ مغربی تمدن کے شاہکار ہیں، یہی مغربی تمدن کے شاہکار ہیں!

امام خمینی ان چیزوں کو اچھی طرح سے جانتے تھے، خوب واقف تھے۔ ایک بنیادی مسئلہ جس پر وہ تاکید کرتے تھے، اسلامی طرز فکر و زندگي اور اسلامی نظام اور مغربی نظاموں کے درمیان فاصلہ اور سرحد قائم کرنا تھا اور یہ چیز ان کے بنیادی اہداف میں سے ایک تھی۔

امام خمینی کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے قوم کو استقامت کے مفہوم سے آشنا کیا۔ بہت سے مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ اقوام کوئي کام کرنا چاہتی ہیں لیکن ان میں مزاحمت کی طاقت نہیں ہوتی، جب دباؤ پڑتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ امام خمینی نے ایرانی قوم کو اس طرح سے تیار کیا، اس طرح اس کی تقویت کی، انھوں نے اس قوم میں ڈٹ جانے کی صفت کو اور استقامت کو انجیکٹ کر دیا لہذا آج ایرانی قوم، پوری طرح سے ایک مضبوط، مستحکم اور مزاحمت کرنے والی قوم ہے۔

خدا کا شکر! یہ بھی ہمارے عظیم الشان امام کی برکتوں میں سے ایک ہے اور 'مزاحمت' کا عنوان آج دنیا کی سیاسی ڈکشنری میں شامل ہو چکا ہے۔ یہ مزاحمت جو امام خمینی نے ایرانی قوم اور ہم سب کو سکھائي، آج دنیا کی سیاسی ڈکشنری کے نمایاں الفاظ میں سے ایک ہے۔

میں دشمنوں کی اس حرص، دشمن کی چالوں، دشمنوں کی سازشوں، ایرانی قوم کے لیے ان کے آشفتہ خوابوں کے بارے میں ایک اہم نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس نکتے کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ آج ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن کی سب سے بڑی امید عوامی احتجاج سے ہے۔ ان کی امید یہ ہے کہ وہ نفسیاتی کام کر کے، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا وغیرہ پر کام کر کے، پیسے خرچ کر کے، ایجنٹ تیار کر کے عوام کو اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کے سامنے لا کھڑا کریں، یہ اس نکتے کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ دشمن کا یہ اندازہ، اس مسئلے میں بھی، اس کے بہت سے اندازوں کی طرح غلط ہے۔ انقلاب کی شروعات میں وہ پورے وثوق سے کہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ چھے مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہے گي، پھر چھے مہینے اس کی مدت بڑھا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اگلے  چھے مہینے میں! اس طرح کے اسّی سے زیادہ چھے مہینے گزر چکے ہیں اور اسلامی جمہوریہ جو اس وقت ایک ننھا سا پودا تھا اب ایک تناور اور مضبوط جڑوں والا درخت بن چکا ہے، روز بروز زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوا ہے۔ ان کے اندازے وہاں بھی غلط تھے اور یہاں بھی غلط ہیں۔ یہ اندازہ بھی انہی اندازوں کی طرح ہے، جیسے انھوں نے مسلط کردہ جنگ میں اندازہ لگایا تھا، یہ سوچ کر صدام کی مدد کی تھی کہ وہ کچھ ہی دن میں اسلامی جمہوریہ کو گرا دے گا، باغیوں نے اس امید میں مدد کی کہ شاید وہ کچھ بگاڑ سکیں، یہ سارے اندازے تھے جو امریکیوں نے اور مغرب والوں نے لگائے تھے اور سبھی غلط تھے۔ آج بھی یہ اندازہ غلط ہے کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ ایرانی قوم کو اسلامی نظام کے خلاف لا کھڑا کریں گے، اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں ایک ایسی طاقت کو لے آئیں جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اسے بہت اہمیت دیتی ہے اور وہ عوام کی طاقت ہے۔

امریکی یہ غلطی کیوں کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ ان کے کچھ مشیر ہیں جو غدار ایرانی ہیں اور انھیں مشورے دیتے ہیں۔ یہ غدار مشیر، جو اپنے ملک کے ساتھ تو غداری کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی خود ان سے بھی غداری کر رہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ پختہ معلومات کے بغیر انھیں مشورے دے رہے ہیں، وہ بے چارے بھی ان کے مشوروں کے مطابق کام کرتے ہیں اور انھیں شکست ہو جاتی ہے۔ ان کی ایک بات، ان کا ایک مشورہ یہی ہے کہ "آپ اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ سے مقابلے کے لیے ایرانی قوم پر بھروسہ کیجیے، ایرانی قوم دین سے، اسلامی نظام سے، علمائے دین سے عاجز آ چکی ہے، آپ اس پر بھروسہ کر سکتے ہیں! یہ لوگ، اسلامی نظام کے مقابلے میں کھڑے ہو جائيں گے۔" یہ بے علم اور غدار مشیر - دونوں فریقوں کے غدار- یہ بات اپنے امریکی آقاؤں سے کہتے ہیں، پیسے دیتے ہیں، وہ بھی یہی تجزیہ کرتے ہیں، اپنی گفتگو میں، اپنی سینٹ میں، مختلف جگہوں پر اسی بات کو دوہراتے ہیں، ملک کے اندر بھی کچھ سادہ لوح افراد -بحمد اللہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے- اس بات کو سچ مان لیتے ہیں۔

کبھی ہم سنتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر اپنی تحریروں میں یا میڈیا اور اخبارات میں کہتے ہیں کہ جی ہاں! علمائے دین پر سے لوگوں کا بھروسہ اٹھ چکا ہے، دین پر ان کا عقیدہ ختم ہو چکا ہے، یہ باتیں ہم یہاں، ملک کے اندر بھی سنتے ہیں۔ یہ ان سو فیصد غلط اندازوں میں سے ایک ہے۔ آج انقلاب اور دین کی طرف لوگوں کا رجحان، انقلاب کے پہلے دن کے مقابلے میں یقینی طور پر زیادہ ہے۔ اگر کوئي انقلاب، مجاہدت اور جدوجہد کی طرف لوگوں کے رجحان کو سمجھنا چاہتا ہے تو شہید سلیمانی کے جلوس جنازہ کو دیکھے جس میں دسیوں لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ شہید سلیمانی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے جسم کو دسیوں لاکھ انسانوں نے الوداع کہا۔ ایک انقلابی انسانی، ایک مجاہد انسان، جس نے اسلامی جمہوریہ کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی تھی، اسے لوگوں نے اس طرح خراج عقیدت پیش کیا، یہ ایک نمونہ ہے، دوسرے اور بہت سے نمونے ہیں، جیسے علمائے دین۔ مرحوم آيۃ اللہ صافی گلپائيگانی ایک مرجع تقلید تھے، ایک فقیہ تھے، آپ دیکھیے کہ ان کے جلوس جنازہ میں لوگوں نے کس عظیم اقدام کا مظاہرہ کیا۔ مرحوم آیۃ اللہ بہجت ایک فقیہ اور عارف تھے، ان کے جلوس جنازہ میں، بہشت کی جانب روانگی کے وقت ان کو الوداع کہنے کے لیے قم کے عوام نے اپنے شہر کو جذبات سے لبریز کر دیا، دوسری جگہوں سے بھی لوگ جلوس جنازہ میں شرکت کے لیے قم پہنچے تھے۔ آپ مجھے بتائيے کہ ملک کے نمایاں لوگوں میں، سیاست، فن و ہنر، اسپورٹس اور دیگر شعبوں میں سے ایسا کوئي ہے کہ جب وہ دنیا سے جائے تو لوگ اس کے لیے اس طرح کے جذبات دکھائيں؟ یہ کس چیز کی علامت ہے؟ یہ علمائے دین پر سے لوگوں کا بھروسہ اٹھ جانے کی علامت ہے؟ یہ دین سے، جہاد سے اور استقامت سے لوگوں کا عقیدہ اٹھ جانے کی علامت ہے؟ ان کے تجزیے ایسے ہی ہیں، وہ اس طرح سے تجزیہ کرتے ہیں۔

آپ دیکھیے کہ یہی نغمہ، جو ان دنوں نشر ہوا ہے اور جو حضرت ولی عصر صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے عقیدت کا اظہار اور حضرت بقیۃ اللہ پر درود و سلام پر مشتمل ہے، لوگ کس طرح اس کا استقبال کر رہے ہیں، کس طرح اشتیاق کا اظہار کر رہے ہیں، کتنا ساتھ دے رہے ہیں، کتنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں! بوڑھے، جوان، نوجوان، بچے، عورت، مرد، سبھی پورے ملک میں، تہران میں کسی اور طرح سے، مشہد میں کسی اور طرح سے، اصفہان میں کسی اور شکل میں، یزد میں دوسری طرح سے، مختلف شہروں میں اور طرح سے، یہ کس چیز کی دلیل ہے؟ یہ دین سے لوگوں کے منہ موڑ لینے کی دلیل ہے یا اس کے برخلاف حقیقت ہے؟ انقلاب کے اوائل میں یہ چیزیں نہیں تھیں، انقلاب کی شروعات میں اعتکاف کے مراکز کی جانب نوجوان طلباء کی بڑھتی بھیڑ نہیں تھی، یہ عظیم مذہبی اجتماعات نہیں تھے، آج یہ چیزیں ہیں۔ جی نہیں آپ نے ایرانی قوم کے بارے میں غلط اندازہ لگایا ہے۔ یا انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر نکلنے والے جلوس، تینتالیس سال ہو گئے ہیں کہ لوگ انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر اور یوم قدس کے موقع پر جلوس نکالتے ہیں اور وہ بھی اتنے عظیم الشان! یہ انقلاب سے لوگوں کے منہ موڑ لینے کی علامت ہے؟ یہ عوام کی وفاداری کی علامت ہے، یہ عوام کی استقامت کی دلیل ہے، یہ لوگوں کے ڈٹے رہنے کی نشانی ہے، یہ اس عظیم قوم پر امام خمینی کی تعلیمات کے گہرے اثر کی علامت ہے۔

اپنی گفتگو کے آخر میں، میں انقلابی، سماجی، سیاسی اور معاشی میدان میں کام کرنے والے افراد کو، چاہے وہ نوجوان ہوں یا دوسرے ہوں، کچھ سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔

ایک سفارش یہ ہے کہ دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کو موقع نہ دیجیے کہ وہ آپ کے انقلاب کا تشخص ختم کریں، انقلاب کے حقائق کو مسخ کرکے پیش کریں، غلط شکل میں دکھائيں، یہ ایک سفارش ہے، اہم سفارش ہے، ذہین اور ہوشیار نوجوان اس مسئلے پر غور کریں۔

اگلی سفارش: امام خمینی کی یاد کو معاشرے میں پھیکا نہ پڑنے دیجیے۔ جیسا کہ میں نے کہا، امام خمینی اس انقلاب کی روح ہیں، ان کی یاد کو پھیکا نہ پڑنے دیجیے، ان کی شخصیت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا موقع نہ دیجیے۔

اگلی سفارش: رجعت پسندوں کی قطار کو ملک میں نفوذ کرنے اور جڑ پکڑنے نہ دیجیے۔ رجعت پسند کا کیا مطلب ہے؟ جب ہم رجعت پسند کہتے ہیں تو بعض لوگوں کے ذہن میں ایک ایسے شخص کی تصویر ابھرتی ہے جس کے سر پر ٹوپی ہے، نہیں رجعت پسند وہ ہے جو سیاست میں اور طرز زندگي میں مغربی سیاست اور طرز زندگي کا پیروکار ہے، یہ رجعت پسند ہے۔ ہمارے ملک میں یہ حالت تھی، بدعنوان اور پٹھو پہلوی حکومت میں، ملک میں مغربی طرز زندگي تھا، انقلاب آيا تو اس نے اسے ختم کر دیا۔ ممکن ہے کہ یہ شخص جو رجعت پسند ہے، ٹی شرٹ پہنے، جینس پہنے، ٹائي لگائے اور فرانسیسی پرفیوم بھی لگائے لیکن وہ رجعت پسند ہو۔ جو بھی مغربی زندگي، مغربی کلچر اور مغربی طرز زندگي کی طرف جاتا ہے، رجعت پسند ہے۔ اپنے ملک کو رجعت پسندی کی طرف بڑھنے نہ دیجیے، رجعت پسندی کو ملک کے جسم میں جگہ بنانے اور دراندازی کرنے کی اجازت نہ دیجیے۔

اگلی سفارش: دشمن کے جھوٹ، فریب اور نفسیاتی جنگ کو بے نقاب کیجیے۔ امام خمینی کے زمانے میں جب نہ انٹرنیٹ تھا اور نہ سیٹلائٹ چینل اس طرح کے تھے تو امام خمینی کہا کرتے تھے کہ دشمن، قلم کے ذریعے آپ سے لڑ رہا ہے، قلم سے۔ ان کی توجہ تھی۔ آج قلم کی بات نہیں، آج سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کی بات ہے، سیٹلائٹ چینلز کی بات ہے، نفسیاتی جنگ ہے، ہمہ گیر اور وسیع نفسیاتی جنگ۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ کو ملک میں اثر انداز نہ ہونے دیجیے۔ دیکھیے! میں نفسیاتی جنگ کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں۔ ایران کے تیل کو یونان کے ساحل پر چرا لیا جاتا ہے، چوری کر لیتے ہیں - ہمارے تیل کو چرا لیا -اس کے بعد اسلامی جمہوریہ کے جاں بکف دلیروں نے تلافی کی اور دشمن کے آئل ٹینکر کو پکڑ لیا تو اس نے اپنے وسیع پروپیگنڈے اور میڈیا میں اپنا رسوخ استعمال کرکے ایران پر چوری کا الزام لگایا! چور کون ہے؟ تم نے ہمارا تیل چرایا تھا، ہم نے تم سے واپس لے لیا، چوری کا مال واپس لینا تو چوری نہیں ہے۔ تم چور ہو۔ امریکی، یونان کی حکومت کو حکم دیتے ہیں، یونان کی حکومت تعمیل کرتی ہے، ہمارا تیل چرا لیتی ہے۔ تو یہ نفسیاتی جنگ ہے، اس نفسیاتی جنگ کا مقابلہ کیجیے جس کی روزانہ متعدد مثالیں سامنے آتی ہیں۔

اگلی سفارش: عمل صالح کی انجام دہی کے لیے عوامی ایمان کے سرمائے سے استفادہ کیجیے۔ عوام مومن ہیں، عوام باایمان ہیں، یہ ایمان، عمل صالح کو وجود میں لا سکتا ہے، یہ کام آپ کر سکتے ہیں، ہمارے عظیم امام خمینی، اس کام کے بے نظیر استاد تھے، عمل صالح کو وجود میں لانے کے لیے لوگوں کے ایمان سے استفادے میں وہ بے نظیر استاد تھے۔

اگلی سفارش: کچھ لوگوں کو ایسا ظاہر نہ کرنے دیجیے کہ ملک بندگلی میں پہنچ گيا ہے۔اس وقت سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا پر کچھ لوگوکا کام ہی یہی ہے - اب یا تو وہ غفلت میں یہ کام کر رہے ہیں یا پیسے لیتے ہیں، مجھے نہیں معلوم - وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ملک بند گلی میں پہنچ گیا ہے۔ نہیں! ملک بند گلی میں نہیں جائے گا۔ امام خمینی کے زمانے میں بھی یہی ہوا تھا۔ اس وقت کچھ لوگوں نے اپنے اخباروں میں لکھا کہ ملک بند گلی میں پہنچ گيا ہے، امام خمینی نے کہا کہ نہیں، آپ بند گلی میں پہنچ گئے، اسلامی جمہوریہ ایران بند گلی میں نہیں پہنچے گا۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔(19) حقیقت بھی یہی ہے۔ ایسے افراد کو موقع نہ دیجئے کہ لوگوں میں مایوسی پھیلائیں۔

اگلی سفارش: امام خمینی کبھی کبھی اکیلے میں یا لوگوں کے سامنے، عہدیداروں کو انتباہ دیتے تھے، کبھی کھل کر اور کبھی خاص نشستوں میں لیکن کبھی وہ کھل کر ان کی قدردانی بھی کرتے تھے۔ ایسے بہت سے مواقع ہیں جب انھوں نے واشگاف الفاظ میں ملک کے عہدیداروں کی - یا کسی ایک شخص کی یا پھر عہدیداروں کے کسی گروہ کی - قدردانی کی۔ میری سفارش یہ ہے کہ آج جب دشمن، انقلابی عہدیداروں کی شبیہ بگاڑنے کے درپے ہے تو، قدردانی کی ذمہ داری ہے ایک سنگین ذمہ داری، عہدیداروں کی قدردانی کرنا ہے۔ یہ جو ہم نے دیکھا کہ آبادان کے واقعے میں ایک وزیر تین چار دن، رات دن اس کام کے لیے جاتا ہے، خود وہاں کھڑا رہتا ہے، یہ بہت اہم کام ہے، یہ جو صدر مملکت یا نائب صدر جا کر حادثے میں نقصان اٹھانے والوں سے ملاقات کرتے ہیں، انھیں تسلی دیتے ہیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، یہ چیزیں بہت گرانقدر ہیں، ان کی قدردانی ہونی چاہیے۔ البتہ تخریبکاری کے قصورواروں کو سزا بھی ملنی چاہیے، اسی آبادان کے واقعے میں بھی اور کسی دوسرے معاملے میں بھی، جو لوگ تخریب کاری کا باعث ہیں، انھیں ضرور سزا ملنی چاہیے۔

خدایا! ہم تجھے اپنے عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح اور امام خمینی کی مطہر روح کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہمیں اسلامی جمہوریہ کی راہ حق و حقیقت کے پیروکاروں میں قرار دے۔ پروردگار عالم! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ اس راہ میں ہمارے قدموں کو ہماری قوم کے قدموں کو استوار رکھ۔

میں نے سنا، مجھے بتایا گيا کہ آج جناب حسن خمینی صاحب کی تقریر کے دوران بعض لوگوں نے شور مچایا۔ میں اس کام کے خلاف ہوں، اس طرح کسی کی بے عزتی کرنے اور شور مچانے سے اتفاق نہیں رکھتا، میں اس کا مخالف ہوں، اسے سبھی جان لیں۔ امید ہے ان شاء اللہ، خداوند متعال ہم سبھی کو راہ راست کی ہدایت کرے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے متولی حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے تقریر کی۔

(2) مولوی کی مثنوی معنوی، دفتر اول

(3) سوویت یونین کے دوسرے لیڈر، جوزف اسٹالن

(4) سورۂ طلاق، آيت 3، اور جو بھی اللہ پر توکل کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔

(5) عظیم الشان وزیری لائبریری کے بانی مرحوم حجۃ الاسلام والمسلمین سید علی محمد وزیری یزدی۔

(6) سورۂ سبا، آيت 26، کہہ دیجیے کہ میں تمھیں صرف ایک نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے دو دو اور اکیلے، قیام کرو۔

(7) سورۂ بقرہ، آيت 238، خضوع کے ساتھ اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔

(8) سورۂ مدثر آیات 1 اور 2، اے رات میں چادر اوڑھنے والے، اٹھیے اور لوگوں کو اللہ سے ڈرائیے۔

(9) سورۂ حدید، آيت 25، تاکہ لوگ انصاف پر اٹھ کھڑے ہوں۔

(10) سورۂ نساء، آيت 127، اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے سلسلے میں انصاف پر قائم رہو۔

(11) سورۂ رحمن، آيت 9، اور انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو۔

(12) سورۂ شوری، آيت 13، دین کو قائم کرو۔

(13) سورۂ مائدہ، آيت 68، جب تک توریت اور انجیل کو (عمل کے ذریعے) قائم نہیں کر لیتے۔

(14) جیسے سورۂ بقرہ کی آيت نمبر 43، اور نماز کو قائم کرو۔

(15) دیوان حافظ، غزل نمبر 374، آسمان کی چھت کو چیر دیں اور ایک نیا طرز شروع کریں۔

(16) صحیفۂ امام، جلد 1، صفحہ 87۔

(17) صحیفۂ امام، جلد 21، صفحہ 137۔

(18) امریکی فضائیہ کا جنرل، رابرٹ ارنیسٹ ہائزر

(19) صحیفۂ امام، جلد 1، صفحہ 87۔