صحیفۂ سجادیہ؛ انفرادی و اجتماعی امور کے لیے ایک معجز نما کتاب

صحیفۂ سجادیہ کی دعائيں اسلامی معارف کا بحر ذخار ہیں۔ صحیفۂ سجادیہ واقعی ایک معجز نما کتاب ہے۔ خوش قسمتی سے اس کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے بلکہ کئي ترجمے ہو چکے ہیں۔(1)

یہ ساری کی ساری دعائیں ہمارے لیے استحکام بخش ہیں۔ ہر میدان میں ہمارے لیے اندرونی استحکام فیصلہ کن ہے۔ اگر ہمارا اندرونی ڈھانچہ، چاہے وہ خود ہمارے اندر کا انفرادی ڈھانچہ ہو، چاہے ہمارے اندر کا فکری و روحانی ڈھانچہ ہو یا پھر بالعموم ہمارے معاشرے کا اندرونی ڈھانچہ ہو، اگر ٹھوس اور مضبوط ہوا تو کوئي بھی چیز اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔(2) ہمیں صحیفۂ سجادیہ کی دعاؤں سے، ان شفا بخش دعاؤں سے جو ہماری اخلاقی بیماریوں کو ٹھیک کر سکتی ہیں، ہمارے وجود کے زخموں کا مداوا کر سکتی ہے، خود کو آشنا کرنا چاہیے۔(3) یہ جو صحیفۂ سجادیہ کو زبور آل محمد کہا گيا ہے، واقعی ایسا ہی ہے، یہ معنوی نغموں سے مالامال ہے، دعا اور درس ہے، اخلاقی درس بھی ہے، علم النفس کا درس بھی ہے، سماجی امور کا درس بھی ہے۔ وہ معاشرہ جس کا ایک بڑا حصہ، ان خصوصیات کے ساتھ پروان چڑھے، وہ وہی معاشرہ ہے جس میں کسی بھی طرح کا ہتھکنڈہ کارگر نہیں ہوگا۔(4)

پروردگار عالم سے جڑنے کے بعد مایوسی کا خاتمہ

صحیفۂ سجادیہ کی پانچویں دعا میں امام فرماتے ہیں: "اللَّھُمَّ اَغْنِنی عَنْ ھِبَۃِ الْوَھّابِینَ بِھبَتِک، وَ اکفِنی وَحْشَۃَ الْقَاطِعِینَ بِصِلَتِک" (اے خدا! اپنی عطا کے ذریعے ہمیں دوسروں کی عطا سے بے نیاز کر دے اور ہمیں خود سے جوڑ کر دوسروں سے جدا ہونے کے خوف سے نجات دے دے۔) یہ بہت اہم باتیں ہیں، جب آپ خدا سے جڑے ہوئے ہیں تو خود سے دور کر دینے والوں کی جدائي آپ کو وحشت زدہ نہ کرے۔ یہ جو امام نے فرمایا ہے: "وَ اکفِنی" دراصل اس کے ذریعے وہ ہمیں درس دے رہے ہیں، صرف خدا سے مانگنا نہیں، خدا سے مانگنا چاہیے لیکن صرف وہی نہیں ہے۔ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ تم پروردگار سے جڑ جانے کو کافی سمجھو۔ پوری دنیا کو تم سے رابطہ منقطع کر لینے دو، لوگ تمھیں الگ تھلگ کر دیں، کوئي بات نہیں! ان کے الگ تھلگ کر دینے سے ہمیں کیا نقصان ہوگا؟ اور اگر گوشۂ تنہائی سے نکل بھی آئے تو ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ مان لیجیے ہم گوشۂ تنہائي سے نکل آئے، وہ فائدہ اور منافع کہاں ہے؟ ہمیں گوشۂ تنہائی سے نکل کر کیا سود حاصل ہوا؟ دیکھیے یہ اسلامی معارف ہیں۔ "اَغْنِنی عَنْ ھِبَۃِ الْوَھّابِینَ بِھبَتِک" تیری عطا اہم ہے، تیرا کرم اہم ہے، بخشنے والوں کی عطا کی کیا اہمیت ہے کہ وہ ہمیں عطا کریں، بخشیں اور مدد کریں؟ المختصر یہ کہ ان دعاؤں، ایک پوری دنیا نہاں ہے۔(5)

دنیوی طاقتوں کے مقابل ہدایت الہی کی پشت پناہی

امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک دعا میں کہا گيا ہے: دنیا میں وہ سبھی لوگ جن کے پاس کوئي طاقت ہے، کوئي ذاتی سہارا ہے، وہ تیرے دسترخوان کے ریزہ چیں ہیں، تیری طاقت کے پنجے میں ہیں۔ خدا پر توکل، خدا کو اپنے لیے کافی سمجھنا، خدا کی رحمت و ہدایت کو پشت پناہ سمجھنا، انسان کو کبھی ناامید نہیں ہونے دیتا۔(6)

دعا کے ساتھ جدوجہد، ائمہ علیہم السلام کی سیرت

عجیب بات یہ ہے کہ تمام ائمہ علیہم السلام سے، جہاں تک میرے ذہن میں ہے، ماثورہ دعائيں منقول ہیں اور ان کی دعائيں ہم تک پہنچی ہیں لیکن سب سے زیادہ اور سب سے مشہور دعائیں تین اماموں سے منقول ہیں اور یہ تینوں امام اپنی عمر کے ایک بڑے حصے میں جدوجہد میں مصروف رہے ہیں: ایک امیر المومنین علیہ السلام ہیں جن سے دعائے کمیل اور دوسری دعائیں ہم تک پہنچی ہیں جن کا ایک عجیب عالم ہے۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام سے منقول دعائيں ہیں جن میں سرفہرست دعائے عرفہ ہے۔ یہ دعا واقعی بہت عجیب ہے۔ اس کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام ہیں جو عاشورا کے پیغام رساں اور یزید کے قصر ظلم کے مقابل میں علم مجاہدت بلند کرنے والے ہیں۔ ان تینوں اماموں کی دعائيں بھی، جن کی جدوجہد کے میدان، دیگر ائمہ سے زیادہ نمایاں ہیں، تعداد میں دیگر ائمہ سے زیادہ ہیں اور دعا کے درمیان ان کے درس بھی سب سے زیادہ ہیں۔(7)

صحیفۂ سجادیہ کی ان دعاؤں سے، جن میں سے ہر ایک، ایک دروازہ ہے، ہر ایک، ایک خاص دنیا ہے، ایک سمندر ہے، آپ کو انس حاصل کرنا چاہیے۔(8)

  1. 2008/07/16
  2. 28/12/2011
  3. 5/10/2000
  4. 4/12/1997
  5. 23/2/2017
  6. 13/5/2009
  7. 4/12/1997
  8. 10/6/2008