قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پوری دنیا کی مسلمان قوموں کے نام ایک پیغام میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب، اس سے وسیع پیمانے پر ہونے والے نقصانات اور دسیوں لاکھ پاکستانیوں کی فوری امداد کی ضرورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نازک وقت میں اسلامی اخوت کی بنیاد پر اپنے فرائض پر ہمیں عمل کرنا چاہئے اور مصیبت زدہ مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی امداد کے لئے تیزی سے آگے آنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تیس اگست سنہ دو ہزار دس عیسوی کو صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے ارکان سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے ارکان نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اقدار کی پابندی، انصاف پسندی، سادہ زیستی، رئیسانہ شان و شوکت سے پرہیز، سعی و کوشش، بلا وقفہ عوام کی خدمت اور سامراج کی مخالفت جیسی بنیادی پالیسیوں کی حفاظت پر تاکید کی اور فرمایا کہ عوام الناس کی زندگی کے لئے رفاہی وسائل کی فراہمی اور ترقیاتی منصوبے پر مزید توجہ کے سلسلے میں اقدام کیا جائ
کریم اہل بیت نواسۂ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی شب کہنہ مشق اور نوخیز شعرا اور ادبی حلقے سے تعلق رکھنے والے افراد قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے میہمان تھے۔
اس ملاقات میں تیس شعرا نے دینی، سماجی، اخلاقی اور رزمیہ موضوعات پر اپنے اپنے اشعار پیش کئے۔
اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں شعر و ادب کی نئے دور میں فروغ و کمال کی جانب جاری پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت ہمارے ملک میں شعرا کی زبان اور ان کا تخیل بہت قوی ہے اور ان کی نگاہیں شعبہ ہائے زندگی کے تعلق سے زیادہ باریک بیں اور دور نگر ہیں، اسی لئے زبان، مضمون اور مندرجات کے لحاظ سے ایک نیا انداز ظہور پذیر ہو رہا ہے، جس کے تمام پہلو آگے چل کر اور بھی واضح ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ اپنی نشست میں اتحاد اور اخلاص پر خاص تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ معاشرے کو دباؤ اور شدت پسندانہ اقدامات سے اخلاص کی نعمت سے بہرہ مند نہیں کیا جا سکتا اور اسلام نے بھی کسی کو اس بات پر مامور نہیں کیا ہے کہ معاشرے کے ضعیف الایمان افراد میں اخلاص پیدا کرنے کے بہانے انہیں باہر نکال دیں۔
آپ نے شخصی، خاندانی، گروہی اور سماجی اخلاص میں اضافے کو معاشرے میں اخلاص کی ترویج کا بہترین طریقہ قرار دیا اور فرمایا کہ مخلصین کے دائرے کو جہاں تک ممکن ہو وسعت دی جائے اور یہ ہدف اسی صورت میں حاصل ہوگا جب ہر انسان سب سے پہلے اپنی ذات، اپنے خاندان، اپنے احباب اور سیاسی و سماجی امور کے رفقائے کار کے اندر اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں اہم داخلی و بیرونی امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہ رمضان کو توبہ و طہارت، اخلاص اور تقوای کے سیاسی و سماجی پہلوؤں کی جانب توجہ کا بہترین موقع قرار دیا اور باہمی اتحاد و اخوت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکام کا اتحاد ایک اہم فریضہ ہے جسے نقصان پہنچانے کی عمدی کوشش خلاف شریعت اقدام ہے۔
آپ نے ماہ رمضان کو ماہ توبہ، احکام خدا وندی کے سامنے دل و جان سے خود سپردگی کر دینے، پاکیزہ ہونے اور آلودگیوں سے نجات حاصل کرنے کا مہینہ قرار دیا اور فرمایا کہ ہر سال ماہ رمضان، ہر روز کی پنج وقتہ نمازوں کی مانند جاگ اٹھنے، اللہ کی بارگاہ میں راز و نیاز کرنے اور دل و جان میں اجالا پھیلانے کا موقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستائیس مرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق سات رمضان المبارک چودہ سو اکتیس ہجری قمری کو ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں اہم داخلی و بیرونی امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہ رمضان کو توبہ و طہارت، اخلاص اور تقوای کے سیاسی و سماجی پہلوؤں کی جانب توجہ کا بہترین موقع قرار دیا اور باہمی اتحاد و اخوت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکام کا اتحاد ایک اہم فریضہ ہے جسے نقصان پہنچانے کی عمدی کوشش خلاف شریعت اقدام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح گینیا بیساؤ کے صدر اور ان کے وفد سے ملاقات میں اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں تہران کی خاص دلچسپی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امت اسلامیہ صلاحیتوں سے سرشار عظیم مجموعہ ہے اور (مسلمان) جہاں کہیں بھی ہیں انہیں ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئےـ
قائد انقلاب اسلامی آیۃ العظمی خامنہ ای نے آج جمعرات کی شام تاجکستان، افغانستان اور ایران کے صدور سے ملاقات میں تینوں ملکوں کے وسیع اشتراکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران تاجکستان اور افغانستان رشتےدار ممالک ہیں اور تینوں ملکوں کے مفادات انتہائی قریبی تعاون اور معاہدوں پر عملدرآمد پر منحصر ہیں۔
فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت اور اس موقع پر ایران میں منائے جانے والے یوم پاسدار کی مناسبت سے پہلی مرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمی مطابق دوسری شعبان چودہ سو اکتیس ہجری قمری برابر تیئيس جولائی دو ہزار دس کو قائد انقلاب اسلامی کے دفتر اور سپاہ پاسداران انقلاب فورس کے اہلکاروں اور ارکان نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے جنوب مشرقی ایران کے شہر زاہدان کی جامع مسجد میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی کے شہدا کے فاتحے کی مناسبت سے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ ان جرائم کی پشتپناہی امریکا، برطانیہ اور صیہونی حکومت کی خفیہ ایجنسیاں کر رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قرآن پر توجہ دینے کی وجہ سے دنیا پر گہرے اثرات ڈالنے کی ملت ایران کی توانائی بڑھی اور اس قوم نے پوری خود اعتمادی کے ساتھ دشمن کا ڈٹ کر سامنا کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح پوم پاسدار کی مناسبت سے سپاہ پاسداران انقلاب کے ہزاروں کمانڈروں اور اہلکاروں کے اجتماع سے خطاب میں سپاہ پاسداران انقلاب کے روحانی ڈھانچے کو گزشتہ تین عشروں کے دوران مختلف شعبوں میں، الگ الگ حالات میں اس ادارے کی لائق قدر کارکردگی کی بنیادی وجہ قرار دیا
قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں میں علمائے افاضل کی موجودگی اور طلبہ و اساتذہ سے ان کے نزدیکی اور گہرے تعلقات کو اسلامی انقلاب کے بعد حاصل ہونے والی عظیم نعمت الہی قرار دیا اور فرمایا کہ اس اہم اور گراں بہا موقع کی قدر کرنی چاہئے اور اس چیز کی اہمیت کا اندازہ منفی پروپیگنڈوں اور یونیورسٹیوں کے اسلامی ماحول کے مخالفین کی شدید تشویش اور فکرمندی سے کیا جا سکتا ہے.
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ طول تاریخ میں بشریت کی خوشبختی کے نورانی راستے کے مخالفین نے عدل و آشتی کے قیام کے لئے نہیں تسلط اور ظلم کا دائرہ پھیلانے اور انسانوں کا چین و سکون چھین لینے کے لئے جنگیں کی ہیں اور آج بھی دنیا کی تسلط پسند اور سامراجی طاقتیں جدید ٹکنالوجی اور ایٹمی اسلحے سمیت پیشرفتہ ہتھیاروں کے ذریعے زمانہ جاہلیت کی اسی روش کو ماڈرن پیرائے میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس تیر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی، دس جولائی 2010 عیسوی مطابق 27 رجب چودہ سو اکتیس ہجری قمری کو عید بعثت رسول کے موقع پر ملک کے حکام کے اجتماع سے خطاب میں بعثت رسول کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے آئي آر آئي بی کے سربراہ، متعدد ہدایت کاروں، مصنفین، فنکاروں اور متعلقہ عہدہ داروں سے ملاقات میں قومی میڈیا بالخصوص فلم اور سیریئل کے فن کو موجودہ دور میں ماضی سے زیادہ اہم اور موثر قرار دیتے ہوئے قومی میڈیا اور فلمی صنعت کے عہدہ داروں اور فنکاروں کی زحمتوں کی قدردانی کی۔
عدلیہ کے سربراہ اور اعلی عہدہ داروں نے آج پیر اٹھائیس جون کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ عدلیہ کے عہدہ داروں سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کو اسلامی نظام کا بہت اہم اور حساس ادارہ قرار دیا اور ملک کے تمام محکموں کی جانب سے عدلیہ کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ کی ایک اہم ترین ذمہ داری فیصلے اور قضاوت میں عدل و انصاف کے راستے سے نہ ہٹنا اور سیاسی پروپیگنڈوں اور دوستی و دشمنی سے متاثر نہ ہونا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت کو ایک منفرد اور استثنائی شخصیت اور علمی، روحانی، اخلاقی، انسانی اور الہی کمالات کا نقطہ اوج قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ تاریخ بشر کی اس بے مثال شخصیت کی زندگی سے عصر حاضر میں اسلامی دنیا اور معاشرے کو ملنے والا سب سے اہم سبق بصیرت و آگہی کی ترویج، حالات کو شفاف بنانا اور ان لوگوں کے فکر و ایمان میں گہرائی پیدا کرنا ہے جنہیں بصیرت و آگہی کی ضرورت ہے۔
پانچ تیر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تیرہ رجب المرجب چودہ سو اکتیس برابر چھبیس جون سن دو ہزار دس کو جانشین رسول حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر صوبہ بوشہر کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے تہران آکر حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
اسلامی انقلاب کا فن یہ تھا کہ اس نے قوم کے درمیان کھڑی کی گئی تمام غلط دیواروں کو گرا دیا اور پورے ملک کو ملت ایران کے لئے وسیع میدان بنا دیا، اب بعض لوگ دوبارہ غلط اور ناحق دیواریں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تحریک کی بنیادیں، اصول اور سمت معین اور واضح ہیں بنابریں جو بھی ان اصولوں کے تناظر میں اور اسی سمت میں آگے بڑھے، اسلامی نظام کے کارواں میں شامل ہے۔
ایٹم لفظ جہاں سائنسی میدان میں انسانی پیشرفت پر دلالت کرتا ہے وہیں بد قسمتی سے تاریخ کے گھناونے ترین سانحے،
پیشرفتہ سائنس اگر کسی با کمال اور اچھی قوم کے پاس ہو تو باعث خیر و برکت ہوتی ہے، جدید اسلحے اگر کسی دانشمند اور بالغ نظر قوم کے پاس ہوں تو بے خطر ہیں۔ (سائنس کی) اس طاقت سے کس نے قوموں کو نقصان پہنچائے ہیں؟ اس سے ایٹم بم بنا دئے گئے۔ جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں امریکیوں نے کیا اور جاپانیوں پر آفت ٹوٹ پڑی یا جیسا کہ سویت یونین کے ایک ایٹمی کارخانے میں رساؤ ہونے سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک اور نابود ہو گیا۔ اگر ایٹم سے کوئی المیہ رونما ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بے لگام بڑی طاقتیں ہیں۔ اگر دنیا میں امریکا کی سامراجی طاقت پر قابو پا لیا جائے تو ایٹمی خطرہ اپنے آپ قابو میں آ جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاری جانی، صدارتی کمیٹی اور ارکان نے آج قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کی حساس اور دگرگوں صورت حال اور ساتھ ہی ایران کے داخلی حالات، ایرانی قوم کے اتحاد و یکجہتی اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر سے عوام کی وابستگی پر روشنی ڈالی۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاری جانی اور ارکان نے اٹھارہ خرداد سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق آٹھ جون سن دو ہزار دس کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پارلیمنٹ کے اسپیکر نے تقریر کرتے ہوئے ایوان کی کارکردگی کے بارے میں بتایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقی اسلام محمدی پر دائمی تکیہ، مکتب اسلام کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے سے قریب اور دور کرنا، وعدہ الہی پر یقین کامل، روحانی و معنوی محاسبہ و تقوا، اسلامی انقلاب کے سلسلے میں عالمی نقطہ نگاہ، عوام پر بھروسہ اور کسی بھی فیصلے کے وقت افراد کی موجودہ حالت پر توجہ، امام خمینی کے راستے کے معیاروں میں ہیں جنہیں صحیح طور پر بیان کرنے اور ان پر ہمیشہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس جمادی الثانی سن چودہ سو اکتیس ہجری قمری مطابق چار جون دو ہزار دس عیسوی برابر چودہ خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوری نظام کے معمار امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کی اکیسویں برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر دسیوں لاکھ کی تعداد میں جمع ہونے والے عقیدت مندوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔
بنت رسول صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کے موقع پر شعرا، خطبا اور ذاکرین اہل بیت اطہار کی ایک بڑی تعداد نے آج صبح حسینیہ امام خمینی میں قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں بنت رسول کے فضائل و مناقب بیان کئے اور ساتھ ہی عصری سماجی و انقلابی مسائل و امور پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بارہ آبان سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تین جون سنہ تیرہ دو ہزار دس عیسوی کو ہزاروں طلبہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ کو امریکا کی طمع اور توسیع پسندی، شاہ کی طاغوتی حکومت کے غیروں پر انحصار، بصیرت پر مبنی جذبہ ایمانی کی مضبوطی، میدان عمل میں نوجوان نسل کی پیش قدمی اور انقلابی نوجوان نسل کی شجاعت و ہمت کا آئینہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت ملت ایران ماضی کے ہر دور سے زیادہ پرعزم ہوکر اور پوری مضبوطی کے ساتھ اعلی اہداف اور سعادت بخش بلندیوں کی جانب رواں رواں اور اس عظیم تحریک میں نوجوان نسل پیش پیش ہے۔
بنت رسول صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کے موقع پر شعرا، خطبا اور ذاکرین اہل بیت اطہار کی ایک بڑی تعداد نے تیرہ خرداد سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تین جون سن دو ہزار دس عیسوی کو حسینیہ امام خمینی میں قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں بنت رسول کے فضائل و مناقب بیان کئے اور ساتھ ہی عصری سماجی و انقلابی مسائل پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج اپنے ایک پیغام میں، امدادی قافلے پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ و مجرمانہ حملو کو ، عالمی رائے عامہ اور پوری دنیا کے انسانوں کے ضمیر پر حملہ قرار دیا اور زور دیا کہ اب فلسطین نہ عرب مسئلہ ہے بلکہ صرف اسلامی مسئلہ ہی نہيں ہے بلکہ یہ عصر حاضر کا ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور اس سفاک حکومت کے حامیوں خاص طور پر امریکا ، برطانیہ اور فرانس کو جواب دینا چاہئے ۔ قائد انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن اس طرح سے ہے :
قائد انقلاب اسلامی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کے دن تین خرداد مطابق چوبیس مئي کو انقلاب اور ملک کی تاریخ کا ناقابل فراموش دن قرار دیا اور فرمایا کہ اس عظیم اور سبق آموز واقعے کا بنیادی عامل اللہ تعالی اور اپنے زور بازو پر اعتماد کا جذبہ تھا اور یہ جذبہ ہمیشہ خرم شہر کی آزادی جیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔
تین خرداد تیرہ سو اکسٹھ ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی انیس سو بیاسی کا دن ایران اور اس ملک کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کا بے حد اہم دن ہے۔ یہ روحانیت و معنویت کی کرشمائی تاثیر کا آئينہ ہے۔ اس دن خرم شہر کو جارح عراقی فوج کے قبضے سے آزاد کرایا گیا۔ اس علاقے کو اپنے غاصبانہ قبضے میں رکھنے کے لئے عراق کی صدام حکومت ہی نہیں بلکہ اس کی پشتپناہی کرنے والی مشرقی و مغربی طاقتیں اور علاقائی ممالک بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے لیکن ایرانی نوجوانوں نے قوت ایمانی اور توفیق الہی سے اس علاقے کو آزاد کرا لیا۔ اسی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے تین خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی دو ہزار دس کو شمال مشرقی تہران میں واقع امام حسین علیہ السلام کیڈت یونیورسٹی میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے خرم شہر کی آزادی کے لئے ایرانی جیالوں کے بیت المقدس نامی فوجی آپریشن کا مطالعہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں آت تمام عزیز نوجوانوں اور مستقبل کی امیدوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی شروعات اور تعلیم کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کی مناسبت سے بھی اور تین خرداد (چوبیس مئی) کے عظیم دن کی مناسبت سے بھی جو انقلاب کی تاریخ ہی نہیں ہمارے ملک کی تاریخ کا بھی ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ آج کی یہ تقریب بہت اچھی اور مناسب نیز سپاہ پاسداران انقلاب کی مانند روحانیت اور ذہنی و جسمانی توانائیوں اور فکری و عملی آمادگي کا آمیزہ اور سپاہ پاسداران انقلاب کی پیشرفت و ترقی کا آئینہ معلوم ہوئی۔
میرے عزیزو! خرم شہر کی آزادی کا دن جو در حقیقت سن انیس سو بیاسی کے اپریل اور مئی مہینے میں بیت المقدس آپریشن کے نقطہ اوج پر پہنچ جانے کا دن ہے، ہم سب کے لئے، ہماری تاریخ کے لئے اور ہمارے مستقبل کے لئے سبق آموز اور عبرت آموز دن ہے۔ کیونکہ فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے اس دن جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک حیرت انگیز اور قابل تعریف ہم آہنگی اور ناقابل بیان شجاعت و فداکاری کے ذریعے بڑی کاری ضرب لگائی۔ عراقی فوج کے پیکر پر ہی نہیں بلکہ عالمی سامراجی نظام کے پیکر پر جو اپنے لمبے لمبے وعدوں کے ساتھ بعثی حکومت کی جنگی مشینری کی پشت پر کھڑا ہوا تھا۔ کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ یہ چیز (خرم شہر کی آزادی) ممکن ہو سکے گی۔ لیکن ایسا ہوا۔ اس کی اصلی وجہ کیا تھی؟ اس کے لئے چند عوامل کو موثر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سب سے بنیادی ترین عامل تھا اللہ تعالی پر توکل اور اپنی قوت بازو پر بھروسہ۔ اگر ہم اس دن عام اور رائج اندازوں کے مطابق عمل کرتے اور سوچتے تو کسی بھی صورت میں کوئی یہ نہیں سوچ پاتا کہ یہ چیز بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے با ایمان عوام نے، ہمت و شجاعت کے ساتھ، ایمان و ایقان کے ساتھ، اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے، جان ہتھیلی پر اور موت کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان میں قدم رکھے اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ خرم شہر کی آزادی افتخارات کا نقطہ کمال ہے، افتخارات کا ثمرہ ہے۔ تقریبا ایک مہینے تک چلنے والے بیت المقدس آپریشن کی پوری مدت میں فداکاری و جاں نثاری کی سیکڑوں حیرت انگیز نشانیاں اور مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
میرے عزیز نوجوانو! میرے فرزندو! میں گزارش کروں گا کہ آپ اس آپریشن کی تفصیلات کو جس کا ایک حصہ، صرف ایک گوشہ، ضبط تحریر میں آ چکا ہے بغور پڑھئے اور دیکھئے کہ کیا واقعات رونما ہوئے۔ دیکھئے کہ ہمارے جوانوں نے، ہمارے جیالوں نے، جن کے ناموں کا ذکر کرنے کے لئے ایک کتاب درکار ہوگی، کیا کارنامہ انجام دیا؟ اگر ہم نمونے کے طور کچھ نام لینا چاہیں تو شجاع و فداکار کمانڈر احمد متوسلیان جیسے افراد کا نام لے سکتے ہیں جنہوں نے اس انتہائی اہم اور بڑی لڑائی میں کیسا کارنامہ انجام دیا اور کون سی توانائی استعمال کی؟! یہ جو جملہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور آپ نے اسے بارہا سنا ہوگا کہ خرم شہر را خدا آزاد کرد اس سلسلے میں کہا جانے والا سب سے حکیمانہ اور سب سے حقیقت پسندانہ جملہ ہے۔ وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی (1) کی عملی تصویر ہے۔ اللہ تعالی کی قدرت جانبازوں کے دلوں میں، ان کے آہنی عزم و ارادے میں، ان کے صبر و ضبط میں، ان کے توانا بازوؤں میں، ان کی خلاقی توانائیوں میں جلوہ گر ہوئی۔ دشمن مادی طاقتوں پر تکیہ کئے بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے کہ مادی طاقت پختہ روحانیت و انسانیت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ چیز ہمیشہ رہے گی۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ میرے عزیزو! آج بھی مادی طاقتیں اپنی پوری توانائی کے ساتھ، اپنی دولت، اپنی صنعت، اپنی جدید ٹکنالوجی اور سائنسی ترقی کی مدد سے بھی ان انسانوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں جو ایمان و ایقان کو، عزم و ارادے کو، ہمت و شجاعت کو اور فداکاری و جاں نثاری کو اپنے فعل و عمل کا معیار قرار دیں۔
جو لوگ اس زمانے میں ملت ایران اور اس قوم کے سپاہیوں کے مد مقابل کھڑے ہوئے تھے یہ وہی لوگ ہیں جو آج ملت ایران کے مقابلے پر آئے ہیں۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں بھی امریکا، نیٹو، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تھے۔ صدام کو کیمیاوی اسلحہ دیتے تھے، فوجی ساز و سامان فراہم کرتے تھے، طیارے دیتے تھے، جنگی نقشے دیتے تھے، جنگ کے میدان کی تازہ اطلاعات دیتے تھے، اس کی پشت پر کھڑے ہوئےتھے تاکہ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو، توحید و روحانیت کے عظیم نظام کو، وحدانیت و انسانیت کے لہراتے اس پرچم ہو اور قوموں کی آزادی اور خود مختاری کی آواز کو شکست دے دیں۔ صدام کی پشت پر یہی لوگ کھڑے ہوئے تھے اور آج بھی یہی لوگ (مقابلے کے لئے) سامنے ہیں۔ آج بھی جو لوگ اپنی تشہیراتی مہم کے ذریعے حقائق کو برعکس شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ خود دنیا کے بیشتر علاقوں کی بد امنی کے ذمہ دار ہیں لیکن ایران کو خطرہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں، وہ لوگ جو پاکستان میں روزانہ مجرمانہ کارروائیاں کرتے ہیں، افغانستان میں برسوں سے قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، عراق میں کسی اور صورت میں اور فلسطین میں کسی اور انداز سے، وہ لوگ جو قدس کی غاصب حکومت کی شیطانی طاقت کی پشت پر کھڑے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں۔ انیس سو بیاسی میں یہی لوگ صدام کی حمایت و مدد کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہیں شکست ہوئی تھی اور آپ یقین رکھئے کہ اس دفعہ بھی انہیں شکست ہوگی۔
اسلامی جمہوری نظام دنیا کی دیگر جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کی مانند نہیں ہے۔ خاص پیغام کا حامل نظام ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کا پیغام وہ پیغام ہے کہ جس کے لئے دنیا کی قومیں بیتاب ہیں۔ یہ دنیا کے جغرافیا میں کسی نقطے پر واقع عام حکومت اور سیاسی نظام سے جس میں خواہشات نفسانی میں ڈوبے افراد شامل ہوتے ہیں، مختلف ہے۔ یہاں (اسلامی جمہوری نظام میں) قدروں کا معاملہ ہے، انسانیت کا موضوع ہے، مداخلت پسند اور تسلط پسند طاقتوں کے چنگل سے قوموں کو نجات دلانے کا مسئلہ ہے۔ انسانیت اور بشریت کے لئے ہمارے نظام کے پاس ایک پیغام ہے اور اسی پیغام کی وجہ سے دنیا کی حریص طاقتیں ملت ایران کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں۔ اگر یہ ٹکراؤ کا پہلا موقع ہوتا تو ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل دہل جاتے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ یہ ٹکراؤ تو اکتیس سال سے مختلف شکلوں میں چلا آ رہا ہے۔ سیاسی حملہ، فوجی لشکر کشی، اقتصادی ناکہ بندی اور مختلف دھمکیوں کی شکل میں۔ تسلط پسند ممالک میں مختلف حکام آئے اور چلے گئے لیکن ملت ایران ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ محکم عمارت روز بروز اور مضبوط ہوئی ہے اور پروقار بن گئی ہے۔ یہ ثمربخش خدائی پودا، اس سازگار اور آمادہ سرزمین پر اگنے والا یہ شجرہ طیبہ روز بروز اپنی جڑیں اور بھی گہرائی میں اتارتا جا رہا ہے۔ اگر روحانیت، اسلامی اقدار اور ایران کے دشمنوں کے اندر کبھی امید کی رمق تھی بھی تو آج یہ رمق بھی باقی نہیں رہی ہے، وہ مایوسی کے عالم میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ راستے سے واقف نہیں ہیں، وہ ملت ایران کو نہیں پہچانتے۔ وہ آج کے اندازوں اور تخمینوں کا قیاس تیس سال، چالیس سال اور پچاس سال قبل کی صورت حال سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑی طاقتوں کے بلا شرکت غیرے غلبے کا دور تھا۔ یہ قیاس غلط ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ قومیں بھی بیدار ہو چکی ہیں۔ لہذا آج آپ ایرانی عوام، آپ نوجوان حضرات جو اس قوم کے چنندہ اور نمایاں نوجوانوں میں ہیں، آپ سپاہ پاسداران انقلاب کے نوجوان قوموں کے دلوں میں امید کی کرن جگانے والے ہیں۔ بہت سی حکومتوں کی نظریں آپ پر لگی ہوئي ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مداخلت اور جارحیت پسند ملک نہیں ہے۔ یہ استقامت، یہ پیغام اور تمام شعبوں میں نمایاں یہ روحانی طاقت ان کی امیدیں بڑھا دیتی ہے، ان میں استقامت و پائیداری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ آج بر اعظم ایشیا، بر اعظم افریقا، بر اعظم امریکا میں حتی خود یورپ میں ایسی قوموں کی کمی نہیں ہے جن کی تعریفی تحسین آمیز نگاہیں آپ پر مرکوز ہیں۔ وہ آپ کی مداح ہیں۔
میرے عزیزوں! آپ نوجوانی کے اس سنہری موقع کی، اس توانائی کی اور استعداد کی قدر جانئے۔ خود کو نکھارنے کا یہ موقع جو آپ کو فراہم کیا گیا ہے اس کی اہمیت کو سمجھئے۔ آپ بھی، فوج کے جوان بھی، پولیس فورس کے اہلکار بھی اور مقدس و پاکیزہ رضاکار فورس بھی۔ آج اس الہی ملک میں انہیں ایسے وسائل دستیاب ہیں جو کبھی بھی برگزیدہ، با ایمان اور صالح نوجوانوں کو حاصل نہیں ہوئے تھے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھائيے۔ ان مواقع کا بھرپو استعمال سب سے بڑا شکر ہے۔
پالنے والے! اس گروہ پر اپنا لطف و کرم نازل فرما۔ پروردگارا! ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر جنہوں نے یہ درخشاں راہ ہمارے لئے کھولی اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پالنے والے! ہمارے عزیز شہداء کو جو تیرے فضل و کرم سے زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے بلندی درجات عطا فرما۔ ہمیں انہی عزیزوں کی صف میں شامل کر اور اس گروہ کا سلام امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی بارگاہ میں پہنچا۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) انفال، 17
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام الجزائر کے صدر عبد العزیز بوتفلیقہ اور ان کے وفد کے ارکان سے ملاقات میں الجزائر کی قوم کو شجاع، پیش قدم اور بلندی کی راہ پر گامزن قوم قرار دیا اور سامراج کے خلاف الجزائر کے عوام کی جد و جہد اور انقلاب کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اخلاص کے لحاظ سے ایران اور الجزائر کی حکومتوں کے باہمی تعلقات کی سطح کبھی بھی ایسی نہیں رہی جیسی آج ہے، اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات انفرادی صورت حال کے حامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے اور ان کے وفد کے ارکان سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران اور زمبابوے کے تعلقات کو پائيدار اور دوستانہ تعلقات سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ سطح سے کہیں زیادہ وسیع تعلقات کی گنجائش اور صلاحیت دونوں ملکوں میں موجود ہے اور ایران ہمیشہ زمبابوے کا ساتھ دیتا رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ عظیم افرادی قوت اور جغرافیائی وسائل سے مالامال اسلامی ممالک ایک عظیم حقیقت اور تشخص کے مالک ہیں اور اگر یہ تشخص میدان میں آ جائے تو کوئی بھی اسے نظر انداز نہیں کر پائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ ایران اور سری لنکا کے تعلقات بہت پرانے ہیں لیکن کبھی بھی یہ تعلقات موجودہ دور جتنے اچھے نہیں تھے کیونکہ اس وقت باہمی تعاون کے لئے اچھے مواقع اور ارادے موجود ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی امور میں برازیل کے خود مختار اور آزادانہ موقف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا پر حکمفرما غیر منصفانہ حالات کو بدلنے کا واحد راستہ خود مختار حکومتوں کے درمیان باہمی روابط اور تعاون کا فروغ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایرانی قوم کو ترقی و پیشرفت کے اس مرحلے تک پہنچنا ہے کہ مختلف سماجی اور سیاسی میدانوں میں علمی اور فکری لحاظ سے وہ اسلامی دنیا کے مفکرین اور اقوام کے لئے قابل اعتماد اور یقینی مرجع بن جائے اور یہ ملت ایران کی تاریخی ذمہ داری ہے۔
یوم محنت کشاں کے موقع پر ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے آج قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے ترقی کو علم اور علمی پیداوار پر موقوف قرار دیا اور ملک کی حیرت انگیز ترقی اور وسیع علمی، قدرتی اور انسانی وسائل اور صلاحیتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ماضی کی پسماندگی کی تلافی کے لئے دوہرے عزم اور تیز رفتار پیش قدمی کی ضرورت ہے۔