زیر سرویس 1: 
زیر سرویس 2: 
زیر سرویس 3: 
سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے خطاب

سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 آبان 1373 ہجری شمسی مطابق 2 نومبر سنہ 1994 عیسوی کو سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کے موقعے پر یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طلبہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کیا۔ ایران میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کا دن سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مناسبت سے اپنے خطاب میں چار جون کی رونما ہونے والے اہم ترین واقعات پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج میں سامراج کے خلاف جدوجہد کے تعلق سے ایک بات عرض کروں گا تا کہ معلوم ہو جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟ ‍قضیے کی بنیاد کیا ہے؟ اس مسئلے کا ماضی میں تسلسل کہاں تک ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ان دنوں، یونیورسٹی طلبا نے ایران میں امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کیا تھا۔ مگر آج کی نوجوان نسل، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا جو میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، امیدوں کو باقی رکھا ہوئے ہیں اور ہماری آنکھوں کو روشن کر رہے ہیں، وہ اس قضیے کے ماضی کے بارے میں کیا جاتنے ہیں؟ ان کی معلومات کتنی ہیں؟ خطیبوں، قلمکاروں اور ان لوگوں نے جو اس الہی سیاست کے میدان میں، اپنے دوش پر ذمہ داری اٹھانے کے قائل ہیں، ان لوگوں نے ہماری اس ترقی پذیر نسل کے لئے، جس سے ملک کو ہزاروں کام ہیں، اس مسئلے کی کتنی تشریح کی ہے؟ بنابریں ایک مسئلہ یہ ہے۔ میں آج تھوڑا سا اس بارے میں خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے عرض کروں گا، جو انیس سو اناسی میں یعنی آج سے پندرہ سال قبل بچے تھے اور ہمارے بہت سے اسکولی طلبا اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس مسئلے کے بیان کے بعد آپ کی خدمت میں جو انقلاب اور اس کے ہم جیسے خادمین کے سب سے زیادہ مضبوط اور باقی رہنے والے مخاطبین ہیں، ایک انتہائی بنیادی بات عرض کروں گا۔
کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب

کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 13 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 5 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کیڈٹ یونیورسٹیوں کی اہمت اور گراں قدر کارکردگی پر روشنی ڈالی اور کیڈٹس کے اسلامی و قومی فرائض کی تشریح کی۔ آپ نے دفاعی شعبے میں خودانحصاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم فوج، سپاہ پاسداران انقلاب، مسلح افواج اور پولیس پر توجہ دیتے ہیں، ان کے امور کو دیکھتے ہیں، وہ اسلامی جمہوری نظام کے باشرف ترین اراکین ہیں۔ مگر ہماری کوشش یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، اس عظیم فوج کا سرحد کے اس پار کی دنیا سے انحصار کم سے کم کریں۔ لہذا ہماری بیرونی خریداری خلیج فارس کے ساحلی ملکوں سے بہت کم ہے جو ایران کے ایک ضلع کے برابر بھی سربلند اور بڑے نہیں ہیں۔ ان کے ہاں امپورٹڈ ساز و سامان ہم سے بہت زیادہ ہے اور وہ بھی بیکار کی چیزیں خریدتے ہیں۔ کیا جنگی وسائل، ہوائی جہاز اور ٹینک کسی ملک کو بچا سکتے ہیں؟ عزم و ارادے اور انسان ہیں جو اپنے وطن، اپنی اقدار اور قوم کا دفاع کرنے پر قادر ہیں۔ وہ اپنی غلط سیاست اور حکومتوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے اس عظیم عنصر سے محروم ہیں۔ مسلسل پیسے خرچ کرتے ہیں اسلحے بنانے والے کارخانوں کو دیوالیہ ہونے سے نجات دلاتے ہیں مگر اپنی قوم اور علاقے کے نقصان میں۔ اس کے باوجود ان کی اور ان کے فریبی آقاؤں کی فریاد بلند ہو رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عسکریت پھیلا رہا ہے۔
حج کمیٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں سے خطاب

حج کمیٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 31 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 20 اپریل سنہ 1994 عیسوی کو حج کمیٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں حج کے رموز پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوندعالم تمام مسلم اقوام میں سے ایک جماعت کو دعوت دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ آؤ ان معین ایام میں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔ ثم افیضوا من حیث افاض الناس سب مل کر چلو۔ مل کر فیض حاصل کرو۔ سب مل کر طواف کرو۔ یہ ہمہ گیر اجتماع کس لئے ہے؟ دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، کیا کرنے کے لئے؟ جمع ہوں اور خاموشی سے ایک دوسرے کی صورت دیکھیں اور چند دنوں کے بعد اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں؟ ایک جگہ کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اپنے اختلاف بیان کریں؟ اکٹھا ہونے کا مقصد کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ تمام مسلم اقوام کے افراد کا ایک جگہ اور وہ بھی ایک مقدس جگہ پر جمع ہونے کا صرف یہ فائدہ اور مقصد ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ جمع ہوں تاکہ امت اسلامیہ کی سرنوشت کے بارے میں اہم فیصلے کریں اور اس مجمع میں امت کی حیثیت سے ایک اچھا قدم اٹھائیں اور تعمیری اور مثبت کام کریں۔ یہ مثبت اور تعمیری کام کس کیفیت کا ہو سکتا ہے؟ اس کیفیت کا کہ ایک زمانے میں مسلم اقوام اتنی ترقی یافتہ ہوں - دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے- جب حج میں جمع ہوں اور اس عظیم عوامی اجتماع کے دوران، اقوام کے منتخب افراد کی ہزاروں افراد پر مشتمل اسمبلی تشکیل پائے اور یہ اسمبلی فیصلے کرے اور یہ فیصلے اسی عوامی اجتماع میں مختلف ملکوں سے آنے والے تمام عازمین حج کے ذریعے منظور کئے جائیں اور پھر عمل درآمد کے لئے اقوام اور حکومتوں کے حوالے کئے جائیں۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پانچویں برسی پر خطاب

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پانچویں برسی پر خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 4 جون سنہ 1994 عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پانچویں برسی کی مناسبت سے اپنے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت اور آپ کے عظیم کارناموں پر گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا کہ تین خصوصیات حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں نمایاں تھیں۔ آپ کا ایمان مثالی اور استثنائی تھا۔ آپ کا عمل صالح ایسا تھا کہ صدر اسلام کے بعد سے آج تک کسی نے انجام نہیں دیا۔ یعنی اسلامی نظام کی تشکیل جس کے بارے میں آج میں اختصار کے ساتھ کچھ باتیں بیان کروں گا۔ آپ کا تزکیہ نفس ایسا تھا کہ آپ نے شہرت، طاقت اور مقبولیت کے عروج کے زمانے میں، اپنے لئے اوج عبودیت کا انتخاب کیا اور ہر گذرنے والے دن کے ساتھ خداوند عالم سے آپ کا توسل، تقرب اور اس کے حضور گریہ و زاری بڑھتا ہی رہا۔
یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے خطاب

یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 13 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 2 مئی سنہ 1994 عیسوی کو یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے ٹیچروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے اجتماع سے خطاب میں معاشرے کے ان دونوں طبقات کی گراں قدر خدمات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بات کہنے سے رہ نہ جائے کہ ان دونوں طبقات کے پاس وسائل کم ہیں اور یہ پہلو بھی ان کا ایک خاص امتیاز ہے۔ بنابریں معلم اور محنت کش دونوں عزیز، محترم اور مکرم طبقات ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے اور دونوں ہی حقیقی قدروں کی اساس پر محترم ہیں اور یہ اپنی جگہ پر مسلمہ امر ہے۔ ملک کے منصوبے بنانے والے، پلاننگ کرنے والے اور دوسرے ذمہ دار افراد اس بات پر توجہ رکھیں کہ ہمارے معاشرے کے یہ دونوں طبقات، بہت مخلص، بہت مومن اور ملک کی سرنوشت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ اس اہم پہلو کو مد نظر رکھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ٹیچر اور محنت کش افراد کی خاص نیت اور سوچ کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی پر زور دیا۔
عوام کی خدمت ایک توفیق، قم کے حکام سے خطاب

عوام کی خدمت ایک توفیق، قم کے حکام سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 5 آبان سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق 27 اکتوبر سنہ 2010 عیسوی کو صوبہ قم کے مختلف شعبوں کے حکام اور عہدہ داروں کے اجلاس سے خطاب میں عوام کی خدمت کو ایک توفیق قرار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ خدمت قم کے عوام کی مانند باایمان، مجاہد، سماجی اقدامات کے لئے جوش و جذبے سے سرشار اور امتحانوں میں پورے اترنے والے لوگوں کے لئے ہو تو یقینا اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
کرمانشاہ کے علاقے پاوہ میں عوامی استقبالئے سے خطاب

کرمانشاہ کے علاقے پاوہ میں عوامی استقبالئے سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شیعہ سنی اختلاف کو دشمن کی اہم ترین اسٹریٹیجی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کی تفرقہ انگيزی کا مقصد قوموں کی نگاہ میں اسلامی جمہوریہ کے کامیاب نمونے کی تشکیل کو روکنا ہے۔
عید غدیر کے موقع پر ملک کے حکام سے قائد انقلاب اسلامی کا خطاب

عید غدیر کے موقع پر ملک کے حکام سے قائد انقلاب اسلامی کا خطاب

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 8 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 29 مئی سنہ 1994 عیسوی کو عید غدیر کے موقع پر ملک کے حکام سے خطاب میں اس عظیم دن کی اہمیت اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی تحقیر کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی معاشروں میں سامراجیوں کا ایک کام یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ مسلمان عوام، زندگی اور معاشرے میں جس رتبے اور مقام پر بھی ہوں، خود کو غیر اسلامی اقدار سے نزدیک کریں۔ یعنی ان کا لباس غیر مسلموں کے لباس کی طرح ہو، ان کا طرزعمل ان کے طرز عمل کی طرح ہو، ان کی بینش ان کی بینش کی مانند ہو اور ان کے اعمال، ان کے اعمال کی طرح ہوں۔ درحقیقت مسلمان غیر مسلموں کی اقدار کو اپنی اقدار سمجھیں اور ان چیزوں کو خلاف تہذیب سمجھیں جن چیزوں کو مغرب والوں نے خلاف تہذیت قرار دیا ہے اور اسلام کی کوئی بات انہیں یاد نہ آئے۔ آج بھی، جب ایرانی قوم اس بات پر ڈٹی ہوئی ہے اور مصر ہے کہ وہ اپنے طرز عمل میں، اپنی حرکات میں، اپنے لباس میں، اپنی عالمی روش میں اور دوست اور دشمن کے انتخاب میں اسلامی تہذیب، اسلامی موقف اور اسلامی اقدار کی پابندی کرنا چاہتی ہے تو اس وجہ سے اس پر حملے ہو رہے ہیں۔
عید الفطر کے خطبے

عید الفطر کے خطبے

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 اسفند سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 2 مارچ سنہ 1995 عیسوی کو تہران میں مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔ آپ نے نماز عید کے خطبوں میں عید الفطر کے عظیم دن کے رموز بیان کئے اور ماہ رمضان المبارک کی برکتوں اور بے پناہ خصوصیتوں کا تذکرہ کیا۔ آپ نے عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور مسلمانوں کے خلاف جاری سامراجی طاقتوں کی سازشوں کی نشاندہی کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمارے عظیم اسلامی انقلاب میں، استکبار کو اسلام سے زک پہنچی ہے۔ اس لئے مستکبرین، امت میں دشمنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میں اپنی عزیز قوم سے اور پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان ہیں، ان سے اور تمام مسلم اقوام سے عرض کرتا ہوں کہ آئیے خدا کی اس سفارش کو سنیں کہ قرآن آواز دیتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا امریکا چاہتا ہے مسلمان ایک دوسرے کے دشمن رہیں۔ آپ اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے تفرقہ انگیز مستکبر کی ناک رگڑ دیں اور دشمن کو خوش ہونے کا موقع نہ دیں۔ اسلامی دنیا کے دشمن چاہتے ہیں کہ اس زمانے میں ان کے اہداف مسلمانوں کے ذریعے پورے ہوں۔ آج وہ چاہتے ہیں کہ ایسا کام کریں کہ فلسطینیوں اور ملت فلسطین کے حریف، علاقے میں جعلی اسرائیلی حکومت اور امریکی زر خرید صیہونی نہیں بلکہ اسلامی حکومتیں ہوں۔ یہ نہ ہونے دیں،
وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں اور ملک کے عہدیداروں سے خطاب

وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں اور ملک کے عہدیداروں سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 4 شہریور سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 26 اگست سنہ 1994 عیسوی کو تہران میں منعقدہ وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں سامراجی طاقتوں کے غلط اندازوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سامراجی طاقتیں غلطی پر ہیں۔ اگر سمجھتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو بھی ہر حکومت کی طرح، انہیں معمولی حربوں سے، تشہیراتی محاصرے، سیاسی دباؤ، اقتصادی ناکہ بندی اور ایسے ہی دوسرے اقدامات سے جھکا لیں گی تو یہ ان کی غلطی ہے۔ یہاں اعتقاد کا مسئلہ ہے۔ دین کی پابندی کا مسئلہ ہے۔ عوام کے لئے یہ الہی فریضہ ہے کہ اس حکومت کا جو پرچمدار اسلام ہے، دفاع کریں۔ دنیا کے دوسرے مسلمانوں کا فریضہ بھی یہی ہے۔ بنابریں انقلاب کے آغاز سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی جتنی ہو سکی مخالفت کی، دشمنی کی، مختلف سیاسی اور فوجی مہم تیار کی۔ ہمارے عظیم امام (خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ دشمنی ہم سے نہیں بلکہ اسلام اور قران سے ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر تمام مسلمین عالم کو توجہ دینی چاہئے۔ آج جو لوگ تشہیرات کے میدان میں، سیاسی لڑائی میں، مختلف قسم کی اقتصادی سرگرمیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران سے بر سر پیکار ہیں، وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اسلام کی دشمنی کو ظاہر اور آشکار کر دیا ہے۔ ان لوگوں کی کوششیں پوشیدہ نہیں ہیں۔