بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

 

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاہرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

عزیز جوانوں اور ملت ایران کے نور چشموں کو، جن کے گریجویشن کا آج جشن ہے، تہنیت پیش کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں، اسی طرح ان جوانوں کو، جن کے ملک کی آفیسرز یونیورسٹیوں میں داخلہ پانے کی تقریب منعقد ہوئی ہے، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ برادران عزیز اور محترم کمانڈروں نے جو رپورٹیں پیش کیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو پرکشش ترانہ آپ نے پیش کیا اس کے لئے بھی شکر گزار ہوں۔

آپ عزیز نوجوانوں کے سامنے جو  پہلا نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ نے مسلح فورسز میں سروس شروع کی ہے اور اس کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ملک کے انتظام و انصرام  اور اس پیاری سرزمین کے امور سنبھالنے کے سلسلے میں سب سے حیاتی کاموں میں سے ایک ہے۔ یہ آپ کے لئے بہت بڑا افتخار ہے۔ عسکری شعبے کی سروس، خواہ وہ فوج کی الگ الگ فورسز کے اندر ہو یا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی گوناگوں فورسز کے اندر ہو یا پھر پولیس کے شعبے میں ہو، ان سروسز میں شمار ہوتی ہے جو ملک کی اہم ذمہ داریوں، ملک کے ملّی فریضوں میں سر فہرست فرائض میں ہے۔ آپ نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے۔ آپ نے مسلح فورسز کے گوناگوں شعبوں میں جاکر کام کرنے کا انتخاب کرکے اپنے لئے اور اپنے اہل خانہ کے لئے افتخار حاصل کیا ہے۔ مسلح فورسز قومی سلامتی کی فولادی ڈھال شمار ہوتی ہیں، قومی سلامتی کی آہنی ڈھال! قومی سلامتی ملک کی پیشرفت کے تمام اہم سافٹ پاورز کے لئے انفراسٹرکچر کا درجہ رکھتی ہے۔ امن و سلامتی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اگر کسی ملک کے پاس اپنی سلامتی کی حفاظت کی طاقت نہ ہو تو اس کے پاس کبھی کسی طاقت تو کبھی کسی اور طاقت کے ذیل میں خود کو رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ خود کو کسی نہ کسی سے وابستہ کرنے پر مجبور ہے۔ یعنی کیا؟ یعنی اپنے قومی وقار کو گروی رکھنے پر مجبور ہے۔ اگر وہ یہ کام نہیں کرتا یعنی قومی وقار گروی نہیں رکھتا تو فطری بات ہے کہ اس کی سیاسی باتوں کا دنیا میں کوئی وزن نہیں ہوگا۔ اگر اس کے یہاں اقتصادی پیشرفت ہو تب بھی اس کے پاس پائیداری نہیں ہوگی، پائیداری کی ضمانت نہیں ہوگی۔ اب دیکھئے کہ امن و سلامتی کتنی اہم ہے! اور آپ امن و سلامتی کے محافظ ہیں۔ مسلح فورسز قومی سلامتی، وقار اور تشخص کا قلعہ ہیں۔ آج آپ ایسے میدان میں اترے ہیں۔ لہذا واقعی آپ کو مبارکباد پیش کرنا چاہئے۔

بحمد اللہ ہماری مسلح فورسز امتحانوں میں بہترین کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی ہیں۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ مسلح فورسز کے پاس بس وردی، تمغے اور ظاہری آرائش ہوتی ہے لیکن ہماری مسلح فورسز کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔ آپ نے میدان میں اتر کر امتحان دیا ہے اور سرخرو ہوکر میدان سے واپس لوٹی ہیں۔ بڑی اہم آزمائشوں سے گزری ہیں اور سرفرازی کے ساتھ ان سے باہر نکلی ہیں۔ ان میں سب سے اہم آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ تھی۔ ہمارے ملک پر جنگ مسلط کر دی گئی۔ وہ بھی ایسی جنگ جو حقیقت میں (بین الاقوامی جنگ تھی)۔ ان میں آخری، البتہ تاحال، داعش کے فتنے کا مقابلہ تھا، وہ بھی بہترین انداز میں انجام پایا۔ مسلط کردہ جنگ میں ہماری مسلح فورسز نے ملک کی ایک ایک انچ زمین کا، اپنے پیارے دین اسلام کا دفاع کیا۔ اس زمانے میں مشرق و مغرب کی اجتماعی سازش کو نقش بر آب کیا۔ ہماری مسلح فورسز نے یہ کارنامے انجام دیئے۔ اس زمانے میں دنیا کی مشرقی و مغربی سیاسی و عسکری طاقتوں میں ہر ایک نے کسی نہ کسی شکل میں جارح صدام کی حمایت کی۔ ہماری مسلح فورسز سرزمین وطن کی، مقدس و پیارے دین اسلام کی حاکمیت کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئيں۔ داعش کے فنتے میں، جو امریکہ کی جانب سے شیطانی سازش تھی، داعش کو امریکیوں نے بنایا کہ اس علاقے کا امن و ثبات ختم کر دیں، البتہ ان کا آخری نشانہ اسلامی جمہوریہ ایران تھا، یہاں بھی ہماری مسلح فورسز نے متاثرہ ممالک کی مسلح فورسز کے ساتھ مل کر اس فتنے پر قابو پایا، اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ یہ افتخارات ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی مسلح فورسز کے مضبوط سینے پر آویزاں طلائی تمغے ہیں۔ میرے عزیزو! آپ اپنی قدر و منزلت کو سمجھئے، اس ذمہ داری کی قدر و قیمت کو سمجھئے، مسلح فورسز کے ماضی پر افتخار کیجئے اور اس مستقبل کے بارے میں، جو آپ کے اختیار میں ہے، آپ کے ہاتھ میں ہے، اپنے پورے وجود سے سوچئے اور اس کے لئے سرمایہ کاری کیجئے۔

عسکری یونیورسٹیاں آگاہ، شجاع اور کارآمد مین پاور کی تربیت کے گراں قدر مراکز ہیں، آگاہ، شجاع اور کارآمد۔ یہ افرادی قوت ایسی اہم خصوصیات کے ساتھ ہماری مسلح فورسز کی یونیورسٹیوں میں پروان چڑھتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ میں نے یونیورسٹیوں کو بہت سی سفارشات کی ہیں، آج بھی چند سفارشات کروں گـا، ان میں کچھ تو گزشتہ سفارشات کا اعادہ ہیں۔ پہلی چیز ہے علم و تحقیق کو تقویت پہنچانا، یونیورسٹیوں کو علم و تحقیق کے پہلو سے جہاں تک ممکن ہو مالامال کر دیجئے۔ اس کے بعد جوش و جذبے، دینداری اور اخلاقیات ہیں۔ یہ بھی میری تاکید کے ساتھ سفارش ہے۔ رپورٹوں میں تھا کہ ان میدانوں میں آپ نے پیشرفت حاصل کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی تاکید ہے کہ اس راہ پر بدستور آگے بڑھتے رہئے۔ آرمی یونیورسٹی کا ہمارا کیڈٹ مسلح فورسز کے جس شعبے میں بھی ہو جوش و جذبے، دینداری اور اخلاقیات کے پہلو سے روز بروز ارتقاء حاصل کرے۔ اگلی سفارش تعلیم اور قیام کی جگہوں کو ضروری وسائل سے آراستہ کرنا ہے، مسلح فورسز کے عزیز عہدیداران اس پر توجہ دیں۔ ورک شاپس، کلاسز، کیڈٹس کے رہنے کی جگہیں، زندگی کے وسائل کے اعتبار سے روز بروز ان شاء اللہ پیشرفتہ ہوں۔ نئے داخلہ لینے والوں کی علمی لیاقت پر توجہ دی جائے۔ کبھی رپورٹ ملتی ہے کہ بعض یونیورسٹیوں میں نئے داخلوں میں علمی و فکری سطح کے اعتبار سے کمی ہے۔ اس کے علاوہ وہ سفارشات جو میں ہمیشہ کرتا ہوں۔ تو یہ سفارشات تھیں یونیورسٹیوں کے مسائل کے تعلق سے۔

ان چند دنوں میں ایک اہم سیاسی و فوجی قضیے نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا اور وہ پیارے فلسطین کے غیر معمولی واقعات ہیں(2)۔ ہم ان مسائل کے بارے میں، اس اہم واقعے کے بارے میں، لا تعلق نہیں رہ سکتے، ان سے یونہی نہیں گزر سکتے۔ خوشی کی بات ہے کہ عہدیداران نے درست اور اچھا موقف اختیار کیا ہے۔ میں اس بارے میں چند باتیں آپ عزیزوں، ملت ایران اور اسلامی ممالک میں اپنے تمام بھائیوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات تو وہی چیز ہے جو پچھلے دو تین دنوں میں مختلف تجزیوں میں سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والے اس واقعے میں غاصب صیہونی حکومت کو، فوجی لحاظ سے بھی اور انٹیلی جنس کے لحاظ سے بھی ایک ناقابل تلافی شکست ہوئي ہے، شکست کی بات تو سبھی نے کی ہے، میرا زور "ناقابل تلافی ہونے" پر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس تباہ کن زلزلے نے غاصب صیہونی حکومت کی حکمرانی کے بعض اصلی ستونوں کو مسمار کر دیا ہے اور ان ستونوں کی تعمیر نو اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہوگي۔ بہت بعید ہے کہ غاصب صیہونی حکومت، اپنے تمام تر شوروغل کے باوجود، آج دنیا میں مغرب کی جانب سے کی جانے والی اس کی تمام تر حمایت کے باوجود، ان ستونوں کی تلافی کر سکے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ سنیچر سات اکتوبر سے، صیہونی حکومت، پچھلی والی صیہونی حکومت نہیں رہ گئي ہے اور اس نے جو چوٹ کھائي ہے، اس کی اتنی آسانی سے بھرپائي ممکن نہیں ہے۔

دوسری بات جو میری رائے میں بہت اہم ہے، یہ ہے کہ یہ آفت، خود صیہونیوں نے اپنی کارکردگي سے اپنے سروں پر نازل کی ہے۔ جب ظلم و جرم حد سے گزر جائے، جب درندگي اپنی حد پا کر لے تو پھر طوفان کا انتظار کرنا چاہیے۔ تم نے فلسطینی قوم کے ساتھ کیا کیا؟ فلسطینیوں کا شجاعانہ اور ساتھ ہی فداکارانہ اقدام، غاصب دشمن کے ان جرائم کا جواب تھا جو برسوں سے جاری ہیں اور حالیہ مہینوں میں ان میں بہت زیادہ اضافہ ہو گيا تھا، قصوروار بھی صیہونی حکومت کا موجودہ حکمراں ٹولہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں، اس حالیہ عرصے میں یعنی ان سو یا کچھ زیادہ برسوں میں، جہاں تک ہمیں علم ہے، کسی بھی مسلمان قوم کو ایسے دشمن کا سامنا نہیں رہا ہے جس طرح کے دشمن کا آج فلسطینیوں کو سامنا ہے، مسلم اقوام اور مسلم ممالک کو دشمنی میں اتنی شرانگيزی، اتنی خباثت، اتنی بے رحمی اور اتنی سفاکیت کا سامنا کبھی نہیں رہا ہے۔ بہت سے مواقع پر اقوام مظلوم رہی ہیں لیکن ان کا دشمن اتنا بے شرم، اتنا خبیث اور اتنا بے رحم نہیں تھا۔ کوئي بھی مسلمان قوم، فلسطینی قوم کی طرح دباؤ، محاصرے اور (ہر چیز کی) قلت میں کبھی نہیں رہی اور نہ اس وقت ہے، تو آج کی دنیا میں ایسا کہیں ہمیں دکھائي دیتا ہے اور نہ ہی اس عرصے میں جو ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ مغربی حکومتوں، خاص طور پر امریکا اور برطانیہ نے کسی بھی حکومت کی، اس جعلی، ظلم اور خونخوار حکومت جتنی حمایت نہیں ہے، مدد نہیں کی ہے۔ پہلے انگریزوں، پھر امریکیوں اور ان دونوں کے ساتھ دوسری مختلف حکومتوں، جب دنیا میں مشرقی بلاک موجود تھا، سابق سوویت یونین اور دوسرے ممالک نے، سبھی اس ظالم حکومت کی مدد کی ہے۔ اس ظالم حکومت کا رویہ ایسا تھا کہ اس نے فلسطینی عورت مرد پر رحم نہیں کیا، بچے بوڑھے پر رحم نہیں کیا، مسجد الاقصی کی حرمت کا خیال نہیں رکھا، اس نے (صیہونی) کالونیوں میں رہنے والوں کو پاگل کتے کی طرح فلسطینیوں پر چھوڑ دیا، نمازیوں کو پیروں سے روندا، تو ان سارے مظالم اور جرائم کے مقابلے میں ایک قوم کیا کرے؟ ایک غیور قوم، ایک پرانی قوم، فلسطینی قوم آج اور کل کی قوم نہیں ہے، کئي ہزار سالہ قوم ہے، اتنے مظالم کے مقابلے میں وہ کیا ردعمل دکھائے؟ واضح سی بات ہے کہ وہ طوفان کھڑا کر دے گي، جیسے ہی اسے موقع ملے گا وہ طوفان برپا کر دے گی۔ اے صیہونی ظالمو! قصوروار تم خود ہو، اس طوفان کی وجہ تم خود ہو، تم نے خود اپنے سروں پر آفت نازل کی ہے۔ ایک قوم کے پاس ایسے دشمن کے مقابلے میں اس طرح  کے غیور اور شجاعانہ ردعمل کے علاوہ کوئي راستہ نہیں ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس خبیث اور ظالم دشمن نے، اب جب کہ اسے تھپڑ رسید ہو گيا ہے، اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کی پالیسی اختیار کر لیا ہے، دوسرے بھی اس کی مدد کر رہے ہیں، سامراجی دنیا کا میڈیا اس کی مدد کر رہا ہے تاکہ یہ دکھائے کہ وہ مظلوم ہے۔ البتہ یہ بھی اندازے کی غلطی ہے جس کے بارے میں، میں بعد میں عرض کروں گا، یہ مظلوم نمائی سو فیصد غیر حقیقی اور ڈھونگ ہے۔ چونکہ فلسطینی مجاہدین غزہ کا محاصرہ توڑ کر اپنے آپ کو باہر نکالنے اور صیہونیوں کے فوجی و غیر فوجی مراکز تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو وہ مظلوم ہے؟ یہ غاصب حکومت جو کچھ بھی ہو مظلوم تو قطعی نہیں ہے۔ یہ ظالم ہے، جارح ہے، جاہل ہے، ہرزہ سرائی کرنے والی ہے، یہ سب ہے لیکن مظلوم نہیں ہے، ظالم ہے۔ کوئي بھی اس سفاک عفریت کو مظلوم ظاہر نہیں کر سکتا۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اس مظلوم نمائي کو غاصب حکومت نے اپنے بے تحاشا مظالم کو جاری رکھنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ غزہ پر حملہ، لوگوں کے گھروں پر حملہ، غیر فوجیوں پر حملہ، غزہ کے لوگوں کا قتل عام اور اجتماعی قتل عام، یہ مظلوم نمائي اس بات کا بہانہ ہے کہ وہ پھر اپنے جرائم کو کئي گنا بڑھا دے، صیہونی حکومت، مظلوم نمائي کے ذریعے اپنے ان جرائم کا جواز پیش کرنا چاہتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بھی اندازے کی بڑی غلطی ہے۔ صیہونی حکومت کے حکام اور فیصلہ کرنے والے اور ان کے حامی جان لیں کہ یہ کام، ان کے سروں پر اس سے بھی بڑی آفت نازل کرے گا، جان لیں کہ ان مظالم کا ردعمل، ان کے کریہہ گال پر زیادہ زناٹے دار تھپڑ کی صورت میں سامنے آئے گا۔ فلسطین کے بہادر جوانوں کا عزم، ہتھیلی پر جان رکھ کر آگے بڑھنے والے فلسطینیوں کا عزم، ان جرائم سے مزید مستحکم ہوگا، آج صورتحال یہ ہے۔ وہ دن لد گئے جب کچھ لوگ آتے تھے تاکہ زبان سے، ظالم کے ساتھ نشست و برخاست سے اپنے لیے فلسطین میں کوئي پوزیشن بنا لیں، وہ زمانہ گزر گيا۔ آج فلسطینی بیدار ہیں، جوان بیدار ہیں، فلسطینی منصوبہ ساز پوری مہارت سے کام کر رہے ہیں۔ بنابریں دشمن کا یہ اندازہ بھی غلط ہے کہ بزعم خود اسے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنا چاہیے تاکہ اپنے مجرمانہ حملے کو جاری رکھ سکے۔ البتہ عالم اسلام کو ان جرائم کے مقابلے میں خاموش نہیں رہنا چاہیے، ردعمل دکھانا چاہیے۔

آخری بات یہ کہ صیہونی حکومت کے حامیوں اور خود اس غاصب حکومت کے بعض افراد نے ان دو تین دنوں میں کچھ ہرزہ سرائي کی ہے اور یہ ہرزہ سرائي جاری بھی ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ اس اقدام کے پيچھے اسلامی جمہوریہ ایران کا ہاتھ ہے، ان کی غلط فہمی ہے۔ ہاں ہم فلسطینیوں کا دفاع کرتے ہیں، ان کی جدوجہد کا دفاع کرتے ہیں، ہم فلسطین کے مدبر اور ذہین منصوبہ سازوں اور بہادر جوانوں کی پیشانی اور بازو چومتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں، یہ بات اپنی جگہ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کا اقدام، غیر فلسطینیوں کا مرہون منت ہے، انھوں نے فلسطینی قوم کو سمجھا ہی نہیں ہے، پہچانا ہی نہیں ہے، فلسطینی قوم کو کم سمجھ لیا ہے، ان کی غلطی یہی ہے، یہاں بھی اندازے کی غلطی کر رہے ہیں۔ البتہ پورے عالم اسلام کا فریضہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کرے اور اللہ کے حکم سے وہ حمایت کرے گا بھی لیکن یہ کام، خود فلسطینیوں کا کام ہے، ذہین اور زیرک منصوبہ سازوں، بہادر جوانوں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے والوں نے یہ کارنامہ کیا ہے اور یہ کارنامہ ان شاء اللہ، فلسطین کی نجات کے لیے ایک بڑا قدم ہوگا۔

و السّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام میں، جو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی امام علی علیہ السلام آرمی آفیسرز یونیورسٹی میں منعقد ہوا، ایران کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری، امام علی آرمی آفیسرز یونیورسٹی کے کمانڈر بریگیڈیر جنرل امیر علی مہدوی، امام حسن مجتبی علیہ السلام آرمی آفیسرز اور پولیس ٹریننگ یونیورسٹی کے کمانڈر بریگیڈیر جنرل پرویز آہی اور امام حسین علیہ السلام آرمی آفیسرز یونیورسٹی کے کمانڈر بریگیڈیر نعمان غلامی نے رپورٹیں پیش کیں۔

نے فلسطینی مجاہدین کو "طوفان الاقصی" مشن کی مبارکباد دیتے ہوئے معنویت و روحانیت، سیاسی بصیرت، دفاعی اور عسکری صلاحیت و تیار میں اضافے، خود کفیلی میں فروغ، انٹیلی جنس کا دائرہ وسیع اور مضبوط بنانے اور انقلابی بصیرت کو ملک کی مسلح فورسز کی سرگرمیوں کا دائرہ بتایا۔

(2) فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے سنیچر سات اکتوبر 2023 کو "طوفان الاقصی" کے نام سے ایک وسیع کارروائي شروع کی جس کے ابتدائي گھنٹوں میں ہی بڑی تعداد میں صیہونی ہلاک اور زخمی ہوئے اور قیدی بنا لیے گئے۔