قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے جنوب مشرقی ایران کے شہر زاہدان کی جامع مسجد میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی کے شہدا کے فاتحے کی مناسبت سے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ ان جرائم کی پشتپناہی امریکا، برطانیہ اور صیہونی حکومت کی خفیہ ایجنسیاں کر رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قرآن پر توجہ دینے کی وجہ سے دنیا پر گہرے اثرات ڈالنے کی ملت ایران کی توانائی بڑھی اور اس قوم نے پوری خود اعتمادی کے ساتھ دشمن کا ڈٹ کر سامنا کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح پوم پاسدار کی مناسبت سے سپاہ پاسداران انقلاب کے ہزاروں کمانڈروں اور اہلکاروں کے اجتماع سے خطاب میں سپاہ پاسداران انقلاب کے روحانی ڈھانچے کو گزشتہ تین عشروں کے دوران مختلف شعبوں میں، الگ الگ حالات میں اس ادارے کی لائق قدر کارکردگی کی بنیادی وجہ قرار دیا
قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں میں علمائے افاضل کی موجودگی اور طلبہ و اساتذہ سے ان کے نزدیکی اور گہرے تعلقات کو اسلامی انقلاب کے بعد حاصل ہونے والی عظیم نعمت الہی قرار دیا اور فرمایا کہ اس اہم اور گراں بہا موقع کی قدر کرنی چاہئے اور اس چیز کی اہمیت کا اندازہ منفی پروپیگنڈوں اور یونیورسٹیوں کے اسلامی ماحول کے مخالفین کی شدید تشویش اور فکرمندی سے کیا جا سکتا ہے.
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ طول تاریخ میں بشریت کی خوشبختی کے نورانی راستے کے مخالفین نے عدل و آشتی کے قیام کے لئے نہیں تسلط اور ظلم کا دائرہ پھیلانے اور انسانوں کا چین و سکون چھین لینے کے لئے جنگیں کی ہیں اور آج بھی دنیا کی تسلط پسند اور سامراجی طاقتیں جدید ٹکنالوجی اور ایٹمی اسلحے سمیت پیشرفتہ ہتھیاروں کے ذریعے زمانہ جاہلیت کی اسی روش کو ماڈرن پیرائے میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس تیر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی، دس جولائی 2010 عیسوی مطابق 27 رجب چودہ سو اکتیس ہجری قمری کو عید بعثت رسول کے موقع پر ملک کے حکام کے اجتماع سے خطاب میں بعثت رسول کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے آئي آر آئي بی کے سربراہ، متعدد ہدایت کاروں، مصنفین، فنکاروں اور متعلقہ عہدہ داروں سے ملاقات میں قومی میڈیا بالخصوص فلم اور سیریئل کے فن کو موجودہ دور میں ماضی سے زیادہ اہم اور موثر قرار دیتے ہوئے قومی میڈیا اور فلمی صنعت کے عہدہ داروں اور فنکاروں کی زحمتوں کی قدردانی کی۔
عدلیہ کے سربراہ اور اعلی عہدہ داروں نے آج پیر اٹھائیس جون کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ عدلیہ کے عہدہ داروں سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کو اسلامی نظام کا بہت اہم اور حساس ادارہ قرار دیا اور ملک کے تمام محکموں کی جانب سے عدلیہ کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ کی ایک اہم ترین ذمہ داری فیصلے اور قضاوت میں عدل و انصاف کے راستے سے نہ ہٹنا اور سیاسی پروپیگنڈوں اور دوستی و دشمنی سے متاثر نہ ہونا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت کو ایک منفرد اور استثنائی شخصیت اور علمی، روحانی، اخلاقی، انسانی اور الہی کمالات کا نقطہ اوج قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ تاریخ بشر کی اس بے مثال شخصیت کی زندگی سے عصر حاضر میں اسلامی دنیا اور معاشرے کو ملنے والا سب سے اہم سبق بصیرت و آگہی کی ترویج، حالات کو شفاف بنانا اور ان لوگوں کے فکر و ایمان میں گہرائی پیدا کرنا ہے جنہیں بصیرت و آگہی کی ضرورت ہے۔
پانچ تیر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تیرہ رجب المرجب چودہ سو اکتیس برابر چھبیس جون سن دو ہزار دس کو جانشین رسول حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر صوبہ بوشہر کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے تہران آکر حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
اسلامی انقلاب کا فن یہ تھا کہ اس نے قوم کے درمیان کھڑی کی گئی تمام غلط دیواروں کو گرا دیا اور پورے ملک کو ملت ایران کے لئے وسیع میدان بنا دیا، اب بعض لوگ دوبارہ غلط اور ناحق دیواریں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تحریک کی بنیادیں، اصول اور سمت معین اور واضح ہیں بنابریں جو بھی ان اصولوں کے تناظر میں اور اسی سمت میں آگے بڑھے، اسلامی نظام کے کارواں میں شامل ہے۔
ایٹم لفظ جہاں سائنسی میدان میں انسانی پیشرفت پر دلالت کرتا ہے وہیں بد قسمتی سے تاریخ کے گھناونے ترین سانحے،
پیشرفتہ سائنس اگر کسی با کمال اور اچھی قوم کے پاس ہو تو باعث خیر و برکت ہوتی ہے، جدید اسلحے اگر کسی دانشمند اور بالغ نظر قوم کے پاس ہوں تو بے خطر ہیں۔ (سائنس کی) اس طاقت سے کس نے قوموں کو نقصان پہنچائے ہیں؟ اس سے ایٹم بم بنا دئے گئے۔ جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں امریکیوں نے کیا اور جاپانیوں پر آفت ٹوٹ پڑی یا جیسا کہ سویت یونین کے ایک ایٹمی کارخانے میں رساؤ ہونے سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک اور نابود ہو گیا۔ اگر ایٹم سے کوئی المیہ رونما ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بے لگام بڑی طاقتیں ہیں۔ اگر دنیا میں امریکا کی سامراجی طاقت پر قابو پا لیا جائے تو ایٹمی خطرہ اپنے آپ قابو میں آ جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاری جانی، صدارتی کمیٹی اور ارکان نے آج قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کی حساس اور دگرگوں صورت حال اور ساتھ ہی ایران کے داخلی حالات، ایرانی قوم کے اتحاد و یکجہتی اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر سے عوام کی وابستگی پر روشنی ڈالی۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاری جانی اور ارکان نے اٹھارہ خرداد سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق آٹھ جون سن دو ہزار دس کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پارلیمنٹ کے اسپیکر نے تقریر کرتے ہوئے ایوان کی کارکردگی کے بارے میں بتایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقی اسلام محمدی پر دائمی تکیہ، مکتب اسلام کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے سے قریب اور دور کرنا، وعدہ الہی پر یقین کامل، روحانی و معنوی محاسبہ و تقوا، اسلامی انقلاب کے سلسلے میں عالمی نقطہ نگاہ، عوام پر بھروسہ اور کسی بھی فیصلے کے وقت افراد کی موجودہ حالت پر توجہ، امام خمینی کے راستے کے معیاروں میں ہیں جنہیں صحیح طور پر بیان کرنے اور ان پر ہمیشہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس جمادی الثانی سن چودہ سو اکتیس ہجری قمری مطابق چار جون دو ہزار دس عیسوی برابر چودہ خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوری نظام کے معمار امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کی اکیسویں برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر دسیوں لاکھ کی تعداد میں جمع ہونے والے عقیدت مندوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔
بنت رسول صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کے موقع پر شعرا، خطبا اور ذاکرین اہل بیت اطہار کی ایک بڑی تعداد نے آج صبح حسینیہ امام خمینی میں قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں بنت رسول کے فضائل و مناقب بیان کئے اور ساتھ ہی عصری سماجی و انقلابی مسائل و امور پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بارہ آبان سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تین جون سنہ تیرہ دو ہزار دس عیسوی کو ہزاروں طلبہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ کو امریکا کی طمع اور توسیع پسندی، شاہ کی طاغوتی حکومت کے غیروں پر انحصار، بصیرت پر مبنی جذبہ ایمانی کی مضبوطی، میدان عمل میں نوجوان نسل کی پیش قدمی اور انقلابی نوجوان نسل کی شجاعت و ہمت کا آئینہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت ملت ایران ماضی کے ہر دور سے زیادہ پرعزم ہوکر اور پوری مضبوطی کے ساتھ اعلی اہداف اور سعادت بخش بلندیوں کی جانب رواں رواں اور اس عظیم تحریک میں نوجوان نسل پیش پیش ہے۔
بنت رسول صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کے موقع پر شعرا، خطبا اور ذاکرین اہل بیت اطہار کی ایک بڑی تعداد نے تیرہ خرداد سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تین جون سن دو ہزار دس عیسوی کو حسینیہ امام خمینی میں قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں بنت رسول کے فضائل و مناقب بیان کئے اور ساتھ ہی عصری سماجی و انقلابی مسائل پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج اپنے ایک پیغام میں، امدادی قافلے پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ و مجرمانہ حملو کو ، عالمی رائے عامہ اور پوری دنیا کے انسانوں کے ضمیر پر حملہ قرار دیا اور زور دیا کہ اب فلسطین نہ عرب مسئلہ ہے بلکہ صرف اسلامی مسئلہ ہی نہيں ہے بلکہ یہ عصر حاضر کا ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور اس سفاک حکومت کے حامیوں خاص طور پر امریکا ، برطانیہ اور فرانس کو جواب دینا چاہئے ۔ قائد انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن اس طرح سے ہے :
قائد انقلاب اسلامی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کے دن تین خرداد مطابق چوبیس مئي کو انقلاب اور ملک کی تاریخ کا ناقابل فراموش دن قرار دیا اور فرمایا کہ اس عظیم اور سبق آموز واقعے کا بنیادی عامل اللہ تعالی اور اپنے زور بازو پر اعتماد کا جذبہ تھا اور یہ جذبہ ہمیشہ خرم شہر کی آزادی جیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔
تین خرداد تیرہ سو اکسٹھ ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی انیس سو بیاسی کا دن ایران اور اس ملک کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کا بے حد اہم دن ہے۔ یہ روحانیت و معنویت کی کرشمائی تاثیر کا آئينہ ہے۔ اس دن خرم شہر کو جارح عراقی فوج کے قبضے سے آزاد کرایا گیا۔ اس علاقے کو اپنے غاصبانہ قبضے میں رکھنے کے لئے عراق کی صدام حکومت ہی نہیں بلکہ اس کی پشتپناہی کرنے والی مشرقی و مغربی طاقتیں اور علاقائی ممالک بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے لیکن ایرانی نوجوانوں نے قوت ایمانی اور توفیق الہی سے اس علاقے کو آزاد کرا لیا۔ اسی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے تین خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی دو ہزار دس کو شمال مشرقی تہران میں واقع امام حسین علیہ السلام کیڈت یونیورسٹی میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے خرم شہر کی آزادی کے لئے ایرانی جیالوں کے بیت المقدس نامی فوجی آپریشن کا مطالعہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں آت تمام عزیز نوجوانوں اور مستقبل کی امیدوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی شروعات اور تعلیم کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کی مناسبت سے بھی اور تین خرداد (چوبیس مئی) کے عظیم دن کی مناسبت سے بھی جو انقلاب کی تاریخ ہی نہیں ہمارے ملک کی تاریخ کا بھی ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ آج کی یہ تقریب بہت اچھی اور مناسب نیز سپاہ پاسداران انقلاب کی مانند روحانیت اور ذہنی و جسمانی توانائیوں اور فکری و عملی آمادگي کا آمیزہ اور سپاہ پاسداران انقلاب کی پیشرفت و ترقی کا آئینہ معلوم ہوئی۔
میرے عزیزو! خرم شہر کی آزادی کا دن جو در حقیقت سن انیس سو بیاسی کے اپریل اور مئی مہینے میں بیت المقدس آپریشن کے نقطہ اوج پر پہنچ جانے کا دن ہے، ہم سب کے لئے، ہماری تاریخ کے لئے اور ہمارے مستقبل کے لئے سبق آموز اور عبرت آموز دن ہے۔ کیونکہ فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے اس دن جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک حیرت انگیز اور قابل تعریف ہم آہنگی اور ناقابل بیان شجاعت و فداکاری کے ذریعے بڑی کاری ضرب لگائی۔ عراقی فوج کے پیکر پر ہی نہیں بلکہ عالمی سامراجی نظام کے پیکر پر جو اپنے لمبے لمبے وعدوں کے ساتھ بعثی حکومت کی جنگی مشینری کی پشت پر کھڑا ہوا تھا۔ کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ یہ چیز (خرم شہر کی آزادی) ممکن ہو سکے گی۔ لیکن ایسا ہوا۔ اس کی اصلی وجہ کیا تھی؟ اس کے لئے چند عوامل کو موثر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سب سے بنیادی ترین عامل تھا اللہ تعالی پر توکل اور اپنی قوت بازو پر بھروسہ۔ اگر ہم اس دن عام اور رائج اندازوں کے مطابق عمل کرتے اور سوچتے تو کسی بھی صورت میں کوئی یہ نہیں سوچ پاتا کہ یہ چیز بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے با ایمان عوام نے، ہمت و شجاعت کے ساتھ، ایمان و ایقان کے ساتھ، اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے، جان ہتھیلی پر اور موت کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان میں قدم رکھے اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ خرم شہر کی آزادی افتخارات کا نقطہ کمال ہے، افتخارات کا ثمرہ ہے۔ تقریبا ایک مہینے تک چلنے والے بیت المقدس آپریشن کی پوری مدت میں فداکاری و جاں نثاری کی سیکڑوں حیرت انگیز نشانیاں اور مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
میرے عزیز نوجوانو! میرے فرزندو! میں گزارش کروں گا کہ آپ اس آپریشن کی تفصیلات کو جس کا ایک حصہ، صرف ایک گوشہ، ضبط تحریر میں آ چکا ہے بغور پڑھئے اور دیکھئے کہ کیا واقعات رونما ہوئے۔ دیکھئے کہ ہمارے جوانوں نے، ہمارے جیالوں نے، جن کے ناموں کا ذکر کرنے کے لئے ایک کتاب درکار ہوگی، کیا کارنامہ انجام دیا؟ اگر ہم نمونے کے طور کچھ نام لینا چاہیں تو شجاع و فداکار کمانڈر احمد متوسلیان جیسے افراد کا نام لے سکتے ہیں جنہوں نے اس انتہائی اہم اور بڑی لڑائی میں کیسا کارنامہ انجام دیا اور کون سی توانائی استعمال کی؟! یہ جو جملہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور آپ نے اسے بارہا سنا ہوگا کہ خرم شہر را خدا آزاد کرد اس سلسلے میں کہا جانے والا سب سے حکیمانہ اور سب سے حقیقت پسندانہ جملہ ہے۔ وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی (1) کی عملی تصویر ہے۔ اللہ تعالی کی قدرت جانبازوں کے دلوں میں، ان کے آہنی عزم و ارادے میں، ان کے صبر و ضبط میں، ان کے توانا بازوؤں میں، ان کی خلاقی توانائیوں میں جلوہ گر ہوئی۔ دشمن مادی طاقتوں پر تکیہ کئے بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے کہ مادی طاقت پختہ روحانیت و انسانیت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ چیز ہمیشہ رہے گی۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ میرے عزیزو! آج بھی مادی طاقتیں اپنی پوری توانائی کے ساتھ، اپنی دولت، اپنی صنعت، اپنی جدید ٹکنالوجی اور سائنسی ترقی کی مدد سے بھی ان انسانوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں جو ایمان و ایقان کو، عزم و ارادے کو، ہمت و شجاعت کو اور فداکاری و جاں نثاری کو اپنے فعل و عمل کا معیار قرار دیں۔
جو لوگ اس زمانے میں ملت ایران اور اس قوم کے سپاہیوں کے مد مقابل کھڑے ہوئے تھے یہ وہی لوگ ہیں جو آج ملت ایران کے مقابلے پر آئے ہیں۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں بھی امریکا، نیٹو، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تھے۔ صدام کو کیمیاوی اسلحہ دیتے تھے، فوجی ساز و سامان فراہم کرتے تھے، طیارے دیتے تھے، جنگی نقشے دیتے تھے، جنگ کے میدان کی تازہ اطلاعات دیتے تھے، اس کی پشت پر کھڑے ہوئےتھے تاکہ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو، توحید و روحانیت کے عظیم نظام کو، وحدانیت و انسانیت کے لہراتے اس پرچم ہو اور قوموں کی آزادی اور خود مختاری کی آواز کو شکست دے دیں۔ صدام کی پشت پر یہی لوگ کھڑے ہوئے تھے اور آج بھی یہی لوگ (مقابلے کے لئے) سامنے ہیں۔ آج بھی جو لوگ اپنی تشہیراتی مہم کے ذریعے حقائق کو برعکس شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ خود دنیا کے بیشتر علاقوں کی بد امنی کے ذمہ دار ہیں لیکن ایران کو خطرہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں، وہ لوگ جو پاکستان میں روزانہ مجرمانہ کارروائیاں کرتے ہیں، افغانستان میں برسوں سے قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، عراق میں کسی اور صورت میں اور فلسطین میں کسی اور انداز سے، وہ لوگ جو قدس کی غاصب حکومت کی شیطانی طاقت کی پشت پر کھڑے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں۔ انیس سو بیاسی میں یہی لوگ صدام کی حمایت و مدد کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہیں شکست ہوئی تھی اور آپ یقین رکھئے کہ اس دفعہ بھی انہیں شکست ہوگی۔
اسلامی جمہوری نظام دنیا کی دیگر جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کی مانند نہیں ہے۔ خاص پیغام کا حامل نظام ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کا پیغام وہ پیغام ہے کہ جس کے لئے دنیا کی قومیں بیتاب ہیں۔ یہ دنیا کے جغرافیا میں کسی نقطے پر واقع عام حکومت اور سیاسی نظام سے جس میں خواہشات نفسانی میں ڈوبے افراد شامل ہوتے ہیں، مختلف ہے۔ یہاں (اسلامی جمہوری نظام میں) قدروں کا معاملہ ہے، انسانیت کا موضوع ہے، مداخلت پسند اور تسلط پسند طاقتوں کے چنگل سے قوموں کو نجات دلانے کا مسئلہ ہے۔ انسانیت اور بشریت کے لئے ہمارے نظام کے پاس ایک پیغام ہے اور اسی پیغام کی وجہ سے دنیا کی حریص طاقتیں ملت ایران کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں۔ اگر یہ ٹکراؤ کا پہلا موقع ہوتا تو ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل دہل جاتے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ یہ ٹکراؤ تو اکتیس سال سے مختلف شکلوں میں چلا آ رہا ہے۔ سیاسی حملہ، فوجی لشکر کشی، اقتصادی ناکہ بندی اور مختلف دھمکیوں کی شکل میں۔ تسلط پسند ممالک میں مختلف حکام آئے اور چلے گئے لیکن ملت ایران ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ محکم عمارت روز بروز اور مضبوط ہوئی ہے اور پروقار بن گئی ہے۔ یہ ثمربخش خدائی پودا، اس سازگار اور آمادہ سرزمین پر اگنے والا یہ شجرہ طیبہ روز بروز اپنی جڑیں اور بھی گہرائی میں اتارتا جا رہا ہے۔ اگر روحانیت، اسلامی اقدار اور ایران کے دشمنوں کے اندر کبھی امید کی رمق تھی بھی تو آج یہ رمق بھی باقی نہیں رہی ہے، وہ مایوسی کے عالم میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ راستے سے واقف نہیں ہیں، وہ ملت ایران کو نہیں پہچانتے۔ وہ آج کے اندازوں اور تخمینوں کا قیاس تیس سال، چالیس سال اور پچاس سال قبل کی صورت حال سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑی طاقتوں کے بلا شرکت غیرے غلبے کا دور تھا۔ یہ قیاس غلط ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ قومیں بھی بیدار ہو چکی ہیں۔ لہذا آج آپ ایرانی عوام، آپ نوجوان حضرات جو اس قوم کے چنندہ اور نمایاں نوجوانوں میں ہیں، آپ سپاہ پاسداران انقلاب کے نوجوان قوموں کے دلوں میں امید کی کرن جگانے والے ہیں۔ بہت سی حکومتوں کی نظریں آپ پر لگی ہوئي ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مداخلت اور جارحیت پسند ملک نہیں ہے۔ یہ استقامت، یہ پیغام اور تمام شعبوں میں نمایاں یہ روحانی طاقت ان کی امیدیں بڑھا دیتی ہے، ان میں استقامت و پائیداری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ آج بر اعظم ایشیا، بر اعظم افریقا، بر اعظم امریکا میں حتی خود یورپ میں ایسی قوموں کی کمی نہیں ہے جن کی تعریفی تحسین آمیز نگاہیں آپ پر مرکوز ہیں۔ وہ آپ کی مداح ہیں۔
میرے عزیزوں! آپ نوجوانی کے اس سنہری موقع کی، اس توانائی کی اور استعداد کی قدر جانئے۔ خود کو نکھارنے کا یہ موقع جو آپ کو فراہم کیا گیا ہے اس کی اہمیت کو سمجھئے۔ آپ بھی، فوج کے جوان بھی، پولیس فورس کے اہلکار بھی اور مقدس و پاکیزہ رضاکار فورس بھی۔ آج اس الہی ملک میں انہیں ایسے وسائل دستیاب ہیں جو کبھی بھی برگزیدہ، با ایمان اور صالح نوجوانوں کو حاصل نہیں ہوئے تھے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھائيے۔ ان مواقع کا بھرپو استعمال سب سے بڑا شکر ہے۔
پالنے والے! اس گروہ پر اپنا لطف و کرم نازل فرما۔ پروردگارا! ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر جنہوں نے یہ درخشاں راہ ہمارے لئے کھولی اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پالنے والے! ہمارے عزیز شہداء کو جو تیرے فضل و کرم سے زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے بلندی درجات عطا فرما۔ ہمیں انہی عزیزوں کی صف میں شامل کر اور اس گروہ کا سلام امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی بارگاہ میں پہنچا۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) انفال، 17
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام الجزائر کے صدر عبد العزیز بوتفلیقہ اور ان کے وفد کے ارکان سے ملاقات میں الجزائر کی قوم کو شجاع، پیش قدم اور بلندی کی راہ پر گامزن قوم قرار دیا اور سامراج کے خلاف الجزائر کے عوام کی جد و جہد اور انقلاب کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اخلاص کے لحاظ سے ایران اور الجزائر کی حکومتوں کے باہمی تعلقات کی سطح کبھی بھی ایسی نہیں رہی جیسی آج ہے، اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات انفرادی صورت حال کے حامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے اور ان کے وفد کے ارکان سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران اور زمبابوے کے تعلقات کو پائيدار اور دوستانہ تعلقات سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ سطح سے کہیں زیادہ وسیع تعلقات کی گنجائش اور صلاحیت دونوں ملکوں میں موجود ہے اور ایران ہمیشہ زمبابوے کا ساتھ دیتا رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ عظیم افرادی قوت اور جغرافیائی وسائل سے مالامال اسلامی ممالک ایک عظیم حقیقت اور تشخص کے مالک ہیں اور اگر یہ تشخص میدان میں آ جائے تو کوئی بھی اسے نظر انداز نہیں کر پائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ ایران اور سری لنکا کے تعلقات بہت پرانے ہیں لیکن کبھی بھی یہ تعلقات موجودہ دور جتنے اچھے نہیں تھے کیونکہ اس وقت باہمی تعاون کے لئے اچھے مواقع اور ارادے موجود ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی امور میں برازیل کے خود مختار اور آزادانہ موقف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا پر حکمفرما غیر منصفانہ حالات کو بدلنے کا واحد راستہ خود مختار حکومتوں کے درمیان باہمی روابط اور تعاون کا فروغ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایرانی قوم کو ترقی و پیشرفت کے اس مرحلے تک پہنچنا ہے کہ مختلف سماجی اور سیاسی میدانوں میں علمی اور فکری لحاظ سے وہ اسلامی دنیا کے مفکرین اور اقوام کے لئے قابل اعتماد اور یقینی مرجع بن جائے اور یہ ملت ایران کی تاریخی ذمہ داری ہے۔
یوم محنت کشاں کے موقع پر ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے آج قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے ترقی کو علم اور علمی پیداوار پر موقوف قرار دیا اور ملک کی حیرت انگیز ترقی اور وسیع علمی، قدرتی اور انسانی وسائل اور صلاحیتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ماضی کی پسماندگی کی تلافی کے لئے دوہرے عزم اور تیز رفتار پیش قدمی کی ضرورت ہے۔
آٹھ اردیبشہت سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اٹھائيس اپریل سن دو ہزار دس عیسوی کویوم محنت کشاں کے موقع پر ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
فن کی حقیقتفن کی قدر و قیمتفن ایک وسیلہ اور ذریعہافکار کی ترویج کا وسیلہفن کی عام خصوصیتفن، خداداد صلاحیت و استعدادفنکار کی ذمہ داریزمانے کے قدم سے قدم ملاکرفرض شناس فنانسانوں کے تعلق سے فرض شناسیفن کے تعلق سے احساس ذمہ داریمضمون کے سلسلے میں ذمہ داریفکر کے تعلق سے فرض شناسیہدف کے تعلق سے احساس ذمہ داریفن اور دیندینی فن کی تعریفدینی فن کی سمت و جہتقرآن، فنکارانہ شاہکارفن و سیاستفن کا سیاسی مقاصت کے لئے غلط استعمالفن سامراج کی خدمت میںفن اور معیشتفن اور معیشتفن کے بارے میں مادی سوچفن اور فنکار کا مقام فن کی حقیقتفن در حقیقت وہ کسی بھی قسم کا فن ہو، تحفہ الہی ہے۔ اگرچہ فن کے اظہار کی کیفیت فن کے سامنے آنے کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن یہی فن کی پوری حقیقت نہیں ہے۔ اظہار سے قبل فن کا احساس و ادراک وجود میں آتا ہے اور وہی اصلی نکتہ ہے۔ جب ایک ظرافت، ایک حقیقت اور ایک خوبصورتی کا ادراک کر لیا گيا تب فنکار بال سے بھی زیادہ باریک ان ہزاروں فنکارانہ نکات کے ذریعے کہ غیر فنکار انسان کے لئے جن میں سے ایک نکتے کا بھی ادراک ممکن نہیں ہے، اپنے فنکارانہ مزاج کے سہارے اور اپنے باطن میں جلوہ افروز شمع فن کی روشنی میں بعض ظرافتوں، باریکیوں اور حقائق کو منظر عام پر لاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں حقیقی فن کہ جو ایک ادراک، واردات قلبی، ایک انعکاس اور ایک اظہار ہے۔ ٹاپ فن کی قدر و قیمتفن کی قدر و منزلت پر سب سے پہلے اہل فن حضرات کی توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ اپنے وجود میں سمائے ہوئے اس بیش بہا خزینے کی قدر و قیمت پر توجہ دیں اور اس کا احترام کریں۔ احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسے صحیح اور شایان شان جگہ پر استعمال کریں۔ امام زین العابدین علیہ السلام ایک حدیث میں (انسانوں کو مخاطب کرکے) فرماتے ہیں کہ تمہارا انسانی وجود بیش بہا ترین چیز ہے۔ اس جنت کے سوا جس کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے کچھ اور تمہاری زندگی کا مناسب اجر اور بدلہ نہیں ہو سکتا۔ اسے بہشت پروردگار کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے نہ دو۔ فن اسی انسانی زندگی اور روح کا با ارزش ترین اور قابل فخر ترین پہلو ہے۔ اس کی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے اور اسے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے بروئے کار لانا چاہئے۔ اللہ کے لئے بروئے کار لانے کی بات سن کر ذہن ریاکاری کی جانب نہیں جانا چاہئے۔ ٹاپ فن ایک وسیلہ اور ذریعہآج دنیا میں جن لوگوں کے پاس اپنا کوئی پیغام ہے، خواہ وہ رحمانی پیغام ہو یا شیطانی پیغام، وہ (اپنے اس پیغام کو عام کرنے کے لئے) سب سے موثر ذریعہ جو اپناتے ہیں وہ فن کا ذریعہ اور راستہ ہے۔ دیگر فکری وسائل کے استعمال کی طرح فن کے استعمال میں بھی جو چیز سب سے اہم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ موقف اور رخ بالکل واضح، صحیح اور باریک بینی پر مبنی ہو، سمت و جہت کے تعین میں کوئی غلطی نہ ہونے پائے۔ آج دنیا میں فن کی مدد سے ناحق ترین باتوں کو عوام الناس کے ایک بڑے طبقے کے اذہان میں حق بات بنا کر اتار دیا جاتا ہے جو فن کے بغیر ممکن نہیں ہوتا، لیکن فن کی مدد سے اور فنکارانہ وسائل کے استعمال سے یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔ یہی سنیما ایک فنکارانہ ذریعہ ہے، یہ ٹیلی ویژن ایک فنکارانہ ذریعہ ہے۔ ایک باطل اور ناحق پیغام کو لوگوں کے ذہنوں میں حق بات کی حیثیت سے اتارنے کے لئے فن و ہنر کی گوناگوں روشوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ تو معلوم یہ ہوا کہ فن ایک ذریعہ ہے ایک بڑا با ارزش ذریعہ۔ یہ ہے تو ذریعہ اور وسیلہ لیکن بسا اوقات اس کی اہمیت ان چیزوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے جن کی منتقلی کا یہ ذریعہ ہے کیونکہ اس کے بغیر منتقلی کا یہ عمل انجام نہیں پا سکتا۔ ٹاپ افکار کی ترویج کا وسیلہفن کی زبان میں وہ تاثیر ہے جو کسی اور زبان میں ممکن نہیں ہے۔ نہ علم کی زبان میں، نہ معمولی زبان میں اور نہ وعظ و نصیحت کی زبان میں۔ کسی میں بھی فن کی زبان والی تاثیر نہیں ہے۔ فن کو خاص اہمیت دینا چاہئے، اسے روز بروز ارتقائی منزلوں پر پہنچانا چاہئے اور فن کی سب سے قابل فخر شکل کا انتخاب کرنا چاہئے۔ فن کا استعمال نہ کیا جائے تو کسی کے بھی ذہن میں آپ کی معمولی سی بات بھی اپنا مقام حاصل نہیں کر پائے گی۔ اس میں جذابیت اور کشش پیدا ہونا اور اس کا دائمی اور پائیدار ہو جانا تو خیر دور کی بات ہے۔ کسی بھی درست یا غلط نظرئے کی ترویج کا بہت اہم ذریعہ فن ہے۔ فن بہت اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے، بے حد اہم۔ فن اور اس کے ارتقاء کی بابت کبھی بھی کوئی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ فن کو گناہ اور انحراف اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کے مترادف نہیں سمجھنا چاہئے۔ فن تو خالق کی نمایاں ترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ یہ پروردگار کی بیش بہا صناعی کا ایک نمونہ ہے جس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام کاموں میں، حتی معمولی سی تبلیغ میں بھی آپ کو فن کا استعمال کرنا چاہئے۔ ٹاپ فن کی عام خصوصیتفن کی ایک عام خصوصیت یہ ہے کہ اس کا سہارا لینے والا شخص بہت سی چیزوں کی جانب ممکن ہے متوجہ نہ ہو اور مخاطب شخص بھی ہو سکتا ہے کہ بہت سے امور سے غافل ہو لیکن فن اس کے باوجود اپنا اثر مرتب کر دیتا ہے۔ شعر، مصوری، خوش الحانی اور فن کی دیگر اقسام مخاطب کے ذہن پر لا شعوری طور پر اثر ڈالتی ہیں، یعنی مخاطب شخص کو احساس بھی نہیں ہو پاتا اور فن اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ یہ بہترین تاثیر اور اثر انداز ہونے کا بہترین طریقہ ہے۔ اللہ تعالی نے اعلی و ارفع ترین مفاہیم کو بیان کرنا چاہا تو فصیح ترین طرز بیان یعنی قرآن کا انتخاب فرمایا۔ یہ ممکن تھا کہ اللہ تعالی دوسری معمولی باتوں کی طرح اسلامی تعلیمات کو بھی عام طرز بیان کے ذریعے پیش کر دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اللہ تعالی نے فصیح ترین اور پرکشش ترین پیرائے میں اسے قرار دیا۔ خود قرآن کہتا ہے کہ تم اس کے الفاظ جیسے الفاظ اور اس کی فنکارانہ ترکیب جیسی ترکیب نہیں لا سکتے اور اس کے مفاہیم کا تو خیر کہنا ہی کیا۔ٹاپ فن، خداداد صلاحیت و استعدادفن کوئی ایسی دولت نہیں ہے جو مشقتوں کے ذریعے اور پسینہ بہا کر حاصل کر لی جائے۔ اگر انسان کے اندر فنکارانہ استعداد نہ ہو تو وہ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے اس وادی میں ابتدائی چند قدم سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ یہ فنکارانہ استعداد فنکار کی محنت و مشقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خداداد شئے ہے۔ اللہ تعالی تمام نعمتیں انسانوں کو عطا کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا وسیلہ معاشرہ، ماں باپ، ماحول یا دیگر چیزیں ہوں۔ فنکار محنت کرتا ہے تاہم اس محنت اور بلند حوصلے کی نعمت بھی اسے اللہ تعالی سے ہی ملتی ہے۔ فنکار کو چاہئے کہ اپنے وجود کے اندر فن کے ارتقائی عمل کو جاری رکھے۔ ہر فنکار اپنے اندر ایک دنیا چھپائے ہوتا ہے اور یہ اس فن کی خصوصیت ہے جو اس کے وجود میں بسا ہوا ہے۔ اگر انسان کو فنکاروں کے دلوں کے اندر جھانکنے کا موقع ملے تو انہیں بڑی حیرت انگیز اور پر کشش وادی وہاں نظر آئے گی، غموں اور خوشیوں کا امتزاج اور تمناؤں، تشویشوں اور امنگوں کا آمیزہ۔ فن بڑا قیمتی گوہر ہے اور اس کی قیمت و ارزش کی وجہ یہ نہیں کہ دلوں اور نگاہوں کو جذب کر لیتا ہے کیونکہ بہت سی چیزیں ہیں جن کا فن سے تعلق نہیں ہے لیکن ان میں بھی نگاہوں اور دلوں کو جذب کر لینے کی خصوصیت ہوتی ہے، اس کی وجہ ہے فن کا عطیہ پروردگار اور موہبت الہی ہونا۔ ٹاپ فنکار کی ذمہ داریفن ایک بڑی قابل افتخار حقیقت کا نام ہے تو ظاہر ہے کہ اگر کسی کو دیگر ثروتوں کی مانند یہ دولت اللہ تعالی کی جانب سے عطا کر دی جائے تو اسے اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کا بھی احساس ہونا چاہئے۔ اللہ کی عطیات کے ہمراہ کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں ضروری نہیں کہ سب کی سب دینی اور شرعی باتیں ہوں، ان میں ایسی ذمہ داریاں بھی ہیں جن کا سرچشمہ خود انسان کا دل ہوتا ہے۔ انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں اور یہ ایسی نعمت ہے جو بعض افراد کو نہیں ملی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آنکھیں جہاں انسان کے لئے لذتیں اور آسانیاں فراہم کرتی ہیں وہیں انسان کے دوش پر کچھ فرائض بھی عائد کر دیتی ہیں۔ چو می بینی کہ نابینا و چاہ است یہ فریضہ ان آنکھوں کی وجہ سے ہے جو انسان کو دی گئی ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دین انسان کو حکم دے اور اس کے بارے میں لازمی طور پر قرآن کی کوئی آیت نازل ہو۔ اس چیز کا ادراک قلب انسانی خود ہی کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہوگا جو ایسے دولتمند انسان کی ملامت نہ کرے جو حاجتمندوں کی مدد نہ کرتا ہو بلکہ ان کا مذاق اڑاتا ہو۔ ممکن ہے کہ وہ دولت مند انسان یہ کہے کہ میں نے اپنی محنت سے یہ دولت کمائی ہے اور اس پر میرا حق ہے لیکن اس کی یہ بات قبول نہیں کی جاتی۔ یعنی جب بھی دولت، عطیہ اور کوئی الہی انعام ملتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ فرائض بھی عائد ہو جاتے ہیںـ ٹاپ زمانے کے قدم سے قدم ملاکرمجھے فلموں اور ڈراموں کے بارے میں معلومات نہیں ہے لیکن جہاں تک شعر اور ناول کا سوال ہے تو میں اس سے بے بہرہ نہیں ہوں۔ جو تصنیفات موجود ہیں ان میں سے میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ اگر آپ سویت یونین کے دور کے ادب پر نظر ڈالیں تو آپ کو اچانک محسوس ہوگا کہ بیچ میں ایک پردہ ہے، ایک حصار موجود ہے اور اس حصار کے دونوں طرف بڑے عظیم شاہکار موجود ہیں جن کا تعلق دونوں اطراف سے ہے۔ لیکن جب آپ شولوخف یا الیکسی ٹولسٹائے کی تصنیفات کو دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کا مذاق کچھ اور ہے۔ الیکسی ٹولسٹائے بہت بڑے قلمکار ہیں جنہوں نے بڑے اچھے ناول تخلیق کئے ہیں۔ وہ سویت یونین کے انقلاب کے مصنفین میں سے ہیں اور ان کی تصنیفات میں نئے دور کی جھلکیاں آپ کو ملیں گی۔ جبکہ لیو ٹالسٹائے کی کتاب میں آپ کو روسی قوم پرستی نظر آئے گی تاہم گزشتہ ساٹھ سالہ دور کی چیزیں آپ کو کہیں نظر نہیں آئيں گی۔ وہ کوئی الگ ہی دور ہے اور بنیادی طور پر اس کا تعلق کسی اور جگہ سے ہے۔ روس کی موجودہ ماہیت کو جو چیز منعکس کر سکے وہ کیا ہے؟ شولوخف اور الیکسی ٹولسٹائے جیسے مصنفین کی تصنیفات ہی میں آپ یہ چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ بنابریں ہر دور کا فنکار وہی ہے جس کا تعلق اس دور سے ہو اور جو اسی دور میں پلا بڑھا ہوا، اسی دور کا نتیجہ و ثمرہ ہو۔ جو افراد قدیم اور گزشتہ ادوار کی یاد میں قلم فرسائی کرتے ہیں ظاہر ہے ان کا تعلق ان ادوار سے تو نہیں ہے۔ میں اس سلسلے میں ایک مکمل نمونہ پیش کرنے کے لئے بہتر ہوگا کہ کسی ایک ناول کا نام بھی لوں۔ میں نے دل سگ نام کا ایک ناول پڑھا جو روسی مصنف کی تخلیق تھی۔ یہ ناول ایک تخیلی اور سائنسی داستان پر مبنی ہے لیکن یہ عصر حاضر کا فن نہیں ہے۔ یہ گزشتہ دور کی نقل ہے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ناولوں کی کاپی نہیں ہے لیکن بہرحال اکتوبر کے انقلاب سے پہلے کے دور کی نقل ضرور ہے۔ یہ موجودہ دور کا فن نہیں ہے۔ یہ بڑا چھوٹا سا ناول ہے لیکن بہت ماہرانہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ ایران میں بھی اس کا ترجمہ ہوا اور اشاعت بھی ہو چکی ہے ۔ دل سگ ناول انقلاب مخالف ناول ہے جو انیس سو پچیس یا انیس سو چھبیس میں یعنی روس میں آنے والے انقلاب کے اوائل میں لکھا گيا اور ناول نگار نے انقلاب اور کچھ کاموں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا ہے۔ مثلا یہی کام جن کی مثالیں ہم نے یہاں بھی دیکھی تھیں۔ یہ ناول روسی ادب کا جز ہرگز نہیں ہے۔ یہ ناول عالمی سطح پر شہرت پا سکتا تھا، یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سخت پہرا تھا اور اسٹالن کا دور تھا، ایسا بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ عالمی سطح پر نہیں آ سکا۔ کیوں عالمی سطح پر ایک شاہکار کی حیثیت سے اس کی پہچان قائم نہیں ہو سکی۔ جبکہ (میخائل شولوخف کے ناول) دن آرام کو دنیا میں بہت نمایاں مقام حاصل ہوا۔ صرف روس کی بات نہیں ہے، اس کا ترجمہ دنیا کی اہم زبانوں میں کیا گيا ہے، یہ (روس کے) انقلاب سے متعلق ادبی شاہکار ہے۔ ٹاپ فرض شناس فنانسانوں کے تعلق سے فرض شناسیبعض لوگ کہتے ہیں کہ فرض شناس فن کی ترکیب کے دونوں الفاظ میں باہم تضاد پایا جاتا ہے۔ فن یعنی وہ چیز جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ہو جبکہ فرض شناسی یعنی زنجیر۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہیں؟ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کے مسئلے کا تعلق فنکار سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس کے انسان ہونے سے ہے جو وہ فنکار بننے سے پہلے بھی تھا۔ کوئي بھی فنکار بہرحال ایک فنکار بننے سے قبل انسان ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان کی کوئي ذمہ داری سرے سے ہو ہی نہ۔ انسان کی سب سے پہلے دوسرے انسانوں کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جبکہ بعد کے مراحل میں زمین و آسمان اور قدرت کے سلسلے میں بھی اس کے فرائض ہوتے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری انسانوں کے تعلق سے ہوتی ہے۔ ٹاپفن کے تعلق سے احساس ذمہ داریفن کے پیرائے اور قالب کے سلسلے میں بھی اور اس کے مضمون کے سلسلے میں بھی فنکار کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ہے اسے نچلی سطح پر کبھی بھی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ فرض شناسی کا تقاضا ہے۔ محنت سے بھاگنے والا سست فنکار وہ فنکار جو اپنے فن کے ارتقاء کے لئے اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے سعی و کوشش نہیں کرتا وہ در حقیقت اپنے فن کے قالب و پیرائے کے سلسلے میں اپنی فنکارانہ ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ فنکار کو ہمیشہ محنت کرنی چاہئے۔ البتہ ممکن ہے کہ انسان اس مقام پر پہنچ جائے کہ اب اور آگے جانے کی گنجائش ہی باقی نہ ہو، اگر ایسی صورت ہو تو پھر کوئی بات نہیں ہے لیکن جب تک اگے بڑھنا ممکن ہے اسے چاہئے کہ اپنے فن کے پیرائے کے ارتقاء کے لئے محنت کرے۔ فن کے پیرائے کے سلسلے میں یہ فرض شناسی جوش و جذبے اور احساس ذمہ داری کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ ویسے یہ جوش و جذبہ بھی ایک طرح کی ذمہ داری ہی ہے، یہ ایک قوی عامل ہے جو انسان کو محنت کے لئے آمادہ کرتا ہے، اس کے اندر سستی اور راحت طلبی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ ٹاپمضمون کے سلسلے میں ذمہ داریاگر انسان محترم اور معزز ہے تو اس کا دل و ذہن اور فکر و نظر بھی معزز اور محترم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مخاطب کے سامنے کوئی بھی چیز پیش کر دی جائے صرف اس وجہ سے کہ وہ شخص سامنے بیٹھا فن کار کی باتیں سن رہا ہے۔ اس بات پر توجہ ہونا ضروری ہے کہ فنکار اپنے مخاطب کو کیا دینے جا رہا ہے۔ بر محل کلام، اخلاق اور فضائل کا جز ہے۔ میں نے غالبا رومن رولینڈ (فرانسیسی مصنف 26 جنوری 1866- 30 دسمبر 1944) کا یہ جملہ پڑھا ہے کہ فنکارانہ تخلیق میں ایک فیصد فن اور ننانوے فیصد اخلاق ہوتا ہے یا احتیاط کے طور پر یہ کہنا چاہئے کہ اس میں دس فیصدی فن اور نوے فیصدی اخلاق ہوتا ہے۔ مجھے لگا کہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ سو فیصدی فن اور سو فیصدی اخلاق۔ ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ فنکارانہ شاہکار کو سو فیصدی فنکارانہ خلاقیت کے ذریعے انجام دینا چاہئے اور اسے سو فیصدی اعلی، با فضیلت اور مایہ پیشرفت مضمون سے پر کر دینا چاہئے۔ فن کے میدان میں ہمدرد انسانوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ فکر اور تشویش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فنکار فن اور تخیل کی آزادی کے بہانے اخلاقیات کی حدود کو نظر انداز نہ کر دے۔ یہ بے حد اہم چیز ہے۔ بنابریں فرض شناس فن کی ترکیب بالکل درست اور صحیح ہے۔ ٹاپ فکر کے تعلق سے فرض شناسیفنکار کو چاہئے کہ خود کو ایک حقیقت کا پابند سمجھے۔ یہ بات کہ فنکار فکر و نظر کی کس سطح پر ہے اور وہ حقیقت کو کامل طور پر یا محدود سطح پر سمجھ سکتا ہے، ایک الگ بات ہے، البتہ ادراک اور فہم و فراست کی سطح جتنی اونچی ہوگی فنکار اپنے فنکارانہ ادراک کی ظرافت میں اتنی ہی کشش پیدا کر سکتا ہے۔ حافظ ( ساتویں صدی ہجری کے عدیم المثال ایرانی شاعر) صرف ایک فنکار نہیں تھے۔ ان کی باتوں میں بڑی اعلی تعلیمات اور معارف بھی موجود ہیں۔ یہی نہیں ان کے پاس ایک بڑا فلسفیانہ اور فکری ذخیرہ موجود ہے۔ فنکارانہ ادراک اور پھر اس کے انعکاس کے عمل کے پیچھے اعلی افکار کا سرچشمہ اور ذخیرہ ہونا چاہئے۔ البتہ سارے لوگ اس سلسلے میں ایک جیسے نہیں ہیں، اور اس کی توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ چیز فن کے تمام شعبوں پر صادق آتی ہے۔ آپ معماری سے لیکر مصوری، ڈیزائننگ، مجسمہ سازی، فلم، ڈرامے، شعر، موسیقی اور فن کے دیگر میدانوں تک دیکھئے یہی صورت حال ہر جگہ نظر آئے گی۔ آپ کو ایسا بھی معمار نظر آ جائے گا جس کے پاس اپنی ایک فکر ہے جبکہ ایسا معمار بھی ہو سکتا ہے جو فکر و نظر کے لحاظ سے ممکن ہے کہ خالی الذہن ہو اس پاس کوئی فکری سرمایہ نہ ہو۔ یہ دونوں اگر تعمیراتی کام کرنا چاہیں تو دو طرح کی ڈیزائنیں بنیں گی۔ اگر اس طرح کے دو لوگوں کو ایک شہر آباد کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جائے تو اس کا ایک نصف حصہ دوسرے نصف حصے سے مکمل طور پر الگ ہوگا۔ ٹاپ ہدف کے تعلق سے احساس ذمہ داریفرض شناس اور اصولوں کا پابند فن ایک حقیقت ہے جس کا اقرار کرنا چاہئے۔ تو ہر روز بدلنے والی ذہنیت، پست اور غلط سوچ کے ساتھ یا غفلت کے عالم میں فن کی جانب نہیں بڑھا جا سکتا اور اس میدان میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ جو مسرت و نشاط فن کار کے اندر ہونی چاہئے وہ اسی صورت میں حقیقی معنی میں پیدا ہوگی جب فنکار کو بخوبی علم و ادراک ہو جائے کہ وہ کس سمت میں بڑھ رہا ہے ، کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ہی اس میں اپنے فن کے تعلق سے خاص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے اور وہ فنکارانہ کام انجام دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فنکار کے اندر مخصوص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے جس کا عام خوشیوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اور یہ چیز غیر فنکار شخص میں ہرگز پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اخلاقیات، دینی معارف اور فضائل پر پوری توجہ دی جائے۔ ٹاپفن اور دیندینی فن کی تعریفدینی فن سے مراد وہ فن ہے جو دینی تعلیمات کو مجسم کر دے اور بلا شبہ ادیان الہی میں دین اسلام اعلی ترین تعلیمات اور معارف کا حامل دین ہے۔ یہ تعلیمات وہی چیزیں ہیں جو انسان کی سعادت و خوشبختی، انسان کے معنوی و روحانی حقوق، انسان کی سربلندی، بندے کے تقوا و پرہیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و مساوات کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ دینی فن کو رجعت پسندانہ فن نہیں سمجھنا چاہئے۔ دینی فن سے مراد، ریاکاری اور دکھاوا ہرگز نہیں ہے اور یہ فن ضروری نہیں ہے کہ دینی الفاظ پر ہی مبنی ہو۔ عین ممکن ہے کہ ایک فن سو فیصدی دینی فن ہو لیکن اس میں عرف عام میں رائج اور دینی الفاظ سے ہٹ کر کلمات کا استعمال کیا گيا ہو۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ دینی فن لازمی طور پر وہی ہے جس میں کوئی دینی داستان منعکس کی گئی ہو یا علماء اور دینی طلبا جیسے کسی دینی موضوع پر بات کی گئی ہو۔ دینی فن وہ ہے جو ان تعلیمات کی ترویج میں، جنہیں تمام ادیان بالخصوص دین اسلام نے انسانوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کی ہے اور جن کی ترویج کی راہ میں بڑی پاکیزہ جانیں قربان کی گئی ہیں، مددگار بنے، انہیں دوام بخشے اور لوگوں کے ذہنوں میں اتار دے۔ یہ تعلیمات اعلی دینی تعلیمات ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانی زندگی میں عام کرنے کے لئے اللہ تعالی کے پیغمبروں نے بڑی مشقتیں کی ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم یہاں بیٹھ کر دنیا کے منتخب انسانوں یعنی پیغمبروں اور مجاہدین راہ خدا کی مساعی اور جانفشانی پر سوالیہ نشان لگائیں اور ان کے سلسلے میں لا تعلق بن جائیں۔ دینی فن ان تعلیمات کو عام کرتا ہے، دینی فن عدل و انصاف کو معاشرے میں اقدار کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ خواہ آپ نے اپنے اس فن میں کہیں بھی دین کا نام بھی نہ لیا ہو اور عدل و انصاف کے سلسلے میں کوئی حدیث اور کوئی آیت نقل نہ کی ہو۔ ضروری نہیں ہے کہ فلم یا ڈرامے کے ڈائيلاگ میں دین یا دین کے مظہر کا درجہ رکھنے والی چیزوں کا نام لیا جائے تبھی اس میں دینی رنگ پیدا ہوگا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، آپ ممکن ہے کہ اداکاری کے ذریعے عدل و انصاف کی بات موثر ترین انداز میں پیش کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو در حقیقت دینی فن پر آپ نے توجہ دی ہے۔ ٹاپ دینی فن کی سمت و جہتبعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ فن سے مراد ہے بے دینی اور لاابالی پن، یہ غلط ہے۔ دینی فن میں جس چیز پر پوری گہرائی کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن شہوت پرستی، تشدد اور انسان اور معاشرے کے تشخص کی تباہی پر منتج نہ ہو۔ فن انسان کے اندر خالق یکتا کی صناعی کا ایک پر کشش جلوہ ہے۔ فن کے سلسلے میں قابل اعتراض بات جس پر ہمیشہ اہل بصیرت نے روک لگائی ہے، اس کا غلط سمت میں جانا ہے۔ فن کو اگر انسانوں کو بہکانے اور غیر اخلاقی حرکتوں میں مبتلا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو بری بات ہے۔ ورنہ اگر فن دینی جذبے کے ساتھ اور دینی سمت میں آگے بڑھے تو یہ وجود انسانی کی نمایاں ترین خوبیوں اور خصوصیتوں میں قرار پائے گاـ ٹاپ قرآن، فنکارانہ شاہکارپیغمبر اسلام نے اپنے پیغام کو پیش کرنے کے لئے تمام وسائل حتی فن کو استعمال کیا۔ وہ بھی اس کے بلند ترین اور افتخار آمیز پیرائے یعنی قرآن کی شکل میں۔ قرآن کی کامیابی کا ایک بڑا راز اس کا فنکارانہ انداز ہے۔ قرآن فن کی بلند ترین منزل پر فائز ہے، بالکل غیر معمولی درجے پر۔ واقعی قرآن میں بڑا عجیب فن موجود ہے جو انسان کے لئے قابل تصور نہیں ہے۔ اگر انسان قرآن کو شروع سے آخر تک اور اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کو بغور دیکھے تو محسوس کرے گا کہ اس میں شرک و بت و شیطان کی دشمنی اور وحدانیت موجزن ہے۔ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھتے اور فن کی زبان استعمال نہ کرتے تو ممکن تھا کہ کچھ لوگ آپ کے گرویدہ بن جاتے لیکن وہ بجلی اور وہ طوفان ہرگز وجود میں نہ آ پاتا۔ یہ کام فن نے کیا۔ فنکارانہ تخلیقات ایسی ہوتی ہیں۔ ٹاپ فن و سیاستفن کا سیاسی مقاصت کے لئے غلط استعمالآج کے دور میں سیاست فن کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ایسا نہیں ہے تو بلا شبہ ہم حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں۔ آج ہی استعمال نہیں کر رہی ہے، سیاست ماضی میں بھی اسے استعمال کرتی آئی ہے۔ اس سے قبل اٹھائیس مرداد (سن تیرہ سو بتیس ہجری شمسی مطابق انیس اگست انیس سو ترپن عیسوی میں ایران کی ڈاکٹر مصدق کی منتخب قانونی حکومت کے خلاف) ہونے والی بغاوت کے سلسلے میں امریکا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کی جانے والی دستاویزات کا ترجمہ کرکے مجھے دیا گيا۔ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو میری عمر بہت کم تھی، چودہ پندرہ سال کا تھا میں اور بہت کم ہی باتیں مجھے یاد ہیں لیکن لوگوں سے میں نے بہت سنا اور تحریروں میں پڑھا تھا تاہم اتنی تفصیل کہیں اور نہیں دیکھنے کو ملی تھی۔ یہ دستاویز خود ان افراد نے جو اس واقعے میں ملوث تھے تیار کی اور امریکی وزارت خارجہ اور سی آئی اے کو بھیجی تھی۔ یہ دستاویزات امریکیوں کی تھیں۔ ویسے پورا آپریشن امریکا اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر انجام دیا جسے اس رپورٹ میں مکمل طور پر بیان بھی کیا گیا ہے۔ اس کی جو بات میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیم روزولٹ کہتا ہے کہ جب ہم تہران آئے تو ہمارے پاس مقالوں کا ایک صندوق تھا۔ ان مقالوں کو ترجمہ کرکے اخبارات میں شائع کروانا تھا۔ ہم اپنے ساتھ کارٹون بھی لائے تھے۔ آپ ذرا غور تو کیجئے کہ امریکی (خفیہ ایجنسی) سی آئی اے نے اس حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے، جو امریکیوں کو پسند نہیں تھی اور جو ان کے مفادات کی تکمیل کے لئے آمادہ نہیں تھی، ایسی حکومت تھی جو عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اور پہلوی دور کی دیگر حکومتوں کے بر خلاف یہ حکومت قوم پرست تھی جو عوام کے ووٹوں سے قانونی طور پر تشکیل پائی تھی، ( سی آئی اے) نے اس بہانے کہ کہیں یہ حکومت سویت یونین کی گود میں نہ چلی جائے اس کے خلاف تمام حربوں منجملہ فن کا استعمال کیا۔ البتہ اس زمانے میں ایسے کارٹونسٹ نہیں تھے جن سے ان کا کام نکلتا اور جن پر وہ (امریکی) اعتماد کر سکتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ کارٹون بھی لیکر آئے تھے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے سی آئی اے کے شعبہ فن سے ان چیزوں کو تیار کرنے کی درخواست کی۔ اطالویوں نے بھی چند سال قبل ایک کتاب شائع کی جس کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔ اس میں بھی سی آئی اے کے شعبہ فن اور اس کی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا گيا ہے۔ سیاست اس طرح فن سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ٹاپ فن سامراج کی خدمت میںافسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے دشمن، ایران کے دشمن ، ہمارے عز و شرف کے دشمن فن کا غلط استعمال کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ شعر، مصوری، افسانے، فلم، ڈرامے اور فن کی دیگر قسموں کو حقائق کو مٹانے، فضائل کو نابود کرنے، روحانی و اسلامی صفات کو ختم کرنے، مادہ پرستی اور مادی عیش و عشرت کی جانب دھکیلنے کے لئے استعمال کیا گيا۔ فلم ایک بیحد پیشرفتہ اور ماڈرن فن ہے۔ آج دنیا کے سب سے نمایاں اور با استعداد فنکار ہالیوڈ میں موجود ہیں۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ ہالیوڈ کس چیز کی خدمت کر رہا ہے، کس انسان کی خدمت کر رہا ہے، کس فکر و نظر کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ فحاشی کی ترویج، بے ہدف زندگی کی ترویج، شناخت اور تشخص سے دوری کی ترویج، تشدد کی ترویج اور قوموں کو ایک دوسرے سے الجھانے کے لئے اس کا استعمال ہو رہا ہے تاکہ متمول طبقہ بے فکری کی زندگی بسر کر سکے۔ یہ عظیم فلمی صنعت، جس میں درجنوں فلم ساز کمپنیاں، فنکار، ہدایت کار، اداکار، افسانہ نگار، فلمی دنیا کے قلم کار اور سرمایہ کار جمع ہیں، کچھ مخصوص اہداف کی خدمت کی سمت بڑھ رہی ہے۔ وہ ہدف ہے سامراجی سیاست کا ہدف۔ یہی سیاست امریکی حکومت کو چلا رہی ہے۔ یہ چھوٹی باتیں نہیں ہیں۔ کہتے تو بہت ہیں کہ فن کو سیاست اور سیاسی موقف سے آزاد رکھا جانا چاہئے لیکن خود ان کا عمل اور کردار اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا کی سامراجی طاقتوں نے، فن، فلم، شعر، تصنیف، دماغی صلاحیت، استدلال اور فلسفے کو سامراجی اہداف کی تکمیل اور لوٹ مار کے لئے مختص کر دیا ہے۔ یہی چیز جو آج دنیا میں سرمایہ داری کا مظہر ہے اس کی فوجی طاقت امریکا ہے، اس کی اقتصادی طاقت امریکی حکومت کی پشت پر کھڑی کمپنیاں ہیں۔ وہ لوگوں کے سامنے آئیڈیل رکھنے کے لئے تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہیں جبکہ قومیں خالی ہاتھ ہیں ان کے پاس اپنے آئیڈیل نہیں ہیں جنہیں وہ مقابلے پر لا سکیں اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ ٹاپ فن اور معیشتفن اور معیشتمعیار زندگی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو خود فنکاروں کی زندگی کوئی بہت اچھی نہیں ہے جبکہ بہت سے مواقع پر ان کی زندگی اطمینان بخش حالت میں بھی نہیں ہے۔ جو لوگ شعبہ فن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اگر وہ بعض چیزوں کے پابند ہوں تو مالی منفعت حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد کی مدد کرنا ضروری ہے۔ اگر ان کی مدد نہ کی گئي تو وہ ہر اس چیز کا رخ کریں گے جس سے کمائی کی جا سکتی ہو جو ان کے اخراجات پورے کرے۔ یہ چیز ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ فلمی دنیا میں شہوت پرستی، جنسیات اور ان جیسی دیگر باتوں کے آ جانے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ فنکار کو نوجوانوں کے دلوں اور ذہنوں میں ایسی چیز نہیں اتارنی چاہئے جو اسے گناہ اور بد عنوانی کی سمت لے جائے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کسی موضوع میں فکر و نظر کو انتخاب کے لئے آزاد چھوڑ دینا کہا جاتا ہے۔ جذباتی مسائل میں کسی کو انتخاب کا موقع کہاں ملتا ہے۔ ان میں تو انسان انتخاب کی طاقت ہاتھ سے دیکر کسی ایک سمت میں کھنچا چلا جاتا ہے۔ حالات ایسے ہونے چاہئے کہ فنکار بغیر کسی اجبار و اکراہ کے خریدار تلاش کرنے کی مجبوری کے بغیر اپنے فن کو پیش کرے تاکہ فن اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔ ٹاپ فن کے بارے میں مادی سوچدنیا میں معنوی و روحانی دولت اور سرمائے کے سلسلے میں مادی سوچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روحانی و معنوی دولت کو اس معیار پر تولا جاتا ہے کہ اس سے کتنی رقم حاصل ہوگی۔ یہ فن اور یہ علم کس حد تک پیسے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسلام میں یہ معیار نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ علم و فن اور دیگر معنوی ثروتوں سے پیسہ کمانے میں کوئی مضائقہ ہو۔ نہیں، علم تو زندگی میں رفاہ لانے کا ذریعہ ہے، اس میں کوئي حرج نیں ہے لیکن اس سے قطع نظر خود یہ معنوی دولت بھی اسلام کے نقطہ نگا سے اپنے آپ میں بہت قیمتی شئے ہے۔ یعنی یہ فنکار خواہ اس کے فن کو کوئی نہ پہچانتا ہو اور اس کے فن سے کسی کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہے لیکن پھر بھی اس فن کا موجود ہونا ہی اپنے آپ میں اسلامی اور روحانی نقطہ نگاہ سے بہت با ارزش بات ہے۔ ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں وسائل کی کمی اور تجربے کے فقدان کی وجہ سے علم، تحقیق، فن یا اسی جیسے دیگر معنوی سرمائے کی مادی قیمت نہ دی جا سکے، خود ہمارے معاشرے میں یقینا یہ صورت حال ہے اور دنیا کے بہت سے علاقوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے لیکن یہ اس بات کا باعث نہ بننے پائے کہ علم و فن کے ابلتے چشمے رک جائيں۔ ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج وزیر داخلہ اور پولیس فورس کے اعلی افسران اور اہلکاروں سے ملاقات میں مسلح فورسز کے درمیان محکمہ پولیس کے فرائض کو بے حد حساس، سنگین اور ساتھ ہی ساتھ بہت نازک قرار دیا اور فرمایا کہ پولیس فورس کو چاہئے کہ اپنی ہیبت کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کے ساتھ اپنی انسیت اور قربت کو بھی بنائے رکھے اور ان دونوں اہم خصوصیات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے دینا چاہئےـ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج تہران میں ملک کی نرسوں کے ایک اجتماع سے خطاب میں بیماروں کی جسمانی اور ذہنی صحت و سلامتی کے سلسلے میں نرسوں کے اہم کردار کی قدردانی کرتے ہوئے نواسی رسول حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو پوری تاریخ میں انسانیت کے لئے نمونہ عمل اور اسلامی انقلاب کے مختلف مراحل میں ملت ایران کے لئے اسوہ حسنہ قرار د یا۔
نوجوانی کی اہمیتنوجوانی کے دور پر خاص توجہاسلام میں نوجوانوں کی محوریتقوموں کی ترقی کا سرمایہنوجوانوں کی قابل تحسین خصوصیاتنوجوان اور اعلی عہدہ داروں کی ذمہ دارینوجوانوں کی سماجی ذمہ داریاں ہمہ جہتی خود سازیآگاہانہ احساس ذمہ داریمعاشرے کے سلسلے میں نوجوانوں کی حساسیتتدبر اور غور و فکر کی عادتنوجوان نسل کی راہ کے چیلنج اور مشکلاتنوجوان کی شخصی و ذاتی فکریںروحانیت و معنویت کی فکرتشخص اور استعداد کا انکشافنوجوان سے مدلل گفتگوجنسیاتی پہلوثقافتی یلغارسستی اور آرام طلبیخود فراموشیمسلمان نوجوانوں کی مصیبتگناہ و معصیت سے دورینوجوانوں کی ترقی کا رازبیکراں ذخیرہتوکل بر خداجذبہ خود اعتمادی کی تقویتعلمی مساعیوقت کا بھرپور استعمالنوجوانوں کے گوناگوں سوالات اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے جواباتنوجوانی کے ایام میں آپ کے آئیڈیل کون لوگ تھے؟آپ نے اپنا نوجوانی کا دور کیسے گزارا؟نوجوانی کے ایام میں آپ کی تفریحی سرگرمیاں کیا تھیں؟آپ کی نظر میں ایک مسلم نوجوان کی خصوصیات کیا ہیں؟ ایک نوجوان کس طرح زندگی کے سفر کو پورا کرکے اپنے اہداف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟نوجوان اپنے ہیجانی جذبے کو کیسے تسکین دے اور کیسے اس سے استفادہ کرے؟نوجوانوں سے مل کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے اور آپ ان سے سب سے پہلی بات جو کہنا چاہتے ہیں وہ کیا ہے؟گوناگوں سماجی اور سیاسی امور میں موقف کی نوعیت سلسلے میں نوجوانوں کے لئے آپ کی سفارش کیا ہے؟ ایران اور پیشرفتہ ممالک کے درمیان موجود فاصلے کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ نوجوان اور نوجوانی نوجوانی کی اہمیتنوجوانی کے دور پر خاص توجہنوجوانی ہر انسان کی زندگی کی ایک درخشاں حقیقت اور بے بدل اور عدیم المثال باب ہے۔ جس ملک میں بھی نوجوانوں کے مسائل پر کما حقہ توجہ دی جائے گی وہ ملک ترقی کی راہ میں بڑی کامیابیاں حاصل کرے گا۔ یہ نوجوانی، یہ ضوفشاں دور وہ دور ہے کہ جو اپنی کم طوالت کے باوجود انسان کی پوری زندگی پر طویل المیعاد اور دائمی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس طرح نوجوانوں کے جسم انرجی اور شادابی کی آماجگاہ ہوتے ہیں ان کی روح بھی اسی طرح شاداب ہوتی ہے۔ اس متنفس کو اس کی فکری توانائی، اس کی عقلی صلاحیت، اس کی جسمانی طاقت، اس کی اعصابی قوت اور اس کے ناشناختہ پہلوؤں کے ساتھ اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے تاکہ وہ ان قدرتی نعمتوں اور اس مادی دنیا کو وسیلے کے طور پر استعمال کرے اور خود کو قرب الہی کے بلند مقامات پر پہنچائے۔ ٹاپ اسلام میں نوجوانوں کی محوریتپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوجوانوں کے بارے میں بڑی سفارشات کی ہیں۔ آپ نوجوانوں کے ساتھ بہت مانوس تھے اور آپ نے کارہائے بزرگ کی انجام دہی میں نوجوانوں کی طاقت سے استفادہ کیا۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکے میں اپنی نوجوانی کے ایام میں فداکار، با ہوش فعال اور پیش قدم نوجوان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ پر خطر میدانوں میں سینہ سپر ہو جاتے تھے اور دشوار ترین کام اپنے ذمے لے لیتے تھے۔ آپ نے اپنی فداکاری و جاں نثاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ ہجرت کی راہ ہموار کی، اس کے بعد آپ مدینہ منورہ میں بھی فوج کے سپہ سالار، فعال دستوں کے قائد، عالم، دانشمند، سخی اور شجاع انسان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ میدان جنگ میں آپ پیش قدم سردار لشکر اور جانباز سپاہی تھے، حکومتی اور انتظامی امور میں آپ ایک مدبر انسان تھے، سماجی امور میں آپ ہر لحاظ سے پیش پیش رہنے والے شخص تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دس سال اور چند مہینوں کی حکومت میں صرف علی علیہ السلام کی با عظمت ذات سے ہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر نوجوانوں سے بھرپور استفادہ کیا۔ٹاپ قوموں کی ترقی کا سرمایہایران میں نوجوانوں کی تعداد اور ملک میں ان کی آبادی کا تناسب بڑا حیرت انگیز ہے۔ اس وقت ایران کی نصف سے زیادہ آبادی تیس سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایک بے مثال حقیقت یہ ہے کہ جو ملک دنیا کے نوجوان ترین ممالک میں ہے وہ دنیا کے عظیم ترین، جوان ترین انقلاب اور خود مختار ترین سیاسی نظام کا حامل ہے۔ یہ توارد حیرت انگیز توارد ہے۔ یہ عظیم نوجوان آبادی کسی ایسے ملک میں زندگی بسر نہیں کر رہی ہے کہ جس کا سیاسی نظام امریکا یا دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں یا کثیر القومی کمپنیوں یا کسی غیر ملک کی سیاست کا تابع ہو، وہ ایسے ملک میں سانس لے رہی ہے کہ جس کا سیاسی نظام نوجوانوں پر خاص توجہ دیتا ہے۔ نوجوان کو خود مختاری سے رغبت ہوتی ہے، نوجوان کی فطرت یہ ہے کہ سر اٹھا کے چلنا چاہتا ہے، کسی کا اسیر اور تابع نہیں رہنا چاہتا۔ آج ملک ایران کا سیاسی نظام ایسا نظام ہے جو سر اٹھا کے کھڑا ہے، اس نے کسی کے بھی سامنے سر جھکایا نہیں ہے اور ان کئی برسوں کے عرصے میں کبھی بھی اس نے امریکا کی توپوں اور ٹینکوں نیز گوناگوں خطرات سے اپنے اندر خوف و ہراس اور پس و پیش کی کیفیت کو راہ نہیں دی ہے۔ ایران کے پاس ایک نیا اور جواں سال انقلاب ہے لہذا وہ درست منصوبہ بندی کے تحت برق رفتاری سے خود سازی اور پیشرفت کرنا چاہتا ہے تاکہ دشمنوں کی زبانوں پر تالے لگا دے اور علمی و عملی دونوں لحاظ سے ہر میدان میں اپنی موجودگی اور اہمیت کا لوہا سب سے منوا لے۔ جس ملک کی آبادی کا نصف حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہو اور نوجوانوں کے نئے قافلے یکے بعد دیگر مسلسل وارد میدان ہو رہے ہوں وہاں یہ چیز عین ممکن ہے۔ اس سلسلے میں مستقبل بالکل واضح اور عیاں ہے۔ٹاپ نوجوانوں کی قابل تحسین خصوصیاتنوجوان حق بات کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے، یہ بہت اہم ہے۔ نوجوان پوری صداقت کے ساتھ واضح الفاظ میں اپنا اعتراض بیان کرتا ہے اور بغیر کسی اندرونی جھجک اور پس و پیش کے بے فکری کے ساتھ اقدام کرتا ہے۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے۔ آسانی سے بات کا قبول کرنا، سچائی کے ساتھ اپنا اعتراض بیان کر دینا اور بے فکری کے ساتھ عمل کرنا۔ اگر آپ ان تینوں خصوصیات کو ایک ساتھ رکھئے اور غور کیجئے تو آپ کو بڑی خوبصورت اور دلکش حقیقت نظر آئے گی، آپ کو معلوم ہوگا کہ مسائل کے حل کی کتنی اہم کنجی آپ کو مل گئی ہے۔ نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند ہوتا ہے۔ فطری طور پر عدل و انصاف کا خواہاں ہوتا ہے، قانونی آزادی اور اسلامی امنگوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اسلامی اہداف اور مقاصد اس کے اندر ہیجانی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں، اس کے اندر جوش و جذبہ پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کے ذہن میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جو تصویر ہے وہ اسے ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مقائسے اور موازنے کے ذریعے چیزوں کی خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی اور بالکل نمایاں خصوصیت ہے۔ نوجوانی کے قابل تعریف خصائص میں، توانائی، قدرت، جدت عمل اور جوش و جذبہ ہے۔ کیا نوجوان کی یہ خصوصیات اکتسابی ہیں یعنی کیا اس نے یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں؟ نہیں، انصاف پسندی، جوش و جذبہ، بلند ہمتی یہ خصوصیات جو نوجوان میں پائی جاتی ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ اس نے ان کے لئے خاص محنت کی ہو۔ یہ تو اس کی زندگی اور اس کی عمر کے اس مرحلے کا فطری تقاضا ہے۔ بنابریں یہ عطیات ہیں، تو ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں کچھ فرائض بھی ہوں گے جنہیں پورا کیا جانا چاہئے۔ ٹاپ نوجوان اور اعلی عہدہ داروں کی ذمہ دارییہ صرف ماں باپ ہی نہیں ہیں جو جوانوں کے ذمہ دار ہیں۔ تعلیمی عہدہ داروں، سیاسی حکام، معاشی منصوبہ سازوں، سب کو ان افراد میں شمار کیا جاتا ہے جو ملک کے نوجوانوں کے ذمہ دار کہلاتے ہیں۔ ملک کے نوجوان، حکام کی اولادوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر حکام اور نوجوان طبقے پر پدرانہ اور فرزندانہ جذبہ محیط ہو جائے جو نوجوانوں کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض مشکلات ایسی ہوں جو قلیل مدت میں حل نہ کی سکیں لیکن نوجوان نسل اور نوجوان طبقے کی اطلاعات میں اضافہ کرنا اور ان سے مدد حاصل کرنا وہ طریقے ہیں جن سے اس صورت حال کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ ملک کی عظیم نوجوان نسل ایک فیاض اور متلاطم دریا کی مانند ہے۔ یہ دریا مسلسل بہہ رہا ہے اور برسوں بعد بھی اسی طرح بہتا رہے گا۔ اس دریا کے سلسلے میں دو طرح کا طرز عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک کے حکام، دانشمندانہ، عاقلانہ اور عالمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے اس دریا کی اہمیت و افادیت کو پہچانیں، دوسرے مرحلے میں ان جگہوں اور مراکز کی نشاندہی کریں جنہیں اس دریا کے پانی کی ضرورت ہے، تیسرے مرحلے میں منصوبہ بندی اور پانی کی سپلائي کا نیٹ ورک تیار کریں اور پھر پانی کو جہاں جہاں ضرورت ہے، پہنچائیں۔ یہ کر لیا گيا تو ہزاروں باغ اور لالہ زار چمن اس لا محدود نعمت الہی سے بہرہ مند ہوں گے اور بے آب و گياہ خطوں میں شادابی دوڑ جائے گی۔ اس دریائے متلاطم کے پانی کو انرجی پیدا کرنے والے ڈیم تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے اور اس طرح انرجی کا ایک عظیم سرچشمہ تیار کیا جا سکتا ہے اور پورے ملک کو فعالیت اور سعی و کوشش کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے تو یہ نعمت ثمر بخش اور بارآور بن جائے گی جس پر اگر معاشرے کا ہر ایک فرد روزانہ سیکڑوں بار سجدہ شکر بجا لائے تو بھی کم ہے۔ اس طرح کے طرز عمل کا لازمہ ہے منصوبہ بندی کرنا، رہنمائی کرنا، راستوں اور میدانوں کو کھولنا، احتیاجات کو متعین کرنا اور اس گراں بہا پونجی اور اس ہدیہ الہی کو ضرورت کی جگہ پر رکھنا ہے۔ جس کا نتیجہ شادابی، تازگي، تعمیر و ترقی، جوش و جذبے اور برکت و رحمت کی شکل میں نکلے گا۔ دوسرا طرز عمل یہ ہے کہ حکام اس موجزن اور فیض رساں دریا کو اس کی حالت پر چھوڑ دیں، اس کے بارے میں کوئی فکر کرنے کی زحمت نہ کریں، اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ کریں اور اس کی قدر و قیمت نہ سمجھیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف کھیتیاں سوکھ جائیں گی اور باغ اجڑ جائیں گے بلکہ خود یہ پانی بھی ضائع ہوگا۔ اس صورت حال میں اس پانی کا بہتر انجام یہی ہو سکتا ہے کہ وہ سمندر کے کھارے پانی میں مل کر ضائع ہو جائے، یا پھر دلدل یا ایسے مرکز میں تبدیل ہو جائے جو انواع و اقسام کی آفات و بلیات کی جڑ شمار کئے جاتے ہیں، بد ترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک سیلاب کا روپ اختیار کرکے قوم کی ساری جمع پونجی کو مٹا دے۔ اگر منصوبہ بندی نہ ہوئی اور محنت سے کام نہ کیا گيا تو یہی نتائج نکلیں گے۔ ٹاپ نوجوانوں کی سماجی ذمہ داریاںہمہ جہتی خود سازیعلمی، اخلاقی اور جسمانی خود سازی وہ توقعات ہیں جو نوجوانوں سے کی جا سکتی ہیں اور خود نوجوانوں کو بھی اس خود سازی کی احتیاج ہے۔ نوجوان کو چاہئے کہ خود فیصلہ کرے اور اپنی زمین پر اپنی پسند کا بیج بوئے، اپنی ثقافتی دولت اور جمع پونجی سے استفادہ کرے، اپنے ارادے کو بروئے کار لائے، اپنی شخصیت اور اپنی خود مختاری کو اہمیت دے۔ دوسروں کی تقلید اور اغیار کے آئیڈیل کی نقل نہ کرے۔ نوجوانوں کو تقلید کا اسیر نہیں ہونا چاہئے۔ جس روش اور جس راہ پر چل کر ان کا ذہن، ان کا ارادہ اور جذبہ ایمانی تقویت پاتا ہو اور جس پر چل کر وہ اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہو سکتے ہوں اسی راستے کے بارے میں انہیں فکر کرنا چاہئے۔ ایسی صورت میں نوجوان اس ستون میں تبدیل ہو جائے گا جس پر ملک کی تمدنی زندگی اور اس قوم کی حقیقی تہذیب کا تکیہ ہے۔ٹاپ آگاہانہ احساس ذمہ دارینوجوانوں کے لئے جو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ان میں ایک آگاہانہ احساس ذمہ داری ہے۔ نوجوان میں توانائی اور انرجی بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ حساس بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ احساس ذمہ داری سے مراد یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، معیشت، روزگار، شادی بیاہ اور اپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کی فکر میں رہتا ہے، ان اہداف و مقاصد کے لئے بھی فکرمند رہے جو اس کی ذاتی زندگی سے بالاتر ہیں، وہ اہداف جو صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک گروہ ، ایک قوم ، تاریخ اور تمام انسانیت سے متعلق ہیں۔ انسان کے اندر ان اہداف کے تعلق سے بھی احساس ذمہ داری، فرض شناسی اور پابندی ہونا چاہئے۔ کوئي بھی انسان اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک سعادت و خوشبختی کی بلند چوٹیوں پر نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کے اندر یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی پیدا نہ ہو جائے۔ یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی آگاہانہ انداز میں ہونی چاہئے، انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کس ہدف و مقصد کی جانب بڑھ رہا ہے اور راستے میں کون سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ اسی کو آگاہانہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کہتے ہیں۔ /br> ٹاپ معاشرے کے سلسلے میں نوجوانوں کی حساسیتنوجوان اپنے معاشرے کے امور کے سلسلے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ معاشرے یعنی اس فضا میں جس میں نوجوان سانسیں لے رہا ہے اگر تفریق و امتیاز ہو تو وہ آزردہ خاطر اور رنجیدہ ہوتا ہے، اگر گھر کے اندر تفریق نظر آئے تو نوجوان کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے، اگر اسکول اور کلاس کے اندر اسے تفریق و امتیاز دکھائی دیتا ہے تو اس دلی تکلیف پہنچتی ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو ان سماجی برائیوں اور آفتوں کے سلسلے میں بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں یا اپنی ذاتی زندگی اور امور میں مستغرق ہیں، یا پھر دیکھتے دیکھتے اسی کے عادی ہو گئے ہیں۔ نوجوان ایسا نہیں ہوتا۔ نوجوان جذباتی ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں انصاف و مساوات نہ ہو تفریق و امتیاز ہو تو نوجوان کو دکھ ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں بد عنوانیاں پھیل جائيں تو وہ نوجوان جو اپنے ملک کے وقار کا متمنی ہے یقینا آزردہ خاطر ہوگا۔ اگر کہیں قومی جوش و جذبے کا معاملہ ہو تو وہاں نوجوانوں کی فرض شناسی قابل دید ہوتی ہے۔ مسلط شدہ جنگ کے دوران امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایک اشارے پر اور محاذوں میں سے کسی محاذ کی ایک درخواست پر نوجوان جوق در جوق محاذوں کی سمت دوڑ پڑتے تھے، حالانکہ ان کو یہ یقین ہوتا تھا کہ سامنے خطرات موجود ہیں۔ ہر معاشرے میں نوجوانوں کی یہ مشترکہ خصوصیت ہے، تاہم جن معاشروں میں ایمان و روحانی اقدار ہیں وہاں یہ خصوصیت زیادہ نظر آتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب ملک کے دفاع کا مسئلہ، قومی حمیت کا معاملہ اور ملک کے عز و وقار اور آزادی و خود مختاری کی حفاظت کی بات آ جاتی ہے تو نوجوان بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور اقدام کرتے ہیں، انہیں اپنی زندگی اور اپنے چین و سکون کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی، وہ پر خطر وادی میں اتر جاتے ہیں۔ٹاپ تدبر اور غور و فکر کی عادتایک مجاہد نوجوان کے لئے جو چیزیں لازمی ہیں ان میں تعلیم کا حصول، سستی و کاہلی کا مقابلہ، گومگو کی کیفیت سے چھٹکارا اور غور و فکر کی عادت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ مختلف امور میں غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔ ہر انسان بالخصوص نوجوان نسل کے لئے بہت بڑے خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ واقعات و حادثات اور معاشرے کی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے لا تعلق بنا رہے۔ نوجوانوں کے افکار و نظریات کو صحیح سمت و رخ عطا کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے اور بعض افراد ہیں جن کے دوش پر یہ فریضہ ہے تاہم اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ مختلف امور کے سلسلے میں غور و فکر کریں اور سوچ سمجھ کر اپنی راہ پر آگے بڑھیں۔ چھوٹے بڑے ہر واقعے کے سلسلے میں تدبر اور غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، مطالعہ کریں، جائزہ لیں۔ اگر کسی نے غور و فکر اور تدبر کی اپنی عادت ڈال لی اور اہل فکر و نظر میں شامل ہو گیا تو دوسروں کے مشوروں سے بھی استفادہ کرے گا۔ جو چیزیں غور و فکر سے انسان کو روک دیتی ہیں ان میں بد عنوانی اور مایوسی کے دام میں پھنس جانا ہے۔ بنابریں نوجوانوں کا ایک بڑا جہاد مایوسی اور بد عنوانی کے علل و اسباب کا ازالہ کرنا ہے۔ٹاپنوجوان نسل کی راہ کے چیلنج اور مشکلاتنوجوان کی شخصی و ذاتی فکریںنوجوان سب سے پہلے مرحلے میں تعلیم، نوکری، روزگار اور مستقبل کی فکر میں رہتا ہے۔ مستقبل کو روشن اور یقینی بنانا اس کے نزدیک بہت اہم ہوتا ہے۔ اپنا گھر بسانا اور ہمت و حوصلے کے مطابق علمی سرگرمیاں انجام دینا بھی اس کے لئے بہت اہم ہوتا ہے، شادمانی و ہیجانی کیفیت کا بھی وہ دلدادہ ہوتا ہے۔ انسان کے اندر پائي جانے والی جمالیاتی حس نوجوان میں زیادہ قوی ہوتی ہے، انسانی جذبات و احساسات بھی نوجوان کے اندر زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان کے شخصی اور ذاتی مسائل و امور ہیں لیکن نوجوان کی فکرمندی یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ٹاپروحانیت و معنویت کی فکرنوجوان کو جو فکریں لاحق رہتی ہیں ان میں روحانیت و معنویت کی بھی فکر ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر منصوبہ سازوں اور ذمہ دار افراد کی پوری توجہ ہونا چاہئے۔ نوجوانی کے دور میں ایک عمومی مذہبی و عرفانی جذبہ غالب رہتا ہے۔ نوجوانوں کی قلبی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالی، روحانیت کے اس مرکز اور حقیقت کے اس محور سے رابطہ و رشتہ قائم کریں چنانچہ مذہبی پروگراموں میں نوجوان بڑی دلچسپی و رغبت سے شرکت کرتے ہیں۔ جہاں بھی مذہبیت کا رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے وہاں نوجوان آپ کو حاضر ملیں گے۔ البتہ بہت سے مذاہب میں، دنیا کے بہت سے ممالک میں مذہبی روحانیت و معنویت کے جلوے نظر نہیں آتے تو نوجوان ان مذاہب سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس پر توجہ نہیں دیتے لیکن جس معاشرے میں مذہب کی قدر و قیمت پہچانی جاتی ہے، جہاں مذہب میں جان ہے اور خاص پیغام ہے معرفت و عرفان ہے اور مذہب نوجوان کو روحانیت و معنویت و جوش و جذبہ عطا کرتا ہے وہاں نوجوان مذہب کی جانب راغب نظر آتے ہیں۔ عبادت انسانوں کے دلوں اور روحوں کی تطہیر کا عمل ہے۔ عبادت انسان کا گوہر بیش بہا ہے۔ جن لوگوں کے سر سجدہ حق سے محروم ہیں وہ روحانیت و معنویت کی لذت سے بھی نابلد ہیں۔ خدا کی ذات سے انسیت، اللہ تعالی سے راز و نیاز، خدائے وحدہ لا شریک لہ سے طلب حاجت، اس کی بارگاہ میں اپنے غموں اور دکھوں کا شکوہ، غنی مطلق خدا سے اپنی خواہشات کا اظہار، اعلی اہداف کے حصول کے لئے اللہ تعالی سے طلب نصرت و مدد، یہ چیزیں انسان کو عبادت سے ملتی ہیں۔ بہترین عبادت گزاروں کا تعلق نوجوانوں کے طبقے سے ہوتا ہے۔ نوجوان کی عبادت میں زیادہ انہماک و ارتکاز، جوش و جذبہ اور روحانیت ہوتی ہے اور اس کی دعائيں زیادہ مستجاب ہوتی ہیں۔ٹاپ تشخص اور استعداد کا انکشافنوجوان کے اندر نوجوانی کے ایام بالخصوص اس دور کی ابتدا میں بہت سی خواہشات ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ چونکہ اس کی نئی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے لہذا وہ مائل ہوتا ہے کہ اس کی اس نئی شخصیت کو با قاعدہ تسلیم کیا جائے جبکہ اکثر و بیشتر یہ ہو نہیں پاتا اور والدین نوجوان کی نئي شخصیت اور شناخت کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ نوجوان کے اندر اپنے الگ قسم کے احساسات و جذبات ہوتے ہیں۔ اس کا روحانی و جسمانی نشو نما ہو رہا ہوتا ہے اور اس کے قدم ایک نئی وادی میں پڑ رہے ہوتے ہیں، اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ ارد گرد کے لوگ، خاندان کے افراد اور معاشرے کے لوگ اس نئی وادی اور نئي زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں یا پھر اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ ایسے میں نوجوان میں احساس تنہائی اور اجنبیت پیدا ہونے لگتا ہے۔ بڑے بوڑھوں کو چاہئے کہ اپنے نوجوانی کے ایام کی یاد کو تازہ کریں۔ اوائل بلوغ کا مرحلہ ہو یا بعد کا نوجوان کو نوجوانی کے دور میں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا ہوتا ہے جو ان کے لئے نا آشنا اور نامعلوم ہوتی ہیں۔ اس کے سامنے متعدد نئے سوال آتے ہیں جو جواب طلب ہوتے ہیں۔ اس کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور وہ ان سوالات اور شکوک و شبہات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ اسے تشفی بخش اور مناسب جواب نہیں دیا جاتا نتیجے میں نوجوان کو خلا اور ابہام کا احساس ہوتا ہے۔ نوجوان کے اندر یہ بھی نیا احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کے اندر توانائیاں اور انرجی بھری ہوئی ہے، وہ اپنے اندر جسمانی اور فکری و ذہنی دونوں طرح کی توانائیاں پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو توانائی اور انرجی نوجوان کے اندر بھری ہوتی ہے وہ اس کے ذریعے سے کرشماتی کام انجام دے سکتا ہے، اس میں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دینے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن نوجوان دیکھتا ہے کہ اس کی اس توانائی اور انرجی سے استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے نتیجے میں اسے لگتا ہے کہ وہ عبث اور بے کار گھوم رہا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانی میں انسان کو پہلی بار ایک بڑی دنیا کا سامنا ہوتا ہے جس کا سامنا اس نے پہلے نہیں کیا ہوتا ہے، اسے اس دنیا کی بہت سی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوتا ہے۔ اسے زندگی کے بہت سے ایسے واقعات اور تبدیلیوں کا سامنا ہوتا ہے جن کے بارے میں اسے نہیں معلوم کہ کیا کرنا چاہئے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اسے کسی رہنمائی کرنے والے اور راستہ بتانے والے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ماں باپ کی چونکہ مصروفیات زیادہ ہیں تو وہ نوجوان پر توجہ نہیں دے پاتے اور اس کی فکری مدد کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو ذمہ دار مراکز ہیں وہ اکثر و بیشتر وہاں جہاں انہیں کام کرنا چاہئے موجود نہیں ہوتے نتیجے میں نوجوان کو مدد نہیں مل پاتی اور نوجوان کو کسمپرسی کا احساس ستانے لگتا ہے۔ ٹاپ نوجوان سے مدلل گفتگونوجوان چاہتا ہے کہ مذہبی اور دینی باتیں اسے بتائی اور سمجھائی جائیں۔ آج کا نوجوان چاہتا ہے کہ اپنے دین کو عقل و منطق اور دلیل و استدلال کی روشنی میں سمجھے، یہ بالکل بجا خواہش ہے۔ اس خواہش اور مطالبہ کی تعلیم تو خود دین نے لوگوں کو دی ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے سلسلے میں فکر و نظر اور فہم و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ متعلقہ ذمہ دار افراد اگر نوجوانوں میں یہ فکری عمل رائج کرنے میں کامیاب ہو جائيں تو وہ دیکھیں گے کہ نوجوان دینی احکامات و تعلیمات پر عمل آوری سے بہت مانوس ہو گیا ہے۔ ٹاپجنسیاتی پہلونوجوانوں کے اندر جنسیاتی پہلو ایک تشویشناک چیز ہے اور بر وقت شادی کرنے اور گھر بسانے سے اس تشویش کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کی شادی کے سلسلے میں میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر اس رسم و رواج اور اسراف و زیادہ روی سے پرہیز کیا جائے جو بد قسمتی سے ہمارے درمیان پھیلتی جا رہی ہے تو نوجوان اس موقع پر جب انہیں ضرورت ہے شادی کر سکتے ہیں۔ نوجوانی کی عمر شادی کے لئے بہت مناسب عمر ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی ثقافت کی اندھی اور کورانہ تقلید کے نتیجے میں بہت پہلے سے خاندانوں کے اندر یہ غلط رواج آ گيا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی تاخیر سے ہونا چاہئے، جبکہ اسلام میں یہ نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں تو شادی، آغاز نوجوانی کے بعد جتنی جلدی کر دی جائے بہتر ہے۔ ٹاپ ثقافتی یلغارعصر حاضر میں جدید ٹکنالوجی کا سہارا مل جانے کے بعد ثقافتی یلغار اور بھی خطرناک ہو چکی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن و دل اور فکر و نظر تک رسائی کے سیکڑوں اطلاعاتی راستے اور وسائل موجود ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور کمپیوٹر سے متعلق انواع و اقسام کی روشوں کا استعمال کیا جانے لگا ہے اور نوجوانوں میں گوناگوں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپیوں نے اندلس کو مسلمانوں سے واپس لینے کا ارادہ کیا تو دراز مدت پالیسی تیار کی۔ ان دنوں صیہونی نہیں ہوا کرتے تھے لیکن دشمنان اسلام اور سیاسی مراکز اسلام کے خلاف تب بھی سرگرم عمل تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ کام وہ دینی اور سیاسی عوامل کے تحت انجام دے رہے تھے۔ ایک کام یہ کیا گيا کہ انہوں نے کچھ مخصوص مقامات معین کر دئے جہاں نوجوانوں کو مفت شراب پلائی جاتی تھی! نوجوانوں کو (فاحشہ) لڑکیوں اور عورتوں کے جال میں پھنسایا گيا تاکہ وہ شہوت پرستی میں مبتلا ہو جائيں۔ زمانہ گزر جانے کے بعد بھی کسی قوم کو آباد یا برباد کرنے والے اصلی طریقے بدلتے نہیں ہیں۔ آج بھی وہ یہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ ٹاپ سستی اور آرام طلبیانسان کا ایک بد ترین دشمن جو خود اس کے اندر جنم لیتا ہے، سستی، کاہلی، کام چوری اور کام میں دل کا نہ لگنا ہے۔ اس دشمن سے سختی کے ساتھ نمٹنا چاہئے۔ اگر نوجوان اس دشمن کا مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے میں کامیاب ہو گيا تو باہری دشمن کی ملک پر یلغار کی صورت میں بھی دشمن پر غالب آ جائے گا۔ اس اندرونی دشمن پر قابو پا لیا تو اس باہری دشمن کو بھی مغلوب کر لے جائے گا جو ایک ملت کے وسائل اور ذخائر کو لوٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر کہیں انسان اپنی کاہلی پر قابو نہ پا سکا، بلکہ الٹے کاہلی ہی اس پر غالب آ گئی تو جب بھی فرائض اسے کسی میدان میں اترنے پر آمادہ کریں گے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہی رہے گا۔ جو شخص درس، کام، عبادت اور گوناگوں خاندانی، سماجی اور دیگر فرائض کی انجام دہی کے لئے تیار نہیں ہوتا اور سستی و آرام طلبی میں پڑا رہتا ہے اسے یہ دعوی کرنے کا حق نہیں کہ اگر باہری دشمن نے اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو وہ دشمن کے مقابلے میں فتحیاب ہوگا۔ ٹاپ خود فراموشیایران نے بہت اہم شعبوں میں بڑی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ انقلاب اور انقلابی جذبہ ہے اور یہ خود اعتمادی جو انقلاب نے اس قوم کو دی، یہ کھلی فضا ہے جو انقلاب سے ملت ایران کو ملنے والی چیزوں نے ملت ایران کو آزادانہ فکر کرنے اور پرامید رہنے کی نعمت عطا کی۔ اگر ہم بیٹھ کر منفی پہلو تراشتے رہیں اور یہ رٹ لگائے رہیں کہ صاحب! یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، ہمیں کرنے ہی نہیں دیں گے، محنت کرکے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ہے، تو آپ اس چیز کو سم مہلک سے کم نہ سمجھئے۔ ایک زمانے میں یہی ہوا، لوگ آئے اور انہوں نے ملت ایران کی ثقافتی فضا میں یہ زہر گھول دیا۔ یکبارگی آکر اعلان کر دیا گيا کہ ہم تو کچھ کر ہی نہیں سکتے میری نوجوانی کے ایام کی بات ہے، کہتے تھے کہ ایرانی تو لولہنگ بھی نہیں بنا سکتے۔ لولہنگ کہتے تھے لوٹے کو، وہ بھی مٹی سے بنے ہوئے لوٹے کو۔ یہ نظریہ اور خیال تھا اس زمانے کے سیاستدانوں کا اور یونیورسٹیاں چلانے والے عہدہ داروں کا۔ ان کے نام بھی معلوم ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ایرانیوں کے بس کا کچھ نہیں ہے! جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے، ایرانی کچھ بھی کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایرانی علمی سرحدوں کو جو بے حد وسیع ہو چکی ہیں توڑ کے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ آگے بڑھ کر نئی سرحدیں قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ٹاپ مسلمان نوجوانوں کی مصیبتسامراج نوجوان نسل کے لڑکے لڑکیوں کو جو عزم و ارادے اور طہارت و پاکدامنی کے ساتھ دین و روحانیت اور عالم اسلام کی صف اول میں سرگرم عمل ہوں، ہرگز پسند نہیں کرتا۔ وہ گمراہ اور بے راہرو نوجوان نسل دیکھنا چاہتے ہیں، اسے یہ پسند ہے۔ دشمن کی خواہشات کے بر خلاف مسلم نوجوان کو چاہئے کہ ثابت قدمی کا مظاہر کرے۔ اسلامی ممالک کے حکام کو چاہئے کہ سب سے پہلے کمر ہمت کسیں، حکام کسی شخص اور کسی چیز سے خوفزدہ نہ ہوں، دشمن کی ہنگامہ خیزی سے مرعوب نہ ہوں۔ یہ عظیم قومی محاذ ان کے اختیار میں ہے، انہیں چاہئے کہ اس سے بھرپور استفادہ کریں۔ قوم کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی قدر و منزلت کو سمجھیں اور خود سازی پر توجہ دیں۔ ٹاپ گناہ و معصیت سے دوریصحتمند انسانی و الہی فطرت ایک خدائی دولت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اس فطرت سے بھرپور استفادہ کریں اور گناہوں کے مقابلے میں مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کریں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسان گناہوں کے سلسلے میں اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ محال ہو۔ ہاں اس کے لئے مشق ضروری ہے۔ نوجوانی کے ایام میں جو نوجوان فیصلہ کر لیتے تھے کہ اپنی قوت ارادی کو مضبوط کریں گے وہ اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ اسلام میں روزہ جو واجب قرار دیا گیا ہے، در حقیقت اسی راہ میں کی جانے والی مشق ہے۔ انسان کبھی کبھی کسی گناہ کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب انسان اس گناہ کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے تو کیا وہ واقعی بے اختیار ہو جاتا ہے؟ گناہ کی غلاظت میں ڈوب جانے کے علاوہ کیا واقعی کوئي راستہ اس کے پاس نہیں ہوتا؟ اکثر و بیشتر تو یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن نفسانی خواہشات اور وسوسے اسے فیصلہ نہیں کرنے دیتے۔ اگر انسان نے اپنی عمر ان وسوسوں کی رو میں بہتے ہوئے گزار دی تو پھر بڑھاپے میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا، یہ اس کے لئے بے حد دشوار اور سخت ہوگا لیکن نوجوان میں اس کی ضروری طاقت و قوت موجود ہوتی ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ گناہ و معصیت سے دوری تو بڑھاپے کا کام ہے، جبکہ بوڑھوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ان کے جسمانی اعضاء کمزور اور مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں اسی طرح ان کی روحانی طاقت بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ نوجوان میں فیصلہ کرنے اور ثابت قدم رہنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ٹاپ نوجوانوں کی ترقی کا رازبیکراں ذخیرہجو نوجوان قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے تا حیات فکری اور ذہنی ذخیرہ تیار کر لیا ہے۔ یہ بے حد قیمتی چیز ہے۔ ممکن ہے کہ نوجوانی کے ایام میں آيات قرآنی سے گہرے مفاہیم اور تعلیمات کا استنباط نہ ہو سکے اور نوجوان صحیح طور پر اس کا ادراک نہ کر پائے، ممکن ہے کہ نوجوان کو قرآنی تعلیمات کی بہت سطحی باتیں ہی سمجھ میں آ سکیں لیکن جیسے جیسے وہ علمی پیشرفت کرے گا اور اس کی معلومات میں اضافہ ہوگا وہ اپنے حافظے اور ذہن میں موجود آیات قرآنی سے اور زیادہ استفادہ کرنے کے لائق ہوگا۔ ذہن انسانی میں قرآن کا نقش ہو جانا بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک شخص ہے جو کسی موضوع پر کوئی آيت تلاش کرنے کے لئے بارہا قرآن کی فہرست اور آیات کو متلاشی نظروں سے دیکھتا ہے اور دوسرا شخص ہے کہ آيات قرآنی اس کے ذہن و دل اور آنکھوں کے بالکل سامنے ہیں اور وہ انہیں با قاعدہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے ہر شعبے میں ضرورت کے مطابق وہ قرآن سے استنباط اور استدلال کرتا ہے، ان پر غور و فکر کرتا ہے اور ان سے استفادہ کرتا ہے، دونوں میں بہت فرق ہے۔ بچپنے اور لڑکپن سے لیکر نوجوانی تک قرآن سے انس بہت بڑی نعمت ہے۔ ٹاپتوکل بر خدانوجوانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالی پر توکل کریں، اس سے طلب نصرت و مدد کریں، اپنے قلوب میں ایمان کو مضبوط کریں، یہ کامیابیاں بہت اہم ہیں، خود اس نوجوان کی شخصی کامیابی کے لحاظ سے بھی اور قومی کامیابی کی نظر سے بھی، انہیں چاہئے کہ ایمان کو کمزور کرنے والے عوامل و اسباب کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ دیمک کی مانند ایمان کی جڑوں کو چاٹ جائیں۔ اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور توجہ اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے نفس اور اپنے دل کو مستحکم اور قوی بنا سکیں۔ واقعی اگر ہمارے اندر ہماری اندرونی ساخت محکم بنی رہی تو کوئی بھی بیرونی مشکل ہمیں مغلوب نہیں کر سکے گی۔ اپنے باطن اور اپنے دل کو اس طرح محکم بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام ظاہری جسمانی اور ارد گرد کی خامیوں، کمیوں اور کمزوریوں پر قابو پایا جا سکے۔ یہ چیز توکل علی اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ٹاپ جذبہ خود اعتمادی کی تقویتنوجوانو کو چاہئے کہ اپنے طبقے کے اندر تلاش و جستجو، امید و بلند ہمتی، خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں تقویت پہنچائیں۔ عربوں کے یہاں ایک کہاوت ہے ادل دلیل علی امکان شیء وقوعہ اس بات کی محکم ترین دلیل کہ ایک چیز دائرہ امکان میں ہے، یہ ہے کہ وہ چیز واقع ہو جائے۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل کہ ایرانی نوجوان نسل سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں نئی ایجادات کر سکتی ہے، علوم کی سرحدوں سے گزر سکتی اور اس کے آگے جا سکتی ہے، یہ ہے کہ ایرانی نوجوان نسل عملی طور پر ایسا کرکے دکھائے۔ٹاپ علمی مساعینوجوانوں کو چاہئے کہ حصول علم کی راہ میں اور اپنی علمی توانائیاں بڑھانے کے سلسلے میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ کریں۔ جو کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں اس پر قناعت نہ کریں بلکہ اسے پہلا قدم ہی مانیں۔ نوجوان کوہ پیما کی مانند ہوتا ہے جسے چوٹی پر پہنچ جانے تک آگے بڑھنا ہی رہتا ہے۔ راستے کے شروعاتی پیچ و خم میں بسا اوقات آدمی کو پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ ابتدائی کامیابیوں پر قانع نہیں ہونا چاہئے۔ نظریں چوٹی پر ٹکی ہونی چاہئے۔ محنت و مشقت کرنی چاہئے، دشواریوں اور سختیوں کو برداشت کرنا چاہئے تاکہ چوٹی کو فتح کیا جا سکے۔ ٹاپ وقت کا بھرپور استعمالنوجوانوں کو چاہئے کہ وقت کا بہترین استعمال کریں۔ البتہ یہ چیز وقت کو منظم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہیں چاہئے کہ بیٹھ کر اپنی سمجھ سے اپنا نظام الاوقات تیار کریں۔ نظام الاوقات کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عمومی نمونہ نہیں ہے کہ میں کہوں کہ سارے لوگ اسی ایک نظام الاوقات کے مطابق کام کریں۔ ہر انسان اپنی عمر کے لحاظ سے، اپنی گھریلو زندگی کی مصروفیات کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے، اس شہر کے لحاظ سے جہاں وہ زندگی گزار رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک مخصوص نظام الاوقات تیار کرے۔ نظام الاوقات ہر ایک کو تیار کرنا چاہئے اور اس کے ذریعے اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہئے۔ ٹاپ نوجوانوں کے گوناگوں سوالات اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے جواباتمندرجہ ذیل متن قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ سے نوجوانوں کے سوالات اور آپ کے جوابات پر مشتمل ہے؛نوجوانی کے ایام میں آپ کے آئیڈیل کون لوگ تھے؟میری نوجوانی کے دور میں مجھے متاثر کرنے والوں میں سب سے پہلی شخصیت تھی نواب صفوی کی۔ (نواب صفوی، شاہی حکومت کے مظالم کے خلاف شجاعانہ جد و جہد کرنے والے مجاہد تھے) جب وہ مشہد آئے، میں تقریبا پندرہ سال کا تھا۔ میں ان کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ وہ مشہد سے گئے اور کچھ ہی مہینوں کے بعد انہیں بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس واقعے سے ہم پر ان کا اثر اور گہرا ہو گیا۔ اس کے بعد میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے متاثر ہوا۔ قم جانے اور جد و جہد شروع ہونے سے قبل بھی میں نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا نام سن رکھا تھا، آپ کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا لیکن آپ کی ذات سے مجھے عقیدت و انسیت ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قم کے دینی تعلیمی مرکز میں نوجوان طلبہ کو آپ کے درس سے خاص رغبت تھی۔ آپ کا درس نوجوانوں کو بہت پسند آتا تھا۔ میں بھی جب قم گیا تو بلا تامل آپ کی کلاس میں شرکت کرنے لگا۔ میں نے شروع سے آپ کے درس میں شرکت کی اور آخر تک آپ کے ایک درس میں تواتر کے ساتھ شریک ہوتا رہا۔ مجھے اس شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ ویسے میرے والد کا بھی مجھ پر اثر پڑا، میری والدہ کا بھی گہرا اثر رہا۔ جن شخصیتوں کا مجھ پر بہت گہر اثر پڑا ان میں ایک میری والدہ تھیں؛ یہ بڑی موثر خاتون تھیں۔ٹاپآپ نے اپنا نوجوانی کا دور کیسے گزارا؟وہ زمانہ آج کے جیسا نہیں تھا۔ واقعی صورت حال بہت دگرگوں تھی۔ نوجوانوں کا ماحول کوئی اچھا ماحول نہیں تھا۔ میرے لئے ہی نہیں جو اس وقت طالب علم تھا بلکہ تمام نوجوانوں کے لئے بھی، میں تو خیر پرائمری سے ہی دینی طالب علم بن گیا۔ نوجوانوں کے اندر بڑی صلاحیتیں مرجھا کر ختم ہو جاتی تھیں۔ یہ چیزیں تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ میں نے خود دینی طلباء کے ماحول میں بھی یہ چیزیں دیکھیں۔ بعد میں دینی تعلیمی مرکز سے باہر، یونیورسٹی اور طلبا کے ماحول میں جب پہنچا تو ان کے اندر بھی یہی حالت مجھے نظر آئی، ویسے یونیورسٹی طلبا سے میرا رابطہ برسوں پر محیط ہے۔ اتنی درخشاں صلاحیتیں تھیں! بہت سے طلبا ایسے تھے جو کوئی ایک موضوع پڑھ رہے تھے جس کے بارے میں ان کی صلاحیت بہت اچھی تو نہیں تھی لیکن یہ عین ممکن تھا کہ ان کے اندر دیگر صلاحیتیں پنہاں ہوں جس سے کوئی واقف نہیں تھا اور کسی کو بھی اس کے بارے میں کوئي اطلاع نہیں تھی۔ انقلاب سے قبل میری پوری نوجوانی، نوجوانوں کے ساتھ گزری ہے۔ انقلاب کامیاب ہوا تو اس وقت میری عمر تقریبا انتیس سال تھی۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر سے لیکر اس وقت تک کا پورا عرصہ میں نے نوجوانوں کے ساتھ گزارا، دینی تعلیمی مرکز سے وابستہ نوجوانوں کے ساتھ بھی اور اس صنف سے باہر کے نوجوانوں کے ساتھ بھی۔ مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ محمد رضا پہلوی کی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے نوجوان بے راہروی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اخلاقی بے راہروی ہی نہیں بلکہ تشخص اور شناخت کی بے راہروی کی جانب۔ ( یعنی اپنے اصلی تشخص سے دور ہوتے جا رہے تھے) البتہ میں یہ تو دعوی نہیں کر سکتا کہ خود حکومت نے ملک کے نوجوانوں کو بے راہروی میں مبتلا کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی تھی اور سازش رچی تھی، ممکن ہے اس نے ایسا کیا ہو اور ممکن ہے کہ اس نے ایسا نہ کیا ہو، لیکن اتنا تو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے کچھ پروگرام ایسے تیار کئے تھے اور ملک کو اس انداز سے چلا رہے تھے کہ جس کا حتمی و یقینی نتیجہ یہی تھا۔ یعنی لوگ سیاسی امور سے دور اور زندگی کے معاملات سے بے اعتناء ہوگئے۔ اس وقت نوجوان نسل سمیت تمام طبقات کا عالم یہ تھا کہ سیاسی امور سے بالکل غافل تھے۔ نوجوان زیادہ تر روزمرہ کی سرگرمیوں میں لگے رہتے تھے۔ کچھ کو دو وقت کی روٹی کی ہی فکر تھی تو کچھ طاقت فرسا کاموں اور محنت مزدوری میں لگے ہوئے تھے کہ نان شبینہ کا بندوبست ہو جائے۔ ان کی اس کمائی کی بھی کچھ مقدار خورد و خوراک نہیں بلکہ الٹے سیدھے کاموں میں صرف ہوتی تھی۔ اگر آپ نے میری نوجوانی کے ایام میں لاطینی امریکا اور افریقا کے سلسلے میں لکھی گئی کتابیں پڑھی ہوں، جیسے فرانٹس فانن یا انہی جیسے ديگر مصنفین کی کتابیں جو اس زمانے میں کتابیں لکھتے تھے اور آج بھی ان کی کتابیں موجود ہیں، تو یقینا آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس قت کے حالات ایسے ہی تھے۔ ایران کے سلسلے میں کسی کو کچھ لکھنے کی جرائت نہیں ہوتی تھی، لیکن افریقا یا چلی یا میکسکو کے سلسلے میں آسانی سے اور بے روک ٹوک کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ یہ کتابیں پڑھ کر مجھے تو صاف محسوس ہوتا تھا کہ خود ہمارے حالات بھی وہی ہیں۔ یعنی نوجوان مزدور پسینہ بہاتا تھا، طاقت فرسائی کرتا تھا اور اس کے عوض اسے جو دو پیسہ مل جاتا تھا اس کا نصف حصہ تو وہ عیاشی اور غیر اخلاقی حرکتوں پر خرچ کر دیتا تھا۔ یہ بعینہ وہی باتیں تھیں جو میں ان کتابوں میں پڑھتا تھا، مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ایران کے معاشرے کے حقائق بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ واقعی بہت برے حالات تھے، نوجوانوں کا ماحول بالکل اچھا ماحول نہیں تھا۔ البتہ نوجوانوں کی دلی کیفیات اور قلبی واردات تو کچھ الگ تھیں کیونکہ نوجوان بنیادی طور پر جوش و جذبے والا اور امید و بلند ہمتی والا ہوتا ہے۔ میں خود بھی بہت جوشیلا نوجوان تھا۔ انقلاب کے آغاز سے قبل بھی ادبی، فن کارانہ اور اس جیسی دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے میری زندگی میں ایک تحرک اور ہیجان تھا۔ بعد میں سن تیرہ سو اکتالیس ہجری شمسی مطابق انیس سو باسٹھ عیسوی میں جب تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت میں تیئیس سال کا تھا۔ پھر تو ہم ملک کی بنیادی تحریک کے مرکز میں پہنچ گئے۔ انیس سو ترسٹھ میں میں دو بار جیل گیا۔ گرفتاری، جیل، پوچھ گچھ۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ چیزیں انسان میں ہیجان برپا کر دیتی ہیں۔ انسان بعد میں جب جیل سے آزاد ہوکر باہر آتا تھا اور انسانوں کے بیکراں سمندر کو ان اقدار کا گرویدہ پاتا اور امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ جیسے عظیم قائد کو عوام الناس کی ہدایت و رہنمائی میں مصروف دیکھتا تو اس کا ہیجان اور جوش و ولولہ اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھ جیسے افراد کے لئے جو زندگی کے ان امور کے بارے میں دلچسپی رکھتے تھے زندگی بہت ہیجانی تھی۔ البتہ سارے لوگ ایسے نہیں تھے۔ ان دنوں میں اور مجھ جیسے دیگر افراد جو جد و جہد کے بارے میں سنجیدگی اور پوری گہرائی سے سوچنے لگے تھے، سب نے اپنا نصب العین یہ بنایا کہ جیسے بھی ممکن ہو نوجوانوں کو حکومت کے ثقافتی شکنجے سے باہر نکالیں۔ میں خود مسجد جاتا اور تفسیر قرآن کا درس دیتا تھا، نماز کے بعد تقریر کرتا تھا، مختلف صوبوں میں جاکر تقریریں کرتا تھا۔ میرا بھی سارا ہم و غم یہ تھا کہ نوجوانوں کو شاہ کی ثقافتی کمند سے نجات دلائی جائے۔ ان دنوں میں اس کے لئے نا مرئی جال کی اصطلاح استعمال کرتا تھا۔ میں کہتا تھا کہ یہ ایک نامرئی جال ہے جو لوگوں کو اپنا اسیر بنا رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس نامرئی جال کو جہاں تک ممکن ہو پارہ پارہ کر دوں اور جہاں تک ممکن ہو نوجوانوں کو اس نا مرئی جال سے باہر نکالوں۔ اس جال سے نکلنے والے ہر شخص کے اندر پہلی تبدیلی یہ پیدا ہوتی تھی کہ وہ دین کی جانب راغب ہو جاتا تھا اور دوسرے مرحلے مین امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار کا گرویدہ ہو جاتا تھا، اس طرح اسے ایک تحفظ مل جاتا تھا۔ ان دنوں کے حالات کچھ ایسے تھے۔ وہی نسل آگے چل کر انقلاب کے بنیادی ستون میں تبدیل ہو گئی۔ ٹاپ نوجوانی کے ایام میں آپ کی تفریحی سرگرمیاں کیا تھیں؟بد قسمتی سے میری تفریحی سرگرمیاں بے حد کم تھیں۔ اس وقت تفریح کے زیادہ وسائل تھے ہی نہیں۔ پارک تھے لیکن بہت کم۔ مثال کے طور پر مشہد میں شہر کے اندر صرف ایک پارک تھا جس کا ماحول بہت خراب تھا۔ میں چونکہ دیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لہذا ان جگہوں پر جانے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ مجھ جیسے لوگوں کے لئے نوجوانی کے ایام میں ان تفریحی مقامات سے استفادہ کرنے کا امکان سرے سے تھا ہی نہیں۔ کیونکہ یہ مقامات مناسب مقامات نہیں تھے، یہ آلودہ مقامات تھے۔ اس وقت حکومت کی پالیسی بھی کچھ ایسی تھی کہ عمومی مقامات میں جنسی بد عنوانیاں پھیلائی جائیں۔ یہ کام عمدا اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ اس وقت مجھے اس کا اندازہ ہوتا تھا لیکن آگے چل کر جب میں نے زیادہ اطلاعات حاصل کیں اور شواہد پر غور کیا تو یقین ہو گیا کہ یہ حقیقت ہے۔ یعنی منصوبہ بندی کے ساتھ عمومی مقامات کو خراب کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے میں نہیں جا سکتا تھا، اس وقت ہماری تفریح کے وسائل آج جیسے نہیں تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں میری تفریح طلبہ کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔ ہم اپنے مدرسے جاتے تھے، ہمارے مدرسے کا نام تھا مدرسہ نواب۔ طلبا کا ماحول میرے لئے بہت پرکشش تھا۔ طلبہ ایک ساتھ جمع ہوتے تھے، بات چیت، گفتگو اور معلومات کا تبادلہ کرتے تھے۔ مدرسے کا ماحول طلبہ کے لئے کھیل کے میدان جیسا تھا۔ فرصت کے وقت میں وہیں جمع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ مشہد میں مسجد گوہر شاد میں لوگ اکٹھا ہوتے تھے۔ وہاں دیندار افراد، طلبہ اور علما آتے تھے، بیٹھتے تھے اور آپس میں علمی گفتگو کرتے تھے۔ بعض لوگ دوستانہ باتیں کرتے تھے۔ میری تفریح یہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس زمانے میں ورزش بھی کرتا تھا، آج بھی کرتا ہوں۔ افسوس کی بات ہے کہ نوجوان ورزش کے سلسلے میں کاہلی کرتے ہیں، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس زمانے میں میں کوہ پیمائی کرتا تھا، کافی دور دور تک پیدل چلتا تھا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کئی بار مشہد کے اطراف کے پہاڑوں میں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کئی کئی دن پیدل چلتا تھا۔ ٹاپ آپ کی نظر میں ایک مسلم نوجوان کی خصوصیات کیا ہیں؟ ایک نوجوان کس طرح زندگی کے سفر کو پورا کرکے اپنے اہداف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟اگر انسان کوئی با ارزش چیز حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ محنت و سخت کوشی کی عادت ڈال لے، یہ لازمی اور ضروری ہے۔ البتہ بنیادی طور پر میں نوجوانوں کی اہم ترین خصوصیتوں میں سے تین خصوصیتوں کو بہت نمایاں پاتا ہوں۔ اگر ان تینوں خصوصیات کی نشاندہی کر دی جائے اور ان کو صحیح سمت میں رکھا جائے تو میری نظر میں آپ کے اس سوال کا جواب مل سکتا ہے۔ یہ تینوں خصوصیات ہیں انرجی، امید اور جدت عمل۔ یہ نوجوان کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔ قرآن میں ایک بے حد حیاتی نکتہ بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے تقوے پر توجہ۔ جب لوگ تقوا کا نام سنتے ہیں تو ان کے ذہن و خیال میں جو تصویر ابھر کر آتی ہے وہ نماز، روزے، عبادات، اذکار اور دعا و مناجات کی تصویر ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں تقوا میں شامل ضرور ہیں اور تقوا کا جز ہیں لیکن ان میں کوئی بھی تقوا کا ہم معنی لفظ نہیں ہے۔ تقوا یعنی اپنے اعمال و رفتار پر محتاطانہ نظر رکھنا۔ تقوا یعنی یہ کہ انسان کو بخوبی علم ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے، یعنی یہ کہ اپنا ہر عمل غور و فکر اور ارادے اور نیت کے ساتھ منتخب کرے، اس انسان کی مانند جو گھوڑے پر سوار ہے اور باگ اس کے ہاتھ میں ہے اور جانتا ہے کہ اس کی منزل کہاں ہے۔ جس انسان میں تقوا نہ ہو اس کے اعمال و رفتار، اس کے فیصلے اور اس کا مستقبل اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ نہج البلاغہ کے خطبے کے مطابق اس کی مثال ایسے انسان کی ہے جسے سرکش گھوڑے پر ڈال دیا گیا ہو، وہ خود سوار نہ ہوا ہو اور اگر خود سے سوار بھی ہوا ہے تو اسے گھڑ سواری نہ آتی ہو۔ لگام اس کے ہاتھ میں تو ہے لیکن اسے نہیں معلوم کی گھڑ سواری کیسے کی جاتی ہے، اسے نہیں پتہ کہ کہاں جانا ہے۔ گھوڑا جہاں بھی اسے لے جائے گا وہ مجبورا چلا جائے گا، ظاہر ہے کہ اسے نجات کی توقع نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ گھوڑا سرکش ہے۔ ٹاپ نوجوان اپنے ہیجانی جذبے کو کیسے تسکین دے اور کیسے اس سے استفادہ کرے؟ہیجان خاص مواقع پر پیدا ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ہیں جن میں ہیجان بالکل نمایاں اور واضح ہوتا ہے۔ جیسے کھیل کود، مثال کے طور پر فٹبال ایک ہیجانی چیز ہے۔ فٹبال کے کھیل کا انداز ہی یہی ہے اور والیبال اور ٹینس سے یہ مختلف اور الگ ہے۔ کیونکہ اس کھیل کا ڈھانچہ ہی کچھ اس انداز کا ہے کہ اس میں مقابلہ آرائی، ہیجان اور اس جیسی دیگر چیزیں زیادہ ہیں۔ ویسے کھیل کوئی بھی ہو مجموعی طور پر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ فنکارانہ کاموں میں بھی ہیجان ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کا ہیجان ظاہر نہیں ہوتا۔ ہیجان صرف انہیں چیزوں تک محدود نہیں ہے۔ اگر انسان کو اپنی دلچسپی کا میدان اور شعبہ مل جائے خواہ وہ کوئی بھی میدان ہو تو وہ آسانی سے اپنے جوش و ولولے اور ہیجانی جذبے کی تسکین کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں جب نوجوان تھا اور دینی طلبہ کا لباس پہنتا تھا تو اس لباس اور ماحول کی وجہ سے کچھ محدودیتیں تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی میرے اندر ہیجان بھی تھا اور اس ہیجان کی تسکین بھی ہوتی تھی۔ وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ مجھے شاعری سے دلچسپی تھی۔ شاید آپ کے لئے اس بات کا یقین کر پانا بہت مشکل ہو۔ چار پانچ افراد کی، جنہیں اشعار سے دلچپسی تھی دو گھنٹے تین گھنٹے کی نشست جمتی تھی، شعر و شاعری کے موضوع پر بات ہوتی تھی اور اشعار سنائے جاتے تھے۔ جو شخص اس فن سے دلچسپی رکھتا ہو اس کے لئے یہ نشست اسی طرح اس کے ہیجانی جذبے کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہے جس طرح فٹبالسٹ کو فٹبال کے میدان میں یا فٹبال میچ دیکھنے والے کو اسٹیڈیم کے اندر بیٹھ کر فٹبال دیکھنے میں مزہ آتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہیجان کے میدان اور شعبے کم نہیں ہیں۔ ایک اور مثال سنئے! انسان جب درس کا نام زبان پر لاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درس میں کوئی ہیجان اور جوش و خروش ہے ہی نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کلاس میں کوئی ہیجان اور جوش و خروش نہیں ہوتا لیکن فرض کیجئے کہ یونیورسٹی کے اندر یا باہر کلاس میں تمام وسائل سے آراستہ ایک ورکشاپ ہو، جس طرح آج کل ہو رہا ہے کہ انجینئرنگ کے طلبہ جاتے ہیں اور کارخانوں سے رابطہ کرتے ہیں، نوجوان کو اگر یہ محسوس ہو کہ اس ورکشاپ میں وہ وسائل ہیں جن سے اپنی دلچسپی کی چیز ایجاد کر سکتا ہے اور اس کے ذہن میں جو آئیڈیا ہے اس جگہ پر وہ اسے عملی جامہ پہنا سکتا ہے، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کا ہیجان اور جوش و خروش کم ہوگا؟ اس میں بڑا جوش و خروش پیدا ہو جائے گا۔ تحقیق کا کام شوق اور دلچسپی سے انجام دیاجانا چاہئے۔ وہ تحقیقاتی کام جس کے لئے انسان کو مجبور کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ تحقیق لامحالہ پوری کرنا ہے تو اس کام میں کوئی جوش و خروش اور کوئی ہیجان نہیں ہوگا، اس کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلے گا۔ٹاپ نوجوانوں سے مل کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے اور آپ ان سے سب سے پہلی بات جو کہنا چاہتے ہیں وہ کیا ہے؟جب میں نوجوانوں کے ساتھ ہوتا ہوں، ان کے درمیان پہنچ جاتا ہوں تو میری بالکل وہی حالت ہوتی جو نسیم صبح میں سانس لینے والے انسان کی ہوتی ہے۔ میں تازگی اور شادابی کا احساس کرتا ہوں۔ نوجوانوں سے مل کر سب سے پہلی چیز جو میرے ذہن میں آتی ہے اور جس کے بارے میں میں نے بارہا غور کیا ہے، یہ ہے کہ کیا خود ان لوگوں کو اندازہ ہے کہ ان کی پیشانی پر کیسا ستارہ جگمگا رہا ہے؟ میں اس ستارے کو دیکھ رہا ہوں لیکن کیا یہ لوگ خود بھی اس کا مشاہدہ کر پا رہے ہیں؟ نوجوانی کا ستارہ بڑا درخشاں اور مقدر والا ستارہ ہے۔ اگر نوجوان اس بیش بہا اور قیمتی گوہر کو جو ان کے وجود میں پنہاں ہے دیکھ لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ اس سے بنحو احسن استفادہ بھی کریں گے۔ ٹاپگوناگوں سماجی اور سیاسی امور میں موقف کی نوعیت سلسلے میں نوجوانوں کے لئے آپ کی سفارش کیا ہے؟ اختلاف نظر سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ نظریات کا اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے اور اس میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے کہ دو سیاسی نظریات ہوں۔ ایک نوجوان کسی ایک نظرئے کا حامی ہے او ر دوسرا دوسرے نظرئے کا طرفدار۔ جو چیز نقصان دہ ہے وہ ہے بے سوچے سمجھے اور بغیر مطالعے اور تحقیق کے اقدام کر دینا، عجلت پسندانہ فیصلہ اور بغیر معلومات کے عمل کرنا۔ میں نوجوانوں کو اس چیز سے دور رہنے کی ہدایت کرنا چاہوں گا۔ نوجوانی کا لازمی تقاضا عجلت پسندانہ فیصلہ کرنا نہیں ہے۔ نوجوانی کے معنی بیباکانہ اقدام کرنا ضرور ہے لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ انسان نشیب و فراز اور پیچ و خم کے وہم میں نہ پڑے۔ اس سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غور و فکر کے اقدام کر دیا جائے۔ نوجوان سوچ سمجھ کر نپا تلا قدم بھی اٹھا سکتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے بھی کام کر سکتا ہے۔ یعنی فکری صلاحیتوں کو بخوبی بروئے کار لاکر اقدام کرے۔ اگر اس میں غور و فکر کرنے، مطالعہ و تحقیق اور تدبر کی عادت پیدا ہو جائے، در حقیقت یہ ایسی خصوصیات ہیں کہ نوجوان میں پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض خصوصیات تو حق پسندی کی مانند نوجوان کی سرشت میں شامل ہوتی ہیں، تو نظریاتی اختلاف میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس سے گمراہی پیدا نہیں ہوگی، یا کم از کم یہ ہوگا کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ دوسروں کی نفی کر دینے کی عادت، یہ کہ کوئی انسان سماجی امور میں ایک موقف اپنائے اور اعلان کر دے کہ بس یہی صحیح موقف ہے اس کے علاوہ کوئی اور موقف صحیح ہو ہی نہیں سکتا تو یہ درست نہیں ہے، یہ اچھی عادت نہیں ہے۔ اصول دین کے سلسلے میں تو یہ ہے کہ انسان فکر و مطالعے کے ساتھ اس کی جانب بڑھے اور ایک مستحکم نقطے پر پہنچ جانے کے بعد دو ٹوک انداز میں کہہ دے کہ حقیقت یہی ہے، اس کے علاوہ نہیں۔ اس مقام پر یہ کہنا کہ بس یہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں برا نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے لیکن سماجی مسائل میں، سیاسی امور میں اور سماجی اختلافات کی صورت میں یہ کہنا کہ بس یہی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ٹھیک نہیں ہے۔ میری نظر میں انسان کو چاہئے کہ دوسرے فریق کے نظرئے کو بھی تحمل کرے۔ جب وہ اپنے نظرئے کے مطابق کوئی عمل انجام دینا چاہے تو بہت سوچ سمجھ کر کام کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا ہو تو میری نظر میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ٹاپ ایران اور پیشرفتہ ممالک کے درمیان موجود فاصلے کو ختم کیا جا سکتا ہے؟میرا تو خیال یہی ہے کہ ہاں، بالکل ختم کیا جا سکتا ہے۔ میں نے ملک کے دانشوروں اور مفکرین سے بارہا کہا ہے کہ مغرب ہم سے بہت آگے ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ اگر کوئی ملک اسی راستے چل کر جس پر مغرب گیا ہے، خود کو اس مقام پر پہنچانا چاہتا جہاں مغرب آج ہے تو عمریں اور صدیاں لگ جائیں گی لیکن وہ پھر بھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ ان ملکوں کو شارٹ کٹ راستوں کی ضرورت ہے۔ یہ تمام موجودہ ایجادات شارٹ کٹ راستے ہیں۔ دنیا میں شارٹ کٹ راستے جتنے چاہئے آپ کو مل جائیں گے۔ اللہ کی اس خلقت کے تمام رموز سے ہم آج بھی بخوبی آشنا نہیں ہو سکے ہیں۔ ہزاروں راستے موجود ہیں۔ ایک راستہ تو یہی ہے جس پر موجودہ صنعتی تمدن گیا ہے اور ہر قدم کے بعد ایک نیا قدم بڑھایا گيا ہے۔ ہم کیوں نہ یہ امید رکھیں کہ کوئی نیا دریچہ کھلے اور دنیا میں کوئی نیا انکشاف ہو؟ ایک زمانہ ایسا تھا جب بجلی کا انکشاف نہیں کیا گيا تھا۔ یعنی دنیا میں اس کا وجود تھا لیکن اسے پہچانا نہیں جا سکا تھا۔ اچانک اس کی پہچان ہوئی، اس کی دریافت ہوئی اور اسے حاصل کر لیا گيا۔ اسی طرح بھاپ کی توانائی دریافت ہوئی۔ پہلے لوگ آگ سے بھی واقف نہیں تھے، بعد میں اس کا انکشاف ہوا۔ تو ہم کیوں نہ یہ امید رکھیں کہ اس دنیا میں اور بھی سربستہ رازوں کا انکشاف کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ اس وقت آئے دن کسی نئی چیز کا انکشاف کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اس پہلو پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں خود کو ایسی راہ پر پہنچانے کی ضرورت ہے جو ہمیں تیز رفتار سائنسی ترقی کی نعمت سے مالامال کر دے۔ اس کا طریقہ بس یہی ہے کہ نوجوان، بالخصوص تعلیم و تحقیق اور مطالعے سے شغف رکھنے والے نوجوان سخت کوشی اور دلجمعی سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ آپ جو کام بھی کرنا چاہتے ہیں وہ نوجوانی کے ایام میں آپ کر لے جائيں گے۔ تعلیمی شعبے میں، تہذیب نفس کے شعبے میں اور کھیل کود کے شعبے میں تینوں ہی شعبوں میں آپ کو نوجوانی کے ایام میں محنت کرنا چاہئے۔ٹاپ
ایٹم لفظ جہاں سائنسی میدان میں انسانی پیشرفت پر دلالت کرتا ہے وہیں بد قسمتی سے تاریخ کے گھناونے ترین سانحے، سب سے بڑی نسل کشی اور انسان کی سائنسی کامیابی کے غلط استعمال کا غماز بھی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ کسی بھی نظام اور قوم کی حقیقی مضبوطی اللہ تعالی پر توکل، دانشمندی، خود اعتمادی، استقامت کی طاقت پر بھروسہ اور پائیداری کی توانائی میں اضافہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1389/1/22 ہجری شمسی مطابق 2010/4/11 عیسوی کو فوج اور پولیس کے اعلی کمانڈروں اور افسران سے ملاقات میں مسلح فورسز کو ملک اور معاشرے کا حفاظتی حصار قرار دیا اور اس حصار کے ہمیشہ مضبوط اور مستحکم بنے رہنے کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے اعلی عہدہ داروں اور علمی و سیاسی شخصیات سے آج اپنی ملاقات میں ملک کے بنیادی اور فروعی امور کی درجہ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے حکام کو مختلف شعبوں میں نظام کے بنیادی اہداف کے حصول اور عوام کی خدمت پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1389/1/17 ہجری شمسی مطابق 2010/4/6 عیسوی کو ملک کے حکام، سیاسی شخصیات اور دانشوروں سے ملاقات میں ہجری شمسی سال کی آمد کی مبارکباد پیش کی اور اسے عوام کے لئے بابرکت بنانے کے لئے حکام سے محنت و تندہی سے کام کرنے کی سفارش کی۔
ملک کے اعلی عہدہ داروں نے آج شام قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں کابینہ کے ارکان، پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی صدارتی کمیٹی، پارلیمانی کمیشنوں کے سربراہ، عدلیہ کے اعلی حکام، نگراں کونسل کے سکریٹری اور اس کونسل کے ماہرین قانون شامل تھے۔