رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 10 اپریل 2024 کو تہران کے مصلائے امام خمینی میں عید الفطر کی نماز پڑھائی۔ نماز عید کے خطبوں میں آپ نے کچھ روحانی و سیاسی نکات پر گفتگو کی۔ (1)
نماز عید الفطر کے خطبے۔
آزادی، اس چیز سے ہٹ کر ہے کہ جس کا جی چاہے آزادی کا نام لے کر جس طرح کا بھی غلط فائدہ اٹھانا چاہے، اٹھا لے۔ جیسا کہ دنیا میں یہ کام ہوا، جیسا کہ آزادی کے نام پر انسانوں پر سب سے بڑے بوجھ لاد دیے گئے، آزادی کے نام پر سب سے بھیانک جرائم انجام دیے گئے، آزادی کے نام پر انسانی نسلوں کو اخلاقی برائیوں اور جنسی بے راہ روی میں دھکیل دیا گيا۔ ہم اگر خواتین کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کریں کو دنیا کے مقروض نہیں قرار پائیں گے، دنیا ہمارے خلاف بات نہیں کرسکتی۔ اگر معاشرے میں خواتین کے دائرے اور فرائض معین ہوں تو یہ ہم ہیں کہ جس کی زبان دنیا کے سامنے کھل کر چلے گی۔ اگر ہم آزادی کے بارے میں بھی اسلام کا نظریہ صحیح طور پر بیان کریں اور اس کی وضاحت کریں تو ہم دنیا اور ان ملکوں کے سامنے جو جھوٹی، نقلی اورگمراہ کن آزادی کا دم بھرتے ہیں، مقروض نہیں ہوں گے۔ یہ ہم ہیں یہ کہ جن کی زبان کھل کر دنیا سے یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ آخر کیوں یہ آزادی انسانوں کو نہیں دی جاتی اور کیوں آزادی کے نام پر انسانوں پر ظلم ہوتا ہے، جارحیت ہوتی ہے۔ بنابریں آزادی کے بارے میں اسلام کے نظریے کو متعارف کرانا چاہیے۔ یہ ایک ضروری کام ہے۔
امام خامنہ ای
5 دسمبر 1986
امریکہ کمزوری سے دوچار ہے، معاشی اور مالی طور پر بھی اور سیاسی میدان میں بھی، یہ ایک حقیقت ہے۔ فلسطین کے مسئلے میں اس کو شکست ہو چکی ہے، عراق کے مسئلے میں وہ ناکام ہو گیا، امریکیوں کی خواہش تھی کہ عراق کا نظام براہ راست خود چلائیں، ملت عراق اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی اجازت نہیں دی، انھوں نے چاہا کہ اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت لے آئیں اس میں بھی ناکام ہو گئے، چاہا کہ کیپچولیشن (CAPITULATION) کے ذریعے عراق میں جمے رہیں، عراقی قوم اور حکومت نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ یہی چیز سبب بنی کہ امریکیوں کا کوئی بھی خواب پورا نہ ہوسکا اور انھیں اپنا سا منہ لئے عراق سے نکلنا پڑا ... اندرونی مسائل میں بھی امریکا کمزور ہو چکا ہے، جسے امریکی امریکی چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کا اقرار کرنا نہیں چاہتے۔
امام خامنہ ای
3 فروری 2012
فلسطین اسلامی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لئے ایک بنیادی مسئلہ اور فریضہ ہے۔ ماضی کے تمام شیعہ اور سنی علماء صاف طور پر کہتے ہیں کہ اگر وطن اسلامی کا کوئی ٹکڑا دشمنان اسلام کے قبضے میں چلا جائے تو یہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دفاع کریں تاکہ غصب شدہ علاقوں کو واپس لے سکیں۔ ہر شخص جس طرح بھی اس سے ممکن ہو، جس انداز میں بھی وہ کچھ کرسکتا ہو، فلسطین کے مسئلے میں اس کا فریضہ ہے۔ اول تو اسلامی لحاظ سے اس کا فریضہ ہے؛ زمین، اسلامی سرزمین ہے جو دشمنان اسلام کے قبضے میں ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہئے اور دوسرے یہ کہ اسّی لاکھ مسلمان ہیں کہ جن میں بعض آوارہ وطن اور بے گھر ہیں اور بعض مقبوضہ علاقوں میں رہ رہے ہیں جن کے حالات آوارہ وطنوں اور بے گھروں سے بھی بدتر ہیں۔
امام خامنہ ای
31 دسمبر 1999
صیہونیوں کا رویہ اس قدر وحشیانہ اور انسانی رحم و مروت کے معیارات سے دور ہے کہ فطری طور پر اس نے فلسطینیوں کی اس نئي جوان نسل کی قوت برداشت کو ختم کر دیا ہے اور اب وہ اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی۔ صیہونی سوچ رہے ہیں کہ اگر انھوں نے اور زیادہ سختی کر دی، ٹینک لے آئے، توپ لے آئے اور کیمیائی (اسلحے) استعمال کئے لوگوں کو چپ کرا دیں گے۔ ہاں! ممکن ہے وہ اپنا دباؤ بڑھا دیں اور کچھ وقت کے لئے لوگوں کو چپ بھی کرا دیں لیکن لوگوں کے دلوں میں جو غصہ پیدا ہو گيا ہے اسے تو ختم نہیں کر سکتے، اسے مٹانا ممکن نہیں ہے۔ وہ غیظ فضا میں ایسی گرج پیدا کر دے گا کہ صہیونیوں کے تمام قصر ڈھے جائیں گے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔
امام خامنہ ای
15 دسمبر 2000
ہر وہ فیصلہ جو ہم انقلاب کی بنیادی پالیسی کے عنوان سے انقلاب کے لئے کریں استدلال کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ہم عقل و منطق کے تابع ہیں، ہماری حکومت بھی استدلال کی حکومت ہے، ہمارے قوانین بھی (دلیل و منطق پر استوار) ٹھوس قوانین ہیں، ہمارے معارف اور دینی تعلیمات بھی استدلالی ہیں، ہماری سیاسی پالیسیاں بھی محکم دلیلوں پر استوار ہیں۔ کبھی ممکن ہے کہ کوئی ان پالیسیوں کے سلسلے میں نعرے لگائے۔ ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان نعروں کی پشت پر عملی و منطقی استدلال پایا جاتا ہے۔ اس راہ و روش کی بنیاد پہلے تو ملت ایران کے فائدے اور ملک کے مفادات ہیں، دوسرے وہ اصول و نظریات اور عقائد ہیں جن پر یقین کے لیے ایرانی قوم نے جہاد و مجاہدت سے کام لیا، شہیدوں اور مجروحوں کا نذرانہ پیش کیا اور استقامت دکھائی ہے اور دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی ہے۔ ہماری پالیسیاں ان چیزوں کے تابع ہیں ۔
امام خامنہ ای
16 جنوری 1998
عالم اسلام کے اس حصے میں صیہونی حکومت، سامراجی دنیا کے ایک طویل المدت ہدف کے تحت وجود میں آئي۔ بنیادی طور پر اس حساس علاقے میں جو عالم اسلام کا قلب ہے، اس حکومت کو وجود میں لایا جانا، اس مقصد کے تحت تھا کہ طویل مدت تک عالم اسلام پر اُس وقت کی سامراجی حکومتوں کا تسلط باقی رہے جن میں سر فہرست برطانوی حکومت تھی۔ بنابریں فلسطین کی نجات اور غاصب صیہونی حکومت کا خاتمہ، ایک ایسا مسئلہ ہے جو خود ہمارے ملک ایران سمیت اس علاقے کی اقوام کے مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔ جن لوگوں نے اسلامی انقلاب کے پہلے دن سے ہی اپنے منصوبوں میں سے ایک، صیہونیوں کی طاقت اور اثر و رسوخ سے مقابلے کو قرار دیا، سوچ سمجھ کر یہ کام کیا۔
امام خامنہ ای
15 دسمبر 2000
ایک بیدار و آگاہ قوم جو ترقی و پیشرفت کرنے والی ہے، اسے اپنے تعمیری کاموں کے ساتھ، علمی و سائنسی ترقی کے ساتھ اور تمام بڑے بڑے کاموں کے ساتھ جن امور کی طرف سے غفلت نہیں کرنی چاہیے، ان میں سے ایک ہر مرحلے میں دشمن کے اہداف و مقاصد کی شناخت ہے۔ یہ قوم کی بیداری کی خاصیت ہے۔ ایک ایسی قوم کا وجود فرض نہیں کیا جاسکتا جو عظیم اہداف و مقاصد رکھتی ہو اور عظیم کارنامے انجام دینا چاہتی ہو لیکن اُس کا کوئي دشمن نہ ہو۔ آپ جس جگہ بھی ہوں، وہاں اگر آپ یہ سمجھ گئے کہ آپ کا دشمن کیا سوچ رہا ہے تو یقینا آپ بڑی حد تک دشمن کے حملے کو روک دیں گے اور اپنے آپ کو محفوظ کر لیں گے۔
امام خامنہ ای
17 دسمبر 1999
فلسطین کا مسئلہ کسی بھی طرح ایک ختم شدہ مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے جو آپ لوگ سوچ رہے ہیں ابد تک کے لئے فلسطینیوں کو، (غصب شدہ) سرزمینوں کے مالکوں کو، خود انھیں بھی اور ان کی اولاد کو بھی، اپنی سرزمین سے باہر رہنا ہوگا یا اگر اس سرزمین میں رہ رہے ہیں تو ایک اقلیت کی صورت میں "قہر زدہ" زندگی گزارنا پڑے گی اور وہ غاصب بیگانے اس جگہ ہمیشہ رہیں گے۔ جی نہیں! ایسا نہیں ہے۔ ایسے بھی ممالک ہیں جو سو سال تک کسی طاقت کے تسلط میں تھے۔ یہی کرغیزستان جو آپ آج دیکھ رہے ہیں اور یہی جارجیا جو آج آپ دیکھ رہے ہیں، سینٹرل ایشیا کے ابھی کچھ عرصہ قبل خود مختاری حاصل کرنے والے ممالک۔ بعض سوویت یونین کے قبضے میں تھے اور بعض سوویت یونین کی تشکیل سے قبل روس کے تسلط میں تھے، اس وقت سوویت یونین بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ سب ایک بار پھر خود مختار ہوگئے اور پھر سے اپنے اصل باشندوں کے اختیار میں واپس آگئے۔ لہذا یہ کوئي ناممکن بات نہیں ہے اور یقینی طور پر یہ عمل انجام پائے گا اور انشاء اللہ ایسا ہوکر رہے گا اور فلسطین فلسطینی عوام کو واپس مل کر رہے گا۔
امام خامنہ ای
31 دسمبر 1999
" اسلامی جمہوریہ، اس وقت حقیقت میں اسلامی جمہوریہ ہے، جب وہ امام (خمینی) کے مضبوط و مستحکم اصولوں کو، جو ان کی حیات مبارکہ میں رائج تھے، اپنا شعار بنائے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ اس پر آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ جہاں کہیں بھی ہم نے ان نعروں کے ساتھ قدم بڑھایا ترقی و کامرانی نے ہمارے قدم چومے ہیں، کامیابی ہمارا حصہ رہی ہے، عزت ہمارے ہاتھ آئی ہے اور دنیوی فوائد بھی ہم کو نصیب ہوئے ہیں لیکن جب بھی اور جہاں بھی جب ہم نے ان اصولوں سے پسپائی اختیار کی، سستی سے کام لیا، میدان، دشمن کے لئے خالی چھوڑا ہے، کمزوری کا شکار ہوئے ہیں، تو ہمیں پیچھے پلٹنا پڑا ہے اور ہم عزت سے محروم ہوئے ہیں، دشمن زیادہ جری ہو گیا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ دراز کئے ہیں اور مادی لحاظ سے بھی ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔ اسلامی نظام کو اپنے حقیقی معنی میں اسلامی ہونا چاہئے اور روز بروز اسلامی اصولوں سے اور زیادہ قریب ہوتے جانا چاہیے۔ یہ وہ چیز ہے جو عقدہ کشا ہے اور مشکلات کو حل کرتی ہے۔ یہی چیز معاشرے کو عزت و اقتدار سے ہم کنار کرتی ہے۔
امام خامنہ ای
11 ستمبر 2009
ملت ایران اسلامی انقلاب کی کامیابی سے آج تک ان طویل برسوں کے دوران ایک راہ مستقیم پر چلتی چلی آ رہی ہے اور یہ ’’راہ مستقیم‘‘ اسلام کے بنیادی اصول اور سر چشموں پر قائم و پائیدار رہنے کی راہ ہے۔ ملت ایران کوئی جمود پسند ملت نہیں ہے، زمانے کے تقاضوں کو سمجھتی ہے اور صاحب علم و تحقیق اور مالک عقل و فہم و جستجو ہے؛ مقدس دفاع کا (آٹھ سالہ) دور بہت سخت دور تھا۔ یہ متحد و منظم ملت دفاع کے میدان میں اتر پڑی۔ پھر ملک کی تعمیر و ترقی علم و تحقیق اور بڑے بڑے کاموں کی بنیاد رکھنے کے دوران بھی ہمارے عوام نے ہر دور میں جو کچھ بھی لازم تھا انجام دیا ہے۔ اس وقت بھی کہ جب اندرون ملک بیرونی ایجنٹ، عوام کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف تھے عوام نے اتحاد کی آواز بلند کی اور یکجہتی کے نعرے لگائے اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی وابستگی کو مختلف شکلوں سے نمایاں کیا، یہی چیز باعث بنی ہے کہ ہمارے دشمن ملت ایران اور ملک کے حکام پر دباؤ ڈال کر نہ کوئی راہ بند کر سکے اور نہ ہی کوئی غلط فائدہ اٹھا سکے۔ دھمکیاں دیتے ہیں پروپیگنڈے کرتے ہیں لیکن اس ملت کے خلاف دھمکیوں اور پروپیگنڈوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ قوم خدا کا شکر ہے اپنی راہ پر گامزن ہے۔ یہ راہ کمال و ارتقا کی راہ ہے اور ترقی و خوشحالی کی راہ ہے -
امام خامنہ ای
19 ستمبر 2008
انحراف کے تمام اسباب و عوامل کے باوجود بحمد اللہ ہماری قوم کے افراد مومن ہیں، خدا دوست اور دین آشنا ہیں، روحانیت و معنویت سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ جوان آج کی اس دنیا میں، جس پر مادیت کی حکمرانی ہے، متحیر ہیں۔ معنویت سے دوری نے اُن کو حیران و سرگرداں کر رکھا ہے، وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ کیا کریں؟ ان کے مفکرین بھی سرگرداں ہیں اور ان کے بعض دانشوروں نے سمجھ لیا ہے کہ ان کے کاموں کی اصلاح کی راہ روحانیت و معنویت کی طرف واپسی ہے لیکن کس طرح اس کھوئي ہوئي معنویت کو، جسے دوسو برس کے دوران مختلف وسیلوں سے پامال کیا گيا ہے، دوبارہ زندہ کریں؟ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن ہماری قوم ایسی نہیں ہے۔ ہماری قوم نے ہمیشہ معنویت کے اس عظیم سرچشمے سے خود کو منسلک رکھا ہے اور اسی معنویت کے ذریعے ایک ایسے عظیم انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ اسی روحانیت و معنویت کے ذریعے اس مادی دنیا میں ایک اسلامی نظام کا پرچم جو معنویت پر استوار ہے، لہرا رکھا ہے، اس کے ستونوں کو مستحکم کر دیا ہے اور اس کو دشمنوں کی تمام یلغاروں اور طوفانوں سے محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امام خامنہ ای
19 جون 2009
میرے عزیز بچو! اور نوجوانو! آپ سب اپنے ملک میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کبھی کردار، حسین فہمیدہ کا (ٹینک کے سامنے لیٹ جانے کا) کردار تھا اور کبھی کسی اور طرح کے کردار ہیں۔ دینی مسائل، ثقافتی مسائل، سیاسی و اخلاقی مسائل، مستقبل کی منصوبہ بندی، امید افزائی، گرد و پیش کے ماحول کو خوش گوار بنانے، بندگی اور اسلامی شریعیت کی پابندی، جو افراد اور معاشرے کی سربلندی کا سبب ہے، ان سب میں جدوجہد کی جا سکتی۔ یقینا ان میدانوں میں جان دینے کا مسئلہ در پیش نہیں ہے لیکن جذبہ، عزم اور فیصلہ لازم ہے۔ آپ سب لوگ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اور اسی طرح ورک اسپیس وغیرہ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے ملکوں کے جوانوں پر صہیونیوں، سامراجی طاقتوں اور عالمی کمپنیوں نے کام کیا ہے تاکہ جوان نسلوں کو بے راہ روی میں مبتلا کردیں۔ ان سے امید اور حوصلہ چھین لیں اور مستقبل کو ان کی نگاہوں میں تاریک کردیں۔ البتہ ہمارے ملک کے آپ بچوں اور نوجوانوں کے لئے بھی انھوں کے بہت منصوبے بنائے اور خوب سازشیں رچیں لیکن بحمد اللہ وہ کچھ نہیں کرسکے اور یقینا ان کی یہ ناکامی، آپ کی بیداری و ہوشیاری کے سبب ہے۔
امام خامنہ ای
30 اکتوبر 1998
اگر کوئی سوچتا ہے کہ اس ملت کو دھمکیوں کے ذریعے خوف زدہ کیا جا سکتا ہے تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں کے موقف کو دھمکیوں کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے تو وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہے۔ اگر کسی کا موقف تبدیل ہوتا ہے تو وہ اس ملت اور اس انقلاب کا نہیں ہے۔ جو شخص اس انقلاب سے تعلق رکھتا ہے، اس انقلاب کا مطلوب اور عوام کا محبوب ہے، وہ ایرانی عوام کی خواہشوں اور مصلحتوں کے لئے اس عوامی انقلاب کے لئے کہ جس کی راہ میں اس قدر پاکیزہ خون زمین پر بہا ہے اور لوگوں نے اس قدر عظیم مجاہدت کا مظاہرہ کیا ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں عوام نے ایسی استقامت دکھائی ہے، سوئی کی نوک کے برابر بھی دشمنوں کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔ آج ہمارے انقلاب کو اس الہی نظام اور انقلاب کے روز افزوں اقتدار، ثبات و استقامت اور روز بروز عوامی استحکام میں پختگی کے عنوان سے جانا جاتا ہے اور دشمنوں کی ناکامی و کمزوری میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، جیسا کہ خدا کے سارے انبیاء علیہم السلام ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہے ہیں، یہ انقلاب بھی کسی شک و شبہہ کے بغیر اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا۔
امام خامنہ ای
31 جنوری 1997
ملک میں جہاں جہاں بھی میرے عزیز بھائی اور بہنیں ہیں، آپ سب سمجھ لیں کہ اگر آپ کا انتخاب، آپ کی جدوجہد، آپ کا انفاق (راہ خدا میں خرچ کرنا) آپ کی امداد آپ کی سیر چشمی، آپ کی حمایت و پشتپناہی اور تمام میدانوں میں آپ کی موجودگی نہ ہوتی تو ہم دشمن کے مقابلے میں اس قدر قوت و اقتدار کا احساس نہ کرتے۔ آج دنیا کی تمام بڑی طاقتیں حتی امریکہ کے مقابلے میں ہم قوت و طاقت کا احساس کرتے ہیں، اس احساس کا سبب آپ سب کی میدان میں موجودگی ہے یعنی ایک کبھی ختم نہ ہونے والی لایزال قوت کی پشتینا ہی۔ اگر آپ لوگ بے پروائی سے کام لیتے اور اگر آپ لوگ جنگ و مصالحت، انفاق و امداد، ملک کی آباد کاری نیز قومی و شہری تعمیرات و عمرانیات وغیرہ کی طرف توجہ نہ دیتے تو قطعی طور پر حکمراں طبقے میں سے کوئي بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا تھا کہ آج دشمنوں کی اس چوطرفہ یلغار، جو بڑی طاقتوں نے بڑے پیمانے پر ہر رخ سے کر رکھی ہے، لائق تحمل ہے؟!! یہ (میدان میں) آپ کی موجودگی کی برکت کی وجہ سے ہے۔ خدا اور عوام کی پشتپناہی۔ ہمیں ان دو عظیم اور قوی عناصر کو، جو اسلامی انقلاب کی ترقی و استحکام کو روز بروز اور زیادہ وسعت و گہرائی عطا کر سکتے ہیں، ہرگز اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئیے!
امام خامنہ ای
2 جون 1982
(جھوٹے) پروپگنڈوں اور افواہوں کے ذریعے (دشمن ) کیا چاہتا ہے؟ اُس کا ہدف یہ ہے کہ مسلمانوں حتی غیر مسلموں کی دنیا میں اسلامی انقلاب کی جو عظیم شبیہ بن گئي ہے، اسے بگاڑ دے۔ تمام عالمی ذرائع ابلاغ اور خبر رساں ایجنسیوں کی جھوٹی اور غلط خبروں کا منشا یہی ہے۔ دشمن انتقام لینا چاہتے ہیں۔ اس انقلاب اور اس قوم نے وہ بڑے بڑے مفادات جو ایران میں امریکا اور برطانیہ کی سامراجی حکومتوں کے تھے، منقطع کر دیئے۔ ظاہر ہے وہ اپنا حق سمجھتی ہیں کہ اس قوم سے انتقام لیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ (سامراجی حکومتیں) ملت ایران کی دشمن ہیں، دشمن! ایسے میں کچھ لوگ آتے ہیں اور بزعم خود عقل و خرد کی بات کرتے ہوئے ہم سے کہتے ہیں: عاقلانہ طور پر سوچیے! ارے یہ کیسی بات ہے؟! ہمارے دشمنوں نے انقلاب سے زخم کھایا ہے، وہ اسی وقت راضی ہوں گے جب یہ انقلاب راستے سے ہٹ جائے اور ان سے کہا جائے کہ آپ چور حضرات ایران تشریف لائيے! تبھی یہ لوگ راضی ہوں گے، وہ اس سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔
امام خامنہ ای
3 فروری 1995
اگر ملک کے حکام کو اور نظام مملکت کے ذمہ داروں کو تنقیدوں کا نشان بنایا جائے اور ان کی کمزوریوں کو خود ان کی نگاہوں کے سامنے لایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب انسانی رقابت کی پوزیشن میں کھڑا ہو اور اسے اپنے مد مقابل کی تنقید کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بہتر کام کرتا ہے۔ البتہ یہ تنقید انقلاب کے بنیادی اصولوں کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ انقلاب کے اصول بھی معین ہیں کہ وہ کیا ہیں؟ انقلاب کے اصول، ذاتی ذوق اور لیقے سے تعلق نہیں رکھتے کہ کوئی بھی شخص کہیں سے اٹھے اور اصول انقلاب کی پلیٹ لگا کر اپنا سینہ پیٹنے لگے اور جب اس اصول کا جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ یہ تو انقلاب سے ہی بیگانہ ہے۔ اصول انقلاب، اسلام ہے، (اسلامی جمہوریہ کا) آئین و قانون ہے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بیانات ہیں، امام (خمینی) کا وصیت نامہ ہے، نظام کی بنیادی پالیسیاں ہیں جو ملک کے آئین سے معین ہوئی ہیں۔ ان کے دائرے میں رہ کر اختلاف نظر، اختلاف منشا، اختلاف سلیقہ، بہت اہم نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے۔ یہ نقصان دہ نہیں ہے، یہ فائدہ مند ہے۔ اگر لوگ اصولوں کے دائرے میں رہ کر برتاؤ کرتے ہیں، تشدد نہیں کرتے، معاشرے کی سلامتی کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں کرتے، معاشرے کے سکون کو ٹھیس نہیں پہنچاتے تو ان غلط کاموں سے جو کئے جارہے ہیں، جیسے جھوٹ اور افواہیں پھیلانا تو ان سے نظام کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
11 ستمبر 2009
اسرائیل کا مسئلہ نہ صرف خود اپنے عوام کے لئے بلکہ پورے علاقے کے امن و تحفظ کے لئے ایک خطرہ ہے؛ چونکہ صیہونیوں کے پاس اس وقت بھی ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور وہ مزید ایٹمی اسلحے تیار کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی کئی مرتبہ ان کو خبردار کیا ہے لیکن انھوں نے کوئی پروا نہیں کی۔ البتہ اس کی بڑی وجہ، امریکہ کی پشتپناہی ہے، یعنی غاصب صہیونی حکومت کی کرتوتوں کا گناہ بہت بڑی مقدار میں امریکی حکومت کی گردن پر ہے۔ امریکہ جو خود کو اس قدر امن پسند ظاہر کرتا ہے اور بعض اوقات اپنی زہریلی مسکراہٹ ہماری شریف و مظلوم قوم سمیت تمام قوموں کے خلاف بکھیرتا ہے، فلسطین کے مسئلے میں پہلے درجے کا مجرم ہے۔ اس کے (لاتعداد) گناہوں میں، ایک گناہ یہ بھی ہے۔ آج امریکہ کے ہاتھ پوری طرح فلسطینیوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ علاقے کے ملکوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ آج اسرائیل کا وجود اسلامی لحاظ سے، انسانی لحاظ سے، معاشی لحاظ سے، امن و سلامتی کے لحاظ سے اور سیاسی لحاظ سے علاقے کے ملکوں اور اقوام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
امام خامنہ ای
31 دسمبر 1999
امریکیوں کو اس انقلاب اور اس ملت سے کیوں بیر ہے؟ اس کا سبب واضح ہے۔ ایک وہ دن تھا کہ اس ملک میں اعلی ترین مقام سے لے کر ادنی ترین ملازم تک امریکہ کی مٹھی میں تھا اور وہ اپنے مفادات اس ملک سے فراہم کرتا تھا۔ اس ملک میں ایک بادشاہ تھا جو امریکہ کے سامنے خود کو جواب دہ سمجھتا تھا؛ اورآج کی زبان میں امریکہ کا گوش بر آواز نوکر تھا۔ اہم کام جو اس ملک میں انجام پاتے رہے ہیں یا تو وہ امریکی سرمایہ داروں کے ذریعے یا ان ہی (صہیونی) سرمایہ داروں کے ذریعے انجام پایا کرتے تھے جو اسی عالمی استکبار کے حلقہ بگوشوں میں ہوا کرتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلوی دور حکومت کے دوسرے دور یعنی 19 اگست 1953 کے بعد ملک ایران پوری طرح حکومت امریکا کے ہاتھ میں رہا ہے۔ اچانک ہی ایک انقلاب آیا اور ایرانی عوام بیدار ہوگئے اور عوام الناس نے اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔
امام خامنہ ای
17 جنوری 1997
حسین بن علی (علیہما السلام) جیسی شخصیت کہ جس میں خود تمام اعلی اقدار مجسم ہوئے ہیں، انقلاب بپا کرتی ہے تاکہ زوال و انحطاط کی راہیں بند کردے، کیونکہ پستیاں پیر پھیلاتی چلی جارہی تھیں اور وہاں تک پہنچ جانا چاہتی تھیں کہ کوئی چیز باقی نہ رہے۔ امام حسین علیہ السلام تن تنہا زوال اور پستی کی اس تیز ڈھلان پر اس کے مقابل کھڑے ہوگئے ... (آواز آئی) و انا من حسین (میں حسین سے ہوں) یعنی پیغمبر کا دین زندہ ہوگیا، حسین بن علی کا بیٹا ہے ... سکے کا یہ رخ (کربلا کا وہ) عظیم حادثہ اور عاشورا کی جوش و خروش سے معمور وہ ’’عاشقانہ کارزار‘‘ ہے جسے عشق کی منطق اور عاشقانہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے تاکہ سمجھا جا سکے کہ علی کے فرزند حسین نے تقریبا ایک رات اور آدھے دن یا ایک شبانہ روز کے دوران نویں محرم کے وقت عصر سے لے کر دسویں محرم کے وقت عصر تک کیا کارنامہ انجام دیا ہے اور کیا عظمت خلق کی ہے! یہی وجہ ہے کہ عاشورا دنیا میں جاوداں ہے اور ابد تک جاوداں رہے گی۔ بہت کوششیں ہوئیں کہ عاشورا کی کارزار کو طاق نسیاں کے حوالے کر دیا جائے لیکن وہ آج تک ایسا نہیں کرسکے اور نہ آئندہ کرسکیں گے۔
امام خامنہ ای
8 مئی 1998
عاشورا کا درس، قربانی، دینداری، شجاعت، ایک دوسرے کی مدد، اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہونے کا درس ہے، محبت اور عشق کا درس ہے، عاشورا کے دروس میں سے ایک یہی انقلاب عظیم ہے، جو آپ ملت ایران نے ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کے فرزند امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت میں انجام دیا ہے۔ ہم اس زمانے کے لوگوں نے بحمداللہ، فضل پروردگار سے یہ توفیق پیدا کی ہے کہ اس راہ پر ایک بار پھر گامزن ہوں اور اسلام کا نام دنیا میں ایک بار پھر زندہ کریں اور اسلام و قرآن کا پرچم پوری دنیا میں لہرائیں اور سربلند کریں۔ دنیا میں یہ افتخار آپ ملت ایران کو نصیب ہوا ہے لیکن اگر آپ نے توجہ سے کام نہیں لیا اور خبردار نہ ہوئے، اگر اپنے آپ کو اس طرح کہ جیسے ہونا اور رہنا چاہئے اس راہ پر باقی نہ رکھا تو ممکن ہے اسی انجام کے روبرو ہونا پڑے اور یہی عاشورا سے عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے۔
امام خامنہ ای
7 فروری 1999
جو قوم بیدار ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہے، منجملہ اُن تمام کاموں سے جو تعمیر نو کے عمل کے ساتھ علمی ترقی کے ہمراہ اور دوسرے بڑے بڑے کاموں کے ساتھ انجام پانا چاہئے اور اُن سے ہرگز غفلت نہ برتے، وہ ہرمرحلے میں دشمن کے اھداف کی پہچان ہے، یہ بیدار ہونے کی دلیل ہے۔ ایک ایسی قوم کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو عظیم اہداف و مقاصد کی مالک ہو اور عظیم کام کرنا چاہتی ہو لیکن اس کے دشمن نہ ہوں، ہاں ایسی قومیں بھی پائی جاتی ہیں جو دنیا کے ایک گوشے میں پڑی ہیں اور اپنے مقدرات سے ان کو کوئی سرو کار نہیں ہے، بیرونی قوتوں نے اُن پر قبضہ بھی جما رکھا ہے۔۔۔ بھرحال ، ایک ایسی قوم جو ملت ایران جیسی ہے اور جس نے بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف انقلاب برپا کیا ہے اور بیرونی طاقتوں کے ہاتھ ملک سے کاٹ دئے ہیں اور اپنے ملک میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ کردیا ہے، یہ سب کوئی چھوٹے کام نہیں ہیں۔ (ایسے میں) ایران کے (بھی) دشمن ہیں، ملت ایران نے اپنے تیل کے ذخیروں اور طرح طرح کے دوسرے مادی ذخائر سے، بیرونی طاقتوں کی غارتگری کا خاتمہ کیا ہے اور اُس حکومتی مشینری کو جو بیرونی (طاقتوں) کے مفادات میں کام کررہی تھی اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ قوم ان خصوصیات کے ساتھ بالآخر دشمن رکھتی ہے، ایسا کیسے ممکن ہے کہ اس کے دشمن نہ ہوں۔
امام خامنہ ای
17 / دسمبر / 1999
امریکی تسلط کی مصیبت جنگ کی مصیبت سے سو گنا زیادہ سخت ہے، کسی بھی قوم کے لئے بیرونی تسلط (اور سامراجی قبضے کی مصیبت) ہر طرح کی جنگی مصیبت یا ہر طرح کے نقصانات سے زیادہ سخت اور سنگین ہے جیسے ہی آپ نے ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا، بڑی طاقتیں اس کے بعد کوئی حد نہیں چھوڑتیں یہ (صرف) عوامی استقامت اور پامردی ہے جس کو یہ طاقتیں خاطر میں لاتی ہیں اور فاصلہ بنائے رکھنے پر مجبور پوتی ہیں۔ ہر وہ قوم جس نے بڑی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کی معمولی سی نشانی ظاہرکی، شکست سے دوچار ہوگئی اور وہ بھی بہت بھاری شکست۔ وہ چاہتے تھے اسلامی جمہوریہ (ایران) کو بھی جھک جانے پر مجبور کردیں لیکن نہ کرسکے، آٹھ سال کی جنگ کے بعد لازم نہیں ہے کہ ہم قسم کھائیں یا آیت پڑھیں کہ ہم جنگ میں کامیاب ہوئے ہیں، جنگ میں کامیابی اور کیا ہوتی ہے؟ اگر کوئی دشمن اس قدر بھاری قوت اور اتنی عظیم مادی طاقت کے ساتھ ایک قوم پر حملہ کرے اور وہ آٹھ سال تک اس سے جنگ لڑتی رہے لیکن آٹھ سال کی جنگ کے بعد بھی سب کچھ پہلے کی طرح اپنی جگہ قائم ؤ برقرار رہے تو کیا یہ ایک ملت کی کامیابی نہیں ہے؟
امام خامنہ ای
27 / جولائی / 1991
اسلامی انقلاب کے پہلوؤں میں سے ایک وہ طمانچہ ہے جو غیروں سے وابستہ وطن فروشوں، بیرونی ملکوں کی پٹّھو مشینریوں اور غیر ملکی دشمنوں کے منھ پر ملت ایران نے لگایا ہے، اصل میں انقلاب ملت ایران کا وہ غیظ و غضب ہے جو بیرونی اثر و رسوخ کے خلاف ملت ایران نے ظاہر کیا ہے، انقلاب نے ایرانی عوام کو خود مختاری دی ہے اور اب جبکہ اس خود مختاری کی راہ میں اس قدر خون بہہ چکا ہے اس ملک پر آقائی کے دعویدار، اس ملک پر مالکیت کے دعویدار یعنی امریکی جو اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھنے لگے تھے دوبارہ پلٹ آئیں! اس ملک کے اندر آئیں اور اپنے حکم، کاموں میں مداخلت اور مختلف سسٹموں میں رسوخ سے کام لیں، نیز انقلاب کے دشمنوں کو اکٹھا کرکے انقلاب لائیں! کیا ایرانی قوم ایسا ہونے دے گی؟ کیا ایرانی قوم اپنے انقلاب، اپنے امام و رہبر اور اپنی عظمت و شوکت سے دست بردار ہوچکی ہے کہ وہ امریکیوں کو اجازت دے گی کہ وہ پھر سے ایران کے اندر واپس آئیں اور اس ملک میں اُن کی آمد و رفت کے دروازے کھل جائیں؟... امریکی حکومت ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی دشمن ہے، انقلاب کی دشمن ہے اور ملت ایران کی دشمن ہے وہ اس کو ظاہر کرچکے ہیں اور بارہا یہ بات وہ کہہ چکے ہیں۔
امام خامنہ ای
16 / جنوری / 1998
سن ۱۹۵۳۔۵۴ عیسوی سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک (یعنی ۱۹۷۹تک) برطانیہ اور امریکہ ایران میں تیل کے کنووں بلکہ در حقیقت ایرانی تیل کے ذخیروں پر (پھن کاڑھے) بیٹھے تھے اور جس حد تک بھی اُن سے ممکن تھا تیل نکالتے اور لے جاتے رہے، ملت ایران کا ان کی طرف سے کس طرح دل صاف ہوسکتا ہے؟ پہلوی حکومت برطانیہ اور امریکہ کی زرخرید غلام تھی اور محمد رضا (پہلوی) ایران میں واقعا امریکہ کے ایک ایجنٹ کی طرح کام کررہا تھا ، ایک وابستہ حکومت کا سربراہ امریکی ایجنٹ ک طور پر کہ جس کا اس کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں تھا کہ جب بھی اس سے کہیں کہ فلاں کو وزیر اعظم بنادو اور فلاں کو وزارت عظمی سے ہٹادو تو وہ اس پر عمل کرتا رہے؛ وہ لوگ جو کام بھی چاہتے تھے یہ حکومت کرتی رہتی تھی، تہران میں امریکہ اور برطانیہ کے سفراء اس مملکت کے بنیادی خطوط اور راہوں کو متعین کرتے تھے، اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ امریکیوں کو کس بات کا غصہ ہے ۔۔۔ در اصل، اسلامی انقلاب نے سب سے پہلا کام جو کیا یہ تھا کہ ایران میں برطانیہ اور امریکہ کے امتیازات (یعنی خصوصی مراعات) کا خاتمہ کردیا۔
امام خامنہ ای
03 / فروری / 1995
اسلامی نظام میں عہدہ ؤ منصب پر فائز ہونے اور امور کی ذمہ داری سنبھالنے کا مسئلہ صرف عوام سے روبرو ہونا نہیں ہے، اگر خدا کے ساتھ رابطہ نہ ہو تو عوام کے لئے کام کرنا اور ان کے لئے کوئی خدمت انجام دینا یعنی وہی اصل ذمہ داری جو سنبھالی ہے اس میں رخنہ پڑ جائے گا اس فریضے اور ذمہ داری کی پشت پناہ اور سہارا وہی خدا سے رابطہ ہے، لہذا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کے نام اپنے خط میں فرمایا ہے، اپنے اوقات جو مختلف کاموں کے لئے آپ معین کریں اور لگائیں، بہترین وقت اپنے اور اپنے خدا کے درمیان خلوت کے لئے مقرر کریں یعنی اپنے خدا کے ساتھ رابطے توبہ ؤ استغفار اور گریہ ؤ زاری کے اوقات تھکن اور اضمحلال کی حالت سے دوچار نہ ہوں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: اگرچہ جس وقت آپ حکومت اسلامی میں کسی عہدہ ؤ منصب پر فائز ہیں آپ کے تمام کام خدا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ نیت میں اخلاص ہو، اور کوئی کام جوعوام کو تکلیف پہنچائے آپ انجام نہ دیں،لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کی وہ تمام کوششیں اور محنتیں اپنے اور اپنے خدا کے ساتھ خلوت کے لئے قرار دیں، اسلامی نظام میں اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مکتب میں یہی ایک صاحب منصب (قوم کے خدمتکار) کا چہرہ ہے، (یعنی مملکت اسلامی کے ذمہ داران کو ایسا ہی ہونا چاہئے)
امام خامنہ ای
15 / دسمبر / 2000
ایک قوم چاہے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، کتنی ہی دولتمند کیوں نہ ہو، اگر اس کے افراد کے درمیان اختلافات نے اپنی جڑیں پھیلالیں اور تفرقے کی آگ بھڑک اٹھی ناکام و بدبخت اور بے بس و لاچار ہوکر رہ جائے گی، اختلافات، کہ جس کا ذکر ہوا ہے، اس کا مطلب طریقہ ؤ روش کا اختلاف نہیں ہے اگر خط و راہ ، رخ اور سمت یا مذاق و طبیعت کا فرق ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اختلافات کا مطلب سیاسی مقابلہ آرائیوں تک پہنچ جانا جو فضا اور ماحول کو خراب اور متشنج کردیتی ہیں ... یہ قوم وہ قوم ہے کہ جس نے ’’اتحاد‘‘ سے ایک انقلاب برپا کردیا ’’متحد ‘‘ ہوکر، تھوپی گئی جنگ کی مانند عظیم مصیبت کو سر کرلیا، اتحاد و یکجہتی سے کام لیکر اب تک بڑی طاقتوں کی دشمنی کے خلاف خالص طور پر امریکی حکومت کی دشمنیوں کے مقابلے میں، جو اس قوم، اس حکومت اور اس نظام کا شدیدترین مخالف ہے، ثابت و استوار اپنی جگہ قائم ہے، آئندہ بھی اپنا اتحاد باقی رکھئے اور دشمن کو اجازت نہ دیجئے کہ وہ منحرف قسم کے نعرے بلند کرکے، جھوٹی دلکشیاں ایجاد کرکے یا مصنوعی چہرے سامنے لاکر آپ کے درمیان آپس میں دشمنی پیدا اور جھگڑے کرائے۔
امام خامنہ ای
25 / دسمبر / 1998
امام (خمینی) رحمت اللہ علیہ کے موقف کو بالکل صاف اور واضح انداز میں جیسا کہ خود انھوں نے کہا ہے اور جیسا کہ خود انھوں نے لکھا ہے بیان کیا جانا چاہئے، یہی امام (خمینی) کی راہ اور امام (خمینی) کے نشان قدم کا معیار اور انقلاب کا صراط مستقیم ہے، ان کی اور ان کی خوشامد کے لئے امام (خمینی) کی بعض حقیقی موقفوں کا انکار یا چھپانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، بعض لوگ اس طرح کی فکر رکھتے ہیں اور یہ فکر غلط ہے کہ اس طرح امام (خمینی) کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی، وہ لوگ جو امام (خمینی) کے مخالف ہیں وہ لوگ بھی امام کے دوست بن جائیں گے، ہم کو چاہئے کہ امام کے بعض صاف و صریح موقف مخفی رکھیں یا ان کو بیان نہ کریں اور کمرنگ یا ہلکا کردیں، نہیں! امام خمینی (رح) کی پہچان ، ان کی شخصیت ان ہی موقف کے ساتھ ہے جیسا کہ خود انھوں نے اپنے صاف و صریح بیانات اور روشن و آشکار الفاظ و کلمات میں ان کو بیان فرمایا ہے۔ یہی باتیں تھیں کہ جس نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا، امام خمینی کو صاف و صریح طور پر بیچ میدان میں لانا اور استکباری قوتوں کے خلاف ان کے موقف کو، جمود کے خلاف ان کے موقفوں کو، مغرب کی لبرل جمہوریت کے خلاف ان کے موقفوں کو اور منافقین یا دوہرے چہرے والوں کے خلاف ان کے موقفوں کو صاف و صریح بیان کرنا چاہئے، وہ لوگ جو اس عظیم شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں انھوں نے ان پالیسیوں کو دیکھا اور ان کو قبول کیا ہے۔
امام خامنہ ای
04 / جون / 2010
وہ لوگ جو خود اسلام کی پہچان نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی تہہ دل سے اس طرح کا اسلام چاہتے تھے، مغرب کی طاغوتی حکومتوں کے خلاف پیٹھ دکھانے یا انہیں نظرانداز کرنے تک کی جراٴت نہیں رکھتے تھے، آج ادھر ادھر کہتے پھرتے ہیں کہ عوام کو 'ریفرنڈم' میں ’’اسلامیہ جمہوریہ‘‘ کی شناخت نہیں تھی! یہ لوگ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کیسے پہچان نہیں تھی؟ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ عوام اگر نہیں جانتے تھے تو کس طرح مسلط شدہ آٹھ سالہ جنگ کو قربانیاں دے کر آگے لے گئے؟ عوام خوب جانتے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں! اور آج بھی خوب جانتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں! یہ اقدار و معیارات جو معاشرے میں رائج ہیں اور اسلامی نظام کا ستون ہیں اولاً ان کو یکجا طور پر قبول کرلینا چاہئے کیونکہ اگر ان میں سے بعض کو قبول کرنا چاہیں اور بعض کو قبول نہ کریں تو یہ کام ناقص ہوگا ثانیاً یہ کہ خود انقلاب مثبت تغیر اور آگے بڑھتے رہنے کو کہتے ہیں۔ روز بروز غلط راہ و روش کی اصلاح ضروری ہے ، ہر روز ایک نیا قدم اٹھانا چاہئے تاکہ نتیجے تک پہنچ سکیں۔
امام خامنہ ای
12 / مئی / 2000
عدل و انصاف کی برقراری کے میدان میں امیرالمؤمنین کی حکومت مظلوم کی حمایت، ظالم سے مقابلے اور ہر حالت میں حق کی طرفداری اور پشتپناہی کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے، جس کی پیروی کرنا چاہئے، اس پر قدامت کی مہر بھی نہیں لگائی جاسکتی، دنیا کے مختلف علمی اور معاشرتی تمام حالات میں انسانوں کی سعادت و کامرانی کے لئے اس کو نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ اُس زمانے کے ادارہ جاتی طریقوں کی تقلید کریں اور کہیں یہ سب کچھ زمانے کے تغیرات کا حصہ ہیں، مثال کے طور پر روز بروز نئے نئے طریقے ایجاد ہوتے رہتے ہیں (بلکہ) ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی پالیسیاں جو تا ابد زندہ ہیں اُن کی پیروی کریں، مظلوم کی حمایت ہمیشہ باقی رہنے والی درخشاں اقدار میں ہے، ظالم کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا زر و زور کے بندوں سے رشوت قبول نہ کرنا اور حق و حقیقت پر ڈٹے رہنا وہ معیارات ہیں جو دنیا میں کبھی بھی قدیم اور کہنہ نہیں ہوسکتے، مختلف حالات و کیفیات اور ماحول میں ہمیشہ یہ خصوصیات قدر و قیمت کے حامل رہے ہیں، ہم کو ان کی پیروی کرنا چاہئے، اصول یہ چیزیں ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں اصول پسند حکومت، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے جاوداں اقدار جو کبھی کہنہ نہیں ہوتے اس کے پیرو اور پابند رہیں۔
امام خامنہ ای
07 / دسمبر / 2001
طاغوتی نظام اور اُس سے قبل کی حکومتیں بھی ایران میں عوامی حکومتیں نہیں تھیں، عوام کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ایک شخص انگریزوں کی مدد سے (اقتدار میں) آگیا تھا، تہران میں فوجی بغاوت کردی تھی اور خود کو بادشاہ کا نام دے دیا تھا، بعد میں بھی جب وہ ایران سے جارہا تھا یعنی جب اس کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ وہ بوڑھا ہوچکا تھا اور ان کے کام کا نہیں رہ گیا تھا، اس نےاپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنا دیا، آخر یہ بیٹا کون ہے؟ اور کیا ہے؟ پھر عوام کس کام کے ہیں؟ اور ان کی رائے کا کیا ہوا؟ سرے سےاس کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس سے پہلے بھی قاجاری حکمراں تھے، ایک فاسق شخص مرتا تھا، دوسرا فاسق شخص اس کی جگہ لے لیتا تھا، عوام الناس حکومت کے تعین اور انتظام میں کوئی دخل نہیں رکھتے تھے، پوری طرح عضو معطل تھے، عوام ان کو پسند نہیں کرتے تھے وہ چاہتے تھے کہ حکومت ان کےاختیار میں ہو، حکومت ان کے ذریعے اقتدار میں آئے، ان کی رائے اس میں موثر ہے۔
امام خامنہ ای
12 / مئی /2000
کبھی کچھ مذاق اڑایا جانا اور توہین کیا جانا بڑے بڑے آدمیوں کو لاچار بنادیتا ہے اور اس طرح وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جماعت کے ہمرنگ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بڑی طاقتیں اپنے ہاتھ ان کے دلوں پر رکھ دیتی ہیں، چھپ کر قہقہہ لگاتی ہیں کہ ان کا کام ہو گيا اور انھوں نے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹادیا۔ فلاں انقلابی تحریک کا اس قدر مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ صاف صاف لفظوں میں اپنے انقلابی نعروں اور اہداف و مقاصد سے دستبردار ہوجائے، ان میں شک کرنے لگے، یہاں تک کہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ یہ وہ منزل ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ماننے والے ایک شیعہ کو آپ کی شجاعت سے سبق لینا چاہئے۔ "لاتستوحشوا فی طریق الھدی لقلۃ اھلہ" راہ ہدایت میں افراد کی کمی سے وحشت زدہ نہ ہوں، گھبرائیں نہیں، دشمن منھ پھیر لے اور روگرداں ہوجائے تو تنہائی کا احساس نہ کیجئے، جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر دشمن کے مذاق اڑانے سے آپ کا ایمان کمزور نہ ہو کیونکہ وہ بڑا ہی قیمتی گوہر ہے، کبھی تمام نہ ہونے والے اس خزانے کو خود اپنے ملک کے اندر آپ نے کشف کیا ہے اور اسلام تک پہنچے ہیں، آزادی و خود مختاری حاصل کی ہے اور خود کو بیرونی قوتوں کے پنجوں سے آزاد کیا ہے۔
امام خامنہ ای
14 / ستمبر / 1984
وہ تمام چھوٹے بڑے ادارے جو دنیا میں مختلف عنوانوں سے پائے جاتے ہیں اور کمین میں بیٹھے ہیں کہ کسی گوشے میں ان ممالک میں کہ جن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کسی بھی سبب اچھے نہیں ہیں، کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے تو فورا بھونپو بجانا شروع کر دیتے ہیں کہ وہاں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، آخر کیوں اپنے ہونٹ سیے، خاموش بیٹھے ہیں، بشریت کے دشمن خبیث صہیونیوں کی غاصب حکومت دسیوں افراد کو مار ڈالتی ہے اور سیکڑوں افراد کو مجروح کر دیتی ہے اور انسانی حقوق کے جو محافظ ادارے ہیں گلا گھونٹے خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کہتے!! زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ کہہ دیا جاتا ہے فلاں ادارے نے اس کی مذمت کی ہے؛ ’’مذمت کی ہے‘‘ کا کیا مطلب؟ یہ جملہ جو مذمت میں کہہ دیا فلسطینیوں کے کس کام کا ہے؟ یہ ادارے جو انسانی حقوق کی بحالی کے دعویدار ہیں اگر سچ کہہ رہے ہیں تو ان کو اٹھ کھڑا ہونا چاہئے تھا، پوری دنیا میں شور و ہنگامہ مچانا چاہئے تھا۔ یقینا ہماری باوقار ملت نے ہمیشہ اپنے موقف کا اعلان کیا ہے اور کوئی یہ نہ کہے کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟! ان مواقف (اور مخالفتوں) کا اعلان بہت اہم دباؤ ہے، جو غاصب حکومت پر پڑتا ہے، دنیا کے کسی بھی کونے سے یہ آواز کیوں نہ بلند ہوئی ہو غاصب دہل اٹھتا ہے۔
امام خامنہ ای
04 / مارچ / 1994
(جناب) جابر نے (حدیث کا یہ حصہ) امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے ’’وَالزَّکاۃُ تزیدُ فی الرِّزقِ‘‘ مسئلہ بظاہر ہماری مادی نگاہ میں یہ ہے کہ جس وقت ہم زکات نکالتے ہیں، یعنی صدقہ کے طور پر ایک رقم الگ کرتے ہیں در اصل اپنی چیز میں کچھ کمی کرتے ہیں، لیکن مسئلے کا باطنی پہلو یہ نہیں ہے بلکہ حقیقت مسئلہ یہ ہے کہ زکات رزق میں اضافہ کرتی ہے اور یہ بھی اس معنی میں ہے کہ زکات نکالنے کا قدرتی اثر یہ ہوتا ہے کہ خداوند متعال اس کا بدلا انسان کو بھلائی کی صورت میں دیتا ہے اور رزق کو بڑھا دیتا ہے، اس سے زیادہ وسیع نگاہ سے جب انسان دیکھتا ہے، ذرا وسیع معنی میں جس وقت معاشرے میں زکات نکالنے کے لوگ عادی ہو جاتے ہیں تو اقتصاد میں رونق آ جاتی ہے اور جب اقتصاد میں رونق پیدا ہو جائے عوام کے تمام طبقے، ہر طرح کے لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں، دوسرے لفظوں میں عبادت کا اصل مضمون یہ بھی ہو سکتا ہے، اس کے بعد فرمایا ہے کہ روزہ بھی اور حج بھی سکون دل کا سرچشمہ ہے، دل کا سکون خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، ’’سکینہ‘‘ یعنی دل کا سکون و آرام، یہ آرام جاں وہی چیز ہے جس کے اولیائے خدا حامل تھے اور بے شمار سختیوں اور مشکلات میں ان کی روح و جان کو آرام و سکون حاصل رہتا ہے۔
امام خامنہ ای
03 / فروری/ 2019
فلسطین کا مسئلہ اسلامی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لئے ایک بنیادی مسئلہ اور ایک فریضہ ہے، تمام شیعہ، سنی علماء اور زمانہ ماضی کے قدماء نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اگر کوئی اسلامی علاقہ اسلام دشمنوں کے تصرف (اور غاصبانہ قبضے) میں آجائے تو اس منزل میں سبھی کا فریضہ ہے کہ دفاع کریں کہ غاصبانہ قبضے میں جانے والی سرزمینوں کو واپس لے سکیں، ہر کوئی جس سے جو بھی بن پڑے ، جیسے بھی ممکن ہو دفاع کرے، فلسطین کے مسئلے میں ہر کسی کا فریضہ ہے، اسلامی سرزمین ہونے کے لحاظ سے فریضہ عائد ہوتا ہے، زمین اسلامی ہے جو اسلام دشمنوں کے قبضے میں ہے اور وہ واپس ہونا چاہئے، دوسرے یہ کہ اسّی لاکھ مسلمان جن میں کچھ آوارہ وطن ہیں اور کچھ مقبوضہ سرزمینوں میں آوارہ وطنوں سے ابتر زندگی گزار رہے ہیں، ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطین کا نام فراموشی کی نذر ہو جائے، لیکن آپ ایسا نہیں ہونے دیں گے، یوم قدس ایسا نہیں ہونے دے گا، امام خمینی نے اپنی فراست و تدبیر سے اس بات کی اجازت نہیں دی، یہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔
امام خامنہ ای
31/دسمبر/1999
اس مذہبی جذبے نے اس انقلاب میں وہ کام کیا ہے کہ انقلاب کے دوران کمترین نقصان پیش آیا۔ وہ لوگ جنھوں نے دنیا کے مادی انقلابات خاص طور پر انقلاب اکتوبر کا مطالعہ کیا ہو اس چیز کو بہ خوبی سمجھ سکیں گے۔ انقلاب کامیاب ہو جانے کے بعد بھی جو حکومت انقلاب کی بنیاد پر وجود میں آئی ایک اسلامی حکومت تھی، ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ دائیں بازو اور بائیں بازو کی طرف نہیں مڑی بلکہ دین کی سیدھی راہ پر گامزن رہی اور اسلامی جمہوریہ بھی جب تشکیل پا گئی تو وقت گزرنے کے ساتھ اس نے دین کی راہ کو نہیں چھوڑا بلکہ آئین کی تدوین، حکام کے انتخابات اور نظام کے کارگزاروں مثلا پارلمانی اراکین اور دیگر نمائندے عوام کے ذریعے اسلامی معیارات پر کئے گئے انتخاب کی بنیاد پر چنے گئے۔ دین انقلاب کی خصوصیت تھی اور ہے، یہ خصوصیت کسی بھی انقلاب میں نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دل میں اسلام کے لئے دھڑکنیں پائی جاتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ اسلام پر گامزن ہے، اور کلمۂ اسلام کی سربلندی کی فکر میں ہے۔
امام خامنہ ای
09/ فروری / 1990
آج ہم علاقوں میں امریکی پالیسیوں کی شکست کی نمایاں علامتیں اور نشانیاں دیکھ سکتے ہیں، ایک ملت ہماری ملت کی طرح جس کے پاس نہ ایٹم بم ہیں نہ علمی لحاظ سے اس کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ سو سال کی تاریخ میں علمی قافلوں کی طرح اگلی صفوں میں چلنے والوں کے قدم سے قدم ملاکر چل سکے اور بہت سے مواقع پر پسماندگی کا شکار رہی ہے، دولت و ثروت کے لحاظ سے بھی سرمایہ دار ملکوں تک نہیں پہنچتی لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ ملک؛ یہ قوم بڑی طاقتوں پر مشتمل ان ملکوں کی مجموعی سازشوں کو جو اسلحوں ٹکنالوجیوں، مادی دولت و ثروت اور ذرائع ابلاغ کے مالک ہیں اہم ترین میدانوں میں پسپائی پر مجبور کرنے اور ناکام بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ یہ نکتہ غور و فکر اور توجہ کا طالب ہے، اس مسئلے کا سیاسی اور معاشرتی علوم کے دانشوروں کو جائزہ لینا اور تجزیہ کرنا چاہئے؛ دیکھیں ان معنویتوں کے کردار کس طرح جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہ چیز آج ایمان میں نمایاں ہے، لہذا اس پر اٹھنے والی نگاہ عبرت انگیز و سبق آموز ہے، یہ منظر امریکہ کی استکباری قوت کی شکست و ریخت کا منظر ہے۔
امام خامنہ ای
14/ ستمبر /2007
میرے عزیز جوانو! اور بچو! آپ سب کے سب اپنے ملکوں میں ایک کردار کے حامل بن سکتے ہیں۔۔۔ دینی مسائل، ثقافتی مسائل، سیاسی مسائل یا اخلاقی مسائل کے موضوع پر اپنے ارد گرد کے ماحول میں اچھے مستقبل کی فکر سرور و نشاط اور امید و اطمینان کی فضا ایجاد کرنے نیز اطاعت و بندگی اور شریعت اسلامی کی پابندی کی راہ میں جو افراد اور معاشرے کی سربلندی کا بہت بڑا سرمایہ ہے، مجاہدت کر سکتے ہیں، آپ سب مدرسوں میں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں، اپنے دفتروں اور کاروباری مرکزوں میں کردار ادا کر سکتے ہیں، ایک بیدار و آگاہ، پر نشاط و پر امید، پاکیزہ دامن جوان، ایک تاریخ کا پاسباں بن سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صیہونیوں ، سامراجی طاقتوں اور دنیا پر مسلط کمپنیوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کے جوانوں پر برسوں کام کیا ہے اور تلاش و کوشش کی ہے کہ شاید وہ جوان نسلوں کو خراب کرنے میں کامیاب ہو جائیں، اُن کے عزم و ہمت اور امید و اطمینان کو ان سے سلب کر لیں، اُن کے مستقبل کو ان کی نگاہوں میں تیرہ ؤ تار کردیں وہ سب اپنے مستقبل کی طرف سے مایوس ہوجائیں اور ان کو اخلاقی اور اعصابی مشکلات سے دوچار کر دیں جو کچھ آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
30/ اکتوبر /1998
سالہا سال کی مسلسل شخصی اور استبدادی حکومتوں نے ہماری قوم کو ایک لات زبوں حال اور نکمی قوم میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ قوم جو خداداد صلاحیتوں اور ممتاز قسم کی غیر معمولی اجتماعی عادتوں کی حامل ہے، ایک ایسی قوم جس کو اسلام کے بعد تاریخ کے طویل دور میں اس قدر سیاسی افتخارات کے ساتھ اس قدر علمی افتخارات حاصل رہے، ایک کمزور و ناتواں رسوا قوم میں تبدیل ہوگئی، بیرونی طاقتوں نے ایک مدت تک انگریزوں نے، ایک مدت روسیوں نے اور ایک مدت امریکیوں نے اور بعض مقامات ان کے گوشہ ؤ کنار میں بعض دوسری یورپی حکومتوں نے ہماری قوم کو ذلیل و خوار کر رکھا تھا۔۔۔ ہمارے عزیز ( و ناقابل شکست) امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ نے ملت ایران کی خوابیدہ غیرت اور قومی غرور و افتخار کو بیدار کردیا۔۔۔، ہمارے عوام اب محسوس کرتے ہیں کہ وہ اتنی قوت و توانائی رکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کی مسلط کردہ پالیسیوں اور زبردستیوں کے مقابلے میں کھڑے رہ سکتے ہیں، یہ عزت و خود اعتمادی کی روح، قومی غرور، حقیقی اور اصلی افتخارات کی روح ہمارے امام نے ہماری ملت کے اندر بیدار کردی ہے۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ)
14/ جولائی /1989
انقلاب کے نعرے آج بھی وہی ابتدائی دنوں کے نعرے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ انقلاب صحیح راہوں پر گامزن ہے، نعرے انگلی کے اشاروں کی طرح اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اہداف کو مشخص کرتے ہیں، جب ایک نظام اور انقلاب میں باقی اور جاری رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نظام کے اہداف پہلی شکل میں باقی ہیں، اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مملکت کے ذمہ دار افراد اور عوام دونوں صراط مستقیم اور بنیادی مقاصد سے منحرف نہیں ہوئے ہیں، آج بھی ایرانی قوم کے نعرے وہی انقلاب کے ابتدائی دنوں کے نعرے ہیں۔ ہماری زندگی اُن ہی بنیادی خطوط پر قائم و برقرار ہے، ہم نے ترقیاں کی ہیں، (البتہ) کمزوریاں اور نقائص بھی رہے ہیں، ہمیں اپنی ترقیوں کو سمجھنا چاہئے، ہمیں اپنی کمزوریوں کا بھی علم ہونا چاہیے، اگر ہم نے اپنی کمزوریوں کو چھپایا، نہیں جان سکے یا نہیں جاننے کا مظاہر کیا تو یہ کمزوریاں باقی رہ جائیں گی، نظام کا حصہ بن جائیں گی ، برطرف نہیں ہوسکیں گی، لہذا تمام قوی و ضعیف نقطوں سے واقف ہونا چاہئے۔
امام خامنہ ای
2/ جنوری /1998