قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ فارس میں مقدس دفاع کے شہدا کے اہل خاندان اور جانبازوں سے ملاقات میں فرمایا کہ عظیم ملت ایران اسلامی اقدار کی پابندی اور اپنے قومی اہداف و امنگوں کی تکمیل کے لئے سعی پیہم کے ساتھ عظیم المرتبت شہدا کے راستے پر گامزن رہے گی اور دنیوی و اخروی نقطہ کمال تک پہنچ کر سربلند شہدا اور ان کے خاندانوں کی حقیقی معنی میں قدر دانی کے اپنے جذبے کو ثابت کرے گی ـ
اگرچہ اسلامی انقلاب کے دوران رونما ہونے والے تعجب خیز بے نظیر واقعات کم نہیں ہیں اور ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے آغاز سے ، جو اسلامی انقلاب پر منتج ہوئی، اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک، جدوجہد اور انقلاب کے دوران رونما ہونے ہونے والے حیرت انگیز اور عدیم المثال واقعات یکے بعد دیگرے آنکھوں اور دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تاہم ان حیرت انگیز واقعات کے دوران شہید کا مسئلہ ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج شام شیراز میں صوبہ فارس کی مسلح فورسز کی مشترکہ تقریب سے خطاب میں مسلح فورسز کو قوم کی حفاظت اور سلامتی کا مضبوط قلعہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ مضبوط قلعہ تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال سے روز بروز مستحکم سے مستحکم تر بننا چاہئے۔
تقریب میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی تشریف آوری پر سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کا قومی ترانہ پیش کیا گيا اور آپ نے شہدا کے میموریل کے سامنے فاتحہ خوانی کی اور مسلح افواج کے عظیم المرتبت شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔
مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے پاسداران انقلاب فورس، فوج، پولس، اور رضاکار فورس (بسیج) کے دستوں کا معائنہ فرمایا اور مقدس دفاع میں جسمانی اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں سے ملاقات کی۔
صوبہ فارس کا دورہ کر رہے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج ہزاروں اساتذہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ معاشرے میں اسلامی نقطہ نگاہ اور اصولوں کی بنیاد پر اساتذہ اور معلمین کے مرتبے اور مقام کا احیا کیا جانا چاہئے اور قوم کی نظر میں اساتذہ کے لئے خاص عزت و وقار اور عظمت و مقام ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے یوم استاد کو پوری قوم کا دن قرار دیتے ہوئے اساتذہ کے مرتبے اور مقام کے سلسلے میں اسلام اور مغرب کے نقطہ نگاہ میں گہرے فرق کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام میں تعلیم و تربیت افراد اور معاشرے کو زندگی عطا کرنے کے معنی میں ہے لیکن مادی تہذیب میں استاد کی اہمیت کا معیار پیسہ کمانے کی اس کی صلاحیت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ نظریہ حالیہ دو صدیوں کے دوران ایران میں بھی رائج ہوا جس سے استاد کے حقیقی مقام اور ساکھ کو نقصان پہنچا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج بدھ کی شام صوبہ فارس کے ہزاروں طلبا، علمائے کرام اور ممتاز دینی و علمی شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے تقوا و خود سازی، دینی علوم اور الہی تعلیمات سے مکمل آگاہی اور ملکی و عالمی سیاسی حالات سے واقفیت کو علما کی سب سے اہم ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے معنوی و روحانی اہداف کی تکمیل کے سلسلے میں علما اور دینی طلبا کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علما کے دشوار فرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے انسانی معاشرے کو سلامتی کی اشد ضرورت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ قوموں کو حقیقی معنی میں امن عامہ کی نعمت دو عوامل قدرت اور دینی روحانیت و معنویت کے زیر سایہ ہی حاصل ہو سکتی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اہل دین کی سیاسی طاقت کا نمونہ ہونے کی حیثیت سے ان دونوں عوامل سے بہرہ مند ہونا چاہئے۔ یہ تاریخی ضرورت علما کی ذمہ داری کو بڑھا دیتی ہے۔
بہت اچھی اور دلچسپ نشست ہے ۔ ایسے فضلاء، علماء، طلاب، جوانوں اور نوجوانوں کا بڑا مجمع کہ جنہوں علم دین اور خدا کے بندوں کی مدد و نصرت کی راہ میں قدم رکھا ہے، آج یہاں موجود ہے۔ یہ صوبہ بھی علمی شخصیتوں اور علمائے دین کا مرکز رہا ہے۔ ہم اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں عظیم شخصیات کو میدان عمل میں پہنچانے میں اس صوبے کا کردار نظر آتا ہے، قدیم ایام سے، تیسری ہجری
علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے گہوارے شہر شیراز میں، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا والہانہ استقبال کیا گيا۔شہر کے مومن اور انقلابی عورت مرد، پیرو جواں، چھوٹے بڑے سب نے دل و جان سے زیادہ عزیز اپنے رہبر کی راہ میں اس انداز سے پلکیں بچھائیں کی قوم اور ولی امر مسلمین کے گہرے قلبی رشتے کا بڑا حسین منظر نظروں کے سامنے آ گیا۔
شہر کی انتظامیہ کا پروگرام یہ تھا کہ زند اسکوائر سے قائد انقلاب اسلامی کا استقبال کیا جائے گا تاہم شہر شیراز کے میہمان نواز عوام بالخصوص جوان اور نوجوان صبح سویرے سے ہی زند اسکوائر سے کئی کلومیٹر آگے آکر پروانہ وار جمع ہو گئے تھے اور بے صبری و اشتیاق کی ملی جلی کیفیت میں اپنے قائد کے منتظر تھے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن شیراز کے عزیز عوام سے ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا۔
صوبہ فارس سے تعلق رکھنے والے احباب اور شیرازی دوستوں کی ایک مدت سے شکایت تھی کہ ایک عرصے سے صوبہ فارس کا دورہ انجام نہیں پایا ہے۔ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آپ عزیزوں سے ملاقات، آپ کے دلکش شہر کے نظارے اور آپ کے مایہ فخر اور پر برکت صوبے کے دورے کا میں بھی آپ ہی کی طرح مشتاق تھا۔ یہ فرزانہ شخصیات کا گہوارہ اور علم و ادب اور ذوق و فن کاری کا شہر ہے۔ یہ تاریخی اور شہرہ آفاق چہروں کا شہر ہے۔ شہر شیراز اور صوبہ فارس کو ملک کے شہروں اور صوبوں میں خاص مقام حاصل ہے۔ مختلف شہروں کے دوروں اور مقامی عوام سے ملاقاتوں کے دوران یہ میرا وتیرہ رہا ہے کہ متعلقہ شہر کی تاریخی حیثیت اور دیگر خصوصیات کا تذکرہ کرتا ہوں اس سے میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس عظیم سر زمین کے ہر خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے سامنے اپنے علاقے کے تشخص اور تاریخ کی واضح تصویر آ جائے تاہم شہر شیراز اور صوبہ فارس کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کے شہر اور صوبے کی عظیم شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں ان کا ایسا شہرہ ہے کہ شیراز کے تعارف اور یہاں کی تاریخ کے تذکرے کی ضرورت ہی نہیں۔ البتہ میں ایک خاص نتیجے پر پہنچا ہوں، جس کے تحت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ صدیوں کے دوران تمام علمی شعبوں میں شیراز کے باسیوں نے اپنی انسانی استعداد اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اسی طرح سماجی اور دینی شعبوں اور اس اہم چیز کے سلسلے میں جس پر قوموں کی تقدیر کا انحصار ہوتا ہے یعنی قومی عزم و ارادہ، صوبہ فارس اور شہر شیراز کی بڑی تابناک تاریخ ہے۔ آپ کی تاریخ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس خطے اور یہاں کہ عوام کی عظمت کے نئے نئےپہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ دینی پہلو کا جہاں تک سوال ہے کہ جس کے بارے میں میں بعد میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا، خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے حضرت احمد بن موسی اور آپ کے بھائیوں اور دیگر امام زادوں کی قبور، اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرزندان رسول نے فارس کے علاقے اور یہاں کے عوام کو اپنا مخاطب اور اپنی منزل کے طور پر منتخب فرمایا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ بالخصوص جناب احمد بن موسی جو خاندان رسالت کی بڑی برجستہ شخصیت تھی ان کے بارے میں نقل کیا گيا ہے، و کان احمد بن موسی کریما جلیلا ورعا و کان ابوالحسن علیہ السلام یحبہ و یقدمہ، آپ کے والد گرامی اپنی اولادوں میں آپ کو خاص درجہ دیتے تھے اور آپ سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ سخی، پرہیزگار اور بڑے عظیم المرتبت انسان تھے۔ خاندان رسالت کے اس چشم و چراغ اور دیگر شخصیات کی نگاہ انتخاب شیراز پر ٹھہری وہ آئے اور عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان عظیم شخصیات کی برکتیں آج بھی ملک کے اس اہم علاقے اور اس صوبے میں جاری و ساری ہیں۔
علم و ادب کے شعبے میں دیکھا جائے تو سعدی و حافظ زبان فارسی اور فارسی ادب کی پیشانی کے دو درخشاں ستارے ہیں۔ کون ہے جو اس سے آگاہ نہ ہو۔ علم و ادب کے مختلف شعبوں میں اس خطے سے عظیم شخصیات سامنے آئي ہیں جو اپنے اپنے دور میں یکتائے زمانہ تصور کی جاتی تھیں۔ فلسفہ، فقہ، ادبیات، فن و ہنر، تفسیر و لغت، نجوم، فزکس اور طب جیسے شعبوں کی عظیم شخصیات جو مختلف علوم کے نقطہ کمال پر فائز تھیں اور زمانے کے سرکردہ شخصیات میں شمار کی جاتی تھیں ان کا فردا فردا تعارف کرانے کا اس وقت موقع نہیں ہے اس کے لئے ایک الگ قسم کی محفل اور اجتماع کی ضروت ہے۔ یہاں تو بس سرسری تذکرہ ہی کافی ہے۔
سماجی امور اور آپ عزیزوں کی غیرت دینی اور جرئت اقدام کے سنہری صفحات تاریخ میں موجود ہیں۔ ملک کی دینی علوم کی تاریخ میں جتنے مجاہد علما اس صوبے سے نکلے ہیں اس کی مثال ملک کے کسی اور صوبے میں مل پانا مشکل ہے۔ مرزا شیرازی سے سب واقف ہیں، سید علی اکبر فال اسیری مرحوم نے انگریزوں اور غیر ملکیوں کے خلاف اسی شہر سے قیام کیا اور اپنی مخالفت کا اعلان فرمایا۔ انہیں گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا لیکن ان کی تحریک کے اثرات باقی رہے۔ یہی جگہ حافظیہ جہاں اس وقت آپ حضرات تشریف فرما ہیں اس کے بارے میں لکھا گيا ہےکہ سید علی اکبر فال اسیری حافظیہ کے نزدیک زیارت عاشورا پڑھنے میں مصروف تھے کہ اچانک دبش پڑی اور آپ کو گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا۔ مرزا شیرازی اسی طرح مرزا دوم مرزا محمد تقی شیرازی کہ جو پہلی عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں برطانیہ کے حملے اور قبضے کے خلاف عراقی عوام کی جد وجہد کی روح رواں تھے۔ سید عبد الحسین لاری مرحوم بھی ایک برجستہ اور ممتاز شخصیت تھی جس نے اسی صوبہ فارس کے غیور اور شجاع قبائل کی مدد سے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی اور آئینی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے جد و جہد فرمائي۔ اس مجاہد شخصیت نےتقریبا سو سال قبل اپنی جد و جہد شروع کی۔
صوبے میں ایسے علما بڑی تعداد میں گزرے ہیں جنہیں صوبہ فارس کے قبائل اور شہروں بالخصوص شیراز سے تعلق رکھنے والے مومن و غیور عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سید نور الدین حسینی مرحوم نے اسی شہر شیراز میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کے اہلکار کو جس نے دینی مقدسات کی بے حرمتی کی تھی حد الہی جاری کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کوڑے لگائے۔ آپ نے ظالم نظام کے خلاف شجاعانہ انداز میں سیاسی اور سماجی جد و جہد کی۔ اس کے بعد بھی علما کے جہاد کے زمانے میں آیت اللہ شہید دستغیب، آیت اللہ محلاتی مرحوم اور دیگر علما نے شیراز کی جامع مسجد عتیق کو اپنی تحریک کا مرکز قرار دیا۔ شیراز کے علما کی تحریک کا شہرہ اور اس تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے آیت اللہ دستغیب مرحوم کی شعلہ تقاریر گوشے گوشے تک پہنچیں۔ میں اس وقت قم میں تھا۔ شہید دستغیب کی تقریر کی کیسٹ طلبا کے درمیان گشت کر رہی تھی۔ ہم نے اسی وقت شیراز کے مجاہد علما کے موقف سے آگاہی حاصل کی۔
عہد حاضر میں بھی خواہ وہ انقلاب کے بعد کا زمانہ ہو، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کا زمانہ ہو یا اس کے بعد سے اب تک کے ایام، آپ عزیزوں، نوجوانوں، برجستہ شخصیات اور مومنین نے خود کو ہر مرحلے پر ممتاز مقام پر رکھا ہے اور صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ اپنے عمل سے صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام کے تشخص کی پاسداری کی ہے۔ اس وقت بھی سائنس و ٹکنالوجی، تحقیق و خلاقیت اور علمی سرگرمیوں کے سلسلے میں یہ صوبہ زباں زد خاص و عام ہے۔ آپ کے صوبے سے تعلق رکھنے والے سائنسداں اور دانشور آج عالمی سطح کی شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس، الیکٹرانک انڈسٹری، پیٹرو کیمیکل انڈسٹری، سائنس کے مختلف شعبوں اور انجینئرنگ میں یہ صوبہ بہت آگے ہے۔ شیراز یونیورسٹی کئی نئے موضوعات اور اسپشلائیزیشنس میں پیش قدم رہی ہے۔ مختلف شعبوں اور میدانوں میں آپ نوجوانوں اور لوگوں کا تعاون بہت نمایاں ہے۔ اس شہر میں تعینات فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں نے مقدس دفاع کے دوران بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح ماضی میں دین و ایمان اور عقیدے کے لحاظ سے، علمی کوششوں کے زاوئے سے دفاعی سرگرمیوں کی رو سے اسلامی انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کے نقطہ نگاہ سے اور دیگر متعدد امور میں اس صوبے اور شہر نے ایسی استعداد اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ جو قابل صد ستائش ہے۔ اس نکتےپر کہ یہ انسانی صلاحیتوں کا عظیم سرچشمہ ہے حکام کے کی توجہ بھی مرکوز رہنی چاہئے اور خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں اور تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان میں سے ہر فرد میں یہ صلاحیت ہے کہ اس سرزمین اور پوے خطے کو اپنے فیض سے سیراب کرے اس وضاحت سے میرا مقصد یہی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ صوبہ فارس بالخصوص شہر شیراز کے عوام کے گہرے ایمان و عقیدے کی بابت صرف دعوا نہیں ہے بلکہ تمام پہلؤوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ مذہبی تشخص کی درخشاں تاریخ اور گزشتہ برسوں کے دوران اہم سرگرمیاں انجام دینے والے مجاہد علما کے اس شہر کے خلاف، دینی رجحان کو ختم کر دینے کے لئے دو سمتوں سے حملے ہوئے ایک تو طاغوتی حکومت کے دربار کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا کہ شہر شیراز کو صد فیصد مغرب زدہ شہر کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ اس کا سلسلہ انیس سو پچاس کے عشرے سے شروع ہوکر انقلاب کی کامیابی تک بیس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ سن ستاون اٹھاون کی بات ہے کہ ہم نے اسی شہر شیراز میں بے راہ روی کے مناظر دیکھے جس کے لئے با قاعدہ منظم طور پر کوششیں کی گئیں۔ نوجوانوں کو اخلاقی انحطاط اور دین سے بیزاری کی طرف لے جایا گيا۔ یہ سلسلہ اسی طرح سن ستر اکہتر تک جاری رہا۔ جشن ہنر شیراز اور کچھ دیگر معاملے جس کے بارے میں آپ بخوبی واقف ہیں البتہ شائد ہمارے کچھ نوجوانوں کے اس کا علم نہ ہو، یہ سب کچھ منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔
ایک اور فکری انحراف کہ جس کی شیراز میں دیگر شہروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ترویج کی جا رہی تھی الحادی مکتب فکر تھا، اس کی ترویج ایک گروہ بڑے شد و مد سے کر رہا تھا۔ خاص طور سے سید نور الدین مرحوم کے زمانے میں جو بڑے شجاع، حالات سے آگاہ اور بہت فعال و زیرک عالم دین تھے، جب یہ دیکھا گيا کہ شیراز میں علما کا خاص اثر و رسوخ ہے تو دربار اور مارکسسٹوں نے ایک قینچی کی دو بلیڈوں کی طرح عوام اور نوجوانوں کے دین و ایمان کو نابود کر دینے کی کوششیں کیں لیکن جب سن باسٹھ ترسٹھ ع میں اسلامی تحریک شروع ہوئي تو انہی علما اور نوجوانوں نے اس شہر میں بڑے اہم اور فیصلہ کن اقدامات انجام دئے یعنی قومی سطح پر قم، تہران، شیراز، تبریز اور مشہد صف اول کے شہروں میں تھے، شیراز انہیں صف اول کے شہروں میں ایک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیراز کی برجستہ علمی شخصیات کو گرفتار کرکے تہران لے جایا گيا تھا۔
عوام کو دین سے دور کرنے کی جی توڑ کوشش کی گئي لیکن عوام کا جواب دو ٹوک تھا۔ عوام نے اپنے عمل اور اپنی استقامت سے ان کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد بھی طاغوتی حکومت کے اقتدار کے آخری برسوں یعنی ستتر اٹھہتر میں شیراز کے عوام نےملک کے تمام شہروں کے لئے خود کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کیا۔
میں نے یہ جو باتیں عرض کی ہیں انہیں آپ مقدمہ سخن نہ سمجھئے یہ تکلفات کی باتیں نہیں ہیں، خوش کرنے کی کوشش نہیں ہے، یہ کسی خاص نتیجے تک پہنچنے کے لئے ہے۔ اب میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کروں گا جو انقلاب کے امور سے متعلق ہے اور جس کا ان باتوں سے تعلق ہے۔
اپنے ملک کی تاریخ میں ہم جتنا غور کرتے ہیں اور ماضی میں جتنا بھی دور تک پلٹ کر دیکھتے ہیں، اسلامی انقلاب کی کوئي نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ میں اس کی تھوڑی وضاحت کرتا ہوں، ہمارے ملک کی تاریخ میں، جنگ پسندوں کی کوششوں، لشکر کشی، کودتا یا بغاوت اور ٹکراؤ کے ذریعے اقتدار کی چھین جھپٹ ہمیشہ رہی ہے تاہم اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا، کئي خاندان اقتدار میں آئے اور گئے۔ آپ غور فرمائیں کہ اسی شہر شیراز اور صوبہ فارس میں مثال کے طور پر زندیہ بادشاہوں کی حکومت رہی پھر قاجاریہ خاندان آیا اور اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، دو فوجوں اور دو اقتدار پرستوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ دونوں فوجی طاقتیں تھیں۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں خواہ وہ اسلام سے قبل کا زمانہ ہو یا بعد کا آج تک اقتدار کی منتقلی اسی طرز پر انجام پائي۔ ماضی میں صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے جس کے بارے میں میں ابھی وضاحت کروں گا، اس کے علاوہ ہمیشہ اقتدار پر قبضہ، لشکر کشی، فوجی چڑھائی سے ہوا۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا۔ عوام میں اس کے لئے کوئي دلچسپی ہی نہیں تھی، خواہ ایک سلسلہ حکومت سے دوسرے سلسلہ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ ہو یا ایک ہی سلسلہ حکومت کے اندر کشمکش کا واقعہ ہو۔ اس سلسلے میں قاجاریہ دور اقتدار کی ایک مثال آپ کے شہر کی ہی ہے کہ فتح علی شاہ قاجار کی موت کے بعد فتح علی شاہ کے ایک بیٹے حسین علی مرزا کی شیراز میں حکومت تھی، وہ تہران کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا، فتح علی شاہ کے پوتے محمد شاہ کو بادشاہت مل گئي تھی دونوں میں اسی بات پر جنگ ہو گئی۔ اسی شہر شیراز کے دروازے کے باہر دو فوجوں کے درمیان جنگ ہوئي۔ البتہ ان جنگوں میں پستے تھے عوام انہیں بھی نقصان پہنچتا تھا، ان کی کھیتیاں برباد ہو جایا کرتی تھیں ان کی جان و مال کے لئے خطرے پیدا ہو جاتے تھے۔ تاہم ان جنگوں میں ان کا کوئي کردار نہیں ہوتا تھا۔ تاریخ میں یہی سلسلہ رہا ہے۔ صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے تاہم تاریخی لحاظ سے اس میں کچھ شکوک و شبہات ہیں اور کچھ افسانے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایک لوہار کاوہ کا ہے۔ بتاتے ہیں کہ عوام کی پشتپناہی سے اس نے ضحاک کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اس کا خاتمہ کر دیا، اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ ہے، اس کے علاوہ تاریخ میں کوئي اور مثال نہیں ہے۔ البتہ پہلوی دور کے آغاز کے بعد کی جو تاریخ یورپیوں نے مرتب کی ہے اس میں فریدون، ضحاک اور کاوہ لوہار کا کوئي تذکرہ نہیں ملتا۔انہوں نے الگ ہی نہج پر تاریخ لکھی ہے کہ جوایک الگ موضوع ہے جس پر اس وقت میں گفتگو نہیں کروں گا۔ اگر صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ تاریخ میں ہے اور بس۔
اسلامی انقلاب ہماری تاریخ میں اقتدار اور حکومت کی تبدیلی کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس نے شہنشاہی نظام کو عوامی حکومت میں تبدیل کر دیا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو عوامی قوت سے انجام پائی۔ اس واقعے میں دو حکومتوں کا ٹکراؤ اور لڑائي نہیں تھی۔ عوام باہر آئے انہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا اور عظیم الہی قوت کے ذریعے بادشاہوں، طاغوتی طاقتوں اور نفس پرست ظالموں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حکومت عوامی حکومت بن گئي ۔ جہاں تک ہم نے غور کیا اور سمجھا ہے یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ تو یہ واقعہ ایسی اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر مختلف پہلؤوں سے غور کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی صرورت ہے۔ انقلاب کو تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم اس واقعے کے بنیادی امور پر ایک نظر ڈالیں، بہت زیادہ تفصیلات میں جانے اور چھوٹے موٹے واقعات کا جائزہ لینے کا زیادہ فائدہ نہیں ہے اور اس سے کسی بات کی پوری وضاحت نہیں ہو سکتی۔ ہمیں پورے واقعے پر ایک وسیع نظر ڈالنے کی ضرورت ہے البتہ ہمارے دانشوروں اور علمی شخصیات نے اس واقعے کا اسی انداز سے جائزہ لیا ہے تاہم عوامی سطح پر بھی اس واقعے کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
دنیا کے کسی بھی واقعے کے سلسلے میں چندعناصر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ پہلا عنصر واقعے کے اتبدائي عوامل ہیں یعنی، اہداف، تاریخی حالات، جغرافیائي صورت حال اور سیاسی ماحول یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی واقعے کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ دوسرا عنصر واقعے کے علمبردار ہیں۔ ہمارے انقلاب میں پہلا عنصر یہی عوام کا ایمان، حریت پسندانہ جد و جہد اور اس تحریک کی وہ چنگاری ہے جو آئینی انقلاب، مرزا شیرازی کی طرف سے تمباکو کو حرام قرار دئے جانے کے واقعے، دیگر بہت سے واقعات اور تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کے واقعے سے پیدا ہوئی۔ اس طرح حالات بنے اور مجاہد علما اور خود امام (خمینی رہ) نے اس سے استفادہ کیا اور اس تحریک کو سمت عطا کی۔ یہ رہا پہلا عنصر۔
دوسرا عنصر یعنی واقعے کے علمبردار، ہمارے عوام تھے۔ تاریخ کے بے نظیر واقعے عظیم اسلامی انقلاب میں عوام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ آج جو نام نہاد روشن فکرانہ نظرئے میں عوام کے کردار کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس سے بے اعتنائي برتی جاتی ہے، غلط ہے۔ جب عوام کا رجحان کسی سمت بڑھتاہے اور کچھ لوگ اسے اپنے لئے نفع بخش نہیں دیکھتے تو اس کی اہمیت کو کم کرنے لگتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ عوامی ارادے اور عوامی تعاون سے ہی اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔
ملت ایران نے اپنے ایمان، اپنے جذبات، اپنی قومی حمیت، اپنی پر افتخار تاریخ و ثقافت کے ذریعے یہ عظیم تحریک شروع کی۔ ایرانی قوم کے ہدف کے بارے میں جس سے بھی سوال ہوتا تھا وہ اپنی زبان میں اس ہدف کو بیان کرتا تھا۔ اس طرح اسلام کے پرچم تلے، آزادی اور خود مختاری حاصل ہوئي۔ انقلاب کے دوران رائج نعرہ :استقلال (خود مختاری)، آزادی ، جمہوری اسلامی در حقیقت عوام کی دلی خواہش اور ان کے ما فی الضمیر کا آئينہ دار تھا۔ عوام کی یہی خواہش تھی۔ عوام دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے کہ اس عظیم مملکت کے حکام اور ذمہ دار افراد فکری طور پر غلام بنے ہوئے تھے۔ اغیار کے تابع تھے، سامراجی طاقتوں کی غلامی کا پٹہ گلے میں پہنے اس پر نازاں تھے۔ ان کے سامنے تو بھیگي بلی بنے رہتے لیکن عوام کے ساتھ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ فرعون بھی شرمندہ ہو جائے۔ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ عوام کو کسی طرح کے انتخاب کا حق نہیں تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل تک کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عوام ، شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ ووٹ ڈالیں اور کسی کا انتخاب کریں اس کا کوئي تصور ہی نہیں تھا۔ حکومت موروثی، حکام اغیار کی ہدایت پر منصوب کردہ آئينی انقلاب سے وجود میں آنے والی پارلیمان مجلس شورا غیر منتخب پارلیمان اور عوام، اس غیر ذمہ دار ادارے کے فیصلوں کی قربانی تھے۔ عوام نے خود مختاری چاہی آزادی کی للک ان میں پیدا ہوئی قومی وقار کی چاہت ان میں جاگی، مادی آسائش اور روحانی و اخروی سر بلندی کا جذبہ ان میں پیدا ہوا جس نے عوام کو میدان عمل میں پہنچایا۔ تو یہ رہا اس واقعے کا دوسرا عنصر۔
تیسرا عنصر وہ رکاوٹیں اور مخالف طاقتیں ہیں جو واقعے کو رونما نہیں ہونے دینا چاہتیں جن کی وجہ سے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی یہ عنصر ابتدا سے ہی سامنے رہا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایرانی قوم نے سعی و کوشش اور جی توڑ محنت سے خود مختاری و آزادی حاصل کی ہے۔ البتہ اس کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہے اور قوم یہ قیمت ادا کر بھی رہی ہے۔ اگر کوئي قوم یا شخص اپنے مطلوبہ ہدف اور مقصد کی تکمیل تو چاہتا ہے لیکن اس کے لئے کوئي قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تو اس کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ کوئي رسک نہ لینے اور سعی و کوشش سے کنارہ کشی کی صورت میں ہدف تک رسائي کا تصور خام خیالی ہے۔ قوموں کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ وہی قوم عزت و سربلندی حاصل کرتی ہے جو پوری شجاعت سے میدان عمل میں قدم رکھتی ہے اپنے ہدف کی جانب بڑھتی ہے اور اس کی قیمت بھی پوری آگاہی کے ساتھ ادا کرتی ہے۔ایرانی قوم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایران نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کی شکل میں قیمت ادا کی ہے۔ یہ قیمت ہے حریت پسندی اور آزادی کی۔
سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتیں اپنی پوری سیاسی و اقتصادی قوت سے اور اپنے تشہیراتی نیٹ ورک کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہیں کہ شائد ایرانی قوم کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ صرف ایٹمی حق سے نہیں، ایٹمی حق تو قوم کے حقوق کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے حق سے، آزادی و خود مختاری کے حق سے، خود ارادی کے حق سے، سائنسی ترقی کے حق سے عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں۔ ایرانی قوم جو سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دو صدیوں کی پسماندگی کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ طاقتیں سراسیمہ ہو گئی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ایرانی قوم جو دنیا کے اس اہم ترین خطے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی حیثیت سے پہنچانی جاتی ہے یہ کامیابیاں حاصل کرے۔ لہذا دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن ایرانی قوم کے بے مثال ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے۔
۔۔۔۔۔ حاضرین کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم آپ پر پاندیاں عائد کر دیں گے۔ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیں گے۔ اچھا تو آپ نے ان تیس برسوں میں ایرانی قوم کا کبھی سخت تو کبھی نرم اقتصادی محاصرہ جاری رکھا، اس سے کس کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ایرانی قوم کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ہرگز نہیں۔ ہم نے پابندیوں سے اپنی پیش رفت کے لئے زمین ہموار کی۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم آپ کے فوجی ساز و سامان کے محتاج تھے۔آپ معمولی ترین فوجی ساز و سامان ہمیں فروخت نہیں کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ صاحب آپ پر پابندیاں ہیں۔ ہم نے انہی پابندیوں سے استفادہ کیا۔ آج ایرانی قوم نے ایسی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں کہ کل ہم پر پابندیاں عائد کرنے والے آج بوکھلائے ہوئے ہیں کہ ایران تو علاقے کی سب بڑی فوجی طاقت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ تو یہ نکلا پابندیوں کا نتیجہ۔ پابندیوں نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا، ہم نے اسے سنہری موقع میں تبدیل کر دیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں مغرب کی پابندیوں کا خوف نہیں۔ ایرانی قوم ہر پابندی اور اقتصادی محاصرے کے سامنے سعی پیہم کی ایک ایسی مثال پیش کرے گی جس سے اس کی ترقی میں اور بھی چار چاند لگ جائيں گے۔
۔۔۔۔۔۔ حاضرین کے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب پر اس زاوئے سے غور و فکر، یعنی اس کے پس پردہ کارفرما جذبات، اس کے حالات، عوامل اور نظام کی تشکیل اسی طرح اس میں بنیادی کردار کے حامل عوام اور ان کے ایمان کے بارے میں غور و فکر اور ان کی قربانیوں کا جائزہ لیں تو ہم جس مقام اور جس جگہ پر بھی ہوں گے اپنے معمولی اختلافات کو نظر انداز کر دیں گے۔ ہماری نظریں انقلاب کی عظمت اور تیس برسوں میں اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے جاری انقلابی سفر اس نکتے پر مرکوز رہیں گی کہ ایرانی قوم دشمنوں کی سازشوں میں شدت کے باوجود اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئےہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کے اللہ و اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایرانی قوم کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اس قوم کے عزم و ارادے کے کمزور کرنے کے لئے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا استعمال کریں، یہاں تک کہ قدرتی آفات، زلزلے، خشکسالی، اور دنیا کے عام مسائل جیسے مہنگائی جیسے مسائل۔ اگر آپ آج غیر ملکی نشریات کے تبصرے سنیں تو دیکھیں گے کہ ہمارے دشمن اپنے پروپگنڈے میں اقتصادی مسائل کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ ملت ایران کے پختہ ارادے کو کمزور کر دیں۔ ایرانی عوام اپنے حکام سے آشنا ہیں۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مہنگائي کی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ حکام اور محکمے بے اعتنائي برت رہے ہیں، غلط ہے۔ وہ ہرگز بے اعتنائي نہیں برت رہے ہیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ آج مغربی ممالک دوسروں سے زیادہ اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔ خود انہیں کے بقول، جو اقتصادی بحران امریکہ سے اٹھا ہے رفتہ رفتہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور دوسرے بھی بہت سے ممالک اس کی زد میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک اس صورت حال کا کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔
اقوام متحدہ نے دنیا میں غذائي اشیاء کے بحران کا اعلان کیا ہے۔ ملت ایران کی مشکلات بڑے بڑے دعوے کرنے والے ان ممالک میں بہتوں سے کم ہیں۔ البتہ عوام اور حکام کی محنت اور کوشش سے ان مشکلات کو بھی دور کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے سب کو مل جل کر کوشش کرنی چاہئے۔
مجریہ، عدلیہ اور مقننہ سارے شعبوں کے حکام کی ذمہ داری ہے اسی طرح اپنی جگہ پر عوام کا بھی فریضہ ہے کہ کوشش کریں۔ میں نے آپ کے صوبے اور شہر کی انسانی صلاحیتوں کے بارے میں جو کچھ بیان کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ صلاحیتیں اور توانائیاں ملک اور انقلاب کے مستقبل کے لئے استعمال کی جائیں، لوگ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ ہم میں سے ہر شخص جس جگہ پر بھی ہو اسے ملک کی تقدیر اور مستقبل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہم موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ طالب علم، استاد، کسان، صنعت کار اور سرمایہ کار کو مختلف صنعتی اور زراعتی شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو محسوس کرنا چاہئے۔ جب سب اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں گے اور حکومتی ادارے، پارلیمان اور عدلیہ کی جانب سے صحیح رہنمائي ہوگی تو قوم، مسائل مسلط کرنے کی دشمنوں کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں سے گزر جائے گي اور اپنی صلاحیتوں اور حکیمانہ طرز فکر سے ایسا معاشرہ تشکیل دے گي جو اسلام چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے عرض کیا کہ یہ سال ہماری قوم کی لئے خلاقیت کا سال ہونا چاہئے۔ یہ خلاقیت کسی ایک شعبے سے مختص نہیں ہے۔ تجربہ گاہیں ہوں کہ تحقیقاتی مراکز، دینی تعلیمی مرکز ہوں کہ یونیورسٹیاں، ادارے ہوں کہ صنعتی کارخانے، زراعت ہو کہ باغبانی ہر جگہ اور ہر میدان میں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کو ایک ایک قدم آگے بڑھنا ہے تاکہ مجموعی طور پر ملک ایک اہم موڑ سے آگے بڑھے۔
میں نے اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اس سال کے آغاز میں بھی اور گزشتہ سال کی ابتدا میں بھی عوام اور حکام دونوں کو یاددہانی کرائي کہ دشمن کی نگاہیں حساس ترین نقطے یعنی معیشت پر مرکوز ہیں اور ملک کو اقتصادی میدان میں مسائل سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان سے جو بھی بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں اور جو ان کے بس کے باہر ہے اس کا اپنی تشہیراتی مہم میں پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ دشمن کی تشہیراتی مہم کے تحت مختلف شکلوں میں ہم پر جو وار کئے جا رہے ہیں اس کا توڑ، مالی نظم و نسق ہے، کفایات شعاری ہے، صارف کلچر کے سلسلے میں محتاط انداز اختیار کرنا ہے ۔ میں اپنے عزیز شہریوں سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اسراف کی حد تک پہنچ جانے والا صارف کلچر کسی بھی قوم کی بڑی خطرناک بیماری ہے۔ ہم کسی حد تک اس بیماری سے دوچار ہیں۔ پانی کی کمی کی مشکل کے بارے میں جس کا صوبہ فارس سمیت کئي صوبوں کو سامنا ہے، سب سے پہلے میری اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ باران رحمت نازل فرمائے ساتھ ہی میں آپ سے بھی عرض کروں گا کہ اسراف کی ایک مثال پانی کی فضول خرچی ہے۔ گھروں کے دروازوں پر پانی گرانا ہی پانی کا اسراف نہیں ہے بلکہ زراعت کی آبیاری میں بھی فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے۔ اس شعبے کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ اس نکتے پر خاص توجہ کریں۔ اسراف کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ پانی کے سلسلے میں بھی اور دیگر امور کے سلسلے میں بھی۔
قوم بڑے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اور بھاری قیمتیں ادا کرتے ہوئے، جو کہ واقعی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی اور ایرانی قوم نے شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ یہ قیمت ادا کی، آج بہت سے منزلیں طے کر چکی ہے اور دشوار گزار مراحل کو عبور کر چکی ہے اور اللہ تعالی کے فضل کرم سے آج اس مقام پر کھڑی ہے تاہم اب بھی ہم ابتدائي منزلوں میں ہیں۔
ہماری قوم اپنے عزم راسخ سے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے تہہ در تہہ جمع ان توانائيوں سے انشاء اللہ اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی۔ انشاء اللہ ان تدابیر سے کہ جن کے بارے میں میں صوبے میں مختلف اجتماعات اور جلسوں میں وضاحت کروں گا اور موقع کی مناسبت سے جن پر روشنی ڈالوں گا انشاء اللہ عوام اپنا یہ سفر سربلندی و سرفرازی کے ساتھ مکمل کریں گے۔
میں آپ با ذوق، مہربان، مخلص، مہمان نواز، خوش اخلاق اور خوش گفتار دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بے شک ایرانی قوم کی بہت سی قابل ستائش خصوصیات شیرازی شہریوں اور صوبہ فارس کے عوام میں نمایاں ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کو خاص جوش و جذبے سے نوازا ہے۔ روز بروز یہ جوش و جذبہ بڑھے اور اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی نے آٹھویں پارلیمان کے دوسرے مرحلے کے انتخابات کے لئے پولنگ کا آغاز ہوتے ہیں حسینیہ امام خمینی میں موبائل بیلٹ باکس نمبر 110 میں اپنا ووٹ ڈالا۔
اس مرحلے کے انتخابات کی اہمیت پہلے مرحلے کی ہی مانند ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے دونوں مرحلوں کے انتخابات میں کوئي فرق نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں جس احساس ذمہ داری نے ہم سب کو پولنگ مراکز تک پہنچایا وہی جذبہ اور احساس ذمہ داری اس بار بھی ہمیں پولنگ مراکز پر لایا ہے کہ ہم اپنے حق رای دہی کا استعمال کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج وزارت محنت و سماجی امور کے ممتاز عہدہ داروں اور محنت کشوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی عزت و سربلندی میں محنت کش طبقے کے اہم کردار کی جانب اشارہ کیا اور اس طبقے کے احترام کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔ آپ نے آٹھویں پارلیمان کے دوسرے مرحلے کے انتخابات اور اس کی خاص اہمیت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ جس طرح ایرانی قوم نے پہلے مرحلے کے انتخابات میں دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے دشمنوں کی تشہیراتی مہم کا جواب دیا، دوسرے مرحلے کے انتخابات میں بھی اپنی بھرپور شرکت، اور اعلی ترین صلاحیتوں کے حامل افراد کے انتخاب کے ذریعے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کر دے گی کہ اس قوم کا جوش و خروش دائمی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز بھائيو اور بہنو آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نمونہ محنت کش افراد، محنت کش طبقے کے نمائندگان اور شعبہ محنت سے وابستہ عہدہ داران! یقینا ایسے افراد کا اجتماع جن کا شعار اور نعرہ محنت کشی ہے، اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ ترین اجتماعات میں سے ایک ہے۔ قرآن اور اسلام میں محنت مزدوری کا بڑا بلند مقام ہے۔ البتہ کام اور محنت و مزدوری کارخانوں، کھیتوں اور اس طرح کے دیگر شعبوں تک محدود نہیں ہے تاہم قرآن میں جس عمل صالح پر خاص تاکید کی گئي ہے اس کے دائرے میں یہ کام بھی آتے ہیں۔ آپ جب ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، پوری تندہی اور سنجیدگی کے ساتھ، خلاقیت کے جذبے کے ساتھ، ایک خاندان کے لئے آذوقہ فراہم کرنے کی پاکیزہ نیت کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں اور کام انجام دیتے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک عمل صالح ہے۔ الا اللذین آمنو و عملوا الصالحات تو عزیزان گرامی عمل صالح اس کو کہتے ہیں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟! اس سے بہتر کیا ہے کہ انسان ایسے کام اور مشغلے میں مصروف ہے جس پر اس کے آذوقے کا دارومدار ہے۔ یہ کام عمل صالح ہے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے۔ آمنو و عملوا الصالحات محنت مزدوری اور کام کا مقام یہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے یوم مسلح افواج انتیس فروردین (سترہ اپریل) کے موقع پر فوج کے اعلی رتبہ کمانڈروں نے آج سولہ اپریل کو قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک حکمنامہ جاری فرما کر جناب سید احمد میر عمادی کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمائندہ منصوب فرمایا۔ حکمنامہ درج ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم حجت الاسلام جناب الحاج سید احمد میر عمادی دامت برکاتہ اب جب کہ حجت الاسلام جناب حسینی میانچی، خرم آباد میں گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد مقدس شہر قم واپس تشریف لے جایا چاہتے ہیں تو جناب والا کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمایندہ منصوب کرتا ہوں۔ اس صوبے اور اس شہر کے عوام کی دلاوری و شجاعت، اور ایمان و استقامت زباں زد خاص و عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد اور اس سے قبل مختلف مواقع پر اس خطے کے عوام اپنی انہی صفات سے یاد کئے جاتے رہے ہیں اور جناب والا بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے زیور علم و عمل سے آراستہ اور خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے پر افتخار نسبت کے ذریعے وابستہ ہیں۔ اللہ تعالی کی توفیقات اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا فداہ کی عنایات سے انشاء اللہ آپ علاقے کے عزیز عوام بالخصوص نوجوانوں کے درمیان ایک با بصیرت و مہربان رہنما، امین و صادق مشیر اور دانا و تجربہ کار استاد کا کردار ادا کریں گے۔ اللہ تعالی سے آپ کے لئے تائید و نصرت اور لرستان کے عوام کے لئے کامرانی و سعادت کی دعا کرتا ہوں۔ سید علی خامنہ ای 27فروردین 1387(15. 4. 2008)
آپ (نوجوان افراد) ہم لوگوں سے بہت بہتر ہیں۔ آپ ہم لوگوں سے جلدی اور بہتر طریقے سے خدا کا پیغام سمجھ سکتے ہیں۔ خدا آپ سے گفتگو کرتا ہے، آپکی باتوں کا جواب دیتا ہے اور آپ اس جواب کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبا سے ملاقات کے دوران 26/7/1999 بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان صرف گناہ کی طرف مائل رہتا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ایک نوجوان جس طرح جسمانی لحاظ سے مضبوط ہے اسی طرح اس کی قوت ارادی بھی مضبوط ہے۔ صوبہ گيلان میں سپاہ پاسداران کی قدس16 بٹالین کے پریڈ گراؤنڈ میں6/5/2001 دین، نوجوانوں کی فطرت اور اسکے مزاج میں شامل ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اور آپ انہیں خدا سے آشنا کریں انکا ضمیر، انکا دل اور انکی نوارنیت انہیں خدا سے آشنا کردیتی ہے۔سپاہ پاسداران کے کمانڈروں سے ملاقات کے دوران 9/3/1999بعض لوگ سوچتے ہیں کہ گناہوں سے صرف بوڑھوں کو بچنا چاہیے حالانکہ بوڑھے افراد جس طرح جسمانی اعتبار سے کمزور ہیں اسی طرح روحانی اعتبار سے بھی کمزور ہیں۔ (جبکہ انکے مقابلے میں) نوجوان کا ارادہ، ثبات قدم اور استقامت ان سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ایک کلیدی نکتہ ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب سے اقتباس16/11/2000دین و معنویت کی راہ کہیں پر بھی ختم نہیں ہوتی۔صوبہ اردبیل کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات کے وقت26/7/2000نوجوان، حق و حقیقت کو بہت آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ نوجوان کھلے دل و دماغ سے اعتراض کرتا ہے اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ حق کو آسانی کے ساتھ قبول کرلینا، کھلے دل سے اعتراض کرنا اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم بڑھانا؛ آپ ان تین چیزوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کتنی خوبصورت حقیقت آپکی آنکھوں کے سامنے ہے جو مشکلات حل کرنے کا بڑا کارگر نسخہ ہے۔صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے خطاب سے اقتباس 3/11/2001دور حاضر کا جوان چاہتا ہے کہ اسکے لیے مذہبی تعلیمات کی وضاحت کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ دین تک عقل و استدلال کے ذریعہ پہونچے۔ یہ ایک فطری اور اچھا مطالبہ ہے۔ یہ مطالبہ خود دین نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب 16/11/2000 نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند ہوتا ہے۔ فی الحال میرے مد نظر سیاسی دنیا والی اصلاح نہیں ہے۔ نوجوان کے اصلاح پسند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور سوسایٹی میں انصاف، قانونی آزادی اور دینی افکار کا بول بالا ہو۔ اسلامی تعلیمات اس کے اندر ایک انقلاب برپا کردیتی ہیں اور وہ ان تعلیمات کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں امیرالمومنین (ع) کی جو تصویر ہے وہ اس کے اندر ایک انقلاب پیدا کرتی ہے ۔ وہ موجودہ حالات کی کمیوں کا جائزہ لیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کے سماج میں اصلاح ہو۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سےملاقات میں 3/11/2001انسان خاص طور پر نوجوان، خوبصورتی کی طرف مایل ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ خود بھی خوبصورت ہو ۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ایک فطری چیز ہے جس سے اسلام نے بھی نہیں روکا ہے۔ جس چیز سے اسلام نے روکا ہے وہ اس کا غلط استعمال ہے۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے نوجوانوں کی بزم میں27/4/1998 نوجوان ظلم کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ آپ پوری دنیا کی تاریخ میں کہیں پر بھی یہ نہیں دیکھیں گے کہ کسی ملک میں نوجوانوں کی تحریک دشمنوں کے حق میں شروع ہوئی ہو۔ ہمیشہ نوجوانوں نے اپنے ملک میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف تحریک چلائی ہے۔تہران کی یونیورسٹیوں کی طلباء یونینوں سے خطاب سے اقتباس14/1/1999 ہر نوجوان کے سامنے کچھ مسایل ہوتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا جا کستا کہ تم ان کے بارے میں نہ سوچو۔ نوجوان کو سب سے پہلے اپنی تعلیم اورمستقبل کی فکر ہے۔ وہ اپنے مستقبل کو سنوارنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا گھر بار بسانا چاہتا ہے۔ جو چیزیں جمالیات سے متعلق ہیں انکی طرف اسکا رجحان زیادہ ہے۔ جن چیزوں کا تعلق احساسات و جذبات سے ہے نوجوان کا ان سے ایک گہرا تعلق ہے۔ لیکن نوجوان صرف انہی چیزوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ اپنی سوسایٹی کی مشکلات کے بارے میں بھی فکرمند رہتا ہے۔ اگر سماج میں اونچ نیچ ہو تو وہ رنجیدہ ہوتا ہے۔ اگر سوسایٹی میں انصاف نہ ہو تو وہ غیر مطمئن رہتا ہے۔ اگر معاشرے میں برائیاں پھیلنے لگیں توجو نوجوان اپنے ملک نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ معاشرے کا درد رکھتا ہے۔ اگر کسی جگہ انقلابی فکر و عمل کی ضرورت ہو تو نوجوان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں سے ملاقات 16/11/2000 میں یہ نہیں کہتا کہ نوجوان مستحب عبادتیں زیادہ انجام دیں مثلاً بہت زیادہ دعائیں پڑھیں،بہت زیادہ تلاوت قرآن کریں یا مستحبی نمازیں پڑھیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہ جتنا اور جو کچھ بھی انجام دیں توجہ سے انجام دیں۔ نوجوانوں کے ایک پروگرام میں 3/2/1998زندگی چند پل کی ہے!نوجوانی میں انسان اس بات کو سمجھ نہیں پاتا لیکن جب وہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہے اور ایک عمر بسر کر لیتا ہے تب اسے سمجھ میں آتا ہے کہ زندگی چند پل سے زیادہ کی نہیں ہے۔ تیرہ آبان کے یادگار دن پر نوجوانوں اور دیگر طبقات سے خطاب سے اقتباس5/11/1997 دینداری کو صرف ظاہری اعمال و عبادات کے بجائے خدا سے عشق و محبت اور ایک خصوصی رابطہ سے بدل دینا چاہیے۔ آپ ابھی سے کوشش کریں کہ معنی و مفہوم سمجھ کرنماز پڑھیں۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 4/10/2001اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں ایک جملہ میں بتائوں کہ مجھے نوجوانوں سے کیا چاہئے تو کہوں گا : تعلیم، تربیت اور ورزش۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے خطاب سے اقتباس 27/4/1998جوانوں کیلیے ورزش بہت ضروری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ورزش سب کیلیے ضروری ہے۔ البتہ میری مراد پیشہ ورانہ ورزش نہیں ہے۔ پیشہ ورانہ ورزش کے لیے بھی منع نہیں کررہا ہوں لیکن یہ بھی نہیں کہوں گا کہ سارے نوجوان پیشہ ورانہ ورزش کی لاین میں چلے جائیں۔ ورزش تو درحقیقت صحت و تندرستی اور نشاط و تازکی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ طلبا اور تربیتی امور کے عہدیداروں کی اسلامی انجمنوں سے خطاب 26/2/2001آپ لوگوں (جوان افراد) کے اندر ایک خزانہ ہے۔ اس کو نکالنا چاہیے۔ اسے کون نکالے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ ہی کو یہ کام کرنا ہوگا۔ اپنی استعداد و صلاحیت کے خزانے کو سب سے پہلے خود انسان ہی باہر نکالتا ہے۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس4/10/2001 ممکن ہے کہ بعض جگہوں پر تعلیم کے مواقع نہ ہوں۔ میں نقایص اور کمیوں کی طرفداری نہیں کر رہا ہوں لیکن یہ یاد رکھیے کہ اگر مجھ سے عوام اور حکومتی عہدوں پر فایز افراد کے درمیان فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو میں ہرگز کسی عہدیدار کو خوش کرنے کیلیے لوگوں کے حق کو نظرانداز نہیں کروں گا۔ اراک کے نوجوانوں کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 16/11/2000جوان کی سب سے اہم ضرورت اس کی اپنی شخصیت ہے۔ اسے اپنے ہدف اور اپنی شخصیت کو پہچاننا چاہیے۔ اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ کون ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ دشمن یہ چاہتا ہے کہ نوجوانوں سے ان کی شخصیت چھین لے۔ ان کے اہداف و مقاصد کو ختم کردے۔ ان سے کہے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اس لیے میرے پاس آجائو تاکہ میں تمہیں زندگی دوں۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس 2/5/2001ذمہ داریاں اور حقوق ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں۔ بغیر ذمہ داری کے کسی کو کوئی بھی حق حاصل نہیں ہوتا۔ جسے بھی کچھ ملتا ہے اسے اس کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اس لیے آپ اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر صرف اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ ایک غیرعقلی وغیرمنطقی بات ہوگی۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے ملاقات میں3/11/2001 ایران کو دسیوں سال تک امریکا سے دوستی کا تلخ تجربہ رہا ہے۔ یہ ملک صیہونیوں اور امریکی سرمایہ داروں کا اڈا بن گیا تھا۔ وہ یہاں سائنس و ٹکنولوجی دینے، یہاں کی یونیورسٹیون کا معیار تعلیم اونچا کرنے یا یہاں کے نوجوانوں کو پڑھانے نہیں بلکہ برائیاں پھیلانے اور موج مستی کرنے آئے تھے۔امام خمینی(رہ) کے یوم ولادت پر طلبا اور اسکولی بچوں سے ملاقات میں 3/11/1998 میں کہتا ہوں کہ جوانوں کو بہلانے کے بجائے ان سے صاف صاف بات کی جائے۔ انکے سامنے مشکلات اور وسایل کے سلسلے میں کھل کر گفتگو کی جائے اور پھر اس کے بعد مشکلات دور اور وسایل فراہم کرنے میں مصروف ہو جایا جائے۔ ایسی صورت میں خود یہ نوجوان آپ کی مدد کریں گے اور مشکلات دور ہوں گی۔ آپسی روابط میں نوجوان کو سچائی سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس2/5/2001میرا ماننا ہے کہ نوجوانوں کے سلسلہ میں افراط و تفریط سےکام نہیں لینا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نوجوان لاابالی ہوتے ہیں۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ بعض لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں کوئی برائی ہے ہی نہیں میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں۔ نوجوانوں سے سچائی کے ساتھ دوستانہ انداز میں بات کرنی چاہیے۔ اراک میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے 4/11/2000میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس سیاسی شعور ہونا چاہیے۔ لیکن جو چیز انکی بنیادی ضرورت ہے وہ سیاست نہیں بلکہ ایمان ہے۔ 3/9/1996 بے روزگاری سے غریبوں اور امیروں کے درمیان طبقاتی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض لوگ دن بدن غریبی کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ مختلف راستے اپنا کر دولت اور امیری کی چوٹیوں پر پہونچ جاتے ہیں۔ تہران کی نماز جمعہ میں قائد انقلاب کے خطاب سے اقتباس 18/5/2001اگر ہم اپنے ملک کو سربلند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم و ٹکنولوجی کے ذریعہ آگے بڑھنا ہوگا۔ ملکی سطح پر تعلیم کے ممتازین کے درمیان 11/10/1999جو قوم اپنا دفاع نہیں کرسکتی وہ عالمی سطح پر ہونےوالی تبدیلیوں اور ترقیوں سے کچھ بھی نہیں حاصل کرسکتی۔ جو قوم اپنے دفاع کیلے دوسروں کا منہ تاک رہی ہو اور دوسروں کے آسرے پر ہو وہ وقت پڑنے پر اپنا دفاع نہیں کرسکتی۔ فوجی اکیڈمی سے تعلیم یافتہ افراد اور طلبائ کے درمیان تقریر سے اقتباس 6/10/1990ہر وہ عہدیدار کہ جس کی کچھ ثقافتی ذمہ داریاں ہیں اگر صرف کسی پارٹی کو مدنظر رکھ کر کام کرے تو یہ اس کی خیانت ہوگی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نئی نسل خراب ہوگئی ہے وہ غلطی پر ہیں اور اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ نوجوانوں کو صرف اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔(2/5/2001)مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ جہاں بھی وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے نوجوانوں کو درمیان میں لے آتے ہیں( اور انکے نام پر اپنی کوتاہیوں کا عذر پیش کرنا چاہتے ہیں )اگر ہم نوجوانوں کی حقیقت، ان کی آرزووں اور امیدوں سے بے خبر ہیں اور ان کے لیے ہمارے پاس کوئی پروگرام نہییں ہے تو انہیں بہلانا اور گمراہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ (2/5/2001)تعلیم کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ میں کچھ معلومات اور انفارمیشنس تھما دیں اور ان سے کہیں کہ اسے پڑھو! اسکے بعد ایک وقت معین کردیں کہ اس میں امتحان دو۔ اسے تعلیم نہیں کہتے۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو انسان کا ذہن کھولے، فکرکو ابھارے اورسب سے بڑھ کر اسٹوڈنٹ میں پڑھنے اور سیکھنے کا شوق پیدا کردے۔ وزارت تعلیم کے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران 17/7/2002یہ ہمارے اپنے بچے ہیں۔ یہ ہمارے ہی نوجوان ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں اس سےکچھ نہیں ہوتا ۔ ان کے اپنے الگ الگ نظریات ہیں اور اپنی ایک الگ شخصیت ہے لیکن ہمارے سامنے یہ سب ہمارے بچے اور آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ پورے ملک کے ائمہ جمعہ سے ملاقات کے وقت20/5/1998 میرے عزیزو!انسان کی جوانی ہی اسکے بڑھاپے کے خد و خال تیار کرتی ہے۔ ۲۳ رمضان کی دعوت افطار میں اسلامی انجمنوں کے طلبا کے درمیان 21/1/1998خدا تک پہنچنے کا راستہ انہی مادی اور دنیوی وادیوں سے ہو کر گزرتا ہے لیکن مادیات کے درمیان رکتا نہییں ہے۔ جس انسان نے خود کو مادیات میں غرق کر رکھا ہے اسکا گناہ یہ نہیں ہے کہ اس نے دنیا پر توجہ کی ہے بلکہ اسکا گناہ یہ ہے کہ اس نے مادی خواہشات سے آگے بڑ ھ کر کسی بلند اور عظیم ہدف تک رسائی کی کوشش نہیں کی ہے۔ صوبہ اردبیل کے جوانوں کے عظیم اجتماع سے خطاب 26/7/2000صحیح راستہ کیا ہے؟ یہی کہ نوجوان یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اپنی زمین میں اپنا ہی بیج بوئےگا، اپنی ثقافت کو اپنائے گا، خود ارادہ کرے گا، اپنی شخصیت کو اہمیت و آزادی دےگا، ذلت کے قریب بھی نہ جائے گا اور بے جا تقلید اور دوسروں کو آئیڈئیل بنانے سے پرہیز کرےگا۔ (2/5/2001)احساس ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، روزگار، کیریر، شادی اوراپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے اسی طرح ان اہداف کے بارے میں بھی سوچے جو اس کی ذات سے بڑھ کر ہیں۔ وہ اہداف کہ جو صرف اس سے متعلق نہیں بلکہ پوری قوم، تاریخ اور انسانیت سے متعلق ہیں۔صوبہ سیستان و بلوچستان کے نوجوانوں کے درمیان 25/2/2003ایک طرف کج فہمی، تنگ نظری اور دین کوسمجھنے میں غیرضروری تعصب و جہالت اور دوسری طرف دین کے سلسلے میں نام نہاد روشن فکری، دینی تعلیمات پر اعتقاد نہ ہونا اور اسلامی احکام کی رعایت نہ کرنا شہید مطہری کے بقول قیچی کی مانند نوجوان کی دینداری کو کاٹ رہے ہیں۔وزیر تعلیم و تربیت اور امور کے عہدیداروں سے رہبر انقلاب کی ملاقات 26/2/2000ہماری روایات میں یہ نکتہ بہت آیا ہے کہ خداوندعالم قیامت میں کسی بھی انسان کو چار چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنے دے گا ان میں سے ایک جوانی ہے کہ جوانی کس طرح اور کہاں بتائی؟بسیجی(رضاکار) طلباء سے خطاب سے اقتباس 16/12/1998اگر آج آپ نے دنیا پرست افراد کی راہ پر ایک قدم بھی رکھ دیا تو آیندہ بھی آپ اسی راستے پر چلتے رہیں گے۔ کفا فاؤنڈیشن کی مرکزی کمیٹی کے اراکین سے گفتگو کے دوران 15/7/2001میرے عزیزو!جوان کی ایک اہم خصوصیت اس کا پرامید ہونا ہے، کوشش کیجئے کہ یہ خصوصیت آپ کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ (7/11/2001)پیسے کی خاطر زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے۔ دولت کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ صرف پیسہ کمانا ہدف نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی گزارنے کا ایک وسیلہ ہے اس لیے یہ انسان کا مقصد نہیں بن سکتا ہے۔ (2/5/2001)
قائد انقلاب اسلامی نے شیراز کے ایک ثقافتی مرکز رہپویان وصال میں دھماکے کے واقعے کے بعد تعزیتی پیغام جاری فرمایا ہے۔اس پیغام کا متن درج ذیل ہے :بسم اللہ الرحمن الرحیمرہپویان وصال مرکز میں غم انگیز اور افسوس ناک واقعے نے کہ جو کئی وصال دوست عاشقوں کی شہیدانہ پرواز اور متعدد کے زخمی ہونے پر منتج ہوا، مجھے غم زدہ کر دیا۔اس تلخ واقعے کے سوگواروں اور متاثرین کے لیے تعزیت پیش کرتا ہوں۔ صابرین ....
میں بیماری سے ابھی ابھی اٹھا تھا اور اسپتال سے گھر پہنچ کر آرام کر رہا تھا۔ گھر ہی سے حالات کی اطلاع بھی حاصل کرتا رہتا تھا۔ شہید رجائی، شہید باہنر اور دیگر احباب تشریف لاتے تھے اور حالات سے مجھے آگاہ کر جاتے تھے تاہم میں امور میں براہ راست سرگرم عمل نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ مجھے افاقہ ہوا اور میں نے جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت شروع کر دی۔ حادثے سے قبل والی شب میں نے رجائی مرحوم کے کمرے میں ایک اجلاس میں شرکت کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس طرح میں جائے وقوعہ سے دور رہا۔ بیماری کی وجہ سے کمزوری تھی اور میں گھر میں سویا ہوا تھا، بیدار ہوا تو میرے پاس موجود احباب مجھے سراسیمہ نظر آئے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ دفتر وزیر اعظم میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ وہاں کون لوگ موجود تھے؟ جواب ملا کہ جناب رجائی اور جناب باہنر بھی حاضرین میں تھے۔ مجھے شدید تشویش لاحق ہو گئی۔ میں شدید نقاہت کے عالم میں ٹیلی فون تک گیا اور ادھر ادھر ٹیلی فون کرنا شروع کیا۔ لوگ مختلف طرح کی باتیں کر رہے تھے جس سے تشویش اور بھی بڑھ گئي۔ کوئي کہتا تھا کہ وہ بخیر و عافیت ہیں، کوئی کہتا تھا کہ بال بال بچ گئے، کوئی کہتا تھا کہ ان کی لاشیں نہیں مل سکی ہیں، کوئي کہتا تھا کہ انہیں اسپتال لے جایا گیا ہے۔ اسی عالم میں وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ مجھے تفصیلی خبر ملی۔ اس وقت میری جو حالت ہوئي اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دو عزیز ترین دوست، دو انقلابی جانباز، اسلامی جمہوریہ ایران کے صف اول کے دو عہدہ دار یکلخت جدا ہو گئے۔ مجھے شدید نقصان کا احساس ہو رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ بہت بڑا خسارہ ہو گیا۔ مجھ پر غم و غصے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ واقعے کے ذمہ داروں کے لئے شدید نفرت کا احساس ہو رہا تھا۔ اگلی صبح میں نقاہت کے عالم میں اٹھا اور تشییع جنازہ کے لئے پارلیمنٹ پہنچا۔ ڈاکٹر مجھے روک رہے تھے، کہہ رہے تھے میں دور رہوں لیکن مجھ میں برداشت اور صبر کا یارا نہ تھا۔ میں نے وہیں پارلیمنٹ میں ایک جذباتی تقریر بھی کی۔ لوگ مجھے سہارا دئے ہوئے تھے کہ کہیں گر نہ پڑوں چونکہ میری عجیب کیفیت تھی۔ بہرحال میرے لئے یہ بڑا تلخ واقعہ تھا۔ یہ کہنا شائد غلط نہ ہو کہ اس وقت تک میری زندگی کا یہ سب سے تلخ واقعہ تھا۔ سات تیر کا واقعہ بھی میرے لئے تلخ ترین واقعہ ہو سکتا تھا لیکن اس وقت میں بیہوش تھا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ بعد میں رفتہ رفتہ واقعے کی تفصیلات سے آگاہی ہوئي۔ لیکن یہ ناگہنای سانحہ تھا۔
نوروز کے معنی ہیں نیا دن، ہماری روایات بالخصوص معلی بن خنیس کی معروف روایت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ معلی بن خنیس بڑے گرانقدر راوی تھے اور ہمارے نزدیگ وہ ثقہ ( قابل اعتماد راوی ) ہیں۔ آپ ایک برجستہ شخصیت اور خاندان اہل بیت نبوت کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی زندگی فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بسر کی اور پھر جام شہادت نوش فرمایا۔ یہی عظیم شخصیت یعنی معلی ابن خنیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ نوروز کا دن تھا۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نوروز سے آگاہ ہو؟ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائي ہے کہ اس دن حضرت آدم زمین پر اترے۔ حضرت نوح کا واقعہ پیش آیا، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو ولایت کے لئے منتخب کیا گيا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس روایت سے میں کسی اور نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نے نو نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائي ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ نیا دن یا نوروز کسے کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ذریعے خلق کئے جانے والے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کون سا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو یہ خصوصیت ہو کہ اس دن کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتےہوں۔ حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم و حوا نے زمین پر قدم رکھے۔ وہ نوروز تھا۔ یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ جس دن حضرت نوح علیہ السلام نے عظیم طوفان کےبعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا۔ وہ ایک نیا دن تھا اور اس دن سے نئي تاریخ شروع ہوئی۔ جس دن پیغمبر اسلام پر قرآن مجید کا نزول ہوا وہ بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دن مولائے متقیان کو مسلمانوں کا ولی بنایا گيا وہ نیا دن تھا۔ یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں اب خواہ یہ واقعے ہجری شمسی سال کے پہلے دن اور نوروز والے دن رونما ہوئے ہوں یا کسی اور دن۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا دن نوروز اور نیا دن ہے۔ حضرت نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ سارے واقعات ہجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئي واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے۔ جس دن امام خمینی وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا۔ امریکہ، نیٹو، سویت یونین، وارسا اور نہ جانے کہاں کہاں سے کمک پانے والے فوجیوں پر ہمارے مومن اور جاں نثار جوانوں کی فتح کا ہر دن نوروز تھا۔ شہید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدہ داروں سے خطاب13 مارچ 1995
والد گرامی اور والدہ محترمہ میں جو عجیب و غریب حصوصیات تھیں اور جو میں بہت کم ہی لوگوں میں دیکھتا ہوں، دنیوی مال و اسباب کی فراہمی اور افزائش میں ان کی بے رغبتی اور عدم دلچسپی تھی۔ اس عادت اور خصوصیت کی ہم سب کو مشق کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار تبریز کے امام جعمہ شہید قاضی طباطبائی ہمارے یہاں تشریف لائے وہ کہنے لگے کہ چالیس سال قبل میں اپنے والد کے ساتھ مشہد آیا تھا۔ آپ (قائد انقلاب کے والد گرامی) سے ملاقات کے لئے آیا تو دیکھا کہ اسی جگہ پر بیٹھے تھے جہاں اس وقت تشریف فرما ہیں اور میں اس وقت اس جگہ بیٹھا ہوں جہاں میرے والد بیٹھے تھے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کمرے میں معمولی سی بھی تبدیلی نہیں ہوئي ہے ـ یعنی ایک نسل گزر چکی تھی اور والد گرامی اپنی چالیس سال قبل والی حالت پر تھے۔ جب برادر گرامی (حسن صاحب) شادی کر رہے تھے تو اس وقت جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم نے اس کمرے کو گرا کر اسی جگہ دو کمرے بنوائے، تہہ خانے میں ایک حمام بنوا دیا گيا اس طرح ہمارا گھر حمام والا گھر ہو گیا۔ البتہ اس وقت ہم لوگ وہاں نہیں تھے۔
صدارت کے زمانے میں میرے والدین اپنے اسی قدیمی گھر میں رہتے تھے، نہ انہوں نے کبھی سوچا اور نہ میرے ذہن میں آیا کہ اب جب عہدہ صدارت میں نے سنبھال لیا ہے تو اپنے گھر کی شکل بدل دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسائے نے ہمارے آنگن سے لگا ہوا اپنا گھر ایک اونچی عمارت میں تبدیل کرنا شروع کر دیا اور والدہ کے لئے بغیر پردے کے آنگن میں جانا نا ممکن ہو گیا تو بعض احباب نے کہا کہ اس ہمسائے سے کہیں کہ گھر کی اونچائي ذرا کم رکھے تاکہ آنگن کا استعمال کیا جا سکے۔ ہم نے اس ہمسائے کو پیغام دلوایا لیکن اس نے کوئي توجہ نہیں دی۔ چونکہ میرے پاس اس ہمسائے کے گھر کی اونچائی کم کرنے کے لئے کوئي قانونی راستا نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئي دباؤ نہیں ڈالا۔ کسی ملک اور نظام میں یہ صورت حال بہت خوش آئند اور پسندیدہ ہے۔ کوئي بڑا عہدہ مل جائے تو انسان کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی سماجی زندگی میں دوسروں سے زیادہ عیش و آرام کی فکر میں پڑ جائے۔ 1995 میں مشہد مقدس میں آبائي گھر کے معائنے کے موقع پر
سامراج کے تسلط کے لئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے لوگوں کو عیسائي بنانے کے لئے پادری روانہ کئے گئے۔ ان پادریوں کو بھی بخوبی علم تھا کہ کس ہدف کے تحت وہ سر گرم عمل ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کو ہدف سے آگاہی نہیں تھی لیکن آپ غور کریں کہ انہوں نے اس ہدف کے لئے کتنی مشقتیں اور زحمتیں برداشت کیں۔ ان کڑی زحمتوں کا نعم البدل پیسہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھئے ایک شخص آدم خوروں کے نزدیک واقع علاقے میں جاکر سات سال کا طویل وقت گزاردیتا ہے۔ یہ چیزیں تو آدمی کتابوں میں پڑھتا ہے، دستاویزی فلموں میں دیکھتا ہے اور ناولوں میں پڑھتا ہے۔ مجھے ان ناولوں اور فلموں کی حقیقت کی بھی اطلاع ہے اور مجھے پتہ ہے کہ سامراجی دور میں کیا کچھ انجام دیا گیا ہے۔ یہیں ہمارے ملک میں ہی ایک یورپی پادری کو تہران، اصفہان اور دیگر علاقوں میں لایا گیا۔ برسوں کا طولانی عرصہ اس پادری نے اپے وطن سے دور سختیاں برادشت کرتے ہوئے ہمارے ملک میں گزارا۔ لوگ اس کی جانب سے بدگمان بھی تھے، کہتے تھے یہ تو کافر ہے، نجس ہے۔ اس دور میں جب عوام میں اس سلسلے میں بڑی حساسیت تھے لوگ دینی عقائد کے پابند تھے، پادری یہاں آتےتھے اور اسی ماحول میں ایک موہوم سی امید پر زندگی بسر کرتے تھے کہ شائد دو چار افراد عیسائیت قبول کر لیں۔ انہوں نے افریقہ کا تجربہ یہاں دہرانے کی کوشش کی۔ وہ اپنےہدف میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن یہاں انہوں نے کئی برس گزار دئے۔ قاجاریہ دور کی تاریخ کا آپ مطالعہ کیجئے، ایک ماہر مشرقیات نے ایران میں برسوں کا عرصہ گزارا اور تاریخ ایران کے عنوان سے دو جلدوں کی ایک کتاب لکھی۔ یہ ماہر مشرقیات، جنوبی خراسان، بیرجند، زابل اور انہی علاقوں میں رہا اور اس نے اپنی کتاب مکمل کی۔ آپ پڑھئے کہ اس نے اپنے پادریوں کے بارے میں کیا باتیں لکھی ہیں۔ (صوبہ سیستان بلوچستان کے برادران اہل سنت کے امور کے لئے ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے علما سے ملاقات کے دوران 1992)
سابق سویت یونین اور اس کے زیر انتظام شیعہ اکثریتی علاقے آذر بایجان کے امور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ جب کمیونسٹوں نے اس علاقے (آذربائیجان) پر قبضہ کیا تو تمام اسلامی علامتیں مٹا دیں۔مسجدیں گوداموں میں تبدیل کر دی گئیں، دینی مراکز اور امام بارگاہوں کو کچھ اور بنا دیا گیا، دین اور شیعیت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا بس ایک چیز کی اجازت دی گئی تھی اور وہ تھی قمہ زنی۔کمیونسٹ آقاؤں کی طرف سے کارندوں کو حکم تھا کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نماز پڑھیں، نماز جماعت قائم کریں، قرآن پڑھیں، عزاداری کریں، المختصر یہ کہ کوئی بھی دینی کام نہیں کر سکتے مگر ان کو قمہ زنی کا حق ہے، کیوں؟ صرف قمہ زنی ہی کیوں؟اس لئے کہ یہ دین اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے لئے بہترین چیز تھی۔لہذا کبھی کبھی دشمن اس طرح سے کچھ چیزوں کو دین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات آ جائیں دین بدنام ہو جائے گا۔(نئے سال کے آغاز پر مشہد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب)21/03/1997
انقلاب سے قبل کبھی کبھی کسی گوشے میں کچھ لوگ جمع ہوکر تلاوت کلام پاک کرلیتے تھے۔ روز بروز نوجوانوں میں قرآن کے سلسلے میں بڑھتی دلچسپی اور قرآنی علوم میں یہ قابل ستائش ترقی، اسلامی انقلاب کا ثمرہ ہے۔ انقلاب سے پہلے یہ عالم تھا کہ شاذ و نادر ہی کوئي عالمی شہرت کا قاری ایران آتا تھا اور اگر آ بھی جاتا تھا تو اس کے بارے میں کسی کو پتہ تک نہیں چلتا تھا کہ قاری کب آیا اور کب چلا گیا۔ انقلاب سے پہلے وقف بورڈ کی دعوت پر شیخ ابوالعینین مشہد مقدس آئے تھے۔ میں ان کی تلاوت کی متعدد کیسٹیں سن چکا تھا اس طرح ان سے غائبانہ تعارف تھا اور میں ان کی تلاوت بہت پسند کرتا تھا۔ مجھے ان سے ملنے اور ان کی تلاوت روبرو سننے کا بڑا شوق تھا لیکن جن لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی ہم نے ان کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا لہذا جو پروگرام وہ کروا رہے تھے میں اس میں شریک نہیں ہوا۔ مشہد میں مسجد گوہر شاد میں تلاوت قرآن کریم کی ایک محفل منعقد ہوئی تھی۔ مجھے نہیں لگتا اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ رہی ہوگی، لوگ دائرے کی شکل میں بیٹھے تلاوت سن رہے تھے۔ سردی کا زمانہ تھا میرے بیٹے مجتبٰی جو اس وقت چھوٹے تھے وہ بھی میرے ساتھ تھے۔ چونکہ ہم محفل میں نہیں جانا چاہتے تھے لہذا باہر سردی میں ہی بیٹھ کر ہم نے تلاوت سنی۔ اس زمانے میں تلاوت سننے والوں کی تعداد سو ۱۰۰ تھی لیکن آج آپ تلاوت سننے والے مجمع کو دیکھئے تو دیکھتے رہ جائیں گے۔(قاریان قرآن سے ملاقات کے دوران9/02/1991)
رمضان المبارک کا مہینہ تھا، میں سوچ رہا تھا کہ لوگوں کے سامنے کیا بیان کیا جائے جو مفید ہو۔اپنی دلچسپی کے لحاظ سے میں نے سوچا کہ سورہ کہف کی تفسیر بیان کی جائے۔اس کے لئے میں مختلف تفاسیر اور تاریخی کتب کا مطالعہ کرتا اور رمضان المبارک کی راتوں میں با ذوق افراد کی نشست میں اس واقعے کو بیان کرتا تھا۔ میں نے اس کے علاوہ بھی کئی بار اصحاب کہف کا قصہ بیان بھی کیا ہے،سنا بھی ہے،پڑھا بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کو میں نے آپ لوگوں سے سمجھا ہے۔جس رات آپ لوگوں نے یہ خوبصورت، پیچیدہ اور بہترین منظر پردے پر دکھایا اس رات میری سمجھ میں آیا کہ ''اذ قاموا فقالوا ربنا رب السموات والارض‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ یعنی اس رات میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا آپ لوگوں نے واقعاً ایک قرآنی داستان کو مجسم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔یہ ایک عظیم کام ہے۔(اصحاب کہف سیریل بنانے والے افراد سے ملاقات کے دوران 27/02/1999)
جس زمانے میں مجھے شہر بدر کرکے ایران شہر بھیج دیا گیا تھا، ہم لوگ مختلف مواقع پر وہاں کے ذمہ دار افراد سے رابطہ کیا کرتے تھے۔مجھے بتایا گیا کہ گورنر کا ایک بھی نمایندہ آج تک ایران شہر نہیں آیا ہے!۱۹۷۸ میں ایرانشہر میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں اسی فیصد شہر بالکل تباہ ہو گیا۔میں نے خود شہر کی ایک ایک جگہ جا کر دیکھی، پچاس دن تک ہم لوگ امداد رسانی کا کام کرتے رہے مرکز تو دور کی بات زاہدان سے بھی کسی اہم شخصیت نے آ کر نہیں پوچھا کہ یہاں کیا ہوا ہے۔کہنے کو تو شیر و خورشید ادارے کی طرف سے کچھ امداد بھیجی جا رہی تھی لیکن ہم شہر بدر افراد نے جو امداد جمع کی تھی اس کا وہ دسواں حصہ بھی نہیں تھی۔ تو ایک طرف تو اس کی مقدار بہت کم تھی اور دوسری طرف اس قلیل مقدار امداد کا بھی بڑا حصہ امداد رساں ہی ہڑپ کر جاتے تھے۔ یعنی ایران شہر جو کہ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا ثقافتی مرکز تھا ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ زاہدان کا بھی یہی حال تھا۔دسیوں سال بعد کبھی ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ اونٹ کی سواری اور شراب خوری کے لئے حکام بیرجند جاتے تھے۔ چونکہ حکام بیرجند میں عیاشیاں کرنے جاتے تھے اس لئے وہاں ایر پورٹ تھا اور چونکہ یہاں عیاشی کے وسائل فراہم نہیں تھے لہذا بلوچستان ان کا آنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ملک کا ہر پسماندہ علاقہ بے توجہی کا شکار تھا۔ بلوچستان ہو یا کوئی اور علاقہ۔مازندران میں خوب ترقیاتی کام ہوئے تھےکیونکہ وہاں کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لئے حکام کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔انقلاب سے پہلے کی حکومت کا یہ عالم تھا۔ایک دلچسپ بات آپ کو بتاؤں، مازندران میں پانچ ایئرپورٹ ہیں جو شاہی حکومت کے دور میں بنائے گئے تھے۔رامسر کا ایئر پورٹ جو رامسر ہوٹل استعمال کرنے کے لئے تھا آپ جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے لئے تھا۔ایک صوبے میں پانچ پانچ ایئرپورٹ، اور وہ بھی صرف طاغوتی حکومت کے عناصر کے لئے! آپ بخوبی واقف ہیں کہ نوشہر کا ایئرپورٹ شاہ کی سالانہ سیر و تفریح کے لئے تھا، وہاں شاہ اور اس کے افراد عیاشی فرماتے تھے۔ایک ایئر پورٹ ایک فوجی کیمپ کے لئے تھا یہ ایک مخصوص فوج تھی۔ میں نام نہیں لینا چاہتا۔ یہ بھی عیاشی کا سامان تھا۔ساری کے نزدیک دشت ناز ایئر پورٹ جو آج کل مازندران کا سرکاری ایئرپورٹ ہے اور عوام کے استعمال میں ہے، انقلاب سے پہلے رضا خان کی بدکار و بدمعاش اولادوں کے لئے تھا۔ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین پر قبضہ کر کے ٹھیک اس کے وسط میں ایئرپورٹ بنایا گیا تھا۔ مینودشت میں شاہی نوکروں کے لئے ایک ایئرپورٹ تھا۔حکومت اور اس سے مربوط مشینری کے لئے پانچ ایئرپورٹ موجود تھے لیکن عوام، اساتذہ، بیماروں اور دیگر ضرورتمند افراد کہ لئے نہ ایئرپورٹ تھا نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی کوئي اور سہولت۔حکومت کے لوگ سال میں کئی مرتبہ مازندران آتے جاتے تھے لیکن زاہدان ہی کی طرح ایک بار بھی عام لوگوں سے نہیں ملتے تھے۔ اسے کہتے ہیں غبار فراموشی۔ (صوبہ سیستان و بلوچستان کی ممتاز شخصیات سے ملاقات کے دوران 24/02/2003)
احمد سکوٹور نامی ایک افریقی لیڈر گنی کوناکری کے صدر جمہوریہ تھے میری صدارت کے دوران کئی مرتبہ ایران آئے۔ایک مرتبہ جنگ کے زمانے میں آئے، کہنے لگے آپ کے اوپر یہ جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس پر تعجب نہ کیجیئے۔ سامراجی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہ جو کام کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کسی پڑوسی ملک کو انقلاب کی نابودی پر مامور کر دیتی ہیں۔آپ کا مسئلہ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ لہذا تعجب نہ کیجئے۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے اوپر ایک طرف سے (ایک سرحد سے) حملہ کیا گیا ہے لیکن ہم پر پانچ طرف سے(پانچ سرحدوں سے) حملہ کیا گیا، پانچ ملکوں نے حملہ کیا ہے۔ گنی کوناکری ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کے اطراف میں کئی ممالک واقع ہیں۔ سکوٹور بھی ایک انقلابی لیڈر تھے اور ایک انقلاب کے ذریعہ ہی آگے آئے تھے لہذا ان پر حملہ کیا گیا۔) تہران یونیورسیٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران 12/5/1998)
ایک قیدی کی ماں نے مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا قید میں تھا، آج خبر ملی ہے کہ شہید ہو گیا ہے۔ آپ جایئے اور امام خمینی(رہ) سے کہیے کہ میرا بچہ آپ پر قربان ہوا، مجھے کوئی غم نہیں ہے. جب میں امام کی خدمت میں پہنچا تو کہنا بھول گیا۔ باہر نکلنے کے بعد مجھے یاد آیا تو وہاں موجود حضرات سے میں نے کہا امام سے کہیے کہ ایک جملہ رہ گیا ہے۔آپ اندرونی صحن میں آ گئے تو میں بھی وہیں چلا گیا اور جب اس خاتون کا جملہ امام سے کہا تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور ان پر رقت طاری ہوگئی میں اپنے کہے پر شرمندہ ہو گیا۔ یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ ہم نے اتنے شہدا کی قربانی پیش کی ہے یہ کوئي ہنسی کھیل نہیں ہے۔ انقلاب کے بہترین افراد قربان ہو گئے لیکن امام پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہے۔ آج یہ سن کر کہ ایک قیدی قتل کر دیا ہے آپ رونے لگتے ہیں سبب کیا ہے؟ میری سمجھ میں تو نہیں آتا۔آدمی ایسی شخصیت کی توصیف کرنے سے عاجز ہے۔(امام خمینی کی برسی کے مہتمم ادارے کے اراکین سے ملاقات کے دوران 22/05/1990)
میں، جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب اور ایک اورشخص جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا ایک ساتھ تہران سے قم گئے اور وہاں امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ آخر ان جاسوسوں کا کیا کریں؟ انہیں پکڑے رکھیں یا چھوڑ دیں؟ چونکہ عبوری حکومت کے اندر بھی اس سلسلے میں الگ الگ موقف تھے۔جب ہم لوگ امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ساتھیوں نے حالات کی وضاحت کی کہ ریڈیو پر یہ کہا جا رہا ہے، امریکہ یہ کہہ رہا ہے، حکومت کے عہدہ دار ایسا کہہ رہے ہیں۔آپ نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ایک سوال پوچھا کہ کیا آپ لوگ امریکہ سے ڈرتے ہیں؟ہم نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا کہ بس پھر انہیں پکڑے رکھئے۔واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ ظاہری اور مادی طاقت اور گوناگوں وسائل سے لیس امریکی حکومت کی، امام خمینی (رہ) کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی۔ان کی یہ دلیری اور شجاعت اس دانشمندانہ قوت کا نتیجہ تھی جو آپ کے وجود کا احاطہ کئے رہتی تھی۔عقلمندانہ شجاعت اور ہے، اور غفلت و عدم واقفیت کی بے خوفی کچھ اور۔مثلاً ایک بچہ بھی ایک طاقتور آدمی یا ایک خطرناک حیوان سے نہیں ڈرتا ہے اور ایک طاقتور انسان بھی نہیں ڈرتا لیکن دونوں میں فرق ہے۔آج بہت سی قومیں اور انسانی معاشرے اپنی طاقت اور بہت سی صلاحیتوں سے بے خبر ہیں نتیجتا خود اعتمادی سے محروم ہیں۔(تشخیص مصلحت کونسل کے سکریٹریئیٹ کے اراکین سے ملاقات کے دوران 17/4/1999)
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا اس میں مغرب و عشا کی نماز میں بڑا ازدحام رہتا تھا اور باہر تک صفیں لگتی تھیں۔(نماز میں شرکت کرنے والے)اسی۸۰ فیصد جوان ہوتے تھے، وجہ یہ تھی کہ نوجوان طبقے سے ہمارا باقاعدہ رابطہ رہتا تھا۔ان دنوں الٹی جیکٹ پہننے کا فیشن تھا لہذا نوجوان الٹی جیکٹ پہنے نظر آتے تھے۔ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک جوان الٹی جیکٹ پہنے پہلی صف میں میرے مصلے کے پیچھے بیٹھا ہے، ایک حاجی صاحب نے جن کا بڑا احترام تھا اور جو ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتے تھے، اس جوان کے کان میں کچھ کہا۔ میں نے دیکھا نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔میں نے فوراً حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کہہ دیا۔ان سے قبل نوجوان نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں۔میں سمجھ گیا کہ انہوں نے اس سے کہا ہے اس طرح کا لباس پہن کر پہلی صف میں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔میں نے نوجوان سے کہا کہ، آپ کو پہلی ہی صف میں بیٹھنا ہے آپ یہاں سے کہیں اور مت جایئے۔میں نے حاجی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نوجوان پیچھے چلا جائے، یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ الٹی جیکٹ پہننے والا جدیدیت پسند نوجوان بھی نمازی ہو سکتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔برادران ایمانی اگر ہمارے پاس دولت اور وسائل نہیں ہیں اگر ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے تو کم از کم ہم اچھا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں۔ فی صفۃ المومن بشرہ فی وجھہ و حزنہ فی قلبہنوجوانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ذہن و دل متاثر ہو اور ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ (انجمن تبلیغات اسلامی کے عہدہ داران سے ملاقات کے دوران 16/6/1997)
بسم اللہ الرحمن الرحیمیا مقلب القلوب و الابصار یا مدبر اللیل والنھار یا محول الحول و الاحوال حول حالنا الی احسن الحال
اس سال کی بہار تین تین عیدیں لے کر آئی ہے۔ سب سے پہلے تو ولادت با سعادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے پھر حضرت امام صادق علیہ السلام کی عید میلاد ہے اور اس کے ساتھ ہی ایرانی قوم کی عید نوروز۔ میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض اور آپ کو ان عیدوں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ملت ایران، تمام مسلمانوں اور عاشقان اہلبیت عصمت و طہارت نیز عید نوروز منانے اور سال نو کے جشن میں ایرانیوں کی خوشیوں میں شریک ہونے والی تمام قوموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج سہ پہر کے وقت فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار زائرین اور روضے کےمجاوروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ تیس برسوں کے دوران اسلامی نظام کے اہم ترین کارناموں اور ثمرات کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے اسلامی انقلاب کے تیسرے عشرے کے آخری سال میں ملک کے لئے خلاقیت و پیش رفت کی اہمیت و ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے میں داخل ہونے کے لئے ملک کو پیش رفت اور عدل و انصاف کی ضرورت ہے
نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار کی تعداد میں جمع ہونے والے زائرین اور خدام سے اپنے خطاب میں اہم ترین دینی، سیاسی، اقتصادی، علمی و ثقافتی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی بیان پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المعصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آغاز سال کے موقع پر ایک دفعہ پھر حضرت امام علی رضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے جوار میں آپ عزیز زائرین اور خدام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع مرحمت فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی نےآج سے شروع ہونے والے نئے ایرانی سال تیرہ سو ستاسی کو خلاقیت و پیش رفت کا سال قرار دیا ہے۔
نئے سال کے آغاز پر آج صبح قوم کے لئے اپنے پیغام میں قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال کے اہم واقعات پر سرسری نظر ڈالی اور نئے سال کی ترجیحات بیان فرمائیں۔
مقدمہ انسان کے اعمال کا صحیح یا غلط ہونا اس بات سے وابستہ ہے کہ وہ دینی مسائل کو کتنا جانتا اور اس کی بنیاد پر کتنا عمل کرتا ہے۔ اور دینی مسائل سے آشنائی کا ایک راستہ یہ ہے کہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید اور پیروی کی جائے۔مرجع تقلید کے فتوے معلوم کرنے کے لئے اس کے رسالہ کو دیکھا جاسکتا ہے جس میں مرجع تقلید کے فقہی نظریات بیان کئے گئے ہوں اور جس کے صحیح ہونے کے بارے میں ہمیں اطمینان ہو۔آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی طاب ثراہ کی رحلت کے بعد چونکہ بہت سے مومنین نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کی تقلید اختیارکی ہے، اور آپ کا رسالہ عملیہ چونکہ زیرترتیب اور ابھی شایع نہیں ہو سکا ہے نیز یہ کہ اجوبۃ الاستفتاآت کے عنوان سے ابتک جو کچھ منظر عام پر آیا ہے اس میں تمام ضروری اور روزمرہ کے مسائل موجود نہیں ہیں لہذا ہم نے ضروری سمجھا کہ مذکورہ کتاب اور معظم لہ سے کئے گئے دیگر سوالات اور ان کے جوابات کو مد نطر رکھ کر جو موصوف نے دیئے ہیں،حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور رہبرمعظم کے فتووں میں موجود اختلاف کو ایک مجموعہ کی صورت میں ترتیب دےدیں تاکہ آپ کے وہ تمام مقلدین جو پہلے امام خمینی(رح)کے مقلد رہ چکے ہیں،دونوں کے فرق کو سمجھ کر آپ کے فتووں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یاد دہانی *-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرآية اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ کے مقلدین،زیر نظر مجموعہ میں ذکر شدہ اختلاف فتاویٰ کی روشنی میں اپنے شرعی فریضہ پر عمل کرسکتے ہیں۔ اور اگر ذکر شدہ امور کے علاوہ ان کے سامنے کچھ اور مسائل ہوں تو ان کے بارے میں استفتاء کرسکتے ہیں۔ *-اس مجموعہ میں بیان شدہ بعض امور میں فتووں کا، اختلاف نہیں ہے بلکہ احکام سے متعلق کسی حکم کے بارے میں الگ سے کوئی توضیح یا اضافہ مقصود ہے۔ *-آية اللہ العظمیٰ حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آپ کی تحریر الوسیلہ،کی توضیح المسائل یا عروۃ الوثقٰی کے حواشی سے اخذ کئے گئے ہیں۔ *-اختصار کی خاطر فتووں کے حوالے ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔ضرورت کی صورت میں اصل کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے جونشر معروف قمنے شایع کی ہیں۔ *-اس سائٹ پر جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے داہنی طرف کے ستون میں فہرست وار اور اسی سلسلے میں آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کے فتوے سامنے والے ستون میں نقل کئے گئے ہیں۔ تقلید امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے جو مرد، بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو۔ نیز احتیاط واجب کے تحت اس مجتہد کی تقلید کریں جو دنیا کا حریص نہ ہو اور اپنے زمانے کے مجتہدین سے اعلم ہو۔ ۱۔ اگر ایک ہی وقت میں کئی جامع الشرائط، فقہا موجود ہوں اور ان کے فتووں میں اختلاف ہو تو احتیاط واجب کے تحت مقلد اس مجتہد کی تقلید کرے جو ان میں اعلم ہو لیکن اگر اعلم کے فتوے احتیاط کے منافی اور غیر اعلم کے فتوے احتیاط کے موافق ہونا ثابت ہوجائے تو اس صورت میں اعلم کی تقلید واجب نہیں ہے۔ ۲۔ اعلم وہ ہے جو کسی مسئلہ کے قواعد اور الٰہی احکام کے سر چشموں کو بہتر طور پر جانتا ہو۔ اور اسی مسئلہ کی طرح دیگر مسائل اور روایات کے سلسلہ میں بھی زیادہ معلومات رکھتا ہو اسی طرح روایات کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ مختصر یہ کہ جو شخص احکام شرعی کے استنباط میں زیادہ ماہر ہو۔ ۲۔ اعلم وہ ہے جو دلیلوں کے ذریعہ حکم خدا کی شناخت اور الہی فرائض کے استنباط میں دوسرے مجتہدین سے زیادہ قوی ہو اور اپنے زمانے کے حالات کی شناخت بھی مجتھد کے اجتہاد میں اس حد تک دخیل ہے کہ جتنی احکام شرعی کے موضوعات کی تشخیص اور احکام شرعی کے بیان کے لئے فقہی رائے کا مالک ہونا دخیل ہے۔ ۳۔ ابتداءاً تقلید میت جائز نہیں ہے۔ ۳۔ کسی مرحوم مجتہد کی تقلید، ابتدائی تقلید کی صورت میں احتیاط واجب کی بنیاد پر جائز نہیں ہے۔سوال: وہ نوجوان جو نئے نئے بالغ ہوئے ہیں اور انھوں نے آپ کی تقلید اختیار کی ہے چونکہ تقلید کی ابتدا کر رہے ہیں اور ان کے لئے شرعی مسائل سے آشنائی ضروری ہے، تو کیا وہ امام خمینی (قدس سرہ) کے رسالے سے استفادہ کرسکتے ہیں؟جواب: عمومی مسائل میں،جن کی ہمارے عزیز جوانوں کو ضرورت ہے حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے رسالے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر اپنے کسی مسئلہ کا جواب اس میں نہ ملے تو استفتاء کرسکتے ہیں۔ طہارت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ آب کر کلو گرام کے مروجہ وزن کے اعتبار سے تقریباً ۴۱۹/ ۳۷۷ کلو گرام ہے ۱۔ تقریبا ۳۸۴ لیٹر ہے ۲۔ سوال: طہارت کے لحاظ سے اہل کتاب کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے؟جواب: غیر مسلم کسی بھی دین یا مذہب سے کیوں نہ ہو نجاست کا حکم رکھتا ہے۔ ۲۔ سوال: (اہل کتاب) طہارت کے حکم میں ہیں یا نجاست کے؟جواب: اہل کتاب کی ذاتی نجاست، ثابت نہیں ہے، ہماری نظر میں وہ ذاتی طہارت رکھتے ہیں۔اہل کتاب میں یہودی، عیسائی، زرتشتی،اور صابئی شمار ہوتے ہیں۔ ۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ یا بیٹ نجس ہے۔ ۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ نجس نہیں ہے۔ ۴۔ جو خون انڈوں میں ہوتا ہے وہ نجس نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اور اگر خون کو انڈے کی زردی میں اس طرح ملادیں کہ اس کا وجود ختم ہوجائے تو زردی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ۴۔ انڈوں میں پایا جانے والا خون پاک ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے۔ ۵۔ سوال: وہ چمڑا جو بیرونی ممالک سے آتا ہے اور جس سے جوتے وغیرہ بنتے ہیں وہ پاک ہے یا نجسَ۔جواب: جو چمڑا اسلامی ممالک سے آّتا ہے وہ طہارت کا حکم رکھتا ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ غیر شرعی طریقے سے ذبح ہوا ہے۔ اسی طرح غیر اسلامی ممالک سے آنے والا چمڑا نجس ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا آپ اس بات کا احتمال دیں کہ ملک میں درآمد کرنے والا مسلمان ہے جس نے حیوان کے تزکیہ کے بعد چمڑا مسلمانوں کے اختیار میں دیا ہے۔ ۵۔ سوال: اس گوشت، چمڑے اور حیوانی اعضاء کے سلسلہ میں اپنی مبارک نظر تحریر فرمائیں جو غیر اسلامی ممالک سے فراہم کیا گیا ہےَ۔جواب: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ حیوان کو اسلامی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے تو پاک ہے اور اگر یقین ہو کہ اسلامی طریقہ سے ذبح نہیں ہوا ہے تو نجس ہے۔ ۶۔ شراب اور ہر وہ چیز جو انسان کو مست کردیتی ہے اگر قدرتی طور پر بہنے والی (سیال) ہے تو نجس ہے۔ ۶۔ مست کردینے والے مشروبات احتیاط کی بنیاد پر نجس ہیں۔ ۷۔ جو چیز کسی نجس چیز میں مل کر نجس ہوگئی ہو اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو اس کو بھی نجس کردیتی ہے اور اسی طرح تین مرحلوں تک نجاست کا یہ سلسلہ رہے گا لیکن اس کے بعد نجاست نہیں پھیلے گی۔ ۷۔ جو چیز عین نجس سے لگنے کی وجہ سے نجس ہوچکی ہے وہ اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے اور اِن دونوں میں کوئی ایک چیز تر ہو تو وہ پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ اور اگر یہ چیز جو نجس چیز سے مل کر نجس ہوئی ہے یعنی (متنجس) پھر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو بنا بر احتیاط اس پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ لیکن یہ آخر میں نجس ہونے والی چیز (متنجس سوم) کسی اور چیز میں لگے تو اس چیز کو نجس نہیں کرے گی۔ ۸۔ اگر کسی مسلمان کا لباس یا اس کا بدن یا اس کی کوئی اور چیز مثلا برتن یا بستر وغیرہ (جو اس کے استعمال میں ہو) نجس ہوجائے اور پھر یہ مسلمان غائب ہوجائے تو اگر یہ احتمال ہو کہ غائب ہونے والے نے اس چیز کو پاک کر دیا ہوگا یا وہ چیز اس کے ذریعہ مثلا آب جاری میں گرنے سے پاک ہوگئی ہے، تو اس چیز کے استعمال سے پرہیز ضروری نہیں ہے۔ ۸۔ اگر یقین کہ کسی مسلمان کا بدن، لباس یا اس کی کوئی اور ذاتی چیز نجس ہوگئی ہے اور ایک مدت تک وہ مسلمان دکھائی نہ دے اور پھر جب دکھائی دے تو وہ مسلمان اس چیز سے پاک چیزوں کی طرح کام لے رہا ہو تو وہ چیز طہارت کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن شرط ہے کہ اس چیز کا مالک اس کی پہلی نجاست سے اور طہارت و نجاست کے احکام سے واقف ہو۔ ۹۔ پیشاب کا مقام پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک نہیں ہوتا اور اگر مرد پیشاب کے بعد ایک بار دھولیں تو کافی ہے لیکن عورتیں اور اسی طرح وہ لوگ جن کا پیشاب غیر فطری مقام سے خارج ہوتا ہے ان کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ دو بار دھوئیں۔ ۹۔ سوال: رفع حاجت کے بعد پیشاب کا مقام کتنی بار دھونے سے پاک ہو تا ہے؟جواب: پیشاب کا مقام احتیاط واجب کی بنا پر دو بار دھونے سے پاک ہوجاتا ہے۔ ۱۰۔ پخانے کے مقام کا پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک ہونا محل تامل ہے لیکن (نجاست کے صاف ہو جانے کے بعد،پانی سے پاک کرنے سے پہلے) نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ۱۰۔ پخانے کے مقام کو دو طرح سے پاک کیا جا سکتا ہے: ایک تو یہ کہ پانی سے دھوئیں یہاں تک کہ نجاست زائل ہوجائے،اس کے بعد(طہارت کے لئے) پانی ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ تین پاک پتھروں یا کپڑوں یا اسی طرح کی کسی اور چیز سے نجاست کو صاف کریں اور اگر تین ٹکڑوں سے نجاست پورے طور پر صاف نہ ہو تو اور ٹکرے استعمال کرکے پوری طرح صاف کریں۔ چنانچہ تین ٹکڑوں کے بجائے ایک ہی پتھر یا کپڑے کے تین الگ الگ حصوں سے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ وضو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ (وضو میں) سر کے مسح کے بعد ہاتھوں میں بچی ہوئی وضو کے پانی کی اس تری سے پیروں کا مسح کسی ایک انگلی کے سرے سے پیروں کے ابھار تک کریں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے جوڑ تک مسح کریں۔ ۱۔ پیروں کے مسح میں پاؤں کے جوڑ تک (ہاتھوں کی انگلی)کھینچنا چاہیئے۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوئیں اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔ اور ہاتھوں کو بھی کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیئے۔ ۲۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔ ۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور تیسری مرتبہ (یا اس سے زیادہ) حرام ہے۔ اور اگر ایک چلو پانی سے پورے عضو کو دھولے اور وضو کی نیت سے ہی پانی ڈالے تو ایک مرتبہ حساب ہو جائے گا چاہے ایک بار کا قصد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ ۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور اس کے بعد غیر شرعی ہے۔ پہلی باردوسری بار یا اس سے زیادہ کا تعین وضو کرنے والے کی نیت پر ہے یعنی پہلی بار کی نیت سے ایک شخص کئی بار چہرے پر پانی ڈال سکتا ہے۔ ۴۔ دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ سر کے اگلے حصہ کا مسح کرے اور ضروری نہیں ہے کہ مسح داہنے ہاتھ سے ہی ہو یا اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔ ۴۔ سر اور پیر کا مسح ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ کرنا چاہئے۔ اور احتیاط یہ ہے کہ سر کا مسح داہنے ہاتھ سے کیا جائے لیکن مسح کے لئے اوپر سے نیچے کی طرف ہی ہاتھ لے جانا ضروری نہیں ہے۔ ۵۔ اگر چہرے یا ہاتھ پر کوئی زخم،پھوڑاپھنسی یاچوٹ ہو اور پٹی یا پھانبا وغیرہ ہٹا کر اس کو کھولا جا سکتا ہو تو اگر اس پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو لیکن گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو واجب ہے کہ گیلا ہاتھ اس پر پھیرے۔ ۵۔ اگر وضو کے اعضاء پر کوئی زخم یا چوٹ ہو اور وہ کھلا ہوا ہو اور پانی ڈالنا اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو اسے دھونا چاہئے لیکن اگر دھونا نقصان دہ ہے تو اس کے اطراف کو دھوئے اور احتیاط یہ ہے کہ اگر اس پر گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو گیلا ہاتھ پھیر لینا چاہیئے۔ ۶۔ اگر زخم یا پھوڑا یا چوٹ سر کے اگلے حصہ میں یا پاؤں کے اوپر ہے اور وہ کھلا ہوا ہے تو اگر سر یا پیر کا مسح نہ کرسکتا ہو تو مسح کی جگہ ایک پاک کپڑا رکھے اور ہاتھ میں وضو کی بچی ہوئی تری سے ہی اس کپڑے کے اوپر سے مسح کرلے، اور احتیاط مستحب کے تحت تیمم بھی کرے۔ اور اگر کپڑا رکھنا ممکن نہ ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے اور بہتر ہے کہ بغیر مسح کا ایک وضو بھی کرے۔ ۶۔ اگر مسح کی جگہ پر زخم ہے اور اس پر گیلا ہاتھ نہ پھیرسکتا ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے لیکن اگر زخم کے اوپر کوئی کپڑا رکھ کر ہاتھ پھیر سکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ تیمم کے علاوہ اس طرح کے مسح کے ساتھ وضو بھی کرے۔ غسل امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ غسل ترتیبی میں،غسل کی نیت کے ساتھ پہلے سر وگردن، پھر بدن کا داہنا حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں حصہ دھوئے۔ ۱۔ غسل ترتیبی میں بدن کے آدھے داہنے حصہ کو بائیں حصہ سے پہلے دھونا احتیاط پر مبنی ہے [یعنی احتیاط واجب کے تحت پہلے بدن کے آدھے داہنے حصہ کو دھوئے اور پھر بائیں حصہ کو دھوئے] ۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں،قرآن کے ان سوروں کا پڑھنا بھی ہے جن میں سجدہ واجب ہے، یعنی ۳۲واں سورہ (الم تنزیل)، ۴۱واں سورہ (حم سجدہ)، ۵۳واں سورہ (والنجم) اور ۹۶واں سورہ (اقرأ) اور اگر ان چاروں سوروں کا ایک حرف بھی پڑھے تو بھی حرام ہے۔ ۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں سے، واجب سجدے والی آیتوں کا پڑھنا بھی ہے [لہذا ان سوروں کی دوسری آیتوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے] ۳۔ اگر زندہ جسم سے کوئی ہڈی والا حصہ جدا ہو جائے اور اس جدا شدہ حصہ کو غسل دینے سے پہلے،کوئی انسان چھودے تو اسے چاہئے کہ غسل مس میت کرے۔ لیکن اگر جدا شدہ حصہ ہڈی سے عاری ہو تو اس کے چھونے سے غسل مس میت واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر کسی میت کو غسل دینے سے پہلے جسم سے کوئی ایسی چیز جدا کی جائے جو اگر جسم سے متصل ہوتی تو اس کے چھونے سے غسل واجب ہوجاتا تو مردہ کے بدن سے اس کے جدا کر لینے کے بعد بھی اگر اس چیز کو چھوئیں گے تو غسل واجب ہو جائے گا۔ ۳۔ مردے کا بدن ٹھنڈا ہونے کے بعد اور اس کو غسل دینے سے پہلے میت سے جدا شدہ کسی حصہ کا چھونا جسم مردہ کو چھونے کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اس حصہ کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا جو انسان کے مرنے سے پہلے ہی اس کے جسم سے جدا کردیا گیا ہو۔ تیمم امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں: اول: نیت۔ دوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کی ایسی چیز پر مارنا کہ جس پر تیمم صحیح ہے۔سوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر، سر کے بالوں کی جڑوں سے ابرؤوں تک اور ناک کے اوپر اور احتیاط واجب کے تحت ہتھیلیوں کو ابرؤوں پر بھی پھیرا جائے۔چہارم: بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا پھر اسی طرح دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا۔٭ غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ۱۔ سوال: تیمم کا طریقہ کیا ہے؟ کیا غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق ہے؟جواب: تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ: پہلے نیت کریں پھر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایسی چیز پر ماریں کہ جس پر تیمم صحیح ہے اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ، پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے ابرؤں تک اور ناک کے اوپر کھینچیں اور آخر میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیریں۔اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بعد دوبارہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے۔ یہ طریقہ غسل اور وضو دونوں کے بدلے میں کئے گئے تیمم میں یکساں ہے۔ ۲۔ سیاہ سنگ مرمر،چونے کے پتھر(gypsum) نیز دیگر تمام قسم کے پتھروں پر تیمم صحیح ہے لیکن جواہرات مثلا عقیق اور فیروزہ کے پتھر پر تیمم باطل ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خاک یا ایسی دوسری چیزوں کے ہوتے ہوئے کہ جن پر تیمم صحیح ہے،چونے اور آہک پر بھی تیمم نہ کریں۔ ۲۔ سوال: چونے کے پتھر(gypsum)،پختہ چونے یا آہک کے پتھر(lime.stone)،اور اینٹ پر تیمم کرنا کیسا ہے؟جواب: تیمم ہر اس چیز پر صحیح ہے جو زمین کا حصہ کہلائے مثلا چونے کے پتھر اور آہک کے پتھر پر تیمم صحیح ہے بلکہ چونے،پختہ آہک،اینٹ اور اس کے مثل چیزوں پر بھی صحیح ہونا بعید نہیں ہے [یعنی ان پر تیمم کیا جاسکتا ہے]سوال: کیا سیمینٹ اور ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کیا جا سکتا ہے؟جواب: ان دونوں چیزوں پر سجدہ اور تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ ان پر تیمم سے پرہیز کیاجائے۔ ۳۔ تیمم کے لئے پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ان کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اور اگر ہتھیلی نجس ہو اور اسے پاک نہ کیا جا سکتا ہو تو اسی نجس ہتھیلی سے تیمم کریں گے۔ ۳۔ سوال: آپ کی نظر میں جس چیز پر تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا ضروری ہے تو کیا اعضائے تیمم (پیشانی اور ہاتھ کی پشت) کا پاک ہونا بھی ضروری ہےَ۔جواب: احتیاط یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پاک ہو اور اگر محل تیمم کا پاک کرنا ممکن نہ ہو تو بغیر پاک کئے ہی تیمم کرے۔ اگرچہ طہارت کی شرط نہ ہونا دونوں صورتوں میں بعید نہیں ہے۔ ۴۔ اگر غسل کے بدلے میں تیمم کرے اور پھر وضو کو توڑنے والا کوئی حدث سرزد ہوجائے تو اگر بعد کی نمازوں کے لئے بھی غسل نہ کرسکتا ہو وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو وضو کے بدلے میں تیمم کرے۔ ۴۔ جس نے غسل کے بدلے میں تیمم کیا ہو اگر اس سے حدث اصغر صادر ہوجائے مثلا پیشاب کرلے تو بعد کی نمازوں کے لئے اگر اب بھی غسل نہ کرسکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنیاد پر غسل کے بدلے دوبارہ تیمم کرے اور وضو بھی کرے۔ ۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو نماز ساقط ہے۔ لیکن احتیاط مستحب ہے کہ بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کی قضا بھی بجا لائے۔ ۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنیاد پر نماز وقت کے اندر وضو اور تیمم کے بغیر پڑھ لے اور پھر وضو یا تیمم کے ساتھ اس کی قضا بجا لائے۔ ۶۔ اگر ضرر کے یقین یا ضرر کے خوف کی وجہ سے تیمم کرے اور نماز سے پہلے پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر نماز کے بعد پتہ چلے تو نماز صحیح ہے۔ ۶۔ اگر کوئی یہ سمجھ کر تیمم کرے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ ہے اور اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے کہ نقصان دہ نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلے پانی ضرر نہیں کرتا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر وضو کرے یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔ احکام میت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ جو مسلمان عالم احتضار یعنی جانکنی کی حالت میں ہو اسے اس طرح چت لٹانا چاہئے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم سب کے لئے ہے چاہے مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا کوئی فرق نہیں ہے۔ ۱۔ مناسب ہے کہ مسلمان کو احتضار کی حالت میں پیٹھ کے بل (چت) قبلہ کی طرف اس طرح لٹائیں کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ بہت سے فقہاء نے اس کام کو خود مرنے والے پر (اگر وہ قادر ہو) یا پھر دوسرے لوگوں پر واجب سمجھا ہے۔ اور اس میں احتیاط ترک نہیں ہونا چاہئے۔ ۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور عاقل ہونا ضروری ہے، نیز مسائل غسل کو بھی جانتا ہو اور احتیاط واجب کی بنا پر وہ بالغ بھی ہو۔ ۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور بالغ و عاقل ہونا ضروری ہے، نیز غسل کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ قبلہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے اگر قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہ ہو یا یہ کہ کوشش کرنے کے بعد بھی کسی سمت کی طرف گمان (غالب) پیدا نہ ہو سکے تو اب اگر نماز کے وقت میں وسعت ہو تو چاروں طرف چار مرتبہ نماز پڑھے اور اگر چار مرتبہ نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جس قدر وقت میں گنجائش ہو اتنی سمت میں نمازیں پڑھے ... جس کے پاس قبلہ معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہ ہو اور اس کا گمان بھی کسی سمت کی طرف نہ جارہا ہو تو احتیاط کی بنیاد پر چاروں طرف نماز پڑھے اور اگر چار نماز پڑھنے کا وقت نہ تو جس قدر وقت ہو اتنی سمت نماز پڑھے۔ نماز کا وقت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ سوال: چاندنی راتوں کی فجر صادق کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر مبارک یہ ہے کہ کچھ دیر انتظار کیا جائے یہاں تک کہ فجر کی سفیدی چاندنی پر غالب آجائے تو کیا حضرت عالی کا فتویٰ اب بھی اسی طرح ہے؟ اگر جواب مثبت ہو تو یہ انتظار کتنے منٹ تک ہونا چاہیئے اور ماہ قمری میں یہ چاندنی راتیں کتنی راتیں ہیں؟جواب: اس کا معیار وہ راتیں ہیں جن میں چاندنی طلوع فجر پر غالب رہتی ہے اس میں نماز کے لئے اتنا انتظار کرنا چاہئے کہ طلوع فجر کی روشنی نمایاں ہوجائے۔ ۱۔ سوال: چاندی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ ۱۵سے بیس منٹ تک انتطار کیا جائے جبکہ گھڑی کے اعتبار سے نماز کا وقت ہوچکا ہو اور اس ذریعہ سے طلوع فجر کے سلسلہ میں یقین کا حاصل کرنا بھی ممکن ہو؟جواب: طلوع فجر، نماز صبح کے اول وقت اور اسی طرح وقت سحری کے اختتام اور روزہ کا وقت شروع ہونے کا تعین کرنے کے سلسلہ میں چاندی راتوں اور اندھیری راتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط اچھی ہے۔سوال: سلام و تحیات کے ساتھ! ماہ رمضان المبارک کی آمد اور اسی طرح شہروں کی توسیع اور طلوع فجر کی دقیق تشخیص نہ ہوسکنے کے پیش نظر جناب عالی سے گزارش ہے کہ روزہ کے لئے ترک سحر اور اقامہ نماز صبح کے اوقات کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک کو بیان فرمائیں۔جواب: مناسب ہے کہ مومنین محترم ایدھم اللہ تعالی احتیاط کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے روزے کے لئے ترک سحر اور نماز صبح کے سلسلہ میں(اسلامی جمہوریہ ایران کے)ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی اذان کے شروع ہونے کے ساتھ ہی سحری کھانا ترک کردیں اور اذان سے پانچ چھ منٹ بعد نماز صبح ادا کریں۔ ۲۔ نماز عصر کا مخصوص وقت وہ ہے جب وقت مغرب میں صرف اتنا وقت باقی رہ جائے کہ اس میں صرف نماز عصر پڑھی جاسکتی ہو۔ ۲۔ سوال: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟جواب: نماز عصر کا آخری وقت، غروب آفتاب تک ہے۔ ۳۔ انسان اس وقت نماز شروع کرسکتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے یا یہ کہ دو مرد عادل وقت نماز ہو جانے کی خبر دیں۔ لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر(اول وقت کے تعین کے لئے)مؤزن کی اذان کافی نہیں ہے اگرچہ مؤذن عادل اور موثق ہی کیوں نہ ہو۔ ۳۔ نماز شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کا انسان یقین پیدا کرلے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے یا دو عادل مرد خبر دیں کہ وقت ہوچکا ہے یا یہ کہ کوئی موثق اور وقتِ نماز پہچاننے والا موذن اذان دے۔ ۴۔ اگر بھولے سے نماز ظہر پڑھنے سے پہلے ہی نماز عصر شروع کردے اور درمیان نماز یاد آجائے کہ نیت میں غلطی ہو گئی ہے تو اگر یہ وقت،ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دینا چاہیئے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ میں نے اب تک پڑھا ہے اور جس نماز میں مشغول ہوں اور جو کچھ ابھی پڑھوں گا وہ سب نماز ظہر ہوگی اور نماز ختم کرنے کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ وقت ظہر کا مخصوص وقت ہو تو نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹادے اور نماز کو ختم کرے اور پھر نماز عصر پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ نماز (ظہر و) عصر کو بھی اس کے بعد پڑھے اور یہ احتیاط بہت اچھی چیز ہے۔ ۴۔ اگر یہ سمجھ کر نماز عصر شروع کی ہے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور درمیان نماز یاد آ جائے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے تو اگر یہ وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو فورا نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا اور نماز کو ختم کرے گا اور اس کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ اتفاق نماز ظہر کے مخصوص وقت میں پیش آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا لیکن نماز کو ختم کرنے کے بعد دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کو ترتیب کے ساتھ بجا لائے گا۔ اور نماز مغرب و عشاء میں بھی یہی شرعی فریضہ ہے۔ ۱۔ نماز ظہر کا مخصوص وقت،وقت ظہر شروع ہونے کے بعد اتنی مدت تک رہتا ہے کہ جس میں غیر مسافر چار رکعت اور مسافر دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہو۔ نمازی کا لباس امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ مرد کے لئے سونے کے زیورات مثلا گلے میں سونے کی زنجیر یا سونے کی انگوٹھی پہننا یا سونے کی گھڑی باندھنا حرام ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ ۱۔ سونے کی زنجیر پہننا، سونے کی انگوٹھی پہننا اور سونے کی گھڑی باندھنا مردوں کے لئے حرام ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ان کے ساتھ نماز باطل ہے۔ ۲۔ سوال: توضیح المسائل میں مسئلہ نمبر ۸۳۱ سے ۸۸۳ تک مردوں کے لئے یہ توضیح دی گئی ہے کہ نمازی مرد کا لباس زردوزی کا نہیں ہونا چاہئے۔ تو آیا یہاں زرد سونا مراد ہے یا سرخ اور سفید سونا بھی اس میں شامل ہے؟ (کیونکہ جناب عالی نے پلیٹینیم پہننے کی اجازت دی ہے) لہذا فرمائیں کہ سونے کا رنگ شرط ہے یا سونے کی حقیقت؟جواب: سفید سونے (پلیٹینیم) میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہی عام سونا ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ اس کا رنگ بدل گیا ہو۔ ۲۔ سوال: حضرت عالی کی نگاہ میں کیا سفید سونے کا استعمال میں مردوں کے لئے کوئی حرج ہے؟جواب: اگر سونا ہے اور کسی دوسرے مادہ کو ملادینے کی وجہ سے اس کا رنگ سفید ہو گیا ہے تو حرام ہے لیکن اگر پلیٹینیم ہے یا سونے کا مادہ اس میں اتنا کم ہو کہ بول چال میں اسے سونا نہ کہا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۳۔ نمازی مرد کا لباس خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے اور نماز کے علاوہ بھی اس کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔ اور جو چیزیں نماز میں اکیلے پہننے سے نماز نہیں ہوتی جیسے ازاربند اور رومال وغیرہ، احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ بھی خالص ریشم کی نہ ہوں۔ ۳۔ نمازی مرد کا لباس،حتی رومال، جراب اور لباس کا استر بھی خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے۔ اور نماز کے علاوہ بھی ریشم کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔ ۴۔ تین صورتوں میں جن کی تفصیل بعد میں آئے گی اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے:اول: یہ کہ جسم کے زخم یا چوٹ یا پھوڑے کی وجہ سے کسی کا لباس یا بدن خون آلود ہو جائے۔دوم: یہ کہ بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم جگہ پر تقریبا ایک اشرفی کے برابر،خون لگا ہو۔سوم: ... ۴۔ اگر نمازی کا بدن یا لباس،زخم، چوٹ یا پھوڑے پھنسی کے علاوہ کسی اور وجہ سے خون آلود ہو جائے اور خون کی مقدار انگشت شہادت کی پور سے کم جگہ پر ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ جگہ پر ہو تو صحیح نہیں ہے۔ ۵۔ اگر حیض یا نفاس کا خون،سوئی کی نوک کے برابر بھی نمازی کے لباس یا بدن پر ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنیاد پر خون استحاضہ بھی نمازی کے بدن یا لباس پر نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر دوسرا خون مثلا انسان کے بدن کا خون یا کسی حلال گوشت جانور کا خون یا کتے، سور، کافر، مردار یا کسی حرام گوشت جانور کا خون، اگرچہ نمازی کے بدن یا لباس پر کئی جگہ موجود ہو لیکن ان سب کو جمع کرنے سے خون ایک درہم سے کم جگہ میں ہو (جو تقریبا ایک اشرفی کے برابر ہوتی ہے) سے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر بھی احتیاط یہ ہے کہ کتے، کافر، مردار اور حرام گوشت جانور کے خون سے بچا جائے۔ ۵۔ ماقبل مسئلہ کے حکم سے خون حیض مستثنی ہے کیونکہ اس کا اگر معمولی سا خون بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگ جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر خون نفاس و استحاضہ نیز نجس العین اور حرام گوشت اور مردار کے خون کا بھی یہی حکم ہے بلکہ یہ حکم نفاس اور استحاضہ کے علاوہ، قوت سے خالی نہیں ہے۔ نمازی کی جگہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ (نمازی کی جگہ کے لئے) پانچویں شرط یہ ہے کہ نمازی کی پیشانی اس کے زانو کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ اور احتیاط واجب یہ ہے کہ (پیشانی) پیروں کی انگلیوں کے سروں سے بھی اس سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ ۱۔ ضروری ہے کہ نمازی کی پیشانی کی جگہ اس کے زانوؤں اور پیروں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ ۲۔ احتیاط مستحب کی بنا پر(نماز میں)عورت کو مرد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیئے اور اس کے سجدہ کی جگہ مرد کے کھڑے ہونے کی جگہ سے کچھ پیچھے ہونا چاہیئے۔ ۲۔ ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں عورت اور مرد کے درمیان کم از کم ایک بالشت کا فاصلہ ہو اور اس صورت سے اگر مرد و عورت ایک دوسرے کے برابر میں کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے بھی کھڑی ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے، یہ حکم احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے۔ ۳۔ خانہ کعبہ کے اندر(حجرے میں)یا اس کی چھت پر واجب نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ۳۔ خانہ کعبہ کے اندر نماز واجب کا پڑھنا مکروہ ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی چھت پر نماز نہ پڑھے۔ ۴۔ انسان کو چاہئے کی ادب کی رعایت کرے اور پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر سے آگے نماز نہ پڑھے چنانچہ اگر نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو نماز پڑھنا حرام ہے لیکن نماز باطل نہیں ہے۔ ۴۔ نمازی کو نماز پڑھتے وقت پیغبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر کے آگے کھڑا نہیں ہونا چاہئے لیکن برابر میں کھڑے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مسجد کے احکام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اگر مسجد کو غصب کرلیں اور اس کی جگہ گھر وغیرہ بنالیں اس طرح کہ اس کو اب مسجد نہ کہا جاتا ہو تو بھی اس جگہ کا نجس کرنا حرام اور اس کو پاک کرنا واجب ہے۔ ۱۔ جو مسجد غصب، منہدم اور متروک ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی اور عمارت بنادی جائے یا متروک رہنے کے سبب اس کے مسجد ہونے کے آثار مٹ چکے ہوں اور اس کی تعمیر نو کی امید بھی نہ ہو اس طور پر کہ وہاں کے باشندے وہاں سے کوچ کرچکے ہوں تو اس جگہ کا نجس کرنا حرام ہو معلوم نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نجس نہ کریں۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے سے نہ سجائیں اور اسی طرح انسان یا حیوان کی مانند ان چیزوں کی تصویر وغیرہ بھی مسجد میں نہ بنائیں کہ جن میں جان ہوتی ہے لیکن پھول پتی کی مانند بے جان چیزوں کی تصویر کشی مکروہ ہے۔ ۲۔ مسجد کو سونے سے سجانا اگر فضول خرچی میں شمار ہو تو حرام ہے اور بصورت دیگر بھی مکروہ ہے۔ واجبات نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ کسی انسان کے لئے اگر یہ احتمال ہو کہ آخر وقت میں شاید کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے تب بھی اول وقت نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نماز میں تاخیر کرے۔ ۱۔ جس شخص کے لئے یہ احتمال ہو کہ شاید آخر وقت میں کھڑے ہوکر اپنی نماز پڑھ سکے اسے احتیاط کی بنا پر اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے لیکن اگر کسی عذر کے تحت اس نے اول وقت اپنی نماز بیٹھ کر پڑھ لی اور پھر آخر وقت تک اس کا عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور اعادہ ضروری نہیں ہے۔ اور اگر اول وقت کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں تھا اور اسے یقین تھا کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے متعلق اس کی عاجزی اور ناتوانی آخر وقت تک باقی رہے گی لیکن آخر وقت گزرنے سے پہلے،وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قابل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ کھڑے ہوکر نماز کا اعادہ کرے۔ ۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ نماز کے لئے دائیں کروٹ اس طرح لیٹ جائے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹ جائے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ ۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ لیٹ کر نماز پڑھے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اگر ممکن ہو تو دائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کا چہرہ اور بدن قبلہ کی طرف ہو، ورنہ بائیں کروٹ لیٹے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ ۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ حمد اور اس کے بعد کوئی ایک مکمل سورہ پڑھنا چاہیئے۔ ۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو چاہئے کہ پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اس کے بعد احتیاط واجب کی بنیاد پر ایک مکمل سورہ پڑھے۔ ۴۔ اگر(نماز میں)غلطی سے ایسا سورہ شروع کردے کہ جس میں سجدہ واجب ہے تو اگر آیت سجدہ پر پہنچنے سے پہلے یاد آجائے تو اس سورہ کو چھوڑ کر کوئی اور سورہ پڑھے۔ اور اگر سجدہ والی آیت کو پڑھنے کے بعد یاد آئے تو نماز کے درمیان اشارہ کے ذریعہ سجدہ بجا لائے اور پھر اسی سورہ کے پڑھنے پر اکتفا کرے۔ ۴۔ نماز واجب میں سجدہ والے سوروں کا پڑھنا جائز نہیں ہے اور اگر عمدا یا سہوا ان میں سے کسی سورے کو پڑھے اور سجدہ والی آیت پر پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر(بیٹھ کر)آیت سجدہ کی تلاوت کے سجدہ کو انجام دے اور پھر کھڑے ہو کر اگر سورہ مکمل نہ ہوا ہو تو مکمل کرے اور پوری نماز اور پھر نماز کا اعادہ بھی کرے۔ اور اگر سجدہ والی آیت پر پہنچنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس سورے کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا سورہ پڑھے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد پھر سے نماز کا اعادہ کرے۔ ۵۔ نماز میں جب کوئی سورہ پڑھنے کے لئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے تو کہ پہلے سے سورہ کو معین کرلے اور’’بسم اللہ....‘‘ اسی سورہ کی نیت کے ساتھ پڑھے اور اگر سورہ کو معین کرنے کے بعد اس سورہ کو چھوڑدے تو دوسرے سورہ کو پڑھنے کے لئے اس سورہ کی نیت سے دوبارہ’’بسم اللہ...‘‘ پڑھے۔ ۵۔ سوال: جو انسان پہلے سے ہی سورہ حمد اور سورہ توحید پڑھنے کی نیت رکھتا ہو یا اس کی عادت ہمیشہ یہی ہو اور کسی مخصوص سورہ کا تعین کئے بغیر بلا ارادہبسم اللہ الرحمن الرحیمکھ دے تو کیا اس کے اوپر واجب ہے کہ سورہ کو معین کرنے کے بعد پھر سے’’بسم اللہ...‘‘پڑھے؟جواب: ’’بسم اللہ...‘‘کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ اسی ’’بسم اللہ...‘‘پر اکتفا کرسکتا ہے اور حسب خواہش کوئی بھی سورہ ’’بسم اللہ...‘‘دہرائے بغیر پڑھ سکتا ہے۔ ۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ،عورت بلند آواز سے اور آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔ ۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ عورت بلند آواز سے یا آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو بہتر ہے آہستہ پڑھے۔ ۷۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ الحمد پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی بسم اللہ کو بھی آہستہ پڑھے۔ ۷۔ مرد اور عورت پر واجب ہے کہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ یا سورہ حمد کو آہستہ پڑھیں لیکن اگر سورہ حمد پڑھیں تو فرادیٰ نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بلند آواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہی ہے کہ’’بسم اللہ...‘‘آہستہ کہیں اور نماز جماعت میں یہ احتیاط، واجب ہے۔ `۸۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت کے رکوع میں یا رکوع میں جاتے وقت شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔ ۸۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے رکوع میں شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔ لیکن اگر رکوع میں جاتے وقت جبکہ رکوع کی حد تک نہ پہنچا ہو شک کرے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر واپس پلٹے اور حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھ کر(رکوع میں جائے)۔ ۹۔ اگر شک ہو کہ کوئی آیت یا لفظ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں تو اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول نہ ہوا ہو تو پھر سے اس آیت یا لفظ کو صحیح طور سے ادا کرنا چاہیئے۔ اور اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول ہوچکا ہو اور وہ بعد کی چیز رکن ہو مثلا رکوع میں شک کرے کہ سورہ کے فلاں لفظ کو صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اس شک کی طرف دھیان نہ دے، اور اگر وہ(بعد کی)چیز رکن نہ ہو مثلا اگر اللہ الصمد کہتے وقت شک کرے کہ قل ہو اللہ احد صحیح طور پر پڑھا ہے یا نہیں تو بھی یہ کرسکتا ہے کہ اپنے شک کی طرف دھیان نہ دے لیکن اگر احتیاط کے طور پر اس لفظ کو(دوبارہ)صحیح طور سے ادا کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کئی بار شک ہو تو کئی بار دھرا سکتا ہے لیکن اگر(شک) وسواس کی حد تک پہنچ جائے اور بار بار وہ لفظ ادا بھی کیا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔ ۹۔ اگر کسی آیت کو تمام کرنے کے بعد شک کرے کہ صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیئے،اور یہی صورت ہے اگر آیت کا ایک جملہ پورا کرنے کے بعد اس کے صحیح پڑھنے کے بارے میں شک ہو مثلاایاک نعبدکہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں۔البتہ ان تمام صورتوں میں جس چیز کے صحیح ادا ہونے کے بارے میں شک ہے اگر اسے احتیاطا دوبارہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۰۔ اگر رکوع کی حد تک جھکے لیکن ہاتھوں کو گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۰۔ احتیاط یہ ہے کہ رکوع میں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے۔ ۱۱۔ انسان رکوع میں جو بھی ذکر پڑھے وہ کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم وبحمدہ سے کم نہ ہو۔ ۱۱۔ رکوع میں ایک بار سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبر وغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔ ۱۲۔ سجدہ میں جو بھی ذکر پڑھے کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی وبحمدہ سے کم نہ ہو۔ ۱۲۔ سجدہ میں ایک بار سبحان ربی الاعلی و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبروغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔ ۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کے برابر انسان کا بدن ساکن ہونا چاہئے۔ اور مستحب ذکر میں بھی،اگر اس ذکر کی نیت سے ہو کہ جس کا حکم سجدہ کے لئے دیا گیا ہے،بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے۔ ۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کہتے وقت بدن ساکن ہونا چاہئے حتی جس وقت کوئی ذکر استحباب کی نیت سے سجدہ میں کہہ رہا ہو مثلا سبحان ربی الاعلی و بحمدہ یا کسی اور ذکر کی تکرار کر رہا ہو تب بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ بدن میں حرکت نہ ہو۔ ۱۴۔ اگر پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر کھڑا ہوجائے اور رکوع بجا لائے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد دوبارہ نماز پڑھے۔ ۱۴۔ اگر پہلے سجدہ میں یا اس کے بعد،دوسرے سجدہ میں داخل ہونے سے پہلے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اٹھ کر کھڑا ہو اور رکوع انجام دے اور پھر دونوں سجدے اور نماز تمام کرنے کے بعد سجدہ اضافہ کے لئے احتیاطا دو سجدہ سہو کرے۔ ۲۔ اگرچہ(تحریر الوسیلہ میں)صفحہ ۱۵۵ پر مرقوم ۸ویں مسئلہ کی اصل تحریر مطابق اس مسئلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) اور آیۃ اللہ خامنہ ای (مد ظلہ) کے درمیان کوئی اختلاف نظر نہیں ہے۔ نماز جماعت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے امام جماعت کو بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہونا چاہئے وہ،جو نماز کو صحیح طریقہ سے پڑھ سکتا ہو نیز اگر ماموم مرد ہیں تو امام کو بھی مرد ہونا چاہئے... اور احتیاط واجب یہ ہے کہ عورت کا امام بھی مرد ہو۔ سوال: کس صورت میں عورت امام جماعت ہوسکتی ہے؟جواب: اگر مامومین میں صرف عورتیں ہوں تو امام جماعت، عورت ہوسکتی ہے۔ نماز جمعہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے اس طرح پڑھنا کہ خطبہ تمام ہوتے ہوئے ظہر کا وقت ہوجائے جائز ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خطبے زوال کے بعد دئے جائیں۔ ۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے دیئے جا سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ وقت ظہر کے اندر ہو اور احوط یہ ہے کہ پورے خطبے وقت ظہر داخل ہونے کے بعد دئے جائیں۔ ۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز جمعہ میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ وہ وقت جسے عرف میں اول ظہر کہتے ہیں گزر جائے اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے تو نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر پڑھے۔ ۲۔ نماز جمعہ کا وقت اول ظہر سے ہے اور احوط یہ ہے کہ اس کو عرف میں رائج نماز ظہر کے اوائل وقت(تقریبا ایک دو گھنٹہ)سے زیادہ پیچھے نہ لے جائیں۔ مسافر کی نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ مسافر کو آٹھ شرطوں کے ساتھ ظہر،عصر اور عشاء کی نماز قصر کرنا یعنی دو رکعت پڑھنا چاہیئے:ساتویں شرط: مسافر کا پیشہ مسافرت نہ ہو۔ لہذا شتربان، ڈرائیور،چوپان،ملاح اور ان کے جیسے دوسرے افراد خواہ وہ اپنے گھر کا سامان لے جانے کے لئے ہی سفر میں ہوں پہلے سفر کے علاوہ انہیں نماز پوری پڑھنا چاہئے لیکن پہلے سفر میں اگرچہ سفر لمبا ہو جائے ان کی نماز قصر ہے۔ ۱۔ سوال: کن حالات میں مسافر پر چار رکعتی نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے؟جواب: آٹھ شرطوں کے ساتھ...ساتویں شرط: یہ کہ اس کا پیشہ سفر نہ ہو مثلا چوپان، ڈرائیور، ملاح وغیرہ نہ ہو اور وہ لوگ بھی ان ہی سے ملحق ہوں گے جن کا کام کاج سفر میں ہے۔ ۲۔ سوال: ایک شخص کسی کمپنی میں مارکٹ آفیسر ہے اور کئی سالوں سے روزانہ صبح کو اپنے وطن سے کام پر جاتا ہے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ ہے اور پھر شام کو پلٹتا ہے اور کبھی کبھی خود ڈرائیونگ کرتا ہے آیا یہ شخص مسافر ہے یا دائم السفر؟جواب: اپنی ملازمت کی جگہ اور راستہ میں یہ شخص مسافر کا حکم رکھتا ہے۔توضیح:امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق اپنے پیشہ ورانہ سفر کے دوران صرف ان لوگوں کا نماز پوری پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ہے کہ جن کا پیشہ ہی مسافرت ہے یعنی ان کے کام کی بنیاد ہی سفر پر قائم ہو اور ان کا کام سفر کے بغیر کسی مستقل جگہ انجام نہ پا سکتا ہو مثلا اپنے شہر سے باہر ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیور، پائلٹ اور ملاح وغیرہ۔ لیکن جن کا پیشہ مسافرت نہیں ہے اگرچہ روزانہ اپنے کام کے لئے سفر کریں ان کی نماز سفر میں قصر ہے اس معلم کی طرح جو روزانہ یا ہر ہفتہ تدریس کے لئے سفر کرتا ہے۔ایک مسئلہ اور ایک استفتاء ملاحظہ کریں:مسئلہ: وہ جس کا پیشہ سافرت نہیں ہے اگر مثال کے طور پر کسی شہر یا گاؤں میں کوئی مال ہے جس کو ڈھونے کے لئے وہ پے در پے سفر کرتا ہے تو اسے اپنی نماز قصر پڑھنا چاہئے۔سوال: فوج نے دیہاتوں میں خدمت کے لئے کچھ لوگوں کو ملازم رکھا ہے اور خود سپاہ کا مرکز بھی ان لوگوں کے کا وطن میں نہیں ہے اور روزانہ یا ہر تیسرے دن انھیں اطراف شہر میں مجبورا سفر کرنا پڑتا ہے تو ان کی نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ مختصر یہ کہ ان کے کام کا لازمہ سفرہے۔جواب: وطن کے علاوہ جہاں بھی ہوں ایک جگہ دس روزہ قیام کی نیت کے بغیر نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے۔ ۲۔ سوال: جس کا کام کاج سفر میں ہے اس کی نماز اور روزہ کا کیاحکم ہے مثلا وہ ملازم جو اپنی ملازمت پر سفر کرتا ہے یا وہ مزدور جو اپنے کام کی جگہ سفر کرتا ہے اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر ہر دس دن کے اندر کم از کم ایک بار اپنے کام کے لئے اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جاتا ہے تو اس کا حکم اس شخص کی طرح ہے جس کا پیشہ ہی سفر ہو اس کا روزہ صحیح ہے اور نماز پوری پڑھے گا۔توضیح:رہبر معظم انقلاب (مد ظلہ) کے فتوہ کے مطابق جن لوگوں کا کاروبار سفر میں ہے یا اپنے کام کے لئے کم از کم دس دن کے اندر اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جانا پڑتا ہے تو یہ لوگ بھی ان کی طرح ہیں جن کا پیشہ ہی مسافرت ہو یعنی اپنی نمازیں اس طرح کے سفر میں پوری پڑھیں اور ان کا روزہ بھی صحیح ہے، مثلا وہ معلم حضرات جو تدریس کے لئے یا وہ ملازمین جو اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے یا وہ مزدور جو اپنے کام کاج کے لئے ہر ہفتہ کم از کم ایک بار اپنے کام پر ضرور جاتے ہیں اور پلٹ آتے ہیں سفر کے دوران کام پر ان کی نمازیں پوری ہیں۔ لیکن تحصیل علم کے لئے کیا جانے والا سفر،آپ کی نظر میںپیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا الا یہ کہ خود تحصیل کام اور مشغلہ کے طور پر ہو مثلا جو لوگ فوج یا پولیس وغیرہ کی ٹرینیگ کے دوران میں تحصیل علم پر مامور ہوں۔ذرا دو استفتاآت ملاحظہ کریں:سوال: ایک طالبعلم جو ہر ہفتہ تعلیم کے لئے اسکول جاتا آتا ہو اور اس کا اسکول وطن سے چار فرسخ(۱۲میل)یا اس سے زیادہ دوری پر ہو،اپنی نماز اسکول میں پوری پڑھے کا یا قصر ہو گی؟جواب: تعلیم کے لئے سفر پیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا بلکہ جو طالبعلم پڑھنے کے لئے کہیں سفر کرتا ہے وہ عام مسافر کے حکم میں ہے(یعنی اسکول میں نمازیں قصر پڑھے گا)۔سوال: میں شہر رفسنجان میں ملازم ہوں اور تعلیم میں بھی مشغول ہوں۔ وزارت تعلیم و تربیت کے زیر نظر مرکز عالی میں داخلہ مل جانے کے پیش نظر اپنی عام ڈیوٹی کے ساتھ مجھے آفس کی طرف سے ہفتہ کے ابتدا کے تین دنوں میں تحصیل علم کے لئے شہر کرمان جانا پڑتا ہے بقیہ ایام میں خود اپنے وطن میں رہ کر ڈیوٹی انجام دیتا ہوں حضرت عالی کی نظر میں میری نماز روزے کے سلسلہ میں کیا حکم ہے آیا طالب علم ہونے کا حکم میرے اوپر جاری ہوگا یا نہیں؟جواب: اگر تحصیل علم آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ۳۔ جو شخص سفر پر جارہا ہے وہ اس وقت نماز قصر پڑھے گا کہ جب کم از کم اپنے شہر سے اتنا دور نکل چکا ہو کہ شہر کی دیواریں دکھائی نہ دیتی ہوں اور وہاں کی اذان سنائی نہ دیتی ہو ورنہ اگر اس قدر دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو پوری نماز پڑھے گا۔٭ سفر پر جانے والا اگر ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اذان کی آواز نہ سنائی دے لیکن شہر کی دیواریں دکھائی دے رہی ہوں یا (اس کے برعکس) اذان کی آواز سنائی دے لیکن دیواریں نہ دکھائی دیں تو اگر وہاں نماز پڑھنا چاہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر نماز قصر بھی پڑھے گا اور پوری بھی۔ ۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی رعایت کرے لیکن صرف اذان کی آواز نہ سنے جانے پر اکتفا کرنا بعید نہیں ہے۔ [یعنی اگر شہر سے اتنا دور ہو جائے کہ وہاں کی اذان کی آواز نہ سن سکے لیکن دیواریں دکھائی دے رہی ہوں اور وہاں نماز پڑھنا چاہے تو قصر نماز پڑھنا چاہئے، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پوری بھی یا یہ کہ اتنی دور جانے کے بعد نماز پڑھے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں۔ اور اگر روزہ سے ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ روزہ کو نہ توڑے بلکہ رکا رہے یہاں تک کہ اتنی دور ہوجائے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں]۔ ۴۔ سوال: ’’بلاد کبیرہ‘‘یعنی بڑے شہروں کے سلسلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) کا فتوہ تفصیل سے بیان فرمائیں۔جواب: غیر معمولی طور پر بڑے شہروں کے سلسلے میں جس کا تعین عرف کے ذریعہ ہوتا ہے،مسافرت کے لئے سفر کے شروع اور اختتام کی منزل خود گھر کو قرار دیتے ہیںس اور دس دن کے قیام کے سلسلہ میں اس کے ایک مخصوص محلہ میں قیام کی نیت کرنا چاہئے [اس وقت ایران میں شہر تہران غیر معمولی بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے] ۴۔ سوال: بڑے شہروں کو وطن بنانے اور ان میں دس دن قیام کے سلسلہ میں حضرت عالی کی نظر کیا ہے؟جواب: مسافر کے احکام، وطن بنانے اور دس روز قیام کی نیت سے ٹھہرنے کے سلسلے میں بڑے شہروں اور عام شہروں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ کسی مخصوص محلہ کا تعین کئے بغیر کسی بڑے شہر میں سکونت کی نیت اور ایک مدت تک قیام سے ہی وہ شہر وطن کے حکم میں ہوگا،چنانچہ اگر کسی خاص محلہ کا تعین کئے بغیر پورے شہر میں دس دن کے قیام کی نیت ہو تو روزہ صحیح ہے اور نماز پوری ہوگی۔ ۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہے اگر شروع سے ہی یہ نیت کر لے کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر میں جائے گا تو اطراف شہر میں وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہے اگر شہر کے دائرے اور اس کی دیوار سے باہر نہ ہو یا اس شہر کے اطراف کے کھیتوں اور باغوں کے درمیان ایسی جگہ ہو کہ وہاں جانا اس شہر میں اقامت کے منافی نہ کیا جائے (یعنی عرف میں یہی کہیں کہ وہ ایک ہی شہر میں دس دن رہا ہے) ایسی صورت میں وہ نماز پوری پڑھے گا۔ لیکن اگر (حد ترخص سے گزر کر) چار فرسخ (یعنی ۱۲میل) کے اندر ہی جانا چاہے تو اگر اس کی نیت میں پہلے سے یہ رہا ہو کہ دس روز میں صرف ایک بار وہاں جائے گا اور آنے جانے میں دو گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگائے تو تمام دس دنوں میں اپنی نماز پوری پڑھے گا۔ ۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر شروع سے ہی یہ نیت رکھتا ہو کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر (چار فرسخ(۱۲میل)سے کم کی دوری میں) صرف اتنی دور جائے گا،کہ عرف میں یہی کہیں کہ دس دن تک ایک ہی جگہ قیام کیا ہے مثلا اگر ارادہ رکھتا ہے کہ دس دنوں میں کسی ایک دن یا ایک رات کچھ گھنٹوں کے لئے یا اس سے کچھ زیادہ ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات تک کے لئے،صرف ایک بار یا کئی بار شہر کے اطراف میں جائے گا لیکن ان کی مجموعی مدت ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات سے زیادہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نماز پوری رہے گی۔ لیکن اگر دس دن کے قیام کا ارادہ کرتے وقت اس کی نیت میں ہو کہ اس مدت سے زیادہ محل اقامت کے باہر رہے گا تو قیام کی نیت محقق نہیں ہوگی اور وہاں نماز قصر رہےگی۔ ۶۔مکہ اور مدینہ میں نماز قصر کرنے اور پوری پڑھنے کے درمیان اختیار صرف مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص ہے،یہ حکم پورے مکہ اور پورے مدینہ کے لئے نہیں ہے۔ ہاں یہ اختیار اصل مسجد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مسجد کی موجودہ توسیع شدہ عمارت میں ہر جگہ جاری ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اصل مسجد تک ہی اکتفاء کیا جائے۔ لہذا موجودہ مسجد کے تمام حصوں میں ایک مسافر پوری نماز بھی پڑھ سکتا ہے اور قصر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ۶۔ مکہ اور مدینہ میں ہر جگہ ایک مسافر پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ حکم مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص نہیں ہے۔ قضا نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے باپ کی چھوٹی ہوئی نمازیں اور روزے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہیں کہ وہ ان نمازوں اور روزوں کی قضا بجا لائے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کی قضا نمازوں اور روزوں کو بھی بجا لائے۔ ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔ روزہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اگر کوئی نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے لیکن ظہر سے پہلے ہی متوجہ ہو جائے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اسے چاہئے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا بھی ادا کرے۔ ۱۔ جس نے رمضان میں بھول کر یا لاعلمی کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور دن میں کسی وقت متوجہ ہو جائے تو اگر اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو، تو اس دن کا روزہ باطل ہے لیکن اس کے بعد بھی غروب تک روزہ کو باطل کرنے والے کاموں سے پرہیز کرے۔ لیکن اگر (ماہ رمضان کی طرف) متوجہ ہونے کے وقت تک کسی ایسے کام کا مرتکب نہ ہوا ہو کہ جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر ظہر سے پہلے متوجہ ہو گیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر روزہ کی نیت کرلے اور روزہ رکھے اور بعد میں اس روزہ کی قضا بھی کرے۔ ۲۔ جو شخص کسی مرنے والے کے روزے کی ادائیگی کے لئے اجرت لے چکا ہو وہ اگر اپنے مستحبی روزے رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس کے اوپر اپنے روزہ کی قضا یا اور کسی طرح کے واجبی روزے ہوں وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر ظہر سے پہلے اسے یاد آجائے، اس کا مستحبی روزہ باطل ہوجائے گا اور وہ اپنی نیت کو واجب روزہ کی نیت میں پلٹ سکتا ہے، اور اگر ظہر کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ باطل ہے۔ اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اشکال سے خالی نہیں ہے۔ ۲۔ جس کے ذمہ ماہ رمضان کا قضا روزہ واجب ہے وہ مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا چنانچہ بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر روزہ کے درمیان یاد آجائے اس کا مستحبی روزہ باطل ہو جائے گا اب اگر ظہر سے پہلے یاد آیا ہے تو اس روزہ کی نیت کو ماہ رمضان کی قضا کی نیت میں تبدیل کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ ۳۔ اگر مریض ماہ رمضان کی ظہر سے پہلے ٹھیک ہوجائے اور اذان صبح سے اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر کے بعد ٹھیک ہوا ہے تو اس دن کا روزہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔ ۳۔ اگر مریض، ماہ رمضان میں دن کے وقت ٹھیک ہوجائے تو واجب نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کرے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر سے پہلے ٹھیک ہو گیا ہے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہیں دیا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نیت کر لے اور روزہ رکھے لیکن ماہ رمضان کے بعد اس دن کی قضا بھی کرنا چاہیئے۔ ۴۔ اگر کسی معینہ واجبی روزہ مثلا ماہ رمضان کے روزہ میں روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کی نیت کرے لیکن اسے انجام نہ دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔ ۴۔ ماہ رمضان کے روزہ میں اگر دن میں کسی وقت روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے اس طرح کہ روزہ کو جاری رکھنے کا ارادہ باقی نہ رہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور دوبارہ روزہ جاری رکھنے کی نیت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر روزہ رکھنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو یعنی ابھی فیصلہ نہ کیا ہو یا روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ ہو لیکن اسے انجام نہ دیا ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس کے روزہ کی صحت محل اشکال ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ کو مکمل کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی کرے۔دوسرے تمام معینہ واجبی روزوں مثلا معینہ نذر کے روزے وغیرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ مبطلات روزہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار اس انجکشن سے پرہیز کرے جو غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے لیکن ایسے انجکشن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جس سے کسی عضو کو بے حس کیا جاتا ہے یا جو دوا کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار طاقت کے یا غذا کے ہر اس انجکشن سے پرہیز کرے جو عضوات میں یا رگوں میں لگائے جاتے ہیں اسی طرح گلوکوز وغیرہ چڑھانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے۔ لیکن بے حس کرنے والے انجکشن کا استعمال نیز زخموں اور چوٹوں پر دوا لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سیگرٹ، تنباکو اور ان جیسی روسری چیزوں کا دھواں حلق میں نہ لے جائے، لیکن گاڑھی بھاپ روزہ کو باطل نہیں کرتی الا یہ کہ وہ منھ میں جاکر پانی ہوجائے اور اسے حلق سے نیچے اتارلے۔ ۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار ہر طرح کی دھویں والی چیزوں کے پینے سے پرہیز کرے اسی طرح ایسے منشیات کے استعمال سے بھی پرہیز کرے جو ناک کے ذریعے یا زبان کے نیچے رکھ کر استعمال کئے جاتے ہیں۔ ۳۔ اگر روزہ دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارہ سے یا ان جیسے کسی اور طریقہ سے خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف عمدا جھوٹی نسبت دے تو اگرچہ فورا یہ کہہ دے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے یا توبہ کرلے پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط واجب کہ تحت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نیز دیگر انبیا اور ان کے جانشین علیہم السلام کے لئے بھی اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ۳۔ احتیاط کی بنیاد پر خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصومین علیہم السلام پر جھوٹ باندھنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اگرچہ بعد میں توبہ کرلے اور کہے کہ میں نے جھوٹ باندھا ہے۔ ۴۔ اگر ایسی روایت اور قول معصوم نقل کرنا چاہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہ ہو کہ صحیح ہے یا جھوٹی ہے تواحتیاط واجب کی بنیاد پر اس شخص یا کتاب کے حوالے سے اسے نقل کرے کہ جس نے اسے نقل کیا یا لکھا ہو لیکن اگر خود بھی نقل کر دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔ ۴۔ ان روایات کے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو کتابوں میں آئی ہیں اور انسان نہیں جانتا کہ جھوٹی ہیں، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ ان کو کتاب کے حوالہ کے ساتھ نقل کرے۔ ۵۔ گردوغبار کو منھ میں داخل کرنا روزہ کو باطل کردیتا ہے چاہے کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حلال ہے جیسے آٹا یا کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حرام ہے۔ ۵۔ روزہ دار کو چاہئے کہ احتیاط واجب کی بنیاد پر گردوغبار مثلا جھاڑو دینے کی وجہ سے اٹھنے والے غبار کو حلق سے نیچے نہ اتارے، اسی طرح احتیاط واجب کی بنیاد پر سگرٹ بیڑی وغیرہ کا دھواں بھی روزہ کو باطل کردیتا ہے۔ ۶۔ رمضان کی شب میں اگر مجنب سوجائے اور پھر بیدار ہو اور یہ احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوئے گا تو غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا تو پھر سو سکتا ہے۔جو رمضان کی شب میں مجنب ہے اور جانتا ہے یا احتمال ہے کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا تو اگر ارادہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سوجائے اور اذان صبح تک سوتا رہ جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ ۶۔ جو شخص جاگنے میں مجنب ہوا ہو یا سونے میں مجنب ہو اور بیدار ہوجائے اور جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار نہیں ہو سکے گا، اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ غسل کرنے سے پہلے سوئے اور اگر سوجائے اور اذان سے پہلے غسل نہیں کیا تو اس کا روزہ باطل ہے، لیکن اگر احتمال ہو کہ اذان صبح سے پہلے غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا اور غسل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو لیکن بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس روزہ کی قضا رکھنا چاہئے۔ ۷۔ اگر مجنب رمضان کی رات میں سوجائے اور آنکھ کھلنے کے بعد جانتا ہو یا خیال کرے کہ اگر دوبارہ سو گیا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور ارادہ بھی رکھتا ہو کہ اٹھنے کے بعد غسل کر لے گا اس صورت میں اگر دوبارہ سوجائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے یہی حکم ہے،اگر دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ سو کر جاگے اور پھر سے سوجائے، کفارہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔ ۷۔ جو شخص رمضان کی شب میں مجنب ہو اور حالت جنابت میں اس خیال کے ساتھ سوجائے کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہو کر غسل کرلے گا اور اذان کے وقت تک بیدار نہ ہوسکے تو اس دن کے روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ کفارہ بھی دیا جائے۔ ۸۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کے سبب کوئی ایسا کام انجام دے جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر مسئلہ معلوم کر سکتا تھا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے اوپر کفارہ ثابت ہے، اور اگر مسئلہ معلوم کرنے پر قادر نہیں تھا یا مسئلہ کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا یا یقین تھا کہ اس کام سے روزہ باطل نہیں ہوتا تو کفارہ اس پر واجب نہیں ہے۔ ۸۔ اگر شرعی مسئلہ سے لاعلمی کے سبب ایسا کام انجام دے جو روزہ کو باطل کردیتا ہے مثلا وہ نہ جانتا ہو کہ سر کو پانی میں ڈبونا روزہ کو باطل کردیتا ہے اور سر کو پانی میں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس روزہ کی قضا کرنا چاہئے لیکن اس کے اوپر کفارہ واجب نہیں ہے۔اوراگر ایسا کام انجام دیا ہے جس کے بارے میں جانتا ہے کہ حرام ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس سے روزہ بھی باطل ہو جاتا ہے تو روزہ کی قضا کےعلاوہ احتیاط واجب کی بنیاد پر کفارہ بھی دینا چاہیئے۔ اعتکاف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے اعتکاف صرف مسجد میں ہی صحیح ہے لہذا جو شخص اپنے گھر،امام باڑے یا امام بارگاہ یا روضوں میں اعتکاف کرے اس کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ اور مسجدوں میں بھی صرف ان ہی مسجدوں میں اعتکاف صحیح ہے: مسجد الحرام، مسجد النبی، کوفہ کی جامع مسجد، مسجد بصرہ۔ اور ہر شہر کی جامع مسجد میں قصد رجا کے ساتھ اعتکاف کیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔ سوال: عرض ہے کہ مسجدوں (جامع مسجد اور عام مساجد) کے اندر اعتکاف کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک بیان فرمائیں۔جواب: جامع مسجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور دیگر مسجدوں میں قصد رجا کی نیت سے کوئی حرج نہیں ہے۔ ۳۔ قصد رجاء، یعنی خدا کا مطلوب ہونے کی نیت سے اور ثواب و انعام کی امید پر کوئی عمل انجام دینا۔ خمس امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے گھر کو بیچے اور دوسرا گھر خریدے یا بنائے تو کیا بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت پر خمس واجب ہے اگرچہ اس رقم پر ایک سال پورا نہ گزرا ہو؟جواب: اگر بیچا جانے والا گھر کاروبار کے منافع،تنخواہ یا کسی اور آمدنی کے ذریعہ، حاصل خمس نہ دئے ہوئے مال سے لیا گیا تھا تو اس کی قیمت سے فورا خمس نکالنا واجب ہے۔ ۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے رہائشی گھر کو بیچ دے تاکہ دوسرا گھر خرید سکے یا بنائے تو بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت میں خمس ہے یا نہیں؟جواب: اگر سال پورا ہونے کے بعد بیچا ہے اور گھر کے(مؤونہ)خرچ میں شمار ہونے کی وجہ سے خمس میں حساب نہ کیا گیا ہو تو گھر کی ملی قیمت میں خمس نہیں ہے چاہے سال کے آخر تک رقم باقی رہے۔ ۲۔ جو رقم حج کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اور اسی سال اس کا نام قرعہ میں نکل آئے تو ادا شدہ رقم میں خمس نہیں ہے اور اگر بعد کے برسوں میں نام نکلے تو اس کا حساب کرنا ہوگا مگر یہ کہ پہلے استطاعت رکھتا تھا اور اب اس رقم کو شامل کئے بغیر حج کے لئے نہ جاسکتا ہو۔ ۲۔ جو رقم حج یا عمرہ کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اگر سفر کے خرچ کے عنوان سے ایک شخص اور ’’ادارہ حج و زیارت‘‘ کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے مطابق ادا کی گئی ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اس رقم کو واپس لے لیں۔ ۳۔ سوال: اگر کوئی رقم کسی کے پاس امانت کے طور پر یا کرایہ مکان کے لئے مالک مکان کے پاس رہن کے طور پر رکھوائے تو کیا اس بات کے پیش نظر سے کہ اس رقم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے،وجوہات شرعیہ ادا کرنا ہوں گی؟جواب: جی ہاں! اس رقم پر خمس ہے اور جب بھی اس کی وصولی کا امکان ہو ملنے کے بعد خمس ادا کرنا چاہیئے۔ ۳۔ سوال: عام طور سے مکان کرایہ پر لینے کے لئے ایک رقم پیشگی مالک مکان کو دیتے ہیں اگر یہ رقم کاروبار کی منفعت سے ہو اور کئی سالوں تک مالک مکان کے پاس پڑی رہے تو کیا واپس ملتے ہی اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے یا یہ کہ اس رقم پر سال کے خرچہ میں شمار ہونے کے سبب خمس نہیں ہے اور اگر اسی رقم سے کسی اور جگہ کرایہ پر مکان لینا چاہے تو کیا حکم ہے؟جواب: جب تک کرایہ کے مکان کے لئے اس رقم کی ضرورت رہے اس وقت تک اس پر خمس نہیں ہے۔ ۴۔ ... اگر مکان خریدنے کے لئے ایک رقم اپنے پاس کئی سال تک رکھے رہے تو یہ رقم سال کے خرچہ میں شمار نہیں ہوگی اور اس پر خمس دینا ضروری ہے۔سوال: اس رقم پر خمس ہے یا نہیں جو کوئی شخص شادی یا تعلیم کے لئے الگ کر دیتا ہے؟جواب: اگر محنت کی آمدنی سے ہو اور ایک سال کے اندر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس ہے۔ ۴۔ سوال: جس شخص کو کسی گھریلو سامان مثلا فرج کی ضرورت ہو اور یک مشت خریدنے کی قوت نہ ہو اور ہر ماہ اس کے لئے کچھ رقم جمع کر رہا ہو تاکہ جب اس کی قیمت کے برابر رقم جمع ہوجائے تو اسے خریدلے یا شادی کے لئے رقم جمع کر رہا ہے تو کیا خمس کی سالانہ تاریخ آ جانے پر اس طرح کی جمع شدہ رقم میں خمس ہوگا یا نہیں؟جواب: محنت کی آمدنی سے جمع کی ہوئی رقم اگر مستقبل قریب میں (مثلا خمس کی تاریخ سے دو تین ماہ کے بعد ہی ضروریات زندگی سے کسی چیز کی فراہمی) کے لئے ہو اور اس کا خمس نکالنے کے بعد ضرورت کا سامان خریدا نہ جا سکتا ہو تو اس میں خمس واجب نہیں ہے۔ ۱۔ زندگی کی ضروریات سے مراد: مکان، کپڑے اور گھر کی ضروریات کے سامان ہیں۔ احکام حج استطاعت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ استطاعت کے لئے واپسی پر خود کفیل باقی رہنا شرط ہے۔ یعنی حج سے واپسی پر تجارت، کھیتی باڑی، کاروبار یا آمدنی کا کوئی اور ذریعہ جائداد، باغ یا دوکان کی صورت میں باقی ہو اس طرح کہ زندگی گزارنے کے لئے پریشانی اور مشکل سے دوچار نہ ہو اور اگر اپنی شان کے مطابق کمائی پر قادر ہو تو یہی کافی ہے اور اگر واپسی پر رقوم شرعی مثلا زکات و خمس کا ضرورتمند ہو جائے تو(استطاعت کے لئے) کافی نہیں ہے لہذا ان طلاب اور اہل علم پر حج واجب نہیں ہے جو حج سے واپسی پر حوزہ علمیہ کے ماہانہ وظیفہ(شہریہ) کے محتاج ہوں ۔ ۱۔ اگر(حج سے) واپسی کے بعد ماہانہ وظیفہ (شہریہ) کے ذریعہ ان کی زندگی چل سکتی ہو تو کافی ہے اور(استطاعت کے بعد) ان پر حج واجب ہوگا۔ ۲۔ جس نے حج نیابتی کے لئے اجرت لی ہو اور بعد میں اسی سال مالی استطاعت پیدا ہوجائے تو اب اگر اسی سال کے لئے حج نیابتی کی اجرت لی ہو تو اسے حج نیابتی انجام دینا چاہیئے اور اگر اس کی استطاعت باقی رہی تو اگلے سال اپنے حج کو انجام دے گا۔ ۲۔ اگر حج نیابتی (کی رقم ہاتھ آنے) کی وجہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق عمل کرے گا لیکن اگر کسی اور طریقہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو اس کے اجارہ (نیابتی حج) کا باطل ہونا معلوم ہوجائے گا اور اسے اپنا حج ادا کرنا چاہیئے۔ ۳۔ جس کے لئے شادی کرنا ضروری ہو اور اس کے لئے پیسے کی ضرورت ہو اسی صورت میں مستطیع ہوگا کہ جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کا خرچ بھی موجود ہو۔ ۳۔ اگر شادی نہ کرنے کی وجہ سے کسی مشکل، بیماری یا حرام میں پڑنے کا اندیشہ ہو یا شادی نہ کرنا توہین و خفت کا سبب ہو تو (استطاعت کے لئے) حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کے مخارج بھی ہونا ضروری ہے۔ ۴۔ جو شخص مالی اعتبار سے مستطیع ہے لیکن بدن کی صحت یا راہ کھلنے کے لحاظ سے مستطیع نہیں ہے اپنا مال کسی کام میں لگا کر اپنے آپ کو استطاعت سے خارج کرسکتا ہے لیکن اگر ان زاویوں سے بھی مستطیع ہے اور صرف جانے کے وسائل آمادہ نہیں ہیں یا حج کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے تو وہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کیا تو حج اس کے ذمہ واجب ہوجائے گا اور اسے ہر صورت میں حج کرنا ہوگا۔ ۴۔ حج کی انجام دہی کے لئے لازم وقت کے پہنچ جانے کے بعد ایک مستطیع شخص اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور وہ وقت کے آ جانے سے پہلے بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہ کرے۔ نیابت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ سوال: ایک شخص نے مالی استطاعت کے بعد حج کے لئے اپنا نام رجسٹر کرایا اور دو سال بعد قرعہ میں اس کا نام نکل آیا لیکن سفر سے چند مہینہ پہلے اس کا انتقال ہوگیا اور مرنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹے کو حج بجالانے کے لئے اپنا نائب بنا دیا اب اگر اس کا بیٹا خود مالی اعتبار سے مستطیع تھا لیکن اس نے نام رجسٹر کرانے کے سلسلہ میں کوتاہی کی تھی اور نام نہیں لکھوایا تھا چنانچہ اگر وہ نام لکھواتا تو شاید پہلے سال ہی یا بعد کے برسوں میں اس کا نام قرعہ میں آجاتا اب یہ لڑکا باپ کی طرف سے حج بدل کے لئے مدینہ آیا ہوا ہے مگر ابھی محرم نہیں ہوا ہے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟جواب: مذکورہ صورت میں نیابت(کا حج)صحیح نہیں ہے، اسے چاہئے کہ اپنا حج ادا کرے۔ ۱۔ اگر وصیت کے ٹوکن کے ذریعہ بیٹے کے لئے حج پر جانے کا راستہ نکل آئے یا یہ کہ میت کے ورثہ کسی بیٹے کو حج کا ٹوکن دے دیں کہ وہ باپ کی طرف سے جاکر حج کو انجام دے تو اسے چاہئے کہ باپ کی طرف سے حج انجام دے لیکن اگر وصیت نہ ہو یا ورثہ کی طرف سے مطالبہ نہ کیا گیا ہو کہ حج نیابتی وہ خود انجام دے تو اسے چاہئے کہ حج اپنی طرف سے انجام دے اور باپ کے لئے کسی اور کو نائب بنائے۔ ۲۔ سوال: جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو اور عقد اجارہ کے بعد عمل حج کی ادائیگی کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو اور اس نے کسی بھی عذر کے تحت ایک معذور کے فریضہ کے مطابق حج انجام دیا ہو تو کیا اس کا حج نیابتی منوب عنہ کی طرف سے کافی ہے؟ اور آیا عذر کی کیفیت کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟جواب: محل اشکال ہے۔ ۲۔ جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو لیکن عقد اجارہ کے بعد عمل کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو تو اس حالت میں اگر اس کا عذر حج کے بعض اعمال میں نقص پیدا ہونے کا سبب نہ بنے، نیابت صحیح ہے مثلا اگر وہ بعض ایسے کام جو حج کے دوران متروک ہیں ترک کرنے سے معذور ہو لیکن اس کا یہ عذر حج کے اعمال میں نقص کا سبب بنے تو اجارہ کا باطل ہو جانا اس صورت میں بعید نہیں ہے اور اجرت کے سلسلہ میں نائب اور منوب عنہ کے درمیان مصالحت ہو جانا اور منوب عنہ کی طرف سے عمرہ اور حج کا اعادہ احوط ہے۔ احرام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اگر تلبیہ بقدر واجب بھی نہ جانتا ہو اور سیکھ بھی نہ سکتا ہو یا سیکھنے کا وقت نہ ہو اور کسی کے کہلوانے سے بھی دہرا نہ کرسکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جیسے بھی کہہ سکتا ہے کہے اور اس کا ترجمہ بھی دہرائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے علاوہ تلبیہ کے لئے نائب بھی لے لے۔ ۱۔ جیسے بھی کہہ سکتا ہو ادا کرے اور احتیاط کی بنا پر کسی کو نائب بھی بنائے۔ ۲۔ احرام کے دو کپڑوں کو پہننے کے لئے کوئی خاص ترتیب ضروری نہیں ہے بلکہ جس ترتیب سے بھی پہن لے کوئی حرج نہیں ہے، صرف خیال رہے کہ ایک کو لنگی کی صورت میں جیسے بھی چاہے پہنے اور دوسرے کو چادر قرار دے جیسے بھی چاہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ چادر سے دونوں شانوں کو ڈھانکے۔ ۲۔ اگر رائج طریقہ کے مطابق ہو تو کافی ہے۔ چادر اتنی بڑی ہونا چاہئے کہ دونوں شانوں کو چھپا سکے۔ ۳۔ اگر حائضہ پاک ہونے تک انتظار نہ کرسکتی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ مسجد (شجرہ) کے پاس محرم ہوجائے اور جحفہ یا اس کے کسی موازی مقام سے احرام کی تجدید کرے۔ ۳۔ جو عورتیں عذر رکھتی ہیں اور بھیڑ وغیرہ کے سبب مسجد سے گزرنے کی حالت میں محرم نہیں ہوسکتیں ان پر واجب ہے کہ جحفہ یا اس کے موازی کسی مقام سے محرم ہوں چنانچہ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ نذر شرعی کے ساتھ مدینہ میں اپنی قیامگاہ سے ہی محرم ہو جائیں۔ ۴۔ مستطیع شخص اگر میقات سے احرام باندھنا علم کے باوجود جان بوجھ کر موخر کردے اور کسی عذر کی وجہ سے میقات واپس بھی نہ جاسکتا ہو اور آگے بھی کوئی میقات نہ ہو تو اس کا حج باطل ہے اور اسے چاہئے کہ دوسرے سال حج کرے۔ ۴۔ اگر ممکن ہو تو میقات واپس جائے اور اگر تنگی وقت یا کسی اور عذر کے سبب واپس نہ جاسکتا ہو تو حرم کے(دائرے سے) باہر جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو حرم کے اندر ہی محرم ہوجائے اور اس کا حج صحیح ہے۔ ۵۔ جو شخص بھول کر یا مسئلے سے لاعلمی یا کسی اور عذر کے سبب احرام کے بغیر ہی میقات سے گزر جائے تو اگر میقات تک واپس جا سکتا ہو اور پھر وہاں سے واپس آکے عمرہ کے اعمال میں بھی پہنچ سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ واپس جائے اور میقات سے احرام باندھ کر آئے چاہے حرم میں داخل ہو چکا ہو یا نہ ہوا ہو، اور اگر مذکورہ طریقہ سے واپس آنا ممکن نہ ہو تو اب اگر حرم میں داخل نہ ہوا ہو تو جہاں ہے وہیں سے احرام باندھے گا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس ہو اور وہاں محرم ہو۔ کہ(حرم میں داخل ہو) ۵۔ احتیاط واجب کی بنا پر جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس جائے اور(وہاں محرم ہو)۔ ۶۔ سوال: جو شخص عمرہ مفردہ انجام دے چکا ہو کیا ایک ماہ سے کم مدت میں بغیر احرام کے میقات سے باہر جاسکتا ہے؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ رجائے مطلوب کی نیت کے ساتھ دوسرے عمرہ مفردہ کے لئے محرم ہو اور بغیر احرام کے باہر نہ جائے۔ ۶۔ پچھلے احرام کو ایک ماہ گزرنے سے پہلے بغیر احرام کے میقات سے گزر سکتا ہے۔ ۷۔ سوال: زوجہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نذر کرتی ہے اور نذر کے تحت محرم ہوجاتی ہے تو کیا اس کا احرام صحیح ہے؟ اور اب اگر اسی احرام کے ساتھ اعمال بھی بجالائی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر میقات سے پہلے محرم ہوئی ہے تو اس کا احرام صحیح نہیں ہے، اگرچہ اس صورت حال سے، حج ختم ہونے کے بعد اگر متوجہ ہو تو اس کا عمل صحیح ہے، لیکن اگر عمرہ کے بعد متوجہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں عمل صحیح ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور اگر تلافی ہوسکتی ہو تو میقات واپس جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر میقات نہ جاسکتی ہو تو حرم کے باہر سے احرام باندھے۔ ۷۔ شوہر کی عدم موجودگی میں زوجہ کی جانب سے میقات سے پہلے احرام باندھنے کی نذر شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن شوہر ساتھ ہونے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نذر نہ کرے اور اگر بغیر اجازت کے نذر کرے تو نذر منعقد نہیں ہوگی۔ محرمات احرام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ خوشبو والے پھول اور سبزوں کے استعمال سے پرہیز کرے سوائے کچھ قسموں کے جو جنگلی ہیں جیسے بومادرون، درمنہ اور خزامی جن کے لئے کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ خشبودار پھول ہے۔ ۱۔ سوائے عطر کے کہ جس کا استعمال احرام کی حالت میں حرام ہے احتیاط واجب کے تحت کسی بھی قسم کی ایسی خوشبودار چیز نہیں سونگھنا چاہیئے کہ جس کو عطر نہیں کہا جاتا۔ ۲۔ سیب یا بہی کی مانند خوشبودار پھلوں سے پرہیز ضروری نہیں ہے اور ان کے کھانے اور سونگھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔ ۳۔ احتیاط واجب کی بنا پر خوشبو کے استعمال کا کفارہ، ایک بھیڑ ہے۔ ۳۔ خوشبو کے استعمال پر کفارہ کا واجب ہونا ثابت نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک بھیڑ کفارہ دے۔ ۴۔ احتیاط یہ ہے کہ آئینہ نہ دیکھے اگرچہ زینت کے لئے نہ ہو۔ ۴۔ زینت کے قصد کے بغیر آئینہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۔ (احرام کے محرمات میں) تیرہواں عمل، زینت کے لئے انگوٹھی پہننا (ہے) اور اگر استحباب کے لئے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر محرم کو انگوٹھی پہننے اور مہندی لگانے سے اگر ان کا زینت میں شمار ہو پرہیز کرنا چاہیئے ولو زینت کا قصد نہ رکھتا ہو بلکہ ہر اس کام سے پرہیز کرے جو زینت سمجھا جاتا ہے۔ ۶۔ اگر سر دھوئے تو اس کو تولیہ یا رومال سے خشک نہیں کرنا چاہئے اور سر کے بعض حصہ کا بھی وہی حکم ہے جو پورے سر کا حکم ہے۔ ۶۔ تولیہ سے سر خشک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ تولیہ پورے سر پر ڈال کر سر کو اس سے خشک کرے۔ ۷۔ رات کو سفر میں مکانوں کے درمیان گزرتے وقت چھت کے نیچے بیٹھنا احتیاط کے خلاف ہے اگرچہ اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے لہذا رات میں پرواز کرنے والے ہوائی جہاز میں محرم کے بیٹھنے کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔ ۷۔ لیکن بارش کی راتوں اور(جاڑے کی)ٹھندی راتوں میں سائے میں نہ بیٹھنے کی احتیاط ترک نہ ہو مگر یہ کہ اس احتیاط پر عمل کسی مشکل اور پریشانی کا باعث بنے۔ ۸۔ سوال: محرم کے لئے پانی کی وہ مشک اٹھا کر چلنے کا کیا حکم ہے جو سلی ہوئی ہو؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ اس کو کاندھوں پر نہ اٹھائیں ہاتھ میں لیکر چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ۸۔ ہمیان(کمر میں باندھی جانے والی چمڑے وغیرہ کی تھیلی) ازار بند(بلٹ وغیرہ)یا(رومال کی مانند)ایسے چھوٹے کپڑے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن کو لباس میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ۹۔ سوال: کیا محرم عورت اپنے چہرا تولیہ سے پوجھ سکتی ہے یا اس کا بھی حکم مرد کے سر کی طرح ہے کہ جس کو ڈھکا نہیں جا سکتا؟جواب: احتیاط کی رعایت ضروری ہے۔ ۹۔ اگر (کوئی عورت) تولیہ پورے چہرے پر ڈال لے تو صحیح نہیں ہے ورنہ کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۰۔ سوال: شہر مکہ میں کچھ ٹیونل بنے ہوئے ہیں جن کی لمبائی ۱۵۰۰ قدم سے زیادہ ہے تو کیا حج کا احرام باندھنے کے بعد موٹر کار یا بس وغیرہ کے ذریعہ ان سے گزرا جاسکتا ہے؟ جبکہ معلوم ہے کہ ان پر چھت پڑی ہوئی ہے؟جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اگر خود اس راستہ کو اپنائے اور اس چھت کے نیچے سے گزرے تو صحیح نہیں ہے۔ ۱۰۔ کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۱۔ سوال: کیا حالت احرام میں وہ دانت اکھاڑا جاسکتا ہے جس میں شدید درد ہو اور ڈاکٹر بھی اس کے اکھاڑنے کے لئے کہے؟ اگرچہ خونریزی کا باعث ہی کیوں نہ ہو؟جواب: اگر ضروری ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن احوط ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے۔ ۱۱۔ کفارہ دینا احتیاط مستحب ہے۔ ۵۔ سایہ میں اور چھت کے نیچے چلنا۔ طواف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ طواف کی شرطوں میں پانچویں شرط یہ ہے کہ طواف ہر طرف سے خانہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔ ۱۔ طواف کی جگہ کے لئے کوئی حد نہیں ہے،مسجد الحرام میں جہاں تک بھی طواف کرنا کعبہ کا طواف کرنا قرار پائے طواف صحیح اور مجزی ہے ہاں اگر اضطرار اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو تو مستحب ہے طواف کہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔ ۲۔ سوال: اگر طواف کے درمیان نماز جماعت قائم ہوجائے اور آدمی طواف جاری رکھنے سے معذور ہو تو اس کا فریضہ کیا ہے اور اگر سعی کے درمیان ہو تو کیا فریضہ ہے؟جواب: اگر طواف یا سعی کے چوتھے شوط (چکر) کے بعد سلسلہ ٹوٹے تو جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے (باقی ماندہ) طواف یا سعی آخر تک انجام دے گا اور اگر طواف کے چوتھے شوط سے پہلے چھوڑا ہو اور فاصلہ طویل ہوجائے تو طواف دوبارہ شروع سے انجام دے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ بقیہ طواف مکمل کرے اور اس کی نماز طواف پڑھنے کے بعد طواف کا اعادہ کرے اور دوسری نماز طواف پڑھے اور سعی میں بھی بقیہ سعی مکمل کرنے کے بعد پھر سے سعی کا اعادہ کرنے میں احتیاط ہے۔ ۲۔ اگر طواف کا سلسلہ توڑدے جبکہ آدھا طواف یعنی ساڑھے تین شوط (چکر) انجام دے چکا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے آگے بڑھا کر طواف پورا کرے اگرچہ ایک مکمل طواف ’’تمام و اتمام کسی بھی نیت سے بجا لائے اور اگر ساڑھے تین شوط سے کم انجام دیا ہو تو ازسرنو طواف انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۶۔ ۶۔ یعنی نیت کرے کہ اگر پہلا طواف صحیح تھا تو اس طواف کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوجائے اور اگر پہلا طواف صحیح نہ رہا ہو تو یہ طواف اس کا طواف شمار ہو۔ نماز طواف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے اگر کوئی شخص قرائت یا واجب اذکار صحیح طور پر نہ سیکھ سکے تو نماز جیسے بھی اس سے ہوسکتا ہے خود انجام دے اور یہی کافی ہوگی اور اگر ممکن ہو تو کسی کو ساتھ لے لے کہ وہ قرائت اور اذکار کو پڑھتا رہے اور یہ دہراتا رہے اور احتیاط یہ ہے کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس کسی عادل شخص کی اقتدا کرے لیکن نماز جماعت پر اکتفا نہ کرے جیسا کہ نائب بنانا بھی کافی نہیں ہے۔ نماز طواف میں جماعت کا شرعی جواز ثابت نہیں ہے لہذا جیسے بھی ہوسکے خود پڑھے اور احتیاطا نائب بھی بنائے۔ دو عمرہ کا فاصلہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ حج کی طرح عمرہ کی تکرار بھی مستحب ہے اور دو عمرہ کے درمیان کے فاصلہ کے سلسلہ میں علما نے اختلاف کیا ہے اور احوط یہ ہے کہ ایک مہینہ سے کم میں قصد رجاء کے ساتھ انجام دیا جائے۔ ۱۔ دو عمرہ کے درمیان کسی معین فاصلہ کا ہونا شرط نہیں ہے لیکن احتیاط کی بنا پر ایک مہینہ میں صرف ایک عمرہ اپنے لئے انجام دے سکتا ہے لیکن غیر کے لئے ہر ایک کی طرف سے ایک عمرہ انجام دینا جائز ہے۔ ۲۔ عمرہ تمتع کے بعد اور حج تمتع سے پہلے عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے اور اگر انجام دے دے تو عمرہ مفردہ کی صحت محل اشکال ہے لیکن عمرہ تمتع اور حج تمتع میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے۔ احرام حج امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے احتیاط واجب یہ ہے کہ جو شخص عمرہ تمتع سے فارغ ہوجائے اور محل بن جائے وہ کسی ضرورت کے بغیر مکہ سے باہر نہ جائے اور اگر باہر جانے کی کوئی ضرورت پڑجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ حج کے احرام کے لئے محرم ہو اور پھر باہر جائے اور اسی احرام کے ساتھ اعمال حج کے لئے پلٹے۔ عمرہ تمتع کے بعد اگر حج کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہو تو مکہ کے باہر قریب کے علاقوں کی طرف نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قربانی امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ قربانی کے شرائط میں سے یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا نہ ہو۔ ۱۔ قربانی کا بوڑھا نہ ہونا شرط نہیں ہے۔ ۲۔ قربانی کی ساتویں شرط یہ ہے کہ اس کے بیضہ کچلے ہوئے نہ ہوں، احتیاط واجب کی بنیاد پر۔ ۲۔ بیضہ کا کچلا ہوا نہ ہونا شرط نہیں ہے مگر یہ کہ خصی ہونے کی حد تک پہنچ جائے ۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مومن ہو، بلکہ یہ قوت سے خالی نہیں ہے اور یہی کفارے کے حیوان کے ذبح کرنے والے کے سلسلہ میں بھی ہے۔ ۳۔ اگر ذبح کرنے والے کو قربانی کرنے میں اپنا نائب بنایا ہو تو [احتیاط واجب کی بنیاد پر مومن ہونا چاہئے] لیکن اگر اس سے صرف ذبح کرنے کا مطالبہ کرے تو ذبح کرنے والے کا مومن ہونا ضروری نہیں ہے اور خود قربانی اور قربت کی نیت کرے گا۔ ۴۔ سوال: اسٹیل کے چاقو سے ذبح کرنا کیسا ہے جس کے بارے میں پتہ نہیں ہے کہ لوہا ہے یا نہیں؟جواب: صحیح نہیں ہے۔ ۴۔ ذبح کرنے کے آلے کو لوہا ہونا چاہئے اور اسٹیل (یعنی لوہا اور زنگ سے حفاظت کا مادہ) در حقیقت لوہا ہی ہے اور اس سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حلق یا تقصیر امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ احتیاط واجب کی بنا پر منی میں پہلے رمی جمرہ کرے اس کے بعد ذبح کرے پھر تقصیر یا حلق۔ ۱۔ اگر قربانی منی میں ہو تو مذکورہ ترتیب واجب ہے اور اگر منی میں نہ ہو تو اس کی رعایت احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے اور دونوں صورت میں اگر رعایت نہ کرے تو گنہگار ہے لیکن اس کا عمل صحیح ہے۔ ۲۔ ایام تشریق کے آخر تک حلق کو موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ عمدا ہی کیوں نہ ہو اور رات میں بھی حلق صحیح ہے اور کافی ہے۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر حلق یا تقصیر عید کے دن ہونا چاہئے اور اگر اس میں تاخیر کی تو شب یازدہم یا اس کے بعد اس کا انجام دینا کافی ہے۔ منی میں رات گزارنا امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے حاجی کے اوپر واجب ہے کہ شب یازدہم اور شب دوازدہم کو منی میں بیتوتہ کرے یعنی غروب آفتاب سے آدھی رات تک وہاں رہے۔ رات کے شروع سے آدھی رات کے بعد تک یا آدھی رات کے پہلے سے طلوع فجر تک وہاں رہ سکتا ہے۔ آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) سے چند استفتاآت ۱۔ براہ کرم غنا اور موسیقی نیز اس کے آلات کے مسئلہ کو سادہ اور قابل فہم طریقہ سے میرے لئے بیان فرمائیں۔ جواب: غنا مرکب ہے لہو و لعب اور عیاشی کی محفلوں سے مناسبت رکھنے والے اور ان محفلوں کے مخصوص گانے سے۔ یہ گانا حرام ہے، گانا بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ موسیقی کے ساز اور آلات بھی اگر اس طرح استعمال کئے جائیں جس طرح عام طور سے مذکورہ محفلوں میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کا استعمال بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ لہذا موسیقی اگر غنا ہو (یعنی مذکورہ محفلوں کے مخصوس انداز کےگانے) یا آلات موسیقی کی آواز ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس طرح کی نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔ ۲۔ عورت کا عورتوں کے درمیان اسی طرح مرد کا مردوں کے درمیان یا محرموں کے درمیان شادیوں میں ناچنا کیسا ہے؟ جواب: ناچنا اگر شہوت کے بھڑکنے یا کسی برائی کے پیدا ہونے یا کسی حرام کے مرتکب ہونے کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے بجز خلوت میں شوہر کے لئے زوجہ کے رقص کے، اسی طرح اس کے برعکس۔ ۳۔ ارواح کے احضار کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر کیا ہے؟ جواب: ارواح کا حاضر کرنا اپنی جگہ کوئی ممانعت نہیں رکھتا مگر یہ کہ کسی حرام کام کے ساتھ ہو یا کسی حرام کام کے انجام دینے کے ارادہ سے ہو۔ ۴۔ ہپناٹزم کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے؟ جواب: عقلائی غرض کے لئے مقابل کی رضایت کی صورت میں فی نفسہ حلال ہے اور کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۔ نامحرم کو دیکھنا کا کیا حکم ہے؟ جواب: نامحرم کے چہرے اور گٹے تک ہاتھوں کو احساس شہوت کے بغیر دیکھنا حرام نہیں ہے۔ ۶۔ اگر ایک اجنبی انسان کے نطفہ کو کسی عورت کے رحم میں ڈالیں تو شرعی اعتبار سے صحیح ہے یانہیں؟ جواب: مذکورہ عمل اپنی جگہ پر شرعی اعتبار سے ممنوع نہیں ہے لیکن حرام نگاہ اور ہاتھ لگانے سے پرہیز کیا جائے۔ ۷۔ اگر زن و شوہر کے ذریعہ بنے ہوئے جنین کو کسی نامحرم عورت کے رحم میں ڈالا جائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ براہ مہربانی مسئلہ کے وضعی احکام بھی بیان فرمائیں۔ جواب: اس کام میں فی نفسہ اشکال نہیں ہے اگرچہ ہاتھ لگانے اور نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا ہوگا اور بچہ صاحب نطفہ مرد و زن سے ملحق ہوگا اور ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے لئے محرمیت ثابت ہوگی اور صاحب رحم عورت کے سلسلہ میں بھی احتیاط کی جائے۔ ۸۔ عورتوں اور مرودں کی وقتی یا دائمی نس بندی کا کیا حکم ہے؟ اگر نس بندی بانجھ ہونے کا سبب ہو تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر نس بندی عقلائی غرض سے، بڑے نقصان کے بغیر اور زوجہ میں شوہر کی اجازت سے ہو تو اس میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے لئے وقتی یا دائمی اسی طرح بانجھ ہونے یا نہ ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ۹۔ میں نے ایک سالہ بچی کو فرزندی میں قبول کیا ہے اب کسی راہ حل کی تلاش میں ہوں جس سے وہ محرم ہوسکے۔ جواب: اس بچی کو مصلحت کی صورت میں اور حاکم شرعی کی اجازت سے اپنے والد کے عقد موقت میں لاسکتے ہیں۔ ۱۰۔ کیا قسامہ میں ایک آدمی پچاس قسم کھا سکتا ہے؟ جواب: قسامہ میں جہاں قسم کھانے والوں کی تعداد (مدعی کی طرف) پچاس افراد سے کم ہو وہاں اس قسامہ کی بنیاد پر حکم کرنے میں واقعی اشکال ہے۔ ۱۱۔ قتل عمد میں اگر مقتول کے سارے کے سارے اولیاء، صغیر یا مجنون ہوں وہاں کیا ولی قہری (باپ یا پدری جد) یا عدالت کی طرف سے معین ہونے والے قیم، قصاص یا دیہ کا مطالبہ کرسکتا ہے؟ جواب: اولیائے صغیر و مجنون کے ادلہ ولایت سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ شارع کی طرف سے ان کی ولایت کا جعل کرنا مولی علیہ کی مصلحت کی حفاظت کے لئے ہے۔ لہذا پیش نظر مسئلہ میں کیونکہ اولیائے دم، صغیر و مجنون ہیں لہذا ان کے شرعی ولی کو چاہئے کہ ان کی مصلحت اور فائدے کے پیش نظر مناسب اقدام کرے اور قصاص یا دیہ یا بامعاوضہ معافی یا بلا معاوضہ معافی کے سلسلہ میں اس کی تشخیص نافذ ہوگی۔ ظاہر ہے کہ صغیر و مجنون کی مصلحت کی تشخیص تمام پہلؤوں کو منجملہ اس کے سن بلوغ سے قریب یا نزدیک ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام پائے گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمآزاد و سربلند قوم، عزیز ہم وطنو! اس دفعہ بھی آپ کی بھرپور اور حوصلہ مند مشارکت، دشمنوں کے مکر و فریب پر غالب آئی اور اس نے انتخابات کو بے رونق بنانے کے مقصد سے جاری دشمن کی شدید نفسیاتی جنگ کو کھوکھلے حباب میں تبدیل کر دیا۔تیس سال سے کم عرصے میں سخت و سازگار حالات میں تقریبا تیس انتخابات کا انعقاد کرکے اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید دنیا میں یہ ملک حقیقی جمہوری نظام کا حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کونسل کے وسط مدتی اور پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے آٹھویں دور کے انتخابات کے لئے ووٹ ڈالنے کے بعد ایران کے ریڈیو ٹیلی ویزن ادارے آئی آر آئ بی کے ایک نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات کسی بھی قوم کے لئے ایک معینہ دور کے لئے انتہائي فیصلہ کن ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کونسل کے وسط مدتی اور پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے آٹھویں دور کے انتخابات کے لئے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں اپنا ووٹ ڈالا۔ آپ نے ووٹنگ کا وقت شروع ہوتے ہی اس جمہوری عمل میں شرکت کی اور اپنے حق رای دہی کا استعمال کیا۔