بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم.
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ في الارضین ارواحنا فداہ۔
آپ کا بہت خیر مقدم ہے، عزیز بھائيو، بہنو اور دلیر رضاکارو! آپ نے ہماری اس امام بارگاہ کو ان بسیجی جذبات کے نور سے منور کر دیا جو بحمد اللہ آپ کے اندر موجود ہے۔ ہفتۂ بسیج آپ سب کو مبارک ہو، بلکہ پوری ایرانی قوم کو مبارک ہو۔
بسیج، ہمارے عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عظیم کارناموں میں سے ایک تھا۔ ان کے عظیم کارنامے ایک دو نہیں تھے، ایسے کارنامے جو لوگوں کی زندگي میں، ملک کی تاریخ میں عظیم تبدیلیاں لے آتے تھے لیکن ان کے خلاقانہ کارناموں میں ایک سب سے اہم اور سب سے بڑا کارنامہ، بسیج (رضاکار فورس) کی تشکیل تھی، انھوں نے نومبر 1979 کے اواخر میں اپنی مشہور تقریر میں دو کروڑ کی فوج کی تشکیل (کی ضرورت) کا اعلان کیا تھا۔(1) خیر رضاکار فورس کی تشکیل ہو گئي، امام خمینی کے حکم کے بعد تشکیل ہوئي۔ یہ سنہ 1979 کی بات ہے۔ اس بسیج، اس عظیم کارنامے کی برکتیں اس قدر تھیں کہ امام خمینی نے نومبر 1988 میں یعنی اس کے نو سال بعد، بسیج کی ستائش و تعریف میں وہ زبردست اور بلند آہنگ بیان جاری کیا تھا۔(2) رضاکاروں نے ان نو برسوں میں ملک میں کیا کر دیا تھا کہ امام خمینی اتنے متاثر ہو گئے کہ انھوں نے ان حیرت انگیز الفاظ اور متحیر کن جملوں کے ساتھ وہ زبردست بیان جاری کیا۔
میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اس زبردست بیان کے کچھ جملے عرض کروں گا تاکہ آپ کو وہ بیان یاد آ جائے۔ ہمارے عزیز امام خمینی اس بیان میں اس باپ کی طرح بات کرتے ہیں جو اپنے بچوں سے والہانہ پیار کرتا ہے۔ میں ان کے یہ جملے پڑھتا ہوں۔ "بسیج، عشق کی درسگاہ اور ان گمنام شہیدوں کا مکتب ہے جنھوں نے اس کے اونچے میناروں پر شہادت اور شجاعت کی اذان دی ہے۔" کیا خوبصورت الفاظ ہیں، کتنے بلند آہنگ جملے ہیں۔ ایک ثمردار درخت ہے جس کی کونپلیں وصل کی بہار، یقین کے نشاط اور حدیث عشق کی خوشبو بکھیرتی ہیں۔ البتہ میں ان جملوں کو تسلسل سے نہیں پڑھ رہا ہوں، آپ جا کر مطالعہ کیجیے، یہ آپ سے خطاب ہے، اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ "مجھے فخر ہے کہ میں خود بسیجی ہوں۔" وہ عظمتوں کے آسمان امام خمینی جنھوں نے دنیا کو ہلا دیا، تاریخ کو ہلا دیا، وہ کہتے ہیں کہ میرا افتخار یہ ہے کہ میں بسیجی ہوں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ میں آپ میں سے ہر ایک کے ہاتھ چومتا ہوں۔ واقعی یہ باتیں فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ تو اس بیان میں آپ کو مخاطب قرار دیا گیا ہے، آپ آج کے رضاکار کو! امام خمینی نے نہیں فرمایا کہ اسّی کے عشرے کے رضاکار، انھوں نے کہا: بسیجی، آپ لوگ، آپ کے بعد کے رضاکار، اگلے زمانوں تک کے بسیجی امام خمینی کے مخاطب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے ہاتھ چومتا ہوں۔
اسی بیان میں، نومبر سنہ اٹھاسی کے بیان میں امام خمینی نے اسٹوڈنٹس اور دینی طلبہ کے رضاکاروں کا اعلان کیا ہے، اس کے ایک خاص معنی ہیں۔ وہ اسٹوڈنٹس سے مطالبہ کرتے ہیں، دینی طلبہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بسیجی جذبہ پیدا کریں، بسیجی بنیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بسیج صرف فوجی میدان کے لیے نہیں ہے بلکہ دینی علوم اور مادی علوم سمیت تمام میدانوں میں بسیج کی موجودگي ہونی چاہیے۔ امام خمینی کے اس کارنامے نے، غور کیجیے، یہ بڑے اہم نکات ہیں، درحقیقت امام خمینی نے اس کام سے ایک خطرے کو موقع میں تبدیل کر دیا۔ وہ خطرہ کیا تھا؟ انھوں نے 26-27 نومبر 1979 کو یہ عمومی اعلان کیا، درحقیقت رضاکار فورس کی تشکیل کا حکم دیا، اس کا مطلب ہے کہ یہ حکم (امریکا کے) جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے تقریبا بیس بائیس دن بعد دیا- جاسوسی کے اڈے پر قبضہ 4 نومبر کو ہوا اور یہ بیان، امام خمینی کا پہلا حکمنامہ 26-27 نومبر 1979 کو جاری ہوا۔ جب 4 نومبر کو وہ واقعہ ہوا اور 'مکتب امام خمینی کے پیروکار طلبہ' نے جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کر لیا اور دستاویزات کو وہاں سے باہر نکال لیا تو امریکی بہت زیادہ طیش میں آ گئے، انھوں نے دھمکی دینا شروع کیا، زبان سے بھی اور عمل سے بھی، ان کی عملی دھمکی یہ تھی کہ انھوں نے اپنے بیڑوں کو تدریجی طور پر خلیج فارس کی طرف لانا شروع کیا۔ یہ دھمکی ہی تو تھی۔ امام نے گھبرانے یا ڈرنے کے بجائے – عام طور پر لوگ گھبرا ہی جاتے ہیں – ملکوں کے سربراہ، امریکا کے ناراض ہوتے ہی گھبرا جاتے ہیں، ڈر جاتے ہیں، خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ امام خمینی ڈرے نہیں، انھوں نے قوم کو عوامی لام بندی کے طور میدان میں اتار دیا۔ یعنی خطرے کو موقع میں بدل دیا۔ یہ اس بات کا موجب بنا کہ میدان جنگ، سرکاری اداروں تک محدود نہ رہے اور قوم کے سبھی طبقے اس میں داخل ہو جائیں۔ یہ وہی خطرے کو موقع میں بدلنا ہے۔ یہ امام خمینی کی مہارتوں اور ان کی خداداد صلاحیتوں میں سے ایک تھی کہ وہ خطروں کو موقع میں بدل دیتے تھے۔
یہاں ایک اہم نکتہ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ رضاکار فورس نے واقعی فوجی میدانوں میں شاندار کارکردگی پیش کی، البتہ جب امام خمینی نے یہ بیان جاری کیا تھا تو ابھی جنگ شروع نہیں ہوئي تھی، پھر بعد میں جب سنہ 80 میں جنگ شروع ہوئي تو میدان جنگ میں رضاکار فورس کی موجودگي بہت مفید اور کارآمد رہی، مشکلات کو حل کرنے والی تھی، حقیقی معنی میں وہ فوج اور سپاہ پاسداران جیسے باضابطہ فوجی اداروں کا بڑا اہم سہارا بن گئی، تو میدان جنگ میں بسیج کا امتحان بڑا پرشکوہ تھا لیکن بسیج صرف ایک فوجی ادارہ نہیں ہے، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ مطلب یہ کہ بسیج کی شان اور اس کا مقام ایک فوجی ادارے سے بڑھ کر اور وسیع تر ہے۔ بسیج کیا ہے؟ بسیج ایک ثقافت ہے، بسیج ایک نیریٹیو ہے، بسیج ایک سوچ ہے۔
یہ سوچ کیا ہے؟ یہ ثقافت کیا ہے؟ یہ ثقافت معاشرے اور ملک کی بے لوث اور بے نام و نمود خدمت سے عبارت ہے، یہ بہت اہم ہے۔ بغیر کسی توقع کے، بغیر اس انتظار کے کہ کوئي اسے شاباش کہے، یہاں تک کہ ایسے بہت سے معاملات میں بھی جس میں کسی کام میں شمولیت کے لیے اسے بجٹ تک نہ دیا جائے، پیسے اور وسائل تک نہ دیے جائيں – بہرحال ہر کام کے لیے کچھ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے– بسیجی ان سب کے بغیر مختلف میدانوں میں پہنچ جاتا ہے، جہادی خدمت انجام دیتا ہے، جہادی خدمت کے خطروں کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہے، یہ بسیجی کلچر ہے۔ بسیجی کلچر کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ وہ گھٹنوں تک کیچڑ میں چلا جائے تاکہ سیلاب زدہ گھروں کے کمروں سے کیچڑ صاف کرے، مطلب یہ کہ وہ خود کو کورونا کی وبا میں مبتلا ہونے کے خطرے اور موت کے خطرے میں ڈال کر کورونا کے مریضوں کو بچا سکے اور انھیں موت کے خطرے سے دور کر سکے۔ رضاکارانہ ثقافت کا مطلب ہے مومنانہ جذبے کے تحت امدادی کام میں تھکن محسوس نہ کرنا جس کا ایک نمونہ، ہمیں یہاں آتے ہوئے اس نمائش میں دکھایا گيا۔(3) البتہ مجھے بخوبی علم ہے کہ رضاکاروں نے مومنانہ امداد کے اعلان کے بعد اس سلسلے میں کیا کیا، یا بسیج کے جہادی کاموں کے لیے لگائے جانے والے کیمپوں میں (کتنی محنت کی جاتی ہے) یہ بسیج ہے، رضاکارانہ کلچر کا مطلب یہ ہے۔ انھوں نے اس کا انتظار نہیں کیا کہ کوئي انھیں شاباش کہے اور تعریف کرے۔ نہیں، وہ گئے اور جس طرح سے بھی ممکن ہو سکتا، کئي مواقع پر تو بڑے ہی دلچسپ اور نئے نئے طریقوں سے پورے ملک میں اس مومنانہ امداد کے کام کو پھیلا دیا۔ سائنس و تحقیق کے میدان میں، تجربہ گاہوں کے میدان میں بسیج کا ادارہ مفید اور کارآمد رہا ہے۔ وہ جوان جو اہل علم تھے، تحقیق کرنے والے تھے، سائنس سے واقف تھے، وہ بھی رضاکارانہ جذبات رکھتے تھے، تجربہ گاہوں میں کام کر رہے تھے، انھوں نے کورونا کی وبا کے معاملے میں بھی اور دوسرے مختلف معاملوں میں بھی شاندار کام کیا۔ اس کا ایک نمونہ ہمارے ایٹمی شہداء ہیں، یہ رضاکار تھے، یہ بسیجی تھے۔ اس کی ایک مثال مرحوم کاظمی(4) ہیں اور انھوں نے جو یہ بڑا تحقیقی ادارہ قائم کیا ہے اور دوسرے علمی و تحقیقی کام کیے ہیں، یہ رضارکارانہ ثقافت ہے۔ پھر دشمن سے مقابلے کے میدان میں بھی یعنی میدان جنگ میں بھی بے خطر میدان میں کود پڑنا، دشمن سے خوفزدہ نہ ہونا، دشمن کو موقع نہ دینا، یہ بسیجی کلچر ہے۔ ہر سیاسی، عسکری اور سائنسی میدان جنگ میں داخل ہو جانا اور اپنی پوری طاقت و توانائي کا استعمال کرنا، یہ بسیجی کلچر ہے۔ بسیجی ہونا، گمنام مجاہدوں کا کلچر ہے – جیسا کہ امام خمینی کے بیان میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے – یہ بے لوث مجاہدوں کی ثقافت ہے، خطروں کو قبول کرنا ہے، خوفزدہ نہ ہونا ہے، سب کی اور ملک کی خدمت کرنا ہے، دوسروں کی مدد کے لیے اپنی پرواہ نہ کرنا ہے، یہاں تک کہ کسی مظلوم کو نجات دینے کے لیے خود ظلم سہنا ہے۔ آپ نے حالیہ واقعات میں دیکھا ہی کہ مظلوم رضاکاروں نے خود ظلم برداشت کیا تاکہ ہنگامہ مچانے والے کچھ غافل، جاہل یا بکے ہوئے عناصر، عوام پر ظلم نہ کر سکیں، وہ خود ظلم برداشت کرتے ہیں تاکہ دوسروں کو ظلم سے بچائیں، وہ مایوسی کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہیں دیتے، یہ رضاکارانہ کلچر کا ایک اہم پہلو ہے۔ بسیجی کے لیے ناامیدی کا کوئي مطلب ہی نہیں ہے۔
خیر، یہ بسیج اور بسیجی کی ایک مختصر توصیف تھی۔ البتہ اگر ہم اس سلسلے میں بات کرنا چاہیں تو بڑی تفصیل سے بڑے معنی خیز اور پرمغز جملے تسلسل کے ساتھ بیان کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا اجمال وہی ہے جو ہم نے عرض کیا، اس میں 1980 یا 2010 کے عشرے کے بسیجیوں کی کوئي بات نہیں ہے۔ آپ 2000 اور 2010 کے عشرے سے تعلق رکھتے ہیں، نوخیز جوان ہیں، آپ نے نہ امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ انقلاب کے زمانے کو دیکھا ہے اور نہ ہی مقدس دفاع کے زمانے کو دیکھا ہے لیکن میدان جنگ میں موجود جوان کا وہی جذبہ آپ میں بھی موجزن ہے، تو 80، دو ہزار اور دو ہزار دس کے عشرے کی کوئي بات نہیں ہے۔ جنریشن گيپ اور اسی طرح کی دوسری جو باتیں کی جاتی ہیں، وہ نام نہاد روشن فکر حلقوں کے اندر کی باتیں ہیں، حقیقت اس سے الگ ہے۔ آج کا رضاکار، وہی 1980 کے عشرے کا بسیجی ہے۔
ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آج ملک میں اس بات کی بھی صلاحیت اور گنجائش موجود ہے کہ رضاکاروں کو پروان چڑھائے، رضاکاروں کی پرورش کرے، بسیج میں نئی نئي باتیں وجود میں لائے اور بسیج میں بھی اس بات کی صلاحیت اور گنجائش ہے کہ وہ اپنے بلند قدموں کی مدد سے ملک کو قدم بہ قدم آگے لے جائے۔ یعنی ملک بھی اس بات کی تیاری رکھتا ہے کہ رضاکار کو پروان چڑھائے، نئے نئے افراد کو بسیج میں شامل کرے اور بسیج بھی – بسیج کا ادارہ اور عام بسیجی بھی، میں عرض کروں گا کہ ہمارے یہاں ادارے کے باقاعدہ رکن رضاکار بھی ہیں اور ایسے بھی رضاکار ہیں جو ادارے کے رکن نہیں ہیں– اور ہمارے ملک میں بسیج کی دنیا اس بات کے لیے تیار ہے کہ ملک کو ترقی عطا کرے اور آگے لے جائے۔ یہ جو ہم نے کہا کہ ملک میں گنجائش ہے تو یہ گنجائش حال ہی میں پیدا نہیں ہوئي ہے، یہ پہلے بھی تھی لیکن اس کی سرکوبی کر دی جاتی تھی، اس سے استفادہ نہیں کیا جاتا تھا، بسیج کو پروان چڑھانے کا یہی جذبہ، انہی خصوصیات کے ساتھ جو ہم نے عرض کیں جیسے میدان میں پہنچ جانا، خوفزدہ نہ ہونا، دشمن کے سامنے ڈٹ جانا، طاغوتی استبدادی حکومتوں کے دوران اور ماضی میں بھی تھا لیکن یا تو اغیار ملک پر مسلط تھے اور وہ اسے پروان نہیں چڑھنے دیتے تھے اور اس کی سرکوبی کر دیتے تھے یا خود حکومتیں، بدعنوان تھیں۔
میں نے اس کے کچھ نمونے یہاں نوٹ کیے ہیں۔ مثال کے طور پر غیر ملکیوں کی مداخلت کے زمانے میں – یہ ہماری اسی معاصر تاریخ کے زمانے کی بات ہے، بہت پرانی بات نہیں ہے – تبریز میں شیخ محمد خیابانی، وہ ایک اعتبار سے رضاکار ہی ہیں، قیام کرتے ہیں، تحریک چلاتے ہیں پھر شہید ہو جاتے ہیں۔ مشہد میں محمد تقی خان پسیان، وہ بھی اسی طرح کے تھے، افسوس کہ ان میں سے زیادہ تر کی زندگي کے بارے میں آپ نہیں جانتے، آپ کو زیادہ کتابیں پڑھنی چاہیے، ان کی سوانح حیات کو جاننا چاہیے، سمجھنا چاہیے۔ رشت میں میرزا کوچک خان جنگلی، اصفہان میں آقا نجفی اور الحاج آقا نور اللہ، شیراز میں آقا سید عبدالحسین لاری اور بعض دوسرے علماء جیسے شیخ جعفر محلاتی، بوشہر میں رئيس علی دلواری جن کے بارے میں اتفاق سے ایک فلم بھی بني اور ریلیز کی گئي ہے، دوسرے مقامات پر بھی ایسے بہت سے لوگ ہوئے ہیں، مجھے یہی لوگ یاد آئے اور میں نے نوٹ کر لیا۔ ان میں سے زیادہ تر کی سرکوبی کر دی گئي، یعنی ان میں سے ایک دو کو چھوڑ کر سبھی کی سرکوبی کی گئي، یا تو سرکوبی کی گئي یا ان کی مدد نہیں کی گئي یا حکومتوں نے ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈال دیں۔ بنابریں یہ رضاکارانہ جذبہ موجود رہا ہے۔ جہاں تک انقلاب کے زمانے کی بات ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ یہ صلاحیت اور گنجائش بڑھ گئي چونکہ انقلاب نے امید پیدا کی، خود ان لوگوں کے بقول ڈھائي ہزار سالہ حکومت پر فتح نے سامراج مخالف اور آمریت مخالف جذبے کو تقویت عطا کی، بسیج کی صلاحیت اور گنجائش بڑھ گئي، پھر امام خمینی جیسے ایک شخص نے ملک کی قیادت کرتے ہوئے بسیج میں نئی جان ڈال دی، اسے روح عطا کر دی، اس لیے یہ صلاحیت اور گنجائش زندہ ہو گئي اور یہ صلاحیت، استعمال کے لائق ہو گئي۔
ہم نے عرض کیا کہ مقدس دفاع میں بسیج کی موجودگی بڑی زبردست تھی۔ البتہ اس وقت ہم خود تھوڑا بہت کبھی کبھار اس عظیم میدان کے بعض حصوں اور گوشوں کو دیکھا کرتے تھے، ہم نے بھی دیکھا تھا لیکن جو کچھ ان کتابوں میں ہے اور ان سوانح حیات میں ہے، وہ شاید اس چیز سے سیکڑوں گنا اور ہزاروں گنا زیادہ ہے جس کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے کرتے تھے۔ شہیدوں کی زندگي، میدان جنگ کے شہسواروں کی زندگي کے بارے میں بڑی عجیب باتیں ہیں، چاہے وہ ایسے افراد ہوں جن کا کوئي نام و نشان نہیں تھا، وہ کہیں کے کمانڈر نہیں تھے، صرف ایک بسیجی تھے لیکن اہم تھے، عظیم تھے۔ یہ چیز واقعی انسان کو متحیر کر دیتی ہے۔ یہ میدان جنگ کی بات تھی، سائنسی میدان میں بھی ایٹمی سائنسداں، رویان انسٹی ٹیوٹ کے سائنسداں، سائنس و تحقیق کے دیگر مراکز اور دوسرے مختلف مراکز کے سائنسداں بھی اسی طرح کے ہیں۔
بحمد اللہ ہمارے یہاں دسیوں لاکھ باضابطہ رضاکار ہیں جو بسیج کے ادارے میں ہیں، دسیوں لاکھ رضاکار ایسے ہیں جن کا بسیج کے ادارے سے تعلق نہیں ہے، یہ وہ جوان ہیں جو مسجدوں میں، یونیورسٹیوں میں، انجمنوں میں، اسکولوں اور دوسری مختلف جگہوں پر وہی کام کرتے ہیں جو رضاکار کرتے ہیں اور درحقیقت بسیجی ہی ہیں، بس باضابطہ رجسٹرڈ رضاکار نہیں ہیں، بسیج کے ادارے کے رکن نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں رضاکار فورس کا تسلسل عالم اسلام میں موجود رضاکاروں تک پھیلا ہے، عالم اسلام میں بھی دسیوں لاکھ رضاکار ہیں، یہ وہ رضاکار ہیں جو ہماری زبان نہیں سمجھتے، ہم بھی ان کی زبان نہیں سمجھتے لیکن ہمارے دل کی زبان اور ان کے دل کی زبان ایک ہے، ان کا موقف بھی وہی ہے جو ہمارا موقف ہے، مختلف ملکوں میں ہیں، یہ بھی بسیج کی برکتوں میں سے ایک ہے۔
تو یہ امام خمینی کی یادگار ہے اور یہ یادگار آج بھی باقی ہے اور ان شاء اللہ کل بھی باقی رہے گي اور ملک اس کے ثمرات کا مشاہدہ کرے گا۔ خیر تو امام خمینی نے بسیج کے بارے میں جو جملے اور جو الفاظ استعمال کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے بسیج کو شجرۂ طیبہ بتایا ہے(5) شجرۂ طیبہ وہی ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں کہا گيا ہے: "کَیفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصلُھا ثابِتٌ وَ فَرعُھا فِی السَّماء تُؤتی اکُلَھا کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رَبِّھا"(6) شجرۂ طیبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر دور میں اپنے میٹھے پھل اور اچھے نتائج سامنے لاتا ہے۔ ہم نے کہا کہ بسیج میں ملک کو آگے لے جانے کی صلاحیت ہے، میں اس کے ان ثمرات میں سے کچھ کا ذکر کرتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ہر میدان میں بسیج کی موجودگي، انقلاب کے زندہ ہونے کی نشاندہی کرتی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انقلاب زندہ ہے۔ ان لوگوں کی آرزو کے برخلاف جو 'انقلاب' لفظ اور 'انقلاب' کے نام سے وحشت زدہ ہو جاتے ہیں، غصے میں آ جاتے ہیں، پسند نہیں کرتے کہ انقلاب کا نام لیا جائے، انقلاب سے برائت کا اظہار کرتے ہیں، بیزاری کا اظہار کرتے ہیں لیکن بسیج کا وجود یہ دکھاتا ہے کہ انقلاب زندہ ہے، انقلاب نئی چیزوں کو معرض وجود میں لانے والا ہے، ایجاد کرنے والا ہے۔ تو بسیج کی موجودگي کا ایک پھل یہ ہے کہ یہ انقلاب کے زندہ ہونے اور نئي چیزوں کو وجود میں لانے کی نشاندہی کرتا ہے۔
دوسرے، یہی جذبہ جس کے بارے میں ہم نے کہا، بے لوث، بے نام و نمود، بغیر کسی توقع اور بغیر دکھاوے کے جہادی کام کا جذبہ ملک میں تیز رفتار ترقی لاتا ہے۔ ایسا کام جو شاباشی، دکھاوے اور نام و نمود کے لیے ہو، اس میں کوئي برکت نہیں ہوتی۔ خود یہ بغیر توقع والا اور جہادی کام، ملک کو رفتار عطا کرتا ہے اور اسے آگے بڑھاتا ہے۔ یہ بھی بسیج کی برکتوں اور اس کے ثمرات میں سے ایک ہے۔
تیسرے، رضاکار جو کام بھی کرتا ہے، اس میں روحانی عنصر کو نمایاں کر دیتا ہے، یہ بہت اہم ہے، روحانیت کا عنصر۔ رویان انسٹی ٹیوٹ کا بڑا اہم سائنسداں جب کوئي اہم سائنسی پیشرفت کرتا ہے تو سجدۂ شکر بجا لاتا ہے، یہ بات خود مرحوم کاظمی نے اس سائنسداں کے سامنے مجھ سے کہی تھی اور دونوں گریہ کرنے لگے تھے، دونوں آنسو بہانے لگے تھے۔ اہم ایٹمی سائنسداں کا شاگرد کہتا ہے کہ ایک مسئلے میں ہم پھنس گئے، دیر رات تک کام کرتے رہے – شہید بہشتی یونیورسٹی میں – انھوں نے مجھ سے کہا کہ آؤ چلیں، ہم اٹھے اور کام کے کمرے سے باہر آ گئے، ہم نماز خانے میں پہنچے، وہ ہمیں نماز خانے میں لے گئے، ہم نے نماز پڑھنا اور دعا کرنا شروع کیا اور اچانک وہ بولے: سمجھ میں آ گیا، مسئلہ حل ہو گيا، وہ واپس کام کے کمرے میں پہنچے۔ دیکھیے سائنس کے ماحول میں، ایٹمی کام کے ماحول میں، سجدہ، دعا، نماز! رضاکار کی موجودگي، مختلف شعبوں میں اپنے ساتھ روحانیت لے کر پہنچتی ہے، یہ بہت اہم ہے، بہت اہم ہے۔
چوتھے، رضاکار عمل کے ساتھ، مقصد پر بھی نظر رکھتا ہے – رضاکار ایسا ہی ہوتا ہے - اس لیے کہ بسیجی عمل کرنے والا ہوتا ہے، اقدام کرنے والا ہوتا ہے۔ صرف باتیں نہیں کرتا، عمل بھی کرتا ہے لیکن عمل کے ساتھ ہی وہ صرف عمل تک محدود نہیں رہتا، مقصد اور ہدف کو فراموش نہیں کرتا، ان اہداف کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ اہداف کو فراموش کرنا بڑا خطرہ ہے۔ یہ بھی بسیج کے ثمرات میں سے ایک ہے۔ اگر میں اس شجرۂ طیبہ کے ثمرات کو گننا چاہوں تو وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں، میں نے تین چار کا ذکر کیا، بسیج میں یہ برکتیں ہیں۔
خیر، ہم نے بسیج کی اتنی توصیف کی، امام خمینی کے اقوال سے رضاکاروں کے لیے مختلف مثالیں پیش کیں، یہ سب اس بات پر منحصر ہیں کہ آپ رضاکارانہ جذبے کی حفاظت کیجیے، ہم نام سے مغرور نہ ہوں۔ اگر ہم دینی طلبہ نے، اپنے طالب علمی کے جذبے کو محفوظ رکھا تو ہمارے وجود میں برکت پیدا ہوگي، اگر ہم طالب علمی کے جذبے سے دور ہو گئے – امام خمینی مسلسل حکومتی اداروں میں کام کرنے والے صاحب عمامہ افراد کو انتباہ دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے طالب علمی کے جذبے کو قائم رکھیے(7) – اگر ہم اس سے دور ہو گئے تو برکت ختم ہو جائے گي، بسیج بھی اسی طرح سے ہے، رضاکارانہ جذبے کو محفوظ رکھیے۔ البتہ قرآن مجید کی تلاوت پر، مستحبات پر، جتنی آپ میں توانائي ہے، جتنی فرحت و نشاط ہے، جتنی تیاری ہے، توجہ دیجیے، شہیدوں کی سوانح حیات بھی پڑھتے رہیے، ان رضاکاروں کی سوانح حیات کو، جو شہید ہوئے اور ان کے بارے میں ڈھیروں کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جتنا ممکن ہو، ان کتابوں کو پڑھیے۔ تو یہ بسیج کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔
ایک دوسرا موضوع جو میں نے یہاں نوٹ کیا ہے، وہ بسیج کے مقام و منزلت کے بارے میں ہے۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ رضاکار، بسیج کی قدر کو سمجھے، بسیج کے مقام کو پہچانے، بسیج کی موجودگي کے فلسفے کو جانے، میں اس سلسلے میں ایک مختصر سی بات عرض کروں۔ بسیج کیا ہے؟ آپ کا فریق کون ہے؟ کیا آپ کا مقابلہ سڑک پر آ کر ہنگامہ مچانے والے دو چار لوگوں سے ہے؟ کیا بسیج صرف اسی کے لیے ہے؟ عالم اسلام کے سیاسی جغرافیے میں، بسیج کا بڑا نمایاں مقام ہے، مجھے اس کی تھوڑی سی تشریح کرنی ہوگي۔ البتہ اہل فکر، اہل نظر، آپ جوان اس مسئلے پر غور کیجیے، اس کے بارے میں سوچیے – صرف ابھی نہیں – ان مسائل پر کام کرتے رہیے، مطالعے کے ذریعے، بحث کے ذریعے، گفتگو کے ذریعے، غور و فکر کے ذریعے۔
مغربی سامراج کے محاذ نے ہمارے اس خاص علاقے، مغربی ایشیا کے علاقے کے بارے میں ایک خاص رخ اختیار کر رکھا ہے، یہی علاقہ جس کا نام خود انھوں نے 'مشرق وسطی' رکھا ہے۔ دو عالمی جنگوں کے بعد مغربی سامراج نے – پہلے یورپ اور پھر امریکا نے – اس علاقے پر خاص توجہ مرکوز کی، ایک خاص رخ اختیار کیا، کیوں؟ اس لیے کہ یہ علاقہ، ایک اہم علاقہ ہے۔ مغربی دنیا کے صنعتی پہیوں کے گھومتے رہنے کا سب سے اہم عنصر تیل ہے، ان کی صنعت، تیل پر منحصر ہے اور دنیا بھر میں تیل کا اہم مرکز یہی علاقہ ہے۔ مغربی ایشیا کا علاقہ، مشرق اور مغرب کا سنگم ہے، ایشیا، یورپ اور افریقا کو جوڑنے والا علاقہ ہے، اسٹریٹیجک پوزیشن کے لحاظ سے اور رائج اصطلاح میں کہا جائے تو سوق الجیشی پوزیشن کے لحاظ سے بڑا اہم خطہ ہے۔ اسی لیے مغربی سامراجیوں نے، جنھوں نے دولت و ثروت بھی حاصل کر لی تھی اور نوآبادیاتی ممالک کو لوٹ کر توانائي بھی حاصل کر لی تھی، سائنسی لحاظ سے بھی آگے بڑھ گئے تھے، ان کے پاس پیشرفتہ ہتھیار بھی تھے، مغربی ایشیا کے علاقے پر خاص توجہ مبذول کر دی۔ اسی خصوصی توجہ کی وجہ سے انھوں نے اس علاقے میں غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کی، اس غاصب حکومت کو خطے میں مغرب کے اڈے– پہلے یورپ کے اڈے اور پھر امریکا کے اڈے – کے طور پر قرار دیا تاکہ اس علاقے پر مسلط رہیں، ان کا جو دل چاہے کریں، ملکوں کو ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، جنگیں کروائيں، جنگ مسلط کریں، بڑھاتے رہیں، لوٹتے رہیں، وہ صیہونی حکومت کو اسی لیے وجود میں لائے۔ تو اس علاقے پر ان کی خاص نظر تھی۔
مغربی ایشیا کے اس علاقے میں ایک جگہ ہے جو سب سے اہم ہے اور وہ ایران ہے۔ اس خطے میں جتنے بھی ممالک اور مقامات ہیں، ایران ان سب سے اہم ہے کیونکہ اس کی ثروت بھی – تیل، گيس، قدرتی ذخائر – یہاں کے دوسرے تمام ممالک سے زیادہ ہے اور اس کا محل وقوع بھی سب سے حساس علاقہ ہے، چورہا ہے، مشرق اور مغرب کا چوراہا، شمال اور جنوب کا چوراہا۔ پرانے زمانے سے کہا جاتا رہا ہے کہ اس خطے کا اہم چوراہا ایران ہے۔ وہ ایران کے سلسلے میں سب سے زیادہ حساس تھے، اسی لیے انھوں نے ایران پر سرمایہ کاری کی۔ پہلے انگریز آئے اور انھوں نے جہاں تک ممکن تھا یہاں اپنا اثر و نفوذ پیدا کیا، یہاں پر اپنا تام جھام لگایا، مختلف طبقوں سے اپنے لیے حامی اور مہرے تیار کیے – ایران میں انگریزوں کی جانب سے اپنے پٹھو اور حامی تیار کرنے کا معاملہ ایک الگ ہی کہانی ہے! اس کے بہت زیادہ اہم پہلو ہیں لیکن افسوس کہ انھیں کم ہی بیان کیا گيا ہے، ان کے بارے میں کم ہی لکھا گيا ہے، لیکن ایسا تھا، ہم نے انھیں دیکھا ہے، بعض کو تو قریب سے محسوس بھی کیا ہے – اور پھر امریکی آئے۔ امریکی بھی جب شروع میں آئے تو مدد کے نام پر آئے۔ ٹرومین(8) کی صدارت کے زمانے میں، ٹرومین کا چوتھا پوائنٹ (The Point Four Program) مدد کا تھا، پہلے وہ اس کے نام پر آئے۔ پھر دھیرے دھیرے انھوں نے اپنی پوزیشن مضبوط کی، دوسروں کو ہٹا دیا یا کمزور کر دیا اور خود ایران پر مسلط ہو گئے، ہر چیز ان کے ہاتھ میں تھی۔ اگر آپ دیکھیں تو پہلوی دور کے اہم سیاستدانوں کی جو آپ بیتیاں باقی بچی ہیں، وہاں آپ دیکھیں گے کہ خود محمد رضا پہلوی تک کو، جو خود ہی امریکیوں کا پٹھو تھا اور ان کے لیے کام کرتا تھا، ان سے شکوہ تھا لیکن وہ اسے زبان پر لانے کی ہمت نہیں کر پاتا تھا، وہ نجی محفلوں میں اسد اللہ علَم اور اپنے حواریوں سے اپنے شکوؤں کا ذکر کرتا تھا، مطلب یہ کہ امریکی اتنا زیادہ آگے بڑھ چکے تھے کہ وہ منہ زوری کرتے تھے، غنڈہ ٹیکس وصول کرتے تھے اور انھوں نے محمد رضا جیسے شخص کو بھی خود سے ناراض کر لیا تھا، ایران اس طرح ان کی مٹھی میں آ چکا تھا۔
مشرق وسطی کے دوسرے ملکوں پر بھی ان کا تسلط اسی طرح کا تھا، ہر کسی پر ایک الگ انداز میں۔ البتہ سامراجی مداخلت (کے معاملے) میں صرف مغرب والے نہیں تھے، سابق سوویت یونین بھی مداخلت کرتی تھی لیکن اس کا ایران پر کوئي تسلط نہیں تھا، وہ تودہ پارٹی اور لیفٹ پارٹیوں کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی تھی – اس نے کچھ کام بھی کیے جنھیں آپ کو معاصر تاریخ کی کتابوں میں پڑھنا چاہیے – لیکن بعض دوسرے ممالک میں اس کا اثر و نفوذ زیادہ تھا، جیسے عراق، جیسے شام لیکن بہرحال مغرب مسلط تھا۔ یہ لوگ اپنا اثر و نفوذ بڑھانا چاہتے تھے لیکن فرانس مثال کے طور پر لبنان اور شام میں قطعی طور پر موجود تھا اور کچھ دوسرے مغربی ممالک اور سامراجی ممالک بھی تھے۔ ملک کی یہ صورتحال اور در حقیقت خطے کی صورتحال انقلاب سے پہلی کی ہے۔ تو یہ علاقہ، مرکزی حیثیت کا حامل تھا۔
اسلامی انقلاب نے اچانک ان کے سارے خوابوں کو چکناچور کر دیا! ایک واقعہ پیش آيا، انقلاب نے اس سامراجی پالیسی پر ایک کاری ضرب لگائي، یہ بھونچکا رہ گئے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے، امریکی صدر(9) ایران آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ یہ امن کا جزیرہ ہے، وہ ایران کو امن کا جزیرہ بتا رہے تھے۔ اس کے کچھ ہی مہینے بعد اسی امن کے جزیرے میں انقلاب آ گيا! اس طرح یہ لوگ مبہوت رہ گئے، اس طرح انقلاب اچانک ان کے سامنے آ گیا اور اس نے انھیں خوف، شک اور ڈر کے ساتھ گوشۂ تنہائي میں ڈھکیل دیا، انقلاب نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی۔ انقلاب ایک مضبوط رکاوٹ بن گيا، اس نے انھیں باہر کر دیا، ان کے کچھ افراد خود ہی بھاگ گئے، کچھ باہر چلے گئے اور کچھ کو سزائے موت دے دی گئي، اس لیے انقلاب خطے میں امریکا کی موجودگي اور مجموعی طور پر مغرب کی موجودگي کے سامنے رکاوٹ بن گیا۔
تو ایک نیا تشخص سامنے آيا، یعنی برطانیہ اور امریکا سے وابستگي اور ان پر انحصار کے تشخص کو ملک نے خودمختاری، مضبوطی، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے، مضبوطی سے بات کرنے، غنڈہ ٹیکس نہ دینے کے تشخص میں بدل دیا، سب سے اہم آخری بات تھی: غنڈہ ٹیکس نہ دینا۔ ایران نے ایک ایسی رکاوٹ تعمیر کر دی جو ظاہر ہے ککہ صرف اس تک محدود نہیں رہی اور انہی وقتوں میں ہم نے کہا تھا، کیونکہ ہمیشہ باہر یہی پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا کہ "ایران، انقلاب کو ایکسپورٹ کرنا چاہتا ہے" میں نے ایک بار نماز جمعہ میں کہا تھا(10) ہمارے انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کی بات دوسرے انقلابوں کو ایکسپورٹ کرنے جیسی نہیں ہے، ہمارا انقلاب پھول کی خوشبو کی طرح ہے، باد بہاری کی طرح ہے، کوئي اسے روک نہیں سکتا، وہ پھیل ہی جاتی ہے۔ جب آپ کے پاس یہاں پھولوں سے بھرا ایک چمن زار ہے تو پڑوسی، اطراف کے لوگ پھولوں کی خوشبو سے محظوظ ہوتے ہیں، کوئي خوشبو پر پہرے نہیں لگا سکتا، اور یہی ہوا۔ دوسرے ملکوں میں اقوام بیدار ہو گئیں۔ ہمارا قطعی یہ ارادہ نہیں تھا کہ کسی ملک میں بغاوت کرائيں، حکومت تبدیل کروا دیں، نہیں! ہم اس کے خواہاں نہیں تھے لیکن ہمارے انقلاب نے فطری طور پر ہماری ہمسایہ اقوام کے دلوں کو اور خطے کی اقوام کے دلوں کو متغیر کیا، ان پر اثر ڈالا۔ البتہ ایران کی خصوصیت یہی ہے۔ قومی تحریک میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، مصدق کے زمانے میں قومی تحریک اور تیل وغیرہ کا معاملہ اٹھایا گيا تھا، مصدق کا تختہ پلٹ دیا گيا لیکن اسی وقت سب کا یہ کہنا تھا کہ ناصر(11) نے مصر میں جو تحریک چلائي تھی اور عراق کے باغی سرغناؤں کے ذریعے عراقیوں کی جو تحریک سامنے آئي تھی وہ ایران کی تحریک سے متاثر تھی، اس وقت بھی ایران کا اثر تھا۔ خیر قومی تحریک کہاں اور اسلامی انقلاب کہاں!
بنابریں انھیں اس کے علاج کے بارے میں سوچنا تھا۔ انھیں کیا کرنا چاہیے؟ مغرب والے جو کل تک ایران پر اور پورے خطے پر مسلط تھے اور اب تقریبا ہر چیز کو گنوا چکے تھے یا گنوا رہے تھے، کیا کریں؟ ایران کی حکومت کو گرا دیں، ختم کر دیں، راستہ یہی ہے، ان کے پاس کوئي دوسرا راستہ نہیں ہے۔ وہ دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ وہ یہ نہیں کر سکتے۔ یہ چیز بھی جو میں کہہ رہا ہوں، چالیس سال پہلے کی ہے، آج کی بات نہیں ہے۔ اس وقت، انقلاب ابھی ایک ننھا سا پودا تھا، ابھی یہ تناور درخت اس شکل میں تبدیل نہیں ہوا تھا، لیکن یہ لوگ اس پودے سے بھی ڈرتے تھے، جانتے تھے کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتے، ایرانی قوم اور انقلابی فورس میدان میں ہے، وہ جانتے تھے کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے۔ پھر جب مسلط کردہ جنگ شروع ہوئي جو آٹھ سال تک جاری رہی تو پوری دنیا نے صدام سے تعاون کیا لیکن اس کے بعد بھی صدام کو شکست ہوئي، یہ لوگ اور اچھی طرح سمجھ گئے کہ ایران سے ٹکرایا نہیں جا سکتا، ایران سے ٹکرانا بہت سخت ہے، وہ اسلامی انقلاب کے تسلسل کو دیکھ رہے تھے، خطے کے ممالک میں انقلاب کی اسٹریٹیجک گہرائي کو دیکھ رہے تھے، یہ سب چیزیں دیکھ رہے تھے لہذا انھوں نے سوچا کہ قبل اس کے کہ ایران پر حملہ کیا جا سکے - یا فوجی حملہ یا کسی بھی طرح کا حملہ جو اسلامی حکومت کو، اسلامی جمہوریہ کو گرا دے - اس کے آس پاس کے ممالک کو، جو ایران کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ ہیں اور ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح اسلامی جمہوریہ سے جڑا ہوا ہے، مفلوج کر دینا چاہیے، پہلے ان پر کنٹرول حاصل کرنا چاہیے۔ اس چال پر سے خود امریکیوں نے پردہ اٹھایا، یہ جو میں عرض کر رہا ہوں، تجزیہ نہیں ہے، یہ امریکیوں کی سازش ہے، اس سازش کو، اس چال کو خود امریکیوں نے، بڑی امریکی شخصیات نے، امریکا کی نمایاں سیاسی شخصیات نے اس صدی کے ابتدائي برسوں میں، سنہ دو ہزار چھے میں برملا کر دیا۔
انھوں نے کہا کہ چھے ممالک ہیں جنھیں ایران سے پہلے گرایا جانا چاہیے، ان پر تسلط حاصل کرنا چاہیے، جب یہ چھے ممالک گر جائيں گے تو ایران کمزور ہو جائے گا، پھر اس پر حملہ کیا جا سکے گا۔ یہ چھے ممالک کہاں ہیں؟ ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ وجہ ہے۔ ان میں سے ایک عراق تھا۔ چونکہ صدام جنگ کے بعد کویت پر حملہ کرنا چاہتا تھا، اس نے ایران سے دوستی کا دکھاوا کیا، ہمارے جنگي قیدیوں کو رہا کر دیا، مجھے خط لکھا، اس وقت کے ایران کے صدر کو، خطوط لکھے، لوگوں کو بھیجا۔ تو صدام خطرناک تھا، وہ صدام جس کی وہ اس وقت تک حمایت کر رہے تھے، ان کے لیے ایک ناپسندیدہ عنصر بن گيا، یہ عراق کی بات ہوئي۔ دوسرے شام، چونکہ شام حافظ اسد(12) کے زمانے سے ہی جنگ کی ابتداء سے ہمارے ساتھ تھا۔ شام نے ہماری مدد کے لیے، بحیرۂ روم کی جانب عراق کے تیل کے راستے کو بند کر دیا، اس کے بعد بھی اس سے جس طرح کی بھی مدد ممکن ہو سکی، وہ کرتا رہا۔ صدارت کے دور میں میرا پہلا غیر ملکی دورہ، شام کا تھا۔ تیسرے لبنان۔ لبنان کیوں؟ اس لیے کہ وہاں انقلاب کے مضبوط اڈے - حزب اللہ اور حزب امل - ہیں جو ایران کے حامی ہیں۔ چوتھے شمالی افریقا میں لیبیا۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ لیبیا نے بعض مواقع پر ہماری پشت پناہی کی تھی، ہماری عسکری پشت پناہی کی تھی، وہ زبان سے بھی ہماری حمایت کرتا تھا۔ پانچویں سوڈان۔ سوڈان کی بھی اپنی خاص وجوہات تھیں جو واضح تھیں۔ اس کے سربراہان کی ہمارے یہاں آمد و رفت تھی، آتے تھے، جاتے تھے، وہاں پر انقلاب آنے کے بعد اور انھیں فتح حاصل ہونے کے بعد مختلف اوقات میں وہ ہم سے رابطے میں رہتے تھے۔ چھٹا ملک صومالیہ تھا، اس کی بھی ایک دوسری وجہ تھی۔
یہ چھے ممالک تھے جنھیں کمزور کیا جانا تھا، ختم کیا جانا تھا، ان کی حکومتوں کو گرایا جانا تھا۔ درحقیقت ان کی نظر میں ایران کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ یہ چھے ممالک تھے، ان کو امریکا اور سامراج کے کنٹرول میں آنا چاہیے تھا، اس کے بعد وہ ایران کا رخ کرتے۔ ایران نے کیا کیا؟ اسلامی جمہوریہ نے کیا کیا؟ اسلامی جمہوریہ نے شمالی افریقا کا رخ ہی نہیں کیا، نہ وہ لیبیا میں گيا، نہ سوڈان میں اور نہ ہی صومالیہ میں، اس کی ٹھوس وجوہات تھیں، جنھیں یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کچھ وجوہات تھیں، ہم نے وہاں نہیں جانا چاہا اور نہیں گئے۔ لیکن ان تین ملکوں، یعنی عراق، شام اور لبنان میں ایران کی کارکردگي کھل کر سامنے آئي۔ ان ملکوں میں ہماری فوجی موجودگی نہیں تھی لیکن وہاں کام ہوا، بڑا کام، اہم کام۔ اس کام کا نتیجہ کیا ہوا؟ ان تین ملکوں میں امریکا کی شکست۔ یہ لوگ عراق کی لگام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا، یہ لوگ شام کی حکومت کو گرانا چاہتے تھے لیکن گرا نہیں سکے، یہ لوگ چاہتے تھے کہ لبنان میں حزب اللہ اور حزب امل کو ختم کر دیں، نہیں کر سکے۔
یہ وہ چال اور سازش تھی جو امریکیوں نے لاکھوں کروڑوں ڈالر - یعنی کئي ارب ڈالر - خرچ کر کے اور اپنے سیکڑوں یا شاید ہزاروں سیاسی مفکرین کے ہزاروں گھنٹے کے سوچ بچار کے بعد تیار کی تھی تاکہ ایران کو نقصان پہنچا سکیں، ان کی چال، ان کی سازش اسلامی جمہوریہ کی ایک عظیم اور کارآمد فورس کے ذریعے ناکام ہو گئي اور اس عظیم فورس کا مظہر اور پرچم ایک شخص تھا جس کا نام تھا الحاج قاسم سلیمانی۔ اب پتہ چلتا ہے کہ کیوں الحاج قاسم سلیمانی کا نام ایرانی قوم کے لیے اتنا محبوب اور ایران کے دشمنوں کے لیے اتنا مغضوب (طیش دلانے والا) ہے کہ ان کا نام آتے ہی یہ لوگ چراغ پا ہو جاتے ہیں، غصے میں آ جاتے ہیں۔ دشمن کے مقابلے میں اس کی گہری سازش کو اسلامی جمہوریہ کی سیاست کے پرچم نے ناکام بنا دیا، یہ الحاج قاسم سلیمانی تھے، خدا انھیں غریق رحمت کرے۔
خیر تو یہ جو باتیں میں نے بیان کیں ان کی بنیاد پر آپ عزیز رضاکار، آپ جوان، دشمن کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کی جنگ کے میدان کا تصور کیجیے، اس بڑی جنگ کا میدان کہاں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ، ملک کے اندر کچھ انقلاب مخالف لوگ نہیں ہیں۔ یہاں آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ دشمن، جے سی پی او اے-2 اور جے سی پی او اے-3 پر اتنا بضد کیوں تھا؟ دوسرے ایٹمی معاہدہ-2 کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ ایران پوری طرح علاقے سے نکل جائے، اپنی علاقائي موجودگي کو چھوڑ دے۔ ایٹمی معاہدہ-3 کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ ایران اس بات کو تسلیم کرے کہ وہ کوئي بھی اہم اسٹریٹیجک ہتھیار نہیں بنائے گا، اس کے پاس ڈرون نہیں ہوں گے، میزائل نہیں ہوں گے کہ اگر کبھی ہم نے حملہ کیا تو وہ جی تھری اور رائفل لے کر ہمارے ٹینکوں کے مقابلے میں آئے! اس کا مطلب یہی تو تھا! وہ اس پر بضد تھے، کچھ لوگ ملک کے اندر بھی، یقینا غفلت کی بنا پر، ان کی انہی باتوں کو دوہراتے تھے۔ جنگ کا میدان یہ ہے، آپ اس میدان میں لڑ رہے ہیں۔ ملک میں بسیج کی موجودگي کا مطلب، اس طرح کی بڑی سازشوں کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہو جانا ہے۔ آپ نے مقامات مقدسہ کا دفاع کیا، امریکا کے ہاتھوں تیار شدہ گروہ یعنی داعش کے مقابلے میں ڈٹ گئے، مجاہدت کی، یہ آپ تھے۔ آپ نے لبنان کے شجاع مجاہدوں کی جس طرح سے بھی ہو، مدد کی، آپ نے فلسطینیوں کی بھی مدد کی، آگے بھی کریں گے، ہم پھر ان کی مدد کریں گے۔
لڑائی کا میدان، اس طرح کا میدان ہے۔ میدان، سڑک پر آ کر ہنگامہ مچانے والے دو چار لوگ نہیں ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہنگامہ کرنے والے ان افراد کو نظر انداز کر دیں، نہیں ہر ہنگامہ کرنے والے اور ہر دہشت گرد کو سزا ملنی چاہیے – اس میں کوئي شک نہیں ہے – لیکن میدان صرف یہی نہیں ہے، میدان اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے، میدان اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ آپ اس میدان کے بیچ میں کھڑے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ رضاکار اپنی قدر جانے۔ بسیج کی قدر جانیے۔ آپ اس طرح کے ایک میدان میں لڑ رہے ہیں، اپنے آس پاس موجود ان معمولی کاموں تک خود کو محدود نہ سمجھیے۔ البتہ ان کاموں کا بھی علاج ہونا چاہیے۔ ہنگامہ مچانے والے ان بلوائیوں سے مقابلہ بھی بسیج کے اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ یہ بلوائی انہی لوگوں کے مہروں کے طور پر کام کر رہے ہیں جنھوں نے اس بڑی سازش میں منہ کی کھائي تھی، وہاں شکست کھائي تھی، اب دوسری طرح میدان میں آنا چاہتے ہیں، ہنگامے شروع کرواتے ہیں، کوئي نعرہ لگاتا ہے، کوئي لکھتا ہے، کوئي کچھ اور کرتا ہے۔ بسیج کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹکراؤ، عالمی سامراج سے ہے۔ ہنگامہ مچانے والے یہ دو چار لوگ یا غافل ہیں، یا جاہل ہیں، یا بے خبر ہیں، یا انھیں غلط تجزیہ پیش کیا گيا ہے یا کچھ زرخرید ہیں، اصلی دشمن وہاں ہے، اصلی مقابلہ وہاں ہے۔
یہاں واقعی افسوس ہوتا ہے، کچھ لوگ سیاسی فہم و شعور کا دعوی کرتے ہیں لیکن بعض اخباروں میں یا سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے بعض پلیٹ فارمز پر ان کے تجزیے دیکھ کر واقعی انسان کو افسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے ملک میں جو یہ ہنگامے کروائے جا رہے ہیں، انھیں ختم کروانے اور لوگوں کو چپ کرانے کے لیے – یہ بات وہ لوگ کہتے ہیں جو سیاست کا علم رکھنے، سیاست سے واقفیت اور عالمی حالات سے مطلع ہونے کا دعوی کرتے ہیں! – آپ کو امریکا سے اپنے مسائل حل کر لینے چاہیے، یہ بات وہ لوگ کھل کر لکھتے ہیں! صاف صاف لکھتے ہیں کہ امریکا سے اپنے مسائل کو حل کیجیے۔ یا کہتے ہیں قوم کی آواز سنیے۔ میں نے یہ دو باتیں، تحریروں میں دیکھی ہیں: امریکا سے اپنے مسائل حل کیجیے، قوم کی آواز سنیے۔
اچھا! امریکا سے کس طرح مسائل حل ہو سکتے ہیں؟ یہ اصلی سوال ہے، سنجیدہ سوال ہے۔ ہم آپس میں جھگڑنا نہیں چاہتے، ہم سوال کر رہے ہیں؟ امریکا کے ساتھ مسئلہ کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ بیٹھنے، بات کرنے اور امریکا سے وعدہ لینے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ امریکا کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے سے، اس سے وعدہ لینے سے کہ آپ فلاں کام کیجیے اور فلاں کام نہ کیجیے، مشکل برطرف ہو جائے گي؟ الجزائر اعلامئے کے معاملے میں، سنہ 1981 میں یرغمالوں کی رہائي کے مسئلے میں آپ نے بیٹھ کر امریکا سے بات کی تھی۔ میں ان دنوں رکن پارلیمنٹ تھا – البتہ اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں تھا، محاذ پر تھا، اہواز میں تھا – اسی وقت یہاں تہران میں یہی حضرات الجزائر کی ثالثی میں بیٹھے، امریکیوں سے بالواسطہ گفتگو کی – البتہ پارلیمنٹ کی منظوری سے، غیر قانونی کام نہیں تھا – امریکا سے باتیں طے کیں، اس سے متعدد وعدے لیے کہ ہمارے اثاثوں کو ریلیز کیجیے، ہم پر عائد پابندیاں ختم کیجیے، ہمارے داخلی امور میں مداخلت نہ کیجیے، ہم اپنی طرف سے یرغمالوں کو رہا کر دیں گے۔ ہم نے یرغمالوں کو رہا کر دیا، کیا امریکا نے اپنے وعدوں پر عمل کیا؟ کیا امریکا نے پابندیاں ہٹائيں؟ کیا امریکا نے ہمارے منجمد اثاثے ہمیں لوٹائے؟ نہیں! امریکا وعدہ پورا نہیں کرتا ہے، تو یہ امریکا کے ساتھ بیٹھنے اور اس سے مذاکرات کرنے کی حقیقت ہے۔ یا ایٹمی معاہدہ، انھوں نے کہا کہ اگر آپ نیوکلیئر صنعتی سرگرمیاں کم کر دیجیے – ان کی یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئي کہ بند کر دیجیے – اس حد تک کم کر دیجیے تو ہم یہ کام کریں گے، پابندیاں ہٹا لیں گے، یہ کام کریں گے، وہ کام کریں گے، کیا انھوں نے یہ سارے کام کیے؟ نہیں کیے نا! مذاکرات، امریکا کے ساتھ ہمارے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔
جی ہاں، امریکا کے ساتھ ہمارے مسائل کو ایک چیز حل کر سکتی ہے، کون سی چیز؟ ہم امریکا کو غنڈہ ٹیکس دیں، صرف ایک بار نہیں، امریکی صرف ایک بار کے غنڈہ ٹیکس پر راضی نہیں ہیں، آج غنڈہ ٹیکس دیں، کل دوسری طرح سے مانگیں گے، ہم پھر انھیں غنڈہ ٹیکس دیں، پرسوں پھر آئیں گے، ایک الگ طرح سے غنڈہ ٹیکس مانگیں گے، ہم پھر انھیں غنڈہ ٹیکس دیں۔ آج وہ کہہ رہے ہیں ایٹمی سرگرمیوں کو بند کرو – پہلے کہیں گے کہ بیس فیصد (افزودگي) کو بند کریں، پھر کہیں گے کہ پانچ فیصد کو بند کرو، پھر کہیں گے کہ ایٹمی سرگرمیوں کی بساط ہی لپیٹ دو – پھر کہیں گے اپنے آئين کو بدل دو، پھر کہیں گے کہ گارجیئن کونسل کو ختم کرو، امریکی غنڈہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ امریکا سے آپ کے مسائل ختم ہو جائيں تو آپ کو یہ کام کرنا ہوگا، لگاتار غنڈہ ٹیکس دینا ہوگا۔ امریکا یہ سب چاہتا ہے: اپنی سرحدوں کے اندر خود کو محبوس کر لو، نہتے ہو جاؤ، اپنی دفاعی صنعتوں کو بند کر دو۔ کون سا غیرت مند ایرانی یہ غنڈہ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ اسلامی جمہوریہ کا حامی، ممکن ہے کوئي اسلامی جمہوریہ کو تسلیم نہ کرتا ہو لیکن ایرانی ہو اور اس میں ایرانی غیرت ہو تو وہ بھی یہ غنڈہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ امریکا، اس سے کمتر پر راضی نہیں ہے، وہ یہ بات کیوں نہیں سمجھتے؟ امریکا سے مذاکرات سے کوئي مشکل حل نہیں ہوگي۔ اگر آپ اسے غنڈہ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں، ایک دو بار نہیں، لگاتار، تمام بنیادی امور میں اور اپنی سبھی ریڈ لائنوں کو کراس کر جائيے، ہاں پھر امریکا کو آپ سے کوئي پرابلم نہیں ہوگي، پہلوی زمانے کی طرح۔ لوگ اس لیے انقلاب لے کر آئے تھے؟ اس لیے اتنے سارے شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا تھا؟ یہ ملک جو اس طرح ترقی کر رہا ہے، یہ جوان ہر میدان میں اس طرح کام کر رہے ہیں، ان کے ساتھ اس طرح بات کی جانی چاہیے؟ ان سے یہ کہا جانا چاہیے؟
وہ کہتا ہے کہ قوم کی آواز سنیے! قوم کی گھن گھرج والی آواز اس سال چار نومبر کو بلند ہوئي، تم نے سنی؟ تم قوم کی آواز سنو! شہید قاسم سلیمانی کے جلوس جنازہ کو کتنے دن ہوئے ہیں؟ وہ عظیم الشان مجمع، ایرانی قوم کی آواز تھی، ایک کروڑ یا شاید ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کی شرکت سے نکلنے والا جلوس جنازہ، ایرانی قوم کی آواز تھی۔ آج شہیدوں کے جلوس جنازہ، ایرانی قوم کی آواز ہیں۔ جیسے ہی کوئي اصفہان میں، شیراز میں، مشہد میں، کرج میں، کسی بھی دوسری جگہ، شہید ہوتا ہے، لوگوں کی ایک بھاری بھیڑ چل پڑتی ہے اور دہشت گرد کے خلاف، ہنگامہ کرنے والوں کے خلاف نعرے لگاتی ہے، قوم کی آواز یہ ہے، تم قوم کی آواز کیوں نہیں سنتے؟
خیر، یہ وہ باتیں تھیں جو میں بسیج کے بارے میں کہنا چاہ رہا تھا۔ وقت بھی گزرتا جا رہا ہے، میں یہاں اور ملک کے کسی بھی مقام پر یہ باتیں سننے والے رضاکار بھائيوں اور بہنوں کو کچھ نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی نصیحت یہ ہے کہ رضاکار باقی رہیے، رضاکار باقی رہنے کے لیے خدا سے مدد طلب کیجیے، رضاکارانہ جذبے اور رضاکارانہ ایمان کو محفوظ رکھیے۔
دوسری، اپنی قدر جانیے، گھمنڈ کی بات نہیں کر رہا ہوں، نہیں، رضاکار ہونے کی خاصیت ہی گھمنڈ نہ کرنا ہے لیکن یہ جان لیجیے کہ خداوند عالم نے آپ کو اتنا اہم موقف اختیار کرنے کی توفیق دی ہے اور آپ نے اختیار بھی کیا ہے، اس کی قدر جانیے۔
تیسری، اپنے دشمن کو پہچانیے اور پہلے تو یہ سمجھیے کہ دشمن کون ہے، دشمن کے بارے میں غلط فہمی میں نہ پڑئے۔ دوسرے جب آپ نے دشمن کو پہچان لیا کہ وہ کون ہے تو پھر اس کے کمزور پہلوؤں کو پہچانیے، دشمن کی کمزوریوں کو پہچانیے۔ دشمن ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ خود کو آپ کی نظروں میں بڑا اور مضبوط دکھائے، یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ دشمن کس حال میں ہے، اس کی کیا کمزوریاں ہیں، کون سے کمزور پہلو ہیں، اس کی ناتوانیاں کیا ہیں۔ دشمن کو پہچانیے، اس کی چالوں کو پہچانیے۔ بہت سے لوگ، دشمن کی چالوں کے سامنے گھبرا جاتے ہیں، اس طرف سے ہوشیار اور چوکنا رہیے۔
اگلی نصیحت آپ کی روحانی پیشرفت کے بارے میں ہے۔ اپنی روحانی پیشرفت کا اندازہ لگائيے، دیکھیے کہ آپ آگے بڑھ رہے ہیں یا پیچھے جا رہے ہیں، یہ اہم ہے۔ دیکھیے کہ آپ نے پچھلے مہینے میں کون سے نیک کام کیے تھے، کون سے اچھے قدم اٹھائے تھے، کیا مدد کی تھی، یا خدانخواستہ کون سا برا کام کیا تھا، اس مہینے آپ کے نیک کام میں اضافہ ہوا ہے یا کمی ہوئي ہے؟ یا مثال کے طور پر وہ غلط کام جو آپ کر رہے تھے، وہ اس مہینے زیادہ ہوا ہے یا کم ہوا ہے؟ اندازہ لگائيے، ناپئے، آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے۔
ہم نے کہا کہ دشمن کے طریقوں کو پہچانیے۔ آج دشمن کا سب سے اہم طریقۂ کار جھوٹ بولنا اور من گھڑت باتیں پھیلانا ہے۔ آج دشمن جو سب سے اہم کام کر رہا ہے وہ جھوٹ پھيلانا ہے۔ یعنی یہی ٹی وی چینل جو آپ جانتے اور دیکھتے ہیں کہ دشمن کے ہیں یا یہی سائبر اسپیس، جھوٹی خبریں دیتے ہیں اور جھوٹے تجزیے پیش کرتے ہیں، جھوٹے ہلاک شدگان کا نام لیتے ہیں۔ جھوٹ کہہ کر کسی کو اچھا اور کسی کو برا بنا دیتے ہیں، جھوٹ سے۔ کچھ لوگ یقین کر لیتے ہیں۔ جان لیجیے کہ دشمن آج جھوٹ اور دروغگوئي کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ جب آپ کو یہ پتہ چل گيا تو پھر فطری طور پر آپ کے کندھوں پر ذمہ داری آ جاتی ہے، بیان کیجیے، تشریح کیجیے۔ تشریح کے جس جہاد کا ہم نے ذکر کیا ہے(13)، اس کی ایک جگہ یہی ہے، تشریح کا جہاد۔
ہم نے کہا کہ دشمن کے کمزور پہلوؤں کو پہچانیے۔ دشمن کا ایک کمزور پہلو، آپ کی روشن فکری اور بصیرت ہے۔ جب آپ میں روشن فکری اور بصیرت ہوگي تو وہ نقصان اٹھائے گا۔ کوشش کیجیے کہ آپ کی روشن فکری اور بصیرت میں اضافہ ہوتا رہے۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ لوگوں کے دل و دماغ پر مسلط ہو جائے۔ دشمن کے لیے، لوگوں کے دل و دماغ پر تسلط حاصل کرنا، سرزمینوں پر تسلط حاصل کرنے سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر انھوں نے کسی قوم کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا تو پھر وہ قوم، اپنے ملک کو اپنے ہاتھوں سے دشمن کے حوالے کر دے گي۔ دل و دماغ کی حفاظت کیجیے، دماغ پر تسلط بہت اہم ہے۔ کچھ لوگوں نے خود تو جھوٹ نہیں بولا لیکن افسوس کہ دشمن کے جھوٹ کی تصدیق کی۔ خیال رکھیے کہ یہ خطرے آپ کو اور آپ کے لوگوں کو پیش نہ آئيں، اپنے لوگوں کی مدد کیجیے۔
اپنی عملی تیاری کو بھی محفوظ رکھیے۔ غافل نہیں ہونا چاہیے، سیاست کی دنیا میں بھی اس طرح کی غفلتیں زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ ان کے مختلف طریقے ہیں، میں دشمن کا ایک طریقہ بتاتا ہوں۔ دشمن کا ایک کام یہ ہے کہ وہ کسی جگہ پر کوئي کام بہت شور و غل سے شروع کرتا ہے تاکہ سب کی توجہ اس جانب مبذول ہو جائے، پھر کوئي اصلی کام جو وہ انجام دینا چاہتا ہے، کسی دوسری جگہ انجام دیتا ہے۔ سب کی توجہ دوسری طرف ہے، اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے، ہمیں اپنے ہوش و حواس جمع رکھنے چاہیے، خاص طور پر ملک کے حکام کو۔ ملک کے حکام کو، ملک کے اندر، ملک کے باہر، ملک کے آس پاس، ہر طرف توجہ رکھنی چاہیے، ہمارے لیے ملک کے اطراف کے حالات بھی اہم ہیں۔ ہمارے لیے مغربی ایشیا کا خطہ بھی اہم ہے، قفقاز کا علاقہ بھی اہم ہے اورہمارے مشرقی علاقے بھی اہم ہیں، یہ سب اہم ہیں۔ ہماری توجہ ان پر ہونی چاہیے کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے، سبھی کو ان میدانوں میں کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ بھی ایک نکتہ ہے، خاص طور پر جب فٹبال کا ورلڈ کپ جاری ہے، مجھے ان کاموں کی ایک فہرست دی گئي ہے جو مختلف ورلڈ کپس کے دوران انجام پائے ہیں اور غفلت سے فائدہ اٹھایا گيا ہے کیونکہ ورلڈ کپ کے دوران پوری دنیا کی آنکھیں ورلڈ کپ پر لگي رہتی ہیں اور یہ کئي ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ اس عالمی غفلت سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، کچھ کام کرتے ہیں۔ اب جب ورلڈ کپ کا ذکر آ گيا تو کل ہماری قومی فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں نے قوم کا دل خوش کردیا، ان شاء اللہ خداوند عالم انھیں بھرپور خوشی عطا کرے، انھوں نے کل لوگوں کو خوش کر دیا۔ تو یہ بھی ایک نصیحت تھی۔
آخری نصیحت سے پہلے، بسیج کے اندر دشمن کے اثر و رسوخ کی طرف سے ہوشیار رہیے۔ اس پر توجہ دیجیے، کبھی ایک برا آدمی، کبھی ایک نامعقول انسان، غلط لباس پہن لیتا ہے، خود کو کسی ادارے یا گروہ میں پہنچا دیتا ہے، عالم دین کا لباس پہنتا ہے اور خود کو علمائے دین کی صف میں قرار دیتا ہے۔ برا آدمی، بدعنوان آدمی، عالم دین کے لباس میں بھی آ سکتا ہے، وہ رضاکار کا بھیس بھی بدل سکتا ہے، آپ کی توجہ اس پر بھی رہے، یہ بھی ایک نصیحت تھی۔
میری آخری نصحیت قرآن مجید کی یہ آیت ہے: "وَ لا تَھِنوا وَ لا تَحزَنوا وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنین."(14)
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) صحیفۂ امام خمینی، جلد 11، صفحہ 117، سپاہ پاسداران کے درمیان تقریر (25/11/1379) "ہر جگہ ایسا ہو جائے کہ ایک ملک، کچھ سال بعد دو کروڑ جوانوں والا ملک بن جائے، اس کے پاس ہتھیار اٹھانے والے دو کروڑ لوگ ہوں، دو کروڑ کی فوج ہو۔"
(2) صحیفۂ امام خمینی، جلد 21، صفحہ 194، ہفتۂ بسیج کے موقع پر ایرانی قوم اور بسیجیوں کے نام پیغام (23/11/1988)
(3) مختلف شعبوں میں بسیج کے کارناموں کے بارے میں ایک نمائش امام خمینی امام بارگاہ میں لگائي گئي تھی۔
(4) رویان انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر سعید کاظمی آشتیانی
(5) صحیفۂ امام خمینی، جلد 21، صفحہ 194، ہفتۂ بسیج کے موقع پر ایرانی قوم اور بسیجیوں کے نام پیغام (23/11/1988) "بسیج، شجرۂ طیبہ اور ایک تناور اور پھل دار درخت ہے جس کی کونپلوں سے وصل کی بہار، یقین کے نشاط اور حدیث عشق کی خوشبو آتی ہے۔"
(6) سورۂ ابراہیم، آیت 24 اور 25، اللہ نے کس طرح اچھی مثال بیان کی ہے کہ کلمۂ طیبہ (پاک کلمہ) شجرۂ طیبہ (پاکیزہ درخت) کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے، جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے۔
(7) منجملہ، صحیفۂ امام خمینی، جلد 18، صفحہ 12، ماہرین کونسل کے اراکین کے درمیان تقریر (19/7/1983)
(8) 1945 سے 1953 کے درمیان کا عرصہ
(9) جمی کارٹر
(10) منجملہ، تہران کی نماز جمعہ کے خطبے (28/3/1980)
(11) جمال عبدالناصر
(12) شام کے اُس وقت کے صدر
(13) منجملہ، اہلبیت علیہم السلام کے مداحوں اور ذاکروں سے ملاقات میں خطاب (23/1/2022)
(14) سورۂ آل عمران، آيت 139، کمزوری نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب و برتر ہوگے۔