بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم.

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین، سیّما بقیۃ اللّہ في الارضین.

میرے عزیزو، ہمارے جوانو! اور ہمارے بچو! خوش آمدید، آپ نے ہماری امامبارگاہ کو رونق بخشی۔ آپ کے پاکیزہ دل، اشتیاق سے لبریز آپ کی روحیں، آپ جہاں بھی ہوں، جس جگہ بھی آپ پہنچیں، وہاں کو نورانی بنا دیتی ہیں، رونق بخش دیتی ہیں۔ میں نے کچھ پوائنٹس، جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے ربط رکھتے ہیں، تیار کیے ہیں اور انھیں آج آپ کے سامنے، اپنے عزیز بچوں کے سامنے پیش کروں گا۔

سب سے پہلی بات 13 آبان (4 نومبر) کے بارے میں ہے۔ آپ نے اس کے متعلق کافی سنا ہے۔ 13 آبان ایک تاریخی دن ہے، یہ تاریخی دن بھی ہے اور تجربہ آموز دن بھی ہے، تجربہ سکھانے والا دن ہے۔ تاریخی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس دن کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو تاریخ میں باقی رہنے والے ہیں، یہ واقعات بھلائے جانے والے نہیں ہیں اور انھیں بھلایا جانا بھی نہیں چاہیے۔ تجربہ سکھانے والا ہے، انھی واقعات کی وجہ سے، کچھ ردعمل سامنے آئے ہیں، وہ ردعمل ہمارے لیے سبق ہیں اور ملک کے مستقبل کے لیے، خود آپ کے مستقبل کے لیے اور اپنی قوم کے مستقبل کے لیے ان تجربات سے فائدہ اٹھائيے۔ مستقبل تو آپ ہی لوگوں کا ہے نا!

تو یہ دن، ہمارے لیے بہت اہم دن ہے لیکن امریکی اس دن سے بہت چراغ پا ہوتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جو امریکیوں کا دماغ خراب کر دیتا ہے۔ آپ کی یہی نشست، جب اس نشست کی باتیں سامنے آئيں گی تو یقین رکھیے کہ امریکا کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اور خود امریکی، اس نشست، اس ترانے اور اس ہمدلی سے برہم اور چراغ پا ہو جائیں گے، ان کا دماغ خراب ہو جائے گا، کیوں؟ اس لیے کہ یہ دن امریکا کی شیطانی حرکتوں کے برملا ہونے کا بھی دن ہے، امریکا کے جھوٹ کھلنے کا بھی دن ہے، یہ حقیقت سامنے آنے کا دن ہے کہ امریکہ کو شکست دی جا سکتی ہے، مطلب یہ کہ وہ لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ امریکا، ایک ایسی طاقت ہے جسے کوئي چھو بھی نہیں سکتا، نہیں! جب ہم ان دنوں کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں! امریکا پوری طرح سے شکست کھا سکتا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے ایک تجربہ بن جاتی ہے۔

اس دن تین واقعات ہوئے ہیں جن میں سے کچھ پوری طرح براہ راست امریکا سے متعلق ہیں اور کچھ بالواسطہ طور پر امریکا سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک واقعہ امام خمینی کی جلاوطنی کا ہے جو 13 آبان سنہ 1343 (4 نومبر 1964) کو رونما ہوا۔ امام خمینی کیوں جلاوطن ہوئے؟ اس لیے کہ ایک قانون شاہ کے حکم سے، محمد رضا کے حکم سے پارلیمنٹ میں پاس ہوا جس کی رو سے امریکیوں کو، جو ایران میں تھے، قانونی استثنی حاصل ہو گيا۔ اس وقت کئي ہزار، دسیوں ہزار  تقریبا چالیس پچاس ہزار امریکی ایران میں تھے، فوجی اداروں میں، سیکورٹی اداروں میں، معاشی اداروں میں۔ اگر یہ لوگ ایران میں کوئي بھی جرم کرتے تو اس قانون کی رو سے، ان پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا، مطلب یہ کہ اگر ایک امریکی گاڑی چلا رہا ہو، مثال کے طور پر کسی کو گاڑی سے کچل دے، کوئي جرم انجام دے تو ملک کے قانونی ادارے کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ اس پر مقدمہ چلائے، یہ امریکیوں کے لیے قانونی کارروائي سے استثنی کا قانون تھا۔ امام خمینی نے اسے تسلیم نہیں کیا، برداشت نہیں کیا، انھوں نے ایک تفصیلی تقریر کی، ان کی آواز اور تقریر کا متن موجود ہے۔(1) تو ایک واقعہ یہ تھا، اس کے بعد اس تقریر کی وجہ سے امام خمینی کو جلاوطن کر دیا گيا، تیرہ سال تک، یہ جو ہم تیرہ سال کہہ رہے ہیں وہ اس وجہ سے ہے کہ ان تیرہ برسوں کے بعد انقلاب آ گيا، اگر انقلاب نہ آتا تو ممکن تھا کہ یہ مدت تیس سال بھی ہو جاتی، یہ جلاوطنی امریکا کی حمایت والے اس قانون سے ٹکرانے کی وجہ سے تھی، تو یہ واقعہ بڑی حد تک براہ راست امریکیوں سے متعلق ہے۔

دوسرا واقعہ، طلبہ کے قتل عام کا ہے، آپ کی عمر کے بچوں کا، اسی تہران یونیورسٹی کے سامنے قتل عام کیا گيا، انھیں مار دیا گيا۔ ان کی تعداد، اب صحیح تعداد تو نہیں بتائي جا سکتی کیونکہ اس وقت اس طرح کے اعداد و شمار نہیں تھے لیکن کچھ بچے - ایک بھی زیادہ ہے، ایک بھی بہت ہے، ہمارے عزیز بچے اسی تہران یونیورسٹی کے سامنے شہید ہوئے، یہ دوسرا واقعہ، یہ واقعہ بھی چار نومبر کا تھا۔ طلبہ کا یہ واقعہ سنہ 1978 کا تھا۔

تیسرا واقعہ اس کے ایک سال بعد کا ہے جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کا ہے، امریکی سفارتخانے پر طلبہ کے حملے اور وہاں دستاویزات ملنے کا واقعہ ہے، یہ دستاویزات، جو ایرانی قوم کے خلاف امریکا کی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہیں، ستّر، اسّی جلد میں ہیں۔ میں نے کبھی – آپ کو تو یہ کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں ملتا ہوگا – میں نے کبھی تعلیم و تربیت کے ادارے سے کہا تھا کہ ان کتابوں کی باتوں کو نصاب کی کتابوں میں شامل کیا جائے، افسوس کہ انھوں نے نہیں کیا۔ ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکیوں نے، اس مدت میں، جب سے وہ ایران میں تھے، یعنی تقریبا سنہ انیس سو انچاس پچاس سے، ایران میں کیا کیا کام کیے، کیا سازشیں کیں، کیا غداریاں کیں؟

یہاں ایک قابل ذکر بات ہے: امریکی سفارتخانے پر حملے کا یہ معاملہ، جسے جاسوسی کا اڈا کہا گيا، واقعی ایسا تھا بھی، وہ جاسوسی کا اڈا تھا، امریکی اپنے بیانوں میں، اپنے پروپیگنڈوں میں، اپنے انٹرویوز میں، جب میں اپنے دور صدارت میں نیویارک گيا تھا تو خود مجھ سے کیے گئے انٹرویو میں، اس واقعے کو، ایرانی قوم اور امریکا کے درمیان ٹکراؤ کا آغاز بتاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایرانی قوم کے خلاف امریکیوں کے کھڑے ہونے کی وجہ، وہ قدم تھا جو آپ نے سفارتخانے میں اٹھایا، یعنی ہمارے سفارتخانے پر حملہ کیا، اس سے ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہو گيا، جھگڑا ہو گيا، دشمنی ہو گئي! وہ جھوٹ بولتے ہیں، یہ بات نہیں ہے۔ ایرانی قوم اور امریکا کے درمیان ٹکراؤ کی ابتدا 19 اگست کو ہوئي تھی، 19 اگست سنہ 1953 کو۔ 19 اگست کو ایک قانونی حکومت کو جو بر سر اقتدار تھی، مصدق کی حکومت ایک قومی حکومت تھی، مغرب والوں سے اس کا مسئلہ صرف تیل کا تھا، مصدق نہ عالم دین تھے، نہ انھیں اسلام پسندی کا دعوی تھا، مسئلہ صرف تیل کا تھا، تیل انگریزوں کے ہاتھ میں تھا، انھوں نے کہا کہ تیل خود ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے، ان کا جرم صرف یہی تھا، امریکیوں نے بغاوت کروا دی، ایک بہت ہی عجیب بغاوت۔

اس واقعے کی کچھ دھندلی سی یادیں میرے ذہن میں ہیں، میں اس وقت چودہ سال کا تھا، میں بتاؤں گا کہ ہمارے زمانے میں چودہ پندرہ سال کے بچے اور آج کے چودہ پندرہ سال کے بچے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ لوگ آج باتوں کو گہرائي سے سمجھتے ہیں، تجزیہ کرتے ہیں، لیکن ہم اس وقت ایسا نہیں کر پاتے تھے لیکن ہم نے تاریخ کو بغور پڑھا ہے اور اس کی تفصیلات سے مطلع ہیں۔ امریکیوں نے مصدق کے خلاف سازش تیار کی، اگرچہ مصدق کو امریکیوں کے سلسلے میں خوش فہمی تھی اور ان پر اعتماد تھا یہاں تک کہ وہ چاہتے تھے اور سوچتے تھے کہ امریکی حکومت، انگریزوں کے مقابلے میں ان کی حمایت کرے گي لیکن انھوں نے پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا، انھوں نے اپنے ایجنٹ کو، جس کا نام کم روزویلٹ تھا، ایران بھیجا، انگریزوں سے سازباز کر لی اور اسے ڈالروں سے بھرے ہوئے ایک سوٹ کیس کے ساتھ ایران بھیجا، وہ برطانیہ کے سفارتخانے گيا، امریکی سفارتخانے نہیں گيا، اس نے کچھ غدار فوجیوں سے سازباز کی، انگریزوں کے کچھ پٹھوؤں سے سازباز کی، کچھ غنڈوں موالیوں کو اکٹھا کیا، فوجیوں کو کھینچ لائے اور 19 اگست کو وہ شرمناک بغاوت کروا دی۔ مصدق اور ان کے سبھی قریبی افراد کو گرفتار کر لیا، بعد میں ان میں سے بعض کو موت کے گھاٹ اتار دیا، بعض کو برسوں تک جیل میں ڈالے رکھا۔

امریکا سے ایرانی قوم کا اختلاف  19 اگست سے شروع ہوا ہے۔ کیوں تم لوگوں نے بغاوت کروائي اور ایک قومی حکومت کو، جو عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئي تھی، سرنگوں کر دیا؟ اور اس تیل کو، جو اس حکومت نے انگریزوں کے چنگل سے نکال لیا تھا، ایک ایسے کنسرشیم (2) کو دے دیا، جس میں برطانیہ تھا، امریکا تھا، کچھ دوسری حکومتیں بھی تھیں، یعنی گڑھے سے نکال کر کنویں میں ڈال دیا۔ امریکیوں سے ہمارے جھگڑے کی شروعات اس دن سے ہوئي ہے۔ خیر، تو امریکیوں نے اپنے مفادات کی خاطر، جو اس وقت تیل تھا،  امریکا کے بارے میں خوش فہمی رکھنے والے اور ایک مغرب پرست انسان پر بھی رحم نہیں کیا، مصدق مغرب پرست تھے۔

تو یہ شروعات تھی، اب امریکی سیاستداں پوری ڈھٹائي اور ریاکاری سے کہتے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کے حامی ہیں! آپ خبروں میں، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور دوسری جگہوں پر یہ باتیں سنتے ہی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کے حامی ہیں، یہ بڑا ہی بے شرمانہ دعوی ہے۔ امریکیوں سے میرا سوال یہ ہے کہ انقلاب کو آئے ہوئے ان چار عشروں میں کیا کوئي ایسا کام ہے جو تم ایرانی قوم کے خلاف کر سکتے تھے اور تم نے نہ کیا ہو؟ جو بھی کام انھوں نے نہیں کیا، وہ اس لیے کہ وہ نہیں کر سکتے تھے، ان کا فائدہ نہیں تھا، اگر وہ کر سکتے ہوتے تو ضرور کرتے۔ اگر ان کا فائدہ ہوتا اور وہ ایرانی جوانوں سے نہ ڈرتے تو، عراق کی طرح براہ راست بھی جنگ شروع کر دیتے، لیکن وہ ڈر گئے۔

ان سے جو ہو سکا وہ انھوں نے کیا: انقلاب کی شروعات میں ہی علیحدگي پسند گروہوں کی حمایت کی، ہمدان میں شہید نوژہ چھاؤنی میں بغاوت(3) کی حمایت کی، امریکیوں نے منافقین کی اندھی دہشت گردی کی حمایت کی، پشت پناہی کی، جنھوں نے ملک کے کوچہ و بازار میں کئي ہزار لوگوں کو شہید کیا، انھوں نے آٹھ سالہ جنگ میں درندے صدام کی ہر طرح سے مدد کی، ہتھیار دیے، معلومات دیں، پشت پناہی کی، عربوں کو اسے پیسے دینے کے لیے تیار کیا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ -حالانکہ مجھے اس پر بہت یقین نہیں ہے لیکن بظاہر ٹھوس معلومات ہیں- جنگ کی شروعات بھی امریکیوں کے ورغلانے پر ہوئي تھی اور انھوں نے صدام کو آٹھ سالہ جنگ شروع کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔ انھوں نے خلیج فارس کے اوپر ہمارے مسافر بردار طیارے کو مار گرایا، تقریبا تین سو افراد جو اس مسافر بردار طیارے کے اندر تھے، مارے گئے، اس کے بعد افسوس کے دو لفظ بھی منہ سے نہیں نکلے۔ اس مجرم جنرل(4) کو جس نے اس طیارے پر میزائل فائر کیا تھا، انعام دیا، اسے میڈل دیا، تم لوگوں نے ایرانی قوم کے ساتھ یہ سب کچھ کیا۔

انقلاب کے فورا بعد سے ہی ایرانی قوم پر پابندیاں عائد کر دیں، ان پچھلے کچھ برسوں میں تم نے شدید ترین پابندیاں ایران کے خلاف نافذ کیں اور خود تم لوگوں کے بقول پوری تاریخ میں کسی بھی قوم پر اس طرح کی پابندیاں عائد نہیں کی گئيں، سنہ دو ہزار نو کے فتنوں میں ہنگامہ مچانے والوں اور فتنہ پھیلانے والوں کا کھل کر ساتھ دیا، اس سے پہلے اوباما(5) نے مجھے خط لکھا تھا کہ آئيے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، ہم آپ کے دوست ہیں، پوری یقین دہانی کرائي کہ ہم ایرانی نظام کو سرنگوں کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، لیکن جیسے ہی 2009 کا فتنہ شروع ہوا، انھوں نے اس امید میں اس کی حمایت شروع کر دی کہ شاید یہ فتنہ کام کر جائے اور ایرانی قوم کو گھٹنوں پر لے آئے، اسلامی جمہوریہ کی بساط لپیٹ دے، تم لوگوں نے ایرانی قوم کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا۔

تم امریکیوں نے کھل کر اعلان کیا کہ تم نے ہمارے شجاع کمانڈر کو، شہید قاسم سلیمانی کو قتل کیا ہے، قتل بھی کیا اور اس پر فخر بھی کیا، تم نے خود کہا کہ تم نے حکم دیا ہے۔ شہید سلیمانی صرف قومی ہیرو نہیں تھے، پورے خطے کے ہیرو تھے، اب یہاں یہ بتانے کی جگہ نہیں ہے کہ میں کہوں کہ خطے کے کچھ ممالک کی مشکلات کو دور کرنے میں شہید قاسم سلیمانی کا کردار، کتنا عظیم اور بے نظیر کردار تھا؛ تم نے اس عظیم انسان کو اور اس کے ساتھیوں کو شہید کر دیا، شہید ابو مہدی مہندس اور دوسروں کو۔ تم نے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کے قاتلوں کی حمایت کی، صیہونی ایجنٹوں نے ہمارے سائنسدانوں کو ایک ایک کر کے شہید کیا اور تم نے ان کی حمایت کی، نہ صرف یہ کہ مذمت نہیں کی بلکہ ان کی حمایت بھی کی۔

تم نے مختلف ملکوں میں اس قوم کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر دیا اور اگر یہ پیسے موجودہ حکومت جیسی خدمت گزار حکومت کے اختیار میں ہوتے تو وہ ان کے ذریعے بہت سے اچھے کام کر سکتی تھی لیکن ان اثاثوں کو منجمد کر دیا گيا، روک لیا گيا، یہ ان اثاثوں کے علاوہ ہے جو انقلاب کے اوائل میں خود امریکا میں منجمد کر دیے گئے تھے۔(6) ایران کے خلاف ہونے والے اکثر واقعات میں امریکا کا ہاتھ واضح طور پر دکھائي دیتا اور پھر یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کے ہمدرد ہیں! کل پھر انھوں نے یہی کہا کہ جی ہاں! ہم ایرانی قوم کے ہمدرد ہیں۔ یہ لوگ سفید جھوٹ بولتے ہیں اور وہ بھی پوری ڈھٹائي سے۔ انھوں نے بہت زیادہ دشمنی کی ہے لیکن ان کی خواہش کے برخلاف ایرانی قوم نے ان میں سے بہت سے دشمنانہ اقدامات کو ناکام بنا دیا ہے۔ ان میں سے بعض حوادث اب بھی ہمارے ذہنوں میں باقی ہیں، ہم انھیں بھولے نہیں ہیں۔ ہم شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کو ہرگز فراموش نہیں کریں گے، اسے وہ اچھی طرح سے جان لیں، ہم نے اس سلسلے میں ایک بات کہی ہے اور اپنی بات پر قائم ہیں۔ (7) ان شاء اللہ صحیح وقت پر اور صحیح جگہ وہ کام انجام پائے گا۔

خیر، آج کا امریکا، کل والا امریکا ہی ہے۔ آج کا امریکا، وہی 19 اگست والا امریکا ہے، وہی صدام کی مدد کرنے والا امریکا ہے، وہی پچھلے برسوں والا امریکا ہے، ایک دو اہم فرق کے ساتھ، اس میں ایک دو فرق آئے ہیں جن پر ہمیں توجہ رکھنی چاہیے: ایک یہ ہے کہ دشمن کا طریقہ پیچیدہ ہو گيا ہے، ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔ دشمنی، وہی ہے لیکن اس دشمنی کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہ بدل گیا ہے، پیچیدہ ہو گيا ہے، گرہوں کو کھولنا اتنا آسان نہیں ہے، غور کرنا چاہیے، ہوشیار رہنا چاہیے۔ البتہ ہمیں اپنے بچوں پر، اپنے جوانوں پر، اپنے متعلقہ افراد پر پورا اعتماد ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ گرہوں کو کھول سکتے ہیں لیکن بہرحال یہ پیچیدہ کام ہے۔ یہ ایک فرق ہے۔

دوسرے یہ کہ اس وقت - انیس اگست وغیرہ تک - بلکہ انقلاب کے اوائل تک، امریکا دنیا پر حاوی تھا لیکن آج نہیں ہے؛ یہ ایک اہم فرق ہے۔ آج امریکا، دنیا پر حاوی نہیں ہے، دنیا کے بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا زوال کی جانب گامزن ہے، وہ ذرہ ذرہ کر کے پگھل رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ ہم کہہ رہے ہیں، البتہ ہمارا بھی یہی خیال ہے لیکن دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اس کی علامتیں بھی واضح ہیں، اس وقت امریکا کی داخلی مشکلات ایسی ہیں جیسی کبھی نہیں رہیں، ان کی معاشی مشکلات، سماجی مسائل، امریکا کے اندر ان کے اخلاقی مسائل، ان کے اختلافات، تشدد آمیز تنازعات، دنیا کے مسائل کے بارے میں ان کی اندازے کی غلطیاں۔

انھوں نے بیس سال پہلے افغانستان پر حملہ کیا - اس وقت طالبان برسر اقتدار تھے - تاکہ طالبان کو جڑ سے ختم کر دیں، انھوں نے حملہ کیا، پیسے خرچ کیے، جرائم کیے، ان کے لوگ مارے گئے، انھوں نے کتنے لوگوں کو مارا اور اسی طرح کی دوسری باتیں ہوئیں، یہ بیس سال افغانستان میں رہے، بیس سال کے بعد افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے باہر آ گئے! اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب اندازے کی غلطی ہی تو ہے۔ مسائل کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پاتے، غلط سمجھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر خراب کام کرتے ہیں۔ یا عراق پر حملہ کیا، ناکام رہے۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں آج عراق میں الیکشن ہوتے ہیں اور ایک عراقی رہنما کا انتخاب ہوتا ہے، یہ امریکیوں کی مرضی نہیں تھی۔ جب صدام گيا تو امریکیوں نے ایک فوجی کو عراق کا حاکم بنا دیا۔ پھر انھوں نے دیکھا کہ فوجی سے کام نہیں چلے گا تو اسے ہٹا دیا اور ایک غیر فوجی کو - پال بریمر(8) کو - عراق کے تخت اقتدار پر بٹھا دیا، مطلب یہ کہ عراق کو ایک غیر عرب و غیر عراقی حکومت، اور امریکا کے ذریعے چلایا جائے!

میں نے عرض کیا کہ شہید قاسم سلیمانی کے معاملے میں مجھے کچھ باتیں کہنی ہیں، ایک بات یہی ہے، لیکن اب اس کے کہنے کا وقت نہیں ہے، ان کا ارادہ یہ تھا۔ ان کا ارادہ یہ نہیں تھا کہ عراق کو چھوڑ دیں۔ پھر انھوں نے کوشش کی کہ اپنے پٹھوؤں کو اقتدار میں لے آئيں لیکن پوری طرح ناکام رہے، عراق میں بھی ناکام رہے، شام میں بھی ناکام رہے اور لبنان میں بھی ناکام رہے۔ آبی سرحدوں اور گيس وغیرہ کے ذخائر کے معاملے میں غاصب حکومت سے لبنانیوں کا حالیہ معاہدہ، امریکا کی شکست تھی کیونکہ امریکی بیچ میں آ گئے تھے، انھوں نے خطوط طے کر دیے تھے، ایسا ہونا چاہیے، ویسے ہونا چاہیے! حزب اللہ نے ان سب کو درکنار کر دیا، یہ امریکا کی شکست ہے۔ بہت واضح ہے کہ ان کے اندازے، غلط ہیں۔

ایک اور چیز -اب میں اسے کہہ رہا ہوں، بظاہر دنیا میں بعض دوسرے لوگوں نے بھی یہ بات کہی ہے- میرے خیال میں امریکا کے زوال کی نشانیوں میں سے ایک، موجودہ صدر(9) اور پچھلے صدر(10) جیسے افراد کا اقتدار میں آنا ہے۔ تیس پینتیس کروڑ کی آبادی والے ایک ملک کے لوگ مل کر ٹرمپ جیسے انسان کو صدر بناتے ہیں جسے پوری دنیا پاگل سمجھتی ہے، پھر اسے ہٹا دیا جاتا ہے اور اِس (موجودہ) صدر جیسا آدمی اقتدار میں آتا ہے۔ آپ اس کی حالت کے بارے میں جانتے ہی ہیں۔(11) یہ ایک قوم کے زوال کی دلیل ہے، یہ ایک تمدن کے انحطاط کی دلیل ہے۔ تو یہ امریکا سے متعلق بات ہوئي۔

بہت سی دوسری مغربی طاقتیں بھی اس لحاظ سے امریکا جیسی ہی ہیں۔ اب ہم نام نہیں لینا چاہتے، بعض مغربی طاقتیں بھی اس سلسلے میں امریکا کی طرح ہیں، اپنے میڈیا میں تخریب کاری کی ٹریننگ دیتی ہیں، ہنگاموں کی ٹریننگ دیتی ہیں، پیٹرول بم بنانے کی ٹریننگ دیتی ہیں، ہتھ گولے بنانے کی ٹریننگ دیتی ہیں، یہ سب کس چیز کی دلیل ہے؟ بات یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اس طرح جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، ہاں، جرم تو ہے ہی لیکن انحطاط بھی ہے، زوال بھی ہے، پستی بھی ہے، اس سے کسی حکومت کے اخلاقی زوال کی حد کا پتہ چلتا ہے کہ اس کا ریڈیو اس طرح کام کر رہا ہے۔

ہمارے ملک میں پچھلے کچھ ہفتوں سے جاری انہی ہنگاموں میں بھی امریکا کا کردار واضح ہے۔ وزارت انٹیلی جنس اور سپاہ کے انٹیلیجنس کے ادارے نے جو بیان جاری کیا ہے، وہ بڑا اہم بیان ہے، طویل ہے اور بعض لوگوں کا اسے پڑھنے کا دل نہیں چاہتا، ہمارے پاس اس کی اطلاعات اور رپورٹیں تھیں۔ یہ بہت اہم اطلاعات ہیں، اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں، پھر اس سلسلے میں ہمارے انٹیلیجنس کے اداروں نے جو معلومات حاصل کی ہیں وہ بہت اہم اور گرانقدر ہیں۔ تہران کے لیے، بڑے شہروں کے لیے، چھوٹے شہروں کے لیے، سازشیں تیار کی گئي ہیں، پروگرام بنائے گئے ہیں۔ بظاہر معاملہ یوں نظر آتا ہے کہ مثال کے طور پر کچھ جوان میدان میں ہیں۔ یہ بچے اور نوجوان، ہمارے اپنے بچے ہیں، ہماری ان کے بارے میں کوئي بحث ہی نہیں ہے۔ یہ جذبات ہیں، جوش ہے، مسائل کو سمجھنے میں تھوڑی سی عدم توجہ ہے جس کی وجہ سے یہ بچے اس طرح آ جاتے ہیں، ہماری بحث ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ہنگاموں کو لیڈ کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو منصوبے اور سازش کے ساتھ میدان میں آئے ہیں۔

یہ چیز جو میں عرض کر رہا ہوں، اسے سبھی لوگ نظر میں رکھیں: فریق مقابل کے پاس سازش ہے، اسے ہمارے عہدیداران بھی مد نظر رکھیں - بحمد اللہ ہمارے سیکورٹی والے اس طرف متوجہ ہیں، ہمارے سیاسی عہدیداران، معاشی امور کے ذمہ داران اور مختلف شعبوں کے عہدیداران جان لیں کہ فریق مقابل منصوبے کے ساتھ میدان میں آيا ہے - اور عوام بھی جان لیں، آپ جوان بھی جان لیں کہ یہ لوگ منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں آئے ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کو اپنے ساتھ ملا لیں، ایسا کچھ کریں کہ ایرانی قوم کا عقیدہ، برطانیہ اور امریکا وغیرہ کے حکام کا عقیدہ بن جائے، چال یہ ہے، ان کا مقصد یہ ہے۔ البتہ ایرانی قوم نے انھیں زناٹے دار تھپڑ رسید کیا، آگے بھی اسی طرح تھپڑ رسید کرتی رہے گي۔

جن لوگوں نے سازشیں تیار کیں اور نیت اور سازش کے ساتھ سوچ سمجھ کر میدان میں آئے -یہ چیز ہمارے لیے بہت اہم ہے- وہ غیر ملکی ایجنسیوں سے جڑے ہوئے تھے اور انھوں نے جرائم کیے۔ آپ دیکھیے کہ شیراز میں شاہچراغ (کے روضے پر حملے) کا یہ سانحہ کتنا بڑا جرم تھا! اس دوسری کلاس کے بچے(12) ، یا چھٹی کلاس کے بچے(13) یا دسویں کلاس کے بچے(14) نے کیا گناہ کیا تھا؟ اس چھے سال کے معصوم بچے(15) پر، جس نے اپنے ماں باپ اور بھائي کو کھو دیا ہے، غم کا سنگین پہاڑ کیوں توڑ دیا گیا؟ کیوں؟ یہ بچہ اس عظیم اور ناقابل تلافی غم کے ساتھ کیا کرے؟ یہ سب جرائم ہیں۔ یہ سنگین جرائم ہیں۔ اس نوجوان دینی طالب علم - تہران میں شہید ہونے والے نوجوان دینی طالب علم، پیارے آرمان(16) نے کیا گناہ کیا تھا؟ ایک نوجوان دینی طالب علم، یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ تھا، پھر دینی طالب علم بن گيا، دیندار، مومن، عبادت گزار، اللہ کی راہ پر چلنے والا۔ یہ کہ اسے ایذائيں دیں، ایذائيں دے دے کر قتل کر دیں، اس کی لاش سڑک پر پھینک دیں، یہ معمولی اور چھوٹے کام ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں؟ سوچنا چاہیے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ ہمارے بچے تو نہیں ہیں، یہ ہمارے نوجوان تو نہیں ہیں، یہ کون لوگ ہیں؟ انھیں کہاں سے احکامات ملتے ہیں؟ انسانی حقوق کا دعوی کرنے والوں نے ان کی مذمت کیوں نہیں کی؟ کیوں شیراز کے حملے کی مذمت نہیں کی؟ کیوں ایک بے بنیاد معاملے کو، ایک جھوٹے واقعے کو انٹرنٹ پر اپنے پلیٹ فارمز پر ہزاروں بار دوہراتے ہیں لیکن 'آرشام' کے نام پر پابندی لگا دیتے ہیں کہ وہ انٹرنٹ پر نہ آئے؟ کیوں؟ یہ لوگ، انسانی حقوق کے حامی ہیں؟ یہ لوگ اس طرح کے ہیں۔ ہمیں انھیں پہچاننا چاہیے، انھیں پہچانیے۔ البتہ ہم ان کا گریبان چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام یقینی طور پر ان مجرموں سے حساب لے گا۔ جس کے بارے میں بھی یہ ثابت ہو جائے گا کہ اس نے ان جرائم میں تعاون کیا ہے، ان جرائم میں اس کا ہاتھ ہے، ان شاء اللہ اسے سزا دی جائے، اس میں کوئي شک نہیں ہے۔

خیر اب آپ لوگوں سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کا نوعمر نوجوان، ماضی کے نوعمر نوجوان کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور عقلمند ہے، عاقل ہے۔ ہمارے زمانے میں ایسا نہیں تھا، میں آپ سے عرض کرتا ہوں، میں اپنی بات کرتا ہوں، جب انیس اگست کا واقعہ رونما ہوا تو ہماری عمر، آپ میں سے بعض کی عمر کی طرح  تھی، چودہ پندرہ سال۔ ان واقعات کی ایک دھندلی سی تصویر تھی لیکن ہم یہ غور کر پائيں کہ کون لوگ ہیں، کس کے لوگ ہیں، یہ کس کی طرف سے ہو رہا ہے، دوسرا فریق کون ہے، مقصد کیا ہے، کیوں ہو رہا ہے؟ نہیں، ہم یہ سب سمجھ نہیں پاتے تھے۔ آج کا نوعمر نوجوان ایسا نہیں ہے، آج کا نوجوان سوچتا ہے، تجزیہ کرتا ہے، صحیح تجزیے کو سمجھتا ہے، اس کے ذہن میں کچھ نکات آتے ہیں، آج کا نوجوان تجزیہ کرنے والا ہے، یہ بڑا اہم نکتہ ہے، یہ بہت ہی قابل توجہ بات ہے۔ ہمارے بچے اور نوجوان کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے اور یہ اسلامی انقلاب کی دین ہے، میں یہ بات عرض کرتا ہوں: یہ اسلامی انقلاب کی خاصیت ہے۔ اگر اسلامی انقلاب نہ ہوتا، تو ہمارے جوان - چھوٹے بچے اور نو عمر نوجوان نہیں، حتی جوان، بیس سے بائيس پچیس سال تک کے جوان - فضول کاموں اور غیر اخلاقی حرکتوں میں اتنے غرق ہوتے کہ انھیں ملک کے بنیادی مسائل کے بارے میں سوچنے کا خیال بھی نہ ہوتا، پہلے ایسا ہی تھا۔ میں یہاں آ رہا تھا، سڑک پر ایک جگہ تھی جس کا نام تھا 'جوانوں کا محل' اس وقت کے اور آج کے سٹی پارک کے پیچھے، رات کا ابتدائي حصہ تھا، کچھ جوان وہاں سڑک پر ٹوٹے ہوئے تھے - میٹنگ تھی یا کوئي خاص پارٹی تھی - مجھ جیسا دینی طالب علم، جو وہاں سے گزر رہا تھا، ان جوانوں کی شکل و صورت، ہیئت کذائي اور سڑک پر ان کے کام دیکھ کر بھونچکا رہ گيا۔ تو اس طرح کے جوان، اپنی ان حرکتوں کے ساتھ کیا اس بات کا وقت اور اس بات کی لیاقت رکھتے ہیں کہ ملک کی سیاست اور ملک کے مستقبل کے بارے میں اپنی ذمہ داری وغیرہ کے بارے میں سوچ سکیں؟ یہ اسلامی انقلاب تھا جس نے جوانوں کو بیدار کیا، تحریک کے دوران بھی - تحریک کے اس آخری سال میں جو امام خمینی کے حکم پر جوان میدان میں آ گئے - اور تحریک کے بعد سے آج تک بھی، ہمارے جوانوں نے روز بروز پیشرفت حاصل کی، پیشرفت کی ہے، ان کے پاس تجزیے کی طاقت ہے، واقعات کو سمجھنے کی طاقت ہے۔

تو یہ ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو ہم اب بھی سمجھتے ہیں، دشمن بھی سمجھتا ہے، دشمن بھی سمجھتا ہے کہ آج کے نوجوان کی آنکھیں اور کان کھلے ہوئے ہیں، اس کی توجہ مرکوز ہے، وہ ذہین ہے، تجزیہ کر سکتا ہے، تو پھر وہ کیا کرتا ہے؟ دشمن تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے کار بیٹھتا نہیں، دشمن ہمارے جوانوں کی اس حالت کو بگاڑنے کے لیے ذہنی اور فکری مواد تیار کرنا شروع کرتا ہے، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا پر اتنی بڑی مقدار میں جھوٹ، اسی وجہ سے ہے۔ اتنا زیادہ جھوٹ، اتنی بے بنیاد باتیں، اتنی زیادہ گمراہ کن باتیں، اتنے زیادہ الزامات اس لیے ہیں کہ دشمن، اس فعال ذہن کے لیے مواد تیار کرے۔ یہ جو میں مسلسل 'تشریح کے جہاد، بیان کے جہاد' کی بات کرتا ہوں، اسی لیے ہے، مواد آپ تیار کیجیے، میں عہدیداران سے کہہ رہا ہوں، میڈیا کے ذمہ دار، ٹیلی کمیونیکیشن کے ذمہ دار۔ اس سے پہلے کہ دشمن، غلط، جھوٹا اور گمراہ کن مواد تیار کرے، آپ صحیح اور حقیقت پر مبنی مواد تیار کیجیے،  اسے نوجوانوں کے ذہن تک پہنچائیے، دشمن اسی کام میں مصروف ہے۔(17) (بہت شکریہ، بہت شکریہ، فی الحال میری بات سنئے، پھر جا کر واقعی اس کے لیے پروگرام تیار کیجیے۔)

واقعی آپ جوانوں سے میری توقع یہی ہے، میں بتاتا ہوں، پھر عرض کرتا ہوں۔ وقت بھی گزرتا جا رہا ہے لیکن آپ سے کچھ باتیں کرنے کا یہ اچھا موقع ہے۔ خیر تو میں عرض کر رہا تھا کہ دشمن بھی منصوبے بنا رہا ہے۔ میں نے کہا کہ عہدیداران کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے، یہ جاننا چاہیے کہ دشمن کیوں فلاں لفظ، فلاں نام سے گھبراتا ہے اور اس پر پابندی لگا دیتا ہے اور کیوں سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا پر اتنا زیادہ جھوٹ پھیلاتا ہے، انھیں اس کا علاج کرنا چاہیے، مقابلہ کرنا چاہیے، یہ عہدیداران کی ذمہ داری ہوئی۔ خود آپ کی بھی ذمہ داری ہے، خود آپ کو بھی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے اور ساتھ ہی اس بات کی بھی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ممکن ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی چیز کو بہت زیادہ تعداد اور مقدار میں، باربار دوہرا کر ذہنوں میں انڈیلنا چاہتے ہیں لیکن سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ حقیقت کے برخلاف ہے یا نہیں۔ تو جھوٹ اور تحریف کے مقابلے میں صحیح بات کی تشخیص (بھی ایک ذمہ داری ہے)۔

دوسرے یہ کہ ان لوگوں کی طرف سے چوکنا رہیے جو آواز میں آواز ملاتے ہیں، انھیں نصیحت کیجیے، میں نہیں کہتا کہ جھگڑا کیجیے، بلکہ نصیحت کیجیے، سمجھائیے۔ کچھ لوگ ہیں جو دشمن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کریں، کچھ لوگ سمجھ نہیں پاتے، غافل ہیں۔ انسان دیکھتا ہے، ایسے لوگوں کو پہچانتا ہے جو سوشل میڈیا پر کچھ باتیں کہتے ہیں، اخبارات میں لکھتے ہیں، دشمن نہیں ہیں لیکن باتوں کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ پاتے ہیں، ایسے لوگوں کو نصیحت کرنا چاہیے۔ انھیں نصیحت کرنے والے بہترین لوگ آپ نوجوان ہیں، انھیں لکھیے، کہیے، میسیج دیجیے، سمجھائیے، اپنی نشستوں میں دلیلیں پیش کیجیے۔

البتہ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل سے پروگرام کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ پچھلے کچھ ہفتوں کے واقعات، صرف سڑکوں پر ہونے والے کچھ ہنگامے نہیں تھے، اس کے پیچھے، بڑے گہرے منصوبے تھے۔ دشمن نے ایک ہائبرڈ جنگ شروع کی، ایک ہائبرڈ جنگ، یہ بات میں آپ سے ٹھوس اطلاعات کی بنا پر بتا رہا ہوں۔ دشمن یعنی امریکا، اسرائيل، بعض موذی اور خبیث یورپی طاقتیں، بعض گروہ اور گینگ، سبھی نے اپنے وسائل میدان میں اتار دیے۔ سبھی وسائل کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کو، میڈیا کو، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کو، اپنے پرانے تجربات کو۔ ایران میں ان کے تجربات ہیں، سنہ 1999 سے ان کے تجربات ہیں، سنہ 2009 سے ان کے تجربات ہیں، بعد کے برسوں سے ان کے تجربات ہیں، وہاں انھیں شکست ہوئي، ان تجربات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ان تجربات کو بھی میدان میں لے آئے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں بھی انھوں نے یہ کام کیے ہیں، مار بھی کھائي ہے، کبھی کچھ کامیابی بھی ملی ہے، ان تجربات سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دشمن نے یہ سارے وسا‏ئل انہی کچھ ہفتوں میں میدان میں اتار دیے ہیں تاکہ ایرانی قوم پر غالب آ سکے۔ میں نے عرض کیا کہ قوم نے حقیقی معنی میں ان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا، قوم نے حقیقی معنی میں انھیں دھول چٹا دی۔

تو یہ آپ عزیز جوانوں اور ان سبھی جوانوں سے ایک توقع کا اظہار تھا جو بعد میں یہ باتیں سنیں گے لیکن میری ایک توقع اور ہے، دیکھیے میں نے پچھلی ایک دو تقریروں میں کہا کہ ایسی بہت سی نشانیاں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ عالمی نظام بدل رہا ہے(18) اور ایک نیا نظام دنیا میں قائم ہونے والا ہے۔ اس نظام میں ہم ایرانیوں کا کردار، ہم ایرانیوں کی پوزیشن کیا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اب یہ نیا نظام، جو میں عرض کر رہا ہوں کہ موجودہ نظام، نئے نظام میں تبدیل ہو جائے گا، کیا ہے؟ مو بہ مو تو نہیں بتایا جا سکتا، مطلب پوری وضاحت اور تفصیل سے نہیں بتایا جا سکتا کہ کیسا نظام ہوگا لیکن کچھ خطوط ترسیم کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ بنیادی خطوط ہیں جو یقینی طور پر اس نئے نظام میں ہوں گے۔ پہلی بنیادی چیز، امریکا کا الگ تھلگ پڑنا ہے، نئے عالمی نظام میں امریکا الگ تھلگ پڑ جائے گا۔ دس بیس سال پہلے بش سینیئر نے جو کہا تھا اس کے برخلاف کہ آج دنیا پر مسلط واحد طاقت امریکا ہے، کویت پر عراق کے حملے، اس معاملے میں امریکا کے کود پڑنے اور عراقیوں کے حملے کو ناکام بنانے کے بعد بش سینیئر نے بڑے غرور سے کہا تھا کہ آج امریکا، دنیا کا سب کچھ ہے، اسی مضمون کے الفاظ تھے، اس نئے عالمی نظام میں، جو میں عرض کر رہا ہوں، امریکا کی کوئي اہم پوزیشن نہیں ہوگي اور وہ الگ تھلگ پڑ جائے گا۔(19) جی ہاں ایسا ہی ہوگا، "امریکا مردہ باد" ہو جائے گا۔ یہیں پر یہ بھی کہتا چلوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ لوگ "امریکا مردہ باد" کہتے ہیں اس لیے امریکی آپ سے دشمنی کرتے ہیں، میں کہتا ہوں نہیں، جس دن امریکیوں نے دشمنی شروع کی، یعنی 19 اگست، اس دن ایران میں کوئي بھی امریکا مردہ باد نہیں کہتا تھا لیکن انھوں نے اپنا وار کر دیا، ان کا وار، امریکا مردہ باد کی وجہ سے نہیں ہے۔ پھر جب انھوں نے وار کر دیا تو اسی سال 7 دسمبر(20) کو اسٹوڈنٹس نے تہران یونیورسٹی میں کہا: "امریکا مردہ باد"، امریکا مردہ باد، 7 دسمبر کی یادگار ہے، اس وقت سے کہا گيا، امریکا مردہ باد، امریکی اس سے پہلے وار کر چکے تھے۔

تو ایک بات تو یہ کہ امریکا دنیا سے اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کے بہت سے علاقوں میں امریکا کے اڈے ہیں، ہمارے علاقے میں، یورپ میں، ایشیا میں، فوجی اڈے، بڑی تعداد میں فوجیوں کے ساتھ، خرچہ بھی اسی بے چارے ملک سے لیتے ہیں، جہاں وہ اڈا ہوتا ہے، اخراجات وہ ادا کرے اور امریکی بیٹھ کر کھائيں اور حکم چلائيں! یہ ختم ہو جائے گا، پوری دنیا سے امریکا کی بساط لپیٹ دی جائے گي۔ یہ دنیا کے آئندہ نئے نظام کے بنیادی خطوط میں سے پہلا اصلی اور بنیادی پہلو ہے۔

دوسرا بنیادی پہلو، سیاسی، معاشی، ثقافتی یہاں تک کہ سائنسی طاقت کی مغرب سے ایشیا منتقلی۔ آج مغربی طاقتوں کے پاس سیاسی طاقت بھی ہے، سائنسی طاقت بھی ہے، ثقافتی طاقت بھی ہے اور معاشی طاقت بھی ہے، یعنی ان کے پاس بہت سی چیزیں ہیں بلکہ صحیح لفظ 'تھیں' ہوگا اور وہ ان چیزوں کو رفتہ رفتہ کھوتے چلے جا رہے ہیں لیکن خیر برسوں تک تو ان کے پاس یہ چیزیں تھیں ہی۔ انھوں نے دو تین صدیوں تک اسی طرح کام کیا۔ اس نئے نظام میں، یہ حالت، مغرب سے ایشیا میں منتقل ہو جائے گي۔ ایشیا، علم و سائنس کا مرکز، اقتصاد کا مرکز، سیاسی طاقت کا مرکز، عسکری طاقت کا مرکز بن جائے گا، ہم ایشیا میں ہیں۔ تو یہ اگلا نکتہ ہوا۔

تیسرا نکتہ یعنی وہ تیسرا بنیادی پہلو: استقامت کی سوچ اور منہ زوری کے مقابلے میں استقامتی محاذ کو فروغ حاصل ہوگا، جس کی شروعات کا سہرا اسلامی جمہوریہ کے سر ہے۔ کیونکہ جب صنعتی انقلاب آيا اور یورپ والوں نے پیشرفت کی اور کالونی ازم شروع کیا تو دنیا کے لوگوں اور ملکوں کو اس بات کا عادی بنا دیا کہ تسلط جمانا اور تسلط قبول کرنا، دنیا کے دو حتمی اور بہم پیوستہ حصے ہیں، یعنی دنیا، تسلط قائم کرنے والی حکومتوں اور طاقتوں اور تسلط قبول کرنے والی حکومتوں اور ملکوں میں تقسیم ہوتی۔ یہ صورتحال رہی ہے اور یہ تسلط پسندانہ نظام کئي صدیوں تک جاری رہا ہے۔ سبھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ انھیں مغربی طاقتوں کے تسلط کو ماننا چاہیے، یہاں تک کہ ان کی ثقافت کو بھی قبول کرنا چاہیے، حتی ان کے ذریعے رکھے گئے ناموں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔

دیکھیے، میں یہیں پر یہ بات کہہ دوں - میں نے پہلے بھی کبھی(21) یہ بات کہی ہے - ہمارے علاقے کو کہتے ہیں، مڈل ایسٹ یعنی مشرق وسطی! مشرق وسطی کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی اصل اور دنیا کا مرکز یورپ ہے، ملا نصر الدین کی اسی کہانی کی طرح کہ ان سے پوچھا گيا کہ دنیا کا مرکز کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ اسی جگہ جہاں میرے گدھے کے طویلے کی کیل گڑی ہوئي ہے، یہی دنیا کا مرکز ہے! جو علاقہ یورپ سے دور ہے، اس کا نام مشرق بعید ہے کیونکہ وہ یورپ سے دور ہے، جو علاقہ اس سے قریب ہے، جیسے شمالی افریقا کے بعض ممالک تو وہ مشرق قریب ہے، جو علاقہ ان دونوں کے درمیان ہے، وہ مشرق وسطی ہے، مطلب یہ کہ ملکوں کا نام رکھنے میں معیار، بنیاد اور اصل بات یورپ ہے۔ مغرب والے اپنے آپ کو اتنا حقدار سمجھتے تھے! یہی وجہ ہے کہ میں مشرق وسطی نہ کہنے پر اصرار کرتا ہوں بلکہ کہتا ہوں مغربی ایشیا۔ ایشیا کے مغرب میں ہے نا، کیوں ہم اسے مشرق وسطی کہیں؟ تسلط قائم کرنے والی طاقتوں کی منہ زوری، قوت طلبی اور تسلط پسندی کے مقابلے میں استقامت کا جذبہ اسلامی جمہوریہ نے پیدا کیا۔ دنیا میں سب سے پہلے جس نے، 'نہ شرقی و نہ غربی' (نہ مشرق اور نہ مغرب) کہا وہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی تھے۔ نہ شرقی و نہ غربی۔ اس وقت دنیا امریکا اور سوویت یونین کے درمیان منقسم تھی۔ انھوں نے کہا: نہ یہ اور نہ وہ۔ دنیا کے تمام ممالک اس بات پر مجبور تھے کہ یا تو اِس کے ساتھ جڑے رہیں یا اُس کے ساتھ جڑے رہیں، وہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتے تھے لیکن امام خمینی نے کہا کہ نہ یہ، نہ وہ۔ یہ جذبہ، یہ منطق اور یہ ٹھوس بات فروغ پا گئي۔ آج ہمارے خطے میں بہت سے لوگ اور ممالک ہیں جو خود کو استقامتی محاذ سے وابستہ سمجھتے ہیں، استقامت کرنے والے ہیں، استقامت پر یقین رکھتے ہیں اور استقامت کرتے بھی ہیں اور بہت سے موقعوں پر کامیاب بھی ہوتے ہیں، جیسے یہی کامیابی جو لبنانیوں نے گيس فیلڈ کی سرحد کے تعین کے معاملے میں حزب اللہ کی برکت سے حاصل کی۔ میں نے تین بنیادی خطوط کا ذکر کیا: امریکا کا الگ تھلگ پڑنا، طاقت کا ایشیا میں منتقل ہونا اور استقامتی محاذ اور استقامت کی منطق کا فروغ، البتہ کچھ دوسری چیزوں کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے، میرے ذہن میں ہیں بھی لیکن سب سے بنیادی مسائل یہی ہیں۔

خیر، تو اس نئي دنیا میں ایران کیا کرے گا؟ ایران کہاں ہوگا؟ ہمارے عزیز ملک کی پوزیشن کیا ہوگي؟ یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں آپ کو سوچنا چاہیے، یہ وہ چیز ہے جس کے لیے آپ کو اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے، یہ وہ چیز ہے جو ایرانی جوان انجام دے سکتا ہے۔ ہم اس نئے نظام میں ایک اہم اور نمایاں مقام حاصل کر سکتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے ملک کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں جو بہت سے ممالک میں نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو افرادی قوت، ہمارے پاس بہت اچھی افرادی قوت ہے، یعنی ایرانی جوان کی ذہانت و صلاحیت، دنیا کی اوسط ذہانت و صلاحیت سے زیادہ ہے۔ آج ہم اسّی اور نوّے کے عشرے میں پیدا ہونے والے جوانوں کی ذہانت و صلاحیت کی برکتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت جوان اور علم و سائنس کے مختلف میدانوں، ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں نئي نئي ایجادات کر رہے ہیں، جدت طرازی کر رہے ہیں – مختلف میدانوں میں، علم و سائنس کے مختلف شعبوں میں– بعض میدانوں میں ملک کو دنیا کے صف اول کے چار پانچ ممالک میں قرار دے رہے ہیں، وہی انیس سو اسی اور نوے میں پیدا ہونے والے جوان ہیں، آج وہ پھل دے رہے ہیں اور ان شاء اللہ ایرانی قوم، سن دو ہزار کے عشرے میں پیدا ہونے والوں – آپ میں زیادہ تر اسی زمرے میں ہیں – اور سن دو ہزار دس کے عشرے میں پیدا ہونے والوں کی برکتیں، مستقبل میں دیکھے گي۔ البتہ رکاوٹیں بھی آئيں گي، مشکلات بھی ہیں جو رکاوٹ ڈال سکتی ہیں۔ خیر تو ہماری سب سے بڑی خصوصیت افرادی قوت ہے۔

دوسری خصوصیت، قدرتی قوت ہے، ہمارے ملک کی قدرت و فطرت، ہمارے ملک میں ایسے ذخائر ہیں، قدرتی ذخائر کا ایسا تنوع ہے جو ملک کو دنیا کے بے نظیر ملکوں میں شامل کرتا ہے۔ میں نے کبھی اسی امام بارگاہ میں ایک تقریر(22) میں – اس وقت مجھے اعداد و شمار یاد نہیں ہیں، اس دن میں نے مطالعہ کیا تھا اور مجھے یاد تھے – کہا تھا کہ صنعت کے لیے ضروری ان کچھ بنیادی دھاتوں میں، ہم دنیا کی آبادی کا ایک فیصد ہے، ہم ایک فیصد ہیں لیکن ہمارے پاس موجود یہ کچھ دھاتیں دنیا کا چار پانچ فیصد ہیں، مطلب یہ کہ ہم اپنی قوم کی ضرورت سے زیادہ قدرتی ذخائر سے مالامال ہیں۔ میں نے دھاتوں کی بات کی، اناج اور جڑی بوٹیاں بھی اسی طرح ہیں، دواؤں کے لیے ضروری پودے بھی اسی طرح ہیں، کانیں بھی اسی طرح ہیں، اس لحاظ سے ہم کافی مالامال ہیں۔ مختلف حکومتوں کو میں نے معدنیات کے سلسلے میں کتنی تاکید کی لیکن افسوس کہ انھوں نے کما حقہ کام نہیں کیا، کئي حکومتوں نے میری بات سنی نہیں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ حکومت، ان امور پر توجہ دے گي۔ میں نے سنا ہے کہ کانکنی کے سلسلے میں اچھا کام کیا جا رہا ہے۔ خیر تو یہ بھی ایک بنیادی نکتہ ہے۔

بنابریں ہمارا ملک افرادی قوت کے لحاظ سے بھی ممتاز پوزیشن کا حامل ہے، قدرتی قوت کے لحاظ سے بھی اہم پوزیشن رکھتا ہے اور جغرافیائي پوزیشن کے لحاظ سے بھی ہمارا محل وقوع مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کو جوڑنے والے چوراہے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نقشے میں دیکھیے، دنیا کا نقشہ سامنے رکھیے اور دیکھیے، ہم ایک بڑی حساس جگہ پر ہیں۔ مشرق اور مغرب ہمارے یہاں سے ہو کر گزر سکتے ہیں، شمال اور جنوب بھی ہمارے یہاں سے ہو کر گزر سکتے ہیں۔ ہم دنیا میں ایک بہت ہی پیشرفتہ اور اچھی ٹرانزٹ گزرگاہ بن سکتے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ریلوے اور ریلوے لائنوں کی ضرورت ہے، سڑکوں اور شاہراہوں سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ میں نے ان ریلوے لائنوں کے بارے میں بھی – ہمیں اپنا درد دل آپ جوانوں سے بیان کرنا ہے – بار بار مختلف حکومتوں میں زور دے کر کہا ہے(23) لیکن افسوس کہ کوتاہی کی گئي۔ البتہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وفات کے بعد کے ابتدائي دنوں میں اس سلسلے میں کچھ اچھا کام ہوا لیکن اس کے بعد صحیح کام نہیں ہو پایا اور اب اچھے کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گيا ہے۔ ہمیں ان شاء اللہ آمد و رفت اور نقل و حمل کے اس میدان میں اپنی پوزیشن کو حاصل کرنا چاہیے۔

ان چند خصوصیات سے بھی زیادہ اہم، ہماری حکومتی اور تمدنی منطق ہے جو اسلامی جمہوریہ سے عبارت ہے۔ ہم نے جمہوریت اور اسلام کو جوڑ دیا، ہم نے عوامی موجودگی، عوامی ووٹوں اور الہی تعلیمات کو جوڑ دیا، ان دونوں کو جوڑنا، آسان کام نہیں ہے لیکن ہم نے اللہ کی توفیق سے یہ کام انجام دیا۔ ہاں ابھی کچھ کمیاں ہیں۔ میں کبھی بھی یہ دعوی نہیں کرتا کہ اس سلسلے میں کوئي بھی کمی نہیں ہے، جی نہیں، کمیاں ہیں لیکن ہماری بات اور منطق، دنیا میں ایک نئي منطق ہے۔ خیر تو یہ ان مسائل کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔

آپ عزیز نوجوانوں سے میری  آخری بات۔ دیکھیے، میرے، آپ کے اور سبھی کے کاموں، باتوں اور حرکات و سکنات سے ملک کے باہر ایک پیغام جاتا ہے۔ ہم چوکنا رہیں اور دیکھیں کہ ہم کیا پیغام دے رہے ہیں۔ پیغام، ضروری نہیں ہے کہ زبان سے ہی دیا جائے۔ کبھی آپ کے بیٹھنے کے طریقے سے پیغام جاتا ہے، کبھی کسی جگہ آپ کے اجتماع سے پیغام جاتا ہے، کبھی آپ کے نعروں سے پیغام جاتا ہے۔ اس پیغام کا خیال رکھیے جو آپ دنیا کو دے رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایرانی قوم اور ایرانی جوانوں کی طرف سے دشمن کے محاذ کو جو سب سے اہم چیز پہنچنی چاہیے وہ، ایرانی قوم کی استقامت کا پیغام ہے۔ ایرانی قوم، ایرانی جوان، اپنے اقدامات سے، اپنے کاموں سے، اپنے نعروں سے، اپنی کارکردگي سے دنیا کو سمجھا دیں – البتہ دشمن سمجھ ہی جائے گا – کہ ایرانی قوم کے پاس استقامت کی طاقت ہے، وہ منہ زوری کے مقابلے میں استقامت کا ٹھوس ارادہ رکھتی ہے۔ البتہ یہ تمام لوگوں کا، ہر ایک کا فرض ہے، ذمہ داری ہے۔ حکومتی عہدیداروں پر سنگین  ذمہ داری ہے، اس سلسلے میں حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داری بہت بھاری ہے۔ پچھلی کوتاہیاں دوہرائی نہیں جانی چاہیے۔ حکومت کے بعض اداروں کو اس سلسلے میں بہت زیادہ کام کرنا چاہیے، جیسے تعلیم و تربیت کا ادارہ، جیسے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی، وزارت صحت، جیسے وزارت ثقافت و اسلامی تعلیمات، جیسے پیداوار سے متعلق وزارتیں: وزارت صنعت، وزارت زراعت یا اسی نقل و حمل کے مسئلے سے متعلق وزارتیں – یہ سب اہم ادارے ہیں – یا حکومت کا ادارۂ سائنس اور ٹیکنالوجی جو جینیئس افراد کو ایلیٹس فاؤنڈیشن سے جوڑتی ہے، ان سب پر اہم اور سنگين ذمہ داریاں ہیں جو انھیں انجام دینی چاہیے۔

میرے عزیزو! یقین رکھیے کہ اگر میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا تو آپ بھی اپنی ذمہ داری پوری کریں گے، تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داری ادا کریں، ہم میں سے ہر ایک، جہاں کہیں بھی ہو، ہم جہاں بھی ہوں، اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور اسے انجام دیں، ملک کے تمام مسائل برطرف ہو جائيں گے اور ملک اپنی اس آخری آرزو تک کو حاصل کر لے گا۔

ہمارے عظیم الشان امام خمینی پر اللہ کی رحمت ہو، ہمارے اسلاف پر خدا کی رحمت ہو، ہمارے شہیدوں پر خدا کی رحمت ہو اور شہیدوں کے اہل خانہ پر خدا کی رحمت ہو۔

اللہ آپ کو کامیاب کرے، اللہ آپ سب کی حفاظت کرے، سلامت رہیں۔

(1) صحیفۂ امام، جلد 1، صفحہ 415، عوام کے درمیان تقریر، 26/10/1965

(2) کسی چیز کے استعمال میں اجارہ داری کے لیے کئي کمپنیوں سے مل کر بنی ایک بڑی کمپنی۔

(3) شاہی فوج کے کچھ افسران نے، 'نقاب' کے نام سے تشکیل پانے والے ایک گروہ میں، نئے نئے تشکیل پائے اسلامی جمہوری نظام کو ختم کرنے اور شاپور بختیار کو اقتدار میں واپس لوٹانے کے ارادے سے جولائي 1980 میں بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ اس بغاوت کو ہمدان کی شہید نوژہ چھاؤنی سے چلایا جانا تھا، اس لیے یہ بغاوت، "نوژہ بغاوت" کے نام سے موسوم ہوئي۔ اس بغاوت کا پہلا ہدف، تہران میں امام خمینی کے گھر پر ہوائي حملہ کرکے انھیں شہید کرنا، مہرآباد ہوائي اڈے کے کنٹرول ٹاور، وزارت عظمی کے دفتر، سپاہ پاسداران کی مرکزی کمان، انقلابی کمیٹیوں کی مرکزی کمان پر حملہ اور کچھ دوسری جگہوں پر بمباری، باغیوں کے اگلے اہداف تھے۔ یہ بغاوت، جو نو جولائي کو شروع ہونے والی تھی،  اس کے سرغناؤں اور دیگر افراد کا سراغ لگاکر، شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام کر دی گئي۔

(4) 3 جولائي 1988 کو امریکا کے جنگي بحری جہاز کے کمانڈر ویلیم راجرز کے حکم پر بندر عباس سے دبئي جا رہے ایران ایئر کے ایک مسافر بردار طیارے کو خلیج فارس کے اوپر دو میزائلوں سے نشانہ بنایا گيا اور اس میں سوار تمام 290 مسافرین اور عملے کے افراد شہید ہو گئے۔

(5) سابق امریکی صدر، باراک اوباما

(6) جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے بعد، امریکی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے ایران کا معاشی محاصرہ شروع کر دیا اور اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے ایک فرمان میں ایران سے تیل کی خریداری بند کرنے کے ساتھ ہی امریکی بینکوں میں ایران کے کیش رقوم اور سونے کے اکاؤنٹس کو سیز کرنے کا حکم دیا۔

(7) آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے دیگر شہید ساتھیوں کی شہادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا تھا: "ایک سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار میں ہے جنھوں نے اپنے نجس ہاتھ ان کے خون اور کل رات کے واقعے کے دیگر شہداء کے خون سے رنگین کیے ہیں۔"

(8) عراق میں امریکی حاکم، پال بریمر

(9) جو بائيڈن

(10) ڈونلڈ ٹرمپ

(11) حاضرین کی ہنسی

(12) علی‌اصغر لری گویینی

(13) آرشام سرایداران

(14) محمد رضا کشاورز

(15) آرتین سرایداران

(16) آرمان علی ‌وردی

(17) حاضرین نے نعرہ لگایا: "گوش بہ فرمان ولی، بہ سوی ایران قوی" (اپنے ولی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایران کو مزید مضبوط بنانے کے لیے آگے بڑھتے رہیں گے۔)

(18) اسلامی نظام کے عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں تقریر (14/10/2022)

(19) حاضرین نے "امریکا مردہ باد" کا نعرہ لگایا۔

(20) 7 دسمبر 1953 کے واقعے کی طرف اشارہ جس میں امریکا کے اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن کے دورۂ ایران اور شاہ سے ان کی ملاقات کی مخالفت اور احتجاج کرنے والے تہران یونیورسٹی کے تین طلباء کو قتل کر دیا گيا تھا۔

(21) منجملہ، علم و سائنس میں ملک کے بعض جینیئس طلبہ اور کچھ نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالکوں سے ملاقات میں تقریر (19/10/2016)

(22) منجملہ، اسلامی نظام کے عہدیداران سے ملاقات میں تقریر (23/4/2018)

(23) منجملہ، اسلامی نظام کے عہدیداران سے ملاقات میں تقریر (23/6/2015)