غرور آیا تو زوال شروع
اگر غرور آ گيا تو یہ شکست کا پیش خیمہ ہے، زوال کا مقدمہ ہے۔ انسان میں جب غرور آ جائے تو اس کا اپنے اندر سے بھی زوال شروع ہو جاتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سماجی پوزیشن جو اس کے اطراف میں قائم ہوئی ہے وہ بھی ختم اور زائل ہو جاتی ہے۔ یہ آیت مبارکہ "لَقَد نَصَرَكُمُ اللہُ في مَواطِنَ كَـثيرَۃٍ وَ يَومَ حُنَينٍ اِذ اَعجَبَتكُم كَثرَتُكُم فَلَم تُغنِ عَنكُم شَيئًا وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت" اسی بارے میں ہے۔ جنگ حنین، فتح مکہ کے بعد وہ پہلی جنگ تھی جس میں پیغمبر شریک ہوئے۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ جنگ بدر کے برخلاف، جس میں تین سو تیرہ لوگ تھے، یہاں کئي ہزار نو مسلم، اور مہاجر و انصار تھے جو فتح مکہ وغیرہ میں کامیاب ہوئے تھے، یہ لوگ طائف کی طرف جنگ حنین کے لیے گئے۔ جب انھوں نے خود پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ تعداد بہت زیادہ ہے، مغرور ہو گئے! خداوند متعال نے انھیں اس غرور کی وجہ سے بکھیر دیا۔ وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت، زمین اپنی تمام تر وسعت کے ساتھ تم پر تنگ ہو گئي۔ ثُمَّ وَلَّيتُم مُدبِرين تم بھاگ نکلے۔ ان مواقع سے ایک، جہاں پیغمبر کے اطراف والے بھاگ کھڑے ہوئے اور صرف امیرالمومنین اور گنتی کے چند افراد ان کے پاس رہے، یہی جنگ حنین تھی۔ جنگ احد کی طرح۔ مغرور ہونے کا نتیجہ یہی تو ہے۔ البتہ اس کے بعد خداوند عالم نے ان کی مدد کی اور وہ فتحیاب ہوئے لیکن اپنے آپ پر گھمنڈ اور غرور کا نتیجہ یہ ہے۔
غرور ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے
اگر ہمارے اندر غرور پیدا ہو جائے تو اس کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ اپنے اوپر غرور اور مغرور ہونا، ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ لوگ ہماری نظروں میں حقیر ہو جاتے ہیں۔ ہم ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور نتیجتا ان سے دور ہو جاتے ہیں۔
غرور میں پڑے تو ہمیں اپنی غلطیاں نظر نہیں ائيں گی
گھمنڈ ہمیں اپنے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں، جو ہم ہیں۔ غرور کا برا نتیجہ یہ ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو، جو کچھ ہم ہیں، اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں تو ہماری غلطیاں، ہماری نظروں میں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ جب غلطیاں چھوٹی ہو گئيں تو ہم انھیں سدھارنے کے بارے میں غفلت برتتے ہیں۔ خطاؤں کی اصلاح نہیں کرتے، انھیں غلطیوں کو جاری رکھتے ہیں اور ویسے ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ سب مغرور ہونے کے برے نتائج ہیں۔ ان میں کتنی برائی ہے!
خیر خواہوں کی بھی تنقید ناقابل برداشت
گھمنڈ ہمیں خیر خواہانہ تنقید سننے سے محروم کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دشمنی میں، عناد میں ہم سے کچھ کہتا ہے، ممکن ہے ہم اس کی بات کو برداشت نہ کر پائيں اور غصے میں آ جائيں۔ لیکن کبھی کوئي ہمدردی میں اور خیر خواہانہ انداز میں ہم پر تنقید کرتا ہے لیکن ہم میں اسے بھی سننے کی طاقت نہیں ہوتی۔ تو یہ، مغرور ہونے کا نتیجہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
یہ شہادت ایسی مصیبت نہیں ہے کہ کسی زمانے میں رونما ہوئي ہو اور اب ہم اس کی یاد میں آنسو بہائیں! نہیں، یہ مصیبت، ہر زمانے کی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو شہید کرنے کی مصیبت، اس "تھدّمت واللہ ارکان الھدی" نے صرف اس زمانے کو خسارہ نہیں پہنچایا، پوری تاریخ انسانی کے لیے خسارہ پیدا کر دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس تاریخ سے پچیس سال پہلے مدینے کی عورتوں سے فرمایا تھا: اگر علی کو بر سر اقتدار لایا گيا ہوتا تو "لسار بھم سیراً سُجُحاً" سجح کا مطلب ہوتا ہے ہموار، یعنی حضرت، لوگوں کی زندگي کے سفر کو ہموار کر دیتے۔ "لا یکلِمُ خُشاشہ" وہ ذرہ برابر نقصان نہ ہونے دیتے، یعنی اسلامی حکومت کی طاقت اور حکمرانی کے جذبے کو اسلامی معاشرے کے جسم پر کسی بھی طرح کا زخم لگانے نہیں دیتے، وہ اسلام کو آگے بڑھاتے اور ہر طرح کے نقصان کا سد باب کرتے۔
پیغمبر اکرمۖ کے زمانے کا اسلامی معاشرہ کیا تھا؟ دس سال تک صرف ایک شہر تھا۔ کچھ ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر۔ پھر جب مکے اور طائف کو فتح کر لیا تو انتہائي محدود ثروت والا ایک محدود علاقہ۔ غربت ہر طرف پھیلی ہوئي تھی اور وسائل بہت ہی کم تھے۔ اسلامی اقدار کی بنیاد ایسے ماحول میں رکھی گئي۔ جس دن پیغمبر اکرم اس دنیا سے گئے ہیں، تب سے اب تک پچیس برس ہوئے ہیں۔ پچس سال کے اس عرصے میں اسلامی ملک کی وسعت دو تین اور دس گنا نہیں بلکہ سیکڑوں گنا بڑھ چکی ہے۔ مطلب یہ کہ جس دن امیر المومنین کو حکومت حاصل ہوئي، اس دن وسطی ایشیا سے لے کر شمالی افریقا یعنی مصر تک کا علاقہ اسلامی حکومت کے دائرۂ اختیار میں تھا۔ ابتدائي اسلامی حکومت کے زمانے کی دو بڑی ہمسایہ سلطنتیں یعنی ایران اور روم میں سے ایک پوری طرح سے تباہ ہو چکی تھی، جو کہ ایران کی سلطنت تھی۔ اس کے تمام علاقے اسلام کے اختیار میں آ چکے تھے۔ جبکہ سلطنت روم کے زیادہ تر علاقے بھی، جیسے شام، فلسطین، موصل اور دوسری جگہیں جو تھیں، اسلام کے زیر حکومت آ گئی تھیں۔ اتنا وسیع و عریض علاقہ، اسلام کے اختیار میں تھا۔ بنابریں بہت زیادہ ثروت وجود میں آ چکی تھی۔ اب غربت، محرومی اور کھانے پینے کی کمی نہیں تھی۔ سونے کے سکے رائج ہو گئے تھے۔ پیسہ زیادہ ہو گيا تھا، بے حساب دولت و ثروت آ چکی تھی۔ لہذا اسلامی مملکت دولتمند ہو چکی تھی۔ بہت سے لوگوں کو حد سے زیادہ عیش و آرام حاصل ہو گيا تھا۔
ان کچھ برسوں میں کچھ لوگوں نے بیت المال سے خود سرانہ طور پر پیسے نکالے تھے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: میں ان سب کو بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا، یہاں تک کہ اگر میں یہ دیکھوں کہ تم نے انھیں اپنی عورتوں کا مہر قرار دے دکھا ہے یا اپنے لیے کنیز خرید لی ہے، تب بھی میں انھیں بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا۔ لوگوں اور اکابرین کو جان لینا چاہیے کہ میرا طریقۂ کار یہ ہے۔
آج امیر المومنین کی شہادت کا دن ہے۔ میں ان کے مصائب بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سلام ہو آپ پر اے امیر المومنین! کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج نجف میں امیر المومنین کی قبر اطہر کے قریب ہیں اور قریب سے ان کی قبر کی زیارت کر سکتے ہیں اور انھیں سلام کر سکتے ہیں۔ ہم بھی دور سے ایک بار پھر عرض کرتے ہیں: السّلام علیک یا امیرالمؤمنین، السّلام علیک یا امام المتقین، السّلام علیک یا سیّد الوصیین۔ جب انیسویں رمضان کی سحر کو وہ عظیم سانحہ رونما ہوا تو ہاتف غیبی کی آواز ہر جگہ گونجی: "تھدّمت واللہ ارکان الھدی." کوفے اور پھر بتدریج بعض دیگر شہروں کے لوگ، جن تک اس وقت یہ خبر پہنچ سکتی تھی، مسلسل اضطراب میں تھے۔ امیرالمومنین کوفے میں بہت زیادہ مقبول اور محبوب تھے۔ سب کو علی سے عقیدت تھی۔ عورتیں، مرد، بچے، بڑے خاص کر امیر المومنین کے بعض قریبی صحابی بہت زیادہ پریشان اور مضطرب تھے۔ ان کی شہادت سے ایک دن پہلے لوگ امیر المومنین کے گھر کے اطراف اکٹھا ہو گئے تھے، روایت کے مطابق امام حسن علیہ السلام نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں اور امیر المومنین کی عیادت کے مشتاق ہیں تو انھوں نے فرمایا: بھائيو اور مومنین! امیر المومنین کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ لوگ ان سے نہیں مل سکتے۔ لہذا آپ چلے جائيے! انھوں نے لوگوں کو ہٹا دیا اور وہ چلے گئے۔ اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: میں نے حتی الامکان کوشش کی لیکن دیکھا کہ میں امیر المومنین کے گھر کے پاس سے نہیں جا سکتا، لہذا میں رکا رہا۔ تھوڑی دیر بعد امام حسن علیہ السلام، گھر سے باہر نکلے اور جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی، انھوں نے کہا: اصبغ! کیا تم نے سنا نہیں کہ میں نے کہا چلے جاؤ؟ ان سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ میں نے کہا: اے فرزند رسول! مجھ میں اب سکت نہیں ہے۔ میں یہاں سے نہیں جا سکتا۔ اگر ممکن ہو تو میں ایک لمحے کے لیے چل کر امیر المومنین کو دیکھ لوں۔ امام حسن علیہ السلام گھر کے اندر گئے اور پھر باہر آ کر مجھے اندر جانے کی اجازت دی۔ اصبغ کہتے ہیں: میں کمرے میں داخل ہوا، دیکھا کہ امیرالمومنین بستر بیماری پر پڑے ہوئے ہیں اور ان کے زخم کو پیلے کپڑے سے باندھ دیا گيا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کپڑا زیادہ پیلا ہے یا امیر المومنین کے چہرے کا رنگ؟ حضرت کبھی بے ہوش ہو جاتے اور کبھی ہوش میں آتے۔ ایک بار جب وہ ہوش میں آئے تو اصبغ کا ہاتھ پکڑا اور ایک حدیث نقل کی۔ "ارکان الہدی" جو کہا جاتا ہے، وہ اسی وجہ سے ہے۔ اپنی زندگي کے آخری لمحات میں اور اتنی شدید تکلیف میں بھی، ہدایت ترک نہیں کرتے۔ ایک طولانی حدیث ان سے بیان کی اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ اس دن کے بعد نہ تو اصبغ ابن نباتہ اور نہ ہی امیر المومنین کے کسی دوسرے صحابی نے علی کی زیارت کی۔ علی اسی اکیسویں کی رات میں جوار رحمت الہی میں پہنچ گئے اور ایک دنیا کو سوگوار اور ایک تاریخ کو سیاہ پوش کر گئے۔
امام خامنہ ای
5 نومبر 2004
امیر المومنین علیہ السلام سے منقول دعائیں، یہی دعائے کمیل یا مناجات شعبانیہ، دونوں ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں آپ کی یہ مناجاتیں اور یہ تضرع اور خضوع و خشوع، ان دعاؤں کو توجہ سے پڑھنے والے شخص کو بالکل مختلف دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ ہمارے نوجوان ان دعاؤں کے کلمات کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان پر غور کریں۔ دعا میں مذکور کلمات بھی فصیح و بلیغ اور بہت دلچسپ ہیں لیکن ان کےمعانی اور بھی بلند اور گہرے ہیں۔ ان راتوں میں اللہ تعالی سے مناجات کرنا چاہئے۔ اس سے دعا مانگنا جاہئے۔
میں آپ کی شہادت کی مناسب سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ کی مناجاتوں میں سوز و گداز ہے اسی طرح آپ کے مرثئے بھی دل دہلا دینے والے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنے رفقاء کے فقدان کی بات کی ہے، جہاں ان شہیدوں کو یاد کیا ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں آپ کی ہمراہی میں جنگوں میں شریک ہوئے یا جو خود آپ کے دور حکومت میں رونما ہونے والی جنگوں جیسے جنگ صفین اور جنگ جمل میں مجاہدانہ انداز سے لڑے اور دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ انہیں یاد کرکے مولا فرماتے ہیں "این عمار، این ابن التیھان، این ذو الشھادتین واین نظرائھم من اخوانھم الذین تعاقدوا علی المنیۃ" کہاں ہیں وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے عہد و پیمان شجاعت باندھا، راہ خدا میں جہاد کیا اور اسی عالم میں اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھا۔ "و ابرد برؤوسھم الی الفجرۃ" وہ لوگ جو راہ خدا میں شہید ہوئے، جن کے سر قلم کرکے فاسق و فاجر حکام کے لئے بطور ہدیہ پیش کئے گئے۔ کہاں ہیں وہ جانباز؟ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے ان عزیزوں کے فراق میں آنسو بہائے۔ آپ نے سب سے زیادہ گریہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فراق میں کیا۔ آپ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد کرکے روتے تھے۔
یہ غم انگیز باتیں اور جملے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زبان پر جاری رہتے تھے ماہ رمضان کی انیسویں شب گزرنے کے بعد صبح کے وقت ضربت لگ جانے کے بعد تھم گئے۔ مسجد کوفہ کے در و دیوار اور وہاں جمع ہونے والے مومنین نے آپ سے بارہا یہ مناجاتیں اور دعائیں سنیں اور ان دعاؤں پر آپ کو روتے دیکھا تھا۔ مسجد کے در و دیوار اور مومنین آپ کی پر خلوص عبادت، آپ کے عارفانہ بیان اور کبھی کبھی اندوہناک شکوؤں کے گواہ تھے۔
لوگوں نے انیسویں شب کو اچانک آپ کی مانوس آواز سنی۔ آپ کی زبان پر "فزت و رب الکعبۃ" کا فقرہ بار بار آتا تھا۔ خائن ہاتھ نے رات کی تاریکی میں امیر المومنین کے فرق اقدس کو نشانہ بنایا تھا۔ کوئی اجالے میں علی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرئت نہیں کر پاتا تھا، لڑنا اور مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ کس میں اتنا دم تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام پر سامنے سے حملہ کرتا۔ رات کی تاریکی میں، محراب عبادت میں جب آپ محو نماز تھے تب آپ پر حملہ ہوا اور لوگوں نے آپ کے زخمی ہونے کی یہ جانکاہ خبر سنی۔ لوگ دوڑتے بھاگتے مسجد میں پہنچے، تو وہاں عجیب عالم نظر آیا۔ آپ خون میں نہائے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين!
امام خامنہ ای
18 ستمبر 2008
وہ نصیحت جو میں آج کرنا چاہتا ہوں وہ دو برے نتائج پر توجہ سے متعلق ہے: ایک برا نتیجہ، غرور کا نتیجہ ہے۔ جبکہ دوسرا برا نتیجہ بے عملي کا نتیجہ ہے۔ یہ دو نقصانات اور برے نتائج ہیں جن کا آپ کو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
غرور، شیطان کا ہتکنڈہ ہے۔ غرور، گھمنڈ، شیطان کا حربہ ہے۔ اس کی مختلف وجہیں ہیں۔ ویسے اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ اس کی وجہ کیا ہے: کبھی اس کی وجہ عہدہ اور منصب ہے۔ غرور کا ایک سبب، کامیابی ہے۔ آپ کو توفیق حاصل ہوتی ہے اور جو کام آپ انجام دیتے ہیں اس میں پیشرفت ہوتی ہے۔ یہاں انسان کو اپنے اوپر غرور ہوتا کہ میں یہ کام انجام دینے میں کامیاب رہا۔ غرور کا ایک سبب، لطف خدا اور اس کی برکتوں پر مغرور ہونا ہے۔ جس کے بارے میں دعاؤں میں بہت زیادہ اور قرآن مجید تک میں آيا ہے: وَ لا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّہِ الغَرور غَرور کہ جو شیطان ہے، تمھیں خدا کے سلسلے میں مغرور نہ کر دے۔ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان، خدا کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہو جائے اور پھر اسے کسی چیز کی کوئي پروا نہ رہے۔ مثال کے طور پر وہ کہے کہ ہم تو اہلبیت کے دوستوں میں سے ہیں، خدا ہمیں کچھ نہیں کہے گا! یہ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونا ہے۔ وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك صحیفۂ سجادیہ کی دعا ہے، میرے خیال سے چھالیسویں دعا، جمعے کے دن کی دعا ہے: وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك۔ اے پروردگار! جو تیرے سلسلے میں مغرور ہو جائے اس کی بدبختی سب سے زیادہ ہے۔ یہ گھمنڈ کرنا ہے۔ مغرور ہونا یہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
ایک چیز جس پر میں نے بارہا توجہ دي ہے، کبھی کبھی اسے بیان بھی کیا ہے اور جو قرآن کی دل دہلا دینے والی باتوں میں سے ایک ہے، وہ عظیم پیغمبر الہی حضرت یونس علیہ الصلاۃ و السلام کا واقعہ ہے: وَ ذَا النّونِ اِذ ذَھَبَ مُغاضِبا. وہ غصے میں کیوں تھے؟ اس لیے کہ ان کی قوم کے لوگ کافر تھے، وہ جو بھی کہتے تھے وہ لوگ نہیں مانتے تھے، حضرت یونس نے برسوں تک، اس قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی لیکن کوئي اثر نہیں ہوا، وہ بھی طیش میں آ گئے، ناراض ہو گئے اور ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ ہم لوگ جو واجبات ترک کرتے ہیں اگر ان سے موازنہ کیا جائے تو یہ کسی بھی اعتبار سے کوئي بڑا کام نظر نہیں آتا لیکن خداوند عالم نے اسی کام پر ان کا مؤاخذہ کیا: فَظَنَّ اَن لَن نَقدِرَ عَلَيہ، انھوں نے سوچا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں؟! سختی کریں گے! ان کے سلسلے میں سختی یہ تھی کہ وہ محبوس ہو گئے۔ اس کے بعد قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ پر کہا گیا ہے: فَلَو لا اَنَّہُ كانَ مِنَ المُسَبِّحين. لَلَبِثَ فی بَطنِہِ اِلىٰ يَومِ يُبعَثون۔ کیا بات ہے؟! ترک فعل کے باعث۔ اگر یہ تسبیح اور یہ گڑگڑانا اور یہ ذکر سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمين، کہ جس کے بارے میں ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو وہ قیامت تک مقید رہتے، محبوس رہتے۔ البتہ اس آيت کے بعد ایک خوش خبری بھی ہے: فَنادى فِی الظُّلُماتِ اَن لا اِلہَ اِلّا اَنتَ سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمينَ* فَاستَجَبنا لَہُ وَ نَجَّيناہُ مِنَ الغَمِّ وَ كَذٰلِكَ نُنجِی المُؤمِنين یہ "و کذلک ننجی المومنین" میرے اور آپ کے لیے خوش خبری ہے، مطلب یہ کہ ہم بھی اللہ کی تسبیح کر کے، اس کی حمد کر کے، استغفار کر کے، اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اور پروردگار عالم سے معذرت طلب کر کے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ بنابریں استغفار، ممنوعہ اور حرام کام کے ارتکاب پر بھی ہے اور صحیح کام نہ کرنے، بے عملی اور غلط کام کرنے پر بھی ہے۔ ان دونوں کے لیے استغفار ضروری ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
استغفار کے ذریعے فتح
استغفار کے بارے میں ہماری سوچ صرف یہ نہ ہو کہ یہ صرف انفرادی گناہوں کی معافی اور ہمارے دلوں کی پاکیزگي کے لیے ہے۔ استغفار کی قومی میدانوں میں، بڑے سماجی میدانوں میں بڑی تاثیر ہے، اثر ہے اور یہ ہمیں بڑی بڑی توفیقات سے ہمکنار کرتا ہے۔
ماہ رمضان کی دعاؤں میں، ایک بات جو بار بار دوہرائي گئي ہے، وہ اللہ سے مغفرت طلب کرنے کی بات ہے۔ خدا سے معافی مانگنا، استغفار کرنا۔ دعاؤں کے جملے ہیں: ھذا شھر المغفرۃ، یہ مغفرت کا مہینہ ہے۔
استغفار سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں
یہ عذر خواہی جو سچی نیت کے ساتھ ہے، آپ کے اندر ایک نشاط پیدا کرتی ہے، ایک پاکیزگي ایجاد کرتی ہے اور یہ نشاط اور پاکیزگي، اللہ کی رحمت کے نزول کا موجب بنتی ہے۔ دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اَللّھُمَّ اِنّی اَسئَلُكَ موجِباتِ رَحمَتِك، اس میں کچھ اسباب ہیں جو رحمت الہی کو وجود میں لاتے ہیں اور انسان تک پہنچاتے ہیں۔
استغفار سے قوت بڑھتی ہے
سورۂ ھود میں کہا گيا ہے: وَ يا قَومِ استَغفِروا رَبَّكُم ثُمَّ توبوا اِلَيہ يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارا. یعنی خداوند متعال تم پر آسمانی برکتیں نازل کرے گا۔ اس کے بعد کہا گیا ہے: وَ يَزِدكُم قُوَّۃً اِلىٰ قُوَّتِكُم تمھاری طاقت کو بھی بڑھا دیتا ہے۔
استغفار کا اثر اس آيت سے زیادہ واضح، زندگي کے ایک سخت ترین میدان میں یعنی دشمن کے ساتھ کھلے مقابلے کے میدان میں سورۂ مبارکۂ آل عمران کی اس آیت میں بیان کیا گيا ہے: وَ كاَيِّن مِن نَبیٍّ قاتَلَ مَعَہُ رِبّيّونَ كَثيرٌ فَما وھَنوا لِما اَصابَھُم فی سَبيلِ اللّہِ وَ ما ضَعُفوا وَ مَا استَكانوا وَ اللّہُ يُحِبُّ الصّابِرين. وَ ما کانَ قَولَھُم اِلّا اَن قالوا رَبَّنَا اغفِر لَنا ذُنوبَنا وَ اِسرافَنا فی اَمرِنا یعنی یہ لوگ جو میدان جنگ میں پیغمبر کے ساتھ جہاد کر رہے تھے، جس میدان جنگ میں پیغمبر جاتے تھے، یہ بھی جاتے تھے اور دشمنوں سے مقابلہ کرتے تھے، ان ربانیوں، خدا پرستوں اور خدا پرستی کا محور یہ دعا تھی: رَبَّنَا اغفِر لَنا ذُنوبَنا وَ اِسرافَنا فی اَمرِنا وَ ثَبِّت اَقدامَنا وَ انصُرنا عَلَى القَومِ الكافِرين مطلب یہ کہ جنگ سے، ثبات قدمی سے، نصرت سے استغفار کا رشتہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا واقعی مظلوم ہیں۔ پیغمبر کی زوجہ ہونے کا جو شرف آپ کو حاصل ہوا وہ دوبالا ہے۔ دیگر ازواج کو پیغمبر کی زوجیت کا شرف تو ملا مگر کار رسالت میں پیغمبر کی سختیوں کا جو دور ہے اس کا سامنا ان ازواج کو نہیں کرنا پڑا۔ آپ دس سال مدینے میں جو رہے تو وہ وقار کا دور تھا، احترام کا دور تھا، گزشتہ دور کی نسبت سکون کی زندگی تھی۔ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے پیغمبر کے رنج و الم کا دور، سختیوں کا دور دیکھا اور برداشت کیا۔
پہلی بات یہ کہ پیغمبر پر ایمان لانا، ظاہر ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں امیر المومنین اور حضرت خدیجہ تھے، یہ بہت بڑا افتخار ہے، بڑی گراں قدر چیز ہے۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ آپ نے کئی دفعہ اپنا سارا سرمایہ راہ خدا میں خرچ کر دیا، یا اپنا نصف سرمایہ صرف کر دیا۔ یہ بہت بڑے افتخارات ہیں۔ اس عظیم خاتون کا افتخار یہ ہے کہ اپنے سارے اثاثے دے دئے، سب کو اسلام کی ترویج اور پیغمبر کو تقویت پہنچانے کے لئے صرف کر دیا۔ اس کے بعد طاقت فرسا مشکلات اور سختیوں کا سامنا کیا جن میں ایک شعب ابو طالب کا دور ہے، وہ تین سال جب یہ لوگ وہاں رہے اور ان بڑی سختیوں کو برداشت کیا اور اپنا ایمان پوری مضبوطی سے قائم رکھا۔
امام خامنہ ای
9 مئی 2016
رہبر انقلاب اسلامی نے منگل 12 اپریل 2022 کی شام کو اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں، ملک کے تمام مسائل کو قطعی طور پر قابل حل بتایا اور رواں سال کے نعرے کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کی۔ آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مقبوضہ علاقوں میں بیداری اور فلسطینی نوجوانوں کی کارروائيوں کو سراہا۔ انہوں نے سعودی حکام کو جنگ یمن بند کرنے کی نصیحت کی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
ماہ رمضان کے آغاز پر تہران کے حسینیہ امام خمینی میں محفل 'انس با قرآن' منعقد ہوئی جس میں حسب معمول رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شرکت کی۔ 3 اپریل 2022 کے روحانی پروگرام میں اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے تلاوت، حفظ قرآن، قرآن فہمی، قرائت کی قسموں اور قرآنی علوم سے متعلق بصیرت افروز گفتگو کی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی نے حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج سید محمد فقیہ رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر ایک تعزیتی پیغام جاری کیا ہے۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کا تعزیتی پیغام حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی نے حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج سید مجتبی رودباری کی وفات پر ایک تعزیتی پیغام جاری کیا ہے۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کا تعزیتی پیغام حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عالم مجاہد جناب حجۃ الاسلام و المسلمین محمدی ری شہری کے انتقال پر ایک پیغام جاری کر کے تعزیت پیش کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1401 کے آغاز پر قوم سے خطاب کیا۔ ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اس پالیسی اسپیچ میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقتصادی شعبے کے تعلق سے انتہائی کلیدی نکات بیان کئے ساتھ ہی علاقائی اور عالمی حالات کا جائزہ لیا۔
کسی بزرگ عالم دین کے بارے میں ہے کہ کسی شخص نے ان سے پوچھا کہ امام ظہور کیوں نہیں فرماتے؟
ان بزرگ نے جواب دیا کہ امام کا ظہور آپ کیوں چاہتے ہیں؟ آپ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اچھا انسان بننا چاہتے ہیں؟ تو ٹھیک ہے اچھے انسان بن جائیے!
امام آکر دنیا کی اصلاح کریں گے۔ امام کے ظہور کے معاملے سے خود آپ کا ذاتی طور پر کیسا تعلق ہے؟ آپ امام کا ظہور اس لئے تو نہیں چاہتے کہ وہ آکر آپ کو پیسے دیں، عہدہ دیں، منصب دیں!
آپ امام کی آمد اسی لئے تو چاہتے ہیں کہ دنیا کی اصلاح ہو جائے۔ بہت اچھی بات ہے۔ آپ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو امام کی آمد کے بعد اچھے انسان بن جائیں گے۔ تو بہت اچھا ہے! آپ کو اس وقت جو کام کرنا ہے وہ ابھی انجام دے ڈالئے! البتہ امام کی آمد کے بعد یہ کام آسان ہوگا، اس وقت مشکل ہے۔ لیکن اس کا اجر بھی تو زیادہ ہے۔ ہمارا فریضہ یہی ہے۔
امام خامنہ ای
23 جون 2013
رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے عالم ربانی آيۃ اللہ آقا الحاج سید محمد علی علوی گرگانی کی وفات پر تعزیت پیش کی ہے۔ ان کے تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی نے یورپ میں طلباء کی اسلامی انجمنوں کی یونین کی نشست کے نام اپنے پیغام میں دھڑے بندیوں کی شناخت، صحیح موقف اختیار کرنے اور حق کے محاذ کے حق میں کردار ادا کرنے کی تیاری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپ میں طلباء کی اسلامی انجمنوں کی یونین کی چھپنویں نشست کے نام اپنے پیغام میں حالیہ سیاسی و عسکری حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، دھڑے بندیوں کی شناخت، صحیح موقف اختیار کرنے اور حق کے محاذ کے حق میں کردار ادا کرنے کی تیاری کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
مجلس خبرگان (رہبر انقلاب کا انتخاب کرنے والے ماہرین کی اسمبلی) کے ارکان کے نویں باضابطہ اجلاس کے اختتام پر اس اسمبلی کے سربراہ اور ارکان نے جمعرات 10 مارچ 2022 کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں ماہ شعبان کی عیدوں خاص طور پر امام زمانہ کے یوم ولادت یا شب برات کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس عید سعید کو انسان کی تاریخی امنگوں کی شکوفائي کا دن بتایا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اہم قومی و علاقائی موضوعات کا بھی جائزہ لیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 6 مارچ 2022 کو یوم شجرکاری اور ہفتۂ قدرتی ذخائر کی مناسبت دو پودے لگانے کے بعد مختصر خطاب میں شجرکاری کو، پوری طرح سے ایک دینی و انقلابی قدم بتایا اور کہا: درختوں کی نگہداشت اور حفاظت بھی بہت اہم کام ہے جس پر عمل کیا جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تین شعبان کی مناسبت سے ایرانی قوم کو سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم بعثت کی مناسبت سے ایرانی قوم اور امت مسلمہ سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب کیا۔
1 مارچ 2022 کے اپنے اس خطاب میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ یوکرین امریکا کی بحران پیدا کرنے کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو جدید جاہلیت کا واضح اور مکمل نمونہ بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک جاہلیت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی نے تبریز کے عوام کے 29 بہمن سن 1356 بمطابق 18 فروری سن 1978 کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر جمعرات 17 فروری 2022 کی صبح صوبہ مشرقی آذربائيجان کے عوام کو ویڈیو لنک کے ذریعے مخاطب کیا۔ انھوں نے تبریز کے عوام کے قیام کو ایرانی قوم کی عظیم تحریک کا تسلسل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تمہید قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:
اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کی سالگرہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عام اور انقلابی عدالتوں اور مسلح افواج کے عدالتی ادارے سے، اسی طرح محکمہ جاتی کارروائی کے تحت سزا پانے والے تین ہزار تین سو اٹھاسی افراد کو معافی دینے یا ان کی سزائیں کم کرنے کی تجویز کو منظوری دی ہے۔
عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محسنی اژہ ای نے اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کی سالگرہ کے موقع کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو ایک خط لکھ کر 3388 قیدیوں کی سزا معاف کرنے یا ان کی سزا میں کمی یا تبدیلی کی تجویز پیش کی تھی، جس سے انھوں نے اتفاق کیا ہے۔ معافی کے مخصوص کمیشن میں ان افراد کی فائلوں کا جائزہ لیا گيا تھا اور انھیں معافی یا سزا میں کمی کا مستحق پایا گیا۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے یہ تجویز آئین کی دفعہ ایک سو دس کی گيارہویں شق کے تحت منظور کی ہے۔
8 فروری 1979 کو سابق شاہی فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائيہ اور ائير ڈیفنس کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس حیرت انگیز بیعت کو ایک فیصلہ کن موڑ بتایا۔
بسماللّہالرّحمنالرّحیم.
والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی محمّدٍ و آلہ الطّاہرین۔ و لعنۃاللّہ علی اعدائہم اجمعین۔
میں واقعی آپ حضرات کا بہت شکر گزار ہوں جنھوں نے اس بارے میں سوچا اور یہ بڑا اقدام انجام دیا۔ البتہ یہ ایک تمہید ہے۔ یعنی آپ کا یہ اقدام اور جناب حمزہ سلام اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ اجلاس، یہ تمہیدی کام ہے، اگلے کاموں کے لیے آئيڈیل معین کرنے والا کام ہے۔ اصل کام تو ہنر کو انجام دینا ہے۔ اس کام کے لیے پرفارمنگ، لسانی اور ویجوول (visual) آرٹس کو استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ حضرت حمزہ جیسی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مقصد پورا ہو سکے۔ ورنہ صرف خراج عقیدت پیش کرنے کے اجلاس سے، گو کہ ممکن ہے کہ میڈیا سے نشر ہو اور ایک مدت تک اس اہم شخصیت کا نام نشر ہوتا رہے، لیکن آپ جو کام کرنا چاہ رہے ہیں، ثقافت سازی کرنا چاہ رہے ہیں، آئيڈیل سازی کرنا چاہ رہے ہیں، وہ ہنری کام کے بغیر پوری طرح سے انجام نہیں پا سکتا، ادھورا رہ جائے گا۔ بنابریں آپ کا کام بہت اچھا ہے۔ آپ جو بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ آپ نے اشارہ بھی کیا ہے، صحیح ہے، اعتقاد پر بھروسہ کیجیے اور کام کی کوالٹی بہتر سے بہتر بنائیے۔ یہ اس بات کا سبب بنے گا کہ جو، ہنری کام کرنا چاہتا ہے اس کے پاس ضروری مآخذ اور ٹھوس دستاویزات موجود رہیں گی۔ کچھ جملے جناب حمزہ علیہ السلام کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا۔
واقعی حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مظلوم اصحاب میں سے ایک ہیں۔ یعنی ان کا جو کردار رہا ہے، چاہے ایمان لانے کے وقت، ایمان لانے کی وہ کیفیت کہ اس عظیم شخصیت نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں اور ابن اثیر کے بقول ابو جہل کی خوب پٹائي کے بعد انھوں نے اسلام کا اعلان کیا۔ اُسدُالغابہ میں ابن اثیر نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ہجرت کا مسئلہ، مدینے پہنچنے کا مسئلہ، اسلام کی پرشکوہ عمارت کی تعمیر میں، جسے پیغمبر اس چھوٹے سے ماحول میں انجام دینا چاہتے ہیں، حضرت حمزہ کی شخصیت کا بڑا اثر تھا۔ پھر ایک روایت کی بنیاد پر رسول خدا نے جس پہلے سریّے(1) میں روانہ کیا تھا، وہ حضرت حمزہ کا سریہ تھا۔ آپ نے ان کے لیے پرچم تیار کیا اور انھیں جنگ کے لیے بھیجا۔ پھر جنگ بدر اور وہ عظیم کارنامہ جو انھوں نے اور ان دو بزرگوں نے انجام دیا اور پھر جنگ احد۔ جنگ بدر میں، بظاہر جنگ بدر میں ہی ایک قیدی نے پوچھا کہ وہ کون تھا جو لڑتے وقت اپنے ساتھ ایک علامت لئے ہوئے تھا؟ - حضرت حمزہ اپنے لباس میں کوئي علامت رکھتے تھے - اس قیدی کو بتایا گيا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب تھے۔ اس نے کہا کہ ہم پر جو بھی مصیبت آئی، وہ انہی کے ذریعے آئي۔ انھوں نے ہی جنگ بدر میں لشکر کفار کا بیڑا غرق کر دیا۔ مطلب ان کی اس طرح کی شخصیت تھی۔ ان سب کے باوجود، وہ ناشناختہ ہیں، ان کا نام نمایاں نہیں ہے، ان کی زندگي کے حالات کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے، ان کی خصوصیات لوگوں کو نہیں معلوم، واقعی وہ مظلوم ہیں اور میں کہتا ہوں کہ خدا رحمت کرے مصطفی عقاد پر اور ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی فلم 'الرسالۃ' (The Message) میں اس عظیم شخصیت کو، ایک معرکۃ الآرا فلم میں، واقعی معرکۃ الآرا فلم ہے، خاص طور پر حضرت حمزہ سے متعلق حصے میں، اور اس کردار کا اداکار بھی غیر معمولی طور پر مشہور اور اہم ہے اور اس کا ایک خاص جلوہ ہے، کسی حد تک اس عظیم شخصیت کی تصویر کشی کرنے میں کامیابی حاصل کی، البتہ کسی حد تک ہی۔ یہ کام ہونا چاہیے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اصحاب کے سلسلے میں بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ عمار کے بارے میں بھی یہ ہونا چاہیے، جناب سلمان کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، جناب مقداد کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، مقداد کو کون پہچانتا ہے؟ کون جانتا ہے کہ انھوں نے کیا کیا ہے؟ یہاں تک کہ پیغمبر کے اول درجے کے اصحاب کے بارے میں ہے کہ 'حاص حیصۃ'(1) سوائے مقداد کے، صرف وہی تھے جن میں بالکل بھی لغزش نہیں آئي، یہ چیزیں بڑی اہم ہیں، انھیں سامنے لانا چاہیے، ان کا احیاء ہونا چاہیے۔ یا جناب جعفر بھی اسی طرح کے ہیں، خاص طور پر حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زندگي میں ہنری صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں۔ وہ حبشہ کا سفر، سفر کی کیفیت، سفر پر جانا اور واپس آنا، یہ بڑی معیاری چیزیں ہیں اور ہنری لحاظ سے ان پر بڑا اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔ خیر تو پہلے مرحلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب حمزہ کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی مظلوم ہے کہ انھیں کما حقہ نہیں پہچانا گيا۔
ان کاموں کے علاوہ امیر المومینن علیہ السلام کا وہ فرمان، وہ روایت جو نور الثقلین نے خصال کے حوالے سے نقل کی ہے، البتہ میں نے خصال میں نہیں بلکہ نور الثقلین میں دیکھی ہے، حضرت حمزہ کے بارے میں، میرے خیال میں اہم روایت ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امیر المومنین کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا، یہ تفصیلی روایت ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے: "لَقَدْ كُنْتُ عَاھَدْتُ اللَّہَ تعالی وَ رَسُولَہُ اَنَا وَ عَمِّي حَمْزَۃُ وَ اَخِي جَعْفَرٌ وَ ابْنُ عَمِّي عُبَيْدَۃُ" ان عبیدہ ابن حارث کو بھی کوئي نہیں جانتا، یہ عظیم شخصیت بھی ناشناختہ ہے۔ یہ وہ ہیں جو جنگ بدر میں گئے تھے، ان تین افراد میں سے ایک تھے اور پھر شہید ہوئے تھے، بعد میں شہید ہوئے تھے۔ کسی کو بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ حضرت امیر ان کا نام لیتے ہیں، میں، میرے چچا حمزہ، میرے بھائي جعفر اور میرے چچا زاد بھائي عبیدہ۔ فرماتے ہیں کہ "عَاھَدْتُ اللَّہَ تعالی اَنَا" میں نے اور ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا " عَلَى اَمْرٍ وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی علیہ و آلہ" ایک بات پر آپس میں اتفاق کیا، خدا اور اس کے پیغمبر سے عہد کیا، مطلب یہ کہ بیٹھے اور یہ طے کیا۔ جوان امیر المومنین اپنے سن رسیدہ چچا کے ساتھ، جو پیغمبر سے دو سال بڑے تھے، ایک روایت کے مطابق حضرت حمزہ عمر کے لحاظ سے رسول خدا سے دو یا چار سال بڑے تھے اور وہ پیغمبر کے رضاعی بھائي بھی تھے۔ تو امیر المومنین اپنے ان چچا، بھائي اور چچا زاد بھائي کے ساتھ بیٹھے اور ایک بات کا عہد کیا اور بات "جہاد حتی الشہادۃ" یعنی شہادت تک جہاد سے عبارت تھی۔ یعنی یہ کہ ہم اس راہ میں شہادت تک بغیر ڈرے آگے بڑھتے رہیں گے، شہادت حاصل ہونے تک جہاد کرتے رہیں گے۔(2) اس کے بعد امیر المومنین فرماتے ہیں: "وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی اللّہ عَلَیْہِ وَ آلِہ فَتَقَدَّمَنِي أصْحَابِي" یہ لوگ یعنی میرے تین ساتھی مجھ سے آگے بڑھ گئے "وتَخَلَّفتُ بَعْدَھُم(3) لِمَا اَرَادَ اللَّہُ تَعالی فَاَنْزَلَ اللَّہُ فِينَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجالٌ صَدَقُوا ما عاھَدُوا اللَّہَ عَلَيْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضى نَحْبَہ" آيت کے آخر تک، پھر کہتے ہیں کہ حمزہ، جعفر اور عبیدہ، جن لوگوں نے، قضی نحبہ، یعنی جنھوں نے اپنے عہد کو پورا کیا، وہ یہ تین لوگ ہیں۔ "و انا واللہ المنتظر" اور خدا کی قسم میں منتظر ہوں۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ امیر المومنین کی زبان سے یہ بات اس طرح بیان ہوئي ہے۔ اس طرح سے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے، ان کی عظمت بیان کی جائے اور ان کی شخصیت کو نمایاں کیا جائے، یہ اس موضوع کی عظمت اور اس شخصیت کی عظمت کا غماز ہے۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حمزہ کی شہادت کے لمحے سے ہی انھیں رول ماڈل بنانا چاہا۔ آپ نے انھیں سید الشہداء کا لقب دیا، پھر مدینے لوٹے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں، کیونکہ جنگ بدر میں بہتّر لوگ شہید ہوئے تھے، چار افراد مہاجرین میں سے تھے اور اڑسٹھ انصار میں سے شہید ہوئے تھے، تو انصار کی عورتیں رو رہی تھیں، گریہ و زاری کر رہی تھیں، بین کر رہی تھیں، پیغمبر نے کچھ دیر تک سنا اور پھر فرمایا کہ حمزہ پر کوئي رونے والی نہیں ہے۔ یہ بات مدینے کی خواتین تک پہنچی اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے شہید پر رونے سے پہلے حمزہ پر گریہ کریں گي، پیغمبر نے انھیں اس کام کی ترغیب دلائي تھی نا، یعنی انھوں نے پورے مدینہ کو حضرت حمزہ پر رونے کی ترغیب دلائي، پورے مدینے میں کہرام مچ گيا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے رسول اللہ، جناب حمزہ کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سید الشہداء ہیں اور وہ ہیں جن پر سبھی کو گریہ کرنا چاہیے۔ یہ رول ماڈل بنانا ہے۔ اور یہ چیز صرف اسی دن کے لیے نہیں ہے، ہمیشہ کے لیے اور پوری تاریخ کے لیے ہے، تمام مسلمانوں کے لیے ہے، بنابریں آپ کا کام صرف ملک کے اندر اور ایران کا نہیں ہے، آپ ایسا کام کر رہے ہیں جو ان شاء اللہ اگر اچھے سے ہو گيا اور مجھے پوری امید ہے کہ یہ کام اچھے سے ہو جائے گا، تو پھر یہ سبھی اسلامی ملکوں، سبھی عرب ملکوں اور دیگر زبان کے ملکوں کی ایک خدمت ہوگي۔ اس سے سبھی کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان شاء اللہ سبھی فائدہ اٹھائيں گے۔ شاید ان کے فنکار پیشقدمی کریں اور بڑے بڑے کام انجام دیں۔
خیر، اب ہمیں جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر کا تعین کریں۔ یعنی ایک بڑا کام یہ ہے کہ اس شخصیت کے ساتھ کیا ہوا، کس خصوصیت نے انھیں اس حد تک عظمت عطا کی۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم کام ہے، پھر یہ ہم لوگوں کے لیے آئيڈیل بن جائے تاکہ خود ہم لوگ بھی اور دوسرے بھی، اس سے استفادہ کریں۔ میرے خیال میں حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر میں سے دو یہ ہیں: ایک عزم مصمم اور دوسرے شناخت؛ شناخت کی طاقت۔ ان چیزوں کی ہمیں زیادہ سے زیادہ ترویج کرنی چاہیے۔ عزم مصمم، ٹھوس ارادہ؛ کبھی انسان کسی بات سے مطلع ہوتا ہے، کسی بات کو مانتا بھی ہے، اس پر عقیدہ بھی رکھتا ہے لیکن کمزور ارادے کے سبب اس کے مطابق عمل نہیں کر پاتا۔ ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم یہاں پر ایک فیصلہ کن عنصر ہے کہ اس پرعزم شخصیت نے، جس دن حضرت حمزہ نے اپنے اسلام کا اعلان کیا، بعثت کے آٹھویں سال انھوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا، وہ دن پیغمبر کے سخت ترین ایام میں سے ایک تھا، کیونکہ اسلام آشکار ہو چکا تھا اور ادھر ادھر سے پیغمبر پر حملے ہو رہے تھے، رسول خدا کے اصحاب پر حملے ہو رہے تھے، یہ سختیاں جو ہم نے سنی ہیں، انھیں برسوں سے متعلق ہیں۔ انھیں سخت برسوں میں، ایسے حالات میں جب مسلمان انتہائي سختی میں زندگی گزار رہے ہیں، اس شخصیت نے مسجد الحرام میں، کعبے کے قریب چیخ کر کہا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں، سبھی جان لیں کہ میں ان کے دین پر ایمان لے آيا ہوں۔ یہ وہی شجاعت ہے، وہی ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم ہے اور صحیح شناخت ہے اور یہ صحیح شناخت بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اپنے عوام کو یہ سکھانا چاہیے کہ مسائل کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچیں اور صحیح تعین کریں۔ قالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ ما كُنَّا في اصحابِ السَّعيرِ"(4) فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِھِم(5) (کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کی سزا پانے والوں میں نہ شامل ہوتے۔" تو اس طرح وہ اپنے قصور کا اعتراف کر لیں گے۔) یہ کہ ہم نہ سنیں، نہ سوچیں، غور نہ کریں، یہ گناہ ہے، قرآن مجید، اس طرح صراحت کے ساتھ اسے بیان کرتا ہے۔
تو یہ بزرگ شخصیت امام محمد باقر علیہ السلام کے مطابق امیر المومنین کے حوالے سے "صدقوا ما عاھدوا اللہ"(6) کی مصداق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ "صدقوا ما عاھدوا اللہ" یعنی عہد الہی کو صداقت کے ساتھ پورا کر دکھانا، یہ کیسے ہوتا ہے؟ اس کی مکمل اور کامل شکل یہ ہے کہ انسان، الہی تعلیمات، الہی احکام اور خدا کی معین کردہ راہ کے لیے خود کو آئيڈیل بنا دے، خود کو اس کا مصداق بنا لے۔ ان شاء اللہ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے۔ اگر معاشرے کی سرکردہ شخصیات اس طرح کی شخصیات تیار کرنے کی کوشش کریں تو ان میں سے ہر ایک، حساس مواقع پر سماج کو نجات دے سکتی ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ ہم اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ کچھ ایسے لوگوں کی تربیت کریں یا وعظ و نصیحت کریں یا ایسا ہی کچھ اور کریں کہ نتیجتا وہ اچانک ہی کوئي بھی بات تسلیم کر لیں، نہیں، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایسی ایک پوری مشینری ہو۔ بحمد اللہ جامعۃ المصطفی(7) اس سلسلے میں ایک سرگرم مرکز ہو سکتا ہے۔ قم میں بعض مراکز، جنھیں بحمد اللہ حال میں اعلی دینی تعلیمی مرکز کی کارآمد منتظمہ نے وجود عطا کیا ہے، اس طرح کی چیزوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ کچھ تشہیراتی ادارے بھی اس سلسلے میں اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہم ایسی شخصیتیں تیار کریں جو خود الہی تعلیمات، اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام کی مصداق ہوں۔ اگر اس طرح کی شخصیات تیار ہو گئيں تو پھر اسلامی تمدن کی تشکیل، ایک یقینی بات ہوگي، یعنی پھر اس میں کوئي شک و شبہ نہیں رہ جائے گا۔
ان شاء اللہ خداوند عالم آپ لوگوں کو اجر عطا کرے، آپ کو کامیاب کرے تاکہ آپ اس کام کو اور اگلے کاموں کو ان شاء ا للہ بہترین طریقے سے انجام دے سکیں۔ اس اجلاس کے انعقاد میں شامل آپ تمام حضرات کا میں اپنے طور بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) سریہ اس جنگ کو کہا جاتا ہے جو رسول خدا کے زمانے میں ان کی براہ راست شرکت کے بغیر ہوتی تھی اور اس جنگ کی کمان آپ کے کسی صحابی کو سونپی جاتی تھی۔ جس جنگ میں حضور خود براہ راست شرکت کرتے تھے، اسے غزوہ کہا جاتا تھا۔
(2) رہبر انقلاب اسلامی کا گریہ
(3) رہبر انقلاب اسلامی کا گریہ
(4) سورۂ ملک، آيت 10
(5) سورۂ ملک، آيت 11
(6) سورۂ احزاب، آيت 23
(7) قم شہر میں غیر ملکی طلبہ کا اعلی دینی تعلیمی مرکز
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کرکے فقیہ اعلی مقام اور بابصیرت مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمی الحاج شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
ہماری بات یہ ہے: "انقلاب، بعثت پیغمبر کا تسلسل تھا۔" (3/4/2019) آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے اس جملے کو اسلامی انقلاب کی ماہیت کے بارے میں سب سے جامع و مانع جملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ انقلاب کہ جس میں "قوم، امام خمینی جیسی ایک عظیم شخصیت کے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے۔ کئي ہزار سالہ ایک بوسیدہ طاغوتی اور خبیث عمارت کو خطے کی اہم ترین جگہ یعنی ایران میں مسمار کر دیتی ہے اور اسلامی عمارت تعمیر کرتی ہے، یہ پیغمبر کی بعثت کا تسلسل ہے۔" (3/4/2019) بعثت کی ماہیت میں دو بنیادی عناصر ہیں: 'دینی ہونا اور طاغوت مخالف ہونا۔'
اب یہ بھی اہم ہے کہ طاغوت کا مصداق بیان کیا جائے۔ "ہمارا انقلاب اور نظام، بنیادی طور پر امریکا کے خلاف تشکیل پایا۔ صحیح ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے پہلوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا لیکن یہ جنگ، صرف پہلوی سلطنت کے خلاف نہیں تھی، امریکا کی موجودگي اور امریکیوں کے تسلط اور اثر و رسوخ کے خلاف بھی جنگ تھی جو اس قوم کی ہڈیوں کے گودے تک میں گھسے ہوئے تھے۔" (26/7/2000)
اس تشریح کی بنیاد پر کہ طاغوت کا اصل مصداق امریکا ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ "انقلاب، بعثت پیغمبر کا تسلسل تھا۔" تو اس کا مطلب یہ ہے کہ "عوام کے قیام کا دینی پہلو بھی تھا اور امریکا مخالف پہلو بھی تھا۔" (8/1/2021) کیونکہ "امریکا ہمارے ملک میں فرعونیت کر رہا تھا ... زمانے کے موسی آئے، اس فرعون اور اس کے حواریوں کا تخت و تاج الٹ دیا اور ختم کر دیا ... اور ان لوگوں کے توسط سے امریکا کو اس ملک سے نکال باہر کیا۔" (9/9/2015)
اگر ہم سنہ انیس سو ترپن سے انیس سو اٹھہتر تک امریکا کی کارکردگي پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس پچیس برس کے عرصے میں پیش آنے والی تمام مشکلات، سختیوں، جلاوطنیوں، ایذا رسانیوں، موت کی سزاؤں، لوٹ مار، غارتگری اور المیوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکا کا کردار رہا ہے۔ درحقیقت "اگرچہ ظاہری فریق طاغوت کی ظالم حکومت اور پہلوی سلطنت تھی لیکن امریکی اس حکومت کی پشت پر تھے؛ وہی اس حکومت کی حمایت کر رہے تھے اور اس کے ذریعے ہمارے ملک کے تمام امور پر مسلط ہو گئے تھے۔" (31/10/2012) مطلب یہ کہ "ایران پوری طرح امریکا کی مٹھی میں تھا ... ملک کے وجود کے تمام اصلی ستون، امریکیوں کی مرضی سے کام کرتے تھے۔" (9/9/2015) بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ "امریکی، براہ راست ملک کے مسائل میں دخل انداز کرنے لگے تھے اور انھوں نے امام خمینی کو ملک بدر کر دیا۔" (31/10/2012)
اس درمیان جو چیز عوامی جدوجہد کے 'امریکا مخالف' ہونے کو زیادہ واضح کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ "قم کے عوام کے قیام سے ایک ہفتے پہلے، امریکی صدر نے -اس وقت کارٹر تھے- تہران میں پہلوی حکومت اور محمد رضا کے سلسلے میں اپنی سو فیصد حمایت اور پشت پناہی کا اعلان کیا۔" (8/1/2021) اس کے بعد ہی عوام نے سامراج اور امریکا کے خلاف ہمہ گیر قیام اور تحریک کو اوج پر پہنچا دیا اور ایک سال کے اندر، ان کا کام تمام کر دیا۔
ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی اصل وجہ
انقلاب کے بعد ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کا اصل راز بھی یہی مسئلہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا زور دے کر کہا ہے کہ "اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے ملک پر سے امریکا کے تسلط کا خاتمہ کر دیا، ساری بات یہی ہے ... انھیں نوکر چاہیے؛ اسلامی جمہوریہ نے ان کے سامنے اپنی عزت نفس کا مظاہرہ کیا اور یہ لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔" (9/5/2018) ایرانی قوم سے ان کی دشمنی کی وجہ "اسلام کی طرفداری اور اسلامی نظام پر ڈٹے رہنا اور اس کا بھرپور دفاع کرنا ہے۔" (9/1/2003) یہی وجہ ہے کہ "امریکیوں، ان کے حلیفوں اور ساتھیوں کی طرف سے جو اقدام بھی کیا جاتا ہے وہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے اور اس کی تحقیر کے لیے ہوتا ہے۔" (8/2/2015)
اس کے علاوہ امریکیوں کو "نظام سے قطع نظر، ملک کی خودمختاری سے بھی مشکل ہے۔" (12/6/2017) اس کی واضح مثال تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک تھی۔ یہ چیز قومی خودمختاری سے وابستہ تھی لیکن امریکیوں کی بغاوت سے اس کی سرکوبی کر دی گئي۔
انقلاب کی ماہیت کی تحریف کے لیے مغرب پرستوں کا مغالطہ
اس کے برخلاف "کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم سے جو عداوتیں کی جا رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تنازعہ کھڑا کیا ہے؛ ہم نے ہمیشہ انھیں اکسایا ہے۔" (14/6/2016) یہ غلط خیال، تاریخ سے لاعلمی کے سبب ہے۔ امریکا کی عداوتوں کی تاریخ پر ایک نظر اور ایرانی قوم کے تجربوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب امریکا سے ایران کا کوئي تنازعہ نہیں تھا، تب بھی وہ ایران کے خلاف دشمنی اور سازش میں مصروف تھا۔ ایرانی قوم سے امریکا کی دشمن کی گہرائي کو عیاں کرنے والے تلخ تاریخی تجربات میں سے ایک یہ تھا کہ "اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائي مہینوں میں، امریکی سینیٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک سخت بل اور قرارداد منظور کی اور عملی طور پر دشمنی شروع کر دی۔ یہ ایسے عالم میں تھا کہ ابھی ایران میں امریکی سفارتخانہ کھلا ہوا تھا!" (3/11/2015)
مغرب پرست، اپنے مغالطے کو جاری رکھتے ہوئے امریکا سے تعلقات اور دوستی کو، اس کی دشمنی سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ وہی تاریخی تجربات بتاتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات کسی بھی صورت میں ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ سے اس کی دشمنی کو کم نہیں کریں گے۔ "جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکا سے تعلق، امریکا سے دوستی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان، امریکا کی شرپسندی سے محفوظ رہے، انھیں اس تاریخی تجربے پر نظر ڈالنی چاہیے۔" (3/11/2015)
ایرانی قوم، بدستور امریکا مخالف جدوجہد کی راہ پر
اس چھوٹے سے گروہ کے مغالطوں کے مقابلے میں ایرانی قوم، استقامت کے ساتھ اپنے اسی 'امریکا مخالف' نظریے پر اور اس بات پر یقین کے ساتھ کہ "اسلامی انقلاب میں یہ مغرب اور امریکا مخالف نظریہ، ایک صحیح تجربے اور صحیح و معقول رائے اور صحیح اندازے پر مبنی ہے" (23/7/2014) اسلامی انقلاب سے پہلے کی اسی جدوجہد کی سمت میں پوری طاقت سے آگے بڑھ رہی ہے اور چونکہ "انقلاب، ایک دائمی اور مسلسل عمل ہے ... ایک زندۂ جاوید حقیقت اور دائمی حقیقت ہے ... اور کبھی بھی ختم نہیں ہوگا" (16/9/2015) اس لئے طاغوت اور بڑے بت پر مکمل غلبے تک ایرانی قوم کی 'امریکا مخالف' جنگ بھی جاری رہے گي۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 30 جنوری 2022 کو ملک کے کچھ صنعت کاروں اور کارخانوں کے مالکان سے ملاقات میں، انٹرپرینیورز اور صنعت کاروں کو، امریکہ کے ساتھ معاشی جنگ میں، مقدس دفاع کے پاکیزہ طینت و با اخلاص سپاہیوں کی مانند قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس خطاب میں اقتصادیات سے متعلق بڑی اہم گفتگو کی۔ رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل بعض صنعت کاروں اور کارباریوں نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ (1)
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا خطاب حسب ذیل ہے؛
صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی مناسبت سے اتوار 23 جنوری 2022 کو ملک کے بعض ذاکروں، شعراء اور مداحان اہلبیت نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کیا۔ آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں سماجی سرگرمیوں اور عوام کی بے لوث خدمت جیسے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کے بعض اعلی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا اور مذہبی انجمنوں کو تشریح کے جہاد کا مرکز بتاتے ہوئے کہا کہ انجمنوں کو حقائق برملا کرنے اور معاشرے بالخصوص نوجوانوں کے آج کے دور کے سوالوں کے صحیح اور ٹھوس جواب دینے کا مقام ہونا چاہیے۔(1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
انیس دی 1356 مطابق نو جنوری 1978 کو اہل قم کے تاریخی قیام کی برسی پر رہبر انقلاب اسلامی سے قم کے عوام کی ملاقات وڈیو لنک کے ذریعے انجام پائي۔ آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں گہرے مفاہیم کے حامل اور آئندہ نسلوں تک اعلی پیغام پہنچانے والے تاریخی واقعات کو زندہ رکھے جانے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، 9 جنوری کے واقعے کو اسی قسم کا ایک واقعہ قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے 1 جنوری 2022 کی صبح شہید الحاج قاسم سلیمانی کی برسی کے پروگراموں کا انعقاد کرنے والی کمیٹی کے اراکین اور شہید کے اہل خانہ سے ملاقات میں صدق و اخلاص کو مکتب سلیمانی کا خلاصہ، مظہر اور شناخت بتایا اور خطے کے جوانوں کی نظر میں شہید سلیمانی کے ایک آئیڈیل کی حیثیت اختیار کر جانے کا حوالہ ہوئے کہا: عزیز قاسم سلیمانی، ایران کی سب سے بڑی قومی اور مسلم امہ کی سب سے بڑی 'امّتی' شخصیت تھے اور ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یمن میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مجاہد و انتہائی کارآمد سفیر جناب حسن ایرلو کی شہادت جیسی موت پر ایک بیان میں تبریک و تعزیت پیش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے جاری پیغام اس طرح ہے:
امام زین العابدین علیہ السلام نے سانحہ کربلا کے بعد تقریبا چونتیس سال اس دور کے اسلامی ماحول میں زندگی گزاری اور یہ زندگی ہر لحاظ سے سراپا درس ہے۔ کاش جو لوگ اس زندگی کی اعلا کیفیات سے واقف ہیں، وہ اس کو لوگوں کے لئے، مسلمانوں کے لئے حتی غیر مسلموں کے لئے بیان کرتے تاکہ معلوم ہوتا کہ واقعہ کربلا کے بعد جو(یزید ملعون کی طرف سے) حقیقی اسلام کے پیکر پر ایک کاری وار تھا، چوتھے امام نے کس طرح استقامت و پائیداری سے کام لیکر دین کو ختم ہونے سے بچایا ہے۔ اگر امام زین العابدین علیہ الصلاۃ و السلام کی مجاہدت نہ ہوتی تو امام حسین علیہ السلام کی شہادت رائگاں ہو جاتی اور اس کے اثرات باقی نہ رہتے۔ چوتھے امام کا کردار بہت اہم ہے۔
چوتھے امام کی زندگی کے کارناموں کے کئی پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک اخلاق ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اسلامی معاشرے کی تربیت اور اخلاقی طہارت کا بیڑا اٹھایا۔ کیوں؟ کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ اسلامی دنیا کے ان مسائل کا ایک بڑا حصہ جو سانحہ کربلا پر منتج ہوا، لوگوں کی اخلاقی پستی اور رذالتوں کا نتیجہ تھا۔ اگر لوگ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوتے تو یزید، ابن زیاد، عمر سعد اور دوسرے افراد، یہ المیہ انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اگر اتنے پست نہ ہوئے ہوتے، تو حکومتیں، چاہے وہ کتنی ہی فاسد کیوں نہ ہوتیں، کتنی ہی بے دین اور ظالم کیوں نہ ہوتیں، اتنا بڑا المیہ انجام نہ دے سکتیں۔ یعنی نواسہ رسول اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بیٹے کو قتل نہ کر سکتیں۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ تھا؟ ایک قوم اس وقت تمام برائیوں کی جڑ بنتی ہے جب اس میں اخلاقی برائیاں آ جائیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس بات کو اسلامی معاشرے کے چہرے پر پڑھ لیا تھا۔ آپ نے اسلامی معاشرے کے چہرے کو اس برائی سے پاک کرنے اور اخلاق سدھارنے کا تہیہ کیا۔ لہذا دعائے مکارم اخلاق، دعا ہونے کے ساتھ ہی درس بھی ہے۔ صحیفہ سجادیہ دعا ہے مگر درس بھی ہے۔ میں آپ نوجوانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ صحیفہ سجادیہ پڑھیں اور اس پر غور کریں۔ بغیر توجہ اور فکر کے پڑھنا کافی نہیں ہے۔ اس پر غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ صحیفہ سجادیہ کی ہر دعا اور دعائے مکارم الاخلاق اخلاق اور زندگی کا ایک درس ہے۔
امام خامنہ ای
14 جولائی 1993
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے نرسوں اور کورونا کے مریضوں کی خدمت کے دوران شہید ہونے والے میڈیکل اسٹاف کے اہل خانہ نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔12 دسمبر 2021 کو تہران کے حسینیہ امام خمینی میں ہوئی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی شخصیت کے بہت اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
میں جس بات پر زور دینا ضروری سمجھتا ہوں وہ نرس کا مرتبہ ہے۔ میری تاکید ہے کہ یہ بات کہی جائے، دہرائی جائے، بار بار کہی جائے تاکہ سبھی کو معلوم ہو جائے کہ نرس خادم نہیں بلکہ زندگی عطا کرنے والی صنف ہے۔ حقیقت میں جب انسان میڈیکل سروسز پر توجہ دیتا ہے تو نرس کے رول کی تعریف ایک بنیادی رول کے طور پر کی جانی چاہئے۔ اگر ڈاکٹر اچھا ہو، اسپتال اچھا ہو، لیکن نرسنگ اچھی نہ ہو تو بیمار کے ٹھیک ہونے کی کوئی گیرنٹی نہیں ہے۔ جبکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ حالات بہت اچھے نہ ہوں لیکن ایک ہمدرد نرس موجود ہو تو اس بیمار کے ٹھیک ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نرسوں کی اہمیت اس طرح کی ہے۔ اسے سب کو جان لینا چاہئے۔ خود نرسوں کو بھی اپنی اس اہم پوزیشن پر توجہ دینا چاہئے اور اپنے کام کی قدر کرنا چاہئے۔ عوام اور عہدیداران کو بھی سمجھنا چاہئے۔ یہ تو ایک پہلو ہے۔
دوسرا پہلو بہت زیادہ دباؤ سے متعلق ہے جو نرس پر پڑتا ہے۔ یعنی ڈاکٹر بیمار کے سلسلے میں ذمہ دار ہوتا ہے اور حقیقت میں طبی خدمات بہت اہم اور بے مثال چیز ہے لیکن بیمار کی نرس پر جو ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے، ڈاکٹر پر کبھی وہ دباؤ نہیں ہوتا۔
بیمار کی چیخ پکار، گریہ و زاری سننا، اس کے درد کو محسوس کرنا، مسلسل اس کی دیکھ بھال کرنا، اسے نہلانا دھلانا، اس طرح کے کام کیا مذاق ہیں؟ کوئی کسی بیمار کے پاس پوری ذمہ داری کے ساتھ دو گھنٹے بیٹھے تب اس کی سمجھ میں آئے گا کہ اس نرس کا کیا حال ہوتا ہوگا جسے الگ الگ بیماروں کے ساتھ دن اور رات کے کئی گھنٹے گزارنے پڑتے ہیں۔
ایران کی اعلی نرسنگ کونسل کے ارکان سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا ایک حصہ
امام خامنہ ای
16 اپریل 2012
مغربی ایران کے صوبے ایلام کے شہداء پر سیمینار کی منتظمہ کمیٹی کے ارکان کے درمیان رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر 2 دسمبر 2021 کو سیمینار ہال میں منظر عام پر لائی گئي۔ رہبر انقلاب نے یہ تقریر 21 نومبر 2021 کو اس کمیٹی کے ارکان سے تہران کے حسینیہ تہران میں اپنی ملاقات میں کی تھی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ:
رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتۂ رضاکار فورس کی مناسبت سے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حل بلند حوصلے، دانشمندی، صحیح سوچ اور خدا پر توکل سے ممکن ہے۔ آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں ہفتۂ رضاکار فورس کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے بلند حوصلے، دانشمندی، صحیح سوچ اور خدا پر توکل کو ملک کی مشکلات پر قابو پانے کے مجرب وسائل میں شمار کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ 17 نومبر 2021 کو ملک کی بعض ممتاز علمی شخصیات اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد (الیٹس) سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے آغاز میں آیۃ اللہ العظمی امام خامنہ ای نے غیر معمولی صلاحیت کے حامل نوجوانوں سے ملاقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے غیر معمولی صلاحیت کو ایک نعمت الہی قرار دیتے ہوئے نوجوانوں کو یاد دہانی کرائي کہ اس الہی نعمت کا شکر ادا کرتے رہیں۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 24 اکتوبر 2021 کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر وحدت اسلامی کانفرنس کے مندوبین اور ملک کے اعلی فوجی و سول حکام سے ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں پیغمبر اسلام کی ذات والا صفات، وحدت اسلامی، اسلام کی ماہیت، سامراجی طاقتوں کی سازشوں جیسے موضوعات پر بصیرت افروز گفتگو کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ہزاروں قیدیوں کی سزا معاف یا سزا میں کمی پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عدالتوں اور مسلح افواج کے عدالتی ادارے سے، اسی طرح محکمہ جاتی کارروائی کے تحت سزا پانے والے تین ہزار چار سو اٹھاون افراد کو معافی دینے یا ان کی سزائیں کم کرنے کی تجویز کو منظوری دی ہے۔
عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محسنی اژہ ای نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو ایک خط لکھ کر تین ہزار چار سو اٹھاون قیدیوں کو معافی دینے یا سزا میں کمی یا تبدیلی کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جسے انھوں نے منظوری دے دی ہے۔
سزا پانے والے ان افراد کی فائلوں کا معافی کے مخصوص کمیشن میں جائزہ لیا گيا تھا اور مذکورہ افراد کو معافی یا سزا میں کمی کے لیے موزوں پایا گیا تھا۔ عدلیہ کے سربراہ نے یہ تجویز آئین کی دفعہ ایک سو دس کی گيارہویں شق کے تحت پیش کی تھی جسے آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے منظور کر لیا۔