بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

 و الحمدللہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین ارواحنا فداہ.

برادران عزیز! خواہران عزیز! اس عظیم الہی و اسلامی عبادت کے ذمہ داران!  آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ بڑی خوشخبری تھی کہ دو سال کے فاصلے کے بعد خداوند متعال نے ایرانی زائرین، حج کے مشتاق ایرانیوں اور دوسرے ممالک کے دیگر برادران کے لیے دوبارہ یہ دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ دعوت الہی ہے جو دروازہ کھول رہی ہے، آپ کے لیے راستہ کھول رہی ہے۔ یہ کسی شخص کا احسان نہیں ہے، یہ خداوند عالم کی جانب سے آپ اور حجاج کرام کے اشتیاق کی قبولیت ہے۔ ان شاء اللہ آپ کا حج بہت اچھا رہے۔ ان شاء اللہ پوری صحت و سلامتی، دعا کی قبولیت اور الہی فیوضات حاصل کر کے آپ تمام حجاج کرام،  بھرے دامن اور سلامتی کے ساتھ واپس لوٹیے۔ ان دو بھائيوں نے جو کچھ بیان کیا، میں اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور جن اقدامات کا انھوں نے ذکر کیا ہے، وہ گرانقدر اقدامات ہیں۔

میں حج کے سلسلے میں اختصار سے کچھ عرض کروں گا۔ حج ایک مدبرانہ الہی پروگرام ہے۔ اللہ کے تمام پروگرام مدبرانہ ہیں لیکن یہ پروگرام اپنے خاص زاویوں، خصوصیات اور پہلوؤں کے باعث دیگر تمام پروگراموں سے الگ ہے۔ یہ، انسانی وجود پر، انسان کے دل پر اور انسان کی ضروریات پر خداوند متعال کے علمی احاطے کی نشاندہی کرتا ہے اور وہ بھی ایک انسان نہیں بلکہ انسانی معاشرے پر اور وہ بھی ایک نسل نہیں بلکہ تمام نسلوں پر۔ اسی علمی احاطے کی بنیاد پر خداوند متعال نے انسانی ضروریات کے مطابق اور ان ضرورتوں کے مختلف پہلوؤں کی مناسبت سے یہ پروگرام انسان کو سونپے، بنی نوع انسان کو یہ موقع فراہم کرے کہ وہ اس سے استفادہ کریں، حج ایک ایسا پروگرام ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم سورۂ مائدہ میں حج کے بعض احکام بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے: "ذَلِکَ لِتَعلَموا اَنَّ اللَہَ یَعلَمُ ما فِی السَّماواتِ وَما فِی الاَرضِ وَ اَنَّ اللَہَ بِکُلِّ شَیءٍ عَلیم"(2) یہ چیزیں جو ہم نے تم پر واجب کی ہیں، یہ کعبہ، یہ ہدی(3)، یہ قلائد(4) اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم  پروردگار کے علمی احاطے کو سمجھو، اس کا علم حاصل کرو، جان لو کہ خداوند عالم کس طرح تمھاری زندگي کے اسرار اور تفصیلات سے واقف ہے اور اسی کی بنیاد پر تمھارے لیے احکام تیار کرتا ہے۔

تو کس طرح سمجھیں؟ تدبر کے ذریعے، یعنی ایسا بھی نہیں ہے کہ انسان یوں ہی دیکھے اور ہر چیز اس کے لیے واضح ہو جائے، نہیں! سوچنا چاہیے، غور کرنا چاہیے، تدبر کرنا چاہیے، علم اور تفکر سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ یہ سمجھ میں آئے کہ یہ ہدی، جسے وہاں قربان کیا جا رہا ہے، یہ جو طواف کیا جا رہا ہے، عرفات یا مشعر میں جو وقوف کیا جا رہا ہے اور اسی طرح کی دوسری عبادتیں ہیں، ان کا انسانی زندگي پر کیا اثر ہے؟  مطلب یہ کہ حج، اس طرح کا ایک پروگرام ہے جسے خداوند عالم نے انسانی ضروریات کے تمام زاویوں سے کامل آگاہی کے ذریعے، اتنی جزئيات اور تفصیلات کے ساتھ انسان کے لیے طے کیا ہے، وہ بھی تسلسل کے ساتھ، ایسا نہیں ہے کہ ایک سال ہو اور ایک سال نہ ہو، نہیں، یہ لگاتار ہر سال ہوتا ہے، یہ پروگرام انشاء اللہ رہتی دنیا تک رہے گا اور جاری رہے گا۔ تو اگر ہم اس سلسلے میں اپنے اندر ضروری تدبر پیدا کر لیں، تب ہم سمجھ پائيں گے کہ حج سے انسان کو ہونے والے فوائد کتنے ہیں اور یہ فوائد انسانی زندگي کے کن کن پہلوؤں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

قرآن مجید نے حج کے بارے میں ایک چھوٹے سے جملے میں حج کی تقریبا مکمل حکمت کو بیان کر دیا ہے، اگر ہم غور کر سکیں، معصومین کے بیانوں سے استفادہ کر سکیں اور قرآن میں تدبر کر سکیں تو اس ایک چھوٹے سے جملے سے بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی سورۂ مائدہ میں اللہ فرماتا ہے: "جَعَلَ اللَہُ الکَعبَۃَ البَیتَ الحَرامَ قیاماً لِلنّاس" (5) البتہ صرف کعبہ ہی نہیں ہے، اس کے بعد آیا ہے، شہر الحرام، ہدی، قلائد وغیرہ وغیرہ یعنی پورے حج کے فلسفے کو بیان کرنا چاہتا ہے، صرف کعبہ شریف کو نہیں، یہ سب کس لیے ہیں؟ قیاما للناس۔ قیام یہاں پر مصدر کے معنی میں نہیں۔ اہل لغت اور مفسرین نے قیام کے معنی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں پر قیام کا مطلب ہے "ما یقوم بہ الشئی" یعنی جس سے کوئي شئے قائم ہو، یعنی ستون؛ عمارت، کسی ستون پر قائم رہتی ہے، اس کو کہتے ہیں قیام، وہ ستون، قیام ہے۔ یہاں پر خداوند عالم کہہ رہا ہے کہ حج، انسانی زندگي کا ستون ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ قیاما للناس ہے، انسانوں کے لیے ہے، میرے، آپ کے، اس کے اور اس کے لیے ہے، کچھ لوگوں، ایک نسل، ایک آبادی یا ایک گروہ کے لیے نہیں ہے، تمام لوگوں کے لیے ہیں، پوری انسانیت کے لیے ہے، انسان کے لیے قیام ہے۔ یہ قیام لفظ دو بار قرآن مجید میں آيا ہے: ایک جگہ قومی ثروت کے بارے میں ہے: "لا تُؤتُوا السُّفَھاءَ اَموالَکُمُ الَّتی جَعَلَ اللَہُ لَکُم قیاما"(6) یہ صرف یہاں ہے۔ خداوند متعال نے اموال کو، معاشرے میں مال کو، دولت و ثروت کو، معاشرے کے قیام کا ذریعہ قرار دیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ مال کے بغیر اور دولت و ثروت کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا، اسے مال اور دولت کی ضرورت ہے، مادی پہلو کے لحاظ سے، انسان کو اس کی ضرورت ہے، دوسری جگہ یہی ہے: "جَعَلَ اللَہُ الکَعبَۃَ البَیتَ الحَرامَ قیاماً لِلنّاس"، یہاں بھی قیام ہے۔

تو یہاں قیام کا صرف مادی پہلو نہیں ہے، البتہ مادی پہلو بھی ہے: "لِیَشھَدوا مَنافِعَ لَھُم"(7) ان فوائد میں، مادی فائدے بھی شامل ہیں لیکن ان سے زیادہ روحانی فوائد ہیں، اخلاقی فوائد ہیں، کردار کے فوائد ہیں، طرز زندگي کو سکھانا ہے، حج یہ ہے۔ جو کچھ آپ حج میں - یعنی حج کے انہی اعمال میں، حج کے مناسک میں - انجام دیتے ہیں، وہ کل ملا کر آپ کو یعنی پے در پے نسلوں کو یکے بعد دیگرے یہ سکھاتا ہے کہ زندگي کی بنیادی چیزوں اور اہم امور کا انتخاب کس طرح کرنا چاہیے، کہیں پر آگے بڑھنا ہے، کہیں ٹھہرنا ہے، کہیں اجتناب ہے اور کہیں باہمی زندگي کی تعلیم ہے۔

حج میں جو اہم ترین امور ہیں، ان میں سے ایک باہمی زندگي ہے۔ وہ لوگ، جن کی آپس میں کوئي شناسائي نہیں ہے، الگ الگ کلچر کے، مختلف جگہوں سے، مختلف رنگوں کے، مختلف زبانوں کے ہیں، یہاں پر باہمی زندگي گزارتے ہیں۔ "فَلا رَفَثَ وَ لا فُسوقَ وَ لا جِدالَ فِی الحَجّ"(8) یعنی تمھیں اس بات کا بالکل حق نہیں ہے کہ ایک دوسرے سے جھگڑو، مسائل پیدا کرو، بلکہ باہمی زندگي گزارو، آپ دیکھ رہے ہیں؟ تو ایک اہم چیز یہی باہمی زندگي ہے۔ اس وقت دنیا میں انسان کی مشکلات - صرف مسلمانوں کی مشکلات نہیں - کس وجہ سے ہیں؟ اس وجہ سے ہیں کہ انھیں باہمی زندگي گزارنی نہیں آتی؛ ایک دوسرے سے منہ زوری کرتے ہیں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں، ایک دوسرے کی جگہ تنگ کر دیتے ہیں، ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ حج، باہمی زندگي کی تعلیم دیتا ہے، ایک محدود عرصے میں آپ کو باہمی زندگي کا ایک نمونہ دکھاتا ہے، کہتا ہے کہ اس طرح زندگي گزارو۔

ایک دوسرا نمونہ سادہ زندگي گزارنے کی تعلیم ہے۔ احرام، سادہ زندگي گزارنے کا ہی تو مظہر ہے، مطلب یہ کہ احرام میں کوئي اضافی لباس نہیں ہے، صرف اتنا ہے کہ آپ کے جسم کو ڈھک لے، یہ سادہ زندگي گزارنا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ پوری زندگي اسی طرح کا لباس پہنیں اور احرام پہن کر زندگي بسر کریں؛ نہیں! لیکن حج یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کام کو سیکھو، سیکھو کہ کس طرح سادہ زندگي گزاری جا سکتی ہے اور سادہ زندگي کی ترویج کرنی چاہیے۔ یہ بھی پچھلی بات کی طرح ہی ہے یعنی باہمی زندگي۔ اگر آپ دیکھیں تو دنیا کے بہت سارے مسائل اور پریشانیاں، توسیع پسندی، عیش و عشرت، آرائشی چیزوں اور ایسی ہی دوسری باتوں کی وجہ سے ہیں، دنیا کی دولت و ثروت کا بہت بڑا حصہ ان چیزوں پر خرچ ہوتا ہے، ہر جگہ، افسوس کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہے - دوسری جگہوں پر دس گنا زیادہ، سو گنا زیادہ ان چیزوں پر خرچ ہوتا ہے - لیکن یہاں آپ کو سادہ زندگي گزارنی ہے، یعنی حج کی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ کچھ سکھانا چاہتا ہے تو اس طرح سکھاتا ہے، یعنی آپ کو یہ کچھ دن اس طرح سادگي سے گزارنے ہوں گے۔ یہ بھی ایک تعلیم ہے، طرز زندگي ہے۔

اگلی بات، اجتناب اور پرہیز کی مشق ہے۔ کچھ چیزیں ہیں جن سے ہمیں دنیا میں پرہیز کرنا چاہیے، زندگي میں ان سے دور رہنا چاہیے۔ انسان حریص ہے، وہ پرہیز کرنا نہیں جانتا، حج، پرہیز کا درس ہے، ہمیں پرہیز کرنا چاہیے، احرام کے ذریعے حرام ہونے والی چیزوں سے۔ احرام کی حالت میں جن چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے وہ سب معمولی چیزیں ہیں لیکن پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کو سیکھنا چاہیے کہ اگر آپ کے جسم پر ایک کیڑا بھی ہے تو اسے نقصان نہ پہنچائيے، یہ بہت سخت کام ہے۔ آپ کو عادت ڈالنی چاہیے کہ سنورنے کے لیے آئینہ نہ دیکھیے، اسے سیکھنا چاہیے، یہ ایک پرہیز ہے جو عام حالات میں لازمی نہیں ہے لیکن، یہ پرہیز کی تعلیم ہے، ہمیں پرہیز کرنا سیکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزوں سے زندگي میں پرہیز کرنا چاہیے، ہمیں اس کی مشق کرنی چاہیے، یہ حج میں کی جانے والی مشق ہے۔ دیکھیے، یہ انسانی زندگي کی کتنی اہم چیزیں ہیں، وہ باہمی زندگي بھی، وہ سادہ زندگي گزارنا بھی اور یہ پرہیز کی مشق بھی۔

ایک دوسری بات ان چیزوں کو استعمال نہ کرنے کی مشق ہے جو آپ کی دسترس میں ہیں۔ ہم میں سے بعض لوگ ایسے ہی ہیں، کچھ لحاظ کرتے ہیں، کسی دوسرے کی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے لیکن کبھی جب کوئي چیز ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے -بیت المال ہے، جو ہمارے ہاتھ میں آ جاتا ہے- تو ہم کوئي جواز تراش لیتے ہیں، اس بیت المال سے کوئي چیز کسی نہ کسی طرح اور کوئي نہ کوئی جواز بنا کر لے لیتے ہیں، ایک چیز ہے جو ہمارے اختیار میں آ گئي ہے، جب یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں تھی تو ہم یہ کام نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی ایک بلا ہی ہے، یہ انسانی زندگي کی بلاؤں میں سے ایک ہے کہ جب کوئي چیز اس کی رسائی میں ہو تو اس سے اجتناب اور اس کے بارے میں نفسانی خواہش سے مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے، بہت سارے معاملوں میں اس کی مثال موجود ہے، فرض کیجیے کہ نامحرم سے تعلق، جنسی مسائل وغیرہ۔ کوئي چیز آپ کے اختیار میں آ جاتی ہے، آپ کو یہ سیکھنا چاہیے کہ اب اگر یہ چیز آپ کے اختیار میں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مباح ہو گئي ہے، یہ چیز قرآن مجید حج میں ہمیں سکھاتا ہے: یا اَیُّھَا الَّذینَ ءامَنوا لَیَبلُوَنَّکُمُ اللہُ بِشَیءٍ مِنَ الصَّیدِ تَنالُہُ اَیدیکُم وَ رِماحُکُم(9) حج کے ایام میں چونکہ برّی جانور(10) کا شکار حرام ہے اس لیے جانور بڑے آسانی سے مل جاتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کا شکار نہیں کیا جائے گا، وہ آپ کی دسترس میں آ جاتے ہیں، اس ہرن یا پہاڑی بکری کا شکار اگر آپ عام دنوں میں کرنا چاہتے تو یہ بہت سخت اور مشکل کام ہوتا لیکن اس وقت نہیں، اس وقت اس تک آپ کے ہاتھ بھی پہنچ جائیں گے، نیزہ بھی پہنچ جائے گا لیکن اس سے اجتناب کرنا ہوگا۔ لَیَبلُوَنَّکُمُ اللہُ، خداوند متعال تمھارا امتحان لیتا ہے، بِشَیءٍ مِنَ الصَّیدِ، ایک طرح سے شکار کرنے سے۔ البتہ بات، غیر حرام شکار کی ہے۔ کچھ طرح کے شکار تو عام حالات میں بھی حرام ہیں لیکن یہ بات اس شکار کی ہے جو عام حالات میں حرام نہیں ہے، حج میں احرام کی حالت میں حرام ہے۔ خدا اس کے ذریعے آپ کا امتحان لے رہا ہے، یعنی اس بات کی مشق کرنا اور یہ سیکھنا کہ جب کوئي چیز آپ کے اختیار میں آ گئي تو بس اس بنیاد پر اس پر ہاتھ نہ ڈال دیجئے کہ کوئي دیکھ نہیں رہا اور کوئي متوجہ نہیں ہے۔ البتہ یہ صرف کچھ نمونے ہیں، اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔

میں نے گزشتہ برسوں میں طواف، وقوف اور کچھ دوسری چیزوں کے بارے میں کافی باتیں کی ہیں، دوسروں نے اس بارے میں ہم سے زیادہ اور ہم سے بہتر انداز میں گفتگو کی ہے، میں کچھ باتیں اختصار سے عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔ "قیامًا لِلنّاس" یعنی یہ، زندگي، حج پر ٹکی ہوئي ہے۔ زندگي کے بہت سے بنیادی امور، زندگي اور طرز زندگی کی اصلی راہیں، آپ کو حج میں پتہ چلتی ہیں، یعنی حج پر غور کرنے اور حج پر توجہ دینے سے آپ یہ چیزیں سیکھ سکتے ہیں اور یہ چیز صرف اس موجودہ نسل کی نہیں ہے، تمام نسلوں کی ہے، چودہ سو کچھ سال سے یہ چیز چلی آ رہی ہے، اس کے بعد بھی خدا کے فضل سے ہزاروں برس تک موجود رہے گی، قیامت برپا ہونے تک، حج ایسا ہے۔ خداوند متعال نے ایک مختصر سے جملے میں اسے بیان کیا ہے: جَعَلَ اللہُ الکَعبَۃَ البَیتَ الحَرامَ قیامًا لِلنّاس۔

خیر اب میں حجاج کرام اور حج کے محترم ذمہ داروں سے کچھ سفارشات کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ آپ حج کے ذمہ داروں کو اس کام کی بہت زیادہ قدر کرنی چاہیے، آپ میں سے ہر کوئي، جس طرح سے بھی، چاہے نمائندگي کے شعبے میں، چاہے حج اور ادارۂ حج کے مینیجمنٹ کے شعبے میں، یا تعاون کرنے والے دوسرے شعبوں میں جیسے حفظان صحت کا شعبہ، سیکورٹی کا شعبہ، ہلال احمر کا شعبہ، تبلیغ کا شعبہ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور تعاون کرنے والے تمام افراد، سبھی کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ اہم کام کر رہے ہیں، یعنی وہ ایک اہم کام میں مشارکت کر رہے ہیں۔ "تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَ التَّقوىٰ"(11) یہ واقعی نیکی اور تقوی میں تعاون ہے، اس کام کی قدر سمجھیے۔ قدر سمجھنے کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اسے اچھی طرح انجام دیجیے۔ اچھی طرح انجام دینے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے تو اللہ سے تقرب کی نیت سے انجام دیجیے، چونکہ خدا نے کہا ہے اس لیے انجام دیجیے۔ پھر کوشش کیجیے کہ اس کام کو ان شاء اللہ بہترین طریقے سے، ٹھوس اور مستحکم طریقے سے اور جدت عمل کے ساتھ انجام دیجیے۔ اس کام کی قدر کو سمجھیے، بہت گرانقدر ہے، واقعی آپ کے کام کی قدروقیمت بہت زیادہ ہے۔

ایک سفارش حجاج کرام سے ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خود کو اس روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار کریں۔ انسان ہمیشہ تیار نہیں ہوتا۔ دیکھیے، جب ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو ہم سے کہا گيا ہے کہ اس سے پہلے وضو بھی کریں، اذان بھی کہیں، اقامت بھی کہیں، ان میں سے کوئي بھی نماز کا حصہ نہیں ہے لیکن ہمیں نماز کی مقدس وادی میں داخل ہونے کے لیے تیار کرتا ہے، ہمارے دل کو نرم کرتا ہے، تیاری کرنا چاہیے۔ جو حج بغیر تیاری کے کیا جائے ممکن ہے وہ زیادہ فائدہ مند ثابت نہ ہو، حج کے بعض احکام میں بھی اس کی طرف کچھ اشارے کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ حج کے پہلے سفر میں آپ کو اپنے بال منڈوانے ہوتے ہیں، حلق (بال منڈانا) واجب ہے۔ مستحب ہے کہ کچھ عرصے پہلے سے اپنے بال بالکل بھی نہ کٹوائيے تاکہ وہ اچھی طرح بڑھ جائيں، پھر وہاں منڈوائيے، یہ اپنے آپ کو حج کے لیے تیار کرنا ہے۔ سر کے بال جب بڑے ہو جاتے ہیں تو زیادہ اچھے لگتے ہیں، زیادہ خوبصورت لگتے ہیں، بہتر لگتے ہیں، اس لیے ان کی طرف سے منہ موڑنے کا زیادہ اجر و ثواب ہے۔ اپنے آپ کو اس ماحول کے لیے تیار کیجیے، قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعے، حج کی آیتوں کے ذکر کے ذریعے، حج میں جو مفاہیم پائے جاتے ہیں ان پر توجہ کے ذریعے، کعبے کی زیارت کے اشتیاق کے ذریعے، پیغمبر اکرم کی قبر اطہر اور اولیائے معصومین کی قبور کی زیارت کے اشتیاق کے ذریعے جو حج کا تتمہ ہے۔ تو یہ ایک نکتہ ہے کہ حج کی مقدس وادی میں داخل ہونے کے لیے خود کی تیاری اور اپنے دل کی تیاری کرنی چاہیے۔

ایک دوسری سفارش یہ ہے کہ خود اس سفر میں ایک ایک لمحے کی قدر کیجئے۔ میں نے اس سے پہلے بھی یہ بات کئي بار کہی ہے کہ بازاروں میں گھومنا عیب ہے، جس نیت سے بھی بازاروں میں گھومیے، عیب ہے۔ مثال کے طور پر -ہم بہانہ تیار کرتے ہیں نا- یہ کہیے کہ نہیں، فلاں چیز خریدنا ضروری ہے، نہیں، ضروری نہیں ہے! اپنے وقت کو ان بازاروں میں صرف کرنے کے بجائے -ہم زیادہ سخت الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتے اگرچہ ایسے ہی الفاظ کا مقام ہے- وقت کو ان بازاروں میں، دکانوں میں گھومنے میں، شاپنگ میں صرف کرنے کے بجائے، اس شخص کے لیے، جس کے لیے آپ تحفہ خریدنا چاہتے ہیں، جائيے دو رکعت نماز مسجد الحرام میں پڑھیے، جائیے اس کے لیے کعبے کے گرد ایک طواف کیجیے، جائيے وہاں اس کے لیے دعا کیجیے، جائیے اس کے لیے آدھا صفحہ قرآن پڑھیے، اصل تحفہ یہ ہے۔ وہ چیز جو آپ وہاں تحفے کے طور پر خریدتے ہیں -جو ملکی پروڈکٹ سے زیادہ مہنگي بھی ہے، ملکی مصنوعات بہت ساری چیزوں میں ان سے بہتر بھی ہیں اور سستی بھی ہیں- اسے اپنے ہی ملک میں خرید لیجیے۔ اگر آپ کسی کو کوئي تحفہ دینا چاہتے ہیں -تحفہ دینا اچھا ہے، کوئي قباحت نہیں ہے- تو یہیں سے خرید لیجیے، وہاں کیوں خریدتے ہیں؟ کس کی مدد کے لیے؟ اور کس قیمت پر؟ مادی اور مالی قیمت کے علاوہ کس روحانی اور معنوی قیمت پر! تو یہ بھی ایک سفارش ہے۔

ایک اور بات،  اتحاد سے متعلق ہے۔ حج، اسلامی امت کے اتحاد کا مظہر ہے، کوشش کیجیے کہ یہ اتحاد ٹوٹنے نہ پائے، پوری کوشش کیجیے کہ یہ اتحاد بنا رہے۔ ائمہ علیہم السلام جاکر مسجد الحرام میں نماز پڑھانے والے پیش نماز کی نماز جماعت میں شرکت کرتے تھے، امام صادق علیہ السلام شرکت کرتے تھے، جان بوجھ کر شرکت کرتے تھے تاکہ لوگ دیکھیں۔ یہ کس لیے ہے؟ ہم یہ باتیں کیوں بھول جاتے ہیں؟ ہم مسلسل سیکڑوں بار یہ بات دوہراتے ہیں لیکن پھر کہیں سے کوئي شیعہ اور سنی، اختلافات اور تنازعات کے بارے میں آواز بلند کر دیتا ہے، کیوں یہ کام کرتے ہیں؟ کیوں دشمن کے حق میں کام کرتے ہیں؟ کیا نہیں جانتے کہ انگریزوں کا ہنر ہی اختلاف پیدا کرنا ہے؟ انگریزوں نے ہمیشہ جن چیزوں سے فائدہ اٹھایا ہے، ان میں سے ایک شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف ہے۔ دھیرے دھیرے دوسروں نے بھی سیکھ لیا ہے اور اب آپ ان امریکی تھنک ٹینکس -سیاسی اور دوسرے تھنک ٹینکس- میں آپ دیکھتے ہیں کہ وہ جو تجزیے کرتے ہیں ان میں کہتے ہیں: فلاں لوگ شیعہ ہیں، فلاں جگہوں پر شیعہ ہیں، فلاں مقامات پر سنّی ہیں، ان تک بھی شیعہ سنی کی بات پہنچ گئي ہے۔ نہ کیجیے، نہ کریں، اخوت سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگي گزاریے! جی ہاں اختلاف رائے ہے، اعتقادات میں بھی اختلاف نظر ہے، عقائد میں بھی ہے لیکن اشتراک بھی ہے، ہمارے درمیان اتنے زیادہ اشتراکات ہیں، ان سب کو یکسر نظر انداز کر دیں اور اختلافات کے چکر میں پڑ جائيں؟! یہ مت ہونے دیجیے، مت ہونے دیجیے! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے (حج کے) قافلوں کے اندر نماز جماعت کو ممنوع قرار دیا۔ پھر کہا: مت کیجیے، جائيے وہاں نماز پڑھیے، جائیے مسجد میں نماز پڑھیے۔ یہ اسی اتحاد کے لیے ہے۔ اس اتحاد کو جتنا زیادہ ممکن ہو بڑھائیے۔

وہ چیزیں جو اتحاد کا سبب بن سکتی ہیں، ان میں سے ایک اچھا اور تشریح کرنے والا رابطہ ہے، رابطہ اچھی چیز ہے۔ اتحاد کا سبب بننے والی چیزوں میں سے ایک، ان قاریان محترم سے استفادہ کرنا ہے۔ میں نے سنا کہ اس سال بھی بحمد اللہ کچھ قاری حج کے لیے جا رہے ہیں، یہ بہت اچھا کام ہے۔ یہ قاریان محترم جائيں، تلاوت کریں، کلام اللہ سننے والے محظوظ ہوں، جیسا کہ میں جب بھی سنتا ہوں، ان کی تلاوت اور قرائت سے واقعی بہت زیادہ لذت حاصل کرتا ہوں۔ اتحاد پیدا کرنے والے کاموں میں سے ایک یہی ہے۔ قرآن، مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا سبب ہے۔ اور اسی طرح کے دوسرے کام۔

ایک مسئلہ، صیہونیوں کا مسئلہ ہے، مطلب یہ کہ آج صیہونی ازم کی مصیبت، عالم اسلام کے لیے فوری اور ہنگامی مصیبت ہے۔ یہ ہمیشہ سے مصیت رہے ہیں، جعلی صیہونی حکومت کی تشکیل سے پہلے بھی، اس وقت بھی دنیا میں صیہونی سرمایہ دار سب کے لیے مصیبت تھے لیکن اس وقت، عالم اسلام کے لیے خاص طور پر مصیبت ہیں۔ اسے سامنے لانا چاہیے، بتانا چاہیے، جیسے بھی آپ کو آتا ہے، جس طرح سے بھی آپ بیان کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ اور یہ حکومتیں -عرب حکومتیں- جنھوں نے صیہونیوں سے ہاتھ ملا لیا، مصافحہ کیا، گلے لگے اور میٹنگ کی، انھیں اس کام سے کوئي فائدہ حاصل نہیں ہوگا، کوئي فائدہ نہیں، انھیں نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سب سے پہلے تو ان کی اقوام مخالف ہیں، عرب اور غیر عرب سب، میں نے عرب کہا، بعض غیر عربوں نے بھی یہی کام کیا ہے۔ ان کی اقوام مخالف ہیں۔ یہ لوگ وہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ کافی پیتے ہیں، ان کی اقوام وہاں ہاتھ بلند کر کے نعرے لگاتی ہیں۔ تو یہ ان کے نقصان میں ہے۔ اس کے علاوہ، صیہونی حکومت انھیں نچوڑ لے گی، انھیں لوٹ لے گي، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، پتہ نہیں چل رہا ہے، البتہ کچھ عرصے بعد ان کی سمجھ میں آ جائے گا اور ہمیں امید ہے کہ اس وقت تک بہت دیر نہیں ہوئي ہوگي۔ ان باتوں کو سامنے لانا چاہیے۔ وہ واحد چیز جو ان حکومتوں کو اس کام پر مجبور کرتی ہے، وہ امریکا کی مرضی ہے، یہ چاہتے ہیں کہ امریکا کی مرضی کے مطابق عمل کریں، کیونکہ امریکا کا دل چاہتا ہے اس لیے یہ لوگ وہ کام کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ امریکا کا دباؤ ہے اس لیے یہ، وہ کام کرنا چاہتے ہیں، صرف یہی بات ہے ورنہ ان کے لیے واقعی کوئي فائدہ نہیں ہے۔

ایک دوسری بات، میزبان حکومت کی ذمہ داری کی ہے۔ کچھ سنگین ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر ہیں۔ مکہ، ان کی ملکیت تو نہیں ہے، مکہ سبھی کا ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنّاس‌(12) لوگوں کے لیے بنایا گيا ہے؛ سَواءً العاکِفُ فیہِ وَ الباد(13) وہ جو وہاں رہ رہا ہے اور وہ جو باہر سے آيا ہے، سب برابر ہیں، سبھی کا ہے۔ اس حکومت کا تو ہے نہیں، بہرحال ایک حکومت نے وہاں حکمرانی حاصل کر لی اور وہاں کے امور اپنے ہاتھ میں لے لیے، اسے اپنی مصلحت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عالم اسلام کی مصلحت کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ جن چیزوں کا ذکر کیا گيا جیسے بعض اخراجات میں اضافہ وغیرہ، یہ وہ کام ہیں جن پر نظر ثانی کرنی چاہیے، پھر حجاج اور زائرین کی سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہیے، میں دنیا کے تمام حاحیوں خاص طور پر ایرانی حجاج کی سیکورٹی کا سنجیدگي سے مطالبہ کرتا ہوں، ان کی ذمہ داری ہے، ان کا فرض ہے کہ اس سیکورٹی کو یقینی بنائيں اور ماضی کے سانحات کا اعادہ نہ ہونے دیں۔

ایک آخری بات یہ ہے کہ حج سے متعلق امور کے آپ عہدیداران اور ذمہ داران یہ دیکھیے کہ آپ حج کے (سفر کے) وقت کو کم کر سکتے ہیں؟ یہ واقعی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت بیس پچیس دن لگتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ کچھ کیا جا سکتا ہے، بہرحال کوئي کام ناممکن تو نہیں ہے، اس کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اس کا راستہ تلاش کیجیے، اگر ممکن ہو تو حج کے وقت کو کم کیجیے۔ جب آپ حج کے وقت کو کم کر دیں گے تو ممکن ہے کہ کوئی وہاں زیادہ دنوں تک رہنا چاہے، زیادہ زیارت کرنا چاہے، تو وہ رک جائے لیکن اگر کچھ لوگ جلدی واپس لوٹنا چاہیں تو لوٹ سکیں، اس پر کام کیجیے حالانکہ آسان کام نہیں ہے، سخت کام ہے، مجھے معلوم ہے لیکن بہرحال اس پر کام کیا جا سکتا ہے، سوچا جا سکتا ہے۔

ہمیں امید ہے ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سبھی کو توفیق عطا کرے گا، آپ کی مدد کرے گا کہ اس بڑی، حساس اور اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کر سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کے سرپرست حجۃ الاسلام و المسلمین سید عبدالفتاح نواب اور ادارۂ حج و زیارات کے سربراہ جناب سید صادق حسینی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2)  سورۂ مائدہ، آیت 97، یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے، خداوند عالم اس سے واقف ہے اور خدا ہر چیز کے بارے میں بہتر جاننے والا ہے۔

(3) بے نشان قربانیاں

(4) نشان والی قربانیاں

(5) سورۂ مائدہ، آیت 97، خدا نے بیت اللہ الحرام کعبے کی زیارت کو لوگوں کی مصلحتوں کو قائم کرنے کے لیے قرار دیا ہے۔

(6) سورۂ نساء، آیت 5، اور اپنے وہ اموال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔

(7) سورۂ حج، آیت 28، تاکہ وہ اپنے فوائد کا مشاہدہ کر سکیں۔

(8) سورۂ بقرہ، آيت 197

(9) سورۂ مائدہ، آیت 94، اے ایمان لانے والو! اللہ تمھیں اُس شکار کے ذریعے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو تمھارے ہاتھوں اور نیزوں کی پہنچ میں ہوگا۔

(10) بیابان میں رہنے والا، خشکی میں رہنے والا

(11) سورۂ مائدہ، آیت 2، اور نیکی اور تقوے میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔

(12) سورۂ آل عمران، آیت 96، بے شک لوگوں( کی عبادت) کے لیے جو سب سے پہلا گھر بنایا گيا...

(13) سورۂ حج، آيت 25