30 اگست 1981، تہران، وزیر اعظم کے دفتر کی عمارت
ایران کے نئے صدر
ایران کے نئے صدر نے اپنے ٹرم کا پہلا مہینہ بھی پورا نہیں کیا ہے اور ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایران کے پہلے صدر ابو الحسن بنی صدر کے انتہائی متنازعہ دور صدارت کے بعد، انھیں مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے ذریعے اور رہبر انقلاب کی تائید سے برطرف کر دیا گیا اور 1981 کے موسم گرما میں ایرانی عوام نے قزوین کے ایک استاد محمد علی رجائی کو جو بنی صدر کی حکومت میں وزیر اعظم بھی رہ چکے تھے، ایران کے دوسرے صدر کے طور پر منتخب کیا۔ رجائی اور ان کے مقبول وزیر اعظم محمد جواد باہنر اپنے کچھ رفقائے کار کے ساتھ ایک اہم نشست میں ہیں کہ ایک زبردست دھماکہ پوری عمارت کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ جلد ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس دھماکے کا نشانہ ایران کے صدر اور وزیر اعظم ہیں۔ رجائی اور باہنر 8 شہریور 1360 ہجری شمسی مطابق 30 اگست 1981 کو شہید ہو جاتے ہیں اور ایرانی قوم ایک سادہ زندگی گزارنے والے اور محنتی صدر کے غم فراق میں ڈوب جاتے ہیں۔ کچھ وقت بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ دھماکہ ایک کالی بھیڑ نے کیا تھا: جس کا نام مسعود کشمیری تھا اور جو مجاہدین خلق آرگنائزیشن (ایم کے او) کا رکن تھا اور جو اسلامی جمہوری نظام کے حساس ترین سیکورٹی اداروں میں موجود رہا تھا۔ وہ صدر مملکت کے قریبی افراد میں سے ایک تھا اور کافی عرصے سے اس نے خود کو اس جرم کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ دہشت گردی نے ایران کو ایک مہلک ضرب لگائی لیکن عوام بڑی سرعت سے اس نقصان کی تلافی کے لیے میدان میں آ گئے اور بہت جلد ایران کے تیسرے صدارتی انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری انتظامات مکمل کر لیے گئے تاکہ اسلامی انقلاب کے دو سال پورے ہونے سے پہلے ہی ایرانی عوام اپنے تیسرے صدر کا انتخاب کر لیں۔ اس بار عوام نے مشہد کے ایک ہر دل عزیز عالم دین کو منتخب کیا: سید علی خامنہ ای!
پیر، 16 جون 2025، تہران، قومی سلامتی کونسل کی نشست
صیہونی حکومت کے خلاف ایرانی عوام کا دفاع چوتھے دن میں داخل ہو چکا ہے۔ جمعہ کی صبح سے، جب صیہونی حکومت نے ایرانی فوجی کمانڈروں، جوہری سائنسدانوں اور شہریوں پر وحشیانہ حملہ کیا، آج تک فریقین کے درمیان زبردست حملے جاری ہیں۔ ایرانی میزائل تل ابیب اور حیفا کے مرکز تک پہنچ چکے ہیں اور صیہونی حکومت، جو سوچ رہی تھی کہ جنگ کے شروع ہوتے ہی ایران میں داخلی اختلافات اور افراتفری بھڑک اٹھے گی، اپنی بڑی غلطی کو محسوس کر چکی ہے۔ ایرانی عوام، پہلے سے کہیں زیادہ متحد ہو کر دشمن کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنے تمام داخلی اختلافات کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ شاید یہی وہ بات ہے جس نے دشمن کو اور زیادہ جری بنا دیا ہے اور اسرائیل کو تہران کے رہائشی علاقوں پر حملے کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ انہی حالات میں قومی سلامتی کونسل کی اہم نشست منتظمہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں اور ملک کے متعدد فوجی کمانڈروں کی موجودگی میں منعقد ہو رہی ہے۔ نشست کا ایجنڈا واضح ہے: جنگ کے جاری امور پر تبادلۂ خیال۔ یہ نشست واضح سیکورٹی وجوہات کی بنا پر تہران کے مغرب میں ایک خاص مقام پر منعقد ہو رہی ہے۔ نشست جاری ہی ہے کہ اچانک نشست کے مقام پر بم دھماکے کی زوردار آواز نے نشست کو روک دیا۔ جس ہال میں نشست ہو رہی تھی اس کی بجلی منقطع ہو گئی اور میٹنگ کی جگہ پر دھول اور خاک کے پہنچنے سے حملے کی سنگینی کا پتہ چل رہا ہے۔ اس نشست میں اعلیٰ فوجی اور سول عہدیدار موجود ہیں اور انھیں کسی بھی قسم کا ممکنہ نقصان، جنگ کو کنٹرول کرنے میں ایک بڑا بحران پیدا کر سکتا ہے لیکن شدید گرد و غبار اور نشست کے مقام تک داخلے کے راستوں کے بند ہو جانے کے باوجود، نشست میں شریک اہم شخصیات صیہونی حکومت کے حملے میں بچ جاتی ہیں اور نشست کے مقام سے باہر نکل جاتی ہیں۔ اس بار تاریخ دوہرائی نہیں جاتی اور اسلامی جمہوری نظام کے رہنما دہشت گردی سے محفوظ رہتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران، دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے شکاروں میں سے ایک ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک سترہ ہزار سے زیادہ ایرانیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جن میں عام لوگ بھی ہیں جنھیں منافقین (ایم کے او) کے دہشت گردوں نے صرف ظاہری مذہبی شکل و صورت کی بنیاد پر سڑکوں پر گولیوں سے بھون دیا ہے اور جنرل قاسم سلیمانی جیسے کمانڈر بھی ہیں جنھیں امریکی صدر کے براہ راست حکم پر شہید کیا گیا۔ ایران کے خلاف دہشت گردی مختلف شکل و صورت میں سامنے آئی ہے: انتہا پسندانہ دہشت گردی، جو مذہبی تعالیم کی غلط سمجھ کا نتیجہ تھی اور "فرقان" جیسے گروہوں میں ظاہر ہوئی اور فیلڈ مارشل محمد ولی قرنی اور آیت اللہ مرتضیٰ مطہری جیسی عظیم شخصیات کی شہادت کا باعث بنی۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی ہے جو امریکا اور اسرائیل کی حکومتوں کی طرف سے ہوئی ہے اور جس میں صرف اسی بارہ روزہ جنگ میں ایک ہزار سے زیادہ ایرانی شہری شہید ہوئے ہیں۔ ایران کے عوام برسوں سے انسانی حقوق کے اداروں سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر ان کا کیا گناہ ہے جو انھیں اس طرح دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے؟ کیا ایک پرامن جوہری پروگرام رکھنا، جو ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں اور سخت ترین پابندیوں کے تحت جاری ہے، ان کا گناہ ہے؟ کیا سنہ 1979 میں اپنی آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے اور غیر ملکی حکومتوں کے ہاتھوں اپنے مستقبل کے تعین کو روکنے کا ان کا فیصلہ ان کا بڑا جرم ہے؟ کیا اسرائیل کی آپارتھائیڈ حکومت اور فلسطینی سرزمین میں اس کے ہاتھوں لگاتار جاری نسل کشی کی مخالفت ان کا قصور ہے جس کی وجہ سے انھیں اس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ ایرانی، جو تاریخ میں ہمیشہ رواداری، مہمان نوازی اور اپنے مالامال تمدن کے لیے جانے جاتے ہیں، اپنے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد گزرے ان سینتالیس برسوں میں دہشت گردی کی مختلف شکلوں کا شکار رہے ہیں اور مختلف گروہوں اور دہشت گرد حکومتوں کے حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور اس قوم کے تمام طبقے، صدر مملکت اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں سے لے کر دکانداروں اور ملازموں تک، دہشت گردی سے زخم کھا چکے ہیں۔ تاہم جو کچھ بارہ روزہ جنگ میں اور خاص طور پر ایران کی قومی سلامتی کونسل کی نشست پر حملے کے دوران ہوا، وہ ریاستی دہشت گردی کی ایک شرمناک مثال تھی، مقبوضہ علاقوں پر سیاسی کنٹرول کا دعویٰ کرنے والی ایک حکومت کی جانب سے ایک قانونی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور ذمہ داروں کی نشست پر حملہ؛ ایک قانونی حکومت کے خلاف ایک ناجائز اور غاصب حکومت کی ریاستی دہشت گردی۔
30 اگست 1981 سے لے کر 16 جون 2025 تک دہشت گردی کے اس سلسلے میں کوئي تبدیلی نہیں آئی ہے؛ ان عہدیداروں اور ذمہ داروں پر حملہ جو ایک قوم کے عزم کے نمائندے اور ایک اسلامی نظام کے تحت مذہبی جمہوریت کے مظہر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کے اس محاذ کی جانب سے اسلامی جمہوریۂ ایران کے اعلیٰ سیاسی عہدیداروں اور ذمہ داروں پر حملے کا ایک علامتی مقصد ہے۔ سرکاری عہدیداروں پر حملہ درحقیقت ایرانیوں کے قومی عزم کے مظاہر پر حملہ ہے۔ تاہم سنہ 1981 کے اس تلخ دن سے لے کر آج تک، ایرانی اپنی طاقت اور اپنے جذبے کے سہارے اتنی طاقت حاصل کر چکے ہیں کہ وہ ناجائز اسرائیلی حکومت کی دہشت گردی کو بارہ دن تک اپنے زبردست حملوں کے بعد ہاتھ کھڑے کرنے اور جنگ بندی کی پیشکش کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جی ہاں! یہ ایرانی قوم کا عزم ہی تھا جو ایک بار پھر خدا کی مدد سے بارہ روزہ جنگ میں سامنے آيا اور صیہونی حکومت کو دھول چٹا دی، وہی عزم جو خدا کی مدد سے، 30 اگست 1981 اور جنگ کے حالات میں صدر اور وزیر اعظم کی شہادت کے بعد سے آج تک اسلامی انقلاب کو متحرک رکھے ہوئے ہے۔
تحریر: محمد صالح سلطانی