اسلامی انقلاب کی پینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر 11 فروری 2024 کو نئی دہلی میں کتابوں کی بین الاقوامی نمائش کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے اسٹال میں ایران کے نائب وزیر ثقافت و اسلامی ہدایت یاسر احمدوند، ہندوستان میں ایران کے کلچرل ہاؤس کے ڈائریکٹر فریدالدین فرید عصر، ہندوستان میں فارسی زبان کی تحقیقات کے مرکز کے سربراہ قہرمان سلیمانی اور دہلی کتاب میلے میں ایران کے اسٹال میں ایران بک ہاؤس کے مینیجنگ ڈائریکٹر علی رمضانی کی موجودگی میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی کتاب "خون دلی کہ لعل شد" کے اردو اور بنگالی ترجموں کی رسم اجراء عمل میں آئی۔

1.png

ہندوستان میں ایران کے کلچرل ہاؤس کے ڈائریکٹر فریدالدین فرید عصر نے کہا کہ حالیہ برسوں میں اسلامی انقلاب کی تاریخ کے تناظر میں جو اہم ترین کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں سے ایک، "خون دلی کہ لعل شد" ہے جو طاغوتی دور حکومت میں رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی جلاوطنی اور جیل کی سزا کے دوران لکھی ہے اور اس کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ افسوس کہ اب تک یہ کتاب ہندوستان میں شائع نہیں ہوئی تھی اور شائقین تک نہیں پہنچی تھی، اب اس کتاب کا ہندی زبان میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بحمد اللہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے دن یعنی 11 فروری کو اس کتاب کے اردو اور بنگالی ترجموں کی رسم اجراء عمل میں آئی۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ برصغیر کے لوگ، اس کتاب سے مستفیض ہوں گے۔

اس کتاب کے اردو اور بنگالی ترجموں کی رسم اجرا نئی دہلی میں ایران کے کلچرل ہاؤس کی طرف سے انجام پائی۔  کتاب کا اردو ترجمہ "زنداں سے پرے رنگ چمن" کے نام سے شائع ہوا ہے۔

2.png

"خون دلی کہ لعل شد" بظاہر یادوں اور یادداشتوں کا ایک مجموعہ ہے لیکن جو چیز اس کتاب کو اس طرح کی دوسری کتابوں سے الگ کرتی ہے وہ ایسی عبرت آمیز، حکمت آمیز  اور سبق آموز باتیں ہیں جو یادوں کے تذکرے کے دوران بیان کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر ایک، کتاب کے قاری خاص طور پر نوجوانوں اور جوان کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس کتاب میں اپنے بچپن اور تعلیم کی شروعات کے دنوں سے لے کر طاغوتی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کے آغاز کے دنوں تک اور پھر ٹکراؤ، گرفتاری وغیرہ جیسی تمام چیزوں کو پوری تفصیل کے ساتھ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی اس کتاب کی ایک دوسری خصوصیت، طوالت سے پرہیز ہے۔ انھوں نے غیر ضروری اور غیر مفید باتوں کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے اور قاری جو کچھ بھی پڑھتا ہے، وہ ایسی باتیں ہیں جن میں یا تو کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے یا کسی نئی بات کا انکشاف ہوتا ہے۔ اس کتاب میں درج تمام باتوں کو بڑی دقت نظر اور بھرپور توجہ کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے اور کتاب قاری کے سامنے اس ماحول کی ایک جامع اور مکمل تصویر پیش کرتی ہیں جس میں رہبر انقلاب اسلامی اور ان کے دوسرے ساتھی جدوجہد کر رہے تھے۔ اگرچہ "خون دلی کہ لعل شد" زیادہ تر رہبر انقلاب اسلامی کی جلاوطنی اور قید کے ایام کی روداد سناتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہی وہ ان کے افکار اور زندگی کے امور میں ان کی روش کی دلچسپ تفصیلات بھی پیش کرتی ہے۔

اس کتاب کا قاری، رہبر انقلاب اسلامی کی یادوں اور یادداشتوں کے تناظر میں منحوس پہلوی حکومت کے جرائم اور مظالم سے آگاہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جدوجہد کرنے والوں پر پڑنے والی سختیوں، تلخیوں اور مصائب اور ان کے مقابلے میں انقلابیوں کی استقامت، خلوص اور ایمان سے بھی مطلع ہوتا ہے۔

شاید کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کا سب سے اہم پہلو وہی چیز ہے جو اس کتاب کے نام سے متجلی ہوتا ہے یعنی صبر و استقامت کے بعد فتح کی شیرینی۔ (واضح رہے کہ "خون دلی کہ لعل شد" عربی زبان میں شائع ہونے والی کتاب "انّ مع الصبر نصراً" بے شک فتح، صبر کے ساتھ ہے۔) محمد علی آذرشب نے جلاوطنی اور جیل میں رہبر انقلاب اسلامی کی یادداشتوں کو اکٹھا کیا جن کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا اور جسے "انّ مع الصبر نصراً" کے نام سے بیروت میں شائع کیا گیا اور حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ اپنی تقریر میں اس کا تعارف کرایا۔

بیروت میں اس کتاب کی اشاعت کے بعد محمد حسین باتمان غلیچ نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا اور انقلاب اسلامی پبلیکشنز نے اسے "خون دلی کہ لعل شد" کے نام سے پہلی بار سنہ 2018 میں شائع کیا۔ اس کتاب پر بہت سی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں سے ایک سید حسن نصر اللہ ہیں۔ انھوں نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ جب یہ کتاب میرے پاس پہنچی تو میں نے اسی رات اسے پڑھ ڈالا۔ یہ کتاب مغرب کے وقت مجھے ملی تھی اور یہ اتنی اشتیاق انگیز تھی کہ میں نے اسی رات اسے مکمل طور پر پڑھ لیا۔

"خون دلی کہ لعل شد" انقلاب اسلامی پبلیکشنز کی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں سے ایک ہے جو خود رہبر انقلاب اسلامی کے بقول ان کے بچپن سے لے کر اسلامی انقلاب کی کامیابی تک کی یادوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کو پندرہ ابواب میں قلمبند کیا گیا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے بچپن اور تعلیم کی شروعات پر خاص توجہ دی ہے اور اپنی یادوں کو ان دینی مدارس سے شروع کیا ہے جن میں انھوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کی تھی۔ انھوں نے اپنی تعلیم کے دوران کے اساتذہ کا ذکر کیا اور اس سلسلے میں اپنے والد یعنی آیت اللہ سید جواد خامنہ ای کا بھی بہت عزت و احترام سے تذکرہ کیا ہے۔

کتاب کے اگلے حصے میں انھوں نے یہ بتایا کہ کس طرح انھوں نے عربی زبان سیکھنا شروع کیا اور اپنی والدہ کے عربی زبان پر عبور اور اسی طرح عربی کے بڑے بڑے شعراء اور مصنفین کی کتابوں سے ان کی آشنائی کو عربی زبان سیکھنے میں خود کے لیے بہت مؤثر بتایا ہے۔

3.png

کتاب کا اگلا حصہ، شہید نواب صفوی سے رہبر انقلاب اسلامی کی شناسائی پر مشتمل ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ہی آیت اللہ خامنہ ای میں انقلاب اور شہادت کی پہلی چنگاری روشن کی۔ اس حصے میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ نواب صفوی دینی طلبہ کو وعظ و نصیحت کرتے تھے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ وہ تقویٰ و پرہیزگاری کو اپنا شیوہ بنائیں۔ ان کی یہ آواز اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے کہ " یابن آدم! وَفّر الزاد فَانّ الطریق بعید بعید ... و جدّد السفینۃ فَانّ البحر عمیق عمیق..." (اے ابن آدم! اپنے توشے کو زیادہ سے زیادہ بڑھاؤ کہ راستہ بہت لمبا، بہت طویل ہے ... اور اپنی کشتی کو نیا بنا لو کہ سمندر بہت گہرا، بہت عمیق ہے۔)

امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے شناسائی، انقلابی تحریک کا آغاز، انقلابی کاروائیوں اور سماجی سطح پر حالات سے لوگوں کو باخبر کرنے کے لیے منصوبہ بندی سے لے کر 5 جون 1963 کا واقعہ اور امام خمینی کی گرفتاری ایسے موضوعات ہیں جن کا ذکر اس کتاب کے اگلے باب میں کیا گیا ہے۔

آگے چل کر انقلابی تنظیموں کی تشکیل کے تناظر میں آیت اللہ خامنہ ای کی بعض سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اس کتاب کے ایک حصے میں کہتے ہیں: "میں اور کچھ دوست، تنظیمی امور میں، جو قم میں ایک دلچسپ اور جدت عمل والا کام تھا، مہارت رکھتے تھے ...تحریک کے دوران اور اس کے آغاز سے لے کر قم سے میرے باہر نکلنے تک (تقریبا ڈیڑھ سال میں) ہم نے کئی تنظیموں کی تشکیل کی جن میں سے کچھ تو ایک ہی وقت میں تشکیل پائیں جبکہ بعض یکے بعد دیگرے تشکیل پائیں۔ ان میں سے ایک علمائے قم گروہ کے نام سے تشکیل پانے والی تنظیم تھی، جس میں بڑی تعداد میں علماء شامل تھے، اسی تنظیم کا نام آگے چل کر "جامعۂ مدرسین" (ٹیچرز سوسائٹی) پڑا۔ اس تنظیم کے بہت سے اراکین، اس کی تشکیل میں میرے کردار سے لاعلم تھے اور جب امینی صاحب نے یہ بات انھیں بتائی تو ان میں سے کئی حیرت زدہ رہ گئے۔ ایک دوسری تنظیم، گیارہ افراد کے ایک گروہ پر مشتمل تھی۔ اس کے اراکین میں یہ افراد شامل تھے: میں، جناب ہاشمی رفسنجانی، میرے بھائی سید محمد، جناب مصباح یزدی (جو اس تنظیم کی نشستوں کی تفصیلات لکھا کرتے تھے) جناب امینی، جناب مشکینی، جناب منتظری، جناب قدوسی، جناب آذری قمی، جناب حائری تہرانی اور جناب ربانی شیرازی۔"

اس کے بعد انقلابیوں کی جانب سے بدعنوان پہلوی حکومت کے جرائم کا کچا چٹھا کھولے جانے اور 1963 سے آیت اللہ خامنہ ای کی انقلابی سرگرمیوں کی یادوں کو رقم کیا گیا ہے۔ یہ یادیں 1963 کے موسم بہار سے شروع ہوتی ہیں اور 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی تک جاری رہتی ہیں۔

4.png

اس کتاب کی ایک اور خصوصیت پہلوی حکومت کی جیلوں کی تفصیلات ہیں جنھیں رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی مسلسل گرفتاریوں اور مختلف جیلوں میں قید کیے جانے کے پیش نظر بخوبی بیان کیا ہے۔

رہبر انقلاب نے اپنی ازدواجی زندگی کے دوران اپنی اہلیہ کے کردار کے بارے میں بھی کچھ باتیں بیان کی ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ کے اطمینان و سکون، مضبوط جذبے اور سادگی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ "اس نیک خاتون کے زہد و پارسائی کے سلسلے میں میرے ذہن میں بہت سی تصاویر ہیں جن میں سے بعض کو بیان کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ جو بات میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ انھوں نے مجھ سے کبھی بھی لباس خریدنے کے لیے نہیں کہا بلکہ کپڑوں کے سلسلے میں گھر والوں کی انتہائی ضرورت کی چیزوں کے بارے میں وہ مجھ سے کہتی تھیں اور خود ہی جا کر خرید لاتی تھیں۔ انھوں نے کبھی اپنے لیے کوئی زیور نہیں خریدا۔ ان کے پاس کچھ زیور تھے جو وہ اپنے والد کے گھر سے لائی تھیں یا بعض رشتہ داروں نے تحفے میں دیے تھے۔ انھوں نے وہ سارے زیور فروخت کر دیے اور اس سے ملنے والے پیسوں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دیا۔ اس وقت ان کے پاس زر و زیور کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے، یہاں تک کہ ایک معمولی سی انگوٹھی بھی نہیں ہے۔"

آیت اللہ خامنہ ای کی یادوں کا ایک بہت ہی اہم حصہ، ایرانشہر میں ان کی جلاوطنی کے زمانے کا ہے۔ وہ پہلے تو یہ بتاتے ہیں کہ انھیں کیوں اور کس طرح اس شہر میں جلاوطن کیا گیا اور جلاوطنی کے زمانے میں اس شہر کے حالات کیا تھے۔ وہ اس شہر کی مسجد "آل الرسول" کو دوبارہ آباد کر کے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت کے موقع پر برادران اہلسنت کے ساتھ مشترکہ تقریب منعقد کرکے اسلامی مسالک کے درمیان اتحاد کے مظہر میں تبدیل ہو گئے۔ اس وحدت کے نتائج، ایرانشہر میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے دوران دکھائی دیے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے، جناب راشد یزدی اور جناب رحیمی کے ساتھ تعاون کر کے (ان دونوں کو بھی اسی شہر میں جلاوطن کیا گیا تھا) مسجد کو سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہو جانے والے لوگوں کی مدد کے لیے ایک مرکز بنا دیا اور آیت اللہ صدوقی، آیت اللہ کفعمی وغیرہ دوسرے شہروں کے علماء اور بزرگان سے مدد حاصل کر کے شہر کے لوگوں کی مشکلات کو برطرف کر دیا۔ اس حصے کے آخر میں وہ کہتے ہیں: "امداد رسانی کے پچاس دن پورے ہونے اور جہاں تک ہم سے ممکن تھا سیلاب کے تخریبی اثرات کو دور کرنے کے بعد ہم نے ایک بڑا جشن منعقد کیا اور میں نے اس تقریب میں تقریر کی۔ اس تقریر کی آڈیو کیسٹ اور جشن کی تصاویر اب بھی موجود ہیں۔"

رہبر انقلاب اسلامی "خون دلی کہ لعل شد" میں بتاتے ہیں کہ ایرانشہر میں انقلاب کی خبریں ان تک پہنچتی تھیں اور 9 جنوری 1978 کے بڑے واقعے اور پھر تبریز، یزد اور دوسری جگہوں پر عوام کے قیام جیسے واقعات نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ایک بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای ان دنوں جیرفت میں جلاوطنی کے دن گزارنے کے بعد مشہد چلے گئے اور انھوں نے اس شہر میں اپنی انقلابی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں۔

بہرحال 'زنداں سے پرے رنگ چمن' کتاب کا انداز قصہ گوئی کا ہے لیکن اس میں حکمت آمیز باتوں اور عبرتوں کا خزانہ ہے۔ اس میں پند ہے، نصیحت ہے، درس ہے۔ زندگی کا سبق، توکل و توسل کا سبق، دینداری کا سبق، صبر و مزاحمت و استقامت و شجاعت کا سبق، زہد و پارسائی کا سبق، عوام کے لئے درمندی، سختیوں کا مقابلہ کرنے میں دانشمندی، بحرانی حالات کو سنبھالنے کی مہارت، تنظیمی صلاحیت، مطالعہ اور علم دوستی اس کے علاوہ بہت سارے سبق ہیں ہر طبقے اور ہر نسل، خاص طور پر نوجوان نسل کے لئے۔

واضح رہے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ پاکستان میں بھی حجت الاسلام و المسلمین راجا ناصر عباس جعفری کی کوششوں سے 'الولایہ' پبلیکیشنز سے شائع ہوا ہے۔

5.png