قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ہزاروں طلبہ اور شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات میں سامراج کی شناخت کے لئے بصیرت کی ضرورت پر زور دیا اور امریکی حکومت کو دنیا کی حقیقی سامراجی طاقت قرار دیتے ہوئے فرمایا: جب تک امریکی حکومت دھونس دھمکی اور سامراجی مزاج کو ترک نہیں کر دیتی اس وقت تک ملت ایران امریکی حکومت کی بظاہر امن پسندانہ باتوں پر یقین نہیں کرے گی اور کسی بھی صورت میں خود مختاری، آزادی، قومی مفادات اور اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و دانش اور ادب و ثقافت کے شعبے سے وابستہ سیکڑوں چنندہ شخصیات اور نوجوانوں سے ملاقات میں نمایاں صلاحیتوں کے مالک نوجوانوں سے اپنی ملاقاتوں کو فرحت بخش قرار دیا اور فرمایا: چنندہ اور تعلیم یافتہ نوجوان جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو احساس ذمہ داری اور فرض شناسی سے جوڑ دیا ہے، در حقیقت ملک کی سب سے بڑی امید اور ایران کے درخشاں مستقبل کے بنیادی عناصر ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کی رات ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان اور ان کی قیادت میں ایران آنے والے وفد سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے عوام کے تعلقات کی قدیم تاریخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دونوں ملکوں کے موجودہ قریبی تعلقات کی گزشتہ کئی صدیوں میں مثال نہیں ملتی اور ملکی اور عالمی سطح پر آپ کی حکومت کی پے در پے کامیابیوں پر ہم خوش ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چھے آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھائیس اکتوبر دو ہزار نو کو ملک کے دانشوروں اور یونیورسٹی طلبا کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انتہائی بصیرت افروز نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ادارہ حج کے انتظامی اور ثقافتی امور کے عہدہ داروں سے ملاقات میں اسلامی اتحاد کو موجودہ دور کی سب سے اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے فرمایا: حج، عالم اسلام کے اتحاد و ترقی کی مخالفت اور تفرقہ انگیز کے ہر اقدام کے خلاف امت مسلمہ کے عزم راسخ کا مظہر ہونا چاہئے۔
ایران کے ادارہ حج کے عہدہ داروں اور اہلکاروں نے حج پر روانگی سے قبل چار آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق چھبیس مئی دو ہزار نو کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
دختر رسول حضرت فاطمہ معصومہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے یوم ولادت با سعات پر ملک کے مختلف علاقوں سے تہران آنے والی ہزاروں محققہ قرآن خواتین نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قرآن کے سلسلے میں تحقیق و تصنیف میں مصروف خواتین کے اجتماع سے خطاب میں اس عالمانہ تحریک کی قدردانی کی اور اسے بقیہ اسلامی ممالک اور مسلم معاشروں کے لئے نمونہ عمل قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جنوب مشرقی ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے میں درجنوں برادران شیعہ و سنی، اسی طرح سپاہ پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں بالخصوص نورعلی شوشتری اور کمانڈر محمد زادہ کی شہادت پر مبارکباد اور تعزیت پیش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افریقی ملک سینیگال کے صدر عبد اللہ واد سے ملاقات میں اسلامی ملکوں کے اتحاد و یکجہتی کو اسلام جمہوریہ ایران کے عالمی اہداف کا جز قرار دیا اور دونوں ملکوں کے تجارتی، اقتصادی و صنعتی روابط کے فروغ کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران اپنے تجربات اور حصولیابیاں اسلامی ممالک کو منتقل کرنے کو تیار ہے۔
شمالی صوبہ مازندران کے نوشہر اور چالوس شہروں کے با ایمان عوام نے آج موسم خزاں کی شدید بارش میں ملت اور رہبر ملت کے گہرے رشتے کی پر کشش بہار کا دل آویز نظارہ پیش کیا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دیدار کے لئے شہر چالوس کے شہدائے ہفتم تیر اسٹیڈیم میں باران رحمت کی شدید بوچھاروں میں سراپا انتظار بنے علاقے کے عقیدتمند عوام نے آپ کو دیکھتے ہیں اپنے قلبی جذبات کے اظہار سے نہایت پر شکوہ اور ناقابل فراموش فضا قائم کر دی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح شمالی شہر نوشہر میں فوج کی کیڈٹ یونیورسٹیوں کے طلبا کی تقریب سے خطاب میں مختلف شعبوں میں سرگرم عمل بلند ہمتی اور جذبہ ایمانی سے سرشار افسران کو امن و دوستی اور انصاف سے آراستہ معاشرے کی سمت گامزن ہراول دستہ قرار مدیا اور فرمایا: دنیا کے تسلط پسند عناصر ایران کو سنگین خطرہ ظاہر کرنے کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہیں گے کیونکہ اسلامی جمہوریہ کی قومی قدرت و توانائی نہ صرف یہ کہ قوموں کے لئے خطرناک نہیں بلکہ قوموں کے لئے پیشرفت اور عزت و وقار کا نمونہ ہے۔
پہلا باب: فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخفلسطین پر قبضے کی روش:برعکس حقیقت:فلسطین پر قبضے کے تین مراحل:دوسرا باب: فلسطین کی اہمیتمسئلہ فلسطین کی اہمیت:بیت المقدس کی اہمیت:فلسطین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف:مسئلہ فلسطین اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ:تیسرا باب: فلسطین کی حمایتامت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کے نتائج:فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کا فریضہ:مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام عالم اسلام کی جانب سے فلسطین کی حمایت: مسلم حکومتوں کی جانب سے فلسطین کی حمایت: ملت ایران کی جانب سے فلسطینی قوم کی حمایت: فلسطین کی حمایت میں تشہیراتی مہم سے استفادہ:چوتھا باب: مسئلہ فلسطین کا حلمسئلہ فلسطین کا سفارتی حل:صیہونی حکومت پر دباؤ:تیل کا بطور حربہ کا استعمال:ملت فلسطین کی مالی امداد:فلسطین کی نجات کا راستہفلسطین کی نجات کا راستہ: فلسطینی قوم کی نجات کا واحد راستہ، مزاحمت و استقامت: ملت فلسطین کی بیداری:عرب نیشنلزم اور مسئلہ فلسطینپانچواں باب: آشتی و ساز بازآشتی کا حربہ:اسرائیل سے فلسطین کی مفاہمت کا منصوبہ:عرب اسرائیل مفاہمت کا فلسفہ:پہلی تحریک انتفاضہ کی ناکامی کے اسباب:اوسلو معاہدے کے نتائج:فلسطینی اہداف اور امنگوں سے غداری:فلسطین سے عرب حکام کی غداری:چھٹا باب: مزاحمت و استقامتقوموں کی طاقت:شجاع ملت فلسطین کا جہاد: صیہونی حکومت سے جنگ کے بنیادی محور:فلسطینی مجاہدین کے لئے نمونہ عمل:جہاد، امت مسلمہ کا فریضہ:انتفاضہ مسجد الاقصی:انتفاضہ مسجد اقصی کا سبب:فلسطین، اسلامی بیداری کی تحریک کا محور:استقامت، نجات کا راستہ:ساتواں باب: فلسطین کی تقدیر اور مستقبل بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:یقینی مستقبل:شمشیر پر خون کی فتح:فلسطینپہلا باب: فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخفلسطین پر قبضے کی روش:دشمن کے دسیوں اقدامات پر مشتمل ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں فلسطین، صیہونیوں کی بلا شرکت غیرے ملکیت بن گیا ہے۔ دنیا کے کچھ طاقتور یہودیوں کو یہودی آبادی کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا خیال پیدا ہوا۔ البتہ پہلے سے ہی وہ اس فکر میں تھے کہ یوگانڈا چلے جائیں اور وہاں اپنا ملک قائم کریں۔ کچھ دنوں تک وہ اس بارے میں غور کرتے رہے کہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کا رخ کریں لہذا انہوں نے جاکر اطالوی حکومت سے بات کی کیونکہ اس وقت طرابلس اسی کے قبضے میں تھا لیکن اطالویوں نے نفی میں جواب دیا۔ سرانجام برطانیہ سے ان کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس زمانے میں مشرق وسطی میں برطانیہ کے بہت اہم سامراجی اہداف تھے۔ اس نے سوچا کہ چلو اچھا ہے، یہ لوگ اس علاقے میں آ جائیں گے ( تو ان کے ذریعے) وہ اپنا مشکل ہدف بھی پورا کر لے گا۔ اس سرزمین پر قبضہ ایک کثیر المقاصد اور پیچیدہ منصوبے کے تحت کیا گيا جس کا ہدف مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنا اور دوبارہ طاقتور مسلمان حکومتوں کی تشکیل نہ ہونے دینا تھا۔ ایسے ثبوت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جرمن نازیوں سے صیہونیوں کے بڑے قریبی روابط تھے اور یہودیوں کے قتل عام کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار در حقیقت رائے عام کی ہمدردیاں حاصل کرنے، فلسطین پر قبضے اور صیہونیوں کے جرائم کی پردہ پوشی کا حربہ تھا۔ اس کے بھی ثبوت ہیں کہ مشرقی یورپ کے کچھ غیر یہودی اوباشوں کو یہودیوں کی حیثیت سے ہجرت کراکے فلسطین لایا گيا تاکہ نسل پرستی کی قربانی بننے والوں کے پسماندگان کی حمایت کے نام پر قلب عالم اسلام میں ایک اسلام دشمن حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے اور تیرہ صدیوں کے بعد عالم اسلام کے مغربی و مشرقی حصوں کو دو لخت اور ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے۔ شروعات میں تو مسلمان مات کھا گئے چونکہ صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کی سازش کی حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ حکومت عثمانیہ کو شکست ہوئی۔ فاتح طاقتوں کے درمیان سائکس- پیکو کے نام سے مشرق وسطی کے مسلم علاقوں کی تقسیم کا خفیہ معادہ طے پایا۔ لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو برطانیہ کی نگرانی میں دے دیا۔ برطانیہ نے صیہونیوں سے مدد و تعاون کا وعدہ کر لیا اور طے شدہ منصوبوں کے مطابق یہودیوں کو فلسطین لایا گيا اور مسلمانوں کو ان کے گھر بار سے نکال دیا گیا۔ طے یہ پایا تھا کہ یہودی ابتدا میں تو ایک اقلیت کے طور پر وارد ہوں اور بعد میں بتدریج اپنا دائرہ بڑھائیں اور ایک گوشے کو جو انتہائی حساس گوشہ ہے یعنی فلسطینی ریاست جو حساس علاقے میں واقع ہے، اپنے قبضے میں کر لیں پھر وہاں حکومت بنائیں اور برطانیہ کے اتحادی بنے رہیں اور اس علاقے میں عالم اسلام بالخصوص عرب دنیا کا کوئی اتحادی باقی نہ رہنے دیں۔ جس دشمن کو باہر سے اس طرح کی حمایت حاصل ہو وہ جاسوسی اور دیگر حربوں سے اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس نے ایسا ہی کیا۔ کسی سے نزدیک ہو گیا، کسی پر ضرب لگا دی، کسی کو کچل دیا اور کسی سے سختی کا برتاؤ کیا۔ بنابریں سب سے پہلے درجے میں برطانیہ کی مدد ملی اور پھر بعض دیگر مغربی ممالک نے تعاون کیا۔ بعد میں یہ لوگ برطانیہ سے رفتہ رفتہ دور اور امریکا کے قریب ہوتے گئے۔ امریکا آج تک صیہونیوں کو اپنے سائے میں پناہ دئے ہوئے ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے ایک ملک بنایا اور فلسطین پر قبضہ کیا۔ قبضے کا انداز یہ تھا کہ پہلے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا، پہلے مکر و حیلے سے کام لیا۔ پہلے جاکر فلسطینیوں کی بڑی زمینوں کو جس پر عرب کسان زراعت کیا کرتے تھے اور جو بہت سرسبز و زرخیز تھیں اور جن کے اصلی مالک یورپ اور امریکا میں رہتے تھے، ان کی اصلی قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر خرید لیا اور پھر ان زمینوں کو یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ ان کے پاس اس کے کچھ اچھے ذرائع بھی تھے جن میں سے ایک سید ضیا (سید ضیاء الدین طباطبائی) تھا جو انیس سو بیس کے آس پاس ہونے والی بغاوت میں رضا خان کا شریک کار تھا، اس نے فلسطین جاکر وہاں مسلمانوں سے زمین خرید کر یہودیوں اور اسرائیلیوں کو فروخت کرنے کی دلالی شروع کر دی۔ زمینوں کو خریدا گیا۔ جو زمینیں ان کی ملکیت میں آئیں ان کو بڑی سنگدلی اور درندگی کے ساتھ ان کسانوں سے خالی کرایا جانے لگا جو اس پر کھیتی کرتے تھے۔ کہیں بھی جاکر مار پیٹ کرتے تھے، لوگوں کو قتل کرتے دیتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ عالمی رائے عامہ کی ہمدردیاں بھی بٹورنے کی کوششیں جاری رکھتے تھے۔ ٹاپ برعکس حقیقت:عالمی سطح پر جاری تشہیراتی مہم میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن یہودیوں نے آکر فلسطین میں اپنے گھر بنائے ہیں وہ مظلوم و ستم رسیدہ اور ظلم و جارحیت سے پسے ہوئے لوگ ہیں جبکہ وہ عرب جو اپنے گھر واپس لینے کی کوششیں کر رہے ہیں بڑے جبرپسند اور تند مزاج لوگ ہیں جو کسی بھی اصول و قانون کے پابند نہیں۔ جب روسی یہودیوں اور صیہونیوں نے فلسطین کی جانب ہجرت شروع کی تو اس وقت وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ یہ غاصب ہیں، یہ فلسطین کے رہنے والے نہیں ہیں جو وہاں جا رہے ہیں، یہ روس، یوکرین، یورپی ممالک اور امریکا کے رہنے والے ہیں جن میں ہر ایک کے پاس اپنے وطن میں زمینیں، رہائش گاہیں، دولت و ثروت اور مال و منال ہے، اس سب کے باوجود وہ فلسطین جا رہے ہیں تاکہ فلسطینیوں کا حق غصب کریں اور ان سے اپنے گھر بسانے کا حق چھین لیں۔ ان باتوں کو زبان پر نہیں لاتے تھے! علاوہ ازیں صیہونی اور امریکی عناصر اپنے ذرائع ابلاغ میں کچھ تھکی ہاری اور خستہ حال یہودی عورتوں اور بچوں کی تصاویر دکھاتے تھے تاکہ دنیا والے کہیں کہ بڑی عجیب بات ہے! یہ عرب ان بیچارے مظلوموں کے ساتھ یہ برتاؤ کیوں کر رہے ہیں؟! ٹاپ فلسطین پر قبضے کے تین مراحل:فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے تین مراحل ہیں: ایک مرحلہ عربوں سے قسی القلبی کے برتاؤ کا ہے، فلسطین کے اصلی و حقیقی باسیوں کے ساتھ صیہونیوں کا برتاؤ بڑا سنگدلانہ اور تشدد پسندانہ تھا۔ ان کے ساتھ کسی طرح کی رو رعایت نہیں کی جاتی تھی۔ دوسرا مرحلہ: عالمی رائے عامہ کے سامنے جھوٹ بولنے اور دروغ گوئی کا تھا۔ عالمی رائے عامہ سے دروغ گوئی ان کے حیرتناک حربوں میں سے ایک ہے۔ یہودیوں کے قبضے والے صیہونی ذرائع ابلاغ کے ذریعے انہوں نے عالمی رائے عامہ سے بے پناہ جھوٹ بولے، قبضے سے پہلے بھی اور قبضے کے بعد بھی۔ اسی جھوٹ کے سہارے یہودی سرمایہ داروں کو شیشے میں اتارا گیا! بہتوں کو ان کے جھوٹ پر یقین بھی آ گيا۔ حتی وہ فرانسیسی فلسفی و مصنف جان پال سارٹر تک کو فریب دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی جان پال سارٹر نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا میں نے تقریبا تیس سال قبل مطالعہ کیا۔ اس نے لکھا کہ بغیر سرزمین کے عوام اور بغیر عوام کی سرزمین یعنی یہودی وہ لوگ تھے جن کے پاس کوئی زمین نہ تھی، وہ فلسطین آئے جو باشندوں سے خالی سرزمین تھی، انسانوں سے خالی ویران علاقہ تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ انسانوں سے خالی علاقہ تھا؟ جناب وہاں پوری ایک قوم آباد تھی جو کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ اس کے ثبوتوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک غیر ملکی مصنف کہتا ہے کہ پوری سرزمین فلسطین میں گندم کے کھیت ہی کھیت تھے اور تا حد نگاہ انہی کھیتوں کی ہریالی نظر آتی تھی۔ دنیا کو یہ بتایا گيا کہ فلسطین ایک ویران اور متروک علاقہ تھا، ہم نے آکر اسے آباد کیا۔ پوری رائے عامہ سے دروغ گوئی! ہمیشہ خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی یہودی خاندان کے ساتھ کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش آ جاتا تو ٹائم اور نیوز ویک جیسے امریکی جریدوں میں مہلوک کی تصویر، عمر، دیگر تفصیلات اور اس کے بچوں کی مظلومیت کی مفصل داستان شائع ہوتی لیکن فلسطینی نوجوانوں، لڑکوں، خاندانوں، بچوں اور عورتوں پر مقبوضہ فلسطین کے اندر اور لبنان میں مظالم کے جو پہاڑے توڑے جاتے ہیں ان کی جانب اشارہ تک نہیں کیا جاتا! تیسرا مرحلہ: ساز باز کا ہے۔ یعنی فلاں حکومت سے بات کرو، فلاں شخصیت سے رابطہ کرو، فلاں سیاستداں کو اپنے ساتھ ملاؤ، فلاں دانشور سے ملو، فلاں مصنف اور فلاں شاعر سے ساز باز کرلو! ان کی کوششیں ان تین مراحل میں جاری رہی ہیں اور وہ اس طرح ایک ملک کو فریب اور دھوکے سے ہڑپنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہیں بیرونی ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی ہے جن میں سب سے پیش پیش برطانیہ تھا۔ اقوام متحدہ اور اس سے قبل لیگ آف نیشنز نے بھی جنہیں جنگ ہو جانے کے بعد امن کے قیام کے نام پر تشکیل دیا گيا تھا، سوائے چند مواقع کے ہمیشہ ان کی حمایت کی۔ انیس سو اڑتالیس میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی اور فلسطین کو بغیر کسی معقول وجہ کے تقسیم کر دیا۔ اس قرارداد میں کہا گيا کہ فلسطینی سرزمین کا ستاون فیصدی حصہ یہودیوں کا ہے جبکہ اس سے قبل تک محض پانچ فیصدی زمین ہی ان کے پاس تھی! پھر کیا تھا یہودیوں نے ایک حکومت قائم کر لی جس کے بعد گاؤوں، شہروں اور گھروں پر حملے اور دوسری حرکتیں شروع ہو گئیں۔ البتہ عرب حکومتوں نے بھی کوتاہیاں کیں۔ کئی جنگیں ہوئیں۔ انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلیوں نے امریکا اور کچھ دیگر حکومتوں کی مدد سے مصر، شام اور اردن کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تہتر کی جنگ میں جو انہوں نے شروع کی بڑی طاقتوں کی مدد سے جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں موڑ لیا اور مزید کچھ علاقے ہڑپ لئے۔ ٹاپ دوسرا باب: فلسطین کی اہمیتمسئلہ فلسطین کی اہمیت:حقیقت میں اس وقت مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی علاقوں کا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا اور اہم نہیں ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔ برسوں سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو اس کا عادی بنا دیا گیا کہ ان کے گھر کا ایک حصہ اغیار کے قبضے میں رہے۔ البتہ بات مسلمانوں کے گھروں کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسی حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں سب سے اہم ہدف و مقصد سرزمین فلسطین کو نجات دلانا ہے یعنی فلسطینی حکومت کو محو و نابود کرنا اور اس سلسلے میں انیس سو سڑسٹھ سے قبل اور بعد کے علاقوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ سرزمین فلسطین کا ایک بالشت حصہ بھی فلسطینیوں کے گھر کا ایک بالشت حصہ ہے۔ فلسطینی ریاست پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حکومت کے علاوہ کوئی بھی اقتدار غاصبانہ اقتدار ہوگا۔ بنابریں بنیادی بات وہی ہے جو امام خمینی نے فرمائی: اسرائیل کو نابود ہو جانا چاہئے فلسطین کے یہودی اگر اسلامی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہاں شوق سے زندگی گزاریں۔ یہودیوں سے دشمنی برتنے کی بات نہیں ہے۔ مسئلہ مسلمانوں کے گھروں پر غاصبانہ قبضے کا ہے۔ مسلمان عمائدین اور زعما اگر بڑی عالمی طاقتوں کے زیر اثر اور ان کے دباؤ میں نہ ہوتے تو یہ مہم سر کر سکتے تھے لیکن افسوس انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ٹاپ بیت المقدس کی اہمیت:مسئلہ فلسطین کے ساتھ ہی بیت المقدس کا مسئلہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت اس مقدس شہر کو غصب کر لینے اور ہضم کر جانے اور شہر کے اسلامی آثار کو محو کر دینے کی گوناگوں صیہونی سازشیں چل رہی ہیں۔ اس شہر کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ پورا بیت المقدس پورے فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دشمنوں کی ناپاک سازشیں عملی جامہ پہنیں، وہ ان سازشوں کا مقابلہ کریں گے۔ ٹاپ فلسطین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف:اسلامی نقطہ نگاہ سے: مسئلہ فلسطین اسلامی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لئے بنیادی اور حیاتی مسئلہ ہے۔ تمام قدیم شیعہ سنی علما نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر اسلامی سرزمین کا کوئی ٹکڑا دشمنان اسلام کے قبضے میں چلا جائے تو سب کا فریضہ یہ ہے کہ دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوں یہاں تک کہ مقبوضہ علاقے کو آزاد کرا لیا جائے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ہر شخص کی توانائی اور امکان کے مطابق اس کی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے میں اسلامی لحاظ سے ان کا فرض بنتا ہے۔ کیونکہ یہ زمین اسلامی سرزمین ہے، دشمنان اسلام کے قبضے میں ہے، اسے بازیاب کرایا جانا چاہئے۔ دوسرے مرحلے میں یہ کہ اسی لاکھ مسلمانوں کی بات ہے۔ ان میں بہت سے بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ بہتوں کا عالم یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر پناہ گزینوں سے بھی ابتر حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ معمول کی آمد و رفت تک سے گھبراتے ہیں اور ڈرتے ہیں، اپنے دل کی بات آزادانہ بیان نہیں کر سکتے۔ ملک کے نظم و نسق کے لئے کوئی نمائندہ منتخب کرنے کی انہیں اجازت نہیں ہے۔ بسا اوقات تو انہیں نماز پڑھنے تک سے روک دیا جاتا ہے۔ مسجد الاقصی کو جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے خطرے میں ڈال دیا گيا ہے، برسوں قبل ایک دن اسے آگ بھی لگا دی گئی۔ اس کے بعد وہاں کھدائی کا کام شروع کر دیا اور غیر قانونی حرکتیں انجام دی گئیں۔ وہ مسجد الاقصی کو مسلمانوں کے قبلہ اول کو اسلامی تشخص سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ انسانی نقطہ نگاہ سے: فلسطینی خاندانوں کی مظلومیت سے ہر انسان کے دوش پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں، ان لوگوں کی مظلومیت سے جو فلسطین کے اندر ہیں۔ ان پر ظلم کے کیسے کیسے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں بھی نہیں معلوم کہاں مر گئی ہیں! یہ امریکی اور یہ مغرب والے جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ دنیا میں جمہوریت کا فروغ ان کا فریضہ ہے، اس مسئلے میں بڑی بے آبروئی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نظروں کے سامنے ایک ایسی قوم ہے جسے اپنے ملک کے کسی بھی معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے، جس کا کہیں کوئی اثر نہیں ہے اور جس کی کہیں کوئی بات نہیں کی جاتی، یہی ملت فلسطین ہے۔ انسانی زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ایک طرف یہ مظلوم لوگ اس نسل پرست ظالم حکومت کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا اور عالمی تنظیموں اور نام نہاد مغربی دانشور ہیں جو جمہوریت کی حمایت کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔ امن و سلامتی کے نقطہ نگاہ سے: اسرائیل، امن و سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے، پورے علاقے کی سلامتی کے لئے کیونکہ اسکے پاس ایٹمی ذخیرہ ہے اور وہ مزید اسلحے بنا رہا ہے! اقوام متحدہ بھی کئی بار انتباہ دے چکی ہے لیکن اسرائيل نے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اس کی اہم وجہ امریکا کی پشتپناہی اور حمایت ہے۔ یعنی صیہونیوں اور غاصب صیہونی حکومت کے جرائم بڑی حد تک امریکی حکومت کی گردن پر ہیں۔ ان دسیوں سال کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کے خلاف تیس سے زائد قراردادیں منظور کی ہیں لیکن امریکا نے سب کو ویٹو کر دیا۔ اقتصادی لحاظ سے: اسرائیل علاقے کے لئے خطرہ ہے۔ فلسطین پر حکمفرما صیہونیوں نے جدید مشرق وسطی کے نام سے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ جدید مشرق وسطی یعنی چہ؟ یعنی یہ کہ مشرق وسطی اسرائیل کی محوریت میں ترتیب پائے اور اسرائیل رفتہ رفتہ عرب ممالک، علاقے کے ممالک اور خلیج فارس کے تیل کی دولت سے مالامال علاقوں پر اقتصادی تسلط حاصل کر لے! اسرائیلیوں کا ہدف یہ ہے۔ بعض حکومتیں غفلت کی نیند سو رہی ہیں۔ جب ان پر اعتراض ہوتا ہے تو کہتی ہیں کہ اسرائیل سے ہمارے روابط نہیں ہیں، ہم نے تو صرف ان کے تاجروں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی ہے! اسرائیل کی تو دلی مراد یہی تھی۔ ان (تاجروں) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسرائیل امریکا کی حمایت اور اپنے خطرناک اسلحہ خانے کی مدد سے بعض کمزور حکومتوں کی غفلت اور کمزوری کا فائدہ اٹھائے اور ان کے اندر قدم جما لے، ان کے اقتصادی و مالیاتی ذخائر پر قابض ہو جائے۔ یہ علاقے کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اللہ کبھی وہ دن نہ دکھائے اور انشاء اللہ نہیں دکھائے گا۔ مسلمان ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ ایسا ہو۔ ان تاجروں کا منصوبہ یہی ہے کہ معاشی طاقت کے سہارے ان ملکوں میں طاقت کے تمام مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ بنابریں اسلامی نقطہ نگاہ سے، انسانی نقطہ نگاہ سے، اقتصادی نقطہ نگاہ سے، سکیورٹی کے نقطہ نگاہ سے اور سیاسی نقطہ نگاہ سے اس وقت اسرائیل کا وجود، علاقے کی قوموں اور ملکوں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ٹاپ مسئلہ فلسطین اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ:اسلامی تحریک کے آغاز سے اور انیس سو باسٹھ سے ہی جب ایران میں مسئلہ فلسطین ہنوز خواص کے درمیان بھی عام نہیں ہوا تھا، امام خمینی کا موقف یہ تھا کہ اسرائیلی تسلط کی بابت سب کو محتاط اور ہوشیار ہو جانا چاہئے، سب کو چاہئے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور مقابلہ کریں۔ اس کے بعد بھی آپ کا یہ موقف برقرار رہا۔ اس مرد الہی کا یہ اہم نعرہ رہا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک سے مسئلہ فلسطین کے پیکر میں ایک نئی جان پڑ گئی اور اسے اسلامی ایمان کا سہارا ملا جو ہمیشہ فداکارانہ جہاد کے ہمراہ ہوتا ہے۔ امام خمینی نے کبھی بھی دنیا کی استبدادی طاقتوں سے گھبرا کر مظلوموں کی حمایت بند نہیں کی۔ پورے وقت آپ مسئلہ فلسطین کو بنیادی مسئلہ ہی قرار دیتے رہے۔ امام خمینی نے اپنے وصیت نامے اور بیانوں میں مظلوم قوموں کی آواز استغاثہ پر لبیک کہے جانے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ مظلوموں کے حقوق کا صریحی دفاع، ملت فلسطین کے حقوق کے دفاع میں صریحی موقف اور دیگر مظلوموں کی حمایت، یہ امام (خمینی رہ) کی راہ و روش ہے۔ یہی آپ کا شیوہ اور یہی آپ کی وصیت ہے۔ ایک فلسطینی مسلم نوجوان کہتا ہے: اس وقت مقبوضہ فلسطین کی جیلوں میں بند قیدی امام (خمینی رہ) کے عشق میں اور اسلامی انقلاب کے عظیم الشان بانی کی شان میں اشعار پڑھتے ہیں۔ ان کالی کوٹھریوں کے اندر تک انقلاب، امام (خمینی رہ) اور ملت ایران کی مجاہدت کا تذکرہ ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: فلسطین کی حمایتامت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کے نتائج:اگر آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہوتا اور اگر وہ اسلام کی روحانیت و معنویت پر تکیہ کرتے تو دشمن اس طرح کھلے عام فلسطینی قوم کے اس کے گھر کے اندر نہ کچل پاتا۔ فلسطین کے واقعات ہر غیرت مند انسان کے دل کو خواہ وہ بہت زیادہ دیندار نہ بھی ہو، خون کر دیتے ہیں اور اس کا چین و سکون چھین لیتے ہیں۔ ٹاپ فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کا فریضہ:مظلوم فلسطینی قوم اور اس کے شجاعانہ و مظلومانہ قیام کا دفاع ہم سب کا اسلامی فریضہ ہے۔ آج ایک مسلم قوم بیچ میدان کارزار سے، خون آلود چہرے کے ساتھ، مسلم امہ کو مدد کے لئے پکار رہی ہے۔ مجھ سے اس فلسطینی خاتون کی فریاد کبھی نہیں بھولتی جو نامہ نگار کے کیمرے کے سامنے رندھی ہوئی آواز میں اے مسلمانو اے مسلمانو! پکار رہی تھی۔ تمام مسلمانوں اور عربوں کو چاہئے کہ فلسطینی عوام کے حق دفاع و مزاحمت کی حمایت کریں۔ عالمی اداروں کی سطح پر اس نکتے پر زور دیا جائے کہ بے سہارا عوام جن کے حقوق سلب کر لئے گئے ہیں اور جو غاصبانہ قبضے میں دبے ہوئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، ان کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جد و جہد اور مزاحمت کا حق ہے۔ لہذا انتفاضہ کا تسلسل اور فلسطینی عوام کی استقامت و مزاحمت ان کا قانونی حق ہے جسے عالمی قوانین میں بھی قابل احترام قرار دیا گيا ہے۔ حالانکہ عموما سامراج اور بڑی طاقتوں کے مفادات کے مطابق ان قوانین کی تفسیر کی جاتی ہے۔ اب مزید یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان، فلسطینی قوم کی سرکوبی کا نظارہ کریں اور خاموش بیٹھے رہیں۔ اسرائیل کو فہمائش کر دی جانی چاہئے کہ فلسطینی عوام اور فلسطینی نشین علاقوں پر حملوں کا تسلسل تمام مسلمانوں اور عربوں کی جانب سے شدید، سنجیدہ اور عملی رد عمل کا موجب بنے گا۔ ٹاپمسئلہ فلسطین اور عالم اسلامعالم اسلام کی جانب سے فلسطین کی حمایت:مسئلہ فلسطین عالمی سطح پر اولیں اسلامی مسئلہ ہے۔ حقیقت میں اس وقت مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی علاقوں کا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا اور اہم نہیں ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔ یہ ایک قوم کے رنج و الم، مظلومیت اور نقل مکانی کا مسئلہ ہے۔ ایک ملک کو غصب کر لئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ اسلامی ممالک کے قلب اور اس جگہ کو سرطان میں مبتلا کر دینے کا معاملہ ہے جہاں عالم اسلام کے مشرق و مغرب ملتے ہیں۔ یہ بلا وقفہ جاری ظلم کا مسئلہ ہے جو پے در پے دو فلسطینی نسلوں پر سایہ فگن رہا۔ آج سرزمین فلسطین میں عوامی طاقت پر استوار خونیں اسلامی تحریک، بے ضمیر، انسانیت سے بے بہرہ اور جرائم کے خوگر غاصبوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بن گئی ہے۔ دشمن کی چالیں ہمیشہ سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہو گئی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس مسئلے کو اب ہمیشہ سے زیادہ سنجیدگی سے لیں اور اس کے بارے میں غور و فکر اور کوئی اقدام کریں۔ بنیادی طور پر یہودی حکومت کی تشکیل یا بہتر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ صیہونی حکومت کی تشکیل وہ بھی عالم اسلام کے اس حصے میں دراز مدتی اور طویل المیعاد سامراجی عزائم کے تحت عمل میں آئی ہے۔ در حقیقت اس حساس علاقے میں ایک حکومت کا قیام، جو قلب عالم اسلام کا درجہ رکھتا ہے یعنی مغربی اسلامی دنیا یعنی افریقا کو مشرقی اسلامی دنیا یعنی مشرق وسطی اور مشرقی ایشیا سے متصل کرتا ہے اور جو ایشیا، افریقا اور یورپ کے لئے ایک تراہے کی حیثیت رکھتا ہے، اس ہدف کے تحت عمل میں لایا گیا کہ دراز مدت تک اس وقت کے سامراجیوں کا جن میں برطانوی حکومت سب سے پیش پیش تھی، اسلامی دنیا پر تسلط قائم رہے۔ غاصب حکومت کے مقابلے کا صحیح راستہ وہی ہے جسے آج فلسطینیوں نے اختیار کر رکھا ہے اور جس پر وہ مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس مقدس جد و جہد میں ان کی مدد کریں۔ اس وقت مسئلہ فلسطین کے سلسلے مسلمان حکومتوں کی بے توجہی کا کوئی بھی بہانہ اور عذر قابل قبول نہیں ہے۔ غاصب حکومت نے بربریت اور وحشی پنے کی حد کر دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے خطرناک توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے کسی بھی جرم کا ارتکاب کر سکتی ہے۔ فلسطینی قوم کی اسلامی تحریک نے بھی سب پر حجت تمام کر دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ دشمن کے بھاری دباؤ اور دوستی کے دعویداروں کی خیانت کے باوجود استقامت و مزاحمت کا پودا خشک نہیں ہوا بلکہ اس کی جڑیں اور بھی گہرائیوں میں اترتی جا رہی ہیں اور یہ بارآور ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا تمام حکومتوں اور قوموں کے لئے لازمی ہے کہ فلسطین کے اسلامی مسئلے کو اولیں اور سب سے بڑا مسئلہ سمجھیں اور اپنی بساط بھر مدد اور تعاون کی کوشش کریں۔ اسلامی مکاتب فکر میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور تمام علمائے دین اس پر متفق ہیں کہ اگر دشمنان اسلام اسلامی سرزمین کے کسی ٹکڑے کو اس سے الگ کر دیں اور اس ٹکڑے پر دشمنان اسلام کی حکومت قائم ہو جائے تو ہر ممکن جد و جہد اور سعی و کوشش کے ذریعے اس ٹکڑے کو اسلامی سرزمین سے دوبارہ جوڑنا ہر کسی کا فریضہ سمجھا جانا چاہئے۔ ملت فلسطین کو بھی جس کی جانب عالم اسلام کی توجہات مرکوز ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم امہ کے دلوں سے اس کے لئے دعائیں اور تعریفی کلمات نکل رہے ہیں، اگر امداد بھیجنے کا راستہ اس وقت کھلا ہوتا تو مسلم امہ امداد بھیجتی۔ خواہ حکومتیں اس سے راضی ہوتیں یا نہ ہوتیں۔ مسلم امہ فلسطین سے دستبردار نہیں ہو سکتی، فلسطینی قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی، فلسطینی نوجوانوں سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ ٹاپمسلم حکومتوں کی جانب سے فلسطین کی حمایت:مسلم حکومتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس قوم کو اپنے دفاع کے لئے ضروری وسائل فراہم کرائیں اور اسی طرح دنیا میں صیہونیوں کے مفادات کی حفاظت کرنے والوں پر سیاسی دباؤ ڈالیں۔ وہ باہمی اور دو طرفہ روابط، عالمی اداروں، عمومی تقاریر اور خصوصی مذاکرات میں یہ کام کر سکتی ہیں۔ اب جبکہ جارح اپنے جرائم سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہے تو فلسطینی قوم کو جو حق پر ہے اور جو اپنے حقوق کا دفاع کر رہی ہے، یہ توانائی ملنی چاہئے کہ اپنا دفاع کر سکے۔ ٹاپ ملت ایران کی جانب سے فلسطینی قوم کی حمایت:ایرانی قوم سامراج کی چکی میں پسنے والی مظلوم قوموں کی ہمیشہ سے حامی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ ایرانی عوام نے ہمیشہ جرائم پیشہ صیہونیوں کے خلاف فلسطین کی مجاہد و دانشمند قوم کا ساتھ دیا ہے اور ساتھ دیتی رہیں گے، وہ اپنے فلسطینی بھائیوں سے کہتے ہیں کہ راہ خدا پر پیش قدمی یعنی غاصب دشمن اور اس کے حامیوں سے جنگ کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اعتماد کے ساتھ غاصب صیہونی حکومت کے خاتمے تک جاری رکھیں۔ ایران کی عظیم قوم اور با ایمان رضاکار فورس فلسطینی قوم کے دفاع کو دینی فریضہ سمجھتی ہے اور اللہ تعالی کی راہ پر چلتے ہوئے کسی بھی ہدف کو دسترسی سے باہر نہیں مانتی۔ ٹاپ فلسطین کی حمایت میں تشہیراتی مہم سے استفادہ:دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں نے پوری دنیا میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے سیکڑوں بلکہ ہزاروں فلمیں بنا ڈالیں تاکہ انہیں مظلوم اور ان کے مد مقابل کھڑے افراد کو ظالم و ستمگر سمجھا جائے۔ آج ملت فلسطین پر جو مظالم ہو رہے ہیں کبھی بھی کسی قوم کے ساتھ نہیں ہوئے جبکہ عالمی رائے عامہ کو اس کی اطلاع بھی نہیں ہے۔ اسے صحیح طور پر منظر عام پر لانا چاہئے۔ فلمیں بنائی جانی چاہئے، فن و ہنرے کا سہارا لیکر عالمی رائے عامہ کو حالات سے واقف کرایا جانا چاہئے۔ٹاپچوتھا باب: مسئلہ فلسطین کا حلمسئلہ فلسطین کا سفارتی حل:مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ سے دو طریقوں کی تجویز دی گئی جن میں ایک صحیح راہ حل ہے اور دوسری غلط۔۔ غلط راہ حل یہ ہے کہ اسی غاصب حکومت کے ساتھ، جو نہ تو انسانی اقدار کو خاطر میں لاتی ہے اور نہ ہی عالمی قوانین کو در خور اعتنا سمجھتی ہے، جس کی نظر میں عالمی اداروں کی قراردادوں کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے، مذاکرات کئے جائیں اور مل جل کر کسی ایک نتیجے پر پہنچا جائے۔ یہ راہ حل جس شکل میں بھی سامنے آئے غلط ہے۔ اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی دستخط کا پابند نہیں ہے۔ اگر انہوں نے اتفاق رائے بھی کر لیا ہے اور اس پر دستخط بھی کر دئے ہیں تب بھی وہ اس کے پابند نہیں رہتے۔ یہ کہ جارح کے منہ میں ایک اور لقمہ ڈالا جائے تاکہ وہ اور طاقتور ہوکر اگلا قدم اٹھا سکے، راہ حل نہیں ہے۔ یہ فلسطین کا ساٹھ سالہ تجربہ ہے۔ اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہوئی۔ امریکا نے بھی جو صیہونیوں کی حمایت کرتا رہا ہے اس پر دستخط کئے تاہم یہ غاصب حکومت ان قراردادوں پر عمل کرنے سے مکر گئی۔ منطقی راہ حل یہ ہے کہ جسے دنیا کے سارے بیدار ضمیر افراد اور وہ لوگ جو عصری اصولوں سے واقف ہیں، تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، وہ ہے خود فلسطینی عوام کی رائے لینا ان تمام لوگوں سے جو فلسطین سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے، البتہ وہ لوگ جو اپنی سرزمین اور اپنے گھروں کو لوٹنے پر مائل ہیں۔ یہ ایک منطقی بات ہے۔ یہ لوگ جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دیگر عرب ممالک میں سرگرداں ہیں وہ اپنے ملک اور اپنے گھر لوٹیں۔ انیس سو اڑتالیس سے قبل جو لوگ بھی فلسطین میں آباد تھے خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، سب کی خواہش معلوم کی جائے۔ یہ لوگ ایک ریفرنڈم میں شرکت کرکے فلسطینی سرزمین کے لئے حکومت کا تعین کریں۔ یہ جمہوری عمل بھی ہے۔ ساری دنیا کے لئے جمہوریت اچھی ہے تو فلسطینی عوام کے لئے کیوں اچھی نہیں ہے؟! کیوں دنیا بھر کے عوام کو اپنی تقدیر اور مستقبل کے فیصلے میں دخیل ہونے کا حق ہے اور فلسطینی عوام کو یہ حق نہیں؟! آج فلسطین میں جو حکومت قائم ہے اس کے بارے میں کسی کو ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں ہے کہ طاقت کے زور پر اور مکر و حیلے کے ذریعے اس کا قیام عمل میں آیا ہے، اس میں کسی کو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ صیہونی امن و آشتی کے طریقے سے اقتدار میں نہیں آئے ہیں۔ کچھ تو مکر و فریب کے ذریعے اور کچھ دیگر اسلحے کے زور پر اقتدار میں پہنچے ہیں۔ بنابریں یہ ایک مسلط کردہ حکومت ہے۔ فلسطینی مجتمع ہوں، ووٹ دیں اور یہ فیصلہ کریں کہ ان کے ملک میں کیسی حکومت تشکیل پائے۔ پھر ویسی ہی حکومت قائم ہو اور انیس سو اڑتالیس کے بعد سرزمین فلسطین میں آکر بسنے والوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ پھر وہ جو بھی فیصلہ کریں۔ اگر یہ فیصلہ کیا گيا کہ یہ لوگ یہیں باقی رہیں تو وہ باقی رہیں اور اگر فیصلہ کیا گيا کہ یہ لوگ یہاں سے واپس جائیں تو واپس جائیں۔ یہ عوامی فیصلہ بھی ہوگا اور جمہوری عمل کا تقاضا بھی اس سے پورا ہوگا، یہ انسانی حقوق کی پاسداری بھی ہوگی اور دنیا کے عصری اصولوں پر عمل آوری بھی۔ ٹاپ صیہونی حکومت پر دباؤ:جب غاصب میٹھی زبان سے منطقی و معقول راہ حل کو تسلیم نہ کرے تو پھر معاملے کے تمام فریق اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھیں اور محسوس کریں۔ عرب حکومتیں بھی، اسلامی حکومتیں بھی، دنیا بھر کی مسلمان قومیں بھی، خود ملت فلسطین بھی اور عالمی ادارے بھی۔ ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اس منطقی راہ حل کو عملی جامہ پہنانے پر اصرار کرے۔ کچھ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں، عملی طور پر ایسا کرنا ناممکن ہے۔ جی نہیں! ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ بحر بالٹک کے ممالک چالیس سال تک سابق سویت یونین کا جز بنے رہنے کے بعد دوبارہ آزاد ہو گئے۔ قفقاز کے علاقے کے ممالک سویت یونین کی تشکیل سے تقریبا سو سال قبل روس کے زار حکمرانوں کے زیر نگیں تھے، وہ بھی آزاد ہو گئے۔ اس وقت قزاقستان، آذربائیجان، جارجیا، اور دیگر ممالک آزاد و خود مختار ممالک بن چکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ممکن ہے۔ لیکن اس کے لئے عزم و ارادے اور جرئت و دلیری ضروری ہے۔ قومیں دلیر بھی ہیں، وہ کسی سے نہیں ڈرتیں، وہ آمادہ بھی ہیں تو ایسے میں اب باری ہے حکومتوں کے فریضے کی انجام دہی کی۔ ان میں بھی سب سے پہلے عرب حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آج عرب حکومتیں آگے بڑھ کر مسئلہ فلسطین میں اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل کر سکتی ہیں، اپنی مقبولیت بڑھا سکتی ہیں۔ اگر کسی حکومت کو اپنے عوام اور قوم کی حمایت و تائيد حاصل ہو تو امریکا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر آپ کو امریکا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، پھر اسے امریکا کے اشارہ ابرو پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹاپ تیل کا بطور حربہ کا استعمال:جو بڑے قدم عرب حکومتیں اٹھا سکتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک تیل کے ہتھیار کو استعمال کریں۔ مغرب والوں نے دنیا بھر میں یہ جو واویلا مچا رکھا ہے کہ تیل کو اسلحے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے، درست نہیں ہے۔ تیل قوموں کی دولت ہے اور اسے ان کے مفادات کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ امریکی تو گندم اور دیگر غذائی اشیاء تک کو اسلحے کے طور پر استعمال کر چکے ہیں اور کچھ جگہوں پر آج بھی کر رہے ہیں تو پھر عرب اور مسلمان ملکوں کو یہ حق کیوں نہیں ہے؟ علامتی اقدام کے طور پر ملت فلسطین کی حمایت میں صرف ایک مہینے کے لئے ان ممالک کو تیل کی برآمد روک دیں جن کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ آج دنیا کے پاس حرکت، روشنی اور انرجی، زندگی کے تین اہم عنصر ہیں اور وہ ان تینوں کو مسلم ممالک کے تیل سے حاصل کرتی ہے۔ اگر انہیں تیل نہ دیا جائے تو کارخانوں کی حرکت، روشنی اور حرارت کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔ ٹاپ ملت فلسطین کی مالی امداد:فلسطینیوں کی مالی مدد صرف حکومتوں سے مخصوص نہیں ہے کہ کسی حکومت کے اس اعلان کا انتظار کیا جائے کہ جناب ہم نے دس ملین ڈالر، بیس ملین ڈالر یا پچاس ملین ڈالر دے دئے ہیں جس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ رقم کہاں دی گئی ہے، کس طرح دی گئی ہے، کس کو دی گئی ہے۔ آج فلسطینی قوم غذائی اشیاء کی محتاج ہے، دوا کی محتاج ہے۔ فلسطینی قوم کوئی فقیر قوم نہیں ہے۔ عظیم قوم ہے لیکن دشمن کے تسلط میں جکڑی ہوئی ہے۔ سب کا فریضہ ہے کہ اس کی مدد کریں۔ فرض کیجئے کہ اگر پورے عالم اسلام میں، ایران اور دیگر ممالک میں ہر شخص ہزار تومان (ایک ڈالر سے کچھ زیادہ) فلسطینی عوام کو بطور امداد دے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہوگا؟! ایک ہزار ارب تومان (ایک ارب ڈالر) کا فلسطینی عوام اور ان کی زندگی پر کیا اثر ہوگا؟! ان کے لئے آذوقہ، دوائيں، وسائل اور استقامت و مزاحمت کے لئے ضروری تمام اشیاء مہیا کی جانی چاہئے۔ٹاپ فلسطین کی نجات کا راستہفلسطین کی نجات کا راستہ:گزشتہ چند عشروں کے دوران غاصب حکومت کی جانب سے فلسطینی ریاست اور عوام پر مصیبتوں کا جو بوجھ لاد دیا گيا ہے وہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے کافی ہے کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتوں اور علاقے میں ان کے اتحادیوں کی مدد سے فلسطین کی نجات کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ ایران کے عظیم اسلامی انقلاب نے ثابت کر دیا ہے کہ بڑی مشکلات کے حل کی کنجی خود قوموں کے پاس ہے۔ یہ انسانوں کا ارادہ ہے جو اللہ تعالی پر توکل اور وعدہ الہی پر اعتماد کی صورت میں دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی تدابیر اور خواہشات پر غالب آ جائے گا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات سے قوموں کے کردار کی اہمیت و افادیت پہلے سے زیادہ آشکارا ہو گئی ہے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی درندہ صفت صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم کا عزم محکم ہی ٹک سکتا ہے اور شجاعانہ مزاحمت کے ذریعے ہی دشمن کو پسپائی اختیار کرنے اور شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عرب سربراہان مملکت کی کانفرنسوں اور اجلاسوں سے فلسطینی قوم اپنی آزادی و مسلمہ حقوق کی بحالی کی امیدیں وابستہ نہ کرے اور وہ کر بھی نہیں سکتی۔ یہ نشست و برخاست فلسطینیوں کے لئے اگر شوم اور زیاں آور نہیں تو بے فائدہ اور لاحاصل ضرور ہے۔ ٹاپ فلسطینی قوم کی نجات کا واحد راستہ، مزاحمت و استقامت:اقوام متحدہ، تسلط پسند طاقتوں اور خاص طور پر صیہونی حکومت کی خوش آمد کرکے فلسطین کو نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ نجات کا واحد راستہ استقامت و مزاحمت ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد اور کلمہ توحید ہی، جو جہادی تحریکوں کا بیکراں ذخیرہ ہے، کارساز ہے۔ اس مزاحمت کے ستون ایک طرف فلسطین کی مجاہد جماعتیں، با ایمان عوام ہیں جو فلسطین کے اندر اور باہر سرگرم عمل ہیں اور دوسری طرف دنیا بھر کی مسلمان اور عرب حکومتیں بالخصوص علمائے دین، دانشور، سیاستداں اور یونیورسٹی سے وابستہ حلقے ہیں۔ اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنے اپنے مقام پر کھڑے ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بیدار ضمیر و دل و اذہان جو سامراج اور صیہونزم کی ابلاغیاتی شہنشاہیت کے افسوں سے مسحور نہیں ہوئے ہیں، دنیا کے ہر گوشے میں صاحب حق اور مظلوم کی مدد کے لئے دوڑ نہ پڑیں اور سامراجی نظام پر افکار و جذبات و عملی اقدامات کے سیلاب کی یلغار نہ ہو جائے۔ فلسطینی عوام اور مجاہدین کا صبر اور ان کی استقامت اور پورے عالم اسلام سے ان کی ہمہ جہتی حمایت سے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے شیطانی طلسم کو توڑا جا سکتا ہے۔ امت مسلمہ کی عظیم توانائیاں فوری حل طلب مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے تمام مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ ٹاپ ملت فلسطین کی بیداری:خوش قسمتی سے ملت فلسطین کی اسلامی بیداری سے بہت حد تک مستقبل کے افق واضح اور نمایاں ہو گئے ہیں۔ آج نئی فلسطینی نسل قوت ایمانی کے سہارے اور اللہ تعالی کا نام لیکر جد و جہد کر رہی ہے۔ یہ بڑا امید افزا جہاد ہے۔ یہ بات بالکل نمایاں ہو گئی ہے کہ دشمن خواہ وہ صیہونی حکام ہوں، امریکا ہو، اسرائیل کے دیگر حامی ہوں یا علاقائی خائن عناصر اس نئی لہر سے سراسیمہ اور دہشت زدہ ہو گئے ہیں۔ وہ تحریک کی حقیقی سمت پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ دین ہی فلسطین کو نجات دلا سکتا ہے۔ اسلام فلسطین کو جارحوں کے چنگل سے چھڑا سکتا ہے۔ فلسطین کی نئی نسل کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ اگر وہ اپنے اوپر مسلط کر دی جانے والی ذلت و رسوائی اور زبوں حالی و شدید دباؤ سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے مزاحمت و استقامت کے راستے پر چلنا ہوگا۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا کارساز نہیں ہے۔ مذاکرات کاروں کو اب تک کچھ بھی ہاتھ نہیں لگ سکا ہے۔ ٹاپ عرب نیشنلزم اور مسئلہ فلسطینکبھی کبھار سننے میں آتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فلسطین عربوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر یہ مقصود ہے کہ عربوں میں اس مسئلے کے تعلق سے قوی قومی جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ زیادہ خدمت اور جد و جہد کرنے کے لئے آمادہ ہیں تو یہ اچھی اور پسندیدہ چیز ہے۔ لیکن اگر اس سے یہ مراد ہے کہ بعض عرب ممالک کے حاکم فلسطینی عوام کی آواز استغاثہ پر ذرہ برابر توجہ نہ دیں اور غزہ کے المئے جیسے اہم ترین معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور ان افراد پر تیوریاں سکوڑیں جو فرض شناسی کے جذبے کے باعث ہر لمحہ مضطرب ہیں، ان سے کہیں کہ آپ کو غزہ کی امداد کی کیا پڑی ہے؟ تو اس صورت میں کوئی بھی مسلمان اور کوئی بھی غیور اور با ضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرے گا اور ایسی بات کرنے والے کی مذمت اور سرزنش کئے بغیر نہیں رہے گا۔ ٹاپ پانچواں باب: آشتی و ساز بازآشتی کا حربہ:اس وقت صیہونیوں اور ان کے حامیوں کا جن میں سب سے پیش پیش امریکی حکومت ہے، ایک اہم حربہ یہ ہے کہ صلح و مفاہمت کے دلکش لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آشتی و صلح اچھی چیز ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کہاں اور کس سے آشتی ہو؟! ایک آدمی آپ کے گھر میں درانہ گھس آیا ہے، اس نے طاقت لگا کر آپ کے گھر کا دروازہ توڑ دیا ہے، اس نے آپ سے مار پیٹ کی ہے، آپ کی اولاد اور ناموس پر حملہ کیا ہے، اس نے آپ کے تین کمروں میں سے دو کمروں اور تیسرے کمرے کے نصف حصے پر قبضہ کر لیا ہے، اس پر بھی ستم بالائے ستم یہ کہ اسے اس پر اعتراض ہے کہ آپ لوگوں سے اس کی شکایت کیوں کر رہے ہیں، آپ مسلسل جھگڑا کیوں کر رہے ہیں، تنازعہ کیوں کھڑا کر رہے ہیں، آئیے آپس میں مفاہمت کر لیتے ہیں۔ اسے مفاہمت کہتے ہیں؟! جارحیت اس حکومت کی ماہمیت و سرشت میں شامل ہے۔ صیہونی حکومت کی تو تشکیل ہی تشدد، قسی القلبی اور طاقت کے استعمال کی بنیاد پر ہوئی ہے اور اسی بنیاد پر وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس نے کوئی پیشرفت کی ہے نہ کر پائے گی۔ مطالبہ یہ ہے کہ اس حکومت سے آشتی و مفاہمت کر لیجئے! اگر وہ اپنے حق پر قناعت کر لیں، یعنی فلسطین کو جو فلسطینیوں کا خانہ و آشیانہ ہے ان کے حوالے کریں اور اپنا راستہ لیں یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں کہ ہم میں سے کچھ یا ہم سب یہیں رہ جائيں تو ان سے کوئی جنگ نہیں کرے گا۔ جنگ تو تب ہوتی ہے جب غاصب دوسروں کے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں، انہیں ان کے گھروں سے باہر نکال دیتے ہیں اور اس کے بعد بھی ان پر مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس وقت وہ علاقے کے تمام ممالک پر ظلم کر رہے ہیں اور پورے علاقے کے لئے ایک خطرے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ بنابریں یہ آشتی بھی کرتے ہیں تو وہ آئندہ کی جارحیت کی تیاری اور مقدمہ ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے مفاہمت کر لی ہے تو یہ در حقیقت آگے چل کر کسی اور انداز سے کسی درسری جارحیت کا مقدمہ بنے گی۔ ٹاپ اسرائیل سے فلسطین کی مفاہمت کا منصوبہ:ایک اہم ایشو جو آج کل اٹھایا جا رہا ہے اور جس کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا جائے اور عالم اسلام کی رائے عامہ کو اسے موضوع بحث بنانے سے روکا جا سکے، یہی نام نہاد امن مذاکرات ہیں جو ایک فلسطینی گروہ اور اسرائیلیوں کے ما بین جاری ہیں، یعنی ساز باز کا مسئلہ یعنی نام نہاد خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی اسرائیلیوں کا ایک مذموم حربہ اور جال ہے جس میں بد قسمتی سے کچھ مسلمان بلکہ کچھ فلسطینی بھی گرفتار ہو گئے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان لوگوں کے مذاکرات کے تمام تر مفروضے اور اسرائيلیوں کے وعدے عملی جامہ پہن لیں تب بھی اس فلسطینی گروہ کو جو حاصل ہوگا وہ چار فیصدی سے کچھ زیادہ زمین ہے! یعنی اس فلسطینی سرزمین سے جو فلسطینیوں کا حق اور ملکیت ہے جس کے مالک فلسطینی ہیں اس کا محض چار فیصدی ان کو ملے گا۔ یہ چار فیصدی بھی کیسا؟! یہ چار فیصدی بھی اکٹھا نہیں بلکہ پراکندہ ٹکڑوں کی شکل میں ہے۔ جن لوگوں سے اسرائیلیوں نے کہا بھی ہے کہ آپ آئیے اور اپنی حکومت تشکیل دیجئے انہیں بھی ہرگز اجازت نہیں دی ہے کہ ایک حکومت کی طرح کام کر سکیں۔ ان سے کہا ہے کہ آپ فلاں جگہ موجود رہئے اور اس بات کا خیال رکھئے کہ وہاں کے فلسطینی اسرائیل کے خلاف سرگرمیاں انجام نہ دے سکیں! یعنی پراکندہ علاقوں کو جس کا نظم و نسق چلانا انتہائی مشکل ہے، ایک آدھے ادھورے ملک کی حیثیت سے ان کے حوالے کر دیا! اس کے بدلے اس فلسطینی گروہ کو کیا کرنا ہے۔ یہ کرنا ہے کہ فلسطین کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ ہی وہ بھی مجاہد فلسطینیوں کے خلاف کاروائیاں کرے! فلسطینیوں کے نام پر یہ حرکتیں کرنے والوں کی خیانت دوسری سبھی خیانتوں سے، جو اب تک فلسطینیوں کے ساتھ ہوئی ہے، زیادہ مذموم اور بھیانک ہے! انہوں نے عوام کے لئے نہ کوئی کام کیا ہے اور نہ کر سکتے ہیں۔ ٹاپ عرب اسرائیل مفاہمت کا فلسفہ:عرب حکومتیں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی تو نہیں بن سکتے! جو وہ چاہتے ہیں وہی ہونا چاہئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین، عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ اس میں سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے پہلوؤں کے ساتھ ہی الہی و اسلامی فرائض کا پہلو بھی ہے۔ جو شخص اللہ تعالی پر ایمان و ایقان نہیں رکھتا وہ اگر صرف فلسطینی عوام کے لئے کام کرنا چاہتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ فلسطینی عوام کیا کہتے ہیں۔ آج ملت فلسطین کو دیکھنا ہے تو ان افراد کو دیکھئے جو گرفتار ہونے کے بعد غاصب حکومت کی جیلوں میں قید ہیں اور ان کے دسیوں گنا افراد سڑکوں، مسجد الاقصی، بازاروں اور پوری سرزمین فلسطین میں صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، کاروائیاں کر رہ ہیں۔ ایک چھوٹی سی اقلیت جس نے لالچ میں آکر ساز باز کر لی ہے، اسے ملت فلسطین کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ یہ کہا جائے کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ تو فلسطینی نہیں ہیں۔ٹاپ پہلی تحریک انتفاضہ کی ناکامی کے اسباب:انتفاضہ اول کے زمانے میں ساز باز اور مفاہمت کا ماحول علاقے پر چھایا ہوا تھا۔ کچھ لوگ امریکا کے دام میں اسیر تھے اور کچھ دیگر کا یہ خیال تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر عالمی سیاسی دباؤ اور پروپیگنڈے کا سامنا نہیں کیا جا سکتا اور مفاہمت کی راہ کو وہ بھی امریکا اور اسرائیل کے شرائط پر قبول کر لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس وقت علاقے میں جو تبدیلیاں ہوئیں اس سے اس خیال کی تقویت کی زمین فراہم ہو گئی۔ اس وقت یعنی انتفاضہ اول کے موقع پر اسرائیل کے سلسلے میں دو طرح کے طرز عمل کی بات کی جاتی تھی: ایک تو یہ کہ عرب افواج اسرائیل کے مقابلے پر ڈٹ جائیں لیکن اس چیز کے تمام تجربات ناکام ثابت ہو چکے ہیں، دوسرا طرز عمل وہ تھا جس سے اسرائیل کی خواہشات پر امن طریقے سے پوری ہوتی تھیں اور اس کے بدلے اسے مقبوضہ علاقے کے ایک چھوٹے سے حصے سے عقب نشینی کرنا پڑتی جیسا کہ کیمپ ڈیوڈ میں ہوا۔ اس زمانے میں مزاحمت و استقامت کا موضوع زیادہ مقبول نہیں تھا اور یہی کہا جاتا تھا کہ اسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہو پائے گی۔ ٹاپ اوسلو معاہدے کے نتائج:فلسطینی عوام کو پچھلی تحریک انتفاضہ میں بہت بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اسلامی سرزمین کی آزادی اور اسلام کی راہ میں بڑی تعداد میں شہدا کی قربانی دینا پڑی اور سرانجام اوسلو مذاکرات نے اس سب پر پانی پھیر دیا۔ آج عالم یہ ہے کہ اوسلو معاہدے کے نظریہ پرداز اور اس کی حمایت کرنے والے بھی اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہو گیا ہے کہ اسرائیل صرف اپنی مشکل حل کرنا چاہتا تھا۔ یعنی سنگ بدست مجاہدین سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا اور اپنی کمزوریاں دور کرنے کی فکر میں تھا۔ اس نے مراعات کے نام پر معمولی ترین چیز جو فلسطینیوں کو دی اس کا واحد مقصد تحریک انتفاضہ کے شعلے کو خاموش کرنا اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنا تھا۔ جیسے ہی اسے اپنے حالات معمول پر نظر آئے اور اسے یہ غلط فہمی ہوئی کہ فلسطینی عوام میں اب دوبارہ تحریک انتفاضہ شروع کرنے اور اس سے ٹکرانے یا مزاحمتی کاروائیاں کرنے کی توانائی نہیں رہ گئی ہے اس نے وہ معمولی ریاعتیں دینا بھی بند کر دیا اور اپنی توسیع پسندانہ ماہیت کو آشکارا کر دیا۔ اوسلو معاہدے کے عمل نے فلسطینی عوام کو ایسی حالت میں پہنچا دیا کہ انہیں پوری طرح احساس ہو گیا کہ قیام کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ ٹاپ فلسطینی اہداف اور امنگوں سے غداری:کوشش یہ ہو رہی ہے کہ فلسطین نام کی کوئی چیز ہی کسی کے ذہن میں باقی نہ رہے۔ گویا فلسطین نام کی کوئی سرزمین تھی اور نہ ہی اس سرزمین کی مالک کوئی قوم! اس طرح کی تیاریاں کی گئی ہیں۔ انسان حیرت و افسوس کے سمندر میں غوطے لگاتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ بعض لوگ اس چیز کو تسلیم بھی کر رہے ہیں، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ دنیا میں کہیں کوئی ایسا شخص ملے گا جو اتنی عجیب و غریب، سراسر ظالمانہ و ابلہانہ چیز کو قبول کر لے، لیکن ایسا دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک نام نہاد فلسطینی گروہ کو لاکر عظیم سرزمین فلسطین کے چھوٹے سے حصے میں جو اس کا چار فیصدی ہے اسے ایک جھوٹا اور ناقص اقتدار دے رہے ہیں اور اس کے بدلے اس سے جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین، سرزمین اور قوم کا مسئلہ پوری طرح فراموش کر دیا جائے۔ اگر کوئی شخص فلسطینی قوم، فلسطینی ریاست یا فلسطین کی تاریخ کی بات زبان پر لائے تو یہی گروہ جس نے یہ خسارت بار معاہدہ کیا ہے اس شخص کی سرکوبی کرے۔ ٹاپ فلسطین سے عرب حکام کی غداری:صیہونی حکومت، اس کے حامیوں اور ان میں سر فہرست امریکا نے مفاہمت و آشتی کے نعرے کے ذریعے جس کا مقصد صرف اور صرف فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو مستحکم تر بنانا ہے، اپنے حریفوں سے جہاں تک ممکن تھا اپنی پیروی کرائی۔ بعض مسلم حکومتوں نے ہراول دستے کی حیثیت رکھنے والے ملکوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا! اکثر عرب حکام کی حمایت آمیز خاموشی جو کہیں کہیں صریحی خیانت کا مظہر بھی رہی ہے علاوہ ازیں ملت فلسطین کی قیادت کے دعویداروں کے ذلت و خیانت آمیز موقف، ظلم و جارحیت و خیانت کی زنجیر کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد اسلامی سرزمین فلسطین کو ہمیشہ غاصبانہ قبضے میں اور یہاں بسنے والی مظلوم قوم کو ہمیشہ قید و بند کی صعوبتوں میں باقی رکھنا ہے۔ بہت سی عرب حکومتوں کی غدارانہ خاموشی اور ساز باز اور ان میں بعض حکومتوں کا مسئلہ فلسطین اور فلسطین کے انجام اور مستقبل کے سلسلے میں لا تعلقی اور بے حسی کا مظاہرہ باعث بنا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت برسوں کی پردہ پوشی حتی انکار کے بعد اب دوبارہ وسیع اسرائیل کی خواہش زبان پر لانے لگی ہے اور بڑی بے حیائی اور بھونڈے پن کے ساتھ اسلامی سرزمینوں کے کسی اور حصے پر قبضہ کرنے کی اپنی پلید نیت کا اظہار کر رہی ہے۔ ٹاپ چھٹا باب: مزاحمت و استقامتقوموں کی طاقت:سامراج کو یہ علم نہیں کہ ایک ایسی طاقت بھی موجود ہے جو ان کے ہتھیاروں کی طاقت سے بالاتر ہے اور وہ ہے قوموں کی طاقت، انسانوں کی طاقت۔ جو قوم بھی فکری بنیاد، عزم راسخ اور منطقی اصولوں کی حامل ہوگی اور اپنے منطقی اصولوں کے لئے عزم راسخ کے ساتھ ڈٹ جائے گی اسے ایٹمی طاقت ہو یا اس سے بھی بڑی اور چھوٹی کوئی دوسری طاقت، مغلوب نہیں کر سکتی۔ ان لوگوں نے قوموں کی طاقت کو اور خدائے قدیر کی قوت کو جو قوموں کے عزم و ارادے اور جرئت عمل کی پشتپناہ ہوتی ہے، معمولی سمجھ لیا ہے۔ (کلا نمد ھولاء و ھولاء) جو جماعت بھی ان اہداف کے لئے جس پر اس کا عقیدہ ہے کام کرتی ہے اللہ تعالی اس کی نصرت و مدد کرتا ہے۔ اور اگر وہ جماعت اور قوم اللہ تعالی پر ایمان رکھتی ہو تو پھر اس سے ٹکرانا اور اسے شکست دینا دس گنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ٹاپ شجاع ملت فلسطین کا جہاد: اس وقت ملت فلسطین نے جو جد و جہد شروع کی ہے وہ دو فوجوں کے مابین ہونے والی جنگ نہیں ہے کہ کہا جائے کہ فلاں فوج کے پاس دس ٹینک ہیں اور دوسری کے پاس اس تعداد میں ٹینک ہیں۔ پہلی کے پاس زیادہ ہیں یا دوسری کے پاس زیادہ ہیں۔ یہ تو ان افراد کے جسم و جان کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ ہے جو موت بزیچہ اطفال سمجھتے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کی فوج کے مقابلے پر آنے والا ایک فداکار و جاں نثار جوان اس پر پورے ایک لشکر کا خوف طاری کر دیتا ہے۔ اس جوان کا جواب نہ ٹینک و میزائل سے دیا جا سکتا ہے اور نہ طیارے اور آپاچی ہیلی کاپٹر سے۔ جب کوئی انسان خواہ وہ تن تنہا ہو، موت سے نہ ڈرے اور خود کو اللہ تعالی اور اپنے فریضے کی راہ میں فداکاری و جاں نثاری کے لئے آمادہ کر لے تو وہ بے انصاف دنیاداروں کے لئے بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ یہ شہادت پسندانہ کاروائیاں محض جذباتی کاروائیاں نہیں ہیں۔ ان کا سرچشمہ اسلام، یوم قیامت اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان ہے۔ جہاں بھی اسلام اپنے حقیقی معنی میں موجود ہے، سامراج کے خلاف یہ خطرہ وہاں ضرور پایا جائے گا۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لئے سامراج، اسلام سے جنگ کرنے پر مجبور ہے اور اس جنگ سے اسے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ واقع امر یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے گھربار اور خانہ و کاشانے سے محروم کر دیا گيا ہے، اس قوم کو پورا حق ہے کہ واپس جائے اور اپنا گھر واپس لے۔ یہ حق کے لئے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ امریکا اس جد و جہد کو دہشت گردی کا نام دیتا ہے لیکن فلسطینی مجاہدین کے خلاف جاری صیہونی خباثتوں کو دہشت گردی نہیں مانتا۔ ملت فلسطین وہ مظلوم قوم ہے جو مظلومیت کے ساتھ ہی شجاعت کا مظہر بھی ہے۔ یہ قوم عالم غربت میں خالی ہاتھ بھی بڑی شجاعانہ جنگ کر رہی ہے اور اس نے دنیا کی مادی طاقتوں کو جو سرکوبی اور قتل عام کے تمام تر وسائل سے لیس ہیں بے دست و پا کرکے رکھ دیا ہے۔ ٹاپ صیہونی حکومت سے جنگ کے بنیادی محور:غاصب صیہونی حکومت سے جنگ کی بنیادی روش یہ ہونا چاہئے: - مقبوضہ علاقے کی حدود کے اندر غاصب حکومت کو قیدی بنا دینا، اس کے لئے سیاسی و اقتصادی عرصہ حیات تنگ کر دینا اور اطراف سے اس کا رابطہ منقطع کر دینا۔ - حتمی کامیابی مل جانے تک فلسطینی قوم کا ملک کے اندر اپنی مزاحمت و استقامت کو جاری رکھنا انہیں ہر ضروری امداد بہم پہنچانا۔ ٹاپ فلسطینی مجاہدین کے لئے نمونہ عمل:کئی سال سے فلسطین غاصبانہ قبضے میں ہے۔ کئی سال قبل بھی فلسطینی قوم میں جوان تھے۔ یہ جوان جو آج اس طرح میدان عمل میں نکل آئے ہیں انہوں نے کس کو اپنا نمونہ عمل بنایا ہے؟ ان نوجوانوں کا نمونہ عمل با ایمان و با اخلاص لبنانی نوجوان ہے۔ غزہ پٹی اور دریائے اردن کے مغربی ساحل پر جو فلسطینی نشین علاقہ ہے جب مظاہرے ہوتے ہیں تو مظاہرین حزب اللہ لبنان کے قائد سید حسن نصر اللہ کی تصاویر اپنے ہاتھوں میں لئے آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے حزب اللہ لبنان کا پرچم مسجد الاقصی کے گنبد پر نصب کیا۔ البتہ صیہونیوں نے اسے وہاں نہیں رہنے دیا لیکن بہرحال انہوں نے جاکر وہاں نصب تو کر ہی دیا۔ بنابریں وہ (لبنانی نوجوان) فلسطینی نوجوان کے لئے نمونہ عمل بن گیا۔ حزب اللہ لبنان کے ٹی وی چینل المنار کے سب سے زیادہ ناظرین مقبوضہ فلسطین میں ہیں! جو نہ صرف یہ کہ اس کے پروگراموں کو دیکھتے ہیں بلکہ کسی پیاسے کی مانند اسے آب شیریں کی طرح ایک ایک گھونٹ کرکے اپنے وجود میں اتارتے ہیں۔ٹاپ جہاد، امت مسلمہ کا فریضہ:فقہائے اسلام کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ اگر دشمن، مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کر لے اور کسی ملک میں پیکر اسلامی خطرے میں پڑ جائے تو تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک ہمہ گیر اور وسیع جہاد کے ذریعے اس دشمن کو پسپا کریں، اسے اسلامی سرزمین سے نکالیں اور اسے اس کی سزا دیں۔ امت مسلمہ اگر ہوش میں آ جائے تو اسے صاف محسوس ہوگا کہ مسلمانوں پر حالیہ ادوار میں نازل ہونے والی مصیبتوں میں یہ سب سے بڑی بلا ہے۔ اس مسئلے کے سلسلے میں اسلامی حکم بالکل واضح ہے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اسلامی حکم کے بارے میں کسی بھی مسلمان کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو فقہ کی ان تمام کتابوں میں مذکور جن میں جہاد کی بحث کی گئی ہے۔ اگر کفار آکر مسلمانوں کے ملک پر قبضہ یا اس کا محاصرہ لیں تو اس صورت میں جہاد کے واجب عینی ہونے کے بارے میں جدید و قدیم مسلم علما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر اس سلسلے میں ایک ہی نظرئے کے حامل ہیں۔ وہ جہاد جو جنگ کے آغاز کے طور پر کیا جائے واجب کفائی ہے لیکن دوسرے مواقع پر جب جہاد دفاعی ہو، جو جہاد کا واضح ترین مصداق ہے، تو وہ واجب عینی ہو جاتا ہے۔ٹاپ انتفاضہ مسجد الاقصی:پہلی تحریک انتفاضہ، صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی تلقینوں اور افواہوں، فلسطینیوں کو پر امن طریقے سے مراعات دینے کے وعدوں، ساز باز کرنے والوں کے نفوذ اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے دباؤ کے نتیجے میں متوقف ہو گئی۔ لیکن دس سال گزرتے گزرتے واضح ہو گیا کہ اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے دنیا میں صیہونزم کے حامیوں کی تمام کوششیں مسلمانوں کے جد و جہد ان کی سراسیمگی کا نتیجہ تھیں اور جو وعدے فلسطینیوں سے کئے گئے تھے وہ صرف اور صرف ایک سراب تھا۔ انتفاضہ مسجد الاقصی، فلسطینی عوام کی جد و جہد میں بہت اہم باب ہے۔ فلسطینیوں کی جد و جہد متعدد نشیب و فراز سے گزری ہے، انواع و اقسام کی سازشوں سے نمٹتی رہی ہے، بڑی سخت آزمائشوں سے گزری ہے، گوناگوں اسلحے کی جھنکاروں، جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی گھن گرج کو سنتی رہی ہے۔ آج اسے بخوبی علم ہو چکا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اور ان کے حامیوں کے چنگل سے نجات کا واحد راستہ جہاد اور سعی پیہم ہے جس کی تائید مسلم رائے عامہ بھی کرتی ہے۔ صیہونیوں نے اپنی اسٹریٹیجی ملت فلسطین کی تحقیر اور تذلیل کی بنیاد پر وضع کی تھی لیکن فلسطینیوں نے اس اسٹریٹیجی کے خلاف اور صیہونی حکومت سے ہونے والے ذلت آمیز معاہدوں، امریکا کے تسلط پسندانہ نظام اور اس کے ساتھ ساز باز کرنے والے عناصر کے خلاف قیام شروع کر دیا اور اپنے لئے عز و شرف کے راستے کا انتخاب کیا۔ جرائم پیشہ اسرائیلی حکومت کو اندرونی سطح پر متعدد بحرانوں اور سرحدوں پر تحریک انتفاضہ سے روبرو کر دیا۔ انتفاضہ اقصی کا محور بیت المقدس ہے۔ یعنی وہ چنگاری جو فلسطینی عوام کے غیظ و غضب کے آتشفشاں میں تبدیل ہو گئی وہ صیہونیوں کے ہاتھوں مسجد الاقصی کی بے حرمتی کے باعث وجود میں آئی۔ فلسطینی عوام نے مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مقام کی حفاظت کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان میں قدم رکھا اور ایثار و قربانی کی شاندار مثال پیش کرتے ہوئے غاصب صیہونیوں کے خلاف جنگ اور مقدس جد و جہد کو شعلہ ور کیا۔ ساز باز اور مفاہمت کی روش بلکہ واضح طور پر یوں کہا جائے کہ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں فلسطینیوں میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے، اس با برکت تحریک انتفاضہ سے فلسطین میں قومی اتحاد دوبارہ بحال ہوا۔ اس جد و جہد میں سارے عوام شامل ہیں اور اسلامی تنظیمیں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ٹاپ انتفاضہ مسجد اقصی کا سبب:فلسطینی عوام کے قیام اور ان کی تحریک کا سبب اسلامی جمہوریہ ایران اور لبنانی عوام نہیں ہیں۔ فلسطینی تحریک اور جد و جہد کا بنیادی عنصر خود فلسطینی ہیں۔ فلسطینی تحریک انتفاضہ کا سبب اس نوجوان نسل کے دلوں میں جمع ہو جانے والے رنج و غم تھے جو پوری امید و نشاط کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہے۔ بے شک ایرانی قوم ان کی مداح ہے اور انہیں اپنے جیسا سمجھتی ہے۔ فلسطین، پیکر اسلام کا جز ہے اور ملت ایران فلسطینی قوم کے تعلق سے جذبہ اخوت و برادری رکھتی ہے البتہ تحریک انتفاضہ کو وہی (فلسطینی) آگے بڑھا رہے ہیں۔ٹاپ فلسطین، اسلامی بیداری کی تحریک کا محور:گزشتہ عشروں میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک کے ظہور پذیر ہو جانے کے بعد اسلامی تحریک اور دسرے لفظوں میں کہا جائے اسلامی بیداری کی تحریک پوری آب و تاب کے ساتھ علاقے اور عالم اسلام کی سطح پر نمایاں ہو گئی ہے۔ اس وقت اس تحریک کا محور مسئلہ فلسطین ہے۔ فلسطین کی تحریک انتفاضہ فلسطین کی جغرافیائی سرحدوں اور فلسطینی قوم کے باہر بھی عام مسلمانوں اور عربوں کو میدان میں لانے میں کامیاب رہی ہے۔ (مسجد الاقصی کی تحریک انتفاضہ کی حمایت میں) عالم اسلام کے مشرق سے مغرب تک مسلمان قوموں کے شاندار مظاہرے اور ان میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت سے ثابت ہو گيا ہے کہ فلسطینی عوام ان قوموں کی حمایت پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس وقت لبنان میں اسلامی مزاحمت لبنانی بہادروں کے حوصلہ و ہمت اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حمایت و ہدایت کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی اس وقت لبنان کے دارالحکومت بیروت پر اسرائیل کا قبضہ تھا اور اس ملک کے سیاسی امور اور فیصلے اس کی مٹھی میں تھے۔ اس دن اسلامی مزاحمت نے زحفا زحفا نحو القدس رفتہ رفتہ قدس کی سمت پیش قدمی کا نعرہ بلند کیا۔ کچھ ناواقف لوگوں نے انہیں سادہ لوح کہا اور ان پر طنز کئے کہ آپ لبنانی اپنے ملک کے دارالحکومت میں داخل ہونے تک سے عاجز و قاصر ہیں اور اوپر سے آپ قدس کی جانب پیش قدمی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس دن سے لیکر اسرائیل کے خلاف اسلامی مزاحمت کی فتح تک صرف اٹھارہ سال کا وقت لگا۔ قوموں کی جد و جہد کی تاریخ میں اٹھارہ سال کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے۔ ٹاپ استقامت، نجات کا راستہ:انتفاضہ مسجد الاقصی ایک عوامی تحریک ہے جس نے ثابت کر دیا کہ فلسطینی عوام مفاہمتی کوششوں سے ناامید ہوکر یہ سمجھ چکے ہیں کہ کامیابی کا واحد راستہ استقامت و مزاحمت ہے۔ استقامت و مزاحمت وہ واحد راستہ ہے جسے اختیار کرکے مسلمانوں نے پہلی بار اسرائیل کو بغیر کوئی سہولیت دئے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی اور اس عرب ملک یعنی لبنان کے دارالحکومت میں اپنا پرچم چھوڑ جانے کی صیہونی حکومت کی خواہش کو زندہ در گور کر دیا۔ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کی عقب نشینی کے بدلے میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسرائیل اپنی فوجیں شمالی صحرائے سینا میں تعینات نہ کرے لیکن جنوبی لبنان میں حالت یہ ہوئی کہ یہی اسرائیل اسلامی مزاحمت و استقامت کے باعث لرزہ بر اندام ہوکر خود التجا کرنے لگا کہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر لبنانی فوج تعینات ہو۔ یعنی اسلامی مزاحمت کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ اس نے جنوبی لبنان اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں لبنان کے قومی اقتدار اعلی کو بحال کیا۔ٹاپ ساتواں باب: فلسطین کی تقدیر اور مستقبل بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:اب غاصب حکومت کے عمائدین جو ایک اسلامی ملک فلسطین پر قابض ہیں اور ان کے امریکی حامی جو بڑے ہی احمقانہ و ابلہانہ انداز میں ان کی ہمہ جہت حمایت کر رہے ہیں، اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ فلسطین کا نام تاریخ اور عوام کی یاد داشت سے پوری طرح مٹا دیں تاکہ عوام کے ذہنوں میں فلسطین نام کی کوئی چیز ہی باقی نہ رہے۔ انیس سو سینتالیس، اڑتالیس میں جب فلسطین پر پوری طرح قبضہ کر لیا گیا اور صیہونی حکومت کی تشکیل عمل میں آ گئی اس وقت سے اب تک وہ یہ کام نہیں کر سکے اور آئندہ بھی عشروں تک وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وہ فلسطین کا نام مٹانے کی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے بلکہ اسی کوشش میں وہ خود ہی صفحہ ہستی اور تاریخ کے اوراق سے ناپید ہو جائیں گے۔ جبکہ فلسطین اور فلسطینی عوام کو جاویدانی ملے گی۔ یہ اس زعم میں ہیں کہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو مٹا لے جائیں گے۔ لیکن فلسطینی قوم ہمیشہ باقی رہے گی اور فلسطین بھی باقی رہے گا اور فلسطینی و لبنانی جیالوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں ایک دن پرچم فلسطین بھی لہرائے گا۔ صیہونزم اور فلسطین میں غاصب و جعلی صیہونی حکومت کا مقدر فنا ہے۔ فلسطینی عوام کو چاہئے کہ اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کریں اور اس کی ذات پر توکل کریں۔ فلسطینی جوان، لبنانی جوان، تمام عالم اسلام کے جوان اور سبھی دانشور اسی سمت میں آگے بڑھیں۔ غاصب و ظالم صیہونیوں کی سمجھ میں یہ بات آ جانا چاہئے کہ لبنان و فلسطین کی زیور ایمان سے آراستہ یہ نوجوان نسل ناقابل تسخیر ہے۔ فلسطینی قوم کے جذبہ ایمانی و قوت صبر پر استوار جہاد کو سیاسی سازباز، فوجی دباؤ، سکیورٹی کی چالوں اور تشہیراتی ہلڑ ہنگاموں سے روکا نہیں جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے عظیم الشان ملت ایران کی قوت مزاحمت اور بے مثال استقامت کو ان فرسودہ اور ناکارہ حربوں سے مغلوب نہیں کیا جا سکا جنہیں گزشتہ برسوں کے دوران صیہونیوں اور ان کے حامیوں نے جی بھر کے استعمال کیا ہے۔ ٹاپ یقینی مستقبل:فلسطین کی موجودہ صورت اس یقینی انجام اور مستقبل کی نوید دے رہی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالی نے صادق و ثابت قدم مجاہدین سے کیا ہے، وہ وعدہ جس کا پورا ہونا یقینی ہے۔ بے رحم و ظالم صیہونی حکومت اور اس کے پس پشت امریکا اور عالمی صیہونزم کو یہ زعم ہے کہ مجرمانہ اقدامات اور غیر انسانی حرکتوں سے ملت فلسطین کو مغلوب کر لے جائیں گے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے، اس بھول میں پڑنے والوں کو آگے چل کر بہت بڑی چپت لگنے والی ہے۔ فلسطین، فلسطینی قوم کا ہے، جلد یا کچھ دیر میں غاصب حکومت کو سرانجام اس حقیقت کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مجاہدین کے دوش پر یہ عظیم اور تاریخی ذمہ داری ہے۔ انہیں چاہئے کہ حتمی وعدہ الہی پر بھروسہ کریں اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آس لگائیں اور اپنی امید و جذبہ ایمانی اور جہاد کے ذریعے اپنی قوم اور اپنے ملک کو اپنا عظیم تحفہ پیش کریں۔ فلسطین کے مسلمانوں کی مزاحمت و استقامت کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی جانب سے ان کی بلا وقفہ حمایت کے نتیجے میں فلسطین بفضل الہی ایک دن آزآد ہو جائے گا اور بیت المقدس، مسجد الاقصی اور اس اسلامی سرزمین کا گوشہ گوشہ دوبارہ عالم اسلام کی آغوش میں آ جائے گا۔ ٹاپ شمشیر پر خون کی فتح:عالم اسلام کی رائے عامہ بھی یہ جان لے کہ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتیں کبھی بھی اسلامی ممالک کے معاملات میں صدق دل اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ ثالثی کا رول ادا نہیں کریں گی۔ ان کا موقف اور رخ ظالم و جارح کی حمایت کا معاندانہ رخ ہے۔ مسلمانوں کا فریضہ ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ یہ فریضہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور اس سے کوئی بھی خود کو سبکدوش نہ سمجھے۔ سب مل کر فلسطینی قوم کی مدد کریں، اسے ضرورت کی چیزیں اور وسائل فراہم کریں، اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنا شجاعانہ جہاد اسی انداز سے جاری رکھ سکے۔ آج ملت فلسطین اپنی استقامت و پائیداری کے ذریعے، بے مثال شجاعت و بہادری کے ذریعے یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ خون، شمشیر کا مقابلہ کرنے کی طاقت و توانائی رکھتا ہے اور ایک دن دنیا دیکھ لے گی کہ خون کو شمشیر پر فتح کیسے ملتی ہے؟! ٹاپ
پہلا باب: اسلام میں انسانی حقوقاسلام میں انسانی حقوق کا معیاراسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاداسلام، انسانی حقوق کا ضامناسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقام اسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوق معاشرے میں عورت کا کردار خاندان میں عورت پر ظلم عورتوں کا بنیادی مسئلہ عورت اور مرد کے حقوق کا توازنسامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفتتشدد اور عدم تشدددوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوقانسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگیانسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصولمغرب میں عورت کا مقام و مرتبہامریکی معاشرے کے اقدارانسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعوییورپ اور انسانی حقوق کی پامالیبرطانوی انسانی حقوقتیسرا باب: ایران اور انسانی حقوقاسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی: جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت: ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام: سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی: اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط: اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ: اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:انسانی حقوقپہلا باب: اسلام میں انسانی حقوقاسلام میں انسانی حقوق کا معیارمکتب اسلام یعنی انسانیت اور انسانی اقدار کی حمایت کا مکتب، مروت و ہمدردی کی ترویج کا مکتب، اخوت و بھائی چارے کی حمایت کا مکتب، یہ وہ مکتب ہے جوسماجی حقوق کا معیار ہے: لن تقدس امۃ لا تؤخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیر متمتع صورت حال یہ ہو کہ معاشرے میں کوئی ایسا شخص جس کے ہاتھ دولت اور پیسے سے خالی ہوں وہ بھی طاقتور سے اپنا حق بغیر کسی دقت کے حاصل کر لے۔ یہ اسلام کا پیغام ہے۔ یہ حقیقی اسلامی معاشرہ ہے۔ آج یہی پیغام قوموں کو گرویدہ بنا رہا ہے۔ دنیا کے کس گوشے میں یہ اصول نافذ ہے؟ کون سی جمہوریت، کون سا لبرلزم اور کون سے انسانی حقوق ہیں جن کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، جو اس چیز کو پیش کر سکتے ہوں اور اس منزل کی سمت حرکت کر رہے ہوں؟ آج اس کے بالکل بر عکس عمل کیا جا رہا ہے۔ٹاپ اسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاداسلامی جمہوری نظام نے دنیا کے سامنے جو نظریہ پیش کیا وہ بالکل نیا اور پوری طرح دین سے ماخوذ ہے۔ مادی تجزیوں اور نظریات میں یہ بات عام ہو گئی تھی کہ جدیدیت کو دینی افکار اور معنوی سوچ سے الگ رکھا جائے بلکہ ان کو ایک دوسرے کا متضاد سمجھا جائے۔ دین و مذہب اور روحانیت و معنویت سے متعلق باتوں کو خواہ وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی رجعت پسندی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ جس چیز کو بھی ماڈرن اور جدید قرار دیا جاتا اس کے بارے میں یہی تاثر ابھرتا تھا کہ یقینی طور پر یہ غیر مذہبی اور غیر روحانی چیز ہے۔ دین کے سلسلے میں یہ غلط تصور عام تھا۔ آج اس کے بالکل بر عکس اسلامی جمہوریہ نے جو سماجی انصاف پیش کیا ہے اور اسلامی روش کے تحت انسانی حقوق کا جو نظریہ متعارف کرایا ہے وہ جمہوری دنیا میں پیش کئے جانے والے نظریات سے بدرجہا بہتر و بلندتر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا سماجی انصاف نام نہاد سوشیلسٹ دنیا سے کہیں زیادہ جدید اور ماڈرن ہے۔ ایران میں انسانی حقوق اور آزادی نام نہاد جمہوری دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور دنیا اس کی معترف بھی ہے۔ ٹاپ اسلام، انسانی حقوق کا ضامنعالم اسلام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کے غلط آئیدیل کی ضرورت نہیں ہے جس کی بارہا خلاف ورزی بھی کی جا چکی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مقام بہت نمایاں ہے۔ اسلام، انسانی حقوق و حرمت کا پاسباں، اخلاقیات و صفات حسنہ کا ضامن اور امن و سکون کا علمبردار ہے۔ بد ترین دروغگوئی اور پست پرین الزام تراشی کے مرتکب تو وہ افراد ہو رہے ہیں جو اسلام کو انسانی حقوق، تہذیب و تمدن اور امن و سلامتی کا مخالف قرار دیتے ہیں اور اسے مسلم اقوام پر اپنی ظالمانہ جارحیت و توسیع پسندی کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام اپنے معروف (نہج البلاغۃ، 331 ویں) خط میں ہدایات دیتے ہیں کہ عوام کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، ایسا سلوک کرو، وحشی بھیڑیئے کی مانند ان پر ٹوٹ نہ پڑو۔ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں: فانھم صنفان عوام دو طرح کے ہیں۔ اما اخ لک فی الدین و اما نظیر لک فی الخلق یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے شریک ہیں، یعنی تمہاری طرح انسان ہیں۔ بنابریں مظلوم کے دفاع اور انسان کو اس کا حق دلانے کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے نزدیک اسلام کی شرط نہیں ہے۔ ( آپ کی نظر میں) مسلم اور غیر مسلم دونوں اس سلسلے میں مساوی ہیں۔ ذرا غور تو کیجئے کہ یہ کتنی بلند فکر ہے اور کتنا عظیم پرچم ہے جو تاریخ میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے پیش کیا ہے۔ اس وقت کچھ لوگ دنیا میں انسانی حقوق کی رٹ تو لگاتے ہیں، لیکن یہ سراسر جھوٹ اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کہیں بھی، حتی خود ان کے ملکوں میں بھی انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، پوری دنیا کی تو بات ہی الگ ہے! حقیقی معنی میں انسانی حقوق کو اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے متعارف کرایا اور اس پر عمل کیا۔ اسلام تو مجرمین کے حقوق کا بھی خیال رکھے جانے کا قائل ہے۔ کسی کو بھی اس شخص سے بد کلامی کی اجازت نہیں جسے پھانسی دی جانے والی ہے۔ کیونکہ یہ زیادتی ہوگی، گالی دینا ظلم شمار ہوگا، گالی دینا اس کی حق تلفی ہوگی لہذا اس (گالی دینے والے) کو روکا جانا چاہئے۔ یہ ہے سزائے موت کے مجرمین کے ساتھ سلوک کا انداز تو پھر جیل کی سزا پانے والے اور اس شخص کی بات ہی الگ ہے جس پر عائد الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے یا وہ شخص جس کے خلاف تہمت کی حقیقت ابھی واضح اور ثابت نہیں ہوئی ہے، صرف اس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق اور لوگوں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ حق کا ہر ایک کے سلسلے میں پاس و لحاظ کیا جانا چاہئے۔ ٹاپاسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقاماسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوقاسلام میں خواتین کی بیعت، خواتین کی مالکیت، سیاسی و سماجی میدانوں میں عورتوں کا کردار ایک مسلمہ چیز ہے۔ اذا جائک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ عورتیں آکر پیغمبر اسلام کی بیعت کرتی تھیں۔ پیغمبر اسلام نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ مرد آکر بیعت کریں اور پھر مردوں کی رائے اور فیصلے کے مطابق عورتیں بھی عمل کریں۔ عورتوں کو بھی اس حاکمیت کو قبول کرنے اور اس سیاسی و سماجی نظام کو تسلیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مغرب والے اس لحاظ سے اسلام سے تیرہ سو سال پیچھے ہیں۔ٹاپ معاشرے میں عورت کا کرداراگر ملک میں خواتین کے طبقے کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ان معارف اور حقائق سے روشناس کرا دیا جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو ملک کی ترقی و پیشرفت میں کئی گنا کا اضافہ ہو جائے گا۔ جس میدان میں بھی عورتیں ذمہ داری اور فرائض کے ساتھ وارد ہوں گی، اس میں ترقی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ مختلف میدانوں میں خواتین کی موجودگی کی خصوصیت یہ ہے کہ جب گھر کی عورت کسی میدان میں قدم رکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے شوہر اور بچے بھی اس میدان میں اتر گئے ہیں۔ مرد کا وارد ہونا اس چیز کا ضامن نہیں ہے لیکن عورت کی موجودگی اس کی ضامن ہے۔ ٹاپ خاندان میں عورت پر ظلماگر عورتوں کو علم و دانش کے حصول کا پورا موقع نہ دیا گیا تو یہ ان پر ظلم ہے۔ اگر بہت زیادہ مصروفیات اور کاموں کی بنا پر عورت اپنے اخلاق، اپنے دین اور معرفت کی فکر نہ کر سکے تو یہ اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اگر عورت کو اس کی نجی ملکیت سے اس کے ارادے کے مطابق آزادانہ استفادے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ شادی کے وقت اگر عورت پر شوہر کو مسلط کر دیا جائے یعنی شوہر کے انتخاب میں اس کا کوئی کردار نہ ہو اور اس کا ارادہ و خواہش اس میں دخیل نہ ہو تو یہ سراسر ظلم ہے۔ ازدواجی زندگی کے دوران یا شوہر سے الگ ہو جانے کے بعد اگر عورت کو بچوں کے سلسلے میں اس کے جذبات کی تسکین کا موقع نہ دیا جائے تو یہ ظلم ہے۔ اگر عورت کے اندر صلاحیتیں ہیں، مثلا علمی صلاحیت، تحقیق و ایجادات کی صلاحیت، سیاسی توانائی، سماجی کاموں کی صلاحیت اور اسے اس استعداد سے استفادے اور اس صلاحیت کو نکھارنے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس پر ظلم ہے۔ٹاپ عورتوں کا بنیادی مسئلہعورتوں کا بنیادی مسئلہ و معاملہ یہ نہیں ہے کہ انہیں روزگار ملا ہے یا نہیں۔ عورت کی بنیادی ضرورت، وہ جو بد قسمتی سے آج مغرب میں نظر انداز کر دی گئی ہے، سلامتی ہے۔ اسے احساس تحفظ کی ضرورت ہے، احساس طمانیت کی ضرورت ہے، صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کے امکانات فراہم کئے جانے کی ضرورت ہے، معاشرے، ماں باپ کے گھر اور شوہر کے گھر میں ظلم اور نا انصافی سے محفوظ رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ٹاپ عورت اور مرد کے حقوق کا توازناسلام انسانیت کے تکامل کی حمایت کرتے ہے۔ اس زاوئے سے اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ عورت اور مرد اسانیت کے وجود کے دو پہلو ہیں۔ انسانی اور روحانی پہلو سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ عورتوں کے حقوق کے دفاع سے اسلام کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں پر ظلم نہ ہو اور مرد خود کو عورتوں کا حاکم تصور نہ کریں۔ خاندانی زندگی میں کچھ حدیں اور حقوق ہوتے ہیں۔ مرد کے بھی حقوق ہیں تو عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں اور یہ حقوق بڑے منصفانہ اور متوازن انداز میں بیان اور معین کئے گئے ہیں۔ اسلام میں انسانی اخلاق کو اہمیت دی گئی ہے، صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ بنی آدم کی ہر فرد کے لئے کچھ فرائض رکھے گئے ہیں۔ بنابریں مزاج کو پہچاننا ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت کے مزاج پر پوری توجہ دیتا ہے۔ اسلام نے توازن پر زور دیا ہے۔ یعنی انسانوں منجملہ مرد اور عورت کے درمیان عدل و انصاف کے تقاضوں کا پاس و لحاظ کرنا۔ اسلام میں مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض مقام پر عورتوں اور مردوں کے احکام الگ الگ ہوں کیونکہ بعض چیزوں کے لحاظ سے عورت اور مرد کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ بنابریں عورت اور مرد کے سلسلے میں مزاج اور خصلتوں کی بیشترین معلومات اور حقائق اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں۔ ٹاپ سامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفتعالمی دشمنوں یعنی امریکا کی سرکردگی میں سامراج اور دیگر چھوٹے بڑے دشمنوں کی جانب سے دنیا کے ہر گوشے میں ایران کی مخالفت کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام کو غارتگروں کی راہ میں حائل پاتے ہیں اس لئے اسلام کے مخالف ہیں۔ ملکوں کی ثروت لوٹنے والے آوارہ کتوں کو اسلام سے پڑنے والی دتکار دیکھتے ہیں تو اسلام کی مخالفت کرنے لگتے ہیں اور اسے انسانی حقوق کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام لوگوں کے نظروں سے اتر جائے۔ جبکہ اسلام تو انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ انسانی حقوق کسے کہتے ہیں؟ کیا وہ فلسطینی جو اس سردی کے موسم میں خبیث صیہونیوں کے ہاتھوں آوارہ وطن کر دئے گئے، انسان نہیں ہیں؟! کیا ان کے کچھ حقوق نہیں ہیں؟ ان کے سلسلے میں انسانی حقوق کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کے جس منشور کا یہ صاحبان بڑا دم بھرتے ہیں کیا اس کی اہم ترین شق یہ نہیں ہے کہ ہر انسان اپنے گھر کے انتخاب کے سلسلے میں آزاد ہے اور اپنی رہائش کے انتخاب کا حق رکھتا ہے؟ تو کیوں ان (فلسطینیوں) کے گھر میں درانہ گھس گئے اور انہیں ان ہی گھر سے نکال باہر کیا؟! کیا فلسطین، فلسطینیوں کا گھر نہیں؟ اسی کو انسانی حقوق کہتے ہیں؟ فلسطینی، انسان نہیں ہیں؟ آج کون ہے جو انسانی حقوق کے دعویداروں کے ان جھوٹے اور شیطانی حربوں سے واقف نہ ہو؟ٹاپ تشدد اور عدم تشددعدم تشدد اور تشدد یوں تو ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ کہیں تشدد سے کام لینا پڑتا ہے اور کہیں عدم تشدد کو اپنایا جاتا ہے۔ بعض افراد جو عالمی سطح پر عدم تشدد اور انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں وہی بد ترین تشدد اور انسانوں کے قتل عام کے مرتکب ہوتے ہیں اور بعد میں عدم تشدد کی اور نرم ولطیف برتاؤ کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ تشدد اور عدم تشدد کے بارے میں بہت تصنع اور ریاکاری سے کام لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر سخت برتاؤ کرنا پڑتا ہے اور کچھ چیزوں کو نظر انداز اور ان سے چشم پوشی کرنا ممکن اور مناسب نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ مقامات پر نرمی اور احترام سے پیش آنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہی چیزیں موجود ہونا چاہئیں۔ٹاپدوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوقانسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگیانسانی حقوق کی سیاہ کارکردگی والے مغربی ممالک آج عالم اسلام کو انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کا درس دینے کی کوشش کر رہے ہیں، امن و آشتی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جن لوگوں نے بیس سال کے اندر دو عالمی جنگیں برپا کر دیں اور دسیوں لاکھ انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جن لوگوں نے ایٹم بم بنایا اور اس سے ہزاروں انسانوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، جن لوگوں نے افریقا میں، لاطینی امریکا میں اور ایشیا میں بے شمار جرائم کئے، انسانوں کا قتل عام کیا، جن کے جرائم کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان میں کوئی بھی فرنگیوں کو فراموش نہیں کرے گا اور نہ الجزائر میں کوئی فرانسیسیوں کو بھلا سکے گا۔ کیمیاوی ہتھیار بنانے والے، انہیں استعمال کرنے والے اور ان ہتھیاروں سے صدام کو مسلح کرنے والے آج دنیا میں کیمیاوی ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے والے داروغا کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے سب سے بڑے اسمگلر کو اسمگلنگ روکنے کا کام سونپ دیا جائے۔!ٹاپ انسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصولصیہونزم اور امریکا بلکہ در حقیقت دنیا کے لٹیرے سرمایہ داروں سے وابستہ تشہیراتی ادارے پوری عالمی برادری کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا جمہوریت کے بڑے طرفدار ہیں جبکہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔ خود کو انسانی حقوق کا طرفدار ظاہر کرتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ یہ کمپنیاں، یہ ٹرسٹ جس چیز کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے اور جس چیز کا ان کی نظر میں کوئی احترام نہیں ہے وہ قوموں کے حقوق ہیں، وہ انسانی حقوق ہیں۔ٹاپ مغرب میں عورت کا مقام و مرتبہیورپ اور مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتیں مالی لحاظ سے خود کفیل نہیں ہوتی تھیں۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجود، مغرب میں روز بروز عجیب و غریب انداز سے بڑھنے والی بے پردگی کے باوجود، اس بے لگام جنسی آزادی کے باوجود، جسے وہ عورت کے احترام کا معیار قرار دیتے ہیں، مغرب میں عورتوں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی ذاتی دولت کا آزادانہ استعمال کریں۔! شوہر کے سامنے اس کے اپنے مال پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ یعنی جو عورت شادی کر لیتی تھی اس کا سارا مال و اسباب اس کے شوہر کا ہو جاتا تھا۔ اس کو اپنا یہ مال خرچ کرنے کا بھی حق نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل سے عورتوں کو مالکانہ حقوق ملنے شروع ہوئے۔ حالانکہ یہ چیز انسانی حقوق کی بالکل بنیادی چیزوں میں ہے۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں اس بات کا جواب دے کہ اس نے گزشتہ ادوار میں عورتوں کی اتنی توہین کیوں کی۔ٹاپ امریکی معاشرے کے اقدارآپ کیا سمجھتے ہیں، امریکی اقدار کیا ہیں؟ امریکی کچھ اصولوں کو امریکی اصول کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عالمی اصول ہیں۔ ان اصولوں میں انسانوں کی آزادی، فکر و نظر کی آزادی، انسانی وقار، انسانی حقوق وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔ کیا واقعی یہ امریکی اصول ہیں؟! کیا امریکی معاشرے کے یہی اوصاف ہیں؟! کیا آج امریکی حکومت کی یہی شناخت ہے جو آپ نے ذکر فرمائی ہے؟! کیا یہی حکومت نہیں تھی جس نے امریکی سرزمین کے اصلی باشندوں کا قتل عام کیا؟! جس نے امریکی ریڈ انڈینس کو نابود کر دیا؟ کیا اسی حکومت کے با اثر عناصر نہیں تھے جنہوں نے دسیوں لاکھ افریقیوں کو انہی کی سرزمین میں غلامی کی زنجیر پہنا دی۔ ان کے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کر لیا اور ان کے ساتھ برسہا برس تک ظالمانہ برتاؤ کیا؟ uncle Tom`s cabin یا چچا ٹام کی کیبن نامی ناول شاید دنیا کی نہایت غم انگیز داستان ہے جس میں امریکا میں غلاموں کی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ دو سو سال کے بعد بھی یہ ناول موجود ہے۔ امریکا اور امریکی حکومت کی اصلی تصویر یہ ہے۔ امریکی نظام کی اصلی تصویر اور پہچان یہی ہے، آزادی اور انسانوں کی برابری نہیں۔ کیسی برابری؟! آپ آج بھی سیاہ اور سفید فاموں کے درمیان مساوات کے قائل نہیں ہیں۔ آج بھی آپ کی نظر میں کسی محکمے کے لئے کسی شخص کے انتخاب میں اس کے ماں باپ میں سے کسی ایک کا بھی ریڈ انڈین ہونا اس کے لئے منفی پہلو سمجھا جاتا ہے۔ دعوی کرتے ہیں کہ امریکی اصولوں کی گیرائی عالمی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں انسانیت کے لئے ہمہ گیر اصول وضع کرنے والے؟! یہ کون سی منطق ہے کہ جو ہمارا اصول ہے وہی عالمی اصول ہے۔ اگر دنیا میں کوئی اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو اسے جاکر ایٹم بم سے نابود کر دیا جائے؟! یہ کسی حریت پسند قوم کا طرز فکر ہے؟! کیا واقعی یہ اس حکومت کا طرز فکر ہو سکتا ہے جو حقیقی معنی میں انسانی وقار کی قائل ہے؟! آپ اس طرح انسانی معاشرے سے جھوٹ بولتے ہیں؟!ٹاپ انسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعویکس کو نہیں معلوم ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت کے دعوے فریب اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں؟ ان برسوں میں قتل عام کی بد ترین مثالیں پیش کرنے والی امریکی حکومت، جس نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کی خود مختار حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں، جس نے بغاوت کرنے والی اور عوام پر مسلط کر دی جانے والی رجعت پسند حکومتوں کی بھرپور حمایت کی، جس نے دنیا بھر میں مہلک ترین ہتھیاروں کی سپلائی کی، جس نے خطرناک ترین دہشت گردوں کو خود میدان میں بھیجا یا اپنی آغوش میں پالا، جس نے بے شمار عام شہریوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا، جس نے دنیا کی سب سے مظلوم قوم یعنی فلسطینیوں کو ان کے بنیادی ترین حقوق سے محروم کر دیا، جس نے درندہ صفت صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ مدد کی، جس نے جابر و بد عنوان پہلوی حکومت کو دسیوں سال باقی رکھا اور ملت ایران کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور سیاسی شعبوں میں بد ترین نا انصافی اور خیانت کی، آج وہی، ایران کے آزاد و خود مختار اور عوامی نظام پر دہشت گردوں کی حمایت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ہتھیاروں کی پیداوار اور تجارت کا الزام لگاتی ہے۔ امریکی حکومت نے انیس سو پینتالیس سے اب تک چالیس خود مختار حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا جو امریکی حکومت کی تابع و فرمانبردار نہیں تھیں اور اس نے بیس سے زائد مواقع پر فوجی مداخلت کی! بلا شبہ ان مداختلوں کے دوران بڑے پیمانے پر قتل عام ہوئے اور بڑے المئے رونما ہوئے۔ البتہ بعض مواقع پر اسے کامیابی ملی اور بعض مواقع پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ منجملہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے وقت جاپان پر ایٹمی بمباری ہے۔ ویتنام کی خونیں جنگیں، وہ بھیانک لڑائياں، وہ ناقابل فراموش المئے جو آخرکار امریکا کی شکست پر ختم ہوئے۔ چلی کی مثال لے لیجئے، خود ایران کی مثال لے لیجئے کہ اٹھائیس مرداد مطابق انیس اگست کو امریکی نمائندہ ایران آتا ہے اور منصوبہ بندی میں جٹ جاتا ہے، یہ سب خود انہی کی جانب سے بعد میں منظر عام پر لایا گيا اور آج یہ اطلاعات سب کی دسترسی میں ہیں۔ اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی ہوا۔ یہ سب کارستانیاں تھی بڑی اقتصادی کمپنیوں کی، امریکا کے بڑے سرمایہ داروں کی، جاہ طلب جماعتوں کی، با اثر صیہنی عناصر کی اور فکری و اخلاقی لحاظ سے بیمار ان شخصیات کی جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ یہ بڑے سنگین جرائم کا ریکارڈ ہے، یہ بڑا شرمناک ماضی ہے۔ یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے لئے انسانی جانوں کا ضیاع، ذخائر کی نابودی اور انصاف کی خلاف ورزی اور کسی انسانی المئے کا رونما ہو جانا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتیں۔ البتہ تصنع اور ریاکاری کے لئے ان کے پاس وسیع تشہیراتی وسائل اور ذرائع ابلاغ عامہ بھی موجود ہیں جسے بلندتر آواز کہنا مناسبت ہوگا۔ وہ اپنی اس بلند تر آواز کے ذریعے دنیا کی فضا کو ایسی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں رونما ہونے والے المئے کی پردہ پوشی ہو جائے، انہیں امن و جمہوریت اور انسانی حقوق کے حامی کے طور پر پہچانا جائے۔ سینئر بش کے دور صدارت میں سیاہ فاموں پر جو آشکارا مظاہم ہوئے ان کےنتیجے میں امریکا کی بعض ریاستوں میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ پولیس ان پر قابو نہ پا سکی تو فوج کو تعینات کیا گيا۔ اس کے بعد والے صدر کے زمانے میں مسیحی مذہب کی ایک شاخ داؤدیہ یا ڈیوڈین فرقے کے اسی افراد کو، جو حکومت کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ایک عمارت میں جمع تھے اور پولیس کے الٹی میٹم پر بھی باہر نہیں نکل رہے تھے، عورتوں اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے آگ میں زندہ جلا دیا گيا اور ان کی ابرو پر بل تک نہیں پڑے! انسانی حقوق کی پاسداری کا ان کا یہ انداز ہے! جونیئر بش کے دور صدارت میں شمالی افغانستان میں، جب وہ افغانستان پر قبضہ کر رہے تھے، لوگوں پر جو بم برسائے گئے، شہروں میں جو دردناک المئے برپا کئے وہ سب اپنی جگہ، ایک جیل میں قید بہت سے قیدیوں پر گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کر دیا گیا۔ یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی بھی لیکن صحافتی ڈکٹیٹروں نے ان خبروں کو زیادہ دیر تک منظر عام پر رہنے نہیں دیا، فورا اس کے بارے میں گفتگو بند کر دی کہ کہیں لوگوں کہ ذہن نشین نہ ہو جائے۔ امریکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دنیا بھر میں امریکیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات بے شمار ہیں لیکن وہ الٹے دنیا کے عوام، ملت ایران، حکومت ایران اور اسلامی نظام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام عائد کرتے ہیں! انسانی حقوق کا پرچم ان افراد نے بلند کیا ہوا ہے جو در حقیقت سب سے زیادہ انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ ٹاپ یورپ اور انسانی حقوق کی پامالیگزشتہ صدی کے دوران یورپی ممالک نے سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔ اگر کوئی سو سال سے قبل کی تاریخ کا جائزہ لے تو وہاں بھی یہی صورت حال نظر آئے گی۔ ان سو سالوں میں ان یورپی حضرات نے دو خانماں سوز عالمی جنگیں برپا کیں۔ یہ دونوں عالمی جنگیں دسیوں سال قبل ہوئی تھیں، خود موجودہ دور میں بھی کن لوگوں نے عراق میں کیمیاوی اسلحے کا کارخانہ تیار کیا جس سے اتنا بھیانک المیہ رونما ہوا؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کس نے عراق میں ایٹم بم بنانے کے لئے ایٹمی تنصیبات کی تعمیر کی جس سے پورے خطے کے لئے خطرات پیدا ہو گئے تھے؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کون اسرائیل کے جرائم کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے جس کی بنا پر وہ آئے دن نئے نئے جرائم انجام دے رہا ہے؟ یہی مغربی ممالک۔ٹاپ برطانوی انسانی حقوقانگریزوں نے خود کو پوری دنیا میں رواداری اور درگذر کے لئے مشہور کر رکھا ہے۔ ویسے لوگوں نے اس تسامح اور درگذر کا مشاہدہ عراق میں کر لیا ہے! اسلحے کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں گھسنا، پرسکون زندگی کو جہنم بنا دینا، کمسن بچوں کو دہشت زدہ کر دینا، بغداد اور موصل میں اسی طرح دیگر جگہوں پر جن کی خبریں ہمیں موصول نہیں ہوئیں، عوامی مظاہروں پر گولیاں برسانا، یہی جمہوریت، انسان دوستی، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کی پاسداری ہے؟! یہ عبرت کا مقام ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: ایران اور انسانی حقوقاسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:انسانی حقوق، اسلام اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ یقینی بنتے ہیں۔ اسلام ہے جو کہتا ہے: ان الحکم الا للہ امر الا تعبدوا الا ایاہ یہ حکم ہر ظالم حکومت کی نفی کرتا ہے۔ کسی کو عوام پر حکمرانی کا حق نہیں ہے سوائے اس کے جو مسلمہ معیاروں پر پورا اترے اور عوام میں اسے پذیرائی حاصل ہو۔ اسلام انسانی حقوق کا طرفدار ہے، کسی بھی مکتب فکر میں انسان کو وہ وقار، ارزش اور اہمیت نہیں دی گئی ہے جو اسلام نے دی ہے۔ اسلام کے تعارف کے موقع پر ایک اصول ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کی توقیر ایک بنیادی اصول ہے۔ اسلام کے زیر سایہ انسانی حقوق کا دفاع ہوتا ہے اور انسانی حقوق کو معنی و مفہوم حاصل ہوتا ہے۔ اسلام ہے جو اپنے احکام کے ذریعے، خواہ وہ عدالتی احکامات ہوں یا تعزیراتی احکامات، شہری احکامات ہوں، سماجی احکامات ہوں یا سیاسی مسائل و امور، انسانی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ لیکن اس کا دفاع نہیں جسے ان (مغرب کے) لوگوں نے عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کا نام دے دیا ہے۔ مغربی ممالک اسلامی جمہوریہ پر بہتان اور تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا پاس و لحاظ نہیں کرتا۔ ان کا اشارہ اسلامی حدیں جاری کئے جانے کی طرف ہوتا ہے، کیونکہ اسلامی جمہوریہ میں اسلامی حدیں جاری کی جاتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: وتلک حدود اللہ و من یتعد حدود اللہ جو بھی الہی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ تعالی کے غضب و عقاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام انسانی حقوق کا حامی و طرفدار ہے اور اس انتظار میں بیٹھنے والا نہیں کہ مغرب والے آکر اسے انسانی حقوق کی تعلیم دیں یا اسے انسانی حقوق کا پاس و لحاظ کرنے کی نصیحت کریں۔ اسلامی جمہوریہ اسلام کے احکامات و فرامین کے مطابق انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ اسلامی اصولوں میں شامل ہے۔ مغرب والے جو بات کہتے ہیں وہ محض فریب اور دھوکہ ہے۔ تو وہ رہی عورتوں کے حقوق کی ان کی طرفداری اور یہ ہے انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کا حال! دنیا کے استبدادی و سامراجی عناصر اور لٹیرے، قوموں کے حقوق کو در خور اعتنا نہ سمجھنے والے، کمزور قوموں کے مفادات کو کچل دینے والے اور کمزور ممالک پر غاصبانہ قبضہ کر لینے والے آج انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے نام نہاد دفاع کا پرچم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان قومیں ان پر بھروسہ کرنے والی نہیں ہیں۔ اسلام کے نورانی احکام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ موجودہ دور میں، ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر سمت سے انحرافی تشہیرات اور پروپیگنڈوں کا سیلاب جاری ہے، مسلمان عورت اس شجاعت و فکری آزادی کے ساتھ اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ اسلام کی برکتیں ہیں۔ مسلمان عورت کی اسلامی و انقلابی تربیت اسلامی جمہوریہ کا طرہ امتیاز اور قابل فخر کامیابی ہے۔ ٹاپ اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی:جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت:عوامی نظام، جس کے ڈھانچے میں عوام کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو، عوام کی آگاہی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، یعنی اس نظام کے عوام کو مطلع رکھنا ضروری ہے۔ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات اور لازمی فہم و ادراک کا مالک بنانا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے نظام کے لئے اطلاع رسانی کا عمل پانی اور ہوا کی مانند لازمی ہوتا ہے۔ ہمارا نظام ایسا ہی نظام ہے۔ اس میں عوام کو جتنا زیادہ با خبر رکھا جائے گا اسلامی جمہوری نظام کو اتنا ہی زیادہ نفع پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام کی ضرورت ہے کہ عوام کو آگاہ و باخبر رکھا جائے۔ٹاپ ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام:ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے لئے اخبارات و جرائد اشرافیہ کا مشغلہ اور کوئی آرائشی چیز نہیں ہے۔ بنابریں اس میں اضافہ، اس میں تنوع، ان کا معیاری ہونا اس نظام کے بنیادی امور میں شامل ہے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ اور میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔ آزاد میڈیا قوم کی ترقی و بالندگی کی علامت بلکہ در حقیقت ترقی کی بنیاد ہے۔ یعنی جہاں ایک طرف معاشرے کی آزادی و ترقی میڈیا کو وجود میں لاتی ہے وہیں میڈیا بھی قوم کے نشو نما میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ کچھ قدریں اور حقائق ایسے ہیں جو آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی کے نام پر پامال نہیں ہونا چاہئے۔ اب کمال کی بات یہی ہے کہ آزادی کی بھی حفاظت ہو اور حقیقت کا صحیح ادارک بھی عمل میں آئے۔ پرنٹ میڈیا آزاد بھی رہے اور ضرررساں پہلوؤں سے پاک بھی رہے۔ روش ایسی ہونا چاہئے۔ٹاپ سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی:پ یورپ اور امریکہ کے کسی ایک اخبار کا نام بتائیے جو سرمایہ داروں کی ملکیت نہ ہو۔ میرا یہ سوال ہے کہ کون سا اخبار ہے جو متوسط طبقے اور غریب طبقے سےتعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے انسان اس طبقے کی آزادی کا اندازہ کر سکے؟ اخبارات کس کی ملکیت ہیں؟ تمام (اخبارات ) کا تعلق بڑے ٹرسٹوں اور سرمایہ داروں سے ہے۔ یعنی یہ سرمایہ دار جب پوری آزادی سے کام کرتا ہے تو جب جس کی شبیہ کو چاہتا ہے خراب کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ رای عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق سمت اور رخ عطا کر دیتا ہے۔ یہ تو کوئی آزادی نہیں ہوئی۔ٹاپ اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط:میڈیا کا حقیقی سرمایہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے جو اقدار اور لوگوں کے عقائد کے لحاظ، نظام کی عزت و شان کی حفاظت اور بیان میں صداقت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا، جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے، لوگوں کے ذہن کھولنے کا فریضہ ادا کرے، ملک کے مفادات کو ملحوظ رکھے، قلم کا استعمال عوام کے مفاد میں کرے، دین کے مفاد میں قلم کا استعمال کرے تو اس کی تعداد میں جتنا زیادہ اضافہ ہو بہتر ہے۔ٹاپ اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ:اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کا سب سے اہم پہلو اس انقلابی قوم کے اقدار و اہداف کی حمایت و وضاحت اور عوام کی آگاہی کی سطح کو بلند کرنے کے سلسلے میں ثقافتی کردار کا ادا کرنا ہے۔ موجودہ دور میں، خاص طور پر مارکسزم کی شکست کے بعد مغربی سامراج انقلابی قوموں پر اپنا سیاسی و الحادی تسلط قائم کرنے کے لئے ثقافتی حربوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مغرب کی اس ثقافتی یلغار کا مختلف پہلوؤں سے مناسب جواب اور سد باب میڈیا کا اولیں مشن ہونا چاہئے۔ٹاپ اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:میں میڈیا سے جو بار بار سفارش کرتا ہوں کہ ملک کے معاملات کے سلسلے میں ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں دشمن کا حربہ نہیں بننا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے عمل سے دشمن کا کام آسان ہو جائے اور وہ حسب منشاء ہمارے معاشرے کی فکری و ثقافتی فضا میں جو چاہے تبدیلی کر دے اور آپ ملک کے اندر اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسے عوام کے حلق سے نیچے اتارنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اگر یہ عمل عمدا اور واقفیت کے ساتھ انجام پائے تو بہت بڑی خیانت ہے اور اگر غفلت میں ہو جائے تو بہت بڑی غلطی ہے۔ بہت زیادہ ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر پرنٹ میڈیا کی نگرانی بہت اہم اور ضروری فریضہ ہے۔ یہ آئین، پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین اور عام قوانین کا تقاضہ بھی ہے۔ نظارت کے بغیر پرنٹ میڈیا سے قومی مفادات اور تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رای عامہ ایک آزاد میدان ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے اس کے ساتھ جو دل میں آئے برتاؤ کیا جا سکتا ہے۔ رای عامہ تجربہ گاہ کا چوہا تو نہیں ہے کو جو جیسا چاہئے اس پر تجربہ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی سے لوگوں کے جذبات، عقائد اور مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ بنابریں نظارت لازمی ہے تاکہ یہ حرکتیں نہ ہوں۔ یہ (نظارت) ایک فریضہ ہے۔ ٹاپ انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:آج کل سیاسی اور ثقافتی امور میں سامراجی طاقتیں یہ حربہ اپناتی ہیں کہ دوسروں کو مغرب کے طرز فکر کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا کر دیں۔ عورتوں کا مسئلہ ہو، انسانی حقوق کا معاملہ ہو، جمہوریت کی بات ہو یا حریت پسند تحریکوں کا موضوع، اپنے فریق کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لئے مغربی حکومتیں بھاری ہنگامہ آرائی کرتی ہیں۔ اس طرح بات کرتی ہیں کہ ان کی مرضی معلوم کی جائے، یہی پسپائی ہے۔ جو لوگ در حقیقت انسانی حقوق کو ہرگز کوئی وقعت نہیں دیتے انہوں نے اسے دوسروں کو ہانکنے والا ڈنڈا بنا لیا ہے! امریکا دنیا میں انسانی حقوق کا ٹھیکیدار بن بیٹھا ہے۔ جنگ کے آغاز سے قبل تک امریکا کی نظر میں عراقی حکومت دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی ہمنوا و مددگار تھی، انیس سو اکاسی- بیاسی میں ایرانی جیالے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لے گئے اور انہوں نے اسے اپنی سرحدوں سے باہر نکال دیا۔ عراقی دشمن ایرانی بہادروں کا مقابلہ کرنے کے لئے کیمیاوی اور عام تباہی کے اسلحے استعمال کرنے یعنی جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے پر تیار ہو گیا، اسی موقع پر امریکی حکومت کو یہ احساس ہوا کہ عراقیوں کی مدد کرنا چاہئے تاکہ عراق کی بعثی حکومت اسلامی جمہوری نظام کے خلاف اپنا خیانت آمیز کردار کامیابی سے ادا کر سکے۔ انہی برسوں میں عراقی حکومت نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ اور ان لوگوں (امریکیوں) نے عراق کا نام دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی فہرست سے نکال دیا! انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کی حقیقت یہ ہے! دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں اس عمل کی سب سے زیادہ حمایت یہی امریکا جیسی سامراجی حکومتیں ہی کر رہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہی انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بھی بنی بیٹھی ہیں اور اسے ان حکومتوں اور قوموں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں جو ان سے بھڑ جاتی ہیں۔ ان حالات میں اگر کچھ لوگ آکر (ٹکرا جانے والی حکومتوں اور قوموں کو) منانے کی کوشش کریں تو یہ بالکل غلط پالیسی ہے کیونکہ اس کا مطلب دشمن کے مقابلے میں پسپائی ہے۔ حقوق نسواں کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ بر حق حکومت کی تشکیل کے بعد اسلامی ملک ایران میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے عورتیں بڑی حد تک اپنا تشخص بحال کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں کردار ادا کرنے اور مسلمان عورت کے جذبات کی عظمت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور مغرب والے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام میں عورتوں کے حقوق کی پامالی و خلاف ورزی کی ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ اپنا نقطہ نگاہ اسلامی جمہوریہ کے نقطہ نگاہ کے قریب اور اس سے ہم آہنگ کرے۔ مغرب والوں کو چاہئے کہ حقوق نسواں، انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کے بارے میں اپنے غلط نقطہ نگاہ کی اصلاح کریں اور اسے اسلامی نظریات کی کسوٹی پر پرکھیں۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دشمن کے ڈھیٹ پنے، توسیع پسندی اور تسلط پسندی کے سامنے ایک قدم بھی پسپائی اختیار کرنے والی نہیں ہے۔ یہ بڑی اچھی روش ہے۔ ٹاپ ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:اگر انسانی حقوق کے سلسلے میں تشویش ہے، جیسا کہ ہم بھی یورپی ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں تو فریقین اپنے اپنے نمائندے بھیجیں اور نگرانی کریں، دیکھیں۔ وہ لوگ یہاں آئیں اور ہم اپنے نمائندے ان کے ہاں بھیجیں جو یہ دیکھیں کہ جیلوں اور حکومتی و سماجی و شہری اداروں اور محکموں میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہے اور انسانی حقوق کا کتنا پاس و لحاظ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک منطقی و معقول تجویز ہے۔ ان اقدامات سے اسلامی جمہوریہ ایران اور مغرب کا باہمی رابطہ بھی فروغ کی منزلیں طے کرےگا۔ تشویش ناک باتوں کا جائزہ دونوں فریقوں کی جانب سے لیا جانا چاہئے۔ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات کے دوران اپنی انتہائی اہم گفتگو میں اسلامی نظام کے مثبت اور امید افزا پہلوؤں اور اس نظام کی مستحکم پوزیشن کی نشاندہی کرتے ہوئے موجودہ حالات میں دشمن کے پیچیدہ اور تہہ در تہہ منصوبوں کی جانب اشارہ کیا۔
یوم قدس، باطل کے مقابلے میں حق کی محاذ آرائی کا دن ہے، قائد انقلاب ایران کی سربلند و با ایمان قوم نے ایک مہینے کی روزے اور عبادات کے شکرانے کے طور پر ملک بھر میں انتہائی با شکوہ انداز میں نماز عید فطر قائم کی۔ اس عظیم روحانی اجتماع کا نقطہ کمال تہران یونیورسٹی اور اطراف کی سڑکوں پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز عید فطر ادا کرنے والے تہرانی عوام کے شاندار اجتماع کی شکل میں نظر آیا۔
ایران کی سربلند و با ایمان قوم نے ایک مہینے کی روزے اور عبادات کے شکرانے کے طور پر ملک بھر میں انتہائی با شکوہ انداز میں نماز عید فطر قائم کی۔ اس عظیم روحانی اجتماع کا نقطہ کمال تہران یونیورسٹی اور اطراف کی سڑکوں پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز عید فطر ادا کرنے والے تہرانی عوام کے شاندار اجتماع کی شکل میں نظر آیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید الفطر کے دن اسلامی نظام کے عہدہ داروں، اسلامی ممالک کے سفیروں اور عوامی طبقات سے ملاقات میں اسلامی عیدوں بالخصوص عید فطر کو صلاحیتوں، توانائيوں اور موجودہ حالت اور مستقبل پر نظر ڈالنے اور نقائص و عیوب کی شناخت کا اہم موقع قرار دیا ۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس شہریور تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق 20 ستمبر دو ہزار نو کو تہران کی مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ سانحے میں ماہرین کی کونسل میں صوبہ کردستان کے نمائندے ماموستا شیخ الاسلام کی شہادت پر تعزیت و مبارکباد پیش کی۔
اسلام میں دولت کا حصولقومی ثروت کے اضافے کی شرائطاسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاددولت و ثروت کے حصول کی اہمیتپیداوارانصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںثروت کی تقسیمدولت کی تقسیم کا معیاراسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیمانٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفاسلامی معیشت میں دولت کا حصولاسلام میں دولت کا حصولقانونی اور جائز طریقے سے دولت مند بننے میں اسلام کی نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ حکومتی عہدہ داروں کو چاہئے کہ عوام کو اقتصادی سرگرمیوں اور فعالیت میں شراکت کی راہوں سے آشنا و آگاہ کریں۔ اس طرح کی پالیسیاں معاشرے کے لئے عمومی دولت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسلام نے دولت کمانے سے ہرگز نہیں روکا ہے۔ البتہ دولت پیدا کرنے اور دوسروں کا سرمایہ لوٹنے میں بڑا فرق ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی عمومی سرمائے پر دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی شخص غیر قانونی طریقوں سے، قانون کی پابندی کو ترک کرکے مادی وسائل حاصل کرتا ہے، یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ لیکن اگر قانونی طریقے سے دولت حاصل کی جائے تو شریعت مقدسہ اور اسلام کی نظر سے یہ فعل پسندیدہ و مستحسن ہے۔ دولت حاصل کی جانی چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ دولت حاصل کیجئے لیکن اسراف نہ کیجئے۔ فضول خرچی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے جو دولت حاصل کی ہے اس کو بنیاد اور ذریعہ بناکر مزید دولت حاصل کیجئے۔ پیسے کو جمود اور بانجھپن کا شکار نہ بنائیے۔ اسلام میں اس کو کنز تیار کرنے کا نام دیا گيا ہے۔ اسی طرح فضول خرچی اور پیسے کے خرچ میں بے احتیاطی سے پرہیز کیجئے، پیسہ غیر ضروری چیزوں پر خرچ نہ کیجئے۔ ان چیزوں کا بھی خیال کیجئے اور ساتھ ہی دولت بڑھانے کی بھی فکر میں رہئے۔ عوام کی دولت در حقیقت ملک کا عمومی سرمایہ ہے، اس سے سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ٹاپ قومی ثروت کے اضافے کی شرائطقومی ثروت کے لحاظ سے ملک کو بے نیاز اور خود کفیل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری، اقتصادی سرگرمیاں اور دولت کی پیداوار ملک کے تمام فعال افراد کے اختیار میں قرار پائيں۔ یعنی ہر ایک کو اس میدان میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کی حمایت کرے اور قانون بھی اس میں ممد و معاون ثابت ہو۔ ٹاپ اسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاداسلامی اقتصادیات میں دو اہم بنیادیں نظر آتی ہیں۔ ہر اقتصادی روش اور ہر اقتصادی نسخہ جس میں ان دونوں بنیادوں کا خیال رکھا گیا ہو، معتبر ہے جبکہ ہر وہ روش اور پروجیکٹ جو بظاہر دینی اساس پر استوار ہو لیکن ان دونوں بنیادوں سے عاری وہ اسلامی نہیں ہے۔ ان دونوں میں سے ایک بنیاد ہے: قومی ثروت میں اضافہ۔ اسلامی ملک کو دولت مند اور ثرورت مند ملک ہونا چاہئے۔ فقیر ملک نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں یہ صلاحیت ہو کہ اپنی ثروت سے اور اپنی اقتصادی توانائی سے عالمی سطح پر اپنے اعلی اہداف کو عملی جامہ پہنا سکے۔ دوسری بنیاد، ثروت کی منصفانہ تقسیم اور معاشرے سے محرومیت کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں بنیادیں لازمی ہیں۔ پہلی بنیاد دوسری بنیاد کی شرط ہے۔ اگر ثروت کی پیداوار نہ ہو، اگر دولت حاصل نہ کی جائے تو غربت کو معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بنابریں یہ دونوں چیزیں لازمی ہیں۔ٹاپ دولت و ثروت کے حصول کی اہمیتدو چیزوں کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ ایک چیز ثروت پیدا کرنا ہے، کوئی درست طریقے سے محنت کرکے ثروت پیدا کر رہا ہے۔ دوسری چیز ہے دولت کمانے کی روش اور خرچ کرنے کا انداز۔ پہلی چیز تو پسندیدہ ہے۔ کیونکہ معاشرے میں جو ثروت بھی آ رہی ہے وہ معاشرے کے مجموعی طور پر دولت مند بننے میں مددگار ہوگی۔ دوسری چیز جو بہت زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ کس طرح دولت پیدا کی جائے۔ یہ غیر قانونی طریقوں سے اور فریب اور بد عنوانی کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا استعمال بھی شرعی لحاظ سے ناجائز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ثروت معاشرے کی رگوں میں خون بن کے دوڑے اور غلط کاموں کے لئے استعمال نہ ہو۔ ٹاپ پیداواروسیع پیمانے پر پیداوار، قوم کا اہم نعرہ ہونا چاہئے۔ روزگار کی پیداوار، علم کی پیداوار، ٹکنالوجی کی پیداوار، دولت کی پیداوار، معرفت کی پیداوار، مواقع کی پیداوار، عزت و منزلت کی پیداوار، مصنوعات کی پیداوار اور ماہر افرادی قوت کی پیداوار۔ یہ سب پیداوار ہے۔ اسلامی نظام سرمایہ کاری کے نظرئے، اس کی اہمیت اور داخلی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کی ثروت و دولت کی پیداوار کو مثبت نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی تائید و حمایت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل ملک کی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع ایجاد کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حکومت کو ایسی پالسیاں وضع کرنا چاہئے کہ پیداواری شعبوں اور یونٹوں میں ثروت و دولت کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف بھی قائم ہو۔ اگر معاشرے میں اقتصادی ترقی نہ ہو، اگر روزگار کے مواقع ایجاد نہ کئے جائیں تو یہی کمزور اور مستضعف طبقہ بالخصوص مزدوروں کا طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوگا۔ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس وقت حکام کی بہت اہم ذمہ داریاں ہیں، ایک طرف وہ لوگوں کو صحیح طریقے اور قانونی راستے سے اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم کریں کیونکہ اسلام میں ثروت و دولت پیدا کرنا ناپسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ غلط طریقے اپنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ دھوکے، فریب اور عمومی دولت کے غلط استعمال کا سد باب کیا جائے کیونکہ یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ ٹاپ انصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںدنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں نہ غربت کا خاتمہ ہو سکا ہے، نہ انصاف قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اخلاقیات کی ترویج ہو پائی ہے۔ دولت کی پیداوار تو بے پناہ ہے لیکن اخلاقیات تنزل اور انحطاط کا شکار ہیں۔ دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں کام اور اقتصادی سرگرمیوں کا نصب العین دولت کمانا ہے۔ اس نظام میں بنیاد، اقتصادی نشو نما، اقتصادی ترقی اور دولت و ثروت کا اضافہ ہے۔ جو دولت کمانے میں آگے ہے وہی سب سے اہم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ وہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ طبقاتی فاصلہ بڑھے۔ آمدنی کے فاصلے اور بڑی تعداد میں عوام کا نادار ہونا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے تشویش کی بات نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ روش اور طریقے منفی اور ناقابل قبول ہیں جو ثروت کی تقسیم کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا ہے یہ تو بالکل بے معنی چیز ہے کہ آپ دولت جمع کیجئے تاکہ اسے آپ سے لیکر منصفانہ طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ بے معنی چیز ہے۔ اس طرح تو ترقی کا راستہ رک جائے گا۔ٹاپ ثروت کی تقسیمجو لوگ کہتے ہیں کہ انصاف، غربت و افلاس بانٹنے کا نام ہے، ان کی بات کا لب لباب یہ ہے کہ انصاف کے چکر میں نہ پڑئے، پیداوار کی فکر کیجئے تاکہ تقسیم کے لئے ثروت تو حاصل ہو۔ انصاف کو نظر انداز کرکے ثروت کے حصول کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آج سرمایہ دارانہ ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے دولت مند ترین ملک یعنی امریکا میں بھی ایسے افراد ہیں جو بھوک اور گرمی و سردی سے فوت ہو جاتے ہیں، یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں، وہ حقائق ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نظام کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ ملک کے اندر سارے لوگ نعمتوں سے بہرہ مند ہوں، ملک میں محرومی نہ ہو، غربت نہ ہو، تفریق نہ ہو، وسائل و مواقع کا غیر مساویانہ استعمال نہ ہو، قانون کا امتیازی استعمال نہ کیا جائے۔ ٹاپ دولت کی تقسیم کا معیارجب انصاف کو نظر انداز کرکے دولت حاصل کی جاتی ہے تو نوبت یہ ہو جاتی ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ شاطر اور اور تیز قسم کے ہیں، راتوں رات دولت کا انبار لگا لیتے ہیں جبکہ اکثریت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ حسرت و محرومی میں زندگی بسر کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ تو بڑی ہی قابل رحم حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ بنابریں یہ کہنا کہ انصاف کی بات نہ کیجئے دولت و ثروت حاصل کرنے کی فکر کیجئے اور اس کے لئے یہ جواز بھی پیش کر دینا کہ جب دولت آ جائے گی تب انصاف کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے گا، درست نہیں ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جو وسائل ہیں وہ منصفانہ انداز میں اور معقول حد تک تقسیم ہوں۔ یہ بھی نہ ہو کہ بے حساب کتاب سب کچھ تقسیم کر دیا جائے۔ کوشش یہ ہونا چاہئے کہ وسائل میں مزید اضافہ ہو تاکہ سارے لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔ ٹاپ اسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیماسلامی نظام کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ ثروت مند ہونا چاہئے، پسماندہ او مفلس نہیں۔ اسلامی نظام اقتصادی ترقی پر یقین رکھتا ہے لیکن رفاہ عامہ اور سماجی انصاف کے لئے اقتصادی ترقی سب سے اہم مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں افلاس و غربت نہ رہے۔ کوئی فقیر نہ ہو اور عمومی وسائل کے استعمال میں امتیاز و تفریق نہ ہو۔ جو بھی اپنے لئے کچھ وسائل تیار کر لے وہ اس کی ملکیت ہو لیکن جو چیزیں عمومی ہیں مثلا مواقع اور وہ وسائل جن کا تعلق پورے ملک سے ہے اس میں کوئی تفریق اور امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اسلامی نظام کا مقصد دولت کا انبار لگانا ہے۔ یعنی کچھ ہی لوگوں کو دولت پیدا کرنے کے مختلف وسائل و مواقع دستیاب ہوں۔ ملک کی اوسط شرح ترقی دو برابر ہو جائے یا مجموعی پیداوار دو گنا ہو جائے۔ البتہ یہ اعداد و شمار بعض حالات میں انصاف کی سمت پیش قدمی کی بھی علامت ہو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ٹاپ انٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفجو لوگ علمی و تحقیقاتی یا پلاننگ کے مراکز میں ہیں اور معیشت، سیاست، عالمی سیاست اور دیگر ملکوں کے حیاتی امور پر نظر رکھتے ہیں وہ اس فکر میں نہ پڑیں کہ مغربی فارمولوں کو، مغرب کے اقتصادی اصولوں کو، عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے فارمولوں کو دیگر ملکوں کے امور میں نافذ کریں۔ یہ نظریہ ایران جیسے ملک کے لئے مفید نہیں ہے۔ البتہ ان کے علم و دانش سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی سائنسی ترقی ہو اور سائنسی تجربہ ہو اس سے یقینا استفادہ کیا جائے گا لیکن خاکہ اور منصوبہ قومی نظرئے اور ضروریات کے مطابق ہی طے پانا چاہئے۔ ملیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد جو واقعی بڑے محنتی، نکتہ سنج، سنجیدہ اور ذمہ دار شخصیت کے مالک ہیں، تہران آئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مشرقی ایشیا میں گوناگوں تبدیلیاں ہوئی تھی۔ ملیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں اقتصادی زلزلہ آ گیا تھا۔ یہی صیہونی سرمایہ دار اور دوسرے سرمایہ داروں نے بینکنگ کے شعبدوں اور مالیاتی حربوں کے ذریعے کئی ملکوں کو دیوالیہ کر دیا تھا۔ اس وقت جناب مہاتیر محمد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہماری حالت فقیروں والی ہو گئی ہے۔ جب بھی کوئی ملک اقتصادی طور پر منحصر ہو جاتا ہے دوسروں پر اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اقتصادی فاومولوں پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے تو اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ خود یہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی اسی شعبدے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے کہ دنیا کی تبدیلیوں کی باگڈور ایسے عالمی مافیاؤں کے پاس ہو جو اس وقت دنیا پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ ٹاپ
مقدس دفاع کے موضوع پر کام کرنے والے ملک کے فنکاروں، ہدایت کاروں، مصنفین، شعراء اور دیگر شخصیات نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مقدس دفاع کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں اور سیریلوں کو فن و ہنر کے شعبے کی اہم تخلیقات سے تعبیر کیا اور فرمایا: آٹھ سالہ مقدس دفاع کی اعلی انسانی صفات کی فنکارانہ تصویر کشی قابل قدر کوشش ہے جس میں یقینی طور پر اس عظیم واقعے کے اثرات نمایاں ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ مبارک رمضان کے تیسرے جمعے کی نماز میں روزہ داروں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سیاسی طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی سیاسی زندگی کو امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت سے ہم آہنگ قرار دیا اور فرمایا: یوم قدس امام (خمینی رہ) کی سب سے اہم یادگاروں میں سے ایک ہے، لہذا پوری طرح بیدار ملت ایران فضل خدا سے آئندہ جمعے کو دنیا کی ظلم مخالف قوموں میں پیش پیش رہتے ہوئے ملت فلسطین کی حمایت کا پرچم بلند کرے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس رمضان المبارک سن چودہ سو تیس ہجری قمری برابر بیس شہریور سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق گیارہ ستمبر سن دو ہزار نو عیسوی کو تہران یونیورسٹی میں مرکزی نماز جمعہ پڑھائی۔
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلامی معیشت میں انفاق
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
اسلام میں نجی مالکیت
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلامی معاشرے میں اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزادی ہے لیکن یہ مطلق آزادی نہیں بلکہ اس کی کچھ حدود ہیں۔ ہر طرح کی آزادانہ فعالیت اور حرکت کی کچھ نہ کچھ حدود اور ضوابط ہوتے ہیں۔ اسلام میں یہ حدود خاص طرح کی ہیں۔ سوشیلسٹ معاشروں میں بھی دولت و ثروت رکھنے کی کچھ حدود و قیود ہیں لیکن وہ حدود اسلامی حدود سے مختلف ہیں اور اسی مقدار میں اقتصادی سرگرمیوں کی آزادی کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ کمیونسٹ اور مارکسسٹ نظرئے سے مختلف ہے۔ شاید یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اسلامی نقطہ نگاہ بھی سرمایہ دارانہ مکتب فکر سے بھی اتنا ہی مختلف ہے جو مغرب میں اس وقت رائج ہے اور جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ آج جو صورت حال مغرب میں ہے اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ سرمایہ داری جس مفہوم میں مغرب میں رائج ہے اسلام اس کی قطعی تائید نہیں کرتا بلکہ متعدد احکام ایسے ہیں جو اس کے مقابلے اور سد باب کا عندیہ دیتے ہیں۔ اسلامی اقتصاد کے تعلق سے جو باتیں بتائی گئی ہیں ان کا نمونہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے میں آزاد اقتصادی فعالیت کی حدود وہ چیزیں ہیں جنہیں فقہ کی کتابوں میں حرام کمائی اور حرام مال قرار دیا گيا ہے، یعنی سود کا لین دین، لاعلمی و فریب کا سودا، وہ سودا جس میں کسی کو دھوکا دیا جا رہا ہو یا نقصان پہنچایا جا رہا ہو۔ وہ تجارت جو حرام آمدنی سے کی جائے، ذخیرہ اندوزی جس سے کچھ لوگ بڑے مالدار بن جاتے ہیں، اس کے ذریعے سودا حرام ہے۔ اسی طرح دیگر چیزیں جو اسلام کی مقدس شریعت میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے میں آزاد اقصادی سرگرمیوں کی حدود ہیں۔
بعض چیزوں کا سودا حرام ہوتا ہے، مثلا شراب یا دیگر حرام اور نجس چیزیں، کچھ استثنائی مواقع کو چھوڑ کر ان کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ یا اسی طرح وہ مال جو کسی شخص کا نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا ہے جیسے انفال کچھ مخصوص مواقع کے علاوہ اس کا سودا عام لوگوں کے لئے یا غیر حکومتی سطح پر ناجائز ہے۔ اسلامی فقہ میں اسی طرح کی کچھ اور چیزیں بھی ہیں جنہیں معین کیا گيا ہے اور بتایا گيا ہے کہ یہ آزادانہ تجارتی سرگرمیاں کس حد تک جائز ہیں اور کہاں ناجائز اور حرام و ممنوع ہیں۔
اسلامی معاشرے میں اقتصادی آزادی یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایسی پالیسی اختیار کرے اور ایسے قانون وضع کرے جس کی بنا پر معاشرے کے تمام افراد آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے پر قادر ہوں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اقتصادی سرگرمیاں کرنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسلام کے اقتصادی نظام اور مغربی نظام کا ایک بڑا فرق ہے۔ معاشرے میں حقیقی معنی میں آزاد معیشت وجود میں لانے کا طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے انحصار اور اجارہ داری کو توڑا جائے۔ ایسی سہولتیں فراہم کی جائيں کہ معاشرے کے اکثر و بیشتر افراد، معاشرے کے بیشتر طبقات یا سارے کے سارے لوگ جو کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، زمین، سمندر، میدانوں اور چراگاہوں کے وسائل و امکانات سے استفادہ کر سکیں۔
امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں: ما رئیت نعمۃ موفورۃ الا و فی جانبھا حق مضیع یعنی میں نے کہیں بھی نعمتوں کی کوئی ایسی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جس میں کسی کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔ اس حدیث کا ایک بڑا لطیف مفہوم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے وہ کچھ لوگوں کا حق غصب کئے جانے اور چوری کا نتیجہ ہے اور اس غاصب کا نشانہ بننے والے کچھ کمزور اور مظلوم افراد بھی ہیں۔ پھر اس حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں کے پاس دولت ہے جنہوں نے چوری کی نہ کسی کا مال غصب کیا ہے بلکہ اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے، دولت زیادہ ہے، وسائل کی بہتات ہے، وہاں در حقیقت یہ دولت اور ثروت اپنے مالک کو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے بہت زیادہ وسائل فراہم کر دیتی ہے اور ان وسائل کو دوسروں کی دسترسی سے نکال دیتی ہے۔ معاشرے میں جس کے پاس دولت زیادہ ہے وہ زیادہ دولت کما سکتا ہے اور ان چیزوں سے زیادہ بہتر استفادہ کر سکتا ہے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے، جبکہ یہ غریب کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہذا جس کے پاس زیادہ دولت ہے اس کے پاس زیادہ مواقع ہیں، زیادہ وسائل ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کا میدان اس کے پاس ہے۔ اکثر ممالک میں ایسے ہی افراد اور طبقے کی منشاء کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے۔ اس طرح عوام کی اکثریت جس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے، مواقع سے محروم رہتی ہے۔
بنابریں اس حدیث کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں آزاد معیشت کا راستہ یہ نہیں ہے کہ یہ آزادی صرف ان لوگوں کے قبضے میں رہے جو اقتصادی و مالی توانائی رکھتے ہیں، بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ جن افراد کے پاس مالی و اقتصادی طاقت ہے وہ اس انداز سے کام کریں کہ معاشرے اور نظام کی حالت اور معاشرے کے اندر پائے جانے والے تعلقات و روابط ایسی شکل اختیار کریں کہ جن کے پاس بھی کام کرنے کی طاقت ہے وہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں کریں اور اپنے کام سے مستفید ہوں۔
ٹاپ
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلام میں نجی مالکیت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس کی حد بھی معین کر دی گئی ہے۔ حد کا مطلب یہ نہیں کہ کتنا ریال، کتنا ڈالر، کتنا دینار یا کتنا درہم معین کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ مقدار تو ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ ملکیت کے لئے ضرر و ضرار کی حد رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی کی ذاتی دولت اور سرمائے سے امت مسلمہ یا مسلمانوں کی ایک تعداد کو نقصان پہنچنے لگے تو اس ملکیت کو ضرررساں بننے سے قبل کی حد پر روک دیا جائے گا۔ اسلام میں ذاتی اور نجی ملکیت کا احترام ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ ذخیرہ اندوزی، استحصال، تفریق، انسانوں کی بے حرمتی اور سرکشی پر منتج نہ ہو جائے۔ بری بات استحصال، سرکشی، اسراف اور زیادہ روی ہے۔ ان چیزوں کے باعث ذاتی ملکیت بری ہو جاتی ہے۔ دولت بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ تو نجی ملکیت کی یہ حدیں ہیں۔ اسلام نے ان برائیوں کی روک تھام پر توجہ دی ہے، اسراف کو مسترد اور اسراف کرنے والے کو قابل مذمت قرار دیا ہے اور اسلامی حاکم اور حاکم شرع کو اسراف، استحصال، تفریق، سرکشی اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کی اجازت دی ہے۔ بنابریں اسلامی حاکم اور اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ اختیار ہے کہ اپنے حکم سے اس زیادہ روی کو روکے۔
اسلامی نظام نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے، لوگوں کی اقتصادی کوششوں اور سرگرمیوں کو بھی مانتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ضرورتمندوں اور محتاج لوگوں کے رفاہ و آسائش کے لئے بھی معاشرے کو ایک اک قدم آگے لے جاتا ہے۔ آزاد اسلامی معیشت میں اقتصادی آزادی کے تقاضے کے مطابق معاشرے کے اقتصادی امور کی ذمہ داری اور اقتصادی امور کا سنگین بار عوام کے دوش پر ہوتا ہے۔
ٹاپ
اسلامی معیشت میں انفاق
اسلامی نظام میں لوگوں کو آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا حق ہوتا ہے، سب حکومت کے ملازم نہیں ہیں، لوگ خود کام کر سکتے ہیں، اپنے طور پر سعی و کوشش کر سکتے ہیں، خود اپنی آمدنی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ معاشرے کا مالی و اقتصادی خلا بھی خود عوام کے ذریعے بھرا جانا چاہئے۔ یعنی انفاق کیا جائے۔ قرآن میں جو انفاق کا ذکر موجود ہے وہ معاشرے کی آزادانہ اقتصادی سرگرمیوں کی ہی بنا پر ہے۔ جب لوگ خود پیسہ کما رہے ہیں تو انہیں معاشرے کی ضرورتیں بھی پوری کرنا چاہئے۔ خلا کو پر کرنا چاہئے۔ انفاق کا مطلب اسی خلا کو پر کرنا ہے۔
انفاق ایک اسلامی اصول ہے۔ انفاق کرنا، پیسہ دینا، اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور اقتصادی خلا کو بھرنا براہ راست عوام اور لوگوں کی ذمہ داری ہے جو معاشرے میں آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جس کے باعث حکومت کو پیسے کی ضرورت پڑ جائے تو اس پیسے کا انتظام عوام کو کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کو کوئی جنگ پیش آ جائے، کوئی تخریبی واقعہ ہو جائے، کوئی بیماری پھیل جائے، کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو جائے تو اس سلسلے میں اسلام کا کہنا یہ ہے کہ عوام حتی الوسع مدد کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ چونکہ سارے لوگوں کی استطاعت یکساں نہیں ہے اس لئے جو زیادہ خوشحال ہیں، جن کے پاس زیادہ وسائل و امکانات ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔
دولت اندوزی، عدم انفاق اسلام کی نظر میں غیر اخلاقی فعل اور گناہ ہے، اسے گناہ کبیرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنے سرمائے کے ذریعے کام کرنے کا اختیار دیا گيا ہے تو انہیں حق ہے کہ وہ جائز طریقوں سے دولت کمائے اور جمع کرکے رکھ لیں خواہ معاشرے کو ان کے سرمائے اور ان کے وسائل کی شدید احتیاج ہو، وہ اللہ کی راہ میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پیسہ خرچ نہ کریں۔ اسلام میں انفاق یعنی ضرورتمندوں پر پیسہ خرچ کرنا ایک اصول اور حکم ہے۔ اللہ کی راہ میں پیسہ خرچ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہا گيا ہے کہ سودا نہ کیجئے، پیسہ نہ کمائیے۔ کمائیے لیکن خرچ بھی کیجئے۔ اسلام لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انہوں نے جو حاصل کیا ہے اس میں سے اپنی ضرورت اور احتیاج کے مطابق خرچ کریں۔ ایسا بھی نہیں کہ عسرت و تنگدستی میں زندگی بسر کریں، ایک عام سطح کی زندگی ایک حد تک آسائش و رفاہ کے ساتھ، اتنا اپنے اوپر خرچ کریں، اس کے بعد جو بچے اسے معاشرے میں رفاہ عامہ کے لئے صرف کریں۔ اگر کسی نے دولت حاصل کی اور اسے اسراف کے ساتھ، فضول خرچی کے ساتھ، ٹھاٹ باٹ، گراں قیمت غذا، گراں قیمت کپڑوں، گراں قیمت سواری، گراں قیمت رہائش پر خرچ کر دیا یا سارا پیسہ جمع کرکے بیٹھ گيا تو یہ اسلام کی نظر میں مذموم ہے۔ عدم انفاق مذموم اور منفور ہے اور اگر اس کے ساتھ ذخیرہ اندوزی بھی ہو تو حرام ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ واللہ لا یحب کل مختال فخور الذین یبخلون و یامرون الناس بالبخل جو لوگ بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کا راستہ دکھاتے ہیں، دوسروں کو بھی انفاق فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ اس بخل کا مطلب یہی نہیں ہے کہ وہ شرعی حقوق ادا نہیں کرتے بلکہ شرعی حقوق کے آگے کی بھی چیزیں روک لیتے ہیں۔ اگر معاشرے کو ضرورت ہے اور کسی انسان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو اسے شریعت کی جانب سے معین کردہ مقدار سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔
کچھ لوگ ہیں جنہوں نے عمومی وسائل کے ذریعے دولت جمع کر لی ہے۔ دولت صحیح اور جائز راستے سے جمع کی گئی ہے لیکن اگر معاشرے کو اس کی ضرورت ہے اور وہ اسے دبائے بیٹھے ہیں تو یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اسلام سے یہ درس نہیں ملا ہے بلکہ اسلام اس کے برعکس عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ معروف آیۃ کریمہ ہے: الذین یکنزون الذھب والفضۃ و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم جو لوگ سیم و زر کا خزانہ جمع کر لیتے ہیں، ذخیرہ تیار کر لیتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے- یہ صرف سونے اور چاندی سے مختص نہیں بلکہ پیسہ، سرمایہ اور دولت کا بھی یہی حکم ہے- جمع کرکے رکھتے ہیں جبکہ معاشرے کو اس کی شدید احتیاج ہوتی ہے لیکن وہ راہ خدا میں اسے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ان پر بھی یکنزون الذھب و الفضۃ کا ہی اطلاق ہوگا۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: فبشرھم بعذاب الیم اگر یہ (ذخیرہ اندوزی) گناہ نہیں، اگر یہ گناہ کبیرہ نہیں تو فبشرھم بعذاب الیم کیوں کہا گیا؟ انہیں دردناک عذاب کی نوید سنا دیجئے۔ یعنی ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کے دردناک عذاب ک لئے تیار رہیں، یہ دردناک عذاب دنیا میں ان کے ان اعمال کے فطری نتیجے اور عواقب کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، جس کے اثرات خود انہی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے عواقب آخرت میں سامنے آئیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں جگہ سامنے آئیں۔ یعنی اس کام پر دردناک عذاب دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا۔ بنابریں انفاق واجب و ضروری فعل ہے۔
ٹاپ
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
نجی سیکٹر کو کام اور پیداوار کے میدان میں اترنے کے لئے ترغیب دلائی جانی چاہئے۔ ملک کی بیشتر پیداواری یونٹیں حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ البتہ ایک معینہ مقدار خود آئین نے مختص کی ہے جو اس موجودہ مقدار سے بہت کم ہے۔ حکومتی سیکٹر میں اس بھیڑ کی وجہ بعض پالیسیوں کی خرابی ہے۔ اس مقدار کے علاوہ جسے آئین نے معین کیا ہے اور جس کا حکومت کے ہی اختیار میں ہونا لازمی قرار دیا گيا ہے، بقیہ شعبوں میں نجی سیکٹر کو روزگار اور پیداوار کی ذمہ داری سنبھالنا چاہئے۔ البتہ یہ چیز واضح رہے کہ نجکاری صرف یہ نہیں ہے کہ حکومتی کمپنیوں کو کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طرح، ملک کا مفاد مد نظر رکھے بغیر غیر سرکاری سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ سرمایہ کار کو ترغیب دلانا چاہئے کہ میدان میں اترے۔ ذخائر اور وسائل کی اس طرح نشاندہی کی جانی چاہئے کہ نجی سیکٹر کو ترغیب ملے۔ یہ کام درست انداز میں اور معیاری سطح پر ہونا چاہئے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ یونٹیں پیداواری صلاحیت و توانائی رکھتی ہیں یا نہیں۔ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر ان میں یہ صلاحیت و توانائی ہے تب تو انہیں اس کا موقع دیا جانا چاہئے۔ بنابریں صلاحیت کے مطابق انتخاب کیا جائے، رشتہ داری، ناتے داری اور سیاسی دوستی و قربت کی بنا پر نہیں۔ اگر ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو نجی سیکٹر کو ترغیب ملے گی اور وہ میدان میں اترے گا۔
ٹاپ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی آزادی اسلامی حاکم کی دیکھ بھال میں ہونی چاہئے۔ اس دیکھ بھال کا کیا مقصد ہے؟ مقصد یہ ہے کہ یہ آزادی بد عنوانی اور فساد پر منتج نہ ہو۔ یہ آزادی دوسروں کے اختیارات سلب ہو جانے کا باعث نہ بنے۔ اظہار خیال کی آزادی، سیاسی آزادی اور ثقافتی آزادی کے سلسلے میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اقتصادی آزادی کا یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ جن افراد کے پاس اقتصادی سرگرمیوں کی طاقت و توانائی ہے وہ جس چیز کی چاہیں پیداوار کریں، جس طرح چاہیں چیزوں کو بازار میں لائیں، جب چاہیں سپلائی کریں، جیسے چاہیں فروخت کریں اور جس طرح چاہیں استعمال کریں، تو یہ یقینی طور پر اسلام کا نظریہ نہیں ہے۔ اسلام نے اقتصادی آزادی اور نجی مالکیت کے ساتھ جو اس نے معاشرے کے ہر فرد کو عطا کی ہے، ان سارے امور پر حکومت کی نظارت و نگرانی کو لازمی قرار دیا ہے۔ یعنی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ ہونے پائے۔ چیزوں کے خرچ میں بھی اس بات پر نظر رکھے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ البتہ ایک حد تک اسراف ذاتی اور انفرادی گناہ ہے، اپنے گھر میں کوئی کسی چیز کو فضول خرچی کے ساتھ استعمال کرے تو یہ یقینا ایک فعل حرام ہے، ایک گناہ ہے لیکن یہی چیز اس حد تک بڑھ جائے کہ اس سے معاشرے کے اقتصادی نظام کو خطرات لاحق ہو جائیں، معاشرے میں اس سے غربت و افلاس بڑھنے لگے، عوام کا بہت بڑا طبقہ محرومی کا شکار ہونے لگے، جو چیزیں انسانوں کی کد و کاوش کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اسے تلف اور ضائع کیا جائے تو پھر اسلامی حکومت پر یہ فرض آن پڑتا ہے کہ اس اسراف کا سد باب کرے، اس فضول خرچی کا مقابلہ کرے۔ البتہ یہ چیز ایک معاشرے تک محدود نہیں ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسلام کا یہی سبق ہے۔ اس وقت جو ممالک غذائی اشیاء کے استعمال میں اسراف کر رہے ہیں، دنیا کے بعض دولتمند ممالک دنیا کی ستر فیصد غذائی اشیا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی پینتیس چھتیس فیصدی ہے، اگر دنیا میں منصفانہ اقتصادی نظام ہو، اگر دنیا میں طاقتور مالیاتی ادارے ہوں تو ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا میں کچھ با ضمیر حکومتیں اور کچھ تنظیمیں سامنے آئیں اور اپنی طاقت دنیا کی قوموں اور انسانوں کے مفاد میں استعمال کریں ، مثلا ان حرکتوں کو روکیں کہ امریکا ہر سال کئی ملین ہکٹیئر زراعتی زمین پر کھیتی نہیں ہونے دیتا تاکہ غلے کی قیمت گرنے نہ پائے، جبکہ دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے کئی ہزار بچے روزانہ بھکمری کا شکار ہوکر تلف ہو رہے ہیں، جبکہ دنیا کے دس سے پندرہ فیصدی عوام خشکسالی کی مار جھیل رہے ہیں، دنیا کی بہت بڑی آبادی غذائی اشیاء کی قلت سے دوچار ہے۔ یا مثلا اس جیسے اقدامات کو روکا جائے کہ کئی سال قبل یورپ کے مشترکہ بازار نے بہت بڑی مقدار میں غذائی اشیاء اور غلے کو سمندر میں پھنکوا دیا تاکہ اناج کی قیمت میں گراوٹ نہ آئے اور عالمی منڈیوں میں قیمتییں نیچے نہ جائیں۔ بنابریں اسراف، پیسے کے ضیاع کو روکنا اور عالمی اقتصادی نظام میں زیادہ روی اور اسراف سے مقابلہ اسلام کی نظر میں اتنا ہی اہم ہے۔
معلوم ہوا کہ آزاد معیشت اور نجی مالکیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی شخص جتنا چاہے خرچ کرے جبکہ اس کے اس اسراف سے بہت سے افراد بھکمری کا شکار ہیں، بہت سے لوگ بیماری میں مبتلا ہیں، بہت سے لوگ بنیادی ترین ضروتوں سے محروم ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ درست نہیں ہے اور اس سے سختی سے روکا گيا ہے۔
ٹاپ
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
اسلام میں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں معاشرے کے سیاسی مستقبل کو متاثر کریں اور ساسی نظام میں مداخلت شروع کر دیں۔ اس وقت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک میں جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ بڑے ملکوں کو حقیقی معنی میں بڑے سرمایہ دار ہی چلا رہے ہیں۔ ان کے کچھ عناصر حکومتی نظام کے اندر بھی موجود ہوتے ہیں جو تیل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے بڑے شیئر ہولڈر ہوتے ہیں۔ اگر ان کے افراد حکومت میں نہ بھی ہوں تو وہ پردے کے پیچھے رہ کر انتخابات کو کنٹرول کرتے ہیں، صدر کا تعین کرتے ہیں۔ سیاسی میدان میں کسی شخص کی ترقی یا تنزلی سنیٹ یا ایوان نمایندگان میں کسی کا جانا یا باہر نکلنا ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جو قوانین وضع کئے جاتے ہیں انہی کے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، ان کے مفادات کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ بنابریں مغربی دنیا کو سرمائے کی حکمرانی کی دنیا کہنا چاہئے۔ کیپیٹلزم کے معنی سرمایہ داری بتائے جاتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتر ترجمہ سرمائے کی محوریت اور سرمائے کی حکومت اور معاشرے کے امور پر کمپنیوں، دولتمندوں اور سرمایہ داروں کا کنٹرول ہے۔ یہ چیز اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔ جس عمل کا بھی یہ نتیجہ ہے ہو اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔
ٹاپ
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
سرمایہ داری یعنی عوام کے استحصال سے جمع کی جانے والی دولت کا استعمال، یعنی وہ سرمایہ جس کے ذریعے استحصال کیا جائے، وہ سرمایہ جس کا مالک کچھ نہ کرے بس بیٹھ کر اس کے ذریعے دوسروں کا استحصال کرے، دوسروں کو لوٹے، استحصال ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔ اس طرح کی سرمایہ داری کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ آج دنیا میں سرمایہ داری کا یہی مفہوم ہے۔ اگر نجی ملکیت فساد و ظلم و تفریق و امتیاز کا باعث بن سکتی ہے تو سرکاری مالکیت بھی ایسی ہو سکتی ہے۔ جن ملکوں میں سرکاری مالکیت کا رواج ہے وہاں بھی بد عنوانی و ظلم و تفریق ہے لیکن ایک الگ شکل میں اور کچھ دوسرے طبقات کے درمیان۔
ٹاپ
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
مغربی نظام حکومت میں جیسا کی دعوی کیا جاتا ہے آئین کی رو سے عوام اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزاد ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ آزادی سبھی لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ عظیم ذخائر، یہ سمندر، یہ قدرتی ذخائر، یہ زرخیز میدان، یہ معدنیات، یہ سارے وسائل جنہیں معاشرے کی عمومی دولت کہا جاتا ہے۔ یہ چیزیں آسانی سے معاشرے کی ہر فرد کو دستیاب نہیں ہوتیں اور ہر طبقے کو بآسانی اس پر کام کرنے اور فائدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عملی طور پر تو یہ آزادی بس انہی لوگوں کو ہوتی ہے جن کے پاس دولت کا انبار لگا ہوا ہے۔ جن کے ہاتوں میں معاشرے کی اقتصادی شہ رگ ہی نہیں سیاسی باگڈور بھی ہوتی ہے۔ قدرتی ذخائر اور سرمائے پر در حقیقت انہی کا تسلط اور قبضہ ہوتا ہے، وہی اس سے منمانے انداز میں استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے عام لوگوں کے لئے ان وسائل کے استفادے کا راستہ محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے خواہ وہ دولتمند ممالک ہوں یا تیسری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے غریب ممالک، ان میں عوام غربت و افلاس کی مار جھیل رہے ہیں۔ آبادی کا بیشتر حصہ تو غربت، بے روزگاری، محرومیت اور رہائش کی مشکلات سے دوچار ہے، بس ایک مخصوص طبقہ آزادنہ سرگرمیاں کر رہا ہے، دولت جمع کر رہا ہے، اس کے پاس کانیں موجود ہیں اور وہ مزید کانیں حاصل کرتا جا رہا ہے۔
کارخانے موجود ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر کی دولت سے استفادہ کر رہا ہے۔ در حقیقت تمام قدرتی ذخائر معاشرے کے اسی مخصوص طبقے کے پاس ہیں۔ بقیہ طبقات جن میں نوکری پیشہ افراد، مزدوروں کا طبقہ، کان کنوں کا طبقہ، کارخانوں میں کام کرنے والے افراد اور زراعتی کاموں میں مصروف افراد شامل ہیں، سب کے حصے میں بس وہی چیزیں آتی ہیں جو اس مخصوص طبقے سے بچ گئی ہیں اور جن کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پیداواری سرگرمیاں انجام دینے، ذخائر سے استفادہ کرنے، امکانات سے بہرہ مند ہونے اور حقیقی معنی میں دولت کمانے اور اکٹھا کرنے کا موقع نہیں ملتا، انہیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ٹاپ
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
سوشیلزم اور مارکسسٹ نظرئے پر استوار دیگر مکاتب فکر میں نجی مالکیت کے لئے کچھ حدیں رکھی گئی ہیں لیکن یہ حدیں اسلامی حدود سے مختلف ہیں۔ ان مکاتب فکر میں پیداوار کے ذرائع کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے۔ یعنی کوئی بھی فرد زمین، کارخانے اور اس جیسی چیزوں کا مالک نہیں بن سکتا جو پیداوار کی ذریعہ ہیں۔ مارکسسٹ نظرئے اور سوشیلسٹ معیشت میں خرید و فروخت، بیع و شراء اور سودا ایک مذموم فعل ہے، ایک غیر اخلاقی عمل تصور کیا جاتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے مطابق، جس شخص کے پاس سرمایہ ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خرید و فروخت ممنوع ہے۔ مارکسسٹ نظرئے کی رو سے خرید و فروخت اور سودا مذموم دلالی اور نا پسندیدہ فعل ہے۔
سوشیلسٹ ممالک اور ایسے معاشروں میں جہاں حکومت تمام کارخانوں، زمینوں اور پیداواری ذرائع کی مالک ہوتی ہے اور عوام اس کے ملازم، عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر معاشرے میں جنگ، زلزلہ، بیماری یا اسی طرح کی کوئی اور افتاد آن پڑے تو حکومت کے یہ ملازمین کیا کریں گے؟ ان کے پاس اپنے جسم و جان کے علاوہ دینے کے لئے کیا ہوگا؟
ٹاپ
عالمی یوم قدس نزدیک آکر دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع و حمایت کی سنگین ذمہ داری کی، پہلے سے زیادہ تاکید کے ساتھ، یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو (ایک نقطے) پر مرکوز کر دیا، نتیجے میں ہم ہر سال مسلمانوں میں اس دن (یوم قدس) کی وسیع پذیرائی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر مملکت اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں انصاف کے قیام، بد عنوانی کے مقابلے، کمزور طبقات کی مدد، سادہ زیستی، محروم علاقوں پر توجہ اور عوام کے مسائل بالخصوص بے روزگاری اور افراط زر پر قابو پانے جیسے بنیادی اہداف کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ونیزوئلا کے صدر اور ان کی زیر قیادت تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ونیزوئلا کو چاہئے کہ اپنے تعاون کو فروغ اور وسعت دیکر خود مختاری کے نوتشکیل شدہ محاذ کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کے مقابلے کے لئے روحانی و نفسیاتی استحکام کو لازمی قرار دیا اور فرمایا: اگر انسان کے اندر جذبہ استقامت پیدا ہو جائے تو اسے عملی میدان میں شکست و ناکامی کا سامنا نہیں ہوگا۔
فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر شعرا اور علمی شخصیات نے بڑی مہر آگیں فضا میں قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد حاضرین نے قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز مغرب و عشا ادا اور روزہ افطار کیا۔ اس موقع پر بعض نوخیز اور کچھ کہنہ مشق شعرا نے دینی، سماجی و اخلاقی موضوعات پر اپنے اشعار پیش کئے۔ اس تقریب سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے انقلابی شعرا کی سطح کے قابل تعریف ارتقاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: الفاظ، معانی، انداز، الفاظ کا انتخاب اور تخیل کی وسعت یہ سب کچھ ملک میں شعری ذوق کے پروان چڑھنے کی علامتیں ہیں۔
پندرہ رمضان المبارک سن چودہ سو تیس ہجری قمری، چودہ شہریور سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق پانچ ستمبر دو ہزار نو عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں شعرا کی ایک نشست منعقد ہوئی۔
عدلیہ کا فسلفہ وجودی
جج، عدلیہ کا محور
عدلیہ کی نگرانی
عدلیہ کے فرائض
قیام عدل و انصاف انصاف کی ضرورت انصاف کی بنیاد انصاف کی ضمانت
انصاف کا دائرہ
ملکی سطح پر انصاف عالمی سطح پر انصاف بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات مجرمین کے خلاف کاروائی معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن
عدلیہ سے شاکی افرادمجرم کا دفاع!معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت
سوشل سکیورٹی اقتصادی سکیورٹی اخلاقی تحفظ و سلامتی
عدلیہ
عدلیہ کا فسلفہ وجودی
عدلیہ کا فلسفہ وجودی یہ ہے کہ معاشرے میں انسان مطمئن ہوکر زندگی بسر کرے۔ انہیں یہ یقین ہو کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ نا انصافی کی تو ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو اس مسئلے میں مداخلت کرے گا۔ لوگوں کو یہ اطمینان رہے کہ اگر طاقتور ترین شخص حتی حکومت نے اگر کسی کا حق نظر انداز کیا ہے یا خدا نخواستہ حق مارا ہے تو عدلیہ شجاعانہ انداز میں اسے اس کا حق دلائے گی۔ اگر عدلیہ معاشرے میں یہ احساس اور تاثر قائم کر لے گئی تب تو وہ کامیاب ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اطمینان پیدا ہو گیا تو کوئی بھی افواہ اور دشمنوں کے ذریعے بنائی جانے والی فضا اور ماحول ناکام و بے اثر رہے گا۔ کیونکہ عوام عملی میدان میں عدلیہ کے وجود کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں بے باک و شجاع و فرض شناس جج صاحبان نظر آئیں گے جو کسی بھی دھونس اور دھمکی میں نہیں آتے۔ اگر لوگوں نے دیکھا کے جج کسی بھی دھونس اور دھمکی پر توجہ دئے بغیر اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے تو افواہوں اور الزام تراشی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
ٹاپ
جج، عدلیہ کا محور
عدلیہ کا محور جج ہوتا ہے جبکہ بقیہ امور اور ذیلی ادارے جج کے کام میں مدد کے لئے ہیں۔ عدالت کے اندر اور فیصلہ سنائے جانے کے عمل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ الثمرۃ تنبا عن الشجرۃ یعنی یہ بتاتا ہے کہ اس صف اور اس محاذ کے پیچھے صورت حال کیسی ہے۔ جس دن سارے جج شجاع بن جائیں اور عدلیہ کے مختلف شعبے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے فرائض بخوبی انجام دینے لگیں، آنکھیں کھلی رکھ کر فیصلے کرنے لگيں اس دن انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا حق ہے۔ کیونکہ اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ دشوار حالات میں کسی عظیم اور انقلابی عمل کے لئے صبر و ضبط سے کام لینا صلوات و رحمت الہی کا مقدمہ ہوتا ہے۔ بنابریں انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا پورا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا عمل کرام الکاتبین کے زیر نظر ہے۔ انسان کے اعمال کی تمام تر تفصیلات کو بہترین انداز میں محفوظ رکھنے والے اللہ تعالی کی جانب سے مامور فرشتے اس کے نگراں ہیں۔ اس جذبے اور خیال کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔
ٹاپ
عدلیہ کی نگرانی
عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔
ٹاپ
عدلیہ کے فرائض
اسلامی نظام ہی نہیں ہر نظام کو ایک ایسی عدلیہ کی ضرورت و احتیاج ہوتی ہے جو طاقتور بھی ہو اور معتمد علیہ بھی۔ یہ دونوں بنیادی شرطیں ایک ساتھ ضروری ہیں۔ معتمد علیہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اختیارات محدود کر دے۔ عدلیہ قانون کی حفاظت کے لئے ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کا ایک ستون عدلیہ ہے۔ عدلیہ وہ ادارہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے عظیم مقاصد کا بہت بڑا حصہ جس کی کارکردگی سے وابستہ اور اس پر موقوف ہے۔ عدل و انصاف کا مسئلہ، حقوق کے حصول کا مسئلہ، قانون کی بالادستی کا مسئلہ، تسلط پسندوں، جارحوں اور موقع پرست عناصر کے سامنے مزاحمت و استقامت، عوام کی زندگی میں احساس طمانیت و تحفظ پیدا کرنا وہ چیزیں ہیں جن کی اہمیت اسلامی جمہوری نظام میں ہرگز کم نہیں ہو سکتی اور یہ وہ فرائض ہیں جن کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ عدلیہ ان کے لئے ذمہ دار ہیں۔ آئین میں اس محکمے کے لئے جو ذمہ داریاں معین کی گئی ہیں وہ مختلف پہلوؤں سے بڑی اہم اور اطمینان بخش ہیں۔ جو فرائض عدلیہ کے لئے رکھے گئے ہیں، اس محکمے کے عہدہ داروں کے لئے آئین اور دیگر متعلقہ قوانین میں اسلامی اصولوں کے مطابق جو شرطیں بیان کی گئی ہیں ان سب کا نصب العین یہ ہے کہ یہ محکمہ بخوبی اپنے فرائض کی انجام دہی کرے۔
ٹاپ
قیام عدل و انصاف
عدل و انصاف کی شجاعانہ پاسبانی عدلیہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ عمل کی روح یہی ہے۔ قانون پر عمل درآمد ہر کسی کے لئے ضروری ہے اور قوانین سے انحراف جرم ہے جس پر نظر رکھنے کا کام عدلیہ کرتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے قوانین کا مجموعہ ایک نقطہ کمال پر مرکوز ہونا چاہئے اور وہ ہے عدل و انصاف۔ بالعدل قامت السموات و الارض
ٹاپ
انصاف کی ضرورت
فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق عدل میں کشادگی اور وسعت ہے ہر شخص کے لئے، حتی اس فرد کے لئے بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے، اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گيا ہے تو اگر اس شخص کو جس کے خلاف یہ فیصلہ گیا ہے اس میں سختی محسوس ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ظلم کو معیار قرار دیا گیا تو فیصلہ اور زیادہ سخت اور ناقابل تحمل ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ ظالمانہ عدالت میں اسے ایک کامیابی مل جائے لیکن زندگی کے دوسرے سیکڑوں مراحل میں نا انصافی کا خطرہ اس کے گریبان گیر ہوگا۔ انصاف کیا جانا چاہئے اور دولت، طاقت، بیوروکریسی، اشرافیہ کچھ بھی عدل پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر عدالت کے اختیارات سے عدل و انصاف کو نقصان پہنچے تو یہ بہت خطرناک ہے۔ عدلیہ کی برتری کو اس انداز سے یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اس سے قیام عدل و انصاف میں مدد ملے کیونکہ عدل ہی معیار و اصول ہے۔ ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے اس کے سلسلے میں عدل و انصاف بس یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے اور پھر مدت پوری ہو جانے کے بعد اسے رہا کر دیا جائے، یہ تو انصاف کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیل اس کے لئے ایسی جگہ نہ بنے جہاں وہ اور زیادہ منحرف ہو جائے، اس کی شخصیت تباہ ہو کر رہ جائے اور اس کا خاندان بد بختی کی زندگی بسر کرے۔
ٹاپ
انصاف کی بنیاد
دنیا و خلقت کے نظام میں انصاف کا کردار بڑا بنیادی و حیاتی ہے۔ خلقت کا مزاج انصاف پر استوار ہے۔ اگر کوئی سماجی نظام اسی مزاج اور خلقت کے الہی قانون کی سمت گامزن ہے تو وہ کامیاب اور زندہ جاوید بن جائے گا۔ انسان اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ قدرت کے قوانین اور سنت الہی کے مطابق خود کو ڈھال لے جو ناقابل تغیر ہے۔ بنابریں عالم خلقت میں انصاف ایک فطری اور بنیادی عنصر ہے۔
ٹاپ
انصاف کی ضمانت
انصاف کی ضمانت دینے والا محکمہ عدلیہ کا محکمہ ہے۔ سارے اداروں کو چاہئے کہ انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ہی اگر محکموں نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے تو بغیر کسی رو رعایت کے اس قانون شکنی کا تعین کرنے اور قانون شکن شخص کو اس کے جرم کی سزا دینے والا طاقتور ادارہ عدلیہ ہے۔ بنابریں اگر عدلیہ کا وجود نہ ہو یا اس کے پاس اختیارات اور طاقت نہ ہو یا ہمت و شجاعت نہ ہو یا کام کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو یا خدانخواستہ کمزوریوں کا شکار ہو جائے تو معاشرے میں انصاف کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔ یہیں سے عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا شجاعانہ دفاع عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
ٹاپ
انصاف کا دائرہ
ملکی سطح پر انصاف
کبھی تو کسی نجی تنازعے کا فیصلہ کیا جاتا ہے مثلا پیسے کا تنازعہ، چند مربع میٹر زمین کا جھگڑا، مار پیٹ کا معاملہ وغیرہ۔ لیکن کبھی انصاف زیادہ اہم مسئلے میں نافذ کیا جاتا ہے جس کا تعلق عوام کی زندگی، حقوق اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی بڑا مالی مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں نے عوام اور فقرا کے سرمائے کی جانب دست درازی کی ہے۔ مثال کے طور پر کسی گاؤں یا شہر میں ایک رقم خرچ کرکے سڑک یا کارخانے کی تعمیر کی جا سکتی ہے جس سے ہزاروں افراد یا ہزاروں خاندانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان کے لئے کھیت اور روزگار کے مواقع مہیا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بے ایمان شخص آکر اس پیسے کو ہڑپ لے جس سے یہ سارے کام ہو سکتے تھے۔ ساری رقم لیکر اپنی طمع کو تسکین دینے کی کوشش کرے تو یہ جرم اس سے بہت بڑا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو طمانچہ مار دے البتہ یہ بھی جرم ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام تو ارش الخدش یعنی ناخون سے کسی دوسرے کے جسم پر خراش ڈال دینے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تاہم جرائم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ بعض جرائم وہ ہوتے ہیں جن کی اہمیت بیحد زیادہ ہوتی ہے۔ جب آپ اس شخص سے نمٹنا چاہتے ہیں جس نے کمال بے رحمی اور بے شرمی سے بیت المال یا عوام کی رقم ہڑپ لی ہے تو اس کے لئے عدالتی شجاعت و اقتدار کی ضرورت ہوگی۔ اگر عدلیہ کے وقار و اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یہ عوام کی زندگی کے نظام پر لگنے والی بہت کاری ضرب ہوگی۔ اسے بھیانک جرم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی یہ ضرب خود عدلیہ کے اندر سے لگے اور کبھی باہر سے وار ہو۔
ٹاپ
عالمی سطح پر انصاف
خود مختاری و خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ اسلامی جمہوری نظام آج عالمی سامراجی نظام کی تسلط پسندی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ آج ملت فلسطین کا حق پامال کرنے کے لئے امریکا، اس کے ہمنوا اور دنیا بھر کے صیہونی اور صف اول کے سرمایہ دار اپنی تمام سیاسی و تشہیراتی توانائی کو بروئے کار لاکر چند ملین فلسطینیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں، انہیں عالمی معاملات سے یکسر نابود کر دینا چاہتے ہیں۔ جہاں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے اور حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے لیکن جب ایران کی باری آتی ہے تو ان کی تلوار کند ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہیں اور اپنے راستے کی اس رکاوٹ کو ختم کر دینے کے در پے ہیں۔ اگر سامراج اپنے مذموم و خباثت آمیز عزائم کے تحت مالی، سیاسی اور تشہیراتی وسائل کے ذریعے ملک کے اندر اپنا کوئی ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور کچھ فریب خوردہ عناصر کو ان کے اپنے ملک کے مفادات کے خلاف استعمال کر لے جائے اور وہ دشمن کی مرضی کے مطابق عمل کریں تو یہ جرم مالی جرم سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ملت ایران کے حق میں ہونے والی اس بے انصافی کا راستہ کون روکے؟ اس کے لئے شجاعت و ارادے اور قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔
ٹاپ
بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات
آئین کی رو سے عدلیہ کی ایک ذمہ داری بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات کرنا ہے۔ پیشگی یا احتیاطی تدابیر کے اپنے خاص وسائل ہوتے ہیں، مناسب ادارے ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کے اداروں، انٹلیجنس اداروں وغیرہ کی مدد سے احتیاطی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی اسلامی ملک میں کوئی بد عنوان شخص، کوئی حریص و چالاک شخص اگر عمومی دولت کو جس پر تمام طبقات کا حق ہے ہڑپ لے جبکہ معاشرے میں بہت سے غریب و نادار لوگ موجود بھی ہیں تو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس سے نمٹنا چاہئے۔ واضح ہے کہ اس حرکت پر عدلیہ، مجریہ اور مقننہ تینوں محکموں کی جانب سے رد عمل آئے گا یہ ادارے خاموش نہیں بیٹھيں گے۔
ٹاپ
مجرمین کے خلاف کاروائی
ہر جگہ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ قانون کے مطابق مجرم کے خلاف اقدام کرے۔ جس نے بھی حد سے تجاوز کیا ہے اسے قانون کے مطابق دوبارہ اس کی حد کے اندر بھیجے۔ اس سب کا اسلامی نظام کی ساخت، صحیح زندگی اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف کی تکمیل میں بڑا اہم کردار ہے۔ قانون شکن قانون داں سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جنہیں قانون سے بخوبی واقفیت ہے جو قانون کے پیچ و خم سے باخبر ہیں، وہ قانون شکنی کرتے ہیں تو معلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ قانون شکنی کہاں پر ہوئی ہے لیکن یہ چیز اسلامی نظام اور امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار کے جذبے سے مکمل طور پر ناسازگار ہے۔ حکومتی اداروں اور دیگر محکموں میں بد عنوانی کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت کے اندر بد عنوانی کو روکنے کے لئے سب سے پہلے خود سرکاری حکام، وزرا اور اعلی عہدہ داروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے، وہ اپنے عملے میں ہرگز بد عنوانی نہ ہونے دیں۔ اگر وہ مقابلہ کا ارادہ رکھتے ہوں اور سنجیدگی سے مقابلہ کریں تو دوسرے کسی بھی ادارے اور شخص سے بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ان کا اپنا دامن بے داغ ہو۔ جو شخص خود بد عنوانی میں غرق ہے وہ بد عنوانی کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ حکام کو چاہئے کہ پوری احتیاط اور مستعدی کے ساتھ اس برائی سے نمٹیں۔ اگر خدانخواستہ حکام نے اپنے اداروں میں بد عنوانی سے نمٹنے میں کوتاہی کی تو پھر عدلیہ کا وارد عمل ہونا ناگزیر ہو جائے گا۔ عدلیہ کو چاہئے کہ کسی بھی امتیاز و تفریق کے بغیر جہاں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی نظر آئے اس کا مقابلہ کرے۔
ٹاپ
معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن
قانون کی بالادستی کی ضمانت کیسے ممکن ہے؟ اس ضمانت کا واحد راستہ ہے عدلیہ۔ عدلیہ نظام کا طاقتور بازو ہے۔ جو جارح اور قانون شکن کا گریبان پکڑ کر اسے اس کی حدود یاد دلاتا ہے تاکہ بقیہ افراد قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں۔ بنابریں عدلیہ کی طاقت اور اس کا اختیار ایک بنیادی چیز ہے۔ تاہم یہ طاقت و اختیارات ایسے ہوں کہ اس سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ جہاں کہیں بھی عدالت ہے اور اس سے لو گ، خواہ بہت کم تعداد میں، رجوع کرتے ہیں، اس عدالت کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ عوام کی معتمد علیہ ہو۔ سب کو یہ یقین و اطمینان حاصل ہو جائے کہ عدلیہ کی یہ یونٹ جو یہاں موجود ہے قانون اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کرتی ہے۔
ٹاپ
عدلیہ سے شاکی افراد
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کچھ افراد عدلیہ سے ناراض رہتے ہیں۔ و ان یکن لھم الحق یاتوا الیہ مذعنین قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جن معاملات میں فیصلے پیغمبر سے کرواتے ہیں اگر ان میں فیصلہ ان کے حق میں ہو تو قبول کرتے ہیں اور اگر فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہو تو اعتراض کرتے ہیں، کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ چیز ہمیشہ دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن معاشرے میں اگر عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قانون اور اپنے فرائض پر عمل کرتی ہے، کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کرتی، قانون شکنی سے سختی سے نمٹتی ہے اور خاص طور پر اگر قانون شکن کا تعلق خود عدلیہ کے شعبے سے ہو تو اور زیادہ سختی سے پیش آتی ہے، اس عدلیہ کو دیکھ کر عوام مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنا چاہئے، اس منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔ البتہ اس کے لئے بڑی تدبیروں کی ضرورت ہے۔ سارے امور واضح اور معین ہوں، عدلیہ کے اعلی عہدہ داروں کے لئے ہر لمحے کی اطلاعات حاصل کرنے کا چست و درست انتظام ہو، عدلیہ کی کارکردگی پر مکمل نظارت۔ سب سے بڑھ کر عدلیہ کی کارکردگی کا طے شدہ منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانا ہے۔
ٹاپ
مجرم کا دفاع!
ہر فیصلے کے کچھ حامی اور کچھ مخالف ہوتے ہیں۔ فیصلے سے ناراض افراد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو کچھ سماجی اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ یعنی اگرچہ فیصلے سے ناخوش ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ جج کو پھاڑ کھانے کو دوڑیں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی اصول و ضابطے پر توجہ نہیں دیتے۔ جج جس نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے اور جو لائق قدردانی ہے اس پر حملہ کر دیتے ہیں اور مجرم کا دفاع کرتے ہیں جس کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔ مجرم کا دفاع جرم ہے۔ جس مجرم کو قانون کی رو سے سزا مل چکی ہے اس کا دفاع در حقیقت قانون کو چیلنج کرنے سے عبارت ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ جج کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ کسی ایک شخص کے ٹیلی فون اور حکم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا، فیصلہ علم، دلیل اور ضمیر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جج پر مختلف انداز سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اخبار کی سرخیوں کے ذریعے، سیاسی حربے اختیار کرکے اور منفی ماحول تیار کرکے۔ جج کو چاہئے کہ وہ ہرگز ان چیزوں سے متاثر نہ ہو، عدالتی سسٹم اور محترم جج صاحبان کو ہرگز ان افراد کے غیر منطقی حربوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے جو عدلیہ کے خلاف ماحول بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف خود ان افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ غیر قانونی کام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کچھ غیر قانونی کاموں کو ملک کے حکام ممکن ہے نظر انداز کر دیں لیکن اس صورت میں نہیں جب اسی کو وتیرہ بنا لیا جائے۔
ٹاپ
معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت
عدالت کی سکیورٹی کا مسئلہ یعنی جب لوگ عدالت کے دروازے پر دستک دیں تو انہیں احساس تحفظ ہو، یہ بہت اہم ہے۔ اس کے لئے عدلیہ کی اندرونی سطح پر حساس، باریک بیں اور متجسس نظروں کی ضرورت ہے۔ اگر عدالتی سکیورٹی کو یقینی بنا لیا جائے تو سیاسی، سماجی، اقتصادی، اخلاقی و ثقافتی سکیورٹی کی بھی ضمانت مل جائے گی۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں آج اپنی دشمنی نکالنے کا بہترین راستہ انہوں نے یہ تلاش کر لیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ دشمن کئی سال سے اخلاقی و ثقافتی سلامتی پر حملے کر رہا تھا اس کے علاوہ سیاسی سلامتی کے سلسلے میں بھی دشمن کی کوشش یہ ہے کہ نظام کے دراز مدتی سیاسی عمل کو درہم برہم کر دیں۔ اس سب کے ساتھ ہی دشمن نے سماجی اور شہری سلامتی کے لئے بھی مسائل و مشکلات کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بحمد اللہ ایران ان ممالک میں ہے جہاں سماجی و شہری سلامتی کی صورت حال بڑی اچھی ہے۔
ٹاپ
سوشل سکیورٹی
عوام کو سلامتی و تحفظ مہیا کرنے کی ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ خواہ وہ سماجی سلامتی ہو، اقتصادی سلامتی ہو، اخلاقی سلامتی ہو یا عزت و وقار کی سلامتی ہو۔ یہ بات درست ہے کہ اجرائی ادارے ان امور میں کسی نہ کسی طرح عدلیہ کے شریک کار ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی سکیورٹی میں محکمہ پولیس عدلیہ کا شریک کار ہے اور دونوں کو مل کر سکیورٹی مہیا کرانا ہے، یہاں پر عدلیہ کا کردار کیا ہے؟ عدلیہ کا کردار یہ ہے کہ جارح شخص کے ساتھ عدلیہ اس انداز سے پیش آئے کہ سب کو عبرت مل جائے۔
ٹاپ
اقتصادی سکیورٹی
اقتصادی سکیورٹی کے ذمہ دار افراد غالبا اجرائی اور انتظامی اداروں میں ہوتے ہیں مثلا وزارت خزانہ، مالیاتی ادارے اور بینک وغیرہ، یہ ذمہ دار ہیں لیکن عدلیہ کی بھی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ان اداروں کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ان کے لین دین میں کوئی اقتصادی بد عنوانی ہو جائے تو عدلیہ کو اس سے اس طرح نمٹنا چاہئے کہ ان افراد کو سبق مل جائے جو عدلیہ کو بد عنوانی سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ بذات خود اقتصادی سکیورٹی کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتصادی بد عنوانی کا مقابلہ اقتصادی سکیورٹی کے درہم برہم ہو جانے کا باعث ہوگا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اقتصادی بد عنوانی کے خلاف کاروائی سے بد عنوانی سے پاک افراد یعنی عوام کی اکثریت کے لئے اقتصادی سکیورٹی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اقتصادی بد عنوانی میں ملوث افراد کی تعداد بہت کم ہے ان سے بہت سختی سے نمٹا جانا چاہئے تاکہ عوام کی اکثریت اور اقتصادی میدان میں سرگرم عمل افراد کو تحفظ کا احساس ہو اور ان کو محسوس ہو کہ جو راستہ انہوں نے منتخب کیا ہے وہی درست راستہ ہے۔
ٹاپ
اخلاقی تحفظ و سلامتی
اسلامی معاشرے میں لوگوں کی عزت و آبرو ایسے افراد کے ہاتھ کا کھلونا نہ بننے پائے جو کسی طرح کا احساس ذمہ داری نہیں رکھتے۔ اداروں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اقدام کریں۔ لوگوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا ان کے خلاف الزام تراشی، عہدہ دار ہو یا عام انسان اس پر بے بنیاد سوالیہ نشان لگانا، ان کے خلاف افواہیں پھیلانا، اسلامی احکام کے سراسر منافی ہے۔ اسلامی شریعت کے خلاف ہے، اسلامی روش کے بر عکس ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی شخص پر مالی بد عنوانی کا الزام لگایا گيا تاکہ وہ آکر خود کو بے گناہ ثابت کرے۔ اس میں اس کا بڑا وقت صرف ہو جائے گا۔ اسلامی معاشرے میں یہ چیزیں بہت اہم ہیں اور ان پر توجہ دینا چاہئے۔ عدلیہ اس سلسلے میں اور معاشرے میں یہ سکیوٹی قائم کرنے کے سلسلے میں بہت اہم کردار کی مالک ہے۔
ٹاپ
پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہشورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہشورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکزشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامنشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباںشورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشتآئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرقعوام کے ووٹوں کی حفاظتقائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد بابصحیح انتخابات کی خصوصیات
دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت
انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیتنا اہل افراد کے لئے سد راہ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدامشورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ
تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی
انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افرادانتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی
چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص
اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہشورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوتاہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصولشورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہےمسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز
پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع
قانون کے مطابق عملشورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد
شورائے نگہبان
پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہ
شورائے نگہبان ایک مقدس ادارہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس ادارے میں ان افراد کو رکھا جاتا ہے جو عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے ہیں۔ کیا کسی ایک شخص کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اس کے عادل ہونے کے لئے ولی فقیہ کی گواہی کافی نہیں ہے؟ جب ولی فقیہ نے کسی کو اس ادارے میں قرار دیا ہے تو وہ شخص عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہ
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل اپنی گفتگو، اقدام اور عمل میں امین و بھروسہ مند ہے۔ سب کو چاہئے کہ اس ادارے کو امین کی حیثیت سے دیکھیں۔ جب کوئی جج فیصلہ سناتا ہے تو ممکن ہے اس وقت کسی شخص کے دل میں کوئی اعتراض ہو اور وہ اعتراض بھی بجا ہو لیکن جج کا فیصلہ ایک امین کا فیصلہ مانا جائے گا اور اس پر سب کو اعتماد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا بھی یہی عالم ہے۔ قوانین اور اجرائی امور میں اس ادارے پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہئے اور بحمد اللہ انہیں بھروسہ ہے۔ کسی کو بھی اس ادارے کے مقام و منزلت میں کمی کرنے کی غرض سے اس پر سوالیہ نشان نہیں لگانا چاہئے۔ اس مقام و منزلت کی معرفت اور عمل کے ساتھ قائد انقلاب نگراں کونسل کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی بات کہتا ہے اور اس کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرتا ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکز
نگراں کونسل جس طرح حقیقی معنی میں عمومی اعتماد کا ذریعہ بنی ہے اسے اس اعتماد کا مظہر بھی ہونا چاہئے۔ انتخابات میں الگ الگ نظریات اور مکاتب فکر کے افراد کی شرکت جنتی زیادہ ہوگی اسلامی جمہوری نظام کے لئے یہ اتنی ہی اچھی بات ہوگی اور خود نگراں کونسل کے لئے بھی یہ اچھی چیز ہے۔ ایسا انتظام اور عمل ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کی راہ ہموار ہو۔ کسی بھی نظرئے کے افراد کو خواہ وہ کسی ایک ہی شہر تک محدود کیوں نہ ہوں یہ محسوس نہیں ہونا چاہئے کہ انتخابات میں ان کی شمولیت نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ہر جگہ ہر شخص کو یہ محسوس ہو کہ وہ اپنے پسندیدہ اور مرضی کے شخص کا ازادانہ انتخاب کر سکتا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں شورائے نگہبان کا عمل ایسا ہو کہ وہ عوام کے اعتماد کا مظہر بن جائے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامن
اسلامی جمہوریہ ایران کا استحکام اس کی اسلامی شناخت پر منحصر ہے اور شورائے نگہبان اس چیز کی ضامن ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہوتی تو رفتہ رفتہ نظام کی ماہیت اور اس کے ستونوں میں تغیر پیدا ہوتا۔ شورائے نگہبان کے لئے بس یہی افتخار بھی کافی ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں اس کا سارا ہم و غم یہ رہا کہ اسلام اور آئین سے مطابقت کے لحاظ سے نظام کے پیکر میں کوئی نقص نہ پیدا ہونے پائے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے اس نظام کی حقانیت کی ضمانت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہو یا کمزور پڑ جائے یا اپنا کام انجام نہ دے تو اس نظام کی اسلامی روش اور حرکت پر سوالہ نشان لگ جائے گا۔ کیونکہ نظام قوانین کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے، اگر قوانین اسلامی ہوئے تو ایران کا نظام بھی اسلامی رہے گا۔ کون سا ادارہ یہ طے کرے گا کہ قوانین اسلامی ہیں یا نہیں ہیں؟ ظاہر ہے شورائے نگہبان۔
اسلامی جمہوری نظام میں شورائے نگہبان بقیہ اداروں کی مانند نہیں ہے کہ کہا جائے کہ مختلف ادارے ہیں جن میں بعض بہت اہم ہیں اور بعض کی اہمیت اتنی نہیں ہے اور یہ بھی انہی میں سے ایک ادارہ ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ شورائے نگہبان اسلامی نظام کے آئين جیسی چیزوں کا درجہ رکھتی ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ جس نے درست عمل کیا تو اس نطام کے دین سے منحرف ہونے کا کوئی اندیشہ پیدا نہ ہوگا۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباں
شورائے نگہبان اسلامی نظام کو دین و اسلام اور دوسرے درجے میں آئین کے دائرے سے باہر جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ آئين اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ در حقیقت نظام کے اعصاب کا اصلی مرکز ہے، معیار و کسوٹی ہے۔ شورائے نگہبان کا کام یہ ہے کہ وہ ملک کے اداروں کو آئین سے منحرف نہیں ہونے دیتی۔ آئین کے بر خلاف قانون کی منظوری اور عملدرآمد کا سد باب کرتی ہے۔ اتنے اہم ادارے کی ہیبت و وقار اور عزت و حرمت کا خیال رکھا جانا چاہئے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشت
اگر کچھ لوگ شورائے نگہبان کو برا بھلا کہتے ہیں تو در حقیقت انہوں نے قانون شکنی کی ہے۔ قائد انقلاب خاموش تماشائی بن کر یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اسلامی جمہوری نظام کے رسمی ترین، اطمینان بخش ترین اور معتمد ترین ادارے کی کوئی شخص اس لئے توہین کرے کہ وہ بجا یا بے جا طور پر خشمگیں ہے۔ اگر شورائے نگہبان کے سلسلے میں بد کلامی کی تکرار ہوئی تو قائد انقلاب اپنے فرائض کے پیش نظر اسے تحمل نہیں کرے گا۔ اگر ملک کے ان قانونی اداروں میں سے کسی ایک پر چند افراد حملے کریں تو قائد انقلاب کا فریضہ ہے کہ اس قانونی ادارے کا دفاع کرے۔
ٹاپ
آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرق
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان کا کردار آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء سے زیادہ اہم ہے۔ صف اول کے علماء ان مذہبی رہنماؤں کو کہا جاتا تھا جن کا ذکر آئینی انقلاب کے بعد کے آئین میں کیا گیا تھا اور آئین کی رو سے یہ ضروری تھا کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے سارے قوانین صف اول کے علماء کی توثیق کے لئے بھیجے جائيں اور اگر یہ علما ان قوانین کو اسلام کے خلاف پائیں تو قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔ صف اول کے علما کا ایک تو آئین کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا کام صرف شرعی امور تک محدود تھا، دوسرے یہ کہ آج جو لوگ شورائے نگہبان میں ہیں انہیں ملک کے مسائل، انقلاب کے مسائل اور انقلاب کی راہ میں موجود تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے بارے میں ان افراد سے زیادہ واقفیت ہے جو اس زمانے میں صف اول کے علماء کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ انقلاب میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جیسی با بصیرت، با حکمت اور پختہ ارادے کی حامل شخصیت موجود تھی جس نے شورائے نگہبان کے ساتھ صف اول کے علماء جیسا سلوک نہیں ہونے دیا۔
Top
عوام کے ووٹوں کی حفاظت
عوام کے ووٹوں کی حفاظت و صیانت ہونا چاہئے۔ وزارت داخلہ کے متعلقہ حکام بھی اور شورائے نگہبان کے مبصرین بھی بہت محتاط رہیں اور ایک اک ووٹ کی حفاظت و نگہداشت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ البتہ قائد انقلاب کو اپنے حکام پر پورا اعتماد ہے لیکن انہیں بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کے ووٹ ان کے ہاتھ میں الہی امانت کی مانند ہیں۔
ٹاپ
قائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد باب
بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات میں کوئی یہ جرئت کرے کہ عوام کے ووٹوں سے چھیڑ چھاڑ کرے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شورائے نگہبان ایک عادل، محتاط اور ہوشیار نگراں ادارہ ہے انتخابات کے سلسلے میں، وہ کسی بد عنوانی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ دوسری بات یہ کہ وزارت داخلہ بھی ایک ووٹ بھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی۔ یہ (انتخابات کے متعلقہ حکام) مسلمان، انقلابی، دیندار اور معتمد علیہ افراد ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے۔ بفرض محال اگر کسی گوشے میں کوئی چھوٹی سی گڑبڑی ہوئی بھی ہے تو اس کا انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گی۔ قائد انقلاب کی طرف سے بھی پوری چوکسی اور احتیاط برتی جاتی ہے کہ کوئی بھی انتخابات میں بد عنوانی کی جرئت نہ کرے۔ یہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور سیاسی و سماجی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ٹاپ
صحیح انتخابات کی خصوصیات
انتخابات کی صحت کا علم پولنگ اور ووٹوں کی شمارش کے وقت نہیں ہوتا۔ صحیح انتخابات کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابات سے قبل صحتمند فضا قائم کی جائے۔ ایسی فضا جس میں عوام کو فیصلہ کرنے اور درست انتخاب کرنے کا بھرپور موقع ملے۔ عوام کو یہ موقع ضرور ملنا چاہئے کہ وہ انتخاب کریں اور فیصلہ کریں۔ جو عمل بھی فضا کو غیر صحتمند بنا دے اور ہر وہ تشہیراتی روش اور اقدام جو عوام کی قدرت انتخاب کو متاثر اور کمزور بناتا ہو وہ انتخابات کو کمزور کرنے والا اقدام ہے۔ اس نکتے پر انتخابات سے قبل توجہ دی جانی چاہئے۔ جو انتخابی کیمپین چلائی جاتی ہے، جو اقدامات کئے جاتے ہیں، بالخصوص ذرائع ابلاغ عامہ جو کام کرتے ہیں افراد کم متعارف کرانے کے سلسلے میں یا ان کی شبیہ خراب کرنے کے سلسلے میں یا عوام کی برین واشنگ کے طور پر جو اقدامات انتخابات سے قبل انجام دئے جاتے ہیں اور جن سے لوگوں کا ذہن خاص سمت میں موڑا جاتا ہے، انتخابات سے قبل ایسی صورت حال نہیں پیدا کی جانی چاہئے کہ رائے دہندگان ذہنی طور پر الجھ کر رہ جائیں اور جو فیصلہ کریں وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ نہ ہو بلکہ جب انہیں ہوش آئے تو محسوس ہو کہ نہیں انہوں نے مناسب فیصلہ نہیں کیا۔ اگر انتخاباتی کیمپین میں شامل افراد یا ان کی تشہیراتی مہم اور ذرائع ابلاغ عامہ کی کارکردگی اس طرح کی صورت حال پر منتج ہو جس میں عوام کی انتخاب کی قدرت و توانائی ختم ہوکر رہ جائے تو اس سے انتخابات کا اعتبار مجروح ہوگا۔ شورائے نگہبان کو اس طرح کی صورت حال کو روکنے کیلئے مناسب انتظام رکھنا چاہئے۔
ٹاپ
دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت
انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیت
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کو کام سونپنے کا مطلب ہے، اس کام کو زیادہ سے زیادہ معتبر اور لائق اعتماد بنانا۔ کسی بھی دیگر (ادارے) کو اگر انتخابات کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تو ممکن تھا کہ شائد کچھ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوال پیدا ہوتے۔ یعنی ملک میں سرکاری اداروں میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں تھا کہ انتخابات پر جس کی نظارت و نگرانی عوام اور حکام کی نظر میں اتنی معتبر ہوتی جتنی کہ شورائے نگہبان کی نظارت و نگرانی قابل اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کی ساخت اور اس کا ڈھانچہ بجائے خود صرف ایسے افراد کو قبول کر سکتا ہو جن کا تقوا و ایمان بلند درجے پر ہو۔ اس کے علاوہ بھی شورائے نگہبان کے فقہا اور ممتاز دینی رہمنا قوم کے امام (خمینی رہ) کی جانب سے منصوب کردہ افراد ہیں۔ چونکہ یہ درجہ اجتہاد پر فائز عادل و متقی افراد ہیں لہذا ان کا ہر عمل عوام کی نظر میں اطمینان بخش ہے۔ بنابریں یہ کام بنحو احسن انجام دینے والا ادارہ شورائے نگہبان ہی ہے۔ معلوم ہوا کہ آئین میں انتخابات کی نظارت و نگرانی کی ذمہ داری شورائے نگہبان کے سپرد کئے جانے کا فیصلہ بڑی پختہ فکر کا نتیجہ تھا اور آئین نے بیدار قلوب اور با بصیرت اذہان اور انقلابی و مجاہد علماء کے درمیان سے ایک ایسے ادارے (کے اراکین) کو مامور کیا۔ انتخابات کے امور پر شورائے نگہبان کی نگرانی کے بعد انتخابات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور مشکل پیش نہیں آنا چاہئے۔ یہ سنگین ذمہ داری شورائے نگہبان کے دوش پر رکھی گئی ہے اور اس کے سپرد کی گئی ہے۔ تمام تر سیاسی تحفظات اور مکاتب فکر کی مصلحتوں سے یہ مصلحت بالاتر ہے کہ انتخابات صحیح طور پر عوامی رائے اور مرضی کا آئینہ ہوں۔
ٹاپ
نا اہل افراد کے لئے سد راہ
جو نمائندے پارلیمنٹ میں آتے ہیں، ان کا صالح اور اہل ہونا ضروری ہے۔ وہ علم و معرفت و صلاحیت کے کس درجے پر ہو اس کا تعین آئين میں کیا گيا ہے۔ عوام کو اپنے مفادات اور فلاح و بہبود کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ شورائے نگہبان ایک معتمد علیہ ادارے کی حیثیت سے اس عمل میں ہر قسم کے خلل کو دور کرنے کے لئے موجود ہے۔ اگر کوئی بد عنوان ہے، مالی بد عنوانی یا دیگر اخلاقی، عقیدتی اور سیاسی بد عنوانی میں کوئی ملوث ہے، یا پھر کوئی فتنہ پرور ہے، نظام کو کمزور کر سکتا ہے، اداروں کی افادیت کو متاثر کر سکتا ہے تو در حقیقت ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے وہ اس فورم کا اہل نہیں ہے۔ جن افراد کی رفتار و گفتار اس کی غماز ہے کہ وہ کسی بھی جذبے کے تحت، سیاسی جذبے یا ذاتی جذبے اور مخصوص خصلت کی بنا پر نظام کے مد مقابل کھڑا ہو سکتا ہے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے۔ اس چیز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یقینی طور پر میدان سیاست میں وارد ہونے کے راستوں پر نظر رکھی جانی چاہئے کیونکہ میدان سیاست در حقیقت ملک کے انتظامی امور اور نظم و نسق کے میدان میں اترنے کا مقدمہ ہے۔ ملک کا سارا انتظام ایک شخص کے ہاتھ میں دینا ہے لہذا اس میدان میں داخل ہونے کے راستوں کی نگہبانی و نگرانی ضروری ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص آ رہا ہے کون ہے؟ کچھ معیار رکھے گئے ہیں اور کچھ لوگوں کا تعین کیا گیا ہے جو اس معیار پر پرکھیں۔ اس کا اہتمام آئین نے کیا ہے۔ خوش قسمتی سے ایران جوان ملک ہے(جوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے) لہذا ملک کے اس جوان چہرے کا تقاضا یہ ہے کہ پوری مجریہ میں جوش و خروش اور نشاط و شادابی نظر آئے۔ دیکھئے اور غور کیجئے کہ کون شخص حقیقت میں انقلاب اور دین کا حامی اور غریب و امیر کے ما بین تفریق اور فاصلے کا مخالف ہے۔ کس شخص میں اہلیت اور جوش و جذبہ عمل ہے، ایسے شخص کو تلاش کیجئے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدام
اگر شورائے نگہبان انتخابی امور پر نظارت کے تحت قوانین کے مطابق ایک نتیجے پر پہنچ جائے تو اسے چاہئے کہ سنجیدگی سے اقدام کرے۔ کوئی بھی چیز قانونی اقدام کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے۔ تمام امور بالخصوص ایسے معاملات میں جن سے عوام کے جذبات و احساسات اور افکار و نظریات وابستہ ہیں سنجیدہ اور ٹھوس اقدام ضروری ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی
نظارت و نگرانی کے امور میں معیار، قانون اور ضابطہ ہونا چاہئے، ذاتی نظریہ اور موقف نہیں۔ شورائے نگہبان میں ہرگز ذاتی نظریات کو دخیل نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص خود ہی اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرے کہ فلاں شخص پارلیمنٹ کے لئے مفید ہے اور اگر یہ پارلیمنٹ میں نہ آیا تو اس سے پارلیمنٹ کا نقصان ہوگا، اور پھر اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اسی ذاتی رائے کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے۔ نگراں کونسل کے اراکین کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی اور اس کے بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہو سکیں۔
اگر شورائے نگہبان سے سوال کیا جائے کہ کس وجہ سے فلاں امیدوار کو نااہل قرار دیا گیا ہے تو کونسل جواب دے سکے کہ پالنے والے! میں قانون اور ضابطے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور تھا۔ قانون کا یہی تقاضا تھا اور میں نے اسی بنا پر اس شخص کو نااہل قرار دے دیا یا یہ کہ اصول و قانون کے مطابق میں نے اس شخص کی اہلیت کی توثیق کی۔ یہ نہیں کہ میری یہی تشخیص تھی اور میری یہی رائے تھی۔ میں نے فلاں شخص کو مضر دیکھا اور فلاں کو مفید پایا۔ یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔ اسے نہ اللہ تعالی قبول کرے گا نہ بندگان خدا۔ قانون کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کسی بھی چیز کو قانون پر عمل آوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔
ٹاپ
اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ
دشمن کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ جو چاہے کر گزرے۔ دشمن ذہنوں کو متاثر کرتا ہے پھر نطام کی بنیادوں میں نفوذ پیدا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتا ہے۔ شورائے نگہبان کی مثال لے لیجئے۔ اس وقت شورائے نگہبان یا نگراں کونسل پر بڑے حملے ہو رہے ہیں۔ مقصد شورائے نگہبان کو کمزور کرنا اور اسلام مخالف، خمینی مخالف اور نظام مخالف عناصر کو قانون ساز اداروں میں پہنچوانا ہے۔ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ شورائے نگہبان ہے۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ اس کا بھی وہی انجام کر دیں گے جو علمائے طراز اول کے نام سے معروف علما کونسل کا کیا تھا۔ وہ شورائے نگہبان کے سلسلے میں اپنے عزائم ہرگز پورے نہیں کر سکیں گے اور یہ چیز کبھی نہیں ہو سکے گی۔ دشمن کے سیاسی، دفاعی اور نفسیاتی جنگ کے منصوبہ ساز اس خیال میں ہیں کہ اگر ان کی یہ سازش کامیاب ہو جائے تو دوسرے مرحلے میں پارلمینٹ میں نفوذ پیدا کیا جا سکتا ہے اور پارلیمنٹ میں نفوذ حکومت اور نظام کے دیگر ستونوں میں نفوذ کی راہ ہموار کرے گا۔ وہ اس طرح وارد میدان ہونا چاہتے ہیں۔
ٹاپ
تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی
انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط
انتخابی مبصرین اور ناظروں کے انتخاب میں بہت توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی ہے۔ بدیہی بات ہے کہ اس نہایت اہم عمل کی نگرانی کرنے والے شخص کا باہوش اور با فہم ہونا ضروری ہے۔ اس کا باخبر ہونا ضروری ہے کہ دھوکہ نہ کھائے، غلطی نہ کرے، تاہم سب سے اہم عنصر اس کی دینداری و ایمانداری ہے۔ دینداری انسان کو بڑی غلطیوں سے بچاتی ہے، اسے لغزش سے محفوظ رکھتی ہے۔
ٹاپ
انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افراد
اسلامی جمہوریہ کا انتخابی قانون خوش قسمتی سے بہت اچھا ہے۔ آئین میں بھی انتخابات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اجرائی عہدہ دار بھی ہے اور ناظر بھی۔ یعنی ناظر، اجرائی عہدہ دار سے الگ ہے۔ دونوں الگ الگ ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے جبکہ نظارت کے فرائض شورائے نگہبان انجام دیتی ہے۔ یعنی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس پر دو زاویوں سے نظر ڈالی گئی ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ جو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہے، عوام کی معتمد علیہ ہے اس پر مختلف اداروں کو اعتماد ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ قابل اعتماد ہیں لیکن غلطی کے امکان کو حد اقل سطح تک پہنچانے کے لئے شورائے نگہبان کو نگرانی کے فرائض سونپے گئے ہیں۔ شورائے نگہبان عادل اور مجتہد افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں قائد انقلاب کی جانب سے منصوب کیا جاتا ہے۔ اگر وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں اپنے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، ہر ایک ادارہ انتخابات میں اپنا کردار پوری شجاعت اور توانائی کے ساتھ انجام دے تو ایران کے انتخابات میں کسی بھی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی۔
ٹاپ
انتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی
بعض لوگ قانونی اداروں کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں۔ سرکاری محکمے منجملہ وزارت داخلہ جو انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے اور شورائے نگہبان جو انتخابات کی نگرانی کے فرائض انجام دیتی ہے، ہر ایک کے اپنے فرائض اور اصول و ضوابط ہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ اگر خود ان کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف رائے ہو تو انہیں آپس میں اسے دور کرنا ہوتا ہے۔ بعض افراد تنازعہ کھڑا کرنے کے عادی ہوتے ہیں، کبھی کسی شخص پر تو کبھی کسی دوسرے شخص پر، کبھی کسی عملے پر تو کبھی کسی اور عملے پر ایسے الزام عائد کرتے ہیں جو اسلامی ملک کے عہدہ دار کے شایان شان نہیں ہے۔ عوام کو چاہئے کہ انتخابات کے اجرائی عہدہ داروں اور ناظروں دونوں کو ایک نگاہ سے دیکھیں۔ انتخابات کے اجرائی عہدہ دار اور ناظر دونوں ہی قانون پر اپنی عمل آوری کا ثبوت دیں۔ معیار قانون ہے، لوگوں کی ذاتی رائے نہیں۔ جو قانون پارلیمنٹ میں منظور ہوا اور جس کی نگراں کونسل نے توثیق بھی کر دی ہے وہ سب کے لئے معتبر اور حجت ہے۔ اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند کرے اور اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند نہ کرتا ہو۔ قانون جب تک ہے سب کو اس پر عمل کرنا ہے۔
ٹاپ
چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص
اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہ
شورائے نگہبان کی ذمہ داری یہ ہے کہ آئین سے ماخوذ معیاروں اور ضوابط کی بنا پر شرطیں پوری ہونے کا جائزہ لے اور اس فریضے کو سنبھالے۔ پارلمینٹ کے اراکین اور صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے لئے کچھ شرطیں رکھی گئی ہیں اور شورائے نگہبان کا فریضہ یہ چیک کرنا ہے کہ امیدوار میں شرطیں پوری ہیں یا نہیں۔ کسی امیدوار کو مسترد کر دینے کے لئے اہلیت کا ثابت نہ ہونا کافی ہے، نا اہلی ثابت ہونا ضروری نہیں۔ بعض افراد جو مختلف عنوان سے بحث و جدل کرتے ہیں وہ عبث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شورائے نگہبان کا دارومدار عقل و منطق پر ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جو بھی انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ شرطیں ضروری ہیں۔ شورائے نگہبان کا فریضہ اسی چیز کو چیک کرنے کا ہے کہ یہ شرطیں واقعی موجود ہیں یا نہیں۔ یعنی یہ بھی با قاعدہ شرط ہے کہ شورائے نگہبان کے لئے یہ واضح ہو کہ ساری شرطیں موجود ہیں یا نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ بعض افراد کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے۔ اگر کینڈیڈیٹ کے اندر صلاحیت ہے اور وہ انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی صلاحیت شورائے نگہبان کے لئے بھی ثابت ہو جائے تو اسے چاہئے کہ نگراں کونسل کے لئے اس کی سہولت فرائم کرے، اپنا ریکارڈ اور اگر اس کے حق میں کچھ شواہد ہیں تو وہ شورائے نگہبان کو ارسال کرے۔ یعنی اپنی اہلیت ثابت کرنے کی راہ ہموار کرے۔ البتہ متعلقہ اداروں کو بھی مدد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا کام اہلیت کا جائزہ لینے کا ہے۔ اگر شورائے نگہبان کی نظر میں اہلیت ثابت نہ ہو سکی تو وہ امیدوار کو مسترد کر سکتی ہے خواہ اس کا نا اہل ہونا ثابت نہ بھی ہوا ہو۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوت
جن لوگوں کے نام انتخابی امیدوار کے طور پر پیش کر دئے گئے ہیں در حقیقت ان کی اہلیت کو تسلیم کر لیا گيا ہے۔ ان کے نام کا اعلان ان کی اہلیت کی توثیق ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ یہ توثیق بے توجہی کے ساتھ اور غلط انداز سے نہ کر دی جائے۔ کیونکہ یہ در حقیقت عوام سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہوگا۔ اہلیت رکھنے والے شخص کو مسترد کرنا اور نا اہل کی توثیق کرنا دونوں ہی غلط کام اور قانون شکنی ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ ان سے یہ قانون شکنی نہ ہونے پائے تاکہ جب انتخابات کا دن آئے تو لوگ دیکھیں، غور کریں اور جو شخص ان کی نظر میں سب سے زیادہ اہلیت و صلاحیت کا حامل ہے پوری آگاہی کے ساتھ اس کا انتخاب کریں۔
ٹاپ
اہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصول
اہلیت کا جائزہ لینا اور صلاحیت کو چیک کرنا ایک عالمی روش اور اصول ہے۔ یہ صرف ایران اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی سے مختص نہیں ہے۔ جہاں بھی کسی کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ کسی بڑے کام کے لئے کسی شحص کو مامور کرے وہ اس شخص کے بارے میں تحقیق ضرور کرتا ہے کہ اس میں صلاحیت ہے یا نہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی ذمہ داری ہے یا کسی اور ادارے کی ذمہ داری۔ تو یہ ایک معمول کی روش ہے جس پر دنیا کے ہر ملک میں عمل کیا جاتا ہے اور تمام عقلمند انسان ایسا کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص کو کوئی عہدہ دینے کے لئے پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے پیش کیا جائے تو پارلیمنٹ بغیر تحقیق اور جائزے کے اسے اعتماد کا ووٹ تو نہیں دے گی۔ تحقیق کرے گی، تجزیہ کرے گی، مطالعہ کرے گی تاکہ یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ اس شخص میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر اسے وہ شخص پسند نہ آیا تو اسے مسترد کر سکتی ہے۔ مسترد کرنے پر پارلیمنٹ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی نظر میں اس کی اہلیت ثابت نہیں ہو سکی اور اس نے اسے مسترد کر دیا۔ بالکل یہی چیز پارلیمنٹ کے اراکین کے سلسلے میں صادق آتی ہے۔ بنابریں یہ (جائزے کی) روش ایک معمول کی روش ہے جسے عوام بھی تسلیم کرتے ہیں اور آئین نے اس روش کی تائید کی ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ منتخب ہونے کے شہری حق کو کسی سے سلب نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن منتخب ہونے کا شہری حق روزگار، نوکری، شہر میں رہائش، سڑکوں پر چلنے، گاڑی خریدنے وغیرہ جیسے شہری حق کے مثل نہیں ہے۔ یہ ایسا شہری حق ہے جس کے لئے کچھ اور صلاحیتیں بھی لازمی ہیں جن کے موجود ہونے کی بابت مطمئن ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحیتوں کا جائزہ صرف شورائے نگہبان نہیں لیتی۔ وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں مل کر ان صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ صلاحیتوں کے جائزے کے سلسلے میں سب سے بہتر خود عوام ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہے۔ جب انہیں کسی کی صلاحیت کے بارے میں اندازہ ہوجائے تو ایک دوسرے کو اس کے بارے میں بتائیں، اس شخص کے لئے راہ ہموار کریں تاکہ یہ اہل اور با صلاحیت شخص آگے جا سکے۔
ٹاپ
مسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز
اسلامی جمہوری نظام میں قائد انقلاب کو انتخابات کے کام انجام دینے والے اداروں پر پورا اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ وزارت داخلہ قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ سب محنت کر رہے ہیں، مشقتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے ان کے سلسلے میں شورائے نگہبان نے قانون اور ضوابط کے مطابق عمل کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بے لیاقت انسان ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جس شخص کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے اس کے بارے میں ملک میں کہیں بھی کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ الزام تراشی کرے، یہ کہے کہ ضرور آپ کا کوئی سنگین مسئلہ ہے، آپ نے کوئی جرم کیا ہے، کوئی قانون شکنی کی ہے، بد عنوانی کا ارتکاب کیا ہے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قانونی طور پر کچھ ضابطے رکھے گئے ہیں اور شورائے نگہبان ان قانونی ضوابط کے مطابق کچھ لوگوں کو اس فہرست میں رکھتی ہے جن کی اہلیت کی توثیق کی گئی ہے اور کچھ کو اس فہرست میں جگہ نہیں دیتی۔ جن ناموں کو جگہ نہیں ملی ہے وہ در حقیقت قانونی ضوابط پر پورے نہیں اترے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں بہت سے صالح اور نیک لوگ ہوں۔ البتہ ان (مسترد ہونے والے) لوگوں میں کچھ ناخلف قسم کے انسان بھی ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ نہ ہوں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کی بھی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خائن شخص ہے، نہیں ہرگز نہیں۔
ٹاپ
پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع
قانون کے مطابق عمل
اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے وزارت داخلہ کا بھی دفاع کیا جاتا ہے اور شورائے نگہبان کا بھی دفاع کیا جاتا ہے۔ دونوں اسلامی جمہوری نظام کے فعال ادارے ہیں اور ہر ایک کے اپنے فرائض ہیں۔ وزارت داخلہ کو چاہئے کہ باریک بینی کےساتھ قانون کے مطابق عمل کرے اور عوام کے ووٹوں میں کوئی بے ایمانی نہ ہونے دے۔ جہاں تک اس کے بس میں ہے عوام کے ووٹ جمع کرے اور پھر پوری امانت داری اور احتیاط کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کرے تاکہ نتیجہ معلوم ہو سکے۔ شورائے نگہبان بھی پوری ایمانداری کے ساتھ اس بات پر نظر رکھے کہ انتخابات میں کوئی بد عنوانی تو نہیں ہوئی۔ یہ عوام کا حق ہے کہ شورائے نگہبان اس قوم کے بدخواہوں کو مقننہ میں داخل ہونے سے روکے۔ شورائے نگہبان کو عوام کے اس حق کا پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ اسے یہ خیال رکھنا ہے کہ اس قوم کے بدخواہ، اس انقلاب کے بدخواہ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بدخواہ ملک کے منتخب ادروں میں داخل نہ ہونے پائیں۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد
وزارت داخلہ بڑی محنت کرتی ہے، شورائے نگہبان بھی بڑی محنت کرتی ہے اور دونوں پر قائد انقلاب کو اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان پر بھی مکمل اعتماد ہے اور وزارت داخلہ پربھی۔ یہ ادارے واقعی بنحو احسن اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ بنابریں اگر کسی امتحان میں کچھ لوگ کامیاب اور کچھ ناکام ہو جاتے ہیں یا کسی کو اکثریت حاصل ہوتی اور دوسرا اکثریت حاصل نہیں کر پاتا تو یہ نہ ہو کہ کچھ انتخابی حلقوں میں کچھ فتہ پرور قسم کے افراد لوگوں کو اشتعال دلائیں کہ فلاں شخص کی اہلیت کی توثیق کیوں نہیں ہوئی۔ معترض افراد کو اپنے حکام پر اعتماد رکھنا چاہئے۔ عہدہ دار معتمد علیہ ہیں، انہوں نے یقینا کوئی وجہ دیکھی ہے جس کی بنا پر اہلیت کی توثیق نہیں کی۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو تحریری طور پر حکام سے شکایت کرے۔ یہ نہیں کہ کچھ لوگ دھرنے پر بیٹھ جائیں، یہ تو فتنہ پرور عناصر کی اشتعال انگیزی ہے۔ فتنہ پرور سامراج سے وابستہ وہ عناصر ہیں جو حالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کام کر دیں کہ انتخابات پرامن طریقے سے منعقد نہ ہونے پائیں۔ ایسے میں ان سے بعید نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو ورغلائیں۔
ٹاپ
ملک کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ، اکیڈمک بورڈ کے اراکین، علمی شخصیات، چانسلرز اور تحقیقاتی مراکز کے سربراہوں نے آج شام قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
پہلا باب: استکبار کا مفہوم
استكبار کا قرآنی مفہوماسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوماستکباری طاقتیںسامراج و استکبار کا مظہراستکبار و سامراج کی بنیاداستکبار اور سامراج کی روشسامراج و استکبار کا منصوبہ
استکبار کے حربے
میڈیا اور تشہیرات مذاکرات کی تجویز شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا تفرقہ انگیزی عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ ماہرانہ سازشیں درباری علماء کا استعمال ثقافتی وسائل و حربے
سامراج کی کمزوریاں
دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل
قومی اسباب علل دینی اسباب عللسامراج سے جہاد اکبراستکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوماستکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت
سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے
اسلام کی سمت واپسی تعلیم و تربیت قومی اتحاد اسلامی یکجہتی حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت
سامراج کے عناد کی وجوہات
اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
سامراج کا آخری ہدف
سامراج و استكبار
پہلا باب: استکبار کا مفہوم
استكبار کا قرآنی مفہوم
استکبار کا مفہوم ایک قرآنی مفہوم ہے۔ بنابریں ایسا نہیں ہے کہ یہ اصطلاح اسلامی انقلاب کے لغت میں یونہی شامل ہو گئی ہو۔ استکبار کا مفہوم مسلمانوں، مومنین، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی جانب سے استکبار کے خلاف جد و جہد کا متقاضی ہے اور وہ بھی مخصوص مواقع اور مصلحتوں کے تحت ہی نہیں بلکہ یہ مقابلہ آرائی دائمی ہے۔ یہ انقلاب کی ماہیت کا حصہ ہے۔ جب تک انقلاب ہے یہ مقابلہ بھی رہے گا۔
قرآن میں استکبار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی عنصر یا شخص، گروہ یا جماعت خود کو حق وصداقت سے بالاتر تصور کرے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے بلکہ خود کو، اپنی قوت و طاقت کو حق و حقیقت کا معیار قرار دے! قرآن نے انسانوں کی جس تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اس کی پہلی استکباری طاقت ابلیس ہے۔ ابی و استکبر وہ پہلا استکباری عنصر ہے۔ البتہ استکبار کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ استکبار تکبر سے مختلف چیز ہے۔ شائد یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تکبر سے قلبی و نفسانی صفت کا عندیہ ملتا ہے، یعنی کوئی انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا اور قرار دیتا ہو جبکہ استکبار کا زیادہ تعلق تکبر کے عملی پہلو سے ہے۔ یعنی جو شخص متکبر ہے اور خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتا ہے، عملی طور پر بھی دوسروں کے ساتھ اس کا برتاؤ اور سلوک ایسا ہوتا ہے کہ تکبر کے آثار بالکل نمایاں ہوتے ہیں۔ دوسروں کی تحقیر کرتا ہے، توہین کرتا ہے، دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرتا ہے اور دوسروں کے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹاپ
اسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوم
ایران کے اسلامی انقلاب کی زبان میں استکبار ان چند بڑی طاقتوں کے گروہ کو کہا جاتا ہے جو اپنی سیاسی، فوجی، سائنسی اور اقتصادی توانائیوں کے سہارے اور انسان کے سلسلے میں اپنے امتیازی نقطہ نگاہ کے ساتھ بڑے انسانی مجموعے پر جس میں ممالک، قومیں اور حکومتیں شامل ہیں استبدادی اور تحقیر آمیز تسلط قائم کرکے اپنے مفادات کے مطابق ان پر دباؤ ڈالتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ ان کے کاموں میں مداخلت اور ان کی دولت و ثروت پر تجاوز کرتا ہےـ حکومتوں پر رعب جماتا ہے اور قوموں پر ظلم و ستم کرتا ہے اور ان کی ثقافت و روایات اور آداب و اطوار کا مذاق اڑاتا ہے۔
ٹاپ
استکباری طاقتیں
استکباری طاقتیں وہ ہیں جن کی دولت و طاقت کے تسلط میں دنیا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ عالمی صیہونی نیٹ ورک، امریکا کی غنڈہ حکومت، وہ مالیاتی ادارے جو اس ظالمانہ عالمی نظام کی بنیاد اور پشتپناہ ہیں۔ ان سب کا شمار استکباری طاقتوں میں کیا جاتا ہے۔
ٹاپ
سامراج و استکبار کا مظہر
آج دنیا میں اپنی تمام تر نفرت انگیزی کے ساتھ سامراج و استکبار کا مظہر امریکا ہے، یہ کسی ایک نسل، ایک قوم اور ایک ملک سے دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کا اپنا تشخص اور وقار ہوتا ہے اور وہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی بیرونی طاقت، فریب سے یا زبردستی اس کے وقار کو نابود کر دے۔ ہر قوم کی اپنی دولت و ثروت ہوتی ہے، وہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی دشمن اسے لوٹ لے جائے۔ دشمن، یعنی وہی عالمی تسلط پسندی اور سامراج کا مرکز جس کا سب سے بڑا اور حقیقی نمونہ امریکا ہے۔ البتہ جب ہم کہتے ہیں امریکا تو اس سے مراد امریکی عوام نہیں ہوتے۔ امریکی عوام تو دنیا کی دیگر قوموں کی مانند ہیں، ان میں بھی کچھ اچھائیاں تو کچھ برائیاں ہیں۔ ملت ایران کی ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب کا خطاب امریکا کے حکمرانوں سے ہے جن کی پالیسیوں کی ایک اہم ترین بنیاد دنیا پر تسلط قائم کرنے کا نظریہ ہے۔ امریکی تسلط سے ہماری مراد امریکی حکومت اور اس کا تسلط ہے۔
ٹاپ
استکبار و سامراج کی بنیاد
سامراج و استکبار کی بنیاد ظلم و جور و عدوان پر رکھی گئی ہے۔ امریکی حکومت جو سامراج و استکبار کا عفریت سمجھی جاتی ہے آج سامراج کے لحاظ سے دنیا کی بدترین حکومت ہے۔ اس حکومت نے آج اپنا وتیرہ بنا لیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی ملک اور حکومت اس کے مفادات کی چوکی داری کرنے کو تیار نہ ہو اسے ختم کر دیا جائے۔ کیا اس سے بھی بد تر سامراج و استکبار ہو سکتا ہے؟! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ اپنے گھر میں میرے کچھ مفادات ہیں جس کی میں حفاظت کر رہا ہوں تو مجھ سے کوئی بھڑنے کی کوشش نہ کرے۔ ٹھیک ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ جناب ایک شخص کسی دوسرے شخص کے گھر میں جبرا داخل ہو جائے یا اس کے دروازے پر جاکر اسے پریشان کرے، اس کا جینا دوبھر کر دے اور جب صاحب خانہ سوال کرے کہ کیوں میرا سکون و چین چھین لیا ہے تو جواب دے کہ تم نے میرے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کام میں میرے مفادات ہیں اور چونکہ تم نے ان کا خیال نہیں رکھا بنابریں میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟! آج عالمی سطح پر امریکا کا یہی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ٹاپ
استکبار اور سامراج کی روش
سامراج و استکبار کی روش جبر، طاقت کے غلط استعمال اور قتل و غارت کی روش ہے۔ بنابریں وہ دہشت گردی کا سب سے بڑا موجد ہے۔ آج دہشت گردی سے مقابلے کے نام پر امریکی دوسرے ملکوں میں گھس رہے ہیں اور اسی بہانے قوموں کو بیحد پریشان کر رہے ہیں، ان پر بمباری کرتے ہیں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نابود کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جواز یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں! دہشت گردی کہتے کسے ہیں؟ کیا دہشت گردی یہی نہیں ہے کہ کوئی اپنے اہداف کے حصول کے لئے غیر قانونی طریقے سے طاقت کا استعمال کرے؟ آج امریکا عراق، افغانستان اور پاکستان میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ من و عن یہی چیز نہی ہے؟!
ٹاپ
سامراج و استکبار کا منصوبہ
ملت ایران کے خلاف عالمی سامراج کا منصوبہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اول نفسیاتی جنگ، دوسرے اقتصادی جنگ اور تیسرے ایران کی سائنسی ترقی و قدرت کا سد باب کرنا۔ ملت ایران سے سامراج کی دشمنی انہی تین باتوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔
نفسیاتی جنگ کیا ہے؟ اس جنگ کا مقصد مرعوب کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ ملت (ایران) تو مرعوب ہونے سے رہی۔ حکام اور سیاسی شخصیات کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ حرص و طمع میں پڑ سکتے ہیں ان پر یہ حربہ آزمانا چاہتے ہیں، عمومی ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، عوام کے اپنے معاشرے کے بارے میں صحیح ادراک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نفسیاتی جنگ کے یہ مقاصد ہیں۔
اقتصادی جنگ بھی ایک اور (حربہ) ہے۔ وہ قوم کو معاشی لحاظ سے بحران سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ پابندیاں لگا دیں گے۔ لیکن پابندیوں سے ایران پر ضرب نہیں لگائی جا سکتی۔ کیا اب تک یہ پابندیاں نہیں رہی ہیں؟ ملت ایران پابندیوں کی حالت میں ایٹمی ٹکنالوجی، سائنسی ترقی اور وسیع پیمانے پر ملک کی تعمیر و پیشرفت کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تو پابندیاں بعض حالات میں ملت ایران کے لئے مفید بھی واقع ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے کہ یہ پابندیاں ایرانیوں کے زیادہ بلند ہمتی اور تندہی سے کام کرنے کا موجب بنی ہیں۔
سائنسی ترقی کا سد باب؛ اس کی اہم ترین مثال یہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ بیانوں، سیاسی مذاکرات وغیرہ میں کہتے ہیں کہ مغربی ممالک ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے متفق نہیں ہیں۔ کوئی بات نہیں متفق نہ رہیں۔ کیا ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے ایران نے کسی سے اجازت طلب کی تھی؟ کیا دوسروں کی اجازت سے ملت ایران اس وادی میں اتری تھی کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم متفق نہیں ہے؟ نہ رہئے متفق؟ ملت ایران متفق ہے اور یہ ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے کمربستہ۔ اس وقت امریکا، دنیا میں فتنہ و فساد کے منصوبہ ساز صیہونی اور دیگر سامراجی طاقتیں اس سلسلے میں بھی بہت حساس ہو گئی ہیں کہ دنیا میں انقلابی نظام کا حامل کوئی بھی ملک سائنسی میدان میں ترقی نہ کرنے پائے۔ یہ حساسیت اسلامی انقلاب کے سلسلے میں دوبالا ہے۔ یہ حساسیت کسی اور انقلاب کے سلسلے میں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔
ٹاپ
استکبار کے حربے
میڈیا اور تشہیرات
عالمی سامراج کا ایک اہم حربہ میڈیا ہے۔ دنیا میں میڈیا کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ میڈیا اپنے مالکان کے لئے دنیا میں بہت بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ نیوز ایجنسیاں ہوں، ریڈیو نشریات ہوں، ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات، جتنے بھی اہم ذرائع ابلاغ عامہ ہیں ان کا تعلق سرمایہ داروں سے ہے یعنی عالمی سامراج کے بنیادی ستونوں سے۔ جو کچھ بھی دنیا میں نشر اور شائع کیا جاتا ہے وہ انہی (سرمایہ داروں) کے مفادات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو وہ جہاں کہیں بھی آباد ہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عالمی سامراج، نیوز ایجنسیوں، اخبارات و جرائد، نشریات اور سیاستدانوں کے بیانوں کے ذریعے جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اسے اس قاعدے پر پرکھیں اور نتیجہ اخذ کریں کہ پورا سامراجی نظام اور اس کا سرپرست امریکا اس وقت سب کے سب اسلامی نظام، ایران اور ملت ایران کی غلط تصویر پیش کرنے پر تل گیا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ٹاپ
مذاکرات کی تجویز
کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ سے روابط برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وہ صحتمند رابطہ چاہتے ہی نہیں۔ ایسا رابطہ چاہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی مسلط کر سکیں۔ وہ سامراجی رابطہ چاہتے ہیں۔ پست اور تنزل پذیر حکومتوں کے ساتھ امریکا کا جو رابطہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں۔
جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو سامراج کے سرغنہ امریکا سے مذاکرات کرنا چاہئے، وہ یا تو سادہ لوحی میں پڑے ہوئے ہیں یا بہت زیادہ مرعوب ہیں۔ سامراج اپنی حقیقی طاقت اور توانائی سے زیادہ اپنی ہیبت اور رعب و دبدبے کی روٹی کھا رہا ہے بلکہ سامراج تو دھونس دھمکی، رعب و دبدبے اور خوف و ہراس پھیلانے کے اپنے حربوں پر ہی زندہ ہے۔
ٹاپ
شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا
دشمن، عوام کی نظر میں ان کے مستقبل کو تاریک اور مایوس کن ظاہر کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ بعض افراد اقتصادی صورت حال اور ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس کن باتیں کر رہے ہیں تو جان لیجئے کہ یہ باتیں در حقیقت سامراجی طاقتوں کی ہیں۔ دشمن کا ایک تشہیراتی حربہ یہ ہے کہ لوگوں کو ذہنوں کو مستقبل کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے۔ افسوس کہ بعض سادہ لوح افراد یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بجائے تعاون کرنے، مسائل کو آسان بنانے اور عوام کے سامنے صحیح تصویر پیش کرنے کے ساری چیزوں پر شکوک و شبہات کا پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عوام کو تشویش و بدگمانی سے دوچار کر دیں۔ جب بھی اچھی انتظامی صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی تو ترقی یقینی ہے تو پھر ایک قوم کی ترقی کے بارے میں کیوں شک کیا جائے؟ جو لوگ اظہار خیال کریں تو محتاط رہیں کہ کہیں دشمن اور سامراج کی مرضی کی باتیں نہ کرنے لگیں۔ دشمن یہی چاہتا ہے اور اس کی یہی خواہش ہے کہ عوام اپنی سعی و کوشش اور ترقی کے سلسلے میں بے یقینی کا شکار ہو جائیں۔
ٹاپ
تفرقہ انگیزی
جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے نیک بندوں میں اتحاد ہے وہاں وحدانیت اور خدا ترسی بھی ہے۔ جہاں مومنین اور بندگان خدا کے درمیان اختلاف ہے وہاں بلا شبہ شیطان اور دشمن خدا کا غلبہ ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلافات نظر آئیں وہاں آپ غور کیجئے تو آپ کو آسانی سے شیطان کا عمل دخل نظر آ جائے گا۔ بنابریں تمام اختلافات کے پس پردہ انسانوں کی انانیت، جاہ طلبی اور خود غرضی ہے یا کوئی باہری شیطان یعنی دشمن عناصر، سامراج اور ظالم و ستگمر طاقتیں کارفرما ہیں۔
اس وقت تفرقے کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہر کسی کو اپنے عقائد کا پابند رہنے اور اس پر دلیلیں قائم کرنے کا حق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مختلف مذاہب کے ترجمان منبر پر بیٹھیں تو استدلال نہ کریں اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے سے گریز کریں۔ نہیں ایسا نہیں ہے، استدلال قائم کریں ثابت کریں۔ لیکن عقیدہ کو ثابت کرنا ایک الگ چیز ہے اور دوسرے فریق کی دشمنی پر اتر آنا اور سامراج کی آواز میں آواز ملا کر اپنی ساری طاقت و توانائی مسلمانوں کی داخلی جنگ میں جھونک دینا ایک الگ چیز ہے۔ مسلمانوں کے ما بین مسلکی اختلافات کے سلسلے میں نئی بات یہ سامنے آئی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس نئی فکر کے پورے عالم اسلام میں پھیل جانے کے بعد عالمی سامراج نے اس ہمہ گیر اسلامی لہر کو روکنے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا کہ ایک طرف ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی عام اسلامی تحریک کے بجائے ایک مخصوص فرقے کی تحریک کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور دوسری جانب شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی وسیع پیمانے پر کوشش کی۔ اس شیطانی مکر و حیلے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی اتحاد بین المسلمین پر بے حد زور دیا اور اس فتنہ پروری کو بے اثر بنانے کی کوشش کی۔
ٹاپ
عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ
عظیم مشرق وسطی کا امریکی منصوبہ در حقیقت اس علاقے میں موجود تمام مفادات ایک جگہ جمع کرکے اسے امریکی سامراج کی جاہ پسندانہ شیطانی آنت میں انڈیل لینے کی کوشش ہے۔ وہ اپنے موجودہ تسلط اور اثر و نفوذ سے مطمئن نہیں ہے۔ اسے مطلق غلبہ پسند ہے۔ پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کا خواہاں ہے۔ منجملہ اس علاقے پر جو قدرتی دولت اور افرادی قوت سے مالامال ایک حساس اور اہم علاقہ ہے۔
عالمی سامراج اور سامراجی طاقتوں نے شروع سے اب تک صیہونی حکومت کو علاقے کی عرب اور پھر تمام اسلامی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے اور دھونس جمانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ اسے محفوظ رکھا ہے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اس زہر آلود خنجر کو عالم اسلام کے سینے میں پیوست رکھیں۔ آج اس تربیت یافتہ کتے کی زنجیر شیطان بزرگ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مذموم ترین شکل میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہمسایہ ملکوں پر مسلسل جارحیت، کھلے عام دہشت گردانہ کاروائیاں اور اغوا کی وارداتیں، اور ایٹمی اور دیگر ہتھیاروں کا حصول یہ ساری چیزیں صیہونی انجام دیں تو قابل قبول ہیں جبکہ ان ہتھیاروں میں سے کوئی ایک بھی اگر دنیا کی کسی ایسی حکومت کو حاصل ہو جائے جو امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کی حاشیہ بردار نہیں ہے تو اس پر قیامت مچ جائے۔
ٹاپ
ماہرانہ سازشیں
عالمی سامراج کے پاس عالم اسلام کے لئے خاص مفکرین اور ماہرین موجود ہیں جو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور مختلف قوموں، نظریوں، جذبوں اور مسلکوں کے بارے میں رپورٹیں تیار کرتے ہیں، اپنے تحقیقاتی، ثقافتی، سیاسی اور جاسوسی کے مراکز کے آرکائيو میں موجود سابقہ رپورٹوں کا نئے سرے سے جائزہ لیتے ہیں اور نئی تحقیقات انجام دیتے ہیں۔ اسرائیل میں اگر ایران میں اسلام اور تشیع کی شناخت کے عنوان سے سمینار منعقد کیا جاتا ہے تو وہ اسی تناظر میں ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف مقامات پر مغربی ملکوں، سرمایہ داروں اور سامراج کی جانب سے تحقیقاتی سمینار اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اسلام کا جائزہ لینے کے لئے نئی نئی تجاویز متعارف کرائی جاتی ہیں۔
سامراج امور کو اپنی مطلوبہ سمت و جہت میں رکھنے کے لئے بہت غور فکر سے کام لیتا ہے۔ اس کی حرکت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ عالمی امور کو سمت و رخ دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے کیونکہ اسے علم ہے کہ اگر اس نے سوجھ بوجھ اور دور اندیشی سے کام نہ لیا، اگر اس کے پاس صحیح اعداد و شمار موجود نہ رہے تو اس پر ضرب لگ سکتی ہے۔ چنانچہ ممتاز ترین فکری حلقے سامراج کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
ٹاپ
درباری علماء کا استعمال
جن معاشروں میں علماء کو راستے سے ہٹانا ممکن نہ ہوا وہاں یہ کوشش کی گئی کہ علماء کو بد عنوان اور جابر حکومتوں اور درباروں سے جوڑ دیا جائے۔ دربار سے وابستہ علماء جن کی ہمارے عزیز امام (خمینی رہ) کے بیانوں میں بڑی مذمت کی گئی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے زمانے کی ایک معروف شخصیت سے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی گردن کو ستمگروں کے لئے چکی کے پاٹ کا محور بنا دیا ہے تاکہ وہ آپ کی گردن کے محور پر اپنے مظالم کی چکی چلائیں اور آپ کے سہارے لوگوں پر ظلم کریں۔ جو عالم دین فاسد و ظالم حکومتوں کے مظالم کی توجیہ کرے وہ ان حکومتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو عالم دین سامراج کے اہداف کے مطابق عمل کرے، اس کے بد ترین اور پست ترین ہمنواؤں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ حق کی ظاہری صورت کا سہارا لیکر باطل کی ترویج کر رہا ہے۔
ٹاپ
ثقافتی وسائل و حربے
اس وقت ایک فکری و ثقافتی و سیاسی جنگ جاری ہے۔ جو شخص اس میدان جنگ کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو جائے اور حقائق کو سمجھنے پر قادر ہو وہ میدان پر ایک نظر ڈال کر بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت دشمن ثقافتی حربوں کے ذریعے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ بکے ہوئے قلم اور دل و ضمیر اور دین و ایمان کا سودا کر لینے والے روشن خیال حضرات کی تعداد کم نہیں ہے جو ملک کے باہر اچھی بڑی تعداد میں اور ملک کے اندر اکا دکا، سامراج کے مقاصد کے لئے طاقت فرسائی اور طبع آزمائی کرنے کے تیار ہیں اور کر رہے ہیں۔
ٹاپ
سامراج کی کمزوریاں
اس وقت دنیا میں ایک تضاد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملت ایران مسلمان قوموں، علاقائی قوموں، ایشیائی قوموں، افریقی قوموں، لاطینی امریکا کی قوموں اور مشرق وسطی کی قوموں کی نظر میں ایک شجاع، حق و انصاف کی پاسباں اور جبر و استبداد کی مخالف قوم ہے، ملت ایران کو ان خصوصیات کے ساتھ پہچانا گیا ہے۔ وہ ملت ایران کی تعریف و ستائش کرتی ہیں لیکن یہی ملت ایران اور یہی اسلامی جمہوری نظام جو قوموں کے لئے قابل تعریف و ستائش ہے، تسلط پسند طاقتوں کی نظر مین انسانی حقوق کی پامالی کے لئے مورد الزام قرار پایا ہے۔ اس پر عالمی امن و سکون ختم کر دینے کا الزام ہے۔ اس پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے۔ یہ تو صاف صاف تضاد ہے۔ قوموں کی نظر اور بڑی طاقتوں کی خواہش کا تضاد۔ یہ تضاد عالمی استبدادی و تسلط پسندانہ نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ روز بروز یہ طاقتیں قوموں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں مسلسل بڑھنے والی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ سامراج کی تشہیراتی مہم کچھ ہی عرصے تک حقائق کی پردہ پوشی کر سکتی ہے، ہمیشہ تو حقائق کو چھپائے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ قوموں میں دن بدن بیداری بڑھ رہی ہے۔ ملت ایران کا صدر ایشیائی ملکوں، افریقی ملکوں اور لاطینی امریکا کے ملکوں کا دورہ کرتا ہے تو عوام اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اس کی حمایت میں جلوس نکالتے ہیں جبکہ امریکی صدر اگر لاطینی امریکا کے ملکوں یعنی واشنگٹن کا آنگن کہے جانے والے ممالک کا سفر کرتا ہے تو عوام اس کی آمد کی مناسبت سے امریکی پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں۔ یہ لبرل ڈیموکریسی کے ستونوں کے متزلزل ہونے کی علامت ہے جس کا پرچم مغربی ممالک اور سب سے بڑھ کر امریکا نے بلند کر رکھا ہے۔ ان کی خواہشات اور عوامی مطالبات و مشاہدات میں تضاد دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وہ دم تو جمہوریت، انسانی حقوق، عالمی سلامتی اور دہشت گردی سے جنگ کا بھرتے ہیں لیکن ان کا شر پسندانہ باطن ان کی عسکریت پسندی کی غمازی کرتا ہے، ان کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کی چغلی کرتا ہے، دنیا کے توانائی کے ذخائر کے سلسلے میں ان کی حرص و طمع کا پتہ دیتا ہے۔ یہ چیزیں دنیا کی قومیں دیکھ رہی ہیں۔ روز بروز دنیا میں قوموں کی نظر میں لبرل ڈیموکریسی اور امریکا کہ جو لبرل ڈیموکریسی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، عزت و آبرو ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ اس کے برخلاف ایران اسلامی کا وقار بڑھ رہا ہے۔
ایک دن وہ تھا جب عالمی سامراج کے عمائدین یہ سمجھنے لگے تھے کہ اسلام تو ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے دنیا میں شہوت پرستی کی جو وبا پھیلا دی تھی اس سے اس غلط فہمی میں پڑ گئے تھے کہ مسلم قوموں میں اسلامی تعلیمات، اسلامی جذبات، اسلامی غیرت و حمیت، اسلامی تقوا و پرہیزگاری اور اسلامی خیالات سب مٹ گئے، بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ان کی بھول تھی۔ سب سے پہلے تو عظیم مملکت ایران اور اس با شرف قوم کے ذریعے اسلامی اقتدار کا پرچم بلند کئے جانے اور دوسرے مرحلے میں پورے عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی لہر پھیل جانے سے وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اسلام بڑی درخشاں اور اٹل حقیقت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ اب عالم اسلام اور مسلمان قوموں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ خود ان کے پاس جو اپنی اطلاعات ہیں وہ بھی یہی بتاتی ہیں کہ اسلامی ملکوں میں امریکا، صیہونزم، عالمی سامراج کے ان کے عمائدین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ٹاپ
دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج، آج جس کا مظہر امریکی حکومت ہے، اس سے مقابلہ بھی اس انقلاب کا لازمی جز اور اس قوم کی اہم اور دلی خواہش ہے۔ اگر یہ قوم سامراج سے مقابلہ ترک کر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اغیار کی مداخلت، ان کے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی اور انقلاب سے قبل کی ان کی دھونس اور دھمکی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ سامراج سے جنگ اور اس کی مخالفت کے سلسلے میں یہی تاثر اور یہی نظریہ قوم کی ہر فرد کا ہے۔
ٹاپ
سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل
قومی اسباب علل
ایرانی عوام نے سامراج کے خلاف کیوں جنگ کی؟ اس نکتے پر آپ خاص توجہ دیجئے۔ سامراجی روح و خصلت کے سلسلے میں سب سے پہلا تاثر اور خیال جو کسی قوم کے ذہن میں ابھرتا ہے وہ دینی تاثر اور خیال نہیں بلکہ قومی حمیت کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے، اپنی شناخت اور تشخص کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب سامراج جب کسی ملک میں در آتا ہے اور اس ملک پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو اس ملک کی قومی شناخت کی نفی پر تل جاتا ہے۔ اس ملک کے ذخائر کو لوٹتا ہے، اس ملک کے سیاسی امور میں مداخلت بھی کرتا ہے لیکن یہ سب کچھ در حقیقت اس قوم کی شناخت اور تشخص کی نفی کی فروعات ہیں۔ جب سامراج وارد ہوتا ہے تو پہلے ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہم آپ کی شناخت اور تشخص کی نفی کرنا چاہتے ہیں، وہ مختلف بہانوں سے داخل ہوتا ہے۔ جب اسے اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے تو جو چیز اس کا سب سے اہم نشانہ ہوتی ہے وہ قوم کی شناخت ہے۔ یعنی ثقافت، دینی عقائد، ارادہ، خود مختاری، حکومت، معیشت اور اس قوم کی ہر چیز کو چھین کر اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔ جیسا کہ انقلاب سے قبل ایران میں تھا۔ اس حقیقت کا احساس قوموں کو سامراج کے خلاف بر انگیختہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں دیندار نہیں ہیں جو مسلمان بھی نہیں ہیں آج حتی الوسع امریکا کے مقابلے میں ڈٹ جاتی ہیں۔ البتہ یہ اب ہے، ماضی میں نہیں تھا۔ اس وقت تو کوئي امریکا کے سامنے سر اٹھانے کی جرئت نہیں کرتا تھا۔ یہ سلسلہ ملت ایران نے شروع کیا ہے۔
ٹاپ
دینی اسباب علل
سامراج کے خلاف ملت ایران کی جنگ کی دینی وجہ بھی ہے۔ قرآن میں استکبار، مستکبر اور اس کے بالمقابل استضعاف اور مستضعف کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جب ملت ایران اس جذبے کے ساتھ امریکا اور اس سے وابستہ بد عنوان نظام کے خلاف کھڑی ہوئی تو اس کے پیچھے عظیم دینی جذبہ اور ایمان و عقیدہ کارفرما تھا اور اسی چیز نے اس قوم کو کامیابی عطا کی۔
اس وقت دشمنان اسلام سے جنگ کا پرچم مکتب اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکاروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عظیم و شجاع قوم کے ہاتھوں میں ہے جو اللہ تعالی کے علاوہ کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آج ملت ایران کا یہ عالم ہے۔ اس وقت استکبار سے وابستہ عناصر اور مہرے نیز وہ طاقتیں جو دنیا میں قوموں، حکومتوں، شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے لئے خوفناک عفریب بنی ہوئی ہیں ملت ایران کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت و ارزش نہیں ہے۔
ٹاپ
سامراج سے جہاد اکبر
استکبار اور استکباری شیاطین کے خلاف سب سے بڑی جنگ یہ ہے کہ انسان ان کی مرضی و خواہش کے سامنے ہرگز سر تسلیم خم نہ کرے۔ اس وقت ملت ایران یہ جہاد کر رہی ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہمارے لئے وا کیا، ملت ایران اسی راہ پر چلی ، بحمد اللہ آج عز و وقار کی بلندیوں پر ہے، آج بھی یہ قوم اسی راستے پر گامزن ہے۔
ٹاپ
استکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوم
ایرانی قوم جو استکبار مردہ باد کا نعرہ لگاتی ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملت ایران ہر غیر مسلم ملک اور اس ملک کی حکومت کو للکار کر اس سے لڑنا چاہتی ہے جس کے مسلمان ہونے کو وہ تسلیم نہیں کرتی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے! اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے لئے جو چیز اہم ہے وہ ظلم، سرکشی و طغیانی اور ستمگر طاقتوں کے خلاف جنگ ہے۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم یہ ہے اصلی مسئلہ۔ جو لوگ حق و انصاف کی مخالفت پر اتر آتے ہیں اور ظلم و ستم کی تائید کرنے لگتے ہیں، ظالمانہ عمل میں مدد کرتے ہیں۔
ٹاپ
استکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت
ملت ایران کو چاہئے کہ سامراج کے خلاف جد و جہد کو اپنے لئے پرچم اور مشعل راہ کے طور پر محفوظ رکھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر اس لہراتے پرچم کی حفاظت نہ کی گئی اور نعرہ پھیکا اور کمزور پڑ گیا تو قوم اپنا راستہ گنوا دے گی۔ چونکہ اس دشمن کی دشمنی آشکارا ہے اور اہل نظر سے پوشیدہ بھی نہیں ہے، یہ کھلا ہوا دشمن اپنی دشمنی کے آشکارا ہونے کے باوجود فریب دہی کے کچھ حربے استعمال کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر فریب کھانے والی قوموں اور غلط فہمی کا شکار ہونے والی حکومتوں سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ دشمن کی روش کو صحیح طور پر پہچان نہیں پاتیں۔ اگر دشمن کی روش کی شناخت نہ ہو اور اس دشمن کی جانب سے غفلت برتی جائے جو ایک انقلابی قوم کی نابودی کے در پے ہے تو ظاہر ہے وہ قوم اسی راستے پر چل پڑے گی جو دشمن کا پسندیدہ راستہ ہے یعنی نابودی کی راہ، ویرانی کی راہ اور بد عنوانی کی راہ۔
ٹاپ
سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے
اسلام کی سمت واپسی
مسلم قوموں کی تمام ناکامیوں اور رنج و غم کا علاج اسلام کی سمت واپسی اور اسلامی نظام کے دائرے میں اور اسلامی احکام کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہ وہ اکسیر ہے جو مسلمانوں کو ان کے عز و وقار، قدرت و توانائی اور رفاہ و تحفظ کی نعمت لوٹا سکتی ہے اور اس تلخ و ذلت آمیز انجام و مستقبل کو دگرگوں کر سکتی ہے جو سامراجی طاقتوں نے امت مسلمہ کی تقدیر میں لکھ دینے کی تیاری کی ہے۔
سامراج اور اس سے وابستہ تشہیراتی نیٹ ورک، اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے مسلمانوں کی امید و نشاط کو مایوسی و یاس میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا کہ ملت ایران کے مشکل کشا اسلامی انقلاب کو ناکام ظاہر کریں اور یہ باور کرائیں کہ ایران مشکلات و دشواریوں سے دوچار ہو جانے کے بعد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی اسلام اور امام خمینی قدس سرہ کی روش سے کنارہ کشی پر مجبور ہو گیا۔
ٹاپ
تعلیم و تربیت
ثقافت و تعلیم و تربیت کا مسئلہ اسلامی جمہوری نظام میں اولیں مسئلہ ہے۔ دراز مدت میں کوئي بھی چیز تعلیم و تربیت جتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ ایرانی معاشرے میں تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ در حقیقت کفر و ظلم و عالمی سامراج اور دنیا کے سیاسی شیطانوں کی غنڈہ گردی کے خلاف جد و جہد کا محاذ یہی اسکول اور مدرسے اور تعلیم و تربیت و ثقافت کا محاذ ہے۔ جو طلبہ ملک کے تعلیمی اداروں کے سپرد کئے گئے ہیں اس قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ تعلیم و تربیت، استاد اور ثقافتی و تعلیمی محاذ کی قدر کیجئے۔
ٹاپ
قومی اتحاد
جو شخص سامراج کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو طمانچہ رسید کرنا چاہتا ہے، بندگان خدا کے دل جیتنا اور دشمنان خدا کو رنجیدہ و مایوس کرنا چاہتا ہے اسے یہ کوشش کرنا چاہئے کہ قوم اور نظام کے حکام کے درمیان رابطہ روز بروز زیادہ مستحکم ہو۔ جو بھی اس کے بر عکس عمل کرے وہ در حقیقت سامراج کی پسندیدہ سمت میں بڑھ رہا ہے۔
ٹاپ
اسلامی یکجہتی
دنیا کا کون سا گوشہ ہے جہاں مسلمان طویل عرصے سے عالمی سامراج اور عالمی تسلط پسندانہ سسٹم کے باعث نقصان نہیں اٹھا رہے ہیں اور دباؤ کا سامنا نہیں کر رہے ہیں؟! ایسے میں کیا چارہ ہے سوائے مسلمانوں کی استقامت و مزاحمت کے، سوائے مسلمانوں کے باہمی عہد و پیمان کے، سوائے مسلمانوں کے اتحاد کے، سوائے اسلامی معاشروں کی بیداری کے، سوائے پوری دنیا میں اسلام کی عظیم صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے کے؟
ٹاپ
حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت
اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کے اختیار میں بہت بڑی طاقت ہے اور وہ طاقت ہے مسلم قوموں کی۔ اس نا قابل تسخیر قوت کی مدد سے اسلامی حکومتیں سامراج کے اسلام مخالف محاذ کے سرغنہ امریکا جیسے سپر پاؤر کا مقابلہ کر سکتی ہیں، اپنی قوموں اور دیگر مظلوم مسلم اقوام کے حقوق کا دفاع کر سکتی ہیں۔ اسلام ایک قوم کی زندگی کو سنوارنے کی بہترین ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے سائے میں قومیں مکمل آزادی و خود مختاری سے بہرہ مند ہو سکتی ہیں، اس سے محظوظ ہو سکتی ہیں اور اس ہدف کے حصول کے لئے مسلمان نشین ملکوں کے عوام کا جذبہ ایمانی بہترین سہارا و کمک ہے۔ امریکا اور سامراج کے دیگر عمائدین مسلم ممالک کے سربراہوں کے دماغ میں اسلام کے تعلق سے جو خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلم حکومتوں سے یہ امید ہے کہ وہ اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس الہی آئین کو قوموں کے نجات دہندہ اور مسلم قوموں یعنی امت مسلمہ کے ان اجزاء کے رشتے اور رابطے کی حیثیت سے دیکھیں اور اس کے سہارے اپنی طاقت و توانائی اور عز و وقار میں اضافہ کریں۔ یہ بذات خود قوموں کو اپنی سمت متوجہ کرنے اور ان کی حمایت و مدد کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔ جس حکومت کو اپنی قوم کی حمایت حاصل ہو وہ کسی سے خوفزدہ نہ ہونے میں حق بجانب ہے۔
ٹاپ
سامراج کے عناد کی وجوہات
اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل
اس وقت اسلام اور سامراج کے مابین جو تنازعہ ہے وہ کس بات پر ہے؟ آج سامراج، اسلام کے مقابل کھڑا ہے۔ چنانچہ یہ بات خود انہوں نے (یعنی سامراجی عناصر نے) صریحی طور پر کہی ہے۔ امریکی صدر نے بے ساختہ صلیبی جنگ کی بات کی۔ سامراج کے تشہیراتی مہرے تواتر کے ساتھ مختلف موذیانہ طریقوں سے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، فلمیں بنا رہے ہیں، کمپیوٹر گیمز بنا رہے ہیں، مقالے لکھ رہے ہیں، سب کچھ اسلام کے خلاف۔ وہ کیوں اسلام کے مخالف ہیں؟! یہ بہت اہم سوال ہے۔ وہ خود اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام جنگ، قتل و غارتگری اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ عالمی رائے عامہ کے درمیان اس طرح آشکارا طور پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ بہتان باندھ رہے ہیں۔ اس وقت تو دنیا میں نفرتیں پھیلانے کا کام سامراج کر رہا ہے۔ دنیا میں جنگ کی آگ امریکی بھڑکا رہے ہیں۔ قوموں اور ملکوں کے حقوق پر حملے اور دست درازی کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے اپنے فوجی لاتے ہیں اور کبھی کسی ملک پر تو کبھی کسی اور ملک پر حملے کرتے ہیں، اس سرحد اور اس قوم کے خلاف جارحیت کرتے ہیں۔ آپ گزشتہ سو سالہ تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہی پائیں گے کہ بیشترین جنگیں مغرب والوں نے شروع کی ہیں۔ دنیا کی دونوں عالمی جنگیں یورپیوں نے شروع کیں۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں بے شمار جنگیں امریکی اقتدار پر قابض حکومتوں نے لڑی ہیں۔ وہی ہیں جو قوموں کے درمیان نفرتیں پھیلاتی ہیں۔ اسلام ان تہمتوں سے مبرا ہے۔ جھگڑا اس بات کا نہیں ہے ، وہ جھوٹ بولتے ہیں، تنازعہ اس بات کا ہے کہ اسلام قوموں کو خود مختاری و آزادی کی دعوت دیتا ہے، مسلمان قوموں کو ان کی عزت نفس کی یاد دلاتا ہے، مسلمان قوموں کو یہ درس دیتا ہے کہ اپنے حقوق کو پہچانیں، ان حقوق کے حصول کی کوشش کریں اور ان پر تجاوز کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ سامراج اس استقامت، اس دفاع اور اس واقفیت و آگاہی کا مخالف ہے۔ اسلام اور سامراج کا تنازعہ اسی بات پر ہے۔
ٹاپ
ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل
ایران اسلامی، امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا ایران، اسلامی انقلاب والا ایران، مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک اور بیداری کا محور و مرکز ہے۔ اسی لئے دشمنیوں کا ہدف بھی بنا ہوا ہے۔ یہ چیز ملت ایران کے لئے غم و اندوہ نہیں بلکہ خوشی کا باعث ہے۔ اس سے ایران وحشت زدہ نہیں بلکہ زیادہ پرامید ہوا ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت ایران بہت طاقتور ہے اور سامراج اور ڈاکوؤں اور غارتگروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔ سامراج کی دشمنی کو دیکھ کر ملت ایران کو اور بھی یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے انقلاب کو آگے لے جانے اور ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ بالکل صحیح، کامیاب اور درست ہے۔ اگر انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور ملک و انقلاب کی مصلحتوں کی تکمیل کے لئے اپنی مہم میں اس قوم نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا تو اتنی دشمنیاں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔
ٹاپ
ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
کیا وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا پیغام ہے اور قلوب اس کی سمت مائل اور قدم اس کے مقررہ اہداف کی راہ میں گامزن ہیں سامراج پیچ و تاب کھا رہا ہے؟ ان دشمنیوں کی وجوہات اس طرح ہیں؛ سب سے پہلی وجہ تو دین کا سیاست اور سماجی زندگی سے جدا نہ کیا جانا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے عملی طور پر ثابت کر دیا اور دکھا دیا کہ دین انسانوں کی زندگی میں دخیل ہے۔ مقدس دین اسلام اس لئے نہیں آیا کہ لوگوں کو عبادت خانوں کا گوشہ نشیں بنا دے بلکہ انسانی زندگی، سیاست کا میدان، عظیم سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور مقدس اسلامی احکام کی قلمرو کے اندر آتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑی طاقتوں کی خواہش و مرضی کو در خور اعتناء قرار نہ دینا ہے۔ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ عالمی امور میں وہ امریکا اور اس کے ہمنواؤں کے نظریات اور منشا کے زیر اثر نہیں ہے۔ اس کی ایک واضح مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ انہوں نے عرب اور بہت سے اسلامی ملکوں پر شدید دباؤ ڈالا کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کر دیں، افسوس کہ بعض حکومتیں اس دباؤ کے آگے جھک بھی گئیں اور انہوں نے یہ مطالبہ مان لیا لیکن اسلامی جمہوریہ نے ایک بالکل واضح جملے میں اپنی بات بیان کر دی جسے دنیا کے تمام انصاف پسند افراد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جملہ یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے۔
ایران کے اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی تیسری وجہ یہ موقف ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی بساط لپیٹی جانی چاہئے، یہودی فلسطین میں آباد رہ سکتے ہیں لیکن فلسطین میں حکومت کا حق ملت فلسطین کا ہے وہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جسے چاہیں منتخب کرے۔
چوتھی وجہ ایران کی جانب سے ایسے تمام افراد کی سیاسی و اخلاقی حمایت ہے جو اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں سعی و کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جو کوئی بھی اسلام کی شان و شوکت کے لئے قیام کرتا ہے ایران اس کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ مسلمان قوموں کی یہ حمایت دشمن کو خشمگیں کرتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ سے سامراجی دشمنوں کی دشمنی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام پر مغربی ثقافت مسلط کئے جانے کا مخالف ہے۔ مغربی ثقافت ایسی ہے کہ اس میں جہاں خوبیاں ہیں وہیں بہت سے نقائص و عیوب بھی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ثقافتی تعلقات اور لین دین کا قائل ہے۔ ملت ایران جیسی قوم او دیگر مسلم اقوام دنیا کی ثقافتوں کو دیکھیں، ان کا جائزہ لیں اور ان ثقافتوں کے ان نکات کو اختیار بھی کریں جو ان کے لئے ضروری اور مفید ہوں اور ان باتوں کو جو مفید نہیں ہیں مسترد کر دیں۔
عالمی استکبار، اسلام و انقلاب سے دلی کینہ رکھتا ہے اور جب تک قوم اپنے اصولوں اور اپنے دین و مذہب سے دستبردار نہیں ہو جاتی اس وقت تک عالمی استکبار کی ابرو کا بل نہیں جاتا۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ : ولن ترضی عنک الیھود و لا النصاری حتی تتبع ملتھم بنابریں سامراج کے بغض و کینے کی وجہ (اسلامی انقلاب کی) حریت پسندی ، لا شرقی و لا غربی کا نعرہ اور اسلام پر عمل آوری ہے۔ سامراج کا کینہ ختم ہونے والا نہیں ہے لیکن اس کینے کے باوجود ملت ایران اللہ تعالی کے لطف و کرم سے پر امید ہے کہ انشاء اللہ جملہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے الہی اہداف کو حاصل کرے گی اور دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔
ٹاپ
اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
عوام کے ایمان کی مستحکم بنیادوں پر اسلامی نطام کی تعمیر کے بعد اس (سامراج) کے لئے بہت بڑا چیلنج معرض وجود میں آ گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فطری طور پر یہ نظام دنیا کے سامراجی نظام کے آکٹوپس سے ٹکرانے والا تھا۔ اس ٹکراؤ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکا، برطانیہ یا کسی اور ملک سے جنگ کے لئے جائے بلکہ جب حساس جغرافیائی محل وقوع اور قدیم تہذیب و ثقافت کا مالک کوئی اسلامی ملک ابھر کر سامنے آتا ہے، کوئی نیا خیال اور نئی فکر پیش کرتا ہے اور پھر اس کی تقویت کے لئے جی جان سے کوشش کرتا ہے اور اس کی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو فطری سی بات ہے کہ سامراج کو اس پورے علاقے میں اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کے اس زمانے کے سامراجی نظام یعنی ایک طرف لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور دوسری طرف نام نہاد سوشیلسٹ الحادی آمریت کا نظام، اسلامی جمہوریہ ایران سے الجھ پڑے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ان دونوں نظاموں میں نوے فیصدی امور میں اختلافات تھے لیکن (اسلامی انقلاب کی) اس شمع فروزاں کو خاموش کرنے اور اس پودے کو اکھاڑ پھینکنے کی بات پر یہ دونوں متحد ہو گئے!
ٹاپ
سامراج کا آخری ہدف
اس وقت امریکا اور عالمی سامراج کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ انقلاب کو، اسلامی جمہوریہ کو اور ملت ایران کو کسی صورت پسپا کر دیا جائے۔ وہ اعلان کر دے کہ اپنے موقف اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف سے برگشتہ ہو گئی ہے۔ سامراج کی ساری سعی و کوشش یہی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ امام (خمینی رہ) کے پیغام نے مسلم قوموں کو بیدار کر دیا ہے۔ آپ دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص مسلمان قوموں کو دیکھئے! غور کیجئے کہ وہ کس طرح امام (خمینی رہ) کے پیغام سے متاثر ہوئی ہیں؟! سامراج کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ قوموں کو اسی صورت میں ساکت و خاموش رکھا جا سکتا ہے جب انہیں صحیح راستے سے منحرف کرکے اسی جگہ پر پہنچا دیا جائے جہاں سے انہوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ یہ قوموں دیکھیں کہ اسلامی ایران، امام خمینی کا ایران اپنے راستے سے برگشتہ ہو گیا ہے تاکہ سب کے سب مایوس ہو جائیں اور اپنی راہ چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں۔ سامراج اس چیز کو سمجھ گیا ہے اور وہ اس کے لئے بھرپور کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سامراج اپنے تمام وسائل و امکانات کو بروئے کار لاکر اسلامی جمہوریہ کو مٹا دینے کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ واقعی یہ سامراج کا آخری ہدف ہے۔ البتہ وہ سیاستداں ہیں اور بخیال خود ایک اک زینہ طے کر رہے ہیں۔
پہلا زینہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کی امنگوں سے جدا کر دیں۔ دوسرا قدم یہ ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کے محبوں سے محروم کر دیں، تیسرا قدم یہ ہے کہ حکومت اور حکام کو عوامی طبقات سے دور کر دیں اور دونوں کے درمیان شگاف ایجاد کریں۔ چوتھا قدم یہ ہے کہ اوباش اور شر پسند عناصر کو لائیں، جرائم پیشہ افراد کا سہارا لیں اور ان کی مدد سے اپنا ہدف پورا کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ کے حکام سے غفلت، سستی اور بے توجہی ہوئی تو کوتاہ مدت میں ہی یہ چاروں قدم اٹھائیں جائيں گے لیکن اگر حکام ہوشیار و بیدار رہے اور غفلت کا شکار نہ ہوئے تو صدیاں گزر جائیں گی لیکن پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا ہوگا۔
ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق کے بر سر اقتدار اتحاد میں شامل سیاسی جماعت مجلس اعلائے اسلامی کے سربراہ سید عبد العزیز حکیم کے انتقال پر تعزیتی پیغام جاری فرمایا: پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم
انتہائی اندوہ ناک خبر موصول ہوئی کہ عراق کی مجلس اعلائے اسلامی کے سربراہ حجت الاسلام سید عبد العزیز حکیم نے دار فانی کو وداع کہا اور دار باقی کی سمت کوچ فرمایا۔
ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا، علمی شخصیات اور طلبا یونینوں کے اراکین اور نمایندوں نے بدھ کی شام قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں طلبا یونینوں کے نمایندوں اور علمی شخصیتوں نے علمی، سماجی، ثقافتی، سیاسی اور یونیورسٹی سے وابستہ متعدد امور و مسائل کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 4-6-1388 ہجری شمسی مطابق 26-8- 2009 عیسوی کو ملک کے طلبہ اور علمی شخصیات کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں ملک کے داخلی حالات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
ضیافت الہی، بہار قرآن اور رحمت پروردگار کے مہینے رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ قرآن کریم کی نورانی آیات کی خوشبو سے معطر ہو گیا، کچھ ممتاز قاریان قرآن، حافظوں اور اس فن کے بعض اساتذہ نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں قرآن کریم کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی۔ ساڑھے تین گھنٹے تک چلنے والی اس روحانی و قرآنی محفل میں گروہی شکل میں بھی تلاوت قرآن کی گئی اور نعت پاک سے ایک سماں بندھ گیا۔ اس روحانی محفل میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک میں فن تلاوت کے ارتقائی سفر کی جانب اشارہ کیا اور تجوید اور مفاہیم کے ادراک کے ساتھ کی جانے والی قرائت کو معاشرے میں قرآن سے انسیت پیدا کرنے کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام کے صدر بشار اسد اور ان کی زیر قیادت ایران آنے والے وفد سے ملاقات میں مشرق وسطی کے موجودہ حالات کو اسلامی مزاحمت اور استقامت کے لئے سازگار اور امریکا اور امریکی پالیسیوں کے پیروکاروں کے لئے ناسازگار قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے آج شام اپنی اس ملاقات میں فرمایا: استقامت و مزاحمت کے محاذ کو چاہئے کہ اس عظیم موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے تعاون اور تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائےـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک حکمنامے میں شیخ صادق آملی لاری جانی کو عدلیہ کا سربراہ منصوب کیا۔قائد انقلاب اسلامی کے حکمنامے کا متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گرانقدر محقق حجت الاسلام و المسلمین جناب الحاج شیخ صادق آملی لاری جانی دامت توفیقاتہ اب جبکہ عدلیہ میں آیت اللہ ہاشمی شاہرودی کی فرائض کی انجام دہی کی توسیع شدہ مدت بھی پوری ہو چکی ہے، آنجناب کی یادگار و باارزش سعی و کوشش اور خدمتوں کی قدردانی کے ساتھ آپ کو جو قم کے دینی علمی مرکز کی نمایاں شخصیتوں میں سے ایک اور جدت و ابتکار عمل کی صلاحیتوں سے سرشار شخصیت ہیں آئین کی دفعہ ایک سو ستاون کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کا سربراہ منصوب کرتا ہوں۔