غدیر کا تاریخی واقعہ
تاریخ اسلام میں دلچسپی رکھنے والوں کو غدیر کے واقعے کے بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ غدیر کا واقعہ، ایک مسلم الثبوت واقعہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح کا شک و شبہہ نہيں ہے۔ اس واقعے کو صرف شیعوں نے نقل نہيں کیا ہے بلکہ سنی محدثین نے بھی، چاہے وہ ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہوں یا وسطی دور سے یا پھر اس کے بعد کے ادوار سے، ان سب نے اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ یعنی اسی واقعے کو نقل کیا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری حج
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی پر بننے والے سیریل کے ہدایت کار، اداکاروں اور دیگر متعلقہ افراد سے ملاقات میں اس فنکارانہ شاہکار کی قدردانی کی اور فرمایا: یہ سیریل در حقیقت داستان کے ماہرانہ انعکاس کے ساتھ خلاقانہ فنی کاموں کا ایک نقطہ آغاز ہے جس پر اسلامی ثقافت و ہدایت کی وزارت اور ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے نیز اداکاروں کی جانب سے پہلے سے زیادہ سرمایہ کاری اور محنت کی ضرورت ہے۔
حج کی خصوصیاتمعرفت، حج کا پہلا تحفہحج، مسلم امہ کی تصویرناقابل توصیف خصوصیاتقومی اور بین الاقوامی یکجہتیمسلم معاشروں کے مسائل کا حلبا معنی شرکتحج کے معنوی پہلو حج کے آدابایک معنوی تجربہغرور کے مظاہر سے رہائیخودسازی کا موقعبصیرت افروز عبادتحج ابراہیمیجسم و جان کے ساتھ ایک سفرحج کے اصل اہدافعالم اسلام کے اہم مسائل کا جائزہمسلمانوں کا اتحاد اور سامراج کا خوفیکتا پرستی اور اتحاد کا پیغامحج کے وسیع و ہمہ گير اہدافہدف سے دوریحج، اتحاد کی کنجیاتحاد کی عظمت کا احساساس عظیم اجتماع کے مضمراتاتحاد کے مواقع کا غلط استعمالاتحاد کی راہ کے روڑےسامراج کی تفرقہ انگیزیمشرکین سے اعلان برائتحج کا ایک بنیادی ستونحقائق بیان کرنے کا موقعحج کی روحمشرکین سے اعلان برائت کی مخالفت! حج حج کی خصوصیاتمعرفت، حج کا پہلا تحفہاگرچہ حج کی برکتیں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہیں اور رحمت کی یہ بے تحاشا بارش، دل کی خلوت اور انسان کے افکار سے لے کے سیاسی و سماجی میدانوں، مسلمانوں کی قومی طاقت و اقتدار اور اسلامی اقوام کے درمیان تعاون تک کو بہرہ مند اور زندگی کے ولولے سے لبریز کر دیتی ہے تاہم شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور جو حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا رکھتا ہے اور اشیا کو سمجھنے کی خداداد طاقت سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ معرفت اور ایک ایسی شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ کہیں اور مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو حاصل نہیں ہوتی اور کوئي بھی دوسرا دینی و مذہبی موقع اس شناخت و معرفت کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا جو حج کے دوران دستیاب ہوتی ہیں۔ٹاپ حج، مسلم امہ کی تصویرحج کے ایام کی آمد ہر سال پورے عالم اسلام کے ان عاشق دلوں اور متمنی قلوب کے اشتیاق اور تڑپ کے ساتھ ہوتی ہے جومعبود کے گھر کے جوار اور محبوب کے دیار میں عشق و تقدیس کے آستانے پر جبین نیاز رکھنا اور اس مقام کی خاک پر تعبد اور تقرب کی پیشانی ٹیکنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان خاص ایام کو ذکر خدا اور دعا و مناجات میں گزاریں اور خداوند متعال کی رحمت و مغفرت کے سائے میں سکون حاصل کریں۔ دنیا کے چاروں کونے کے دور دراز ترین علاقوں سے آنے والے اپنے بھائیوں کو دیکھیں اور اسلامی امت کے شکوہ و جلال کے ایک زندہ اور مجسم نمونے کو محسوس کریں۔ حج امت اسلامیہ کا مظہر اور اس طرز عمل کی تعلیم دینے والا ہے جسے اس عظیم امت کو اپنی فلاح و سعادت کو یقینی بنانے کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔ حج کو ایک جملے میں ایک ہی سمت میں سب کی بامقصد، شعوری اور گوناگوں حرکت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس حرکت کے بنیادی عناصر، ذکر خدا اور بندگان خدا کی یکجہتی ہے جبکہ اس کا مقصد انسان کی باسعادت زندگی کے لیے ایک مضبوط معنوی مرکز کی تعمیر ہے۔ ((جعل اللہ الكعبۃ البيت الحرام قياما للناس و الشہر الحرام و الہدى و القلائد۔))ٹاپ ناقابل توصیف خصوصیاتاگرچہ حج کے اسرار و رموز اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں بیان کیا جا سکے تاہم ہر راز شناس آنکھ ان تمام باتوں کے درمیان اس کی امتیازی خصوصیت کو پہلی ہی نظر میں پہچان جاتی ہے۔ اول تو یہ کہ (حج) وہ واحد واجب ہے جس کی ادائیگی کے لیے خداوند متعال ان تمام مسلمانوں کو جو استطاعت رکھتے ہیں، پوری دنیا سے اور گھروں اور عبادت خانوں کی تنہائی سے ایک مرکز پر بلاتا ہے اور ان مخصوص ایام میں گوناگوں سعی و کوشش، حرکت، سکون، قیام اور قعود کے دوران انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ ((ثُمَّ أَفيضُوا مِنْ حَيثُ أَفاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحيمٌ))ٹاپ قومی اور بین الاقوامی یکجہتیجب کسی قوم کے بہت سے افراد ایک خاص مقصد کے لیے، ایک ہی سفر پر ایک ہی ہدف لے کر جاتے اور واپس آتے ہیں تو لازمی طور پر ان کی یکجہتی میں اضافہ ہوتا ہے اور معنویت نیز قومی اخلاق کی سطح بلند ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا بین الاقوامی پہلو بھی ہے۔ کیونکہ اقوام کے درمیان مشترکہ خصوصیات کے ساتھ ہی آپس میں کچھ فرق بھی ہوتے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک دوسرے کے تئیں معاندانہ جذبات بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ حج اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ فرق غیر اہم بن جائیں اور مختلف اقوام کے درمیان پائی جانے والی مشترکہ خصوصیات اور اتحاد مستحکم ہو۔ بنابریں اسلام میں اتنے وسیع اور عظیم پہلوؤں والا کوئی دوسرا فریضہ نہیں ہے۔ٹاپ مسلم معاشروں کے مسائل کا حلخداوند حکیم و عزیز کا شکر کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور انہیں اپنے گھر کے اطراف جمع ہونے کی دعوت دی، اپنے عظیم پیغمبر کو منارۂ تاریخ کی بلندی سے حج کی اذان بلند کرنے کی ذمہ داری سونپی، اپنے گھر کو امن و امان کی جگہ بنایا، اسے جاہلیت کے بتوں سے پاک کیا اور مومنوں کے طواف کا مرکز، دور دراز سے آنے والوں کے ایک دوسرے سے ملنے کا مقام، جماعت و اجتماع کا مظہر نیز امت اسلامی کے شکوہ کی جلوہ گاہ قرار دیا۔ اس نے بیت اللہ کو کہ جاہلیت اولی' کے عہد میں جس کے ۔۔۔۔مطاف و مسعی' کی خدمت گزاری کو تجارت کا بازار اور اپنی سرداری اور سیادت کی دکان بنا لیا گيا تھا، لوگوں کے لیے اور ان کے فائدے اور استفادے کے لیے قرار دیا اور اجارہ داروں کی خواہشوں کے برخلاف باہر سے آنے والوں اور وہیں رہنے والوں کو مساوی حقوق عطا کیے، حج کو مسلمانوں کی وحدت و عظمت اور ان کے درمیان ہماہنگی اور تعلقات کا راز اور اسی طرح ان مصائب و آلام کا حل قرار دیا کہ مسلمان افراد اور معاشرے اپنی اصلی شناخت اور حقیقت سے دور ہو جانے کے نتیجے میں جن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسے اغیار نوازی و اپنوں سے دوری، سازشوں کی جانب سے بے توجہی، اللہ سے غفلت اور اہل دنیا کے ہاتھوں اسیری، اپنے بھائیوں کے سلسلے میں بد گمانی اور ان کے بارے میں دشمن کی باتوں پر یقین و اطمینان، امت اسلامیہ کی تقدیر کے سلسلے میں بے حسی بلکہ امت اسلامیہ نام کے اجتماعی پیکر سے ناآشنائی اور دیگر اسلامی علاقوں کے واقعات و حادثات سے بے خبری، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دشمنوں کی نئی سازشوں سے غفلت اور دوسری بہت سے مہلک مصیبتیں جو اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں کی تقدیر اور سیاسی زندگی پر نا اہلوں اور نا واقفوں کے مسلط ہو جانے کے نتیجے میں ہمیشہ مسلمانوں پر نازل ہوتی رہی ہیں اور گزشتہ صدی کے دوران علاقے میں سامراجی طاقتوں کی دراندازی اور ان کے بد عنوان و دنیا پرست مہروں کی موجودگی کے نتیجے میں وہ اور بھی تباہ کن شکل اختیار کر گئی ہیں۔ٹاپ با معنی شرکتدر حقیقت حج میں مسلمانوں کی شرکت ایک با معنی شرکت ہونی چاہیے ورنہ اگر صرف معنوی پہلو اور ذکر خدا مقصود ہوتا تو انسان اپنے گھر ہی میں بیٹھ کر ذکر خدا کر سکتا تھا۔ یہ جو کہا گيا ہے کہ ایک جگہ پر اکٹھا ہو، وہ اسی لیے ہے۔ ان مفادات کے لیے ہے جن کا مشاہدہ مسلمانوں کو حج کے دوران کرنا اور انہیں دیکھنا چاہیے۔ حج صحیح طریقے سے ہر ایک مسلمان کے اندر تبدیلی بھی لا سکتا ہے اور توحید، خدا سے رابطے اور اس پر توکل کی روح اس کے اندر پیدا کر سکتا ہے اور ساتھ ہی اسلامی امت کے ایک دوسرے سے جدا ہو چکے افراد سے ایک واحد، کارآمد اور طاقتور پیکر بنا سکتا ہے۔ حج انہیں ایک دوسرے سے مطلع اور باہمی باتوں، مسائل، پیشرفت اور ضروریات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ہی ان کے تجربات کا آپس میں تبادلہ کر سکتا ہے۔ پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام کے اسی فریضے سے صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو یہ بہت جلد اسلامی امت کو اس عزت و اقتدار تک پہنچا دے گا جو اس کے شایان شان ہے۔ اپنے جوہر اور اپنی ماہیت کے لحاظ سے حج کے دو بنیادی عناصر ہے؛ افکار و اعمال میں خدا سے تقرب اور جسم و جان کے ساتھ طاغوت اور شیطان سے پرہیز۔ حج کے تمام اعمال اور حج کے دوران ترک کی جانے والی تمام باتیں، انہی دو عناصر کے لیے، ان کی راہ میں اور اس کے وسائل فراہم اور راہ ہموار کرنے کے لیے ہیں اور یہ در حقیقت اسلام اور تمام الہی احکام کا خلاصہ بھی ہے۔ٹاپ حج کے معنوی پہلوحج کے آدابکتنے غافل ہیں وہ لوگ جو دنیوی امور میں مصروف رہ کر حج کی رسومات، حج کے ایام اور مناسک حج کی اہمیت کو کم کر دیتے ہیں؟! حج کو پوری توجہ، حضور قلب اور مکمل آداب کے ساتھ بجا لانا چاہیے۔ مناسک حج اور حج کی ظاہری صورت کو تشکیل دینے والے اعمال کے علاوہ کچھ آداب بھی ہیں جو حج کی روح ہیں۔ بعض لوگ حج کی اس ظاہری صورت کو تو بجا لاتے ہیں تاہم اس کی روح اور حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ حج کا ادب، خضوع، ذکر اور توجہ ہے۔ حج کا ادب ہر لحظہ پروردگار کے سامنے موجودگی کا احساس ہے۔ حج کا ادب، امن الہی کے دامن میں پناہ لینا ہے جسے مومنین اور پروردگار عالم کی ذات مقدس سے متمسک رہنے والوں کے لیے اس نے فراہم کیا ہے۔ اس بہشت کو پہچاننا اور اس میں داخل ہونا چاہیے۔ حج کو اس طرح سے سمجھنا چاہیے۔ حج کا ادب لوگوں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنا ہے۔ مومنین کے ساتھ تشدد کا سلوک کرنا، برادران کے ساتھ جھگڑا اور جنگ و جدال کرنا حج کے دوران ممنوع ہے۔ حج کا ادب، حج کی معنوی و روحانی حقيقت میں ڈوب جانا اور پوری زندگی کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ حج کا ادب، اخوت اور محبت و اتحاد پیدا کرنا ہے۔ مسلم اقوام اور اسلامی جماعتوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کا موقع صرف حج میں ملتا ہے۔ اتنے سارے انسانوں نے دنیا کے کونے کونے سے کعبے کے عشق میں، پیغمبر کے مزار کے عشق میں، ذکر الہی کے عشق میں اور طواف و سعی کے عشق میں اپنے آپ کو وہاں پہنچایا ہے، اخوت کے اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ٹاپ ایک معنوی تجربہکسی بھی فرد کے لیے حج کا موقع، معنویت کی لامتناہی فضا میں کسی انسان کے داخل ہونے کا موقع ہوتا ہے، وہ اپنی تمام آلودگیوں اور تمام کمیوں کے ساتھ اپنی معمولی زندگی سے اپنے آپ کو باہر نکالتا ہے اور پاکیزگی، معنویت اور خدا سے تقرب نیز اپنی اختیار کردہ ریاضت کی فضا چلا جاتا ہے۔ جیسے ہی آپ حج کے مناسک ادا کرنا شروع کرتے ہیں، ویسے ہی ایک معمول کی عام سی زندگی میں کچھ چیزیں جو مباح ہوتی ہیں انہیں اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں؛ احرام کا مطلب ان چیزوں کو اپنے لیے حرام کر لینا ہے جو معمول کی اور عام زندگی میں مباح، رائج اور جائز ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی چیزیں غفلت کا سبب ہوتی ہیں جبکہ بعض انحطاط کی وجہ بنتی ہیں۔ مادی آلودگیوں سے اپنے آپ کو پاکیزہ کرنا، مسلسل، ہر جگہ اور ہر کام میں خدا کو دیکھنا؛ چاہے وہ کچھ دنوں کی تھوڑی سی مدت ہی کے لیے کیوں نہ ہو، انسان کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ حج کے تمام آداب و مناسک اس لیے ہیں کہ حاجی اس معنوی تجربے کو حاصل کرے اور اس لذت کو اپنے دل و جان میں محسوس کرے۔ حج کی معنویت، ذکر خدا ہے جسے روح کی مانند حج کے ہر عمل میں پھونک دیا گيا ہے۔ اس مبارک سرچشمے کو حج کے بعد بھی اسی طرح سے ابلتے رہنا چاہیے اور یہ کامیابی جاری رہنی چاہیے۔ٹاپ غرور کے مظاہر سے رہائیظاہری اور مادی غرور کے تمام وسائل ہم سے لے لیے جاتے ہیں؛ سب سے پہلے لباس۔ درجہ، منصب، لباس، اچھی پوشاک وغیرہ سب ہٹا دیئے جاتے ہیں اور سب لوگ ایک ہی لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔ آئینہ مت دیکھیے کہ یہ خود پسندی کا ایک مظہر ہے۔ خوشبو استعمال نہ کیجیے کہ یہ جلوہ گری کا ایک وسیلہ ہے۔ (احرام کی حالت میں) چلتے ہوئے، دھوپ اور بارش سے نہ بھاگیے، چھت کے نیچے نہ جائیے کہ یہ آرام پسندی اور راحت طلبی کا مظہر ہے؛ اور اسی طرح احرام کے دوسرے امور؛ اس مدت میں ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا جو مُحرِم کے لیے آرام اور نفسانی و جنسی تسکین کا باعث ہوں۔ چاہے غرور کا سبب ہوں یا پھر امتیاز کا سبب ہوں۔ ان سب کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ٹاپخودسازی کا موقعحاجیوں کے لیے سب سے پہلا قدم خود سازی یا تعمیر نفس ہے۔ احرام، طواف، نماز، مشعر، عرفات، منی'، قربانی، رمی جمرات، سر منڈانا یہ سب کے سب خداوند متعال کے مقابل انسان کے خشوع و انکسار اور اس کے ذکر، اس کے سامنے گڑگڑانے اور اس سے تقرب کے مقام کے مظاہر ہیں۔ ان با معنی مناسک کو غافلانہ انداز میں ادا نہیں کرنا چاہیے۔ دیار حج کے مسافر کو ان تمام اعمال و مناسک کے دوران اپنے آپ کو خداوند عالم کی بارگاہ میں حاضر سمجھنا چاہیے، اس جم غفیر میں بھی اپنے آپ کو محبوب کے ساتھ تنہا سمجھنا چاہیے، اس سے سرگوشیوں میں اپنے دل کی بات کہنی چاہیے، اسی سے مانگنا چاہیے اور اسی سے امید رکھنی چاہیے، اپنے دل سے شیطان اور ہوائے نفسانی کو دور کر دینا چاہیے، لالچ، حسد، ڈر اور شہوت کے زنگ کو اپنے دل سے کھرچ دینا چاہیے۔ خداوند عالم کی ہدایت اور اس کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے دل کو اس کی راہ میں جد و جہد کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ مومنین کے ساتھ نرمی و رحمدلی اور دشمنوں اور حق کے مخالفوں کے ساتھ بیزاری کے جذبات دل میں پروان چڑھانے چاہیے۔ اپنی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی اصلاح کے لیے عزم مصمم کرنا چاہیے اور اپنے خدا کے ساتھ دنیا و آخرت کو آباد کرنے کا عہد باندھنا چاہیے۔ حج ایک بہت بڑا موقع ہے کہ یہ حقائق اور اسی قسم کے دوسرے بہت سے حقائق، جو اسلامی معرفت اور اسلامی ہدایت کی برکت سے ایران کی مسلم قوم کو حاصل ہوئے ہیں دنیا کے لوگوں کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ وہ بیدار ہو جائيں۔ اسلامی دنیا کے بہت سے دل بیدار ہیں؛ انہیں یہ محسوس ہونا چاہیے کہ پورے عالم اسلام میں ان کے افکار کے حامی موجود ہیں تاکہ انہیں ضروری شجاعت و جرئت حاصل ہو سکے۔ یہ سب، حج کی معنویت کے سائے تلے ہیں۔ حج کی معنویت، دعاؤں، زیارتوں اور قرآن مجید کی آیات کے اعلی' مفاہیم سے استفادے کے سلسلے میں غفلت نہ کیجیے۔ٹاپبصیرت افروز عبادتحج کا موقع ایک غیر معمولی موقع ہے۔ تمام عبادتیں، انسان کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو صحیح طریقے سے پہچانے۔ انسان، کائنات کی روح اور کائنات کی واحد حقیقت یعنی خداوند عالم کے سلسلے میں غفلت کی وجہ سے اپنے آپ سے، اپنے دل سے اور اپنی حقیقت سے غافل ہو جاتے ہیں۔(( نسوا اللہ فانساھم انفسھم)) انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اس نے ان سے خود انہیں کو فراموش کرا دیا۔ آج انسانیت کا ایک بہت بڑا درد یہی ہے۔ انسان، خداوند عالم کے تئیں غفلت برت کر اپنے آپ سے بھی غافل ہو گئے ہیں۔ انسان کی ضروریات، انسان کی حقیقت اور انسان کی تخلیق کے اہداف، مادیت کی چکاچوندھ میں پوری طرح سے بھلا دیئے گئے ہیں۔ جو چیز انسان کو خدا اور خدا پر توجہ کے سائے میں اپنی طرف، اپنی حقیقت کی طرف، اپنی ضروریات کی طرف اور اپنے دل کی طرف متوجہ کراتی ہے وہ دعا، عبادت اور خدا کے سامنے گڑگڑانا ہے اور حج اس لحاظ سے سب سے برتر عبادت ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے، مقام کے لحاظ سے اور مسلسل کیے جانے والے اعمال کے لحاظ سے جو حاجی کو عطا کیے گئے ہیں، یہ ایک غیر معمولی عبادت ہے۔ لہذا شہر مکہ اور مناسک حج، انسان کی سلامتی اور امن کا ایک ذریعہ ہیں۔ انسان، خضوع کے ساتھ، توجہ کے ساتھ، خدا کے سامنے گڑگڑا کر اور اللہ تعالی کی یاد میں ڈوب کر حج کے عظیم اعمال اور مناسک میں امن و سلامتی کا احساس کرتا ہے؛ یہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مادی طاقتوں اور مادی محرکات نے انسان کے اطراف میں جو جہنم پیدا کر دیا ہے انسان حج کی پناہ میں جا کر اس جگہ پر اور اس وقت میں اپنے لیے بہشت کی ٹھنڈک اور سلامتی حاصل کر سکتا ہے۔ جی ہاں! حج عبادت ہے اور ذکر و دعا و استغفار؛ تاہم ایسی عبادت و ذکر و استغفار جو اسلامی امت کو حیات طیبہ عطا کرنے اور اسے غلامی و ظلم کی زنجیروں نیز دولت و طاقت کے خداؤں سے نجات دلانے اور اس میں عزت و عظمت کی روح پھونکنے نیز اس کے اندر سے سستی اور تساہلی کو دور کرنے کے لیے ہے۔ یہ ہے وہ حج جو دین کے ستونوں میں شمار کیا جاتا ہے اور جسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اسلام کا علم، ہر ناتواں کا جہاد، غربت و تنگدستی کو دور کرنے والا اور اہل دین کے ایک دوسرے سے قریب ہونے کا ذریعہ بتایا ہے۔ٹاپ حج ابراہیمیحج ابراہیمی وہ حج ہے جس میں مسلمان افتراق و تفرقے سے اتحاد و اجتماع کی جانب آگے بڑھیں اور کعبے کا، جو توحید کی یادگار عمارت اور شرک و بت پرستی سے برائت و نفرت کی علامت ہے، حقیقی معنی میں اور صحیح معرفت کے ساتھ طواف کریں اور مناسک حج کی ظاہری صورت سے ان کے باطن اور روح تک پہنچیں اور اس سے اپنی زندگی اور امت اسلامی کی حیات کے لیے استفادہ کریں۔ حج ابراہیمی وہی حج محمدی ہے جس میں توحید و اتحاد کی جانب حرکت، تمام مناسک اور شعائر کی روح ہے۔ یہ ایسا حج ہے جوبرکت و ہدایت نیز امت واحدہ کی حیات و قیام کا اصل ستون ہے، یہ ایسا حج ہے جو (معنوی) فائدوں سے مالامال اور ذکر خدا سے سرشار ہے۔ یہ ایسا حج ہے جس میں مسلم اقوام، ہمہ گیر اور وسیع امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود کو محسوس کرتی ہیں اور اپنے آپ کو بھی اس میں پاتی ہیں۔ وہ اقوام کے درمیان اخوت اور قربت کے احساس سے کمزوری، ناتوانی اور ضعف کے احساس سے دور ہو جاتی ہیں۔ حج ابراہیمی، وہ حج ہے جس میں مسلمان تفرقے سے اتحاد کی جانب حرکت کریں۔ٹاپ جسم و جان کے ساتھ ایک سفرحج کوئی تفریح کا سفر نہیں بلکہ حج ایک معنوی سفر ہے۔ اللہ کی جانب جسم اور جان دونوں کے ساتھ سفر ہے۔ اہل سلوک و عرفان کے لیے اللہ کی جانب سفر، جسمانی نہیں ہوتا بلکہ قلبی اور روحانی سفر ہوتا ہے۔ یہاں ہم تمام لوگوں کے لیے اللہ کی جانب یہ سفر، جسم و جان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم صرف جسم کو وہاں لے جائیں، دل کو نہ لے جائیں یا خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ بعض افراد اس نعمت کی تکرار کے سبب، جنہیں بار بار حج، خانۂ خدا کو دیکھنے اور زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ان کی نظر میں حج کی اہمیت کم ہوتی چلی جائے اور پھر وہ اپنے اندر اس انقلاب کو نہ دیکھ سکیں، یہ کوئي اچھی چیز نہیں ہے۔ اپنے جوہر اور اپنی ذات میں حج کے دو اصلی عناصر ہے؛ افکار و اعمال میں خدا سے تقرب اور جسم و جان کے ساتھ طاغوت اور شیطان سے پرہیز۔ حج کے تمام اعمال اور حج کے دوران ترک کی جانے والی تمام باتیں، انہی دو عناصر کے لیے، ان کی راہ میں اور ان کے وسائل فراہم اور راہ ہموار کرنے کے لیے ہیں اور یہ در حقیقت اسلام اور تمام الہی دعوتوں کا خلاصہ بھی ہے۔ٹاپحج کے اصل اہدافعالم اسلام کے اہم مسائل کا جائزہایک اہم موضوع جسے حجاج کرام کو حج کے ہدف کے ایک حصے کے طور پر اہمیت دینی چاہیے وہ عالم اسلام کے اہم اور موجودہ مسائل ہیں۔ اگر حج، پوری دنیا کے مسلمانوں کا عظیم سالانہ اجتماع ہے تو بلاشبہ اس اجتماع کا سب سے فوری حکم دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے سلسلے میں ہے۔ یہ مسائل، سامراجی پروپیگنڈوں میں اس طرح سے بیان کیے جاتے ہیں کہ ان سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو نہ تو سبق، تجربہ اور امید ملتی ہے اور اگر اس واقعے میں سامراج کی بد نیتی اور بد عملی مؤثر رہی ہو تو نہ کوئي مجرم رسوا ہوتا ہے اور نہ کوئی حقیقت ظاہر کی ہوتی ہے۔ حج وہ جگہ ہے جہاں اس تشہیراتی خیانت سے پردہ اٹھایا جانا، حقیقت کو آشکارا کیا جانا اور مسلمانوں کی عمومی آگہی کا راستہ ہموار کیا جانا چاہیے۔ وہ کون سی پیاسی روح ہے جو کوثر محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیض اور زمزم حسینی کے چشمے سے سیراب ہو چکی ہو اور بدستور حج کے سیاسی مضمون کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو؟ بغیر برائت کا حج، بغیر وحدت کا حج، بغیر تحرک اور قیام کا حج اور ایسا حج جس سے کفر و شرک کے لیے خطرہ پیدا نہ ہو، حج نہیں ہے اور اس میں حج کی روح اور حج کے معنی نہیں ہیں۔ٹاپ مسلمانوں کا اتحاد اور سامراج کا خوفخانۂ خدا کے حج کے سب سے بڑے اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئيں۔ یہ جو خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ (( و اذّن فی الناس بالحج یاتوک رجالا و علی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق)) اور یہ کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو مقررہ ایام میں اور عرفات، مشعر، منی' اور مسجد الحرام جیسی محدود جگہوں پر اکٹھا کرتا ہے تو یہ لوگ مسلمانوں کی ایک دوسرے سے شناسائي سے اس قدر خائف کیوں ہیں؟ بات یہ ہے کہ اسلامی اتحاد اور مسلمانوں کی رائے، نظریات اور باتوں میں اتحاد سامراج اور اس میں بھی سب سے زیادہ مکار امریکہ اور دنیا پر تسلط کے لیے اس کے ہتھکنڈوں کے لیے خطرناک ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا بیان کیا ہے۔ٹاپ یکتا پرستی اور اتحاد کا پیغامحج مسلمانوں کے ایک دوسرے سے قریب ہونے اور تمام مسلمانوں تک ان کی آواز پہنچانے کے لیے ہے۔ اتنے سارے قلوب کو جو چیز آپس میں جوڑتی ہے وہ، وہی پیغام ہے جو پہلی بار اس سرزمین سے نکلا تھا اور دنیا کے طول و عرض اور پوری تاریخ تک پہنچ گيا تھا؛ اور وہ تھا توحید اور اتحاد کا پیغام؛ خدا کی توحید اور امت کا اتحاد۔ توحید، طاغوتوں، سامراجیوں اور طاقت اور دھوکے سے کام لینے والوں کی خدائی کا انکار ہے اور اتحاد مسلمانوں کی عزت و اقتدار کا مظہر۔ کسی بھی تحریر یا تقریر سے زیادہ اس جاوداں پیغام کو ہر سال اپنے عظیم اجتماع کی صورت میں دہراتا اور پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے۔ عالم اسلام کے کسی بھی گوشے میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو حج کے ایام میں ایک بار پھر اس حقیقت کو پہچاننا چاہیے کہ اسلامی ممالک کی ترقی، سربلندی اور ہمہ گیر کامیابی صرف انہی دو باتوں سے حاصل ہوگی: اپنے تمام انفرادی، اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں کے ساتھ توحید اور صحیح نیز آج کی دنیا میں عملی جامہ پہننے کے قابل اس کے مفہوم کے ساتھ اتحاد۔ٹاپ حج کے وسیع و ہمہ گير اہدافاللہ تعالی کی بارگاہ میں مسلمان کی تنہائی کے عالم میں روحانی حاضری اور ذکر و خود شناسی اور قلب کو گناہ و غفلت کے زنگ سے پاکیزہ بنانے سے لیکر ایک جم غفیر میں اپنی موجودگی کے مسلمان شخص کے احساس، امت اسلامیہ کے ساتھ ہر مسلمان کے جڑے ہونے کے تاثر اور مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے پیدا ہونے والے احساس قدرت تک، روحانی بیماریوں یعنی گناہوں سے شفایابی کی ہر فرد کی کوششوں سے لیکر امت کے پیکر پر لگے گہرے زخموں اور دردوں کی شناخت اور مداوا کی کوششوں اور مسلم اقوام یعنی اس عظیم پیکر کے اعضاء کے سلسلے میں جذبہ ہمدردی تک یہ ساری کی ساری چیزیں حج اور اس کے گوناگوں اعمال و مناسک میں ضم کر دی گئی ہیں۔ ٹاپ ہدف سے دوریاس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اس فریضہ الہی کی انجام دہی کی موجودہ شکل اور اس کی مطلوبہ شکل کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ امام خمینی (رہ) نے اس سلسلے میں بڑی موثر کوششیں کیں اور حج ابراہیمی، با عظمت و پر وقار حج، تعمیری و باعث تغیر حج کی واضح تصویر مسلم امہ کے سامنے پیش کی اور اسی کے مطابق اب تک حج، عالم اسلام میں بے شمار برکتوں کا سرچشمہ بن گيا ہے لیکن اس جغرافیائی وسعت کے پیش نظر تمام مسلمان اقوام میں اس نظرئے اور طرز عمل کو عام کرنے کے لئے علمائے دین کی سعی و کوشش اور اسلامی ممالک کے حکام کے تعاون اور روشن خیالی کی ضرورت ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس انتہائی کلیدی فریضے پر وہ توجہ اور عمل کریں گے۔ ٹاپ حج،اتحاد کی کنجیاتحاد کی عظمت کا احساسحج مسلمانوں کے اتحاد و یکرنگی کا مظہر ہے۔ یہ جو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو اور ان میں سے ان افراد کو جو استطاعت رکھتے ہیں معینہ وقت پر مخصوص مقام پر طلب کیا ہے اور انہیں ایسے اعمال و حرکات کے سلسلے میں کئی شب و روز تک ایک جگہ مجتمع کر دیا ہے جو پر امن بقائے باہمی، نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے مظہر ہیں، اس کا سب سے پہلا نمایاں ثمرہ ایک اک فرد میں اتحاد و اجتماعیت کا جذبہ، مسلمانوں کے اجتماع کی عظمت و جلالت کا نظارہ اور ان کے اندر احساس عظمت و وقار پیدا ہونا ہے۔ اس عظمت و وقار کے احساس کے ساتھ اگر مسلمان کسی پہاڑی درے میں بھی زندگی گزار رہا ہو تو کبھی خود کو اکیلا محسوس نہیں کرے گا۔ اسی حقیقت کے احساس کے نتیجے میں مسلمان تمام اسلامی ممالک میں اسلام کی دشمنی یعنی سرمایہ داری کے نظام اور اس کے مہروں اور ہم نواؤں کے سیاسی و اقتصادی تسلط اور نیرنگ و فتنہ انگیزی سے ٹکرا جانے کی جرئت و ہمت اپنے اندر پیدا کر سکیں گے۔ پھر ان پر مغربی سامراجیوں کا حقارت و بے بسی کا احساس پیدا کرنے والا جادو کارگر نہیں ہوگا جو یہ طاقتیں، قوموں کے سلسلے میں استعمال کرتی آئی ہیں۔ اسی عظمت و وقار کے نتیجے میں مسلمان حکومتیں اپنے عوام کا سہارا لیکر خود کو اغیار کے سہارے سے بے نیاز بنا سکتی ہیں اور پھر مسلمان عوام اور ان پر حکمرانی کرنے والے نظام کے درمیان یہ مصیبت بار فاصلہ بھی باقی نہیں رہےگا۔ اسی اتحاد و اجتماعیت کے احساس کے بعد ماضی و حال کے سامراجی نیرنگ یعنی انتہا پسندی پر مبنی فرقہ وارانہ تعصب کے جذبات بھڑکانے کی کوششیں مسلمان قوموں کے درمیان یہ وسیع و عمیق خلیج پیدا نہیں کر سکیں گی اور عرب، فارس، ترک، افریقی اور ایشیائی قومیتیں ایک دوسرے کی اسلامی شناخت و ماہیت کی حریف و مخالف ہونے کے بجائے اس کا جز اور تسلسل بن جائيں گی اور ایک وسیع ماہیت کی عکاسی کریں گی۔ بجائے اس کے کہ ہر قومیت دوسری قومیتوں کی نفی اور تحقیر کا وسیلہ بنے، ہر قوم دیگر اقوام کے درمیان اپنی تاریخی، نسلی اور جغرافیائی خصوصیات اور خوبیوں کی منتقلی کا ذریعہ بن جائے گی۔ ٹاپ اس عظیم اجتماع کے مضمراتاسلام میں ویسے تو نماز جماعت، نماز جمعہ اور نماز عید جیسی اجتماعی طور پر انجام دی جانے والی عبادتیں بھی موجود ہیں لیکن (حج کا) یہ عظیم اجتماع، ذکر و وحدانیت کو مرکزیت دینا اور دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمانوں کو نقطہ واحد پر لاکر جمع کر دینا بڑا ہی با معنی عمل ہے۔ یہ بات کہ پوری امت مسلمہ اور سارے مسلمان اپنے لسانی، نسلی، مسلکی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود ایک جگہ پر جمع ہوں اور مخصوص اعمال کو آپس میں مل کر انجام دیں جو عبادتوں، گریہ و زاری، ذکر و مناجات اور توجہ و ارتکاز پر مشتمل ہیں، یہ بہت با معنی چیز ہے۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اور اسلامی نقطہ نگاہ سے قلوب و اذہان کا اتحاد میدان سیاست و جہاد میں ہی اہم نہیں بلکہ خانہ خدا میں جانا، قلوب کا ایک دوسرے کے نزدیک ہونا، جسموں اور جانوں کا ایک دوسرے کی معیت میں ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ بنابریں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : واعتصموا بحبل اللہ جمیعا اللہ کی رسی کو اکیلے پکڑنے کا فائدہ نہیں ہے، ایک ساتھ مل کر پکڑنا ضروری ہے۔ ایک ساتھ مل کر اعتصام بحبل اللہ کیجئے۔ الہی تعلیم و تربیت و ہدایت کے محفوظ مرکز کو ایک ساتھ مل کر اپنائیے۔ معیت و ہمراہی ضروری ہے۔ دل ایک ساتھ ہوں، جانیں ایک ساتھ ہوں، فکریں ایک ساتھ ہوں، جسم ایک ساتھ ہوں۔ یہ جو آپ طواف کرتے ہیں، یہ ایک مرکز کے گرد دائرے کی شکل میں حرکت کرنا، یہ محور توحید کے ارد گرد مسلمانوں کی حرکت و پیش قدمی کی علامت ہے۔ ہمارے سارے کام، اقدامات اور حوصلے وحدانیت پروردگار اور ذات اقدس الہی کے محور کے ارد گرد ہونا چاہئے۔ یہ درس ہماری پوری زندگی کے لئے ہے۔ ٹاپاتحاد کے مواقع کا غلط استعمالیہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ کوئی شخص اتحاد کے اس ذریعے اور وسیلے کو اختلاف و خلیج پیدا کرنے کا حربہ بنا لے۔ یہ خطاب ہر ایک سے ہے۔ (میرا) خطاب صرف اس متعصب اور کفر کے فتوے صادر کرنے والے شخص سے نہیں ہے جو مدینے میں کھڑے ہوکر شیعوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرتا ہے، میرا خطاب سب سے ہے۔ حج کے امور کے ذمہ داران، کاروانوں کے ذمہ داران اور علماء سب ہوشیار رہیں کہ اتحاد کے اس موقع کو (بعض عناصر) تفرقہ انگیزی کا حربہ نہ بنا لیں، دلوں میں ایک دوسرے کی کدورتیں نہ بھر دیں۔ کون سی چیز ہے جو ایک شیعہ کے دل میں اپنے غیر شیعہ مسلمان بھائی کے تعلق سے کینہ بھر دیتی ہے، ایک سنی کے دل کو اپنے شیعہ مسلمان بھائی کی کدورت سے پر کر دیتی ہے۔ غور کیجئے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں۔ ان کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ حج کو جو زخم کا مداوا، اتحاد کا ذریعہ اور عالم اسلام کے دلوں، نیتوں اور ارادوں کی یکسانیت و ہم آہنگی کا وسیلہ ہے انتشار اور بغض و عناد کا حربہ نہیں بننے دینا چاہئے۔ اس مسئلے اور اس کے مصادیق کی شناخت کے لئے بہت ہوشیاری اور دقت نظر کی ضرورت ہے۔ ٹاپ اتحاد کی راہ کے روڑےجو لوگ حج میں تفرقہ اندازی، فتنہ انگیزی، خرافاتی اور رجعت پسندانہ افکار کی ترویج کی کوششوں میں مصروف ہیں وہی سامراج کے عمدی یا غیر عمدی مہرے ہیں جو اس عظیم موقع کو نابود کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اس اتحاد کی عظمت و جلالت اور شکوہ و وقار کو عظیم امت مسلمہ کی نظروں میں مجسم نہیں ہونے دیتے وہ ان افراد میں شامل ہیں جو اس عظیم ذخیرے اور سرمائے کو نابود اور ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جو لوگ تفاخر و امتیاز، دیگر قوموں کے استحصال و تذلیل، دنیا کے مستضعفین کے خلاف جنگ افروزی کا وسیلہ قرار پانے والی عظمت و جلالت نہیں بلکہ راہ خدا میں عظیم امت اسلامیہ کی عظمت و جلالت کو الہی اقدار کی راہ کی عظمت و جلالت کو اور وحدانیت کے راستے کی عظمت و جلالت کو عالم اسلام میں منعکس نہیں ہونے دینا چاہتے وہ پوری انسانیت پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس وقت اس عظیم الہی ذخیرے اور سرمائے کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عالم اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹاپ سامراج کی تفرقہ انگیزیاس وقت عالم اسلام میں سامراج اور امریکا کا ایک بنیادی ہدف اختلاف پیدا کرنا ہے اور اس کا بہترین راستہ شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر عراق کے مسائل کے سلسلے میں کیسی باتیں کر رہے ہیں، کیسی زہر افشانی کر رہے ہیں اور بہ خیال خود نفاق کے کیسے بیج بو رہے ہیں؟! برسہا برس سے مغربی سامراج اور توسیع پسند طاقتوں کے ہاتھ ان حرکتوں میں مصروف ہیں۔ حج میں انہیں اس کا بڑا اچھا موقع مل جاتا ہے کہ شیعہ کو سنی کے اور سنی کو شیعہ کے خلاف مشتعل و برافروختہ کریں۔ ایک دوسرے کے مقدسات اور محترم ہستیوں کی توہین کے لئے ورغلائیں۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صرف حج میں ہی نہیں بلکہ پورے سال اور سبھی میدانوں میں ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکا کی مرغوب ترین شئے ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ جنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل صف آرا ہونے والوں کی مانند ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں، بغض و کینے میں ڈوب کر ایک دوسرے کے خلاف بولیں، ایک دوسرے کو گالیاں دیں، بد کلامی کریں! بعید نہیں ہے کہ اس پر محن دور میں حج کے موقع پر اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے لئے کچھ افراد کو کرائے پر حاصل کر لیا گيا ہو، لوگوں کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ کاروانوں میں شامل علمائے کرام اس مسئلے میں زیادہ ذمہ دارانہ انداز میں کام کریں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کی مرضی کیا ہے۔ یہ بہت بڑی غفلت اور سادہ لوحی ہے کہ انسان اس خیال کے تحت کہ وہ حقیقت کا دفاع کر رہا ہے، دشمن کی سازش کی مدد کرنے لگے اور دشمن کے لئے کام کرنے لگے۔ کچھ لوگ مزدوری لے کر، پیسے لیکر یہ کام کرتے ہیں، بسا اوقات سطحی فکر والے متعصب لوگوں کو ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف برانگیختہ اور مشتعل کرتے ہیں۔ اب اگر سامنے والا ویسا ہی شدید رد عمل دکھاتا ہے تو بلا شبہ ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے کیونکہ ان کا تو مقصد ہی یہی ہے۔ وہ ہمیں آپس میں دست بگریباں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مطمئن رہیں۔ ٹاپ مشرکین سے اعلان برائتحج کا ایک بنیادی ستوناس عظیم موقع پر جہاں ذکر خدا فاذکروا اللہ کذکرکم آبائکم او اشد ذکرا اور مشکرین سے اعلان برائت و اذان من اللہ و رسولہ الی الناّس یوم الحج الاکبر انّ اللہ بریء من المشرکین و رسولہ حج کے بنیادی ارکان میں شمار ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف ہر اس عمل کے سلسلے میں احتیاط بھی بہت زیادہ ہے جس سے (دینی) بھائیوں یعنی اس امت واحدہ کے اعضاء کے درمیان جدائی و دشمنی میں اضافہ ہو۔ حتی دو مسلمان بھائيوں کے ما بین وہ بحث و تکرار بھی جو معمول کی زندگی میں کوئی خاص بات نہیں سمجھی جاتی، حج میں ممنوع و حرام ہے فلا رفث و لا فسوق و لا جدال فی الحج۔ جس میدان میں مشرکین، یعنی یکتا پرست امت واحدہ کے اصلی دشمنوں سے اظہار برائت لازمی ہو جاتا ہے وہیں مسلمان بھائیوں یعنی یکتا پرست امت واحدہ کے اعضاء کے درمیان بحث و تکرار ممنوع و حرام ہو جاتی ہے۔ اس طرح حج میں اتحاد و اجتماعیت کا پیغام اور بھی آشکارا ہو جاتا ہے۔ در حقیقت حج غفلت و بے حسی کو دور کرنے کی اسلام کی اہم ترین تدبیر ہے۔ اس فریضے کا بین الاقوامی پہلو اس پیغام کا حامل ہے کہ امت مسلمہ پر اجتماعی حیثیت سے بھی غفلت و بے خبری کی گرد جھاڑنے کا فریضہ ہے۔ٹاپ حقائق بیان کرنے کا موقعحقائق کو بیان کرنے اور سامراج و امریکا سے اعلان برائت کے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہئے۔ عالم اسلام کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ اسے کون سے مسائل در پیش ہیں؟ یہ (مواقع) عالم اسلام کے لئے جوش و ولولے اور حرکت و پیش قدمی کا وسیلہ بننا چاہئے۔ ایسے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں کہ گویا اب تو کچھ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سامراج کا غلبہ یقینی ہے اور اسے روکنا ناممکن۔ امر واقع یہ نہیں ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ امت اسلامیہ زندگی کی رعنائيوں سے سرشار ایک قدرت مند حقیقت ہے۔ اگر وہ چاہ لے اور ارادہ کرکے قدم بڑھا دے تو نہ امریکا کی کوئی چال کامیاب ہوگی اور نہ اس کے بڑوں کو کوئی راستہ سجھائی دے گا۔ قوموں کو چاہئے کہ جس طرح بھی ممکن ہو عالم اسلام کے مفادات اور مصلحتوں کی بہ نسبت اپنا قلبی لگاؤ ظاہر کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عالم اسلام کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کریں۔ اسلام کی جانب سے معین کردہ حج میں انجام دیا جانے والا یہ کمترین کام ہے جس کی توقع کی جاتی ہے۔ ٹاپ حج کی روحاظہار برائت کو ہم نے باہر سے لاکر حج پر مسلط نہیں کیا ہے۔ یہ حج کا جز، حج کی روح اور حج کے عظیم اجتماع کا حقیقی مفہوم ہے۔ بعض افراد کو یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ دنیا کے گوشہ و کنار میں اخبارات اور اپنے بیانوں اور تنقیدوں میں مسلسل یہی رٹ لگائيں کہ آپ نے تو حج کو سیاسی رنگ دے دیا ہے، حج کو بھی سیاسی چیز بنا دیا ہے آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟! اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے کسی سیاسی مفہوم کو شامل کر دیا ہے تو ان کے جواب میں یہی کہنا چاہئے کہ حج کبھی بھی سیاسی مفہوم سے خالی نہیں رہا۔ مشرکین سے برائت کا اعلان اور بتوں اور بتگروں سے بیزاری کا اظہار، مومنین کے حج پر حکمفرما روح ہے۔ حج میں قدم قدم پر دل و جان اللہ کے سپرد کر دینے، اس کی راہ میں سعی و کوشش، مشرکین سے برائت، اس شیطان پر کنکریاں مارنے اور اسے دتکارنے نیز اس کے مقابلے میں محاذ قائم کرنے کے مناظر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح حج میں جگہ جگہ اہل قبلہ کے اتحاد و یکجہتی اور غیر حقیقی امتیازات کی بے اعتباری اور حقیقی و ایمانی اخوت و اتحاد کی جلوہ افروزی کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ حج انہیں دروس و اسباق کے سیکھنے اور دہرانے سے عبارت ہے۔ ٹاپ مشرکین سے اعلان برائت کی مخالفت!میرے لئے یہ بات قابل قبول نہیں کہ وہ حکومت، جس نے بیت اللہ کے زائرین کی خدمت کی ذمہ داری قبول کی ہے، ایسے عمل پر پابندی عائد کر دے جو مسلمانوں کے اتحاد کا باعث، مسلمان قوموں کے وقار کا موجب اور سامراجیوں اور عالم اسلام کے دشمنوں سے نفرت کا آئینہ ہے۔ یہ عمل دنیا کی موجودہ گروہ بندی کے مطابق کس گروہ اور حلقے کے مفاد میں ہے؟ کیا مظلوم مسلمان قوموں کی حمایت کوئي جرم ہے؟ کیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکا اور دیگر سامراجیوں کی سازشوں کا افشاء فریضے کے برخلاف کوئی عمل ہے؟ کیا مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دینا اور تفرقہ انگیزی کے عوامل و عناصر سے اظہار نفرت قرآن کا صریحی حکم نہیں ہے؟ ان اہم ترین فرائض کو معطل کر دئے جانے سے جن کو فائدہ پہنچنے والا ہے وہ امریکا اور صیہونزم ہیں۔ اس وقت حج میں مسلمان کے منہ سے بلند ہونے والی برائت کی آواز، سامراج اور اس کے پیروکاروں سے بیزاری کی آواز ہے جو بد قسمتی سے اسلامی ممالک میں بڑی کامیابی سے اپنے پیر جما رہے ہیں اور اسلامی معاشروں پر اپنا شرک آلود نظام زندگی، ثقافت اور سیاست مسلط کرکے مسلمانوں کی زندگی میں عملی توحید و یکتا پرستی کی بنیادوں کو متزلزل اور انہیں غیر خدا کی عبادت و پرستش میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ان کی یکتا پرستی لقلقہ زبانی بن کر رہ گئی ہے، ان کی زندگی میں یکتا پرستی کے مفہوم کے آثار مفقود ہو چکے ہیں۔ ٹاپ
دنیا کے ہر چہار طرف سے جو مسلمان یہاں جمع ہوئے ہیں انہیں چاہئے کہ اس موقع کو اپنے درمیان برادری کے رشتوں کو مستحکم کرنے کے لئے، جو امت اسلامیہ کے بہت سے بڑے مسائل کا حل ہے، غنیمت سمجھیں۔ میں آج واضح طور پر دیکھ رہا ہوں کہ اسلامی دنیا کے بدخواہ، پہلے سے زیادہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امت اسلامیہ کو آج پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بسیج یعنی رضاکار فورس کو قومی وقار، پائیداری اور دوام کا راز قرار دیا اور ذرائع ابلاغ، سیاسی کارکنان اور عہدہ داروں کو فروعی اور غیر اصولی اختلافات سے اجتناب کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت ملک کی اولین ترجیح دشمن کی اس نرم جنگ کا مقابلہ ہے جس کا مقصد عوام کے درمیان شک و تردد اور اختلاف و بد گمانی پیدا کرنا ہے اور اس یلغار کے مقابلے کا سب سے اہم طریقہ بصیرت، رضاکاری کے جذبے اور مستقبل کے تعلق سے امید کی حفاظت و تقویت اور شناخت و تعین کے سلسلے میں مکمل احتیاط سے کام لینا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار آذر تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق پچیس نومبر دو ہزار نو کو ہفتہ رضاکار کے موقع پر ملک کے مختلف علاقوں سے تہران آکر آپ سے ملاقات کرنے والے ہزاروں رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب میں رضاکاروں کی تاریخ اور گراں قدر خدمات کی جانب اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی ملکوں کے تعاون پر زور دیا ہےـ کویت کے وزیر اعظم شیخ ناصر محمد الاحمد الصباح نے آج تہران میں قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ـ قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی ملکوں بالخصوص خلیج فارس کے ملکوں کو باہمی روابط اور تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔
پہلا باب: اقتصادی خود انحصاریاقتصادی خود انحصاری کا مفہوممعاشی خود انحصاری کی اہمیتاقتصادی خود انحصاری کے مقدماتاقتصادی خود انحصاری میں ثقافتی سرمایہ کاری کے اثراتاقتصادی خود انحصاری کی شرطیںاقتصادی تسلط و اجارہ داریسیاسی و ثقافتی خود مختاری میں پائیدار معیشت کا کرداردوسرا باب: اقتصادی پابندی و محاصرہمحاصرے میں ترقیاقتصادی ترقی میں معاشی پابندیوں کے اثراتایران کی پیشرفت و ترقی کی مخالفت اقتصادی خود انحصاری، معاشی پابندیوں کا مقابلہپہلا باب: اقتصادی خود انحصاریاقتصادی خود انحصاری کا مفہوممعاشی خود انحصاری یعنی یہ کہ ملک اور قوم اپنی اقتصادی سرگرمیوں میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور کسی کی محتاج نہ رہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو قوم اقتصادی لحاظ سے خود کفا ہے وہ دنیا میں کسی سے کوئی سودا اور لین دین نہیں کرتی۔ ایسا نہیں ہے، سودا اور لین دین کمزوری کی دلیل نہیں ہے۔ کوئی چیز خریدنا، کچھ فروخت کرنا، سودا کرنا، تجارتی مذاکرات انجام دینا، یہ کمزوری کی علامتیں نہیں ہیں۔ لیکن یہ سب اس انداز سے انجام پانا چاہئے کہ قوم ایک تو اپنی بنیادی ضرورتیں خود ہی پوری کرنے پر قادر ہو اور دوسرے یہ کہ عالمی سودوں اور لین دین میں اس کا اپنا مقام ہو۔ دوسرے (ممالک) اسے بآسانی حاشئے پر نہ ڈال دیں، اس کا اقتصادی محاصرہ نہ کر لیں، اسے دوسرے ڈکٹیٹ نہ کریں۔ آج جو ممالک اقتصادی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں، ان کے پاس طاقت ہے اور بد قسمتی سے عالمی سامراج کا حصہ ہیں اور سامراجی پالسیوں پر عمل پیرا ہیں، جب وہ کسی ملک سے کوئی سودا اور لین دین انجام دینا چاہتے ہیں، تعاون کرتے ہیں تو اس ملک پر کچھ چیزیں مسلط کر دیتے ہیں۔ ملک کی آزاد معیشت سے مراد یہ ہے کہ ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے اسے ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہو۔ ملک کے کارخانے سب کچھ تیار کریں اور ملک کا محنت کش طبقہ اسے اپنا انسانی و دینی فریضہ تصور کرے۔ محنت کش صرف وہ نہیں ہے جو کسی کارخانے میں کام کرتا ہے۔ جو بھی ملک میں کوئی مفید و با مقصد کام انجام دے رہا ہے وہ محنت کش ہے۔ مصنف، فنکار، استاد، موجد اور محقق بھی محنت کش طبقے کے افراد شمار کئے جا سکتے ہیں۔ٹاپ معاشی خود انحصاری کی اہمیتاقتصادی خود انحصاری، سیاسی خود مختاری سے بالاتر ہے۔ ملک کے حکام، پارلیمنٹ کے اراکین اور معاشی شعبے سے جڑے افراد اس بات پر توجہ دیں کہ پیسے، اقتصادی سرگرمیوں اور اقتصادی امور میں دوسروں پر اپنا انحصار ختم کریں۔ ملک کے لئے معاشی خود کفائی انتہائی حیاتی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت اغیار سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پیکر کی رگ حیات اور اس کی سانس دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ بنابریں اختیارات بھی دوسروں کے ہی ہاتھ میں ہوں گے۔ بیشتر انقلابی ممالک کا رجحان ( گزشتہ صدی میں) مشرق کی جانب تھا۔ یہ ممالک مشرقی حکومتوں اور طاقتوں سے مدد لیتے تھے۔ مثال کے طور پر جب چین میں انقلاب آیا تو دس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک سویت یونین نے جو اس کا بڑا بھائی کہا جاتا تھا اور جو اشتراکی انقلاب میں سب سے آگے تھا، چین کی اقتصادی اور فنی مدد کی اور اس نے اس ملک کے لئے اپنے ماہرین بھیجے۔ دیگر کمیونسٹ ممالک کی بھی یہی صورت حال تھی۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اقتصادی انحصار کو ختم کرنے کے لئے صرف اپنی قوم کی مضبوط قوت ارادی اور ایرانیوں کی درخشاں صلاحیتوں پر تکیہ کیا۔ٹاپ اقتصادی خود انحصاری کے مقدماتجو ممالک آزاد ہوتے ہیں ان کا سب سے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی نظام کو خود مختاری دلاتے ہیں۔ یعنی بیرونی طاقتوں کے نفوذ سے آزاد ہوکر حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ اس پر بھی وہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ معاشی خود انحصاری کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ معاشی خود انحصاری، سیاسی حود مختاری سے زیادہ مشکل ہے اور اس کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے اقتصادی تسلط اور نفوذ کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ملک اقتصادی خود کفائی کی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ماہر افرادی قوت، آمدنی کے اچھے ذرائع، بے پناہ وسائل، سائنس، مہارت، عالمی سائنسی و فنی تعاون اور دیگر بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انقلابی ممالک اور وہ مملکتیں جنہوں نے نئی نئی خود مختاری حاصل کی ہے اقتصادی خود کفائی کے ان وسائل اور ذرائع کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔ آزاد ملکوں کو چاہئے کہ اپنی ضرورت اور تشخیص کے مطابق اس صنعت، مصنوعات اور سامان کو ملک کے اندر موجود ذخائر اور وسائل کے سہارے تیار کر لیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنی خلاقی صلاحیتوں، محنت و مشقت سے، اس پر حکمفرما انتظامی سسٹم اور آزادی و خود مختاری کی راہ میں قائم ہونے والے عوامی اتحاد سے، ساتھ ہی ساتھ دشمن کے تشہیراتی حربوں کی بابت پوری ہوشیاری و دانشمندی کے ذریعے مکمل اقتصادی خود انحصاری و آزادی کی سمت پیش قدمی کریں۔ٹاپ اقتصادی خود انحصاری میں ثقافتی سرمایہ کاری کے اثراتہر ملک کی افرادی قوت ہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے۔ اگر افرادی قوت نہ ہو تو سب کچھ ہیچ ہے۔ کچھ ممالک میں ایران سے پہلے ہی انقلاب آیا گیا تھا اور اقتصادی، صنعتی، تکنیکی اور دیگر شعبوں میں انہیں کامیابیاں بھی ملیں۔ ان ملکوں نے اپنے انقلاب کے اوائل میں اپنے تمام منصوبے افرادی قوت کی تربیت کو محور قرار دیکر ترتیب دئے۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی ان میں سے بعض ممالک ماہر افرادی قوت برآمد کر رہے ہیں۔ یعنی نہ صرف یہ کہ یہ ممالک بے پناہ افرادی قوت کی وجہ سے خود کفالت کی منزل پر پہنچ گئے بلکہ ان ممالک میں اتنے زیادہ ماہرین کے لئے جگہوں کی کمی ہے اور ان کی معیشت ایسی نہیں ہے کہ یہ تمام ماہرین اس میں کھپ سکیں۔ نتیجتا وہ دوسرے ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں۔ اسی افرادی قوت نے انہیں اعلی سطح پر پہنچا دیا ہے جبکہ ان کے پاس تیل جیسے ذخائر بھی نہیں ہیں۔ اگر آج ثقافتی امور کے لئے بجٹ مختص کیا جا رہا ہے تو اس بات پر توجہ ہونا چاہئے کہ ممکن ہے کہ قلیل مدت میں یہ بجٹ اقتصادی امور اور معاشی سرگرمیوں کو فائدہ نہ پہنچائے لیکن اس قلیل مدت کے بعد اس کا فائدہ فی الفور ملک کو ملے گا ۔ اگر صحیح انداز سے فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر ثقافتی امور بالخصوص تعلیمی شعبے کے لئے بجٹ اور وسائل کو استعمال کیا جا رہا ہے تو اس سے ملک کو ہرگز نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے آگے چل کر ملک کے لئے نئے وسائل پیدا ہوں گے۔ٹاپ اقتصادی خود انحصاری کی شرطیںپہلی شرط: سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ملک میں ہر کوئی اپنے فرائض کو بنحو احسن انجام دے۔ (پیغمبر اسلام) ارشاد فرماتے ہیں: رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ اللہ رحمت نازل کرے اس شخص پر جو کام انجام دیتا ہے تو محکم انداز میں انجام دیتا ہے، بنحو احسن انجام دیتا ہے۔ یہ کوشش ہونا چاہئے کہ جب بھی کوئی کام انجام دیا جائے تو مکمل طور پر اور درست طریقے سے انجام دیا جائے۔ کوئی کسر باقی نہ رہے۔ یہ ایک اہم شرط ہے جو پوری ہو جائے تو اقتصادی خود انحصاری کی منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔ دوسری شرط: (خلاقیت اور نئی ایجادات) ملک کی اقتصادی سرگرمیوں اور کام کے شعبے میں خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔ کتنی اچھی بات ہے کہ وہ کارخانے جو حکومت کے پاس ہیں یا وہ کارخانے جو نجی سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی آمدنی کا تھوڑا سا حصہ تحقیق اور اپنی مصنوعات کا معیار بلند کرنے اور کاموں کی پیشرفت کے لئے استعمال کریں۔ ترقی پذیر ممالک اس انتظار میں کیوں بیٹھیں کہ یورپ یا دنیا کے کسی اور گوشے میں کوئی آگے بڑھ کر تحقیق کرے تب یہ (ممالک) اس سے سیکھیں؟! خود بڑھ کر تحقیق کرنا چاہئے، نئی ایجاد کرنا چاہئے، پیداوار کو آگے بڑھانا چاہئے، صنعت کو آگے لے جانا چاہئے، پیداوار کو مقدار اور معیار کے لحاظ سے آگے لے جانا چاہئے۔ تیسری شرط: تیسری شرط یہ ہے کہ ملک کے علمی شعبے، معیشت کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ یونیورسٹیوں کے مفکرین آئیں اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ حکومت ان مفکرین اور ماہرین کا سہارا لے جو یونیورسٹیوں میں علمی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ یہ خیال نہ پیدا ہو کہ اگر کسی یورپی مفکر نے کوئی تحقیق انجام دی ہے اور کوئی بات کہی ہے تو وہ پتھر کی لیکر بن گئی ہے۔ آج کوئی بات انہوں نے کہی، بیس سال بعد، دس سال بعد، پانچ سال بعد کوئی دوسرا محقق آکر اس بات کو غلط ثابت کر دیتا ہے اور نیا نتیجہ پیش کرتا ہے۔ مغرب والوں نے جو کچھ کہہ دیا ہے اسے آنکھیں بند کرکے کیوں قبول کر لیا جائے، کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کی باتیں سنی اور قبول کی جاتی رہیں؟! آپ کو خود آگے بڑھ کر صحیح نظریہ قائم کرنا چاہئے۔ ہر ملک کے ماہرین اقتصادیات کو چاہئے کہ اپنی سرزمین کے حالات، وہاں کے عقائد اور اس مملکت کی خصوصیات نیز اقتصادی مسائل کے مطابق حل تلاش کریں۔ٹاپ اقتصادی تسلط و اجارہ داریسامراجی تسلط کی قربانی بننے والے ملکوں کے پاس کبھی بھی اطمینان بخش معیشت نہیں رہی ہے۔ کبھی کبھار ان کے ہاں ظاہری معاشی رونق نظر آتی تھی جیسا کہ (آج بھی) تسلط کا شکار بننے والے ملکوں میں ظاہری رونق نظر آتی ہے لیکن اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی اگر ان کا ایک دروازہ بند کر دیا جائے یا ان کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے تو سب کچھ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا، نابود ہو جائے گا۔ ایک سرمایہ دار نے دو تین مہینے کے اندر جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کو دیوالیہ کر دیا۔ ان میں دو تین ملکوں میں اچھی خاصی اقتصادی ترقی تھی۔ انہی میں سے ایک ملک کے سربراہ کا انہی دنوں تہران آنا ہوا اور میری ملاقات بھی ہوئی۔ کہنے لگے کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہم راتوں رات فقیر ہو گئے! ایک امریکی یہودی سرمایہ دار نے بالکل اس طرح جیسے مٹی کا گھروندا ایک جھٹکے میں ختم ہو جاتا ہے ایک جھٹکے میں سب کچھ ختم کر دیا۔ امریکیوں کو جہاں ضرورت محسوس ہوئی پچاس، ساٹھ ارب ڈالر انجکٹ کر دئے، کہیں پچاس ارب اور کہیں تیس ارب، اور جہاں انہیں ضرورت نہیں محسوس ہوئی اسے تباہ کر دیا۔ البتہ انجکٹ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اسی مٹی کے گھروندے کو ایک الگ انداز سے بنا دیا ہے۔ بہرحال ان ممالک کی معیشت کو مستحکم نہیں ہونے دیتے۔ٹاپ سیاسی و ثقافتی خود مختاری میں پائیدار معیشت کا کرداراسلامی انقلاب سے ملت ایران کو سیاسی خود مختاری کا تحفہ ملا۔ اس قوم کو یہ جرئت ملی کہ دنیا کے غیر منصفانہ اور تسلط پسندانہ نظام کے مد مقابل سینہ سپر ہو جائے۔ یہ قوم اگر سیاسی خود مختاری اور ثقافتی تشخص کو دنیا کی سامراجی طاقتوں سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط کرنا ہوں گی۔ یہ ملک میں خود مختاری کی جڑوں کے مستحکم ہونے کے معنی میں ہے، اس کا دار و مدار پیداروار، کام، روزگار کی صورت حال میں بہتری، مختلف شعبوں میں نئی دریافتوں پر ہے۔ تحقیقاتی مراکز اور تجربہ گاہوں سے لیکر کارخانوں اور زراعت تک ہر جگہ نئی ایجادات ہونا چاہئے۔ ایسا ہو جانے پر ملت ایران کے گستاخ اور خونخوار دشمن ہاتھ مل کر رہ جائیں گے اور خاموشی سے گوشہ نشین ہو جائیں گے۔ ٹاپ دوسرا باب: اقتصادی پابندی و محاصرہمحاصرے میں ترقیاسلامی انقلاب نے تمام تر ترقی ایسے عالم میں کی کہ جب ایران کے دشمنوں یعنی امریکا اور اس کے ہمنواؤں نے سیاسی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں ایران کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بلا وقفہ جاری رکھا۔ ہمیشہ ایران سے کہا گیا کہ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے گا۔ کہا گيا کہ آپ لوگ بھوکوں مر جائیں گے۔ ہمیشہ تلقین کی گئی کہ اس ملک میں تعمیر و ترقی کی راہ مسدود ہو جائے گی۔ اسی طرح دیگر گوناگوں دھمکیاں۔ بحمد اللہ یہ جو ساری ترقی ہوئی ہے ان دھمکیوں، دشمنی اور دباؤ کے باوجود ہوئی ہے۔ٹاپاقتصادی ترقی میں معاشی پابندیوں کے اثراتجنگ کے آغاز کے وقت سے اب تک اسلامی جمہوریہ ایران زمین سے آسمان پر پہنچ چکا ہے۔ ایران کو اقتصادی پابندیوں اور معاشی محاصرے کی دھمکیاں دیتے ہیں! اس ملک نے اسی اقتصادی محاصرے کے عالم میں یہ بے شمار وسائل ایجاد کئے ہیں۔ اقتصادی محاصرہ سبب بنتا ہے کہ ملک کے اندر با استعداد و با ایمان افرادی قوت زیادہ تندہی سے کوششیں اور اقدامات کرے۔ اقتصادی پابندیوں کے سخت ترین مراحل میں ایرانی جوانوں نے ایسے ہتھیار تیار کئے کہ پوری دنیا میں امریکا اور اس کے ذریعے نوازی جانے والی ایک دو حکومتوں کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں تھے۔ یہی اینٹی ٹینک میزائل تاو اس ملک کے جوانوں نے کن حالات میں تیار کیا؟ ان پر سارے دروازے بند تھے لیکن انہوں نے بنا ڈالا۔ البتہ جوہری توانائی دنیا میں اپنی خاص اہمیت کے باعث ذرا زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئی ورنہ اسی سطح کے دوسرے مختلف شعبوں میں متعدد کارنامے انجام دئے گئے ہیں جن کی اہمیت اس (ایٹمی ٹکنالوجی) سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ البتہ ان کا دفاعی یا فوجی استعمال نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اقتصادی محاصرے کے دوران ، شدید سیاسی و اقتصادی دباؤ میں اور ان حالات میں انجام دیا گيا جب حتی وہ حکومتیں بھی جن کے ایران سے اقتصادی تعلقات تھے ایران سے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کرتی تھیں۔ پھر بھی ایران کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک قوم کی عظیم صلاحیت ہے جو یہ کامیابیاں دلاتی ہے۔ اگر دنیا میں کچھ مقامات پر ایران کے لئے دروازے بند ہیں تو اس کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ اگر دروازے کھلے ہوں تو انسان پر سستی اور کاہلی سوار ہونے لگتی ہے اور نتیجے میں وہ کسی مقام پر نہیں پہنچ پاتا۔ اہم کاموں میں محنتوں اور کاوشوں کے لئے عظیم جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ مسلسل نئی ایجادات اور نئی نئی دریافت میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ان کی علمی روش اور طرز عمل انہیں اس کے لئے حوصلہ عطا کرتا ہے اور دوسری بات یہ کہ ان کے لئے یہ کام آسان ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سامراجی طاقتوں کا پیسہ بھی انہیں دستیاب ہے۔ اس وقت مغرب والوں نے علم و سائنس کے ذریعے خود کو پوری دنیا پر مسلط کر رکھا ہے۔ ان کے اپنے عزائم ہیں۔ ان ممالک کو بھی جنہیں پسماندہ رکھا گیا ہے ترقی و حرکت کے لئے اپنے اندر جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔ یہ جذبہ پیدا ہونے کے عوامل و اسباب میں ایک، دروازوں کا بند ہونا بھی ہے۔ٹاپ ایران کی پیشرفت و ترقی کی مخالفتسرمایہ داری اور سامراج کا خیمہ اپنی تمام تر سیاسی توانائيوں، اپنی پوری مالیاتی و اقتصادی طاقت کے ساتھ اور اپنے تشہیراتی چینلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حتی الوسع ملت ایران پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ عقب نشینی کر لے، ہتھیار ڈال دے۔ صرف ایٹمی شعبے میں نہیں یہ تو ملت ایران کے حقوق کا ایک حصہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ملت ایران عزت کی زندگی کے حق سے، خود مختاری کے حق سے، حق خود ارادیت سے، سائنسی میدان میں ترقی کے حق سے دستبردار ہو جائے۔ اس وقت ملت ایران سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کی راہ پر گامزن اور طاغوتی (شاہی) دور کی دو سو سالہ پسماندگیوں سے باہر نکلنے پرکمربستہ ہے۔ یہ (دشمن) سراسیمہ ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ملت ایران جو دنیا کے حساس ترین علاقے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی شناخت حاصل کر چکی ہے، یہ کامیابیاں حاصل کرے، یہی وجہ ہے کہ وہ دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن ملت ایران کے پائے ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے محب وطن انقلابی شاعر محمد شاہرخی کے انتقال پر ایک تعزیتی پیغام جاری کیا: پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیمفرض شناس شاعر جناب محمود شاہرخی رحمت اللہ علیہ کے انتقال پر ملک کے ادبی حلقے، ان کے مداحوں اور اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ آپ انقلابی اشعار کی دنیا کے کہنہ مشق شعرا اور ان فنکاروں میں تھے جنہوں نے اپنے سخن و بیان کے سرمائے سے انقلاب کی مدد کی اور اپنے فن کو پوری صداقت کے ساتھ اس کے اعلی اہداف کے لئے وقف کر دیا۔ انقلابی شعرا کی نو خیز نسل اس شاعر اور اس پر افتخار وادی کے دیگر کہنہ مشق اساتذہ کی مقروض ہے۔ ہم سب کو اس وسیع و اہم ترین محاذ کے صف شکنوں اور راہ گشاؤں کی قدر کرنا چاہئے۔ میں اس عزیز دوست کے لئے رحمت و رضائے الہی کی دعا کرتا ہوںسیّدعلی خامنهای27/آبان/138818-11-2009
حضرت عیسی مسیح علیہ السلام
مسلمانوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح کی قدر و منزلت عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی نظر میں ان کی قدر و منزلت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس عظیم پیغمبر نے لوگوں کے درمیان اپنا پورا وقت جد و جہد کرتے ہوئے گزارا تا کہ ظلم و جارحیت، بد عنوانی و فساد اور ان لوگوں کا مقابلہ کریں جو دولت و طاقت کے ذریعے قوموں کو زنجیروں میں جکڑ کر دنیا و آخرت کے جہنم میں گھسیٹتے ہیں۔ اس عظیم پیغمبر نے بچپن سے ہی، چونکہ وہ بچپن میں ہی منصب نبوت پر فائز ہو گئے تھے، اسی راہ سارے رنج و الم میں برداشت کئے۔
پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی
اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرطاسلام اور اقتصادی ترقیترقی کا علاقائی نمونہاقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورتاسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہتعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوفتمام طبقات کا فریضہتعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیتتعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائلتعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں
دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل
کام
کام کی کیفیتاسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمتاقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ
محنت کش طبقہ
محنت کش کا تقدسمحنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرضمعاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمتسرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت
خواتین
تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردارعورتوں کی اقتصادی سرگرمیاںاسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں
کفایت شعاری
اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت
روحانیت و معنویت
اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت
نظم و ضبط
مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط
تیل
تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائےقومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت
منصوبہ بندی
اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ
صحیح انتظام
اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت
خود اعتمادی
تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت
اصلاح
اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت
صنعت
اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار
قومی اتحاد
قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط
اقتصادی تعمیر و ترقی
پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی
اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرط
اسلامی جمہوریہ ملک کی تعمیر و ترقی اور ایران کو استبدادی دور کی پسماندگیوں سے نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اس وقت سائنسی، اقتصادی اور صنعتی ترقی کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اور جدید کاری کی ہر کوشش مقدس اسلامی جمہوری نظام کی حقانیت کا ثبوت اور اس دعوے کے صحیح ہونے کی دلیل ہے لیکن ملک کی تعمیر و ترقی اور اقتصادی پیشرفت کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا جب وہ اسلامی اصولوں اور دینی طرز فکر پر استوار اور اسلامی انقلاب کے نعروں، اقدار اور امنگوں کی تقویت پر مرکوز ہو۔ اس صورت میں تعمیر و ترقی کی تحریک حقیقی اور ضمانت شدہ تحریک ہوگی اور ملک کو ترقی کے فریب میں مالیاتی و سیاسی و اخلاقی تنزلی اور انحصار کی کھائی میں نہیں لے جائے گی۔
ٹاپ
اسلام اور اقتصادی ترقی
اسلام قوموں کو خود مختاری اور آزادی عطا کرتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی میں انہیں آمروں، استبدادی طاقتوں اور کج فکری سے آزادی عطا کرتا ہے اور سامراج کے سیاسی دباؤ اور اقتصادی طاقت کے کمند سے بھی نجات دلاتا ہے۔ اسلامی قوموں کو سماجی انصاف پر مبنی رفاہ و اقتصادی آسودگی عطا کرتا ہے۔ وہ اقتصادی ترقی جو عوامی طبقات کے فاصلے کو بڑھائے اسلام کو پسند نہیں ہے۔ اقتصادی ترقی کا جو نسخہ آج مغربی ممالک پوری دنیا کے عوام کے لئے پیش کر رہے ہیں، جس سے کچھ طبقے تو عیش و عشرت میں پہنچ جاتے ہیں اور اقتصادی رونق میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ معاشرے کے کچھ دوسرے طبقے زیادہ غربت و افلاس اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اسلام کو پسند نہیں ہے۔
انصاف اور اخوت کے جذبے کے ساتھ اقتصادی خوشحالی اسلام کے زیر سایہ حاصل ہوتی ہے۔
ٹاپ
ترقی کا علاقائی نمونہ
اسلامی جمہوریہ میں ترقی کا نمونہ، عوام کے ایمان و عقیدے، ثقافتی و تاریخی حالات اور میراث کے تقاضے کے مطابق ایک مکمل مقامی اور ملت ایران سے مختص نمونہ ہے۔ کسی کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ عالمی بینک کی، نہ آئی ایم ایف کی، نہ کسی بائیں بازو کے ملک کی، نہ دائیں بازوں کے ملک کی کیونکہ ہر جگہ کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور (دوسروں کے) مسلط کردہ اور اکثر و بیشتر منسوخ شدہ نمونوں کی تقلید کرنے میں بہت فرق ہے۔
ٹاپ
اقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورت
معاشرے میں حقیقی معنی میں اقتصادی ترقی کے لئے ثقافتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ جب تک محقق اور علمی کاوشوں میں مصروف انسان کے اندر اپنے کام سے لگاؤ اور فرض شناسی کا جذبہ اس انداز سے پیدا نہ ہوگا جو صحتمند ثقافت میں پایا جاتا ہے تو اس محقق کا وجود بے فائدہ رہے گا۔
مشکلات و مسائل کے حل کے دو معیار، جذبہ عمل اور سماجی نظم و ضبط ہیں۔ سماجی نظم و ضبط یعنی تمام امور میں منظم رہنا۔ جن لوگوں سے عوام رجوع کرتے ہیں وہ رجوع کرنے والے لوگوں سے اپنے برتاؤ میں نظم و ضبط کا خیال رکھیں اور جن لوگوں نے کچھ کاموں کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ ان کاموں کی انجام دہی میں نظم و ضبط کے پابند رہیں۔ ان چیزوں سے ملک اور قوم میں شادابی آئے گی اور کام آگے بڑھیں گے۔
ٹاپ
اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ
عالمی سامراج اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ شائد ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرے جس میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرگرم عمل یہ درجنوں ریڈیو اور ٹی وی نشریات یہ بات نہ دہرائیں کہ اسلامی جمہوریہ کی معیشت بحران میں اور زوال و تباہی و نابودی کے دہانے پر ہے۔ ہاں کیوں نہیں، بالکل بحران میں ہے لیکن صرف انہی کے لئے، ایران کے عوام کے لئے تو ایران کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جارحوں اور ان افراد کے لئے جو ایران کے وسائل سے استفادہ کرنے کی فکر میں بیٹھے ہیں یقینا ایرانی معیشت بحرانی ہے۔ ایرانی عوام کے لئے بھلا کیا بحران ہو سکتا ہے؟ وہ تو اپنے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں جو ملک سلطنتی دور میں، وہ پہلوی سلطنت کا دور رہا ہو یا قاجاریہ دور، دنیا کے دیگر ملکوں کے سامنے اتنا کہنے کی جرئت نہیں رکھتا تھا کہ ہم بھی موجود ہیں، ہم بھی کچھ تیار کر سکتے ہیں ہم بھی اقدام کر سکتے ہیں، جو تیسرے اور چھوتھے درجے کا پوری طرح منحصر ملک تھا اور جس کے عمائدین بڑی طاقتوں کبھی برطانیہ تو کبھی امریکا اور کبھی روس کے دست نگر ہونے پر فخر کرتے تھے!
ٹاپ
تعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوف
ملت ایران اپنے ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جتنا اشتیاق رکھتی ہے دشمن اس سے اتنے ہی ہراساں اور خشمگیں ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ آباد اور مادی و روحانی رفاہ و فلاح سے مالامال معاشرے کی تعمیر میں ملت ایران کی کامیابی دوسری قوموں کے لئے اس عظیم ملت کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب ثابت ہوگی اور اس کا مطلب ہوگا دنیا کی سامراجی طاقتوں کے مفادات اور مقاصد پر خط بطلان کھینچ دینا۔ یہیں سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراج کی سازشوں کا طولانی قصہ شروع ہوتا ہے۔ جنگ مسلط کرنا، اقتصادی محاصرہ، سامراج، رجعت پسندی اور صیہونزم سے وابستہ عالمی ذرائع ابلاغ میں دائمی جھوٹے پرچار، انقلاب مخالف عناصر، بائیں بازو یا دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر اور روسیاہ منافقین اور انہی جیسے افراد کی حمایت یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انقلابی ملت ایران کو تابناک مستقبل تک رسائی سے روک دیا جائے۔
ٹاپ
تمام طبقات کا فریضہ
اگر ایران ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے، رفاہ و اقتصادی رونق، ہمہ گیر پیشرفت، سیاسی عزت، سوشل سیکورٹی، روزگار کی سیکورٹی، سائنسی و تحقیقاتی ترقی اسی طرح روحانیت و معنویت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے تو دو چیزوں کو مد نظر رکھے۔ ان دو چیزوں کا خیال رکھنا تمام طبقات کا فرض ہے بالخصوص آگاہ طبقات کا۔ دوکاندار، کسان، صنعت کار، مزدور، طالب علم، استاد، علمی شخصیات اور دینی رہنما ان دونوں چیزوں پر توجہ دیں: ایک یہ ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں سب کے سب ایک ساتھ مل کر کوشش کریں اور دوسرے یہ کہ خودسازی کی بھی کوشش کریں۔
و توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون
فلاح و نجات کا دار و مدار اس پر ہے کہ سارے لوگ اللہ تعالی کی جانب توجہ، خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور توسل کو نورانی راستے کے عنوان سے اپنائیں۔ دونوں میں کوئی ایک کافی نہیں ہے۔
ٹاپ
تعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیت
ملک کے حکام اور اعلی عہدہ داروں کی خود اعتمادی ایران کے انقلاب کی اقدار کا حصہ ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔ ملک کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل عہدہ داروں میں اس خود اعتمادی اور اس نظرئے کی تقویت ہونا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور اسی سرزمین کے لوگ ملک کو ضرورت اور خواہش کے مطابق بلند ترین مقام پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ ممکن ہے کہ کبھی بعض عہدہ داروں اور ان لوگوں کی توجہ جو مختلف شعبوں میں مصروف کار ہیں، اقتصادی شعبے میں یا ثقافتی اور دیگر شعبوں میں، ان تجزیوں کی جانب مبذول ہو جو کسی دانشور اور مصنف کے نام سے کسی تحقیقاتی جریدے میں شائع ہوتے ہیں۔ (ممکن ہے کہ) یہ تجزیہ لوگوں کی نظروں کو اس طرح اپنی سمت مبذول کر لے کہ ان کی خود اعتمادی ختم ہو جائے اور ذہنوں کو اس پروگرام کی جانب سے غافل کر دے جو ملک کے زمینی حقائق کی بنیاد پر تیار کیا گيا ہے۔
یہ کوشش ہونا چاہئے کہ اسکولی طلبہ کے اندر اسکول پہنچنے کے وقت سے اسی طرح یونیورسٹی کے طلبہ اور ان لوگوں میں جو نئے نئے وارد میدان ہوئے ہیں جذبہ خود اعتمادی کو اور اس فکر کو تقویت پہنچے کہ ملک کے مسائل کے سلسلے میں وہ اپنے ادراک، جذبات اور تجزیوں کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ فلاں غیر ملکی تجزیہ نگار اور اخبار نویس نے لکھ دیا کہ ایران کو ترقی اور اقتصادی مسائل سے نجات کے لئے فلاں راستے پر چلنا چاہئے تو اسی کو وحی منزل مان لیا جائے۔ جہاں تک علمی و سائنسی نظریات کی بات ہے تو وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اور جس کی زبان سے بھی نکلیں قابل توجہ ہیں لیکن یہ نہیں کہ انہیں آنکھیں بند کرکے قبول کر لیا جائے بلکہ ان کا تجزیہ کرنے کے بعد یعنی انسان ایک بات کو لے اس کا ملک کے گوناگوں حالات کی روشنی میں جائزہ لے اور کے بعد اس پر عمل درآمد کرے۔
ٹاپ
تعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائل
تعمیر و آبادکاری کے دور میں کچھ اقتصادی مشکلات کا سامنے آنا فطری ہے۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے حکومتی سطح پر دگنا کوشش ہونا چاہئے۔ افراط زر کا مسئلہ کسی طرح حل کیا جانا چاہئے۔ ملکی کرنسی کی قدر کو مناسب تدبیروں اور بلا وقفہ کوششوں سے استحکام بخشنا چاہئے۔ البتہ یہ بنیادی قسم کے کام دراز مدت میں اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ البتہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ غافل ہوکر بیٹھ رہا جائے اور کم مدتی اور میانہ مدتی طریقوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہی ملکی کرنسی کی قدر ملک کے بہت سے مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ نچلے عوامی طبقات کی قوت خرید میں کمی اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ان کی عاجزی اسی مسئلے کا نتیجہ ہے۔
ٹاپ
تعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں
چونکہ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور کاموں میں کئی گنا اضافے، ثروت جمع کر لینے، اقتصادی سرگرمیوں میں وسعت لانے کا دور اور ایسا وقت ہے جس میں اگر کوئی اقتصادی سرگرمیاں کرنا چاہے تو اس کے لئے راستہ کھلا ہوا ہوتا ہے بنابریں ان حالات میں جو دنیا پرست لوگ ہیں جن کے دل دنیا کی رنگینیوں میں غرق ہیں جو لوگ اپنے ذاتی مفادات کو ملک و قوم اور انقلاب کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ان کے لئے زراندوزی، دولت جمع کرنے، اسے غلط طریقے سے استعمال کرنے اور عیش و عشرت کی جانب بڑھنے کے لئے راستہ کھلا ہوتا ہے۔ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور ملک کو بنانے سنورانے اور قوم کو ترقی کی منزلوں پر پہنچانے کا دور ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ دور معمولی لوگوں میں زراندوزی ، ذخیرہ اندوزی، تصنع، تعیش پرستی اور اقتصادی استحصال کی خو پیدا ہو جانے کا دور بھی ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے، عوام کو بھی اور حکام کو بھی۔
ٹاپ
دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل
Kazi
کام کی کیفیت
مزدوروں کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ نظام کی خدمت اور قوم کی اقتصادی پیشرفت میں اپنا کردار ادا کریں اور بہترین انداز میں معیاری مصنوعات تیار کریں۔ رسول اسلام سے منقول ہے کہ
رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنھ
یعنی رحمت خدا ہو اس شخص پر جو کاموں کو بنحو احسن انجام دے۔ مزدور اپنے کام بہترین شکل میں انجام دیں اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ خواہ سرکاری یا غیر سرکاری ٹھیکیدار مزدوروں کی کد و کاوش کا احساس کرے یا نہ کرے انہیں مناسب محنتانہ دے یا نہ دے ان کے کام پیش خدا محفوظ ہیں۔ البتہ طریقہ تو یہی ہے کہ مزدوروں کی محنت کا احساس کرکے انہیں مناسب محنتانہ دیا جائے۔ کام کی بنحو احسن انجام دہی اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔
ٹاپ
اسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمت
قرآنی و اسلامی نقطہ نگاہ سے محنت و مشقت اور کام کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ اگرچہ کام صرف کارخانے، کھیت اور دیگر مقامات تک ہی محدود نہیں ہے تاہم جس عمل صالح پر قرآن میں اتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے ان کاموں پر بھی اس کا اطلاق یقینا ہوتا ہے۔ یعنی جب کام کرنے والا احساس ذمہ داری کے ساتھ کام انجام دیتا ہے، جذبہ عمل کے ساتھ کام کرتا ہے، سنجیدگی و تندہی کے ساتھ عمل کرتا ہے، خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے اور کام کرتے وقت ایک کنبے کے آذوقے کی فراہمی کی نیت ذہن میں رکھتا ہے تو یہی عمل صالح بن جاتا ہے۔
الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات
یہ عمل صالح کا مصداق بن جاتا ہے۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ انسان کام کر رہا ہے کیونکہ اس کی زندگی اسی کام سے وابستہ ہے اور یہی کام عمل صالح کا مصداق بھی بن جائے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ قرار دیا گيا ہے۔
آمنوا و عملوا الصالحات
ٹاپ
اقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ
اقتصادی ترقی میں کام کی ترغیب دلائی جانی چائے۔ کام کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یوں تو سرمایہ کاری کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا لیکن سرمایہ کاری کام کا ایک ستون ہے، اس کی بنیاد اور اساس مزدور کی محنت ہے۔ کام میں اگر لگاؤ، مہارت، لگن اور دشواریوں کے تحمل کرنے کا جذبہ نہ ہو تو اس سے ملک کو نجات کے ساحل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کیفیت والے کام کے بغیر ملک وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں اسے پہنچنا ہے۔
ملت ایران آج اقتصادی خود انحصاری کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تیل پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کوشش میں ہے کہ ملک کی معیشت کو ایسی ڈگر پر ڈال دیا جائے کہ (عالمی منڈیوں میں) تیل کی قیمت کی گراوٹ کا ملک کے اندر (منفی) اثر نہ پڑے۔ یہ کام کیسے ہوگا؟ ملت ایران اگر خود کو تیل سے بے نیاز کرنا چاہتی ہے تو کام اور کام کے نقطہ نگاہ پر توجہ دئے بغیر یہ چیز ممکن نہیں ہوگی۔
ٹاپ
محنت کش
محنت کش کا تقدس
عرف عام میں محنت کش کے لفظ کا ایک تقدس ہونا چاہئے۔ محنت کش کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ محنت کش وہ انسان ہے جو اس لئے کام کر رہا ہے کہ قوم اور ملک خود مختاری کی نعمت سے بہرہ مند ہو۔ یہ خیال تمام لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ جانا چاہئے۔ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ محنت کش کی کتنی اہمیت ہے۔ محنت کش طبقے کا ملک میں بہت اہم کردار ہے۔ پیداوار کا اصلی بوجھ محنت کش طبقے کے دوش پر ہے۔ یہ محنت کش کا عنوان ان تمام افراد پر صادق آتا ہے جو ملک کی ترقی، ملکی پیداوار میں اضافے اور ملک میں کام کی صورت حال کی بہتری کے لئے محنت و مشقت کر رہے ہیں۔
اسلامی معاشرے میں اسلامی عہدہ داران کام اور محنت کشوں کے بارے میں بڑے احترام سے بات کرتے ہیں یہ محض لفاظی اور تکلفات نہیں ہیں۔ دنیا میں یقینا ایسے لوگ مل جائیں گے جو بیان بازی کی حد تک مزدوروں سے بڑی ہمدردی ظاہر کرتے ہیں لیکن اس شخص میں جو لوگوں میں مقبولیت بڑھانے کے لئے نعرے دیتا ہے اور اس شخص میں جو کام کو حقیقت میں عمل صالح کا درجہ دیتا اور اسے مقدس سمجھتا ہے بہت فرق ہے۔ یہی آخر الذکر اسلام کا نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی محنت کش (کام کے وقت) عبادت کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کا کام عبادت ہے۔
ٹاپ
محنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرض
یقینا اسلامی جمہوری نظام کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ محنت کش طبقے کو، جو ملک کی پیداوار اور معیشت کا پہیہ گھمانے میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہا ہے، اس کے انسانی و اسلامی حقوق سے بہرہ مند کرے۔ محنت کشوں کی زندگی میں مادی و معنوی لحاظ سے بہتری آئے۔ مناسب قوانین کے اجراء اور روزگار کے نئے نئے مواقع ایجاد ہونے کے بعد ایرانی معاشرے میں غربت باقی نہیں رہنا چاہئے۔ مزدور جو معاشرے کے مستضعف طبقے میں شامل ہیں معاشی ترقیاتی منصوبوں میں انہیں ترجیح دی جانی چاہئے۔ اگر محنت کشوں کی ضروریات پوری ہوں تو کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام پائے گا۔
ٹاپ
معاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت
ملک کی خود مختاری کام پر موقوف ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی قوم کام کے سلسلے میں بے توجہی، بیکاری اور تعیش پسندی کے ساتھ کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ کسی ایک شعبے سے آمدنی ہو رہی ہو اور بظاہر عیش کے ساتھ زندگی گزر رہی ہو، غیر ملکی اشیاء معاشرے میں اٹی پڑی ہوں لیکن (معاشرہ) خود مختاری سے محروم ہوگا۔ خود مختاری کی نعمت سے مالامال قوم کے وقار کا دار و مدار کام پر ہی ہوتا ہے۔ یہ ہے کام کی قدر و قیمت۔ اسلامی نظام اس نقطہ نگاہ سے محنت کش طبقے کو دیکھتا ہے اور اسی نقطہ نگاہ کے تحت محنت کشوں کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ جس نے بھی کسی مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اس نے بالکل صحیح عمل انجام دیا ہے کیونکہ (ایسا کرکے) اس نے اپنی قوم اور اپنے ملک کی خود مختاری کے ایک اہم عامل اور عنصر کا احترام کیا ہے۔ کام کی اتنی زیادہ اہمیت ہے۔
ٹاپ
سرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت
سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں مزدور محض ایک وسیلہ ہوتا ہے، کام کروانے والے کی خدمت کا ایک ذریعہ۔ محنت کش طبقے کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے نابود شدہ اشتراکی مکتب فکر میں امپلائر اور محنت کشوں کے ما بین جنگ اور ٹکراؤ کی کیفیت ہوتی تھی۔ یہ (اشتراکی) نظام اسی جنگ کی روٹی کھاتے تھے اور خود کو محنت کش طبقے کا حامی و طرفدار کہتے تھے۔ اس زمانے میں سابق سویت یونین کے نام نہاد اشتراکی نظام میں وہی سرمایہ داری کی بساط بچھی ہوئی تھی، وہی اسراف ہو رہا تھا، وہی گوناگوں مالی بد عنوانیاں تھیں البتہ مزدور اور محنت کش طبقے کی حمایت و دفاع کے نام پر۔ ان کی روش ٹکراؤ اور تنازعے کی روش تھی۔ اسلام، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ان دونوں میں سے کسی بھی روش سے متفق نہیں ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ امپلائر اور کام کے مواقع ایجاد کرنے والوں کا وجود ایک بازو ہے تو افرادی قوت دوسرا بازو۔ ان دونوں کا وجود اور باہمی تعاون ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری، تعاون کے لئے ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کی ایک لکیر کھینچنا ہے تاکہ کوئی بھی دوسرے کے حقوق پر تجاوز نہ کرے۔ اگر یہ صورت حال ہو تو معاشرہ پوری صحتمندی کے ساتھ حرکت کرے گا۔ نہ اسراف اور فضول خرچی کا چلن ہوگا اور نہ ایک طبقے کی محرومی کو اس طبقے کی (تقدیر اور) ثقافت کا جز تصور کیا جائے گا۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کی منطق و روش ہے۔
ٹاپ
خواتین
تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردار
اسلامی ملک کی تعمیر و آبادکاری کے دور میں، جب قوم اور حکام اس کوشش میں ہیں کہ عظیم مملکت ایران مادی لحاظ سے بھی، سماجی نظم و ضبط کے لحاظ سے بھی اور روحانی و معنوی اعتبار سے بھی حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرے، سب سے زیادہ انحصار افرادی قوت پر ہے۔ یعنی اگر کوئی ملک حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ تکیہ، توجہ اور ارتکاز افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہو تو ہمیں اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت ملک کی عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے بارے میں غلط نقطہ نگاہ اپنایا جائے تو وسیع سطح پر حقیقی تعمیر و آبادکاری ممکن نہیں ہوگی۔ خود خواتین کو بھی عورت کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ کی پوری واقفیت و آگاہی ہونا چاہئے اور معاشرے کے تمام لوگ اور اسلامی ملک کے تمام مرد بھی یہ سمجیں کہ عورت کے تعلق سے اسلام کا نظریہ، زندگی کے شعبوں میں عورت کے کردار، فعالیت، تعلیمی سرگرمیوں، سماجی، سیاسی اور علمی امور سے متعلق کوششوں، گھر کے اندر اور گھر کے باہر عورت کے کردار کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟
مسلمان مرد کی طرح مسلمان عورت کو بھی یہ حق ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق جو فرائض اپنے دوش پر دیکھے انہیں پورا کرے اور جو خلا محسوس کرے اسے بھرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اگر کوئی لڑکی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے یا اقتصادی سرگرمیاں انجام دینا چاہتی ہے اور دیگر علمی موضوعات پر کام کرنا چاہتی یا یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس میں دلچسپی رکھتی ہے، یا سیاسی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے یا نامہ نگار بننا چاہتی ہے تو اس کے لئے دروازے کھلے ہونا چاہئے۔ اسلامی معاشرے میں عفت و پاکیزگی اور مرد و زن کے عدم اختلاط کی شرط کے ساتھ مرد و عورت دونوں کے لئے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں۔ اس کا ثبوت اس موضوع کی وہ اسلامی تصنیفات ہیں جو (اس وقت بھی) موجود ہیں۔ تمام اسلامی احکامات میں مرد و زن کو یکساں طور پر سماجی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
عورتوں کو بھی مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلام کے معاملات اور دنیا میں در پیش مسائل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے کیونکہ یہ (ان کا) اسلامی فریضہ ہے۔
ٹاپ
عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں
اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے سیاسی، اقتصادی اور علمی سرگرمیوں اور محنت و مشقت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی اسلامی نظرئے کو بنیاد قرار دیکر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کرے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کی کوشش کرے یا سیاسی و سماجی کردار سے محروم کرنے کا ارادہ رکھے تو اس نے حکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے۔ عورتیں اپنی جسمانی توانائی اور ضرورتوں اور احتیاج کے مطابق سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ البتہ چونکہ جسمانی لحاظ سے مرد کے مقابلے میں عورت نازک ہوتی ہے اس لئے اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر بھاری کام مسلط کرنا اس کے حق میں نا انصافی ہے۔ اسلام اس کا مشورہ نہیں دیتا، البتہ (واضح طور پر) منع بھی نہیں کرتا۔ ہاں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلاۃ و السلام سے (اس سلسلے میں) ایک روایت منقول ہے :
المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ
یعنی عورت پھول ہے قھرمان نہیں۔ قہرمان آبرومند خادم کو کہتے ہیں۔ (مولا) فرماتے ہیں کہ آپ کے گھروں میں عورتیں لطیف پھول کی مانند ہیں ان سے بہت توجہ اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ عورت آپ کی خادمہ نہیں ہے کہ آپ بھاری اور محنت کے کام اس کے ذمے کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
ٹاپ
اسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں
سماجی سرگرمیوں کے میدان میں جس میں اقتصادی سرگرمیاں، سیاسی سرگرمیاں، علمی سرگرمیاں، تعلیمی سرگرمیاں، تدریسی سرگرمیاں، راہ خدا میں جد و جہد، سب شامل ہیں، زندگی کے ان تمام میدانوں میں اسلام کے نقطہ نگاہ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانی معاشرے سے متعلق تمام سرگرمیوں اور جملہ کارہائے زندگی میں عورت اور مرد کو (فعالیت کی) یکساں اجازت دی گئی ہے۔ البتہ کچھ کام ہیں جو عورتوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ ان کی جسمانی ساخت کے مطابق نہیں ہیں، بعض کام ہیں جو مردوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کے مزاج اور جسمانی ساخت سے میل نہیں کھاتے۔ اس چیز کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت سماجی سرگرمیوں کے میدان میں موجود رہ سکتی ہے یا نہیں۔ کام کی تقسیم وسائل، شوق و جذبے اور کام کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر عورت کو دلچسپی ہے تو وہ گوناگوں سماجی سرگرمیاں اور معاشرے سے متعلق کام انجام دے سکتی ہے۔
اب کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دیکر عورت کو اقصادی اور سماجی سرگرمیوں سے روک دے تو یہ غلط ہے۔ اسلام نے ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو طاقت فرسا کاموں، دشوار اقتصادی، سیاسی یا سماجی امور کی انجام دہی پر مجبور کیا جائے۔ یہ جو بعض افراد کہتے ہیں کہ عورت ہر حال میں کام کرے اور پیسہ کمائے، غلط ہے۔ یہ چیز خلاف شریعت تو نہیں لیکن اسلام ان چیزوں کی سفارش بھی نہیں کرتا۔ اسلام کا نقطہ نگاہ اعتدال پسندانہ نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی اگر عورت کے پاس فرصت اور وقت ہے، بچے کی پرورش رکاوٹ نہیں بن رہی ہے اور اس میں جسمانی طاقت و توانائی اور شوق و جذبہ بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ وہ ہر صورت میں کام کرے اور روزانہ فلاں مقدار میں پیسہ کمائے تاکہ اس کی آمدنی سے گھر کے خرچ کا ایک حصہ پورا ہو تو یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام نے عورتوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے۔ اس چیز کو عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ علمی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں عورت کے ساتھ کوئی اجبار و اکراہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کے سد راہ بننا چاہئے۔ اگر خواتین سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ علمی سرگرمیاں بہت بہتر ہیں اور انہیں دیگر سرگرمیوں پر ترجیح حاصل ہے۔
ٹاپ
کفایت شعاری
اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت
کفایت شعاری کا مطلب خرچ نہ کرنا نہیں ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب صحیح خرچ کرنا، بجا خرچ کرنا، سامان ضائع نہ کرنا، استعمال کو کارآمد اور ثمر بخش بنانا ہے۔ مال اور معیشت میں اسراف یہ ہے کہ انسان مال خرچ کرے اور اس کا کوئی فائدہ اور نتیجہ بھی نہ ہو۔ بے مقصد خرچ کرنا در حقیقت مال کو ضائع کرنا ہے۔ معاشرے میں پیداوار اور خرچ کے ما بین مناسب تناسب ہونا چاہئے۔ تناسب پیداوار کے حق میں ہونا چاہئے یعنی معاشرے کی پیداوار معاشرے کے خرچ سے زیادہ ہونا چاہئے۔ معاشرہ ملک کی پیداوار سے استفادہ کرے اور جو بچ جائے اسے ملک کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا جائے۔ قرآن کریم کی آیتوں میں متعدد مقامات پر معاشی امور میں اسراف سے گریز پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے۔ اسراف سے اقتصادیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ثقافت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اگر معاشرہ اسراف کی بیماری سے دوچار ہو جاتا ہے تو ثقافتی لحاظ سے بھی اس پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بنابریں کفایت شعاری اور اسراف سے پرہیز کا مسئلہ صرف اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی مسئلہ کے ساتھ ساتھ سماجی مسئلہ بھی ہے اور ثقافتی مسئلہ بھی ہے۔ اس سے ملک کے مستقبل کے لئے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
ٹاپ
روحانیت و معنویت
اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت
اسلامی انقلاب آیا تاکہ ملت ایران کو حیات طیبہ کا تحفہ پیش کرے۔ حیات طیبہ یعنی وہ چیز جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے فلنحیینھ حیاۃ طیبۃ اس انقلاب کا یہ نصب العین اور ثمرہ ہے۔ حیات طیبہ یعنی یہ کہ معاشرہ مادی اور روز مرہ کی زندگی کے لحاظ سے رفاہ و آسائش، تحفظ و سلامتی، علم و دانش، سیاسی وقار، اقتصادی خود مختاری، مالیاتی چہل پہل اور اقتصادی رونق سے بہرہ مند رہے اور معنوی و روحانی لحاظ سے بھی با ایمان، خدا شناس اور پرہیزگار انسان جو اعلی الہی اقدار و اخلاقیات سے آراستہ ہوں اس میں زندگی بسر کریں۔ یہی حیات طیبہ ہے۔
دنیا میں بعض جگہوں پر اقتصادی چہل پہل اور مادی رفاہ و آسائش تو کسی حد تک نظر آتی ہے لیکن روحانیت ناپید ہوتی ہے۔ جب معاشرے میں روحانیت نہ ہو تو اقتصادی آسودگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے نہ تفریق ختم ہوتی ہے، نہ سماجی انصاف قائم ہوتا ہے، نہ بھکمری مٹتی ہے اور نہ بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ صرف اقتصادی چہل پہل ہی تو ملک کا سب کچھ نہیں ہے۔
آپ امریکی قوم کو دیکھئے! اقتصادی سرگرمیوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی پیداوار بہت زیادہ ہے، ان کی علمی و سائنسی ترقی بہت زیادہ ہے، ان کے کارخانے (باقاعدگی سے) سے کام کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو اپنی مصنوعات صادر کر رہے ہیں اور ملک کی آمدنی بڑی اچھی ہے۔ لیکن یہ قوم اس اقتصادی ترقی سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ کیوں؟ کیونکہ اس ملک میں روحانیت ہے نہ سلامتی، نتیجے میں خود کشی اور نوجوانوں کی گمراہی اور بے راہروی بہت زیادہ ہے۔ بچے بارہ تیرہ سال کی عمر سے قتل کرنا سیکھ جاتے ہیں، خاندان بکھرتے جا رہے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے لئے تکیہ گاہ تصور نہیں کر سکتے۔ نہ عورت کو اس پر اطمینان ہوتا ہے کہ اس کا شوہر ہے اور نہ شوہر کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ اس کی بیوی موجود ہے! خاندان والی بات ہی نہیں ہے۔
آج خود امریکی کہتے ہیں، ان کے جرائد لکھتے ہیں، روشن فکر افراد اور سیاستداں حضرات کہتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں روحانیت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں دین و ایمان نہیں ہے۔ اقتصادی آسودگی کسی حد تک ہے لیکن یہ اقتصادی رفاہ و آسودگی بھی ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ اس ملک کی آمدنی بنیادی طور پر ایک مخصوص گروہ کے پاس جاتی ہے بقیہ افراد کو اس میں سے کچھ نہیں ملتا۔
یہ اس معاشرے کا حال ہے جس کے پاس مادیت ہے لیکن معنویت و روحانیت نہیں ہے۔ اسلام ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دینا چاہتا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مادیت بھی ہو اور معنویت بھی، پیسہ و رفاہ بھی ہو اور دین و ایمان بھی، معاشرے میں اقتصادی ترقی و پیشرفت بھی ہو اور اخلاقی و روحانی ارتقاء بھی ہو۔ یہ ہے اسلام کی حیات طیبہ۔
ٹاپ
نظم و ضبط
مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط
مالی نظم و ضبط یعنی زیادہ روی اور اسراف کا مقابلہ۔ چیزوں کے استعمال اور پیسے کے خرچ میں زیادہ روی، فضول خرچی اور اسراف بالکل اچھی بات نہیں ہے۔ یہ جود و سخاوت ہے نہ کرم و عطا، یہ محض اقتصادی بد نظمی ہے۔ جو لوگ بلا وجہ خرچ کرتے ہیں، زیادہ خرچ کرتے ہیں، چیزوں کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں، اقتصادی وسائل کے لحاظ سے معاشرے کی حالت کا خیال نہیں رکھتے وہ مالی و اقتصادی نقطہ نگاہ سے بد نظم لوگ ہیں۔ ذاتی سرمائے اور حلال راستے سے کمائے گئے پیسے کا بھی بے تحاشہ خرچ نظم و ضبط کے منافی ہے۔ جو لوگ سرکاری مال اس طرح استعمال کرتے ہیں وہ تو اور بھی بدتر ہیں۔ حکام عوامی سرمائے کو ایسی جگہ خرچ کرنے سے شدت سے اجتناب کریں جو ترجیحات میں شامل نہیں ہے، ممکن ہے وہاں ضرورت ہو لیکن وہ ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ جب ترجیحی ضرورت اور غیر ترجیحی ضرورت کا معاملہ ہو تو اجتناب کریں۔ جہاں ضرورت اور احتیاج نہیں ہے وہاں کی تو خیر بات ہی اور ہے۔ اس جگہ بھی جہاں ضرورت و احتیاج ہے لیکن کسی دوسری جگہ اس سے زیادہ ضرورت ہے تب بھی وہاں پیسہ خرچ نہ کیا جائے بلکہ یہ پیسہ وہاں لگایا جائے جہاں زیادہ ضرورت ہے۔
ٹاپ
تیل
تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائے
میری سب سے بڑی آرزوی، جو ممکن ہے کہ اتنی جلدی پوری نہ ہو سکے، یہ ہے کہ ایران تیل کے کنؤوں کو بند کر دے اور تیل سے ہٹ کر دیگر مصنوعات اور پیداوار پر اپنی معیشت کی بنیاد رکھے۔ یعنی یہ فرض کر لیا جائے کہ ایران کے پاس تیل نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ کام چند برسوں میں اور اتنی جلدی انجام نہ پا سکے کیونکہ ایران میں بد عنوان اور پٹھو پہلوی حکومت کے دور میں دشمنوں نے بے حد تباہی مچائی ہے اور ملت اور ملک کو اس طرح تیل پر منحصر کر دیا ہے کہ یہ کام آسانی سے انجام نہیں پا سکے گا۔ تاہم کبھی نہ کبھی یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے اور وہ ایسا دن ہوگا جب ملت ایران اپنا سرمایہ مفت میں ان لوگوں کو دینے کے بجائے جو خباثت آمیز انداز میں ملکوں کے سرمائے استعمال کر رہے ہیں، اپنے ذاتی وسائل کی بنیاد پر اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہوگی۔
افسوس کہ یہ کام اس وقت ممکن نہیں ہے۔ اس وقت تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک کی خیانتوں اور عالمی لٹیروں کے ساتھ ان کی سازباز کا نتیجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ تیل ان ممالک کے لئے جو تیل پیدا کرتے ہیں نفع بخش اور سیاسی و اقتصادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہو، (تیل کے صارف) ممالک کا حربہ بنا ہوا ہے! بالکل اس سامان کی مانند جس کی کوئی مانگ اور ضرورت باقی نہ گئی ہو! جبکہ تیل ایسی چیز ہے کہ اگر آج اس کی فروخت بند کر دی جائے تو دنیا میں روشنی، حرارت اور صنعتی حرکت رک جائے گی۔ آج کی صنعتی تہذیب کی بنیاد مشینیں ہیں۔ اگر تیل نہ ہو تو یہ مشینیں ٹھپ پڑ جائیں گی۔ تیل کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔
ٹاپ
قومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت
ایرانی قوم اور معیشت کو تیل سے الگ ہونا چاہئے۔ کیونکہ بد قسمتی سے آج دنیا میں تیل، لٹیری، پوری دنیا کو ہڑپ لینے کی خواہشمند اور سامراجیوں سے وابستہ کمپنیوں کی سیاست کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ در حقیقت تیل انہی کی مٹھی میں ہے۔ جب چاہتی ہیں تیل کی قیمت کم کر دیتی ہیں، اس کی پیداوار میں کمی یا زیادتی کر دیتی ہیں۔ تیل تو ان ملکوں کی دولت ہے جو اس کے ذخائر کے مالک ہیں لیکن اس کی پالیسیاں دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں۔
تیل سے بے نیاز معیشت پر تکیہ ایک، دو سال اور پانچ سال میں ممکن نہیں ہے۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اور وقت گزرنے کے ساتھ ممکن ہوگی۔ ملک کے حکام امور مملکت کو چلانے کے لئے، مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے، امپورٹ اور سروسز کے لئے، تعلیم و تربیت اور کرنٹ بجٹ کے لئے، تیل فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں جو ملت ایران کا سرمایہ ہے۔ اس کے بدلے گیہوں اور دودھ کا پاؤڈر امپورٹ کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ خشت کج ہے جو پہلوی حکومت میں ( معروف شعر کی جانب اشارہ ہے: خشت اول چون نہد معمار کج، تا ثریا می رود دیوار کج) رکھی گئی ہے۔ پہلوی سلطنت نے جو دسیوں خیانت آمیز کام کئے ان میں ایک یہ ہے کہ اس نے ملک کی معیشت کو تیل پر منحصر کر دیا۔ اس صورت حال کو آسانی سے بدلا نہیں جا سکتا۔
ٹاپ
منصوبہ بندی
اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ
حکومت کے اقتصادی منصوبوں میں جو نقص بڑی آسانی سے نظروں میں آ جاتا ہے یہ ہے کہ تیاروں کے آغاز سے حکومت کے مطلوبہ نتائج کے حصول تک کے درمیانی وقفے میں معاشرے کے کمزور طبقے کو بڑی دشواریاں تحمل کرنا پڑ جاتی ہیں۔ یہ چیز صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالسیوں کے بارآور ہونے اور مانگ اور پیداوار میں توازن قائم ہونے تک، وہ وقت آنے تک جب سارے لوگ پیداوار سے صحیح طور پر استفادہ کر سکیں ممکن ہے کچھ فاصلہ ہو۔ اس فاصلے میں یہ (کمزور) طبقے سختیاں برداشت کرتے ہیں۔
ٹاپ
صحیح انتظام
اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت
ایران معقول اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے پر قادر ہے۔ یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ کام نہیں ہو پائے گا، پیشرفت ممکن نہیں ہے، مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں ہے، یہ غلط نظریہ اور خود اعتمادی کی کمی ہے۔ ہمدرد و کارآمد انتظامی سسٹم، فرض شناسی اور انسانی صلاحیتوں اور استعداد کے استعمال سے بند دروازوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی فرض شناس، مومن اور ہمدرد انتظامی عہدہ دار تھے اور انہوں نے عوام اور اسلامی نظام کے تعلق سے اپنے فرائض، اپنی عقل و تدبیر اور ایمان و اخلاص کے مطابق کام کیا وہاں اسلامی نظام کو کامیابیاں ملیں۔ ایران بعض پیچیدہ ترین صنعتوں کے میدان میں بھی کہ ایک وقت ایسا تھا جب ملک کے صنعت کار اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، اپنی انتظامی صلاحیتوں اور درست اقدامات کی بنا پر مطلوبہ مقام پر پہنچ چکا ہے۔ بہت سے حریف، دشمن اور اغیار اس حقیقت کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ لیکن بہرحال کبھی نہ کبھی تو انہیں یقین آئے گا، چونکہ وہ اس کے اثرات گوشہ و کنار میں دیکھ رہے ہیں۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ایران کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے؟! (مسلط کردہ) جنگ کے زمانے میں ایران معمولی ترین فوجی ساز و سامان تیار کرنے میں مشکلات سے دوچار تھا لیکن آج بہت سے انتہائی پیچیدہ ساز و سامان بھی، جو بہت سے ایسے ممالک کے پاس بھی نہیں ہیں جن کے پاس اس صنعت کا ایران سے زیادہ تجربہ ہے، انہی فرض شناس جوانوں اور با اخلاص انتظامی عہدہ داروں نے دفاعی صنعت کے شعبے میں تیار کر لیا ہے۔ صنعتی توانائی و استعداد کو محدود نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی ایک جگہ پر صلاحیت و توانائی ہے تو اسے پوری صنعت میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ دیگر پیداواری شعبوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ ملک میں درجنوں ڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ انقلاب کے اوائل میں ایک ڈیم میں رساؤ تھا۔ اس وقت بعض افراد جمع ہوئے اور انہوں نے یہ فیصلہ سنایا کہ جن انجینئروں نے اس ڈیم کی تعمیر کی ہے انہیں فلاں یورپی ملک سے بلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس رساؤ کو روکیں۔ لیکن با ایمان و فرض شناس جوانوں نے اور ایران کے جذبہ ہمدردی سے سرشار انہی انتظامی عہدہ داروں نے ان چند برسوں میں درجنوں ڈیم تعمیر کر ڈالے۔ بنابریں امور کی باگڈور فرض شناس اور جذبہ ہمدردی سے سرشار منتظمین کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ بلند ہمتی، فرض شناسی، ایمان، اسلامی نظام پر عقیدہ اور الہی محاسبے کا خوف منتظمین کے اندر ضروری ہے تاکہ یہ کام انجام پا سکیں۔
ٹاپ
خود اعتمادی
تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت
ملک کے حکام اور انتظامی امور کے ذمہ داروں میں خود اعتمادی کا موضوع ایران کے انقلاب کی بنیادی اقدار میں شامل ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو سکتی ہیں۔ ملک کے مختلف شعبوں میں مصروف کار عہدہ داروں کے اندر خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو تقویت پہنچائی جانی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ، ملت ایران اور اس ملک کے افراد اسے بلندیوں کے نقطہ کمال پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے ڈیم کو، جو کرخہ ڈیم ہے، سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے تعمیر کیا ہے۔ اس سے چند سال قبل جب کرخہ ڈیم کی تعمیر ہو رہی تھی میں نے جاکر اس کا معاینہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ ڈیم کے روبرو پہاڑ کے اوپر جلی حروف میں، جو کئی کلومیٹر کے فاصلے سے پڑھا جا سکتا تھا، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا یہ جملہ لکھا ہوا تھا ہم انجام دے سکتے ہیں جی ہاں بالکل کر سکتے ہیں۔
ٹاپ
اصلاح
اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت
اصلاح ایک لازمی اور ضروری حقیقت ہے، ملک میں اسے انجام دیا جانا چاہئے۔ اصلاح تو ایران کے نظام کی دینی و انقلابی ماہیت و تشخص کا جز ہے۔ اگر بدلتے حالات کے ساتھ اصلاح انجام نہ دی جائے تو نظام تباہ ہو جائے گا، غلط راستے پر چل پڑے گا۔ اصلاح ایک فریضہ ہے۔ خود اصلاح ایک لازمی عمل ہے جو انجام پانا چاہئے۔ اگر اصلاحات نہ ہوں تو دولت کی تقسیم غیر منصفانہ انداز میں انجام پاتی ہے، غربت پھیلتی ہے، زندگی دشوار ہو جاتی ہے، ملک کے ذخائر کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا، بڑے دماغ فرار ہونے لگتے ہیں اور جو دماغ باقی رہ جاتے ہیں ان سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن اگر اصلاحات ہوں تو یہ آفتیں، یہ نقصانات اور ایسی ہی دیگر درجنوں مصیبتیں پیش نہیں آتیں۔
ٹاپ
صنعت
اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار
ملکی معیشت کی ترقی کا ہراول دستہ صنعتی شعبہ ہوتا ہے۔ صنعتی شعبے کو بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ، انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر، عوامی سرمائے کے لئے میدان کھول کر اور راستہ صاف کرکے، تاکہ عوام صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کر سکیں، صنعتی شعبے کو آگے بڑھانا چاہئے۔ متعلقہ حکام کے سسٹم میں مالیاتی و اقتصادی بد عنوانی ملکی معیشت کے پیکر میں سرایت کر جاتی ہے لہذا اس کا سد باب کر دیا جانا چاہئے۔ سد باب کی اس کوشش کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ یہ چیز اچھے سرمایہ کاروں کے اطمینان خاطر اور احساس تحفظ کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔ سرمایہ کار غلط فائدہ تو اٹھانے کی فکر میں رہتا نہیں وہ نفع کمانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بھی سرمایہ کاری کرتا ہے نفع حاصل کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، یہ نفع جائز ہے۔ جائز اور ناجائز فائدے و منافع کے درمیان فرق واضح ہونا چاہئے۔ ناجائز فائدے اور منافع کا سد باب کیا جانا چاہئے جو بنیادی طور پر فرائض کے سلسلے میں بے توجہی، ہمدردی کے جذبہ سے دوری اور گوناگوں لغزشوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اسمگلنگ کا صحیح معنی میں مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
ٹاپ
قومی اتحاد
قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط
اگر کوئی قوم اتحاد و یکجہتی کے ساتھ معاشی میدان میں قدم رکھتی ہے تو یقینی طور پر پیشرفت کرتی ہے۔ اسے جنگ در پیش ہو اور وہ میدان میں اترے تو وہاں بھی اس کی فتح ہوتی ہے۔ قومی اتحاد کے ذریعے قومی وقار کی بہتر طور پر حفاظت کی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی قوم ہو وہ قومی اتحاد کے زیر سایہ اپنے تمام اہم مقاصد اور بلند اہداف کی تکمیل کر سکتی ہے۔ اختلاف، تفرقہ و انتشار، دلوں کی آپس میں ایک دوسرے سے دوری و جدائی، حلقوں، جماعتوں، گروہوں، افراد اور شخصیات کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دینا، اس سے کوئی بھی خدمت نہیں کی جا سکتی، اس سے کوئی بھی مدد نہیں مل سکتی۔
ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کی شام امیر قطر شیخ خلیفہ بن حمد آل ثانی سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران اور قطر کے تعلقات کو خلیج فارس کے علاقے میں مثالی تعلقات سے تعبیر کیا اور فرمایا: خلیج فارس کا علاقہ، خطے کے ممالک کے باہمی تعاون سے پر امن و آباد اور تعاون کے لئے سازگار علاقہ بنا دیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ہزاروں طلبہ اور شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات میں سامراج کی شناخت کے لئے بصیرت کی ضرورت پر زور دیا اور امریکی حکومت کو دنیا کی حقیقی سامراجی طاقت قرار دیتے ہوئے فرمایا: جب تک امریکی حکومت دھونس دھمکی اور سامراجی مزاج کو ترک نہیں کر دیتی اس وقت تک ملت ایران امریکی حکومت کی بظاہر امن پسندانہ باتوں پر یقین نہیں کرے گی اور کسی بھی صورت میں خود مختاری، آزادی، قومی مفادات اور اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و دانش اور ادب و ثقافت کے شعبے سے وابستہ سیکڑوں چنندہ شخصیات اور نوجوانوں سے ملاقات میں نمایاں صلاحیتوں کے مالک نوجوانوں سے اپنی ملاقاتوں کو فرحت بخش قرار دیا اور فرمایا: چنندہ اور تعلیم یافتہ نوجوان جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو احساس ذمہ داری اور فرض شناسی سے جوڑ دیا ہے، در حقیقت ملک کی سب سے بڑی امید اور ایران کے درخشاں مستقبل کے بنیادی عناصر ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کی رات ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان اور ان کی قیادت میں ایران آنے والے وفد سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے عوام کے تعلقات کی قدیم تاریخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دونوں ملکوں کے موجودہ قریبی تعلقات کی گزشتہ کئی صدیوں میں مثال نہیں ملتی اور ملکی اور عالمی سطح پر آپ کی حکومت کی پے در پے کامیابیوں پر ہم خوش ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چھے آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھائیس اکتوبر دو ہزار نو کو ملک کے دانشوروں اور یونیورسٹی طلبا کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انتہائی بصیرت افروز نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ادارہ حج کے انتظامی اور ثقافتی امور کے عہدہ داروں سے ملاقات میں اسلامی اتحاد کو موجودہ دور کی سب سے اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے فرمایا: حج، عالم اسلام کے اتحاد و ترقی کی مخالفت اور تفرقہ انگیز کے ہر اقدام کے خلاف امت مسلمہ کے عزم راسخ کا مظہر ہونا چاہئے۔
ایران کے ادارہ حج کے عہدہ داروں اور اہلکاروں نے حج پر روانگی سے قبل چار آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق چھبیس مئی دو ہزار نو کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
دختر رسول حضرت فاطمہ معصومہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے یوم ولادت با سعات پر ملک کے مختلف علاقوں سے تہران آنے والی ہزاروں محققہ قرآن خواتین نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قرآن کے سلسلے میں تحقیق و تصنیف میں مصروف خواتین کے اجتماع سے خطاب میں اس عالمانہ تحریک کی قدردانی کی اور اسے بقیہ اسلامی ممالک اور مسلم معاشروں کے لئے نمونہ عمل قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جنوب مشرقی ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے میں درجنوں برادران شیعہ و سنی، اسی طرح سپاہ پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں بالخصوص نورعلی شوشتری اور کمانڈر محمد زادہ کی شہادت پر مبارکباد اور تعزیت پیش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افریقی ملک سینیگال کے صدر عبد اللہ واد سے ملاقات میں اسلامی ملکوں کے اتحاد و یکجہتی کو اسلام جمہوریہ ایران کے عالمی اہداف کا جز قرار دیا اور دونوں ملکوں کے تجارتی، اقتصادی و صنعتی روابط کے فروغ کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران اپنے تجربات اور حصولیابیاں اسلامی ممالک کو منتقل کرنے کو تیار ہے۔
شمالی صوبہ مازندران کے نوشہر اور چالوس شہروں کے با ایمان عوام نے آج موسم خزاں کی شدید بارش میں ملت اور رہبر ملت کے گہرے رشتے کی پر کشش بہار کا دل آویز نظارہ پیش کیا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دیدار کے لئے شہر چالوس کے شہدائے ہفتم تیر اسٹیڈیم میں باران رحمت کی شدید بوچھاروں میں سراپا انتظار بنے علاقے کے عقیدتمند عوام نے آپ کو دیکھتے ہیں اپنے قلبی جذبات کے اظہار سے نہایت پر شکوہ اور ناقابل فراموش فضا قائم کر دی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح شمالی شہر نوشہر میں فوج کی کیڈٹ یونیورسٹیوں کے طلبا کی تقریب سے خطاب میں مختلف شعبوں میں سرگرم عمل بلند ہمتی اور جذبہ ایمانی سے سرشار افسران کو امن و دوستی اور انصاف سے آراستہ معاشرے کی سمت گامزن ہراول دستہ قرار مدیا اور فرمایا: دنیا کے تسلط پسند عناصر ایران کو سنگین خطرہ ظاہر کرنے کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہیں گے کیونکہ اسلامی جمہوریہ کی قومی قدرت و توانائی نہ صرف یہ کہ قوموں کے لئے خطرناک نہیں بلکہ قوموں کے لئے پیشرفت اور عزت و وقار کا نمونہ ہے۔
پہلا باب: فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخفلسطین پر قبضے کی روش:برعکس حقیقت:فلسطین پر قبضے کے تین مراحل:دوسرا باب: فلسطین کی اہمیتمسئلہ فلسطین کی اہمیت:بیت المقدس کی اہمیت:فلسطین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف:مسئلہ فلسطین اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ:تیسرا باب: فلسطین کی حمایتامت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کے نتائج:فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کا فریضہ:مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام عالم اسلام کی جانب سے فلسطین کی حمایت: مسلم حکومتوں کی جانب سے فلسطین کی حمایت: ملت ایران کی جانب سے فلسطینی قوم کی حمایت: فلسطین کی حمایت میں تشہیراتی مہم سے استفادہ:چوتھا باب: مسئلہ فلسطین کا حلمسئلہ فلسطین کا سفارتی حل:صیہونی حکومت پر دباؤ:تیل کا بطور حربہ کا استعمال:ملت فلسطین کی مالی امداد:فلسطین کی نجات کا راستہفلسطین کی نجات کا راستہ: فلسطینی قوم کی نجات کا واحد راستہ، مزاحمت و استقامت: ملت فلسطین کی بیداری:عرب نیشنلزم اور مسئلہ فلسطینپانچواں باب: آشتی و ساز بازآشتی کا حربہ:اسرائیل سے فلسطین کی مفاہمت کا منصوبہ:عرب اسرائیل مفاہمت کا فلسفہ:پہلی تحریک انتفاضہ کی ناکامی کے اسباب:اوسلو معاہدے کے نتائج:فلسطینی اہداف اور امنگوں سے غداری:فلسطین سے عرب حکام کی غداری:چھٹا باب: مزاحمت و استقامتقوموں کی طاقت:شجاع ملت فلسطین کا جہاد: صیہونی حکومت سے جنگ کے بنیادی محور:فلسطینی مجاہدین کے لئے نمونہ عمل:جہاد، امت مسلمہ کا فریضہ:انتفاضہ مسجد الاقصی:انتفاضہ مسجد اقصی کا سبب:فلسطین، اسلامی بیداری کی تحریک کا محور:استقامت، نجات کا راستہ:ساتواں باب: فلسطین کی تقدیر اور مستقبل بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:یقینی مستقبل:شمشیر پر خون کی فتح:فلسطینپہلا باب: فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخفلسطین پر قبضے کی روش:دشمن کے دسیوں اقدامات پر مشتمل ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں فلسطین، صیہونیوں کی بلا شرکت غیرے ملکیت بن گیا ہے۔ دنیا کے کچھ طاقتور یہودیوں کو یہودی آبادی کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا خیال پیدا ہوا۔ البتہ پہلے سے ہی وہ اس فکر میں تھے کہ یوگانڈا چلے جائیں اور وہاں اپنا ملک قائم کریں۔ کچھ دنوں تک وہ اس بارے میں غور کرتے رہے کہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کا رخ کریں لہذا انہوں نے جاکر اطالوی حکومت سے بات کی کیونکہ اس وقت طرابلس اسی کے قبضے میں تھا لیکن اطالویوں نے نفی میں جواب دیا۔ سرانجام برطانیہ سے ان کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس زمانے میں مشرق وسطی میں برطانیہ کے بہت اہم سامراجی اہداف تھے۔ اس نے سوچا کہ چلو اچھا ہے، یہ لوگ اس علاقے میں آ جائیں گے ( تو ان کے ذریعے) وہ اپنا مشکل ہدف بھی پورا کر لے گا۔ اس سرزمین پر قبضہ ایک کثیر المقاصد اور پیچیدہ منصوبے کے تحت کیا گيا جس کا ہدف مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنا اور دوبارہ طاقتور مسلمان حکومتوں کی تشکیل نہ ہونے دینا تھا۔ ایسے ثبوت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جرمن نازیوں سے صیہونیوں کے بڑے قریبی روابط تھے اور یہودیوں کے قتل عام کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار در حقیقت رائے عام کی ہمدردیاں حاصل کرنے، فلسطین پر قبضے اور صیہونیوں کے جرائم کی پردہ پوشی کا حربہ تھا۔ اس کے بھی ثبوت ہیں کہ مشرقی یورپ کے کچھ غیر یہودی اوباشوں کو یہودیوں کی حیثیت سے ہجرت کراکے فلسطین لایا گيا تاکہ نسل پرستی کی قربانی بننے والوں کے پسماندگان کی حمایت کے نام پر قلب عالم اسلام میں ایک اسلام دشمن حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے اور تیرہ صدیوں کے بعد عالم اسلام کے مغربی و مشرقی حصوں کو دو لخت اور ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے۔ شروعات میں تو مسلمان مات کھا گئے چونکہ صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کی سازش کی حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ حکومت عثمانیہ کو شکست ہوئی۔ فاتح طاقتوں کے درمیان سائکس- پیکو کے نام سے مشرق وسطی کے مسلم علاقوں کی تقسیم کا خفیہ معادہ طے پایا۔ لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو برطانیہ کی نگرانی میں دے دیا۔ برطانیہ نے صیہونیوں سے مدد و تعاون کا وعدہ کر لیا اور طے شدہ منصوبوں کے مطابق یہودیوں کو فلسطین لایا گيا اور مسلمانوں کو ان کے گھر بار سے نکال دیا گیا۔ طے یہ پایا تھا کہ یہودی ابتدا میں تو ایک اقلیت کے طور پر وارد ہوں اور بعد میں بتدریج اپنا دائرہ بڑھائیں اور ایک گوشے کو جو انتہائی حساس گوشہ ہے یعنی فلسطینی ریاست جو حساس علاقے میں واقع ہے، اپنے قبضے میں کر لیں پھر وہاں حکومت بنائیں اور برطانیہ کے اتحادی بنے رہیں اور اس علاقے میں عالم اسلام بالخصوص عرب دنیا کا کوئی اتحادی باقی نہ رہنے دیں۔ جس دشمن کو باہر سے اس طرح کی حمایت حاصل ہو وہ جاسوسی اور دیگر حربوں سے اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس نے ایسا ہی کیا۔ کسی سے نزدیک ہو گیا، کسی پر ضرب لگا دی، کسی کو کچل دیا اور کسی سے سختی کا برتاؤ کیا۔ بنابریں سب سے پہلے درجے میں برطانیہ کی مدد ملی اور پھر بعض دیگر مغربی ممالک نے تعاون کیا۔ بعد میں یہ لوگ برطانیہ سے رفتہ رفتہ دور اور امریکا کے قریب ہوتے گئے۔ امریکا آج تک صیہونیوں کو اپنے سائے میں پناہ دئے ہوئے ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے ایک ملک بنایا اور فلسطین پر قبضہ کیا۔ قبضے کا انداز یہ تھا کہ پہلے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا، پہلے مکر و حیلے سے کام لیا۔ پہلے جاکر فلسطینیوں کی بڑی زمینوں کو جس پر عرب کسان زراعت کیا کرتے تھے اور جو بہت سرسبز و زرخیز تھیں اور جن کے اصلی مالک یورپ اور امریکا میں رہتے تھے، ان کی اصلی قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر خرید لیا اور پھر ان زمینوں کو یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ ان کے پاس اس کے کچھ اچھے ذرائع بھی تھے جن میں سے ایک سید ضیا (سید ضیاء الدین طباطبائی) تھا جو انیس سو بیس کے آس پاس ہونے والی بغاوت میں رضا خان کا شریک کار تھا، اس نے فلسطین جاکر وہاں مسلمانوں سے زمین خرید کر یہودیوں اور اسرائیلیوں کو فروخت کرنے کی دلالی شروع کر دی۔ زمینوں کو خریدا گیا۔ جو زمینیں ان کی ملکیت میں آئیں ان کو بڑی سنگدلی اور درندگی کے ساتھ ان کسانوں سے خالی کرایا جانے لگا جو اس پر کھیتی کرتے تھے۔ کہیں بھی جاکر مار پیٹ کرتے تھے، لوگوں کو قتل کرتے دیتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ عالمی رائے عامہ کی ہمدردیاں بھی بٹورنے کی کوششیں جاری رکھتے تھے۔ ٹاپ برعکس حقیقت:عالمی سطح پر جاری تشہیراتی مہم میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن یہودیوں نے آکر فلسطین میں اپنے گھر بنائے ہیں وہ مظلوم و ستم رسیدہ اور ظلم و جارحیت سے پسے ہوئے لوگ ہیں جبکہ وہ عرب جو اپنے گھر واپس لینے کی کوششیں کر رہے ہیں بڑے جبرپسند اور تند مزاج لوگ ہیں جو کسی بھی اصول و قانون کے پابند نہیں۔ جب روسی یہودیوں اور صیہونیوں نے فلسطین کی جانب ہجرت شروع کی تو اس وقت وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ یہ غاصب ہیں، یہ فلسطین کے رہنے والے نہیں ہیں جو وہاں جا رہے ہیں، یہ روس، یوکرین، یورپی ممالک اور امریکا کے رہنے والے ہیں جن میں ہر ایک کے پاس اپنے وطن میں زمینیں، رہائش گاہیں، دولت و ثروت اور مال و منال ہے، اس سب کے باوجود وہ فلسطین جا رہے ہیں تاکہ فلسطینیوں کا حق غصب کریں اور ان سے اپنے گھر بسانے کا حق چھین لیں۔ ان باتوں کو زبان پر نہیں لاتے تھے! علاوہ ازیں صیہونی اور امریکی عناصر اپنے ذرائع ابلاغ میں کچھ تھکی ہاری اور خستہ حال یہودی عورتوں اور بچوں کی تصاویر دکھاتے تھے تاکہ دنیا والے کہیں کہ بڑی عجیب بات ہے! یہ عرب ان بیچارے مظلوموں کے ساتھ یہ برتاؤ کیوں کر رہے ہیں؟! ٹاپ فلسطین پر قبضے کے تین مراحل:فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے تین مراحل ہیں: ایک مرحلہ عربوں سے قسی القلبی کے برتاؤ کا ہے، فلسطین کے اصلی و حقیقی باسیوں کے ساتھ صیہونیوں کا برتاؤ بڑا سنگدلانہ اور تشدد پسندانہ تھا۔ ان کے ساتھ کسی طرح کی رو رعایت نہیں کی جاتی تھی۔ دوسرا مرحلہ: عالمی رائے عامہ کے سامنے جھوٹ بولنے اور دروغ گوئی کا تھا۔ عالمی رائے عامہ سے دروغ گوئی ان کے حیرتناک حربوں میں سے ایک ہے۔ یہودیوں کے قبضے والے صیہونی ذرائع ابلاغ کے ذریعے انہوں نے عالمی رائے عامہ سے بے پناہ جھوٹ بولے، قبضے سے پہلے بھی اور قبضے کے بعد بھی۔ اسی جھوٹ کے سہارے یہودی سرمایہ داروں کو شیشے میں اتارا گیا! بہتوں کو ان کے جھوٹ پر یقین بھی آ گيا۔ حتی وہ فرانسیسی فلسفی و مصنف جان پال سارٹر تک کو فریب دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی جان پال سارٹر نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا میں نے تقریبا تیس سال قبل مطالعہ کیا۔ اس نے لکھا کہ بغیر سرزمین کے عوام اور بغیر عوام کی سرزمین یعنی یہودی وہ لوگ تھے جن کے پاس کوئی زمین نہ تھی، وہ فلسطین آئے جو باشندوں سے خالی سرزمین تھی، انسانوں سے خالی ویران علاقہ تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ انسانوں سے خالی علاقہ تھا؟ جناب وہاں پوری ایک قوم آباد تھی جو کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ اس کے ثبوتوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک غیر ملکی مصنف کہتا ہے کہ پوری سرزمین فلسطین میں گندم کے کھیت ہی کھیت تھے اور تا حد نگاہ انہی کھیتوں کی ہریالی نظر آتی تھی۔ دنیا کو یہ بتایا گيا کہ فلسطین ایک ویران اور متروک علاقہ تھا، ہم نے آکر اسے آباد کیا۔ پوری رائے عامہ سے دروغ گوئی! ہمیشہ خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی یہودی خاندان کے ساتھ کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش آ جاتا تو ٹائم اور نیوز ویک جیسے امریکی جریدوں میں مہلوک کی تصویر، عمر، دیگر تفصیلات اور اس کے بچوں کی مظلومیت کی مفصل داستان شائع ہوتی لیکن فلسطینی نوجوانوں، لڑکوں، خاندانوں، بچوں اور عورتوں پر مقبوضہ فلسطین کے اندر اور لبنان میں مظالم کے جو پہاڑے توڑے جاتے ہیں ان کی جانب اشارہ تک نہیں کیا جاتا! تیسرا مرحلہ: ساز باز کا ہے۔ یعنی فلاں حکومت سے بات کرو، فلاں شخصیت سے رابطہ کرو، فلاں سیاستداں کو اپنے ساتھ ملاؤ، فلاں دانشور سے ملو، فلاں مصنف اور فلاں شاعر سے ساز باز کرلو! ان کی کوششیں ان تین مراحل میں جاری رہی ہیں اور وہ اس طرح ایک ملک کو فریب اور دھوکے سے ہڑپنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہیں بیرونی ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی ہے جن میں سب سے پیش پیش برطانیہ تھا۔ اقوام متحدہ اور اس سے قبل لیگ آف نیشنز نے بھی جنہیں جنگ ہو جانے کے بعد امن کے قیام کے نام پر تشکیل دیا گيا تھا، سوائے چند مواقع کے ہمیشہ ان کی حمایت کی۔ انیس سو اڑتالیس میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی اور فلسطین کو بغیر کسی معقول وجہ کے تقسیم کر دیا۔ اس قرارداد میں کہا گيا کہ فلسطینی سرزمین کا ستاون فیصدی حصہ یہودیوں کا ہے جبکہ اس سے قبل تک محض پانچ فیصدی زمین ہی ان کے پاس تھی! پھر کیا تھا یہودیوں نے ایک حکومت قائم کر لی جس کے بعد گاؤوں، شہروں اور گھروں پر حملے اور دوسری حرکتیں شروع ہو گئیں۔ البتہ عرب حکومتوں نے بھی کوتاہیاں کیں۔ کئی جنگیں ہوئیں۔ انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلیوں نے امریکا اور کچھ دیگر حکومتوں کی مدد سے مصر، شام اور اردن کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تہتر کی جنگ میں جو انہوں نے شروع کی بڑی طاقتوں کی مدد سے جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں موڑ لیا اور مزید کچھ علاقے ہڑپ لئے۔ ٹاپ دوسرا باب: فلسطین کی اہمیتمسئلہ فلسطین کی اہمیت:حقیقت میں اس وقت مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی علاقوں کا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا اور اہم نہیں ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔ برسوں سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو اس کا عادی بنا دیا گیا کہ ان کے گھر کا ایک حصہ اغیار کے قبضے میں رہے۔ البتہ بات مسلمانوں کے گھروں کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسی حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں سب سے اہم ہدف و مقصد سرزمین فلسطین کو نجات دلانا ہے یعنی فلسطینی حکومت کو محو و نابود کرنا اور اس سلسلے میں انیس سو سڑسٹھ سے قبل اور بعد کے علاقوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ سرزمین فلسطین کا ایک بالشت حصہ بھی فلسطینیوں کے گھر کا ایک بالشت حصہ ہے۔ فلسطینی ریاست پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حکومت کے علاوہ کوئی بھی اقتدار غاصبانہ اقتدار ہوگا۔ بنابریں بنیادی بات وہی ہے جو امام خمینی نے فرمائی: اسرائیل کو نابود ہو جانا چاہئے فلسطین کے یہودی اگر اسلامی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہاں شوق سے زندگی گزاریں۔ یہودیوں سے دشمنی برتنے کی بات نہیں ہے۔ مسئلہ مسلمانوں کے گھروں پر غاصبانہ قبضے کا ہے۔ مسلمان عمائدین اور زعما اگر بڑی عالمی طاقتوں کے زیر اثر اور ان کے دباؤ میں نہ ہوتے تو یہ مہم سر کر سکتے تھے لیکن افسوس انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ٹاپ بیت المقدس کی اہمیت:مسئلہ فلسطین کے ساتھ ہی بیت المقدس کا مسئلہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت اس مقدس شہر کو غصب کر لینے اور ہضم کر جانے اور شہر کے اسلامی آثار کو محو کر دینے کی گوناگوں صیہونی سازشیں چل رہی ہیں۔ اس شہر کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ پورا بیت المقدس پورے فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دشمنوں کی ناپاک سازشیں عملی جامہ پہنیں، وہ ان سازشوں کا مقابلہ کریں گے۔ ٹاپ فلسطین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف:اسلامی نقطہ نگاہ سے: مسئلہ فلسطین اسلامی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لئے بنیادی اور حیاتی مسئلہ ہے۔ تمام قدیم شیعہ سنی علما نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر اسلامی سرزمین کا کوئی ٹکڑا دشمنان اسلام کے قبضے میں چلا جائے تو سب کا فریضہ یہ ہے کہ دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوں یہاں تک کہ مقبوضہ علاقے کو آزاد کرا لیا جائے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ہر شخص کی توانائی اور امکان کے مطابق اس کی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے میں اسلامی لحاظ سے ان کا فرض بنتا ہے۔ کیونکہ یہ زمین اسلامی سرزمین ہے، دشمنان اسلام کے قبضے میں ہے، اسے بازیاب کرایا جانا چاہئے۔ دوسرے مرحلے میں یہ کہ اسی لاکھ مسلمانوں کی بات ہے۔ ان میں بہت سے بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ بہتوں کا عالم یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر پناہ گزینوں سے بھی ابتر حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ معمول کی آمد و رفت تک سے گھبراتے ہیں اور ڈرتے ہیں، اپنے دل کی بات آزادانہ بیان نہیں کر سکتے۔ ملک کے نظم و نسق کے لئے کوئی نمائندہ منتخب کرنے کی انہیں اجازت نہیں ہے۔ بسا اوقات تو انہیں نماز پڑھنے تک سے روک دیا جاتا ہے۔ مسجد الاقصی کو جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے خطرے میں ڈال دیا گيا ہے، برسوں قبل ایک دن اسے آگ بھی لگا دی گئی۔ اس کے بعد وہاں کھدائی کا کام شروع کر دیا اور غیر قانونی حرکتیں انجام دی گئیں۔ وہ مسجد الاقصی کو مسلمانوں کے قبلہ اول کو اسلامی تشخص سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ انسانی نقطہ نگاہ سے: فلسطینی خاندانوں کی مظلومیت سے ہر انسان کے دوش پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں، ان لوگوں کی مظلومیت سے جو فلسطین کے اندر ہیں۔ ان پر ظلم کے کیسے کیسے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں بھی نہیں معلوم کہاں مر گئی ہیں! یہ امریکی اور یہ مغرب والے جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ دنیا میں جمہوریت کا فروغ ان کا فریضہ ہے، اس مسئلے میں بڑی بے آبروئی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نظروں کے سامنے ایک ایسی قوم ہے جسے اپنے ملک کے کسی بھی معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے، جس کا کہیں کوئی اثر نہیں ہے اور جس کی کہیں کوئی بات نہیں کی جاتی، یہی ملت فلسطین ہے۔ انسانی زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ایک طرف یہ مظلوم لوگ اس نسل پرست ظالم حکومت کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا اور عالمی تنظیموں اور نام نہاد مغربی دانشور ہیں جو جمہوریت کی حمایت کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔ امن و سلامتی کے نقطہ نگاہ سے: اسرائیل، امن و سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے، پورے علاقے کی سلامتی کے لئے کیونکہ اسکے پاس ایٹمی ذخیرہ ہے اور وہ مزید اسلحے بنا رہا ہے! اقوام متحدہ بھی کئی بار انتباہ دے چکی ہے لیکن اسرائيل نے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اس کی اہم وجہ امریکا کی پشتپناہی اور حمایت ہے۔ یعنی صیہونیوں اور غاصب صیہونی حکومت کے جرائم بڑی حد تک امریکی حکومت کی گردن پر ہیں۔ ان دسیوں سال کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کے خلاف تیس سے زائد قراردادیں منظور کی ہیں لیکن امریکا نے سب کو ویٹو کر دیا۔ اقتصادی لحاظ سے: اسرائیل علاقے کے لئے خطرہ ہے۔ فلسطین پر حکمفرما صیہونیوں نے جدید مشرق وسطی کے نام سے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ جدید مشرق وسطی یعنی چہ؟ یعنی یہ کہ مشرق وسطی اسرائیل کی محوریت میں ترتیب پائے اور اسرائیل رفتہ رفتہ عرب ممالک، علاقے کے ممالک اور خلیج فارس کے تیل کی دولت سے مالامال علاقوں پر اقتصادی تسلط حاصل کر لے! اسرائیلیوں کا ہدف یہ ہے۔ بعض حکومتیں غفلت کی نیند سو رہی ہیں۔ جب ان پر اعتراض ہوتا ہے تو کہتی ہیں کہ اسرائیل سے ہمارے روابط نہیں ہیں، ہم نے تو صرف ان کے تاجروں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی ہے! اسرائیل کی تو دلی مراد یہی تھی۔ ان (تاجروں) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسرائیل امریکا کی حمایت اور اپنے خطرناک اسلحہ خانے کی مدد سے بعض کمزور حکومتوں کی غفلت اور کمزوری کا فائدہ اٹھائے اور ان کے اندر قدم جما لے، ان کے اقتصادی و مالیاتی ذخائر پر قابض ہو جائے۔ یہ علاقے کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اللہ کبھی وہ دن نہ دکھائے اور انشاء اللہ نہیں دکھائے گا۔ مسلمان ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ ایسا ہو۔ ان تاجروں کا منصوبہ یہی ہے کہ معاشی طاقت کے سہارے ان ملکوں میں طاقت کے تمام مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ بنابریں اسلامی نقطہ نگاہ سے، انسانی نقطہ نگاہ سے، اقتصادی نقطہ نگاہ سے، سکیورٹی کے نقطہ نگاہ سے اور سیاسی نقطہ نگاہ سے اس وقت اسرائیل کا وجود، علاقے کی قوموں اور ملکوں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ٹاپ مسئلہ فلسطین اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ:اسلامی تحریک کے آغاز سے اور انیس سو باسٹھ سے ہی جب ایران میں مسئلہ فلسطین ہنوز خواص کے درمیان بھی عام نہیں ہوا تھا، امام خمینی کا موقف یہ تھا کہ اسرائیلی تسلط کی بابت سب کو محتاط اور ہوشیار ہو جانا چاہئے، سب کو چاہئے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور مقابلہ کریں۔ اس کے بعد بھی آپ کا یہ موقف برقرار رہا۔ اس مرد الہی کا یہ اہم نعرہ رہا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک سے مسئلہ فلسطین کے پیکر میں ایک نئی جان پڑ گئی اور اسے اسلامی ایمان کا سہارا ملا جو ہمیشہ فداکارانہ جہاد کے ہمراہ ہوتا ہے۔ امام خمینی نے کبھی بھی دنیا کی استبدادی طاقتوں سے گھبرا کر مظلوموں کی حمایت بند نہیں کی۔ پورے وقت آپ مسئلہ فلسطین کو بنیادی مسئلہ ہی قرار دیتے رہے۔ امام خمینی نے اپنے وصیت نامے اور بیانوں میں مظلوم قوموں کی آواز استغاثہ پر لبیک کہے جانے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ مظلوموں کے حقوق کا صریحی دفاع، ملت فلسطین کے حقوق کے دفاع میں صریحی موقف اور دیگر مظلوموں کی حمایت، یہ امام (خمینی رہ) کی راہ و روش ہے۔ یہی آپ کا شیوہ اور یہی آپ کی وصیت ہے۔ ایک فلسطینی مسلم نوجوان کہتا ہے: اس وقت مقبوضہ فلسطین کی جیلوں میں بند قیدی امام (خمینی رہ) کے عشق میں اور اسلامی انقلاب کے عظیم الشان بانی کی شان میں اشعار پڑھتے ہیں۔ ان کالی کوٹھریوں کے اندر تک انقلاب، امام (خمینی رہ) اور ملت ایران کی مجاہدت کا تذکرہ ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: فلسطین کی حمایتامت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کے نتائج:اگر آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہوتا اور اگر وہ اسلام کی روحانیت و معنویت پر تکیہ کرتے تو دشمن اس طرح کھلے عام فلسطینی قوم کے اس کے گھر کے اندر نہ کچل پاتا۔ فلسطین کے واقعات ہر غیرت مند انسان کے دل کو خواہ وہ بہت زیادہ دیندار نہ بھی ہو، خون کر دیتے ہیں اور اس کا چین و سکون چھین لیتے ہیں۔ ٹاپ فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کا فریضہ:مظلوم فلسطینی قوم اور اس کے شجاعانہ و مظلومانہ قیام کا دفاع ہم سب کا اسلامی فریضہ ہے۔ آج ایک مسلم قوم بیچ میدان کارزار سے، خون آلود چہرے کے ساتھ، مسلم امہ کو مدد کے لئے پکار رہی ہے۔ مجھ سے اس فلسطینی خاتون کی فریاد کبھی نہیں بھولتی جو نامہ نگار کے کیمرے کے سامنے رندھی ہوئی آواز میں اے مسلمانو اے مسلمانو! پکار رہی تھی۔ تمام مسلمانوں اور عربوں کو چاہئے کہ فلسطینی عوام کے حق دفاع و مزاحمت کی حمایت کریں۔ عالمی اداروں کی سطح پر اس نکتے پر زور دیا جائے کہ بے سہارا عوام جن کے حقوق سلب کر لئے گئے ہیں اور جو غاصبانہ قبضے میں دبے ہوئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، ان کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جد و جہد اور مزاحمت کا حق ہے۔ لہذا انتفاضہ کا تسلسل اور فلسطینی عوام کی استقامت و مزاحمت ان کا قانونی حق ہے جسے عالمی قوانین میں بھی قابل احترام قرار دیا گيا ہے۔ حالانکہ عموما سامراج اور بڑی طاقتوں کے مفادات کے مطابق ان قوانین کی تفسیر کی جاتی ہے۔ اب مزید یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان، فلسطینی قوم کی سرکوبی کا نظارہ کریں اور خاموش بیٹھے رہیں۔ اسرائیل کو فہمائش کر دی جانی چاہئے کہ فلسطینی عوام اور فلسطینی نشین علاقوں پر حملوں کا تسلسل تمام مسلمانوں اور عربوں کی جانب سے شدید، سنجیدہ اور عملی رد عمل کا موجب بنے گا۔ ٹاپمسئلہ فلسطین اور عالم اسلامعالم اسلام کی جانب سے فلسطین کی حمایت:مسئلہ فلسطین عالمی سطح پر اولیں اسلامی مسئلہ ہے۔ حقیقت میں اس وقت مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی علاقوں کا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا اور اہم نہیں ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔ یہ ایک قوم کے رنج و الم، مظلومیت اور نقل مکانی کا مسئلہ ہے۔ ایک ملک کو غصب کر لئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ اسلامی ممالک کے قلب اور اس جگہ کو سرطان میں مبتلا کر دینے کا معاملہ ہے جہاں عالم اسلام کے مشرق و مغرب ملتے ہیں۔ یہ بلا وقفہ جاری ظلم کا مسئلہ ہے جو پے در پے دو فلسطینی نسلوں پر سایہ فگن رہا۔ آج سرزمین فلسطین میں عوامی طاقت پر استوار خونیں اسلامی تحریک، بے ضمیر، انسانیت سے بے بہرہ اور جرائم کے خوگر غاصبوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بن گئی ہے۔ دشمن کی چالیں ہمیشہ سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہو گئی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس مسئلے کو اب ہمیشہ سے زیادہ سنجیدگی سے لیں اور اس کے بارے میں غور و فکر اور کوئی اقدام کریں۔ بنیادی طور پر یہودی حکومت کی تشکیل یا بہتر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ صیہونی حکومت کی تشکیل وہ بھی عالم اسلام کے اس حصے میں دراز مدتی اور طویل المیعاد سامراجی عزائم کے تحت عمل میں آئی ہے۔ در حقیقت اس حساس علاقے میں ایک حکومت کا قیام، جو قلب عالم اسلام کا درجہ رکھتا ہے یعنی مغربی اسلامی دنیا یعنی افریقا کو مشرقی اسلامی دنیا یعنی مشرق وسطی اور مشرقی ایشیا سے متصل کرتا ہے اور جو ایشیا، افریقا اور یورپ کے لئے ایک تراہے کی حیثیت رکھتا ہے، اس ہدف کے تحت عمل میں لایا گیا کہ دراز مدت تک اس وقت کے سامراجیوں کا جن میں برطانوی حکومت سب سے پیش پیش تھی، اسلامی دنیا پر تسلط قائم رہے۔ غاصب حکومت کے مقابلے کا صحیح راستہ وہی ہے جسے آج فلسطینیوں نے اختیار کر رکھا ہے اور جس پر وہ مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس مقدس جد و جہد میں ان کی مدد کریں۔ اس وقت مسئلہ فلسطین کے سلسلے مسلمان حکومتوں کی بے توجہی کا کوئی بھی بہانہ اور عذر قابل قبول نہیں ہے۔ غاصب حکومت نے بربریت اور وحشی پنے کی حد کر دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے خطرناک توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے کسی بھی جرم کا ارتکاب کر سکتی ہے۔ فلسطینی قوم کی اسلامی تحریک نے بھی سب پر حجت تمام کر دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ دشمن کے بھاری دباؤ اور دوستی کے دعویداروں کی خیانت کے باوجود استقامت و مزاحمت کا پودا خشک نہیں ہوا بلکہ اس کی جڑیں اور بھی گہرائیوں میں اترتی جا رہی ہیں اور یہ بارآور ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا تمام حکومتوں اور قوموں کے لئے لازمی ہے کہ فلسطین کے اسلامی مسئلے کو اولیں اور سب سے بڑا مسئلہ سمجھیں اور اپنی بساط بھر مدد اور تعاون کی کوشش کریں۔ اسلامی مکاتب فکر میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور تمام علمائے دین اس پر متفق ہیں کہ اگر دشمنان اسلام اسلامی سرزمین کے کسی ٹکڑے کو اس سے الگ کر دیں اور اس ٹکڑے پر دشمنان اسلام کی حکومت قائم ہو جائے تو ہر ممکن جد و جہد اور سعی و کوشش کے ذریعے اس ٹکڑے کو اسلامی سرزمین سے دوبارہ جوڑنا ہر کسی کا فریضہ سمجھا جانا چاہئے۔ ملت فلسطین کو بھی جس کی جانب عالم اسلام کی توجہات مرکوز ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم امہ کے دلوں سے اس کے لئے دعائیں اور تعریفی کلمات نکل رہے ہیں، اگر امداد بھیجنے کا راستہ اس وقت کھلا ہوتا تو مسلم امہ امداد بھیجتی۔ خواہ حکومتیں اس سے راضی ہوتیں یا نہ ہوتیں۔ مسلم امہ فلسطین سے دستبردار نہیں ہو سکتی، فلسطینی قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی، فلسطینی نوجوانوں سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ ٹاپمسلم حکومتوں کی جانب سے فلسطین کی حمایت:مسلم حکومتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس قوم کو اپنے دفاع کے لئے ضروری وسائل فراہم کرائیں اور اسی طرح دنیا میں صیہونیوں کے مفادات کی حفاظت کرنے والوں پر سیاسی دباؤ ڈالیں۔ وہ باہمی اور دو طرفہ روابط، عالمی اداروں، عمومی تقاریر اور خصوصی مذاکرات میں یہ کام کر سکتی ہیں۔ اب جبکہ جارح اپنے جرائم سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہے تو فلسطینی قوم کو جو حق پر ہے اور جو اپنے حقوق کا دفاع کر رہی ہے، یہ توانائی ملنی چاہئے کہ اپنا دفاع کر سکے۔ ٹاپ ملت ایران کی جانب سے فلسطینی قوم کی حمایت:ایرانی قوم سامراج کی چکی میں پسنے والی مظلوم قوموں کی ہمیشہ سے حامی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ ایرانی عوام نے ہمیشہ جرائم پیشہ صیہونیوں کے خلاف فلسطین کی مجاہد و دانشمند قوم کا ساتھ دیا ہے اور ساتھ دیتی رہیں گے، وہ اپنے فلسطینی بھائیوں سے کہتے ہیں کہ راہ خدا پر پیش قدمی یعنی غاصب دشمن اور اس کے حامیوں سے جنگ کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اعتماد کے ساتھ غاصب صیہونی حکومت کے خاتمے تک جاری رکھیں۔ ایران کی عظیم قوم اور با ایمان رضاکار فورس فلسطینی قوم کے دفاع کو دینی فریضہ سمجھتی ہے اور اللہ تعالی کی راہ پر چلتے ہوئے کسی بھی ہدف کو دسترسی سے باہر نہیں مانتی۔ ٹاپ فلسطین کی حمایت میں تشہیراتی مہم سے استفادہ:دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں نے پوری دنیا میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے سیکڑوں بلکہ ہزاروں فلمیں بنا ڈالیں تاکہ انہیں مظلوم اور ان کے مد مقابل کھڑے افراد کو ظالم و ستمگر سمجھا جائے۔ آج ملت فلسطین پر جو مظالم ہو رہے ہیں کبھی بھی کسی قوم کے ساتھ نہیں ہوئے جبکہ عالمی رائے عامہ کو اس کی اطلاع بھی نہیں ہے۔ اسے صحیح طور پر منظر عام پر لانا چاہئے۔ فلمیں بنائی جانی چاہئے، فن و ہنرے کا سہارا لیکر عالمی رائے عامہ کو حالات سے واقف کرایا جانا چاہئے۔ٹاپچوتھا باب: مسئلہ فلسطین کا حلمسئلہ فلسطین کا سفارتی حل:مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ سے دو طریقوں کی تجویز دی گئی جن میں ایک صحیح راہ حل ہے اور دوسری غلط۔۔ غلط راہ حل یہ ہے کہ اسی غاصب حکومت کے ساتھ، جو نہ تو انسانی اقدار کو خاطر میں لاتی ہے اور نہ ہی عالمی قوانین کو در خور اعتنا سمجھتی ہے، جس کی نظر میں عالمی اداروں کی قراردادوں کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے، مذاکرات کئے جائیں اور مل جل کر کسی ایک نتیجے پر پہنچا جائے۔ یہ راہ حل جس شکل میں بھی سامنے آئے غلط ہے۔ اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی دستخط کا پابند نہیں ہے۔ اگر انہوں نے اتفاق رائے بھی کر لیا ہے اور اس پر دستخط بھی کر دئے ہیں تب بھی وہ اس کے پابند نہیں رہتے۔ یہ کہ جارح کے منہ میں ایک اور لقمہ ڈالا جائے تاکہ وہ اور طاقتور ہوکر اگلا قدم اٹھا سکے، راہ حل نہیں ہے۔ یہ فلسطین کا ساٹھ سالہ تجربہ ہے۔ اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہوئی۔ امریکا نے بھی جو صیہونیوں کی حمایت کرتا رہا ہے اس پر دستخط کئے تاہم یہ غاصب حکومت ان قراردادوں پر عمل کرنے سے مکر گئی۔ منطقی راہ حل یہ ہے کہ جسے دنیا کے سارے بیدار ضمیر افراد اور وہ لوگ جو عصری اصولوں سے واقف ہیں، تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، وہ ہے خود فلسطینی عوام کی رائے لینا ان تمام لوگوں سے جو فلسطین سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے، البتہ وہ لوگ جو اپنی سرزمین اور اپنے گھروں کو لوٹنے پر مائل ہیں۔ یہ ایک منطقی بات ہے۔ یہ لوگ جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دیگر عرب ممالک میں سرگرداں ہیں وہ اپنے ملک اور اپنے گھر لوٹیں۔ انیس سو اڑتالیس سے قبل جو لوگ بھی فلسطین میں آباد تھے خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، سب کی خواہش معلوم کی جائے۔ یہ لوگ ایک ریفرنڈم میں شرکت کرکے فلسطینی سرزمین کے لئے حکومت کا تعین کریں۔ یہ جمہوری عمل بھی ہے۔ ساری دنیا کے لئے جمہوریت اچھی ہے تو فلسطینی عوام کے لئے کیوں اچھی نہیں ہے؟! کیوں دنیا بھر کے عوام کو اپنی تقدیر اور مستقبل کے فیصلے میں دخیل ہونے کا حق ہے اور فلسطینی عوام کو یہ حق نہیں؟! آج فلسطین میں جو حکومت قائم ہے اس کے بارے میں کسی کو ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں ہے کہ طاقت کے زور پر اور مکر و حیلے کے ذریعے اس کا قیام عمل میں آیا ہے، اس میں کسی کو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ صیہونی امن و آشتی کے طریقے سے اقتدار میں نہیں آئے ہیں۔ کچھ تو مکر و فریب کے ذریعے اور کچھ دیگر اسلحے کے زور پر اقتدار میں پہنچے ہیں۔ بنابریں یہ ایک مسلط کردہ حکومت ہے۔ فلسطینی مجتمع ہوں، ووٹ دیں اور یہ فیصلہ کریں کہ ان کے ملک میں کیسی حکومت تشکیل پائے۔ پھر ویسی ہی حکومت قائم ہو اور انیس سو اڑتالیس کے بعد سرزمین فلسطین میں آکر بسنے والوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ پھر وہ جو بھی فیصلہ کریں۔ اگر یہ فیصلہ کیا گيا کہ یہ لوگ یہیں باقی رہیں تو وہ باقی رہیں اور اگر فیصلہ کیا گيا کہ یہ لوگ یہاں سے واپس جائیں تو واپس جائیں۔ یہ عوامی فیصلہ بھی ہوگا اور جمہوری عمل کا تقاضا بھی اس سے پورا ہوگا، یہ انسانی حقوق کی پاسداری بھی ہوگی اور دنیا کے عصری اصولوں پر عمل آوری بھی۔ ٹاپ صیہونی حکومت پر دباؤ:جب غاصب میٹھی زبان سے منطقی و معقول راہ حل کو تسلیم نہ کرے تو پھر معاملے کے تمام فریق اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھیں اور محسوس کریں۔ عرب حکومتیں بھی، اسلامی حکومتیں بھی، دنیا بھر کی مسلمان قومیں بھی، خود ملت فلسطین بھی اور عالمی ادارے بھی۔ ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اس منطقی راہ حل کو عملی جامہ پہنانے پر اصرار کرے۔ کچھ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں، عملی طور پر ایسا کرنا ناممکن ہے۔ جی نہیں! ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ بحر بالٹک کے ممالک چالیس سال تک سابق سویت یونین کا جز بنے رہنے کے بعد دوبارہ آزاد ہو گئے۔ قفقاز کے علاقے کے ممالک سویت یونین کی تشکیل سے تقریبا سو سال قبل روس کے زار حکمرانوں کے زیر نگیں تھے، وہ بھی آزاد ہو گئے۔ اس وقت قزاقستان، آذربائیجان، جارجیا، اور دیگر ممالک آزاد و خود مختار ممالک بن چکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ممکن ہے۔ لیکن اس کے لئے عزم و ارادے اور جرئت و دلیری ضروری ہے۔ قومیں دلیر بھی ہیں، وہ کسی سے نہیں ڈرتیں، وہ آمادہ بھی ہیں تو ایسے میں اب باری ہے حکومتوں کے فریضے کی انجام دہی کی۔ ان میں بھی سب سے پہلے عرب حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آج عرب حکومتیں آگے بڑھ کر مسئلہ فلسطین میں اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل کر سکتی ہیں، اپنی مقبولیت بڑھا سکتی ہیں۔ اگر کسی حکومت کو اپنے عوام اور قوم کی حمایت و تائيد حاصل ہو تو امریکا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر آپ کو امریکا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، پھر اسے امریکا کے اشارہ ابرو پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹاپ تیل کا بطور حربہ کا استعمال:جو بڑے قدم عرب حکومتیں اٹھا سکتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک تیل کے ہتھیار کو استعمال کریں۔ مغرب والوں نے دنیا بھر میں یہ جو واویلا مچا رکھا ہے کہ تیل کو اسلحے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے، درست نہیں ہے۔ تیل قوموں کی دولت ہے اور اسے ان کے مفادات کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ امریکی تو گندم اور دیگر غذائی اشیاء تک کو اسلحے کے طور پر استعمال کر چکے ہیں اور کچھ جگہوں پر آج بھی کر رہے ہیں تو پھر عرب اور مسلمان ملکوں کو یہ حق کیوں نہیں ہے؟ علامتی اقدام کے طور پر ملت فلسطین کی حمایت میں صرف ایک مہینے کے لئے ان ممالک کو تیل کی برآمد روک دیں جن کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ آج دنیا کے پاس حرکت، روشنی اور انرجی، زندگی کے تین اہم عنصر ہیں اور وہ ان تینوں کو مسلم ممالک کے تیل سے حاصل کرتی ہے۔ اگر انہیں تیل نہ دیا جائے تو کارخانوں کی حرکت، روشنی اور حرارت کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔ ٹاپ ملت فلسطین کی مالی امداد:فلسطینیوں کی مالی مدد صرف حکومتوں سے مخصوص نہیں ہے کہ کسی حکومت کے اس اعلان کا انتظار کیا جائے کہ جناب ہم نے دس ملین ڈالر، بیس ملین ڈالر یا پچاس ملین ڈالر دے دئے ہیں جس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ رقم کہاں دی گئی ہے، کس طرح دی گئی ہے، کس کو دی گئی ہے۔ آج فلسطینی قوم غذائی اشیاء کی محتاج ہے، دوا کی محتاج ہے۔ فلسطینی قوم کوئی فقیر قوم نہیں ہے۔ عظیم قوم ہے لیکن دشمن کے تسلط میں جکڑی ہوئی ہے۔ سب کا فریضہ ہے کہ اس کی مدد کریں۔ فرض کیجئے کہ اگر پورے عالم اسلام میں، ایران اور دیگر ممالک میں ہر شخص ہزار تومان (ایک ڈالر سے کچھ زیادہ) فلسطینی عوام کو بطور امداد دے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہوگا؟! ایک ہزار ارب تومان (ایک ارب ڈالر) کا فلسطینی عوام اور ان کی زندگی پر کیا اثر ہوگا؟! ان کے لئے آذوقہ، دوائيں، وسائل اور استقامت و مزاحمت کے لئے ضروری تمام اشیاء مہیا کی جانی چاہئے۔ٹاپ فلسطین کی نجات کا راستہفلسطین کی نجات کا راستہ:گزشتہ چند عشروں کے دوران غاصب حکومت کی جانب سے فلسطینی ریاست اور عوام پر مصیبتوں کا جو بوجھ لاد دیا گيا ہے وہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے کافی ہے کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتوں اور علاقے میں ان کے اتحادیوں کی مدد سے فلسطین کی نجات کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ ایران کے عظیم اسلامی انقلاب نے ثابت کر دیا ہے کہ بڑی مشکلات کے حل کی کنجی خود قوموں کے پاس ہے۔ یہ انسانوں کا ارادہ ہے جو اللہ تعالی پر توکل اور وعدہ الہی پر اعتماد کی صورت میں دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی تدابیر اور خواہشات پر غالب آ جائے گا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات سے قوموں کے کردار کی اہمیت و افادیت پہلے سے زیادہ آشکارا ہو گئی ہے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی درندہ صفت صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم کا عزم محکم ہی ٹک سکتا ہے اور شجاعانہ مزاحمت کے ذریعے ہی دشمن کو پسپائی اختیار کرنے اور شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عرب سربراہان مملکت کی کانفرنسوں اور اجلاسوں سے فلسطینی قوم اپنی آزادی و مسلمہ حقوق کی بحالی کی امیدیں وابستہ نہ کرے اور وہ کر بھی نہیں سکتی۔ یہ نشست و برخاست فلسطینیوں کے لئے اگر شوم اور زیاں آور نہیں تو بے فائدہ اور لاحاصل ضرور ہے۔ ٹاپ فلسطینی قوم کی نجات کا واحد راستہ، مزاحمت و استقامت:اقوام متحدہ، تسلط پسند طاقتوں اور خاص طور پر صیہونی حکومت کی خوش آمد کرکے فلسطین کو نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ نجات کا واحد راستہ استقامت و مزاحمت ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد اور کلمہ توحید ہی، جو جہادی تحریکوں کا بیکراں ذخیرہ ہے، کارساز ہے۔ اس مزاحمت کے ستون ایک طرف فلسطین کی مجاہد جماعتیں، با ایمان عوام ہیں جو فلسطین کے اندر اور باہر سرگرم عمل ہیں اور دوسری طرف دنیا بھر کی مسلمان اور عرب حکومتیں بالخصوص علمائے دین، دانشور، سیاستداں اور یونیورسٹی سے وابستہ حلقے ہیں۔ اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنے اپنے مقام پر کھڑے ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بیدار ضمیر و دل و اذہان جو سامراج اور صیہونزم کی ابلاغیاتی شہنشاہیت کے افسوں سے مسحور نہیں ہوئے ہیں، دنیا کے ہر گوشے میں صاحب حق اور مظلوم کی مدد کے لئے دوڑ نہ پڑیں اور سامراجی نظام پر افکار و جذبات و عملی اقدامات کے سیلاب کی یلغار نہ ہو جائے۔ فلسطینی عوام اور مجاہدین کا صبر اور ان کی استقامت اور پورے عالم اسلام سے ان کی ہمہ جہتی حمایت سے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے شیطانی طلسم کو توڑا جا سکتا ہے۔ امت مسلمہ کی عظیم توانائیاں فوری حل طلب مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے تمام مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ ٹاپ ملت فلسطین کی بیداری:خوش قسمتی سے ملت فلسطین کی اسلامی بیداری سے بہت حد تک مستقبل کے افق واضح اور نمایاں ہو گئے ہیں۔ آج نئی فلسطینی نسل قوت ایمانی کے سہارے اور اللہ تعالی کا نام لیکر جد و جہد کر رہی ہے۔ یہ بڑا امید افزا جہاد ہے۔ یہ بات بالکل نمایاں ہو گئی ہے کہ دشمن خواہ وہ صیہونی حکام ہوں، امریکا ہو، اسرائیل کے دیگر حامی ہوں یا علاقائی خائن عناصر اس نئی لہر سے سراسیمہ اور دہشت زدہ ہو گئے ہیں۔ وہ تحریک کی حقیقی سمت پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ دین ہی فلسطین کو نجات دلا سکتا ہے۔ اسلام فلسطین کو جارحوں کے چنگل سے چھڑا سکتا ہے۔ فلسطین کی نئی نسل کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ اگر وہ اپنے اوپر مسلط کر دی جانے والی ذلت و رسوائی اور زبوں حالی و شدید دباؤ سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے مزاحمت و استقامت کے راستے پر چلنا ہوگا۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا کارساز نہیں ہے۔ مذاکرات کاروں کو اب تک کچھ بھی ہاتھ نہیں لگ سکا ہے۔ ٹاپ عرب نیشنلزم اور مسئلہ فلسطینکبھی کبھار سننے میں آتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فلسطین عربوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر یہ مقصود ہے کہ عربوں میں اس مسئلے کے تعلق سے قوی قومی جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ زیادہ خدمت اور جد و جہد کرنے کے لئے آمادہ ہیں تو یہ اچھی اور پسندیدہ چیز ہے۔ لیکن اگر اس سے یہ مراد ہے کہ بعض عرب ممالک کے حاکم فلسطینی عوام کی آواز استغاثہ پر ذرہ برابر توجہ نہ دیں اور غزہ کے المئے جیسے اہم ترین معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور ان افراد پر تیوریاں سکوڑیں جو فرض شناسی کے جذبے کے باعث ہر لمحہ مضطرب ہیں، ان سے کہیں کہ آپ کو غزہ کی امداد کی کیا پڑی ہے؟ تو اس صورت میں کوئی بھی مسلمان اور کوئی بھی غیور اور با ضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرے گا اور ایسی بات کرنے والے کی مذمت اور سرزنش کئے بغیر نہیں رہے گا۔ ٹاپ پانچواں باب: آشتی و ساز بازآشتی کا حربہ:اس وقت صیہونیوں اور ان کے حامیوں کا جن میں سب سے پیش پیش امریکی حکومت ہے، ایک اہم حربہ یہ ہے کہ صلح و مفاہمت کے دلکش لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آشتی و صلح اچھی چیز ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کہاں اور کس سے آشتی ہو؟! ایک آدمی آپ کے گھر میں درانہ گھس آیا ہے، اس نے طاقت لگا کر آپ کے گھر کا دروازہ توڑ دیا ہے، اس نے آپ سے مار پیٹ کی ہے، آپ کی اولاد اور ناموس پر حملہ کیا ہے، اس نے آپ کے تین کمروں میں سے دو کمروں اور تیسرے کمرے کے نصف حصے پر قبضہ کر لیا ہے، اس پر بھی ستم بالائے ستم یہ کہ اسے اس پر اعتراض ہے کہ آپ لوگوں سے اس کی شکایت کیوں کر رہے ہیں، آپ مسلسل جھگڑا کیوں کر رہے ہیں، تنازعہ کیوں کھڑا کر رہے ہیں، آئیے آپس میں مفاہمت کر لیتے ہیں۔ اسے مفاہمت کہتے ہیں؟! جارحیت اس حکومت کی ماہمیت و سرشت میں شامل ہے۔ صیہونی حکومت کی تو تشکیل ہی تشدد، قسی القلبی اور طاقت کے استعمال کی بنیاد پر ہوئی ہے اور اسی بنیاد پر وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس نے کوئی پیشرفت کی ہے نہ کر پائے گی۔ مطالبہ یہ ہے کہ اس حکومت سے آشتی و مفاہمت کر لیجئے! اگر وہ اپنے حق پر قناعت کر لیں، یعنی فلسطین کو جو فلسطینیوں کا خانہ و آشیانہ ہے ان کے حوالے کریں اور اپنا راستہ لیں یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں کہ ہم میں سے کچھ یا ہم سب یہیں رہ جائيں تو ان سے کوئی جنگ نہیں کرے گا۔ جنگ تو تب ہوتی ہے جب غاصب دوسروں کے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں، انہیں ان کے گھروں سے باہر نکال دیتے ہیں اور اس کے بعد بھی ان پر مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس وقت وہ علاقے کے تمام ممالک پر ظلم کر رہے ہیں اور پورے علاقے کے لئے ایک خطرے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ بنابریں یہ آشتی بھی کرتے ہیں تو وہ آئندہ کی جارحیت کی تیاری اور مقدمہ ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے مفاہمت کر لی ہے تو یہ در حقیقت آگے چل کر کسی اور انداز سے کسی درسری جارحیت کا مقدمہ بنے گی۔ ٹاپ اسرائیل سے فلسطین کی مفاہمت کا منصوبہ:ایک اہم ایشو جو آج کل اٹھایا جا رہا ہے اور جس کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا جائے اور عالم اسلام کی رائے عامہ کو اسے موضوع بحث بنانے سے روکا جا سکے، یہی نام نہاد امن مذاکرات ہیں جو ایک فلسطینی گروہ اور اسرائیلیوں کے ما بین جاری ہیں، یعنی ساز باز کا مسئلہ یعنی نام نہاد خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی اسرائیلیوں کا ایک مذموم حربہ اور جال ہے جس میں بد قسمتی سے کچھ مسلمان بلکہ کچھ فلسطینی بھی گرفتار ہو گئے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان لوگوں کے مذاکرات کے تمام تر مفروضے اور اسرائيلیوں کے وعدے عملی جامہ پہن لیں تب بھی اس فلسطینی گروہ کو جو حاصل ہوگا وہ چار فیصدی سے کچھ زیادہ زمین ہے! یعنی اس فلسطینی سرزمین سے جو فلسطینیوں کا حق اور ملکیت ہے جس کے مالک فلسطینی ہیں اس کا محض چار فیصدی ان کو ملے گا۔ یہ چار فیصدی بھی کیسا؟! یہ چار فیصدی بھی اکٹھا نہیں بلکہ پراکندہ ٹکڑوں کی شکل میں ہے۔ جن لوگوں سے اسرائیلیوں نے کہا بھی ہے کہ آپ آئیے اور اپنی حکومت تشکیل دیجئے انہیں بھی ہرگز اجازت نہیں دی ہے کہ ایک حکومت کی طرح کام کر سکیں۔ ان سے کہا ہے کہ آپ فلاں جگہ موجود رہئے اور اس بات کا خیال رکھئے کہ وہاں کے فلسطینی اسرائیل کے خلاف سرگرمیاں انجام نہ دے سکیں! یعنی پراکندہ علاقوں کو جس کا نظم و نسق چلانا انتہائی مشکل ہے، ایک آدھے ادھورے ملک کی حیثیت سے ان کے حوالے کر دیا! اس کے بدلے اس فلسطینی گروہ کو کیا کرنا ہے۔ یہ کرنا ہے کہ فلسطین کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ ہی وہ بھی مجاہد فلسطینیوں کے خلاف کاروائیاں کرے! فلسطینیوں کے نام پر یہ حرکتیں کرنے والوں کی خیانت دوسری سبھی خیانتوں سے، جو اب تک فلسطینیوں کے ساتھ ہوئی ہے، زیادہ مذموم اور بھیانک ہے! انہوں نے عوام کے لئے نہ کوئی کام کیا ہے اور نہ کر سکتے ہیں۔ ٹاپ عرب اسرائیل مفاہمت کا فلسفہ:عرب حکومتیں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی تو نہیں بن سکتے! جو وہ چاہتے ہیں وہی ہونا چاہئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین، عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ اس میں سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے پہلوؤں کے ساتھ ہی الہی و اسلامی فرائض کا پہلو بھی ہے۔ جو شخص اللہ تعالی پر ایمان و ایقان نہیں رکھتا وہ اگر صرف فلسطینی عوام کے لئے کام کرنا چاہتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ فلسطینی عوام کیا کہتے ہیں۔ آج ملت فلسطین کو دیکھنا ہے تو ان افراد کو دیکھئے جو گرفتار ہونے کے بعد غاصب حکومت کی جیلوں میں قید ہیں اور ان کے دسیوں گنا افراد سڑکوں، مسجد الاقصی، بازاروں اور پوری سرزمین فلسطین میں صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، کاروائیاں کر رہ ہیں۔ ایک چھوٹی سی اقلیت جس نے لالچ میں آکر ساز باز کر لی ہے، اسے ملت فلسطین کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ یہ کہا جائے کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ تو فلسطینی نہیں ہیں۔ٹاپ پہلی تحریک انتفاضہ کی ناکامی کے اسباب:انتفاضہ اول کے زمانے میں ساز باز اور مفاہمت کا ماحول علاقے پر چھایا ہوا تھا۔ کچھ لوگ امریکا کے دام میں اسیر تھے اور کچھ دیگر کا یہ خیال تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر عالمی سیاسی دباؤ اور پروپیگنڈے کا سامنا نہیں کیا جا سکتا اور مفاہمت کی راہ کو وہ بھی امریکا اور اسرائیل کے شرائط پر قبول کر لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس وقت علاقے میں جو تبدیلیاں ہوئیں اس سے اس خیال کی تقویت کی زمین فراہم ہو گئی۔ اس وقت یعنی انتفاضہ اول کے موقع پر اسرائیل کے سلسلے میں دو طرح کے طرز عمل کی بات کی جاتی تھی: ایک تو یہ کہ عرب افواج اسرائیل کے مقابلے پر ڈٹ جائیں لیکن اس چیز کے تمام تجربات ناکام ثابت ہو چکے ہیں، دوسرا طرز عمل وہ تھا جس سے اسرائیل کی خواہشات پر امن طریقے سے پوری ہوتی تھیں اور اس کے بدلے اسے مقبوضہ علاقے کے ایک چھوٹے سے حصے سے عقب نشینی کرنا پڑتی جیسا کہ کیمپ ڈیوڈ میں ہوا۔ اس زمانے میں مزاحمت و استقامت کا موضوع زیادہ مقبول نہیں تھا اور یہی کہا جاتا تھا کہ اسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہو پائے گی۔ ٹاپ اوسلو معاہدے کے نتائج:فلسطینی عوام کو پچھلی تحریک انتفاضہ میں بہت بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اسلامی سرزمین کی آزادی اور اسلام کی راہ میں بڑی تعداد میں شہدا کی قربانی دینا پڑی اور سرانجام اوسلو مذاکرات نے اس سب پر پانی پھیر دیا۔ آج عالم یہ ہے کہ اوسلو معاہدے کے نظریہ پرداز اور اس کی حمایت کرنے والے بھی اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہو گیا ہے کہ اسرائیل صرف اپنی مشکل حل کرنا چاہتا تھا۔ یعنی سنگ بدست مجاہدین سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا اور اپنی کمزوریاں دور کرنے کی فکر میں تھا۔ اس نے مراعات کے نام پر معمولی ترین چیز جو فلسطینیوں کو دی اس کا واحد مقصد تحریک انتفاضہ کے شعلے کو خاموش کرنا اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنا تھا۔ جیسے ہی اسے اپنے حالات معمول پر نظر آئے اور اسے یہ غلط فہمی ہوئی کہ فلسطینی عوام میں اب دوبارہ تحریک انتفاضہ شروع کرنے اور اس سے ٹکرانے یا مزاحمتی کاروائیاں کرنے کی توانائی نہیں رہ گئی ہے اس نے وہ معمولی ریاعتیں دینا بھی بند کر دیا اور اپنی توسیع پسندانہ ماہیت کو آشکارا کر دیا۔ اوسلو معاہدے کے عمل نے فلسطینی عوام کو ایسی حالت میں پہنچا دیا کہ انہیں پوری طرح احساس ہو گیا کہ قیام کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ ٹاپ فلسطینی اہداف اور امنگوں سے غداری:کوشش یہ ہو رہی ہے کہ فلسطین نام کی کوئی چیز ہی کسی کے ذہن میں باقی نہ رہے۔ گویا فلسطین نام کی کوئی سرزمین تھی اور نہ ہی اس سرزمین کی مالک کوئی قوم! اس طرح کی تیاریاں کی گئی ہیں۔ انسان حیرت و افسوس کے سمندر میں غوطے لگاتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ بعض لوگ اس چیز کو تسلیم بھی کر رہے ہیں، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ دنیا میں کہیں کوئی ایسا شخص ملے گا جو اتنی عجیب و غریب، سراسر ظالمانہ و ابلہانہ چیز کو قبول کر لے، لیکن ایسا دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک نام نہاد فلسطینی گروہ کو لاکر عظیم سرزمین فلسطین کے چھوٹے سے حصے میں جو اس کا چار فیصدی ہے اسے ایک جھوٹا اور ناقص اقتدار دے رہے ہیں اور اس کے بدلے اس سے جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین، سرزمین اور قوم کا مسئلہ پوری طرح فراموش کر دیا جائے۔ اگر کوئی شخص فلسطینی قوم، فلسطینی ریاست یا فلسطین کی تاریخ کی بات زبان پر لائے تو یہی گروہ جس نے یہ خسارت بار معاہدہ کیا ہے اس شخص کی سرکوبی کرے۔ ٹاپ فلسطین سے عرب حکام کی غداری:صیہونی حکومت، اس کے حامیوں اور ان میں سر فہرست امریکا نے مفاہمت و آشتی کے نعرے کے ذریعے جس کا مقصد صرف اور صرف فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو مستحکم تر بنانا ہے، اپنے حریفوں سے جہاں تک ممکن تھا اپنی پیروی کرائی۔ بعض مسلم حکومتوں نے ہراول دستے کی حیثیت رکھنے والے ملکوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا! اکثر عرب حکام کی حمایت آمیز خاموشی جو کہیں کہیں صریحی خیانت کا مظہر بھی رہی ہے علاوہ ازیں ملت فلسطین کی قیادت کے دعویداروں کے ذلت و خیانت آمیز موقف، ظلم و جارحیت و خیانت کی زنجیر کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد اسلامی سرزمین فلسطین کو ہمیشہ غاصبانہ قبضے میں اور یہاں بسنے والی مظلوم قوم کو ہمیشہ قید و بند کی صعوبتوں میں باقی رکھنا ہے۔ بہت سی عرب حکومتوں کی غدارانہ خاموشی اور ساز باز اور ان میں بعض حکومتوں کا مسئلہ فلسطین اور فلسطین کے انجام اور مستقبل کے سلسلے میں لا تعلقی اور بے حسی کا مظاہرہ باعث بنا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت برسوں کی پردہ پوشی حتی انکار کے بعد اب دوبارہ وسیع اسرائیل کی خواہش زبان پر لانے لگی ہے اور بڑی بے حیائی اور بھونڈے پن کے ساتھ اسلامی سرزمینوں کے کسی اور حصے پر قبضہ کرنے کی اپنی پلید نیت کا اظہار کر رہی ہے۔ ٹاپ چھٹا باب: مزاحمت و استقامتقوموں کی طاقت:سامراج کو یہ علم نہیں کہ ایک ایسی طاقت بھی موجود ہے جو ان کے ہتھیاروں کی طاقت سے بالاتر ہے اور وہ ہے قوموں کی طاقت، انسانوں کی طاقت۔ جو قوم بھی فکری بنیاد، عزم راسخ اور منطقی اصولوں کی حامل ہوگی اور اپنے منطقی اصولوں کے لئے عزم راسخ کے ساتھ ڈٹ جائے گی اسے ایٹمی طاقت ہو یا اس سے بھی بڑی اور چھوٹی کوئی دوسری طاقت، مغلوب نہیں کر سکتی۔ ان لوگوں نے قوموں کی طاقت کو اور خدائے قدیر کی قوت کو جو قوموں کے عزم و ارادے اور جرئت عمل کی پشتپناہ ہوتی ہے، معمولی سمجھ لیا ہے۔ (کلا نمد ھولاء و ھولاء) جو جماعت بھی ان اہداف کے لئے جس پر اس کا عقیدہ ہے کام کرتی ہے اللہ تعالی اس کی نصرت و مدد کرتا ہے۔ اور اگر وہ جماعت اور قوم اللہ تعالی پر ایمان رکھتی ہو تو پھر اس سے ٹکرانا اور اسے شکست دینا دس گنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ٹاپ شجاع ملت فلسطین کا جہاد: اس وقت ملت فلسطین نے جو جد و جہد شروع کی ہے وہ دو فوجوں کے مابین ہونے والی جنگ نہیں ہے کہ کہا جائے کہ فلاں فوج کے پاس دس ٹینک ہیں اور دوسری کے پاس اس تعداد میں ٹینک ہیں۔ پہلی کے پاس زیادہ ہیں یا دوسری کے پاس زیادہ ہیں۔ یہ تو ان افراد کے جسم و جان کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ ہے جو موت بزیچہ اطفال سمجھتے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کی فوج کے مقابلے پر آنے والا ایک فداکار و جاں نثار جوان اس پر پورے ایک لشکر کا خوف طاری کر دیتا ہے۔ اس جوان کا جواب نہ ٹینک و میزائل سے دیا جا سکتا ہے اور نہ طیارے اور آپاچی ہیلی کاپٹر سے۔ جب کوئی انسان خواہ وہ تن تنہا ہو، موت سے نہ ڈرے اور خود کو اللہ تعالی اور اپنے فریضے کی راہ میں فداکاری و جاں نثاری کے لئے آمادہ کر لے تو وہ بے انصاف دنیاداروں کے لئے بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ یہ شہادت پسندانہ کاروائیاں محض جذباتی کاروائیاں نہیں ہیں۔ ان کا سرچشمہ اسلام، یوم قیامت اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان ہے۔ جہاں بھی اسلام اپنے حقیقی معنی میں موجود ہے، سامراج کے خلاف یہ خطرہ وہاں ضرور پایا جائے گا۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لئے سامراج، اسلام سے جنگ کرنے پر مجبور ہے اور اس جنگ سے اسے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ واقع امر یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے گھربار اور خانہ و کاشانے سے محروم کر دیا گيا ہے، اس قوم کو پورا حق ہے کہ واپس جائے اور اپنا گھر واپس لے۔ یہ حق کے لئے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ امریکا اس جد و جہد کو دہشت گردی کا نام دیتا ہے لیکن فلسطینی مجاہدین کے خلاف جاری صیہونی خباثتوں کو دہشت گردی نہیں مانتا۔ ملت فلسطین وہ مظلوم قوم ہے جو مظلومیت کے ساتھ ہی شجاعت کا مظہر بھی ہے۔ یہ قوم عالم غربت میں خالی ہاتھ بھی بڑی شجاعانہ جنگ کر رہی ہے اور اس نے دنیا کی مادی طاقتوں کو جو سرکوبی اور قتل عام کے تمام تر وسائل سے لیس ہیں بے دست و پا کرکے رکھ دیا ہے۔ ٹاپ صیہونی حکومت سے جنگ کے بنیادی محور:غاصب صیہونی حکومت سے جنگ کی بنیادی روش یہ ہونا چاہئے: - مقبوضہ علاقے کی حدود کے اندر غاصب حکومت کو قیدی بنا دینا، اس کے لئے سیاسی و اقتصادی عرصہ حیات تنگ کر دینا اور اطراف سے اس کا رابطہ منقطع کر دینا۔ - حتمی کامیابی مل جانے تک فلسطینی قوم کا ملک کے اندر اپنی مزاحمت و استقامت کو جاری رکھنا انہیں ہر ضروری امداد بہم پہنچانا۔ ٹاپ فلسطینی مجاہدین کے لئے نمونہ عمل:کئی سال سے فلسطین غاصبانہ قبضے میں ہے۔ کئی سال قبل بھی فلسطینی قوم میں جوان تھے۔ یہ جوان جو آج اس طرح میدان عمل میں نکل آئے ہیں انہوں نے کس کو اپنا نمونہ عمل بنایا ہے؟ ان نوجوانوں کا نمونہ عمل با ایمان و با اخلاص لبنانی نوجوان ہے۔ غزہ پٹی اور دریائے اردن کے مغربی ساحل پر جو فلسطینی نشین علاقہ ہے جب مظاہرے ہوتے ہیں تو مظاہرین حزب اللہ لبنان کے قائد سید حسن نصر اللہ کی تصاویر اپنے ہاتھوں میں لئے آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے حزب اللہ لبنان کا پرچم مسجد الاقصی کے گنبد پر نصب کیا۔ البتہ صیہونیوں نے اسے وہاں نہیں رہنے دیا لیکن بہرحال انہوں نے جاکر وہاں نصب تو کر ہی دیا۔ بنابریں وہ (لبنانی نوجوان) فلسطینی نوجوان کے لئے نمونہ عمل بن گیا۔ حزب اللہ لبنان کے ٹی وی چینل المنار کے سب سے زیادہ ناظرین مقبوضہ فلسطین میں ہیں! جو نہ صرف یہ کہ اس کے پروگراموں کو دیکھتے ہیں بلکہ کسی پیاسے کی مانند اسے آب شیریں کی طرح ایک ایک گھونٹ کرکے اپنے وجود میں اتارتے ہیں۔ٹاپ جہاد، امت مسلمہ کا فریضہ:فقہائے اسلام کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ اگر دشمن، مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کر لے اور کسی ملک میں پیکر اسلامی خطرے میں پڑ جائے تو تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک ہمہ گیر اور وسیع جہاد کے ذریعے اس دشمن کو پسپا کریں، اسے اسلامی سرزمین سے نکالیں اور اسے اس کی سزا دیں۔ امت مسلمہ اگر ہوش میں آ جائے تو اسے صاف محسوس ہوگا کہ مسلمانوں پر حالیہ ادوار میں نازل ہونے والی مصیبتوں میں یہ سب سے بڑی بلا ہے۔ اس مسئلے کے سلسلے میں اسلامی حکم بالکل واضح ہے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اسلامی حکم کے بارے میں کسی بھی مسلمان کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو فقہ کی ان تمام کتابوں میں مذکور جن میں جہاد کی بحث کی گئی ہے۔ اگر کفار آکر مسلمانوں کے ملک پر قبضہ یا اس کا محاصرہ لیں تو اس صورت میں جہاد کے واجب عینی ہونے کے بارے میں جدید و قدیم مسلم علما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر اس سلسلے میں ایک ہی نظرئے کے حامل ہیں۔ وہ جہاد جو جنگ کے آغاز کے طور پر کیا جائے واجب کفائی ہے لیکن دوسرے مواقع پر جب جہاد دفاعی ہو، جو جہاد کا واضح ترین مصداق ہے، تو وہ واجب عینی ہو جاتا ہے۔ٹاپ انتفاضہ مسجد الاقصی:پہلی تحریک انتفاضہ، صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی تلقینوں اور افواہوں، فلسطینیوں کو پر امن طریقے سے مراعات دینے کے وعدوں، ساز باز کرنے والوں کے نفوذ اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے دباؤ کے نتیجے میں متوقف ہو گئی۔ لیکن دس سال گزرتے گزرتے واضح ہو گیا کہ اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے دنیا میں صیہونزم کے حامیوں کی تمام کوششیں مسلمانوں کے جد و جہد ان کی سراسیمگی کا نتیجہ تھیں اور جو وعدے فلسطینیوں سے کئے گئے تھے وہ صرف اور صرف ایک سراب تھا۔ انتفاضہ مسجد الاقصی، فلسطینی عوام کی جد و جہد میں بہت اہم باب ہے۔ فلسطینیوں کی جد و جہد متعدد نشیب و فراز سے گزری ہے، انواع و اقسام کی سازشوں سے نمٹتی رہی ہے، بڑی سخت آزمائشوں سے گزری ہے، گوناگوں اسلحے کی جھنکاروں، جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی گھن گرج کو سنتی رہی ہے۔ آج اسے بخوبی علم ہو چکا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اور ان کے حامیوں کے چنگل سے نجات کا واحد راستہ جہاد اور سعی پیہم ہے جس کی تائید مسلم رائے عامہ بھی کرتی ہے۔ صیہونیوں نے اپنی اسٹریٹیجی ملت فلسطین کی تحقیر اور تذلیل کی بنیاد پر وضع کی تھی لیکن فلسطینیوں نے اس اسٹریٹیجی کے خلاف اور صیہونی حکومت سے ہونے والے ذلت آمیز معاہدوں، امریکا کے تسلط پسندانہ نظام اور اس کے ساتھ ساز باز کرنے والے عناصر کے خلاف قیام شروع کر دیا اور اپنے لئے عز و شرف کے راستے کا انتخاب کیا۔ جرائم پیشہ اسرائیلی حکومت کو اندرونی سطح پر متعدد بحرانوں اور سرحدوں پر تحریک انتفاضہ سے روبرو کر دیا۔ انتفاضہ اقصی کا محور بیت المقدس ہے۔ یعنی وہ چنگاری جو فلسطینی عوام کے غیظ و غضب کے آتشفشاں میں تبدیل ہو گئی وہ صیہونیوں کے ہاتھوں مسجد الاقصی کی بے حرمتی کے باعث وجود میں آئی۔ فلسطینی عوام نے مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مقام کی حفاظت کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان میں قدم رکھا اور ایثار و قربانی کی شاندار مثال پیش کرتے ہوئے غاصب صیہونیوں کے خلاف جنگ اور مقدس جد و جہد کو شعلہ ور کیا۔ ساز باز اور مفاہمت کی روش بلکہ واضح طور پر یوں کہا جائے کہ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں فلسطینیوں میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے، اس با برکت تحریک انتفاضہ سے فلسطین میں قومی اتحاد دوبارہ بحال ہوا۔ اس جد و جہد میں سارے عوام شامل ہیں اور اسلامی تنظیمیں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ٹاپ انتفاضہ مسجد اقصی کا سبب:فلسطینی عوام کے قیام اور ان کی تحریک کا سبب اسلامی جمہوریہ ایران اور لبنانی عوام نہیں ہیں۔ فلسطینی تحریک اور جد و جہد کا بنیادی عنصر خود فلسطینی ہیں۔ فلسطینی تحریک انتفاضہ کا سبب اس نوجوان نسل کے دلوں میں جمع ہو جانے والے رنج و غم تھے جو پوری امید و نشاط کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہے۔ بے شک ایرانی قوم ان کی مداح ہے اور انہیں اپنے جیسا سمجھتی ہے۔ فلسطین، پیکر اسلام کا جز ہے اور ملت ایران فلسطینی قوم کے تعلق سے جذبہ اخوت و برادری رکھتی ہے البتہ تحریک انتفاضہ کو وہی (فلسطینی) آگے بڑھا رہے ہیں۔ٹاپ فلسطین، اسلامی بیداری کی تحریک کا محور:گزشتہ عشروں میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک کے ظہور پذیر ہو جانے کے بعد اسلامی تحریک اور دسرے لفظوں میں کہا جائے اسلامی بیداری کی تحریک پوری آب و تاب کے ساتھ علاقے اور عالم اسلام کی سطح پر نمایاں ہو گئی ہے۔ اس وقت اس تحریک کا محور مسئلہ فلسطین ہے۔ فلسطین کی تحریک انتفاضہ فلسطین کی جغرافیائی سرحدوں اور فلسطینی قوم کے باہر بھی عام مسلمانوں اور عربوں کو میدان میں لانے میں کامیاب رہی ہے۔ (مسجد الاقصی کی تحریک انتفاضہ کی حمایت میں) عالم اسلام کے مشرق سے مغرب تک مسلمان قوموں کے شاندار مظاہرے اور ان میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت سے ثابت ہو گيا ہے کہ فلسطینی عوام ان قوموں کی حمایت پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس وقت لبنان میں اسلامی مزاحمت لبنانی بہادروں کے حوصلہ و ہمت اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حمایت و ہدایت کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی اس وقت لبنان کے دارالحکومت بیروت پر اسرائیل کا قبضہ تھا اور اس ملک کے سیاسی امور اور فیصلے اس کی مٹھی میں تھے۔ اس دن اسلامی مزاحمت نے زحفا زحفا نحو القدس رفتہ رفتہ قدس کی سمت پیش قدمی کا نعرہ بلند کیا۔ کچھ ناواقف لوگوں نے انہیں سادہ لوح کہا اور ان پر طنز کئے کہ آپ لبنانی اپنے ملک کے دارالحکومت میں داخل ہونے تک سے عاجز و قاصر ہیں اور اوپر سے آپ قدس کی جانب پیش قدمی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس دن سے لیکر اسرائیل کے خلاف اسلامی مزاحمت کی فتح تک صرف اٹھارہ سال کا وقت لگا۔ قوموں کی جد و جہد کی تاریخ میں اٹھارہ سال کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے۔ ٹاپ استقامت، نجات کا راستہ:انتفاضہ مسجد الاقصی ایک عوامی تحریک ہے جس نے ثابت کر دیا کہ فلسطینی عوام مفاہمتی کوششوں سے ناامید ہوکر یہ سمجھ چکے ہیں کہ کامیابی کا واحد راستہ استقامت و مزاحمت ہے۔ استقامت و مزاحمت وہ واحد راستہ ہے جسے اختیار کرکے مسلمانوں نے پہلی بار اسرائیل کو بغیر کوئی سہولیت دئے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی اور اس عرب ملک یعنی لبنان کے دارالحکومت میں اپنا پرچم چھوڑ جانے کی صیہونی حکومت کی خواہش کو زندہ در گور کر دیا۔ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کی عقب نشینی کے بدلے میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسرائیل اپنی فوجیں شمالی صحرائے سینا میں تعینات نہ کرے لیکن جنوبی لبنان میں حالت یہ ہوئی کہ یہی اسرائیل اسلامی مزاحمت و استقامت کے باعث لرزہ بر اندام ہوکر خود التجا کرنے لگا کہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر لبنانی فوج تعینات ہو۔ یعنی اسلامی مزاحمت کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ اس نے جنوبی لبنان اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں لبنان کے قومی اقتدار اعلی کو بحال کیا۔ٹاپ ساتواں باب: فلسطین کی تقدیر اور مستقبل بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:اب غاصب حکومت کے عمائدین جو ایک اسلامی ملک فلسطین پر قابض ہیں اور ان کے امریکی حامی جو بڑے ہی احمقانہ و ابلہانہ انداز میں ان کی ہمہ جہت حمایت کر رہے ہیں، اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ فلسطین کا نام تاریخ اور عوام کی یاد داشت سے پوری طرح مٹا دیں تاکہ عوام کے ذہنوں میں فلسطین نام کی کوئی چیز ہی باقی نہ رہے۔ انیس سو سینتالیس، اڑتالیس میں جب فلسطین پر پوری طرح قبضہ کر لیا گیا اور صیہونی حکومت کی تشکیل عمل میں آ گئی اس وقت سے اب تک وہ یہ کام نہیں کر سکے اور آئندہ بھی عشروں تک وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وہ فلسطین کا نام مٹانے کی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے بلکہ اسی کوشش میں وہ خود ہی صفحہ ہستی اور تاریخ کے اوراق سے ناپید ہو جائیں گے۔ جبکہ فلسطین اور فلسطینی عوام کو جاویدانی ملے گی۔ یہ اس زعم میں ہیں کہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو مٹا لے جائیں گے۔ لیکن فلسطینی قوم ہمیشہ باقی رہے گی اور فلسطین بھی باقی رہے گا اور فلسطینی و لبنانی جیالوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں ایک دن پرچم فلسطین بھی لہرائے گا۔ صیہونزم اور فلسطین میں غاصب و جعلی صیہونی حکومت کا مقدر فنا ہے۔ فلسطینی عوام کو چاہئے کہ اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کریں اور اس کی ذات پر توکل کریں۔ فلسطینی جوان، لبنانی جوان، تمام عالم اسلام کے جوان اور سبھی دانشور اسی سمت میں آگے بڑھیں۔ غاصب و ظالم صیہونیوں کی سمجھ میں یہ بات آ جانا چاہئے کہ لبنان و فلسطین کی زیور ایمان سے آراستہ یہ نوجوان نسل ناقابل تسخیر ہے۔ فلسطینی قوم کے جذبہ ایمانی و قوت صبر پر استوار جہاد کو سیاسی سازباز، فوجی دباؤ، سکیورٹی کی چالوں اور تشہیراتی ہلڑ ہنگاموں سے روکا نہیں جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے عظیم الشان ملت ایران کی قوت مزاحمت اور بے مثال استقامت کو ان فرسودہ اور ناکارہ حربوں سے مغلوب نہیں کیا جا سکا جنہیں گزشتہ برسوں کے دوران صیہونیوں اور ان کے حامیوں نے جی بھر کے استعمال کیا ہے۔ ٹاپ یقینی مستقبل:فلسطین کی موجودہ صورت اس یقینی انجام اور مستقبل کی نوید دے رہی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالی نے صادق و ثابت قدم مجاہدین سے کیا ہے، وہ وعدہ جس کا پورا ہونا یقینی ہے۔ بے رحم و ظالم صیہونی حکومت اور اس کے پس پشت امریکا اور عالمی صیہونزم کو یہ زعم ہے کہ مجرمانہ اقدامات اور غیر انسانی حرکتوں سے ملت فلسطین کو مغلوب کر لے جائیں گے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے، اس بھول میں پڑنے والوں کو آگے چل کر بہت بڑی چپت لگنے والی ہے۔ فلسطین، فلسطینی قوم کا ہے، جلد یا کچھ دیر میں غاصب حکومت کو سرانجام اس حقیقت کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مجاہدین کے دوش پر یہ عظیم اور تاریخی ذمہ داری ہے۔ انہیں چاہئے کہ حتمی وعدہ الہی پر بھروسہ کریں اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آس لگائیں اور اپنی امید و جذبہ ایمانی اور جہاد کے ذریعے اپنی قوم اور اپنے ملک کو اپنا عظیم تحفہ پیش کریں۔ فلسطین کے مسلمانوں کی مزاحمت و استقامت کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی جانب سے ان کی بلا وقفہ حمایت کے نتیجے میں فلسطین بفضل الہی ایک دن آزآد ہو جائے گا اور بیت المقدس، مسجد الاقصی اور اس اسلامی سرزمین کا گوشہ گوشہ دوبارہ عالم اسلام کی آغوش میں آ جائے گا۔ ٹاپ شمشیر پر خون کی فتح:عالم اسلام کی رائے عامہ بھی یہ جان لے کہ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتیں کبھی بھی اسلامی ممالک کے معاملات میں صدق دل اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ ثالثی کا رول ادا نہیں کریں گی۔ ان کا موقف اور رخ ظالم و جارح کی حمایت کا معاندانہ رخ ہے۔ مسلمانوں کا فریضہ ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ یہ فریضہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور اس سے کوئی بھی خود کو سبکدوش نہ سمجھے۔ سب مل کر فلسطینی قوم کی مدد کریں، اسے ضرورت کی چیزیں اور وسائل فراہم کریں، اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنا شجاعانہ جہاد اسی انداز سے جاری رکھ سکے۔ آج ملت فلسطین اپنی استقامت و پائیداری کے ذریعے، بے مثال شجاعت و بہادری کے ذریعے یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ خون، شمشیر کا مقابلہ کرنے کی طاقت و توانائی رکھتا ہے اور ایک دن دنیا دیکھ لے گی کہ خون کو شمشیر پر فتح کیسے ملتی ہے؟! ٹاپ
پہلا باب: اسلام میں انسانی حقوقاسلام میں انسانی حقوق کا معیاراسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاداسلام، انسانی حقوق کا ضامناسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقام اسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوق معاشرے میں عورت کا کردار خاندان میں عورت پر ظلم عورتوں کا بنیادی مسئلہ عورت اور مرد کے حقوق کا توازنسامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفتتشدد اور عدم تشدددوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوقانسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگیانسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصولمغرب میں عورت کا مقام و مرتبہامریکی معاشرے کے اقدارانسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعوییورپ اور انسانی حقوق کی پامالیبرطانوی انسانی حقوقتیسرا باب: ایران اور انسانی حقوقاسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی: جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت: ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام: سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی: اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط: اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ: اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:انسانی حقوقپہلا باب: اسلام میں انسانی حقوقاسلام میں انسانی حقوق کا معیارمکتب اسلام یعنی انسانیت اور انسانی اقدار کی حمایت کا مکتب، مروت و ہمدردی کی ترویج کا مکتب، اخوت و بھائی چارے کی حمایت کا مکتب، یہ وہ مکتب ہے جوسماجی حقوق کا معیار ہے: لن تقدس امۃ لا تؤخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیر متمتع صورت حال یہ ہو کہ معاشرے میں کوئی ایسا شخص جس کے ہاتھ دولت اور پیسے سے خالی ہوں وہ بھی طاقتور سے اپنا حق بغیر کسی دقت کے حاصل کر لے۔ یہ اسلام کا پیغام ہے۔ یہ حقیقی اسلامی معاشرہ ہے۔ آج یہی پیغام قوموں کو گرویدہ بنا رہا ہے۔ دنیا کے کس گوشے میں یہ اصول نافذ ہے؟ کون سی جمہوریت، کون سا لبرلزم اور کون سے انسانی حقوق ہیں جن کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، جو اس چیز کو پیش کر سکتے ہوں اور اس منزل کی سمت حرکت کر رہے ہوں؟ آج اس کے بالکل بر عکس عمل کیا جا رہا ہے۔ٹاپ اسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاداسلامی جمہوری نظام نے دنیا کے سامنے جو نظریہ پیش کیا وہ بالکل نیا اور پوری طرح دین سے ماخوذ ہے۔ مادی تجزیوں اور نظریات میں یہ بات عام ہو گئی تھی کہ جدیدیت کو دینی افکار اور معنوی سوچ سے الگ رکھا جائے بلکہ ان کو ایک دوسرے کا متضاد سمجھا جائے۔ دین و مذہب اور روحانیت و معنویت سے متعلق باتوں کو خواہ وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی رجعت پسندی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ جس چیز کو بھی ماڈرن اور جدید قرار دیا جاتا اس کے بارے میں یہی تاثر ابھرتا تھا کہ یقینی طور پر یہ غیر مذہبی اور غیر روحانی چیز ہے۔ دین کے سلسلے میں یہ غلط تصور عام تھا۔ آج اس کے بالکل بر عکس اسلامی جمہوریہ نے جو سماجی انصاف پیش کیا ہے اور اسلامی روش کے تحت انسانی حقوق کا جو نظریہ متعارف کرایا ہے وہ جمہوری دنیا میں پیش کئے جانے والے نظریات سے بدرجہا بہتر و بلندتر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا سماجی انصاف نام نہاد سوشیلسٹ دنیا سے کہیں زیادہ جدید اور ماڈرن ہے۔ ایران میں انسانی حقوق اور آزادی نام نہاد جمہوری دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور دنیا اس کی معترف بھی ہے۔ ٹاپ اسلام، انسانی حقوق کا ضامنعالم اسلام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کے غلط آئیدیل کی ضرورت نہیں ہے جس کی بارہا خلاف ورزی بھی کی جا چکی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مقام بہت نمایاں ہے۔ اسلام، انسانی حقوق و حرمت کا پاسباں، اخلاقیات و صفات حسنہ کا ضامن اور امن و سکون کا علمبردار ہے۔ بد ترین دروغگوئی اور پست پرین الزام تراشی کے مرتکب تو وہ افراد ہو رہے ہیں جو اسلام کو انسانی حقوق، تہذیب و تمدن اور امن و سلامتی کا مخالف قرار دیتے ہیں اور اسے مسلم اقوام پر اپنی ظالمانہ جارحیت و توسیع پسندی کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام اپنے معروف (نہج البلاغۃ، 331 ویں) خط میں ہدایات دیتے ہیں کہ عوام کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، ایسا سلوک کرو، وحشی بھیڑیئے کی مانند ان پر ٹوٹ نہ پڑو۔ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں: فانھم صنفان عوام دو طرح کے ہیں۔ اما اخ لک فی الدین و اما نظیر لک فی الخلق یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے شریک ہیں، یعنی تمہاری طرح انسان ہیں۔ بنابریں مظلوم کے دفاع اور انسان کو اس کا حق دلانے کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے نزدیک اسلام کی شرط نہیں ہے۔ ( آپ کی نظر میں) مسلم اور غیر مسلم دونوں اس سلسلے میں مساوی ہیں۔ ذرا غور تو کیجئے کہ یہ کتنی بلند فکر ہے اور کتنا عظیم پرچم ہے جو تاریخ میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے پیش کیا ہے۔ اس وقت کچھ لوگ دنیا میں انسانی حقوق کی رٹ تو لگاتے ہیں، لیکن یہ سراسر جھوٹ اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کہیں بھی، حتی خود ان کے ملکوں میں بھی انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، پوری دنیا کی تو بات ہی الگ ہے! حقیقی معنی میں انسانی حقوق کو اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے متعارف کرایا اور اس پر عمل کیا۔ اسلام تو مجرمین کے حقوق کا بھی خیال رکھے جانے کا قائل ہے۔ کسی کو بھی اس شخص سے بد کلامی کی اجازت نہیں جسے پھانسی دی جانے والی ہے۔ کیونکہ یہ زیادتی ہوگی، گالی دینا ظلم شمار ہوگا، گالی دینا اس کی حق تلفی ہوگی لہذا اس (گالی دینے والے) کو روکا جانا چاہئے۔ یہ ہے سزائے موت کے مجرمین کے ساتھ سلوک کا انداز تو پھر جیل کی سزا پانے والے اور اس شخص کی بات ہی الگ ہے جس پر عائد الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے یا وہ شخص جس کے خلاف تہمت کی حقیقت ابھی واضح اور ثابت نہیں ہوئی ہے، صرف اس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق اور لوگوں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ حق کا ہر ایک کے سلسلے میں پاس و لحاظ کیا جانا چاہئے۔ ٹاپاسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقاماسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوقاسلام میں خواتین کی بیعت، خواتین کی مالکیت، سیاسی و سماجی میدانوں میں عورتوں کا کردار ایک مسلمہ چیز ہے۔ اذا جائک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ عورتیں آکر پیغمبر اسلام کی بیعت کرتی تھیں۔ پیغمبر اسلام نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ مرد آکر بیعت کریں اور پھر مردوں کی رائے اور فیصلے کے مطابق عورتیں بھی عمل کریں۔ عورتوں کو بھی اس حاکمیت کو قبول کرنے اور اس سیاسی و سماجی نظام کو تسلیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مغرب والے اس لحاظ سے اسلام سے تیرہ سو سال پیچھے ہیں۔ٹاپ معاشرے میں عورت کا کرداراگر ملک میں خواتین کے طبقے کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ان معارف اور حقائق سے روشناس کرا دیا جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو ملک کی ترقی و پیشرفت میں کئی گنا کا اضافہ ہو جائے گا۔ جس میدان میں بھی عورتیں ذمہ داری اور فرائض کے ساتھ وارد ہوں گی، اس میں ترقی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ مختلف میدانوں میں خواتین کی موجودگی کی خصوصیت یہ ہے کہ جب گھر کی عورت کسی میدان میں قدم رکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے شوہر اور بچے بھی اس میدان میں اتر گئے ہیں۔ مرد کا وارد ہونا اس چیز کا ضامن نہیں ہے لیکن عورت کی موجودگی اس کی ضامن ہے۔ ٹاپ خاندان میں عورت پر ظلماگر عورتوں کو علم و دانش کے حصول کا پورا موقع نہ دیا گیا تو یہ ان پر ظلم ہے۔ اگر بہت زیادہ مصروفیات اور کاموں کی بنا پر عورت اپنے اخلاق، اپنے دین اور معرفت کی فکر نہ کر سکے تو یہ اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اگر عورت کو اس کی نجی ملکیت سے اس کے ارادے کے مطابق آزادانہ استفادے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ شادی کے وقت اگر عورت پر شوہر کو مسلط کر دیا جائے یعنی شوہر کے انتخاب میں اس کا کوئی کردار نہ ہو اور اس کا ارادہ و خواہش اس میں دخیل نہ ہو تو یہ سراسر ظلم ہے۔ ازدواجی زندگی کے دوران یا شوہر سے الگ ہو جانے کے بعد اگر عورت کو بچوں کے سلسلے میں اس کے جذبات کی تسکین کا موقع نہ دیا جائے تو یہ ظلم ہے۔ اگر عورت کے اندر صلاحیتیں ہیں، مثلا علمی صلاحیت، تحقیق و ایجادات کی صلاحیت، سیاسی توانائی، سماجی کاموں کی صلاحیت اور اسے اس استعداد سے استفادے اور اس صلاحیت کو نکھارنے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس پر ظلم ہے۔ٹاپ عورتوں کا بنیادی مسئلہعورتوں کا بنیادی مسئلہ و معاملہ یہ نہیں ہے کہ انہیں روزگار ملا ہے یا نہیں۔ عورت کی بنیادی ضرورت، وہ جو بد قسمتی سے آج مغرب میں نظر انداز کر دی گئی ہے، سلامتی ہے۔ اسے احساس تحفظ کی ضرورت ہے، احساس طمانیت کی ضرورت ہے، صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کے امکانات فراہم کئے جانے کی ضرورت ہے، معاشرے، ماں باپ کے گھر اور شوہر کے گھر میں ظلم اور نا انصافی سے محفوظ رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ٹاپ عورت اور مرد کے حقوق کا توازناسلام انسانیت کے تکامل کی حمایت کرتے ہے۔ اس زاوئے سے اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ عورت اور مرد اسانیت کے وجود کے دو پہلو ہیں۔ انسانی اور روحانی پہلو سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ عورتوں کے حقوق کے دفاع سے اسلام کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں پر ظلم نہ ہو اور مرد خود کو عورتوں کا حاکم تصور نہ کریں۔ خاندانی زندگی میں کچھ حدیں اور حقوق ہوتے ہیں۔ مرد کے بھی حقوق ہیں تو عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں اور یہ حقوق بڑے منصفانہ اور متوازن انداز میں بیان اور معین کئے گئے ہیں۔ اسلام میں انسانی اخلاق کو اہمیت دی گئی ہے، صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ بنی آدم کی ہر فرد کے لئے کچھ فرائض رکھے گئے ہیں۔ بنابریں مزاج کو پہچاننا ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت کے مزاج پر پوری توجہ دیتا ہے۔ اسلام نے توازن پر زور دیا ہے۔ یعنی انسانوں منجملہ مرد اور عورت کے درمیان عدل و انصاف کے تقاضوں کا پاس و لحاظ کرنا۔ اسلام میں مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض مقام پر عورتوں اور مردوں کے احکام الگ الگ ہوں کیونکہ بعض چیزوں کے لحاظ سے عورت اور مرد کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ بنابریں عورت اور مرد کے سلسلے میں مزاج اور خصلتوں کی بیشترین معلومات اور حقائق اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں۔ ٹاپ سامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفتعالمی دشمنوں یعنی امریکا کی سرکردگی میں سامراج اور دیگر چھوٹے بڑے دشمنوں کی جانب سے دنیا کے ہر گوشے میں ایران کی مخالفت کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام کو غارتگروں کی راہ میں حائل پاتے ہیں اس لئے اسلام کے مخالف ہیں۔ ملکوں کی ثروت لوٹنے والے آوارہ کتوں کو اسلام سے پڑنے والی دتکار دیکھتے ہیں تو اسلام کی مخالفت کرنے لگتے ہیں اور اسے انسانی حقوق کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام لوگوں کے نظروں سے اتر جائے۔ جبکہ اسلام تو انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ انسانی حقوق کسے کہتے ہیں؟ کیا وہ فلسطینی جو اس سردی کے موسم میں خبیث صیہونیوں کے ہاتھوں آوارہ وطن کر دئے گئے، انسان نہیں ہیں؟! کیا ان کے کچھ حقوق نہیں ہیں؟ ان کے سلسلے میں انسانی حقوق کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کے جس منشور کا یہ صاحبان بڑا دم بھرتے ہیں کیا اس کی اہم ترین شق یہ نہیں ہے کہ ہر انسان اپنے گھر کے انتخاب کے سلسلے میں آزاد ہے اور اپنی رہائش کے انتخاب کا حق رکھتا ہے؟ تو کیوں ان (فلسطینیوں) کے گھر میں درانہ گھس گئے اور انہیں ان ہی گھر سے نکال باہر کیا؟! کیا فلسطین، فلسطینیوں کا گھر نہیں؟ اسی کو انسانی حقوق کہتے ہیں؟ فلسطینی، انسان نہیں ہیں؟ آج کون ہے جو انسانی حقوق کے دعویداروں کے ان جھوٹے اور شیطانی حربوں سے واقف نہ ہو؟ٹاپ تشدد اور عدم تشددعدم تشدد اور تشدد یوں تو ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ کہیں تشدد سے کام لینا پڑتا ہے اور کہیں عدم تشدد کو اپنایا جاتا ہے۔ بعض افراد جو عالمی سطح پر عدم تشدد اور انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں وہی بد ترین تشدد اور انسانوں کے قتل عام کے مرتکب ہوتے ہیں اور بعد میں عدم تشدد کی اور نرم ولطیف برتاؤ کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ تشدد اور عدم تشدد کے بارے میں بہت تصنع اور ریاکاری سے کام لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر سخت برتاؤ کرنا پڑتا ہے اور کچھ چیزوں کو نظر انداز اور ان سے چشم پوشی کرنا ممکن اور مناسب نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ مقامات پر نرمی اور احترام سے پیش آنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہی چیزیں موجود ہونا چاہئیں۔ٹاپدوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوقانسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگیانسانی حقوق کی سیاہ کارکردگی والے مغربی ممالک آج عالم اسلام کو انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کا درس دینے کی کوشش کر رہے ہیں، امن و آشتی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جن لوگوں نے بیس سال کے اندر دو عالمی جنگیں برپا کر دیں اور دسیوں لاکھ انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جن لوگوں نے ایٹم بم بنایا اور اس سے ہزاروں انسانوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، جن لوگوں نے افریقا میں، لاطینی امریکا میں اور ایشیا میں بے شمار جرائم کئے، انسانوں کا قتل عام کیا، جن کے جرائم کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان میں کوئی بھی فرنگیوں کو فراموش نہیں کرے گا اور نہ الجزائر میں کوئی فرانسیسیوں کو بھلا سکے گا۔ کیمیاوی ہتھیار بنانے والے، انہیں استعمال کرنے والے اور ان ہتھیاروں سے صدام کو مسلح کرنے والے آج دنیا میں کیمیاوی ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے والے داروغا کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے سب سے بڑے اسمگلر کو اسمگلنگ روکنے کا کام سونپ دیا جائے۔!ٹاپ انسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصولصیہونزم اور امریکا بلکہ در حقیقت دنیا کے لٹیرے سرمایہ داروں سے وابستہ تشہیراتی ادارے پوری عالمی برادری کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا جمہوریت کے بڑے طرفدار ہیں جبکہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔ خود کو انسانی حقوق کا طرفدار ظاہر کرتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ یہ کمپنیاں، یہ ٹرسٹ جس چیز کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے اور جس چیز کا ان کی نظر میں کوئی احترام نہیں ہے وہ قوموں کے حقوق ہیں، وہ انسانی حقوق ہیں۔ٹاپ مغرب میں عورت کا مقام و مرتبہیورپ اور مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتیں مالی لحاظ سے خود کفیل نہیں ہوتی تھیں۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجود، مغرب میں روز بروز عجیب و غریب انداز سے بڑھنے والی بے پردگی کے باوجود، اس بے لگام جنسی آزادی کے باوجود، جسے وہ عورت کے احترام کا معیار قرار دیتے ہیں، مغرب میں عورتوں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی ذاتی دولت کا آزادانہ استعمال کریں۔! شوہر کے سامنے اس کے اپنے مال پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ یعنی جو عورت شادی کر لیتی تھی اس کا سارا مال و اسباب اس کے شوہر کا ہو جاتا تھا۔ اس کو اپنا یہ مال خرچ کرنے کا بھی حق نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل سے عورتوں کو مالکانہ حقوق ملنے شروع ہوئے۔ حالانکہ یہ چیز انسانی حقوق کی بالکل بنیادی چیزوں میں ہے۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں اس بات کا جواب دے کہ اس نے گزشتہ ادوار میں عورتوں کی اتنی توہین کیوں کی۔ٹاپ امریکی معاشرے کے اقدارآپ کیا سمجھتے ہیں، امریکی اقدار کیا ہیں؟ امریکی کچھ اصولوں کو امریکی اصول کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عالمی اصول ہیں۔ ان اصولوں میں انسانوں کی آزادی، فکر و نظر کی آزادی، انسانی وقار، انسانی حقوق وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔ کیا واقعی یہ امریکی اصول ہیں؟! کیا امریکی معاشرے کے یہی اوصاف ہیں؟! کیا آج امریکی حکومت کی یہی شناخت ہے جو آپ نے ذکر فرمائی ہے؟! کیا یہی حکومت نہیں تھی جس نے امریکی سرزمین کے اصلی باشندوں کا قتل عام کیا؟! جس نے امریکی ریڈ انڈینس کو نابود کر دیا؟ کیا اسی حکومت کے با اثر عناصر نہیں تھے جنہوں نے دسیوں لاکھ افریقیوں کو انہی کی سرزمین میں غلامی کی زنجیر پہنا دی۔ ان کے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کر لیا اور ان کے ساتھ برسہا برس تک ظالمانہ برتاؤ کیا؟ uncle Tom`s cabin یا چچا ٹام کی کیبن نامی ناول شاید دنیا کی نہایت غم انگیز داستان ہے جس میں امریکا میں غلاموں کی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ دو سو سال کے بعد بھی یہ ناول موجود ہے۔ امریکا اور امریکی حکومت کی اصلی تصویر یہ ہے۔ امریکی نظام کی اصلی تصویر اور پہچان یہی ہے، آزادی اور انسانوں کی برابری نہیں۔ کیسی برابری؟! آپ آج بھی سیاہ اور سفید فاموں کے درمیان مساوات کے قائل نہیں ہیں۔ آج بھی آپ کی نظر میں کسی محکمے کے لئے کسی شخص کے انتخاب میں اس کے ماں باپ میں سے کسی ایک کا بھی ریڈ انڈین ہونا اس کے لئے منفی پہلو سمجھا جاتا ہے۔ دعوی کرتے ہیں کہ امریکی اصولوں کی گیرائی عالمی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں انسانیت کے لئے ہمہ گیر اصول وضع کرنے والے؟! یہ کون سی منطق ہے کہ جو ہمارا اصول ہے وہی عالمی اصول ہے۔ اگر دنیا میں کوئی اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو اسے جاکر ایٹم بم سے نابود کر دیا جائے؟! یہ کسی حریت پسند قوم کا طرز فکر ہے؟! کیا واقعی یہ اس حکومت کا طرز فکر ہو سکتا ہے جو حقیقی معنی میں انسانی وقار کی قائل ہے؟! آپ اس طرح انسانی معاشرے سے جھوٹ بولتے ہیں؟!ٹاپ انسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعویکس کو نہیں معلوم ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت کے دعوے فریب اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں؟ ان برسوں میں قتل عام کی بد ترین مثالیں پیش کرنے والی امریکی حکومت، جس نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کی خود مختار حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں، جس نے بغاوت کرنے والی اور عوام پر مسلط کر دی جانے والی رجعت پسند حکومتوں کی بھرپور حمایت کی، جس نے دنیا بھر میں مہلک ترین ہتھیاروں کی سپلائی کی، جس نے خطرناک ترین دہشت گردوں کو خود میدان میں بھیجا یا اپنی آغوش میں پالا، جس نے بے شمار عام شہریوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا، جس نے دنیا کی سب سے مظلوم قوم یعنی فلسطینیوں کو ان کے بنیادی ترین حقوق سے محروم کر دیا، جس نے درندہ صفت صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ مدد کی، جس نے جابر و بد عنوان پہلوی حکومت کو دسیوں سال باقی رکھا اور ملت ایران کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور سیاسی شعبوں میں بد ترین نا انصافی اور خیانت کی، آج وہی، ایران کے آزاد و خود مختار اور عوامی نظام پر دہشت گردوں کی حمایت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ہتھیاروں کی پیداوار اور تجارت کا الزام لگاتی ہے۔ امریکی حکومت نے انیس سو پینتالیس سے اب تک چالیس خود مختار حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا جو امریکی حکومت کی تابع و فرمانبردار نہیں تھیں اور اس نے بیس سے زائد مواقع پر فوجی مداخلت کی! بلا شبہ ان مداختلوں کے دوران بڑے پیمانے پر قتل عام ہوئے اور بڑے المئے رونما ہوئے۔ البتہ بعض مواقع پر اسے کامیابی ملی اور بعض مواقع پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ منجملہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے وقت جاپان پر ایٹمی بمباری ہے۔ ویتنام کی خونیں جنگیں، وہ بھیانک لڑائياں، وہ ناقابل فراموش المئے جو آخرکار امریکا کی شکست پر ختم ہوئے۔ چلی کی مثال لے لیجئے، خود ایران کی مثال لے لیجئے کہ اٹھائیس مرداد مطابق انیس اگست کو امریکی نمائندہ ایران آتا ہے اور منصوبہ بندی میں جٹ جاتا ہے، یہ سب خود انہی کی جانب سے بعد میں منظر عام پر لایا گيا اور آج یہ اطلاعات سب کی دسترسی میں ہیں۔ اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی ہوا۔ یہ سب کارستانیاں تھی بڑی اقتصادی کمپنیوں کی، امریکا کے بڑے سرمایہ داروں کی، جاہ طلب جماعتوں کی، با اثر صیہنی عناصر کی اور فکری و اخلاقی لحاظ سے بیمار ان شخصیات کی جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ یہ بڑے سنگین جرائم کا ریکارڈ ہے، یہ بڑا شرمناک ماضی ہے۔ یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے لئے انسانی جانوں کا ضیاع، ذخائر کی نابودی اور انصاف کی خلاف ورزی اور کسی انسانی المئے کا رونما ہو جانا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتیں۔ البتہ تصنع اور ریاکاری کے لئے ان کے پاس وسیع تشہیراتی وسائل اور ذرائع ابلاغ عامہ بھی موجود ہیں جسے بلندتر آواز کہنا مناسبت ہوگا۔ وہ اپنی اس بلند تر آواز کے ذریعے دنیا کی فضا کو ایسی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں رونما ہونے والے المئے کی پردہ پوشی ہو جائے، انہیں امن و جمہوریت اور انسانی حقوق کے حامی کے طور پر پہچانا جائے۔ سینئر بش کے دور صدارت میں سیاہ فاموں پر جو آشکارا مظاہم ہوئے ان کےنتیجے میں امریکا کی بعض ریاستوں میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ پولیس ان پر قابو نہ پا سکی تو فوج کو تعینات کیا گيا۔ اس کے بعد والے صدر کے زمانے میں مسیحی مذہب کی ایک شاخ داؤدیہ یا ڈیوڈین فرقے کے اسی افراد کو، جو حکومت کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ایک عمارت میں جمع تھے اور پولیس کے الٹی میٹم پر بھی باہر نہیں نکل رہے تھے، عورتوں اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے آگ میں زندہ جلا دیا گيا اور ان کی ابرو پر بل تک نہیں پڑے! انسانی حقوق کی پاسداری کا ان کا یہ انداز ہے! جونیئر بش کے دور صدارت میں شمالی افغانستان میں، جب وہ افغانستان پر قبضہ کر رہے تھے، لوگوں پر جو بم برسائے گئے، شہروں میں جو دردناک المئے برپا کئے وہ سب اپنی جگہ، ایک جیل میں قید بہت سے قیدیوں پر گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کر دیا گیا۔ یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی بھی لیکن صحافتی ڈکٹیٹروں نے ان خبروں کو زیادہ دیر تک منظر عام پر رہنے نہیں دیا، فورا اس کے بارے میں گفتگو بند کر دی کہ کہیں لوگوں کہ ذہن نشین نہ ہو جائے۔ امریکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دنیا بھر میں امریکیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات بے شمار ہیں لیکن وہ الٹے دنیا کے عوام، ملت ایران، حکومت ایران اور اسلامی نظام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام عائد کرتے ہیں! انسانی حقوق کا پرچم ان افراد نے بلند کیا ہوا ہے جو در حقیقت سب سے زیادہ انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ ٹاپ یورپ اور انسانی حقوق کی پامالیگزشتہ صدی کے دوران یورپی ممالک نے سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔ اگر کوئی سو سال سے قبل کی تاریخ کا جائزہ لے تو وہاں بھی یہی صورت حال نظر آئے گی۔ ان سو سالوں میں ان یورپی حضرات نے دو خانماں سوز عالمی جنگیں برپا کیں۔ یہ دونوں عالمی جنگیں دسیوں سال قبل ہوئی تھیں، خود موجودہ دور میں بھی کن لوگوں نے عراق میں کیمیاوی اسلحے کا کارخانہ تیار کیا جس سے اتنا بھیانک المیہ رونما ہوا؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کس نے عراق میں ایٹم بم بنانے کے لئے ایٹمی تنصیبات کی تعمیر کی جس سے پورے خطے کے لئے خطرات پیدا ہو گئے تھے؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کون اسرائیل کے جرائم کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے جس کی بنا پر وہ آئے دن نئے نئے جرائم انجام دے رہا ہے؟ یہی مغربی ممالک۔ٹاپ برطانوی انسانی حقوقانگریزوں نے خود کو پوری دنیا میں رواداری اور درگذر کے لئے مشہور کر رکھا ہے۔ ویسے لوگوں نے اس تسامح اور درگذر کا مشاہدہ عراق میں کر لیا ہے! اسلحے کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں گھسنا، پرسکون زندگی کو جہنم بنا دینا، کمسن بچوں کو دہشت زدہ کر دینا، بغداد اور موصل میں اسی طرح دیگر جگہوں پر جن کی خبریں ہمیں موصول نہیں ہوئیں، عوامی مظاہروں پر گولیاں برسانا، یہی جمہوریت، انسان دوستی، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کی پاسداری ہے؟! یہ عبرت کا مقام ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: ایران اور انسانی حقوقاسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:انسانی حقوق، اسلام اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ یقینی بنتے ہیں۔ اسلام ہے جو کہتا ہے: ان الحکم الا للہ امر الا تعبدوا الا ایاہ یہ حکم ہر ظالم حکومت کی نفی کرتا ہے۔ کسی کو عوام پر حکمرانی کا حق نہیں ہے سوائے اس کے جو مسلمہ معیاروں پر پورا اترے اور عوام میں اسے پذیرائی حاصل ہو۔ اسلام انسانی حقوق کا طرفدار ہے، کسی بھی مکتب فکر میں انسان کو وہ وقار، ارزش اور اہمیت نہیں دی گئی ہے جو اسلام نے دی ہے۔ اسلام کے تعارف کے موقع پر ایک اصول ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کی توقیر ایک بنیادی اصول ہے۔ اسلام کے زیر سایہ انسانی حقوق کا دفاع ہوتا ہے اور انسانی حقوق کو معنی و مفہوم حاصل ہوتا ہے۔ اسلام ہے جو اپنے احکام کے ذریعے، خواہ وہ عدالتی احکامات ہوں یا تعزیراتی احکامات، شہری احکامات ہوں، سماجی احکامات ہوں یا سیاسی مسائل و امور، انسانی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ لیکن اس کا دفاع نہیں جسے ان (مغرب کے) لوگوں نے عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کا نام دے دیا ہے۔ مغربی ممالک اسلامی جمہوریہ پر بہتان اور تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا پاس و لحاظ نہیں کرتا۔ ان کا اشارہ اسلامی حدیں جاری کئے جانے کی طرف ہوتا ہے، کیونکہ اسلامی جمہوریہ میں اسلامی حدیں جاری کی جاتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: وتلک حدود اللہ و من یتعد حدود اللہ جو بھی الہی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ تعالی کے غضب و عقاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام انسانی حقوق کا حامی و طرفدار ہے اور اس انتظار میں بیٹھنے والا نہیں کہ مغرب والے آکر اسے انسانی حقوق کی تعلیم دیں یا اسے انسانی حقوق کا پاس و لحاظ کرنے کی نصیحت کریں۔ اسلامی جمہوریہ اسلام کے احکامات و فرامین کے مطابق انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ اسلامی اصولوں میں شامل ہے۔ مغرب والے جو بات کہتے ہیں وہ محض فریب اور دھوکہ ہے۔ تو وہ رہی عورتوں کے حقوق کی ان کی طرفداری اور یہ ہے انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کا حال! دنیا کے استبدادی و سامراجی عناصر اور لٹیرے، قوموں کے حقوق کو در خور اعتنا نہ سمجھنے والے، کمزور قوموں کے مفادات کو کچل دینے والے اور کمزور ممالک پر غاصبانہ قبضہ کر لینے والے آج انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے نام نہاد دفاع کا پرچم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان قومیں ان پر بھروسہ کرنے والی نہیں ہیں۔ اسلام کے نورانی احکام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ موجودہ دور میں، ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر سمت سے انحرافی تشہیرات اور پروپیگنڈوں کا سیلاب جاری ہے، مسلمان عورت اس شجاعت و فکری آزادی کے ساتھ اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ اسلام کی برکتیں ہیں۔ مسلمان عورت کی اسلامی و انقلابی تربیت اسلامی جمہوریہ کا طرہ امتیاز اور قابل فخر کامیابی ہے۔ ٹاپ اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی:جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت:عوامی نظام، جس کے ڈھانچے میں عوام کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو، عوام کی آگاہی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، یعنی اس نظام کے عوام کو مطلع رکھنا ضروری ہے۔ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات اور لازمی فہم و ادراک کا مالک بنانا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے نظام کے لئے اطلاع رسانی کا عمل پانی اور ہوا کی مانند لازمی ہوتا ہے۔ ہمارا نظام ایسا ہی نظام ہے۔ اس میں عوام کو جتنا زیادہ با خبر رکھا جائے گا اسلامی جمہوری نظام کو اتنا ہی زیادہ نفع پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام کی ضرورت ہے کہ عوام کو آگاہ و باخبر رکھا جائے۔ٹاپ ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام:ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے لئے اخبارات و جرائد اشرافیہ کا مشغلہ اور کوئی آرائشی چیز نہیں ہے۔ بنابریں اس میں اضافہ، اس میں تنوع، ان کا معیاری ہونا اس نظام کے بنیادی امور میں شامل ہے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ اور میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔ آزاد میڈیا قوم کی ترقی و بالندگی کی علامت بلکہ در حقیقت ترقی کی بنیاد ہے۔ یعنی جہاں ایک طرف معاشرے کی آزادی و ترقی میڈیا کو وجود میں لاتی ہے وہیں میڈیا بھی قوم کے نشو نما میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ کچھ قدریں اور حقائق ایسے ہیں جو آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی کے نام پر پامال نہیں ہونا چاہئے۔ اب کمال کی بات یہی ہے کہ آزادی کی بھی حفاظت ہو اور حقیقت کا صحیح ادارک بھی عمل میں آئے۔ پرنٹ میڈیا آزاد بھی رہے اور ضرررساں پہلوؤں سے پاک بھی رہے۔ روش ایسی ہونا چاہئے۔ٹاپ سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی:پ یورپ اور امریکہ کے کسی ایک اخبار کا نام بتائیے جو سرمایہ داروں کی ملکیت نہ ہو۔ میرا یہ سوال ہے کہ کون سا اخبار ہے جو متوسط طبقے اور غریب طبقے سےتعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے انسان اس طبقے کی آزادی کا اندازہ کر سکے؟ اخبارات کس کی ملکیت ہیں؟ تمام (اخبارات ) کا تعلق بڑے ٹرسٹوں اور سرمایہ داروں سے ہے۔ یعنی یہ سرمایہ دار جب پوری آزادی سے کام کرتا ہے تو جب جس کی شبیہ کو چاہتا ہے خراب کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ رای عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق سمت اور رخ عطا کر دیتا ہے۔ یہ تو کوئی آزادی نہیں ہوئی۔ٹاپ اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط:میڈیا کا حقیقی سرمایہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے جو اقدار اور لوگوں کے عقائد کے لحاظ، نظام کی عزت و شان کی حفاظت اور بیان میں صداقت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا، جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے، لوگوں کے ذہن کھولنے کا فریضہ ادا کرے، ملک کے مفادات کو ملحوظ رکھے، قلم کا استعمال عوام کے مفاد میں کرے، دین کے مفاد میں قلم کا استعمال کرے تو اس کی تعداد میں جتنا زیادہ اضافہ ہو بہتر ہے۔ٹاپ اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ:اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کا سب سے اہم پہلو اس انقلابی قوم کے اقدار و اہداف کی حمایت و وضاحت اور عوام کی آگاہی کی سطح کو بلند کرنے کے سلسلے میں ثقافتی کردار کا ادا کرنا ہے۔ موجودہ دور میں، خاص طور پر مارکسزم کی شکست کے بعد مغربی سامراج انقلابی قوموں پر اپنا سیاسی و الحادی تسلط قائم کرنے کے لئے ثقافتی حربوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مغرب کی اس ثقافتی یلغار کا مختلف پہلوؤں سے مناسب جواب اور سد باب میڈیا کا اولیں مشن ہونا چاہئے۔ٹاپ اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:میں میڈیا سے جو بار بار سفارش کرتا ہوں کہ ملک کے معاملات کے سلسلے میں ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں دشمن کا حربہ نہیں بننا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے عمل سے دشمن کا کام آسان ہو جائے اور وہ حسب منشاء ہمارے معاشرے کی فکری و ثقافتی فضا میں جو چاہے تبدیلی کر دے اور آپ ملک کے اندر اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسے عوام کے حلق سے نیچے اتارنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اگر یہ عمل عمدا اور واقفیت کے ساتھ انجام پائے تو بہت بڑی خیانت ہے اور اگر غفلت میں ہو جائے تو بہت بڑی غلطی ہے۔ بہت زیادہ ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر پرنٹ میڈیا کی نگرانی بہت اہم اور ضروری فریضہ ہے۔ یہ آئین، پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین اور عام قوانین کا تقاضہ بھی ہے۔ نظارت کے بغیر پرنٹ میڈیا سے قومی مفادات اور تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رای عامہ ایک آزاد میدان ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے اس کے ساتھ جو دل میں آئے برتاؤ کیا جا سکتا ہے۔ رای عامہ تجربہ گاہ کا چوہا تو نہیں ہے کو جو جیسا چاہئے اس پر تجربہ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی سے لوگوں کے جذبات، عقائد اور مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ بنابریں نظارت لازمی ہے تاکہ یہ حرکتیں نہ ہوں۔ یہ (نظارت) ایک فریضہ ہے۔ ٹاپ انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:آج کل سیاسی اور ثقافتی امور میں سامراجی طاقتیں یہ حربہ اپناتی ہیں کہ دوسروں کو مغرب کے طرز فکر کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا کر دیں۔ عورتوں کا مسئلہ ہو، انسانی حقوق کا معاملہ ہو، جمہوریت کی بات ہو یا حریت پسند تحریکوں کا موضوع، اپنے فریق کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لئے مغربی حکومتیں بھاری ہنگامہ آرائی کرتی ہیں۔ اس طرح بات کرتی ہیں کہ ان کی مرضی معلوم کی جائے، یہی پسپائی ہے۔ جو لوگ در حقیقت انسانی حقوق کو ہرگز کوئی وقعت نہیں دیتے انہوں نے اسے دوسروں کو ہانکنے والا ڈنڈا بنا لیا ہے! امریکا دنیا میں انسانی حقوق کا ٹھیکیدار بن بیٹھا ہے۔ جنگ کے آغاز سے قبل تک امریکا کی نظر میں عراقی حکومت دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی ہمنوا و مددگار تھی، انیس سو اکاسی- بیاسی میں ایرانی جیالے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لے گئے اور انہوں نے اسے اپنی سرحدوں سے باہر نکال دیا۔ عراقی دشمن ایرانی بہادروں کا مقابلہ کرنے کے لئے کیمیاوی اور عام تباہی کے اسلحے استعمال کرنے یعنی جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے پر تیار ہو گیا، اسی موقع پر امریکی حکومت کو یہ احساس ہوا کہ عراقیوں کی مدد کرنا چاہئے تاکہ عراق کی بعثی حکومت اسلامی جمہوری نظام کے خلاف اپنا خیانت آمیز کردار کامیابی سے ادا کر سکے۔ انہی برسوں میں عراقی حکومت نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ اور ان لوگوں (امریکیوں) نے عراق کا نام دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی فہرست سے نکال دیا! انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کی حقیقت یہ ہے! دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں اس عمل کی سب سے زیادہ حمایت یہی امریکا جیسی سامراجی حکومتیں ہی کر رہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہی انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بھی بنی بیٹھی ہیں اور اسے ان حکومتوں اور قوموں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں جو ان سے بھڑ جاتی ہیں۔ ان حالات میں اگر کچھ لوگ آکر (ٹکرا جانے والی حکومتوں اور قوموں کو) منانے کی کوشش کریں تو یہ بالکل غلط پالیسی ہے کیونکہ اس کا مطلب دشمن کے مقابلے میں پسپائی ہے۔ حقوق نسواں کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ بر حق حکومت کی تشکیل کے بعد اسلامی ملک ایران میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے عورتیں بڑی حد تک اپنا تشخص بحال کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں کردار ادا کرنے اور مسلمان عورت کے جذبات کی عظمت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور مغرب والے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام میں عورتوں کے حقوق کی پامالی و خلاف ورزی کی ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ اپنا نقطہ نگاہ اسلامی جمہوریہ کے نقطہ نگاہ کے قریب اور اس سے ہم آہنگ کرے۔ مغرب والوں کو چاہئے کہ حقوق نسواں، انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کے بارے میں اپنے غلط نقطہ نگاہ کی اصلاح کریں اور اسے اسلامی نظریات کی کسوٹی پر پرکھیں۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دشمن کے ڈھیٹ پنے، توسیع پسندی اور تسلط پسندی کے سامنے ایک قدم بھی پسپائی اختیار کرنے والی نہیں ہے۔ یہ بڑی اچھی روش ہے۔ ٹاپ ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:اگر انسانی حقوق کے سلسلے میں تشویش ہے، جیسا کہ ہم بھی یورپی ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں تو فریقین اپنے اپنے نمائندے بھیجیں اور نگرانی کریں، دیکھیں۔ وہ لوگ یہاں آئیں اور ہم اپنے نمائندے ان کے ہاں بھیجیں جو یہ دیکھیں کہ جیلوں اور حکومتی و سماجی و شہری اداروں اور محکموں میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہے اور انسانی حقوق کا کتنا پاس و لحاظ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک منطقی و معقول تجویز ہے۔ ان اقدامات سے اسلامی جمہوریہ ایران اور مغرب کا باہمی رابطہ بھی فروغ کی منزلیں طے کرےگا۔ تشویش ناک باتوں کا جائزہ دونوں فریقوں کی جانب سے لیا جانا چاہئے۔ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات کے دوران اپنی انتہائی اہم گفتگو میں اسلامی نظام کے مثبت اور امید افزا پہلوؤں اور اس نظام کی مستحکم پوزیشن کی نشاندہی کرتے ہوئے موجودہ حالات میں دشمن کے پیچیدہ اور تہہ در تہہ منصوبوں کی جانب اشارہ کیا۔
یوم قدس، باطل کے مقابلے میں حق کی محاذ آرائی کا دن ہے، قائد انقلاب ایران کی سربلند و با ایمان قوم نے ایک مہینے کی روزے اور عبادات کے شکرانے کے طور پر ملک بھر میں انتہائی با شکوہ انداز میں نماز عید فطر قائم کی۔ اس عظیم روحانی اجتماع کا نقطہ کمال تہران یونیورسٹی اور اطراف کی سڑکوں پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز عید فطر ادا کرنے والے تہرانی عوام کے شاندار اجتماع کی شکل میں نظر آیا۔
ایران کی سربلند و با ایمان قوم نے ایک مہینے کی روزے اور عبادات کے شکرانے کے طور پر ملک بھر میں انتہائی با شکوہ انداز میں نماز عید فطر قائم کی۔ اس عظیم روحانی اجتماع کا نقطہ کمال تہران یونیورسٹی اور اطراف کی سڑکوں پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز عید فطر ادا کرنے والے تہرانی عوام کے شاندار اجتماع کی شکل میں نظر آیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید الفطر کے دن اسلامی نظام کے عہدہ داروں، اسلامی ممالک کے سفیروں اور عوامی طبقات سے ملاقات میں اسلامی عیدوں بالخصوص عید فطر کو صلاحیتوں، توانائيوں اور موجودہ حالت اور مستقبل پر نظر ڈالنے اور نقائص و عیوب کی شناخت کا اہم موقع قرار دیا ۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس شہریور تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق 20 ستمبر دو ہزار نو کو تہران کی مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ سانحے میں ماہرین کی کونسل میں صوبہ کردستان کے نمائندے ماموستا شیخ الاسلام کی شہادت پر تعزیت و مبارکباد پیش کی۔
اسلام میں دولت کا حصولقومی ثروت کے اضافے کی شرائطاسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاددولت و ثروت کے حصول کی اہمیتپیداوارانصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںثروت کی تقسیمدولت کی تقسیم کا معیاراسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیمانٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفاسلامی معیشت میں دولت کا حصولاسلام میں دولت کا حصولقانونی اور جائز طریقے سے دولت مند بننے میں اسلام کی نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ حکومتی عہدہ داروں کو چاہئے کہ عوام کو اقتصادی سرگرمیوں اور فعالیت میں شراکت کی راہوں سے آشنا و آگاہ کریں۔ اس طرح کی پالیسیاں معاشرے کے لئے عمومی دولت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسلام نے دولت کمانے سے ہرگز نہیں روکا ہے۔ البتہ دولت پیدا کرنے اور دوسروں کا سرمایہ لوٹنے میں بڑا فرق ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی عمومی سرمائے پر دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی شخص غیر قانونی طریقوں سے، قانون کی پابندی کو ترک کرکے مادی وسائل حاصل کرتا ہے، یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ لیکن اگر قانونی طریقے سے دولت حاصل کی جائے تو شریعت مقدسہ اور اسلام کی نظر سے یہ فعل پسندیدہ و مستحسن ہے۔ دولت حاصل کی جانی چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ دولت حاصل کیجئے لیکن اسراف نہ کیجئے۔ فضول خرچی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے جو دولت حاصل کی ہے اس کو بنیاد اور ذریعہ بناکر مزید دولت حاصل کیجئے۔ پیسے کو جمود اور بانجھپن کا شکار نہ بنائیے۔ اسلام میں اس کو کنز تیار کرنے کا نام دیا گيا ہے۔ اسی طرح فضول خرچی اور پیسے کے خرچ میں بے احتیاطی سے پرہیز کیجئے، پیسہ غیر ضروری چیزوں پر خرچ نہ کیجئے۔ ان چیزوں کا بھی خیال کیجئے اور ساتھ ہی دولت بڑھانے کی بھی فکر میں رہئے۔ عوام کی دولت در حقیقت ملک کا عمومی سرمایہ ہے، اس سے سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ٹاپ قومی ثروت کے اضافے کی شرائطقومی ثروت کے لحاظ سے ملک کو بے نیاز اور خود کفیل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری، اقتصادی سرگرمیاں اور دولت کی پیداوار ملک کے تمام فعال افراد کے اختیار میں قرار پائيں۔ یعنی ہر ایک کو اس میدان میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کی حمایت کرے اور قانون بھی اس میں ممد و معاون ثابت ہو۔ ٹاپ اسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاداسلامی اقتصادیات میں دو اہم بنیادیں نظر آتی ہیں۔ ہر اقتصادی روش اور ہر اقتصادی نسخہ جس میں ان دونوں بنیادوں کا خیال رکھا گیا ہو، معتبر ہے جبکہ ہر وہ روش اور پروجیکٹ جو بظاہر دینی اساس پر استوار ہو لیکن ان دونوں بنیادوں سے عاری وہ اسلامی نہیں ہے۔ ان دونوں میں سے ایک بنیاد ہے: قومی ثروت میں اضافہ۔ اسلامی ملک کو دولت مند اور ثرورت مند ملک ہونا چاہئے۔ فقیر ملک نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں یہ صلاحیت ہو کہ اپنی ثروت سے اور اپنی اقتصادی توانائی سے عالمی سطح پر اپنے اعلی اہداف کو عملی جامہ پہنا سکے۔ دوسری بنیاد، ثروت کی منصفانہ تقسیم اور معاشرے سے محرومیت کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں بنیادیں لازمی ہیں۔ پہلی بنیاد دوسری بنیاد کی شرط ہے۔ اگر ثروت کی پیداوار نہ ہو، اگر دولت حاصل نہ کی جائے تو غربت کو معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بنابریں یہ دونوں چیزیں لازمی ہیں۔ٹاپ دولت و ثروت کے حصول کی اہمیتدو چیزوں کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ ایک چیز ثروت پیدا کرنا ہے، کوئی درست طریقے سے محنت کرکے ثروت پیدا کر رہا ہے۔ دوسری چیز ہے دولت کمانے کی روش اور خرچ کرنے کا انداز۔ پہلی چیز تو پسندیدہ ہے۔ کیونکہ معاشرے میں جو ثروت بھی آ رہی ہے وہ معاشرے کے مجموعی طور پر دولت مند بننے میں مددگار ہوگی۔ دوسری چیز جو بہت زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ کس طرح دولت پیدا کی جائے۔ یہ غیر قانونی طریقوں سے اور فریب اور بد عنوانی کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا استعمال بھی شرعی لحاظ سے ناجائز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ثروت معاشرے کی رگوں میں خون بن کے دوڑے اور غلط کاموں کے لئے استعمال نہ ہو۔ ٹاپ پیداواروسیع پیمانے پر پیداوار، قوم کا اہم نعرہ ہونا چاہئے۔ روزگار کی پیداوار، علم کی پیداوار، ٹکنالوجی کی پیداوار، دولت کی پیداوار، معرفت کی پیداوار، مواقع کی پیداوار، عزت و منزلت کی پیداوار، مصنوعات کی پیداوار اور ماہر افرادی قوت کی پیداوار۔ یہ سب پیداوار ہے۔ اسلامی نظام سرمایہ کاری کے نظرئے، اس کی اہمیت اور داخلی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کی ثروت و دولت کی پیداوار کو مثبت نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی تائید و حمایت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل ملک کی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع ایجاد کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حکومت کو ایسی پالسیاں وضع کرنا چاہئے کہ پیداواری شعبوں اور یونٹوں میں ثروت و دولت کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف بھی قائم ہو۔ اگر معاشرے میں اقتصادی ترقی نہ ہو، اگر روزگار کے مواقع ایجاد نہ کئے جائیں تو یہی کمزور اور مستضعف طبقہ بالخصوص مزدوروں کا طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوگا۔ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس وقت حکام کی بہت اہم ذمہ داریاں ہیں، ایک طرف وہ لوگوں کو صحیح طریقے اور قانونی راستے سے اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم کریں کیونکہ اسلام میں ثروت و دولت پیدا کرنا ناپسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ غلط طریقے اپنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ دھوکے، فریب اور عمومی دولت کے غلط استعمال کا سد باب کیا جائے کیونکہ یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ ٹاپ انصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںدنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں نہ غربت کا خاتمہ ہو سکا ہے، نہ انصاف قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اخلاقیات کی ترویج ہو پائی ہے۔ دولت کی پیداوار تو بے پناہ ہے لیکن اخلاقیات تنزل اور انحطاط کا شکار ہیں۔ دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں کام اور اقتصادی سرگرمیوں کا نصب العین دولت کمانا ہے۔ اس نظام میں بنیاد، اقتصادی نشو نما، اقتصادی ترقی اور دولت و ثروت کا اضافہ ہے۔ جو دولت کمانے میں آگے ہے وہی سب سے اہم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ وہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ طبقاتی فاصلہ بڑھے۔ آمدنی کے فاصلے اور بڑی تعداد میں عوام کا نادار ہونا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے تشویش کی بات نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ روش اور طریقے منفی اور ناقابل قبول ہیں جو ثروت کی تقسیم کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا ہے یہ تو بالکل بے معنی چیز ہے کہ آپ دولت جمع کیجئے تاکہ اسے آپ سے لیکر منصفانہ طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ بے معنی چیز ہے۔ اس طرح تو ترقی کا راستہ رک جائے گا۔ٹاپ ثروت کی تقسیمجو لوگ کہتے ہیں کہ انصاف، غربت و افلاس بانٹنے کا نام ہے، ان کی بات کا لب لباب یہ ہے کہ انصاف کے چکر میں نہ پڑئے، پیداوار کی فکر کیجئے تاکہ تقسیم کے لئے ثروت تو حاصل ہو۔ انصاف کو نظر انداز کرکے ثروت کے حصول کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آج سرمایہ دارانہ ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے دولت مند ترین ملک یعنی امریکا میں بھی ایسے افراد ہیں جو بھوک اور گرمی و سردی سے فوت ہو جاتے ہیں، یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں، وہ حقائق ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نظام کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ ملک کے اندر سارے لوگ نعمتوں سے بہرہ مند ہوں، ملک میں محرومی نہ ہو، غربت نہ ہو، تفریق نہ ہو، وسائل و مواقع کا غیر مساویانہ استعمال نہ ہو، قانون کا امتیازی استعمال نہ کیا جائے۔ ٹاپ دولت کی تقسیم کا معیارجب انصاف کو نظر انداز کرکے دولت حاصل کی جاتی ہے تو نوبت یہ ہو جاتی ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ شاطر اور اور تیز قسم کے ہیں، راتوں رات دولت کا انبار لگا لیتے ہیں جبکہ اکثریت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ حسرت و محرومی میں زندگی بسر کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ تو بڑی ہی قابل رحم حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ بنابریں یہ کہنا کہ انصاف کی بات نہ کیجئے دولت و ثروت حاصل کرنے کی فکر کیجئے اور اس کے لئے یہ جواز بھی پیش کر دینا کہ جب دولت آ جائے گی تب انصاف کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے گا، درست نہیں ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جو وسائل ہیں وہ منصفانہ انداز میں اور معقول حد تک تقسیم ہوں۔ یہ بھی نہ ہو کہ بے حساب کتاب سب کچھ تقسیم کر دیا جائے۔ کوشش یہ ہونا چاہئے کہ وسائل میں مزید اضافہ ہو تاکہ سارے لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔ ٹاپ اسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیماسلامی نظام کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ ثروت مند ہونا چاہئے، پسماندہ او مفلس نہیں۔ اسلامی نظام اقتصادی ترقی پر یقین رکھتا ہے لیکن رفاہ عامہ اور سماجی انصاف کے لئے اقتصادی ترقی سب سے اہم مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں افلاس و غربت نہ رہے۔ کوئی فقیر نہ ہو اور عمومی وسائل کے استعمال میں امتیاز و تفریق نہ ہو۔ جو بھی اپنے لئے کچھ وسائل تیار کر لے وہ اس کی ملکیت ہو لیکن جو چیزیں عمومی ہیں مثلا مواقع اور وہ وسائل جن کا تعلق پورے ملک سے ہے اس میں کوئی تفریق اور امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اسلامی نظام کا مقصد دولت کا انبار لگانا ہے۔ یعنی کچھ ہی لوگوں کو دولت پیدا کرنے کے مختلف وسائل و مواقع دستیاب ہوں۔ ملک کی اوسط شرح ترقی دو برابر ہو جائے یا مجموعی پیداوار دو گنا ہو جائے۔ البتہ یہ اعداد و شمار بعض حالات میں انصاف کی سمت پیش قدمی کی بھی علامت ہو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ٹاپ انٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفجو لوگ علمی و تحقیقاتی یا پلاننگ کے مراکز میں ہیں اور معیشت، سیاست، عالمی سیاست اور دیگر ملکوں کے حیاتی امور پر نظر رکھتے ہیں وہ اس فکر میں نہ پڑیں کہ مغربی فارمولوں کو، مغرب کے اقتصادی اصولوں کو، عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے فارمولوں کو دیگر ملکوں کے امور میں نافذ کریں۔ یہ نظریہ ایران جیسے ملک کے لئے مفید نہیں ہے۔ البتہ ان کے علم و دانش سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی سائنسی ترقی ہو اور سائنسی تجربہ ہو اس سے یقینا استفادہ کیا جائے گا لیکن خاکہ اور منصوبہ قومی نظرئے اور ضروریات کے مطابق ہی طے پانا چاہئے۔ ملیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد جو واقعی بڑے محنتی، نکتہ سنج، سنجیدہ اور ذمہ دار شخصیت کے مالک ہیں، تہران آئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مشرقی ایشیا میں گوناگوں تبدیلیاں ہوئی تھی۔ ملیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں اقتصادی زلزلہ آ گیا تھا۔ یہی صیہونی سرمایہ دار اور دوسرے سرمایہ داروں نے بینکنگ کے شعبدوں اور مالیاتی حربوں کے ذریعے کئی ملکوں کو دیوالیہ کر دیا تھا۔ اس وقت جناب مہاتیر محمد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہماری حالت فقیروں والی ہو گئی ہے۔ جب بھی کوئی ملک اقتصادی طور پر منحصر ہو جاتا ہے دوسروں پر اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اقتصادی فاومولوں پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے تو اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ خود یہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی اسی شعبدے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے کہ دنیا کی تبدیلیوں کی باگڈور ایسے عالمی مافیاؤں کے پاس ہو جو اس وقت دنیا پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ ٹاپ
مقدس دفاع کے موضوع پر کام کرنے والے ملک کے فنکاروں، ہدایت کاروں، مصنفین، شعراء اور دیگر شخصیات نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مقدس دفاع کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں اور سیریلوں کو فن و ہنر کے شعبے کی اہم تخلیقات سے تعبیر کیا اور فرمایا: آٹھ سالہ مقدس دفاع کی اعلی انسانی صفات کی فنکارانہ تصویر کشی قابل قدر کوشش ہے جس میں یقینی طور پر اس عظیم واقعے کے اثرات نمایاں ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ مبارک رمضان کے تیسرے جمعے کی نماز میں روزہ داروں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سیاسی طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی سیاسی زندگی کو امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت سے ہم آہنگ قرار دیا اور فرمایا: یوم قدس امام (خمینی رہ) کی سب سے اہم یادگاروں میں سے ایک ہے، لہذا پوری طرح بیدار ملت ایران فضل خدا سے آئندہ جمعے کو دنیا کی ظلم مخالف قوموں میں پیش پیش رہتے ہوئے ملت فلسطین کی حمایت کا پرچم بلند کرے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس رمضان المبارک سن چودہ سو تیس ہجری قمری برابر بیس شہریور سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق گیارہ ستمبر سن دو ہزار نو عیسوی کو تہران یونیورسٹی میں مرکزی نماز جمعہ پڑھائی۔
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلامی معیشت میں انفاق
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
اسلام میں نجی مالکیت
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلامی معاشرے میں اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزادی ہے لیکن یہ مطلق آزادی نہیں بلکہ اس کی کچھ حدود ہیں۔ ہر طرح کی آزادانہ فعالیت اور حرکت کی کچھ نہ کچھ حدود اور ضوابط ہوتے ہیں۔ اسلام میں یہ حدود خاص طرح کی ہیں۔ سوشیلسٹ معاشروں میں بھی دولت و ثروت رکھنے کی کچھ حدود و قیود ہیں لیکن وہ حدود اسلامی حدود سے مختلف ہیں اور اسی مقدار میں اقتصادی سرگرمیوں کی آزادی کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ کمیونسٹ اور مارکسسٹ نظرئے سے مختلف ہے۔ شاید یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اسلامی نقطہ نگاہ بھی سرمایہ دارانہ مکتب فکر سے بھی اتنا ہی مختلف ہے جو مغرب میں اس وقت رائج ہے اور جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ آج جو صورت حال مغرب میں ہے اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ سرمایہ داری جس مفہوم میں مغرب میں رائج ہے اسلام اس کی قطعی تائید نہیں کرتا بلکہ متعدد احکام ایسے ہیں جو اس کے مقابلے اور سد باب کا عندیہ دیتے ہیں۔ اسلامی اقتصاد کے تعلق سے جو باتیں بتائی گئی ہیں ان کا نمونہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے میں آزاد اقتصادی فعالیت کی حدود وہ چیزیں ہیں جنہیں فقہ کی کتابوں میں حرام کمائی اور حرام مال قرار دیا گيا ہے، یعنی سود کا لین دین، لاعلمی و فریب کا سودا، وہ سودا جس میں کسی کو دھوکا دیا جا رہا ہو یا نقصان پہنچایا جا رہا ہو۔ وہ تجارت جو حرام آمدنی سے کی جائے، ذخیرہ اندوزی جس سے کچھ لوگ بڑے مالدار بن جاتے ہیں، اس کے ذریعے سودا حرام ہے۔ اسی طرح دیگر چیزیں جو اسلام کی مقدس شریعت میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے میں آزاد اقصادی سرگرمیوں کی حدود ہیں۔
بعض چیزوں کا سودا حرام ہوتا ہے، مثلا شراب یا دیگر حرام اور نجس چیزیں، کچھ استثنائی مواقع کو چھوڑ کر ان کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ یا اسی طرح وہ مال جو کسی شخص کا نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا ہے جیسے انفال کچھ مخصوص مواقع کے علاوہ اس کا سودا عام لوگوں کے لئے یا غیر حکومتی سطح پر ناجائز ہے۔ اسلامی فقہ میں اسی طرح کی کچھ اور چیزیں بھی ہیں جنہیں معین کیا گيا ہے اور بتایا گيا ہے کہ یہ آزادانہ تجارتی سرگرمیاں کس حد تک جائز ہیں اور کہاں ناجائز اور حرام و ممنوع ہیں۔
اسلامی معاشرے میں اقتصادی آزادی یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایسی پالیسی اختیار کرے اور ایسے قانون وضع کرے جس کی بنا پر معاشرے کے تمام افراد آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے پر قادر ہوں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اقتصادی سرگرمیاں کرنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسلام کے اقتصادی نظام اور مغربی نظام کا ایک بڑا فرق ہے۔ معاشرے میں حقیقی معنی میں آزاد معیشت وجود میں لانے کا طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے انحصار اور اجارہ داری کو توڑا جائے۔ ایسی سہولتیں فراہم کی جائيں کہ معاشرے کے اکثر و بیشتر افراد، معاشرے کے بیشتر طبقات یا سارے کے سارے لوگ جو کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، زمین، سمندر، میدانوں اور چراگاہوں کے وسائل و امکانات سے استفادہ کر سکیں۔
امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں: ما رئیت نعمۃ موفورۃ الا و فی جانبھا حق مضیع یعنی میں نے کہیں بھی نعمتوں کی کوئی ایسی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جس میں کسی کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔ اس حدیث کا ایک بڑا لطیف مفہوم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے وہ کچھ لوگوں کا حق غصب کئے جانے اور چوری کا نتیجہ ہے اور اس غاصب کا نشانہ بننے والے کچھ کمزور اور مظلوم افراد بھی ہیں۔ پھر اس حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں کے پاس دولت ہے جنہوں نے چوری کی نہ کسی کا مال غصب کیا ہے بلکہ اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے، دولت زیادہ ہے، وسائل کی بہتات ہے، وہاں در حقیقت یہ دولت اور ثروت اپنے مالک کو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے بہت زیادہ وسائل فراہم کر دیتی ہے اور ان وسائل کو دوسروں کی دسترسی سے نکال دیتی ہے۔ معاشرے میں جس کے پاس دولت زیادہ ہے وہ زیادہ دولت کما سکتا ہے اور ان چیزوں سے زیادہ بہتر استفادہ کر سکتا ہے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے، جبکہ یہ غریب کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہذا جس کے پاس زیادہ دولت ہے اس کے پاس زیادہ مواقع ہیں، زیادہ وسائل ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کا میدان اس کے پاس ہے۔ اکثر ممالک میں ایسے ہی افراد اور طبقے کی منشاء کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے۔ اس طرح عوام کی اکثریت جس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے، مواقع سے محروم رہتی ہے۔
بنابریں اس حدیث کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں آزاد معیشت کا راستہ یہ نہیں ہے کہ یہ آزادی صرف ان لوگوں کے قبضے میں رہے جو اقتصادی و مالی توانائی رکھتے ہیں، بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ جن افراد کے پاس مالی و اقتصادی طاقت ہے وہ اس انداز سے کام کریں کہ معاشرے اور نظام کی حالت اور معاشرے کے اندر پائے جانے والے تعلقات و روابط ایسی شکل اختیار کریں کہ جن کے پاس بھی کام کرنے کی طاقت ہے وہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں کریں اور اپنے کام سے مستفید ہوں۔
ٹاپ
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلام میں نجی مالکیت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس کی حد بھی معین کر دی گئی ہے۔ حد کا مطلب یہ نہیں کہ کتنا ریال، کتنا ڈالر، کتنا دینار یا کتنا درہم معین کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ مقدار تو ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ ملکیت کے لئے ضرر و ضرار کی حد رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی کی ذاتی دولت اور سرمائے سے امت مسلمہ یا مسلمانوں کی ایک تعداد کو نقصان پہنچنے لگے تو اس ملکیت کو ضرررساں بننے سے قبل کی حد پر روک دیا جائے گا۔ اسلام میں ذاتی اور نجی ملکیت کا احترام ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ ذخیرہ اندوزی، استحصال، تفریق، انسانوں کی بے حرمتی اور سرکشی پر منتج نہ ہو جائے۔ بری بات استحصال، سرکشی، اسراف اور زیادہ روی ہے۔ ان چیزوں کے باعث ذاتی ملکیت بری ہو جاتی ہے۔ دولت بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ تو نجی ملکیت کی یہ حدیں ہیں۔ اسلام نے ان برائیوں کی روک تھام پر توجہ دی ہے، اسراف کو مسترد اور اسراف کرنے والے کو قابل مذمت قرار دیا ہے اور اسلامی حاکم اور حاکم شرع کو اسراف، استحصال، تفریق، سرکشی اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کی اجازت دی ہے۔ بنابریں اسلامی حاکم اور اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ اختیار ہے کہ اپنے حکم سے اس زیادہ روی کو روکے۔
اسلامی نظام نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے، لوگوں کی اقتصادی کوششوں اور سرگرمیوں کو بھی مانتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ضرورتمندوں اور محتاج لوگوں کے رفاہ و آسائش کے لئے بھی معاشرے کو ایک اک قدم آگے لے جاتا ہے۔ آزاد اسلامی معیشت میں اقتصادی آزادی کے تقاضے کے مطابق معاشرے کے اقتصادی امور کی ذمہ داری اور اقتصادی امور کا سنگین بار عوام کے دوش پر ہوتا ہے۔
ٹاپ
اسلامی معیشت میں انفاق
اسلامی نظام میں لوگوں کو آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا حق ہوتا ہے، سب حکومت کے ملازم نہیں ہیں، لوگ خود کام کر سکتے ہیں، اپنے طور پر سعی و کوشش کر سکتے ہیں، خود اپنی آمدنی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ معاشرے کا مالی و اقتصادی خلا بھی خود عوام کے ذریعے بھرا جانا چاہئے۔ یعنی انفاق کیا جائے۔ قرآن میں جو انفاق کا ذکر موجود ہے وہ معاشرے کی آزادانہ اقتصادی سرگرمیوں کی ہی بنا پر ہے۔ جب لوگ خود پیسہ کما رہے ہیں تو انہیں معاشرے کی ضرورتیں بھی پوری کرنا چاہئے۔ خلا کو پر کرنا چاہئے۔ انفاق کا مطلب اسی خلا کو پر کرنا ہے۔
انفاق ایک اسلامی اصول ہے۔ انفاق کرنا، پیسہ دینا، اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور اقتصادی خلا کو بھرنا براہ راست عوام اور لوگوں کی ذمہ داری ہے جو معاشرے میں آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جس کے باعث حکومت کو پیسے کی ضرورت پڑ جائے تو اس پیسے کا انتظام عوام کو کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کو کوئی جنگ پیش آ جائے، کوئی تخریبی واقعہ ہو جائے، کوئی بیماری پھیل جائے، کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو جائے تو اس سلسلے میں اسلام کا کہنا یہ ہے کہ عوام حتی الوسع مدد کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ چونکہ سارے لوگوں کی استطاعت یکساں نہیں ہے اس لئے جو زیادہ خوشحال ہیں، جن کے پاس زیادہ وسائل و امکانات ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔
دولت اندوزی، عدم انفاق اسلام کی نظر میں غیر اخلاقی فعل اور گناہ ہے، اسے گناہ کبیرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنے سرمائے کے ذریعے کام کرنے کا اختیار دیا گيا ہے تو انہیں حق ہے کہ وہ جائز طریقوں سے دولت کمائے اور جمع کرکے رکھ لیں خواہ معاشرے کو ان کے سرمائے اور ان کے وسائل کی شدید احتیاج ہو، وہ اللہ کی راہ میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پیسہ خرچ نہ کریں۔ اسلام میں انفاق یعنی ضرورتمندوں پر پیسہ خرچ کرنا ایک اصول اور حکم ہے۔ اللہ کی راہ میں پیسہ خرچ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہا گيا ہے کہ سودا نہ کیجئے، پیسہ نہ کمائیے۔ کمائیے لیکن خرچ بھی کیجئے۔ اسلام لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انہوں نے جو حاصل کیا ہے اس میں سے اپنی ضرورت اور احتیاج کے مطابق خرچ کریں۔ ایسا بھی نہیں کہ عسرت و تنگدستی میں زندگی بسر کریں، ایک عام سطح کی زندگی ایک حد تک آسائش و رفاہ کے ساتھ، اتنا اپنے اوپر خرچ کریں، اس کے بعد جو بچے اسے معاشرے میں رفاہ عامہ کے لئے صرف کریں۔ اگر کسی نے دولت حاصل کی اور اسے اسراف کے ساتھ، فضول خرچی کے ساتھ، ٹھاٹ باٹ، گراں قیمت غذا، گراں قیمت کپڑوں، گراں قیمت سواری، گراں قیمت رہائش پر خرچ کر دیا یا سارا پیسہ جمع کرکے بیٹھ گيا تو یہ اسلام کی نظر میں مذموم ہے۔ عدم انفاق مذموم اور منفور ہے اور اگر اس کے ساتھ ذخیرہ اندوزی بھی ہو تو حرام ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ واللہ لا یحب کل مختال فخور الذین یبخلون و یامرون الناس بالبخل جو لوگ بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کا راستہ دکھاتے ہیں، دوسروں کو بھی انفاق فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ اس بخل کا مطلب یہی نہیں ہے کہ وہ شرعی حقوق ادا نہیں کرتے بلکہ شرعی حقوق کے آگے کی بھی چیزیں روک لیتے ہیں۔ اگر معاشرے کو ضرورت ہے اور کسی انسان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو اسے شریعت کی جانب سے معین کردہ مقدار سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔
کچھ لوگ ہیں جنہوں نے عمومی وسائل کے ذریعے دولت جمع کر لی ہے۔ دولت صحیح اور جائز راستے سے جمع کی گئی ہے لیکن اگر معاشرے کو اس کی ضرورت ہے اور وہ اسے دبائے بیٹھے ہیں تو یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اسلام سے یہ درس نہیں ملا ہے بلکہ اسلام اس کے برعکس عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ معروف آیۃ کریمہ ہے: الذین یکنزون الذھب والفضۃ و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم جو لوگ سیم و زر کا خزانہ جمع کر لیتے ہیں، ذخیرہ تیار کر لیتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے- یہ صرف سونے اور چاندی سے مختص نہیں بلکہ پیسہ، سرمایہ اور دولت کا بھی یہی حکم ہے- جمع کرکے رکھتے ہیں جبکہ معاشرے کو اس کی شدید احتیاج ہوتی ہے لیکن وہ راہ خدا میں اسے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ان پر بھی یکنزون الذھب و الفضۃ کا ہی اطلاق ہوگا۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: فبشرھم بعذاب الیم اگر یہ (ذخیرہ اندوزی) گناہ نہیں، اگر یہ گناہ کبیرہ نہیں تو فبشرھم بعذاب الیم کیوں کہا گیا؟ انہیں دردناک عذاب کی نوید سنا دیجئے۔ یعنی ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کے دردناک عذاب ک لئے تیار رہیں، یہ دردناک عذاب دنیا میں ان کے ان اعمال کے فطری نتیجے اور عواقب کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، جس کے اثرات خود انہی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے عواقب آخرت میں سامنے آئیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں جگہ سامنے آئیں۔ یعنی اس کام پر دردناک عذاب دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا۔ بنابریں انفاق واجب و ضروری فعل ہے۔
ٹاپ
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
نجی سیکٹر کو کام اور پیداوار کے میدان میں اترنے کے لئے ترغیب دلائی جانی چاہئے۔ ملک کی بیشتر پیداواری یونٹیں حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ البتہ ایک معینہ مقدار خود آئین نے مختص کی ہے جو اس موجودہ مقدار سے بہت کم ہے۔ حکومتی سیکٹر میں اس بھیڑ کی وجہ بعض پالیسیوں کی خرابی ہے۔ اس مقدار کے علاوہ جسے آئین نے معین کیا ہے اور جس کا حکومت کے ہی اختیار میں ہونا لازمی قرار دیا گيا ہے، بقیہ شعبوں میں نجی سیکٹر کو روزگار اور پیداوار کی ذمہ داری سنبھالنا چاہئے۔ البتہ یہ چیز واضح رہے کہ نجکاری صرف یہ نہیں ہے کہ حکومتی کمپنیوں کو کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طرح، ملک کا مفاد مد نظر رکھے بغیر غیر سرکاری سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ سرمایہ کار کو ترغیب دلانا چاہئے کہ میدان میں اترے۔ ذخائر اور وسائل کی اس طرح نشاندہی کی جانی چاہئے کہ نجی سیکٹر کو ترغیب ملے۔ یہ کام درست انداز میں اور معیاری سطح پر ہونا چاہئے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ یونٹیں پیداواری صلاحیت و توانائی رکھتی ہیں یا نہیں۔ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر ان میں یہ صلاحیت و توانائی ہے تب تو انہیں اس کا موقع دیا جانا چاہئے۔ بنابریں صلاحیت کے مطابق انتخاب کیا جائے، رشتہ داری، ناتے داری اور سیاسی دوستی و قربت کی بنا پر نہیں۔ اگر ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو نجی سیکٹر کو ترغیب ملے گی اور وہ میدان میں اترے گا۔
ٹاپ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی آزادی اسلامی حاکم کی دیکھ بھال میں ہونی چاہئے۔ اس دیکھ بھال کا کیا مقصد ہے؟ مقصد یہ ہے کہ یہ آزادی بد عنوانی اور فساد پر منتج نہ ہو۔ یہ آزادی دوسروں کے اختیارات سلب ہو جانے کا باعث نہ بنے۔ اظہار خیال کی آزادی، سیاسی آزادی اور ثقافتی آزادی کے سلسلے میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اقتصادی آزادی کا یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ جن افراد کے پاس اقتصادی سرگرمیوں کی طاقت و توانائی ہے وہ جس چیز کی چاہیں پیداوار کریں، جس طرح چاہیں چیزوں کو بازار میں لائیں، جب چاہیں سپلائی کریں، جیسے چاہیں فروخت کریں اور جس طرح چاہیں استعمال کریں، تو یہ یقینی طور پر اسلام کا نظریہ نہیں ہے۔ اسلام نے اقتصادی آزادی اور نجی مالکیت کے ساتھ جو اس نے معاشرے کے ہر فرد کو عطا کی ہے، ان سارے امور پر حکومت کی نظارت و نگرانی کو لازمی قرار دیا ہے۔ یعنی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ ہونے پائے۔ چیزوں کے خرچ میں بھی اس بات پر نظر رکھے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ البتہ ایک حد تک اسراف ذاتی اور انفرادی گناہ ہے، اپنے گھر میں کوئی کسی چیز کو فضول خرچی کے ساتھ استعمال کرے تو یہ یقینا ایک فعل حرام ہے، ایک گناہ ہے لیکن یہی چیز اس حد تک بڑھ جائے کہ اس سے معاشرے کے اقتصادی نظام کو خطرات لاحق ہو جائیں، معاشرے میں اس سے غربت و افلاس بڑھنے لگے، عوام کا بہت بڑا طبقہ محرومی کا شکار ہونے لگے، جو چیزیں انسانوں کی کد و کاوش کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اسے تلف اور ضائع کیا جائے تو پھر اسلامی حکومت پر یہ فرض آن پڑتا ہے کہ اس اسراف کا سد باب کرے، اس فضول خرچی کا مقابلہ کرے۔ البتہ یہ چیز ایک معاشرے تک محدود نہیں ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسلام کا یہی سبق ہے۔ اس وقت جو ممالک غذائی اشیاء کے استعمال میں اسراف کر رہے ہیں، دنیا کے بعض دولتمند ممالک دنیا کی ستر فیصد غذائی اشیا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی پینتیس چھتیس فیصدی ہے، اگر دنیا میں منصفانہ اقتصادی نظام ہو، اگر دنیا میں طاقتور مالیاتی ادارے ہوں تو ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا میں کچھ با ضمیر حکومتیں اور کچھ تنظیمیں سامنے آئیں اور اپنی طاقت دنیا کی قوموں اور انسانوں کے مفاد میں استعمال کریں ، مثلا ان حرکتوں کو روکیں کہ امریکا ہر سال کئی ملین ہکٹیئر زراعتی زمین پر کھیتی نہیں ہونے دیتا تاکہ غلے کی قیمت گرنے نہ پائے، جبکہ دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے کئی ہزار بچے روزانہ بھکمری کا شکار ہوکر تلف ہو رہے ہیں، جبکہ دنیا کے دس سے پندرہ فیصدی عوام خشکسالی کی مار جھیل رہے ہیں، دنیا کی بہت بڑی آبادی غذائی اشیاء کی قلت سے دوچار ہے۔ یا مثلا اس جیسے اقدامات کو روکا جائے کہ کئی سال قبل یورپ کے مشترکہ بازار نے بہت بڑی مقدار میں غذائی اشیاء اور غلے کو سمندر میں پھنکوا دیا تاکہ اناج کی قیمت میں گراوٹ نہ آئے اور عالمی منڈیوں میں قیمتییں نیچے نہ جائیں۔ بنابریں اسراف، پیسے کے ضیاع کو روکنا اور عالمی اقتصادی نظام میں زیادہ روی اور اسراف سے مقابلہ اسلام کی نظر میں اتنا ہی اہم ہے۔
معلوم ہوا کہ آزاد معیشت اور نجی مالکیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی شخص جتنا چاہے خرچ کرے جبکہ اس کے اس اسراف سے بہت سے افراد بھکمری کا شکار ہیں، بہت سے لوگ بیماری میں مبتلا ہیں، بہت سے لوگ بنیادی ترین ضروتوں سے محروم ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ درست نہیں ہے اور اس سے سختی سے روکا گيا ہے۔
ٹاپ
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
اسلام میں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں معاشرے کے سیاسی مستقبل کو متاثر کریں اور ساسی نظام میں مداخلت شروع کر دیں۔ اس وقت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک میں جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ بڑے ملکوں کو حقیقی معنی میں بڑے سرمایہ دار ہی چلا رہے ہیں۔ ان کے کچھ عناصر حکومتی نظام کے اندر بھی موجود ہوتے ہیں جو تیل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے بڑے شیئر ہولڈر ہوتے ہیں۔ اگر ان کے افراد حکومت میں نہ بھی ہوں تو وہ پردے کے پیچھے رہ کر انتخابات کو کنٹرول کرتے ہیں، صدر کا تعین کرتے ہیں۔ سیاسی میدان میں کسی شخص کی ترقی یا تنزلی سنیٹ یا ایوان نمایندگان میں کسی کا جانا یا باہر نکلنا ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جو قوانین وضع کئے جاتے ہیں انہی کے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، ان کے مفادات کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ بنابریں مغربی دنیا کو سرمائے کی حکمرانی کی دنیا کہنا چاہئے۔ کیپیٹلزم کے معنی سرمایہ داری بتائے جاتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتر ترجمہ سرمائے کی محوریت اور سرمائے کی حکومت اور معاشرے کے امور پر کمپنیوں، دولتمندوں اور سرمایہ داروں کا کنٹرول ہے۔ یہ چیز اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔ جس عمل کا بھی یہ نتیجہ ہے ہو اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔
ٹاپ
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
سرمایہ داری یعنی عوام کے استحصال سے جمع کی جانے والی دولت کا استعمال، یعنی وہ سرمایہ جس کے ذریعے استحصال کیا جائے، وہ سرمایہ جس کا مالک کچھ نہ کرے بس بیٹھ کر اس کے ذریعے دوسروں کا استحصال کرے، دوسروں کو لوٹے، استحصال ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔ اس طرح کی سرمایہ داری کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ آج دنیا میں سرمایہ داری کا یہی مفہوم ہے۔ اگر نجی ملکیت فساد و ظلم و تفریق و امتیاز کا باعث بن سکتی ہے تو سرکاری مالکیت بھی ایسی ہو سکتی ہے۔ جن ملکوں میں سرکاری مالکیت کا رواج ہے وہاں بھی بد عنوانی و ظلم و تفریق ہے لیکن ایک الگ شکل میں اور کچھ دوسرے طبقات کے درمیان۔
ٹاپ
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
مغربی نظام حکومت میں جیسا کی دعوی کیا جاتا ہے آئین کی رو سے عوام اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزاد ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ آزادی سبھی لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ عظیم ذخائر، یہ سمندر، یہ قدرتی ذخائر، یہ زرخیز میدان، یہ معدنیات، یہ سارے وسائل جنہیں معاشرے کی عمومی دولت کہا جاتا ہے۔ یہ چیزیں آسانی سے معاشرے کی ہر فرد کو دستیاب نہیں ہوتیں اور ہر طبقے کو بآسانی اس پر کام کرنے اور فائدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عملی طور پر تو یہ آزادی بس انہی لوگوں کو ہوتی ہے جن کے پاس دولت کا انبار لگا ہوا ہے۔ جن کے ہاتوں میں معاشرے کی اقتصادی شہ رگ ہی نہیں سیاسی باگڈور بھی ہوتی ہے۔ قدرتی ذخائر اور سرمائے پر در حقیقت انہی کا تسلط اور قبضہ ہوتا ہے، وہی اس سے منمانے انداز میں استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے عام لوگوں کے لئے ان وسائل کے استفادے کا راستہ محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے خواہ وہ دولتمند ممالک ہوں یا تیسری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے غریب ممالک، ان میں عوام غربت و افلاس کی مار جھیل رہے ہیں۔ آبادی کا بیشتر حصہ تو غربت، بے روزگاری، محرومیت اور رہائش کی مشکلات سے دوچار ہے، بس ایک مخصوص طبقہ آزادنہ سرگرمیاں کر رہا ہے، دولت جمع کر رہا ہے، اس کے پاس کانیں موجود ہیں اور وہ مزید کانیں حاصل کرتا جا رہا ہے۔
کارخانے موجود ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر کی دولت سے استفادہ کر رہا ہے۔ در حقیقت تمام قدرتی ذخائر معاشرے کے اسی مخصوص طبقے کے پاس ہیں۔ بقیہ طبقات جن میں نوکری پیشہ افراد، مزدوروں کا طبقہ، کان کنوں کا طبقہ، کارخانوں میں کام کرنے والے افراد اور زراعتی کاموں میں مصروف افراد شامل ہیں، سب کے حصے میں بس وہی چیزیں آتی ہیں جو اس مخصوص طبقے سے بچ گئی ہیں اور جن کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پیداواری سرگرمیاں انجام دینے، ذخائر سے استفادہ کرنے، امکانات سے بہرہ مند ہونے اور حقیقی معنی میں دولت کمانے اور اکٹھا کرنے کا موقع نہیں ملتا، انہیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ٹاپ
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
سوشیلزم اور مارکسسٹ نظرئے پر استوار دیگر مکاتب فکر میں نجی مالکیت کے لئے کچھ حدیں رکھی گئی ہیں لیکن یہ حدیں اسلامی حدود سے مختلف ہیں۔ ان مکاتب فکر میں پیداوار کے ذرائع کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے۔ یعنی کوئی بھی فرد زمین، کارخانے اور اس جیسی چیزوں کا مالک نہیں بن سکتا جو پیداوار کی ذریعہ ہیں۔ مارکسسٹ نظرئے اور سوشیلسٹ معیشت میں خرید و فروخت، بیع و شراء اور سودا ایک مذموم فعل ہے، ایک غیر اخلاقی عمل تصور کیا جاتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے مطابق، جس شخص کے پاس سرمایہ ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خرید و فروخت ممنوع ہے۔ مارکسسٹ نظرئے کی رو سے خرید و فروخت اور سودا مذموم دلالی اور نا پسندیدہ فعل ہے۔
سوشیلسٹ ممالک اور ایسے معاشروں میں جہاں حکومت تمام کارخانوں، زمینوں اور پیداواری ذرائع کی مالک ہوتی ہے اور عوام اس کے ملازم، عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر معاشرے میں جنگ، زلزلہ، بیماری یا اسی طرح کی کوئی اور افتاد آن پڑے تو حکومت کے یہ ملازمین کیا کریں گے؟ ان کے پاس اپنے جسم و جان کے علاوہ دینے کے لئے کیا ہوگا؟
ٹاپ
عالمی یوم قدس نزدیک آکر دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع و حمایت کی سنگین ذمہ داری کی، پہلے سے زیادہ تاکید کے ساتھ، یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو (ایک نقطے) پر مرکوز کر دیا، نتیجے میں ہم ہر سال مسلمانوں میں اس دن (یوم قدس) کی وسیع پذیرائی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر مملکت اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں انصاف کے قیام، بد عنوانی کے مقابلے، کمزور طبقات کی مدد، سادہ زیستی، محروم علاقوں پر توجہ اور عوام کے مسائل بالخصوص بے روزگاری اور افراط زر پر قابو پانے جیسے بنیادی اہداف کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ونیزوئلا کے صدر اور ان کی زیر قیادت تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ونیزوئلا کو چاہئے کہ اپنے تعاون کو فروغ اور وسعت دیکر خود مختاری کے نوتشکیل شدہ محاذ کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کے مقابلے کے لئے روحانی و نفسیاتی استحکام کو لازمی قرار دیا اور فرمایا: اگر انسان کے اندر جذبہ استقامت پیدا ہو جائے تو اسے عملی میدان میں شکست و ناکامی کا سامنا نہیں ہوگا۔