در اصل یہ ہمارا مسئلہ ہے ہی نہیں کہ امریکا ایٹمی سمجھوتے میں لوٹے یا نہ لوٹے۔ ہمارا جو منطقی اور عاقلانہ مطالبہ ہے، وہ پابندیوں کا خاتمہ ہے؛ یہ ایرانی قوم کا غصب شدہ حق ہے۔" رہبر انقلاب اسلامی نے ان جملوں کو 'اسلامی جمہوریہ ایران کی آخری اور حتمی بات' کی حیثیت سے پیش کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے 'آخری بات' کے زیر عنوان اعلی قومی سلامتی کونسل میں قائد انقلاب اسلامی کے نمائندے اور ایٹمی معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کرنے والے بورڈ کے رکن ڈاکٹر سعید جلیلی سے گفتگو میں پابندیوں اور ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کا جائزہ لیا ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں پابندیوں کے خاتمے کی ضرورت کے سلسلے میں آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مطالبے کی بنیاد اور وجہ کیا ہے؟

جواب: رہبر انقلابی اسلامی نے ایک جملہ کہا جو واقعی بڑی گہرائي رکھتا ہے، وہ جملہ کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ ہمیں ایٹمی معاہدے میں امریکا کی واپسی کی کوئي جلدی نہیں ہے اور جو چیز ہمارے لیے اہم ہے وہ ایٹمی معاہدہ نہیں بلکہ پابندیوں کا خاتمہ ہے کیونکہ ایٹمی معاہدہ پابندیوں کو ختم کرنے کا ایک وسیلہ تھا، مقصد پابندیوں کا خاتمہ تھا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پابندیاں اٹھائي جانی چاہیے۔ یہ بات اس سے الگ ہے کہ پابندیاں روک دی جائيں یا پابندیاں ملتوی کر دی جائيں۔ ایٹمی معاہدے میں قائد انقلاب اسلامی نے شروع سے یہی مطالبہ کیا تھا۔ ہم نے ایٹمی معاہدہ اس لیے تو کیا نہیں تھا کہ مثال کے طور پر اپنے لیے ایٹمی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا کریں۔ اگر کسی بھی وجہ سے یہ بات تسلیم کی گئي تو وہ اس لیے تھی کہ پابندیاں ہٹ جائيں۔ آپ آکر پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو محدود کر دیں، یہ تو کوئي مطلوبہ بات نہیں ہے بلکہ ملک کے لیے بہت سخت ہے لیکن اسے کیوں قبول کیا گيا؟ تاکہ بعض پابندیاں ختم ہو جائيں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یہ جو فرمایا ہے کہ ہمیں جلدی نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس افق کو دیکھ رہے ہیں، انھیں پتہ ہے کہ یہ راہداری جو کھل رہی ہے اس کے آخری سرے پر کیا ہے، کون سی چیز تشکیل پا رہی ہے اور کون سا افق دکھائي دے رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ آپ کو ایک تاریک، لامتناہی اور مبہم راستے پر دھکیل دے اور پھر آپ سے نقد لے اور ادھار دے، ادھار کا بھی پتہ نہیں۔ اگر یہ پابندیاں باقی رہیں اور امریکا ایٹمی معاہدے میں لوٹے اور کہے کہ میرے پاس پھر ٹریگر میکینزم ہے، یعنی اگر میں چاہوں تو مثال کے طور پر پانچ قراردادوں کو پلٹا سکتا ہوں، تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا نقصان  زیادہ ہے۔ پابندیوں کا خاتمہ اس لیے ضروری ہے۔

 

سوال: یہیں ایک دوسرا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ امریکی فریق، پابندیوں کو اٹھانے کے لیے دکھاوے کے اقدامات کرے اور مثال کے طور پر کہے کہ اتنے لوگوں کا نام پابندیوں کی فہرست سے نکال دیا گيا۔ پابندیوں کے خاتمے کے لیے امریکا کے سنجیدہ اقدامات اور عملی اور طے شدہ قدم کیا ہونے چاہیے؟

جواب: سب سے پہلے یہ کہ ساری پابندیاں ختم ہونی چاہیے، کیونکہ ہمارا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں غلط اور ظالمانہ ہیں۔ خود وہ لوگ کہتے ہیں کہ ٹرمپ بقول ان کے غیر سنجیدہ اور احمق انسان ہے جس نے یہ سب کیا۔ تو وہ لوگ یہ ساری پابندیاں ختم کریں۔ خاص طور پر دو اہم پابندیاں ہیں، ایک بینکنگ کی پابندی اور دوسرے تیل کی پابندی۔ آپ نے دیکھا کہ نہ صرف امریکیوں بلکہ یورپ والوں نے بھی، جن کا دعوی تھا کہ ہم نے ٹرمپ کا ساتھ نہیں دیا، امریکا کی طرح ہی کام کیا ہے۔ یورپ کی خارجہ روابط کونسل نے ایک بیان جاری کیا جو بہت دلچسپ ہے۔ اس میں اس نے راستے کا تعین کر دیا ہے اور یہ وہی چیز ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا ہے۔ اس کونسل کا کہنا ہے کہ ایران اپنے تمام کمٹمنٹس کو دوبارہ انجام دے، مثال کے طور پر یورینیم کی افزودگي کو تین فیصد پر لے آئے، یہ جو کچھ اقدامات اس نے کیے ہیں، انھیں روک دے اور اپنے وعدوں کی تکمیل کی راہ پر لوٹ آئے۔ اچھا پھر امریکا کیا کرے گا؟ اس کونسل کا کہنا ہے کہ جواب میں امریکا کووڈ - 19 کے لیے ضروری اشیا کی خریداری کے لیے ایک قابل اعتماد فریم ورک پیش کرے گا!

 

سوال: پارلیمنٹ اور حکومت نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے کمٹمنٹس کو کم کرنے کا جو قدم اٹھایا ہے، اس کے بارے میں اور اس کے اثرات کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

جواب: یہ پوری طرح سے ایک منطقی اور عاقلانہ فیصلہ ہے۔ کسی بھی معاہدے میں اگر آپ کا فریق مقابل، اپنی ذمہ داریوں کے کسی حصے پر عمل نہیں کرتا تو عقل کا تقاضا یہی ہے کہ آپ بھی اپنی ذمہ داریوں کے بعض حصوں پر عمل نہ کریں۔ یہاں تو بات ایسی ہے کہ فریق مقابل نے اپنی کسی بھی ذمہ داری پر عمل نہیں کیا ہے اور معاہدے سے باہر نکل گيا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خود ایٹمی معاہدے کی چھبیسویں اور چھتیسویں شقوں میں کہا گيا ہے کہ اگر دوسرے فریق نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو ایران اپنی ذمہ داریوں پر عمل کو جزوی یا کلی طور پر روک سکتا ہے۔ ابھی تو ایران نے جزوی طور پر عمل روکنے کی بات کی ہے اور اپنے کمٹمنٹس پر عملدرآمد پوری طرح سے نہیں روکا ہے۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے قانون میں بھی یہ بات نہیں کہی گئي ہے جبکہ اگر یہ بات کہی گئي ہوتی تب بھی صحیح اور منطقی ہوتی کیونکہ دوسرے فریق نے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔

 

سوال: رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے کی مشروط توثیق کے لیے جو متن لکھا تھا، اس میں ذمہ داریوں پر عمل کے لیے کچھ شرطیں پیش کی تھیں جن میں سے کئي پر عمل نہیں ہوا جس کے نتیجے میں کئي طرح کی پریشانیاں سامنے آئيں۔ اگر ہم ایٹمی معاہدے کے تجربے کو اپنے سامنے رکھیں اور اس کے تناظر میں قدم اٹھانا چاہیں تو اس سلسلے میں ملک کا روڈ میپ کیا ہو سکتا ہے؟ جیسے کہ 'کمٹمنٹ کے مقابلے میں کمٹمنٹ' کی بات کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟

 

جواب: یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ ایک غلط تجربے کو پھر سے نہ دوہرائيں۔ ایٹمی معاہدے کا فائدہ امریکا پر عدم اعتماد اور یورپ جیسی بڑی طاقتوں پر عدم اعتماد تھا اور ہم نے دیکھا کہ یہ اپنے کسی بھی وعدے کے پابند نہیں تھے۔

میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مرحلہ جس سے ہم گزر رہے ہیں اگر اس میں ہمیں کوئي تلخ تجربہ ہوا ہے تو ہمیں اسے دوہرانے نہیں دینا چاہیے۔ جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ تو جی ہاں! پابندیوں کا خاتمہ ہمارا ایک مطالبہ اور ایک ہدف ہے اور ہمیں اس کے حصول کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

میں ایک مثال دوں۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو دشمن ہماری قوم کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا تھا اور اتفاق سے اس نے جو پہلا آپشن استعمال کیا وہ فوجی آپشن تھا، جو کچھ اس کے بس میں تھا، اس نے کیا، لیکن اب اتنے سال گزر جانے کے باوجود وہ فوجی آپشن استعمال کرنے کی ہمت کیوں نہیں کرتا؟ کیونکہ ہمارے عوام نے اپنی استقامت سے اس فوجی آپشن کو بے اثر کر دیا اور دشمن سمجھ گيا کہ اس کا کوئي اثر نہیں ہوگا۔ آج دشمن نے پابندی کا حربہ اختیار کر رکھا ہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ پابندیاں ختم ہونی چاہیے۔ پابندیوں کے خاتمے کا ایک بڑا قدم بھی ہے اور وہ یہ کہ آپ پابندی کا اثر ہی ختم کر دیجیے تاکہ وہ پابندی کا حربہ استعمال ہی نہ کر سکے۔

مثال کے طور پر ایک چیز جو دشمن، پابندی کی بحث میں پیش کیا کرتے تھے، پیٹرول پر پابندی تھی۔ ایران دنیا میں تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے اور دشمن کہہ رہا ہے کہ میں پیٹرول پر پابندی لگا دوں گا، کیونکہ اس وقت ہم پیٹرول درآمد کرتے تھے اور دشمن جانتا تھا کہ پیٹرول، لوگوں کی روزمرہ کی زندگي کا اہم حصہ ہے، یہی وجہ تھی کہ ہمارے دشمن مسلسل پیٹرول پر پابندی کی دھمکی دیتے تھے۔ بہرحال پیٹرول پر پابندی ایک مؤثر پابندی ہے۔ آج وہ یہ بات کیوں نہیں کہتے؟ کیوں انہی برسوں میں یہاں تک کہ اوباما کے زمانے میں اس آپشن کو میز پر سے ہٹا لیا گيا تھا؟ کیونکہ ایران، پیٹرول تیار کرنے والا بلکہ برآمد کرنے والا ملک بن گيا۔ ہمارے جوانوں نے تیل ریفائنریوں میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا جس کے نتیجے میں آج ہم پیٹرول برآمد کرتے ہیں۔ یہ ہے پابندی کو بے اثر بنانا۔

یا اسی کورونا کے معاملے میں، ہمارے عوام نے دیکھا کہ ان لوگوں نے شروع سے ہی کھیل کھیلنا شروع کر دیا تھا لیکن اچانک ہی انھوں نے دیکھا کہ نہیں، اتفاق سے ایک قوم خود ماسک سے لے کر ٹیسٹنگ کٹ اور ویکسین تک بنا سکتی ہے، بنابریں وہ اب اسے دباؤ کا حربہ نہیں بنا سکتے۔

دنیا میں تقریبا دو سو ملک ہیں۔ کس نے کہا ہے کہ اس دنیا میں صرف امریکا اور کچھ یورپی ملک ہیں؟ صرف ہمارے پڑوس میں ہی پندرہ ممالک ہیں جن کی درآمد تقریبا ایک ہزار ارب ڈالر ہے جو آپ کے لیے بہت بڑی منڈی ہے اور اتفاق سے ان میں زیادہ تر کو آپ کے پروڈکٹس کی ضرورت ہے۔

ہمیں دنیا کے ساتھ تعمیری اور وسیع تعاون پر زور دینا چاہیے اور دنیا صرف امریکا اور کچھ یورپی ممالک تک محدود نہیں ہے۔ ہمیں اس کمزوری کا ازالہ کرنا چاہیے۔

 

سوال: آخری سوال یہ کہ آپ دنیا کے ساتھ سفارتکاری، مذاکرات اور تعاون کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کے نظریے کو کیسا دیکھتے ہیں؟

جواب: رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا فرمایا ہے کہ یہ تعمیری اور ہمہ گير تعاون ایک بنیادی چیز، ایک ضرورت اور ایک اہم معاملہ ہے۔ اسے انجام دینا چاہیے اور اگر دنیا کے ساتھ ہمارا تعمیری اور ہمہ گير تعاون ہو تو یہی، پابندیوں کے اثر کو زائل کرنے کا ایک راستہ ہوگا۔ پھر کوئي یہ نہیں سوچ سکے گا کہ ہر چیز اسی کے ہاتھ میں ہے کہ اگر آپ اس سے تعلق نہیں رکھیں گے تو پھر آپ کے آپشن محدود ہیں۔ جی نہیں! ہمارے آپشن بہت زیادہ ہیں۔ ایک چیز جو اسی وقت موجود ہے وہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر چین آج دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے اور اس کا صدر ایران آتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم آپ سے اسٹریٹیجک تعلقات رکھنے کے لیے تیار ہیں اور وہ مختلف اقتصادی شعبوں میں پیشکش کرتا ہے، تو یہ ایک موقع ہی ہے۔ ہمارے پاس بہت سے مواقع ہیں۔ خود روس یا ہمارے ہمسائے بھی اسی طرح ہیں۔ ہم نے اگر اس سے استفادہ کیا ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ فریق مقابل کو اپنے تخمینوں پر نظر ثانی کرنی پڑتی۔ وہ یہ سوچتا کہ مثال کے طور پر میں زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالوں لیکن اس طرف سے اس دباؤ کو ختم کر دیا جائے گا کیونکہ ایران اپنی ضروریات کی چیزیں یا تعلقات یا برآمدات دوسری جگہ سے انجام دے رہا ہے۔ اپنی بات کے آخر میں، میں شہید عزیز جنرل قاسم سلیمانی کا بھی ذکر کروں، وہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم میدان پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جس چیز کا تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ ہے ہی نہیں اور یہ لوگ کتنے کمزور ہیں، انھیں کتنی آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے اور ہم کتنی مضبوطی سے کام کر سکتے ہیں۔ یہی بات دوسرے میدانوں میں بھی ہے۔ معاشی، سفارتی اور سیاسی میدان میں بھی ہے اور وہ لوگ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہیں، جتنا اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔