قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک حکمنامہ جاری فرما کر جناب سید احمد میر عمادی کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمائندہ منصوب فرمایا۔ حکمنامہ درج ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم حجت الاسلام جناب الحاج سید احمد میر عمادی دامت برکاتہ اب جب کہ حجت الاسلام جناب حسینی میانچی، خرم آباد میں گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد مقدس شہر قم واپس تشریف لے جایا چاہتے ہیں تو جناب والا کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمایندہ منصوب کرتا ہوں۔ اس صوبے اور اس شہر کے عوام کی دلاوری و شجاعت، اور ایمان و استقامت زباں زد خاص و عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد اور اس سے قبل مختلف مواقع پر اس خطے کے عوام اپنی انہی صفات سے یاد کئے جاتے رہے ہیں اور جناب والا بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے زیور علم و عمل سے آراستہ اور خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے پر افتخار نسبت کے ذریعے وابستہ ہیں۔ اللہ تعالی کی توفیقات اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا فداہ کی عنایات سے انشاء اللہ آپ علاقے کے عزیز عوام بالخصوص نوجوانوں کے درمیان ایک با بصیرت و مہربان رہنما، امین و صادق مشیر اور دانا و تجربہ کار استاد کا کردار ادا کریں گے۔ اللہ تعالی سے آپ کے لئے تائید و نصرت اور لرستان کے عوام کے لئے کامرانی و سعادت کی دعا کرتا ہوں۔ سید علی خامنہ ای 27فروردین 1387(15. 4. 2008)
آپ (نوجوان افراد) ہم لوگوں سے بہت بہتر ہیں۔ آپ ہم لوگوں سے جلدی اور بہتر طریقے سے خدا کا پیغام سمجھ سکتے ہیں۔ خدا آپ سے گفتگو کرتا ہے، آپکی باتوں کا جواب دیتا ہے اور آپ اس جواب کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبا سے ملاقات کے دوران 26/7/1999 بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان صرف گناہ کی طرف مائل رہتا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ایک نوجوان جس طرح جسمانی لحاظ سے مضبوط ہے اسی طرح اس کی قوت ارادی بھی مضبوط ہے۔ صوبہ گيلان میں سپاہ پاسداران کی قدس16 بٹالین کے پریڈ گراؤنڈ میں6/5/2001 دین، نوجوانوں کی فطرت اور اسکے مزاج میں شامل ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اور آپ انہیں خدا سے آشنا کریں انکا ضمیر، انکا دل اور انکی نوارنیت انہیں خدا سے آشنا کردیتی ہے۔سپاہ پاسداران کے کمانڈروں سے ملاقات کے دوران 9/3/1999بعض لوگ سوچتے ہیں کہ گناہوں سے صرف بوڑھوں کو بچنا چاہیے حالانکہ بوڑھے افراد جس طرح جسمانی اعتبار سے کمزور ہیں اسی طرح روحانی اعتبار سے بھی کمزور ہیں۔ (جبکہ انکے مقابلے میں) نوجوان کا ارادہ، ثبات قدم اور استقامت ان سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ایک کلیدی نکتہ ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب سے اقتباس16/11/2000دین و معنویت کی راہ کہیں پر بھی ختم نہیں ہوتی۔صوبہ اردبیل کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات کے وقت26/7/2000نوجوان، حق و حقیقت کو بہت آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ نوجوان کھلے دل و دماغ سے اعتراض کرتا ہے اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ حق کو آسانی کے ساتھ قبول کرلینا، کھلے دل سے اعتراض کرنا اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم بڑھانا؛ آپ ان تین چیزوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کتنی خوبصورت حقیقت آپکی آنکھوں کے سامنے ہے جو مشکلات حل کرنے کا بڑا کارگر نسخہ ہے۔صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے خطاب سے اقتباس 3/11/2001دور حاضر کا جوان چاہتا ہے کہ اسکے لیے مذہبی تعلیمات کی وضاحت کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ دین تک عقل و استدلال کے ذریعہ پہونچے۔ یہ ایک فطری اور اچھا مطالبہ ہے۔ یہ مطالبہ خود دین نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب 16/11/2000 نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند ہوتا ہے۔ فی الحال میرے مد نظر سیاسی دنیا والی اصلاح نہیں ہے۔ نوجوان کے اصلاح پسند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور سوسایٹی میں انصاف، قانونی آزادی اور دینی افکار کا بول بالا ہو۔ اسلامی تعلیمات اس کے اندر ایک انقلاب برپا کردیتی ہیں اور وہ ان تعلیمات کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں امیرالمومنین (ع) کی جو تصویر ہے وہ اس کے اندر ایک انقلاب پیدا کرتی ہے ۔ وہ موجودہ حالات کی کمیوں کا جائزہ لیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کے سماج میں اصلاح ہو۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سےملاقات میں 3/11/2001انسان خاص طور پر نوجوان، خوبصورتی کی طرف مایل ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ خود بھی خوبصورت ہو ۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ایک فطری چیز ہے جس سے اسلام نے بھی نہیں روکا ہے۔ جس چیز سے اسلام نے روکا ہے وہ اس کا غلط استعمال ہے۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے نوجوانوں کی بزم میں27/4/1998 نوجوان ظلم کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ آپ پوری دنیا کی تاریخ میں کہیں پر بھی یہ نہیں دیکھیں گے کہ کسی ملک میں نوجوانوں کی تحریک دشمنوں کے حق میں شروع ہوئی ہو۔ ہمیشہ نوجوانوں نے اپنے ملک میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف تحریک چلائی ہے۔تہران کی یونیورسٹیوں کی طلباء یونینوں سے خطاب سے اقتباس14/1/1999 ہر نوجوان کے سامنے کچھ مسایل ہوتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا جا کستا کہ تم ان کے بارے میں نہ سوچو۔ نوجوان کو سب سے پہلے اپنی تعلیم اورمستقبل کی فکر ہے۔ وہ اپنے مستقبل کو سنوارنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا گھر بار بسانا چاہتا ہے۔ جو چیزیں جمالیات سے متعلق ہیں انکی طرف اسکا رجحان زیادہ ہے۔ جن چیزوں کا تعلق احساسات و جذبات سے ہے نوجوان کا ان سے ایک گہرا تعلق ہے۔ لیکن نوجوان صرف انہی چیزوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ اپنی سوسایٹی کی مشکلات کے بارے میں بھی فکرمند رہتا ہے۔ اگر سماج میں اونچ نیچ ہو تو وہ رنجیدہ ہوتا ہے۔ اگر سوسایٹی میں انصاف نہ ہو تو وہ غیر مطمئن رہتا ہے۔ اگر معاشرے میں برائیاں پھیلنے لگیں توجو نوجوان اپنے ملک نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ معاشرے کا درد رکھتا ہے۔ اگر کسی جگہ انقلابی فکر و عمل کی ضرورت ہو تو نوجوان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں سے ملاقات 16/11/2000 میں یہ نہیں کہتا کہ نوجوان مستحب عبادتیں زیادہ انجام دیں مثلاً بہت زیادہ دعائیں پڑھیں،بہت زیادہ تلاوت قرآن کریں یا مستحبی نمازیں پڑھیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہ جتنا اور جو کچھ بھی انجام دیں توجہ سے انجام دیں۔ نوجوانوں کے ایک پروگرام میں 3/2/1998زندگی چند پل کی ہے!نوجوانی میں انسان اس بات کو سمجھ نہیں پاتا لیکن جب وہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہے اور ایک عمر بسر کر لیتا ہے تب اسے سمجھ میں آتا ہے کہ زندگی چند پل سے زیادہ کی نہیں ہے۔ تیرہ آبان کے یادگار دن پر نوجوانوں اور دیگر طبقات سے خطاب سے اقتباس5/11/1997 دینداری کو صرف ظاہری اعمال و عبادات کے بجائے خدا سے عشق و محبت اور ایک خصوصی رابطہ سے بدل دینا چاہیے۔ آپ ابھی سے کوشش کریں کہ معنی و مفہوم سمجھ کرنماز پڑھیں۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 4/10/2001اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں ایک جملہ میں بتائوں کہ مجھے نوجوانوں سے کیا چاہئے تو کہوں گا : تعلیم، تربیت اور ورزش۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے خطاب سے اقتباس 27/4/1998جوانوں کیلیے ورزش بہت ضروری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ورزش سب کیلیے ضروری ہے۔ البتہ میری مراد پیشہ ورانہ ورزش نہیں ہے۔ پیشہ ورانہ ورزش کے لیے بھی منع نہیں کررہا ہوں لیکن یہ بھی نہیں کہوں گا کہ سارے نوجوان پیشہ ورانہ ورزش کی لاین میں چلے جائیں۔ ورزش تو درحقیقت صحت و تندرستی اور نشاط و تازکی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ طلبا اور تربیتی امور کے عہدیداروں کی اسلامی انجمنوں سے خطاب 26/2/2001آپ لوگوں (جوان افراد) کے اندر ایک خزانہ ہے۔ اس کو نکالنا چاہیے۔ اسے کون نکالے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ ہی کو یہ کام کرنا ہوگا۔ اپنی استعداد و صلاحیت کے خزانے کو سب سے پہلے خود انسان ہی باہر نکالتا ہے۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس4/10/2001 ممکن ہے کہ بعض جگہوں پر تعلیم کے مواقع نہ ہوں۔ میں نقایص اور کمیوں کی طرفداری نہیں کر رہا ہوں لیکن یہ یاد رکھیے کہ اگر مجھ سے عوام اور حکومتی عہدوں پر فایز افراد کے درمیان فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو میں ہرگز کسی عہدیدار کو خوش کرنے کیلیے لوگوں کے حق کو نظرانداز نہیں کروں گا۔ اراک کے نوجوانوں کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 16/11/2000جوان کی سب سے اہم ضرورت اس کی اپنی شخصیت ہے۔ اسے اپنے ہدف اور اپنی شخصیت کو پہچاننا چاہیے۔ اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ کون ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ دشمن یہ چاہتا ہے کہ نوجوانوں سے ان کی شخصیت چھین لے۔ ان کے اہداف و مقاصد کو ختم کردے۔ ان سے کہے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اس لیے میرے پاس آجائو تاکہ میں تمہیں زندگی دوں۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس 2/5/2001ذمہ داریاں اور حقوق ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں۔ بغیر ذمہ داری کے کسی کو کوئی بھی حق حاصل نہیں ہوتا۔ جسے بھی کچھ ملتا ہے اسے اس کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اس لیے آپ اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر صرف اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ ایک غیرعقلی وغیرمنطقی بات ہوگی۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے ملاقات میں3/11/2001 ایران کو دسیوں سال تک امریکا سے دوستی کا تلخ تجربہ رہا ہے۔ یہ ملک صیہونیوں اور امریکی سرمایہ داروں کا اڈا بن گیا تھا۔ وہ یہاں سائنس و ٹکنولوجی دینے، یہاں کی یونیورسٹیون کا معیار تعلیم اونچا کرنے یا یہاں کے نوجوانوں کو پڑھانے نہیں بلکہ برائیاں پھیلانے اور موج مستی کرنے آئے تھے۔امام خمینی(رہ) کے یوم ولادت پر طلبا اور اسکولی بچوں سے ملاقات میں 3/11/1998 میں کہتا ہوں کہ جوانوں کو بہلانے کے بجائے ان سے صاف صاف بات کی جائے۔ انکے سامنے مشکلات اور وسایل کے سلسلے میں کھل کر گفتگو کی جائے اور پھر اس کے بعد مشکلات دور اور وسایل فراہم کرنے میں مصروف ہو جایا جائے۔ ایسی صورت میں خود یہ نوجوان آپ کی مدد کریں گے اور مشکلات دور ہوں گی۔ آپسی روابط میں نوجوان کو سچائی سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس2/5/2001میرا ماننا ہے کہ نوجوانوں کے سلسلہ میں افراط و تفریط سےکام نہیں لینا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نوجوان لاابالی ہوتے ہیں۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ بعض لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں کوئی برائی ہے ہی نہیں میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں۔ نوجوانوں سے سچائی کے ساتھ دوستانہ انداز میں بات کرنی چاہیے۔ اراک میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے 4/11/2000میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس سیاسی شعور ہونا چاہیے۔ لیکن جو چیز انکی بنیادی ضرورت ہے وہ سیاست نہیں بلکہ ایمان ہے۔ 3/9/1996 بے روزگاری سے غریبوں اور امیروں کے درمیان طبقاتی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض لوگ دن بدن غریبی کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ مختلف راستے اپنا کر دولت اور امیری کی چوٹیوں پر پہونچ جاتے ہیں۔ تہران کی نماز جمعہ میں قائد انقلاب کے خطاب سے اقتباس 18/5/2001اگر ہم اپنے ملک کو سربلند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم و ٹکنولوجی کے ذریعہ آگے بڑھنا ہوگا۔ ملکی سطح پر تعلیم کے ممتازین کے درمیان 11/10/1999جو قوم اپنا دفاع نہیں کرسکتی وہ عالمی سطح پر ہونےوالی تبدیلیوں اور ترقیوں سے کچھ بھی نہیں حاصل کرسکتی۔ جو قوم اپنے دفاع کیلے دوسروں کا منہ تاک رہی ہو اور دوسروں کے آسرے پر ہو وہ وقت پڑنے پر اپنا دفاع نہیں کرسکتی۔ فوجی اکیڈمی سے تعلیم یافتہ افراد اور طلبائ کے درمیان تقریر سے اقتباس 6/10/1990ہر وہ عہدیدار کہ جس کی کچھ ثقافتی ذمہ داریاں ہیں اگر صرف کسی پارٹی کو مدنظر رکھ کر کام کرے تو یہ اس کی خیانت ہوگی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نئی نسل خراب ہوگئی ہے وہ غلطی پر ہیں اور اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ نوجوانوں کو صرف اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔(2/5/2001)مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ جہاں بھی وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے نوجوانوں کو درمیان میں لے آتے ہیں( اور انکے نام پر اپنی کوتاہیوں کا عذر پیش کرنا چاہتے ہیں )اگر ہم نوجوانوں کی حقیقت، ان کی آرزووں اور امیدوں سے بے خبر ہیں اور ان کے لیے ہمارے پاس کوئی پروگرام نہییں ہے تو انہیں بہلانا اور گمراہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ (2/5/2001)تعلیم کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ میں کچھ معلومات اور انفارمیشنس تھما دیں اور ان سے کہیں کہ اسے پڑھو! اسکے بعد ایک وقت معین کردیں کہ اس میں امتحان دو۔ اسے تعلیم نہیں کہتے۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو انسان کا ذہن کھولے، فکرکو ابھارے اورسب سے بڑھ کر اسٹوڈنٹ میں پڑھنے اور سیکھنے کا شوق پیدا کردے۔ وزارت تعلیم کے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران 17/7/2002یہ ہمارے اپنے بچے ہیں۔ یہ ہمارے ہی نوجوان ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں اس سےکچھ نہیں ہوتا ۔ ان کے اپنے الگ الگ نظریات ہیں اور اپنی ایک الگ شخصیت ہے لیکن ہمارے سامنے یہ سب ہمارے بچے اور آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ پورے ملک کے ائمہ جمعہ سے ملاقات کے وقت20/5/1998 میرے عزیزو!انسان کی جوانی ہی اسکے بڑھاپے کے خد و خال تیار کرتی ہے۔ ۲۳ رمضان کی دعوت افطار میں اسلامی انجمنوں کے طلبا کے درمیان 21/1/1998خدا تک پہنچنے کا راستہ انہی مادی اور دنیوی وادیوں سے ہو کر گزرتا ہے لیکن مادیات کے درمیان رکتا نہییں ہے۔ جس انسان نے خود کو مادیات میں غرق کر رکھا ہے اسکا گناہ یہ نہیں ہے کہ اس نے دنیا پر توجہ کی ہے بلکہ اسکا گناہ یہ ہے کہ اس نے مادی خواہشات سے آگے بڑ ھ کر کسی بلند اور عظیم ہدف تک رسائی کی کوشش نہیں کی ہے۔ صوبہ اردبیل کے جوانوں کے عظیم اجتماع سے خطاب 26/7/2000صحیح راستہ کیا ہے؟ یہی کہ نوجوان یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اپنی زمین میں اپنا ہی بیج بوئےگا، اپنی ثقافت کو اپنائے گا، خود ارادہ کرے گا، اپنی شخصیت کو اہمیت و آزادی دےگا، ذلت کے قریب بھی نہ جائے گا اور بے جا تقلید اور دوسروں کو آئیڈئیل بنانے سے پرہیز کرےگا۔ (2/5/2001)احساس ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، روزگار، کیریر، شادی اوراپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے اسی طرح ان اہداف کے بارے میں بھی سوچے جو اس کی ذات سے بڑھ کر ہیں۔ وہ اہداف کہ جو صرف اس سے متعلق نہیں بلکہ پوری قوم، تاریخ اور انسانیت سے متعلق ہیں۔صوبہ سیستان و بلوچستان کے نوجوانوں کے درمیان 25/2/2003ایک طرف کج فہمی، تنگ نظری اور دین کوسمجھنے میں غیرضروری تعصب و جہالت اور دوسری طرف دین کے سلسلے میں نام نہاد روشن فکری، دینی تعلیمات پر اعتقاد نہ ہونا اور اسلامی احکام کی رعایت نہ کرنا شہید مطہری کے بقول قیچی کی مانند نوجوان کی دینداری کو کاٹ رہے ہیں۔وزیر تعلیم و تربیت اور امور کے عہدیداروں سے رہبر انقلاب کی ملاقات 26/2/2000ہماری روایات میں یہ نکتہ بہت آیا ہے کہ خداوندعالم قیامت میں کسی بھی انسان کو چار چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنے دے گا ان میں سے ایک جوانی ہے کہ جوانی کس طرح اور کہاں بتائی؟بسیجی(رضاکار) طلباء سے خطاب سے اقتباس 16/12/1998اگر آج آپ نے دنیا پرست افراد کی راہ پر ایک قدم بھی رکھ دیا تو آیندہ بھی آپ اسی راستے پر چلتے رہیں گے۔ کفا فاؤنڈیشن کی مرکزی کمیٹی کے اراکین سے گفتگو کے دوران 15/7/2001میرے عزیزو!جوان کی ایک اہم خصوصیت اس کا پرامید ہونا ہے، کوشش کیجئے کہ یہ خصوصیت آپ کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ (7/11/2001)پیسے کی خاطر زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے۔ دولت کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ صرف پیسہ کمانا ہدف نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی گزارنے کا ایک وسیلہ ہے اس لیے یہ انسان کا مقصد نہیں بن سکتا ہے۔ (2/5/2001)
قائد انقلاب اسلامی نے شیراز کے ایک ثقافتی مرکز رہپویان وصال میں دھماکے کے واقعے کے بعد تعزیتی پیغام جاری فرمایا ہے۔اس پیغام کا متن درج ذیل ہے :بسم اللہ الرحمن الرحیمرہپویان وصال مرکز میں غم انگیز اور افسوس ناک واقعے نے کہ جو کئی وصال دوست عاشقوں کی شہیدانہ پرواز اور متعدد کے زخمی ہونے پر منتج ہوا، مجھے غم زدہ کر دیا۔اس تلخ واقعے کے سوگواروں اور متاثرین کے لیے تعزیت پیش کرتا ہوں۔ صابرین ....
میں بیماری سے ابھی ابھی اٹھا تھا اور اسپتال سے گھر پہنچ کر آرام کر رہا تھا۔ گھر ہی سے حالات کی اطلاع بھی حاصل کرتا رہتا تھا۔ شہید رجائی، شہید باہنر اور دیگر احباب تشریف لاتے تھے اور حالات سے مجھے آگاہ کر جاتے تھے تاہم میں امور میں براہ راست سرگرم عمل نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ مجھے افاقہ ہوا اور میں نے جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت شروع کر دی۔ حادثے سے قبل والی شب میں نے رجائی مرحوم کے کمرے میں ایک اجلاس میں شرکت کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس طرح میں جائے وقوعہ سے دور رہا۔ بیماری کی وجہ سے کمزوری تھی اور میں گھر میں سویا ہوا تھا، بیدار ہوا تو میرے پاس موجود احباب مجھے سراسیمہ نظر آئے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ دفتر وزیر اعظم میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ وہاں کون لوگ موجود تھے؟ جواب ملا کہ جناب رجائی اور جناب باہنر بھی حاضرین میں تھے۔ مجھے شدید تشویش لاحق ہو گئی۔ میں شدید نقاہت کے عالم میں ٹیلی فون تک گیا اور ادھر ادھر ٹیلی فون کرنا شروع کیا۔ لوگ مختلف طرح کی باتیں کر رہے تھے جس سے تشویش اور بھی بڑھ گئي۔ کوئي کہتا تھا کہ وہ بخیر و عافیت ہیں، کوئی کہتا تھا کہ بال بال بچ گئے، کوئی کہتا تھا کہ ان کی لاشیں نہیں مل سکی ہیں، کوئي کہتا تھا کہ انہیں اسپتال لے جایا گیا ہے۔ اسی عالم میں وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ مجھے تفصیلی خبر ملی۔ اس وقت میری جو حالت ہوئي اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دو عزیز ترین دوست، دو انقلابی جانباز، اسلامی جمہوریہ ایران کے صف اول کے دو عہدہ دار یکلخت جدا ہو گئے۔ مجھے شدید نقصان کا احساس ہو رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ بہت بڑا خسارہ ہو گیا۔ مجھ پر غم و غصے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ واقعے کے ذمہ داروں کے لئے شدید نفرت کا احساس ہو رہا تھا۔ اگلی صبح میں نقاہت کے عالم میں اٹھا اور تشییع جنازہ کے لئے پارلیمنٹ پہنچا۔ ڈاکٹر مجھے روک رہے تھے، کہہ رہے تھے میں دور رہوں لیکن مجھ میں برداشت اور صبر کا یارا نہ تھا۔ میں نے وہیں پارلیمنٹ میں ایک جذباتی تقریر بھی کی۔ لوگ مجھے سہارا دئے ہوئے تھے کہ کہیں گر نہ پڑوں چونکہ میری عجیب کیفیت تھی۔ بہرحال میرے لئے یہ بڑا تلخ واقعہ تھا۔ یہ کہنا شائد غلط نہ ہو کہ اس وقت تک میری زندگی کا یہ سب سے تلخ واقعہ تھا۔ سات تیر کا واقعہ بھی میرے لئے تلخ ترین واقعہ ہو سکتا تھا لیکن اس وقت میں بیہوش تھا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ بعد میں رفتہ رفتہ واقعے کی تفصیلات سے آگاہی ہوئي۔ لیکن یہ ناگہنای سانحہ تھا۔
نوروز کے معنی ہیں نیا دن، ہماری روایات بالخصوص معلی بن خنیس کی معروف روایت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ معلی بن خنیس بڑے گرانقدر راوی تھے اور ہمارے نزدیگ وہ ثقہ ( قابل اعتماد راوی ) ہیں۔ آپ ایک برجستہ شخصیت اور خاندان اہل بیت نبوت کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی زندگی فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بسر کی اور پھر جام شہادت نوش فرمایا۔ یہی عظیم شخصیت یعنی معلی ابن خنیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ نوروز کا دن تھا۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نوروز سے آگاہ ہو؟ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائي ہے کہ اس دن حضرت آدم زمین پر اترے۔ حضرت نوح کا واقعہ پیش آیا، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو ولایت کے لئے منتخب کیا گيا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس روایت سے میں کسی اور نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نے نو نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائي ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ نیا دن یا نوروز کسے کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ذریعے خلق کئے جانے والے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کون سا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو یہ خصوصیت ہو کہ اس دن کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتےہوں۔ حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم و حوا نے زمین پر قدم رکھے۔ وہ نوروز تھا۔ یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ جس دن حضرت نوح علیہ السلام نے عظیم طوفان کےبعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا۔ وہ ایک نیا دن تھا اور اس دن سے نئي تاریخ شروع ہوئی۔ جس دن پیغمبر اسلام پر قرآن مجید کا نزول ہوا وہ بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دن مولائے متقیان کو مسلمانوں کا ولی بنایا گيا وہ نیا دن تھا۔ یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں اب خواہ یہ واقعے ہجری شمسی سال کے پہلے دن اور نوروز والے دن رونما ہوئے ہوں یا کسی اور دن۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا دن نوروز اور نیا دن ہے۔ حضرت نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ سارے واقعات ہجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئي واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے۔ جس دن امام خمینی وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا۔ امریکہ، نیٹو، سویت یونین، وارسا اور نہ جانے کہاں کہاں سے کمک پانے والے فوجیوں پر ہمارے مومن اور جاں نثار جوانوں کی فتح کا ہر دن نوروز تھا۔ شہید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدہ داروں سے خطاب13 مارچ 1995
والد گرامی اور والدہ محترمہ میں جو عجیب و غریب حصوصیات تھیں اور جو میں بہت کم ہی لوگوں میں دیکھتا ہوں، دنیوی مال و اسباب کی فراہمی اور افزائش میں ان کی بے رغبتی اور عدم دلچسپی تھی۔ اس عادت اور خصوصیت کی ہم سب کو مشق کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار تبریز کے امام جعمہ شہید قاضی طباطبائی ہمارے یہاں تشریف لائے وہ کہنے لگے کہ چالیس سال قبل میں اپنے والد کے ساتھ مشہد آیا تھا۔ آپ (قائد انقلاب کے والد گرامی) سے ملاقات کے لئے آیا تو دیکھا کہ اسی جگہ پر بیٹھے تھے جہاں اس وقت تشریف فرما ہیں اور میں اس وقت اس جگہ بیٹھا ہوں جہاں میرے والد بیٹھے تھے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کمرے میں معمولی سی بھی تبدیلی نہیں ہوئي ہے ـ یعنی ایک نسل گزر چکی تھی اور والد گرامی اپنی چالیس سال قبل والی حالت پر تھے۔ جب برادر گرامی (حسن صاحب) شادی کر رہے تھے تو اس وقت جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم نے اس کمرے کو گرا کر اسی جگہ دو کمرے بنوائے، تہہ خانے میں ایک حمام بنوا دیا گيا اس طرح ہمارا گھر حمام والا گھر ہو گیا۔ البتہ اس وقت ہم لوگ وہاں نہیں تھے۔
صدارت کے زمانے میں میرے والدین اپنے اسی قدیمی گھر میں رہتے تھے، نہ انہوں نے کبھی سوچا اور نہ میرے ذہن میں آیا کہ اب جب عہدہ صدارت میں نے سنبھال لیا ہے تو اپنے گھر کی شکل بدل دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسائے نے ہمارے آنگن سے لگا ہوا اپنا گھر ایک اونچی عمارت میں تبدیل کرنا شروع کر دیا اور والدہ کے لئے بغیر پردے کے آنگن میں جانا نا ممکن ہو گیا تو بعض احباب نے کہا کہ اس ہمسائے سے کہیں کہ گھر کی اونچائي ذرا کم رکھے تاکہ آنگن کا استعمال کیا جا سکے۔ ہم نے اس ہمسائے کو پیغام دلوایا لیکن اس نے کوئي توجہ نہیں دی۔ چونکہ میرے پاس اس ہمسائے کے گھر کی اونچائی کم کرنے کے لئے کوئي قانونی راستا نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئي دباؤ نہیں ڈالا۔ کسی ملک اور نظام میں یہ صورت حال بہت خوش آئند اور پسندیدہ ہے۔ کوئي بڑا عہدہ مل جائے تو انسان کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی سماجی زندگی میں دوسروں سے زیادہ عیش و آرام کی فکر میں پڑ جائے۔ 1995 میں مشہد مقدس میں آبائي گھر کے معائنے کے موقع پر
سامراج کے تسلط کے لئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے لوگوں کو عیسائي بنانے کے لئے پادری روانہ کئے گئے۔ ان پادریوں کو بھی بخوبی علم تھا کہ کس ہدف کے تحت وہ سر گرم عمل ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کو ہدف سے آگاہی نہیں تھی لیکن آپ غور کریں کہ انہوں نے اس ہدف کے لئے کتنی مشقتیں اور زحمتیں برداشت کیں۔ ان کڑی زحمتوں کا نعم البدل پیسہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھئے ایک شخص آدم خوروں کے نزدیک واقع علاقے میں جاکر سات سال کا طویل وقت گزاردیتا ہے۔ یہ چیزیں تو آدمی کتابوں میں پڑھتا ہے، دستاویزی فلموں میں دیکھتا ہے اور ناولوں میں پڑھتا ہے۔ مجھے ان ناولوں اور فلموں کی حقیقت کی بھی اطلاع ہے اور مجھے پتہ ہے کہ سامراجی دور میں کیا کچھ انجام دیا گیا ہے۔ یہیں ہمارے ملک میں ہی ایک یورپی پادری کو تہران، اصفہان اور دیگر علاقوں میں لایا گیا۔ برسوں کا طولانی عرصہ اس پادری نے اپے وطن سے دور سختیاں برادشت کرتے ہوئے ہمارے ملک میں گزارا۔ لوگ اس کی جانب سے بدگمان بھی تھے، کہتے تھے یہ تو کافر ہے، نجس ہے۔ اس دور میں جب عوام میں اس سلسلے میں بڑی حساسیت تھے لوگ دینی عقائد کے پابند تھے، پادری یہاں آتےتھے اور اسی ماحول میں ایک موہوم سی امید پر زندگی بسر کرتے تھے کہ شائد دو چار افراد عیسائیت قبول کر لیں۔ انہوں نے افریقہ کا تجربہ یہاں دہرانے کی کوشش کی۔ وہ اپنےہدف میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن یہاں انہوں نے کئی برس گزار دئے۔ قاجاریہ دور کی تاریخ کا آپ مطالعہ کیجئے، ایک ماہر مشرقیات نے ایران میں برسوں کا عرصہ گزارا اور تاریخ ایران کے عنوان سے دو جلدوں کی ایک کتاب لکھی۔ یہ ماہر مشرقیات، جنوبی خراسان، بیرجند، زابل اور انہی علاقوں میں رہا اور اس نے اپنی کتاب مکمل کی۔ آپ پڑھئے کہ اس نے اپنے پادریوں کے بارے میں کیا باتیں لکھی ہیں۔ (صوبہ سیستان بلوچستان کے برادران اہل سنت کے امور کے لئے ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے علما سے ملاقات کے دوران 1992)
سابق سویت یونین اور اس کے زیر انتظام شیعہ اکثریتی علاقے آذر بایجان کے امور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ جب کمیونسٹوں نے اس علاقے (آذربائیجان) پر قبضہ کیا تو تمام اسلامی علامتیں مٹا دیں۔مسجدیں گوداموں میں تبدیل کر دی گئیں، دینی مراکز اور امام بارگاہوں کو کچھ اور بنا دیا گیا، دین اور شیعیت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا بس ایک چیز کی اجازت دی گئی تھی اور وہ تھی قمہ زنی۔کمیونسٹ آقاؤں کی طرف سے کارندوں کو حکم تھا کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نماز پڑھیں، نماز جماعت قائم کریں، قرآن پڑھیں، عزاداری کریں، المختصر یہ کہ کوئی بھی دینی کام نہیں کر سکتے مگر ان کو قمہ زنی کا حق ہے، کیوں؟ صرف قمہ زنی ہی کیوں؟اس لئے کہ یہ دین اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے لئے بہترین چیز تھی۔لہذا کبھی کبھی دشمن اس طرح سے کچھ چیزوں کو دین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات آ جائیں دین بدنام ہو جائے گا۔(نئے سال کے آغاز پر مشہد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب)21/03/1997
انقلاب سے قبل کبھی کبھی کسی گوشے میں کچھ لوگ جمع ہوکر تلاوت کلام پاک کرلیتے تھے۔ روز بروز نوجوانوں میں قرآن کے سلسلے میں بڑھتی دلچسپی اور قرآنی علوم میں یہ قابل ستائش ترقی، اسلامی انقلاب کا ثمرہ ہے۔ انقلاب سے پہلے یہ عالم تھا کہ شاذ و نادر ہی کوئي عالمی شہرت کا قاری ایران آتا تھا اور اگر آ بھی جاتا تھا تو اس کے بارے میں کسی کو پتہ تک نہیں چلتا تھا کہ قاری کب آیا اور کب چلا گیا۔ انقلاب سے پہلے وقف بورڈ کی دعوت پر شیخ ابوالعینین مشہد مقدس آئے تھے۔ میں ان کی تلاوت کی متعدد کیسٹیں سن چکا تھا اس طرح ان سے غائبانہ تعارف تھا اور میں ان کی تلاوت بہت پسند کرتا تھا۔ مجھے ان سے ملنے اور ان کی تلاوت روبرو سننے کا بڑا شوق تھا لیکن جن لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی ہم نے ان کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا لہذا جو پروگرام وہ کروا رہے تھے میں اس میں شریک نہیں ہوا۔ مشہد میں مسجد گوہر شاد میں تلاوت قرآن کریم کی ایک محفل منعقد ہوئی تھی۔ مجھے نہیں لگتا اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ رہی ہوگی، لوگ دائرے کی شکل میں بیٹھے تلاوت سن رہے تھے۔ سردی کا زمانہ تھا میرے بیٹے مجتبٰی جو اس وقت چھوٹے تھے وہ بھی میرے ساتھ تھے۔ چونکہ ہم محفل میں نہیں جانا چاہتے تھے لہذا باہر سردی میں ہی بیٹھ کر ہم نے تلاوت سنی۔ اس زمانے میں تلاوت سننے والوں کی تعداد سو ۱۰۰ تھی لیکن آج آپ تلاوت سننے والے مجمع کو دیکھئے تو دیکھتے رہ جائیں گے۔(قاریان قرآن سے ملاقات کے دوران9/02/1991)
رمضان المبارک کا مہینہ تھا، میں سوچ رہا تھا کہ لوگوں کے سامنے کیا بیان کیا جائے جو مفید ہو۔اپنی دلچسپی کے لحاظ سے میں نے سوچا کہ سورہ کہف کی تفسیر بیان کی جائے۔اس کے لئے میں مختلف تفاسیر اور تاریخی کتب کا مطالعہ کرتا اور رمضان المبارک کی راتوں میں با ذوق افراد کی نشست میں اس واقعے کو بیان کرتا تھا۔ میں نے اس کے علاوہ بھی کئی بار اصحاب کہف کا قصہ بیان بھی کیا ہے،سنا بھی ہے،پڑھا بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کو میں نے آپ لوگوں سے سمجھا ہے۔جس رات آپ لوگوں نے یہ خوبصورت، پیچیدہ اور بہترین منظر پردے پر دکھایا اس رات میری سمجھ میں آیا کہ ''اذ قاموا فقالوا ربنا رب السموات والارض‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ یعنی اس رات میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا آپ لوگوں نے واقعاً ایک قرآنی داستان کو مجسم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔یہ ایک عظیم کام ہے۔(اصحاب کہف سیریل بنانے والے افراد سے ملاقات کے دوران 27/02/1999)
جس زمانے میں مجھے شہر بدر کرکے ایران شہر بھیج دیا گیا تھا، ہم لوگ مختلف مواقع پر وہاں کے ذمہ دار افراد سے رابطہ کیا کرتے تھے۔مجھے بتایا گیا کہ گورنر کا ایک بھی نمایندہ آج تک ایران شہر نہیں آیا ہے!۱۹۷۸ میں ایرانشہر میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں اسی فیصد شہر بالکل تباہ ہو گیا۔میں نے خود شہر کی ایک ایک جگہ جا کر دیکھی، پچاس دن تک ہم لوگ امداد رسانی کا کام کرتے رہے مرکز تو دور کی بات زاہدان سے بھی کسی اہم شخصیت نے آ کر نہیں پوچھا کہ یہاں کیا ہوا ہے۔کہنے کو تو شیر و خورشید ادارے کی طرف سے کچھ امداد بھیجی جا رہی تھی لیکن ہم شہر بدر افراد نے جو امداد جمع کی تھی اس کا وہ دسواں حصہ بھی نہیں تھی۔ تو ایک طرف تو اس کی مقدار بہت کم تھی اور دوسری طرف اس قلیل مقدار امداد کا بھی بڑا حصہ امداد رساں ہی ہڑپ کر جاتے تھے۔ یعنی ایران شہر جو کہ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا ثقافتی مرکز تھا ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ زاہدان کا بھی یہی حال تھا۔دسیوں سال بعد کبھی ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ اونٹ کی سواری اور شراب خوری کے لئے حکام بیرجند جاتے تھے۔ چونکہ حکام بیرجند میں عیاشیاں کرنے جاتے تھے اس لئے وہاں ایر پورٹ تھا اور چونکہ یہاں عیاشی کے وسائل فراہم نہیں تھے لہذا بلوچستان ان کا آنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ملک کا ہر پسماندہ علاقہ بے توجہی کا شکار تھا۔ بلوچستان ہو یا کوئی اور علاقہ۔مازندران میں خوب ترقیاتی کام ہوئے تھےکیونکہ وہاں کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لئے حکام کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔انقلاب سے پہلے کی حکومت کا یہ عالم تھا۔ایک دلچسپ بات آپ کو بتاؤں، مازندران میں پانچ ایئرپورٹ ہیں جو شاہی حکومت کے دور میں بنائے گئے تھے۔رامسر کا ایئر پورٹ جو رامسر ہوٹل استعمال کرنے کے لئے تھا آپ جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے لئے تھا۔ایک صوبے میں پانچ پانچ ایئرپورٹ، اور وہ بھی صرف طاغوتی حکومت کے عناصر کے لئے! آپ بخوبی واقف ہیں کہ نوشہر کا ایئرپورٹ شاہ کی سالانہ سیر و تفریح کے لئے تھا، وہاں شاہ اور اس کے افراد عیاشی فرماتے تھے۔ایک ایئر پورٹ ایک فوجی کیمپ کے لئے تھا یہ ایک مخصوص فوج تھی۔ میں نام نہیں لینا چاہتا۔ یہ بھی عیاشی کا سامان تھا۔ساری کے نزدیک دشت ناز ایئر پورٹ جو آج کل مازندران کا سرکاری ایئرپورٹ ہے اور عوام کے استعمال میں ہے، انقلاب سے پہلے رضا خان کی بدکار و بدمعاش اولادوں کے لئے تھا۔ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین پر قبضہ کر کے ٹھیک اس کے وسط میں ایئرپورٹ بنایا گیا تھا۔ مینودشت میں شاہی نوکروں کے لئے ایک ایئرپورٹ تھا۔حکومت اور اس سے مربوط مشینری کے لئے پانچ ایئرپورٹ موجود تھے لیکن عوام، اساتذہ، بیماروں اور دیگر ضرورتمند افراد کہ لئے نہ ایئرپورٹ تھا نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی کوئي اور سہولت۔حکومت کے لوگ سال میں کئی مرتبہ مازندران آتے جاتے تھے لیکن زاہدان ہی کی طرح ایک بار بھی عام لوگوں سے نہیں ملتے تھے۔ اسے کہتے ہیں غبار فراموشی۔ (صوبہ سیستان و بلوچستان کی ممتاز شخصیات سے ملاقات کے دوران 24/02/2003)
احمد سکوٹور نامی ایک افریقی لیڈر گنی کوناکری کے صدر جمہوریہ تھے میری صدارت کے دوران کئی مرتبہ ایران آئے۔ایک مرتبہ جنگ کے زمانے میں آئے، کہنے لگے آپ کے اوپر یہ جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس پر تعجب نہ کیجیئے۔ سامراجی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہ جو کام کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کسی پڑوسی ملک کو انقلاب کی نابودی پر مامور کر دیتی ہیں۔آپ کا مسئلہ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ لہذا تعجب نہ کیجئے۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے اوپر ایک طرف سے (ایک سرحد سے) حملہ کیا گیا ہے لیکن ہم پر پانچ طرف سے(پانچ سرحدوں سے) حملہ کیا گیا، پانچ ملکوں نے حملہ کیا ہے۔ گنی کوناکری ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کے اطراف میں کئی ممالک واقع ہیں۔ سکوٹور بھی ایک انقلابی لیڈر تھے اور ایک انقلاب کے ذریعہ ہی آگے آئے تھے لہذا ان پر حملہ کیا گیا۔) تہران یونیورسیٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران 12/5/1998)
ایک قیدی کی ماں نے مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا قید میں تھا، آج خبر ملی ہے کہ شہید ہو گیا ہے۔ آپ جایئے اور امام خمینی(رہ) سے کہیے کہ میرا بچہ آپ پر قربان ہوا، مجھے کوئی غم نہیں ہے. جب میں امام کی خدمت میں پہنچا تو کہنا بھول گیا۔ باہر نکلنے کے بعد مجھے یاد آیا تو وہاں موجود حضرات سے میں نے کہا امام سے کہیے کہ ایک جملہ رہ گیا ہے۔آپ اندرونی صحن میں آ گئے تو میں بھی وہیں چلا گیا اور جب اس خاتون کا جملہ امام سے کہا تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور ان پر رقت طاری ہوگئی میں اپنے کہے پر شرمندہ ہو گیا۔ یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ ہم نے اتنے شہدا کی قربانی پیش کی ہے یہ کوئي ہنسی کھیل نہیں ہے۔ انقلاب کے بہترین افراد قربان ہو گئے لیکن امام پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہے۔ آج یہ سن کر کہ ایک قیدی قتل کر دیا ہے آپ رونے لگتے ہیں سبب کیا ہے؟ میری سمجھ میں تو نہیں آتا۔آدمی ایسی شخصیت کی توصیف کرنے سے عاجز ہے۔(امام خمینی کی برسی کے مہتمم ادارے کے اراکین سے ملاقات کے دوران 22/05/1990)
میں، جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب اور ایک اورشخص جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا ایک ساتھ تہران سے قم گئے اور وہاں امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ آخر ان جاسوسوں کا کیا کریں؟ انہیں پکڑے رکھیں یا چھوڑ دیں؟ چونکہ عبوری حکومت کے اندر بھی اس سلسلے میں الگ الگ موقف تھے۔جب ہم لوگ امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ساتھیوں نے حالات کی وضاحت کی کہ ریڈیو پر یہ کہا جا رہا ہے، امریکہ یہ کہہ رہا ہے، حکومت کے عہدہ دار ایسا کہہ رہے ہیں۔آپ نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ایک سوال پوچھا کہ کیا آپ لوگ امریکہ سے ڈرتے ہیں؟ہم نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا کہ بس پھر انہیں پکڑے رکھئے۔واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ ظاہری اور مادی طاقت اور گوناگوں وسائل سے لیس امریکی حکومت کی، امام خمینی (رہ) کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی۔ان کی یہ دلیری اور شجاعت اس دانشمندانہ قوت کا نتیجہ تھی جو آپ کے وجود کا احاطہ کئے رہتی تھی۔عقلمندانہ شجاعت اور ہے، اور غفلت و عدم واقفیت کی بے خوفی کچھ اور۔مثلاً ایک بچہ بھی ایک طاقتور آدمی یا ایک خطرناک حیوان سے نہیں ڈرتا ہے اور ایک طاقتور انسان بھی نہیں ڈرتا لیکن دونوں میں فرق ہے۔آج بہت سی قومیں اور انسانی معاشرے اپنی طاقت اور بہت سی صلاحیتوں سے بے خبر ہیں نتیجتا خود اعتمادی سے محروم ہیں۔(تشخیص مصلحت کونسل کے سکریٹریئیٹ کے اراکین سے ملاقات کے دوران 17/4/1999)
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا اس میں مغرب و عشا کی نماز میں بڑا ازدحام رہتا تھا اور باہر تک صفیں لگتی تھیں۔(نماز میں شرکت کرنے والے)اسی۸۰ فیصد جوان ہوتے تھے، وجہ یہ تھی کہ نوجوان طبقے سے ہمارا باقاعدہ رابطہ رہتا تھا۔ان دنوں الٹی جیکٹ پہننے کا فیشن تھا لہذا نوجوان الٹی جیکٹ پہنے نظر آتے تھے۔ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک جوان الٹی جیکٹ پہنے پہلی صف میں میرے مصلے کے پیچھے بیٹھا ہے، ایک حاجی صاحب نے جن کا بڑا احترام تھا اور جو ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتے تھے، اس جوان کے کان میں کچھ کہا۔ میں نے دیکھا نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔میں نے فوراً حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کہہ دیا۔ان سے قبل نوجوان نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں۔میں سمجھ گیا کہ انہوں نے اس سے کہا ہے اس طرح کا لباس پہن کر پہلی صف میں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔میں نے نوجوان سے کہا کہ، آپ کو پہلی ہی صف میں بیٹھنا ہے آپ یہاں سے کہیں اور مت جایئے۔میں نے حاجی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نوجوان پیچھے چلا جائے، یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ الٹی جیکٹ پہننے والا جدیدیت پسند نوجوان بھی نمازی ہو سکتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔برادران ایمانی اگر ہمارے پاس دولت اور وسائل نہیں ہیں اگر ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے تو کم از کم ہم اچھا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں۔ فی صفۃ المومن بشرہ فی وجھہ و حزنہ فی قلبہنوجوانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ذہن و دل متاثر ہو اور ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ (انجمن تبلیغات اسلامی کے عہدہ داران سے ملاقات کے دوران 16/6/1997)
بسم اللہ الرحمن الرحیمیا مقلب القلوب و الابصار یا مدبر اللیل والنھار یا محول الحول و الاحوال حول حالنا الی احسن الحال
اس سال کی بہار تین تین عیدیں لے کر آئی ہے۔ سب سے پہلے تو ولادت با سعادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے پھر حضرت امام صادق علیہ السلام کی عید میلاد ہے اور اس کے ساتھ ہی ایرانی قوم کی عید نوروز۔ میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض اور آپ کو ان عیدوں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ملت ایران، تمام مسلمانوں اور عاشقان اہلبیت عصمت و طہارت نیز عید نوروز منانے اور سال نو کے جشن میں ایرانیوں کی خوشیوں میں شریک ہونے والی تمام قوموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج سہ پہر کے وقت فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار زائرین اور روضے کےمجاوروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ تیس برسوں کے دوران اسلامی نظام کے اہم ترین کارناموں اور ثمرات کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے اسلامی انقلاب کے تیسرے عشرے کے آخری سال میں ملک کے لئے خلاقیت و پیش رفت کی اہمیت و ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے میں داخل ہونے کے لئے ملک کو پیش رفت اور عدل و انصاف کی ضرورت ہے
نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار کی تعداد میں جمع ہونے والے زائرین اور خدام سے اپنے خطاب میں اہم ترین دینی، سیاسی، اقتصادی، علمی و ثقافتی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی بیان پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المعصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آغاز سال کے موقع پر ایک دفعہ پھر حضرت امام علی رضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے جوار میں آپ عزیز زائرین اور خدام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع مرحمت فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی نےآج سے شروع ہونے والے نئے ایرانی سال تیرہ سو ستاسی کو خلاقیت و پیش رفت کا سال قرار دیا ہے۔
نئے سال کے آغاز پر آج صبح قوم کے لئے اپنے پیغام میں قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال کے اہم واقعات پر سرسری نظر ڈالی اور نئے سال کی ترجیحات بیان فرمائیں۔
مقدمہ انسان کے اعمال کا صحیح یا غلط ہونا اس بات سے وابستہ ہے کہ وہ دینی مسائل کو کتنا جانتا اور اس کی بنیاد پر کتنا عمل کرتا ہے۔ اور دینی مسائل سے آشنائی کا ایک راستہ یہ ہے کہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید اور پیروی کی جائے۔مرجع تقلید کے فتوے معلوم کرنے کے لئے اس کے رسالہ کو دیکھا جاسکتا ہے جس میں مرجع تقلید کے فقہی نظریات بیان کئے گئے ہوں اور جس کے صحیح ہونے کے بارے میں ہمیں اطمینان ہو۔آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی طاب ثراہ کی رحلت کے بعد چونکہ بہت سے مومنین نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کی تقلید اختیارکی ہے، اور آپ کا رسالہ عملیہ چونکہ زیرترتیب اور ابھی شایع نہیں ہو سکا ہے نیز یہ کہ اجوبۃ الاستفتاآت کے عنوان سے ابتک جو کچھ منظر عام پر آیا ہے اس میں تمام ضروری اور روزمرہ کے مسائل موجود نہیں ہیں لہذا ہم نے ضروری سمجھا کہ مذکورہ کتاب اور معظم لہ سے کئے گئے دیگر سوالات اور ان کے جوابات کو مد نطر رکھ کر جو موصوف نے دیئے ہیں،حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور رہبرمعظم کے فتووں میں موجود اختلاف کو ایک مجموعہ کی صورت میں ترتیب دےدیں تاکہ آپ کے وہ تمام مقلدین جو پہلے امام خمینی(رح)کے مقلد رہ چکے ہیں،دونوں کے فرق کو سمجھ کر آپ کے فتووں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یاد دہانی *-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرآية اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ کے مقلدین،زیر نظر مجموعہ میں ذکر شدہ اختلاف فتاویٰ کی روشنی میں اپنے شرعی فریضہ پر عمل کرسکتے ہیں۔ اور اگر ذکر شدہ امور کے علاوہ ان کے سامنے کچھ اور مسائل ہوں تو ان کے بارے میں استفتاء کرسکتے ہیں۔ *-اس مجموعہ میں بیان شدہ بعض امور میں فتووں کا، اختلاف نہیں ہے بلکہ احکام سے متعلق کسی حکم کے بارے میں الگ سے کوئی توضیح یا اضافہ مقصود ہے۔ *-آية اللہ العظمیٰ حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آپ کی تحریر الوسیلہ،کی توضیح المسائل یا عروۃ الوثقٰی کے حواشی سے اخذ کئے گئے ہیں۔ *-اختصار کی خاطر فتووں کے حوالے ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔ضرورت کی صورت میں اصل کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے جونشر معروف قمنے شایع کی ہیں۔ *-اس سائٹ پر جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے داہنی طرف کے ستون میں فہرست وار اور اسی سلسلے میں آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کے فتوے سامنے والے ستون میں نقل کئے گئے ہیں۔ تقلید امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے جو مرد، بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو۔ نیز احتیاط واجب کے تحت اس مجتہد کی تقلید کریں جو دنیا کا حریص نہ ہو اور اپنے زمانے کے مجتہدین سے اعلم ہو۔ ۱۔ اگر ایک ہی وقت میں کئی جامع الشرائط، فقہا موجود ہوں اور ان کے فتووں میں اختلاف ہو تو احتیاط واجب کے تحت مقلد اس مجتہد کی تقلید کرے جو ان میں اعلم ہو لیکن اگر اعلم کے فتوے احتیاط کے منافی اور غیر اعلم کے فتوے احتیاط کے موافق ہونا ثابت ہوجائے تو اس صورت میں اعلم کی تقلید واجب نہیں ہے۔ ۲۔ اعلم وہ ہے جو کسی مسئلہ کے قواعد اور الٰہی احکام کے سر چشموں کو بہتر طور پر جانتا ہو۔ اور اسی مسئلہ کی طرح دیگر مسائل اور روایات کے سلسلہ میں بھی زیادہ معلومات رکھتا ہو اسی طرح روایات کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ مختصر یہ کہ جو شخص احکام شرعی کے استنباط میں زیادہ ماہر ہو۔ ۲۔ اعلم وہ ہے جو دلیلوں کے ذریعہ حکم خدا کی شناخت اور الہی فرائض کے استنباط میں دوسرے مجتہدین سے زیادہ قوی ہو اور اپنے زمانے کے حالات کی شناخت بھی مجتھد کے اجتہاد میں اس حد تک دخیل ہے کہ جتنی احکام شرعی کے موضوعات کی تشخیص اور احکام شرعی کے بیان کے لئے فقہی رائے کا مالک ہونا دخیل ہے۔ ۳۔ ابتداءاً تقلید میت جائز نہیں ہے۔ ۳۔ کسی مرحوم مجتہد کی تقلید، ابتدائی تقلید کی صورت میں احتیاط واجب کی بنیاد پر جائز نہیں ہے۔سوال: وہ نوجوان جو نئے نئے بالغ ہوئے ہیں اور انھوں نے آپ کی تقلید اختیار کی ہے چونکہ تقلید کی ابتدا کر رہے ہیں اور ان کے لئے شرعی مسائل سے آشنائی ضروری ہے، تو کیا وہ امام خمینی (قدس سرہ) کے رسالے سے استفادہ کرسکتے ہیں؟جواب: عمومی مسائل میں،جن کی ہمارے عزیز جوانوں کو ضرورت ہے حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے رسالے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر اپنے کسی مسئلہ کا جواب اس میں نہ ملے تو استفتاء کرسکتے ہیں۔ طہارت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ آب کر کلو گرام کے مروجہ وزن کے اعتبار سے تقریباً ۴۱۹/ ۳۷۷ کلو گرام ہے ۱۔ تقریبا ۳۸۴ لیٹر ہے ۲۔ سوال: طہارت کے لحاظ سے اہل کتاب کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے؟جواب: غیر مسلم کسی بھی دین یا مذہب سے کیوں نہ ہو نجاست کا حکم رکھتا ہے۔ ۲۔ سوال: (اہل کتاب) طہارت کے حکم میں ہیں یا نجاست کے؟جواب: اہل کتاب کی ذاتی نجاست، ثابت نہیں ہے، ہماری نظر میں وہ ذاتی طہارت رکھتے ہیں۔اہل کتاب میں یہودی، عیسائی، زرتشتی،اور صابئی شمار ہوتے ہیں۔ ۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ یا بیٹ نجس ہے۔ ۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ نجس نہیں ہے۔ ۴۔ جو خون انڈوں میں ہوتا ہے وہ نجس نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اور اگر خون کو انڈے کی زردی میں اس طرح ملادیں کہ اس کا وجود ختم ہوجائے تو زردی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ۴۔ انڈوں میں پایا جانے والا خون پاک ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے۔ ۵۔ سوال: وہ چمڑا جو بیرونی ممالک سے آتا ہے اور جس سے جوتے وغیرہ بنتے ہیں وہ پاک ہے یا نجسَ۔جواب: جو چمڑا اسلامی ممالک سے آّتا ہے وہ طہارت کا حکم رکھتا ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ غیر شرعی طریقے سے ذبح ہوا ہے۔ اسی طرح غیر اسلامی ممالک سے آنے والا چمڑا نجس ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا آپ اس بات کا احتمال دیں کہ ملک میں درآمد کرنے والا مسلمان ہے جس نے حیوان کے تزکیہ کے بعد چمڑا مسلمانوں کے اختیار میں دیا ہے۔ ۵۔ سوال: اس گوشت، چمڑے اور حیوانی اعضاء کے سلسلہ میں اپنی مبارک نظر تحریر فرمائیں جو غیر اسلامی ممالک سے فراہم کیا گیا ہےَ۔جواب: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ حیوان کو اسلامی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے تو پاک ہے اور اگر یقین ہو کہ اسلامی طریقہ سے ذبح نہیں ہوا ہے تو نجس ہے۔ ۶۔ شراب اور ہر وہ چیز جو انسان کو مست کردیتی ہے اگر قدرتی طور پر بہنے والی (سیال) ہے تو نجس ہے۔ ۶۔ مست کردینے والے مشروبات احتیاط کی بنیاد پر نجس ہیں۔ ۷۔ جو چیز کسی نجس چیز میں مل کر نجس ہوگئی ہو اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو اس کو بھی نجس کردیتی ہے اور اسی طرح تین مرحلوں تک نجاست کا یہ سلسلہ رہے گا لیکن اس کے بعد نجاست نہیں پھیلے گی۔ ۷۔ جو چیز عین نجس سے لگنے کی وجہ سے نجس ہوچکی ہے وہ اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے اور اِن دونوں میں کوئی ایک چیز تر ہو تو وہ پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ اور اگر یہ چیز جو نجس چیز سے مل کر نجس ہوئی ہے یعنی (متنجس) پھر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو بنا بر احتیاط اس پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ لیکن یہ آخر میں نجس ہونے والی چیز (متنجس سوم) کسی اور چیز میں لگے تو اس چیز کو نجس نہیں کرے گی۔ ۸۔ اگر کسی مسلمان کا لباس یا اس کا بدن یا اس کی کوئی اور چیز مثلا برتن یا بستر وغیرہ (جو اس کے استعمال میں ہو) نجس ہوجائے اور پھر یہ مسلمان غائب ہوجائے تو اگر یہ احتمال ہو کہ غائب ہونے والے نے اس چیز کو پاک کر دیا ہوگا یا وہ چیز اس کے ذریعہ مثلا آب جاری میں گرنے سے پاک ہوگئی ہے، تو اس چیز کے استعمال سے پرہیز ضروری نہیں ہے۔ ۸۔ اگر یقین کہ کسی مسلمان کا بدن، لباس یا اس کی کوئی اور ذاتی چیز نجس ہوگئی ہے اور ایک مدت تک وہ مسلمان دکھائی نہ دے اور پھر جب دکھائی دے تو وہ مسلمان اس چیز سے پاک چیزوں کی طرح کام لے رہا ہو تو وہ چیز طہارت کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن شرط ہے کہ اس چیز کا مالک اس کی پہلی نجاست سے اور طہارت و نجاست کے احکام سے واقف ہو۔ ۹۔ پیشاب کا مقام پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک نہیں ہوتا اور اگر مرد پیشاب کے بعد ایک بار دھولیں تو کافی ہے لیکن عورتیں اور اسی طرح وہ لوگ جن کا پیشاب غیر فطری مقام سے خارج ہوتا ہے ان کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ دو بار دھوئیں۔ ۹۔ سوال: رفع حاجت کے بعد پیشاب کا مقام کتنی بار دھونے سے پاک ہو تا ہے؟جواب: پیشاب کا مقام احتیاط واجب کی بنا پر دو بار دھونے سے پاک ہوجاتا ہے۔ ۱۰۔ پخانے کے مقام کا پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک ہونا محل تامل ہے لیکن (نجاست کے صاف ہو جانے کے بعد،پانی سے پاک کرنے سے پہلے) نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ۱۰۔ پخانے کے مقام کو دو طرح سے پاک کیا جا سکتا ہے: ایک تو یہ کہ پانی سے دھوئیں یہاں تک کہ نجاست زائل ہوجائے،اس کے بعد(طہارت کے لئے) پانی ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ تین پاک پتھروں یا کپڑوں یا اسی طرح کی کسی اور چیز سے نجاست کو صاف کریں اور اگر تین ٹکڑوں سے نجاست پورے طور پر صاف نہ ہو تو اور ٹکرے استعمال کرکے پوری طرح صاف کریں۔ چنانچہ تین ٹکڑوں کے بجائے ایک ہی پتھر یا کپڑے کے تین الگ الگ حصوں سے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ وضو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ (وضو میں) سر کے مسح کے بعد ہاتھوں میں بچی ہوئی وضو کے پانی کی اس تری سے پیروں کا مسح کسی ایک انگلی کے سرے سے پیروں کے ابھار تک کریں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے جوڑ تک مسح کریں۔ ۱۔ پیروں کے مسح میں پاؤں کے جوڑ تک (ہاتھوں کی انگلی)کھینچنا چاہیئے۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوئیں اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔ اور ہاتھوں کو بھی کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیئے۔ ۲۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔ ۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور تیسری مرتبہ (یا اس سے زیادہ) حرام ہے۔ اور اگر ایک چلو پانی سے پورے عضو کو دھولے اور وضو کی نیت سے ہی پانی ڈالے تو ایک مرتبہ حساب ہو جائے گا چاہے ایک بار کا قصد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ ۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور اس کے بعد غیر شرعی ہے۔ پہلی باردوسری بار یا اس سے زیادہ کا تعین وضو کرنے والے کی نیت پر ہے یعنی پہلی بار کی نیت سے ایک شخص کئی بار چہرے پر پانی ڈال سکتا ہے۔ ۴۔ دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ سر کے اگلے حصہ کا مسح کرے اور ضروری نہیں ہے کہ مسح داہنے ہاتھ سے ہی ہو یا اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔ ۴۔ سر اور پیر کا مسح ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ کرنا چاہئے۔ اور احتیاط یہ ہے کہ سر کا مسح داہنے ہاتھ سے کیا جائے لیکن مسح کے لئے اوپر سے نیچے کی طرف ہی ہاتھ لے جانا ضروری نہیں ہے۔ ۵۔ اگر چہرے یا ہاتھ پر کوئی زخم،پھوڑاپھنسی یاچوٹ ہو اور پٹی یا پھانبا وغیرہ ہٹا کر اس کو کھولا جا سکتا ہو تو اگر اس پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو لیکن گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو واجب ہے کہ گیلا ہاتھ اس پر پھیرے۔ ۵۔ اگر وضو کے اعضاء پر کوئی زخم یا چوٹ ہو اور وہ کھلا ہوا ہو اور پانی ڈالنا اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو اسے دھونا چاہئے لیکن اگر دھونا نقصان دہ ہے تو اس کے اطراف کو دھوئے اور احتیاط یہ ہے کہ اگر اس پر گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو گیلا ہاتھ پھیر لینا چاہیئے۔ ۶۔ اگر زخم یا پھوڑا یا چوٹ سر کے اگلے حصہ میں یا پاؤں کے اوپر ہے اور وہ کھلا ہوا ہے تو اگر سر یا پیر کا مسح نہ کرسکتا ہو تو مسح کی جگہ ایک پاک کپڑا رکھے اور ہاتھ میں وضو کی بچی ہوئی تری سے ہی اس کپڑے کے اوپر سے مسح کرلے، اور احتیاط مستحب کے تحت تیمم بھی کرے۔ اور اگر کپڑا رکھنا ممکن نہ ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے اور بہتر ہے کہ بغیر مسح کا ایک وضو بھی کرے۔ ۶۔ اگر مسح کی جگہ پر زخم ہے اور اس پر گیلا ہاتھ نہ پھیرسکتا ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے لیکن اگر زخم کے اوپر کوئی کپڑا رکھ کر ہاتھ پھیر سکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ تیمم کے علاوہ اس طرح کے مسح کے ساتھ وضو بھی کرے۔ غسل امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ غسل ترتیبی میں،غسل کی نیت کے ساتھ پہلے سر وگردن، پھر بدن کا داہنا حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں حصہ دھوئے۔ ۱۔ غسل ترتیبی میں بدن کے آدھے داہنے حصہ کو بائیں حصہ سے پہلے دھونا احتیاط پر مبنی ہے [یعنی احتیاط واجب کے تحت پہلے بدن کے آدھے داہنے حصہ کو دھوئے اور پھر بائیں حصہ کو دھوئے] ۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں،قرآن کے ان سوروں کا پڑھنا بھی ہے جن میں سجدہ واجب ہے، یعنی ۳۲واں سورہ (الم تنزیل)، ۴۱واں سورہ (حم سجدہ)، ۵۳واں سورہ (والنجم) اور ۹۶واں سورہ (اقرأ) اور اگر ان چاروں سوروں کا ایک حرف بھی پڑھے تو بھی حرام ہے۔ ۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں سے، واجب سجدے والی آیتوں کا پڑھنا بھی ہے [لہذا ان سوروں کی دوسری آیتوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے] ۳۔ اگر زندہ جسم سے کوئی ہڈی والا حصہ جدا ہو جائے اور اس جدا شدہ حصہ کو غسل دینے سے پہلے،کوئی انسان چھودے تو اسے چاہئے کہ غسل مس میت کرے۔ لیکن اگر جدا شدہ حصہ ہڈی سے عاری ہو تو اس کے چھونے سے غسل مس میت واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر کسی میت کو غسل دینے سے پہلے جسم سے کوئی ایسی چیز جدا کی جائے جو اگر جسم سے متصل ہوتی تو اس کے چھونے سے غسل واجب ہوجاتا تو مردہ کے بدن سے اس کے جدا کر لینے کے بعد بھی اگر اس چیز کو چھوئیں گے تو غسل واجب ہو جائے گا۔ ۳۔ مردے کا بدن ٹھنڈا ہونے کے بعد اور اس کو غسل دینے سے پہلے میت سے جدا شدہ کسی حصہ کا چھونا جسم مردہ کو چھونے کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اس حصہ کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا جو انسان کے مرنے سے پہلے ہی اس کے جسم سے جدا کردیا گیا ہو۔ تیمم امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں: اول: نیت۔ دوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کی ایسی چیز پر مارنا کہ جس پر تیمم صحیح ہے۔سوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر، سر کے بالوں کی جڑوں سے ابرؤوں تک اور ناک کے اوپر اور احتیاط واجب کے تحت ہتھیلیوں کو ابرؤوں پر بھی پھیرا جائے۔چہارم: بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا پھر اسی طرح دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا۔٭ غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ۱۔ سوال: تیمم کا طریقہ کیا ہے؟ کیا غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق ہے؟جواب: تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ: پہلے نیت کریں پھر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایسی چیز پر ماریں کہ جس پر تیمم صحیح ہے اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ، پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے ابرؤں تک اور ناک کے اوپر کھینچیں اور آخر میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیریں۔اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بعد دوبارہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے۔ یہ طریقہ غسل اور وضو دونوں کے بدلے میں کئے گئے تیمم میں یکساں ہے۔ ۲۔ سیاہ سنگ مرمر،چونے کے پتھر(gypsum) نیز دیگر تمام قسم کے پتھروں پر تیمم صحیح ہے لیکن جواہرات مثلا عقیق اور فیروزہ کے پتھر پر تیمم باطل ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خاک یا ایسی دوسری چیزوں کے ہوتے ہوئے کہ جن پر تیمم صحیح ہے،چونے اور آہک پر بھی تیمم نہ کریں۔ ۲۔ سوال: چونے کے پتھر(gypsum)،پختہ چونے یا آہک کے پتھر(lime.stone)،اور اینٹ پر تیمم کرنا کیسا ہے؟جواب: تیمم ہر اس چیز پر صحیح ہے جو زمین کا حصہ کہلائے مثلا چونے کے پتھر اور آہک کے پتھر پر تیمم صحیح ہے بلکہ چونے،پختہ آہک،اینٹ اور اس کے مثل چیزوں پر بھی صحیح ہونا بعید نہیں ہے [یعنی ان پر تیمم کیا جاسکتا ہے]سوال: کیا سیمینٹ اور ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کیا جا سکتا ہے؟جواب: ان دونوں چیزوں پر سجدہ اور تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ ان پر تیمم سے پرہیز کیاجائے۔ ۳۔ تیمم کے لئے پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ان کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اور اگر ہتھیلی نجس ہو اور اسے پاک نہ کیا جا سکتا ہو تو اسی نجس ہتھیلی سے تیمم کریں گے۔ ۳۔ سوال: آپ کی نظر میں جس چیز پر تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا ضروری ہے تو کیا اعضائے تیمم (پیشانی اور ہاتھ کی پشت) کا پاک ہونا بھی ضروری ہےَ۔جواب: احتیاط یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پاک ہو اور اگر محل تیمم کا پاک کرنا ممکن نہ ہو تو بغیر پاک کئے ہی تیمم کرے۔ اگرچہ طہارت کی شرط نہ ہونا دونوں صورتوں میں بعید نہیں ہے۔ ۴۔ اگر غسل کے بدلے میں تیمم کرے اور پھر وضو کو توڑنے والا کوئی حدث سرزد ہوجائے تو اگر بعد کی نمازوں کے لئے بھی غسل نہ کرسکتا ہو وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو وضو کے بدلے میں تیمم کرے۔ ۴۔ جس نے غسل کے بدلے میں تیمم کیا ہو اگر اس سے حدث اصغر صادر ہوجائے مثلا پیشاب کرلے تو بعد کی نمازوں کے لئے اگر اب بھی غسل نہ کرسکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنیاد پر غسل کے بدلے دوبارہ تیمم کرے اور وضو بھی کرے۔ ۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو نماز ساقط ہے۔ لیکن احتیاط مستحب ہے کہ بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کی قضا بھی بجا لائے۔ ۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنیاد پر نماز وقت کے اندر وضو اور تیمم کے بغیر پڑھ لے اور پھر وضو یا تیمم کے ساتھ اس کی قضا بجا لائے۔ ۶۔ اگر ضرر کے یقین یا ضرر کے خوف کی وجہ سے تیمم کرے اور نماز سے پہلے پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر نماز کے بعد پتہ چلے تو نماز صحیح ہے۔ ۶۔ اگر کوئی یہ سمجھ کر تیمم کرے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ ہے اور اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے کہ نقصان دہ نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلے پانی ضرر نہیں کرتا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر وضو کرے یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔ احکام میت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ جو مسلمان عالم احتضار یعنی جانکنی کی حالت میں ہو اسے اس طرح چت لٹانا چاہئے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم سب کے لئے ہے چاہے مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا کوئی فرق نہیں ہے۔ ۱۔ مناسب ہے کہ مسلمان کو احتضار کی حالت میں پیٹھ کے بل (چت) قبلہ کی طرف اس طرح لٹائیں کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ بہت سے فقہاء نے اس کام کو خود مرنے والے پر (اگر وہ قادر ہو) یا پھر دوسرے لوگوں پر واجب سمجھا ہے۔ اور اس میں احتیاط ترک نہیں ہونا چاہئے۔ ۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور عاقل ہونا ضروری ہے، نیز مسائل غسل کو بھی جانتا ہو اور احتیاط واجب کی بنا پر وہ بالغ بھی ہو۔ ۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور بالغ و عاقل ہونا ضروری ہے، نیز غسل کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ قبلہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے اگر قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہ ہو یا یہ کہ کوشش کرنے کے بعد بھی کسی سمت کی طرف گمان (غالب) پیدا نہ ہو سکے تو اب اگر نماز کے وقت میں وسعت ہو تو چاروں طرف چار مرتبہ نماز پڑھے اور اگر چار مرتبہ نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جس قدر وقت میں گنجائش ہو اتنی سمت میں نمازیں پڑھے ... جس کے پاس قبلہ معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہ ہو اور اس کا گمان بھی کسی سمت کی طرف نہ جارہا ہو تو احتیاط کی بنیاد پر چاروں طرف نماز پڑھے اور اگر چار نماز پڑھنے کا وقت نہ تو جس قدر وقت ہو اتنی سمت نماز پڑھے۔ نماز کا وقت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ سوال: چاندنی راتوں کی فجر صادق کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر مبارک یہ ہے کہ کچھ دیر انتظار کیا جائے یہاں تک کہ فجر کی سفیدی چاندنی پر غالب آجائے تو کیا حضرت عالی کا فتویٰ اب بھی اسی طرح ہے؟ اگر جواب مثبت ہو تو یہ انتظار کتنے منٹ تک ہونا چاہیئے اور ماہ قمری میں یہ چاندنی راتیں کتنی راتیں ہیں؟جواب: اس کا معیار وہ راتیں ہیں جن میں چاندنی طلوع فجر پر غالب رہتی ہے اس میں نماز کے لئے اتنا انتظار کرنا چاہئے کہ طلوع فجر کی روشنی نمایاں ہوجائے۔ ۱۔ سوال: چاندی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ ۱۵سے بیس منٹ تک انتطار کیا جائے جبکہ گھڑی کے اعتبار سے نماز کا وقت ہوچکا ہو اور اس ذریعہ سے طلوع فجر کے سلسلہ میں یقین کا حاصل کرنا بھی ممکن ہو؟جواب: طلوع فجر، نماز صبح کے اول وقت اور اسی طرح وقت سحری کے اختتام اور روزہ کا وقت شروع ہونے کا تعین کرنے کے سلسلہ میں چاندی راتوں اور اندھیری راتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط اچھی ہے۔سوال: سلام و تحیات کے ساتھ! ماہ رمضان المبارک کی آمد اور اسی طرح شہروں کی توسیع اور طلوع فجر کی دقیق تشخیص نہ ہوسکنے کے پیش نظر جناب عالی سے گزارش ہے کہ روزہ کے لئے ترک سحر اور اقامہ نماز صبح کے اوقات کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک کو بیان فرمائیں۔جواب: مناسب ہے کہ مومنین محترم ایدھم اللہ تعالی احتیاط کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے روزے کے لئے ترک سحر اور نماز صبح کے سلسلہ میں(اسلامی جمہوریہ ایران کے)ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی اذان کے شروع ہونے کے ساتھ ہی سحری کھانا ترک کردیں اور اذان سے پانچ چھ منٹ بعد نماز صبح ادا کریں۔ ۲۔ نماز عصر کا مخصوص وقت وہ ہے جب وقت مغرب میں صرف اتنا وقت باقی رہ جائے کہ اس میں صرف نماز عصر پڑھی جاسکتی ہو۔ ۲۔ سوال: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟جواب: نماز عصر کا آخری وقت، غروب آفتاب تک ہے۔ ۳۔ انسان اس وقت نماز شروع کرسکتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے یا یہ کہ دو مرد عادل وقت نماز ہو جانے کی خبر دیں۔ لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر(اول وقت کے تعین کے لئے)مؤزن کی اذان کافی نہیں ہے اگرچہ مؤذن عادل اور موثق ہی کیوں نہ ہو۔ ۳۔ نماز شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کا انسان یقین پیدا کرلے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے یا دو عادل مرد خبر دیں کہ وقت ہوچکا ہے یا یہ کہ کوئی موثق اور وقتِ نماز پہچاننے والا موذن اذان دے۔ ۴۔ اگر بھولے سے نماز ظہر پڑھنے سے پہلے ہی نماز عصر شروع کردے اور درمیان نماز یاد آجائے کہ نیت میں غلطی ہو گئی ہے تو اگر یہ وقت،ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دینا چاہیئے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ میں نے اب تک پڑھا ہے اور جس نماز میں مشغول ہوں اور جو کچھ ابھی پڑھوں گا وہ سب نماز ظہر ہوگی اور نماز ختم کرنے کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ وقت ظہر کا مخصوص وقت ہو تو نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹادے اور نماز کو ختم کرے اور پھر نماز عصر پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ نماز (ظہر و) عصر کو بھی اس کے بعد پڑھے اور یہ احتیاط بہت اچھی چیز ہے۔ ۴۔ اگر یہ سمجھ کر نماز عصر شروع کی ہے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور درمیان نماز یاد آ جائے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے تو اگر یہ وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو فورا نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا اور نماز کو ختم کرے گا اور اس کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ اتفاق نماز ظہر کے مخصوص وقت میں پیش آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا لیکن نماز کو ختم کرنے کے بعد دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کو ترتیب کے ساتھ بجا لائے گا۔ اور نماز مغرب و عشاء میں بھی یہی شرعی فریضہ ہے۔ ۱۔ نماز ظہر کا مخصوص وقت،وقت ظہر شروع ہونے کے بعد اتنی مدت تک رہتا ہے کہ جس میں غیر مسافر چار رکعت اور مسافر دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہو۔ نمازی کا لباس امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ مرد کے لئے سونے کے زیورات مثلا گلے میں سونے کی زنجیر یا سونے کی انگوٹھی پہننا یا سونے کی گھڑی باندھنا حرام ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ ۱۔ سونے کی زنجیر پہننا، سونے کی انگوٹھی پہننا اور سونے کی گھڑی باندھنا مردوں کے لئے حرام ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ان کے ساتھ نماز باطل ہے۔ ۲۔ سوال: توضیح المسائل میں مسئلہ نمبر ۸۳۱ سے ۸۸۳ تک مردوں کے لئے یہ توضیح دی گئی ہے کہ نمازی مرد کا لباس زردوزی کا نہیں ہونا چاہئے۔ تو آیا یہاں زرد سونا مراد ہے یا سرخ اور سفید سونا بھی اس میں شامل ہے؟ (کیونکہ جناب عالی نے پلیٹینیم پہننے کی اجازت دی ہے) لہذا فرمائیں کہ سونے کا رنگ شرط ہے یا سونے کی حقیقت؟جواب: سفید سونے (پلیٹینیم) میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہی عام سونا ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ اس کا رنگ بدل گیا ہو۔ ۲۔ سوال: حضرت عالی کی نگاہ میں کیا سفید سونے کا استعمال میں مردوں کے لئے کوئی حرج ہے؟جواب: اگر سونا ہے اور کسی دوسرے مادہ کو ملادینے کی وجہ سے اس کا رنگ سفید ہو گیا ہے تو حرام ہے لیکن اگر پلیٹینیم ہے یا سونے کا مادہ اس میں اتنا کم ہو کہ بول چال میں اسے سونا نہ کہا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۳۔ نمازی مرد کا لباس خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے اور نماز کے علاوہ بھی اس کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔ اور جو چیزیں نماز میں اکیلے پہننے سے نماز نہیں ہوتی جیسے ازاربند اور رومال وغیرہ، احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ بھی خالص ریشم کی نہ ہوں۔ ۳۔ نمازی مرد کا لباس،حتی رومال، جراب اور لباس کا استر بھی خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے۔ اور نماز کے علاوہ بھی ریشم کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔ ۴۔ تین صورتوں میں جن کی تفصیل بعد میں آئے گی اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے:اول: یہ کہ جسم کے زخم یا چوٹ یا پھوڑے کی وجہ سے کسی کا لباس یا بدن خون آلود ہو جائے۔دوم: یہ کہ بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم جگہ پر تقریبا ایک اشرفی کے برابر،خون لگا ہو۔سوم: ... ۴۔ اگر نمازی کا بدن یا لباس،زخم، چوٹ یا پھوڑے پھنسی کے علاوہ کسی اور وجہ سے خون آلود ہو جائے اور خون کی مقدار انگشت شہادت کی پور سے کم جگہ پر ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ جگہ پر ہو تو صحیح نہیں ہے۔ ۵۔ اگر حیض یا نفاس کا خون،سوئی کی نوک کے برابر بھی نمازی کے لباس یا بدن پر ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنیاد پر خون استحاضہ بھی نمازی کے بدن یا لباس پر نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر دوسرا خون مثلا انسان کے بدن کا خون یا کسی حلال گوشت جانور کا خون یا کتے، سور، کافر، مردار یا کسی حرام گوشت جانور کا خون، اگرچہ نمازی کے بدن یا لباس پر کئی جگہ موجود ہو لیکن ان سب کو جمع کرنے سے خون ایک درہم سے کم جگہ میں ہو (جو تقریبا ایک اشرفی کے برابر ہوتی ہے) سے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر بھی احتیاط یہ ہے کہ کتے، کافر، مردار اور حرام گوشت جانور کے خون سے بچا جائے۔ ۵۔ ماقبل مسئلہ کے حکم سے خون حیض مستثنی ہے کیونکہ اس کا اگر معمولی سا خون بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگ جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر خون نفاس و استحاضہ نیز نجس العین اور حرام گوشت اور مردار کے خون کا بھی یہی حکم ہے بلکہ یہ حکم نفاس اور استحاضہ کے علاوہ، قوت سے خالی نہیں ہے۔ نمازی کی جگہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ (نمازی کی جگہ کے لئے) پانچویں شرط یہ ہے کہ نمازی کی پیشانی اس کے زانو کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ اور احتیاط واجب یہ ہے کہ (پیشانی) پیروں کی انگلیوں کے سروں سے بھی اس سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ ۱۔ ضروری ہے کہ نمازی کی پیشانی کی جگہ اس کے زانوؤں اور پیروں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ ۲۔ احتیاط مستحب کی بنا پر(نماز میں)عورت کو مرد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیئے اور اس کے سجدہ کی جگہ مرد کے کھڑے ہونے کی جگہ سے کچھ پیچھے ہونا چاہیئے۔ ۲۔ ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں عورت اور مرد کے درمیان کم از کم ایک بالشت کا فاصلہ ہو اور اس صورت سے اگر مرد و عورت ایک دوسرے کے برابر میں کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے بھی کھڑی ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے، یہ حکم احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے۔ ۳۔ خانہ کعبہ کے اندر(حجرے میں)یا اس کی چھت پر واجب نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ۳۔ خانہ کعبہ کے اندر نماز واجب کا پڑھنا مکروہ ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی چھت پر نماز نہ پڑھے۔ ۴۔ انسان کو چاہئے کی ادب کی رعایت کرے اور پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر سے آگے نماز نہ پڑھے چنانچہ اگر نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو نماز پڑھنا حرام ہے لیکن نماز باطل نہیں ہے۔ ۴۔ نمازی کو نماز پڑھتے وقت پیغبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر کے آگے کھڑا نہیں ہونا چاہئے لیکن برابر میں کھڑے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مسجد کے احکام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اگر مسجد کو غصب کرلیں اور اس کی جگہ گھر وغیرہ بنالیں اس طرح کہ اس کو اب مسجد نہ کہا جاتا ہو تو بھی اس جگہ کا نجس کرنا حرام اور اس کو پاک کرنا واجب ہے۔ ۱۔ جو مسجد غصب، منہدم اور متروک ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی اور عمارت بنادی جائے یا متروک رہنے کے سبب اس کے مسجد ہونے کے آثار مٹ چکے ہوں اور اس کی تعمیر نو کی امید بھی نہ ہو اس طور پر کہ وہاں کے باشندے وہاں سے کوچ کرچکے ہوں تو اس جگہ کا نجس کرنا حرام ہو معلوم نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نجس نہ کریں۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے سے نہ سجائیں اور اسی طرح انسان یا حیوان کی مانند ان چیزوں کی تصویر وغیرہ بھی مسجد میں نہ بنائیں کہ جن میں جان ہوتی ہے لیکن پھول پتی کی مانند بے جان چیزوں کی تصویر کشی مکروہ ہے۔ ۲۔ مسجد کو سونے سے سجانا اگر فضول خرچی میں شمار ہو تو حرام ہے اور بصورت دیگر بھی مکروہ ہے۔ واجبات نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ کسی انسان کے لئے اگر یہ احتمال ہو کہ آخر وقت میں شاید کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے تب بھی اول وقت نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نماز میں تاخیر کرے۔ ۱۔ جس شخص کے لئے یہ احتمال ہو کہ شاید آخر وقت میں کھڑے ہوکر اپنی نماز پڑھ سکے اسے احتیاط کی بنا پر اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے لیکن اگر کسی عذر کے تحت اس نے اول وقت اپنی نماز بیٹھ کر پڑھ لی اور پھر آخر وقت تک اس کا عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور اعادہ ضروری نہیں ہے۔ اور اگر اول وقت کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں تھا اور اسے یقین تھا کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے متعلق اس کی عاجزی اور ناتوانی آخر وقت تک باقی رہے گی لیکن آخر وقت گزرنے سے پہلے،وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قابل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ کھڑے ہوکر نماز کا اعادہ کرے۔ ۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ نماز کے لئے دائیں کروٹ اس طرح لیٹ جائے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹ جائے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ ۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ لیٹ کر نماز پڑھے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اگر ممکن ہو تو دائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کا چہرہ اور بدن قبلہ کی طرف ہو، ورنہ بائیں کروٹ لیٹے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ ۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ حمد اور اس کے بعد کوئی ایک مکمل سورہ پڑھنا چاہیئے۔ ۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو چاہئے کہ پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اس کے بعد احتیاط واجب کی بنیاد پر ایک مکمل سورہ پڑھے۔ ۴۔ اگر(نماز میں)غلطی سے ایسا سورہ شروع کردے کہ جس میں سجدہ واجب ہے تو اگر آیت سجدہ پر پہنچنے سے پہلے یاد آجائے تو اس سورہ کو چھوڑ کر کوئی اور سورہ پڑھے۔ اور اگر سجدہ والی آیت کو پڑھنے کے بعد یاد آئے تو نماز کے درمیان اشارہ کے ذریعہ سجدہ بجا لائے اور پھر اسی سورہ کے پڑھنے پر اکتفا کرے۔ ۴۔ نماز واجب میں سجدہ والے سوروں کا پڑھنا جائز نہیں ہے اور اگر عمدا یا سہوا ان میں سے کسی سورے کو پڑھے اور سجدہ والی آیت پر پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر(بیٹھ کر)آیت سجدہ کی تلاوت کے سجدہ کو انجام دے اور پھر کھڑے ہو کر اگر سورہ مکمل نہ ہوا ہو تو مکمل کرے اور پوری نماز اور پھر نماز کا اعادہ بھی کرے۔ اور اگر سجدہ والی آیت پر پہنچنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس سورے کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا سورہ پڑھے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد پھر سے نماز کا اعادہ کرے۔ ۵۔ نماز میں جب کوئی سورہ پڑھنے کے لئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے تو کہ پہلے سے سورہ کو معین کرلے اور’’بسم اللہ....‘‘ اسی سورہ کی نیت کے ساتھ پڑھے اور اگر سورہ کو معین کرنے کے بعد اس سورہ کو چھوڑدے تو دوسرے سورہ کو پڑھنے کے لئے اس سورہ کی نیت سے دوبارہ’’بسم اللہ...‘‘ پڑھے۔ ۵۔ سوال: جو انسان پہلے سے ہی سورہ حمد اور سورہ توحید پڑھنے کی نیت رکھتا ہو یا اس کی عادت ہمیشہ یہی ہو اور کسی مخصوص سورہ کا تعین کئے بغیر بلا ارادہبسم اللہ الرحمن الرحیمکھ دے تو کیا اس کے اوپر واجب ہے کہ سورہ کو معین کرنے کے بعد پھر سے’’بسم اللہ...‘‘پڑھے؟جواب: ’’بسم اللہ...‘‘کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ اسی ’’بسم اللہ...‘‘پر اکتفا کرسکتا ہے اور حسب خواہش کوئی بھی سورہ ’’بسم اللہ...‘‘دہرائے بغیر پڑھ سکتا ہے۔ ۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ،عورت بلند آواز سے اور آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔ ۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ عورت بلند آواز سے یا آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو بہتر ہے آہستہ پڑھے۔ ۷۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ الحمد پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی بسم اللہ کو بھی آہستہ پڑھے۔ ۷۔ مرد اور عورت پر واجب ہے کہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ یا سورہ حمد کو آہستہ پڑھیں لیکن اگر سورہ حمد پڑھیں تو فرادیٰ نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بلند آواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہی ہے کہ’’بسم اللہ...‘‘آہستہ کہیں اور نماز جماعت میں یہ احتیاط، واجب ہے۔ `۸۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت کے رکوع میں یا رکوع میں جاتے وقت شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔ ۸۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے رکوع میں شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔ لیکن اگر رکوع میں جاتے وقت جبکہ رکوع کی حد تک نہ پہنچا ہو شک کرے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر واپس پلٹے اور حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھ کر(رکوع میں جائے)۔ ۹۔ اگر شک ہو کہ کوئی آیت یا لفظ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں تو اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول نہ ہوا ہو تو پھر سے اس آیت یا لفظ کو صحیح طور سے ادا کرنا چاہیئے۔ اور اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول ہوچکا ہو اور وہ بعد کی چیز رکن ہو مثلا رکوع میں شک کرے کہ سورہ کے فلاں لفظ کو صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اس شک کی طرف دھیان نہ دے، اور اگر وہ(بعد کی)چیز رکن نہ ہو مثلا اگر اللہ الصمد کہتے وقت شک کرے کہ قل ہو اللہ احد صحیح طور پر پڑھا ہے یا نہیں تو بھی یہ کرسکتا ہے کہ اپنے شک کی طرف دھیان نہ دے لیکن اگر احتیاط کے طور پر اس لفظ کو(دوبارہ)صحیح طور سے ادا کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کئی بار شک ہو تو کئی بار دھرا سکتا ہے لیکن اگر(شک) وسواس کی حد تک پہنچ جائے اور بار بار وہ لفظ ادا بھی کیا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔ ۹۔ اگر کسی آیت کو تمام کرنے کے بعد شک کرے کہ صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیئے،اور یہی صورت ہے اگر آیت کا ایک جملہ پورا کرنے کے بعد اس کے صحیح پڑھنے کے بارے میں شک ہو مثلاایاک نعبدکہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں۔البتہ ان تمام صورتوں میں جس چیز کے صحیح ادا ہونے کے بارے میں شک ہے اگر اسے احتیاطا دوبارہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۰۔ اگر رکوع کی حد تک جھکے لیکن ہاتھوں کو گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۰۔ احتیاط یہ ہے کہ رکوع میں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے۔ ۱۱۔ انسان رکوع میں جو بھی ذکر پڑھے وہ کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم وبحمدہ سے کم نہ ہو۔ ۱۱۔ رکوع میں ایک بار سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبر وغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔ ۱۲۔ سجدہ میں جو بھی ذکر پڑھے کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی وبحمدہ سے کم نہ ہو۔ ۱۲۔ سجدہ میں ایک بار سبحان ربی الاعلی و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبروغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔ ۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کے برابر انسان کا بدن ساکن ہونا چاہئے۔ اور مستحب ذکر میں بھی،اگر اس ذکر کی نیت سے ہو کہ جس کا حکم سجدہ کے لئے دیا گیا ہے،بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے۔ ۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کہتے وقت بدن ساکن ہونا چاہئے حتی جس وقت کوئی ذکر استحباب کی نیت سے سجدہ میں کہہ رہا ہو مثلا سبحان ربی الاعلی و بحمدہ یا کسی اور ذکر کی تکرار کر رہا ہو تب بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ بدن میں حرکت نہ ہو۔ ۱۴۔ اگر پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر کھڑا ہوجائے اور رکوع بجا لائے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد دوبارہ نماز پڑھے۔ ۱۴۔ اگر پہلے سجدہ میں یا اس کے بعد،دوسرے سجدہ میں داخل ہونے سے پہلے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اٹھ کر کھڑا ہو اور رکوع انجام دے اور پھر دونوں سجدے اور نماز تمام کرنے کے بعد سجدہ اضافہ کے لئے احتیاطا دو سجدہ سہو کرے۔ ۲۔ اگرچہ(تحریر الوسیلہ میں)صفحہ ۱۵۵ پر مرقوم ۸ویں مسئلہ کی اصل تحریر مطابق اس مسئلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) اور آیۃ اللہ خامنہ ای (مد ظلہ) کے درمیان کوئی اختلاف نظر نہیں ہے۔ نماز جماعت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے امام جماعت کو بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہونا چاہئے وہ،جو نماز کو صحیح طریقہ سے پڑھ سکتا ہو نیز اگر ماموم مرد ہیں تو امام کو بھی مرد ہونا چاہئے... اور احتیاط واجب یہ ہے کہ عورت کا امام بھی مرد ہو۔ سوال: کس صورت میں عورت امام جماعت ہوسکتی ہے؟جواب: اگر مامومین میں صرف عورتیں ہوں تو امام جماعت، عورت ہوسکتی ہے۔ نماز جمعہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے اس طرح پڑھنا کہ خطبہ تمام ہوتے ہوئے ظہر کا وقت ہوجائے جائز ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خطبے زوال کے بعد دئے جائیں۔ ۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے دیئے جا سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ وقت ظہر کے اندر ہو اور احوط یہ ہے کہ پورے خطبے وقت ظہر داخل ہونے کے بعد دئے جائیں۔ ۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز جمعہ میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ وہ وقت جسے عرف میں اول ظہر کہتے ہیں گزر جائے اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے تو نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر پڑھے۔ ۲۔ نماز جمعہ کا وقت اول ظہر سے ہے اور احوط یہ ہے کہ اس کو عرف میں رائج نماز ظہر کے اوائل وقت(تقریبا ایک دو گھنٹہ)سے زیادہ پیچھے نہ لے جائیں۔ مسافر کی نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ مسافر کو آٹھ شرطوں کے ساتھ ظہر،عصر اور عشاء کی نماز قصر کرنا یعنی دو رکعت پڑھنا چاہیئے:ساتویں شرط: مسافر کا پیشہ مسافرت نہ ہو۔ لہذا شتربان، ڈرائیور،چوپان،ملاح اور ان کے جیسے دوسرے افراد خواہ وہ اپنے گھر کا سامان لے جانے کے لئے ہی سفر میں ہوں پہلے سفر کے علاوہ انہیں نماز پوری پڑھنا چاہئے لیکن پہلے سفر میں اگرچہ سفر لمبا ہو جائے ان کی نماز قصر ہے۔ ۱۔ سوال: کن حالات میں مسافر پر چار رکعتی نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے؟جواب: آٹھ شرطوں کے ساتھ...ساتویں شرط: یہ کہ اس کا پیشہ سفر نہ ہو مثلا چوپان، ڈرائیور، ملاح وغیرہ نہ ہو اور وہ لوگ بھی ان ہی سے ملحق ہوں گے جن کا کام کاج سفر میں ہے۔ ۲۔ سوال: ایک شخص کسی کمپنی میں مارکٹ آفیسر ہے اور کئی سالوں سے روزانہ صبح کو اپنے وطن سے کام پر جاتا ہے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ ہے اور پھر شام کو پلٹتا ہے اور کبھی کبھی خود ڈرائیونگ کرتا ہے آیا یہ شخص مسافر ہے یا دائم السفر؟جواب: اپنی ملازمت کی جگہ اور راستہ میں یہ شخص مسافر کا حکم رکھتا ہے۔توضیح:امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق اپنے پیشہ ورانہ سفر کے دوران صرف ان لوگوں کا نماز پوری پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ہے کہ جن کا پیشہ ہی مسافرت ہے یعنی ان کے کام کی بنیاد ہی سفر پر قائم ہو اور ان کا کام سفر کے بغیر کسی مستقل جگہ انجام نہ پا سکتا ہو مثلا اپنے شہر سے باہر ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیور، پائلٹ اور ملاح وغیرہ۔ لیکن جن کا پیشہ مسافرت نہیں ہے اگرچہ روزانہ اپنے کام کے لئے سفر کریں ان کی نماز سفر میں قصر ہے اس معلم کی طرح جو روزانہ یا ہر ہفتہ تدریس کے لئے سفر کرتا ہے۔ایک مسئلہ اور ایک استفتاء ملاحظہ کریں:مسئلہ: وہ جس کا پیشہ سافرت نہیں ہے اگر مثال کے طور پر کسی شہر یا گاؤں میں کوئی مال ہے جس کو ڈھونے کے لئے وہ پے در پے سفر کرتا ہے تو اسے اپنی نماز قصر پڑھنا چاہئے۔سوال: فوج نے دیہاتوں میں خدمت کے لئے کچھ لوگوں کو ملازم رکھا ہے اور خود سپاہ کا مرکز بھی ان لوگوں کے کا وطن میں نہیں ہے اور روزانہ یا ہر تیسرے دن انھیں اطراف شہر میں مجبورا سفر کرنا پڑتا ہے تو ان کی نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ مختصر یہ کہ ان کے کام کا لازمہ سفرہے۔جواب: وطن کے علاوہ جہاں بھی ہوں ایک جگہ دس روزہ قیام کی نیت کے بغیر نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے۔ ۲۔ سوال: جس کا کام کاج سفر میں ہے اس کی نماز اور روزہ کا کیاحکم ہے مثلا وہ ملازم جو اپنی ملازمت پر سفر کرتا ہے یا وہ مزدور جو اپنے کام کی جگہ سفر کرتا ہے اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر ہر دس دن کے اندر کم از کم ایک بار اپنے کام کے لئے اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جاتا ہے تو اس کا حکم اس شخص کی طرح ہے جس کا پیشہ ہی سفر ہو اس کا روزہ صحیح ہے اور نماز پوری پڑھے گا۔توضیح:رہبر معظم انقلاب (مد ظلہ) کے فتوہ کے مطابق جن لوگوں کا کاروبار سفر میں ہے یا اپنے کام کے لئے کم از کم دس دن کے اندر اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جانا پڑتا ہے تو یہ لوگ بھی ان کی طرح ہیں جن کا پیشہ ہی مسافرت ہو یعنی اپنی نمازیں اس طرح کے سفر میں پوری پڑھیں اور ان کا روزہ بھی صحیح ہے، مثلا وہ معلم حضرات جو تدریس کے لئے یا وہ ملازمین جو اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے یا وہ مزدور جو اپنے کام کاج کے لئے ہر ہفتہ کم از کم ایک بار اپنے کام پر ضرور جاتے ہیں اور پلٹ آتے ہیں سفر کے دوران کام پر ان کی نمازیں پوری ہیں۔ لیکن تحصیل علم کے لئے کیا جانے والا سفر،آپ کی نظر میںپیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا الا یہ کہ خود تحصیل کام اور مشغلہ کے طور پر ہو مثلا جو لوگ فوج یا پولیس وغیرہ کی ٹرینیگ کے دوران میں تحصیل علم پر مامور ہوں۔ذرا دو استفتاآت ملاحظہ کریں:سوال: ایک طالبعلم جو ہر ہفتہ تعلیم کے لئے اسکول جاتا آتا ہو اور اس کا اسکول وطن سے چار فرسخ(۱۲میل)یا اس سے زیادہ دوری پر ہو،اپنی نماز اسکول میں پوری پڑھے کا یا قصر ہو گی؟جواب: تعلیم کے لئے سفر پیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا بلکہ جو طالبعلم پڑھنے کے لئے کہیں سفر کرتا ہے وہ عام مسافر کے حکم میں ہے(یعنی اسکول میں نمازیں قصر پڑھے گا)۔سوال: میں شہر رفسنجان میں ملازم ہوں اور تعلیم میں بھی مشغول ہوں۔ وزارت تعلیم و تربیت کے زیر نظر مرکز عالی میں داخلہ مل جانے کے پیش نظر اپنی عام ڈیوٹی کے ساتھ مجھے آفس کی طرف سے ہفتہ کے ابتدا کے تین دنوں میں تحصیل علم کے لئے شہر کرمان جانا پڑتا ہے بقیہ ایام میں خود اپنے وطن میں رہ کر ڈیوٹی انجام دیتا ہوں حضرت عالی کی نظر میں میری نماز روزے کے سلسلہ میں کیا حکم ہے آیا طالب علم ہونے کا حکم میرے اوپر جاری ہوگا یا نہیں؟جواب: اگر تحصیل علم آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ۳۔ جو شخص سفر پر جارہا ہے وہ اس وقت نماز قصر پڑھے گا کہ جب کم از کم اپنے شہر سے اتنا دور نکل چکا ہو کہ شہر کی دیواریں دکھائی نہ دیتی ہوں اور وہاں کی اذان سنائی نہ دیتی ہو ورنہ اگر اس قدر دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو پوری نماز پڑھے گا۔٭ سفر پر جانے والا اگر ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اذان کی آواز نہ سنائی دے لیکن شہر کی دیواریں دکھائی دے رہی ہوں یا (اس کے برعکس) اذان کی آواز سنائی دے لیکن دیواریں نہ دکھائی دیں تو اگر وہاں نماز پڑھنا چاہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر نماز قصر بھی پڑھے گا اور پوری بھی۔ ۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی رعایت کرے لیکن صرف اذان کی آواز نہ سنے جانے پر اکتفا کرنا بعید نہیں ہے۔ [یعنی اگر شہر سے اتنا دور ہو جائے کہ وہاں کی اذان کی آواز نہ سن سکے لیکن دیواریں دکھائی دے رہی ہوں اور وہاں نماز پڑھنا چاہے تو قصر نماز پڑھنا چاہئے، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پوری بھی یا یہ کہ اتنی دور جانے کے بعد نماز پڑھے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں۔ اور اگر روزہ سے ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ روزہ کو نہ توڑے بلکہ رکا رہے یہاں تک کہ اتنی دور ہوجائے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں]۔ ۴۔ سوال: ’’بلاد کبیرہ‘‘یعنی بڑے شہروں کے سلسلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) کا فتوہ تفصیل سے بیان فرمائیں۔جواب: غیر معمولی طور پر بڑے شہروں کے سلسلے میں جس کا تعین عرف کے ذریعہ ہوتا ہے،مسافرت کے لئے سفر کے شروع اور اختتام کی منزل خود گھر کو قرار دیتے ہیںس اور دس دن کے قیام کے سلسلہ میں اس کے ایک مخصوص محلہ میں قیام کی نیت کرنا چاہئے [اس وقت ایران میں شہر تہران غیر معمولی بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے] ۴۔ سوال: بڑے شہروں کو وطن بنانے اور ان میں دس دن قیام کے سلسلہ میں حضرت عالی کی نظر کیا ہے؟جواب: مسافر کے احکام، وطن بنانے اور دس روز قیام کی نیت سے ٹھہرنے کے سلسلے میں بڑے شہروں اور عام شہروں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ کسی مخصوص محلہ کا تعین کئے بغیر کسی بڑے شہر میں سکونت کی نیت اور ایک مدت تک قیام سے ہی وہ شہر وطن کے حکم میں ہوگا،چنانچہ اگر کسی خاص محلہ کا تعین کئے بغیر پورے شہر میں دس دن کے قیام کی نیت ہو تو روزہ صحیح ہے اور نماز پوری ہوگی۔ ۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہے اگر شروع سے ہی یہ نیت کر لے کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر میں جائے گا تو اطراف شہر میں وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہے اگر شہر کے دائرے اور اس کی دیوار سے باہر نہ ہو یا اس شہر کے اطراف کے کھیتوں اور باغوں کے درمیان ایسی جگہ ہو کہ وہاں جانا اس شہر میں اقامت کے منافی نہ کیا جائے (یعنی عرف میں یہی کہیں کہ وہ ایک ہی شہر میں دس دن رہا ہے) ایسی صورت میں وہ نماز پوری پڑھے گا۔ لیکن اگر (حد ترخص سے گزر کر) چار فرسخ (یعنی ۱۲میل) کے اندر ہی جانا چاہے تو اگر اس کی نیت میں پہلے سے یہ رہا ہو کہ دس روز میں صرف ایک بار وہاں جائے گا اور آنے جانے میں دو گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگائے تو تمام دس دنوں میں اپنی نماز پوری پڑھے گا۔ ۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر شروع سے ہی یہ نیت رکھتا ہو کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر (چار فرسخ(۱۲میل)سے کم کی دوری میں) صرف اتنی دور جائے گا،کہ عرف میں یہی کہیں کہ دس دن تک ایک ہی جگہ قیام کیا ہے مثلا اگر ارادہ رکھتا ہے کہ دس دنوں میں کسی ایک دن یا ایک رات کچھ گھنٹوں کے لئے یا اس سے کچھ زیادہ ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات تک کے لئے،صرف ایک بار یا کئی بار شہر کے اطراف میں جائے گا لیکن ان کی مجموعی مدت ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات سے زیادہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نماز پوری رہے گی۔ لیکن اگر دس دن کے قیام کا ارادہ کرتے وقت اس کی نیت میں ہو کہ اس مدت سے زیادہ محل اقامت کے باہر رہے گا تو قیام کی نیت محقق نہیں ہوگی اور وہاں نماز قصر رہےگی۔ ۶۔مکہ اور مدینہ میں نماز قصر کرنے اور پوری پڑھنے کے درمیان اختیار صرف مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص ہے،یہ حکم پورے مکہ اور پورے مدینہ کے لئے نہیں ہے۔ ہاں یہ اختیار اصل مسجد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مسجد کی موجودہ توسیع شدہ عمارت میں ہر جگہ جاری ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اصل مسجد تک ہی اکتفاء کیا جائے۔ لہذا موجودہ مسجد کے تمام حصوں میں ایک مسافر پوری نماز بھی پڑھ سکتا ہے اور قصر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ۶۔ مکہ اور مدینہ میں ہر جگہ ایک مسافر پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ حکم مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص نہیں ہے۔ قضا نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے باپ کی چھوٹی ہوئی نمازیں اور روزے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہیں کہ وہ ان نمازوں اور روزوں کی قضا بجا لائے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کی قضا نمازوں اور روزوں کو بھی بجا لائے۔ ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔ روزہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اگر کوئی نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے لیکن ظہر سے پہلے ہی متوجہ ہو جائے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اسے چاہئے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا بھی ادا کرے۔ ۱۔ جس نے رمضان میں بھول کر یا لاعلمی کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور دن میں کسی وقت متوجہ ہو جائے تو اگر اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو، تو اس دن کا روزہ باطل ہے لیکن اس کے بعد بھی غروب تک روزہ کو باطل کرنے والے کاموں سے پرہیز کرے۔ لیکن اگر (ماہ رمضان کی طرف) متوجہ ہونے کے وقت تک کسی ایسے کام کا مرتکب نہ ہوا ہو کہ جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر ظہر سے پہلے متوجہ ہو گیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر روزہ کی نیت کرلے اور روزہ رکھے اور بعد میں اس روزہ کی قضا بھی کرے۔ ۲۔ جو شخص کسی مرنے والے کے روزے کی ادائیگی کے لئے اجرت لے چکا ہو وہ اگر اپنے مستحبی روزے رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس کے اوپر اپنے روزہ کی قضا یا اور کسی طرح کے واجبی روزے ہوں وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر ظہر سے پہلے اسے یاد آجائے، اس کا مستحبی روزہ باطل ہوجائے گا اور وہ اپنی نیت کو واجب روزہ کی نیت میں پلٹ سکتا ہے، اور اگر ظہر کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ باطل ہے۔ اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اشکال سے خالی نہیں ہے۔ ۲۔ جس کے ذمہ ماہ رمضان کا قضا روزہ واجب ہے وہ مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا چنانچہ بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر روزہ کے درمیان یاد آجائے اس کا مستحبی روزہ باطل ہو جائے گا اب اگر ظہر سے پہلے یاد آیا ہے تو اس روزہ کی نیت کو ماہ رمضان کی قضا کی نیت میں تبدیل کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ ۳۔ اگر مریض ماہ رمضان کی ظہر سے پہلے ٹھیک ہوجائے اور اذان صبح سے اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر کے بعد ٹھیک ہوا ہے تو اس دن کا روزہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔ ۳۔ اگر مریض، ماہ رمضان میں دن کے وقت ٹھیک ہوجائے تو واجب نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کرے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر سے پہلے ٹھیک ہو گیا ہے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہیں دیا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نیت کر لے اور روزہ رکھے لیکن ماہ رمضان کے بعد اس دن کی قضا بھی کرنا چاہیئے۔ ۴۔ اگر کسی معینہ واجبی روزہ مثلا ماہ رمضان کے روزہ میں روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کی نیت کرے لیکن اسے انجام نہ دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔ ۴۔ ماہ رمضان کے روزہ میں اگر دن میں کسی وقت روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے اس طرح کہ روزہ کو جاری رکھنے کا ارادہ باقی نہ رہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور دوبارہ روزہ جاری رکھنے کی نیت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر روزہ رکھنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو یعنی ابھی فیصلہ نہ کیا ہو یا روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ ہو لیکن اسے انجام نہ دیا ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس کے روزہ کی صحت محل اشکال ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ کو مکمل کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی کرے۔دوسرے تمام معینہ واجبی روزوں مثلا معینہ نذر کے روزے وغیرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ مبطلات روزہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار اس انجکشن سے پرہیز کرے جو غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے لیکن ایسے انجکشن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جس سے کسی عضو کو بے حس کیا جاتا ہے یا جو دوا کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار طاقت کے یا غذا کے ہر اس انجکشن سے پرہیز کرے جو عضوات میں یا رگوں میں لگائے جاتے ہیں اسی طرح گلوکوز وغیرہ چڑھانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے۔ لیکن بے حس کرنے والے انجکشن کا استعمال نیز زخموں اور چوٹوں پر دوا لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سیگرٹ، تنباکو اور ان جیسی روسری چیزوں کا دھواں حلق میں نہ لے جائے، لیکن گاڑھی بھاپ روزہ کو باطل نہیں کرتی الا یہ کہ وہ منھ میں جاکر پانی ہوجائے اور اسے حلق سے نیچے اتارلے۔ ۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار ہر طرح کی دھویں والی چیزوں کے پینے سے پرہیز کرے اسی طرح ایسے منشیات کے استعمال سے بھی پرہیز کرے جو ناک کے ذریعے یا زبان کے نیچے رکھ کر استعمال کئے جاتے ہیں۔ ۳۔ اگر روزہ دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارہ سے یا ان جیسے کسی اور طریقہ سے خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف عمدا جھوٹی نسبت دے تو اگرچہ فورا یہ کہہ دے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے یا توبہ کرلے پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط واجب کہ تحت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نیز دیگر انبیا اور ان کے جانشین علیہم السلام کے لئے بھی اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ۳۔ احتیاط کی بنیاد پر خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصومین علیہم السلام پر جھوٹ باندھنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اگرچہ بعد میں توبہ کرلے اور کہے کہ میں نے جھوٹ باندھا ہے۔ ۴۔ اگر ایسی روایت اور قول معصوم نقل کرنا چاہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہ ہو کہ صحیح ہے یا جھوٹی ہے تواحتیاط واجب کی بنیاد پر اس شخص یا کتاب کے حوالے سے اسے نقل کرے کہ جس نے اسے نقل کیا یا لکھا ہو لیکن اگر خود بھی نقل کر دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔ ۴۔ ان روایات کے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو کتابوں میں آئی ہیں اور انسان نہیں جانتا کہ جھوٹی ہیں، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ ان کو کتاب کے حوالہ کے ساتھ نقل کرے۔ ۵۔ گردوغبار کو منھ میں داخل کرنا روزہ کو باطل کردیتا ہے چاہے کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حلال ہے جیسے آٹا یا کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حرام ہے۔ ۵۔ روزہ دار کو چاہئے کہ احتیاط واجب کی بنیاد پر گردوغبار مثلا جھاڑو دینے کی وجہ سے اٹھنے والے غبار کو حلق سے نیچے نہ اتارے، اسی طرح احتیاط واجب کی بنیاد پر سگرٹ بیڑی وغیرہ کا دھواں بھی روزہ کو باطل کردیتا ہے۔ ۶۔ رمضان کی شب میں اگر مجنب سوجائے اور پھر بیدار ہو اور یہ احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوئے گا تو غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا تو پھر سو سکتا ہے۔جو رمضان کی شب میں مجنب ہے اور جانتا ہے یا احتمال ہے کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا تو اگر ارادہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سوجائے اور اذان صبح تک سوتا رہ جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ ۶۔ جو شخص جاگنے میں مجنب ہوا ہو یا سونے میں مجنب ہو اور بیدار ہوجائے اور جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار نہیں ہو سکے گا، اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ غسل کرنے سے پہلے سوئے اور اگر سوجائے اور اذان سے پہلے غسل نہیں کیا تو اس کا روزہ باطل ہے، لیکن اگر احتمال ہو کہ اذان صبح سے پہلے غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا اور غسل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو لیکن بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس روزہ کی قضا رکھنا چاہئے۔ ۷۔ اگر مجنب رمضان کی رات میں سوجائے اور آنکھ کھلنے کے بعد جانتا ہو یا خیال کرے کہ اگر دوبارہ سو گیا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور ارادہ بھی رکھتا ہو کہ اٹھنے کے بعد غسل کر لے گا اس صورت میں اگر دوبارہ سوجائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے یہی حکم ہے،اگر دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ سو کر جاگے اور پھر سے سوجائے، کفارہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔ ۷۔ جو شخص رمضان کی شب میں مجنب ہو اور حالت جنابت میں اس خیال کے ساتھ سوجائے کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہو کر غسل کرلے گا اور اذان کے وقت تک بیدار نہ ہوسکے تو اس دن کے روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ کفارہ بھی دیا جائے۔ ۸۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کے سبب کوئی ایسا کام انجام دے جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر مسئلہ معلوم کر سکتا تھا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے اوپر کفارہ ثابت ہے، اور اگر مسئلہ معلوم کرنے پر قادر نہیں تھا یا مسئلہ کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا یا یقین تھا کہ اس کام سے روزہ باطل نہیں ہوتا تو کفارہ اس پر واجب نہیں ہے۔ ۸۔ اگر شرعی مسئلہ سے لاعلمی کے سبب ایسا کام انجام دے جو روزہ کو باطل کردیتا ہے مثلا وہ نہ جانتا ہو کہ سر کو پانی میں ڈبونا روزہ کو باطل کردیتا ہے اور سر کو پانی میں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس روزہ کی قضا کرنا چاہئے لیکن اس کے اوپر کفارہ واجب نہیں ہے۔اوراگر ایسا کام انجام دیا ہے جس کے بارے میں جانتا ہے کہ حرام ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس سے روزہ بھی باطل ہو جاتا ہے تو روزہ کی قضا کےعلاوہ احتیاط واجب کی بنیاد پر کفارہ بھی دینا چاہیئے۔ اعتکاف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے اعتکاف صرف مسجد میں ہی صحیح ہے لہذا جو شخص اپنے گھر،امام باڑے یا امام بارگاہ یا روضوں میں اعتکاف کرے اس کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ اور مسجدوں میں بھی صرف ان ہی مسجدوں میں اعتکاف صحیح ہے: مسجد الحرام، مسجد النبی، کوفہ کی جامع مسجد، مسجد بصرہ۔ اور ہر شہر کی جامع مسجد میں قصد رجا کے ساتھ اعتکاف کیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔ سوال: عرض ہے کہ مسجدوں (جامع مسجد اور عام مساجد) کے اندر اعتکاف کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک بیان فرمائیں۔جواب: جامع مسجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور دیگر مسجدوں میں قصد رجا کی نیت سے کوئی حرج نہیں ہے۔ ۳۔ قصد رجاء، یعنی خدا کا مطلوب ہونے کی نیت سے اور ثواب و انعام کی امید پر کوئی عمل انجام دینا۔ خمس امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے گھر کو بیچے اور دوسرا گھر خریدے یا بنائے تو کیا بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت پر خمس واجب ہے اگرچہ اس رقم پر ایک سال پورا نہ گزرا ہو؟جواب: اگر بیچا جانے والا گھر کاروبار کے منافع،تنخواہ یا کسی اور آمدنی کے ذریعہ، حاصل خمس نہ دئے ہوئے مال سے لیا گیا تھا تو اس کی قیمت سے فورا خمس نکالنا واجب ہے۔ ۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے رہائشی گھر کو بیچ دے تاکہ دوسرا گھر خرید سکے یا بنائے تو بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت میں خمس ہے یا نہیں؟جواب: اگر سال پورا ہونے کے بعد بیچا ہے اور گھر کے(مؤونہ)خرچ میں شمار ہونے کی وجہ سے خمس میں حساب نہ کیا گیا ہو تو گھر کی ملی قیمت میں خمس نہیں ہے چاہے سال کے آخر تک رقم باقی رہے۔ ۲۔ جو رقم حج کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اور اسی سال اس کا نام قرعہ میں نکل آئے تو ادا شدہ رقم میں خمس نہیں ہے اور اگر بعد کے برسوں میں نام نکلے تو اس کا حساب کرنا ہوگا مگر یہ کہ پہلے استطاعت رکھتا تھا اور اب اس رقم کو شامل کئے بغیر حج کے لئے نہ جاسکتا ہو۔ ۲۔ جو رقم حج یا عمرہ کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اگر سفر کے خرچ کے عنوان سے ایک شخص اور ’’ادارہ حج و زیارت‘‘ کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے مطابق ادا کی گئی ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اس رقم کو واپس لے لیں۔ ۳۔ سوال: اگر کوئی رقم کسی کے پاس امانت کے طور پر یا کرایہ مکان کے لئے مالک مکان کے پاس رہن کے طور پر رکھوائے تو کیا اس بات کے پیش نظر سے کہ اس رقم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے،وجوہات شرعیہ ادا کرنا ہوں گی؟جواب: جی ہاں! اس رقم پر خمس ہے اور جب بھی اس کی وصولی کا امکان ہو ملنے کے بعد خمس ادا کرنا چاہیئے۔ ۳۔ سوال: عام طور سے مکان کرایہ پر لینے کے لئے ایک رقم پیشگی مالک مکان کو دیتے ہیں اگر یہ رقم کاروبار کی منفعت سے ہو اور کئی سالوں تک مالک مکان کے پاس پڑی رہے تو کیا واپس ملتے ہی اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے یا یہ کہ اس رقم پر سال کے خرچہ میں شمار ہونے کے سبب خمس نہیں ہے اور اگر اسی رقم سے کسی اور جگہ کرایہ پر مکان لینا چاہے تو کیا حکم ہے؟جواب: جب تک کرایہ کے مکان کے لئے اس رقم کی ضرورت رہے اس وقت تک اس پر خمس نہیں ہے۔ ۴۔ ... اگر مکان خریدنے کے لئے ایک رقم اپنے پاس کئی سال تک رکھے رہے تو یہ رقم سال کے خرچہ میں شمار نہیں ہوگی اور اس پر خمس دینا ضروری ہے۔سوال: اس رقم پر خمس ہے یا نہیں جو کوئی شخص شادی یا تعلیم کے لئے الگ کر دیتا ہے؟جواب: اگر محنت کی آمدنی سے ہو اور ایک سال کے اندر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس ہے۔ ۴۔ سوال: جس شخص کو کسی گھریلو سامان مثلا فرج کی ضرورت ہو اور یک مشت خریدنے کی قوت نہ ہو اور ہر ماہ اس کے لئے کچھ رقم جمع کر رہا ہو تاکہ جب اس کی قیمت کے برابر رقم جمع ہوجائے تو اسے خریدلے یا شادی کے لئے رقم جمع کر رہا ہے تو کیا خمس کی سالانہ تاریخ آ جانے پر اس طرح کی جمع شدہ رقم میں خمس ہوگا یا نہیں؟جواب: محنت کی آمدنی سے جمع کی ہوئی رقم اگر مستقبل قریب میں (مثلا خمس کی تاریخ سے دو تین ماہ کے بعد ہی ضروریات زندگی سے کسی چیز کی فراہمی) کے لئے ہو اور اس کا خمس نکالنے کے بعد ضرورت کا سامان خریدا نہ جا سکتا ہو تو اس میں خمس واجب نہیں ہے۔ ۱۔ زندگی کی ضروریات سے مراد: مکان، کپڑے اور گھر کی ضروریات کے سامان ہیں۔ احکام حج استطاعت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ استطاعت کے لئے واپسی پر خود کفیل باقی رہنا شرط ہے۔ یعنی حج سے واپسی پر تجارت، کھیتی باڑی، کاروبار یا آمدنی کا کوئی اور ذریعہ جائداد، باغ یا دوکان کی صورت میں باقی ہو اس طرح کہ زندگی گزارنے کے لئے پریشانی اور مشکل سے دوچار نہ ہو اور اگر اپنی شان کے مطابق کمائی پر قادر ہو تو یہی کافی ہے اور اگر واپسی پر رقوم شرعی مثلا زکات و خمس کا ضرورتمند ہو جائے تو(استطاعت کے لئے) کافی نہیں ہے لہذا ان طلاب اور اہل علم پر حج واجب نہیں ہے جو حج سے واپسی پر حوزہ علمیہ کے ماہانہ وظیفہ(شہریہ) کے محتاج ہوں ۔ ۱۔ اگر(حج سے) واپسی کے بعد ماہانہ وظیفہ (شہریہ) کے ذریعہ ان کی زندگی چل سکتی ہو تو کافی ہے اور(استطاعت کے بعد) ان پر حج واجب ہوگا۔ ۲۔ جس نے حج نیابتی کے لئے اجرت لی ہو اور بعد میں اسی سال مالی استطاعت پیدا ہوجائے تو اب اگر اسی سال کے لئے حج نیابتی کی اجرت لی ہو تو اسے حج نیابتی انجام دینا چاہیئے اور اگر اس کی استطاعت باقی رہی تو اگلے سال اپنے حج کو انجام دے گا۔ ۲۔ اگر حج نیابتی (کی رقم ہاتھ آنے) کی وجہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق عمل کرے گا لیکن اگر کسی اور طریقہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو اس کے اجارہ (نیابتی حج) کا باطل ہونا معلوم ہوجائے گا اور اسے اپنا حج ادا کرنا چاہیئے۔ ۳۔ جس کے لئے شادی کرنا ضروری ہو اور اس کے لئے پیسے کی ضرورت ہو اسی صورت میں مستطیع ہوگا کہ جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کا خرچ بھی موجود ہو۔ ۳۔ اگر شادی نہ کرنے کی وجہ سے کسی مشکل، بیماری یا حرام میں پڑنے کا اندیشہ ہو یا شادی نہ کرنا توہین و خفت کا سبب ہو تو (استطاعت کے لئے) حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کے مخارج بھی ہونا ضروری ہے۔ ۴۔ جو شخص مالی اعتبار سے مستطیع ہے لیکن بدن کی صحت یا راہ کھلنے کے لحاظ سے مستطیع نہیں ہے اپنا مال کسی کام میں لگا کر اپنے آپ کو استطاعت سے خارج کرسکتا ہے لیکن اگر ان زاویوں سے بھی مستطیع ہے اور صرف جانے کے وسائل آمادہ نہیں ہیں یا حج کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے تو وہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کیا تو حج اس کے ذمہ واجب ہوجائے گا اور اسے ہر صورت میں حج کرنا ہوگا۔ ۴۔ حج کی انجام دہی کے لئے لازم وقت کے پہنچ جانے کے بعد ایک مستطیع شخص اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور وہ وقت کے آ جانے سے پہلے بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہ کرے۔ نیابت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ سوال: ایک شخص نے مالی استطاعت کے بعد حج کے لئے اپنا نام رجسٹر کرایا اور دو سال بعد قرعہ میں اس کا نام نکل آیا لیکن سفر سے چند مہینہ پہلے اس کا انتقال ہوگیا اور مرنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹے کو حج بجالانے کے لئے اپنا نائب بنا دیا اب اگر اس کا بیٹا خود مالی اعتبار سے مستطیع تھا لیکن اس نے نام رجسٹر کرانے کے سلسلہ میں کوتاہی کی تھی اور نام نہیں لکھوایا تھا چنانچہ اگر وہ نام لکھواتا تو شاید پہلے سال ہی یا بعد کے برسوں میں اس کا نام قرعہ میں آجاتا اب یہ لڑکا باپ کی طرف سے حج بدل کے لئے مدینہ آیا ہوا ہے مگر ابھی محرم نہیں ہوا ہے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟جواب: مذکورہ صورت میں نیابت(کا حج)صحیح نہیں ہے، اسے چاہئے کہ اپنا حج ادا کرے۔ ۱۔ اگر وصیت کے ٹوکن کے ذریعہ بیٹے کے لئے حج پر جانے کا راستہ نکل آئے یا یہ کہ میت کے ورثہ کسی بیٹے کو حج کا ٹوکن دے دیں کہ وہ باپ کی طرف سے جاکر حج کو انجام دے تو اسے چاہئے کہ باپ کی طرف سے حج انجام دے لیکن اگر وصیت نہ ہو یا ورثہ کی طرف سے مطالبہ نہ کیا گیا ہو کہ حج نیابتی وہ خود انجام دے تو اسے چاہئے کہ حج اپنی طرف سے انجام دے اور باپ کے لئے کسی اور کو نائب بنائے۔ ۲۔ سوال: جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو اور عقد اجارہ کے بعد عمل حج کی ادائیگی کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو اور اس نے کسی بھی عذر کے تحت ایک معذور کے فریضہ کے مطابق حج انجام دیا ہو تو کیا اس کا حج نیابتی منوب عنہ کی طرف سے کافی ہے؟ اور آیا عذر کی کیفیت کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟جواب: محل اشکال ہے۔ ۲۔ جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو لیکن عقد اجارہ کے بعد عمل کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو تو اس حالت میں اگر اس کا عذر حج کے بعض اعمال میں نقص پیدا ہونے کا سبب نہ بنے، نیابت صحیح ہے مثلا اگر وہ بعض ایسے کام جو حج کے دوران متروک ہیں ترک کرنے سے معذور ہو لیکن اس کا یہ عذر حج کے اعمال میں نقص کا سبب بنے تو اجارہ کا باطل ہو جانا اس صورت میں بعید نہیں ہے اور اجرت کے سلسلہ میں نائب اور منوب عنہ کے درمیان مصالحت ہو جانا اور منوب عنہ کی طرف سے عمرہ اور حج کا اعادہ احوط ہے۔ احرام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اگر تلبیہ بقدر واجب بھی نہ جانتا ہو اور سیکھ بھی نہ سکتا ہو یا سیکھنے کا وقت نہ ہو اور کسی کے کہلوانے سے بھی دہرا نہ کرسکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جیسے بھی کہہ سکتا ہے کہے اور اس کا ترجمہ بھی دہرائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے علاوہ تلبیہ کے لئے نائب بھی لے لے۔ ۱۔ جیسے بھی کہہ سکتا ہو ادا کرے اور احتیاط کی بنا پر کسی کو نائب بھی بنائے۔ ۲۔ احرام کے دو کپڑوں کو پہننے کے لئے کوئی خاص ترتیب ضروری نہیں ہے بلکہ جس ترتیب سے بھی پہن لے کوئی حرج نہیں ہے، صرف خیال رہے کہ ایک کو لنگی کی صورت میں جیسے بھی چاہے پہنے اور دوسرے کو چادر قرار دے جیسے بھی چاہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ چادر سے دونوں شانوں کو ڈھانکے۔ ۲۔ اگر رائج طریقہ کے مطابق ہو تو کافی ہے۔ چادر اتنی بڑی ہونا چاہئے کہ دونوں شانوں کو چھپا سکے۔ ۳۔ اگر حائضہ پاک ہونے تک انتظار نہ کرسکتی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ مسجد (شجرہ) کے پاس محرم ہوجائے اور جحفہ یا اس کے کسی موازی مقام سے احرام کی تجدید کرے۔ ۳۔ جو عورتیں عذر رکھتی ہیں اور بھیڑ وغیرہ کے سبب مسجد سے گزرنے کی حالت میں محرم نہیں ہوسکتیں ان پر واجب ہے کہ جحفہ یا اس کے موازی کسی مقام سے محرم ہوں چنانچہ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ نذر شرعی کے ساتھ مدینہ میں اپنی قیامگاہ سے ہی محرم ہو جائیں۔ ۴۔ مستطیع شخص اگر میقات سے احرام باندھنا علم کے باوجود جان بوجھ کر موخر کردے اور کسی عذر کی وجہ سے میقات واپس بھی نہ جاسکتا ہو اور آگے بھی کوئی میقات نہ ہو تو اس کا حج باطل ہے اور اسے چاہئے کہ دوسرے سال حج کرے۔ ۴۔ اگر ممکن ہو تو میقات واپس جائے اور اگر تنگی وقت یا کسی اور عذر کے سبب واپس نہ جاسکتا ہو تو حرم کے(دائرے سے) باہر جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو حرم کے اندر ہی محرم ہوجائے اور اس کا حج صحیح ہے۔ ۵۔ جو شخص بھول کر یا مسئلے سے لاعلمی یا کسی اور عذر کے سبب احرام کے بغیر ہی میقات سے گزر جائے تو اگر میقات تک واپس جا سکتا ہو اور پھر وہاں سے واپس آکے عمرہ کے اعمال میں بھی پہنچ سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ واپس جائے اور میقات سے احرام باندھ کر آئے چاہے حرم میں داخل ہو چکا ہو یا نہ ہوا ہو، اور اگر مذکورہ طریقہ سے واپس آنا ممکن نہ ہو تو اب اگر حرم میں داخل نہ ہوا ہو تو جہاں ہے وہیں سے احرام باندھے گا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس ہو اور وہاں محرم ہو۔ کہ(حرم میں داخل ہو) ۵۔ احتیاط واجب کی بنا پر جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس جائے اور(وہاں محرم ہو)۔ ۶۔ سوال: جو شخص عمرہ مفردہ انجام دے چکا ہو کیا ایک ماہ سے کم مدت میں بغیر احرام کے میقات سے باہر جاسکتا ہے؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ رجائے مطلوب کی نیت کے ساتھ دوسرے عمرہ مفردہ کے لئے محرم ہو اور بغیر احرام کے باہر نہ جائے۔ ۶۔ پچھلے احرام کو ایک ماہ گزرنے سے پہلے بغیر احرام کے میقات سے گزر سکتا ہے۔ ۷۔ سوال: زوجہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نذر کرتی ہے اور نذر کے تحت محرم ہوجاتی ہے تو کیا اس کا احرام صحیح ہے؟ اور اب اگر اسی احرام کے ساتھ اعمال بھی بجالائی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر میقات سے پہلے محرم ہوئی ہے تو اس کا احرام صحیح نہیں ہے، اگرچہ اس صورت حال سے، حج ختم ہونے کے بعد اگر متوجہ ہو تو اس کا عمل صحیح ہے، لیکن اگر عمرہ کے بعد متوجہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں عمل صحیح ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور اگر تلافی ہوسکتی ہو تو میقات واپس جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر میقات نہ جاسکتی ہو تو حرم کے باہر سے احرام باندھے۔ ۷۔ شوہر کی عدم موجودگی میں زوجہ کی جانب سے میقات سے پہلے احرام باندھنے کی نذر شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن شوہر ساتھ ہونے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نذر نہ کرے اور اگر بغیر اجازت کے نذر کرے تو نذر منعقد نہیں ہوگی۔ محرمات احرام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ خوشبو والے پھول اور سبزوں کے استعمال سے پرہیز کرے سوائے کچھ قسموں کے جو جنگلی ہیں جیسے بومادرون، درمنہ اور خزامی جن کے لئے کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ خشبودار پھول ہے۔ ۱۔ سوائے عطر کے کہ جس کا استعمال احرام کی حالت میں حرام ہے احتیاط واجب کے تحت کسی بھی قسم کی ایسی خوشبودار چیز نہیں سونگھنا چاہیئے کہ جس کو عطر نہیں کہا جاتا۔ ۲۔ سیب یا بہی کی مانند خوشبودار پھلوں سے پرہیز ضروری نہیں ہے اور ان کے کھانے اور سونگھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔ ۳۔ احتیاط واجب کی بنا پر خوشبو کے استعمال کا کفارہ، ایک بھیڑ ہے۔ ۳۔ خوشبو کے استعمال پر کفارہ کا واجب ہونا ثابت نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک بھیڑ کفارہ دے۔ ۴۔ احتیاط یہ ہے کہ آئینہ نہ دیکھے اگرچہ زینت کے لئے نہ ہو۔ ۴۔ زینت کے قصد کے بغیر آئینہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۔ (احرام کے محرمات میں) تیرہواں عمل، زینت کے لئے انگوٹھی پہننا (ہے) اور اگر استحباب کے لئے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر محرم کو انگوٹھی پہننے اور مہندی لگانے سے اگر ان کا زینت میں شمار ہو پرہیز کرنا چاہیئے ولو زینت کا قصد نہ رکھتا ہو بلکہ ہر اس کام سے پرہیز کرے جو زینت سمجھا جاتا ہے۔ ۶۔ اگر سر دھوئے تو اس کو تولیہ یا رومال سے خشک نہیں کرنا چاہئے اور سر کے بعض حصہ کا بھی وہی حکم ہے جو پورے سر کا حکم ہے۔ ۶۔ تولیہ سے سر خشک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ تولیہ پورے سر پر ڈال کر سر کو اس سے خشک کرے۔ ۷۔ رات کو سفر میں مکانوں کے درمیان گزرتے وقت چھت کے نیچے بیٹھنا احتیاط کے خلاف ہے اگرچہ اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے لہذا رات میں پرواز کرنے والے ہوائی جہاز میں محرم کے بیٹھنے کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔ ۷۔ لیکن بارش کی راتوں اور(جاڑے کی)ٹھندی راتوں میں سائے میں نہ بیٹھنے کی احتیاط ترک نہ ہو مگر یہ کہ اس احتیاط پر عمل کسی مشکل اور پریشانی کا باعث بنے۔ ۸۔ سوال: محرم کے لئے پانی کی وہ مشک اٹھا کر چلنے کا کیا حکم ہے جو سلی ہوئی ہو؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ اس کو کاندھوں پر نہ اٹھائیں ہاتھ میں لیکر چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ۸۔ ہمیان(کمر میں باندھی جانے والی چمڑے وغیرہ کی تھیلی) ازار بند(بلٹ وغیرہ)یا(رومال کی مانند)ایسے چھوٹے کپڑے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن کو لباس میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ۹۔ سوال: کیا محرم عورت اپنے چہرا تولیہ سے پوجھ سکتی ہے یا اس کا بھی حکم مرد کے سر کی طرح ہے کہ جس کو ڈھکا نہیں جا سکتا؟جواب: احتیاط کی رعایت ضروری ہے۔ ۹۔ اگر (کوئی عورت) تولیہ پورے چہرے پر ڈال لے تو صحیح نہیں ہے ورنہ کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۰۔ سوال: شہر مکہ میں کچھ ٹیونل بنے ہوئے ہیں جن کی لمبائی ۱۵۰۰ قدم سے زیادہ ہے تو کیا حج کا احرام باندھنے کے بعد موٹر کار یا بس وغیرہ کے ذریعہ ان سے گزرا جاسکتا ہے؟ جبکہ معلوم ہے کہ ان پر چھت پڑی ہوئی ہے؟جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اگر خود اس راستہ کو اپنائے اور اس چھت کے نیچے سے گزرے تو صحیح نہیں ہے۔ ۱۰۔ کوئی حرج نہیں ہے۔ ۱۱۔ سوال: کیا حالت احرام میں وہ دانت اکھاڑا جاسکتا ہے جس میں شدید درد ہو اور ڈاکٹر بھی اس کے اکھاڑنے کے لئے کہے؟ اگرچہ خونریزی کا باعث ہی کیوں نہ ہو؟جواب: اگر ضروری ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن احوط ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے۔ ۱۱۔ کفارہ دینا احتیاط مستحب ہے۔ ۵۔ سایہ میں اور چھت کے نیچے چلنا۔ طواف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ طواف کی شرطوں میں پانچویں شرط یہ ہے کہ طواف ہر طرف سے خانہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔ ۱۔ طواف کی جگہ کے لئے کوئی حد نہیں ہے،مسجد الحرام میں جہاں تک بھی طواف کرنا کعبہ کا طواف کرنا قرار پائے طواف صحیح اور مجزی ہے ہاں اگر اضطرار اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو تو مستحب ہے طواف کہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔ ۲۔ سوال: اگر طواف کے درمیان نماز جماعت قائم ہوجائے اور آدمی طواف جاری رکھنے سے معذور ہو تو اس کا فریضہ کیا ہے اور اگر سعی کے درمیان ہو تو کیا فریضہ ہے؟جواب: اگر طواف یا سعی کے چوتھے شوط (چکر) کے بعد سلسلہ ٹوٹے تو جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے (باقی ماندہ) طواف یا سعی آخر تک انجام دے گا اور اگر طواف کے چوتھے شوط سے پہلے چھوڑا ہو اور فاصلہ طویل ہوجائے تو طواف دوبارہ شروع سے انجام دے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ بقیہ طواف مکمل کرے اور اس کی نماز طواف پڑھنے کے بعد طواف کا اعادہ کرے اور دوسری نماز طواف پڑھے اور سعی میں بھی بقیہ سعی مکمل کرنے کے بعد پھر سے سعی کا اعادہ کرنے میں احتیاط ہے۔ ۲۔ اگر طواف کا سلسلہ توڑدے جبکہ آدھا طواف یعنی ساڑھے تین شوط (چکر) انجام دے چکا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے آگے بڑھا کر طواف پورا کرے اگرچہ ایک مکمل طواف ’’تمام و اتمام کسی بھی نیت سے بجا لائے اور اگر ساڑھے تین شوط سے کم انجام دیا ہو تو ازسرنو طواف انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۶۔ ۶۔ یعنی نیت کرے کہ اگر پہلا طواف صحیح تھا تو اس طواف کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوجائے اور اگر پہلا طواف صحیح نہ رہا ہو تو یہ طواف اس کا طواف شمار ہو۔ نماز طواف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے اگر کوئی شخص قرائت یا واجب اذکار صحیح طور پر نہ سیکھ سکے تو نماز جیسے بھی اس سے ہوسکتا ہے خود انجام دے اور یہی کافی ہوگی اور اگر ممکن ہو تو کسی کو ساتھ لے لے کہ وہ قرائت اور اذکار کو پڑھتا رہے اور یہ دہراتا رہے اور احتیاط یہ ہے کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس کسی عادل شخص کی اقتدا کرے لیکن نماز جماعت پر اکتفا نہ کرے جیسا کہ نائب بنانا بھی کافی نہیں ہے۔ نماز طواف میں جماعت کا شرعی جواز ثابت نہیں ہے لہذا جیسے بھی ہوسکے خود پڑھے اور احتیاطا نائب بھی بنائے۔ دو عمرہ کا فاصلہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ حج کی طرح عمرہ کی تکرار بھی مستحب ہے اور دو عمرہ کے درمیان کے فاصلہ کے سلسلہ میں علما نے اختلاف کیا ہے اور احوط یہ ہے کہ ایک مہینہ سے کم میں قصد رجاء کے ساتھ انجام دیا جائے۔ ۱۔ دو عمرہ کے درمیان کسی معین فاصلہ کا ہونا شرط نہیں ہے لیکن احتیاط کی بنا پر ایک مہینہ میں صرف ایک عمرہ اپنے لئے انجام دے سکتا ہے لیکن غیر کے لئے ہر ایک کی طرف سے ایک عمرہ انجام دینا جائز ہے۔ ۲۔ عمرہ تمتع کے بعد اور حج تمتع سے پہلے عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے اور اگر انجام دے دے تو عمرہ مفردہ کی صحت محل اشکال ہے لیکن عمرہ تمتع اور حج تمتع میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے۔ احرام حج امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے احتیاط واجب یہ ہے کہ جو شخص عمرہ تمتع سے فارغ ہوجائے اور محل بن جائے وہ کسی ضرورت کے بغیر مکہ سے باہر نہ جائے اور اگر باہر جانے کی کوئی ضرورت پڑجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ حج کے احرام کے لئے محرم ہو اور پھر باہر جائے اور اسی احرام کے ساتھ اعمال حج کے لئے پلٹے۔ عمرہ تمتع کے بعد اگر حج کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہو تو مکہ کے باہر قریب کے علاقوں کی طرف نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قربانی امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ قربانی کے شرائط میں سے یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا نہ ہو۔ ۱۔ قربانی کا بوڑھا نہ ہونا شرط نہیں ہے۔ ۲۔ قربانی کی ساتویں شرط یہ ہے کہ اس کے بیضہ کچلے ہوئے نہ ہوں، احتیاط واجب کی بنیاد پر۔ ۲۔ بیضہ کا کچلا ہوا نہ ہونا شرط نہیں ہے مگر یہ کہ خصی ہونے کی حد تک پہنچ جائے ۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مومن ہو، بلکہ یہ قوت سے خالی نہیں ہے اور یہی کفارے کے حیوان کے ذبح کرنے والے کے سلسلہ میں بھی ہے۔ ۳۔ اگر ذبح کرنے والے کو قربانی کرنے میں اپنا نائب بنایا ہو تو [احتیاط واجب کی بنیاد پر مومن ہونا چاہئے] لیکن اگر اس سے صرف ذبح کرنے کا مطالبہ کرے تو ذبح کرنے والے کا مومن ہونا ضروری نہیں ہے اور خود قربانی اور قربت کی نیت کرے گا۔ ۴۔ سوال: اسٹیل کے چاقو سے ذبح کرنا کیسا ہے جس کے بارے میں پتہ نہیں ہے کہ لوہا ہے یا نہیں؟جواب: صحیح نہیں ہے۔ ۴۔ ذبح کرنے کے آلے کو لوہا ہونا چاہئے اور اسٹیل (یعنی لوہا اور زنگ سے حفاظت کا مادہ) در حقیقت لوہا ہی ہے اور اس سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حلق یا تقصیر امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ احتیاط واجب کی بنا پر منی میں پہلے رمی جمرہ کرے اس کے بعد ذبح کرے پھر تقصیر یا حلق۔ ۱۔ اگر قربانی منی میں ہو تو مذکورہ ترتیب واجب ہے اور اگر منی میں نہ ہو تو اس کی رعایت احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے اور دونوں صورت میں اگر رعایت نہ کرے تو گنہگار ہے لیکن اس کا عمل صحیح ہے۔ ۲۔ ایام تشریق کے آخر تک حلق کو موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ عمدا ہی کیوں نہ ہو اور رات میں بھی حلق صحیح ہے اور کافی ہے۔ ۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر حلق یا تقصیر عید کے دن ہونا چاہئے اور اگر اس میں تاخیر کی تو شب یازدہم یا اس کے بعد اس کا انجام دینا کافی ہے۔ منی میں رات گزارنا امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے حاجی کے اوپر واجب ہے کہ شب یازدہم اور شب دوازدہم کو منی میں بیتوتہ کرے یعنی غروب آفتاب سے آدھی رات تک وہاں رہے۔ رات کے شروع سے آدھی رات کے بعد تک یا آدھی رات کے پہلے سے طلوع فجر تک وہاں رہ سکتا ہے۔ آية اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) سے چند استفتاآت ۱۔ براہ کرم غنا اور موسیقی نیز اس کے آلات کے مسئلہ کو سادہ اور قابل فہم طریقہ سے میرے لئے بیان فرمائیں۔ جواب: غنا مرکب ہے لہو و لعب اور عیاشی کی محفلوں سے مناسبت رکھنے والے اور ان محفلوں کے مخصوص گانے سے۔ یہ گانا حرام ہے، گانا بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ موسیقی کے ساز اور آلات بھی اگر اس طرح استعمال کئے جائیں جس طرح عام طور سے مذکورہ محفلوں میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کا استعمال بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ لہذا موسیقی اگر غنا ہو (یعنی مذکورہ محفلوں کے مخصوس انداز کےگانے) یا آلات موسیقی کی آواز ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس طرح کی نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔ ۲۔ عورت کا عورتوں کے درمیان اسی طرح مرد کا مردوں کے درمیان یا محرموں کے درمیان شادیوں میں ناچنا کیسا ہے؟ جواب: ناچنا اگر شہوت کے بھڑکنے یا کسی برائی کے پیدا ہونے یا کسی حرام کے مرتکب ہونے کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے بجز خلوت میں شوہر کے لئے زوجہ کے رقص کے، اسی طرح اس کے برعکس۔ ۳۔ ارواح کے احضار کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر کیا ہے؟ جواب: ارواح کا حاضر کرنا اپنی جگہ کوئی ممانعت نہیں رکھتا مگر یہ کہ کسی حرام کام کے ساتھ ہو یا کسی حرام کام کے انجام دینے کے ارادہ سے ہو۔ ۴۔ ہپناٹزم کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے؟ جواب: عقلائی غرض کے لئے مقابل کی رضایت کی صورت میں فی نفسہ حلال ہے اور کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۔ نامحرم کو دیکھنا کا کیا حکم ہے؟ جواب: نامحرم کے چہرے اور گٹے تک ہاتھوں کو احساس شہوت کے بغیر دیکھنا حرام نہیں ہے۔ ۶۔ اگر ایک اجنبی انسان کے نطفہ کو کسی عورت کے رحم میں ڈالیں تو شرعی اعتبار سے صحیح ہے یانہیں؟ جواب: مذکورہ عمل اپنی جگہ پر شرعی اعتبار سے ممنوع نہیں ہے لیکن حرام نگاہ اور ہاتھ لگانے سے پرہیز کیا جائے۔ ۷۔ اگر زن و شوہر کے ذریعہ بنے ہوئے جنین کو کسی نامحرم عورت کے رحم میں ڈالا جائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ براہ مہربانی مسئلہ کے وضعی احکام بھی بیان فرمائیں۔ جواب: اس کام میں فی نفسہ اشکال نہیں ہے اگرچہ ہاتھ لگانے اور نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا ہوگا اور بچہ صاحب نطفہ مرد و زن سے ملحق ہوگا اور ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے لئے محرمیت ثابت ہوگی اور صاحب رحم عورت کے سلسلہ میں بھی احتیاط کی جائے۔ ۸۔ عورتوں اور مرودں کی وقتی یا دائمی نس بندی کا کیا حکم ہے؟ اگر نس بندی بانجھ ہونے کا سبب ہو تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر نس بندی عقلائی غرض سے، بڑے نقصان کے بغیر اور زوجہ میں شوہر کی اجازت سے ہو تو اس میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے لئے وقتی یا دائمی اسی طرح بانجھ ہونے یا نہ ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ۹۔ میں نے ایک سالہ بچی کو فرزندی میں قبول کیا ہے اب کسی راہ حل کی تلاش میں ہوں جس سے وہ محرم ہوسکے۔ جواب: اس بچی کو مصلحت کی صورت میں اور حاکم شرعی کی اجازت سے اپنے والد کے عقد موقت میں لاسکتے ہیں۔ ۱۰۔ کیا قسامہ میں ایک آدمی پچاس قسم کھا سکتا ہے؟ جواب: قسامہ میں جہاں قسم کھانے والوں کی تعداد (مدعی کی طرف) پچاس افراد سے کم ہو وہاں اس قسامہ کی بنیاد پر حکم کرنے میں واقعی اشکال ہے۔ ۱۱۔ قتل عمد میں اگر مقتول کے سارے کے سارے اولیاء، صغیر یا مجنون ہوں وہاں کیا ولی قہری (باپ یا پدری جد) یا عدالت کی طرف سے معین ہونے والے قیم، قصاص یا دیہ کا مطالبہ کرسکتا ہے؟ جواب: اولیائے صغیر و مجنون کے ادلہ ولایت سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ شارع کی طرف سے ان کی ولایت کا جعل کرنا مولی علیہ کی مصلحت کی حفاظت کے لئے ہے۔ لہذا پیش نظر مسئلہ میں کیونکہ اولیائے دم، صغیر و مجنون ہیں لہذا ان کے شرعی ولی کو چاہئے کہ ان کی مصلحت اور فائدے کے پیش نظر مناسب اقدام کرے اور قصاص یا دیہ یا بامعاوضہ معافی یا بلا معاوضہ معافی کے سلسلہ میں اس کی تشخیص نافذ ہوگی۔ ظاہر ہے کہ صغیر و مجنون کی مصلحت کی تشخیص تمام پہلؤوں کو منجملہ اس کے سن بلوغ سے قریب یا نزدیک ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام پائے گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمآزاد و سربلند قوم، عزیز ہم وطنو! اس دفعہ بھی آپ کی بھرپور اور حوصلہ مند مشارکت، دشمنوں کے مکر و فریب پر غالب آئی اور اس نے انتخابات کو بے رونق بنانے کے مقصد سے جاری دشمن کی شدید نفسیاتی جنگ کو کھوکھلے حباب میں تبدیل کر دیا۔تیس سال سے کم عرصے میں سخت و سازگار حالات میں تقریبا تیس انتخابات کا انعقاد کرکے اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید دنیا میں یہ ملک حقیقی جمہوری نظام کا حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کونسل کے وسط مدتی اور پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے آٹھویں دور کے انتخابات کے لئے ووٹ ڈالنے کے بعد ایران کے ریڈیو ٹیلی ویزن ادارے آئی آر آئ بی کے ایک نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات کسی بھی قوم کے لئے ایک معینہ دور کے لئے انتہائي فیصلہ کن ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کونسل کے وسط مدتی اور پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے آٹھویں دور کے انتخابات کے لئے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں اپنا ووٹ ڈالا۔ آپ نے ووٹنگ کا وقت شروع ہوتے ہی اس جمہوری عمل میں شرکت کی اور اپنے حق رای دہی کا استعمال کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج صبح ملک بھر سے تہران آنے والے ہزاروں افراد سے خطاب میں، جمعے کے روز منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی عزت و سربلندی کے لئے عظیم قومی امتحان قرار دیا اور فرمایا کہ ہوشیار اور مضبوط قوت ارادی کی مالک ایرانی قوم اس دینی و سیاسی فریضے کو ادا کرکے ایک بار پھر عالمی سامراج اور بالخصوص امریکا کو مایوس کر دے گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں تمام بھائي بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو قرب و جوار اور دور دراز سے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں اس محفل کو رونق بخشی ہے۔
میں ماہ ربیع الاول کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور عالم انسانیت کے لئے اہم ترین تاریخی موڑ کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کے پہلے دن، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت فرمائي، مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے، اسی دن سے مسلم معاشرے میں ہجری سال کا آغاز ہوا۔ اس طرح اس مہینے میں ولادت اور ہجرت کی دو بہاریں ہیں۔
پیش نظر اقوال مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہربار احادیث اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات کا وہ انتخاب ہے جو قائد انقلاب اسلامی نے احادیث کی معتبر کتب سے فقہ کے دروس میں حسن آغاز کے عنوان سے مختصر شرح و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ایران میں ہفتہ احسان و نیکو کاری چل رہا ہے۔
اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ضرورتمندوں کی مدد فرمائی۔
آپ نے غریبوں اور ضرورتمندوں کو تقریبا دس لاکھ روپئے کی امداد دی۔
یہ رقم نیشنل بینک میں امام خمینی(رہ) امدادی کمیٹی کے اکاونٹ نمبر3333 میں جمع کرائي گئي۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیتوں اور سامراجی حلقوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک پیغام جاری فرمایا جو مندرجہ ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عظیم مسلم امہ، عزیز ملت ایران!
ان دنوں غزہ میں بڑی بھیانک اور دردناک وارداتیں ہو رہی ہیں، ان پر اپنے غم و اندوہ کو زبان و قلم سے بیان کر پانا ممکن نہیں۔ بےگناہ بچے، عورتیں اور مرد، مہینوں محاصرے کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد اب اپنے گھروں میں صیہونی بربریت اور درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیوں کے طلبا نے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں قائد انقلاب اسلامی کی اقتدا میں نماز مغرب و عشا ادا کی جس کے بعد مجلس و ماتم برپا ہوا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سنگال کے صدر عبد اللہ واد سے ملاقات میں، امریکہ اور بڑی طاقتوں کی زبان کو دھونس اور دھمکی کی زبان قرار دیا اور فرمایا کہ اگر مسلم ممالک متحد ہو جائيں تو یہ زبان بے اثر ہو جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی نظام کے بنیادی اصولوں اور معیاروں پر عوام اور حکام کی پابندی، ان کے بر ملا اور بے جھجک اظہار و بیان اور میدان عمل میں آگاہانہ موجودگی اور استقامت، جوہری توانائي اور دیگر شعبوں میں ملک کی ترقی اور نظام کی سربلندی کا باعث ہے۔
مقدمہتقلیدطہارتوضوغسلتیمماحکام میتقبلہنماز کے اوقاتنمازی کا لباسنمازی کی جگہمسجد کے احکامواجبات نمازنماز جماعتنماز جمعہمسافر کی نمازنماز قضا روزہروزہ کو باطل کر دینے والی چیزیںاعتکافخمساحکام حجکچھ سوالات کے جوابات
مقدمہ
انسان کے اعمال کا صحیح یا غلط ہونا اس بات سے وابستہ ہے کہ وہ دینی مسائل کو کتنا جانتا اور اس کی بنیاد پر کتنا عمل کرتا ہے۔ اور دینی مسائل سے آشنائی کا ایک راستہ یہ ہے کہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید اور پیروی کی جائے۔مرجع تقلید کے فتوے معلوم کرنے کے لئے اس کے رسالہ کو دیکھا جاسکتا ہے جس میں مرجع تقلید کے فقہی نظریات بیان کئے گئے ہوں اور جس کے صحیح ہونے کے بارے میں ہمیں اطمینان ہو۔آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی طاب ثراہ کی رحلت کے بعد چونکہ بہت سے مومنین نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کی تقلید اختیارکی ہے، اور آپ کا رسالہ عملیہ چونکہ زیرترتیب اور ابھی شایع نہیں ہو سکا ہے نیز یہ کہ اجوبۃ الاستفتاآت کے عنوان سے ابتک جو کچھ منظر عام پر آیا ہے اس میں تمام ضروری اور روزمرہ کے مسائل موجود نہیں ہیں لہذا ہم نے ضروری سمجھا کہ مذکورہ کتاب اور معظم لہ سے کئے گئے دیگر سوالات اور ان کے جوابات کو مد نطر رکھ کر جو موصوف نے دیئے ہیں،حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور رہبرمعظم کے فتووں میں موجود اختلاف کو ایک مجموعہ کی صورت میں ترتیب دےدیں تاکہ آپ کے وہ تمام مقلدین جو پہلے امام خمینی(رح)کے مقلد رہ چکے ہیں،دونوں کے فرق کو سمجھ کر آپ کے فتووں تک رسائی حاصل کر سکیں۔
یاد دہانی
*-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ کے مقلدین،زیر نظر مجموعہ میں ذکر شدہ اختلاف فتاویٰ کی روشنی میں اپنے شرعی فریضہ پر عمل کرسکتے ہیں۔ اور اگر ذکر شدہ امور کے علاوہ ان کے سامنے کچھ اور مسائل ہوں تو ان کے بارے میں استفتاء کرسکتے ہیں۔
*-اس مجموعہ میں بیان شدہ بعض امور میں فتووں کا، اختلاف نہیں ہے بلکہ احکام سے متعلق کسی حکم کے بارے میں الگ سے کوئی توضیح یا اضافہ مقصود ہے۔
*-آیۃ اللہ العظمیٰ حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آپ کی تحریر الوسیلہ،کی توضیح المسائل یا عروۃ الوثقٰی کے حواشی سے اخذ کئے گئے ہیں۔
*-اختصار کی خاطر فتووں کے حوالے ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔ضرورت کی صورت میں اصل کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے جونشر معروف قمنے شایع کی ہیں۔
*-اس سائٹ پر جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے داہنی طرف کے ستون میں فہرست وار اور اسی سلسلے میں آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کے فتوے سامنے والے ستون میں نقل کئے گئے ہیں۔
تقلید
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے
۱۔ اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے جو مرد، بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو۔ نیز احتیاط واجب کے تحت اس مجتہد کی تقلید کریں جو دنیا کا حریص نہ ہو اور اپنے زمانے کے مجتہدین سے اعلم ہو۔
۱۔ اگر ایک ہی وقت میں کئی جامع الشرائط، فقہا موجود ہوں اور ان کے فتووں میں اختلاف ہو تو احتیاط واجب کے تحت مقلد اس مجتہد کی تقلید کرے جو ان میں اعلم ہو لیکن اگر اعلم کے فتوے احتیاط کے منافی اور غیر اعلم کے فتوے احتیاط کے موافق ہونا ثابت ہوجائے تو اس صورت میں اعلم کی تقلید واجب نہیں ہے۔
۲۔ اعلم وہ ہے جو کسی مسئلہ کے قواعد اور الٰہی احکام کے سر چشموں کو بہتر طور پر جانتا ہو۔ اور اسی مسئلہ کی طرح دیگر مسائل اور روایات کے سلسلہ میں بھی زیادہ معلومات رکھتا ہو اسی طرح روایات کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ مختصر یہ کہ جو شخص احکام شرعی کے استنباط میں زیادہ ماہر ہو۔
۲۔ اعلم وہ ہے جو دلیلوں کے ذریعہ حکم خدا کی شناخت اور الہی فرائض کے استنباط میں دوسرے مجتہدین سے زیادہ قوی ہو اور اپنے زمانے کے حالات کی شناخت بھی مجتھد کے اجتہاد میں اس حد تک دخیل ہے کہ جتنی احکام شرعی کے موضوعات کی تشخیص اور احکام شرعی کے بیان کے لئے فقہی رائے کا مالک ہونا دخیل ہے۔
۳۔ ابتداءاً تقلید میت جائز نہیں ہے۔
۳۔ کسی مرحوم مجتہد کی تقلید، ابتدائی تقلید کی صورت میں احتیاط واجب کی بنیاد پر جائز نہیں ہے۔سوال: وہ نوجوان جو نئے نئے بالغ ہوئے ہیں اور انھوں نے آپ کی تقلید اختیار کی ہے چونکہ تقلید کی ابتدا کر رہے ہیں اور ان کے لئے شرعی مسائل سے آشنائی ضروری ہے، تو کیا وہ امام خمینی (قدس سرہ) کے رسالے سے استفادہ کرسکتے ہیں؟جواب: عمومی مسائل میں،جن کی ہمارے عزیز جوانوں کو ضرورت ہے حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے رسالے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر اپنے کسی مسئلہ کا جواب اس میں نہ ملے تو استفتاء کرسکتے ہیں۔
طہارت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ آب کر کلو گرام کے مروجہ وزن کے اعتبار سے تقریباً ۴۱۹/ ۳۷۷ کلو گرام ہے۱۔ تقریبا ۳۸۴ لیٹر ہے
۲۔ سوال: طہارت کے لحاظ سے اہل کتاب کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے؟جواب: غیر مسلم کسی بھی دین یا مذہب سے کیوں نہ ہو نجاست کا حکم رکھتا ہے۔
۲۔ سوال: (اہل کتاب) طہارت کے حکم میں ہیں یا نجاست کے؟جواب: اہل کتاب کی ذاتی نجاست، ثابت نہیں ہے، ہماری نظر میں وہ ذاتی طہارت رکھتے ہیں۔اہل کتاب میں یہودی، عیسائی، زرتشتی،اور صابئی شمار ہوتے ہیں۔
۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ یا بیٹ نجس ہے۔
۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ نجس نہیں ہے۔
۴۔ جو خون انڈوں میں ہوتا ہے وہ نجس نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اور اگر خون کو انڈے کی زردی میں اس طرح ملادیں کہ اس کا وجود ختم ہوجائے تو زردی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۴۔ انڈوں میں پایا جانے والا خون پاک ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے۔
۵۔ سوال: وہ چمڑا جو بیرونی ممالک سے آتا ہے اور جس سے جوتے وغیرہ بنتے ہیں وہ پاک ہے یا نجسَ۔جواب: جو چمڑا اسلامی ممالک سے آّتا ہے وہ طہارت کا حکم رکھتا ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ غیر شرعی طریقے سے ذبح ہوا ہے۔ اسی طرح غیر اسلامی ممالک سے آنے والا چمڑا نجس ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا آپ اس بات کا احتمال دیں کہ ملک میں درآمد کرنے والا مسلمان ہے جس نے حیوان کے تزکیہ کے بعد چمڑا مسلمانوں کے اختیار میں دیا ہے۔
۵۔ سوال: اس گوشت، چمڑے اور حیوانی اعضاء کے سلسلہ میں اپنی مبارک نظر تحریر فرمائیں جو غیر اسلامی ممالک سے فراہم کیا گیا ہےَ۔جواب: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ حیوان کو اسلامی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے تو پاک ہے اور اگر یقین ہو کہ اسلامی طریقہ سے ذبح نہیں ہوا ہے تو نجس ہے۔۶۔ شراب اور ہر وہ چیز جو انسان کو مست کردیتی ہے اگر قدرتی طور پر بہنے والی (سیال) ہے تو نجس ہے۔۶۔ مست کردینے والے مشروبات احتیاط کی بنیاد پر نجس ہیں۔۷۔ جو چیز کسی نجس چیز میں مل کر نجس ہوگئی ہو اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو اس کو بھی نجس کردیتی ہے اور اسی طرح تین مرحلوں تک نجاست کا یہ سلسلہ رہے گا لیکن اس کے بعد نجاست نہیں پھیلے گی۔۷۔ جو چیز عین نجس سے لگنے کی وجہ سے نجس ہوچکی ہے وہ اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے اور اِن دونوں میں کوئی ایک چیز تر ہو تو وہ پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ اور اگر یہ چیز جو نجس چیز سے مل کر نجس ہوئی ہے یعنی (متنجس) پھر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو بنا بر احتیاط اس پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ لیکن یہ آخر میں نجس ہونے والی چیز (متنجس سوم) کسی اور چیز میں لگے تو اس چیز کو نجس نہیں کرے گی۔۸۔ اگر کسی مسلمان کا لباس یا اس کا بدن یا اس کی کوئی اور چیز مثلا برتن یا بستر وغیرہ (جو اس کے استعمال میں ہو) نجس ہوجائے اور پھر یہ مسلمان غائب ہوجائے تو اگر یہ احتمال ہو کہ غائب ہونے والے نے اس چیز کو پاک کر دیا ہوگا یا وہ چیز اس کے ذریعہ مثلا آب جاری میں گرنے سے پاک ہوگئی ہے، تو اس چیز کے استعمال سے پرہیز ضروری نہیں ہے۔۸۔ اگر یقین کہ کسی مسلمان کا بدن، لباس یا اس کی کوئی اور ذاتی چیز نجس ہوگئی ہے اور ایک مدت تک وہ مسلمان دکھائی نہ دے اور پھر جب دکھائی دے تو وہ مسلمان اس چیز سے پاک چیزوں کی طرح کام لے رہا ہو تو وہ چیز طہارت کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن شرط ہے کہ اس چیز کا مالک اس کی پہلی نجاست سے اور طہارت و نجاست کے احکام سے واقف ہو۔۹۔ پیشاب کا مقام پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک نہیں ہوتا اور اگر مرد پیشاب کے بعد ایک بار دھولیں تو کافی ہے لیکن عورتیں اور اسی طرح وہ لوگ جن کا پیشاب غیر فطری مقام سے خارج ہوتا ہے ان کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ دو بار دھوئیں۔۹۔ سوال: رفع حاجت کے بعد پیشاب کا مقام کتنی بار دھونے سے پاک ہو تا ہے؟جواب: پیشاب کا مقام احتیاط واجب کی بنا پر دو بار دھونے سے پاک ہوجاتا ہے۔۱۰۔ پخانے کے مقام کا پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک ہونا محل تامل ہے لیکن (نجاست کے صاف ہو جانے کے بعد،پانی سے پاک کرنے سے پہلے) نماز پڑھی جاسکتی ہے۔۱۰۔ پخانے کے مقام کو دو طرح سے پاک کیا جا سکتا ہے: ایک تو یہ کہ پانی سے دھوئیں یہاں تک کہ نجاست زائل ہوجائے،اس کے بعد(طہارت کے لئے) پانی ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ تین پاک پتھروں یا کپڑوں یا اسی طرح کی کسی اور چیز سے نجاست کو صاف کریں اور اگر تین ٹکڑوں سے نجاست پورے طور پر صاف نہ ہو تو اور ٹکرے استعمال کرکے پوری طرح صاف کریں۔ چنانچہ تین ٹکڑوں کے بجائے ایک ہی پتھر یا کپڑے کے تین الگ الگ حصوں سے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔
وضو
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ (وضو میں) سر کے مسح کے بعد ہاتھوں میں بچی ہوئی وضو کے پانی کی اس تری سے پیروں کا مسح کسی ایک انگلی کے سرے سے پیروں کے ابھار تک کریں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے جوڑ تک مسح کریں۔۱۔ پیروں کے مسح میں پاؤں کے جوڑ تک (ہاتھوں کی انگلی)کھینچنا چاہیئے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوئیں اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔ اور ہاتھوں کو بھی کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیئے۔۲۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور تیسری مرتبہ (یا اس سے زیادہ) حرام ہے۔ اور اگر ایک چلو پانی سے پورے عضو کو دھولے اور وضو کی نیت سے ہی پانی ڈالے تو ایک مرتبہ حساب ہو جائے گا چاہے ایک بار کا قصد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور اس کے بعد غیر شرعی ہے۔ پہلی باردوسری بار یا اس سے زیادہ کا تعین وضو کرنے والے کی نیت پر ہے یعنی پہلی بار کی نیت سے ایک شخص کئی بار چہرے پر پانی ڈال سکتا ہے۔۴۔ دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ سر کے اگلے حصہ کا مسح کرے اور ضروری نہیں ہے کہ مسح داہنے ہاتھ سے ہی ہو یا اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔۴۔ سر اور پیر کا مسح ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ کرنا چاہئے۔ اور احتیاط یہ ہے کہ سر کا مسح داہنے ہاتھ سے کیا جائے لیکن مسح کے لئے اوپر سے نیچے کی طرف ہی ہاتھ لے جانا ضروری نہیں ہے۔۵۔ اگر چہرے یا ہاتھ پر کوئی زخم،پھوڑاپھنسی یاچوٹ ہو اور پٹی یا پھانبا وغیرہ ہٹا کر اس کو کھولا جا سکتا ہو تو اگر اس پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو لیکن گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو واجب ہے کہ گیلا ہاتھ اس پر پھیرے۔۵۔ اگر وضو کے اعضاء پر کوئی زخم یا چوٹ ہو اور وہ کھلا ہوا ہو اور پانی ڈالنا اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو اسے دھونا چاہئے لیکن اگر دھونا نقصان دہ ہے تو اس کے اطراف کو دھوئے اور احتیاط یہ ہے کہ اگر اس پر گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو گیلا ہاتھ پھیر لینا چاہیئے۔۶۔ اگر زخم یا پھوڑا یا چوٹ سر کے اگلے حصہ میں یا پاؤں کے اوپر ہے اور وہ کھلا ہوا ہے تو اگر سر یا پیر کا مسح نہ کرسکتا ہو تو مسح کی جگہ ایک پاک کپڑا رکھے اور ہاتھ میں وضو کی بچی ہوئی تری سے ہی اس کپڑے کے اوپر سے مسح کرلے، اور احتیاط مستحب کے تحت تیمم بھی کرے۔ اور اگر کپڑا رکھنا ممکن نہ ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے اور بہتر ہے کہ بغیر مسح کا ایک وضو بھی کرے۔۶۔ اگر مسح کی جگہ پر زخم ہے اور اس پر گیلا ہاتھ نہ پھیرسکتا ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے لیکن اگر زخم کے اوپر کوئی کپڑا رکھ کر ہاتھ پھیر سکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ تیمم کے علاوہ اس طرح کے مسح کے ساتھ وضو بھی کرے۔
غسل
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ غسل ترتیبی میں،غسل کی نیت کے ساتھ پہلے سر وگردن، پھر بدن کا داہنا حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں حصہ دھوئے۔۱۔ غسل ترتیبی میں بدن کے آدھے داہنے حصہ کو بائیں حصہ سے پہلے دھونا احتیاط پر مبنی ہے [یعنی احتیاط واجب کے تحت پہلے بدن کے آدھے داہنے حصہ کو دھوئے اور پھر بائیں حصہ کو دھوئے]۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں،قرآن کے ان سوروں کا پڑھنا بھی ہے جن میں سجدہ واجب ہے، یعنی ۳۲واں سورہ (الم تنزیل)، ۴۱واں سورہ (حم سجدہ)، ۵۳واں سورہ (والنجم) اور ۹۶واں سورہ (اقرأ) اور اگر ان چاروں سوروں کا ایک حرف بھی پڑھے تو بھی حرام ہے۔۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں سے، واجب سجدے والی آیتوں کا پڑھنا بھی ہے [لہذا ان سوروں کی دوسری آیتوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے]۳۔ اگر زندہ جسم سے کوئی ہڈی والا حصہ جدا ہو جائے اور اس جدا شدہ حصہ کو غسل دینے سے پہلے،کوئی انسان چھودے تو اسے چاہئے کہ غسل مس میت کرے۔ لیکن اگر جدا شدہ حصہ ہڈی سے عاری ہو تو اس کے چھونے سے غسل مس میت واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر کسی میت کو غسل دینے سے پہلے جسم سے کوئی ایسی چیز جدا کی جائے جو اگر جسم سے متصل ہوتی تو اس کے چھونے سے غسل واجب ہوجاتا تو مردہ کے بدن سے اس کے جدا کر لینے کے بعد بھی اگر اس چیز کو چھوئیں گے تو غسل واجب ہو جائے گا۔۳۔ مردے کا بدن ٹھنڈا ہونے کے بعد اور اس کو غسل دینے سے پہلے میت سے جدا شدہ کسی حصہ کا چھونا جسم مردہ کو چھونے کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اس حصہ کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا جو انسان کے مرنے سے پہلے ہی اس کے جسم سے جدا کردیا گیا ہو۔
تیمم
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں: اول: نیت۔ دوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کی ایسی چیز پر مارنا کہ جس پر تیمم صحیح ہے۔سوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر، سر کے بالوں کی جڑوں سے ابرؤوں تک اور ناک کے اوپر اور احتیاط واجب کے تحت ہتھیلیوں کو ابرؤوں پر بھی پھیرا جائے۔چہارم: بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا پھر اسی طرح دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا۔٭ غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق نہیں ہے۔۱۔ سوال: تیمم کا طریقہ کیا ہے؟ کیا غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق ہے؟جواب: تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ: پہلے نیت کریں پھر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایسی چیز پر ماریں کہ جس پر تیمم صحیح ہے اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ، پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے ابرؤں تک اور ناک کے اوپر کھینچیں اور آخر میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیریں۔اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بعد دوبارہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے۔ یہ طریقہ غسل اور وضو دونوں کے بدلے میں کئے گئے تیمم میں یکساں ہے۔۲۔ سیاہ سنگ مرمر،چونے کے پتھر(gypsum) نیز دیگر تمام قسم کے پتھروں پر تیمم صحیح ہے لیکن جواہرات مثلا عقیق اور فیروزہ کے پتھر پر تیمم باطل ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خاک یا ایسی دوسری چیزوں کے ہوتے ہوئے کہ جن پر تیمم صحیح ہے،چونے اور آہک پر بھی تیمم نہ کریں۔۲۔ سوال: چونے کے پتھر(gypsum)،پختہ چونے یا آہک کے پتھر(lime.stone)،اور اینٹ پر تیمم کرنا کیسا ہے؟جواب: تیمم ہر اس چیز پر صحیح ہے جو زمین کا حصہ کہلائے مثلا چونے کے پتھر اور آہک کے پتھر پر تیمم صحیح ہے بلکہ چونے،پختہ آہک،اینٹ اور اس کے مثل چیزوں پر بھی صحیح ہونا بعید نہیں ہے [یعنی ان پر تیمم کیا جاسکتا ہے]سوال: کیا سیمینٹ اور ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کیا جا سکتا ہے؟جواب: ان دونوں چیزوں پر سجدہ اور تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ ان پر تیمم سے پرہیز کیاجائے۔۳۔ تیمم کے لئے پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ان کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اور اگر ہتھیلی نجس ہو اور اسے پاک نہ کیا جا سکتا ہو تو اسی نجس ہتھیلی سے تیمم کریں گے۔۳۔ سوال: آپ کی نظر میں جس چیز پر تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا ضروری ہے تو کیا اعضائے تیمم (پیشانی اور ہاتھ کی پشت) کا پاک ہونا بھی ضروری ہےَ۔جواب: احتیاط یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پاک ہو اور اگر محل تیمم کا پاک کرنا ممکن نہ ہو تو بغیر پاک کئے ہی تیمم کرے۔ اگرچہ طہارت کی شرط نہ ہونا دونوں صورتوں میں بعید نہیں ہے۔۴۔ اگر غسل کے بدلے میں تیمم کرے اور پھر وضو کو توڑنے والا کوئی حدث سرزد ہوجائے تو اگر بعد کی نمازوں کے لئے بھی غسل نہ کرسکتا ہو وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو وضو کے بدلے میں تیمم کرے۔۴۔ جس نے غسل کے بدلے میں تیمم کیا ہو اگر اس سے حدث اصغر صادر ہوجائے مثلا پیشاب کرلے تو بعد کی نمازوں کے لئے اگر اب بھی غسل نہ کرسکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنیاد پر غسل کے بدلے دوبارہ تیمم کرے اور وضو بھی کرے۔۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو نماز ساقط ہے۔ لیکن احتیاط مستحب ہے کہ بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کی قضا بھی بجا لائے۔۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنیاد پر نماز وقت کے اندر وضو اور تیمم کے بغیر پڑھ لے اور پھر وضو یا تیمم کے ساتھ اس کی قضا بجا لائے۔۶۔ اگر ضرر کے یقین یا ضرر کے خوف کی وجہ سے تیمم کرے اور نماز سے پہلے پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر نماز کے بعد پتہ چلے تو نماز صحیح ہے۔۶۔ اگر کوئی یہ سمجھ کر تیمم کرے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ ہے اور اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے کہ نقصان دہ نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلے پانی ضرر نہیں کرتا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر وضو کرے یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔
احکام میت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ جو مسلمان عالم احتضار یعنی جانکنی کی حالت میں ہو اسے اس طرح چت لٹانا چاہئے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم سب کے لئے ہے چاہے مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا کوئی فرق نہیں ہے۔۱۔ مناسب ہے کہ مسلمان کو احتضار کی حالت میں پیٹھ کے بل (چت) قبلہ کی طرف اس طرح لٹائیں کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ بہت سے فقہاء نے اس کام کو خود مرنے والے پر (اگر وہ قادر ہو) یا پھر دوسرے لوگوں پر واجب سمجھا ہے۔ اور اس میں احتیاط ترک نہیں ہونا چاہئے۔۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور عاقل ہونا ضروری ہے، نیز مسائل غسل کو بھی جانتا ہو اور احتیاط واجب کی بنا پر وہ بالغ بھی ہو۔۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور بالغ و عاقل ہونا ضروری ہے، نیز غسل کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔
قبلہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاگر قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہ ہو یا یہ کہ کوشش کرنے کے بعد بھی کسی سمت کی طرف گمان (غالب) پیدا نہ ہو سکے تو اب اگر نماز کے وقت میں وسعت ہو تو چاروں طرف چار مرتبہ نماز پڑھے اور اگر چار مرتبہ نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جس قدر وقت میں گنجائش ہو اتنی سمت میں نمازیں پڑھے ...جس کے پاس قبلہ معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہ ہو اور اس کا گمان بھی کسی سمت کی طرف نہ جارہا ہو تو احتیاط کی بنیاد پر چاروں طرف نماز پڑھے اور اگر چار نماز پڑھنے کا وقت نہ تو جس قدر وقت ہو اتنی سمت نماز پڑھے۔
نماز کا وقت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: چاندنی راتوں کی فجر صادق کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر مبارک یہ ہے کہ کچھ دیر انتظار کیا جائے یہاں تک کہ فجر کی سفیدی چاندنی پر غالب آجائے تو کیا حضرت عالی کا فتویٰ اب بھی اسی طرح ہے؟ اگر جواب مثبت ہو تو یہ انتظار کتنے منٹ تک ہونا چاہیئے اور ماہ قمری میں یہ چاندنی راتیں کتنی راتیں ہیں؟جواب: اس کا معیار وہ راتیں ہیں جن میں چاندنی طلوع فجر پر غالب رہتی ہے اس میں نماز کے لئے اتنا انتظار کرنا چاہئے کہ طلوع فجر کی روشنی نمایاں ہوجائے۔۱۔ سوال: چاندی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ ۱۵سے بیس منٹ تک انتطار کیا جائے جبکہ گھڑی کے اعتبار سے نماز کا وقت ہوچکا ہو اور اس ذریعہ سے طلوع فجر کے سلسلہ میں یقین کا حاصل کرنا بھی ممکن ہو؟جواب: طلوع فجر، نماز صبح کے اول وقت اور اسی طرح وقت سحری کے اختتام اور روزہ کا وقت شروع ہونے کا تعین کرنے کے سلسلہ میں چاندی راتوں اور اندھیری راتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط اچھی ہے۔سوال: سلام و تحیات کے ساتھ! ماہ رمضان المبارک کی آمد اور اسی طرح شہروں کی توسیع اور طلوع فجر کی دقیق تشخیص نہ ہوسکنے کے پیش نظر جناب عالی سے گزارش ہے کہ روزہ کے لئے ترک سحر اور اقامہ نماز صبح کے اوقات کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک کو بیان فرمائیں۔جواب: مناسب ہے کہ مومنین محترم ایدھم اللہ تعالی احتیاط کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے روزے کے لئے ترک سحر اور نماز صبح کے سلسلہ میں(اسلامی جمہوریہ ایران کے)ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی اذان کے شروع ہونے کے ساتھ ہی سحری کھانا ترک کردیں اور اذان سے پانچ چھ منٹ بعد نماز صبح ادا کریں۔۲۔ نماز عصر کا مخصوص وقت وہ ہے جب وقت مغرب میں صرف اتنا وقت باقی رہ جائے کہ اس میں صرف نماز عصر پڑھی جاسکتی ہو۔۲۔ سوال: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟جواب: نماز عصر کا آخری وقت، غروب آفتاب تک ہے۔۳۔ انسان اس وقت نماز شروع کرسکتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے یا یہ کہ دو مرد عادل وقت نماز ہو جانے کی خبر دیں۔ لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر(اول وقت کے تعین کے لئے)مؤزن کی اذان کافی نہیں ہے اگرچہ مؤذن عادل اور موثق ہی کیوں نہ ہو۔۳۔ نماز شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کا انسان یقین پیدا کرلے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے یا دو عادل مرد خبر دیں کہ وقت ہوچکا ہے یا یہ کہ کوئی موثق اور وقتِ نماز پہچاننے والا موذن اذان دے۔۴۔ اگر بھولے سے نماز ظہر پڑھنے سے پہلے ہی نماز عصر شروع کردے اور درمیان نماز یاد آجائے کہ نیت میں غلطی ہو گئی ہے تو اگر یہ وقت،ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دینا چاہیئے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ میں نے اب تک پڑھا ہے اور جس نماز میں مشغول ہوں اور جو کچھ ابھی پڑھوں گا وہ سب نماز ظہر ہوگی اور نماز ختم کرنے کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ وقت ظہر کا مخصوص وقت ہو تو نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹادے اور نماز کو ختم کرے اور پھر نماز عصر پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ نماز (ظہر و) عصر کو بھی اس کے بعد پڑھے اور یہ احتیاط بہت اچھی چیز ہے۔۴۔ اگر یہ سمجھ کر نماز عصر شروع کی ہے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور درمیان نماز یاد آ جائے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے تو اگر یہ وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو فورا نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا اور نماز کو ختم کرے گا اور اس کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ اتفاق نماز ظہر کے مخصوص وقت میں پیش آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا لیکن نماز کو ختم کرنے کے بعد دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کو ترتیب کے ساتھ بجا لائے گا۔ اور نماز مغرب و عشاء میں بھی یہی شرعی فریضہ ہے۔
۱۔ نماز ظہر کا مخصوص وقت،وقت ظہر شروع ہونے کے بعد اتنی مدت تک رہتا ہے کہ جس میں غیر مسافر چار رکعت اور مسافر دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہو۔
نمازی کا لباس
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ مرد کے لئے سونے کے زیورات مثلا گلے میں سونے کی زنجیر یا سونے کی انگوٹھی پہننا یا سونے کی گھڑی باندھنا حرام ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔۱۔ سونے کی زنجیر پہننا، سونے کی انگوٹھی پہننا اور سونے کی گھڑی باندھنا مردوں کے لئے حرام ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ان کے ساتھ نماز باطل ہے۔۲۔ سوال: توضیح المسائل میں مسئلہ نمبر ۸۳۱ سے ۸۸۳ تک مردوں کے لئے یہ توضیح دی گئی ہے کہ نمازی مرد کا لباس زردوزی کا نہیں ہونا چاہئے۔ تو آیا یہاں زرد سونا مراد ہے یا سرخ اور سفید سونا بھی اس میں شامل ہے؟ (کیونکہ جناب عالی نے پلیٹینیم پہننے کی اجازت دی ہے) لہذا فرمائیں کہ سونے کا رنگ شرط ہے یا سونے کی حقیقت؟جواب: سفید سونے (پلیٹینیم) میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہی عام سونا ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ اس کا رنگ بدل گیا ہو۔۲۔ سوال: حضرت عالی کی نگاہ میں کیا سفید سونے کا استعمال میں مردوں کے لئے کوئی حرج ہے؟جواب: اگر سونا ہے اور کسی دوسرے مادہ کو ملادینے کی وجہ سے اس کا رنگ سفید ہو گیا ہے تو حرام ہے لیکن اگر پلیٹینیم ہے یا سونے کا مادہ اس میں اتنا کم ہو کہ بول چال میں اسے سونا نہ کہا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔۳۔ نمازی مرد کا لباس خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے اور نماز کے علاوہ بھی اس کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔ اور جو چیزیں نماز میں اکیلے پہننے سے نماز نہیں ہوتی جیسے ازاربند اور رومال وغیرہ، احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ بھی خالص ریشم کی نہ ہوں۔۳۔ نمازی مرد کا لباس،حتی رومال، جراب اور لباس کا استر بھی خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے۔ اور نماز کے علاوہ بھی ریشم کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔۴۔ تین صورتوں میں جن کی تفصیل بعد میں آئے گی اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے:اول: یہ کہ جسم کے زخم یا چوٹ یا پھوڑے کی وجہ سے کسی کا لباس یا بدن خون آلود ہو جائے۔دوم: یہ کہ بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم جگہ پر تقریبا ایک اشرفی کے برابر،خون لگا ہو۔سوم: ...۴۔ اگر نمازی کا بدن یا لباس،زخم، چوٹ یا پھوڑے پھنسی کے علاوہ کسی اور وجہ سے خون آلود ہو جائے اور خون کی مقدار انگشت شہادت کی پور سے کم جگہ پر ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ جگہ پر ہو تو صحیح نہیں ہے۔۵۔ اگر حیض یا نفاس کا خون،سوئی کی نوک کے برابر بھی نمازی کے لباس یا بدن پر ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنیاد پر خون استحاضہ بھی نمازی کے بدن یا لباس پر نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر دوسرا خون مثلا انسان کے بدن کا خون یا کسی حلال گوشت جانور کا خون یا کتے، سور، کافر، مردار یا کسی حرام گوشت جانور کا خون، اگرچہ نمازی کے بدن یا لباس پر کئی جگہ موجود ہو لیکن ان سب کو جمع کرنے سے خون ایک درہم سے کم جگہ میں ہو (جو تقریبا ایک اشرفی کے برابر ہوتی ہے) سے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر بھی احتیاط یہ ہے کہ کتے، کافر، مردار اور حرام گوشت جانور کے خون سے بچا جائے۔۵۔ ماقبل مسئلہ کے حکم سے خون حیض مستثنی ہے کیونکہ اس کا اگر معمولی سا خون بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگ جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر خون نفاس و استحاضہ نیز نجس العین اور حرام گوشت اور مردار کے خون کا بھی یہی حکم ہے بلکہ یہ حکم نفاس اور استحاضہ کے علاوہ، قوت سے خالی نہیں ہے۔
نمازی کی جگہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ (نمازی کی جگہ کے لئے) پانچویں شرط یہ ہے کہ نمازی کی پیشانی اس کے زانو کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ اور احتیاط واجب یہ ہے کہ (پیشانی) پیروں کی انگلیوں کے سروں سے بھی اس سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔۱۔ ضروری ہے کہ نمازی کی پیشانی کی جگہ اس کے زانوؤں اور پیروں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔۲۔ احتیاط مستحب کی بنا پر(نماز میں)عورت کو مرد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیئے اور اس کے سجدہ کی جگہ مرد کے کھڑے ہونے کی جگہ سے کچھ پیچھے ہونا چاہیئے۔۲۔ ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں عورت اور مرد کے درمیان کم از کم ایک بالشت کا فاصلہ ہو اور اس صورت سے اگر مرد و عورت ایک دوسرے کے برابر میں کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے بھی کھڑی ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے، یہ حکم احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے۔۳۔ خانہ کعبہ کے اندر(حجرے میں)یا اس کی چھت پر واجب نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔۳۔ خانہ کعبہ کے اندر نماز واجب کا پڑھنا مکروہ ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی چھت پر نماز نہ پڑھے۔۴۔ انسان کو چاہئے کی ادب کی رعایت کرے اور پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر سے آگے نماز نہ پڑھے چنانچہ اگر نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو نماز پڑھنا حرام ہے لیکن نماز باطل نہیں ہے۔۴۔ نمازی کو نماز پڑھتے وقت پیغبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر کے آگے کھڑا نہیں ہونا چاہئے لیکن برابر میں کھڑے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسجد کے احکام
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر مسجد کو غصب کرلیں اور اس کی جگہ گھر وغیرہ بنالیں اس طرح کہ اس کو اب مسجد نہ کہا جاتا ہو تو بھی اس جگہ کا نجس کرنا حرام اور اس کو پاک کرنا واجب ہے۔۱۔ جو مسجد غصب، منہدم اور متروک ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی اور عمارت بنادی جائے یا متروک رہنے کے سبب اس کے مسجد ہونے کے آثار مٹ چکے ہوں اور اس کی تعمیر نو کی امید بھی نہ ہو اس طور پر کہ وہاں کے باشندے وہاں سے کوچ کرچکے ہوں تو اس جگہ کا نجس کرنا حرام ہو معلوم نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نجس نہ کریں۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے سے نہ سجائیں اور اسی طرح انسان یا حیوان کی مانند ان چیزوں کی تصویر وغیرہ بھی مسجد میں نہ بنائیں کہ جن میں جان ہوتی ہے لیکن پھول پتی کی مانند بے جان چیزوں کی تصویر کشی مکروہ ہے۔۲۔ مسجد کو سونے سے سجانا اگر فضول خرچی میں شمار ہو تو حرام ہے اور بصورت دیگر بھی مکروہ ہے۔
واجبات نماز
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ کسی انسان کے لئے اگر یہ احتمال ہو کہ آخر وقت میں شاید کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے تب بھی اول وقت نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نماز میں تاخیر کرے۔۱۔ جس شخص کے لئے یہ احتمال ہو کہ شاید آخر وقت میں کھڑے ہوکر اپنی نماز پڑھ سکے اسے احتیاط کی بنا پر اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے لیکن اگر کسی عذر کے تحت اس نے اول وقت اپنی نماز بیٹھ کر پڑھ لی اور پھر آخر وقت تک اس کا عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور اعادہ ضروری نہیں ہے۔ اور اگر اول وقت کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں تھا اور اسے یقین تھا کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے متعلق اس کی عاجزی اور ناتوانی آخر وقت تک باقی رہے گی لیکن آخر وقت گزرنے سے پہلے،وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قابل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ کھڑے ہوکر نماز کا اعادہ کرے۔۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ نماز کے لئے دائیں کروٹ اس طرح لیٹ جائے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹ جائے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ لیٹ کر نماز پڑھے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اگر ممکن ہو تو دائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کا چہرہ اور بدن قبلہ کی طرف ہو، ورنہ بائیں کروٹ لیٹے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ حمد اور اس کے بعد کوئی ایک مکمل سورہ پڑھنا چاہیئے۔۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو چاہئے کہ پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اس کے بعد احتیاط واجب کی بنیاد پر ایک مکمل سورہ پڑھے۔۴۔ اگر(نماز میں)غلطی سے ایسا سورہ شروع کردے کہ جس میں سجدہ واجب ہے تو اگر آیت سجدہ پر پہنچنے سے پہلے یاد آجائے تو اس سورہ کو چھوڑ کر کوئی اور سورہ پڑھے۔ اور اگر سجدہ والی آیت کو پڑھنے کے بعد یاد آئے تو نماز کے درمیان اشارہ کے ذریعہ سجدہ بجا لائے اور پھر اسی سورہ کے پڑھنے پر اکتفا کرے۔۴۔ نماز واجب میں سجدہ والے سوروں کا پڑھنا جائز نہیں ہے اور اگر عمدا یا سہوا ان میں سے کسی سورے کو پڑھے اور سجدہ والی آیت پر پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر(بیٹھ کر)آیت سجدہ کی تلاوت کے سجدہ کو انجام دے اور پھر کھڑے ہو کر اگر سورہ مکمل نہ ہوا ہو تو مکمل کرے اور پوری نماز اور پھر نماز کا اعادہ بھی کرے۔ اور اگر سجدہ والی آیت پر پہنچنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس سورے کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا سورہ پڑھے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد پھر سے نماز کا اعادہ کرے۔۵۔ نماز میں جب کوئی سورہ پڑھنے کے لئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے تو کہ پہلے سے سورہ کو معین کرلے اور’’بسم اللہ....‘‘ اسی سورہ کی نیت کے ساتھ پڑھے اور اگر سورہ کو معین کرنے کے بعد اس سورہ کو چھوڑدے تو دوسرے سورہ کو پڑھنے کے لئے اس سورہ کی نیت سے دوبارہ’’بسم اللہ...‘‘ پڑھے۔۵۔ سوال: جو انسان پہلے سے ہی سورہ حمد اور سورہ توحید پڑھنے کی نیت رکھتا ہو یا اس کی عادت ہمیشہ یہی ہو اور کسی مخصوص سورہ کا تعین کئے بغیر بلا ارادہبسم اللہ الرحمن الرحیمکھ دے تو کیا اس کے اوپر واجب ہے کہ سورہ کو معین کرنے کے بعد پھر سے’’بسم اللہ...‘‘پڑھے؟جواب: ’’بسم اللہ...‘‘کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ اسی ’’بسم اللہ...‘‘پر اکتفا کرسکتا ہے اور حسب خواہش کوئی بھی سورہ ’’بسم اللہ...‘‘دہرائے بغیر پڑھ سکتا ہے۔۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ،عورت بلند آواز سے اور آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ عورت بلند آواز سے یا آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو بہتر ہے آہستہ پڑھے۔۷۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ الحمد پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی بسم اللہ کو بھی آہستہ پڑھے۔۷۔ مرد اور عورت پر واجب ہے کہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ یا سورہ حمد کو آہستہ پڑھیں لیکن اگر سورہ حمد پڑھیں تو فرادیٰ نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بلند آواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہی ہے کہ’’بسم اللہ...‘‘آہستہ کہیں اور نماز جماعت میں یہ احتیاط، واجب ہے۔`۸۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت کے رکوع میں یا رکوع میں جاتے وقت شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔۸۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے رکوع میں شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔ لیکن اگر رکوع میں جاتے وقت جبکہ رکوع کی حد تک نہ پہنچا ہو شک کرے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر واپس پلٹے اور حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھ کر(رکوع میں جائے)۔۹۔ اگر شک ہو کہ کوئی آیت یا لفظ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں تو اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول نہ ہوا ہو تو پھر سے اس آیت یا لفظ کو صحیح طور سے ادا کرنا چاہیئے۔ اور اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول ہوچکا ہو اور وہ بعد کی چیز رکن ہو مثلا رکوع میں شک کرے کہ سورہ کے فلاں لفظ کو صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اس شک کی طرف دھیان نہ دے، اور اگر وہ(بعد کی)چیز رکن نہ ہو مثلا اگر اللہ الصمد کہتے وقت شک کرے کہ قل ہو اللہ احد صحیح طور پر پڑھا ہے یا نہیں تو بھی یہ کرسکتا ہے کہ اپنے شک کی طرف دھیان نہ دے لیکن اگر احتیاط کے طور پر اس لفظ کو(دوبارہ)صحیح طور سے ادا کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کئی بار شک ہو تو کئی بار دھرا سکتا ہے لیکن اگر(شک) وسواس کی حد تک پہنچ جائے اور بار بار وہ لفظ ادا بھی کیا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔۹۔ اگر کسی آیت کو تمام کرنے کے بعد شک کرے کہ صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیئے،اور یہی صورت ہے اگر آیت کا ایک جملہ پورا کرنے کے بعد اس کے صحیح پڑھنے کے بارے میں شک ہو مثلاایاک نعبدکہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں۔البتہ ان تمام صورتوں میں جس چیز کے صحیح ادا ہونے کے بارے میں شک ہے اگر اسے احتیاطا دوبارہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ اگر رکوع کی حد تک جھکے لیکن ہاتھوں کو گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ احتیاط یہ ہے کہ رکوع میں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے۔۱۱۔ انسان رکوع میں جو بھی ذکر پڑھے وہ کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم وبحمدہ سے کم نہ ہو۔۱۱۔ رکوع میں ایک بار سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبر وغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔۱۲۔ سجدہ میں جو بھی ذکر پڑھے کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی وبحمدہ سے کم نہ ہو۔۱۲۔ سجدہ میں ایک بار سبحان ربی الاعلی و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبروغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کے برابر انسان کا بدن ساکن ہونا چاہئے۔ اور مستحب ذکر میں بھی،اگر اس ذکر کی نیت سے ہو کہ جس کا حکم سجدہ کے لئے دیا گیا ہے،بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے۔۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کہتے وقت بدن ساکن ہونا چاہئے حتی جس وقت کوئی ذکر استحباب کی نیت سے سجدہ میں کہہ رہا ہو مثلا سبحان ربی الاعلی و بحمدہ یا کسی اور ذکر کی تکرار کر رہا ہو تب بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ بدن میں حرکت نہ ہو۔۱۴۔ اگر پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر کھڑا ہوجائے اور رکوع بجا لائے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد دوبارہ نماز پڑھے۔۱۴۔ اگر پہلے سجدہ میں یا اس کے بعد،دوسرے سجدہ میں داخل ہونے سے پہلے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اٹھ کر کھڑا ہو اور رکوع انجام دے اور پھر دونوں سجدے اور نماز تمام کرنے کے بعد سجدہ اضافہ کے لئے احتیاطا دو سجدہ سہو کرے۔
۲۔ اگرچہ(تحریر الوسیلہ میں)صفحہ ۱۵۵ پر مرقوم ۸ویں مسئلہ کی اصل تحریر مطابق اس مسئلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) اور آیۃ اللہ خامنہ ای (مد ظلہ) کے درمیان کوئی اختلاف نظر نہیں ہے۔
نماز جماعت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےامام جماعت کو بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہونا چاہئے وہ،جو نماز کو صحیح طریقہ سے پڑھ سکتا ہو نیز اگر ماموم مرد ہیں تو امام کو بھی مرد ہونا چاہئے... اور احتیاط واجب یہ ہے کہ عورت کا امام بھی مرد ہو۔سوال: کس صورت میں عورت امام جماعت ہوسکتی ہے؟جواب: اگر مامومین میں صرف عورتیں ہوں تو امام جماعت، عورت ہوسکتی ہے۔
نماز جمعہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے اس طرح پڑھنا کہ خطبہ تمام ہوتے ہوئے ظہر کا وقت ہوجائے جائز ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خطبے زوال کے بعد دئے جائیں۔۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے دیئے جا سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ وقت ظہر کے اندر ہو اور احوط یہ ہے کہ پورے خطبے وقت ظہر داخل ہونے کے بعد دئے جائیں۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز جمعہ میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ وہ وقت جسے عرف میں اول ظہر کہتے ہیں گزر جائے اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے تو نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر پڑھے۔۲۔ نماز جمعہ کا وقت اول ظہر سے ہے اور احوط یہ ہے کہ اس کو عرف میں رائج نماز ظہر کے اوائل وقت(تقریبا ایک دو گھنٹہ)سے زیادہ پیچھے نہ لے جائیں۔
مسافر کی نماز
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ مسافر کو آٹھ شرطوں کے ساتھ ظہر،عصر اور عشاء کی نماز قصر کرنا یعنی دو رکعت پڑھنا چاہیئے:ساتویں شرط: مسافر کا پیشہ مسافرت نہ ہو۔ لہذا شتربان، ڈرائیور،چوپان،ملاح اور ان کے جیسے دوسرے افراد خواہ وہ اپنے گھر کا سامان لے جانے کے لئے ہی سفر میں ہوں پہلے سفر کے علاوہ انہیں نماز پوری پڑھنا چاہئے لیکن پہلے سفر میں اگرچہ سفر لمبا ہو جائے ان کی نماز قصر ہے۔۱۔ سوال: کن حالات میں مسافر پر چار رکعتی نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے؟جواب: آٹھ شرطوں کے ساتھ...ساتویں شرط: یہ کہ اس کا پیشہ سفر نہ ہو مثلا چوپان، ڈرائیور، ملاح وغیرہ نہ ہو اور وہ لوگ بھی ان ہی سے ملحق ہوں گے جن کا کام کاج سفر میں ہے۔۲۔ سوال: ایک شخص کسی کمپنی میں مارکٹ آفیسر ہے اور کئی سالوں سے روزانہ صبح کو اپنے وطن سے کام پر جاتا ہے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ ہے اور پھر شام کو پلٹتا ہے اور کبھی کبھی خود ڈرائیونگ کرتا ہے آیا یہ شخص مسافر ہے یا دائم السفر؟جواب: اپنی ملازمت کی جگہ اور راستہ میں یہ شخص مسافر کا حکم رکھتا ہے۔توضیح:امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق اپنے پیشہ ورانہ سفر کے دوران صرف ان لوگوں کا نماز پوری پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ہے کہ جن کا پیشہ ہی مسافرت ہے یعنی ان کے کام کی بنیاد ہی سفر پر قائم ہو اور ان کا کام سفر کے بغیر کسی مستقل جگہ انجام نہ پا سکتا ہو مثلا اپنے شہر سے باہر ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیور، پائلٹ اور ملاح وغیرہ۔ لیکن جن کا پیشہ مسافرت نہیں ہے اگرچہ روزانہ اپنے کام کے لئے سفر کریں ان کی نماز سفر میں قصر ہے اس معلم کی طرح جو روزانہ یا ہر ہفتہ تدریس کے لئے سفر کرتا ہے۔ایک مسئلہ اور ایک استفتاء ملاحظہ کریں:مسئلہ: وہ جس کا پیشہ سافرت نہیں ہے اگر مثال کے طور پر کسی شہر یا گاؤں میں کوئی مال ہے جس کو ڈھونے کے لئے وہ پے در پے سفر کرتا ہے تو اسے اپنی نماز قصر پڑھنا چاہئے۔سوال: فوج نے دیہاتوں میں خدمت کے لئے کچھ لوگوں کو ملازم رکھا ہے اور خود سپاہ کا مرکز بھی ان لوگوں کے کا وطن میں نہیں ہے اور روزانہ یا ہر تیسرے دن انھیں اطراف شہر میں مجبورا سفر کرنا پڑتا ہے تو ان کی نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ مختصر یہ کہ ان کے کام کا لازمہ سفرہے۔جواب: وطن کے علاوہ جہاں بھی ہوں ایک جگہ دس روزہ قیام کی نیت کے بغیر نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے۔۲۔ سوال: جس کا کام کاج سفر میں ہے اس کی نماز اور روزہ کا کیاحکم ہے مثلا وہ ملازم جو اپنی ملازمت پر سفر کرتا ہے یا وہ مزدور جو اپنے کام کی جگہ سفر کرتا ہے اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر ہر دس دن کے اندر کم از کم ایک بار اپنے کام کے لئے اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جاتا ہے تو اس کا حکم اس شخص کی طرح ہے جس کا پیشہ ہی سفر ہو اس کا روزہ صحیح ہے اور نماز پوری پڑھے گا۔توضیح:رہبر معظم انقلاب (مد ظلہ) کے فتوہ کے مطابق جن لوگوں کا کاروبار سفر میں ہے یا اپنے کام کے لئے کم از کم دس دن کے اندر اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جانا پڑتا ہے تو یہ لوگ بھی ان کی طرح ہیں جن کا پیشہ ہی مسافرت ہو یعنی اپنی نمازیں اس طرح کے سفر میں پوری پڑھیں اور ان کا روزہ بھی صحیح ہے، مثلا وہ معلم حضرات جو تدریس کے لئے یا وہ ملازمین جو اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے یا وہ مزدور جو اپنے کام کاج کے لئے ہر ہفتہ کم از کم ایک بار اپنے کام پر ضرور جاتے ہیں اور پلٹ آتے ہیں سفر کے دوران کام پر ان کی نمازیں پوری ہیں۔ لیکن تحصیل علم کے لئے کیا جانے والا سفر،آپ کی نظر میںپیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا الا یہ کہ خود تحصیل کام اور مشغلہ کے طور پر ہو مثلا جو لوگ فوج یا پولیس وغیرہ کی ٹرینیگ کے دوران میں تحصیل علم پر مامور ہوں۔ذرا دو استفتاآت ملاحظہ کریں:سوال: ایک طالبعلم جو ہر ہفتہ تعلیم کے لئے اسکول جاتا آتا ہو اور اس کا اسکول وطن سے چار فرسخ(۱۲میل)یا اس سے زیادہ دوری پر ہو،اپنی نماز اسکول میں پوری پڑھے کا یا قصر ہو گی؟جواب: تعلیم کے لئے سفر پیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا بلکہ جو طالبعلم پڑھنے کے لئے کہیں سفر کرتا ہے وہ عام مسافر کے حکم میں ہے(یعنی اسکول میں نمازیں قصر پڑھے گا)۔سوال: میں شہر رفسنجان میں ملازم ہوں اور تعلیم میں بھی مشغول ہوں۔ وزارت تعلیم و تربیت کے زیر نظر مرکز عالی میں داخلہ مل جانے کے پیش نظر اپنی عام ڈیوٹی کے ساتھ مجھے آفس کی طرف سے ہفتہ کے ابتدا کے تین دنوں میں تحصیل علم کے لئے شہر کرمان جانا پڑتا ہے بقیہ ایام میں خود اپنے وطن میں رہ کر ڈیوٹی انجام دیتا ہوں حضرت عالی کی نظر میں میری نماز روزے کے سلسلہ میں کیا حکم ہے آیا طالب علم ہونے کا حکم میرے اوپر جاری ہوگا یا نہیں؟جواب: اگر تحصیل علم آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ۳۔ جو شخص سفر پر جارہا ہے وہ اس وقت نماز قصر پڑھے گا کہ جب کم از کم اپنے شہر سے اتنا دور نکل چکا ہو کہ شہر کی دیواریں دکھائی نہ دیتی ہوں اور وہاں کی اذان سنائی نہ دیتی ہو ورنہ اگر اس قدر دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو پوری نماز پڑھے گا۔٭ سفر پر جانے والا اگر ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اذان کی آواز نہ سنائی دے لیکن شہر کی دیواریں دکھائی دے رہی ہوں یا (اس کے برعکس) اذان کی آواز سنائی دے لیکن دیواریں نہ دکھائی دیں تو اگر وہاں نماز پڑھنا چاہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر نماز قصر بھی پڑھے گا اور پوری بھی۔۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی رعایت کرے لیکن صرف اذان کی آواز نہ سنے جانے پر اکتفا کرنا بعید نہیں ہے۔ [یعنی اگر شہر سے اتنا دور ہو جائے کہ وہاں کی اذان کی آواز نہ سن سکے لیکن دیواریں دکھائی دے رہی ہوں اور وہاں نماز پڑھنا چاہے تو قصر نماز پڑھنا چاہئے، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پوری بھی یا یہ کہ اتنی دور جانے کے بعد نماز پڑھے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں۔ اور اگر روزہ سے ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ روزہ کو نہ توڑے بلکہ رکا رہے یہاں تک کہ اتنی دور ہوجائے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں]۔۴۔ سوال: ’’بلاد کبیرہ‘‘یعنی بڑے شہروں کے سلسلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) کا فتوہ تفصیل سے بیان فرمائیں۔جواب: غیر معمولی طور پر بڑے شہروں کے سلسلے میں جس کا تعین عرف کے ذریعہ ہوتا ہے،مسافرت کے لئے سفر کے شروع اور اختتام کی منزل خود گھر کو قرار دیتے ہیںس اور دس دن کے قیام کے سلسلہ میں اس کے ایک مخصوص محلہ میں قیام کی نیت کرنا چاہئے [اس وقت ایران میں شہر تہران غیر معمولی بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے]۴۔ سوال: بڑے شہروں کو وطن بنانے اور ان میں دس دن قیام کے سلسلہ میں حضرت عالی کی نظر کیا ہے؟جواب: مسافر کے احکام، وطن بنانے اور دس روز قیام کی نیت سے ٹھہرنے کے سلسلے میں بڑے شہروں اور عام شہروں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ کسی مخصوص محلہ کا تعین کئے بغیر کسی بڑے شہر میں سکونت کی نیت اور ایک مدت تک قیام سے ہی وہ شہر وطن کے حکم میں ہوگا،چنانچہ اگر کسی خاص محلہ کا تعین کئے بغیر پورے شہر میں دس دن کے قیام کی نیت ہو تو روزہ صحیح ہے اور نماز پوری ہوگی۔۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہے اگر شروع سے ہی یہ نیت کر لے کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر میں جائے گا تو اطراف شہر میں وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہے اگر شہر کے دائرے اور اس کی دیوار سے باہر نہ ہو یا اس شہر کے اطراف کے کھیتوں اور باغوں کے درمیان ایسی جگہ ہو کہ وہاں جانا اس شہر میں اقامت کے منافی نہ کیا جائے (یعنی عرف میں یہی کہیں کہ وہ ایک ہی شہر میں دس دن رہا ہے) ایسی صورت میں وہ نماز پوری پڑھے گا۔ لیکن اگر (حد ترخص سے گزر کر) چار فرسخ (یعنی ۱۲میل) کے اندر ہی جانا چاہے تو اگر اس کی نیت میں پہلے سے یہ رہا ہو کہ دس روز میں صرف ایک بار وہاں جائے گا اور آنے جانے میں دو گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگائے تو تمام دس دنوں میں اپنی نماز پوری پڑھے گا۔۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر شروع سے ہی یہ نیت رکھتا ہو کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر (چار فرسخ(۱۲میل)سے کم کی دوری میں) صرف اتنی دور جائے گا،کہ عرف میں یہی کہیں کہ دس دن تک ایک ہی جگہ قیام کیا ہے مثلا اگر ارادہ رکھتا ہے کہ دس دنوں میں کسی ایک دن یا ایک رات کچھ گھنٹوں کے لئے یا اس سے کچھ زیادہ ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات تک کے لئے،صرف ایک بار یا کئی بار شہر کے اطراف میں جائے گا لیکن ان کی مجموعی مدت ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات سے زیادہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نماز پوری رہے گی۔ لیکن اگر دس دن کے قیام کا ارادہ کرتے وقت اس کی نیت میں ہو کہ اس مدت سے زیادہ محل اقامت کے باہر رہے گا تو قیام کی نیت محقق نہیں ہوگی اور وہاں نماز قصر رہےگی۔۶۔مکہ اور مدینہ میں نماز قصر کرنے اور پوری پڑھنے کے درمیان اختیار صرف مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص ہے،یہ حکم پورے مکہ اور پورے مدینہ کے لئے نہیں ہے۔ ہاں یہ اختیار اصل مسجد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مسجد کی موجودہ توسیع شدہ عمارت میں ہر جگہ جاری ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اصل مسجد تک ہی اکتفاء کیا جائے۔ لہذا موجودہ مسجد کے تمام حصوں میں ایک مسافر پوری نماز بھی پڑھ سکتا ہے اور قصر بھی پڑھ سکتا ہے۔۶۔ مکہ اور مدینہ میں ہر جگہ ایک مسافر پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ حکم مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص نہیں ہے۔
قضا نماز
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےباپ کی چھوٹی ہوئی نمازیں اور روزے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہیں کہ وہ ان نمازوں اور روزوں کی قضا بجا لائے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کی قضا نمازوں اور روزوں کو بھی بجا لائے۔ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔
روزہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر کوئی نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے لیکن ظہر سے پہلے ہی متوجہ ہو جائے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اسے چاہئے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا بھی ادا کرے۔۱۔ جس نے رمضان میں بھول کر یا لاعلمی کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور دن میں کسی وقت متوجہ ہو جائے تو اگر اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو، تو اس دن کا روزہ باطل ہے لیکن اس کے بعد بھی غروب تک روزہ کو باطل کرنے والے کاموں سے پرہیز کرے۔ لیکن اگر (ماہ رمضان کی طرف) متوجہ ہونے کے وقت تک کسی ایسے کام کا مرتکب نہ ہوا ہو کہ جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر ظہر سے پہلے متوجہ ہو گیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر روزہ کی نیت کرلے اور روزہ رکھے اور بعد میں اس روزہ کی قضا بھی کرے۔۲۔ جو شخص کسی مرنے والے کے روزے کی ادائیگی کے لئے اجرت لے چکا ہو وہ اگر اپنے مستحبی روزے رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس کے اوپر اپنے روزہ کی قضا یا اور کسی طرح کے واجبی روزے ہوں وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر ظہر سے پہلے اسے یاد آجائے، اس کا مستحبی روزہ باطل ہوجائے گا اور وہ اپنی نیت کو واجب روزہ کی نیت میں پلٹ سکتا ہے، اور اگر ظہر کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ باطل ہے۔ اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اشکال سے خالی نہیں ہے۔۲۔ جس کے ذمہ ماہ رمضان کا قضا روزہ واجب ہے وہ مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا چنانچہ بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر روزہ کے درمیان یاد آجائے اس کا مستحبی روزہ باطل ہو جائے گا اب اگر ظہر سے پہلے یاد آیا ہے تو اس روزہ کی نیت کو ماہ رمضان کی قضا کی نیت میں تبدیل کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔۳۔ اگر مریض ماہ رمضان کی ظہر سے پہلے ٹھیک ہوجائے اور اذان صبح سے اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر کے بعد ٹھیک ہوا ہے تو اس دن کا روزہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔۳۔ اگر مریض، ماہ رمضان میں دن کے وقت ٹھیک ہوجائے تو واجب نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کرے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر سے پہلے ٹھیک ہو گیا ہے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہیں دیا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نیت کر لے اور روزہ رکھے لیکن ماہ رمضان کے بعد اس دن کی قضا بھی کرنا چاہیئے۔۴۔ اگر کسی معینہ واجبی روزہ مثلا ماہ رمضان کے روزہ میں روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کی نیت کرے لیکن اسے انجام نہ دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔۴۔ ماہ رمضان کے روزہ میں اگر دن میں کسی وقت روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے اس طرح کہ روزہ کو جاری رکھنے کا ارادہ باقی نہ رہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور دوبارہ روزہ جاری رکھنے کی نیت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر روزہ رکھنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو یعنی ابھی فیصلہ نہ کیا ہو یا روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ ہو لیکن اسے انجام نہ دیا ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس کے روزہ کی صحت محل اشکال ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ کو مکمل کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی کرے۔دوسرے تمام معینہ واجبی روزوں مثلا معینہ نذر کے روزے وغیرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مبطلات روزہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار اس انجکشن سے پرہیز کرے جو غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے لیکن ایسے انجکشن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جس سے کسی عضو کو بے حس کیا جاتا ہے یا جو دوا کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار طاقت کے یا غذا کے ہر اس انجکشن سے پرہیز کرے جو عضوات میں یا رگوں میں لگائے جاتے ہیں اسی طرح گلوکوز وغیرہ چڑھانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے۔ لیکن بے حس کرنے والے انجکشن کا استعمال نیز زخموں اور چوٹوں پر دوا لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سیگرٹ، تنباکو اور ان جیسی روسری چیزوں کا دھواں حلق میں نہ لے جائے، لیکن گاڑھی بھاپ روزہ کو باطل نہیں کرتی الا یہ کہ وہ منھ میں جاکر پانی ہوجائے اور اسے حلق سے نیچے اتارلے۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار ہر طرح کی دھویں والی چیزوں کے پینے سے پرہیز کرے اسی طرح ایسے منشیات کے استعمال سے بھی پرہیز کرے جو ناک کے ذریعے یا زبان کے نیچے رکھ کر استعمال کئے جاتے ہیں۔۳۔ اگر روزہ دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارہ سے یا ان جیسے کسی اور طریقہ سے خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف عمدا جھوٹی نسبت دے تو اگرچہ فورا یہ کہہ دے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے یا توبہ کرلے پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط واجب کہ تحت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نیز دیگر انبیا اور ان کے جانشین علیہم السلام کے لئے بھی اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔۳۔ احتیاط کی بنیاد پر خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصومین علیہم السلام پر جھوٹ باندھنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اگرچہ بعد میں توبہ کرلے اور کہے کہ میں نے جھوٹ باندھا ہے۔۴۔ اگر ایسی روایت اور قول معصوم نقل کرنا چاہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہ ہو کہ صحیح ہے یا جھوٹی ہے تواحتیاط واجب کی بنیاد پر اس شخص یا کتاب کے حوالے سے اسے نقل کرے کہ جس نے اسے نقل کیا یا لکھا ہو لیکن اگر خود بھی نقل کر دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔۴۔ ان روایات کے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو کتابوں میں آئی ہیں اور انسان نہیں جانتا کہ جھوٹی ہیں، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ ان کو کتاب کے حوالہ کے ساتھ نقل کرے۔۵۔ گردوغبار کو منھ میں داخل کرنا روزہ کو باطل کردیتا ہے چاہے کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حلال ہے جیسے آٹا یا کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حرام ہے۔۵۔ روزہ دار کو چاہئے کہ احتیاط واجب کی بنیاد پر گردوغبار مثلا جھاڑو دینے کی وجہ سے اٹھنے والے غبار کو حلق سے نیچے نہ اتارے، اسی طرح احتیاط واجب کی بنیاد پر سگرٹ بیڑی وغیرہ کا دھواں بھی روزہ کو باطل کردیتا ہے۔۶۔ رمضان کی شب میں اگر مجنب سوجائے اور پھر بیدار ہو اور یہ احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوئے گا تو غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا تو پھر سو سکتا ہے۔جو رمضان کی شب میں مجنب ہے اور جانتا ہے یا احتمال ہے کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا تو اگر ارادہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سوجائے اور اذان صبح تک سوتا رہ جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔۶۔ جو شخص جاگنے میں مجنب ہوا ہو یا سونے میں مجنب ہو اور بیدار ہوجائے اور جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار نہیں ہو سکے گا، اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ غسل کرنے سے پہلے سوئے اور اگر سوجائے اور اذان سے پہلے غسل نہیں کیا تو اس کا روزہ باطل ہے، لیکن اگر احتمال ہو کہ اذان صبح سے پہلے غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا اور غسل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو لیکن بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس روزہ کی قضا رکھنا چاہئے۔ ۷۔ اگر مجنب رمضان کی رات میں سوجائے اور آنکھ کھلنے کے بعد جانتا ہو یا خیال کرے کہ اگر دوبارہ سو گیا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور ارادہ بھی رکھتا ہو کہ اٹھنے کے بعد غسل کر لے گا اس صورت میں اگر دوبارہ سوجائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے یہی حکم ہے،اگر دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ سو کر جاگے اور پھر سے سوجائے، کفارہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔۷۔ جو شخص رمضان کی شب میں مجنب ہو اور حالت جنابت میں اس خیال کے ساتھ سوجائے کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہو کر غسل کرلے گا اور اذان کے وقت تک بیدار نہ ہوسکے تو اس دن کے روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ کفارہ بھی دیا جائے۔۸۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کے سبب کوئی ایسا کام انجام دے جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر مسئلہ معلوم کر سکتا تھا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے اوپر کفارہ ثابت ہے، اور اگر مسئلہ معلوم کرنے پر قادر نہیں تھا یا مسئلہ کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا یا یقین تھا کہ اس کام سے روزہ باطل نہیں ہوتا تو کفارہ اس پر واجب نہیں ہے۔۸۔ اگر شرعی مسئلہ سے لاعلمی کے سبب ایسا کام انجام دے جو روزہ کو باطل کردیتا ہے مثلا وہ نہ جانتا ہو کہ سر کو پانی میں ڈبونا روزہ کو باطل کردیتا ہے اور سر کو پانی میں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس روزہ کی قضا کرنا چاہئے لیکن اس کے اوپر کفارہ واجب نہیں ہے۔اوراگر ایسا کام انجام دیا ہے جس کے بارے میں جانتا ہے کہ حرام ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس سے روزہ بھی باطل ہو جاتا ہے تو روزہ کی قضا کےعلاوہ احتیاط واجب کی بنیاد پر کفارہ بھی دینا چاہیئے۔
اعتکاف
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاعتکاف صرف مسجد میں ہی صحیح ہے لہذا جو شخص اپنے گھر،امام باڑے یا امام بارگاہ یا روضوں میں اعتکاف کرے اس کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ اور مسجدوں میں بھی صرف ان ہی مسجدوں میں اعتکاف صحیح ہے: مسجد الحرام، مسجد النبی، کوفہ کی جامع مسجد، مسجد بصرہ۔ اور ہر شہر کی جامع مسجد میں قصد رجا کے ساتھ اعتکاف کیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔سوال: عرض ہے کہ مسجدوں (جامع مسجد اور عام مساجد) کے اندر اعتکاف کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک بیان فرمائیں۔جواب: جامع مسجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور دیگر مسجدوں میں قصد رجا کی نیت سے کوئی حرج نہیں ہے۔
۳۔ قصد رجاء، یعنی خدا کا مطلوب ہونے کی نیت سے اور ثواب و انعام کی امید پر کوئی عمل انجام دینا۔
خمس
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے گھر کو بیچے اور دوسرا گھر خریدے یا بنائے تو کیا بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت پر خمس واجب ہے اگرچہ اس رقم پر ایک سال پورا نہ گزرا ہو؟جواب: اگر بیچا جانے والا گھر کاروبار کے منافع،تنخواہ یا کسی اور آمدنی کے ذریعہ، حاصل خمس نہ دئے ہوئے مال سے لیا گیا تھا تو اس کی قیمت سے فورا خمس نکالنا واجب ہے۔۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے رہائشی گھر کو بیچ دے تاکہ دوسرا گھر خرید سکے یا بنائے تو بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت میں خمس ہے یا نہیں؟جواب: اگر سال پورا ہونے کے بعد بیچا ہے اور گھر کے(مؤونہ)خرچ میں شمار ہونے کی وجہ سے خمس میں حساب نہ کیا گیا ہو تو گھر کی ملی قیمت میں خمس نہیں ہے چاہے سال کے آخر تک رقم باقی رہے۔۲۔ جو رقم حج کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اور اسی سال اس کا نام قرعہ میں نکل آئے تو ادا شدہ رقم میں خمس نہیں ہے اور اگر بعد کے برسوں میں نام نکلے تو اس کا حساب کرنا ہوگا مگر یہ کہ پہلے استطاعت رکھتا تھا اور اب اس رقم کو شامل کئے بغیر حج کے لئے نہ جاسکتا ہو۔ ۲۔ جو رقم حج یا عمرہ کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اگر سفر کے خرچ کے عنوان سے ایک شخص اور ’’ادارہ حج و زیارت‘‘ کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے مطابق ادا کی گئی ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اس رقم کو واپس لے لیں۔۳۔ سوال: اگر کوئی رقم کسی کے پاس امانت کے طور پر یا کرایہ مکان کے لئے مالک مکان کے پاس رہن کے طور پر رکھوائے تو کیا اس بات کے پیش نظر سے کہ اس رقم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے،وجوہات شرعیہ ادا کرنا ہوں گی؟جواب: جی ہاں! اس رقم پر خمس ہے اور جب بھی اس کی وصولی کا امکان ہو ملنے کے بعد خمس ادا کرنا چاہیئے۔۳۔ سوال: عام طور سے مکان کرایہ پر لینے کے لئے ایک رقم پیشگی مالک مکان کو دیتے ہیں اگر یہ رقم کاروبار کی منفعت سے ہو اور کئی سالوں تک مالک مکان کے پاس پڑی رہے تو کیا واپس ملتے ہی اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے یا یہ کہ اس رقم پر سال کے خرچہ میں شمار ہونے کے سبب خمس نہیں ہے اور اگر اسی رقم سے کسی اور جگہ کرایہ پر مکان لینا چاہے تو کیا حکم ہے؟جواب: جب تک کرایہ کے مکان کے لئے اس رقم کی ضرورت رہے اس وقت تک اس پر خمس نہیں ہے۔۴۔ ... اگر مکان خریدنے کے لئے ایک رقم اپنے پاس کئی سال تک رکھے رہے تو یہ رقم سال کے خرچہ میں شمار نہیں ہوگی اور اس پر خمس دینا ضروری ہے۔سوال: اس رقم پر خمس ہے یا نہیں جو کوئی شخص شادی یا تعلیم کے لئے الگ کر دیتا ہے؟جواب: اگر محنت کی آمدنی سے ہو اور ایک سال کے اندر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس ہے۔۴۔ سوال: جس شخص کو کسی گھریلو سامان مثلا فرج کی ضرورت ہو اور یک مشت خریدنے کی قوت نہ ہو اور ہر ماہ اس کے لئے کچھ رقم جمع کر رہا ہو تاکہ جب اس کی قیمت کے برابر رقم جمع ہوجائے تو اسے خریدلے یا شادی کے لئے رقم جمع کر رہا ہے تو کیا خمس کی سالانہ تاریخ آ جانے پر اس طرح کی جمع شدہ رقم میں خمس ہوگا یا نہیں؟جواب: محنت کی آمدنی سے جمع کی ہوئی رقم اگر مستقبل قریب میں (مثلا خمس کی تاریخ سے دو تین ماہ کے بعد ہی ضروریات زندگی سے کسی چیز کی فراہمی) کے لئے ہو اور اس کا خمس نکالنے کے بعد ضرورت کا سامان خریدا نہ جا سکتا ہو تو اس میں خمس واجب نہیں ہے۔
۱۔ زندگی کی ضروریات سے مراد: مکان، کپڑے اور گھر کی ضروریات کے سامان ہیں۔
احکام حجاستطاعت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ استطاعت کے لئے واپسی پر خود کفیل باقی رہنا شرط ہے۔ یعنی حج سے واپسی پر تجارت، کھیتی باڑی، کاروبار یا آمدنی کا کوئی اور ذریعہ جائداد، باغ یا دوکان کی صورت میں باقی ہو اس طرح کہ زندگی گزارنے کے لئے پریشانی اور مشکل سے دوچار نہ ہو اور اگر اپنی شان کے مطابق کمائی پر قادر ہو تو یہی کافی ہے اور اگر واپسی پر رقوم شرعی مثلا زکات و خمس کا ضرورتمند ہو جائے تو(استطاعت کے لئے) کافی نہیں ہے لہذا ان طلاب اور اہل علم پر حج واجب نہیں ہے جو حج سے واپسی پر حوزہ علمیہ کے ماہانہ وظیفہ(شہریہ) کے محتاج ہوں ۔۱۔ اگر(حج سے) واپسی کے بعد ماہانہ وظیفہ (شہریہ) کے ذریعہ ان کی زندگی چل سکتی ہو تو کافی ہے اور(استطاعت کے بعد) ان پر حج واجب ہوگا۔۲۔ جس نے حج نیابتی کے لئے اجرت لی ہو اور بعد میں اسی سال مالی استطاعت پیدا ہوجائے تو اب اگر اسی سال کے لئے حج نیابتی کی اجرت لی ہو تو اسے حج نیابتی انجام دینا چاہیئے اور اگر اس کی استطاعت باقی رہی تو اگلے سال اپنے حج کو انجام دے گا۔۲۔ اگر حج نیابتی (کی رقم ہاتھ آنے) کی وجہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق عمل کرے گا لیکن اگر کسی اور طریقہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو اس کے اجارہ (نیابتی حج) کا باطل ہونا معلوم ہوجائے گا اور اسے اپنا حج ادا کرنا چاہیئے۔۳۔ جس کے لئے شادی کرنا ضروری ہو اور اس کے لئے پیسے کی ضرورت ہو اسی صورت میں مستطیع ہوگا کہ جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کا خرچ بھی موجود ہو۔۳۔ اگر شادی نہ کرنے کی وجہ سے کسی مشکل، بیماری یا حرام میں پڑنے کا اندیشہ ہو یا شادی نہ کرنا توہین و خفت کا سبب ہو تو (استطاعت کے لئے) حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کے مخارج بھی ہونا ضروری ہے۔۴۔ جو شخص مالی اعتبار سے مستطیع ہے لیکن بدن کی صحت یا راہ کھلنے کے لحاظ سے مستطیع نہیں ہے اپنا مال کسی کام میں لگا کر اپنے آپ کو استطاعت سے خارج کرسکتا ہے لیکن اگر ان زاویوں سے بھی مستطیع ہے اور صرف جانے کے وسائل آمادہ نہیں ہیں یا حج کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے تو وہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کیا تو حج اس کے ذمہ واجب ہوجائے گا اور اسے ہر صورت میں حج کرنا ہوگا۔۴۔ حج کی انجام دہی کے لئے لازم وقت کے پہنچ جانے کے بعد ایک مستطیع شخص اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور وہ وقت کے آ جانے سے پہلے بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہ کرے۔
نیابت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: ایک شخص نے مالی استطاعت کے بعد حج کے لئے اپنا نام رجسٹر کرایا اور دو سال بعد قرعہ میں اس کا نام نکل آیا لیکن سفر سے چند مہینہ پہلے اس کا انتقال ہوگیا اور مرنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹے کو حج بجالانے کے لئے اپنا نائب بنا دیا اب اگر اس کا بیٹا خود مالی اعتبار سے مستطیع تھا لیکن اس نے نام رجسٹر کرانے کے سلسلہ میں کوتاہی کی تھی اور نام نہیں لکھوایا تھا چنانچہ اگر وہ نام لکھواتا تو شاید پہلے سال ہی یا بعد کے برسوں میں اس کا نام قرعہ میں آجاتا اب یہ لڑکا باپ کی طرف سے حج بدل کے لئے مدینہ آیا ہوا ہے مگر ابھی محرم نہیں ہوا ہے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟جواب: مذکورہ صورت میں نیابت(کا حج)صحیح نہیں ہے، اسے چاہئے کہ اپنا حج ادا کرے۔۱۔ اگر وصیت کے ٹوکن کے ذریعہ بیٹے کے لئے حج پر جانے کا راستہ نکل آئے یا یہ کہ میت کے ورثہ کسی بیٹے کو حج کا ٹوکن دے دیں کہ وہ باپ کی طرف سے جاکر حج کو انجام دے تو اسے چاہئے کہ باپ کی طرف سے حج انجام دے لیکن اگر وصیت نہ ہو یا ورثہ کی طرف سے مطالبہ نہ کیا گیا ہو کہ حج نیابتی وہ خود انجام دے تو اسے چاہئے کہ حج اپنی طرف سے انجام دے اور باپ کے لئے کسی اور کو نائب بنائے۔۲۔ سوال: جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو اور عقد اجارہ کے بعد عمل حج کی ادائیگی کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو اور اس نے کسی بھی عذر کے تحت ایک معذور کے فریضہ کے مطابق حج انجام دیا ہو تو کیا اس کا حج نیابتی منوب عنہ کی طرف سے کافی ہے؟ اور آیا عذر کی کیفیت کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟جواب: محل اشکال ہے۔۲۔ جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو لیکن عقد اجارہ کے بعد عمل کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو تو اس حالت میں اگر اس کا عذر حج کے بعض اعمال میں نقص پیدا ہونے کا سبب نہ بنے، نیابت صحیح ہے مثلا اگر وہ بعض ایسے کام جو حج کے دوران متروک ہیں ترک کرنے سے معذور ہو لیکن اس کا یہ عذر حج کے اعمال میں نقص کا سبب بنے تو اجارہ کا باطل ہو جانا اس صورت میں بعید نہیں ہے اور اجرت کے سلسلہ میں نائب اور منوب عنہ کے درمیان مصالحت ہو جانا اور منوب عنہ کی طرف سے عمرہ اور حج کا اعادہ احوط ہے۔
احرام
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر تلبیہ بقدر واجب بھی نہ جانتا ہو اور سیکھ بھی نہ سکتا ہو یا سیکھنے کا وقت نہ ہو اور کسی کے کہلوانے سے بھی دہرا نہ کرسکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جیسے بھی کہہ سکتا ہے کہے اور اس کا ترجمہ بھی دہرائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے علاوہ تلبیہ کے لئے نائب بھی لے لے۔۱۔ جیسے بھی کہہ سکتا ہو ادا کرے اور احتیاط کی بنا پر کسی کو نائب بھی بنائے۔۲۔ احرام کے دو کپڑوں کو پہننے کے لئے کوئی خاص ترتیب ضروری نہیں ہے بلکہ جس ترتیب سے بھی پہن لے کوئی حرج نہیں ہے، صرف خیال رہے کہ ایک کو لنگی کی صورت میں جیسے بھی چاہے پہنے اور دوسرے کو چادر قرار دے جیسے بھی چاہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ چادر سے دونوں شانوں کو ڈھانکے۔۲۔ اگر رائج طریقہ کے مطابق ہو تو کافی ہے۔ چادر اتنی بڑی ہونا چاہئے کہ دونوں شانوں کو چھپا سکے۔۳۔ اگر حائضہ پاک ہونے تک انتظار نہ کرسکتی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ مسجد (شجرہ) کے پاس محرم ہوجائے اور جحفہ یا اس کے کسی موازی مقام سے احرام کی تجدید کرے۔۳۔ جو عورتیں عذر رکھتی ہیں اور بھیڑ وغیرہ کے سبب مسجد سے گزرنے کی حالت میں محرم نہیں ہوسکتیں ان پر واجب ہے کہ جحفہ یا اس کے موازی کسی مقام سے محرم ہوں چنانچہ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ نذر شرعی کے ساتھ مدینہ میں اپنی قیامگاہ سے ہی محرم ہو جائیں۔۴۔ مستطیع شخص اگر میقات سے احرام باندھنا علم کے باوجود جان بوجھ کر موخر کردے اور کسی عذر کی وجہ سے میقات واپس بھی نہ جاسکتا ہو اور آگے بھی کوئی میقات نہ ہو تو اس کا حج باطل ہے اور اسے چاہئے کہ دوسرے سال حج کرے۔۴۔ اگر ممکن ہو تو میقات واپس جائے اور اگر تنگی وقت یا کسی اور عذر کے سبب واپس نہ جاسکتا ہو تو حرم کے(دائرے سے) باہر جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو حرم کے اندر ہی محرم ہوجائے اور اس کا حج صحیح ہے۔۵۔ جو شخص بھول کر یا مسئلے سے لاعلمی یا کسی اور عذر کے سبب احرام کے بغیر ہی میقات سے گزر جائے تو اگر میقات تک واپس جا سکتا ہو اور پھر وہاں سے واپس آکے عمرہ کے اعمال میں بھی پہنچ سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ واپس جائے اور میقات سے احرام باندھ کر آئے چاہے حرم میں داخل ہو چکا ہو یا نہ ہوا ہو، اور اگر مذکورہ طریقہ سے واپس آنا ممکن نہ ہو تو اب اگر حرم میں داخل نہ ہوا ہو تو جہاں ہے وہیں سے احرام باندھے گا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس ہو اور وہاں محرم ہو۔ کہ(حرم میں داخل ہو)۵۔ احتیاط واجب کی بنا پر جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس جائے اور(وہاں محرم ہو)۔۶۔ سوال: جو شخص عمرہ مفردہ انجام دے چکا ہو کیا ایک ماہ سے کم مدت میں بغیر احرام کے میقات سے باہر جاسکتا ہے؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ رجائے مطلوب کی نیت کے ساتھ دوسرے عمرہ مفردہ کے لئے محرم ہو اور بغیر احرام کے باہر نہ جائے۔۶۔ پچھلے احرام کو ایک ماہ گزرنے سے پہلے بغیر احرام کے میقات سے گزر سکتا ہے۔۷۔ سوال: زوجہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نذر کرتی ہے اور نذر کے تحت محرم ہوجاتی ہے تو کیا اس کا احرام صحیح ہے؟ اور اب اگر اسی احرام کے ساتھ اعمال بھی بجالائی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر میقات سے پہلے محرم ہوئی ہے تو اس کا احرام صحیح نہیں ہے، اگرچہ اس صورت حال سے، حج ختم ہونے کے بعد اگر متوجہ ہو تو اس کا عمل صحیح ہے، لیکن اگر عمرہ کے بعد متوجہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں عمل صحیح ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور اگر تلافی ہوسکتی ہو تو میقات واپس جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر میقات نہ جاسکتی ہو تو حرم کے باہر سے احرام باندھے۔۷۔ شوہر کی عدم موجودگی میں زوجہ کی جانب سے میقات سے پہلے احرام باندھنے کی نذر شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن شوہر ساتھ ہونے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نذر نہ کرے اور اگر بغیر اجازت کے نذر کرے تو نذر منعقد نہیں ہوگی۔
محرمات احرام
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ خوشبو والے پھول اور سبزوں کے استعمال سے پرہیز کرے سوائے کچھ قسموں کے جو جنگلی ہیں جیسے بومادرون، درمنہ اور خزامی جن کے لئے کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ خشبودار پھول ہے۔۱۔ سوائے عطر کے کہ جس کا استعمال احرام کی حالت میں حرام ہے احتیاط واجب کے تحت کسی بھی قسم کی ایسی خوشبودار چیز نہیں سونگھنا چاہیئے کہ جس کو عطر نہیں کہا جاتا۔۲۔ سیب یا بہی کی مانند خوشبودار پھلوں سے پرہیز ضروری نہیں ہے اور ان کے کھانے اور سونگھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔۳۔ احتیاط واجب کی بنا پر خوشبو کے استعمال کا کفارہ، ایک بھیڑ ہے۔۳۔ خوشبو کے استعمال پر کفارہ کا واجب ہونا ثابت نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک بھیڑ کفارہ دے۔۴۔ احتیاط یہ ہے کہ آئینہ نہ دیکھے اگرچہ زینت کے لئے نہ ہو۔۴۔ زینت کے قصد کے بغیر آئینہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۵۔ (احرام کے محرمات میں) تیرہواں عمل، زینت کے لئے انگوٹھی پہننا (ہے) اور اگر استحباب کے لئے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔۵۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر محرم کو انگوٹھی پہننے اور مہندی لگانے سے اگر ان کا زینت میں شمار ہو پرہیز کرنا چاہیئے ولو زینت کا قصد نہ رکھتا ہو بلکہ ہر اس کام سے پرہیز کرے جو زینت سمجھا جاتا ہے۔۶۔ اگر سر دھوئے تو اس کو تولیہ یا رومال سے خشک نہیں کرنا چاہئے اور سر کے بعض حصہ کا بھی وہی حکم ہے جو پورے سر کا حکم ہے۔۶۔ تولیہ سے سر خشک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ تولیہ پورے سر پر ڈال کر سر کو اس سے خشک کرے۔۷۔ رات کو سفر میں مکانوں کے درمیان گزرتے وقت چھت کے نیچے بیٹھنا احتیاط کے خلاف ہے اگرچہ اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے لہذا رات میں پرواز کرنے والے ہوائی جہاز میں محرم کے بیٹھنے کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔۷۔ لیکن بارش کی راتوں اور(جاڑے کی)ٹھندی راتوں میں سائے میں نہ بیٹھنے کی احتیاط ترک نہ ہو مگر یہ کہ اس احتیاط پر عمل کسی مشکل اور پریشانی کا باعث بنے۔۸۔ سوال: محرم کے لئے پانی کی وہ مشک اٹھا کر چلنے کا کیا حکم ہے جو سلی ہوئی ہو؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ اس کو کاندھوں پر نہ اٹھائیں ہاتھ میں لیکر چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۸۔ ہمیان(کمر میں باندھی جانے والی چمڑے وغیرہ کی تھیلی) ازار بند(بلٹ وغیرہ)یا(رومال کی مانند)ایسے چھوٹے کپڑے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن کو لباس میں شمار نہیں کیا جاتا۔۹۔ سوال: کیا محرم عورت اپنے چہرا تولیہ سے پوجھ سکتی ہے یا اس کا بھی حکم مرد کے سر کی طرح ہے کہ جس کو ڈھکا نہیں جا سکتا؟جواب: احتیاط کی رعایت ضروری ہے۔۹۔ اگر (کوئی عورت) تولیہ پورے چہرے پر ڈال لے تو صحیح نہیں ہے ورنہ کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ سوال: شہر مکہ میں کچھ ٹیونل بنے ہوئے ہیں جن کی لمبائی ۱۵۰۰ قدم سے زیادہ ہے تو کیا حج کا احرام باندھنے کے بعد موٹر کار یا بس وغیرہ کے ذریعہ ان سے گزرا جاسکتا ہے؟ جبکہ معلوم ہے کہ ان پر چھت پڑی ہوئی ہے؟جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اگر خود اس راستہ کو اپنائے اور اس چھت کے نیچے سے گزرے تو صحیح نہیں ہے۔۱۰۔ کوئی حرج نہیں ہے۔۱۱۔ سوال: کیا حالت احرام میں وہ دانت اکھاڑا جاسکتا ہے جس میں شدید درد ہو اور ڈاکٹر بھی اس کے اکھاڑنے کے لئے کہے؟ اگرچہ خونریزی کا باعث ہی کیوں نہ ہو؟جواب: اگر ضروری ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن احوط ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے۔۱۱۔ کفارہ دینا احتیاط مستحب ہے۔
۵۔ سایہ میں اور چھت کے نیچے چلنا۔
طواف
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ طواف کی شرطوں میں پانچویں شرط یہ ہے کہ طواف ہر طرف سے خانہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔۱۔ طواف کی جگہ کے لئے کوئی حد نہیں ہے،مسجد الحرام میں جہاں تک بھی طواف کرنا کعبہ کا طواف کرنا قرار پائے طواف صحیح اور مجزی ہے ہاں اگر اضطرار اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو تو مستحب ہے طواف کہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔۲۔ سوال: اگر طواف کے درمیان نماز جماعت قائم ہوجائے اور آدمی طواف جاری رکھنے سے معذور ہو تو اس کا فریضہ کیا ہے اور اگر سعی کے درمیان ہو تو کیا فریضہ ہے؟جواب: اگر طواف یا سعی کے چوتھے شوط (چکر) کے بعد سلسلہ ٹوٹے تو جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے (باقی ماندہ) طواف یا سعی آخر تک انجام دے گا اور اگر طواف کے چوتھے شوط سے پہلے چھوڑا ہو اور فاصلہ طویل ہوجائے تو طواف دوبارہ شروع سے انجام دے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ بقیہ طواف مکمل کرے اور اس کی نماز طواف پڑھنے کے بعد طواف کا اعادہ کرے اور دوسری نماز طواف پڑھے اور سعی میں بھی بقیہ سعی مکمل کرنے کے بعد پھر سے سعی کا اعادہ کرنے میں احتیاط ہے۔۲۔ اگر طواف کا سلسلہ توڑدے جبکہ آدھا طواف یعنی ساڑھے تین شوط (چکر) انجام دے چکا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے آگے بڑھا کر طواف پورا کرے اگرچہ ایک مکمل طواف ’’تمام و اتمام کسی بھی نیت سے بجا لائے اور اگر ساڑھے تین شوط سے کم انجام دیا ہو تو ازسرنو طواف انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۶۔
۶۔ یعنی نیت کرے کہ اگر پہلا طواف صحیح تھا تو اس طواف کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوجائے اور اگر پہلا طواف صحیح نہ رہا ہو تو یہ طواف اس کا طواف شمار ہو۔
نماز طواف
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاگر کوئی شخص قرائت یا واجب اذکار صحیح طور پر نہ سیکھ سکے تو نماز جیسے بھی اس سے ہوسکتا ہے خود انجام دے اور یہی کافی ہوگی اور اگر ممکن ہو تو کسی کو ساتھ لے لے کہ وہ قرائت اور اذکار کو پڑھتا رہے اور یہ دہراتا رہے اور احتیاط یہ ہے کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس کسی عادل شخص کی اقتدا کرے لیکن نماز جماعت پر اکتفا نہ کرے جیسا کہ نائب بنانا بھی کافی نہیں ہے۔نماز طواف میں جماعت کا شرعی جواز ثابت نہیں ہے لہذا جیسے بھی ہوسکے خود پڑھے اور احتیاطا نائب بھی بنائے۔
دو عمرہ کا فاصلہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ حج کی طرح عمرہ کی تکرار بھی مستحب ہے اور دو عمرہ کے درمیان کے فاصلہ کے سلسلہ میں علما نے اختلاف کیا ہے اور احوط یہ ہے کہ ایک مہینہ سے کم میں قصد رجاء کے ساتھ انجام دیا جائے۔۱۔ دو عمرہ کے درمیان کسی معین فاصلہ کا ہونا شرط نہیں ہے لیکن احتیاط کی بنا پر ایک مہینہ میں صرف ایک عمرہ اپنے لئے انجام دے سکتا ہے لیکن غیر کے لئے ہر ایک کی طرف سے ایک عمرہ انجام دینا جائز ہے۔۲۔ عمرہ تمتع کے بعد اور حج تمتع سے پہلے عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے اور اگر انجام دے دے تو عمرہ مفردہ کی صحت محل اشکال ہے لیکن عمرہ تمتع اور حج تمتع میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے۔
احرام حج
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاحتیاط واجب یہ ہے کہ جو شخص عمرہ تمتع سے فارغ ہوجائے اور محل بن جائے وہ کسی ضرورت کے بغیر مکہ سے باہر نہ جائے اور اگر باہر جانے کی کوئی ضرورت پڑجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ حج کے احرام کے لئے محرم ہو اور پھر باہر جائے اور اسی احرام کے ساتھ اعمال حج کے لئے پلٹے۔عمرہ تمتع کے بعد اگر حج کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہو تو مکہ کے باہر قریب کے علاقوں کی طرف نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قربانی
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ قربانی کے شرائط میں سے یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا نہ ہو۔۱۔ قربانی کا بوڑھا نہ ہونا شرط نہیں ہے۔۲۔ قربانی کی ساتویں شرط یہ ہے کہ اس کے بیضہ کچلے ہوئے نہ ہوں، احتیاط واجب کی بنیاد پر۔۲۔ بیضہ کا کچلا ہوا نہ ہونا شرط نہیں ہے مگر یہ کہ خصی ہونے کی حد تک پہنچ جائے۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مومن ہو، بلکہ یہ قوت سے خالی نہیں ہے اور یہی کفارے کے حیوان کے ذبح کرنے والے کے سلسلہ میں بھی ہے۔۳۔ اگر ذبح کرنے والے کو قربانی کرنے میں اپنا نائب بنایا ہو تو [احتیاط واجب کی بنیاد پر مومن ہونا چاہئے] لیکن اگر اس سے صرف ذبح کرنے کا مطالبہ کرے تو ذبح کرنے والے کا مومن ہونا ضروری نہیں ہے اور خود قربانی اور قربت کی نیت کرے گا۔۴۔ سوال: اسٹیل کے چاقو سے ذبح کرنا کیسا ہے جس کے بارے میں پتہ نہیں ہے کہ لوہا ہے یا نہیں؟جواب: صحیح نہیں ہے۔۴۔ ذبح کرنے کے آلے کو لوہا ہونا چاہئے اور اسٹیل (یعنی لوہا اور زنگ سے حفاظت کا مادہ) در حقیقت لوہا ہی ہے اور اس سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حلق یا تقصیر
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ احتیاط واجب کی بنا پر منی میں پہلے رمی جمرہ کرے اس کے بعد ذبح کرے پھر تقصیر یا حلق۔۱۔ اگر قربانی منی میں ہو تو مذکورہ ترتیب واجب ہے اور اگر منی میں نہ ہو تو اس کی رعایت احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے اور دونوں صورت میں اگر رعایت نہ کرے تو گنہگار ہے لیکن اس کا عمل صحیح ہے۔۲۔ ایام تشریق کے آخر تک حلق کو موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ عمدا ہی کیوں نہ ہو اور رات میں بھی حلق صحیح ہے اور کافی ہے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر حلق یا تقصیر عید کے دن ہونا چاہئے اور اگر اس میں تاخیر کی تو شب یازدہم یا اس کے بعد اس کا انجام دینا کافی ہے۔
منی میں رات گزارنا
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےحاجی کے اوپر واجب ہے کہ شب یازدہم اور شب دوازدہم کو منی میں بیتوتہ کرے یعنی غروب آفتاب سے آدھی رات تک وہاں رہے۔رات کے شروع سے آدھی رات کے بعد تک یا آدھی رات کے پہلے سے طلوع فجر تک وہاں رہ سکتا ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) سے چند استفتاآت
۱۔ براہ کرم غنا اور موسیقی نیز اس کے آلات کے مسئلہ کو سادہ اور قابل فہم طریقہ سے میرے لئے بیان فرمائیں۔
جواب: غنا مرکب ہے لہو و لعب اور عیاشی کی محفلوں سے مناسبت رکھنے والے اور ان محفلوں کے مخصوص گانے سے۔ یہ گانا حرام ہے، گانا بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ موسیقی کے ساز اور آلات بھی اگر اس طرح استعمال کئے جائیں جس طرح عام طور سے مذکورہ محفلوں میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کا استعمال بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ لہذا موسیقی اگر غنا ہو (یعنی مذکورہ محفلوں کے مخصوس انداز کےگانے) یا آلات موسیقی کی آواز ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس طرح کی نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔
۲۔ عورت کا عورتوں کے درمیان اسی طرح مرد کا مردوں کے درمیان یا محرموں کے درمیان شادیوں میں ناچنا کیسا ہے؟
جواب: ناچنا اگر شہوت کے بھڑکنے یا کسی برائی کے پیدا ہونے یا کسی حرام کے مرتکب ہونے کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے بجز خلوت میں شوہر کے لئے زوجہ کے رقص کے، اسی طرح اس کے برعکس۔
۳۔ ارواح کے احضار کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر کیا ہے؟
جواب: ارواح کا حاضر کرنا اپنی جگہ کوئی ممانعت نہیں رکھتا مگر یہ کہ کسی حرام کام کے ساتھ ہو یا کسی حرام کام کے انجام دینے کے ارادہ سے ہو۔
۴۔ ہپناٹزم کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے؟
جواب: عقلائی غرض کے لئے مقابل کی رضایت کی صورت میں فی نفسہ حلال ہے اور کوئی حرج نہیں ہے۔
۵۔ نامحرم کو دیکھنا کا کیا حکم ہے؟
جواب: نامحرم کے چہرے اور گٹے تک ہاتھوں کو احساس شہوت کے بغیر دیکھنا حرام نہیں ہے۔
۶۔ اگر ایک اجنبی انسان کے نطفہ کو کسی عورت کے رحم میں ڈالیں تو شرعی اعتبار سے صحیح ہے یانہیں؟
جواب: مذکورہ عمل اپنی جگہ پر شرعی اعتبار سے ممنوع نہیں ہے لیکن حرام نگاہ اور ہاتھ لگانے سے پرہیز کیا جائے۔
۷۔ اگر زن و شوہر کے ذریعہ بنے ہوئے جنین کو کسی نامحرم عورت کے رحم میں ڈالا جائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ براہ مہربانی مسئلہ کے وضعی احکام بھی بیان فرمائیں۔
جواب: اس کام میں فی نفسہ اشکال نہیں ہے اگرچہ ہاتھ لگانے اور نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا ہوگا اور بچہ صاحب نطفہ مرد و زن سے ملحق ہوگا اور ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے لئے محرمیت ثابت ہوگی اور صاحب رحم عورت کے سلسلہ میں بھی احتیاط کی جائے۔
۸۔ عورتوں اور مرودں کی وقتی یا دائمی نس بندی کا کیا حکم ہے؟ اگر نس بندی بانجھ ہونے کا سبب ہو تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر نس بندی عقلائی غرض سے، بڑے نقصان کے بغیر اور زوجہ میں شوہر کی اجازت سے ہو تو اس میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے لئے وقتی یا دائمی اسی طرح بانجھ ہونے یا نہ ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
۹۔ میں نے ایک سالہ بچی کو فرزندی میں قبول کیا ہے اب کسی راہ حل کی تلاش میں ہوں جس سے وہ محرم ہوسکے۔
جواب: اس بچی کو مصلحت کی صورت میں اور حاکم شرعی کی اجازت سے اپنے والد کے عقد موقت میں لاسکتے ہیں۔
۱۰۔ کیا قسامہ میں ایک آدمی پچاس قسم کھا سکتا ہے؟
جواب: قسامہ میں جہاں قسم کھانے والوں کی تعداد (مدعی کی طرف) پچاس افراد سے کم ہو وہاں اس قسامہ کی بنیاد پر حکم کرنے میں واقعی اشکال ہے۔
۱۱۔ قتل عمد میں اگر مقتول کے سارے کے سارے اولیاء، صغیر یا مجنون ہوں وہاں کیا ولی قہری (باپ یا پدری جد) یا عدالت کی طرف سے معین ہونے والے قیم، قصاص یا دیہ کا مطالبہ کرسکتا ہے؟
جواب: اولیائے صغیر و مجنون کے ادلہ ولایت سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ شارع کی طرف سے ان کی ولایت کا جعل کرنا مولی علیہ کی مصلحت کی حفاظت کے لئے ہے۔ لہذا پیش نظر مسئلہ میں کیونکہ اولیائے دم، صغیر و مجنون ہیں لہذا ان کے شرعی ولی کو چاہئے کہ ان کی مصلحت اور فائدے کے پیش نظر مناسب اقدام کرے اور قصاص یا دیہ یا بامعاوضہ معافی یا بلا معاوضہ معافی کے سلسلہ میں اس کی تشخیص نافذ ہوگی۔ ظاہر ہے کہ صغیر و مجنون کی مصلحت کی تشخیص تمام پہلؤوں کو منجملہ اس کے سن بلوغ سے قریب یا نزدیک ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام پائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج انتیس بہمن کے یادگار دن کی مناسبت سے صوبہ مشرقی آذربائیجان کے مختلف عوامی طبقات کے افراد سے خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عوام کی بیداری اور سچا ایمان، انقلاب اور امام خمینی (رہ) کے اہداف و مقاصد پرثابت قدمی اور قومی توانائیوں و صلاحیتوں کا استعمال، اسلامی انقلاب کے ثبات و استحکام اور روز افزوں ترقی کے بنیادی اسباب ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سےپہلے تو میں شکریہ ادا کروں گا اپنے بھائیوں اور بہنوں کا جو دور دراز سے طویل راستہ طے کرکے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں، دوستانہ فضا میں یہ اجتماع ہو۔ آپ کا خیر مقدم ہے، میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
آذربائيجان کے عوام کے حریت پسندانہ اور دانشمندانہ کارنامے ملت ایران کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہیں یادگار کارناموں میں ایک انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ( اٹھارہ فروری انیس سو ستتر) کا واقعہ ہے۔ آپ کی تاریخ کے مختلف ادوار، خواہ وہ انقلاب سے قبل کا دور ہو، تحریک انقلاب کا دور ہو، مسلط کردہ جنگ اور دفاع مقدس کا دور ہو یا اس کے بعد سے اب تک کا دور ہو، آپ کے ایسے ہی کارناموں سے پر ہیں۔ البتہ آذربائيجان کے عوام نے بعض مواقع پر اپنی جد و جہد کو نقطہ کمال تک پہنچایا ہے، انتیس بہمن کا شمار ایسے ہی مواقع میں کیا جاتا ہے۔
ہم اپنے نوجوانوں کو، جو اس وقت موجود نہیں تھے، اس عظیم واقعے سے اگر روشناس کرانا چاہیں تو مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ، شاہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف ملک کے ایک گوشے یعنی قم سے آواز بلند ہوئي، امریکا کے رحم و کرم پر منحصر، غدار شاہی حکومت نے اس کو بے رحمی سے کچل دیا۔ لوگ سمجھے کہ مخالفت کی آواز نابود ہو گئي لیکن جس واقعے نے اس آواز کو ختم ہونے سے بچا لیا اور اس واقعے کو ایک تحریک کی شکل دے دی وہ آذربائیجان اور تبریز کے عوام کا کارنامہ تھا۔ تبریز کے عوام نے اس آواز کو قم میں ہی دفن ہو جانے سے بچا لیا۔ اگر ہم صدر اسلام سے اس کی مثال پیش کرنا چاہیں تو فرزند رسول حضرت امام زین العابدین اور زینب کبری سلام اللہ علیھما کے کارنامے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کو سر زمین کربلا میں دفن ہو جانے اور محو ہو جانے سے بچایا۔ آپ نے قم کی تحریک کا پرچم بلند کیا اور یہ پرچم اس تحریک کی پہچان بن گيا، اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انتیس بہمن کے واقعے کی اہمیت کیا ہے۔
اس واقعے کی روشنی میں آذربائیجان کے عوام کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جا سکتا ہے کہ آذربائیجان کے عوام میں جوش و خروش ہے، اعلی سطح کا شعور اور ہوشیاری ہے، انہیں علم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ شجاعت و حمیت سے سرشار یہ عوام ہر خطرے سے ٹکرا جانے کے لئے آمادہ ہیں۔ یہ بیداری کا پیکر و سرچشمہ ہیں۔ میں بیداری کے آپ کے نعرے کی تائید کرتا ہوں میں برسوں سے کہتا آیا ہوں کہ آپ کے نعرے کی صداقت کی تائيد میں میں کہوں گا آذربائیجان اوباخسان، انقلابا دایاخسان ( آذربائیجان تو بیدار ہے، انقلاب کا پشت پناہ ہے)
یہ پورا واقعہ ہی، بیداری و ہوشیاری، ادراک و موقع شناسی، شجاعانہ و بر وقت کاروائي سے عبارت ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک زمانے تک حکومت کے ظلم و استبداد اور فتنہ و فساد کے باعث ایک قوم، پسماندگي کا شکار ہو جاتی ہے، اسے حالات کی خبر نہیں رہ جاتی، علم و دانش سے محروم ہو جاتی ہے۔ پھر سامراجی طاقتیں وارد میدان ہوتی ہیں۔ پیچیدہ، گوناگوں اور پر اسرار حربوں سے اس قوم کو اسی صورت حال میں قید رکھنے کی کوششیں کرتی ہیں، ان کے قدرتی ذخائر، تاریخی و ثقافتی اقدار کو نابود کر دیتی ہیں۔ اس قوم کی باگڈور اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں۔ اب یہ قوم چاہتی ہے کہ اس کی تقدیر بدل جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ظالم سامراجی طاقتوں سے درخواست کی جائے کہ آپ سامراجیت کی بساط سمیٹ لیں، اپنے مفادات کو نظر انداز کر دیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس کا کوئي نتیجہ نکلے گا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ درخواست کرنا بے فائدہ ہے، مذاکرات کئے جائيں۔ تو کیا مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ منطقی و مدلل گفتگو اور درخواست سے آیا بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کرانا ممکن ہے؟
ایسے مواقع پر قوموں کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اپنی طاقت کو منظم کریں اور اپنی توانائيوں کو بروی کار لائيں تاکہ دشمن ان کی کمزوریوں کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ واحد راستہ ہے اس کے علاوہ قوموں کے پاس کوئي چارہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس کے لئے بیدار ہونا ضروری ہے، آکاہ رہنا ضروری ہے، ہر قسم کی کوتاہی سے بچنا ضروری ہے، بے وقعت مادی آسائش اور خواہشات کے دام میں نہ آنا ضروری ہے، بلند اہداف و حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں اتر جانا ضروری ہے۔ ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایرانی قوم نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
بائيس بہمن اس شجاعانہ اقدام کا نقطہ اوج تھا۔ عوام کو بیدار کرنے کے لئے برسوں جس شخصیت نے جد و جہد کی وہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت تھی۔ اس عظیم کام میں تمام مخلص دانشوروں، اور علما کا تعاون ملا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بتدریج اس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ پھر کیا تھا ہماری قوم جس نے دور قاجاریہ کے ظلم و استبداد برداشت کئے تھے اور جسے پہلوی دور حکومت میں کچل کر رکھ دیا گيا تھا، ایک زندہ و بیدار قوم بن گئي۔ یہ قوم میدان عمل میں اتر آئی اور دنیا نے اس کی بے مثال قوت کا مشاہدہ کیا۔ یہ قومی طاقت تھی یہ قوم کے ایک ایک فرد کی طاقت تھی، اس قوت کا سامنا کرنے کی کون جرئت کر سکتا ہے؟ قومیں اس کا تجربہ تو کریں، البتہ یہ تجربہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے ایثار و قربانی کی ضرورت ہے۔ صحیح قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ شرطیں پوری ہو جائيں تو دنیا میں کوئي بھی قوم ظلم کے پنجے میں قید نہیں رہ سکتی۔ غربت کا شکار نہیں رہ سکتی۔ ہمارے ملک میں یہ شرطیں پوری کی گئيں۔
اس بیداری میں سچے ایمان کا کردار بھی کلیدی رہا۔ ایمان نے کسی طاقتور انجن کی طرح لوگوں کے پیکر میں توانائياں بھر دیں۔ اگر ایمان نہ ہوتا تو موت کو بازیچہ اطفال میں تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ ایمان ہی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے کی جرئت پیدا کرتا ہے۔ موت کی کوئي وقعت نہیں رہ جاتی۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ایمان، موت کو ایسی معمولی شیء بنا دیتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ موت سے وحشت کیسی میں تو اس سے خاص انسیت رکھتا ہوں۔ ( آنس للموت من الطفل بثدی امہ) مجھے تو موت سے محبت ہے، اس سے ڈرنا کیسا میں تو اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ ایمان کا اثر ہے۔ اگر ایمان ہے تو موت کو زندگي کا خاتمہ تصور نہیں کیا جاتا۔
وقت مردن آمد و جستن ز جو کل شیء ھالک الی وجہہ
مومن انسان موت کی جانب جھپٹ کر آگے بڑھتا ہے۔ موت دنیا و آخرت کے درمیان ایک لکیر ہے۔کچھ لوگوں کو، کشاں کشاں اس طرف سے اس طرف لے جانا پڑتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی میں غرق ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں جو چھلانگ مار کر اس لکیر سے گذر جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ لکیر کے دوسری طرف کیا ہے۔ وہ وعدہ الھی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عزیز شہدا، جن کے نام آپ کے ذہنوں میں ہیں، آپ بہتوں سے آشنا ہیں، آپ ان کے ہمراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت گذار چکے ہیں۔ یہ شہدا موت سے نہیں ڈرتے تھے۔ انہیں اپنی زندگي سے پیار تھا۔ ان کے وصیتنامے پڑھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ کسی قوم کا مثالی راستہ یہ ہے اور ہماری قوم نے اس راستے کے خد و خال واضح کئے ہیں۔
اس قوم اور اس قوم کے انقلاب کا دنیا کی دیگر اقوام اور انقلابوں کے مقابلے میں طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس قوم نے خود کو بڑی مضبوط پناہ گاہ سے وابستہ کر لیا۔ ( قد استمسک بالعروۃ الوثقی) عروہ وثقی کو آپ یوں سمجھئے کہ بالفرض آپ کو کسی گہری کھائي سے گذرنا ہے، اگر آپ کسی مضبوط رسی کو پکڑے ہوئے ہیں تو آپ مطمئن ہیں کہ گریں گے نہیں۔ عروہ وثقی اسی کو کہتے ہیں۔ ( فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی) ، طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان کی خصوصیات سے ہماری قوم آراستہ تھی۔ نتیجتا یہ قوم کھائي سے عبور کر گئي۔ اس پر خوف و دشہت طاری نہیں ہوئي اور یہی وجہ ہےکہ یہ عظیم تحریک آج بھی باقی ہے۔
ہمارے نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں، اہل معرفت اس پر غور فرمائيں۔ انقلاب ایک طویل تحریک ہے، یہ یکبارگي رونما ہوکر ختم ہو جانے والا کوئي واقعہ نہیں ہے۔ البتہ یہ تحریک دنیا کے بہت سے خطوں میں بیچ راہ میں ہی رک گئي۔ آپ گوناگوں انقلابوں کی تاریخ پڑھئے۔ یہ انقلاب بیچ راہ میں ٹھہر گئے۔ انقلاب آئے، کچھ لوگوں کو زبردست فائدہ ہوا اور وہ مست ہوکر رہ گئے، رفتہ رفتہ عوام نے میدان سے کنارہ کشی کر لی، پھر سب کچھ ختم ہو گيا۔
فرانس کا انقلاب جو اٹھارہویں صدی کے آواخر میں شروع ہو، انیسویں صدی کے اوائل میں ختم ہو گیا اس کا کوئي نام ونشان باقی نہ رہا۔ ایک مطلق العنان سلطنت کے خلاف بغاوت کی گئي اور سلطنت کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن تقریبا پندرہ سال گذرے تھے کہ نیپولین نامی ایک دوسرے آمر نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ کئي دہائيوں تک عوام مسائل سے دوچار رہے پھر رفتہ رفتہ کسی طرح بعض مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انقلاب ادھورے رہ جاتے ہیں، بیچ ہی میں مٹ جاتے ہیں، اس لئے کہ ایمان کے عنصر سے خالی ہیں۔ چونکہ عروہ وثقی سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارا انقلاب عوام کے درمیان ہے اور روز بروز اس پر مزید نکھار آتا جا رہا ہے۔ اس کی افادیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ غور کیجئے، اس سال انقلاب کو انتیس سال پورے ہو گئے۔ اس سال بھی جیسا کہ احباب نے بتایا اور میں نے خود بھی تہران سمیت ملک کے مختلف علاقوں کی صورت حال کا جائزہ لیا، جو لوگ صاحب نظر ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس سال جشن انقلاب کے مظاہروں میں عوام کی شرکت گذشتہ برسوں سے زیادہ تھی۔ کیوں؟ کیونکہ یہ قوم بیدار ہے اور یہ انقلاب زندہ ہے۔
جو افراد گذشتہ برسوں کے دوران کبھی کبھی ہیجان زدہ ہوکر کہنے لگے کہ انقلاب کی کہانی ختم ہو چکی ہے، انقلاب طاق نسیاں کی زینت بن گیا ہے۔ ان سے اندازے کی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انقلاب پر اور بھی نکھار آیا ہے۔ انقلابی اقدار کو جلا ملی ہے۔
آج عالم یہ ہے کہ جو شخص عوام کے درمیان جاکر انقلاب سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتا ہے، عوام اس کی حمایت کرتے ہیں، اس کا انتخاب کرتے ہیں، کیوں کہ انقلاب کے اثرات و ثمرات ان کے سامنے ہیں۔ انقلاب نے ملک کی جو خدمت کی ہے، قوم کو دنیا میں جو مقام دلایا ہے، نوجوانوں میں جو خود اعتمادی، نئي روح پھونک دی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لئے سیکڑوں سال جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انقلاب نے یہ کارنامے کئے ہیں، مسائل کو اس طرح حل کیا ہے۔
اندرونی صلاحیتیں، توانائیاں، رفتہ رفتہ انگڑائياں لےکر باہر آ رہی ہیں، ادھوری شخصیتوں کے مالک انسان، قابل رشک شخصیت کے مالک بن رہے ہیں۔ انتظامی صلاحیتیں، خلاقیت، پیداواری توانائیاں، عالمی مقابلوں کے لئے ضروری مہارتیں سب یکجا ہوکر قوم کو آگے لے جا رہی ہیں۔ یہ سب انقلاب ہی کے ثمرات ہیں، انقلابی اقدار ہی کا نتیجہ ہے۔
ان قدروں کو استحکام و دوام حاصل ہونا چاہئے۔ اب تک یہ قدریں محفوظ رہی ہیں، زندہ رہی ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان، انیس سو اسی کی نوجوان نسل کے مقابلے میں میدان کارزار کے لئے اگر زیادہ صلاحیت مند اور آمادہ نہیں ہے تو اس نسل سے کم بھی نہیں۔ مستقبل کے لئے ہمارا راستہ طے ہے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے طولانی مدت منصوبوں میں انقلابی تشخص کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے آئندہ پروگرام پوری طرح واضح ہیں۔
ایرانی قوم کے پاس ملک کے اندر عوام کی صلاحیتوں میں اور تاریخ کی گہرائیوں میں بڑے بیش بہا خزینے ہیں۔ ہم ان خزانوں کو بروی کار لانا چاہتے ہیں۔ اگر ان خزانوں کا استعمال شروع ہو گیا تو یہ قوم دولتمند ہو جائے گی۔ علم کے کارواں کا پرچم اس کے ہاتھوں میں ہوگا۔ علم و دانش، تہذیب و ثقافت اور قوت و طاقت کے میدان میں اسے ممتاز عالمی مقام حاصل ہوگا۔ پھر یہ قوم دنیا کی دیگر اقوام کے لئے مثالی نمونہ ہوگی۔ البتہ اس وقت بھی یہ قوم، ایک نمونہ قوم ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل تک فلسطینی قوم کو ہر موقع پر شکست ہوئي، اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ مسلم قوموں میں کچھ نوجوان ایسے تھے جن میں جوش و جذبہ تھا لیکن وہ بھی سیاسی تغیرات کے نتیجے میں دب کر رہ گئے۔ اسلامی انقلاب نے ان قوموں میں نئی روح ڈال دی۔ ان میں بیداری پیدا کر دی۔ ہم اپنے اطراف اور عالم اسلام کے حالات کا سرسری جائزہ لیں تو اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی قوم اب تک بھی نمونہ عمل رہی ہے، لیکن جس دن آپ نوجوانوں نے ملک کے ذرے ذرے سے چھلکتی صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروی کار لانے میں کامیابی حاصل کر لی اس دن پوری دنیا ایرانی قوم کا اتباع شروع کر دے گی اور ایران ان ممالک کے لئے بہترین نمونہ عمل بن جائے گا جو ظلم و جور کا شکار ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر اور دیگر اقوام کی تقدیر کی کنجی ہمارے نوجوانوں کے پاس ہے۔ البتہ دشمن بھی اس سے آگاہ ہے اور وہ مسلسل اسی کوشش میں مصروف ہے کہ اس قوم کا رخ بدل دے۔
سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی کوششیں، مختلف زاویوں سے شدید دباؤ، پابندیاں، قراردادیں، سب کا ایک ہی ہدف ہے، ایرانی قوم کو اس راستے سے ہٹانا جس پر وہ گامزن ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ یہ قوم کسی اور راستے پر چلے۔ انہیں اندازہ ہے کہ یہ قوم اسی راستے پر اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو ظلم و استبداد، سامراج و استکبار اور قتل و غارت گری کا جو بازار عالم اسلام میں گرم ہے وہ باقی نہ رہے گا۔ امت مسلمہ کا جز شمار ہونے والے ممالک میں سامراجی طاقتوں کے مفادات نابود ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن اپنی سازشوں میں مصروف ہے۔
آپ غور فرمائیں، ابھی چند ہی روز قبل امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایران پر دباؤ بڑھائیں گے تاکہ ایران کے عوام اس نتیجے پر پہنچ جائيں کہ ایٹمی توانائی حاصل کرنا بے فائدہ ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایرانی قوم نے سائنس و ٹکنالوجی کے اوج تک، جس کا ایک مظہر آج ایٹمی توانائی ہے، رسائی حاصل کر لی تو دیگر اقوام کے بھی حوصلے بلند ہوں گے۔ مسلم قومیں جاگ جائیں گی، انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کا علم ہو جائے گا اور پھر ان قوموں پر اغیار کا تسلط باقی نہیں رہ پائےگا۔ اس کے لئے وہ بڑی عیاری کے ساتھ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ایٹم بم کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک آگاہ ہیں کہ ایٹم بم کا الزام بے بنیاد ہے۔ ان کی تشویش کی وجہ ایٹم بم نہیں ہے۔ انہیں علم ہے کہ ایرانی قوم ایٹم بم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہی ان کی ناراضگی کی وجہ ہے۔ کوئی قوم ان کی مرضی اور مدد کے بغیر ان کی جانب دست نیاز دراز کئے بغیر صرف اپنی صلاحیتوں کے سہارے اس طرح ترقی کی منزلیں طے کر لے کہ ثریا اس کے قدم چومے تو یہ طاقتیں اسے کیسے برداشت کر سکتی ہیں۔ ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے۔ ان کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم فلاں گروہ اور فلاں جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لئےکہ اس گروہ نے کہا ہے کہ وہ ترقی کے اس سفر سے متفق نہیں ہے، استقامت سے متفق نہیں ہے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ کی خدمت میں بصد احترام یہ عرض کرے کہ آپ کی مرضی ہوئی تو ہم آگے بڑھیں گے ورنہ نہیں۔
بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کروانے کے لئے مذاکرات بے اثر ثابت ہوں گے۔ اس کے لئے طاقت کا استعمال ضروری ہوگا۔
مہتری گر بہ کام شیر در است رو خطر کن ز کام شیر بجوی
ہمارے ملک میں بسا اوقات اس نصیحت پر عمل ہوا ہے اور بسا اوقات اسے نظر انداز کیا گيا ہے، لیکن آج ایرانی قوم پوری استقامت کے ساتھ اس نصیحت پر عمل کر رہی ہے۔
امریکہ اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہمارا سارا تنازعہ اسی بات کا ہے۔ سامراجی طاقتیں کہتی ہیں کہ آپ اپنا وجود، صلاحتیں اور توانائیاں منظر عام پر نہ لائیں تاکہ ہماری طاقت، ہمارے اسلحوں اور ہماری تشہیراتی مہم کا کوئی جواب نہ ہو، میدان ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے۔ ان طاقتوں کے لئے ہماری قوم کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ہم اپنے حقوق کا دفاع کریں گے ، ہم آپ کی جارحیتوں کا راستہ بند کر دیں گے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اللہ تعالی کے سامنے ہم جوابدہ ہوں گے۔
ملت ایران نے بالکل صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ میدان عمل میں ہمیشہ موجود رہنا، اب تک کے ثمرات اور کامیابیوں کا بھرپور تحفظ، یہ بالکل صحیح راستہ ہے۔ ضمنی باتوں اور چھوٹے موٹے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جماعتوں اور افراد میں نظریات کا اختلاف کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ انقلاب کے ورثا کو چاہئے کہ اس عظیم وراثت کی حفاظت کریں۔ میں نے اس سال (1386 ہجری شمسی ) کے اوائل میں عرض کیا تھا کہ قومی اتحاد کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا قومی کنبہ، انقلاب کا کنبہ اپنے اتحاد، باہمی انس و محبت اور لگاؤ کی حفاظت کرے۔ ایک دوسرے سے غفلت کا ماحول نہ بننے دیجئے۔ ہماری قوم اس سلسلے میں بیدار ہے اور ہماری نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بھی اسی عظیم فکری ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ ہم نے قوم کے سامنے یہ باتیں پیش کیں اور قوم نے انہیں سچ کر دکھایا۔
انتخابات کی دستک سنائي دینے لگی ہے۔ انتخابات میں شرکت بھی اسی ماہیت کا فعل ہے۔ میں نے تمام انتخابات میں عوامی شرکت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حق رای دہی کے لئے باہر نکلنا چاہئے دشمن کو مزید مایوس کرنا ضروری ہے۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ا؛ران میں انتخابات نہ ہوں، انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر مظاہرے نہ ہوں۔ یوم قدس کے موقع پر مظاہرے نہ کئے جائيں۔ دینی پروگراموں میں عوام کی پر جوش شرکت کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ دینی جذبات کی گرمی ختم ہو جائے۔ ہمارے نوجوان، لا پرواہ، مایوس اور بے حس ہو کر منشیات اور نفسانی خواہشات میں غرق ہو جائیں۔ دشمن کی دلی خواہش یہ ہے۔ دشمن کے لئے یہ سازگار ہے اس لئے اس کا خوب پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کبھی نظریات اور آئیڈیالوجی، کبھی سیاسی دھمکی، کبھی فوجی دھونس، کبھی منشیات کی اسمگلنگ کے گروہوں اور کبھی غیر اخلاقی فلموں کے ذریعے دشمن میدان میں آتا ہے اور اپنی سازشوں کو علمی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے راستے سے ہٹانے کے لئے جی توڑ کوشش کرتا ہے۔ جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو اشارے کنائے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ عوام انتخابات میں شرکت نہ کریں۔ سادہ لوح افراد کو استعمال کیا جاتا ہے، بکے ہوئے ضمیروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ عوام اس عظیم اور اہم ترین پروگرام میں شرکت نہ کریں۔
عوام کو میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ انتخابات میں شرکت کریں۔ ووٹنگ کے عمل کو پر رونق بنائیں۔ صفوں میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم زیادہ کھڑے رہنا ممکن ہے تکلیف دہ ہو لیکن یہ جہاد ہے۔ اس کا اللہ تعالی کے نزدیک اجر ہے۔ تو لوگ ضرور جائیں اور حق رای دہی کا استعمال کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دیں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلاب کے نعرے اور اہداف کو متعلقہ حکام بنیادی معیار کے طور پر پیش کریں۔ یہی سب سے اہم معیار ہے۔ ناموں اور گروہ بندی کی کوئي اہمیت نہیں ہے۔ اس قوم کے مسائل کا حل اور اس کے درد کی دوا انقلاب کے اہداف اور امنگیں ہیں۔ ان چیزوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ ان نعروں اور اہداف کے مخالف ہیں انہیں کبھی بھی پالیسی ساز اداروں میں داخل ہونے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ ایسے لوگ عوام میں شامل ہیں تو کوئي بات نہیں ہے، معاشرے میں ہر طرز فکر اور خیال کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن جس شخص کی آرزو یہ ہے کہ یہ گاڑی آگے نہ بڑھے اسے اسٹیئرنگ پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ ایسے شخص کو اگر اسٹیئرنگ پر بٹھا دیا گیا تو گاڑی آگے بڑھنے والی نہیں ہے۔ ایسے شخص کا انتخاب کیا جانا چاہئے جو آگے بڑھنے میں یقین رکھتا ہو۔ اس راستے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو، انقلاب کے اہداف سے قلبی وابستگی رکھتا ہو، قومی صلاحیتوں سے آشنا ہو۔ اسلام کا دلدادہ ہو۔ انقلاب کا پیرو ہو۔ معیاروں کو تسلیم کرتا ہو۔ یہ ہوئي دوسری بات۔
بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دو چہرے والوں، ظاہر و باطن میں اختلاف والے افراد اور دوہری شخصیت کے مالک لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ایسے افراد سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں کئی روایتیں منقول ہیں۔ اس نکتے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم بیدار قوم ہے اسے کوئي تسلیم کرے یا نہ کرے، گذشتہ انتیس برسوں کے تجربے سے ہمارے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ یہی عماد مغنیہ اور دیگر شہدا جو چند روز قبل صیہونیوں کے ذریعے شہید کر دئے گئے خود کو امام خمینی (رہ) کا پیروکار مانتے تھے اور اس پر افتخار کیا کرتے تھے۔ عماد مغنیہ امام خمینی (رہ) سے قربت اور لگاؤ کے سلسلے میں خود کو کسی بھی ایرانی نوجوان سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ کیوں؟ کیوں کہ امام خمینی(رہ) نے انہیں نئي زندگي دی تھی۔ ان کے پیکر میں نئي روح ڈال دی تھی۔ یہی جوان، لبنان فلسطین، غزہ اور دیگر علاقوں میں پہلے بھی موجود رہے ہیں لیکن وہ اتنے بڑے کارنامے نہیں کر پاتے تھے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ لبنانی جوان معمولی اسحلوں کے سہارے اسرائیل کی کیل کانٹوں سے لیس فوج کو اتنی شرمناک شکست سے دوچار کر دیں گے۔ جب تینتیس روزہ جنگ ختم ہوئي تو شروع کے ایام میں صیہونی حکام کہتےتھے کہ ہمیں شکست نہیں ہوئي ہے۔ لیکن اب وینوگراڈ کمیٹی کی رپورٹ نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ اس کمیٹی نے بھی بڑی رفوگری کی ہے تاکہ بہت زیادہ بے عزتی نہ ہو جائے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ جدید اسلحوں سے مسلح فوج جسے امریکہ کی بھی حمایت حاصل تھی شکست کھا گئي۔ آپ یہ یاد رکھئے کہ اس جنگ میں امریکہ اسرائيل کی حمایت بھی کر رہا تھا اور براہ راست بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اسرائيل کو شکست ہو گئي۔ کس سے؟ ایسے مٹھی بھر جوانوں سے جن کا اسلحہ تھا خود اعتمادی، توکل بر خدا، موت سے بے باکی اور میدان میں استقامت۔ طاقتوں کے نا قابل تسخیر ہونے کے افسانے اس طرح قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
ہم انقلاب کی عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی شکل میں ملنے والی نعمت پر ہم اللہ تعالی کے شکر گذار ہیں۔ ایرانی قوم کی اس عظمت پر جس کا وہ مظاہر کر رہی ہے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ جو کامیابیاں ہماری قوم کو ملی ہیں اس پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمارا ایک ایک نوجوان ایک بڑی نعمت ہپے۔ اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ( وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصواھا) بھلا اللہ کی نعمتوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔ ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ حکام کو ہونا چاہئےاور انہیں ان نعمتوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ نعمتیں ہمیشہ ہمیں ملتی رہیں۔ عوام کو بھی ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ اس قوم کا آنے والا کل، آج کی بہ نسبت زیادہ تابناک اور دلکش ہے۔ ان شاء اللہ آپ نوجوان اس دل آویز منظر کا مشاہدہ کریں گے۔ آپ دنیا کو سعادت و خوش بختی سے آراستہ کر يں گے۔
اے پروردگار، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود فرما۔ ہمیں ان کے سپاہیوں میں قرار دے۔ ہمیں ان کی محبت کے ساتھ زندہ رکھ۔ پروردگارا امام خمینی(رہ) کی روح طیبہ کو ہم سے راضی رکھ اور انہیں اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد رضا توسلی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجت الاسلام و المسلمین الحاج شیخ محمد رضا توسلی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی افسوسناک خبر ملی۔ یہ محترم عالم ربانی، امام خمینی (رہ) کے شاگرد اور آپ کی تحریک میں شامل سر فہرست افراد میں تھے۔ انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک آپ ان کی خدمت میں رہے، انشاء اللہ آخرت کے دن بھی آپ امام خمینی (رہ) کے ساتھ ہی محشور کئے جائیں گے۔ میں اس محترم عالم دین کے انتقال پر ان کے بیوی بچوں اور دیگر ورثا نیز دوست و احباب کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور مرحوم کے لئے رحمت و مغفرت اور ان کے خاندان کے لئے صبر واجر کی دعا کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
27/11/86
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے نام ایک پیغام میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حزب اللہ کے مخلص اور فداکار مجاہد الحاج عماد مغنیہ کی شہادت پر، تنظیم کے سربراہ، جانبازوں اور لبنانی عوام کو تہنیت و تعزیت پیش کی۔
امیرالمومنین (ع)ایسے مقدس اور نورانی صفات وخصوصیات کےحامل انسان ہیں کہ ہم انھیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں آپ کی علمی منزلت آپ کا نورانی مرتبہ آپ کی عصمت و طہارت وہ حقائق ہیں جو آپ کی ذات پاک اورآپ کے قلب منور میں موجزن تھے اور علم وحکمت کی شکل میں آپ کی زبان مبارک پر جاری رہتے تھے، وہ تقرب الہی اور وہ ذکر الہی جو ہمیشہ اور ہر حال میں آپ کے کردارسے نمایاں اور زبان پر جاری رہتا تھا ایسی چیزیں ہیں جو آپ کی نورانی فطرت کی مانند ہمارے فہم و ادراک سے باہر ہیں ۔لیکن ہم ان پر یقین و عقیدہ رکھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ،چونکہ انھیں سچے انسانوں سے سنا ہے ۔لیکن امیر المومنین (ع) کی دوسری خصوصیات وہ ہیں جوآپ کی ذات مقدس کوہر دورکے تمام انسانوں کیلۓ معیار اور نمونہ عمل بناتی ہیں اور وہ اتباع اور پیروی کرنے کیلۓ ہیں۔ معیاراورنمونہ عمل ان کاموں کو مطابقت دینےکیلۓ ایک میزان اور وسیلہ ہوتا ہے جو انسان انجام دینا چاہتاہے ۔ یہ نمونہ عمل کسی خاص گروہ وطبقے سے مخصوص نہیں ہے ، حتی صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے ۔ ہم جو یہ دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت اتنی پرکشش ہے اس کی وجہ یہی خصوصیات ہیں۔لہذا جو لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں یا آپ کی امامت کی بھی تصدیق نہیں کی ہے وہ بھی ان خصوصیات کی عظمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہيں اور نہ چاہتے ہوۓ بھی مدح وستائش کرنے لگتے ہیں۔بنابرایں یہ خصوصیات سب کیلۓ نمونہ عمل اور مثالی ہیں۔ اور ہم جو آج ایک اسلامی حکومت کے حامل ہیں اور علوی حکومت کادعوی کرتے ہیں ہمارے لیۓ یہ نمونہ عمل سب سے زیادہ ضروری فوری اور ناقابل چشم پوشی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف زبان سے آپ کو امیرالمومنین (ع) کہاجاۓ اور آپ سے اظہار محبت و الفت کی جاۓ لیکن عمل سے آپ کی سیرت اور اس درس کی مخالفت کی جاۓ جو آپ نے اپنے عمل اور کردارکے ذریعے ہمیں دیا ہے۔ میری اور مجھ جیسے لوگوں کی ذمیداریاں سنگین ہیں جو حکومت کے اہلکارہیں ۔چونکہ ہمیں عمل کرنا چاہۓاور اس راستے پر چلنا چاہۓ جس پر وہ چلیں ہیں۔ممکن ہے بعض افراد کہیں کہ تم کہاں اور امیر المومنین (ع) کہاں؟ان کی طاقت ان کی توانائی ان کا ایمان ان کاصبران کی معنوی اور روحانی طاقت کہاں اور تم کہاں؟البتہ یہ بات بالکل درست ہے ہم میں کسی کا ان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بہتر ہیں وہ بلندہیں اور ہم پست؛نہیں ،بنیادی طورپر یہ موازنہ ہی غلط ہے۔وہ آسمان کی بلندیوں پرہیں آپ امیرالمومنین(ع) کی شخصیت کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالیں گے دیکھیں گے کہ اس میں عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔یہ مبالغہ نہیں ہے۔ یہ عجزانسانی کاردعمل ہے کہ انسان نے برسوں امیرالمومنین علیہ الصلواۃ و السلام کی زندگی پر تحقیق کی اوراس نتیجے پر پہنچااوراپنےاندر یہ محسوس کیا کہ علی علیہ السلام کی عظیم شخصیت کو اس معمولی فہم کے ذریعے؛یعنی اس معمولی ذہن عقل حافظہ اور ادراک کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا۔ آپ کی شخصیت کے ہر پہلو میں عجائبات ہیں ۔البتہ امیرالمومنین (ع) پیغمبراکرم (ص) کی دوسری تصویر ہیں اورآنحضرت (ص)کے شاگردوں میں ہیں البتہ ہمارے سامنےموجود یہ عظيم شخصیت جواگرچہ خود کوپیغمبر(ص) کے سامنے چھوٹااور معمولی سمجھتی ہے اور خود آنحضرت (ص) کی شاگرد ہےجب ہم اسے انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک مافوق البشر شخصیت نظر آتی ہے میں امیرالمومنین (ع) کی زندگی کے بارے ميں ایک نکتہ عرض کروں اور وہ آپ کی وہ خصوصیت ہے جسے میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت میں توازن سے تعبیرکرتاہوں۔آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز توازن پایا چاتاہے یعنی امیرالمومنین (ع) کے وجود میں بظاہر متضاداور ایک دوسرے سےمختلف صفات اتنی خوبصورتی سے جمع ہیں کہ خود ایک طرح کا حسن پیدا کر رہے ہيں۔ انسان کو کسی کے اندر بھی یہ صفات یکجا نہیں ملیں گے۔امیرالمومنین (ع) کے اندر اس قسم کے بےشمار صفات موجود ہیں ایک دو نہیں بہت زیادہ ہیں۔اس وقت میں ان میں سے کچھ متضاد صفات جو امیرالمومنین (ع) کے اندرموجودہیں بیان کررہا ہوں ؛مثلا رحم و نرم دلی صلابت وسختی کے ساتھ سازگار نہیں ہوتی،لیکن امیرالمومنین (ع) کے اندر محبت و مہربانی اور رحمدلی اتنے اعلی پیمانے پر ہے کہ عام انسانوں کے اندربہت کم نظر نہیں آتی ہے۔ رحمدلی اور مروت کا عالم یہ ہے کہ آپ نہ صرف یتیم بچوں کے گھرجاتے ہيں ، نہ صرف یہ کہ ان کاتنور جلاتے ہیں ان کے لۓ روٹی پکاتے ہیں اوروہ کھانا جو ان کیلۓ لے گۓ ہیں اپنے ہاتھوں سےان بچوں کو کھلاتے ہیں بلکہ غمگین اور رنجیدہ بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ لانےکیلۓ ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں۔ان کے سامنے جھک جاتے ہیں اور انہیں اپنےکندھوں پر بٹھاکرگھماتے ہیں اور ان کے معمولی سے گھر میں انھیں کھیل کود میں مشغول کرتے ہیں تاکہ یتیم بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ آسکے۔ امیرالمومنین کی محبت اور رحمدلی کا عالم یہ ہے کہ اس دور کے ایک بزرگ نے کہاکہ میں نے امیرالمومنین(ع) کو غریب اور یتیم بچوں کے منہ میں اپنی مبارک انگلیوں سے شہد کھلاتے ہوئے اتنا زیادہ دیکھاہے کہ اپنے دل میں سوچا کاش میں بھی یتیم ہوتاکہ علی (ع) مجھ پر بھی اس طرح لطف وکرم کرتے۔( بحار الانوار کی اکتالیسویں جلد کے انتیسویں صفحے پر یہ روایت موجود ہے ) ۔ یہی امیر المومنین نہروان کے واقعے میں جہاں کچھ کج فکر اور متعصب افراد نے بے بنیاد بہانوں سے حکومت گرانے کی کوشش کی تھی جب ان کا سامنا ہوتا ہے تو انھیں نصیجت کرتے ہیں ،کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،اعتراض کرتے ہیں ،کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،ثالث بھیجتے ہیں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،مالی مدد کرتے ہیں اور ساتھ دینےکا وعدہ کرتے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا توآخر میں صف بندی کرتے ہیں پھر بھی نصیحت کرتے ہیں اور جب اس کا بھی کوئ نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔یہ وہی علی ہیں۔ جب آپ کے مد مقابل بد طینت اور بد ذات لوگ ہوتے ہیں اور بچھو کی مانند عمل کر رہے ہیں،پھر آّپ سختی سے کام لیتے ہيں۔خوارج کا صحیح ترجمہ نہیں کیا جاتا ، افسوس کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ بات چیت اشعار تقاریراور فیلم وغیرہ ہرچیز میں خوارج کو خشک مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ غلط ہے خشک مقدس کیاہے ؟امیرالمومنین (ع) کے زمانے میں بہت سے ایسے تھے جنھیں صرف اپنی فکر تھی،اگر آپ خوارج کوپہچاننا چاہتے ہيں تو میں اس کا نمونہ اپنے دورمیں آپ کو دکھاتاہوں، منافقین تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔۔۔۔ خوارج کو بخوبی پہچان لیجۓ؛ایسے لوگ جو بظاہر دین کو مانتے تھے ،آیات قرآن کا سہارا لیتے تھے قرآن کانام لیتے تھے نہج البلاغہ کا نام لیتے تھے... بظاہر دین کی بعض باتوں پر عقیدہ رکھتے تھےلیکن دین کے اساسی اور بنیادی اصولوں کی مخالفت کرتے تھے اور اس سلسلےمیں متعصب بھی تھے اللہ کا دم بھرتے تھے لیکن شیطان کی پیروی کرتے تھے۔آپ نے دیکھا کہ منافقین ایک زمانےمیں بڑے بڑے دعوے کرتے تھے اور بعد میں جب ضرورت پڑی تو انفلاب ،امام ،اور اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ کرنےکیلۓ امریکہ صدام صیہونیوں اور ہر کسی سے ہاتھ ملانے کیلۓ تیار ہوگۓ اور ان کی غلامی کرنے کیلۓآمادہ ہوگۓ،خوارج بھی ایسے ہی تھے۔ پھراس وقت امیرالمومنین(ع) سختی سے پیش آۓ۔ یہ وہی علی ہیں جن کیلۓ سورہ فتح کی انتیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے،اشداء علی الکفار و رحماء بینھم،دیکھیں یہ دونوں خصوصیات نے امیرالمومنین میں کتنی خوبصورتی پیدا کردی ہے۔اتنے رحم دل انسان ہیں کہ آپ کو یہ برداشت نہیں کہ کوئ یتیم بچہ رنجیدہ رہے ،فرماتے ہیں کہ جب تک میں اسے ہنسا نہں لوں گایہاں سے جاؤں گا نہیں لیکن وہاں ان کج فکر اورکج عمل انسانوں کے سامنے جو بچھو کی مانند ہربیگناہ کوڈنک مارتے ہیں،ڈٹ جاتے ہیں یہ آپ کی حکومت اور تقوے کا ایک اور نمونہ ہے۔بڑی عجیب چیز ہے ورع کے معنی کیا ہیں؟ورع یعنی انسان ہر اس مشکوک چیز سے اجتناب کرے جس سے دین کی مخالفت کی بو آتی ہو۔تو پھر حکومت کا کیا ہوگا کیا ،کیا حکومت میں انسان اس قسم کا زہد و ورع اختیار کرسکتاہے ؟ہم اس وقت میدان عمل میں ہیں جانتےہیں کہ اگر کسی میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو مسئلہ کتنا اہم ہوجاۓ گا ۔حکومت میں انسان کو کلی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جس قانون پر عمل کرتاہے اسے ہزار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن ممکن ہے اس قانون میں کہیں کسی پر ظلم ہومامور انسان ممکن ہے دنیاکے کسی حصےمیں اس ملک کےکسی گوشےمیں کوئی خلاف ورزی کرے ،انسان اس قدرلامحدود تفصیلات کے ہوتے ہوۓ زہدو ورع کی کیسے پابندی کرسکتاہے؟ لہذ ا حکومت بظاہر زہد و ورع کے ساتھ سازگار نہيں ہے لیکن امیرالمومنین(ع) نےمظبوط ترین حکومتوں کے ساتھ میں بھی زہد و ورع کو اکٹھا کردیا ،اور یہ بہت عجیب بات ہے ۔اور وہ اس سلسلے میں کسی سے کوئ مروت نہیں کرتے تھے اگر ان کی نظر مبارک میں کوئی حاکم کمزور ہوتااوراس کام کے لۓ مناسب نہ ہوتاتو اسے معزول کردیتے تھے۔محمد ابن ابی بکر آپ کے بیٹے کی مانند تھے اور آپ انھیں بیٹے کی ہی طرح سمجھتے تھے اور وہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو باپ کی نظر سے دیکھتے تھے وہ ابو بکر کے چھوٹے بیٹےاور امیرالمومنین کے مخلص شاگرد تھے اور آپ کی آغوش میں پروان چڑھے تھے امیرالمومنین نے محمد ابن ابی بکر کو مصر بھیجا ،اور پھر خط لکھا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ تم -ہماری لفظوں میں بیٹا تم مصر کیلۓ کافی نہیں ہو ؛تمیھیں برطرف کررہا ہوں مالک اشتر کو منصوب کر رہا ہوں ۔محمد ابن ابی بکر کو برا لگا اور رنجیدہ ہوگۓ ؛آخر انسان ہیں ۔چاہے جتنے بھی اعلی مرتبے پر کیوں نہ ہوں انھیں برالگا۔ لیکن امیرالمومنین (ع) نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اورکوئ اہمیت نہیں دی ۔محمد ابن ابی بکر جیسی عظیم شخصیت جو بیعت کے وقت اور جنگ جمل میں امیرالمومنین(ع) کے بہت کام آئے تھے؛ابو بکر کے بیٹےاور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے، حضرت علی (ع) کے لیۓ اس قدر اہمیت کی حامل تھی ، لیکن آپ(ع) نے محمد ابن ابی بکر کی رنجیدگی کو کوئی اہمیت نہیں دی، یہ زہد و ورع ،ایسا زہد جوحکومت میں ایک انسان اور ایک حکمراں کے کام آتا،ایسااعلی درجےکا زہد امیرالمومنین کے اندرموجود ہے۔دوسرانمونہ آپ کی طاقت و مظلومیت ہے۔ آپ کے زمانے میں کوئ آپ کی مانند طاقتور نہیں تھا۔ وہ عجیب و غریب شجاعت حیدری کس کے اندر تھی -آپ کی عمر کے آخری حصے تک کسی نے بھی آپ کی شجاعت کا مقابلہ کرنے کا دعوی نہیں کیا۔یہی انسان جو اپنے زمانے کا سب سے زيادہ مظلوم انسان تھا بلکہ جیسا کہ کہا گیاہے اور صحیح بھی ہے، شائد تاریخ انسانیت کا سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے اس کی طاقت و مظلومیت کے دوعنصر ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں ،معمولا جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ مظلوم نہیں ہوتے لیکن امیرالمومنین(ع) مظلوم واقع ہوۓ ہیں ۔ دوسرانمونہ زہد ہے امیرالمومنین(ع) کے زہد اور دنیا سے عدم دلچسپی کی مثال دی جاتی ہے شائد نہج البلاغہ کا ایک اہم باب زہد نہج البلاغہ ہے امیرالمومنین (ع) جو پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد سے حکومت حاصل ہونے تک اپنی ذاتی دولت سے آبادکاری کے کام کرتے رہے، باغات لگاتے رہے ،کنوئیں کھودتے رہے نہریں جاری کرتے رہے مزرعہ تیار کرتے رہے ، عجیب یہ ہے کہ سب کچہ راہ خدا میں دے دیتے تھے۔یہاں یہ جان لیجۓ کہ امیرالمومنین (ع) اپنے دور کے زیادہ آمدنی والے افراد میں سےتھے،آپ کے حوالے سے نقل کیا گيا ہے کہوصدقتی الیوم لو قسمت علی بنی ہاشم لوسعہم، میں اپنے مال سےجو صدقہ دیتاہوں اگر تمام بنی ہاشم میں تقسیم کروں تو ان کیلۓ کافی ہو جاۓ گا۔عدل علی ابن ابی طالب(ع) ایک اور نمونہ ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں عدالت علی ابن ابی طالب (ع) کی ذات میں موجودہے تو ہر آدمی ابتدائی طور پر اس سے جو سمجھتاہے وہ یہ کہ وہ سماج میں عدل قائم کرتے تھے۔یہ ہے عدل۔لیکن عدل کی اعلی مثال توازن ہے ۔بالعدل قامت السموات والارض،زمین و آسمان عدل کی بنیاد پر قائم ہیں ،یعنی خلقت میں توازن ،حق بھی یہی ہے۔عدل و حق نتیجے میں ایک ہی چیزہے اور ایک ہی معنی اورایک ہی حقیقت کے حامل ہیں ۔امیرالمومنین کی زندگی عدل و توازن کی خصوصیات کی مظہر ہےجہاں ہر چیز اپنے مقام اور مرتبے پر ہے اور منزل کمال پر فائزہے امیرالمومنین(ع) کی ایک اور خصوصیت آپ کا استغفار ہےامیرالمومنین(ع) کی دعا توبہ اور استغفار بہت اہم ہے ایسی شخصیت جو جنگ اور جد و جدوجہد کرتی ہے ، میدان جنگ میں فاتح اور میدان سیاست مدبر ہو اور اس دور کے بڑے ملکوں پر تقریبا پانچ سال حکمرانی کی ہو اگر آپ امیرالمومنین کے زیرحکومت علاقے کا آج اندازہ لگا نا چاہیں تو وہ تقریباآج کے دس ملکوں پر مشتمل ہوگا اتنے وسیع قلمرومیں اس قدر کام اورجدو جہد کے ساتھ ساتھ آپ ایک عظیم اور مکمل سیاست داں بھی ہیں۔اور دنیا کا نظم و نسق چلا رہے ہیں۔آپ کا وہ میدان جنگ آپ کا میدان سیاست آپ کا سماجی امورسنبھالناعوام کے مابین آپ کے فیصلے اور معاشرے میں عوام کے حقوق کا تحفظ ۔یہ سب بہت عظیم کام ہیں اس کیلۓ بہت کام اور انتظام و اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کو ہر وقت کا کرتے رہنا پڑتا ہے ۔اس قسم کے مواقع پر ایک پہلو شخصیت کے حامل افراد کہتے ہیں کہ ہماری دعا و عبادت یہی ہے ہم تو راہ خدا میں کام کر ہی رہے ہیں، اور ہمارا کام تو خدا ہی کیلۓ ہےلیکن امیرالمومنین یہ نہیں کہتے ،آپ وہ کام بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی کرتے ہیں.12 -11- 1375 ( 1 فروری 1997) خطبات نماز جمعہامیرالمومنین (ع) کا طرز حکومت اور سیرتامیرالمومنین(ع) کے معیارحکومت میں سب سے پہلے دین خدا کی مکمل پابندی اور دین الہی کے قیام پر تاکید ہے۔ یہ سب سے پہلا معیار ہے ۔جس حکومت کے کام کی بنیاد دین خدا کا قیام نہ ہو وہ علوی نہیں ہے ،جو لوگ آٹھ سالہ دفاع مقدس میں پیش پیش رہے ہو جانتے ہیں کہ میں کیا کہ رہا ہوں، عین جنگ کے دوران اس وقت جب جنگ اپنےعروج پر تھی جب ہر سپاہی کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کس طرح حملہ کرے اور کس طرح اپنا دفاع کرے ، ایک شخص امیرالمومنین کی خدمت میں آتا ہے اور توحید کے بارے میں سوال کرتا ہے ، کہتا ہے کہ قل ھو اللہ احد میں احد کے کیا معنی ہیں؟یہ کوئی بنیادی مسئلہ بھی نہيں ہے،اس نے اصل وجود خدا کے بارے میں بھی سوال نہیں کیا ہے'ایک جزئی سوال کیا ہے ،آپ کے اطراف کے لوگ کہنے لگے کہ بندۂ خدا یہ اس قسم کا سوال کرنے کا وقت ہے ؟امیرالمومنین نے فرمایا کہ ،نہیں مجھے جواب دینے دو، ہم اسی لۓ تو جنگ کر رہے ہيں۔یعنی امیرالمومنین کی جنگ ، امیرالمومنین کی سیاست ،امیرالمومنین کی محاذآرائی ،امیرالمومنین کاصبر،اور تمام بنیادی اصول جو آپ دوران حکومت اپناتے ہيں ،اس لیۓ ہیں کہ دین خداقائم ۔ یہ ایک معیار ہے ۔اگر اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ میں جو خود کو حکومت علوی کے عنوان سے پہچنواتی ہے ،اگر مقصد دین خدا کا قائم کرنا نہ ہو،عوام دین خدا پر عمل کریں یا نہ کریں دین پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں حقوق اللہ ادا ہوں یا نہ ہوں اور ہم یہ کہیں کہ ہم سے کیا مطلب ہے ، تو اگر ایساہو توپھر حکومت علوی نہیں ہے ۔دین الہی کا قیام پہلا معیار ہے اور یہ امیرالمومنین کی حکومت اور زندگی کی تمام دوسری خصوصیات کی جڑ ہے۔آپ کی عدالت کا سرچشمہ بھی یہی ہے ،امیرالمومنین (ع) کی زندگی میں عوام کے حقوق کی پابندی اور جمہوریت کی بنیاد بھی یہی ہے ۔امیرالمومنین(ع) کی حکومت کی دوسری خصوصیت اور معیار عدالت ہے ،عدالت مطلق۔یعنی آپ عدالت پر کسی بھی ذاتی مصلحت اور سیاست کو ترجیح نہیں دیتے ۔تحف العقول کے صفحہ نمبر ایک پچاسی میں آپ کا یہ ارشاد موجود ہے ۔اتامرونی ان اطلبالنصر بالجور لا وللہ یعنی میں ظلم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کیلۓ تیار نہیں ہوں۔آپ دیکھیں کہ یہ معیار کس قدرروشن و درخشاں ہے ،کتنا بلند پرچم ہے۔آپ سے کہتے ہیں کہ ممکن ہے اس میدان سیاست ، اس علمی مقابلے ،اس انتخابی میدان ،اوراس میدان جنگ میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ظلم انجام دیں۔آپ کس چيز کا انتخاب کریں گے ؟امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ مجھے یہ کامیابی نہیں چاہۓ،میں ناکام ہوجاؤں کوئی بات نہیں ہے لیکن ظلم نہیں کروں گا ۔ آّپ نے امیرالمومنین کی عدال وانصاف کے بارے میں جو کچھ بھی سنا ہے ان سب کا محور ومرکز امیرالمومنین (ع) کی مطلق عدالت محوری ہے۔ انصاف سب کیلۓ اور ہر شعبے میں،یعنی معاشی انصاف ۔سیاسی انصاف سماجی انصاف،اخلاقی انصاف۔ یہ امیرالمومنین(ع) کی حکومت کا دوسرامعیارہے۔آپ ظلم براداشت نہیں کرتے،اور خود بھی ظلم کے سامنے نہیں جھکتے ۔چاہے مصلحت کا تقاضہ کیوں نہ ہو۔ ایک بڑاظلم امتیازی سلوک ہے ،چاہے وہ حکم پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہو یاقانون پر عمل درآمد کے سلسلےمیں ہو۔یہ سب کسی صورت میں بھی امیرالمومنین کوبرداشت نہیں ہے ۔۔۔۔امیرامومنین کی حکومت کی ایک اور خصوصیت اور معیارتقوی ہے۔آپ دیکھیں ؛کہ ان میں سے ہرایک ،ایک پرچم ہے ،ان میں سے ہر ایک ،یک علامت ہے ، تقوی کے معنی کیا ہیں ؟تقوی یعنی انسان اپنے ذاتی کاموں میں بھی حق سے ذرہ برابر منحرف نہ ہو؛ یہ ہیں تقوی کےمعنی ،یعنی پوری طرح خود پر نظر رکھے ،پیسوں کے سلسلےمیں ہوشیار رہے ،لوگوں کی عزت وآبرو کے تئیں ہوشیار رہے،کسی چيز کو انتخاب کرنے میں ہوشیاررہے،کسی کو الگ کرنے کےسلسلےمیں ہوشیار رہے ،بات کرنےمیں ہوشیار ہے برخلاف حق کوئی بات نہ کرے، یعنی بھرپور کنٹرول رکھے۔آپ نہج البلاغہ دیکھیں ،ان باتوں سے بھری ہوئی ہے،آّپ شروع سے آخر تک نہج البلاغہ دیکھ ڈالیں ،اول وآخر تقوی کی تشویق و ترغیب دلائي گئي ہے ،تقوی و پرہیز گاری کی دعوت دی گئی ہے۔جب تک انسان پرہیز گار نہيں ہوگا اس وقت تک دین نہیں قائم کرسکتا ،دامن کی آلودگی بہت بری بلا ہے ،اگر انسان کا دل گناہوں سے آلودہ ہوگا تو انسان حقائق کو سمجھ نہیں سکے گا۔حقیقت کی پیروی کرنا تو بہت بڑی بات ہے ، تقوی جو امیرالمومنین (ع) کی حکومت کی ایک خصوصیت ہے اس کا سرچشمہ عوام کا ارادہ اور خواہش ہے ۔تغلب ،یعنی غلبہ اورطاقت کےذریعے عوام پر حکومت کرنا، یہ امیرالمومنین (ع) کی منطق نہیں ہے ۔باوجود اس کے کہ خود کو برحق سمجھتے تھے لیکن الگ ہٹ گۓ ،یہاں تک کہ عوام نے آکراصرارکیا،التماس کی ،روۓ گڑگڑاۓ اوردرخواست کی مولاآپ ہم پر حکومت کیجۓاور زمام حکومت سنبھالۓ۔اس وقت آپ نے حکومت سنبھالی،آّ نے خود فرمایا ہے کہ اگر لوگ نہ آۓ ہوتے،اگرعوام نے اصرار نہ کیا ہوتا ،اگر یہ عوام کا سنجیدہ مطالبہ نہ ہوتا تو مجھے اس کا م میں کوئي دلچسپی نہیں تھی۔امیرالمومنین کیلۓ حکومت و اقتدارمیں کوئی کشش نہیں ہے ۔حکومت ان لوگوں کیلۓ پرکشش ہوتی ہے جو اپنی ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ امیرالمومنین کیلۓ،وہ شرعی ذمیداری پوری کرنا چآہتے ہيں ؛عدل قائم کرنا چاہتے ہیں؛ عوام نے حکومت آپ کےسپرد کی،چنانچہ آپ نے اقتدار ہاتھ میں لے کر حکومت قائم کی ۔امیرالمومنین حضرت علی (ع) کے یوم ولادت کے موقع پر خطاب 30 / 6 / 1381امیرالمومنین (ع)کے سامنے تین گروہوں کی صف آرائی امیرالمومنین کی مظلومیت کے ساتھ حکومت کے دور میں تین گروہ آپ کے مد مقابل آۓ ،جس کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی حکومت کے دور میں - امیرالمومنین(ع) کی پانچ سال سے کم عرصے کی حکومت میں تین گروہوں نے آپ کے سامنے صف آرائی کی :قاسطین و ناکثیں و مارقین ۔اس روایت کو شیعوں اور سنیوں دونوں نے امیرالمومنین سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:امرت ان اقاتل الناکثین والقاسطین والمارقین۔(دعام الاسلام ،جلد 1 صفحہ388)یہ نام خود آپ نے رکھا ہے ،قاسطین یعنی ظالمین ۔ اس کا مادّہ قسط جب مجرد کی شکل میں استعمال ہوتا ہے تو،قسّط یقسط یعنی جار یجور ظلم یظلم - یعنی ظلم کرنے کے معنی دیتا ہے اور جب یہ ثلاثی مزید باب افعال میں لایا جاتا ہے تو- اقسط یقسط - یعنی عدل و انصاف کے معنی دیتا ہے بنا برایں اگر قسط باب افعال میں استعمال کیا جاۓ تو عدل کے معنی دے گا، لیکن جب قسط یقسط کہا جاۓ تو اس کے برخلاف ہے۔ یعنی ظلم و جور کے معنی دیتا ہے۔ قاسطین اسی مادّہ سے ہے ۔ قسطین یعنی ستمگر امیرالمومنین (ع) نے ان کا نام قاسطین رکھا ۔یہ کون لوگ تھے ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلام کو مصلحت کے تحت اور دکھانے کیلۓ قبول کیا تھا اورحکومت علوی کو بنیادی طور پر قبول ہی نہیں کرتے تھے۔امیرالمومنین جو بھی کرتے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ لہذا یہ وہ لوگ تھے جو بنیادی طور پر امیرالمومنین کی حکومت کو قبول ہی نہیں کرتا اور چاہتے تھے حکومت دوسری طرح کی ہو، اور ان کے ہاتھوں میں ہو ،اور بعد میں یہ ظاہر بھی ہوگيا اور عالم اسلام نے ان کی حکومت کا مزہ بھی چکھا ،یعنی وہی معاویہ جو امیرالمومنین سے رقابت کے زمانے میں بعض اصحاب سے محبت وخوش روئی سے پیش آتا تھا بعد میں اپنی حکومت کے دور میں سخت اور تند رویہ اختیار کر لیا۔ یہاں تک کہ یزید کا دور آیا اور واقعہ کربلا رونما ہوا ۔ اور پھر مروان عبد الملک ،حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی کا دور آیا جو اسی حکومت کا ایک ثمرہ ہے ۔ یعنی وہ حکومتیں، تاریخ جن کے مظالم کے ذکر سے بھی لرزجاتی ہے - جیسے حجاج کی حکومت - یہ وہی حکومتیں ہیں جن کی بنیاد معاویہ نے رکھی ہے اور جس کیلۓ اس نے امیر المومنین سے جنگ کی ۔ پہلے ہی سے معلوم تھا کہ یہ لوگ کیاچاہتے ہیں اور کیا حاصل کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یعنی ایک خالص دنیاوی حکومت جس کی بنیاد خود خواہی اور خودپسندی ہو وہی چیزیں جن کا بنی امیہ کے دور میں سب نے مشاہدہ کیا ۔البتہ میں یہاں کوئی کلامی یا عقائدی بحث نہیں کرناچاہتا ۔یہ جو عرض کر رہا ہوں تاریخی حقیقت ہے ۔شیعوں کی تاریخ نہیں ہے ؛یہ ابن اثير اور تاریخ ابن قتیبہ وغیرہ ہے جس کے متون میرے پاس موجود ہیں، اور نوٹس کے ساتھ محفوظ ہيں ۔یہ وہ باتیں ہیں جو مسلمہ حقائق کا حصہ ہیں۔شیعوں اورسنیوں کے نظریاتی اختلافات کی بحث نہيں ہے ۔دوسرا محاذ جو امیرالمومنین (ع) کے ساتھ لڑا وہ ناکثین کا محاذ تھا۔ ناکثين یعنی توڑنے والے اور یہاں اس سے مراد بیعت توڑنے والے ہیں۔ ان لوگوں نے پہلے امیرالمومنین(ع) کے ہاتھوں پر بیعت کی اور پھر بعد میں بیعت توڑ دی ۔یہ مسلمان تھے اور پہلے گروہ کے برخلاف خود غرض تھے یعنی امیرالمومنین(ع) کی حکومت کو اسی حد تک مانتے تھے جہاں تک ان کے لۓ حکومت میں قابل قبول حصہ موجود ہو ۔ ان سے مشورہ کیا جاۓ ، انھیں ذمہ داریاں دی جائيں،انھیں حکومت دی جاۓ،ان کے پاس موجود دولت وثروت کونہ چھیڑاجاۓ ان سے اس سلسلےميں باز پرس نہ کی جاۓ، یہ نہ پوچھا جاۓ کہ کہاں سے لاۓ ہو۔۔۔ سعد ابن ابی وقاص نے شروع سے ہی بیعت نہیں کی،بعض دوسرے لوگوں نے ابتداء سے ہی بیعت نہیں کی؛ لیکن طلحہ و زبیر اور دوسرے بزرگ صحابہ وغیرہ نے امیرالمومنین (ع) کی بیعت کی ، تسلیم کیا اور قبول کیا ؛ لیکن جب چار پانچ مہینے گذر گۓ اور دیکھا کہ نہیں ، اس حکومت حکومت کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ہے،کیونکہ یہ وہ حکومت ہے جو دوست احباب کو نہیں پہچانتی،اپنے لیۓ کسی حق کی قائل نہیں ہے اپنے گھر والوں کے لئے کسی حق کی قائل نہیں ہے اگر چہ اسلام لانے میں پہلا کرنے والوں کے لئے حق کی قائل نہیں خود سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔احکام اسلام پر عمل درآمد کرانے میں کسی چوں چرا سے کام نہیں لیتے ۔ انہوں نے دیکہا نہیں اس آدمی (علی ع ) کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ۔لہذا الگ ہو گۓ اور چلے گۓ اورجنگ جمل شروع ہو گئی جو واقعاایک فتنہ تھی ۔ام المومنین عائشہ کو بھی اپنے ساتھ کر لیا ۔اس جنگ میں کتنے لوگ مارے گۓ۔ البتہ امیرالمومنین کامیاب ہوۓ قضیہ ختم کردیا۔ یہ دوسرا محاذ تھا جس نے آپ کو ایک مدت تک مصروف رکھا۔ تیسرامحاذ مارقین کا محاذتھا۔ مارق یعنی گریزاں ،اس کی وجہ تسمیہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ اس طرح دین سے نکل گۓ تھےجس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے ، آپ جب ایک تیر کمان میں لگاکر پھینکتے ہیں تو وہ کس طرح نکلتا ہے اور دور ہوجاتا ہے ؛ یہ اسی طرح دین سے دور ہو گۓ تھے البتہ یہ دین سے بظاہر متمسک بھی تھےاور دین کا نام بھی لیتے تھے۔یہ وہی خوارج تھے وہ گروہ جس نے اپنے کاموں کی بنیاد اپنی کج فکری پر رکھی تھی جو ایک خطرناک چیز ہے بنا برایں تیسرا گروہ جس کا امیرالمومنین کو سامنا کرنا پڑا البتہ اس پر بھی آپ غلبہ پالیا وہ مارقین کا گروہ تھا۔جنگ نہروان میں آپ نے ان پر کاری ضرب لگائی،لیکن یہ لوگ معاشرے میں موجود تھے جن کی موجودگي آخرکار آپ کی شہادت پر منتج ہوئی ۔۔۔بعض لوگ خوارج کو خشک مقدس سے شبیہ دیتے ہیں ،نہیں ، بحث خشک مقدس اور مقدس مآب کی بحث نہيں ہے ۔مقدس مآب تو ایک طرف بیٹھ کر اپنی نماز دعا میں مشغول رہتا ہے ، خوارج کے یہ معنی نہیں ہیں۔ خوارج وہ عناصر ہیں جو شورش بپا کرتے ہیں، بجران ایجاد کرتا ہے ،میدان میں آتا ہے ، علی سے لڑنے کی بات کرتا ہے ، علی سے جنگ کرتا ہے ؛ لیکن اس کے کام کی بنیاد غلط ہے ۔جنگ غلط ہے، آلہ کار غلط ہے، ھدف و مقصد باطل ہے ، یہ وہ تین گروہ تھےجن سے امیرالمومنین (ع) کا سامنا تھا ۔ صفوں کا مشخص اور واضح نہ ہونا ، امیرالمومنین کے دور حکومت اور پیغیمبر اسلام کی حیات طیبہ اور دور حکومت کا واضح فرق یہ تھا کہ پیغمبراکرم کے زمانے میں صفیں واضح تھی ،ایمان وکفر کی صف ،منافقین پھنس جاتے تھے کیونکہ قرآن کی آیتیں معاشرے میں موجود منافقین کے چہرے بےنقاب کیا کرتی تھیں۔،اور ان کی طرف اشارہ کرتی رہتی تھیں،مومنین کو ان کے مقابلے میں مضبوط کرتی رہتی تھیں، اور منافقین کے حوصلے پست کرتی رہتی تھیں۔یعنی پیغمبر (ص) کے زمانے میں نظام اسلامی میں ہر چیز واضح اور کھلی ہوئی تھی۔ ایک دوسرے کے سامنے صفیں واضح تھیں۔ ایک شخص کفر و طاغوت وجاہلیت کا حامی تھا ، اور ایک شخص ایمان اسلام توحید اور معنویت کاطرفدار تھا۔البتہ وہاں بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔اس زمانے میں بھی ہرطرح کے لوگ تھے۔ اس زمانے میں بھی گوناں گوں افراد تھے لیکن صفیں واضح تھیں۔امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مسئلہ یہ تھا کہ صفیں واضح نہیں تھیں، اس وجہ سے کہ دوسرا گروہ یعنی ناکثين جواز پیداکرنے والی شخصیتیں تھیں ہرشخص طلحہ اور زبیر جیسی شخصیتوں کے سامنے شک و شبہ کا شکار ہوجاتا تھا یہ زبیر وہی تھے جو پیغمبر (ص) کے زمانے میں اہم افراد اور شخصیتوں میں شامل تھے پیغمبو کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور آنحضرت (ص) کے قریبی افراد میں سے تھے ۔اور پیغمبر(ص) کے بعد بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کی حمایت میں ثقیفہ پر اعتراض کیا تھا۔جی ہاں ۔ ؟؟؟؟؟؟خدا ہم سب کا انجام بخیر کرے ،بعض اوقات جب دنیا ، گوناں گوں حالات اور دنیا کی چمک دمک ایسے اثرات مرتب کرتی ہے ،بعض شخصیتوں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے کہ انسان کو خاص افراد کے بارے میں بھی شک ہونے لگتا ہے ۔ عام لوگوں کی تو بت ہی جدا ہے ۔بنا بریں وہ زمانہ واقعا سخت تھا ،وہ لوگ جو امیرالمومنین کے ساتھ رہے آپ کے ساتھ جمے رہے اور جنگ کی ۔،بہت بصیرت سے کام لیا۔میں نے بارہا امیرالمومومنین (ع) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ،لا یحمل ھذ العلم الااھل البصر و الصبر ۔ (بحارالانوار جلد 34 صفحہ 249) پہلے مرحلے میں بصیرت ضروری ہے ، واضح ہے کہ اس قسم کی الجھنوں میں امیرالمومنین کی مشکلات کیسی رہی ہوں گي ۔ وہ کج فکر جو اسلام کا نام لے کر امیرالمومنین (ع) سے جنگ کررہے تھے اور غلط الزامات لگارہے تھے۔ صدر اسلام میں غلط باتیں بہت سنی جاتی تھی لیکن آیت قرآن نازل ہوتی تھی اور واضح طور پر ان افکار کو مسترد کردیتی تھی ۔چاہے مکہ کا زمانہ ہو یا مدینہ کا دور ہو ،آپ دیکھیں کہ سورہ بقرہ جو ایک مدنی سورہ ہے ، جب انسان دیکھتا ہے ، تو اسے یہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں اور منافقین کے ساتھ پیغمبر(ص) کی کشمکش اور جھڑپوں کی تفصیلات موجود ہے اور اس کی تفصیلات بھی بیان کی گئ ہیں۔حتی مدینہ کے یہودی پیغمبر(ص) کو اذیت دینے کیلۓ جو طریقہ استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن میں موجود ہے لا تقولو راعنا (بقرہ 104) اور اس جیسی باتیں ،اور پھر سورہ مبارکہ اعراف -کہ جو مکی سوروں میں ہے -فصل مشبعی کا ذکر کرتے ہیں اور خرافات کے ساتھ نبرد آزما ہیں ۔ گوشت کو حلا ل و حرام کرنے کے مسئلے میں اور مختلف قسم کے گوشت کے بارےميں واقعی محرمات کو جھوٹ اور معمولی کہتے تھے ؛قل انماحرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن(اعراف 33)یہ حرام ہیں ، نہ وہ کہ جو تم نے سائبہ و بحیرہ وغیرہ وغیرہ کو اپنے لئے حرام کرلیاہے ۔قرآن اس قسم کے افکار کے خلاف کھل کرجنگ کرتا تھا؛لیکن امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مخالفین بھی قرآن کو استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن سے استفادہ کرتے تھے ،لہذا امیرالمومنین (ع) کا کام نسبتا ایک لحاظ سے مشکل تھا، امیرالمومنین (ع) کی حکومت کا مختصر دور ان مشکلات میں گذرا ہے ۔ان مشکلات کے مقابلے ميں خود امیرالمومنین (ع) کا محاذ ہے ،در حقیقت ایک مضبوط محاذ ، جس میں عمار ، مالک اشتر ، عبداللہ ابن عباس ،محمد ابن ابی بکر ،میثم تمار ،حجر ابن عدی،جیسی مومن با بصیرت اور با خبر شخصیتیں تھیں جنھوں نے عوام کی ہدایت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے امیرالمومنین کے دور حکومت کا ایک حسین پہلو-البتہ ان بزرگوں کے ہنرمنداہ جد و جہد کے لحاظ سے حسین؛ لیکن ساتھ ہی ان کو در پیش مشکلات تکلیفوں اور پریشانیوں کے لحاظ سے تلخ؛ یہ ان کا کوفہ اور بصرہ کی جانب روانہ ہونے کا منظر ہے، طلحہ اور زبیر اور ان جیسے افراد نے جب صف بندی کی اور بصرہ پر قبضہ کرلیااور کوفہ کی طرف روانہ ہوۓ تو ، حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن اور بعض اصحاب کو بھیجا،انھوں نے عوام سے جو گفتگو کی ہے ،مسجد میں جو باتیں کی ہیں ، جو دلیلیں پیش کی ہیں وہ صدر اسلام کی تاریخ کا فکرانگیز حسین اور ولولہ انگیز حصہ ہے ۔لہذا آپ دیکھیں کہ امیرالمومنین(ع) کے دشمنوں کی زیادہ تر یلغار بھی انھیں پر تھی ۔مالک اشتر(رض) کے خلاف سب سے زيادہ سازشیں کی گئيں،عمار یاسر(رض) بہت سی سازشو ں کا نشانہ تھے۔، محمد ابن ابی بکر(رض) کے خلاف سازشیں تھیں ، تمام وہ لوگ جو امیرالمومنین(ع) کے معاملے میں ابتداء سے ہی امتحان دے چکے تھے اور ثابت کر چکے تھے کہ ان کا ایمان کتنا مستحکم مضبوط اور پائدار ہے ۔اور ان کی بصیرت کتنی زیادہ ہے ،دوسری طرف دشمن طرح طرح کے الزام لگا رہے تھے اور ان پر قاتلانہ حملے کۓ جاتے تھے ،لہذا اکثر اصحاب شہید ہوگۓ ،عمار (رض) جنگ میں شہید ہوۓ لیکن محمد ابن ابی بکر(رض) شامیوں کی سازشوں کے نتیجے میں شہید ہوۓ ۔مالک اشتر(رض) شامیوں کی عیاری سے شہید ہوۓ ، بعض دوسرے بچے،لیکن بعد میں وہ بھی سخت طریقے سے شہید کۓ گۓ۔ یہ امیرالمومنین (ع) کی زندگی اور حکومت ۔ اگر سب کو یکجاکرلیا جائے تو یوں عرض کرنا چاہۓ کہ آپ کی حکومت کا زمانہ ،ایک مضبوط اور اس کے ساتھ ہی مظلوم و کامیاب حکومت کا دور تھا۔یعنی خود اپنے زمانے میں دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اپنی مظلوما نہ شہادت کے بعد بھی، آپ ہمیشہ فراز تاریخ میں مشعل کی مانند رہے ۔ لیکن اس دوران امیر المومنین کے دل کو پہنچنے والی اذیت و تکلیف تاریخ کے سخت ترین واقعات و حالات کا جزء ہے۔امیرالمومنین (ع) کی وصیتیں اور ہدایاتامیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کا آغاز واختتام تقوی کی وصیت پر مبنی ہے ۔ آپ فرماتے ہيں ؛ میرے بچو: اللہ کی راہ میں الہی معیارات پر قائم و دائم رہو۔ ہوشیار رہو؛تقوی اللہ یعنی یعنی یہ ۔ اللہ سے ڈرنےکی بحث نہيں ہے ،جو بعض لوگ تقوی کے معنی اللہ سے ڈرنے کے کرتے ہيں ۔ خشیت اللہ اور خوف اللہ کی بھی اپنی قدرو منزلت ہے ۔ لیکن یہ تقوی ہے۔ ۔تقوی یعنی ہوشیار اور متوجہ رہوکہ جو بھی عمل آپ سے سرزد ہووہ اس مصلحت کے مطابق ہو جو اللہ تعالی نے آپ کیلۓ مد نظر رکھی ہے تقوی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی ایک لمحے کیلۓ چھوڑ دے۔اگر رہا کر دیا تو جان لو کہ راستہ پھسلنے والا ہے ، کھائياں گہری ہیں ،پھسل جائيں گے اور گر جائيں گے۔ یہاں تک کہ ہمیں کوئی سہاراملے کوئی پتھر ، درخت اور کوئي جڑ ہمارے ہاتھ لگے، اور ہم خود کو اوپر اٹھا سکیں۔ ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون۔(اعراف آیت ( 201) جو لوگ متقی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے توخدا کو یاد کرتے ہیں اور حقائق کو یاد کرتے ہیں ۔شیطان تو ہمارا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے لہذا پہلی وصیت تقوی ہے ۔تقوی کیلۓ کی ضروری ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ بھاگا جاۓ ۔ تقوی اور ہی چیز ہے ؛ وان لا تبغیا الدنیا و ان بغتکمادنیا کے پیچھے نہ بھاگو اگر چہ دنیا تمھارے پیچھے پیچھے لگی ہو ۔ یہ دوسرا نکتہ ہے ۔یہ بھی تقوی کےلوازمات ہیں ۔ البتہ تمام نیک کام تقوی کے لوازمات میں ہیں۔ان میں سے ایک بلاشبہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑنا ہے ،یہ نہیں کہا ہے کہ ترک دنیا کرلو ۔ ارشاد ہوا ہے ، لا تبغیا ۔دنیا کے پیچھے پیچھے نہ چلو ۔ طلب دنیا میں نہ رہو،ہماری فارسی تعبیر میں یہ معنی ہوتے ہیں کہ دنیاکے پیچھے نہ دوڑو۔ دنیا طلبی کا مطلب ، روۓ زمین کو آباد کرنا ،اور الہی ذخائرو ثروت کوزندہ کرنا نہیں ہے دنیا طلبی کا مطلب یہ نہیں ہے، اس کیلۓ نہیں روکا گیا ہے ۔ دنیا یعنی جو آپ اپنے لیۓ اپنی خواہشات نفس کیلۓ اپنی ہوا و ہوس کیلۓ چاہتے ہیں ۔ اسے دنیا کہتے ہیں ۔ورنہ روۓ زمین کو نیک مقصد کے تحت اور انسانیت کی فلاح کیلۓ آباد کیا جائے تو یہ عین آخرت ہے ، یہ بلاشبہ اچھی دنیا ہے ۔جس دنیا کی مذمت کی گئ ہے اور جس سے روکا گيا ہے وہ ، وہ دنیا ہے جو ہماری توانائیوں کو، ہماری کوششوں کو، ہماری ہمت کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اور ہمیں راستے سے بھٹکا دیتی ہے ۔ہماری خود پسندی ،ہماری خود پرستی ، دولت کو صرف اپنے لیۓ چاہنا اور اپنے لیۓ لذتوں کا حصول ایسی دنیا قابل مذمت ہے ۔البتہ اس دنیا میں کچھ چیزیں حرام ہیں اور کچہ چیزیں حلال ہیں ایسا نہیں ہےکہ ہر چیز کی اپنے لیۓ طلب حرام ہے ۔ نہیں: حلال بھی ہیں ۔لیکن تمام حلال چیزوں کی طرف جانے سے بھی روکا گيا ہے۔ اگر دنیا کے معنی یہ ہیں تو حلال بھی بہتر نہیں ہے۔ مادی زندگی کے مظاہر کو اللہ کیلۓ قرار دو ، اسی میں نفع اور فائدہ ہے ۔اور یہی آخرت کے معنی ہیں۔تجارت بھی اگر عوام کی زندگی کو بہتر بنانےکیلۓ ہو ،اپنےلیۓدولت و ثروت اکٹھاکرنےکیلۓ نہ ہو،تو عین آخرت ہے ۔ دنیا کے دوسر تمام کام بھی اسی طرح ہیں ۔ چنانچہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑواور طلب دنیا میں ہی نہ پڑے رہوامیرالمومنین نے اس وصیت میں جو فرمایا ہے وہ اس کیلۓآینۂ تمام نما ہے ۔آپ اگر حضرت علی علیہ السلام کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں گے تو وہ انھیں جملوں کا خلاصہ ہے جو آپ کی مختصر سے وصیت میں آيا ہے ۔ولاتاسف شيءمنہا زوی عنکمااگراس دنیاء مذموم سے تمھیں کچہ نہ ملا ہو اور تم سے دریغ کیا گیا ہو،تو افسوس نہ کرو۔ اگرکوئی عہدہ ، کوئی دولت ،کوئی اسباب فلاح تمھیں حاصل نہ ہوا ہو تو افسوس نہ کرو،یہ تیسرا جملہ۔اور اس کے بعد کا جملہ ہے ،قولا بالحق یا اصلی نسخے کے مطابق وقول الحق کوئی فرق نہیں پڑتا ،معنی یہ ہیں کہ حق کہو ، حق کہو اور اسے نہ چھپاؤ،اگر آپ کی نظرمیں کوئی چیز آپ کی نظرمیں حق ہے تو اسے جہاں بیان کرنا چاہۓ بیان کیجۓ، حق کو چھپاۓ نہ رہۓ،اس وقت جب زبانیں حق کو چھپائیں اور باطل کو آشکار کریں ، یا حق کی جگہ باطل کو قرار دیں،اگر حق دیکھنےوالے یا حق جاننے والے حق بولیں ، تو حق مظلوم نہیں رہے گا ،حق اکیلا نہیں پڑے گا ۔اوراہل باطل حق کو مٹانے کی ہمت نہیں کریں گے۔اور بعد کا جملہ ہے و اعملا للآجر جزا کیلۓ - یعنی الہی وحقیقی جزا و پاداش۔ کام کیجۓ۔اے انسان عبس اور بیہودہ کام نہ کر ،یہ تیرا کا م یہ تیری عمر یہ تیرا سانس لینا ، صرف تیرا سرمایہ ہے ۔ اسے بلاسبب برباد نہ ہونے دے۔اگر عمر بسر کر رہے ہو ، اگر کوئی کام کر رہے ہو ، اگر سانس لے رہے ہو، اوراگر طاقت و توانائی خرچ کر رہے ہو ،تو یہ سب جزاء کیلۓ کرو ،جزاء و پاداش کیا ہے ؟کیا چند تومان انسان کے وجود کی جزاء وپاداش ہے؟کیا یہ اس زندگی کی پاداش ہے جو ہم خرچ کر رہے ہیں ؟ ہمارا کسی کو اچھا لگنا ،ایک انسان کی جزاء و پاداش ہے ؟جی نہیں ؛فلیس لانفسکم ثمن الاالجنہ علی فلا تبیعوھا بھ غیرھا ( نہج البلاغہ 456حکمت )یہ ،امام علی (ع) کا جملہ ہے جو آپ فرماتے ہیں کہ الا حر یدع ھذاہ اللماظۂ لاھلھا؟ انھ لیس لانفسکم الا الجنہ فلا تبیعوھا الا بھا کونا لظآلم خصما وللمظلوم عوناامام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وکونا لظالم خصماوللمظلوم عوناظالم کے خصم رہو ۔ خصم اور دشمن میں فرق ہے کبھی کوئي ظالم کا دشمن ہوتا ہے یعنی ظالم اسے برا لگتا ہے اور اس کا دشمن ہے ، یہ کافی نہیں ہے ۔اس کے خصم رہو یعنی اس کے مد عی رہوخصم یعنی ایسا دشمن جو مدعی ودعویدار ہے ایسا دشمن جو ظالم کے گریبان کا پکڑے ہوۓ ہے اور اسے چھوڑ نہیں رہا ہے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد سے آج تک انسانیت ظالموں کا گریبان نہ پکڑنے کی وجہ سے ، بدنصیب اور روسیاہ ہے۔ اگر ایماندار اور مومن افراد ظالموں اور ستمگاروں کا گریبان پکڑے ہوتے تو دنیا میں ظلم اس قدر آگے نہ بڑھتا، بلکہ وہ جڑ سے ختم ہوجاتا۔ امیرالمومنین(ع) یہ چاہتے ہیں ۔ کونا للظالم خشماظالم کے خشم میں رہودنیا میں چاہے جہاں بھی ظلم و ظالم ہو آپ یہیں سے اس کے دشمن رہیں اور خود کو اس کا دشمن سمجھیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی اٹھ کھڑے ہو اور دنیا کے اس کنارے سے اس کنارے تک جاؤ اور ظالم کا گریبان پکڑ لو میں کہتا ہوں اپنی دشمنی و خصومت کا ضرور اظہار کردو۔جہاں بھی جس وقت بھی موقع ملے اس کے دشمن رہو اور اس کا گریبان پکڑ لو ، ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب انسان ظالم کے پاس جاکر اظہا ر دشمنی بھی نہیں کر پاتا لہذا دور سے ہی اظہار دشمنی کرتا ہے آپ دیکھیں کہ آج امیرالمومنین علیہ السلام کی وصیت کے اسی ایک جملے پر عمل نہ کرپانے کی وجہ سے دنیا میں کس قدر مسائل پیدا ہوگۓ ہیں اور انسانیت کتنی بد نصیبی و تباہی کا شکار ہے۔ آپ دیکھیں قومیں بالخصوص مسلمان کتنا مظلوم ہے ،اگر امیرالمومنین (ع) کی اسی ایک وصیت پر عمل ہوا ہوتا تو ظلم کے نتیجے میں پیداہونے والی بہت سی مصیبتیں اورظلم کا وجود نہ ہوتا ، وللمظلوم عونا جہاں کہیں بھی مظلوم ہے اس کی مدد کرو ۔ یہ نہیں فرماتے کہ اس کے حامی بنو نہيں اس کی مددکرنی چاہۓ ،جتنی بھی اور جس طرح سے بھی مدد ہوسکتی ہے ۔ یہاں تک امیرالمومنین(ع) کی وصیت میں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام )کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ البتہ یہ باتیں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام) سے مخصوص نہیں ہیں ۔ انھیں مخاطب قرار دیا گیا ہے ۔لیکن سب کیلۓ ہے ۔امیرالمومنین علیہ الصلوت والسلام بعد کے جملوں میں عمومی وصیت فرماتے ہیں ۔ اوصیکما و جمیع ولدی تم دونوں بیٹو اور اپنے تمام بچوں کو وصیت کرتاہوں واھلی اور تمام اہل و عیال کو ومن بلغھ کتابی اور ہر اس شخص کو جس تک میرا یہ خط پہنـچے۔ اس لحاظ سے آپ حضرات جو یہاں بیٹھے ہیں اور میں جو یہ وصیت آپ لوگوں کیلۓ پڑھ رہا ہوں ، ہم سب سےامیرالمومنین (علیہ السلام )کا خطاب ہے ۔ فرماتے ہیں تم سب کو وصیت کرتا ہوں کس چیز کی ؟ پھر بتقوی اللہ ایک بار پھر تقوی امیرالمومنین علیہ الصلات و السلام کا پہلا اور آخری کلمہ تقوی ہے ۔ونظم امرکم یعنی زندگی میں جتنے بھی کام کرتے ہو اس ميں منظم رہو ، یعنی کیا؟یعنی زندگي میں جتنے بھی کام کرتے ہو، اس کو منظم طریقے سے کرو۔اس کے معنی یہ ہیں ؟ ممکن ہے یہی معنی ہوں۔ یہ نہیں فرمایا کہ نظم امورکم اپنے کاموں کو منظم کرو۔ فرمایا ہے نظم امرکم وہ چیز جسے منظم ہونا چاہۓ ایک چیز ہے نظم امور نہیں فرمایا ہے فرمایا ہے ونظم امرکم انسان سمجھتاہے کہ یہ نظم کام ، تمام افراد کے درمیان ایک مشترکہ امر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظم امرکم سے مراد اسلامی ولایت وحکومت اورنظام ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت ونظام کے امور میں نظم و ضبط سے کام لو،۔۔۔۔۔وصیت کے دوسرے حصے کی بنیاد عوام کے درمیان خلوص و یکجہتی پراستوار ہے ۔ فرماتے ہیں صلاح ذات بین یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہو ۔ دل ایک دوسرے سے صاف ہوں ، سب کے درمیان یکجہتی ہو اور تمھارے درمیان اختلاف و جدائی نہ ہو ۔آپ یہ جملہ جو ارشاد فرما رہے ہیں اس کےلۓ قول پیغمبر(ص) سےایک دلیل بھی لا رہے ہیں ۔ واضح ہے کہ اس پر بہت بھروسہ کرتےہیں اور اس سلسلے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صلاح ذات بین کی اہمیت نظم امر سے زیادہ ہے ؛ چونکہ صلاح ذات بین زیادہ نازک معاملہ ہے اس لۓ یہ عبارت پیغمبر (ص ) کی جانب سے بیان کرتے ہیں فانی سمعت جدکما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، یقول ؛تمھارے نانا کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ صلاح ذات البین افضل من عامۂالصلاۂ والصیام عوام کے درمیان صلح اور میل جول کرانا تمام نماز و روزہ سے بہتر ہے ؛ فرماتے ہيں ہر نماز وروزہ سے بہتر ہے ؛ آپ نماز و روزہ کی فکر میں ہيں لیکن ایسا بھی کام ہے جو ان دونوں سے بھی بہتر ہے ، اس کی فضیلت زیادہ ہے ۔ وہ کیا ہے ؟وہ اصلاح ذات البین ہے اگر آپ نے دیکھا کہ امت مسلمہ میں کہیں اختلاف و تفرقہ ہے تو جايۓ اور جاکر اسے حل کیجۓ ،اس کی فضیلت نمازو روزہ سے زیادہ ہے ۔یتیموں کی خبرگیری : یہ جملہ ارشاد فرمانےکےبعد مختصر فکرانگیز دلسوزجملے ارشاد فرما رہے ہیں وا للہ اللہ فی الایتامیعنی اے میرے مخاطبین : اللہ اللہ یتیموں کے بارے میں اللہ اللہ کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا ہمارے پاس فارسی زبان میں اس کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں ،اگر اس کا ترجمہ کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ تمھاری قسم اور خدا کی قسم یتیموں کے بارے میں یعنی یتیموں کیلۓ جو کچھ بھی کر سکتے ہو کروکہیں ایسا نہ ہوکہ انھیں فراموش کر دو،بہت اہم ہے ۔آپ دیکھیں کہ یہ ہمدرد ماہرنفسیات خداشناس انسان شناس ،کس قدر باریک نکا ت کی طرف اشارہ کر رہا ہے ؛ جی ہاں ؛ یتیموں کا خیال رکھنا صرف ایک ذاتی رحم و کرم اور معمولی جذبہ نہیں ہے ۔ ایسا بچہ جس کا باپ مر چکا ہے ایسا انسان ہے جس کی ایک بنیادی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہے ، اور اسے باپ کی ضرورت ہے ،اس کی کسی نہ کسی طرح تلافی کیجۓ ۔ اگر چہ اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی ،لیکن ہوشیار رہنا چاہۓ کہ یتیم جوان نوجوان یا بچہ کہیں تباہ نہ ہو جاۓ۔ واللہ اللہ فی الایتام ۔ فلا تغبو افواھھم کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھوکے رہ جائيں ؛ ایسا نہ ہوکہ کبھی انھیں کچھ مل جاۓ اور کبھی خالی ہاتھ رہ جائيں، لاتغبو کے معنی یہ ہیں۔ ضروریات زندگی کے لحاظ سے ان کا خیال رکھۓ۔ ولا یضیعو بحضرتکم کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ تنہا رہ جائيں اور تمھارے ہوتے ہوۓ ان پر کوئی توجہ نہ دی جاۓ، اگر موجود نہی ہو ، تو بے خبر ہو؛ لیکن ایسا نہ ہو کہ تم موجود ہو اورایک یتیم - کوئی بھی یتیم - بے توجہی و لاپرواہی کاشکار ہو جاۓ ۔ایسا نہ ہو کہ ہر شخص صرف اپنے کام میں لگ جاۓ اور یتیم بچہ تنہا رہ جاۓ۔پڑوسیوں کے حقوق کاخیال اللہ اللہ فی جیرانکم اللہ اللہ تمھارے پڑوسی ؛پڑوسی کے مسئلے کو معمولی نہ سمجھۓ۔بہت اہم معاملہ ہے ۔ ایک عظیم سماجی رابطہ ہے جس پر اسلام نے توجہ دی ہے اور انسانی فطرت کے مطابق ہے ۔لیکن فطرت انسانی سے دور تہذیبوں کے پیچ و خم میں یہ قدریں گم ہوکر رہ گئي ہیں ۔ آپ کو اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہۓ ، نہ صرف مالی و معاشی لحاظ سے، البتہ وہ بھی اہم ہے -بلکہ تمام انسانی پہلؤوں سے ۔اس وقت آپ دیکھیں گے کہ سماج میں کیسی الفت و محبت پیدا ہوتی ہے ، اور کس طرح لاینحل مسائل حل ہوتے ہیں، فانھم وصیھ نبیکم یہ پیغمبر(ص) کی وصیت ہے کہ مازال یوصی بہم حتی ظنا انھ سیورثھم پیغمبر نے پڑوسیوں کیلۓ اتنی زيادہ تاکید کی کہ ہم نے سمجھا کہ ان کیلۓ میراث معین ہوجاۓ گی ۔اللہ اللہ فی القرآن اللہ اللہ قرآن میں ۔ لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکمایسا نہ ہو کہ جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے قرآن پر عمل کرکے آگے بڑہ جائيں اور تم جو ایمان رکھتے ہو عمل نہ کرو اور پیچھے رہ جاؤ۔ یعنی یہی جو ہوا ہے ،وہ لوگ جو دنیا میں آگے بڑھے اور ترقی کی ، وہ مسلسل کام کرکے ، پے درپے کاموں میں مصروف رہ کرکے ، اچھی طرح سے کام انجام دے کر کے ، ان صفات کو اختیار کرکے جو خدا پسند کرتاہے آگے بڑھے ہیں ، اپنی برائيوں سے نہیں ،اپنی شراب خوری سے نہیں یا اپنے مظالم کے ذریعے نہيں۔۔۔۔مسجد کے خالی نہ رہنےکے بارے میں ۔ واللہ اللہ فی بیت ربکم لاتخلوہ مابقیتم مسجد ویران نہ رہنے پاۓ فانہ ان ترک لم تناظروا اگر مسجد چھوٹے گی تو تمھیں مہلت نہیں دی جاۓ گی ( یا زندگی کا امکان نہیں ملے گا) اس عبارت کے مختلف معنی کۓ گۓ ہیں۔جہاد فی سبیل اللہ کو نہ چھوڑنا ۔ و اللہ اللہ فی الجہاد باموالکم و انفسکم والسنتکم فی سبیل اللہ یعنی اللہ جہاد کے بارے میں ۔ ایسا نہ ہوکہ تم راہ خدا میں جان مال اور زبان سے جہاد ترک کردو۔یہ جہاد وہی جہاد ہے جو جب تک امت مسلمہ میں موجود تھا وہ دنیا کی مثالی قوم تھی اور جب اسے چھوڑ دیا ، ذلیل و خوار ہوگئي۔۔۔۔جہاد اپنی اسی اسلامی شکل میں - کہ جس کے کـچھ حدود و شرائط ہیں - ظلم نہیں ہے ۔ جہاد میں انسانوں کے حقوق کوپامال نہیں کیا جاسکتا جہاد بہانہ بازی اور اسے اُسے قتل کرنا نہيں ہے ۔ جہاد میں کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جو مسلمان نہ ہو اسے ختم کردو ۔جہاد ایک الہی حکم ہے جس کی بہت عظمت ہے ۔ اگر جہاد ہوگا تو قومیں سربلند ہوں گی ۔اس کےبعد ارشاد فرماتے ہیں و علیکم التواصل والتباذل ایک دوسرے سے رابطہ رکھو ۔ ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ عطا بخشش کرو ۔ وایاکم بالتدابر والتقاطع ایک دوسرے کا ساتھ دینا نہ چھوڑو۔ قطع رحم نہ کرو ۔ لا تترکوا الا مر بالمعروف والنھی عن المنکر امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہرگز ترک نہ کرو کیونکہ اگر ترک کردوگے فیولی علیکم شرارکم جہاں نیکیوں کی طرف بلانےوالا اور برائیوں سے روکنے والا نہیں ہوتا وہاں اشرار اور برے افراد برسر اقتدار آجاتے ہيں اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ۔ ثم تدعون پھر تم نیک لوگ دعا کروگے کہ خدایا ، ہمیں ان برے لوگوں سے نجات دے ، فلا یستجاب لکم پھر خدا تمھاری دعا پوری نہیں کرے گا۔۔۔۔۔حکومت امیرالمومنین ( ع) کو سمجھنے کے تئيں ہماری ذمہ داریصرف خداکیلۓ ذمہ داریوں کو قبول کرنا ایسی چیز ہے جس کا درس ہمیں امیرالمومنین سے لینا چاہۓ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو اس منزل پر پہنچا دیں - کیونکہ کوئي بھی خود کو اس منزل تک نہيں پہنچا سکتا - بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں جو شخص جہاں بھی کام کر رہا ہو اسے یہ مشق کرتے رہنا چاہۓ ،اور یہ نہیں بھولنا چاہۓ اور یہ کوشش کرنی چاہۓ کہ جو بھی کام کر ے خدا کیلۓ کرے ، جو ذمہ داری بھی قبول کرے خدا کیلۓ خدا کیلۓ قبول کرے ،اور جو قدم بھی اٹھاۓ خدا کیلۓ اٹھاۓ۔ اگر انسان جو ذمہ داری قبو ل کرتا ہے ، جو گفتگو کرتا ہے ،اور جو عمل کرتا ہے وہ خدا کیلۓ ہو توانسان کیلۓ وہ کام بھی آسان ہوجاۓ گا۔کیونکہ خدا کیلۓ ہے اس میں انسان کے نفس کا کوئي دخل اور اثر نہیں ہے ۔ نفسانی خواہشات اس میدان میں موجود نہیں ہے ۔ لہذا ذمہ داریوں کو قبول کرنا آسان ہے ،ذمہ داریوں سے دست بردار ہونا آسان ہے ۔ قدم اٹھانا آسان ہے، جو وہ کہنا چاہتا وہ کہنا آسان ہے، جو نہیں کہنا چاہۓ اس کا نہ کہنا آسان ہے ، فیصلہ کرنا آسان ہے ، زہر کا پیالہ پینا آسان ہے،پوری دنیا سے مقابلہ کرنا آسان ہے۔ بڑی طاقتوں کے مد مقابل آنا آسان ہے، مسائل کو جو چیز مشکل بناتی ہے وہ ہمارا نفس ہے ، ہماری خواہشات ہیں ، ہماری ہوا و ہوس ہے ، ہمارے مادی حساب کتاب ہیں ، اگر ایسے رہیں تو کیا ہوگا؟ کیا نقصان پہنچے گا؟ کیا چیز ہمیں نہیں مل پاۓ گی ؟ جب من بیچ میں نہیں ہوتا، جب خود درمیان میں نہیں ہوتا ،شخص بیچ میں نہیں ہوتا ، نفسانی ھوا و ھوس بیچ میں نہیں ہوتی ، اور سب کچھ خدا کیلۓ ہوتاہے ، تو تمام بڑے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ اس کا واضح اور درخشاں نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو امیرالمومنین (ع) کی زندگی کو دیکھۓ۔ جب چھوڑدینا چاہۓ تھا اور کھجور کے بیج کی مانند منہ سے باہر پھینک دینا چاہۓ تھا ، تو آپ نے وہ کیا ۔ اور جب ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت تھی - فرض کی ادائگي کیلۓ، کسی اور چیز کیلۓ نہیں - تو اس وقت آپ نے اسے قبول کیا۔ احساس ذمہ داری کیا ۔ دین کی حفاظت کیلۓ ۔ دشمنان دین کا مقابلہ کرنے کیلۓ اپنا پورا دور خلافت تقریبا جنگ میں گذارا۔اگر نفسانی ھوا و ھوس اور خواہشات کا مسئلہ ہوتا تو دوسری طرح عمل کرتے ۔ نفس کی پیروی کا معاملہ نہیں تھا۔ اور جب اس مقصد کیلۓ جان قربان کرنے کا وقت آیا تو آسانی سے جان بھی فدا کردی۔عید غدیر کی مناسبت سے حکام سے ملاقات کے موقع پر فرمایاحکومت امیرالمومنین ہر لحاظ سے چاہے وہ عدل قائم کرنے کامعاملہ ہو ، چاہے ظالم کے مقابلے اور مظلوم کی مدد اورحق کی حمایت کی بات ہو، ہر مرحلہ میں اور ہر حال میں نمونہ عمل ہے جس کی پیروی کرنی چاہۓ۔ فرسودہ ہونے والی چیز بھی نہیں ہے ،اور یہ دنیا کے تمام سماجی اور سائنسی ماحول اورمختلف حالات میں انسانوں کی سعادت و خوشبختی کیلۓ نمونہ عمل ہو سکتی ہے۔ ہم اس دور کے دفتری طور طریقہ کی تقلید نہیں کرنا چاہتے اور کہیں کہ یہ سب بھی زمانہ کی تبدیلیوں میں شامل ہے، اور مثلا روز بروز نئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہم اس حکومت کے موقف کی پیروی کرنا چاہتے ہیں جو تا ابد زندہ رہے گا۔ مظلوم کی حمایت ہمیشہ کیلۓ ایک درخشاں اورروشن نقطہ ہے ۔ ظالم سے ساز باز نہ کرنا ، طاقتور اور دولت مند سے رشوت نہ لینا ،اور حقیقت پر اصرار ،وہ اقدار ہیں کہ جو دنیا میں کبھی بھی کہنہ اور پرانےہونے والے نہیں ہيں۔ گوناں گوں حالات اور مختلف زمانوں میں یہ خصوصیات ہمیشہ گرانقدر ہیں ۔ ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہۓ ، یہی اصول ہیں ۔ ہم جو کہتے ہیں اصول پسند حکومت ، یعنی ان پائداراقدار کی اتباع اورپیروی جو ہرگز کہنہ اور پرانے ہونے والے نہیں ہیں۔ اور اتفاق یہ ہے کہ دنیا کی جابر اور استکباری طاقتیں بھی ہماری اسی پایداری سے ناراض ہيں۔وہ اسی سے غصہ میں ہیں ۔خفا ہیں کہ ایران کی اسلامی حکومت فلسطین کے مظلوموں یا ملت افغانستان کی حامی وطرفدار ہے یا دنیا کی فلاں ظالم واستکباری حکومت سے ساز باز نہیں کرتی ۔آپ جو یہ دیکھتے ہیں کہ بنیاد پرستی یا اصول پسندی ہماری قوم کے دشمنوں کےہاتھوں اور زبان پر ایک گالی کی مانند رہتی ہے ، اسی وجہ سے ہے۔ یہ اصول وہی چیز ہے جس سے دنیا کی جابر طاقتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ اس کے خلاف ہیں ۔ اس دور میں امیرالمومنین (ع) سے بھی انھیں چیزوں کی وجہ سے جنگ کی ۔حکومت کی حیثیت سے ہماری کوشش یہ ہونی چاہۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے خود کو اس دور کے سب سے غریب انسان کی حیثیت سے پیش کیااورفرمایا کہ :میں جو تمھارا امام ہوں، اس طرح زندگی گذار رہا ہوں ۔ عثمان بن حنیف سے ارشاد فرمایا کہ تم میری طرح زندگی نہیں گذار سکتے ، یعنی یہ توقع بھی نہیں ہے ؛ولکن اعینونی بورع والاجتہادلیکن گناہ سے پرہیز کرو اور خود کواس منزل سے قریب کرنے کی کوشش کرو؛یہ وہی بات ہے جو امیرالمومنین (ع) ہم لوگوں سے بھی کہ رہے ہيں کہ جو بھی گناہ اور ناجائز ہےاس سے اجتناب کرواور خود کو قریب کرنے کی کوشش بھی کرو، جتنا قریب پہنچ سکو ، اور جتنا کوشش کر سکو۔۔۔امیرالمومنین کیلۓ حق و انصاف کا قیام اور مظلوم کا دفاع اور ظالم کے ساتھ سختی ایک اہم مسئلہ تھا- چاہے وہ جو بھی ہو ؛ یعنی ظالم چاہے جو بھی ہو ، اورمظلوم چاہے جو ہو - امیرالمومنین نے مظلوم کی حمایت کے سلسلےمیں اس کے مسلمان ہونےکی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔اسلام کے پابند ،سب سے بڑے مومن، اسلامی فتوحات کے سب سے بڑے سردار امیرالمومنین نے مظلوم کادفاع کرنے کیلۓ مسلمان ہونے کی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔۔جب ہم امیرالمومنین کے نام کا احترام کرتے تو یہ ہمارے عمل کرنےکیلۓ ہونا چاہۓ ۔ ہم ہمیشہ عوام سے نہیں کہہ سکتے کہ آپ امیرالمومنین (ع) کی طرح عمل کیجئے ۔ ہم جو آج اسلامی جمہوری نظام میں عہدیدار ہیں ،ہماری ذمہ داریاں سب سے زيادہ ہيں ۔اور سب سے زیادہ فرائض ہمارے کاندھوں پر ہیں ۔ ہمیں امید ہےکہ اسلامی جمہوریہ کے حکام کو امیرالمومنین(ع) کی مانند یہ توفیق حاصل ہوگي اور وہ آپ کے بتاۓ ہوۓ راستے پر گامزن رہیں گے۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نے اس راہ میں بہت مصائب ومشکلات برداشت کۓ ہیں ۔۔۔۔۔ امیرالمومنین(ع) نے معروف دعا ، دعاءکمیل میں جو آپ ہی کی تعلیم کردہ ہے- اللہ کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ فرماتے ہیں الہی وسیدی و مولائی وما لک رقی من جملہ یہ خطاب بھی میرے کانوں اور ذہن پر بہت اثر انداز ہوا کہ یا من الیہ شکوت و احوالی مفاتیح الجنان ، دعاء کمیل اے وہ کہ میں جس سے اپنے شکوے بیان کرتا ہوں : آپ خدا سے شکوے کرتے تھے: آپ کا دل درد سے بھرا ہوا تھا۔ امیرالمومنین کی تشویش عوام اور معاشرے کیلۓ بھی تھی اور اس دور میں نو تشکیل اسلامی نظام میں دین کی صورتحال اور مذہب کی صحیح سمت میں حرکت اور خود آپ کا شدید احساس ذمہ داری بھی اس میں شامل تھا ۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نےیہ ذمہ داری پوری کرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی ۔
فاطمہ زہرا (س) انسانیت کی معراجمیں اسلام کے نام سے اپنی بات کا آغاز کرتاہوں اور اسلام کے پیغام کو عظیم پیغام مانتا ہوں۔ آپ جیسی خواتین پر مجھے فخر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئي دعوی عمل کے مرحلے کے نزدیک پہنچ جاتا ہے تب اسے اس کی حقیقی اہمیت حاصل ہوتی ہے ہم ایک طرف تو خواتین کے مسئلے میں اور دوسری طرف علم و سائنس کے مسئلے میں جبکہ دوسرے پہلو سے انسانیت کی خدمت کےمسئلے میں خاص نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر اسلام کے تناظر میں ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اچھے انسانی معاشرے میں عورتیں اس بات کی صلاحیت رکھتی ہیں اور انہیں اس کا موقع بھی ملنا چاہئے کہ، اپنے طور علمی، سماجی، تعمیری اور انتظامی شعبوں میں اپنی کوشش اور بھرپور تعاون کریں۔ اس زاوئے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر انسان کی تخلیق کا مقصد پوری انسانیت کی تخلیق کا مقصد ہے، یعنی انسانی کمال تک رسائي ایسی خصوصیات اور صفات سے خود کو آراستہ کرنا جن سے ایک انسان آراستہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ اس کی سب سے واضح علامت پہلے مرحلے میں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات با صفات ہے اور اس کے بعد انسانی تاریخ کی دیگر عظیم خواتین کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا آسمان انسانیت آفتاب کی مانند ضو فشاں ہیں کوئی بھی ان سے بلند و برتر نہیں ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے ایک مسلمان خاتون کی حیثیت سے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کی کہ خود کو انسانیت کی اوج پر پہنچا دیں۔ لہذا مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جب اچھے اور برے انسانوں کی مثال دی ہے تو عورت اور مرد دونوں سے متعلق مثال پیش کی ہے۔ ایک جگہ فرعون کی بیوی کا تذکرہ فرمایا ہے تو دوسرے مقام پر حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کا ذکر فرمایا ہے '' و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرءۃ فرعون اس کے مقابلے میں برے انسانوں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کی مثال دی ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ تاریخ میں عورت کے سلسلے میں جو غلط تصور قائم رہا اس کی اصلاح کرے۔ مجھے حیرت ہے کہ معدودے چند مثالوں کے علاوہ ایسا کیوں ہے ؟ کیوں انسان نے مرد اور عورت کے مسئلے میں ہمیشہ غلط طرز فکر اختیار کیا اور اس پر وہ مصر رہا۔ آپ انبیا کی تعلیمات سے ہٹ کر دیکھیں تو عورتوں کے سلسلے میں جو بھی نظریات قائم کئے گئے ہیں ان میں مرد اور عورت کا مقام حقیقت سے دور ہے اور مرد و عورت کے درمیان جو نسبت بیان کی گئي ہے وہ بھی غلط ہے۔ حتی بہت قدیمی تہذیبوں میں بھی جیسے کہ روم یا ایران کی تہذیبیں ہیں، عورت کے سلسلے میں جو تصور اور نظریہ ہے درست نہیں ہے۔ میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، آپ خود ہی اس سے واقف ہیں اور خود جائزہ لے سکتے ہیں۔ آج بھی دنیا کی وہی حالت ہے۔ آج بھی عورتوں کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے اور اس کی ذات کے انسانی پہلو پر تاکید کے نعروں کے باوجود عورتوں کے سلسلے میں جو نظریہ ہے وہ غلط ہے۔ چونکہ یورپی ممالک، مسلم ممالک کی مقابلے میں ذرا تاخیر سے اس بحث میں شامل ہوئے ہیں اس لئے خواتین کے مسئلے میں ذرا دیر سے جاگے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے تک یورپ میں کہیں بھی کسی بھی خاتون کو اظہار رائے کا حق نہیں ہوتا تھا جہاں جمہوریت تھی حتی وہاں بھی عورت کو اپنا مال خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا تھا۔ بیسوی صدی کے دوسرے عشرے سے یعنی سن انیس سو سولہ یا اٹھارہ سے رفتہ رفتہ یورپی ممالک میں فیصلہ کیا گيا کہ عورتوں کو بھی اپنے سرمائے کے سلسلے میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا جائے اور وہ سماجی امور میں مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرے۔ اس بنا پر یورپ بہت تاخیر کے ساتھ خواب غفلت سے جاگا اور بڑی دیر میں وہ اس مسئلے کو سمجھا۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کھوکھلے دعوؤں کا سہارا لیکر اپنے اس پسماندگی کی تلافی کرنا چاہتا ہے ۔ یورپی کی تاریخ میں کچھ ملکہ اور شہزادیاں گذری ہیں لیکن کسی ایک خاتون، ایک گھرانے، خاندان یا قبیلے کی عورتوں کا مسئلہ عورتوں کے عام مسئلے سے الگ ہے۔ تفریق ہمیشہ رہی ہے۔ کچھ عورتیں ایسی بھی تھیں جو اعلی مقام تک پہنچیں کسی ملک کی حاکم بن گئیں اور انہیں حکومت وراثت میں مل گئی، لیکن معاشرے کی سطح پر عورتوں کو یہ مقام نہیں ملا اور ادیان الہی کی تعلیمات کے برخلاف کہ جن میں اسلام کی تعلیمات سب سے زیادہ معتبر ہیں عورت ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھی گئی۔ آپ آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ مغرب کی مہذب دنیا، عورتوں کے سلسلے میں اپنی شرمناک پسماندگي کی تلافی کرنے کے در پے ہے اور اس کے لئے ایک نیا طریقہ اختیار کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ عورتوں کے انسانی پہلو کو سیاسی، اقتصادی اور تشہیراتی مسائل کی نذر کر دیتے ہیں۔ یورپ میں روز اول سے ہی یہ صورت حال رہی۔ اسی وقت سے جب خواتین کو ان کے حقوق دینے کے مسئلہ اٹھا، انہیں غلط معیاروں کا انتخاب کیا گیا۔ جب ہم دنیا کے فکری اور نظریاتی نظام پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اسلام کی تعلیمات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ انسانی معاشرہ اسی صورت میں خواتین کے مسئلے میں اور مرد اور عورت کے رابطے کے تعلق سے مطلوبہ منزل تک پہنچ سکتا ہے، جب اسلامی تعلیمات کو من و عن قبول کرے اور بغیر کسی کمی بیشی کے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ دنیا میں عورت کے تعلق سے ہمارا یہ خیال ہے۔ آج کی دنیا پرست تہذیبوں میں عورتوں کے سلسلے میں جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ہم اس سے ہم متفق نہیں ہیں اسے ہم عورتوں کے لئے سودمند اور معاشرے کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ اسلام چاہتا ہے کہ، خواتین، فکری، علمی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر روحانی اور اخلاقی کمال کو پہنچیں۔ ان کا وجود معاشرے اور انسانی برادری کے لئے بھرپور انداز میں ثمر بخش ہو۔حجاب سمیت اسلامی تعلیمات کی بنیاد یہی ہے۔ حجاب، خواتین کو الگ تھلگ کر دینے کے لئے نہیں ہے۔ اگر کوئی حجاب کے سلسلے میں ایسا نظریہ رکھتا ہے تو یہ بالکل غلط اور گمراہ کن نظریہ ہے۔ حجاب در حقیقت معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی جنسی بے راہ روی کو روکنےکے لئے ہے کیونکہ یہ صورت حال دونوں بالخصوص عورتوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔ حجاب کسی بھی طرح سیاسی، سماجی اور علمی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں ڈالتا اس کی زندہ مثال خود آپ لوگ ہیں۔ شائد کچھ لوگ حیرت میں رہے ہوں یا آج بھی حیرت زدہ ہوں کہ کسی بلند علمی مقام پر فائز کوئي خاتون اسلامی تعلیمات بالخصوص حجاب کی پابند ہو۔ یہ بات کچھ لوگوں کے لئے نا قابل یقین تھی اور وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ شاہ کی طاغوتی حکومت کے زمانے میں پردے کا مذاق اڑانے والوں کے ناروا سلوک کا تذکرہ تو چھوڑیں ۔اس زمانے میں یونیورسٹی میں بہت کم خواتین اور لڑکیاں با حجاب تھیں کہ جنہیں تمسخر اور استہزا کا شانہ بنایا جاتا تھا ۔۔۔ ہمارے اسلامی انقلاب کی جد وجہد میں عورتوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور ان غلط نظریات پر خط بطلان کھیچ دیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح خواتین نے انقلاب کے لئے بنیادی کردار ادا کیا اس میں میں کوئي مبالغہ آرائي نہیں کر رہا ہوں ۔ ہم نے انقلاب کے دوران دیکھا کہ ہمارے ملک میں خواتین نے ہراول دستے کی ذمہ داری سنبھالی۔ اگر خواتین نے اس انقلاب کو قبول نہ کیا ہوتا اور اس سے انہیں عقیدت نہ ہوتی تو یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر خواتین نہ ہوتیں تو انقلابیوں کی تعداد خود بخود نصف ہو جاتی دوسری بات یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی کہ ان کے فرزندوں بھائیوں اور شوہروں پر بھی اثر پڑتا گھر کے ماحول پر اثر پڑتا کیوں کہ خواتین گھر میں اپنا خاص انداز رکھتی ہیں۔ خواتین کا بھرپور تعاون تھا جس کے نتیجے میں دشمن کی کمر ٹوٹ گئي اور ہماری تحریک آگے بڑھی۔ سیاسی شعبے میں بھی ہم نے خواتین کو دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں، وہ مسایل کے حل میں خاص صلاحتیوں سے آراستہ ہیں اور اسلامی نظام میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے پر قادر۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہنا چاہئے۔ علمی میدان میں بھی، خواتین کی پیش رفت کا مصداق آپ خود ہیں اسی طرح آپ کی بہنیں ہیں جو دیگر شعبوں میں مشغول ہیں۔ ہمارے معاشرے میں علم کے مختلف موضوعات کی تعلیم جو معاشرے کی تعمیر کے لئے لازمی ہے ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ آج تحصیل علم سماجی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ہی شرعی فریضہ بھی ہے۔ تحصیل علم صرف ذاتی خصوصیت نہیں ہے کہ جس کے سہارے کوئی شخص کسی خاص مقام پر پہنچ جائےاور اسے اچھی آمدنی ہونے لگے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو افراد تحصیل علم پر قادر ہیں ان کے لئے تحصیل علم واجب ہے اسپشلائزیشن واجب ہے۔ بقیہ موضوعات کی مانند میڈیکل سائنس کی تعلیم مردوں کی لئے واجب ہے تو عورتوں کے لئے اس سے بڑھ کر واجب ہے۔ کیوں کہ معاشرے میں خواتین کے مقابلے میں کام کے مواقع محدود ہیں۔ ہمارے پاس خاتون ڈاکٹروں کی کمی ہے اس بنا پر اسلام کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ حل شدہ ہے اور ہمارے معاشرے کے لئے ترقی ضروری ہے۔ آپ اپنا عملی پیغام دنیا کو دیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ خواتین کے پاس دنیا کے لئے پیغام ہے۔ اس پیغام کو منظم شکل دیں اور دنیا کے سامنے پیش کریں۔ پیغام صرف تحریری اور زبانی نہیں ہے، بلکہ عملی پیغام ہے۔ ایرانی خواتین بالخصوص وہ خواتین جنہوں نے اسلام کے تناظر میں اور اسلامی احکامات پر عمل آوری خاص کر حجاب کی پابندی کے ساتھ، مختلف علمی میدانوں میں پیش رفت کی ہے، دنیا کی طالبات کو عملی پیغام دیں کہ علم اور سائنس کا مطلب بے راہ روی نہیں ہے سائنس کا مطلب مرد اورعورت کے درمیان رابطے میں اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان اصولوں پر عمل آوری کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے اور اعلی علمی مدارج پر پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ کا وجود اسلامی کے عالمی پیغام کا مظہر اور مصداق ثابت ہو سکتا ہے۔ میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ دنیا ادیان کا پیغام سننے کے لئے بیتاب ہے۔ آسمانی ادیان میں جو دین و دنیا کو معاشرے کو سنوار دینے کی صلاحیت رکھنے کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام ہے۔ عیسائیت اور دیگر ادیان اس وقت یہ دعوی نہیں کر رہے ہیں لیکن اسلام اس کا دعویدار ہے کہ اس کے پاس ایک آئیڈیل معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں اور ضروری عناصر موجود ہیں وہ ان بنیادوں اور ستونوں کے سہارے ایک مثالی سماجی نظام اور معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تمام شعبوں میں بالخصوص علم و دانش کے شعبے میں اور خواتین کے تعلق سے یہ ثابت کریں کہ اسلام میں اس کی صلاحیت ہے۔