خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت اب باہری طاقتوں کی مسلط کردہ باتوں کو ماننے کے لیے مجبور نہیں ہے۔ باہری طاقتیں جو بھی چاہیں، ان کی خواہش کے مطابق انجام پانا چاہیے، اگر انھوں نے آپ کے ملکی مفادات کو بھی قربان کر دیا تو حکومت، خاموش رہے، اگر ملک کے قومی ذخائر پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی تب بھی کوئي کچھ نہ کہے، اگر قوم نے مخالفت کی تو حکومت اسے زد و کوب کرے! پہلوی دور حکومت میں یہی صورتحال تھی جسے ہم نے اپنے پورے وجود اور اپنی روح سے محسوس کیا ہے۔ انقلاب آيا اور اس نے ملک و قوم کو خودمختار بنا دیا۔ آج دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارے ملک کے مسائل میں دخل نہیں دے سکتی اور ہمیں کسی کام کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ ملکی حکام دیکھتے ہیں اور جس چیز میں مصلحت سمجھتے ہیں، اسی کو انجام دیتے ہیں۔ قوم، حکام اور عہدیداروں کے کاموں کو دیکھتی ہے اور ان کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے، اگر انھیں پسند کرتی ہے تو ان کی پشت پناہی کرتی ہے اور اگر پسند نہیں کرتی تو انھیں بدل دیتی ہے، اختیار قوم کے ہاتھ میں ہے۔

امام خامنہ ای

13/2/2004