بسم‌اللّہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علیٰ سیّدنا محمّد و علیٰ آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین. (1)

عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہ گراں قدر کام انجام دیا۔ ان دنوں جو ایک بہترین کام انجام  پانا چاہئے تھا اور آپ کے اذہان وہاں پہنچے، اللہ تعالی نے آپ کو الہام کیا اور آپ نے بلند ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے انجام دیا، وہ یہی ہے۔ اس عظیم انسان، عالم اسلام کے علمائے کرام کی صنف کی اس ممتاز اور مایہ ناز ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنا۔

علامہ طباطبائی مرحوم ہماری دینی درسگاہوں کی صدیوں پر محیط تاریخ کی کم نظیر ہستی ہیں۔ واقعی ایک کم نظیر شخصیت ہیں۔ آپ کی حیرت انگیز خصوصیات ہیں جن میں کچھ کا ذکر مختصرا میں یہاں کروں گا۔ یہ ساری کی ساری خصوصیات عظیم انسانی فضائل کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ خصوصیات جو اس عظیم انسان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی سے عبارت ہیں یہ سب کی سب ایک انسان کے ممتاز اوصاف ہوتے ہیں۔ یہ خصوصیات کچھ اس طرح کی ہیں، میں نے ان میں سے چند کو نوٹ کیا ہے۔ علم، پارسائی و پرہیزگاری، اخلاقیات، ذوق و فن، خلوص اور دوستی، وفاداری، رفاقت وغیرہ۔ ایسی ہی دیگر متعدد حصوصیات ہیں جنہیں یہاں گنوانا ضروری نہیں محسوس ہوا۔ یہ تمام خصوصیات مل کر اس عظیم انسان کی شخصیت کو تشکیل دیتی ہیں۔ ان میں سے ہر خصوصیت فضائل انسانی میں سے ایک اہم فضیلت ہے۔ ان بزرگوار کی علمی منزلت کے بارے میں میں نے کچھ نکات یہاں نوٹ کئے ہیں جو بیان کروں گا، اس پر توجہ دی جائے۔ ایک تو اس عظیم انسان کے علم و دانش کے تنوع کی وسعت ہے۔ یعنی ان کے علوم کا تنوع واقعی کم نظیر ہے۔ بے شک ہماری تاریخ میں شیخ طوسی اور علامہ حلی اور ایسی کچھ ہستیاں گزری ہیں جن کے علوم کا تنوع بہت زیادہ تھا لیکن ہمارے زمانے میں ایسی علمی شخصیات واقعی کم ہیں۔ یعنی میں نہیں جانتا کہ ان کے جیسا علوم کا تنوع کسی اور کے یہاں موجود رہا ہو۔ وہ فقیہ اصولی تھے، فلسفی تھے، عرفان نظری میں بڑی گہرائی تک اتر جانے والی شخصیت تھے، علم ہیئت و ریاضیات کے ماہر تھے، تفسیر اور علوم قرآنی کے بڑے عالم تھے، اس میدان میں واقعی لاثانی تھے، شاعر اور ادیب تھے، علم انساب میں بڑے ماہر اور بہت فعال ہستی تھے۔ علم نسب رکھتے تھے۔ یعنی ان کے علم فلسفہ کے ساتھ یا آقائے طباطبائی کے علم عرفان کے ساتھ انسان کو علم انساب بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایک شجرہ تیار کیا تھا جس میں قاضی طباطبائي کی فیملی کا تعارف کرایا گيا ہے۔ یہ ایک تاریخی شجرہ ہے جو میری نظر میں ایک زبردست فن پارہ ہے جو شائع بھی ہو چکا ہے اور لوگوں کے پاس بھی موجود ہے۔ میرے مرحوم والد نے، جو نجف سے علامہ طباطبائي کے دوست تھے، مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے طباطبائي صاحب کو لکھا کہ آپ میرے شجرے کی ترتیب فلاں صاحب سے، جو قم میں بہت مشہور تھے، پوچھ کر میرے پاس بھیج دیجیے۔ طباطبائي صاحب نے جواب میں لکھا تھا کہ میں خود ہی ان کے جتنا یا ان سے زیادہ جانتا ہوں، ان دونوں میں سے کوئی ایک بات انہوں نے کہی تھی جو اب مجھے پوری طرح یاد نہیں ہے۔ انھوں نے ہمارا شجرہ تیار کر کے بھیجا تھا، یعنی اس وقت جو شجرہ ہمارے پاس ہے، اسے طباطبائي صاحب نے تیار کر کے بھیجا تھا۔ انسان ان کے اندر ایک عجیب علمی تنوع کا مشاہدہ کرتا ہے۔ میں نے مثال کے طور پر کہا تھا ریاضی اور علم ہیئت و نجوم، آپ جانتے ہیں، یعنی یہ بات کافی مشہور ہے کہ اس وقت (قم میں جو مشہور مدرسہ) مدرسۂ حجتیہ ہے، اس کا نقشہ انھوں نے تیار کیا تھا، مطلب یہ کہ حقیقی معنی میں ایک معمار اور آرکیٹیکٹ۔ یہ علمی تنوع، علامہ طباطبائي کے علمی پہلوؤں میں سے ایک خاص پہلو ہے۔

ایک دوسرا پہلو، ان کی علمی و فکری گہرائي ہے۔ وہ ان علوم میں، جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں اور ہمیں اطلاع ہے، بہت زیادہ گہرائي رکھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ وہ اصول فقہ میں صاحب رائے ہیں۔ میں نے فقہ میں ان کی کوئي کتاب نہیں دیکھی لیکن اصول فقہ میں وہ صاحب رائے عالم ہیں۔ کفایہ(2) پر ان کا حاشیہ اس بات کو ثابت کرتا ہے۔ فلسفے میں وہ جدید سوچ رکھنے والے فلسفی ہیں، وہ ایک نئي فلسفی سوچ پیش کرتے ہیں جس کی مظہر ان کی کتاب فلسفے کے اصول اور ریئلزم کی روش ہے۔ (The Principles of Philosophy and the Method of Realism) پھر وہ دو کتابیں جو انھوں نے اپنی عمر کے آخر حصے میں لکھی اور شا‏ئع کی تھیں: بدایہ(3) اور نہایہ(4)۔ تفسیر کی بات کی جائے تو وہ حیرت زدہ کر دینے والے مفسر ہیں، مطلب یہ کہ جو بھی تفسیر المیزان پر ایک نظر ڈالے گا وہ سمجھ جائے گا یہ تفسیر، حقیقی معنی میں ایک متحیر کن تفسیر ہے، مفاہیم کی کثرت، تنوع اور گہرائي کے لحاظ سے، جس کے بارے میں، میں بعد میں اختصار سے کچھ عرض کروں گا۔ یہ بھی ان کا ایک پہلو ہے جو ان کی علمی و فکری گہرائي سے عبارت ہے۔

ان کا ایک دوسرا علمی پہلو، شاگردوں کی تربیت ہے۔ مرحوم طباطبائي کی یہ شاگرد پروری بہت عجیب چیز ہے۔ یہ ہر عالم کا ایک ہنر ہوتا ہے، علماء کے درمیان ایسے لوگ کافی زیادہ ہیں جو شاگردوں کی تربیت اور پرورش کرتے ہیں اور ان کے شاگردوں کی تعداد زیادہ ہے، مرحوم طباطبائي صاحب انہی میں سے ایک ہیں۔ ایران میں معاصر فلاسفہ کے درمیان، جب ملک کے فلسفے کا مرکز تہران تھا، مرحوم ملا عبداللہ زنوری اور ان کے بیٹے جناب علی حکیمی کے زمانے سے مرحوم میرزا جلوہ، میرزا اسد اللہ قمشہ ای تک، یہ لوگ جو حکمت و عرفان کی نمایاں شخصیات ہیں، زیادہ تر تہران میں مقیم تھے، کچھ فلاسفہ دوسری جگہوں پر بھی تھے جیسے مرحوم حاجی سبزواری، سبزوار میں تھے، ایک دو لوگ قم میں تھے، ایک دو اصفہان میں تھے، ایک دو مشہد میں تھے، یہ لوگ فلسفے کی نمایاں شخصیات ہیں، ان میں سے کسی کے بھی مرحوم طباطبائي صاحب جتنی نمایاں اور مشہور فلسفی شاگرد نہیں ہیں۔ جی ہاں، حاجی سبزواری کے بہت زیادہ شاگرد ہیں جو ان کے پاس آتے تھے اور فلسفہ پڑھتے تھے، مرحوم آخوند خراسانی بھی ان کے شاگرد ہیں لیکن آخوند خراسانی فلسفی نہیں ہیں، وہ ایسے فقیہ ہیں جنھوں نے کسی حد تک فلسفہ پڑھا ہے۔ فلسفی شاگردوں کی پرورش جیسے شہید مطہری، جیسے شہید بہشتی، جیسے مرحوم مصباح صاحب اور بعض دوسری اہم شخصیات جو اب بھی زندہ ہیں، ایسے افراد کی تربیت اور پرورش جنھوں نے مرحوم طباطبائي سے پڑھا ہے، مجھے کسی اور شخص میں دکھائي نہیں دی۔ شاگردوں کی پرورش کا مسئلہ اہم ہے۔ پھر ہمارے زمانے کے بعد کے فلاسفہ تک، تہران میں کچھ لوگ تھے جیسے مرحوم میرزا احمد آشتیانی، ان سے پہلے مرحوم میرزا مہدی آشتیانی، یا مرحوم آملی صاحب(5) یہ سب فلسفی تھے لیکن ان کی جانب سے مرحوم طباطبائي جتنے شاگردوں کی پرورش، معمول کی بات نہیں ہے، انھوں نے فلسفے کو زندہ کیا اور سچ بات تو یہ ہے کہ فلسفی پیدا کیے۔

اب یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے شاگرد، یعنی ان کے بہت سے شاگرد، اسلامی انقلاب میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس ماہرین کونسل میں، جس نے آئين کی تدوین کی، کافی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مرحوم طباطبائي صاحب کے شاگرد ہیں، چاہے ماہرین کونسل ہو، چاہے ماہرین کونسل سے پہلے وہ گروہ ہو جس میں آئين کا مسودہ تیار ہوتا تھا اور مرحوم شہید مطہری بھی اس گروہ کا حصہ تھے، یہ مرحوم علامہ طباطبائي کے شاگرد ہیں۔ اسی طرح اسلامی انقلاب کے کئي مشہور شہداء بھی علامہ طباطبائي کے شاگرد ہیں، شہید مطہری ان کے شاگرد ہیں، شہید بہشتی ان کے شاگرد ہیں، شہید قدوسی ان کے شاگرد ہیں، شہید شیخ علی حیدری نہاوندی ان کے شاگرد ہیں، اس طرح کے نمایاں شہدا، علامہ طباطبائي رحمت اللہ علیہ کے شاگرد ہیں، بعض بحمد اللہ حیات ہیں اور بدستور سرچشمۂ فیوضات ہیں۔

علم کے سلسلے میں ان کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کی کتابیں، ان کی زندگي میں ہی شائع ہوئيں اور ان کی کتابوں کی برکتیں ان کی زندگي میں ہی دکھائي دینے لگيں۔ خود مرحوم علامہ طباطبائي اتنے مشہور نہیں تھے جتنی ان کی تفسیر المیزان یا فرض کیجیے کہ ان کی فلسفے کی کتابیں مشہور تھیں، یعنی وہ تو بالکل ہی خودنمائي کرنے والے انسان نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں ہر جگہ مشہور تھیں۔ ان کی المیزان، ان کی اصول فلسفہ، ان کی بدایہ اور نہایہ، ان کی شیعہ در اسلام، ان کی قرآن در اسلام، توحید کے موضوع پر لکھی گئي ان کی متعدد کتابیں ان کی زندگي میں ہی شائع ہو گئيں۔ تو یہ مرحوم علامہ طباطبائي کے علمی پہلو کی کچھ منفرد خصوصیات تھیں جنھیں ہم نے عرض کیا۔

ان کا تقویٰ، ان کی پرہیزگاری، ان کا زہد، ان کی عبادت اور اہلبیت سے ان کا عشق اور اس طرح کی دوسری خصوصیات، جن کے بارے میں بہت کچھ کہا گيا ہے اور ہم نے سنا ہے اور آپ بھی جانتے ہیں، میں انھیں دوہرانا نہیں چاہتا، غیر معمولی تھیں اور حقیقت میں وہ ان چیزوں میں ایک نمایاں اور غیر معمولی انسان تھے، واقعی متقی و پرہیزگار تھے لیکن مرحوم طباطبائي کی نمایاں خصوصیات میں سے دو باتیں مجھے بہت پرکشش لگتی ہیں۔ ایک خصوصیت درآمد شدہ اور بیرونی افکار کی یلغار، حقیقی معنی میں یلغار کے عروج کے دوران علامہ طباطبائي کا عدیم المثال فکری جہاد ہے۔ شاید جن لوگوں نے وہ زمانہ نہیں دیکھا ہے، وہ اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے کہ اس وقت ملک کے جوانوں کے ماحول کی اور ملک کے فکری ماحول کی کیا صورتحال تھی، حقیقی معنی میں ایک حملہ ہو رہا تھا، مارکسزم جیسے کتنے ہی درآمد شدہ نظریاتی اور مسلکی افکار تھے، کتنے شبہے پیدا کیے جا رہے تھے، ایسا نہیں تھا کہ کسی مکتب کو پیش کیا جا رہا ہو بلکہ صرف شبہے پیدا کیے جا رہے تھے، علامہ طباطبائي نے جو کام کیا، مرحوم شہید مطہری رحمت اللہ علیہ نے وہی کام کیا تھا اور اس طرح کے شبہوں کے مقابلے کے لیے کمر ہمت کس لی تھی۔ ان کی زیادہ طرح کتابیں اس وقت پائے جانے والے شبہات کے جواب میں لکھی گئي ہیں۔ اس طرح کے زمانے میں مرحوم طباطبائي رحمت اللہ علیہ نے اس یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اور جارحانہ طرز کے فکری مکتب کو وجود بخشا، یعنی جو بھی ان کے افکار سے آشنا ہوتا تھا اس کا موقف مارکسزم اور ديگر مختلف افکار کے مقابلے میں دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ ہوتا تھا جس کی ایک مثال شہید مطہری کی کتابیں ہیں جو آپ کے سامنے ہیں۔ اس فکری چھاؤنی کو مرحوم طباطبائي نے تیار کیا تھا۔ اپنے فلسفیانہ اصولوں کی مدد سے بھی اور تفسیر قرآن کے ذریعے بھی، یہ تفسیر سیاسی و سماجی معلومات کا دریا ہے۔ تفسیر کی اس کتاب میں معرفتی، فکری اصولوں، حکمتوں وغیرہ کے جو پہلو اور خاص تفسیری نکات ہیں جن کے ذریعے آیات کی تشریح کی جاتی ہے، یہ کتاب ان میدانوں میں بھی بے مثال ہے، تاہم ان کے علاوہ کتاب المیزان سیاسی و سماجی مسائل سے بھی بحث کرتی ہے جبکہ اس زمانے میں یہ مسائل زیر بحث نہیں تھے۔ مگر آج جب انسان ان مسائل کو دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ یہ تو ہمارے اس زمانے کے مسائل ہیں۔ یہ چیزیں لوگوں کو حاصل ہوتی تھیں۔ اس اقدامی اور جارحانہ فکری مرکز کی تشکیل آقائے طباطبائی مرحوم نے کی۔ یہ ان چیزوں میں ہے جو ہمیں آقائے طباطبائی سے سیکھنا چاہئے۔ ایسے فکری مراکز کی تشکیل جو فکری خلا کو پر کریں اور اقدامی و جارحانہ پہلو کے حامل ہوں، صرف دفاعی حالت میں نہ رہیں۔ یہ خصوصیت میرے خیال میں بڑی جاذب نظر ہے۔

آپ کی دوسری خصوصیت جو اپنی جگہ بہت اہم اور نمایاں خصوصیت ہے، یہ ہے کہ آپ توحیدی معارف کے ملکوتی مفاہیم کے میدان میں جہاں تک آپ کی فکر نے رسائی حاصل کر لی تھی، صرف فکری نمو پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے پاکیزہ نفس کو، اپنے باشرف قلب کو ان حقائق و معارف سے آراستہ کیا۔ جو کچھ جانتے تھے اس پر عمل کیا۔ حقیقی معنی میں آقائے طباطبائی مرحوم اس آیہ کریمہ کے مصداق ہیں: اِلَیہ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصّالِحُ یَرفعہ.(۸) وہ پاکیزہ کلمات ان کے وجود میں حقیقی معنی میں گہرائی تک اتر گئے تھے۔ آپ کے اخلاقی اوصاف جو بہت معروف ہیں، بہت زیادت تواضع، بے لوثی، یہ سب اسی حقیقت کے اثرات ہیں۔ آپ کی یہ بردباری، آپ کی یہ تواضع ان کے نفس میں انہیں مفاہیم  و معارف کے عملی طور پر اتر جانے کے اثرات ہیں۔ انہوں نے خود اپنی تہذیب نفس کی، خود کو ان انسانی و معرفتی بلندیوں پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ عوام الناس کے درمیان رہتے ہوئے بھی اللہ کی بارگاہ سے متصل رہتے تھے۔ ان سے مل کے انسان واقعی یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ خود کو رتی برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ بڑے بردبار تھے، بڑی نرم خوئی سے پیش آتے تھے۔ جو لوگ ان سے بحث و جدل کرتے تھے، مخاصمت کرتے تھے ان سے بھی حلم و بردباری کے ساتھ پیش آتے تھے، ان کی باتوں کو در گزر کرتے تھے۔ وہ حد درجہ منکسر المزاج تھے، اتنے کہ بعض اوقات تعجب ہوتا تھا۔ میں ایک واقعہ نقل کرنا چاہوں گا۔ علامہ سمنانی مرحوم (9) ایک سن رسیدہ جید عالم دین تھے جو سمنان میں رہائش پذیر تھے۔ بڑے معزز اور معروف انسان تھے۔ وہ قم آئے۔ علما ان سے ملاقات کے لئے جا رہے تھے۔ ان کے مکان پر کافی آمد و رفت تھی۔ ایک دن میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے جو آقائے طباطبائی کے عقیدتمندوں میں سے تھے، آقائے طباطبائی کے عاشق تھے، بڑے ہیجان کے عالم میں کمرے میں آئے اور کہا:

بہ حُسن خُلق و وفا کس بہ یار ما نرسد۔ (حسن اخلاق اور وفاداری میں کوئی ہمارے معشوق کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا۔) (۱۱)

میں نے سوال کیا کہ ماجرا کیا ہے۔ کہنے لگے کہ ہم لوگ علامہ سمنانی کے مکان پر تھے۔ آقائے خمینی بھی تھے، آقائے طباطبائی بھی تھے، بعض دیگر حضرات بھی تھے۔ آقائے علامہ سمنانی نے آقائے خمینی سے مخاطب ہوکر کہا کہ آقا! ہم نے آپ کی یہ تفسیر المیزان دیکھی، بہت اچھی تھی، بہت بہترین لگی، واقعی لطف آ گیا۔ تفسیر المیزان کی تعریفیں شروع کر دیں، یہ خیال کرتے ہوئے کہ آقائے طباطبائی وہی ہیں! آقائے خمینی بھی ایسے انسان تو ہیں نہیں کہ اس قسم کے حالات میں گھبرا جائیں۔ خاموش بیٹھے رہے کچھ بولے نہیں۔ آقائے طباطبائی دوسری جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے علامہ سمنانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آقا! طباطبائی میں ہوں اور یہ میرے استاد آقائے خمینی ہیں۔

اس نے پھر کہا: بہ حُسن خُلق و وفا کس بہ یار ما نرسد۔

یعنی اس خصوصیت سے ہمارے دوست بہت متاثر ہوئے تھے۔ آقائے طباطبائی مرحوم ان روحانی، علمی اور سیر و سلوک کی خصوصیت و مدارج کے ساتھ ہی، یہ ان کی ایسی خصوصیات ہیں جن سے تقریبا سب واقف ہیں، برتاؤ اور رفاقت و دوستی میں بھی بڑے دلنشیں اور دلچسپ انسان تھے۔ ان کی بڑی شیریں نشست ہوتی تھی، بڑی شیریں زبان تھی، بڑے خوش گفتار تھے، بڑی واضح گفتگو کرتے تھے۔ دوستانہ نشستوں میں وہ ایسے انسان ہوتے تھے کہ عمومی نشستوں، علمی و درسی بحثوں کے وقت ان کے یہاں جو سکوت کی حالت نظر آتی تھے اس سے بالکل الگ دکھائی دیتے تھے۔ بڑی گرمجوشی، اپنائیت بھرا انداز ہوتا تھا، شیریں سخن اور خوش گفتار تھے۔  جب کوئي واقعہ بیان کرتے تھے تو تفصیلات کے ساتھ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے تھے۔ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے۔ ایک جامع، باذوق، اہل شعر و ادب شخصیت رکھتے تھے، ان میں وہ تمام خصوصیات مجتمع تھیں جو ایک ممتاز اور عظیم انسان کے اندر ہوتی ہیں۔

میری نظر میں یہ دو خصوصیتیں جو میں نے ذکر کیں، ایک تو خلا کو بھرنا اور دوسرے یہ کہ انسان جن چیزوں کا علم رکھتا ہے ان پر عمل پیرا بھی ہو؛ وَ اَفئِدَۃ العارِفینَ‌ مِنکَ‌ فازِعَۃ»؛(۱۳) عرفان کو صرف سمجھ لینا اَفئِدَۃ العارِفینَ‌ مِنکَ‌ فازِعَۃ» سے الگ منزل ہے۔ یہ دو الگ حقیقتیں ہیں۔ ہمیں پیروی کرنا چاہئے۔ ہم سب کو چاہئے کہ ان دو خصوصیتوں کا اتباع کریں۔ جو بھی اس راہ پر گامزن ہو اسے چاہئے کہ ان کا اتباع کرے۔

امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم مرحوم کے درجات کو عالی کرے۔ ہمیں ان کے قدردانوں میں قرار دے۔ الحمد للہ ان کے تعلق سے برکات الہیہ ایسی ہیں کہ آج آقائے طباطبائی اپنے زمانہ حیات سے کہیں زیادہ شناختہ شدہ ہیں۔ اپنی زندگی میں وہ شاید اس کا دسواں حصہ بھی شناختہ شدہ نہیں تھے۔ اب الحمد للہ آپ ملک کی سطح پر، علمی مراکز کی سطح پر، عالمی سطح پر کافی حد تک شناختہ شدہ ہیں۔ ان شاء اللہ آقائے طباطبائی کی شناخت اس سے بھی زیادہ بڑھے گی۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1)

ملاقات کے آغاز میں کانفرنس کے صدر حجت الاسلام و المسلمین غلام رضا فیاضی، کانفرنس کے اکیڈمک سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین حمید پارسانیا، کانفرنس کے اجرائی سکریٹری محمد باقر خراسانی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

(۲. حاشیہ الکفایۃ

[۴. بدایۃ الحکمۃ

[۵. نھایۃ الحکمۃ

[۶. آیت‌اللہ محمّدتقی آملی

[۸. سوره‌ فاطر، آيت نمبر ۱۰؛...پاکیزہ باتیں اس کی جانب بلند ہوتی ہیں اور شائستہ کام اسے رفعت عطا کرتا ہے۔ ...»

[۹. آیت‌اللہ محمّدصالح حائری مازندرانی معروف بہ علّامہ سمنانی

[10. حافظ. دیوان اشعار، غزلیّات؛ بہ حُسن خُلق و وفا کس بہ یار ما نرسد / تو را در این سخن انکارِ کارِ ما نرسد»

[11. کامل‌الزّیارات، صفحہ ۴۰ (زیارت امین‌اللہ)؛  اور عارفین کے دل تجھ سے خائف رہتے ہیں۔ »