ایک اہم بات یہ ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کا وجود مقدس الہی دعوتوں اور نبوت کے سلسلوں کا  ایک تسلسل ہے، اول تاریخ سے آج تک انسان (اور بشریت کو) الہی دعوت، پیغمبر اور الہی نمائندوں اور دعوت دینے والوں کی ضرورت رہی ہے، اور یہ ضرورت عصر حاضر میں بھی باقی ہے، جس قدر زمانہ گزرتا جا رہا ہے، انسان انبیا کی تعلیمات سے زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے، آج انسانی معاشرہ اپنے فکری ارتقا، تہذیب اور علم و معرفت کے باعث انبیا (علیہم السلام) کی بہت سی تعلیمات کو، جو آج سے دسیوں صدیاں پہلے انسان کی سمجھ سے دور تھیں، اب سمجھ سکتا ہے، یہی عدل و انصاف کا مسئلہ، آزادی کا مسئلہ، انسانی عزت و کرامت کا مسئلہ ، یہ باتیں جو آج دنیا میں رائج ہیں، انبیا علیہم السلام کی باتیں ہیں۔ اُس وقت عوام الناس اور عام لوگوں کے اذہان ان مطالب کو سمجھ نہیں پاتے ہیں، پیغمبروں کا پے در پے آتے رہنا اور پیغمبروں کی تعلیمات کا پھیلتے جانا سبب بنا کہ یہ افکار لوگوں کے ذہن میں لوگوں کی فطرت میں، لوگوں کے دل میں نسل در نسل گھر بناتی جا رہی ہیں، اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کا وہ سلسلہ آج بھی منقطع نہیں ہوا ہے، بقیۃ اللہ الاعظم (ارواحنا فداہ) کا مقدس وجود اللہ کی طرف دعوت دینے والے اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جیسا کہ زیارت آل یاسین میں آپ کہتے ہیں: ’’ السّلام ُ علیکمَ یا داعیاً لِللّہ و ربّانی آیاتہ‘‘ یعنی آج آپ وہی ابراہیم علیہ السلام کی دعوت، وہی موسی علیہ السلام کی دعوت، وہی عیسی علیہ السلام کی دعوت، وہی تمام نبیوں، وہی تمام الہی مصلحتوں اور خود پیغمبر خاتم کی دعوت، حضرت بقیۃ اللہ کے وجود میں مجسم دیکھتے ہیں۔

امام خامنہ ای

20/  ستمبر / 2005