اگر ہم مقبوضہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کا ایک کمپیوٹیشنل طرز اور منطقی طریقے سے جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ غزہ کے موجودہ بحران سے باہر نکلنے کے لیے کم از کم دو راستے اور کئی مفروضے ممکن ہیں۔
بنیادی طور پر غزہ میں ہو رہی بمباریوں اور قتل عام کو روکنے کے لیے دو بنیادی حالتوں کو مد نظر رکھا جا سکتا ہے: پہلی حالت میں تنازعے سے برآمد ہونے والے ایک عزم کو صیہونی حکومت کے حملے روک دینا چاہیے جبکہ دوسری حالت میں مقبوضہ علاقوں سے باہر کا کوئی عزم غاصب حکومت کو اس طرح کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دے۔
پہلی حالت میں دو مفروضے تصور کیے جا سکتے ہیں: ایک یہ کہ فرض کر لیا جائے کہ صیہونی حکام اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ غزہ پر فوجی حملے بند کرنا ضروری ہے اور اگر موجودہ حالات سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہو تو اسے دوسرے طریقوں جیسے سیاسی راہ حل وغیرہ سے تلاش کیا جائے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ غزہ کی عوامی مزاحمت اور تحریک حماس کی مجاہدت صیہونی حکومت کے اندازوں کو وحشیانہ حملوں کے خاتمے پر مجبور کر دے۔
غزہ پر حملے جاری رکھنے پر مبنی صیہونی حکام کے بیانوں اور سرکاری اعلان(1) سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ میں بمباری اور فلسطینی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے قتل عام کو بند کرنے کا کوئي ارادہ نہیں ہے۔ نتیجتاً پہلے مفروضے کو ایک منطقی آپشن کے طور پر مدنظر نہیں رکھا جا سکتا اور اس کے وقوع پذیر ہونے کا امکان تقریبا معدوم ہے۔ دوسرے مفروضے کے تحت غزہ کی عوامی مزاحمت اور حماس کی مجاہدت اپنے اعلان کردہ اہداف کے حصول میں صیہونی حکومت کی شکست کا ایک بڑا سبب رہی ہے۔ یہاں تک کہ صیہونی حکام کے درمیان کشیدگي(2) اور نیتن یاہو کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتراضات(3) سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کے عوام اور حماس سے گھٹنے ٹکوانے میں ناکام صیہونی حکومت کو داخلی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ بات اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل نے صیہونی حکومت کے ڈھانچے کی موجودہ صورتحال کے بارے میں یہ سرخی لگائي: "نیتن یاہو کی جنگي کابینہ خود اپنے خلاف جنگ کی حالت میں ہے۔"(4) اس کے نتیجے میں یہ امکان بالکل بھی بعید نہیں ہے کہ غزہ میں استقامت و مزاحمت کا ساتھ جاری رہنے سے صیہونی حکومت کے اندازے بدل جائيں گے اور بھیانک حملوں کا سلسلہ رک جائے گا۔
دوسری حالت میں صیہونی حکومت کو حملے روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اس پر ایک باہری ارادے کو مسلط کرنے کی بات مدنظر رکھی جا سکتی ہے۔ اس حالت کے لیے کئي مفروضے پائے جاتے ہیں۔ ایک مفروضہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف جیسے معتبر عالمی اداروں کے ذریعے دباؤ ڈالا جانا ہے جس کے تحت ایک عمومی عزم و ارادے سے استفادہ کرتے ہوئے اور صیہونی حکومت کو مجرم قرار دیکر اسے غزہ کے مظلوم عوام اور وہاں کی عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے پر حملے روکنے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ ایک طرف امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کو ویٹو کیا جانا(5) اور دوسری طرف عالمی عدالت انصاف کا کمزور اور غیر مؤثر موقف(6) نہ صرف یہ کہ اس مفروضے کو مسترد کر دیتا ہے بلکہ واشنگٹن کی مالی اور عسکری امداد میں اضافہ(7) ذہن میں یہ مضبوط امکان بھی پیدا کر دیتا ہے کہ امریکا، کشیدگي میں شدت اور بحران کے جاری رہنے میں ہی اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔
دوسری حالت کا ایک اور مفروضہ انفرادی طور پر ملکوں اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی جانب سے حملے رکوانے کی کوشش کا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر فلسطین کے حامی ممالک خاص طور پر برطانیہ، جرمنی اور فرانس سرکای بیانوں، تعلقات منقطع کرنے اور صیہونی حکومت کو دی جا رہی مختلف طرح کی امداد روکنے کی دھمکی جیسے طریقوں سے اس حکومت پر دباؤ ڈالیں اور سعودی عرب، مصر اور ترکیہ وغیرہ جیسے اہم مسلمان ممالک بھی صیہونی حکومت سے ہر طرح کے تعلقات منقطع کر لیں تو غزہ کے وحشتناک قتل عام کے خاتمے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ یہ مفروضہ بھی کئي دلیلوں سے ناکام ہے۔ مثال کے طور پر جب تک امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی علی الاعلان حمایت جاری ہے تب تک یورپی ممالک، جو کم از کم مغربی ایشیا کے مسائل میں بڑی حد تک امریکا کے پیرو ہیں اور ان کی جانب سے صیہونی حکومت کی لفظی اور عملی حمایت اس بات کی تصدیق کرتی ہے، غزہ میں صیہونیوں کے جاری جرائم کے خاتمے کے لئے کوئي مؤثر قدم نہیں اٹھائيں گے۔ جہاں تک اسلامی ممالک کی بات ہے تو مصر جیسے بعض ممالک اپنی جغرافیائي خصوصیات کی وجہ سے صیہونی حکومت کے خلاف مؤثر واقع ہو سکتے ہیں اور سعودی عرب اور ترکیے جیسے بعض دوسرے ممالک، کچھ اسلامی ملکوں میں اپنے اثر و رسوخ، اسلام کے اہم مراکز کی حیثیت رکھنے اور عالم اسلام میں تہذیب و تمدن کے طویل ماضی جیسے کچھ دوسرے دلائل کے ساتھ صیہونی حکومت سے اسلامی ملکوں کے تعاون اور لین دین پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور اس طرح اس حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ یہ نظریہ کہ اسلامی ممالک کو قرآن مجید کے صریحی حکم کے مطابق مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے(8) اور صیہونی حکومت کو اس کی اوقات دکھانے کے لیے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے، ایک منطقی اور معقول توقع ہے جس پر رہبر انقلاب اسلامی بارہا تاکید کر چکے ہیں(9) بلکہ انھوں نے غزہ کے مسئلے میں قرآن مجید کے احکام کی تعمیل نہ کرنے پر اسلامی ملکوں کے سربراہوں پر تنقید بھی کی ہے۔(10) ان سب کے باوجود صیہونی حکومت کے خلاف بعض اسلامی ملکوں کے سخت موقف اور لفظی بیانوں کے علاوہ اس غاصب حکومت کے سلسلے میں شدت عمل اور سیاست و معیشت سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات ختم کرنے جیسی باتیں دیکھنے میں نہیں آئي ہیں اور عالم اسلام بدستور غزہ کے مظلوم لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں ہونے اور ان کی سرزمین کی تباہی و بربادی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ نتیجتاً یہ مفروضہ بھی کوئي خاص امید نہیں دلاتا اور اس کی طرف سے پرامید نہیں رہا جا سکتا۔
دوسری حالت کا تیسرا مفروضہ، خطے میں مزاحمتی گروہوں کی عملی اور مؤثر حمایت کے سبب ہونے والے نقصانات کے مدنظر صیہونی حکومت کی جانب سے اپنے سفاکانہ حملوں پر نظر ثانی کے امکان پر مبنی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے محور پر اور اس کی پشت پناہی کے ساتھ مزاحمتی محاذ پوری ہماہنگي کے ساتھ کئي محاذوں پر صیہونی حکومت پر لگاتار وار کر رہا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد یہ ملک خطے میں صیہونیت کے خلاف جدوجہد کرنے والے گروہوں کے اصل حامی میں تبدیل ہو گیا۔ لبنان میں حزب اللہ، پھر فلسطین اور اس کے بعد عراق، شام اور یمن میں اسلامی مزاحمت۔ اس حمایت کے نتیجے کو آج لبنان میں حزب اللہ گروہ، عراق میں مزاحمت اور الحشد الشعبی اور یمن میں انصار اللہ کے اقدامات کی شکل میں، جو غزہ پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے ردعمل میں کیے گئے ہیں، دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات سب سے مؤثر اقدامات رہے ہیں جنھوں نے بحران کی صورتحال کو بدل دیا ہے۔ لبنان کی جانب سے شمالی اسرائيل پر روزانہ میزائيلوں، گرینیڈز اور راکٹوں کی فائرنگ، صیہونی حکومت کے ٹھکانوں پر عراق کی اسلامی مزاحمت کے حملے اور سب سے زیادہ مؤثر اقدام کے طور پر بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت سے متعلق نقل و حمل اور تجارت کو یمنی مزاحمت کی جانب سے نقصان پہنچانا، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس مفروضے میں صیہونی حکومت پر بعض فیصلے مسلط کرنے کی صلاحیت پائي جاتی ہے۔
ایک تیسری حالت کا بھی تصور کیا جا سکتا ہے جو اندرونی عزم اور باہری دباؤ کا باہمی امتزاج ہو اور صیہونی حکومت کو غزہ کے عوام کا قتل عام روکنے پر مجبور کر دے۔ در حقیقت پہلی حالت کے دوسرے مفروضے اور دوسری حالت کے تیسرے مفروضے کا امتزاج، ایک دوسرا آپشن ہے جس کے اثر انداز ہونے کی نشانیاں واضح طور پر دیکھی گئي ہیں۔ غزہ کی استقامت و مزاحمت کے سبب صیہونی حکومت پر داخلی دباؤ اور غزہ کی مزاحمت اور عوام کے حامیوں یعنی مزاحمتی محاذ کی جانب سے باہری دباؤ نے صیہونی حکومت کے مقابلے میں سب سے مؤثر فوجی حربے کے طور پر کام کیا ہے اور دکھایا ہے کہ صیہونی مجرمین کے اس لگاتار ظلم سے مقابلے کے لیے "مزاحمتی محاذ کی تشکیل کی حقانیت" پر رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی تاکید کس حد تک ٹھوس، معقول اور عالم اسلام کے حق میں اس بحران سے باہر نکلنے کی واحد راہ ہے۔
1. https://www.reuters.com/world/netanyahu-address-us-republican-senators-after-speech-by-democrat-schumer-source-2024-03-20/
2. https://www.al-monitor.com/originals/2024/03/tensions-israel-war-cabinet-gaza-conflict-rages
3. https://www.haaretz.com/israel-news/2024-03-04/ty-article/.premium/as-gantz-gallant-defy-netanyahu-its-not-just-the-far-right-that-hold-power-over-the-pm/0000018e-0b13-d9cb-afdf-0b9fe0070000
4. https://www.wsj.com/world/middle-east/netanyahus-war-cabinet-is-at-war-with-itself-a2b06bee
5. https://www.nytimes.com/2024/03/22/world/middleeast/us-cease-fire-resolution-vetoes.html
6. https://www.theguardian.com/commentisfree/2024/jan/28/icj-israel-gaza-ruling-genocide
7. https://www.cfr.org/article/us-aid-israel-four-charts
8. https://quran.com/en/an-nisa/75
9. https://english.khamenei.ir/news/10575/Most-effective-way-to-stop-Israel-s-crimes-in-Gaza-Muslim-countries
10. https://english.khamenei.ir/news/10561/Why-aren-t-heads-of-Islamic-countries-following-the-Quran-s-teachings