قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید الفطر کے دن اسلامی نظام کے عہدہ داروں، اسلامی ممالک کے سفیروں اور عوامی طبقات سے ملاقات میں اسلامی عیدوں بالخصوص عید فطر کو صلاحیتوں، توانائيوں اور موجودہ حالت اور مستقبل پر نظر ڈالنے اور نقائص و عیوب کی شناخت کا اہم موقع قرار دیا ۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس شہریور تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق 20 ستمبر دو ہزار نو کو تہران کی مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ سانحے میں ماہرین کی کونسل میں صوبہ کردستان کے نمائندے ماموستا شیخ الاسلام کی شہادت پر تعزیت و مبارکباد پیش کی۔
اسلام میں دولت کا حصولقومی ثروت کے اضافے کی شرائطاسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاددولت و ثروت کے حصول کی اہمیتپیداوارانصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںثروت کی تقسیمدولت کی تقسیم کا معیاراسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیمانٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفاسلامی معیشت میں دولت کا حصولاسلام میں دولت کا حصولقانونی اور جائز طریقے سے دولت مند بننے میں اسلام کی نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ حکومتی عہدہ داروں کو چاہئے کہ عوام کو اقتصادی سرگرمیوں اور فعالیت میں شراکت کی راہوں سے آشنا و آگاہ کریں۔ اس طرح کی پالیسیاں معاشرے کے لئے عمومی دولت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسلام نے دولت کمانے سے ہرگز نہیں روکا ہے۔ البتہ دولت پیدا کرنے اور دوسروں کا سرمایہ لوٹنے میں بڑا فرق ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی عمومی سرمائے پر دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی شخص غیر قانونی طریقوں سے، قانون کی پابندی کو ترک کرکے مادی وسائل حاصل کرتا ہے، یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ لیکن اگر قانونی طریقے سے دولت حاصل کی جائے تو شریعت مقدسہ اور اسلام کی نظر سے یہ فعل پسندیدہ و مستحسن ہے۔ دولت حاصل کی جانی چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ دولت حاصل کیجئے لیکن اسراف نہ کیجئے۔ فضول خرچی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے جو دولت حاصل کی ہے اس کو بنیاد اور ذریعہ بناکر مزید دولت حاصل کیجئے۔ پیسے کو جمود اور بانجھپن کا شکار نہ بنائیے۔ اسلام میں اس کو کنز تیار کرنے کا نام دیا گيا ہے۔ اسی طرح فضول خرچی اور پیسے کے خرچ میں بے احتیاطی سے پرہیز کیجئے، پیسہ غیر ضروری چیزوں پر خرچ نہ کیجئے۔ ان چیزوں کا بھی خیال کیجئے اور ساتھ ہی دولت بڑھانے کی بھی فکر میں رہئے۔ عوام کی دولت در حقیقت ملک کا عمومی سرمایہ ہے، اس سے سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ٹاپ قومی ثروت کے اضافے کی شرائطقومی ثروت کے لحاظ سے ملک کو بے نیاز اور خود کفیل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری، اقتصادی سرگرمیاں اور دولت کی پیداوار ملک کے تمام فعال افراد کے اختیار میں قرار پائيں۔ یعنی ہر ایک کو اس میدان میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کی حمایت کرے اور قانون بھی اس میں ممد و معاون ثابت ہو۔ ٹاپ اسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاداسلامی اقتصادیات میں دو اہم بنیادیں نظر آتی ہیں۔ ہر اقتصادی روش اور ہر اقتصادی نسخہ جس میں ان دونوں بنیادوں کا خیال رکھا گیا ہو، معتبر ہے جبکہ ہر وہ روش اور پروجیکٹ جو بظاہر دینی اساس پر استوار ہو لیکن ان دونوں بنیادوں سے عاری وہ اسلامی نہیں ہے۔ ان دونوں میں سے ایک بنیاد ہے: قومی ثروت میں اضافہ۔ اسلامی ملک کو دولت مند اور ثرورت مند ملک ہونا چاہئے۔ فقیر ملک نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں یہ صلاحیت ہو کہ اپنی ثروت سے اور اپنی اقتصادی توانائی سے عالمی سطح پر اپنے اعلی اہداف کو عملی جامہ پہنا سکے۔ دوسری بنیاد، ثروت کی منصفانہ تقسیم اور معاشرے سے محرومیت کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں بنیادیں لازمی ہیں۔ پہلی بنیاد دوسری بنیاد کی شرط ہے۔ اگر ثروت کی پیداوار نہ ہو، اگر دولت حاصل نہ کی جائے تو غربت کو معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بنابریں یہ دونوں چیزیں لازمی ہیں۔ٹاپ دولت و ثروت کے حصول کی اہمیتدو چیزوں کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ ایک چیز ثروت پیدا کرنا ہے، کوئی درست طریقے سے محنت کرکے ثروت پیدا کر رہا ہے۔ دوسری چیز ہے دولت کمانے کی روش اور خرچ کرنے کا انداز۔ پہلی چیز تو پسندیدہ ہے۔ کیونکہ معاشرے میں جو ثروت بھی آ رہی ہے وہ معاشرے کے مجموعی طور پر دولت مند بننے میں مددگار ہوگی۔ دوسری چیز جو بہت زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ کس طرح دولت پیدا کی جائے۔ یہ غیر قانونی طریقوں سے اور فریب اور بد عنوانی کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا استعمال بھی شرعی لحاظ سے ناجائز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ثروت معاشرے کی رگوں میں خون بن کے دوڑے اور غلط کاموں کے لئے استعمال نہ ہو۔ ٹاپ پیداواروسیع پیمانے پر پیداوار، قوم کا اہم نعرہ ہونا چاہئے۔ روزگار کی پیداوار، علم کی پیداوار، ٹکنالوجی کی پیداوار، دولت کی پیداوار، معرفت کی پیداوار، مواقع کی پیداوار، عزت و منزلت کی پیداوار، مصنوعات کی پیداوار اور ماہر افرادی قوت کی پیداوار۔ یہ سب پیداوار ہے۔ اسلامی نظام سرمایہ کاری کے نظرئے، اس کی اہمیت اور داخلی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کی ثروت و دولت کی پیداوار کو مثبت نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی تائید و حمایت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل ملک کی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع ایجاد کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حکومت کو ایسی پالسیاں وضع کرنا چاہئے کہ پیداواری شعبوں اور یونٹوں میں ثروت و دولت کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف بھی قائم ہو۔ اگر معاشرے میں اقتصادی ترقی نہ ہو، اگر روزگار کے مواقع ایجاد نہ کئے جائیں تو یہی کمزور اور مستضعف طبقہ بالخصوص مزدوروں کا طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوگا۔ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس وقت حکام کی بہت اہم ذمہ داریاں ہیں، ایک طرف وہ لوگوں کو صحیح طریقے اور قانونی راستے سے اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم کریں کیونکہ اسلام میں ثروت و دولت پیدا کرنا ناپسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ غلط طریقے اپنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ دھوکے، فریب اور عمومی دولت کے غلط استعمال کا سد باب کیا جائے کیونکہ یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ ٹاپ انصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںدنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں نہ غربت کا خاتمہ ہو سکا ہے، نہ انصاف قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اخلاقیات کی ترویج ہو پائی ہے۔ دولت کی پیداوار تو بے پناہ ہے لیکن اخلاقیات تنزل اور انحطاط کا شکار ہیں۔ دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں کام اور اقتصادی سرگرمیوں کا نصب العین دولت کمانا ہے۔ اس نظام میں بنیاد، اقتصادی نشو نما، اقتصادی ترقی اور دولت و ثروت کا اضافہ ہے۔ جو دولت کمانے میں آگے ہے وہی سب سے اہم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ وہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ طبقاتی فاصلہ بڑھے۔ آمدنی کے فاصلے اور بڑی تعداد میں عوام کا نادار ہونا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے تشویش کی بات نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ روش اور طریقے منفی اور ناقابل قبول ہیں جو ثروت کی تقسیم کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا ہے یہ تو بالکل بے معنی چیز ہے کہ آپ دولت جمع کیجئے تاکہ اسے آپ سے لیکر منصفانہ طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ بے معنی چیز ہے۔ اس طرح تو ترقی کا راستہ رک جائے گا۔ٹاپ ثروت کی تقسیمجو لوگ کہتے ہیں کہ انصاف، غربت و افلاس بانٹنے کا نام ہے، ان کی بات کا لب لباب یہ ہے کہ انصاف کے چکر میں نہ پڑئے، پیداوار کی فکر کیجئے تاکہ تقسیم کے لئے ثروت تو حاصل ہو۔ انصاف کو نظر انداز کرکے ثروت کے حصول کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آج سرمایہ دارانہ ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے دولت مند ترین ملک یعنی امریکا میں بھی ایسے افراد ہیں جو بھوک اور گرمی و سردی سے فوت ہو جاتے ہیں، یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں، وہ حقائق ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نظام کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ ملک کے اندر سارے لوگ نعمتوں سے بہرہ مند ہوں، ملک میں محرومی نہ ہو، غربت نہ ہو، تفریق نہ ہو، وسائل و مواقع کا غیر مساویانہ استعمال نہ ہو، قانون کا امتیازی استعمال نہ کیا جائے۔ ٹاپ دولت کی تقسیم کا معیارجب انصاف کو نظر انداز کرکے دولت حاصل کی جاتی ہے تو نوبت یہ ہو جاتی ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ شاطر اور اور تیز قسم کے ہیں، راتوں رات دولت کا انبار لگا لیتے ہیں جبکہ اکثریت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ حسرت و محرومی میں زندگی بسر کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ تو بڑی ہی قابل رحم حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ بنابریں یہ کہنا کہ انصاف کی بات نہ کیجئے دولت و ثروت حاصل کرنے کی فکر کیجئے اور اس کے لئے یہ جواز بھی پیش کر دینا کہ جب دولت آ جائے گی تب انصاف کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے گا، درست نہیں ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جو وسائل ہیں وہ منصفانہ انداز میں اور معقول حد تک تقسیم ہوں۔ یہ بھی نہ ہو کہ بے حساب کتاب سب کچھ تقسیم کر دیا جائے۔ کوشش یہ ہونا چاہئے کہ وسائل میں مزید اضافہ ہو تاکہ سارے لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔ ٹاپ اسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیماسلامی نظام کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ ثروت مند ہونا چاہئے، پسماندہ او مفلس نہیں۔ اسلامی نظام اقتصادی ترقی پر یقین رکھتا ہے لیکن رفاہ عامہ اور سماجی انصاف کے لئے اقتصادی ترقی سب سے اہم مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں افلاس و غربت نہ رہے۔ کوئی فقیر نہ ہو اور عمومی وسائل کے استعمال میں امتیاز و تفریق نہ ہو۔ جو بھی اپنے لئے کچھ وسائل تیار کر لے وہ اس کی ملکیت ہو لیکن جو چیزیں عمومی ہیں مثلا مواقع اور وہ وسائل جن کا تعلق پورے ملک سے ہے اس میں کوئی تفریق اور امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اسلامی نظام کا مقصد دولت کا انبار لگانا ہے۔ یعنی کچھ ہی لوگوں کو دولت پیدا کرنے کے مختلف وسائل و مواقع دستیاب ہوں۔ ملک کی اوسط شرح ترقی دو برابر ہو جائے یا مجموعی پیداوار دو گنا ہو جائے۔ البتہ یہ اعداد و شمار بعض حالات میں انصاف کی سمت پیش قدمی کی بھی علامت ہو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ٹاپ انٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفجو لوگ علمی و تحقیقاتی یا پلاننگ کے مراکز میں ہیں اور معیشت، سیاست، عالمی سیاست اور دیگر ملکوں کے حیاتی امور پر نظر رکھتے ہیں وہ اس فکر میں نہ پڑیں کہ مغربی فارمولوں کو، مغرب کے اقتصادی اصولوں کو، عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے فارمولوں کو دیگر ملکوں کے امور میں نافذ کریں۔ یہ نظریہ ایران جیسے ملک کے لئے مفید نہیں ہے۔ البتہ ان کے علم و دانش سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی سائنسی ترقی ہو اور سائنسی تجربہ ہو اس سے یقینا استفادہ کیا جائے گا لیکن خاکہ اور منصوبہ قومی نظرئے اور ضروریات کے مطابق ہی طے پانا چاہئے۔ ملیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد جو واقعی بڑے محنتی، نکتہ سنج، سنجیدہ اور ذمہ دار شخصیت کے مالک ہیں، تہران آئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مشرقی ایشیا میں گوناگوں تبدیلیاں ہوئی تھی۔ ملیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں اقتصادی زلزلہ آ گیا تھا۔ یہی صیہونی سرمایہ دار اور دوسرے سرمایہ داروں نے بینکنگ کے شعبدوں اور مالیاتی حربوں کے ذریعے کئی ملکوں کو دیوالیہ کر دیا تھا۔ اس وقت جناب مہاتیر محمد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہماری حالت فقیروں والی ہو گئی ہے۔ جب بھی کوئی ملک اقتصادی طور پر منحصر ہو جاتا ہے دوسروں پر اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اقتصادی فاومولوں پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے تو اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ خود یہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی اسی شعبدے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے کہ دنیا کی تبدیلیوں کی باگڈور ایسے عالمی مافیاؤں کے پاس ہو جو اس وقت دنیا پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ ٹاپ
مقدس دفاع کے موضوع پر کام کرنے والے ملک کے فنکاروں، ہدایت کاروں، مصنفین، شعراء اور دیگر شخصیات نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مقدس دفاع کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں اور سیریلوں کو فن و ہنر کے شعبے کی اہم تخلیقات سے تعبیر کیا اور فرمایا: آٹھ سالہ مقدس دفاع کی اعلی انسانی صفات کی فنکارانہ تصویر کشی قابل قدر کوشش ہے جس میں یقینی طور پر اس عظیم واقعے کے اثرات نمایاں ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ مبارک رمضان کے تیسرے جمعے کی نماز میں روزہ داروں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سیاسی طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی سیاسی زندگی کو امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت سے ہم آہنگ قرار دیا اور فرمایا: یوم قدس امام (خمینی رہ) کی سب سے اہم یادگاروں میں سے ایک ہے، لہذا پوری طرح بیدار ملت ایران فضل خدا سے آئندہ جمعے کو دنیا کی ظلم مخالف قوموں میں پیش پیش رہتے ہوئے ملت فلسطین کی حمایت کا پرچم بلند کرے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس رمضان المبارک سن چودہ سو تیس ہجری قمری برابر بیس شہریور سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق گیارہ ستمبر سن دو ہزار نو عیسوی کو تہران یونیورسٹی میں مرکزی نماز جمعہ پڑھائی۔
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلامی معیشت میں انفاق
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
اسلام میں نجی مالکیت
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلامی معاشرے میں اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزادی ہے لیکن یہ مطلق آزادی نہیں بلکہ اس کی کچھ حدود ہیں۔ ہر طرح کی آزادانہ فعالیت اور حرکت کی کچھ نہ کچھ حدود اور ضوابط ہوتے ہیں۔ اسلام میں یہ حدود خاص طرح کی ہیں۔ سوشیلسٹ معاشروں میں بھی دولت و ثروت رکھنے کی کچھ حدود و قیود ہیں لیکن وہ حدود اسلامی حدود سے مختلف ہیں اور اسی مقدار میں اقتصادی سرگرمیوں کی آزادی کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ کمیونسٹ اور مارکسسٹ نظرئے سے مختلف ہے۔ شاید یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اسلامی نقطہ نگاہ بھی سرمایہ دارانہ مکتب فکر سے بھی اتنا ہی مختلف ہے جو مغرب میں اس وقت رائج ہے اور جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ آج جو صورت حال مغرب میں ہے اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ سرمایہ داری جس مفہوم میں مغرب میں رائج ہے اسلام اس کی قطعی تائید نہیں کرتا بلکہ متعدد احکام ایسے ہیں جو اس کے مقابلے اور سد باب کا عندیہ دیتے ہیں۔ اسلامی اقتصاد کے تعلق سے جو باتیں بتائی گئی ہیں ان کا نمونہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے میں آزاد اقتصادی فعالیت کی حدود وہ چیزیں ہیں جنہیں فقہ کی کتابوں میں حرام کمائی اور حرام مال قرار دیا گيا ہے، یعنی سود کا لین دین، لاعلمی و فریب کا سودا، وہ سودا جس میں کسی کو دھوکا دیا جا رہا ہو یا نقصان پہنچایا جا رہا ہو۔ وہ تجارت جو حرام آمدنی سے کی جائے، ذخیرہ اندوزی جس سے کچھ لوگ بڑے مالدار بن جاتے ہیں، اس کے ذریعے سودا حرام ہے۔ اسی طرح دیگر چیزیں جو اسلام کی مقدس شریعت میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے میں آزاد اقصادی سرگرمیوں کی حدود ہیں۔
بعض چیزوں کا سودا حرام ہوتا ہے، مثلا شراب یا دیگر حرام اور نجس چیزیں، کچھ استثنائی مواقع کو چھوڑ کر ان کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ یا اسی طرح وہ مال جو کسی شخص کا نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا ہے جیسے انفال کچھ مخصوص مواقع کے علاوہ اس کا سودا عام لوگوں کے لئے یا غیر حکومتی سطح پر ناجائز ہے۔ اسلامی فقہ میں اسی طرح کی کچھ اور چیزیں بھی ہیں جنہیں معین کیا گيا ہے اور بتایا گيا ہے کہ یہ آزادانہ تجارتی سرگرمیاں کس حد تک جائز ہیں اور کہاں ناجائز اور حرام و ممنوع ہیں۔
اسلامی معاشرے میں اقتصادی آزادی یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایسی پالیسی اختیار کرے اور ایسے قانون وضع کرے جس کی بنا پر معاشرے کے تمام افراد آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے پر قادر ہوں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اقتصادی سرگرمیاں کرنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسلام کے اقتصادی نظام اور مغربی نظام کا ایک بڑا فرق ہے۔ معاشرے میں حقیقی معنی میں آزاد معیشت وجود میں لانے کا طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے انحصار اور اجارہ داری کو توڑا جائے۔ ایسی سہولتیں فراہم کی جائيں کہ معاشرے کے اکثر و بیشتر افراد، معاشرے کے بیشتر طبقات یا سارے کے سارے لوگ جو کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، زمین، سمندر، میدانوں اور چراگاہوں کے وسائل و امکانات سے استفادہ کر سکیں۔
امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں: ما رئیت نعمۃ موفورۃ الا و فی جانبھا حق مضیع یعنی میں نے کہیں بھی نعمتوں کی کوئی ایسی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جس میں کسی کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔ اس حدیث کا ایک بڑا لطیف مفہوم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے وہ کچھ لوگوں کا حق غصب کئے جانے اور چوری کا نتیجہ ہے اور اس غاصب کا نشانہ بننے والے کچھ کمزور اور مظلوم افراد بھی ہیں۔ پھر اس حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں کے پاس دولت ہے جنہوں نے چوری کی نہ کسی کا مال غصب کیا ہے بلکہ اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے، دولت زیادہ ہے، وسائل کی بہتات ہے، وہاں در حقیقت یہ دولت اور ثروت اپنے مالک کو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے بہت زیادہ وسائل فراہم کر دیتی ہے اور ان وسائل کو دوسروں کی دسترسی سے نکال دیتی ہے۔ معاشرے میں جس کے پاس دولت زیادہ ہے وہ زیادہ دولت کما سکتا ہے اور ان چیزوں سے زیادہ بہتر استفادہ کر سکتا ہے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے، جبکہ یہ غریب کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہذا جس کے پاس زیادہ دولت ہے اس کے پاس زیادہ مواقع ہیں، زیادہ وسائل ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کا میدان اس کے پاس ہے۔ اکثر ممالک میں ایسے ہی افراد اور طبقے کی منشاء کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے۔ اس طرح عوام کی اکثریت جس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے، مواقع سے محروم رہتی ہے۔
بنابریں اس حدیث کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں آزاد معیشت کا راستہ یہ نہیں ہے کہ یہ آزادی صرف ان لوگوں کے قبضے میں رہے جو اقتصادی و مالی توانائی رکھتے ہیں، بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ جن افراد کے پاس مالی و اقتصادی طاقت ہے وہ اس انداز سے کام کریں کہ معاشرے اور نظام کی حالت اور معاشرے کے اندر پائے جانے والے تعلقات و روابط ایسی شکل اختیار کریں کہ جن کے پاس بھی کام کرنے کی طاقت ہے وہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں کریں اور اپنے کام سے مستفید ہوں۔
ٹاپ
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلام میں نجی مالکیت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس کی حد بھی معین کر دی گئی ہے۔ حد کا مطلب یہ نہیں کہ کتنا ریال، کتنا ڈالر، کتنا دینار یا کتنا درہم معین کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ مقدار تو ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ ملکیت کے لئے ضرر و ضرار کی حد رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی کی ذاتی دولت اور سرمائے سے امت مسلمہ یا مسلمانوں کی ایک تعداد کو نقصان پہنچنے لگے تو اس ملکیت کو ضرررساں بننے سے قبل کی حد پر روک دیا جائے گا۔ اسلام میں ذاتی اور نجی ملکیت کا احترام ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ ذخیرہ اندوزی، استحصال، تفریق، انسانوں کی بے حرمتی اور سرکشی پر منتج نہ ہو جائے۔ بری بات استحصال، سرکشی، اسراف اور زیادہ روی ہے۔ ان چیزوں کے باعث ذاتی ملکیت بری ہو جاتی ہے۔ دولت بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ تو نجی ملکیت کی یہ حدیں ہیں۔ اسلام نے ان برائیوں کی روک تھام پر توجہ دی ہے، اسراف کو مسترد اور اسراف کرنے والے کو قابل مذمت قرار دیا ہے اور اسلامی حاکم اور حاکم شرع کو اسراف، استحصال، تفریق، سرکشی اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کی اجازت دی ہے۔ بنابریں اسلامی حاکم اور اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ اختیار ہے کہ اپنے حکم سے اس زیادہ روی کو روکے۔
اسلامی نظام نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے، لوگوں کی اقتصادی کوششوں اور سرگرمیوں کو بھی مانتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ضرورتمندوں اور محتاج لوگوں کے رفاہ و آسائش کے لئے بھی معاشرے کو ایک اک قدم آگے لے جاتا ہے۔ آزاد اسلامی معیشت میں اقتصادی آزادی کے تقاضے کے مطابق معاشرے کے اقتصادی امور کی ذمہ داری اور اقتصادی امور کا سنگین بار عوام کے دوش پر ہوتا ہے۔
ٹاپ
اسلامی معیشت میں انفاق
اسلامی نظام میں لوگوں کو آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا حق ہوتا ہے، سب حکومت کے ملازم نہیں ہیں، لوگ خود کام کر سکتے ہیں، اپنے طور پر سعی و کوشش کر سکتے ہیں، خود اپنی آمدنی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ معاشرے کا مالی و اقتصادی خلا بھی خود عوام کے ذریعے بھرا جانا چاہئے۔ یعنی انفاق کیا جائے۔ قرآن میں جو انفاق کا ذکر موجود ہے وہ معاشرے کی آزادانہ اقتصادی سرگرمیوں کی ہی بنا پر ہے۔ جب لوگ خود پیسہ کما رہے ہیں تو انہیں معاشرے کی ضرورتیں بھی پوری کرنا چاہئے۔ خلا کو پر کرنا چاہئے۔ انفاق کا مطلب اسی خلا کو پر کرنا ہے۔
انفاق ایک اسلامی اصول ہے۔ انفاق کرنا، پیسہ دینا، اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور اقتصادی خلا کو بھرنا براہ راست عوام اور لوگوں کی ذمہ داری ہے جو معاشرے میں آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جس کے باعث حکومت کو پیسے کی ضرورت پڑ جائے تو اس پیسے کا انتظام عوام کو کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کو کوئی جنگ پیش آ جائے، کوئی تخریبی واقعہ ہو جائے، کوئی بیماری پھیل جائے، کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو جائے تو اس سلسلے میں اسلام کا کہنا یہ ہے کہ عوام حتی الوسع مدد کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ چونکہ سارے لوگوں کی استطاعت یکساں نہیں ہے اس لئے جو زیادہ خوشحال ہیں، جن کے پاس زیادہ وسائل و امکانات ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔
دولت اندوزی، عدم انفاق اسلام کی نظر میں غیر اخلاقی فعل اور گناہ ہے، اسے گناہ کبیرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنے سرمائے کے ذریعے کام کرنے کا اختیار دیا گيا ہے تو انہیں حق ہے کہ وہ جائز طریقوں سے دولت کمائے اور جمع کرکے رکھ لیں خواہ معاشرے کو ان کے سرمائے اور ان کے وسائل کی شدید احتیاج ہو، وہ اللہ کی راہ میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پیسہ خرچ نہ کریں۔ اسلام میں انفاق یعنی ضرورتمندوں پر پیسہ خرچ کرنا ایک اصول اور حکم ہے۔ اللہ کی راہ میں پیسہ خرچ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہا گيا ہے کہ سودا نہ کیجئے، پیسہ نہ کمائیے۔ کمائیے لیکن خرچ بھی کیجئے۔ اسلام لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انہوں نے جو حاصل کیا ہے اس میں سے اپنی ضرورت اور احتیاج کے مطابق خرچ کریں۔ ایسا بھی نہیں کہ عسرت و تنگدستی میں زندگی بسر کریں، ایک عام سطح کی زندگی ایک حد تک آسائش و رفاہ کے ساتھ، اتنا اپنے اوپر خرچ کریں، اس کے بعد جو بچے اسے معاشرے میں رفاہ عامہ کے لئے صرف کریں۔ اگر کسی نے دولت حاصل کی اور اسے اسراف کے ساتھ، فضول خرچی کے ساتھ، ٹھاٹ باٹ، گراں قیمت غذا، گراں قیمت کپڑوں، گراں قیمت سواری، گراں قیمت رہائش پر خرچ کر دیا یا سارا پیسہ جمع کرکے بیٹھ گيا تو یہ اسلام کی نظر میں مذموم ہے۔ عدم انفاق مذموم اور منفور ہے اور اگر اس کے ساتھ ذخیرہ اندوزی بھی ہو تو حرام ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ واللہ لا یحب کل مختال فخور الذین یبخلون و یامرون الناس بالبخل جو لوگ بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کا راستہ دکھاتے ہیں، دوسروں کو بھی انفاق فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ اس بخل کا مطلب یہی نہیں ہے کہ وہ شرعی حقوق ادا نہیں کرتے بلکہ شرعی حقوق کے آگے کی بھی چیزیں روک لیتے ہیں۔ اگر معاشرے کو ضرورت ہے اور کسی انسان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو اسے شریعت کی جانب سے معین کردہ مقدار سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔
کچھ لوگ ہیں جنہوں نے عمومی وسائل کے ذریعے دولت جمع کر لی ہے۔ دولت صحیح اور جائز راستے سے جمع کی گئی ہے لیکن اگر معاشرے کو اس کی ضرورت ہے اور وہ اسے دبائے بیٹھے ہیں تو یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اسلام سے یہ درس نہیں ملا ہے بلکہ اسلام اس کے برعکس عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ معروف آیۃ کریمہ ہے: الذین یکنزون الذھب والفضۃ و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم جو لوگ سیم و زر کا خزانہ جمع کر لیتے ہیں، ذخیرہ تیار کر لیتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے- یہ صرف سونے اور چاندی سے مختص نہیں بلکہ پیسہ، سرمایہ اور دولت کا بھی یہی حکم ہے- جمع کرکے رکھتے ہیں جبکہ معاشرے کو اس کی شدید احتیاج ہوتی ہے لیکن وہ راہ خدا میں اسے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ان پر بھی یکنزون الذھب و الفضۃ کا ہی اطلاق ہوگا۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: فبشرھم بعذاب الیم اگر یہ (ذخیرہ اندوزی) گناہ نہیں، اگر یہ گناہ کبیرہ نہیں تو فبشرھم بعذاب الیم کیوں کہا گیا؟ انہیں دردناک عذاب کی نوید سنا دیجئے۔ یعنی ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کے دردناک عذاب ک لئے تیار رہیں، یہ دردناک عذاب دنیا میں ان کے ان اعمال کے فطری نتیجے اور عواقب کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، جس کے اثرات خود انہی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے عواقب آخرت میں سامنے آئیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں جگہ سامنے آئیں۔ یعنی اس کام پر دردناک عذاب دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا۔ بنابریں انفاق واجب و ضروری فعل ہے۔
ٹاپ
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
نجی سیکٹر کو کام اور پیداوار کے میدان میں اترنے کے لئے ترغیب دلائی جانی چاہئے۔ ملک کی بیشتر پیداواری یونٹیں حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ البتہ ایک معینہ مقدار خود آئین نے مختص کی ہے جو اس موجودہ مقدار سے بہت کم ہے۔ حکومتی سیکٹر میں اس بھیڑ کی وجہ بعض پالیسیوں کی خرابی ہے۔ اس مقدار کے علاوہ جسے آئین نے معین کیا ہے اور جس کا حکومت کے ہی اختیار میں ہونا لازمی قرار دیا گيا ہے، بقیہ شعبوں میں نجی سیکٹر کو روزگار اور پیداوار کی ذمہ داری سنبھالنا چاہئے۔ البتہ یہ چیز واضح رہے کہ نجکاری صرف یہ نہیں ہے کہ حکومتی کمپنیوں کو کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طرح، ملک کا مفاد مد نظر رکھے بغیر غیر سرکاری سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ سرمایہ کار کو ترغیب دلانا چاہئے کہ میدان میں اترے۔ ذخائر اور وسائل کی اس طرح نشاندہی کی جانی چاہئے کہ نجی سیکٹر کو ترغیب ملے۔ یہ کام درست انداز میں اور معیاری سطح پر ہونا چاہئے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ یونٹیں پیداواری صلاحیت و توانائی رکھتی ہیں یا نہیں۔ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر ان میں یہ صلاحیت و توانائی ہے تب تو انہیں اس کا موقع دیا جانا چاہئے۔ بنابریں صلاحیت کے مطابق انتخاب کیا جائے، رشتہ داری، ناتے داری اور سیاسی دوستی و قربت کی بنا پر نہیں۔ اگر ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو نجی سیکٹر کو ترغیب ملے گی اور وہ میدان میں اترے گا۔
ٹاپ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی آزادی اسلامی حاکم کی دیکھ بھال میں ہونی چاہئے۔ اس دیکھ بھال کا کیا مقصد ہے؟ مقصد یہ ہے کہ یہ آزادی بد عنوانی اور فساد پر منتج نہ ہو۔ یہ آزادی دوسروں کے اختیارات سلب ہو جانے کا باعث نہ بنے۔ اظہار خیال کی آزادی، سیاسی آزادی اور ثقافتی آزادی کے سلسلے میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اقتصادی آزادی کا یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ جن افراد کے پاس اقتصادی سرگرمیوں کی طاقت و توانائی ہے وہ جس چیز کی چاہیں پیداوار کریں، جس طرح چاہیں چیزوں کو بازار میں لائیں، جب چاہیں سپلائی کریں، جیسے چاہیں فروخت کریں اور جس طرح چاہیں استعمال کریں، تو یہ یقینی طور پر اسلام کا نظریہ نہیں ہے۔ اسلام نے اقتصادی آزادی اور نجی مالکیت کے ساتھ جو اس نے معاشرے کے ہر فرد کو عطا کی ہے، ان سارے امور پر حکومت کی نظارت و نگرانی کو لازمی قرار دیا ہے۔ یعنی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ ہونے پائے۔ چیزوں کے خرچ میں بھی اس بات پر نظر رکھے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ البتہ ایک حد تک اسراف ذاتی اور انفرادی گناہ ہے، اپنے گھر میں کوئی کسی چیز کو فضول خرچی کے ساتھ استعمال کرے تو یہ یقینا ایک فعل حرام ہے، ایک گناہ ہے لیکن یہی چیز اس حد تک بڑھ جائے کہ اس سے معاشرے کے اقتصادی نظام کو خطرات لاحق ہو جائیں، معاشرے میں اس سے غربت و افلاس بڑھنے لگے، عوام کا بہت بڑا طبقہ محرومی کا شکار ہونے لگے، جو چیزیں انسانوں کی کد و کاوش کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اسے تلف اور ضائع کیا جائے تو پھر اسلامی حکومت پر یہ فرض آن پڑتا ہے کہ اس اسراف کا سد باب کرے، اس فضول خرچی کا مقابلہ کرے۔ البتہ یہ چیز ایک معاشرے تک محدود نہیں ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسلام کا یہی سبق ہے۔ اس وقت جو ممالک غذائی اشیاء کے استعمال میں اسراف کر رہے ہیں، دنیا کے بعض دولتمند ممالک دنیا کی ستر فیصد غذائی اشیا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی پینتیس چھتیس فیصدی ہے، اگر دنیا میں منصفانہ اقتصادی نظام ہو، اگر دنیا میں طاقتور مالیاتی ادارے ہوں تو ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا میں کچھ با ضمیر حکومتیں اور کچھ تنظیمیں سامنے آئیں اور اپنی طاقت دنیا کی قوموں اور انسانوں کے مفاد میں استعمال کریں ، مثلا ان حرکتوں کو روکیں کہ امریکا ہر سال کئی ملین ہکٹیئر زراعتی زمین پر کھیتی نہیں ہونے دیتا تاکہ غلے کی قیمت گرنے نہ پائے، جبکہ دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے کئی ہزار بچے روزانہ بھکمری کا شکار ہوکر تلف ہو رہے ہیں، جبکہ دنیا کے دس سے پندرہ فیصدی عوام خشکسالی کی مار جھیل رہے ہیں، دنیا کی بہت بڑی آبادی غذائی اشیاء کی قلت سے دوچار ہے۔ یا مثلا اس جیسے اقدامات کو روکا جائے کہ کئی سال قبل یورپ کے مشترکہ بازار نے بہت بڑی مقدار میں غذائی اشیاء اور غلے کو سمندر میں پھنکوا دیا تاکہ اناج کی قیمت میں گراوٹ نہ آئے اور عالمی منڈیوں میں قیمتییں نیچے نہ جائیں۔ بنابریں اسراف، پیسے کے ضیاع کو روکنا اور عالمی اقتصادی نظام میں زیادہ روی اور اسراف سے مقابلہ اسلام کی نظر میں اتنا ہی اہم ہے۔
معلوم ہوا کہ آزاد معیشت اور نجی مالکیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی شخص جتنا چاہے خرچ کرے جبکہ اس کے اس اسراف سے بہت سے افراد بھکمری کا شکار ہیں، بہت سے لوگ بیماری میں مبتلا ہیں، بہت سے لوگ بنیادی ترین ضروتوں سے محروم ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ درست نہیں ہے اور اس سے سختی سے روکا گيا ہے۔
ٹاپ
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
اسلام میں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں معاشرے کے سیاسی مستقبل کو متاثر کریں اور ساسی نظام میں مداخلت شروع کر دیں۔ اس وقت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک میں جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ بڑے ملکوں کو حقیقی معنی میں بڑے سرمایہ دار ہی چلا رہے ہیں۔ ان کے کچھ عناصر حکومتی نظام کے اندر بھی موجود ہوتے ہیں جو تیل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے بڑے شیئر ہولڈر ہوتے ہیں۔ اگر ان کے افراد حکومت میں نہ بھی ہوں تو وہ پردے کے پیچھے رہ کر انتخابات کو کنٹرول کرتے ہیں، صدر کا تعین کرتے ہیں۔ سیاسی میدان میں کسی شخص کی ترقی یا تنزلی سنیٹ یا ایوان نمایندگان میں کسی کا جانا یا باہر نکلنا ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جو قوانین وضع کئے جاتے ہیں انہی کے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، ان کے مفادات کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ بنابریں مغربی دنیا کو سرمائے کی حکمرانی کی دنیا کہنا چاہئے۔ کیپیٹلزم کے معنی سرمایہ داری بتائے جاتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتر ترجمہ سرمائے کی محوریت اور سرمائے کی حکومت اور معاشرے کے امور پر کمپنیوں، دولتمندوں اور سرمایہ داروں کا کنٹرول ہے۔ یہ چیز اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔ جس عمل کا بھی یہ نتیجہ ہے ہو اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔
ٹاپ
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
سرمایہ داری یعنی عوام کے استحصال سے جمع کی جانے والی دولت کا استعمال، یعنی وہ سرمایہ جس کے ذریعے استحصال کیا جائے، وہ سرمایہ جس کا مالک کچھ نہ کرے بس بیٹھ کر اس کے ذریعے دوسروں کا استحصال کرے، دوسروں کو لوٹے، استحصال ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔ اس طرح کی سرمایہ داری کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ آج دنیا میں سرمایہ داری کا یہی مفہوم ہے۔ اگر نجی ملکیت فساد و ظلم و تفریق و امتیاز کا باعث بن سکتی ہے تو سرکاری مالکیت بھی ایسی ہو سکتی ہے۔ جن ملکوں میں سرکاری مالکیت کا رواج ہے وہاں بھی بد عنوانی و ظلم و تفریق ہے لیکن ایک الگ شکل میں اور کچھ دوسرے طبقات کے درمیان۔
ٹاپ
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
مغربی نظام حکومت میں جیسا کی دعوی کیا جاتا ہے آئین کی رو سے عوام اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزاد ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ آزادی سبھی لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ عظیم ذخائر، یہ سمندر، یہ قدرتی ذخائر، یہ زرخیز میدان، یہ معدنیات، یہ سارے وسائل جنہیں معاشرے کی عمومی دولت کہا جاتا ہے۔ یہ چیزیں آسانی سے معاشرے کی ہر فرد کو دستیاب نہیں ہوتیں اور ہر طبقے کو بآسانی اس پر کام کرنے اور فائدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عملی طور پر تو یہ آزادی بس انہی لوگوں کو ہوتی ہے جن کے پاس دولت کا انبار لگا ہوا ہے۔ جن کے ہاتوں میں معاشرے کی اقتصادی شہ رگ ہی نہیں سیاسی باگڈور بھی ہوتی ہے۔ قدرتی ذخائر اور سرمائے پر در حقیقت انہی کا تسلط اور قبضہ ہوتا ہے، وہی اس سے منمانے انداز میں استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے عام لوگوں کے لئے ان وسائل کے استفادے کا راستہ محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے خواہ وہ دولتمند ممالک ہوں یا تیسری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے غریب ممالک، ان میں عوام غربت و افلاس کی مار جھیل رہے ہیں۔ آبادی کا بیشتر حصہ تو غربت، بے روزگاری، محرومیت اور رہائش کی مشکلات سے دوچار ہے، بس ایک مخصوص طبقہ آزادنہ سرگرمیاں کر رہا ہے، دولت جمع کر رہا ہے، اس کے پاس کانیں موجود ہیں اور وہ مزید کانیں حاصل کرتا جا رہا ہے۔
کارخانے موجود ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر کی دولت سے استفادہ کر رہا ہے۔ در حقیقت تمام قدرتی ذخائر معاشرے کے اسی مخصوص طبقے کے پاس ہیں۔ بقیہ طبقات جن میں نوکری پیشہ افراد، مزدوروں کا طبقہ، کان کنوں کا طبقہ، کارخانوں میں کام کرنے والے افراد اور زراعتی کاموں میں مصروف افراد شامل ہیں، سب کے حصے میں بس وہی چیزیں آتی ہیں جو اس مخصوص طبقے سے بچ گئی ہیں اور جن کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پیداواری سرگرمیاں انجام دینے، ذخائر سے استفادہ کرنے، امکانات سے بہرہ مند ہونے اور حقیقی معنی میں دولت کمانے اور اکٹھا کرنے کا موقع نہیں ملتا، انہیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ٹاپ
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
سوشیلزم اور مارکسسٹ نظرئے پر استوار دیگر مکاتب فکر میں نجی مالکیت کے لئے کچھ حدیں رکھی گئی ہیں لیکن یہ حدیں اسلامی حدود سے مختلف ہیں۔ ان مکاتب فکر میں پیداوار کے ذرائع کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے۔ یعنی کوئی بھی فرد زمین، کارخانے اور اس جیسی چیزوں کا مالک نہیں بن سکتا جو پیداوار کی ذریعہ ہیں۔ مارکسسٹ نظرئے اور سوشیلسٹ معیشت میں خرید و فروخت، بیع و شراء اور سودا ایک مذموم فعل ہے، ایک غیر اخلاقی عمل تصور کیا جاتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے مطابق، جس شخص کے پاس سرمایہ ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خرید و فروخت ممنوع ہے۔ مارکسسٹ نظرئے کی رو سے خرید و فروخت اور سودا مذموم دلالی اور نا پسندیدہ فعل ہے۔
سوشیلسٹ ممالک اور ایسے معاشروں میں جہاں حکومت تمام کارخانوں، زمینوں اور پیداواری ذرائع کی مالک ہوتی ہے اور عوام اس کے ملازم، عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر معاشرے میں جنگ، زلزلہ، بیماری یا اسی طرح کی کوئی اور افتاد آن پڑے تو حکومت کے یہ ملازمین کیا کریں گے؟ ان کے پاس اپنے جسم و جان کے علاوہ دینے کے لئے کیا ہوگا؟
ٹاپ
عالمی یوم قدس نزدیک آکر دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع و حمایت کی سنگین ذمہ داری کی، پہلے سے زیادہ تاکید کے ساتھ، یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو (ایک نقطے) پر مرکوز کر دیا، نتیجے میں ہم ہر سال مسلمانوں میں اس دن (یوم قدس) کی وسیع پذیرائی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر مملکت اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں انصاف کے قیام، بد عنوانی کے مقابلے، کمزور طبقات کی مدد، سادہ زیستی، محروم علاقوں پر توجہ اور عوام کے مسائل بالخصوص بے روزگاری اور افراط زر پر قابو پانے جیسے بنیادی اہداف کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ونیزوئلا کے صدر اور ان کی زیر قیادت تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ونیزوئلا کو چاہئے کہ اپنے تعاون کو فروغ اور وسعت دیکر خود مختاری کے نوتشکیل شدہ محاذ کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کے مقابلے کے لئے روحانی و نفسیاتی استحکام کو لازمی قرار دیا اور فرمایا: اگر انسان کے اندر جذبہ استقامت پیدا ہو جائے تو اسے عملی میدان میں شکست و ناکامی کا سامنا نہیں ہوگا۔
فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر شعرا اور علمی شخصیات نے بڑی مہر آگیں فضا میں قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد حاضرین نے قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز مغرب و عشا ادا اور روزہ افطار کیا۔ اس موقع پر بعض نوخیز اور کچھ کہنہ مشق شعرا نے دینی، سماجی و اخلاقی موضوعات پر اپنے اشعار پیش کئے۔ اس تقریب سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے انقلابی شعرا کی سطح کے قابل تعریف ارتقاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: الفاظ، معانی، انداز، الفاظ کا انتخاب اور تخیل کی وسعت یہ سب کچھ ملک میں شعری ذوق کے پروان چڑھنے کی علامتیں ہیں۔
پندرہ رمضان المبارک سن چودہ سو تیس ہجری قمری، چودہ شہریور سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق پانچ ستمبر دو ہزار نو عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں شعرا کی ایک نشست منعقد ہوئی۔
عدلیہ کا فسلفہ وجودی
جج، عدلیہ کا محور
عدلیہ کی نگرانی
عدلیہ کے فرائض
قیام عدل و انصاف انصاف کی ضرورت انصاف کی بنیاد انصاف کی ضمانت
انصاف کا دائرہ
ملکی سطح پر انصاف عالمی سطح پر انصاف بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات مجرمین کے خلاف کاروائی معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن
عدلیہ سے شاکی افرادمجرم کا دفاع!معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت
سوشل سکیورٹی اقتصادی سکیورٹی اخلاقی تحفظ و سلامتی
عدلیہ
عدلیہ کا فسلفہ وجودی
عدلیہ کا فلسفہ وجودی یہ ہے کہ معاشرے میں انسان مطمئن ہوکر زندگی بسر کرے۔ انہیں یہ یقین ہو کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ نا انصافی کی تو ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو اس مسئلے میں مداخلت کرے گا۔ لوگوں کو یہ اطمینان رہے کہ اگر طاقتور ترین شخص حتی حکومت نے اگر کسی کا حق نظر انداز کیا ہے یا خدا نخواستہ حق مارا ہے تو عدلیہ شجاعانہ انداز میں اسے اس کا حق دلائے گی۔ اگر عدلیہ معاشرے میں یہ احساس اور تاثر قائم کر لے گئی تب تو وہ کامیاب ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اطمینان پیدا ہو گیا تو کوئی بھی افواہ اور دشمنوں کے ذریعے بنائی جانے والی فضا اور ماحول ناکام و بے اثر رہے گا۔ کیونکہ عوام عملی میدان میں عدلیہ کے وجود کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں بے باک و شجاع و فرض شناس جج صاحبان نظر آئیں گے جو کسی بھی دھونس اور دھمکی میں نہیں آتے۔ اگر لوگوں نے دیکھا کے جج کسی بھی دھونس اور دھمکی پر توجہ دئے بغیر اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے تو افواہوں اور الزام تراشی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
ٹاپ
جج، عدلیہ کا محور
عدلیہ کا محور جج ہوتا ہے جبکہ بقیہ امور اور ذیلی ادارے جج کے کام میں مدد کے لئے ہیں۔ عدالت کے اندر اور فیصلہ سنائے جانے کے عمل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ الثمرۃ تنبا عن الشجرۃ یعنی یہ بتاتا ہے کہ اس صف اور اس محاذ کے پیچھے صورت حال کیسی ہے۔ جس دن سارے جج شجاع بن جائیں اور عدلیہ کے مختلف شعبے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے فرائض بخوبی انجام دینے لگیں، آنکھیں کھلی رکھ کر فیصلے کرنے لگيں اس دن انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا حق ہے۔ کیونکہ اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ دشوار حالات میں کسی عظیم اور انقلابی عمل کے لئے صبر و ضبط سے کام لینا صلوات و رحمت الہی کا مقدمہ ہوتا ہے۔ بنابریں انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا پورا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا عمل کرام الکاتبین کے زیر نظر ہے۔ انسان کے اعمال کی تمام تر تفصیلات کو بہترین انداز میں محفوظ رکھنے والے اللہ تعالی کی جانب سے مامور فرشتے اس کے نگراں ہیں۔ اس جذبے اور خیال کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔
ٹاپ
عدلیہ کی نگرانی
عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔
ٹاپ
عدلیہ کے فرائض
اسلامی نظام ہی نہیں ہر نظام کو ایک ایسی عدلیہ کی ضرورت و احتیاج ہوتی ہے جو طاقتور بھی ہو اور معتمد علیہ بھی۔ یہ دونوں بنیادی شرطیں ایک ساتھ ضروری ہیں۔ معتمد علیہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اختیارات محدود کر دے۔ عدلیہ قانون کی حفاظت کے لئے ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کا ایک ستون عدلیہ ہے۔ عدلیہ وہ ادارہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے عظیم مقاصد کا بہت بڑا حصہ جس کی کارکردگی سے وابستہ اور اس پر موقوف ہے۔ عدل و انصاف کا مسئلہ، حقوق کے حصول کا مسئلہ، قانون کی بالادستی کا مسئلہ، تسلط پسندوں، جارحوں اور موقع پرست عناصر کے سامنے مزاحمت و استقامت، عوام کی زندگی میں احساس طمانیت و تحفظ پیدا کرنا وہ چیزیں ہیں جن کی اہمیت اسلامی جمہوری نظام میں ہرگز کم نہیں ہو سکتی اور یہ وہ فرائض ہیں جن کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ عدلیہ ان کے لئے ذمہ دار ہیں۔ آئین میں اس محکمے کے لئے جو ذمہ داریاں معین کی گئی ہیں وہ مختلف پہلوؤں سے بڑی اہم اور اطمینان بخش ہیں۔ جو فرائض عدلیہ کے لئے رکھے گئے ہیں، اس محکمے کے عہدہ داروں کے لئے آئین اور دیگر متعلقہ قوانین میں اسلامی اصولوں کے مطابق جو شرطیں بیان کی گئی ہیں ان سب کا نصب العین یہ ہے کہ یہ محکمہ بخوبی اپنے فرائض کی انجام دہی کرے۔
ٹاپ
قیام عدل و انصاف
عدل و انصاف کی شجاعانہ پاسبانی عدلیہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ عمل کی روح یہی ہے۔ قانون پر عمل درآمد ہر کسی کے لئے ضروری ہے اور قوانین سے انحراف جرم ہے جس پر نظر رکھنے کا کام عدلیہ کرتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے قوانین کا مجموعہ ایک نقطہ کمال پر مرکوز ہونا چاہئے اور وہ ہے عدل و انصاف۔ بالعدل قامت السموات و الارض
ٹاپ
انصاف کی ضرورت
فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق عدل میں کشادگی اور وسعت ہے ہر شخص کے لئے، حتی اس فرد کے لئے بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے، اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گيا ہے تو اگر اس شخص کو جس کے خلاف یہ فیصلہ گیا ہے اس میں سختی محسوس ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ظلم کو معیار قرار دیا گیا تو فیصلہ اور زیادہ سخت اور ناقابل تحمل ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ ظالمانہ عدالت میں اسے ایک کامیابی مل جائے لیکن زندگی کے دوسرے سیکڑوں مراحل میں نا انصافی کا خطرہ اس کے گریبان گیر ہوگا۔ انصاف کیا جانا چاہئے اور دولت، طاقت، بیوروکریسی، اشرافیہ کچھ بھی عدل پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر عدالت کے اختیارات سے عدل و انصاف کو نقصان پہنچے تو یہ بہت خطرناک ہے۔ عدلیہ کی برتری کو اس انداز سے یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اس سے قیام عدل و انصاف میں مدد ملے کیونکہ عدل ہی معیار و اصول ہے۔ ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے اس کے سلسلے میں عدل و انصاف بس یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے اور پھر مدت پوری ہو جانے کے بعد اسے رہا کر دیا جائے، یہ تو انصاف کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیل اس کے لئے ایسی جگہ نہ بنے جہاں وہ اور زیادہ منحرف ہو جائے، اس کی شخصیت تباہ ہو کر رہ جائے اور اس کا خاندان بد بختی کی زندگی بسر کرے۔
ٹاپ
انصاف کی بنیاد
دنیا و خلقت کے نظام میں انصاف کا کردار بڑا بنیادی و حیاتی ہے۔ خلقت کا مزاج انصاف پر استوار ہے۔ اگر کوئی سماجی نظام اسی مزاج اور خلقت کے الہی قانون کی سمت گامزن ہے تو وہ کامیاب اور زندہ جاوید بن جائے گا۔ انسان اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ قدرت کے قوانین اور سنت الہی کے مطابق خود کو ڈھال لے جو ناقابل تغیر ہے۔ بنابریں عالم خلقت میں انصاف ایک فطری اور بنیادی عنصر ہے۔
ٹاپ
انصاف کی ضمانت
انصاف کی ضمانت دینے والا محکمہ عدلیہ کا محکمہ ہے۔ سارے اداروں کو چاہئے کہ انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ہی اگر محکموں نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے تو بغیر کسی رو رعایت کے اس قانون شکنی کا تعین کرنے اور قانون شکن شخص کو اس کے جرم کی سزا دینے والا طاقتور ادارہ عدلیہ ہے۔ بنابریں اگر عدلیہ کا وجود نہ ہو یا اس کے پاس اختیارات اور طاقت نہ ہو یا ہمت و شجاعت نہ ہو یا کام کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو یا خدانخواستہ کمزوریوں کا شکار ہو جائے تو معاشرے میں انصاف کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔ یہیں سے عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا شجاعانہ دفاع عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
ٹاپ
انصاف کا دائرہ
ملکی سطح پر انصاف
کبھی تو کسی نجی تنازعے کا فیصلہ کیا جاتا ہے مثلا پیسے کا تنازعہ، چند مربع میٹر زمین کا جھگڑا، مار پیٹ کا معاملہ وغیرہ۔ لیکن کبھی انصاف زیادہ اہم مسئلے میں نافذ کیا جاتا ہے جس کا تعلق عوام کی زندگی، حقوق اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی بڑا مالی مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں نے عوام اور فقرا کے سرمائے کی جانب دست درازی کی ہے۔ مثال کے طور پر کسی گاؤں یا شہر میں ایک رقم خرچ کرکے سڑک یا کارخانے کی تعمیر کی جا سکتی ہے جس سے ہزاروں افراد یا ہزاروں خاندانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان کے لئے کھیت اور روزگار کے مواقع مہیا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بے ایمان شخص آکر اس پیسے کو ہڑپ لے جس سے یہ سارے کام ہو سکتے تھے۔ ساری رقم لیکر اپنی طمع کو تسکین دینے کی کوشش کرے تو یہ جرم اس سے بہت بڑا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو طمانچہ مار دے البتہ یہ بھی جرم ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام تو ارش الخدش یعنی ناخون سے کسی دوسرے کے جسم پر خراش ڈال دینے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تاہم جرائم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ بعض جرائم وہ ہوتے ہیں جن کی اہمیت بیحد زیادہ ہوتی ہے۔ جب آپ اس شخص سے نمٹنا چاہتے ہیں جس نے کمال بے رحمی اور بے شرمی سے بیت المال یا عوام کی رقم ہڑپ لی ہے تو اس کے لئے عدالتی شجاعت و اقتدار کی ضرورت ہوگی۔ اگر عدلیہ کے وقار و اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یہ عوام کی زندگی کے نظام پر لگنے والی بہت کاری ضرب ہوگی۔ اسے بھیانک جرم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی یہ ضرب خود عدلیہ کے اندر سے لگے اور کبھی باہر سے وار ہو۔
ٹاپ
عالمی سطح پر انصاف
خود مختاری و خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ اسلامی جمہوری نظام آج عالمی سامراجی نظام کی تسلط پسندی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ آج ملت فلسطین کا حق پامال کرنے کے لئے امریکا، اس کے ہمنوا اور دنیا بھر کے صیہونی اور صف اول کے سرمایہ دار اپنی تمام سیاسی و تشہیراتی توانائی کو بروئے کار لاکر چند ملین فلسطینیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں، انہیں عالمی معاملات سے یکسر نابود کر دینا چاہتے ہیں۔ جہاں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے اور حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے لیکن جب ایران کی باری آتی ہے تو ان کی تلوار کند ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہیں اور اپنے راستے کی اس رکاوٹ کو ختم کر دینے کے در پے ہیں۔ اگر سامراج اپنے مذموم و خباثت آمیز عزائم کے تحت مالی، سیاسی اور تشہیراتی وسائل کے ذریعے ملک کے اندر اپنا کوئی ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور کچھ فریب خوردہ عناصر کو ان کے اپنے ملک کے مفادات کے خلاف استعمال کر لے جائے اور وہ دشمن کی مرضی کے مطابق عمل کریں تو یہ جرم مالی جرم سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ملت ایران کے حق میں ہونے والی اس بے انصافی کا راستہ کون روکے؟ اس کے لئے شجاعت و ارادے اور قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔
ٹاپ
بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات
آئین کی رو سے عدلیہ کی ایک ذمہ داری بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات کرنا ہے۔ پیشگی یا احتیاطی تدابیر کے اپنے خاص وسائل ہوتے ہیں، مناسب ادارے ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کے اداروں، انٹلیجنس اداروں وغیرہ کی مدد سے احتیاطی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی اسلامی ملک میں کوئی بد عنوان شخص، کوئی حریص و چالاک شخص اگر عمومی دولت کو جس پر تمام طبقات کا حق ہے ہڑپ لے جبکہ معاشرے میں بہت سے غریب و نادار لوگ موجود بھی ہیں تو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس سے نمٹنا چاہئے۔ واضح ہے کہ اس حرکت پر عدلیہ، مجریہ اور مقننہ تینوں محکموں کی جانب سے رد عمل آئے گا یہ ادارے خاموش نہیں بیٹھيں گے۔
ٹاپ
مجرمین کے خلاف کاروائی
ہر جگہ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ قانون کے مطابق مجرم کے خلاف اقدام کرے۔ جس نے بھی حد سے تجاوز کیا ہے اسے قانون کے مطابق دوبارہ اس کی حد کے اندر بھیجے۔ اس سب کا اسلامی نظام کی ساخت، صحیح زندگی اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف کی تکمیل میں بڑا اہم کردار ہے۔ قانون شکن قانون داں سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جنہیں قانون سے بخوبی واقفیت ہے جو قانون کے پیچ و خم سے باخبر ہیں، وہ قانون شکنی کرتے ہیں تو معلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ قانون شکنی کہاں پر ہوئی ہے لیکن یہ چیز اسلامی نظام اور امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار کے جذبے سے مکمل طور پر ناسازگار ہے۔ حکومتی اداروں اور دیگر محکموں میں بد عنوانی کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت کے اندر بد عنوانی کو روکنے کے لئے سب سے پہلے خود سرکاری حکام، وزرا اور اعلی عہدہ داروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے، وہ اپنے عملے میں ہرگز بد عنوانی نہ ہونے دیں۔ اگر وہ مقابلہ کا ارادہ رکھتے ہوں اور سنجیدگی سے مقابلہ کریں تو دوسرے کسی بھی ادارے اور شخص سے بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ان کا اپنا دامن بے داغ ہو۔ جو شخص خود بد عنوانی میں غرق ہے وہ بد عنوانی کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ حکام کو چاہئے کہ پوری احتیاط اور مستعدی کے ساتھ اس برائی سے نمٹیں۔ اگر خدانخواستہ حکام نے اپنے اداروں میں بد عنوانی سے نمٹنے میں کوتاہی کی تو پھر عدلیہ کا وارد عمل ہونا ناگزیر ہو جائے گا۔ عدلیہ کو چاہئے کہ کسی بھی امتیاز و تفریق کے بغیر جہاں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی نظر آئے اس کا مقابلہ کرے۔
ٹاپ
معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن
قانون کی بالادستی کی ضمانت کیسے ممکن ہے؟ اس ضمانت کا واحد راستہ ہے عدلیہ۔ عدلیہ نظام کا طاقتور بازو ہے۔ جو جارح اور قانون شکن کا گریبان پکڑ کر اسے اس کی حدود یاد دلاتا ہے تاکہ بقیہ افراد قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں۔ بنابریں عدلیہ کی طاقت اور اس کا اختیار ایک بنیادی چیز ہے۔ تاہم یہ طاقت و اختیارات ایسے ہوں کہ اس سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ جہاں کہیں بھی عدالت ہے اور اس سے لو گ، خواہ بہت کم تعداد میں، رجوع کرتے ہیں، اس عدالت کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ عوام کی معتمد علیہ ہو۔ سب کو یہ یقین و اطمینان حاصل ہو جائے کہ عدلیہ کی یہ یونٹ جو یہاں موجود ہے قانون اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کرتی ہے۔
ٹاپ
عدلیہ سے شاکی افراد
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کچھ افراد عدلیہ سے ناراض رہتے ہیں۔ و ان یکن لھم الحق یاتوا الیہ مذعنین قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جن معاملات میں فیصلے پیغمبر سے کرواتے ہیں اگر ان میں فیصلہ ان کے حق میں ہو تو قبول کرتے ہیں اور اگر فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہو تو اعتراض کرتے ہیں، کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ چیز ہمیشہ دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن معاشرے میں اگر عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قانون اور اپنے فرائض پر عمل کرتی ہے، کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کرتی، قانون شکنی سے سختی سے نمٹتی ہے اور خاص طور پر اگر قانون شکن کا تعلق خود عدلیہ کے شعبے سے ہو تو اور زیادہ سختی سے پیش آتی ہے، اس عدلیہ کو دیکھ کر عوام مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنا چاہئے، اس منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔ البتہ اس کے لئے بڑی تدبیروں کی ضرورت ہے۔ سارے امور واضح اور معین ہوں، عدلیہ کے اعلی عہدہ داروں کے لئے ہر لمحے کی اطلاعات حاصل کرنے کا چست و درست انتظام ہو، عدلیہ کی کارکردگی پر مکمل نظارت۔ سب سے بڑھ کر عدلیہ کی کارکردگی کا طے شدہ منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانا ہے۔
ٹاپ
مجرم کا دفاع!
ہر فیصلے کے کچھ حامی اور کچھ مخالف ہوتے ہیں۔ فیصلے سے ناراض افراد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو کچھ سماجی اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ یعنی اگرچہ فیصلے سے ناخوش ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ جج کو پھاڑ کھانے کو دوڑیں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی اصول و ضابطے پر توجہ نہیں دیتے۔ جج جس نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے اور جو لائق قدردانی ہے اس پر حملہ کر دیتے ہیں اور مجرم کا دفاع کرتے ہیں جس کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔ مجرم کا دفاع جرم ہے۔ جس مجرم کو قانون کی رو سے سزا مل چکی ہے اس کا دفاع در حقیقت قانون کو چیلنج کرنے سے عبارت ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ جج کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ کسی ایک شخص کے ٹیلی فون اور حکم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا، فیصلہ علم، دلیل اور ضمیر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جج پر مختلف انداز سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اخبار کی سرخیوں کے ذریعے، سیاسی حربے اختیار کرکے اور منفی ماحول تیار کرکے۔ جج کو چاہئے کہ وہ ہرگز ان چیزوں سے متاثر نہ ہو، عدالتی سسٹم اور محترم جج صاحبان کو ہرگز ان افراد کے غیر منطقی حربوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے جو عدلیہ کے خلاف ماحول بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف خود ان افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ غیر قانونی کام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کچھ غیر قانونی کاموں کو ملک کے حکام ممکن ہے نظر انداز کر دیں لیکن اس صورت میں نہیں جب اسی کو وتیرہ بنا لیا جائے۔
ٹاپ
معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت
عدالت کی سکیورٹی کا مسئلہ یعنی جب لوگ عدالت کے دروازے پر دستک دیں تو انہیں احساس تحفظ ہو، یہ بہت اہم ہے۔ اس کے لئے عدلیہ کی اندرونی سطح پر حساس، باریک بیں اور متجسس نظروں کی ضرورت ہے۔ اگر عدالتی سکیورٹی کو یقینی بنا لیا جائے تو سیاسی، سماجی، اقتصادی، اخلاقی و ثقافتی سکیورٹی کی بھی ضمانت مل جائے گی۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں آج اپنی دشمنی نکالنے کا بہترین راستہ انہوں نے یہ تلاش کر لیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ دشمن کئی سال سے اخلاقی و ثقافتی سلامتی پر حملے کر رہا تھا اس کے علاوہ سیاسی سلامتی کے سلسلے میں بھی دشمن کی کوشش یہ ہے کہ نظام کے دراز مدتی سیاسی عمل کو درہم برہم کر دیں۔ اس سب کے ساتھ ہی دشمن نے سماجی اور شہری سلامتی کے لئے بھی مسائل و مشکلات کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بحمد اللہ ایران ان ممالک میں ہے جہاں سماجی و شہری سلامتی کی صورت حال بڑی اچھی ہے۔
ٹاپ
سوشل سکیورٹی
عوام کو سلامتی و تحفظ مہیا کرنے کی ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ خواہ وہ سماجی سلامتی ہو، اقتصادی سلامتی ہو، اخلاقی سلامتی ہو یا عزت و وقار کی سلامتی ہو۔ یہ بات درست ہے کہ اجرائی ادارے ان امور میں کسی نہ کسی طرح عدلیہ کے شریک کار ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی سکیورٹی میں محکمہ پولیس عدلیہ کا شریک کار ہے اور دونوں کو مل کر سکیورٹی مہیا کرانا ہے، یہاں پر عدلیہ کا کردار کیا ہے؟ عدلیہ کا کردار یہ ہے کہ جارح شخص کے ساتھ عدلیہ اس انداز سے پیش آئے کہ سب کو عبرت مل جائے۔
ٹاپ
اقتصادی سکیورٹی
اقتصادی سکیورٹی کے ذمہ دار افراد غالبا اجرائی اور انتظامی اداروں میں ہوتے ہیں مثلا وزارت خزانہ، مالیاتی ادارے اور بینک وغیرہ، یہ ذمہ دار ہیں لیکن عدلیہ کی بھی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ان اداروں کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ان کے لین دین میں کوئی اقتصادی بد عنوانی ہو جائے تو عدلیہ کو اس سے اس طرح نمٹنا چاہئے کہ ان افراد کو سبق مل جائے جو عدلیہ کو بد عنوانی سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ بذات خود اقتصادی سکیورٹی کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتصادی بد عنوانی کا مقابلہ اقتصادی سکیورٹی کے درہم برہم ہو جانے کا باعث ہوگا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اقتصادی بد عنوانی کے خلاف کاروائی سے بد عنوانی سے پاک افراد یعنی عوام کی اکثریت کے لئے اقتصادی سکیورٹی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اقتصادی بد عنوانی میں ملوث افراد کی تعداد بہت کم ہے ان سے بہت سختی سے نمٹا جانا چاہئے تاکہ عوام کی اکثریت اور اقتصادی میدان میں سرگرم عمل افراد کو تحفظ کا احساس ہو اور ان کو محسوس ہو کہ جو راستہ انہوں نے منتخب کیا ہے وہی درست راستہ ہے۔
ٹاپ
اخلاقی تحفظ و سلامتی
اسلامی معاشرے میں لوگوں کی عزت و آبرو ایسے افراد کے ہاتھ کا کھلونا نہ بننے پائے جو کسی طرح کا احساس ذمہ داری نہیں رکھتے۔ اداروں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اقدام کریں۔ لوگوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا ان کے خلاف الزام تراشی، عہدہ دار ہو یا عام انسان اس پر بے بنیاد سوالیہ نشان لگانا، ان کے خلاف افواہیں پھیلانا، اسلامی احکام کے سراسر منافی ہے۔ اسلامی شریعت کے خلاف ہے، اسلامی روش کے بر عکس ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی شخص پر مالی بد عنوانی کا الزام لگایا گيا تاکہ وہ آکر خود کو بے گناہ ثابت کرے۔ اس میں اس کا بڑا وقت صرف ہو جائے گا۔ اسلامی معاشرے میں یہ چیزیں بہت اہم ہیں اور ان پر توجہ دینا چاہئے۔ عدلیہ اس سلسلے میں اور معاشرے میں یہ سکیوٹی قائم کرنے کے سلسلے میں بہت اہم کردار کی مالک ہے۔
ٹاپ
پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہشورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہشورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکزشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامنشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباںشورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشتآئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرقعوام کے ووٹوں کی حفاظتقائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد بابصحیح انتخابات کی خصوصیات
دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت
انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیتنا اہل افراد کے لئے سد راہ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدامشورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ
تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی
انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افرادانتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی
چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص
اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہشورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوتاہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصولشورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہےمسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز
پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع
قانون کے مطابق عملشورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد
شورائے نگہبان
پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہ
شورائے نگہبان ایک مقدس ادارہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس ادارے میں ان افراد کو رکھا جاتا ہے جو عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے ہیں۔ کیا کسی ایک شخص کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اس کے عادل ہونے کے لئے ولی فقیہ کی گواہی کافی نہیں ہے؟ جب ولی فقیہ نے کسی کو اس ادارے میں قرار دیا ہے تو وہ شخص عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہ
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل اپنی گفتگو، اقدام اور عمل میں امین و بھروسہ مند ہے۔ سب کو چاہئے کہ اس ادارے کو امین کی حیثیت سے دیکھیں۔ جب کوئی جج فیصلہ سناتا ہے تو ممکن ہے اس وقت کسی شخص کے دل میں کوئی اعتراض ہو اور وہ اعتراض بھی بجا ہو لیکن جج کا فیصلہ ایک امین کا فیصلہ مانا جائے گا اور اس پر سب کو اعتماد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا بھی یہی عالم ہے۔ قوانین اور اجرائی امور میں اس ادارے پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہئے اور بحمد اللہ انہیں بھروسہ ہے۔ کسی کو بھی اس ادارے کے مقام و منزلت میں کمی کرنے کی غرض سے اس پر سوالیہ نشان نہیں لگانا چاہئے۔ اس مقام و منزلت کی معرفت اور عمل کے ساتھ قائد انقلاب نگراں کونسل کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی بات کہتا ہے اور اس کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرتا ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکز
نگراں کونسل جس طرح حقیقی معنی میں عمومی اعتماد کا ذریعہ بنی ہے اسے اس اعتماد کا مظہر بھی ہونا چاہئے۔ انتخابات میں الگ الگ نظریات اور مکاتب فکر کے افراد کی شرکت جنتی زیادہ ہوگی اسلامی جمہوری نظام کے لئے یہ اتنی ہی اچھی بات ہوگی اور خود نگراں کونسل کے لئے بھی یہ اچھی چیز ہے۔ ایسا انتظام اور عمل ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کی راہ ہموار ہو۔ کسی بھی نظرئے کے افراد کو خواہ وہ کسی ایک ہی شہر تک محدود کیوں نہ ہوں یہ محسوس نہیں ہونا چاہئے کہ انتخابات میں ان کی شمولیت نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ہر جگہ ہر شخص کو یہ محسوس ہو کہ وہ اپنے پسندیدہ اور مرضی کے شخص کا ازادانہ انتخاب کر سکتا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں شورائے نگہبان کا عمل ایسا ہو کہ وہ عوام کے اعتماد کا مظہر بن جائے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامن
اسلامی جمہوریہ ایران کا استحکام اس کی اسلامی شناخت پر منحصر ہے اور شورائے نگہبان اس چیز کی ضامن ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہوتی تو رفتہ رفتہ نظام کی ماہیت اور اس کے ستونوں میں تغیر پیدا ہوتا۔ شورائے نگہبان کے لئے بس یہی افتخار بھی کافی ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں اس کا سارا ہم و غم یہ رہا کہ اسلام اور آئین سے مطابقت کے لحاظ سے نظام کے پیکر میں کوئی نقص نہ پیدا ہونے پائے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے اس نظام کی حقانیت کی ضمانت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہو یا کمزور پڑ جائے یا اپنا کام انجام نہ دے تو اس نظام کی اسلامی روش اور حرکت پر سوالہ نشان لگ جائے گا۔ کیونکہ نظام قوانین کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے، اگر قوانین اسلامی ہوئے تو ایران کا نظام بھی اسلامی رہے گا۔ کون سا ادارہ یہ طے کرے گا کہ قوانین اسلامی ہیں یا نہیں ہیں؟ ظاہر ہے شورائے نگہبان۔
اسلامی جمہوری نظام میں شورائے نگہبان بقیہ اداروں کی مانند نہیں ہے کہ کہا جائے کہ مختلف ادارے ہیں جن میں بعض بہت اہم ہیں اور بعض کی اہمیت اتنی نہیں ہے اور یہ بھی انہی میں سے ایک ادارہ ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ شورائے نگہبان اسلامی نظام کے آئين جیسی چیزوں کا درجہ رکھتی ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ جس نے درست عمل کیا تو اس نطام کے دین سے منحرف ہونے کا کوئی اندیشہ پیدا نہ ہوگا۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباں
شورائے نگہبان اسلامی نظام کو دین و اسلام اور دوسرے درجے میں آئین کے دائرے سے باہر جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ آئين اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ در حقیقت نظام کے اعصاب کا اصلی مرکز ہے، معیار و کسوٹی ہے۔ شورائے نگہبان کا کام یہ ہے کہ وہ ملک کے اداروں کو آئین سے منحرف نہیں ہونے دیتی۔ آئین کے بر خلاف قانون کی منظوری اور عملدرآمد کا سد باب کرتی ہے۔ اتنے اہم ادارے کی ہیبت و وقار اور عزت و حرمت کا خیال رکھا جانا چاہئے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشت
اگر کچھ لوگ شورائے نگہبان کو برا بھلا کہتے ہیں تو در حقیقت انہوں نے قانون شکنی کی ہے۔ قائد انقلاب خاموش تماشائی بن کر یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اسلامی جمہوری نظام کے رسمی ترین، اطمینان بخش ترین اور معتمد ترین ادارے کی کوئی شخص اس لئے توہین کرے کہ وہ بجا یا بے جا طور پر خشمگیں ہے۔ اگر شورائے نگہبان کے سلسلے میں بد کلامی کی تکرار ہوئی تو قائد انقلاب اپنے فرائض کے پیش نظر اسے تحمل نہیں کرے گا۔ اگر ملک کے ان قانونی اداروں میں سے کسی ایک پر چند افراد حملے کریں تو قائد انقلاب کا فریضہ ہے کہ اس قانونی ادارے کا دفاع کرے۔
ٹاپ
آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرق
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان کا کردار آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء سے زیادہ اہم ہے۔ صف اول کے علماء ان مذہبی رہنماؤں کو کہا جاتا تھا جن کا ذکر آئینی انقلاب کے بعد کے آئین میں کیا گیا تھا اور آئین کی رو سے یہ ضروری تھا کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے سارے قوانین صف اول کے علماء کی توثیق کے لئے بھیجے جائيں اور اگر یہ علما ان قوانین کو اسلام کے خلاف پائیں تو قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔ صف اول کے علما کا ایک تو آئین کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا کام صرف شرعی امور تک محدود تھا، دوسرے یہ کہ آج جو لوگ شورائے نگہبان میں ہیں انہیں ملک کے مسائل، انقلاب کے مسائل اور انقلاب کی راہ میں موجود تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے بارے میں ان افراد سے زیادہ واقفیت ہے جو اس زمانے میں صف اول کے علماء کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ انقلاب میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جیسی با بصیرت، با حکمت اور پختہ ارادے کی حامل شخصیت موجود تھی جس نے شورائے نگہبان کے ساتھ صف اول کے علماء جیسا سلوک نہیں ہونے دیا۔
Top
عوام کے ووٹوں کی حفاظت
عوام کے ووٹوں کی حفاظت و صیانت ہونا چاہئے۔ وزارت داخلہ کے متعلقہ حکام بھی اور شورائے نگہبان کے مبصرین بھی بہت محتاط رہیں اور ایک اک ووٹ کی حفاظت و نگہداشت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ البتہ قائد انقلاب کو اپنے حکام پر پورا اعتماد ہے لیکن انہیں بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کے ووٹ ان کے ہاتھ میں الہی امانت کی مانند ہیں۔
ٹاپ
قائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد باب
بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات میں کوئی یہ جرئت کرے کہ عوام کے ووٹوں سے چھیڑ چھاڑ کرے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شورائے نگہبان ایک عادل، محتاط اور ہوشیار نگراں ادارہ ہے انتخابات کے سلسلے میں، وہ کسی بد عنوانی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ دوسری بات یہ کہ وزارت داخلہ بھی ایک ووٹ بھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی۔ یہ (انتخابات کے متعلقہ حکام) مسلمان، انقلابی، دیندار اور معتمد علیہ افراد ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے۔ بفرض محال اگر کسی گوشے میں کوئی چھوٹی سی گڑبڑی ہوئی بھی ہے تو اس کا انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گی۔ قائد انقلاب کی طرف سے بھی پوری چوکسی اور احتیاط برتی جاتی ہے کہ کوئی بھی انتخابات میں بد عنوانی کی جرئت نہ کرے۔ یہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور سیاسی و سماجی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ٹاپ
صحیح انتخابات کی خصوصیات
انتخابات کی صحت کا علم پولنگ اور ووٹوں کی شمارش کے وقت نہیں ہوتا۔ صحیح انتخابات کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابات سے قبل صحتمند فضا قائم کی جائے۔ ایسی فضا جس میں عوام کو فیصلہ کرنے اور درست انتخاب کرنے کا بھرپور موقع ملے۔ عوام کو یہ موقع ضرور ملنا چاہئے کہ وہ انتخاب کریں اور فیصلہ کریں۔ جو عمل بھی فضا کو غیر صحتمند بنا دے اور ہر وہ تشہیراتی روش اور اقدام جو عوام کی قدرت انتخاب کو متاثر اور کمزور بناتا ہو وہ انتخابات کو کمزور کرنے والا اقدام ہے۔ اس نکتے پر انتخابات سے قبل توجہ دی جانی چاہئے۔ جو انتخابی کیمپین چلائی جاتی ہے، جو اقدامات کئے جاتے ہیں، بالخصوص ذرائع ابلاغ عامہ جو کام کرتے ہیں افراد کم متعارف کرانے کے سلسلے میں یا ان کی شبیہ خراب کرنے کے سلسلے میں یا عوام کی برین واشنگ کے طور پر جو اقدامات انتخابات سے قبل انجام دئے جاتے ہیں اور جن سے لوگوں کا ذہن خاص سمت میں موڑا جاتا ہے، انتخابات سے قبل ایسی صورت حال نہیں پیدا کی جانی چاہئے کہ رائے دہندگان ذہنی طور پر الجھ کر رہ جائیں اور جو فیصلہ کریں وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ نہ ہو بلکہ جب انہیں ہوش آئے تو محسوس ہو کہ نہیں انہوں نے مناسب فیصلہ نہیں کیا۔ اگر انتخاباتی کیمپین میں شامل افراد یا ان کی تشہیراتی مہم اور ذرائع ابلاغ عامہ کی کارکردگی اس طرح کی صورت حال پر منتج ہو جس میں عوام کی انتخاب کی قدرت و توانائی ختم ہوکر رہ جائے تو اس سے انتخابات کا اعتبار مجروح ہوگا۔ شورائے نگہبان کو اس طرح کی صورت حال کو روکنے کیلئے مناسب انتظام رکھنا چاہئے۔
ٹاپ
دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت
انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیت
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کو کام سونپنے کا مطلب ہے، اس کام کو زیادہ سے زیادہ معتبر اور لائق اعتماد بنانا۔ کسی بھی دیگر (ادارے) کو اگر انتخابات کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تو ممکن تھا کہ شائد کچھ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوال پیدا ہوتے۔ یعنی ملک میں سرکاری اداروں میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں تھا کہ انتخابات پر جس کی نظارت و نگرانی عوام اور حکام کی نظر میں اتنی معتبر ہوتی جتنی کہ شورائے نگہبان کی نظارت و نگرانی قابل اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کی ساخت اور اس کا ڈھانچہ بجائے خود صرف ایسے افراد کو قبول کر سکتا ہو جن کا تقوا و ایمان بلند درجے پر ہو۔ اس کے علاوہ بھی شورائے نگہبان کے فقہا اور ممتاز دینی رہمنا قوم کے امام (خمینی رہ) کی جانب سے منصوب کردہ افراد ہیں۔ چونکہ یہ درجہ اجتہاد پر فائز عادل و متقی افراد ہیں لہذا ان کا ہر عمل عوام کی نظر میں اطمینان بخش ہے۔ بنابریں یہ کام بنحو احسن انجام دینے والا ادارہ شورائے نگہبان ہی ہے۔ معلوم ہوا کہ آئین میں انتخابات کی نظارت و نگرانی کی ذمہ داری شورائے نگہبان کے سپرد کئے جانے کا فیصلہ بڑی پختہ فکر کا نتیجہ تھا اور آئین نے بیدار قلوب اور با بصیرت اذہان اور انقلابی و مجاہد علماء کے درمیان سے ایک ایسے ادارے (کے اراکین) کو مامور کیا۔ انتخابات کے امور پر شورائے نگہبان کی نگرانی کے بعد انتخابات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور مشکل پیش نہیں آنا چاہئے۔ یہ سنگین ذمہ داری شورائے نگہبان کے دوش پر رکھی گئی ہے اور اس کے سپرد کی گئی ہے۔ تمام تر سیاسی تحفظات اور مکاتب فکر کی مصلحتوں سے یہ مصلحت بالاتر ہے کہ انتخابات صحیح طور پر عوامی رائے اور مرضی کا آئینہ ہوں۔
ٹاپ
نا اہل افراد کے لئے سد راہ
جو نمائندے پارلیمنٹ میں آتے ہیں، ان کا صالح اور اہل ہونا ضروری ہے۔ وہ علم و معرفت و صلاحیت کے کس درجے پر ہو اس کا تعین آئين میں کیا گيا ہے۔ عوام کو اپنے مفادات اور فلاح و بہبود کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ شورائے نگہبان ایک معتمد علیہ ادارے کی حیثیت سے اس عمل میں ہر قسم کے خلل کو دور کرنے کے لئے موجود ہے۔ اگر کوئی بد عنوان ہے، مالی بد عنوانی یا دیگر اخلاقی، عقیدتی اور سیاسی بد عنوانی میں کوئی ملوث ہے، یا پھر کوئی فتنہ پرور ہے، نظام کو کمزور کر سکتا ہے، اداروں کی افادیت کو متاثر کر سکتا ہے تو در حقیقت ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے وہ اس فورم کا اہل نہیں ہے۔ جن افراد کی رفتار و گفتار اس کی غماز ہے کہ وہ کسی بھی جذبے کے تحت، سیاسی جذبے یا ذاتی جذبے اور مخصوص خصلت کی بنا پر نظام کے مد مقابل کھڑا ہو سکتا ہے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے۔ اس چیز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یقینی طور پر میدان سیاست میں وارد ہونے کے راستوں پر نظر رکھی جانی چاہئے کیونکہ میدان سیاست در حقیقت ملک کے انتظامی امور اور نظم و نسق کے میدان میں اترنے کا مقدمہ ہے۔ ملک کا سارا انتظام ایک شخص کے ہاتھ میں دینا ہے لہذا اس میدان میں داخل ہونے کے راستوں کی نگہبانی و نگرانی ضروری ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص آ رہا ہے کون ہے؟ کچھ معیار رکھے گئے ہیں اور کچھ لوگوں کا تعین کیا گیا ہے جو اس معیار پر پرکھیں۔ اس کا اہتمام آئین نے کیا ہے۔ خوش قسمتی سے ایران جوان ملک ہے(جوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے) لہذا ملک کے اس جوان چہرے کا تقاضا یہ ہے کہ پوری مجریہ میں جوش و خروش اور نشاط و شادابی نظر آئے۔ دیکھئے اور غور کیجئے کہ کون شخص حقیقت میں انقلاب اور دین کا حامی اور غریب و امیر کے ما بین تفریق اور فاصلے کا مخالف ہے۔ کس شخص میں اہلیت اور جوش و جذبہ عمل ہے، ایسے شخص کو تلاش کیجئے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدام
اگر شورائے نگہبان انتخابی امور پر نظارت کے تحت قوانین کے مطابق ایک نتیجے پر پہنچ جائے تو اسے چاہئے کہ سنجیدگی سے اقدام کرے۔ کوئی بھی چیز قانونی اقدام کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے۔ تمام امور بالخصوص ایسے معاملات میں جن سے عوام کے جذبات و احساسات اور افکار و نظریات وابستہ ہیں سنجیدہ اور ٹھوس اقدام ضروری ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی
نظارت و نگرانی کے امور میں معیار، قانون اور ضابطہ ہونا چاہئے، ذاتی نظریہ اور موقف نہیں۔ شورائے نگہبان میں ہرگز ذاتی نظریات کو دخیل نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص خود ہی اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرے کہ فلاں شخص پارلیمنٹ کے لئے مفید ہے اور اگر یہ پارلیمنٹ میں نہ آیا تو اس سے پارلیمنٹ کا نقصان ہوگا، اور پھر اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اسی ذاتی رائے کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے۔ نگراں کونسل کے اراکین کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی اور اس کے بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہو سکیں۔
اگر شورائے نگہبان سے سوال کیا جائے کہ کس وجہ سے فلاں امیدوار کو نااہل قرار دیا گیا ہے تو کونسل جواب دے سکے کہ پالنے والے! میں قانون اور ضابطے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور تھا۔ قانون کا یہی تقاضا تھا اور میں نے اسی بنا پر اس شخص کو نااہل قرار دے دیا یا یہ کہ اصول و قانون کے مطابق میں نے اس شخص کی اہلیت کی توثیق کی۔ یہ نہیں کہ میری یہی تشخیص تھی اور میری یہی رائے تھی۔ میں نے فلاں شخص کو مضر دیکھا اور فلاں کو مفید پایا۔ یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔ اسے نہ اللہ تعالی قبول کرے گا نہ بندگان خدا۔ قانون کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کسی بھی چیز کو قانون پر عمل آوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔
ٹاپ
اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ
دشمن کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ جو چاہے کر گزرے۔ دشمن ذہنوں کو متاثر کرتا ہے پھر نطام کی بنیادوں میں نفوذ پیدا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتا ہے۔ شورائے نگہبان کی مثال لے لیجئے۔ اس وقت شورائے نگہبان یا نگراں کونسل پر بڑے حملے ہو رہے ہیں۔ مقصد شورائے نگہبان کو کمزور کرنا اور اسلام مخالف، خمینی مخالف اور نظام مخالف عناصر کو قانون ساز اداروں میں پہنچوانا ہے۔ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ شورائے نگہبان ہے۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ اس کا بھی وہی انجام کر دیں گے جو علمائے طراز اول کے نام سے معروف علما کونسل کا کیا تھا۔ وہ شورائے نگہبان کے سلسلے میں اپنے عزائم ہرگز پورے نہیں کر سکیں گے اور یہ چیز کبھی نہیں ہو سکے گی۔ دشمن کے سیاسی، دفاعی اور نفسیاتی جنگ کے منصوبہ ساز اس خیال میں ہیں کہ اگر ان کی یہ سازش کامیاب ہو جائے تو دوسرے مرحلے میں پارلمینٹ میں نفوذ پیدا کیا جا سکتا ہے اور پارلیمنٹ میں نفوذ حکومت اور نظام کے دیگر ستونوں میں نفوذ کی راہ ہموار کرے گا۔ وہ اس طرح وارد میدان ہونا چاہتے ہیں۔
ٹاپ
تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی
انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط
انتخابی مبصرین اور ناظروں کے انتخاب میں بہت توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی ہے۔ بدیہی بات ہے کہ اس نہایت اہم عمل کی نگرانی کرنے والے شخص کا باہوش اور با فہم ہونا ضروری ہے۔ اس کا باخبر ہونا ضروری ہے کہ دھوکہ نہ کھائے، غلطی نہ کرے، تاہم سب سے اہم عنصر اس کی دینداری و ایمانداری ہے۔ دینداری انسان کو بڑی غلطیوں سے بچاتی ہے، اسے لغزش سے محفوظ رکھتی ہے۔
ٹاپ
انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افراد
اسلامی جمہوریہ کا انتخابی قانون خوش قسمتی سے بہت اچھا ہے۔ آئین میں بھی انتخابات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اجرائی عہدہ دار بھی ہے اور ناظر بھی۔ یعنی ناظر، اجرائی عہدہ دار سے الگ ہے۔ دونوں الگ الگ ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے جبکہ نظارت کے فرائض شورائے نگہبان انجام دیتی ہے۔ یعنی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس پر دو زاویوں سے نظر ڈالی گئی ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ جو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہے، عوام کی معتمد علیہ ہے اس پر مختلف اداروں کو اعتماد ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ قابل اعتماد ہیں لیکن غلطی کے امکان کو حد اقل سطح تک پہنچانے کے لئے شورائے نگہبان کو نگرانی کے فرائض سونپے گئے ہیں۔ شورائے نگہبان عادل اور مجتہد افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں قائد انقلاب کی جانب سے منصوب کیا جاتا ہے۔ اگر وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں اپنے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، ہر ایک ادارہ انتخابات میں اپنا کردار پوری شجاعت اور توانائی کے ساتھ انجام دے تو ایران کے انتخابات میں کسی بھی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی۔
ٹاپ
انتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی
بعض لوگ قانونی اداروں کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں۔ سرکاری محکمے منجملہ وزارت داخلہ جو انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے اور شورائے نگہبان جو انتخابات کی نگرانی کے فرائض انجام دیتی ہے، ہر ایک کے اپنے فرائض اور اصول و ضوابط ہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ اگر خود ان کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف رائے ہو تو انہیں آپس میں اسے دور کرنا ہوتا ہے۔ بعض افراد تنازعہ کھڑا کرنے کے عادی ہوتے ہیں، کبھی کسی شخص پر تو کبھی کسی دوسرے شخص پر، کبھی کسی عملے پر تو کبھی کسی اور عملے پر ایسے الزام عائد کرتے ہیں جو اسلامی ملک کے عہدہ دار کے شایان شان نہیں ہے۔ عوام کو چاہئے کہ انتخابات کے اجرائی عہدہ داروں اور ناظروں دونوں کو ایک نگاہ سے دیکھیں۔ انتخابات کے اجرائی عہدہ دار اور ناظر دونوں ہی قانون پر اپنی عمل آوری کا ثبوت دیں۔ معیار قانون ہے، لوگوں کی ذاتی رائے نہیں۔ جو قانون پارلیمنٹ میں منظور ہوا اور جس کی نگراں کونسل نے توثیق بھی کر دی ہے وہ سب کے لئے معتبر اور حجت ہے۔ اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند کرے اور اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند نہ کرتا ہو۔ قانون جب تک ہے سب کو اس پر عمل کرنا ہے۔
ٹاپ
چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص
اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہ
شورائے نگہبان کی ذمہ داری یہ ہے کہ آئین سے ماخوذ معیاروں اور ضوابط کی بنا پر شرطیں پوری ہونے کا جائزہ لے اور اس فریضے کو سنبھالے۔ پارلمینٹ کے اراکین اور صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے لئے کچھ شرطیں رکھی گئی ہیں اور شورائے نگہبان کا فریضہ یہ چیک کرنا ہے کہ امیدوار میں شرطیں پوری ہیں یا نہیں۔ کسی امیدوار کو مسترد کر دینے کے لئے اہلیت کا ثابت نہ ہونا کافی ہے، نا اہلی ثابت ہونا ضروری نہیں۔ بعض افراد جو مختلف عنوان سے بحث و جدل کرتے ہیں وہ عبث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شورائے نگہبان کا دارومدار عقل و منطق پر ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جو بھی انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ شرطیں ضروری ہیں۔ شورائے نگہبان کا فریضہ اسی چیز کو چیک کرنے کا ہے کہ یہ شرطیں واقعی موجود ہیں یا نہیں۔ یعنی یہ بھی با قاعدہ شرط ہے کہ شورائے نگہبان کے لئے یہ واضح ہو کہ ساری شرطیں موجود ہیں یا نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ بعض افراد کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے۔ اگر کینڈیڈیٹ کے اندر صلاحیت ہے اور وہ انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی صلاحیت شورائے نگہبان کے لئے بھی ثابت ہو جائے تو اسے چاہئے کہ نگراں کونسل کے لئے اس کی سہولت فرائم کرے، اپنا ریکارڈ اور اگر اس کے حق میں کچھ شواہد ہیں تو وہ شورائے نگہبان کو ارسال کرے۔ یعنی اپنی اہلیت ثابت کرنے کی راہ ہموار کرے۔ البتہ متعلقہ اداروں کو بھی مدد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا کام اہلیت کا جائزہ لینے کا ہے۔ اگر شورائے نگہبان کی نظر میں اہلیت ثابت نہ ہو سکی تو وہ امیدوار کو مسترد کر سکتی ہے خواہ اس کا نا اہل ہونا ثابت نہ بھی ہوا ہو۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوت
جن لوگوں کے نام انتخابی امیدوار کے طور پر پیش کر دئے گئے ہیں در حقیقت ان کی اہلیت کو تسلیم کر لیا گيا ہے۔ ان کے نام کا اعلان ان کی اہلیت کی توثیق ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ یہ توثیق بے توجہی کے ساتھ اور غلط انداز سے نہ کر دی جائے۔ کیونکہ یہ در حقیقت عوام سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہوگا۔ اہلیت رکھنے والے شخص کو مسترد کرنا اور نا اہل کی توثیق کرنا دونوں ہی غلط کام اور قانون شکنی ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ ان سے یہ قانون شکنی نہ ہونے پائے تاکہ جب انتخابات کا دن آئے تو لوگ دیکھیں، غور کریں اور جو شخص ان کی نظر میں سب سے زیادہ اہلیت و صلاحیت کا حامل ہے پوری آگاہی کے ساتھ اس کا انتخاب کریں۔
ٹاپ
اہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصول
اہلیت کا جائزہ لینا اور صلاحیت کو چیک کرنا ایک عالمی روش اور اصول ہے۔ یہ صرف ایران اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی سے مختص نہیں ہے۔ جہاں بھی کسی کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ کسی بڑے کام کے لئے کسی شحص کو مامور کرے وہ اس شخص کے بارے میں تحقیق ضرور کرتا ہے کہ اس میں صلاحیت ہے یا نہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی ذمہ داری ہے یا کسی اور ادارے کی ذمہ داری۔ تو یہ ایک معمول کی روش ہے جس پر دنیا کے ہر ملک میں عمل کیا جاتا ہے اور تمام عقلمند انسان ایسا کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص کو کوئی عہدہ دینے کے لئے پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے پیش کیا جائے تو پارلیمنٹ بغیر تحقیق اور جائزے کے اسے اعتماد کا ووٹ تو نہیں دے گی۔ تحقیق کرے گی، تجزیہ کرے گی، مطالعہ کرے گی تاکہ یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ اس شخص میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر اسے وہ شخص پسند نہ آیا تو اسے مسترد کر سکتی ہے۔ مسترد کرنے پر پارلیمنٹ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی نظر میں اس کی اہلیت ثابت نہیں ہو سکی اور اس نے اسے مسترد کر دیا۔ بالکل یہی چیز پارلیمنٹ کے اراکین کے سلسلے میں صادق آتی ہے۔ بنابریں یہ (جائزے کی) روش ایک معمول کی روش ہے جسے عوام بھی تسلیم کرتے ہیں اور آئین نے اس روش کی تائید کی ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ منتخب ہونے کے شہری حق کو کسی سے سلب نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن منتخب ہونے کا شہری حق روزگار، نوکری، شہر میں رہائش، سڑکوں پر چلنے، گاڑی خریدنے وغیرہ جیسے شہری حق کے مثل نہیں ہے۔ یہ ایسا شہری حق ہے جس کے لئے کچھ اور صلاحیتیں بھی لازمی ہیں جن کے موجود ہونے کی بابت مطمئن ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحیتوں کا جائزہ صرف شورائے نگہبان نہیں لیتی۔ وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں مل کر ان صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ صلاحیتوں کے جائزے کے سلسلے میں سب سے بہتر خود عوام ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہے۔ جب انہیں کسی کی صلاحیت کے بارے میں اندازہ ہوجائے تو ایک دوسرے کو اس کے بارے میں بتائیں، اس شخص کے لئے راہ ہموار کریں تاکہ یہ اہل اور با صلاحیت شخص آگے جا سکے۔
ٹاپ
مسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز
اسلامی جمہوری نظام میں قائد انقلاب کو انتخابات کے کام انجام دینے والے اداروں پر پورا اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ وزارت داخلہ قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ سب محنت کر رہے ہیں، مشقتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے ان کے سلسلے میں شورائے نگہبان نے قانون اور ضوابط کے مطابق عمل کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بے لیاقت انسان ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جس شخص کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے اس کے بارے میں ملک میں کہیں بھی کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ الزام تراشی کرے، یہ کہے کہ ضرور آپ کا کوئی سنگین مسئلہ ہے، آپ نے کوئی جرم کیا ہے، کوئی قانون شکنی کی ہے، بد عنوانی کا ارتکاب کیا ہے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قانونی طور پر کچھ ضابطے رکھے گئے ہیں اور شورائے نگہبان ان قانونی ضوابط کے مطابق کچھ لوگوں کو اس فہرست میں رکھتی ہے جن کی اہلیت کی توثیق کی گئی ہے اور کچھ کو اس فہرست میں جگہ نہیں دیتی۔ جن ناموں کو جگہ نہیں ملی ہے وہ در حقیقت قانونی ضوابط پر پورے نہیں اترے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں بہت سے صالح اور نیک لوگ ہوں۔ البتہ ان (مسترد ہونے والے) لوگوں میں کچھ ناخلف قسم کے انسان بھی ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ نہ ہوں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کی بھی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خائن شخص ہے، نہیں ہرگز نہیں۔
ٹاپ
پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع
قانون کے مطابق عمل
اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے وزارت داخلہ کا بھی دفاع کیا جاتا ہے اور شورائے نگہبان کا بھی دفاع کیا جاتا ہے۔ دونوں اسلامی جمہوری نظام کے فعال ادارے ہیں اور ہر ایک کے اپنے فرائض ہیں۔ وزارت داخلہ کو چاہئے کہ باریک بینی کےساتھ قانون کے مطابق عمل کرے اور عوام کے ووٹوں میں کوئی بے ایمانی نہ ہونے دے۔ جہاں تک اس کے بس میں ہے عوام کے ووٹ جمع کرے اور پھر پوری امانت داری اور احتیاط کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کرے تاکہ نتیجہ معلوم ہو سکے۔ شورائے نگہبان بھی پوری ایمانداری کے ساتھ اس بات پر نظر رکھے کہ انتخابات میں کوئی بد عنوانی تو نہیں ہوئی۔ یہ عوام کا حق ہے کہ شورائے نگہبان اس قوم کے بدخواہوں کو مقننہ میں داخل ہونے سے روکے۔ شورائے نگہبان کو عوام کے اس حق کا پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ اسے یہ خیال رکھنا ہے کہ اس قوم کے بدخواہ، اس انقلاب کے بدخواہ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بدخواہ ملک کے منتخب ادروں میں داخل نہ ہونے پائیں۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد
وزارت داخلہ بڑی محنت کرتی ہے، شورائے نگہبان بھی بڑی محنت کرتی ہے اور دونوں پر قائد انقلاب کو اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان پر بھی مکمل اعتماد ہے اور وزارت داخلہ پربھی۔ یہ ادارے واقعی بنحو احسن اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ بنابریں اگر کسی امتحان میں کچھ لوگ کامیاب اور کچھ ناکام ہو جاتے ہیں یا کسی کو اکثریت حاصل ہوتی اور دوسرا اکثریت حاصل نہیں کر پاتا تو یہ نہ ہو کہ کچھ انتخابی حلقوں میں کچھ فتہ پرور قسم کے افراد لوگوں کو اشتعال دلائیں کہ فلاں شخص کی اہلیت کی توثیق کیوں نہیں ہوئی۔ معترض افراد کو اپنے حکام پر اعتماد رکھنا چاہئے۔ عہدہ دار معتمد علیہ ہیں، انہوں نے یقینا کوئی وجہ دیکھی ہے جس کی بنا پر اہلیت کی توثیق نہیں کی۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو تحریری طور پر حکام سے شکایت کرے۔ یہ نہیں کہ کچھ لوگ دھرنے پر بیٹھ جائیں، یہ تو فتنہ پرور عناصر کی اشتعال انگیزی ہے۔ فتنہ پرور سامراج سے وابستہ وہ عناصر ہیں جو حالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کام کر دیں کہ انتخابات پرامن طریقے سے منعقد نہ ہونے پائیں۔ ایسے میں ان سے بعید نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو ورغلائیں۔
ٹاپ
ملک کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ، اکیڈمک بورڈ کے اراکین، علمی شخصیات، چانسلرز اور تحقیقاتی مراکز کے سربراہوں نے آج شام قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
پہلا باب: استکبار کا مفہوم
استكبار کا قرآنی مفہوماسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوماستکباری طاقتیںسامراج و استکبار کا مظہراستکبار و سامراج کی بنیاداستکبار اور سامراج کی روشسامراج و استکبار کا منصوبہ
استکبار کے حربے
میڈیا اور تشہیرات مذاکرات کی تجویز شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا تفرقہ انگیزی عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ ماہرانہ سازشیں درباری علماء کا استعمال ثقافتی وسائل و حربے
سامراج کی کمزوریاں
دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل
قومی اسباب علل دینی اسباب عللسامراج سے جہاد اکبراستکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوماستکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت
سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے
اسلام کی سمت واپسی تعلیم و تربیت قومی اتحاد اسلامی یکجہتی حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت
سامراج کے عناد کی وجوہات
اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
سامراج کا آخری ہدف
سامراج و استكبار
پہلا باب: استکبار کا مفہوم
استكبار کا قرآنی مفہوم
استکبار کا مفہوم ایک قرآنی مفہوم ہے۔ بنابریں ایسا نہیں ہے کہ یہ اصطلاح اسلامی انقلاب کے لغت میں یونہی شامل ہو گئی ہو۔ استکبار کا مفہوم مسلمانوں، مومنین، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی جانب سے استکبار کے خلاف جد و جہد کا متقاضی ہے اور وہ بھی مخصوص مواقع اور مصلحتوں کے تحت ہی نہیں بلکہ یہ مقابلہ آرائی دائمی ہے۔ یہ انقلاب کی ماہیت کا حصہ ہے۔ جب تک انقلاب ہے یہ مقابلہ بھی رہے گا۔
قرآن میں استکبار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی عنصر یا شخص، گروہ یا جماعت خود کو حق وصداقت سے بالاتر تصور کرے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے بلکہ خود کو، اپنی قوت و طاقت کو حق و حقیقت کا معیار قرار دے! قرآن نے انسانوں کی جس تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اس کی پہلی استکباری طاقت ابلیس ہے۔ ابی و استکبر وہ پہلا استکباری عنصر ہے۔ البتہ استکبار کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ استکبار تکبر سے مختلف چیز ہے۔ شائد یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تکبر سے قلبی و نفسانی صفت کا عندیہ ملتا ہے، یعنی کوئی انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا اور قرار دیتا ہو جبکہ استکبار کا زیادہ تعلق تکبر کے عملی پہلو سے ہے۔ یعنی جو شخص متکبر ہے اور خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتا ہے، عملی طور پر بھی دوسروں کے ساتھ اس کا برتاؤ اور سلوک ایسا ہوتا ہے کہ تکبر کے آثار بالکل نمایاں ہوتے ہیں۔ دوسروں کی تحقیر کرتا ہے، توہین کرتا ہے، دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرتا ہے اور دوسروں کے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹاپ
اسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوم
ایران کے اسلامی انقلاب کی زبان میں استکبار ان چند بڑی طاقتوں کے گروہ کو کہا جاتا ہے جو اپنی سیاسی، فوجی، سائنسی اور اقتصادی توانائیوں کے سہارے اور انسان کے سلسلے میں اپنے امتیازی نقطہ نگاہ کے ساتھ بڑے انسانی مجموعے پر جس میں ممالک، قومیں اور حکومتیں شامل ہیں استبدادی اور تحقیر آمیز تسلط قائم کرکے اپنے مفادات کے مطابق ان پر دباؤ ڈالتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ ان کے کاموں میں مداخلت اور ان کی دولت و ثروت پر تجاوز کرتا ہےـ حکومتوں پر رعب جماتا ہے اور قوموں پر ظلم و ستم کرتا ہے اور ان کی ثقافت و روایات اور آداب و اطوار کا مذاق اڑاتا ہے۔
ٹاپ
استکباری طاقتیں
استکباری طاقتیں وہ ہیں جن کی دولت و طاقت کے تسلط میں دنیا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ عالمی صیہونی نیٹ ورک، امریکا کی غنڈہ حکومت، وہ مالیاتی ادارے جو اس ظالمانہ عالمی نظام کی بنیاد اور پشتپناہ ہیں۔ ان سب کا شمار استکباری طاقتوں میں کیا جاتا ہے۔
ٹاپ
سامراج و استکبار کا مظہر
آج دنیا میں اپنی تمام تر نفرت انگیزی کے ساتھ سامراج و استکبار کا مظہر امریکا ہے، یہ کسی ایک نسل، ایک قوم اور ایک ملک سے دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کا اپنا تشخص اور وقار ہوتا ہے اور وہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی بیرونی طاقت، فریب سے یا زبردستی اس کے وقار کو نابود کر دے۔ ہر قوم کی اپنی دولت و ثروت ہوتی ہے، وہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی دشمن اسے لوٹ لے جائے۔ دشمن، یعنی وہی عالمی تسلط پسندی اور سامراج کا مرکز جس کا سب سے بڑا اور حقیقی نمونہ امریکا ہے۔ البتہ جب ہم کہتے ہیں امریکا تو اس سے مراد امریکی عوام نہیں ہوتے۔ امریکی عوام تو دنیا کی دیگر قوموں کی مانند ہیں، ان میں بھی کچھ اچھائیاں تو کچھ برائیاں ہیں۔ ملت ایران کی ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب کا خطاب امریکا کے حکمرانوں سے ہے جن کی پالیسیوں کی ایک اہم ترین بنیاد دنیا پر تسلط قائم کرنے کا نظریہ ہے۔ امریکی تسلط سے ہماری مراد امریکی حکومت اور اس کا تسلط ہے۔
ٹاپ
استکبار و سامراج کی بنیاد
سامراج و استکبار کی بنیاد ظلم و جور و عدوان پر رکھی گئی ہے۔ امریکی حکومت جو سامراج و استکبار کا عفریت سمجھی جاتی ہے آج سامراج کے لحاظ سے دنیا کی بدترین حکومت ہے۔ اس حکومت نے آج اپنا وتیرہ بنا لیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی ملک اور حکومت اس کے مفادات کی چوکی داری کرنے کو تیار نہ ہو اسے ختم کر دیا جائے۔ کیا اس سے بھی بد تر سامراج و استکبار ہو سکتا ہے؟! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ اپنے گھر میں میرے کچھ مفادات ہیں جس کی میں حفاظت کر رہا ہوں تو مجھ سے کوئی بھڑنے کی کوشش نہ کرے۔ ٹھیک ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ جناب ایک شخص کسی دوسرے شخص کے گھر میں جبرا داخل ہو جائے یا اس کے دروازے پر جاکر اسے پریشان کرے، اس کا جینا دوبھر کر دے اور جب صاحب خانہ سوال کرے کہ کیوں میرا سکون و چین چھین لیا ہے تو جواب دے کہ تم نے میرے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کام میں میرے مفادات ہیں اور چونکہ تم نے ان کا خیال نہیں رکھا بنابریں میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟! آج عالمی سطح پر امریکا کا یہی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ٹاپ
استکبار اور سامراج کی روش
سامراج و استکبار کی روش جبر، طاقت کے غلط استعمال اور قتل و غارت کی روش ہے۔ بنابریں وہ دہشت گردی کا سب سے بڑا موجد ہے۔ آج دہشت گردی سے مقابلے کے نام پر امریکی دوسرے ملکوں میں گھس رہے ہیں اور اسی بہانے قوموں کو بیحد پریشان کر رہے ہیں، ان پر بمباری کرتے ہیں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نابود کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جواز یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں! دہشت گردی کہتے کسے ہیں؟ کیا دہشت گردی یہی نہیں ہے کہ کوئی اپنے اہداف کے حصول کے لئے غیر قانونی طریقے سے طاقت کا استعمال کرے؟ آج امریکا عراق، افغانستان اور پاکستان میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ من و عن یہی چیز نہی ہے؟!
ٹاپ
سامراج و استکبار کا منصوبہ
ملت ایران کے خلاف عالمی سامراج کا منصوبہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اول نفسیاتی جنگ، دوسرے اقتصادی جنگ اور تیسرے ایران کی سائنسی ترقی و قدرت کا سد باب کرنا۔ ملت ایران سے سامراج کی دشمنی انہی تین باتوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔
نفسیاتی جنگ کیا ہے؟ اس جنگ کا مقصد مرعوب کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ ملت (ایران) تو مرعوب ہونے سے رہی۔ حکام اور سیاسی شخصیات کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ حرص و طمع میں پڑ سکتے ہیں ان پر یہ حربہ آزمانا چاہتے ہیں، عمومی ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، عوام کے اپنے معاشرے کے بارے میں صحیح ادراک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نفسیاتی جنگ کے یہ مقاصد ہیں۔
اقتصادی جنگ بھی ایک اور (حربہ) ہے۔ وہ قوم کو معاشی لحاظ سے بحران سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ پابندیاں لگا دیں گے۔ لیکن پابندیوں سے ایران پر ضرب نہیں لگائی جا سکتی۔ کیا اب تک یہ پابندیاں نہیں رہی ہیں؟ ملت ایران پابندیوں کی حالت میں ایٹمی ٹکنالوجی، سائنسی ترقی اور وسیع پیمانے پر ملک کی تعمیر و پیشرفت کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تو پابندیاں بعض حالات میں ملت ایران کے لئے مفید بھی واقع ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے کہ یہ پابندیاں ایرانیوں کے زیادہ بلند ہمتی اور تندہی سے کام کرنے کا موجب بنی ہیں۔
سائنسی ترقی کا سد باب؛ اس کی اہم ترین مثال یہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ بیانوں، سیاسی مذاکرات وغیرہ میں کہتے ہیں کہ مغربی ممالک ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے متفق نہیں ہیں۔ کوئی بات نہیں متفق نہ رہیں۔ کیا ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے ایران نے کسی سے اجازت طلب کی تھی؟ کیا دوسروں کی اجازت سے ملت ایران اس وادی میں اتری تھی کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم متفق نہیں ہے؟ نہ رہئے متفق؟ ملت ایران متفق ہے اور یہ ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے کمربستہ۔ اس وقت امریکا، دنیا میں فتنہ و فساد کے منصوبہ ساز صیہونی اور دیگر سامراجی طاقتیں اس سلسلے میں بھی بہت حساس ہو گئی ہیں کہ دنیا میں انقلابی نظام کا حامل کوئی بھی ملک سائنسی میدان میں ترقی نہ کرنے پائے۔ یہ حساسیت اسلامی انقلاب کے سلسلے میں دوبالا ہے۔ یہ حساسیت کسی اور انقلاب کے سلسلے میں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔
ٹاپ
استکبار کے حربے
میڈیا اور تشہیرات
عالمی سامراج کا ایک اہم حربہ میڈیا ہے۔ دنیا میں میڈیا کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ میڈیا اپنے مالکان کے لئے دنیا میں بہت بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ نیوز ایجنسیاں ہوں، ریڈیو نشریات ہوں، ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات، جتنے بھی اہم ذرائع ابلاغ عامہ ہیں ان کا تعلق سرمایہ داروں سے ہے یعنی عالمی سامراج کے بنیادی ستونوں سے۔ جو کچھ بھی دنیا میں نشر اور شائع کیا جاتا ہے وہ انہی (سرمایہ داروں) کے مفادات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو وہ جہاں کہیں بھی آباد ہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عالمی سامراج، نیوز ایجنسیوں، اخبارات و جرائد، نشریات اور سیاستدانوں کے بیانوں کے ذریعے جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اسے اس قاعدے پر پرکھیں اور نتیجہ اخذ کریں کہ پورا سامراجی نظام اور اس کا سرپرست امریکا اس وقت سب کے سب اسلامی نظام، ایران اور ملت ایران کی غلط تصویر پیش کرنے پر تل گیا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ٹاپ
مذاکرات کی تجویز
کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ سے روابط برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وہ صحتمند رابطہ چاہتے ہی نہیں۔ ایسا رابطہ چاہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی مسلط کر سکیں۔ وہ سامراجی رابطہ چاہتے ہیں۔ پست اور تنزل پذیر حکومتوں کے ساتھ امریکا کا جو رابطہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں۔
جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو سامراج کے سرغنہ امریکا سے مذاکرات کرنا چاہئے، وہ یا تو سادہ لوحی میں پڑے ہوئے ہیں یا بہت زیادہ مرعوب ہیں۔ سامراج اپنی حقیقی طاقت اور توانائی سے زیادہ اپنی ہیبت اور رعب و دبدبے کی روٹی کھا رہا ہے بلکہ سامراج تو دھونس دھمکی، رعب و دبدبے اور خوف و ہراس پھیلانے کے اپنے حربوں پر ہی زندہ ہے۔
ٹاپ
شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا
دشمن، عوام کی نظر میں ان کے مستقبل کو تاریک اور مایوس کن ظاہر کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ بعض افراد اقتصادی صورت حال اور ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس کن باتیں کر رہے ہیں تو جان لیجئے کہ یہ باتیں در حقیقت سامراجی طاقتوں کی ہیں۔ دشمن کا ایک تشہیراتی حربہ یہ ہے کہ لوگوں کو ذہنوں کو مستقبل کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے۔ افسوس کہ بعض سادہ لوح افراد یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بجائے تعاون کرنے، مسائل کو آسان بنانے اور عوام کے سامنے صحیح تصویر پیش کرنے کے ساری چیزوں پر شکوک و شبہات کا پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عوام کو تشویش و بدگمانی سے دوچار کر دیں۔ جب بھی اچھی انتظامی صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی تو ترقی یقینی ہے تو پھر ایک قوم کی ترقی کے بارے میں کیوں شک کیا جائے؟ جو لوگ اظہار خیال کریں تو محتاط رہیں کہ کہیں دشمن اور سامراج کی مرضی کی باتیں نہ کرنے لگیں۔ دشمن یہی چاہتا ہے اور اس کی یہی خواہش ہے کہ عوام اپنی سعی و کوشش اور ترقی کے سلسلے میں بے یقینی کا شکار ہو جائیں۔
ٹاپ
تفرقہ انگیزی
جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے نیک بندوں میں اتحاد ہے وہاں وحدانیت اور خدا ترسی بھی ہے۔ جہاں مومنین اور بندگان خدا کے درمیان اختلاف ہے وہاں بلا شبہ شیطان اور دشمن خدا کا غلبہ ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلافات نظر آئیں وہاں آپ غور کیجئے تو آپ کو آسانی سے شیطان کا عمل دخل نظر آ جائے گا۔ بنابریں تمام اختلافات کے پس پردہ انسانوں کی انانیت، جاہ طلبی اور خود غرضی ہے یا کوئی باہری شیطان یعنی دشمن عناصر، سامراج اور ظالم و ستگمر طاقتیں کارفرما ہیں۔
اس وقت تفرقے کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہر کسی کو اپنے عقائد کا پابند رہنے اور اس پر دلیلیں قائم کرنے کا حق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مختلف مذاہب کے ترجمان منبر پر بیٹھیں تو استدلال نہ کریں اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے سے گریز کریں۔ نہیں ایسا نہیں ہے، استدلال قائم کریں ثابت کریں۔ لیکن عقیدہ کو ثابت کرنا ایک الگ چیز ہے اور دوسرے فریق کی دشمنی پر اتر آنا اور سامراج کی آواز میں آواز ملا کر اپنی ساری طاقت و توانائی مسلمانوں کی داخلی جنگ میں جھونک دینا ایک الگ چیز ہے۔ مسلمانوں کے ما بین مسلکی اختلافات کے سلسلے میں نئی بات یہ سامنے آئی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس نئی فکر کے پورے عالم اسلام میں پھیل جانے کے بعد عالمی سامراج نے اس ہمہ گیر اسلامی لہر کو روکنے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا کہ ایک طرف ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی عام اسلامی تحریک کے بجائے ایک مخصوص فرقے کی تحریک کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور دوسری جانب شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی وسیع پیمانے پر کوشش کی۔ اس شیطانی مکر و حیلے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی اتحاد بین المسلمین پر بے حد زور دیا اور اس فتنہ پروری کو بے اثر بنانے کی کوشش کی۔
ٹاپ
عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ
عظیم مشرق وسطی کا امریکی منصوبہ در حقیقت اس علاقے میں موجود تمام مفادات ایک جگہ جمع کرکے اسے امریکی سامراج کی جاہ پسندانہ شیطانی آنت میں انڈیل لینے کی کوشش ہے۔ وہ اپنے موجودہ تسلط اور اثر و نفوذ سے مطمئن نہیں ہے۔ اسے مطلق غلبہ پسند ہے۔ پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کا خواہاں ہے۔ منجملہ اس علاقے پر جو قدرتی دولت اور افرادی قوت سے مالامال ایک حساس اور اہم علاقہ ہے۔
عالمی سامراج اور سامراجی طاقتوں نے شروع سے اب تک صیہونی حکومت کو علاقے کی عرب اور پھر تمام اسلامی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے اور دھونس جمانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ اسے محفوظ رکھا ہے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اس زہر آلود خنجر کو عالم اسلام کے سینے میں پیوست رکھیں۔ آج اس تربیت یافتہ کتے کی زنجیر شیطان بزرگ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مذموم ترین شکل میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہمسایہ ملکوں پر مسلسل جارحیت، کھلے عام دہشت گردانہ کاروائیاں اور اغوا کی وارداتیں، اور ایٹمی اور دیگر ہتھیاروں کا حصول یہ ساری چیزیں صیہونی انجام دیں تو قابل قبول ہیں جبکہ ان ہتھیاروں میں سے کوئی ایک بھی اگر دنیا کی کسی ایسی حکومت کو حاصل ہو جائے جو امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کی حاشیہ بردار نہیں ہے تو اس پر قیامت مچ جائے۔
ٹاپ
ماہرانہ سازشیں
عالمی سامراج کے پاس عالم اسلام کے لئے خاص مفکرین اور ماہرین موجود ہیں جو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور مختلف قوموں، نظریوں، جذبوں اور مسلکوں کے بارے میں رپورٹیں تیار کرتے ہیں، اپنے تحقیقاتی، ثقافتی، سیاسی اور جاسوسی کے مراکز کے آرکائيو میں موجود سابقہ رپورٹوں کا نئے سرے سے جائزہ لیتے ہیں اور نئی تحقیقات انجام دیتے ہیں۔ اسرائیل میں اگر ایران میں اسلام اور تشیع کی شناخت کے عنوان سے سمینار منعقد کیا جاتا ہے تو وہ اسی تناظر میں ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف مقامات پر مغربی ملکوں، سرمایہ داروں اور سامراج کی جانب سے تحقیقاتی سمینار اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اسلام کا جائزہ لینے کے لئے نئی نئی تجاویز متعارف کرائی جاتی ہیں۔
سامراج امور کو اپنی مطلوبہ سمت و جہت میں رکھنے کے لئے بہت غور فکر سے کام لیتا ہے۔ اس کی حرکت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ عالمی امور کو سمت و رخ دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے کیونکہ اسے علم ہے کہ اگر اس نے سوجھ بوجھ اور دور اندیشی سے کام نہ لیا، اگر اس کے پاس صحیح اعداد و شمار موجود نہ رہے تو اس پر ضرب لگ سکتی ہے۔ چنانچہ ممتاز ترین فکری حلقے سامراج کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
ٹاپ
درباری علماء کا استعمال
جن معاشروں میں علماء کو راستے سے ہٹانا ممکن نہ ہوا وہاں یہ کوشش کی گئی کہ علماء کو بد عنوان اور جابر حکومتوں اور درباروں سے جوڑ دیا جائے۔ دربار سے وابستہ علماء جن کی ہمارے عزیز امام (خمینی رہ) کے بیانوں میں بڑی مذمت کی گئی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے زمانے کی ایک معروف شخصیت سے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی گردن کو ستمگروں کے لئے چکی کے پاٹ کا محور بنا دیا ہے تاکہ وہ آپ کی گردن کے محور پر اپنے مظالم کی چکی چلائیں اور آپ کے سہارے لوگوں پر ظلم کریں۔ جو عالم دین فاسد و ظالم حکومتوں کے مظالم کی توجیہ کرے وہ ان حکومتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو عالم دین سامراج کے اہداف کے مطابق عمل کرے، اس کے بد ترین اور پست ترین ہمنواؤں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ حق کی ظاہری صورت کا سہارا لیکر باطل کی ترویج کر رہا ہے۔
ٹاپ
ثقافتی وسائل و حربے
اس وقت ایک فکری و ثقافتی و سیاسی جنگ جاری ہے۔ جو شخص اس میدان جنگ کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو جائے اور حقائق کو سمجھنے پر قادر ہو وہ میدان پر ایک نظر ڈال کر بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت دشمن ثقافتی حربوں کے ذریعے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ بکے ہوئے قلم اور دل و ضمیر اور دین و ایمان کا سودا کر لینے والے روشن خیال حضرات کی تعداد کم نہیں ہے جو ملک کے باہر اچھی بڑی تعداد میں اور ملک کے اندر اکا دکا، سامراج کے مقاصد کے لئے طاقت فرسائی اور طبع آزمائی کرنے کے تیار ہیں اور کر رہے ہیں۔
ٹاپ
سامراج کی کمزوریاں
اس وقت دنیا میں ایک تضاد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملت ایران مسلمان قوموں، علاقائی قوموں، ایشیائی قوموں، افریقی قوموں، لاطینی امریکا کی قوموں اور مشرق وسطی کی قوموں کی نظر میں ایک شجاع، حق و انصاف کی پاسباں اور جبر و استبداد کی مخالف قوم ہے، ملت ایران کو ان خصوصیات کے ساتھ پہچانا گیا ہے۔ وہ ملت ایران کی تعریف و ستائش کرتی ہیں لیکن یہی ملت ایران اور یہی اسلامی جمہوری نظام جو قوموں کے لئے قابل تعریف و ستائش ہے، تسلط پسند طاقتوں کی نظر مین انسانی حقوق کی پامالی کے لئے مورد الزام قرار پایا ہے۔ اس پر عالمی امن و سکون ختم کر دینے کا الزام ہے۔ اس پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے۔ یہ تو صاف صاف تضاد ہے۔ قوموں کی نظر اور بڑی طاقتوں کی خواہش کا تضاد۔ یہ تضاد عالمی استبدادی و تسلط پسندانہ نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ روز بروز یہ طاقتیں قوموں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں مسلسل بڑھنے والی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ سامراج کی تشہیراتی مہم کچھ ہی عرصے تک حقائق کی پردہ پوشی کر سکتی ہے، ہمیشہ تو حقائق کو چھپائے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ قوموں میں دن بدن بیداری بڑھ رہی ہے۔ ملت ایران کا صدر ایشیائی ملکوں، افریقی ملکوں اور لاطینی امریکا کے ملکوں کا دورہ کرتا ہے تو عوام اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اس کی حمایت میں جلوس نکالتے ہیں جبکہ امریکی صدر اگر لاطینی امریکا کے ملکوں یعنی واشنگٹن کا آنگن کہے جانے والے ممالک کا سفر کرتا ہے تو عوام اس کی آمد کی مناسبت سے امریکی پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں۔ یہ لبرل ڈیموکریسی کے ستونوں کے متزلزل ہونے کی علامت ہے جس کا پرچم مغربی ممالک اور سب سے بڑھ کر امریکا نے بلند کر رکھا ہے۔ ان کی خواہشات اور عوامی مطالبات و مشاہدات میں تضاد دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وہ دم تو جمہوریت، انسانی حقوق، عالمی سلامتی اور دہشت گردی سے جنگ کا بھرتے ہیں لیکن ان کا شر پسندانہ باطن ان کی عسکریت پسندی کی غمازی کرتا ہے، ان کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کی چغلی کرتا ہے، دنیا کے توانائی کے ذخائر کے سلسلے میں ان کی حرص و طمع کا پتہ دیتا ہے۔ یہ چیزیں دنیا کی قومیں دیکھ رہی ہیں۔ روز بروز دنیا میں قوموں کی نظر میں لبرل ڈیموکریسی اور امریکا کہ جو لبرل ڈیموکریسی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، عزت و آبرو ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ اس کے برخلاف ایران اسلامی کا وقار بڑھ رہا ہے۔
ایک دن وہ تھا جب عالمی سامراج کے عمائدین یہ سمجھنے لگے تھے کہ اسلام تو ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے دنیا میں شہوت پرستی کی جو وبا پھیلا دی تھی اس سے اس غلط فہمی میں پڑ گئے تھے کہ مسلم قوموں میں اسلامی تعلیمات، اسلامی جذبات، اسلامی غیرت و حمیت، اسلامی تقوا و پرہیزگاری اور اسلامی خیالات سب مٹ گئے، بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ان کی بھول تھی۔ سب سے پہلے تو عظیم مملکت ایران اور اس با شرف قوم کے ذریعے اسلامی اقتدار کا پرچم بلند کئے جانے اور دوسرے مرحلے میں پورے عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی لہر پھیل جانے سے وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اسلام بڑی درخشاں اور اٹل حقیقت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ اب عالم اسلام اور مسلمان قوموں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ خود ان کے پاس جو اپنی اطلاعات ہیں وہ بھی یہی بتاتی ہیں کہ اسلامی ملکوں میں امریکا، صیہونزم، عالمی سامراج کے ان کے عمائدین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ٹاپ
دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج، آج جس کا مظہر امریکی حکومت ہے، اس سے مقابلہ بھی اس انقلاب کا لازمی جز اور اس قوم کی اہم اور دلی خواہش ہے۔ اگر یہ قوم سامراج سے مقابلہ ترک کر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اغیار کی مداخلت، ان کے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی اور انقلاب سے قبل کی ان کی دھونس اور دھمکی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ سامراج سے جنگ اور اس کی مخالفت کے سلسلے میں یہی تاثر اور یہی نظریہ قوم کی ہر فرد کا ہے۔
ٹاپ
سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل
قومی اسباب علل
ایرانی عوام نے سامراج کے خلاف کیوں جنگ کی؟ اس نکتے پر آپ خاص توجہ دیجئے۔ سامراجی روح و خصلت کے سلسلے میں سب سے پہلا تاثر اور خیال جو کسی قوم کے ذہن میں ابھرتا ہے وہ دینی تاثر اور خیال نہیں بلکہ قومی حمیت کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے، اپنی شناخت اور تشخص کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب سامراج جب کسی ملک میں در آتا ہے اور اس ملک پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو اس ملک کی قومی شناخت کی نفی پر تل جاتا ہے۔ اس ملک کے ذخائر کو لوٹتا ہے، اس ملک کے سیاسی امور میں مداخلت بھی کرتا ہے لیکن یہ سب کچھ در حقیقت اس قوم کی شناخت اور تشخص کی نفی کی فروعات ہیں۔ جب سامراج وارد ہوتا ہے تو پہلے ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہم آپ کی شناخت اور تشخص کی نفی کرنا چاہتے ہیں، وہ مختلف بہانوں سے داخل ہوتا ہے۔ جب اسے اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے تو جو چیز اس کا سب سے اہم نشانہ ہوتی ہے وہ قوم کی شناخت ہے۔ یعنی ثقافت، دینی عقائد، ارادہ، خود مختاری، حکومت، معیشت اور اس قوم کی ہر چیز کو چھین کر اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔ جیسا کہ انقلاب سے قبل ایران میں تھا۔ اس حقیقت کا احساس قوموں کو سامراج کے خلاف بر انگیختہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں دیندار نہیں ہیں جو مسلمان بھی نہیں ہیں آج حتی الوسع امریکا کے مقابلے میں ڈٹ جاتی ہیں۔ البتہ یہ اب ہے، ماضی میں نہیں تھا۔ اس وقت تو کوئي امریکا کے سامنے سر اٹھانے کی جرئت نہیں کرتا تھا۔ یہ سلسلہ ملت ایران نے شروع کیا ہے۔
ٹاپ
دینی اسباب علل
سامراج کے خلاف ملت ایران کی جنگ کی دینی وجہ بھی ہے۔ قرآن میں استکبار، مستکبر اور اس کے بالمقابل استضعاف اور مستضعف کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جب ملت ایران اس جذبے کے ساتھ امریکا اور اس سے وابستہ بد عنوان نظام کے خلاف کھڑی ہوئی تو اس کے پیچھے عظیم دینی جذبہ اور ایمان و عقیدہ کارفرما تھا اور اسی چیز نے اس قوم کو کامیابی عطا کی۔
اس وقت دشمنان اسلام سے جنگ کا پرچم مکتب اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکاروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عظیم و شجاع قوم کے ہاتھوں میں ہے جو اللہ تعالی کے علاوہ کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آج ملت ایران کا یہ عالم ہے۔ اس وقت استکبار سے وابستہ عناصر اور مہرے نیز وہ طاقتیں جو دنیا میں قوموں، حکومتوں، شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے لئے خوفناک عفریب بنی ہوئی ہیں ملت ایران کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت و ارزش نہیں ہے۔
ٹاپ
سامراج سے جہاد اکبر
استکبار اور استکباری شیاطین کے خلاف سب سے بڑی جنگ یہ ہے کہ انسان ان کی مرضی و خواہش کے سامنے ہرگز سر تسلیم خم نہ کرے۔ اس وقت ملت ایران یہ جہاد کر رہی ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہمارے لئے وا کیا، ملت ایران اسی راہ پر چلی ، بحمد اللہ آج عز و وقار کی بلندیوں پر ہے، آج بھی یہ قوم اسی راستے پر گامزن ہے۔
ٹاپ
استکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوم
ایرانی قوم جو استکبار مردہ باد کا نعرہ لگاتی ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملت ایران ہر غیر مسلم ملک اور اس ملک کی حکومت کو للکار کر اس سے لڑنا چاہتی ہے جس کے مسلمان ہونے کو وہ تسلیم نہیں کرتی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے! اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے لئے جو چیز اہم ہے وہ ظلم، سرکشی و طغیانی اور ستمگر طاقتوں کے خلاف جنگ ہے۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم یہ ہے اصلی مسئلہ۔ جو لوگ حق و انصاف کی مخالفت پر اتر آتے ہیں اور ظلم و ستم کی تائید کرنے لگتے ہیں، ظالمانہ عمل میں مدد کرتے ہیں۔
ٹاپ
استکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت
ملت ایران کو چاہئے کہ سامراج کے خلاف جد و جہد کو اپنے لئے پرچم اور مشعل راہ کے طور پر محفوظ رکھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر اس لہراتے پرچم کی حفاظت نہ کی گئی اور نعرہ پھیکا اور کمزور پڑ گیا تو قوم اپنا راستہ گنوا دے گی۔ چونکہ اس دشمن کی دشمنی آشکارا ہے اور اہل نظر سے پوشیدہ بھی نہیں ہے، یہ کھلا ہوا دشمن اپنی دشمنی کے آشکارا ہونے کے باوجود فریب دہی کے کچھ حربے استعمال کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر فریب کھانے والی قوموں اور غلط فہمی کا شکار ہونے والی حکومتوں سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ دشمن کی روش کو صحیح طور پر پہچان نہیں پاتیں۔ اگر دشمن کی روش کی شناخت نہ ہو اور اس دشمن کی جانب سے غفلت برتی جائے جو ایک انقلابی قوم کی نابودی کے در پے ہے تو ظاہر ہے وہ قوم اسی راستے پر چل پڑے گی جو دشمن کا پسندیدہ راستہ ہے یعنی نابودی کی راہ، ویرانی کی راہ اور بد عنوانی کی راہ۔
ٹاپ
سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے
اسلام کی سمت واپسی
مسلم قوموں کی تمام ناکامیوں اور رنج و غم کا علاج اسلام کی سمت واپسی اور اسلامی نظام کے دائرے میں اور اسلامی احکام کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہ وہ اکسیر ہے جو مسلمانوں کو ان کے عز و وقار، قدرت و توانائی اور رفاہ و تحفظ کی نعمت لوٹا سکتی ہے اور اس تلخ و ذلت آمیز انجام و مستقبل کو دگرگوں کر سکتی ہے جو سامراجی طاقتوں نے امت مسلمہ کی تقدیر میں لکھ دینے کی تیاری کی ہے۔
سامراج اور اس سے وابستہ تشہیراتی نیٹ ورک، اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے مسلمانوں کی امید و نشاط کو مایوسی و یاس میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا کہ ملت ایران کے مشکل کشا اسلامی انقلاب کو ناکام ظاہر کریں اور یہ باور کرائیں کہ ایران مشکلات و دشواریوں سے دوچار ہو جانے کے بعد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی اسلام اور امام خمینی قدس سرہ کی روش سے کنارہ کشی پر مجبور ہو گیا۔
ٹاپ
تعلیم و تربیت
ثقافت و تعلیم و تربیت کا مسئلہ اسلامی جمہوری نظام میں اولیں مسئلہ ہے۔ دراز مدت میں کوئي بھی چیز تعلیم و تربیت جتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ ایرانی معاشرے میں تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ در حقیقت کفر و ظلم و عالمی سامراج اور دنیا کے سیاسی شیطانوں کی غنڈہ گردی کے خلاف جد و جہد کا محاذ یہی اسکول اور مدرسے اور تعلیم و تربیت و ثقافت کا محاذ ہے۔ جو طلبہ ملک کے تعلیمی اداروں کے سپرد کئے گئے ہیں اس قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ تعلیم و تربیت، استاد اور ثقافتی و تعلیمی محاذ کی قدر کیجئے۔
ٹاپ
قومی اتحاد
جو شخص سامراج کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو طمانچہ رسید کرنا چاہتا ہے، بندگان خدا کے دل جیتنا اور دشمنان خدا کو رنجیدہ و مایوس کرنا چاہتا ہے اسے یہ کوشش کرنا چاہئے کہ قوم اور نظام کے حکام کے درمیان رابطہ روز بروز زیادہ مستحکم ہو۔ جو بھی اس کے بر عکس عمل کرے وہ در حقیقت سامراج کی پسندیدہ سمت میں بڑھ رہا ہے۔
ٹاپ
اسلامی یکجہتی
دنیا کا کون سا گوشہ ہے جہاں مسلمان طویل عرصے سے عالمی سامراج اور عالمی تسلط پسندانہ سسٹم کے باعث نقصان نہیں اٹھا رہے ہیں اور دباؤ کا سامنا نہیں کر رہے ہیں؟! ایسے میں کیا چارہ ہے سوائے مسلمانوں کی استقامت و مزاحمت کے، سوائے مسلمانوں کے باہمی عہد و پیمان کے، سوائے مسلمانوں کے اتحاد کے، سوائے اسلامی معاشروں کی بیداری کے، سوائے پوری دنیا میں اسلام کی عظیم صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے کے؟
ٹاپ
حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت
اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کے اختیار میں بہت بڑی طاقت ہے اور وہ طاقت ہے مسلم قوموں کی۔ اس نا قابل تسخیر قوت کی مدد سے اسلامی حکومتیں سامراج کے اسلام مخالف محاذ کے سرغنہ امریکا جیسے سپر پاؤر کا مقابلہ کر سکتی ہیں، اپنی قوموں اور دیگر مظلوم مسلم اقوام کے حقوق کا دفاع کر سکتی ہیں۔ اسلام ایک قوم کی زندگی کو سنوارنے کی بہترین ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے سائے میں قومیں مکمل آزادی و خود مختاری سے بہرہ مند ہو سکتی ہیں، اس سے محظوظ ہو سکتی ہیں اور اس ہدف کے حصول کے لئے مسلمان نشین ملکوں کے عوام کا جذبہ ایمانی بہترین سہارا و کمک ہے۔ امریکا اور سامراج کے دیگر عمائدین مسلم ممالک کے سربراہوں کے دماغ میں اسلام کے تعلق سے جو خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلم حکومتوں سے یہ امید ہے کہ وہ اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس الہی آئین کو قوموں کے نجات دہندہ اور مسلم قوموں یعنی امت مسلمہ کے ان اجزاء کے رشتے اور رابطے کی حیثیت سے دیکھیں اور اس کے سہارے اپنی طاقت و توانائی اور عز و وقار میں اضافہ کریں۔ یہ بذات خود قوموں کو اپنی سمت متوجہ کرنے اور ان کی حمایت و مدد کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔ جس حکومت کو اپنی قوم کی حمایت حاصل ہو وہ کسی سے خوفزدہ نہ ہونے میں حق بجانب ہے۔
ٹاپ
سامراج کے عناد کی وجوہات
اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل
اس وقت اسلام اور سامراج کے مابین جو تنازعہ ہے وہ کس بات پر ہے؟ آج سامراج، اسلام کے مقابل کھڑا ہے۔ چنانچہ یہ بات خود انہوں نے (یعنی سامراجی عناصر نے) صریحی طور پر کہی ہے۔ امریکی صدر نے بے ساختہ صلیبی جنگ کی بات کی۔ سامراج کے تشہیراتی مہرے تواتر کے ساتھ مختلف موذیانہ طریقوں سے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، فلمیں بنا رہے ہیں، کمپیوٹر گیمز بنا رہے ہیں، مقالے لکھ رہے ہیں، سب کچھ اسلام کے خلاف۔ وہ کیوں اسلام کے مخالف ہیں؟! یہ بہت اہم سوال ہے۔ وہ خود اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام جنگ، قتل و غارتگری اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ عالمی رائے عامہ کے درمیان اس طرح آشکارا طور پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ بہتان باندھ رہے ہیں۔ اس وقت تو دنیا میں نفرتیں پھیلانے کا کام سامراج کر رہا ہے۔ دنیا میں جنگ کی آگ امریکی بھڑکا رہے ہیں۔ قوموں اور ملکوں کے حقوق پر حملے اور دست درازی کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے اپنے فوجی لاتے ہیں اور کبھی کسی ملک پر تو کبھی کسی اور ملک پر حملے کرتے ہیں، اس سرحد اور اس قوم کے خلاف جارحیت کرتے ہیں۔ آپ گزشتہ سو سالہ تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہی پائیں گے کہ بیشترین جنگیں مغرب والوں نے شروع کی ہیں۔ دنیا کی دونوں عالمی جنگیں یورپیوں نے شروع کیں۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں بے شمار جنگیں امریکی اقتدار پر قابض حکومتوں نے لڑی ہیں۔ وہی ہیں جو قوموں کے درمیان نفرتیں پھیلاتی ہیں۔ اسلام ان تہمتوں سے مبرا ہے۔ جھگڑا اس بات کا نہیں ہے ، وہ جھوٹ بولتے ہیں، تنازعہ اس بات کا ہے کہ اسلام قوموں کو خود مختاری و آزادی کی دعوت دیتا ہے، مسلمان قوموں کو ان کی عزت نفس کی یاد دلاتا ہے، مسلمان قوموں کو یہ درس دیتا ہے کہ اپنے حقوق کو پہچانیں، ان حقوق کے حصول کی کوشش کریں اور ان پر تجاوز کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ سامراج اس استقامت، اس دفاع اور اس واقفیت و آگاہی کا مخالف ہے۔ اسلام اور سامراج کا تنازعہ اسی بات پر ہے۔
ٹاپ
ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل
ایران اسلامی، امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا ایران، اسلامی انقلاب والا ایران، مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک اور بیداری کا محور و مرکز ہے۔ اسی لئے دشمنیوں کا ہدف بھی بنا ہوا ہے۔ یہ چیز ملت ایران کے لئے غم و اندوہ نہیں بلکہ خوشی کا باعث ہے۔ اس سے ایران وحشت زدہ نہیں بلکہ زیادہ پرامید ہوا ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت ایران بہت طاقتور ہے اور سامراج اور ڈاکوؤں اور غارتگروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔ سامراج کی دشمنی کو دیکھ کر ملت ایران کو اور بھی یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے انقلاب کو آگے لے جانے اور ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ بالکل صحیح، کامیاب اور درست ہے۔ اگر انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور ملک و انقلاب کی مصلحتوں کی تکمیل کے لئے اپنی مہم میں اس قوم نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا تو اتنی دشمنیاں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔
ٹاپ
ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
کیا وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا پیغام ہے اور قلوب اس کی سمت مائل اور قدم اس کے مقررہ اہداف کی راہ میں گامزن ہیں سامراج پیچ و تاب کھا رہا ہے؟ ان دشمنیوں کی وجوہات اس طرح ہیں؛ سب سے پہلی وجہ تو دین کا سیاست اور سماجی زندگی سے جدا نہ کیا جانا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے عملی طور پر ثابت کر دیا اور دکھا دیا کہ دین انسانوں کی زندگی میں دخیل ہے۔ مقدس دین اسلام اس لئے نہیں آیا کہ لوگوں کو عبادت خانوں کا گوشہ نشیں بنا دے بلکہ انسانی زندگی، سیاست کا میدان، عظیم سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور مقدس اسلامی احکام کی قلمرو کے اندر آتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑی طاقتوں کی خواہش و مرضی کو در خور اعتناء قرار نہ دینا ہے۔ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ عالمی امور میں وہ امریکا اور اس کے ہمنواؤں کے نظریات اور منشا کے زیر اثر نہیں ہے۔ اس کی ایک واضح مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ انہوں نے عرب اور بہت سے اسلامی ملکوں پر شدید دباؤ ڈالا کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کر دیں، افسوس کہ بعض حکومتیں اس دباؤ کے آگے جھک بھی گئیں اور انہوں نے یہ مطالبہ مان لیا لیکن اسلامی جمہوریہ نے ایک بالکل واضح جملے میں اپنی بات بیان کر دی جسے دنیا کے تمام انصاف پسند افراد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جملہ یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے۔
ایران کے اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی تیسری وجہ یہ موقف ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی بساط لپیٹی جانی چاہئے، یہودی فلسطین میں آباد رہ سکتے ہیں لیکن فلسطین میں حکومت کا حق ملت فلسطین کا ہے وہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جسے چاہیں منتخب کرے۔
چوتھی وجہ ایران کی جانب سے ایسے تمام افراد کی سیاسی و اخلاقی حمایت ہے جو اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں سعی و کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جو کوئی بھی اسلام کی شان و شوکت کے لئے قیام کرتا ہے ایران اس کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ مسلمان قوموں کی یہ حمایت دشمن کو خشمگیں کرتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ سے سامراجی دشمنوں کی دشمنی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام پر مغربی ثقافت مسلط کئے جانے کا مخالف ہے۔ مغربی ثقافت ایسی ہے کہ اس میں جہاں خوبیاں ہیں وہیں بہت سے نقائص و عیوب بھی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ثقافتی تعلقات اور لین دین کا قائل ہے۔ ملت ایران جیسی قوم او دیگر مسلم اقوام دنیا کی ثقافتوں کو دیکھیں، ان کا جائزہ لیں اور ان ثقافتوں کے ان نکات کو اختیار بھی کریں جو ان کے لئے ضروری اور مفید ہوں اور ان باتوں کو جو مفید نہیں ہیں مسترد کر دیں۔
عالمی استکبار، اسلام و انقلاب سے دلی کینہ رکھتا ہے اور جب تک قوم اپنے اصولوں اور اپنے دین و مذہب سے دستبردار نہیں ہو جاتی اس وقت تک عالمی استکبار کی ابرو کا بل نہیں جاتا۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ : ولن ترضی عنک الیھود و لا النصاری حتی تتبع ملتھم بنابریں سامراج کے بغض و کینے کی وجہ (اسلامی انقلاب کی) حریت پسندی ، لا شرقی و لا غربی کا نعرہ اور اسلام پر عمل آوری ہے۔ سامراج کا کینہ ختم ہونے والا نہیں ہے لیکن اس کینے کے باوجود ملت ایران اللہ تعالی کے لطف و کرم سے پر امید ہے کہ انشاء اللہ جملہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے الہی اہداف کو حاصل کرے گی اور دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔
ٹاپ
اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
عوام کے ایمان کی مستحکم بنیادوں پر اسلامی نطام کی تعمیر کے بعد اس (سامراج) کے لئے بہت بڑا چیلنج معرض وجود میں آ گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فطری طور پر یہ نظام دنیا کے سامراجی نظام کے آکٹوپس سے ٹکرانے والا تھا۔ اس ٹکراؤ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکا، برطانیہ یا کسی اور ملک سے جنگ کے لئے جائے بلکہ جب حساس جغرافیائی محل وقوع اور قدیم تہذیب و ثقافت کا مالک کوئی اسلامی ملک ابھر کر سامنے آتا ہے، کوئی نیا خیال اور نئی فکر پیش کرتا ہے اور پھر اس کی تقویت کے لئے جی جان سے کوشش کرتا ہے اور اس کی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو فطری سی بات ہے کہ سامراج کو اس پورے علاقے میں اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کے اس زمانے کے سامراجی نظام یعنی ایک طرف لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور دوسری طرف نام نہاد سوشیلسٹ الحادی آمریت کا نظام، اسلامی جمہوریہ ایران سے الجھ پڑے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ان دونوں نظاموں میں نوے فیصدی امور میں اختلافات تھے لیکن (اسلامی انقلاب کی) اس شمع فروزاں کو خاموش کرنے اور اس پودے کو اکھاڑ پھینکنے کی بات پر یہ دونوں متحد ہو گئے!
ٹاپ
سامراج کا آخری ہدف
اس وقت امریکا اور عالمی سامراج کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ انقلاب کو، اسلامی جمہوریہ کو اور ملت ایران کو کسی صورت پسپا کر دیا جائے۔ وہ اعلان کر دے کہ اپنے موقف اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف سے برگشتہ ہو گئی ہے۔ سامراج کی ساری سعی و کوشش یہی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ امام (خمینی رہ) کے پیغام نے مسلم قوموں کو بیدار کر دیا ہے۔ آپ دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص مسلمان قوموں کو دیکھئے! غور کیجئے کہ وہ کس طرح امام (خمینی رہ) کے پیغام سے متاثر ہوئی ہیں؟! سامراج کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ قوموں کو اسی صورت میں ساکت و خاموش رکھا جا سکتا ہے جب انہیں صحیح راستے سے منحرف کرکے اسی جگہ پر پہنچا دیا جائے جہاں سے انہوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ یہ قوموں دیکھیں کہ اسلامی ایران، امام خمینی کا ایران اپنے راستے سے برگشتہ ہو گیا ہے تاکہ سب کے سب مایوس ہو جائیں اور اپنی راہ چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں۔ سامراج اس چیز کو سمجھ گیا ہے اور وہ اس کے لئے بھرپور کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سامراج اپنے تمام وسائل و امکانات کو بروئے کار لاکر اسلامی جمہوریہ کو مٹا دینے کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ واقعی یہ سامراج کا آخری ہدف ہے۔ البتہ وہ سیاستداں ہیں اور بخیال خود ایک اک زینہ طے کر رہے ہیں۔
پہلا زینہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کی امنگوں سے جدا کر دیں۔ دوسرا قدم یہ ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کے محبوں سے محروم کر دیں، تیسرا قدم یہ ہے کہ حکومت اور حکام کو عوامی طبقات سے دور کر دیں اور دونوں کے درمیان شگاف ایجاد کریں۔ چوتھا قدم یہ ہے کہ اوباش اور شر پسند عناصر کو لائیں، جرائم پیشہ افراد کا سہارا لیں اور ان کی مدد سے اپنا ہدف پورا کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ کے حکام سے غفلت، سستی اور بے توجہی ہوئی تو کوتاہ مدت میں ہی یہ چاروں قدم اٹھائیں جائيں گے لیکن اگر حکام ہوشیار و بیدار رہے اور غفلت کا شکار نہ ہوئے تو صدیاں گزر جائیں گی لیکن پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا ہوگا۔
ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق کے بر سر اقتدار اتحاد میں شامل سیاسی جماعت مجلس اعلائے اسلامی کے سربراہ سید عبد العزیز حکیم کے انتقال پر تعزیتی پیغام جاری فرمایا: پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم
انتہائی اندوہ ناک خبر موصول ہوئی کہ عراق کی مجلس اعلائے اسلامی کے سربراہ حجت الاسلام سید عبد العزیز حکیم نے دار فانی کو وداع کہا اور دار باقی کی سمت کوچ فرمایا۔
ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا، علمی شخصیات اور طلبا یونینوں کے اراکین اور نمایندوں نے بدھ کی شام قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں طلبا یونینوں کے نمایندوں اور علمی شخصیتوں نے علمی، سماجی، ثقافتی، سیاسی اور یونیورسٹی سے وابستہ متعدد امور و مسائل کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 4-6-1388 ہجری شمسی مطابق 26-8- 2009 عیسوی کو ملک کے طلبہ اور علمی شخصیات کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں ملک کے داخلی حالات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
ضیافت الہی، بہار قرآن اور رحمت پروردگار کے مہینے رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ قرآن کریم کی نورانی آیات کی خوشبو سے معطر ہو گیا، کچھ ممتاز قاریان قرآن، حافظوں اور اس فن کے بعض اساتذہ نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں قرآن کریم کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی۔ ساڑھے تین گھنٹے تک چلنے والی اس روحانی و قرآنی محفل میں گروہی شکل میں بھی تلاوت قرآن کی گئی اور نعت پاک سے ایک سماں بندھ گیا۔ اس روحانی محفل میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک میں فن تلاوت کے ارتقائی سفر کی جانب اشارہ کیا اور تجوید اور مفاہیم کے ادراک کے ساتھ کی جانے والی قرائت کو معاشرے میں قرآن سے انسیت پیدا کرنے کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام کے صدر بشار اسد اور ان کی زیر قیادت ایران آنے والے وفد سے ملاقات میں مشرق وسطی کے موجودہ حالات کو اسلامی مزاحمت اور استقامت کے لئے سازگار اور امریکا اور امریکی پالیسیوں کے پیروکاروں کے لئے ناسازگار قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے آج شام اپنی اس ملاقات میں فرمایا: استقامت و مزاحمت کے محاذ کو چاہئے کہ اس عظیم موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے تعاون اور تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائےـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک حکمنامے میں شیخ صادق آملی لاری جانی کو عدلیہ کا سربراہ منصوب کیا۔قائد انقلاب اسلامی کے حکمنامے کا متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گرانقدر محقق حجت الاسلام و المسلمین جناب الحاج شیخ صادق آملی لاری جانی دامت توفیقاتہ اب جبکہ عدلیہ میں آیت اللہ ہاشمی شاہرودی کی فرائض کی انجام دہی کی توسیع شدہ مدت بھی پوری ہو چکی ہے، آنجناب کی یادگار و باارزش سعی و کوشش اور خدمتوں کی قدردانی کے ساتھ آپ کو جو قم کے دینی علمی مرکز کی نمایاں شخصیتوں میں سے ایک اور جدت و ابتکار عمل کی صلاحیتوں سے سرشار شخصیت ہیں آئین کی دفعہ ایک سو ستاون کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کا سربراہ منصوب کرتا ہوں۔
فہرست
نظارت و نگرانی
نظارت کی اہمیت نگرانی کا معیار
مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت
نظارت اور مجریہ نظارت اور مقننہ نظارت اور عدلیہقائد انقلاب اور نظارت
ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش
شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض
اہلیت و صلاحیت کی نگرانی انتخابات کی نظارتعمومی نظارت
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار اخبارات و جرائد کی نظارتالہی نظارت
نظارت و نگرانی
نظارت کی اہمیت
ما تحت عملے پر نظارت رکھنا بہت اہم ہے۔ میں تاکید کر رہا ہوں کہ اعلی عہدہ داران اور دائریکٹر حضرات ما تحت عملے پر نظارت و نگرانی کو خاص اہمیت دیں۔ آپ کی کھلی نگاہیں جب آپ کے دائرہ کار میں دوڑتی رہیں گی تب ہی کام کے صحیح طور پر آگے بڑھتے رہنے کی ضمانت حاصل ہو سکے گی۔ انسانی عملے مشینوں کی طرح نہیں ہوتے کہ ایک بٹن دبا دیا اور مشین خود بخود کام کرنے لگی۔ انسانوں کے عملے میں ارادہ ہوتا ہے، فکر و نظر ہوتی ہے، ذوق اور رجحان ہوتا ہے، اچھی اور بری خواہشیں ہوتی ہیں۔ جو فیصلہ آپ نے کیا ہے اور جس کا انتظام کیا ہے اور جو کام آپ کے ما تحت عملے میں انجام پانا ہے، ممکن ہے اس میں کسی جگہ پر پہنچنے کے بعد انہی ارادوں، نقطہ نگاہ، ذوق یا خواہشوں کی شکل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ جیسے بہتے ہوئے پانی کے سامنے کوئی پتھر آ جائے یا پانی کے ہلکے بہاؤ کے سامنے ریت آ جائے تو بہاؤ مڑ جائے گا۔ اب اس رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا اور ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب نظارت ہو۔ معلوم ہوا نظارت بہت اہم ہے۔
ٹاپ
نگرانی کا معیار
نظارت و نگرانی کے سلسلے میں قانون اور معینہ معیار ملحوظ رکھا جانا چاہئے، ذاتی ذوق اور رجحان نہیں۔ آپ ہرگز ذاتی ذوق کے مطابق آگے نہ بڑھئے۔ اس انداز سے کام کیجئے کہ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکیں۔ قوانین پر عمل آوری کے سلسلے میں کوئی رو رعایت نہ کیجئے۔ اخلاقی پہلوؤں پر توجہ دینا چاہئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ذاتی امور کو بنیادی مسائل میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر سیاسی مسائل کو انقلابی ہونے یا انقلاب مخالف ہونے جیسے موقف سے چسپاں نہیں کرنا چاہئے۔ دوستی اور دشمنی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کبھی کسی کو ایک شخص پسند ہوتا ہے اور دوسرا نا پسند۔ ایسے میں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ یہ چیز کسی بھی سطح پر آپ کو متاثر نہ کر دے۔ آپ بغیر تحقیق کے کسی پر بھی الزام نہ لگائیے۔ ظاہری طور پر انتہائی ابتدائی علامتیں دیکھ کر کسی کو مجرم قرار نہیں دینا چاہئے۔
ٹاپ
مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت
نظارت اور مجریہ
یہ بیوروکریسی اور یہ انتظامیہ جو ناگزیر سسٹم ہے، اگر اس کی نگرانی نہ کی جائے تو بہت خطرناک چیز میں تبدیل ہو جائے گی۔ نگرانی آپ کو بآسانی آپ کے اہداف تک پہنچا سکتی ہے۔ اگر مجریہ کا سسٹم آپ کے ہاتھ میں نہ ہو تو آپ کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکتے، لیکن یہ سسٹم اگر چاہ لے تو آپ کو اس ہدف تک ہرگز پہنچنے نہ دے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کی تشکیل اور پورے سسٹم پر آپ کی نظارت کیسی ہے۔ اگر آپ نے اس پر بھرپور نگرانی رکھی تو یہ آپ کے اختیار میں رہے گا لیکن اگر آپ نے غفلت برتی تو پھر آپ خود اس کے دام میں اسیر ہو جائیں گے۔ پھر آپ کتنے ہی طاقتور ہوں، اس سے نمٹ نہیں پائیں گے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ صرف بہترین افراد کا ہی انتخاب کریں۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک معیار معین کرکے اپنے عملے کے ایک، دو یا دس ہزار افراد کو اول سے لیکر آخر تک اسی معیار پر پرکھا جائے؟! یہ کہاں ممکن ہے؟! مان لیجئے آپ نے اسی معیار پر سب کو تولا، لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ سب ہمیشہ اچھے ہی رہیں۔ کیونکہ کیا اچھے انسانوں کو وسوسے منحرف نہیں کر دیتے؟! بنابریں سب سے قابل اعتماد چیز یہ ہے کہ آپ نظارت اور نگرانی کے لئے وقت دیجئے۔
اگر ایک اچھا ڈائریکٹر اپنا وقت تقسیم کرنا چاہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا آدھا وقت اپنے ما تحت سسٹم کی نظارت پر اور باقی نصف وقت دیگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، منصوبہ سازی کرنے، احکامات صادر کرنے، میٹنگیں کرنے وغیرہ میں صرف کرنا چاہئے۔ ما تحت سسٹم پر نظارت کا مطلب ہے کہ آپ ہمیشہ موجود رہئے۔ البتہ وزراء کے کاموں پر صدر مملکت کی نظارت وزراء کی اپنے کاموں میں آزادی و خود مختاری سے متصادم نہ ہونے پائے۔ وزراء کے قانونی فرائض ہوتے ہیں، وہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہوتے ہیں تو وہ خود مختار ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وزراء کے سلسلے میں بھی نظارت لازمی ہے۔ ان کی آزادی عمل اپنی جگہ باقی ہے لیکن صدر کی جانب سے ان کی مکمل نگرانی کی جانی چاہئے۔
ٹاپ
نظارت اور مقننہ
ایسے قوانین وضع کرنا جو حکومت کو امور کا انتظام صحیح طور پر چلانے پر مامور اور ساتھ ہی اس پر قادر کریں اور پھر ان پر صحیح طریقے سے عملدرآمد کئے جانے کی نگرانی کرنا پارلیمنٹ کا اولیں فریضہ ہے۔ یہ فریضہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے درمیان تعاون اور ہم خیالی اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کی جانب سے انتظامیہ کی حمایت کا متقاضی ہے۔ (در حقیقت) قانون سازی اور سرکاری حکام کی کارکردگی کی نگرانی مقننہ کا فریضہ ہے اور (اسلامی جمہوریہ ایران) کے آئین کی رو سے پارلیمنٹ، حکومت کی نگراں ہے۔ اگر مجریہ کسی مقام پر کجی کا شکار ہو جائے اور غلط سمت میں آگے بڑھنے لگے، یا خدا نخواستہ (اختیارات کا) غلط استعمال ہونے لگے یا کوئی بد عنوانی ہو جائے تو ایسے میں بد عنوانی اور انحراف کا سد باب کرنے والا مرکز(پارلیمنٹ ہی ہے)۔
پارلیمنٹ، خدمت گزار حکومت بالخصوص صدر کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ہی نگراں کے فرائض بھی انجام دیتی ہے، اس کی ایک مثال یہی احتساب کا ادارہ ہے۔ احتساب کا ادارہ بہت اہم وسیلہ ہے۔ عظیم قومی بجٹ انتظامیہ کو ملتا ہے۔ یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ یہ بجٹ کیسے خرچ کیا گيا۔ کاموں کی درستی یا نادرستی کا تعین کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے پاس یہ اہم وسیلہ ہے۔ اس کی جانب سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ نگرانی کے وسائل سے استفادے کے سلسلے میں زیر نگرانی اجرائی شعبوں سے رابطہ بھی قانونی ہونا چاہئے۔ بعض رابطے نا درست ہوتے ہیں وہ آپ کے لئے نقصان دہ ہیں۔ یہ فرض کرنا محال نہیں کہ بعض زیر نگرانی اداروں کے ساتھ نادرست رابطے ہوں۔ اس سے نگرانی مختل ہوکر رہ جائے گی اور اس کی قوت تاثیر ختم ہوکر رہ جائے گی۔ آئین سے پارلیمنٹ کو جو وسیع توانائی ملی ہے اس کے اختیار سے نکل جائے گی، پھر پالیمنٹ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔
پارلیمنٹ کی جانب سے نگرانی بہت ضروری ہے، خواہ ادارہ احتساب جیسے وسائل کے ذریعے یا یہ کہ اراکین پارلیمنٹ بذات خود (نگرانی کریں) اور مثلا انتباہ، سوال کر لینا یا اس جیسے دیگر نگرانی کے اختیارات جو پارلیمنٹ کے پاس ہیں، یہ وسائل بہت اہم ہیں۔ ہاں یہ وسائل دو طاقتوں کے ما بین ٹکراؤ کا سبب نہ بن جائیں۔ قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون سے ملک کی ترقی کی راہ ہموار اور تعمیری عمل کی رفتار تیز ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اپنے نگرانی کے فرائض میں کوئی کوتاہی کرے۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ حکومت کے اعلی عہدہ داروں پر اپنے اعتماد کے لئے، ان کی فرض شناسی، تدین، افادیت، مہارت، نظام اور عوام سے وفاداری کو معیار قرار دے اور ان کی کارکردگی پر قانونی نگرانی کے سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرے۔ یہ رابطہ اتنا صحتمند ہونا چاہئے کہ حکومت پارلیمنٹ کو بڑے کاموں کے سلسلے میں مشکل کشا تصور کرے اور اپنے دشوار فرائض کی انجام دہی میں اس (پارلیمنٹ) کی حکمت و دوراندیشی سے استفادہ کرے۔
ٹاپ
نظارت اور عدلیہ
عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔
ٹاپ
قائد انقلاب اور نظارت
کوئی بھی نظارت سے بالاتر نہیں ہے۔ قائد انقلاب بھی اس سے مستثنی نہیں تو قائد انقلاب سے وابستہ اداروں کے مستثنی ہونے کا کیا سوال ہے؟ سب کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ ان لوگوں پر نظارت جو حکومت کر رہے ہیں، کیونکہ فطری طور پر حکومت قدرت اور دولت کے اجتماع سے عبارت ہے۔ یعنی قومی خزانہ اور سماجی و سیاسی اختیارات حکام کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، تاکہ وہ ایمانداری سے کام کریں۔ (چیزوں کا) غلط استعمال نہ کریں، ان کا نفس سرکشی پر آمادہ نہ ہو جائے، یہ لازمی اور واجب ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے۔ قائد انقلاب سے وابستہ اور قائد انقلاب سے الگ اداروں والی تقسیم درست نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ آئین کی رو سے مجریہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں، قائد انقلاب کے زیر نظر ادارے ہیں۔ اسی طرح دیگر ادارے بھی ہیں۔ قائد انقلاب کے زیر نظر ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ قائد انقلاب کسی ادارے کا انتظام سنبھالتا ہے۔ خیر جو بھی ہو، سب کی نظارت ضروری ہے۔ تمام حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو چاہئے کہ احتساب سے ہرگز نہ گھرائیں۔ مشہور کہاوت ہے:
آن را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است
اپنا حساب کتاب صاف رکھیں تاکہ احتساب سے انہیں کوئی گھراہٹ نہ ہو۔ تو ایسا نہیں ہے کہ جو ادارے قائد انقلاب سے وابستہ ہیں وہ نظارت سے مستثنی ہیں۔ نظارت کا عمل پوری سنجیدگی سے انجام دیا جانا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے جسے میں ماہرین کی کونسل کے اراکین اور دیگر افراد کے سامنے بارہا بیان کر چکا ہوں۔ میں نظارت کو پسند کرتا ہوں اور اگر کوئی کسی جگہ نظارت سے بھاگتا ہے تو مجھے اس سے شدید شکایت ہے۔ میری اپنی جتنی زیادہ نظارت کی جائے مجھے اتنی ہی خوشی ہوگی۔ یعنی نظارت مجھے بار محسوس نہیں ہوتی۔ بنابریں میں اس بات سے خوش ہوں گا کہ نظارت کی جائے۔ البتہ اگر کوئی نظارت کر رہا ہے اور اسے کچھ معلوم ہے تو اسے چاہئے کہ ماہرین کی کونسل کو اس سے با خبر کرے، وہ یقینا اس سے استفادہ کرے گی۔
ٹاپ
ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش
ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام قائد انقلاب کا انتخاب اور دوسرے مرحلے میں قائد انقلاب پر نظر رکھنا ہے، تاکہ اس کا اندازہ رہے کہ اس کی صلاحیت و اہلیت باقی ہے یا نہیں؟ اس کا علم، اس کا تقوی، اس کی انتظامی صلاحیت، اس کا فہم و ادراک اور اس کا خلوص و صداقت برقرار ہے اور (یہ صفتیں) معیار سے نیچے تو نہیں آئی ہیں۔ اسے اس کی نظارت کرنا ہے۔ یہ ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام ہے۔ ملک میں کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہو جو اس اہم کام کو انجام دے اور جسے اس کی اجازت ہو یا جس پر اس کی ذمہ داری ہو۔
ماہرین کی کونسل کی ایک تحقیقاتی ٹیم ہے۔ قائد انقلاب کے کاموں پر نظر رکھنے کی ذمہ دار یہی تحقیقاتی ٹیم ہے۔ اس ٹیم کا کام سال میں ایک بار نہیں ہوتا، اس کا کام جاری رہتا ہے اور قائد انقلاب کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے قائد انقلاب کے کام خفیہ نہیں ہوتے کیونکہ قائد انقلاب کے فرائض اور ذمہ داریاں معین اور واضح ہیں۔ یہ ٹیم آتی ہے تحقیق اور سوال و جواب کرتی ہے۔ یہ ٹیم ماہرین کی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین اپنے ایک دو دنوں کے اجلاسوں میں کافی بحث کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک اعلامئے پر اکتفا کر لیتے ہوں۔ اس میں بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔ تو یہ لوگ اپنا کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس اہم ادارے کا سال میں دو اجلاس کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پہلے ماہرین کی کونسل کا ایک سالانہ اجلاس ہوتا تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ہر سال دو اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ (نظارت کے لئے) ماہرین کی کونسل کے علاوہ خود عوام بھی ہیں۔
ٹاپ
شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض
اہلیت و صلاحیت کی نگرانی
اہلیت و صلاحیت کی نگرانی ایک قانونی چیز ہے۔ نگراں کونسل کی نظارت قانون کے مطابق اور آئین سے ہم آہنگ ہے۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں آئین میں موجود ہیں۔ یہ نظارت عام شہریوں کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی نا مناسب، ضرررساں اور برا آدمی اس حساس مرکز میں داخل نہ ہونے پائے۔ یہ نظارت صرف پارلیمنٹ سے مختص نہیں ہے، صدر کے سلسلے میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ نظارت اس لئے ہے کہ پارلیمنٹ، صدارت یا دیگر عہدوں پر جن کے سلسلے میں یہ نظارت رکھی گئی ہے مثلا ماہرین کی کونسل یا دیگر اداروں جیسے حساس مقامات پر ایسے افراد نہ پہنچنے پائیں جو ملک کے قوانین کی رو سے اس کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اہلیت کی نگرانی ایک اچھی چیز ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جو لوگ تنقید اور اعتراض کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ نگراں کونسل کی موافقت یا عدم موافقت سیاسی رجحان اور نقطہ نگاہ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن یہ خیال درست نہیں، نگراں کونسل کے عہدہ داروں نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔ میں نے بھی نزدیک سے ان کی کارکردگی پر نظر رکھی ہے اور مجھے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ اب یہ ممکن ہے کہ کبھی کوئی کسی چیز کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکے، یہ الگ بات ہے لیکن (کام کی) بنیاد، قانونی بنیاد ہے۔
ٹاپ
انتخابات کی نظارت
انتخابات کی نظارت بہت اہم چیز ہے کیونکہ انتخابات کی صحتمندی سے پارلیمنٹ صحتمند ہوگی۔ پارلیمنٹ کی صحتمندی، قوانین اور ملک میں کاموں کی بنیادوں کی صحت مندی کا پیش خیمہ ہوگی۔ کوئی بھی اجرائی ادارہ، خواہ کتنا ہی کارآمد کیوں نہ ہو، اگر اس کو سونپے جانے والے قوانین صحیح، درست اور واضح نہ ہوں تو اس میں بہرحال انحراف ہو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی صحت مندی اس میں آئین کی پابندی اور اسلامی پہلو کی پاسبانی پر موقوف ہے اور یہ چیز نگراں کونسل کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔ نظام کی صحت مندی کا دارومدار اس پر ہے کہ قوانین درست ہوں اور ان میں اسلام کو ملحوظ رکھا گیا ہو، چنانچہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ اگر اسلام سے مطابقت رکھنے والے قوانین وضع نہ کر سکے اور اس کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو بلا شبہ حکومت اور انتظامیہ پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ بنابریں نظام کی سلامتی کا دارومدار پارلیمنٹ کی سلامتی پر ہے۔ صحتمند، طاقتور، فعال اور مومن و اصول و ضوابط کے پابند اراکین والی پارلیمنٹ (ملک کے) نظام کی صحیح طور پر قانونی پشت پناہی کر سکے گی۔ نگراں کونسل بڑا قابل اعتماد ادارہ ہے جو انقلاب نے ملک کے نظام کو بخشا ہے۔ ہم نظام کی صحتمندی کی بابت مطمئن رہیں، اس کے لئے سب سے اہم، سب سے زیادہ فعال، سب سے زیادہ موثر اور نمایاں ادارہ نگراں کونسل ہے۔ نگراں کونسل انتخابات کے سلسلے میں امانتدار نگراں ہے۔
ٹاپ
عمومی نظارت
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت
(نظارت کا) جو پہلو سب سے پہلے مرحلے میں عوام سے متعلق ہے سماجی امور میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ انفرادی امور کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے تقوی پر سب سے زیادہ تاکید فرمائی ہے، لیکن سماجی امور کے سلسلے میں عوام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ سنجیدہ، زندہ اور حوصلہ انگیز کوئی اور حکم نہ دیا گيا ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک عمومی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی دعوت دینا اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو برے کاموں سے روکنا۔ امر اور نہی زبان سے انجام دی جاتی ہے لیکن زبان سے بھی پہلے قلب کا مرحلہ ہوتا ہے، اگر یہ مرحلہ پورا ہوا ہے تو زبان سے انجام پانے والا امر بالمعروف مکمل ہوگا۔ جب آپ اسلامی نظام کی مدد کی غرض سے لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیں گے مثلا فقراء کے ساتھ نیکی، صدقہ دینے، رازوں کی حفاظت، محبت، تعاون، کارہائے نیک، تواضع، حلم، صبر وغیرہ کے بارے میں آپ بات کریں اور کہیں کہ یہ کام کیجئے تو اگر اس نیک کام سے آپ کے دل کو بھی لگاؤ اور انسیت ہے تو آپ کا یہ حکم صادقانہ ہوگا۔ جب کسی کو برائیوں سے روکتے ہیں، مثلا ظلم کرنے، زیادتی کرنے، دوسروں (کے حقوق) پر تجاوز کرنے، عوام کے مال کو بے دردی سے خرچ کرنے، لوگوں کی ناموس کے سلسلے میں دست درازی کرنے، غیبت، جھوٹ، چغلی، سازش، اسلامی نظام کے خلاف سرگرمیاں انجام دینے اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ کام نہ کیجئے تو اگر ان کاموں سے آپ کا دل بیزار ہوگا تو آپ کی یہ نہی صادقانہ ہوگی اور آپ خود بھی اس امر و نہی کے مطابق عمل کریں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ آپ کا دل آپ کی زبان کے ہمراہ نہ ہوا تو آپ اس انسان لعن اللہ الآمرین بالمعروف التارکین لہ کا مصداق بن جائیں گے۔ جو شخص دوسروں کو تو نیک عمل کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا، لوگوں کو تو برائیوں سے روکتا ہے لیکن خود ان کا مرتکب ہو رہا ہے، ایسا شخص اللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔
اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی اور ان کی حدود، عام لوگوں کے لئے واضح اور آشکارا ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ سماجی روابط کے سلسلے میں یہ سب سے زیادہ کارآمد، کارساز، شیریں اور جدید طریقہ ہے۔ یہ در حقیقت تعاون سے عبارت ہے، یہ عام نگرانی ہے۔ یہ اچھائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ برائیوں اور شر پر قابو پانے میں مددگار ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں گناہ کو ہمیشہ گناہ تصور کیا جائے۔ یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جس میں معاشرے میں گناہ کو نیکی کے طور پر متعارف کرایا جائے اور اچھے کام کو برا کہا جانے لگے اور پوری ثقافت ہی تبدیل ہو جائے۔ اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج ہو تو گناہ کو عوام ہمیشہ گناہ ہی تصور کریں گے، اسے نیک اور ثواب کا کام نہیں سمجھیں گے۔ عوام کے خلاف سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ ایسی باتیں اور کام رائج کر دئے جائیں جن سے اچھے کام، جن کا دین نے حکم دیا ہے اور جن میں ان کی بھلائی ہے، لوگوں کی نظر میں برے بن جائیں اور برے کاموں کو اچھا قرار دے دیا جائے۔ یہ بہت ہی خطرناک چیز ہے۔
بنابریں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے پہلا فائدہ تو یہی ہے کہ اچھائی اور برائی کو اچھائی اور برائی ہی سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب معاشرے میں گناہ عام ہو جائے اور عوام کو گناہوں کی عادت پڑ جائے تو جو شخص معاشرے کا ذمہ دار ہے اور عوام کو خیر و نیکی کی سمت لے جانا چاہتا ہے اس کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے، وہ ناکام ہو جائے گا، یا پھر آسانی سے اپنا کام نہیں کر پائے گا، یہ کام کرنے کے لئے اسے بہت کچھ صرف کرنا پڑے گا۔ ارشاد ہوتاہے لتامرن بالمعروف و لتنھون عن المنکر او لیسلطن اللہ علیکم شرارکم فیدعوا خیارکم فلا یستجاب لھم اپنے درمیان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج کیجئے اور اس کے پابند رہئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی آپ پر شر پسندوں، مفسدوں اور (دوسروں کے) آلہ کاروں کو مسلط کر دے گا۔ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ ہو اور معاشرے میں چوری، غیر قانونی کام، بد عنوانی اور خیانت رائج ہو جائے اور (یہ صورت حال) رفتہ رفتہ معاشرے کی ثقافت کا حصہ بن جائے تو نابکار افراد کے بر سراقتدار آنے کی راہیں کھل جائيں گی۔
ٹاپ
حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعدد میدان ہیں جن میں سب سے اہم حکام کا میدان ہے۔ یعنی عام لوگ حکام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ عوام حکام سے اچھے کام کا مطالبہ کریں، درخواست اور التماس کی صورت میں نہیں بلکہ تحکمانہ انداز میں۔ یہ بہت اہم میدان ہے، یہ فقط اسی میدان تک محدود نہیں بلکہ دوسرے بھی میدان ہیں۔
سارے شعبوں میں نہی عن المنکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا توانائی رکھنے والے افراد جو کام اپنے ہاتھ میں لیتے اور انجام دیتے ہیں اس میں قومی ذخائر کا جو غلط استعمال ہوتا ہے، یعنی ملکی امور میں یہی اقربا پرستی، امپورٹ کے معاملے میں، کمپنیوں کے سلسلے میں، پیداواری ذخائر سے استفادے کے سلسلے میں حکام جو اقربا پرستی کرتے ہیں۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ دو تاجر آپس میں تعاون اور دوستی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، یہ الگ چیز ہے، اس کا حکم بھی الگ ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص سرکاری عہدے پر ہے اور جس کے پاس اختیارات ہیں کسی شخص سے خاص قسم کے تعلقات قائم کرتا ہے۔ یہ چیز ممنوع اور حرام ہے اور اس سے ان تمام لوگوں کو روکا گیا ہے جو ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ ہر ادارے میں ہر شخص پر وہ ماتحت ہو یا افسر (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) واجب ہے۔ اس طرح موقع پرست افراد کو روکا جا سکتا ہے۔
ٹاپ
اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار
اسلامی جمہوری نظام ایک عوامی نظام ہے۔ عوامی نظام یعنی یہ کہ اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں عوام کا کردار ہے، یہ عوام کو بے خبر نہیں رکھ سکتا، اسے عوام کو با خبر رکھنا ہے، انہیں تجزئے اور تبصرے کا موقع فراہم کرنا ہے، انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات مہیا کرانا ہے۔ ایسے نظام میں اطلاعات پانی اور ہوا کی مانند حیاتی درجہ رکھتی ہیں، ہمارا نظام اسی انداز کا ہے۔ عوام جتنے زیادہ باخبر ہوں گے اسلامی نظام کو اتنا ہی زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام عوام کو واقف اور باخبر رکھنے کا متقاضی ہے۔
ہمارے معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ مختلف سیاسی و سماجی میدانوں میں وارد ہوکر باریک بینی سے جائزہ لیں اور مناسب رہنمائی اور ہدایات کے ذریعے سب کو فرائض کی بابت آگاہ کریں۔ بے شک عوام اور حکام کے درمیان میڈیا بالخصوص اخبارات، رابطے کی وسیع کڑی ہے۔ اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کو بر وقت مناسب اطلاعات فراہم کرنے کے کوشش کریں۔ ہمارے اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کی اقدار، حقیقی شناخت اور آرزوؤں پر توجہ دیں۔ اخبارات و جرائد معرفت بخش اقدامات کے ذریعے عوام کو بھی ان کے فرائض سے روشناس کرا سکتے ہیں اور حکام کو بھی ان کی سنگین ذمہ داریوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں معاملہ اس کے الٹ ہو تو یہی اخبارات و جرائد اختلافی باتوں کو ہوا دیکر اور غلط فہمی اور تفرقہ و انتشار پیدا کرکے عوام اور حکام دونوں کو ان کے بنیادی فرائض سے غافل کر سکتے ہیں۔
میں اخبارات و جرائد کو بہت ضروری اور لازمی مانتا ہوں، ایرانی معاشرے اور ہر اس سماج کے لئے جو اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اخبارات و جرائد کے لئے میری نظر میں تین اہم ذمہ داریاں ہیں۔ تنقید و نظارت کی ذمہ داری، شفاف اور درست اطلاعات کی فراہمی کی ذمہ داری اور معاشرے میں تبادلہ خیال کروانے کی ذمہ داری۔ میرا ماننا ہے کہ آزادی قلم و بیان، اخبارات و جرائد اور عوام کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئین کے صریحی قوانین میں سے ہے۔ میرا نظریہ ہے اگر معاشرہ آزاد ذرائع ابلاغ اور آزاد و با فہم قلم سے محروم ہو جائے تو دوسری بہت سی چیزوں سے بھی محروم ہو جائے گا۔ آزاد اخبارات کا وجود قوم کے بلوغ فکری کی علامت اور در حقیقت فکری پیشرفت کی بنیاد ہے۔ یعنی ایک طرف قوم کی آزادی و فکری بلوغ سے اخبارات و جرائد کو وجود ملتا ہے اور دوسری طرف اخبارات و جرائد قوم کی فکری پیشرفت و بلندی میں مددگار ہوتے ہیں۔ البتہ اس اصول کے ساتھ ہی میری نظر میں کچھ دوسرے اصول بھی ضروری ہیں جو اخبارات و جرائد اور قلم کی آزادی کے نام پر نظر انداز نہ ہونے پائیں۔ فن تو یہ ہے کہ انسان آزادی سے بھی بہرہ مند ہو، حقیقت کا بھی ادراک رکھے اور ساتھ ہی عیوب سے بھی اپنا دامن بچائے رہے۔ ایسی روش اختیار کرنی چاہئے۔
ٹاپ
اخبارات و جرائد کی نظارت
اخبارات و جرائد کی نظارت ایک لازمی امر اور فریضہ ہے۔ یہ آئين، اخبارات کے قانون اور عام قانون کا تقاضا بھی ہے۔ نظارت نہ ہو تو اخبارات سے متوقع قومی مفادات و مطالبات کی تکمیل نہیں ہو سکے گی۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رائے عامہ ایک آزاد اور بے قید و بند علاقہ ہے جہاں جو جی چاہے کیا جائے۔ رائے عامہ تجربہ گاہ کا مینڈک نہیں کہ جس کا جو جی چاہے اس کے ساتھ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی کا سہارا لیکر عوام کے جذبات، عقائد اور مقدسات پر ضرب لگائی جائے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ بنابریں نظارت لازمی ہے، تاکہ ان چیزوں سے بچا جا سکے۔ یہ ایک فریضہ ہے۔
ٹاپ
الہی نظارت
ہمیں چاہئے کہ اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں آخرت کو دخیل کریں اور اسے بنیادی کردار دیں۔ بعض لوگ، عوامی نظارت اور اس کا تو خیال رکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لیکن الہی نظارت اور اس چیز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس پر ہمارے مستقبل و انجام کا انحصار ہے۔ ہم عمر کے ہر موڑ پر وجود و عدم کے دہانے پر ہوتے ہیں موت کے دوسری طرف الہی محاسبہ اور حساب کتاب کرنے والے باریک بینوں کے مواخذے کا سامنا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے۔ زندگی، ابدیت اور حقیقی انجام تو ہم ہی سے متعلق ہے۔ اس کو اہمیت دیں۔ چار دن کے لئے ہم آئے ہیں، ہمیں اس جگہ کو آباد کرنا چاہئے، جو بات کہیں، جو دستخط کریں، جو مشورہ دیں، جو فیصلہ کریں، جو برطرفی اور تقرری کریں اس میں آخرت، خوشنودی پروردگار اور محاسبہ آخرت کو مد نظر رکھیں۔
بعض کا خیال ہے کہ دولت و ثروت کی ماہیت و حقیقت ہی شر پر مبنی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ قدرت و دولت زندگی کے دیگر عطیات کی مانند زینت کا درجہ رکھتی ہے۔ (زینۃ الحیاۃ الدنیا) ہم اس طاقت کو استعمال کس طرح کر رہے ہیں؟ اگر صحیح استعمال کیا تو یہ (شر نہیں) خیر ہے، اگر ہم نے اس سے عوام کی خدمت کی تو یہ خیر ہے، اگر ہم نے اسے اخلاقیات و روحانیت کی ترویج اور انسانوں کی فلاح و نجات کے لئے استعمال کیا تو یہ خیر ہے لیکن اگر ہم نے ذاتی مفادات کے لئے، خواہشات کے لئے اور درندوں کی طرح کبھی اس پر تو کبھی کسی اور پر جھپٹ پڑنے کے لئے استعمال کیا تو یہی (سرمایہ) شر میں تبدیل ہو جائے گا اور اس کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس کا شر بھی اتنا ہی زیادہ بڑھ جائے گا۔ نظام کے حکام اللہ تعالی کو ہر آن حاضر و ناظر جانیں۔ قیامت کے دن ہونے والے الہی محاسبے کو سنجیدگی سے لیں۔ محاسبہ الہی بر حق ہے۔ معمولی سے معمولی کام، لمحے بھر کی کوتاہی اور غفلت سب ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہو جاتی ہے اور باقی رہتی ہے۔ ان میں ایک ایک کا حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح آپ فرائض کی انجام دہی میں جو سختیاں برداشت کر رہے ہیں اس کا بھی ایک اک لمحہ آپ کے نامہ اعمال میں محفوظ ہوگا۔ اپنے کام کے سلسلے میں آپ جو فکر مند ہوتے ہیں، جو سعی و کوشش کرتے ہیں، آپ کے اعصاب اور اہل خانہ پر جو دباؤ پڑتا ہے، اللہ تعالی کی راہ میں کوئی کام انجام دینے کے لئے، وہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی غفلت، کوتاہی، یا بے توجہی ہو گئی یا عوام اور نظام کے مفادات پر آپ نے اپنے بعض ذاتی یا جماعتی مفادات کے باعث توجہ نہ دی تو یہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ رہے گا اور اللہ تعالی اس بارے میں ہم سے سوال کرے گا۔
ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران اورعمان کے ما بین عمیق دینی، جغرافیائی اور تاریخی اشتراکات کے پیش نظر دونوں ملکوں کے تعاون کے فروغ پر تاکید کی۔ شاہ عمان جناب سلطان قابوس اور ان کے ہمراہ تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں کل قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ تیس برسوں کےدونوں ملکوں کے تعلقات کو برادرانہ اور دستانہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ عمیق دینی، جغرافیائی اور تاریخی اشتراکات کے پیش نظر دونوں ملکوں کے تعاون اور باہمی تعلقات کے فروغ کی راہ ہموار ہے۔
عالم انسانیت کے نجات دہندہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی عید میلاد کے موقع پر آج صبح ڈاکٹر احمدی نژاد کے صدارتی حکم کی توثیق کی تقریب کا انعقاد کیا گيا۔ تقریب بڑے ہے با شکوہ انداز سے روحانی ماحول میں منعقدہ ہوئی اور قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بارہ جون کے یادگار کارنامے میں عظیم ملت ایران کے چار کروڑ رائے دہندگان کی شرکت کو سراہا اور عوامی مینڈیٹ کی توثیق کرتے ہوئے جناب احمدی نژاد کو صدر منصوب فرمایا۔
بارہ مرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تین اگست دو ہزار نو کو ڈاکٹر احمدی نژاد کے صدارتی حکم کی توثیق کی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب سے ڈاکٹر احمدی نژاد نے اپنے خطاب میں اپنے دوسرے دور صدارت کی ترجیحات بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پانچ مرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق ستائیس جولائی دو ہزار نو کو اپنے دفتر کے کارکنان اور دفتر کی حفاظت پر مامور اہلکاروں اور ان کے اہل خانہ سے اپنی سالانہ ملاقات میں کچھ دلچسپ باتیں بیان کیں اور اہم ہدایات دیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج تلاوت قرآن کے چھبیسویں عالمی مقابلے کے شرکاء سے خطاب میں قرآن پر عمل کرنے کو امت مسلمہ کے وقار، پیشرفت، عظمت و اتحاد کا موجب قرار دیا اور ملک کے اندر اتحاد قائم رکھنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ چند روز قبل کے واقعات اختلاف و خلیج کا باعث نہ بننے پائيں، سب کو چاہئے کہ برادرانہ انداز میں ایک دوسرے سے تعاون اور ملک کی ترقی کے لئے کوشش کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے تلاوت کلام پاک کے مقابلوں کے اہتمام کا ہدف قرآن سے نزدیک ہونا قرار دیا اور فرمایا کہ تلاوت کلام پاک صرف نشستوں اور آنکھوں اور کانوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ تلاوت قرآن کا اثر ہمارے دل پر ہونا چاہئے۔
تہران میں منعقدہ تلاوت کلام پاک کے عالمی مقابلے کے شرکاء سے تین مرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق پچیس جولائی دو ہزآر نو کو اپنے اہم خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے قرآن کو صرف محفل قرآن اور آنکھوں اور کانوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے متن زندگی اور قلب کی گہرائیوں میں اتارے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسلامی معاشرے کی سب سے اہم عصری ضرورت بعثت کے پیغام پر عملدرآمد، عقل و خرد کو معیار قرار دینا، اخلاقی اقدار کی بالادستی اور قانونی نظم و ضبط کا بنیاد قرار پانا ہے اور اس سلسلے میں اہم شخصیات اور بزرگوں کی ذمہ داریاں سب سے اہم ہیں۔ عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر مختلف عوامی طبقات اور اسلامی نظام کے حکام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے بعثت پیغبر اسلام کو تاریخ بشریت کا نہایت اہم موڑ قرار دیا۔
بعثت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے انتیس تیر تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بیس جولائی دو ہزار نو کو ایک اجتماع سے خطاب کیا۔
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ و السلام کے یوم ولادت با سعادت پر حسینیہ امام خمینی (رہ) میں آج ملک بھر سے آنے والے مختلف عوامی طبقات کے لوگوں کے اجتماع سے بڑا دلنشیں ماحول پیدا ہو گیا اور جذبہ عقیدت سے معمور اس فضا میں حضرت علی علیہ السلام کو خراج تحسین پیش کیا گيا۔ محبان اہل بیت علیہم السلام کے اس عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی معاشرے میں انصاف قائم کرنے اور اتحاد کی حفاظت پر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خاص توجہ کی جانب اشارہ کیا اور عالم اسلام بالخصوص ملت ایران کی اہم ترین موجودہ ضرورت کے طور پر اتحاد اور دشمنوں کی سازشوں کی طرف سے ہوشیاری کی نشاندہی کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج عدلیہ کے سربراہ اور عہدہ داروں سے ملاقات میں قانون پر عمل آوری ساتھ عدل و انصاف کے قیام اور ترویج کو اس شعبے کا اہم ترین فریضہ قرار دیا اور ملک کے حالیہ واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جملہ مسائل کو قانونی معیاروں کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے اور دونوں فریقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی حلقے، کارکن اور شخصیات کو چاہئے کہ عوام کے جذبات برانگیختہ کرنے اور ان کے در میان خلیج پیدا کرنے سے پرہیز کریں۔
سات تیر تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھائيس جون دو ہزار نو کو قائد انقلاب اسلامی سے عدلیہ کے سربراہ اور دیگر عہدہ داروں نیز اسی دن رونما ہونے والے سانحے کے شہدا کے پسماندگان نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس سالانہ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں عدلیہ کی اہمیت اور اس ادارے کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے جج صاحبان کے لئے خاص ہدایات دیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ شورائے اسلامی کے اسپیکر اور پریزائڈنگ بورڈ اور اراکین سے ملاقات میں اسلامی انقلاب کے اصولوں و بنیادوں اور معاشرے کی اہم ضرورتوں سے قوانین کی مکمل ہم آہنگی اور مطابقت کی ضرورت پر تاکید کی اور فرمایا: قوانین وضع کرتے وقت ان کے ثقافتی اور تربیتی اثرات پر پوری سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کو ملک کی فکری توانائی قرار دیا اور فرمایا: یہ توانائی قانون کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے اور یہ قانون پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے بنابریں سب سے اہم بات ایک طرف تو ان قوانین کا اسلامی انقلاب کی اقدار اور اصولوں سے ہم آہنگ ہونا ہے اور دوسری طرف معاشرے کی فوری اور دراز مدت کی ضرورتوں سے ان کی مطابقت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کی قیادت میں منعقد ہونے والی نماز جمعہ روحانیت اور حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کے تذکرے سے معمور تھی۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج تہران کی تاریخی اور اتحاد بخش نماز جمعہ میں اپنے انتہائی اہم خطاب میں یاد خدا، نصرت الہی پر اعتماد اور قلبی سکون و اطمینان کو گزشتہ تیس برسوں کے دوران متعدد طوفانوں اور حوادث سے ملت ایران کے سربلندی کے ساتھ گزر جانے کا اہم سبب قرار دیا اور انتخابات کے مختلف پہلوؤں اور انتخابات کے بعد کے مسائل پر پوری صراحت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بارہ جون کے انتخابات میں عوام کی بے مثال پر جوش شرکت، دین پر اعتماد اور قومی امید و شادابی کی عظیم نمائش، دشمنوں کے لئے سیاسی زلزلہ اوراسلام و انقلاب کے دوستوں کے لئے تاریخی جشن تھا اور انتخابات کے سبھی چار کروڑ باشعور شرکاء نے امام (خمینی رہ)، انقلاب اور شہداء کو ووٹ دیا، اور چاروں امیدواروں کا تعلق اسلامی نظام سے ہے، بنابریں سب کو چاہئے کہ موجود قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے مسائل کو اٹھائیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے دسویں صدارتی الیکشن کے چاروں امیدواروں کے انتخابی دفاتر کے نمایندوں نے قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں ایک دوستانہ اجلاس منعقد کیا اور انتخابات اور اس سے متعلق مسائل پر اپنا اپنا موقف صریحی انداز میں بیان کیا جبکہ متعلقہ حکام نے ضروری وضاحتیں پیش کیں۔ اجلاس میں آئین کی نگراں کونسل شورائے نگہبان وزارت داخلہ، ادارہ احتساب اور الیکشن کیمپین کمیشن کے عہدہ داروں نے بھی شرکت کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس اجلاس میں تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملک میں انتخابات ہمیشہ قومی اتحاد و وقار کا آئینہ رہے ہیں، پولینگ مراکز پر تقریبا چار کروڑ رائے دہندگان کا حاضر ہونا اسلامی نظام کے لئے ایک افتخار ہے۔ اس عظیم کارنامے میں سبھی سیاسی رجحان کے افراد شریک ہیں اور سب کا فریضہ قومی اتحاد کی حفاظت کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کے یوم ولادت کی مناسبت سے اپنے خطاب میں دسویں صدارتی انتخابات کو معجزہ الہی قرار دیا اور انتخابات میں عوام کی بے مثال اور پروقار شرکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی بیدار، با بصیرت اور آگاہ قوم نے اس عظیم کارنامے سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بیان کردہ اقدار اور ان کے راستے سے منسلک ہے اور اسی تناظر میں اپنی ترقی و خوش بختی کے لئے کوشاں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں صدر احمدی نژاد کے اہم حریف میر حسین موسوی سے ملاقات میں فرمایا کہ وہ جملہ مسائل کو قانونی طریقوں سے اٹھائیں۔کل شام ہونے والی ملاقات میں جناب میر حسین موسوی نے انتخابات کے سلسلے میں اپنے تحفظات بیان کئے۔