اگرچہ اسلامی انقلاب کے دوران رونما ہونے والے تعجب خیز بے نظیر واقعات کم نہیں ہیں اور ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے آغاز سے ، جو اسلامی انقلاب پر منتج ہوئی، اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک، جدوجہد اور انقلاب کے دوران رونما ہونے ہونے والے حیرت انگیز اور عدیم المثال واقعات یکے بعد دیگرے آنکھوں اور دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تاہم ان حیرت انگیز واقعات کے دوران شہید کا مسئلہ ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
بہت اچھی اور دلچسپ نشست ہے ۔ ایسے فضلاء، علماء، طلاب، جوانوں اور نوجوانوں کا بڑا مجمع کہ جنہوں علم دین اور خدا کے بندوں کی مدد و نصرت کی راہ میں قدم رکھا ہے، آج یہاں موجود ہے۔ یہ صوبہ بھی علمی شخصیتوں اور علمائے دین کا مرکز رہا ہے۔ ہم اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں عظیم شخصیات کو میدان عمل میں پہنچانے میں اس صوبے کا کردار نظر آتا ہے، قدیم ایام سے، تیسری ہجری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن شیراز کے عزیز عوام سے ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا۔
صوبہ فارس سے تعلق رکھنے والے احباب اور شیرازی دوستوں کی ایک مدت سے شکایت تھی کہ ایک عرصے سے صوبہ فارس کا دورہ انجام نہیں پایا ہے۔ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آپ عزیزوں سے ملاقات، آپ کے دلکش شہر کے نظارے اور آپ کے مایہ فخر اور پر برکت صوبے کے دورے کا میں بھی آپ ہی کی طرح مشتاق تھا۔ یہ فرزانہ شخصیات کا گہوارہ اور علم و ادب اور ذوق و فن کاری کا شہر ہے۔ یہ تاریخی اور شہرہ آفاق چہروں کا شہر ہے۔ شہر شیراز اور صوبہ فارس کو ملک کے شہروں اور صوبوں میں خاص مقام حاصل ہے۔ مختلف شہروں کے دوروں اور مقامی عوام سے ملاقاتوں کے دوران یہ میرا وتیرہ رہا ہے کہ متعلقہ شہر کی تاریخی حیثیت اور دیگر خصوصیات کا تذکرہ کرتا ہوں اس سے میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس عظیم سر زمین کے ہر خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے سامنے اپنے علاقے کے تشخص اور تاریخ کی واضح تصویر آ جائے تاہم شہر شیراز اور صوبہ فارس کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کے شہر اور صوبے کی عظیم شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں ان کا ایسا شہرہ ہے کہ شیراز کے تعارف اور یہاں کی تاریخ کے تذکرے کی ضرورت ہی نہیں۔ البتہ میں ایک خاص نتیجے پر پہنچا ہوں، جس کے تحت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ صدیوں کے دوران تمام علمی شعبوں میں شیراز کے باسیوں نے اپنی انسانی استعداد اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اسی طرح سماجی اور دینی شعبوں اور اس اہم چیز کے سلسلے میں جس پر قوموں کی تقدیر کا انحصار ہوتا ہے یعنی قومی عزم و ارادہ، صوبہ فارس اور شہر شیراز کی بڑی تابناک تاریخ ہے۔ آپ کی تاریخ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس خطے اور یہاں کہ عوام کی عظمت کے نئے نئےپہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ دینی پہلو کا جہاں تک سوال ہے کہ جس کے بارے میں میں بعد میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا، خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے حضرت احمد بن موسی اور آپ کے بھائیوں اور دیگر امام زادوں کی قبور، اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرزندان رسول نے فارس کے علاقے اور یہاں کے عوام کو اپنا مخاطب اور اپنی منزل کے طور پر منتخب فرمایا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ بالخصوص جناب احمد بن موسی جو خاندان رسالت کی بڑی برجستہ شخصیت تھی ان کے بارے میں نقل کیا گيا ہے، و کان احمد بن موسی کریما جلیلا ورعا و کان ابوالحسن علیہ السلام یحبہ و یقدمہ، آپ کے والد گرامی اپنی اولادوں میں آپ کو خاص درجہ دیتے تھے اور آپ سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ سخی، پرہیزگار اور بڑے عظیم المرتبت انسان تھے۔ خاندان رسالت کے اس چشم و چراغ اور دیگر شخصیات کی نگاہ انتخاب شیراز پر ٹھہری وہ آئے اور عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان عظیم شخصیات کی برکتیں آج بھی ملک کے اس اہم علاقے اور اس صوبے میں جاری و ساری ہیں۔
علم و ادب کے شعبے میں دیکھا جائے تو سعدی و حافظ زبان فارسی اور فارسی ادب کی پیشانی کے دو درخشاں ستارے ہیں۔ کون ہے جو اس سے آگاہ نہ ہو۔ علم و ادب کے مختلف شعبوں میں اس خطے سے عظیم شخصیات سامنے آئي ہیں جو اپنے اپنے دور میں یکتائے زمانہ تصور کی جاتی تھیں۔ فلسفہ، فقہ، ادبیات، فن و ہنر، تفسیر و لغت، نجوم، فزکس اور طب جیسے شعبوں کی عظیم شخصیات جو مختلف علوم کے نقطہ کمال پر فائز تھیں اور زمانے کے سرکردہ شخصیات میں شمار کی جاتی تھیں ان کا فردا فردا تعارف کرانے کا اس وقت موقع نہیں ہے اس کے لئے ایک الگ قسم کی محفل اور اجتماع کی ضروت ہے۔ یہاں تو بس سرسری تذکرہ ہی کافی ہے۔
سماجی امور اور آپ عزیزوں کی غیرت دینی اور جرئت اقدام کے سنہری صفحات تاریخ میں موجود ہیں۔ ملک کی دینی علوم کی تاریخ میں جتنے مجاہد علما اس صوبے سے نکلے ہیں اس کی مثال ملک کے کسی اور صوبے میں مل پانا مشکل ہے۔ مرزا شیرازی سے سب واقف ہیں، سید علی اکبر فال اسیری مرحوم نے انگریزوں اور غیر ملکیوں کے خلاف اسی شہر سے قیام کیا اور اپنی مخالفت کا اعلان فرمایا۔ انہیں گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا لیکن ان کی تحریک کے اثرات باقی رہے۔ یہی جگہ حافظیہ جہاں اس وقت آپ حضرات تشریف فرما ہیں اس کے بارے میں لکھا گيا ہےکہ سید علی اکبر فال اسیری حافظیہ کے نزدیک زیارت عاشورا پڑھنے میں مصروف تھے کہ اچانک دبش پڑی اور آپ کو گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا۔ مرزا شیرازی اسی طرح مرزا دوم مرزا محمد تقی شیرازی کہ جو پہلی عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں برطانیہ کے حملے اور قبضے کے خلاف عراقی عوام کی جد وجہد کی روح رواں تھے۔ سید عبد الحسین لاری مرحوم بھی ایک برجستہ اور ممتاز شخصیت تھی جس نے اسی صوبہ فارس کے غیور اور شجاع قبائل کی مدد سے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی اور آئینی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے جد و جہد فرمائي۔ اس مجاہد شخصیت نےتقریبا سو سال قبل اپنی جد و جہد شروع کی۔
صوبے میں ایسے علما بڑی تعداد میں گزرے ہیں جنہیں صوبہ فارس کے قبائل اور شہروں بالخصوص شیراز سے تعلق رکھنے والے مومن و غیور عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سید نور الدین حسینی مرحوم نے اسی شہر شیراز میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کے اہلکار کو جس نے دینی مقدسات کی بے حرمتی کی تھی حد الہی جاری کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کوڑے لگائے۔ آپ نے ظالم نظام کے خلاف شجاعانہ انداز میں سیاسی اور سماجی جد و جہد کی۔ اس کے بعد بھی علما کے جہاد کے زمانے میں آیت اللہ شہید دستغیب، آیت اللہ محلاتی مرحوم اور دیگر علما نے شیراز کی جامع مسجد عتیق کو اپنی تحریک کا مرکز قرار دیا۔ شیراز کے علما کی تحریک کا شہرہ اور اس تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے آیت اللہ دستغیب مرحوم کی شعلہ تقاریر گوشے گوشے تک پہنچیں۔ میں اس وقت قم میں تھا۔ شہید دستغیب کی تقریر کی کیسٹ طلبا کے درمیان گشت کر رہی تھی۔ ہم نے اسی وقت شیراز کے مجاہد علما کے موقف سے آگاہی حاصل کی۔
عہد حاضر میں بھی خواہ وہ انقلاب کے بعد کا زمانہ ہو، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کا زمانہ ہو یا اس کے بعد سے اب تک کے ایام، آپ عزیزوں، نوجوانوں، برجستہ شخصیات اور مومنین نے خود کو ہر مرحلے پر ممتاز مقام پر رکھا ہے اور صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ اپنے عمل سے صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام کے تشخص کی پاسداری کی ہے۔ اس وقت بھی سائنس و ٹکنالوجی، تحقیق و خلاقیت اور علمی سرگرمیوں کے سلسلے میں یہ صوبہ زباں زد خاص و عام ہے۔ آپ کے صوبے سے تعلق رکھنے والے سائنسداں اور دانشور آج عالمی سطح کی شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس، الیکٹرانک انڈسٹری، پیٹرو کیمیکل انڈسٹری، سائنس کے مختلف شعبوں اور انجینئرنگ میں یہ صوبہ بہت آگے ہے۔ شیراز یونیورسٹی کئی نئے موضوعات اور اسپشلائیزیشنس میں پیش قدم رہی ہے۔ مختلف شعبوں اور میدانوں میں آپ نوجوانوں اور لوگوں کا تعاون بہت نمایاں ہے۔ اس شہر میں تعینات فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں نے مقدس دفاع کے دوران بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح ماضی میں دین و ایمان اور عقیدے کے لحاظ سے، علمی کوششوں کے زاوئے سے دفاعی سرگرمیوں کی رو سے اسلامی انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کے نقطہ نگاہ سے اور دیگر متعدد امور میں اس صوبے اور شہر نے ایسی استعداد اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ جو قابل صد ستائش ہے۔ اس نکتےپر کہ یہ انسانی صلاحیتوں کا عظیم سرچشمہ ہے حکام کے کی توجہ بھی مرکوز رہنی چاہئے اور خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں اور تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان میں سے ہر فرد میں یہ صلاحیت ہے کہ اس سرزمین اور پوے خطے کو اپنے فیض سے سیراب کرے اس وضاحت سے میرا مقصد یہی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ صوبہ فارس بالخصوص شہر شیراز کے عوام کے گہرے ایمان و عقیدے کی بابت صرف دعوا نہیں ہے بلکہ تمام پہلؤوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ مذہبی تشخص کی درخشاں تاریخ اور گزشتہ برسوں کے دوران اہم سرگرمیاں انجام دینے والے مجاہد علما کے اس شہر کے خلاف، دینی رجحان کو ختم کر دینے کے لئے دو سمتوں سے حملے ہوئے ایک تو طاغوتی حکومت کے دربار کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا کہ شہر شیراز کو صد فیصد مغرب زدہ شہر کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ اس کا سلسلہ انیس سو پچاس کے عشرے سے شروع ہوکر انقلاب کی کامیابی تک بیس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ سن ستاون اٹھاون کی بات ہے کہ ہم نے اسی شہر شیراز میں بے راہ روی کے مناظر دیکھے جس کے لئے با قاعدہ منظم طور پر کوششیں کی گئیں۔ نوجوانوں کو اخلاقی انحطاط اور دین سے بیزاری کی طرف لے جایا گيا۔ یہ سلسلہ اسی طرح سن ستر اکہتر تک جاری رہا۔ جشن ہنر شیراز اور کچھ دیگر معاملے جس کے بارے میں آپ بخوبی واقف ہیں البتہ شائد ہمارے کچھ نوجوانوں کے اس کا علم نہ ہو، یہ سب کچھ منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔
ایک اور فکری انحراف کہ جس کی شیراز میں دیگر شہروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ترویج کی جا رہی تھی الحادی مکتب فکر تھا، اس کی ترویج ایک گروہ بڑے شد و مد سے کر رہا تھا۔ خاص طور سے سید نور الدین مرحوم کے زمانے میں جو بڑے شجاع، حالات سے آگاہ اور بہت فعال و زیرک عالم دین تھے، جب یہ دیکھا گيا کہ شیراز میں علما کا خاص اثر و رسوخ ہے تو دربار اور مارکسسٹوں نے ایک قینچی کی دو بلیڈوں کی طرح عوام اور نوجوانوں کے دین و ایمان کو نابود کر دینے کی کوششیں کیں لیکن جب سن باسٹھ ترسٹھ ع میں اسلامی تحریک شروع ہوئي تو انہی علما اور نوجوانوں نے اس شہر میں بڑے اہم اور فیصلہ کن اقدامات انجام دئے یعنی قومی سطح پر قم، تہران، شیراز، تبریز اور مشہد صف اول کے شہروں میں تھے، شیراز انہیں صف اول کے شہروں میں ایک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیراز کی برجستہ علمی شخصیات کو گرفتار کرکے تہران لے جایا گيا تھا۔
عوام کو دین سے دور کرنے کی جی توڑ کوشش کی گئي لیکن عوام کا جواب دو ٹوک تھا۔ عوام نے اپنے عمل اور اپنی استقامت سے ان کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد بھی طاغوتی حکومت کے اقتدار کے آخری برسوں یعنی ستتر اٹھہتر میں شیراز کے عوام نےملک کے تمام شہروں کے لئے خود کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کیا۔
میں نے یہ جو باتیں عرض کی ہیں انہیں آپ مقدمہ سخن نہ سمجھئے یہ تکلفات کی باتیں نہیں ہیں، خوش کرنے کی کوشش نہیں ہے، یہ کسی خاص نتیجے تک پہنچنے کے لئے ہے۔ اب میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کروں گا جو انقلاب کے امور سے متعلق ہے اور جس کا ان باتوں سے تعلق ہے۔
اپنے ملک کی تاریخ میں ہم جتنا غور کرتے ہیں اور ماضی میں جتنا بھی دور تک پلٹ کر دیکھتے ہیں، اسلامی انقلاب کی کوئي نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ میں اس کی تھوڑی وضاحت کرتا ہوں، ہمارے ملک کی تاریخ میں، جنگ پسندوں کی کوششوں، لشکر کشی، کودتا یا بغاوت اور ٹکراؤ کے ذریعے اقتدار کی چھین جھپٹ ہمیشہ رہی ہے تاہم اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا، کئي خاندان اقتدار میں آئے اور گئے۔ آپ غور فرمائیں کہ اسی شہر شیراز اور صوبہ فارس میں مثال کے طور پر زندیہ بادشاہوں کی حکومت رہی پھر قاجاریہ خاندان آیا اور اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، دو فوجوں اور دو اقتدار پرستوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ دونوں فوجی طاقتیں تھیں۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں خواہ وہ اسلام سے قبل کا زمانہ ہو یا بعد کا آج تک اقتدار کی منتقلی اسی طرز پر انجام پائي۔ ماضی میں صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے جس کے بارے میں میں ابھی وضاحت کروں گا، اس کے علاوہ ہمیشہ اقتدار پر قبضہ، لشکر کشی، فوجی چڑھائی سے ہوا۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا۔ عوام میں اس کے لئے کوئي دلچسپی ہی نہیں تھی، خواہ ایک سلسلہ حکومت سے دوسرے سلسلہ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ ہو یا ایک ہی سلسلہ حکومت کے اندر کشمکش کا واقعہ ہو۔ اس سلسلے میں قاجاریہ دور اقتدار کی ایک مثال آپ کے شہر کی ہی ہے کہ فتح علی شاہ قاجار کی موت کے بعد فتح علی شاہ کے ایک بیٹے حسین علی مرزا کی شیراز میں حکومت تھی، وہ تہران کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا، فتح علی شاہ کے پوتے محمد شاہ کو بادشاہت مل گئي تھی دونوں میں اسی بات پر جنگ ہو گئی۔ اسی شہر شیراز کے دروازے کے باہر دو فوجوں کے درمیان جنگ ہوئي۔ البتہ ان جنگوں میں پستے تھے عوام انہیں بھی نقصان پہنچتا تھا، ان کی کھیتیاں برباد ہو جایا کرتی تھیں ان کی جان و مال کے لئے خطرے پیدا ہو جاتے تھے۔ تاہم ان جنگوں میں ان کا کوئي کردار نہیں ہوتا تھا۔ تاریخ میں یہی سلسلہ رہا ہے۔ صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے تاہم تاریخی لحاظ سے اس میں کچھ شکوک و شبہات ہیں اور کچھ افسانے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایک لوہار کاوہ کا ہے۔ بتاتے ہیں کہ عوام کی پشتپناہی سے اس نے ضحاک کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اس کا خاتمہ کر دیا، اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ ہے، اس کے علاوہ تاریخ میں کوئي اور مثال نہیں ہے۔ البتہ پہلوی دور کے آغاز کے بعد کی جو تاریخ یورپیوں نے مرتب کی ہے اس میں فریدون، ضحاک اور کاوہ لوہار کا کوئي تذکرہ نہیں ملتا۔انہوں نے الگ ہی نہج پر تاریخ لکھی ہے کہ جوایک الگ موضوع ہے جس پر اس وقت میں گفتگو نہیں کروں گا۔ اگر صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ تاریخ میں ہے اور بس۔
اسلامی انقلاب ہماری تاریخ میں اقتدار اور حکومت کی تبدیلی کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس نے شہنشاہی نظام کو عوامی حکومت میں تبدیل کر دیا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو عوامی قوت سے انجام پائی۔ اس واقعے میں دو حکومتوں کا ٹکراؤ اور لڑائي نہیں تھی۔ عوام باہر آئے انہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا اور عظیم الہی قوت کے ذریعے بادشاہوں، طاغوتی طاقتوں اور نفس پرست ظالموں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حکومت عوامی حکومت بن گئي ۔ جہاں تک ہم نے غور کیا اور سمجھا ہے یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ تو یہ واقعہ ایسی اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر مختلف پہلؤوں سے غور کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی صرورت ہے۔ انقلاب کو تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم اس واقعے کے بنیادی امور پر ایک نظر ڈالیں، بہت زیادہ تفصیلات میں جانے اور چھوٹے موٹے واقعات کا جائزہ لینے کا زیادہ فائدہ نہیں ہے اور اس سے کسی بات کی پوری وضاحت نہیں ہو سکتی۔ ہمیں پورے واقعے پر ایک وسیع نظر ڈالنے کی ضرورت ہے البتہ ہمارے دانشوروں اور علمی شخصیات نے اس واقعے کا اسی انداز سے جائزہ لیا ہے تاہم عوامی سطح پر بھی اس واقعے کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
دنیا کے کسی بھی واقعے کے سلسلے میں چندعناصر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ پہلا عنصر واقعے کے اتبدائي عوامل ہیں یعنی، اہداف، تاریخی حالات، جغرافیائي صورت حال اور سیاسی ماحول یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی واقعے کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ دوسرا عنصر واقعے کے علمبردار ہیں۔ ہمارے انقلاب میں پہلا عنصر یہی عوام کا ایمان، حریت پسندانہ جد و جہد اور اس تحریک کی وہ چنگاری ہے جو آئینی انقلاب، مرزا شیرازی کی طرف سے تمباکو کو حرام قرار دئے جانے کے واقعے، دیگر بہت سے واقعات اور تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کے واقعے سے پیدا ہوئی۔ اس طرح حالات بنے اور مجاہد علما اور خود امام (خمینی رہ) نے اس سے استفادہ کیا اور اس تحریک کو سمت عطا کی۔ یہ رہا پہلا عنصر۔
دوسرا عنصر یعنی واقعے کے علمبردار، ہمارے عوام تھے۔ تاریخ کے بے نظیر واقعے عظیم اسلامی انقلاب میں عوام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ آج جو نام نہاد روشن فکرانہ نظرئے میں عوام کے کردار کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس سے بے اعتنائي برتی جاتی ہے، غلط ہے۔ جب عوام کا رجحان کسی سمت بڑھتاہے اور کچھ لوگ اسے اپنے لئے نفع بخش نہیں دیکھتے تو اس کی اہمیت کو کم کرنے لگتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ عوامی ارادے اور عوامی تعاون سے ہی اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔
ملت ایران نے اپنے ایمان، اپنے جذبات، اپنی قومی حمیت، اپنی پر افتخار تاریخ و ثقافت کے ذریعے یہ عظیم تحریک شروع کی۔ ایرانی قوم کے ہدف کے بارے میں جس سے بھی سوال ہوتا تھا وہ اپنی زبان میں اس ہدف کو بیان کرتا تھا۔ اس طرح اسلام کے پرچم تلے، آزادی اور خود مختاری حاصل ہوئي۔ انقلاب کے دوران رائج نعرہ :استقلال (خود مختاری)، آزادی ، جمہوری اسلامی در حقیقت عوام کی دلی خواہش اور ان کے ما فی الضمیر کا آئينہ دار تھا۔ عوام کی یہی خواہش تھی۔ عوام دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے کہ اس عظیم مملکت کے حکام اور ذمہ دار افراد فکری طور پر غلام بنے ہوئے تھے۔ اغیار کے تابع تھے، سامراجی طاقتوں کی غلامی کا پٹہ گلے میں پہنے اس پر نازاں تھے۔ ان کے سامنے تو بھیگي بلی بنے رہتے لیکن عوام کے ساتھ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ فرعون بھی شرمندہ ہو جائے۔ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ عوام کو کسی طرح کے انتخاب کا حق نہیں تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل تک کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عوام ، شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ ووٹ ڈالیں اور کسی کا انتخاب کریں اس کا کوئي تصور ہی نہیں تھا۔ حکومت موروثی، حکام اغیار کی ہدایت پر منصوب کردہ آئينی انقلاب سے وجود میں آنے والی پارلیمان مجلس شورا غیر منتخب پارلیمان اور عوام، اس غیر ذمہ دار ادارے کے فیصلوں کی قربانی تھے۔ عوام نے خود مختاری چاہی آزادی کی للک ان میں پیدا ہوئی قومی وقار کی چاہت ان میں جاگی، مادی آسائش اور روحانی و اخروی سر بلندی کا جذبہ ان میں پیدا ہوا جس نے عوام کو میدان عمل میں پہنچایا۔ تو یہ رہا اس واقعے کا دوسرا عنصر۔
تیسرا عنصر وہ رکاوٹیں اور مخالف طاقتیں ہیں جو واقعے کو رونما نہیں ہونے دینا چاہتیں جن کی وجہ سے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی یہ عنصر ابتدا سے ہی سامنے رہا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایرانی قوم نے سعی و کوشش اور جی توڑ محنت سے خود مختاری و آزادی حاصل کی ہے۔ البتہ اس کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہے اور قوم یہ قیمت ادا کر بھی رہی ہے۔ اگر کوئي قوم یا شخص اپنے مطلوبہ ہدف اور مقصد کی تکمیل تو چاہتا ہے لیکن اس کے لئے کوئي قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تو اس کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ کوئي رسک نہ لینے اور سعی و کوشش سے کنارہ کشی کی صورت میں ہدف تک رسائي کا تصور خام خیالی ہے۔ قوموں کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ وہی قوم عزت و سربلندی حاصل کرتی ہے جو پوری شجاعت سے میدان عمل میں قدم رکھتی ہے اپنے ہدف کی جانب بڑھتی ہے اور اس کی قیمت بھی پوری آگاہی کے ساتھ ادا کرتی ہے۔ایرانی قوم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایران نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کی شکل میں قیمت ادا کی ہے۔ یہ قیمت ہے حریت پسندی اور آزادی کی۔
سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتیں اپنی پوری سیاسی و اقتصادی قوت سے اور اپنے تشہیراتی نیٹ ورک کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہیں کہ شائد ایرانی قوم کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ صرف ایٹمی حق سے نہیں، ایٹمی حق تو قوم کے حقوق کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے حق سے، آزادی و خود مختاری کے حق سے، خود ارادی کے حق سے، سائنسی ترقی کے حق سے عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں۔ ایرانی قوم جو سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دو صدیوں کی پسماندگی کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ طاقتیں سراسیمہ ہو گئی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ایرانی قوم جو دنیا کے اس اہم ترین خطے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی حیثیت سے پہنچانی جاتی ہے یہ کامیابیاں حاصل کرے۔ لہذا دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن ایرانی قوم کے بے مثال ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے۔
۔۔۔۔۔ حاضرین کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم آپ پر پاندیاں عائد کر دیں گے۔ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیں گے۔ اچھا تو آپ نے ان تیس برسوں میں ایرانی قوم کا کبھی سخت تو کبھی نرم اقتصادی محاصرہ جاری رکھا، اس سے کس کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ایرانی قوم کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ہرگز نہیں۔ ہم نے پابندیوں سے اپنی پیش رفت کے لئے زمین ہموار کی۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم آپ کے فوجی ساز و سامان کے محتاج تھے۔آپ معمولی ترین فوجی ساز و سامان ہمیں فروخت نہیں کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ صاحب آپ پر پابندیاں ہیں۔ ہم نے انہی پابندیوں سے استفادہ کیا۔ آج ایرانی قوم نے ایسی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں کہ کل ہم پر پابندیاں عائد کرنے والے آج بوکھلائے ہوئے ہیں کہ ایران تو علاقے کی سب بڑی فوجی طاقت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ تو یہ نکلا پابندیوں کا نتیجہ۔ پابندیوں نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا، ہم نے اسے سنہری موقع میں تبدیل کر دیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں مغرب کی پابندیوں کا خوف نہیں۔ ایرانی قوم ہر پابندی اور اقتصادی محاصرے کے سامنے سعی پیہم کی ایک ایسی مثال پیش کرے گی جس سے اس کی ترقی میں اور بھی چار چاند لگ جائيں گے۔
۔۔۔۔۔۔ حاضرین کے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب پر اس زاوئے سے غور و فکر، یعنی اس کے پس پردہ کارفرما جذبات، اس کے حالات، عوامل اور نظام کی تشکیل اسی طرح اس میں بنیادی کردار کے حامل عوام اور ان کے ایمان کے بارے میں غور و فکر اور ان کی قربانیوں کا جائزہ لیں تو ہم جس مقام اور جس جگہ پر بھی ہوں گے اپنے معمولی اختلافات کو نظر انداز کر دیں گے۔ ہماری نظریں انقلاب کی عظمت اور تیس برسوں میں اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے جاری انقلابی سفر اس نکتے پر مرکوز رہیں گی کہ ایرانی قوم دشمنوں کی سازشوں میں شدت کے باوجود اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئےہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کے اللہ و اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایرانی قوم کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اس قوم کے عزم و ارادے کے کمزور کرنے کے لئے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا استعمال کریں، یہاں تک کہ قدرتی آفات، زلزلے، خشکسالی، اور دنیا کے عام مسائل جیسے مہنگائی جیسے مسائل۔ اگر آپ آج غیر ملکی نشریات کے تبصرے سنیں تو دیکھیں گے کہ ہمارے دشمن اپنے پروپگنڈے میں اقتصادی مسائل کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ ملت ایران کے پختہ ارادے کو کمزور کر دیں۔ ایرانی عوام اپنے حکام سے آشنا ہیں۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مہنگائي کی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ حکام اور محکمے بے اعتنائي برت رہے ہیں، غلط ہے۔ وہ ہرگز بے اعتنائي نہیں برت رہے ہیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ آج مغربی ممالک دوسروں سے زیادہ اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔ خود انہیں کے بقول، جو اقتصادی بحران امریکہ سے اٹھا ہے رفتہ رفتہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور دوسرے بھی بہت سے ممالک اس کی زد میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک اس صورت حال کا کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔
اقوام متحدہ نے دنیا میں غذائي اشیاء کے بحران کا اعلان کیا ہے۔ ملت ایران کی مشکلات بڑے بڑے دعوے کرنے والے ان ممالک میں بہتوں سے کم ہیں۔ البتہ عوام اور حکام کی محنت اور کوشش سے ان مشکلات کو بھی دور کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے سب کو مل جل کر کوشش کرنی چاہئے۔
مجریہ، عدلیہ اور مقننہ سارے شعبوں کے حکام کی ذمہ داری ہے اسی طرح اپنی جگہ پر عوام کا بھی فریضہ ہے کہ کوشش کریں۔ میں نے آپ کے صوبے اور شہر کی انسانی صلاحیتوں کے بارے میں جو کچھ بیان کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ صلاحیتیں اور توانائیاں ملک اور انقلاب کے مستقبل کے لئے استعمال کی جائیں، لوگ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ ہم میں سے ہر شخص جس جگہ پر بھی ہو اسے ملک کی تقدیر اور مستقبل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہم موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ طالب علم، استاد، کسان، صنعت کار اور سرمایہ کار کو مختلف صنعتی اور زراعتی شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو محسوس کرنا چاہئے۔ جب سب اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں گے اور حکومتی ادارے، پارلیمان اور عدلیہ کی جانب سے صحیح رہنمائي ہوگی تو قوم، مسائل مسلط کرنے کی دشمنوں کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں سے گزر جائے گي اور اپنی صلاحیتوں اور حکیمانہ طرز فکر سے ایسا معاشرہ تشکیل دے گي جو اسلام چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے عرض کیا کہ یہ سال ہماری قوم کی لئے خلاقیت کا سال ہونا چاہئے۔ یہ خلاقیت کسی ایک شعبے سے مختص نہیں ہے۔ تجربہ گاہیں ہوں کہ تحقیقاتی مراکز، دینی تعلیمی مرکز ہوں کہ یونیورسٹیاں، ادارے ہوں کہ صنعتی کارخانے، زراعت ہو کہ باغبانی ہر جگہ اور ہر میدان میں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کو ایک ایک قدم آگے بڑھنا ہے تاکہ مجموعی طور پر ملک ایک اہم موڑ سے آگے بڑھے۔
میں نے اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اس سال کے آغاز میں بھی اور گزشتہ سال کی ابتدا میں بھی عوام اور حکام دونوں کو یاددہانی کرائي کہ دشمن کی نگاہیں حساس ترین نقطے یعنی معیشت پر مرکوز ہیں اور ملک کو اقتصادی میدان میں مسائل سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان سے جو بھی بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں اور جو ان کے بس کے باہر ہے اس کا اپنی تشہیراتی مہم میں پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ دشمن کی تشہیراتی مہم کے تحت مختلف شکلوں میں ہم پر جو وار کئے جا رہے ہیں اس کا توڑ، مالی نظم و نسق ہے، کفایات شعاری ہے، صارف کلچر کے سلسلے میں محتاط انداز اختیار کرنا ہے ۔ میں اپنے عزیز شہریوں سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اسراف کی حد تک پہنچ جانے والا صارف کلچر کسی بھی قوم کی بڑی خطرناک بیماری ہے۔ ہم کسی حد تک اس بیماری سے دوچار ہیں۔ پانی کی کمی کی مشکل کے بارے میں جس کا صوبہ فارس سمیت کئي صوبوں کو سامنا ہے، سب سے پہلے میری اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ باران رحمت نازل فرمائے ساتھ ہی میں آپ سے بھی عرض کروں گا کہ اسراف کی ایک مثال پانی کی فضول خرچی ہے۔ گھروں کے دروازوں پر پانی گرانا ہی پانی کا اسراف نہیں ہے بلکہ زراعت کی آبیاری میں بھی فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے۔ اس شعبے کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ اس نکتے پر خاص توجہ کریں۔ اسراف کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ پانی کے سلسلے میں بھی اور دیگر امور کے سلسلے میں بھی۔
قوم بڑے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اور بھاری قیمتیں ادا کرتے ہوئے، جو کہ واقعی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی اور ایرانی قوم نے شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ یہ قیمت ادا کی، آج بہت سے منزلیں طے کر چکی ہے اور دشوار گزار مراحل کو عبور کر چکی ہے اور اللہ تعالی کے فضل کرم سے آج اس مقام پر کھڑی ہے تاہم اب بھی ہم ابتدائي منزلوں میں ہیں۔
ہماری قوم اپنے عزم راسخ سے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے تہہ در تہہ جمع ان توانائيوں سے انشاء اللہ اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی۔ انشاء اللہ ان تدابیر سے کہ جن کے بارے میں میں صوبے میں مختلف اجتماعات اور جلسوں میں وضاحت کروں گا اور موقع کی مناسبت سے جن پر روشنی ڈالوں گا انشاء اللہ عوام اپنا یہ سفر سربلندی و سرفرازی کے ساتھ مکمل کریں گے۔
میں آپ با ذوق، مہربان، مخلص، مہمان نواز، خوش اخلاق اور خوش گفتار دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بے شک ایرانی قوم کی بہت سی قابل ستائش خصوصیات شیرازی شہریوں اور صوبہ فارس کے عوام میں نمایاں ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کو خاص جوش و جذبے سے نوازا ہے۔ روز بروز یہ جوش و جذبہ بڑھے اور اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اس مرحلے کے انتخابات کی اہمیت پہلے مرحلے کی ہی مانند ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے دونوں مرحلوں کے انتخابات میں کوئي فرق نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں جس احساس ذمہ داری نے ہم سب کو پولنگ مراکز تک پہنچایا وہی جذبہ اور احساس ذمہ داری اس بار بھی ہمیں پولنگ مراکز پر لایا ہے کہ ہم اپنے حق رای دہی کا استعمال کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز بھائيو اور بہنو آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نمونہ محنت کش افراد، محنت کش طبقے کے نمائندگان اور شعبہ محنت سے وابستہ عہدہ داران! یقینا ایسے افراد کا اجتماع جن کا شعار اور نعرہ محنت کشی ہے، اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ ترین اجتماعات میں سے ایک ہے۔ قرآن اور اسلام میں محنت مزدوری کا بڑا بلند مقام ہے۔ البتہ کام اور محنت و مزدوری کارخانوں، کھیتوں اور اس طرح کے دیگر شعبوں تک محدود نہیں ہے تاہم قرآن میں جس عمل صالح پر خاص تاکید کی گئي ہے اس کے دائرے میں یہ کام بھی آتے ہیں۔ آپ جب ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، پوری تندہی اور سنجیدگی کے ساتھ، خلاقیت کے جذبے کے ساتھ، ایک خاندان کے لئے آذوقہ فراہم کرنے کی پاکیزہ نیت کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں اور کام انجام دیتے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک عمل صالح ہے۔ الا اللذین آمنو و عملوا الصالحات تو عزیزان گرامی عمل صالح اس کو کہتے ہیں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟! اس سے بہتر کیا ہے کہ انسان ایسے کام اور مشغلے میں مصروف ہے جس پر اس کے آذوقے کا دارومدار ہے۔ یہ کام عمل صالح ہے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے۔ آمنو و عملوا الصالحات محنت مزدوری اور کام کا مقام یہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک حکمنامہ جاری فرما کر جناب سید احمد میر عمادی کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمائندہ منصوب فرمایا۔ حکمنامہ درج ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم حجت الاسلام جناب الحاج سید احمد میر عمادی دامت برکاتہ اب جب کہ حجت الاسلام جناب حسینی میانچی، خرم آباد میں گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد مقدس شہر قم واپس تشریف لے جایا چاہتے ہیں تو جناب والا کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمایندہ منصوب کرتا ہوں۔ اس صوبے اور اس شہر کے عوام کی دلاوری و شجاعت، اور ایمان و استقامت زباں زد خاص و عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد اور اس سے قبل مختلف مواقع پر اس خطے کے عوام اپنی انہی صفات سے یاد کئے جاتے رہے ہیں اور جناب والا بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے زیور علم و عمل سے آراستہ اور خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے پر افتخار نسبت کے ذریعے وابستہ ہیں۔ اللہ تعالی کی توفیقات اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا فداہ کی عنایات سے انشاء اللہ آپ علاقے کے عزیز عوام بالخصوص نوجوانوں کے درمیان ایک با بصیرت و مہربان رہنما، امین و صادق مشیر اور دانا و تجربہ کار استاد کا کردار ادا کریں گے۔ اللہ تعالی سے آپ کے لئے تائید و نصرت اور لرستان کے عوام کے لئے کامرانی و سعادت کی دعا کرتا ہوں۔ سید علی خامنہ ای 27فروردین 1387(15. 4. 2008)
قائد انقلاب اسلامی نے شیراز کے ایک ثقافتی مرکز رہپویان وصال میں دھماکے کے واقعے کے بعد تعزیتی پیغام جاری فرمایا ہے۔اس پیغام کا متن درج ذیل ہے :بسم اللہ الرحمن الرحیمرہپویان وصال مرکز میں غم انگیز اور افسوس ناک واقعے نے کہ جو کئی وصال دوست عاشقوں کی شہیدانہ پرواز اور متعدد کے زخمی ہونے پر منتج ہوا، مجھے غم زدہ کر دیا۔اس تلخ واقعے کے سوگواروں اور متاثرین کے لیے تعزیت پیش کرتا ہوں۔ صابرین ....
بسم اللہ الرحمن الرحیمیا مقلب القلوب و الابصار یا مدبر اللیل والنھار یا محول الحول و الاحوال حول حالنا الی احسن الحال
اس سال کی بہار تین تین عیدیں لے کر آئی ہے۔ سب سے پہلے تو ولادت با سعادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے پھر حضرت امام صادق علیہ السلام کی عید میلاد ہے اور اس کے ساتھ ہی ایرانی قوم کی عید نوروز۔ میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض اور آپ کو ان عیدوں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ملت ایران، تمام مسلمانوں اور عاشقان اہلبیت عصمت و طہارت نیز عید نوروز منانے اور سال نو کے جشن میں ایرانیوں کی خوشیوں میں شریک ہونے والی تمام قوموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار کی تعداد میں جمع ہونے والے زائرین اور خدام سے اپنے خطاب میں اہم ترین دینی، سیاسی، اقتصادی، علمی و ثقافتی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی بیان پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المعصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آغاز سال کے موقع پر ایک دفعہ پھر حضرت امام علی رضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے جوار میں آپ عزیز زائرین اور خدام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع مرحمت فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمآزاد و سربلند قوم، عزیز ہم وطنو! اس دفعہ بھی آپ کی بھرپور اور حوصلہ مند مشارکت، دشمنوں کے مکر و فریب پر غالب آئی اور اس نے انتخابات کو بے رونق بنانے کے مقصد سے جاری دشمن کی شدید نفسیاتی جنگ کو کھوکھلے حباب میں تبدیل کر دیا۔تیس سال سے کم عرصے میں سخت و سازگار حالات میں تقریبا تیس انتخابات کا انعقاد کرکے اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید دنیا میں یہ ملک حقیقی جمہوری نظام کا حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کونسل کے وسط مدتی اور پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے آٹھویں دور کے انتخابات کے لئے ووٹ ڈالنے کے بعد ایران کے ریڈیو ٹیلی ویزن ادارے آئی آر آئ بی کے ایک نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات کسی بھی قوم کے لئے ایک معینہ دور کے لئے انتہائي فیصلہ کن ہوتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں تمام بھائي بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو قرب و جوار اور دور دراز سے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں اس محفل کو رونق بخشی ہے۔
میں ماہ ربیع الاول کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور عالم انسانیت کے لئے اہم ترین تاریخی موڑ کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کے پہلے دن، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت فرمائي، مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے، اسی دن سے مسلم معاشرے میں ہجری سال کا آغاز ہوا۔ اس طرح اس مہینے میں ولادت اور ہجرت کی دو بہاریں ہیں۔
پیش نظر اقوال مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہربار احادیث اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات کا وہ انتخاب ہے جو قائد انقلاب اسلامی نے احادیث کی معتبر کتب سے فقہ کے دروس میں حسن آغاز کے عنوان سے مختصر شرح و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیتوں اور سامراجی حلقوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک پیغام جاری فرمایا جو مندرجہ ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عظیم مسلم امہ، عزیز ملت ایران!
ان دنوں غزہ میں بڑی بھیانک اور دردناک وارداتیں ہو رہی ہیں، ان پر اپنے غم و اندوہ کو زبان و قلم سے بیان کر پانا ممکن نہیں۔ بےگناہ بچے، عورتیں اور مرد، مہینوں محاصرے کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد اب اپنے گھروں میں صیہونی بربریت اور درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سےپہلے تو میں شکریہ ادا کروں گا اپنے بھائیوں اور بہنوں کا جو دور دراز سے طویل راستہ طے کرکے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں، دوستانہ فضا میں یہ اجتماع ہو۔ آپ کا خیر مقدم ہے، میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
آذربائيجان کے عوام کے حریت پسندانہ اور دانشمندانہ کارنامے ملت ایران کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہیں یادگار کارناموں میں ایک انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ( اٹھارہ فروری انیس سو ستتر) کا واقعہ ہے۔ آپ کی تاریخ کے مختلف ادوار، خواہ وہ انقلاب سے قبل کا دور ہو، تحریک انقلاب کا دور ہو، مسلط کردہ جنگ اور دفاع مقدس کا دور ہو یا اس کے بعد سے اب تک کا دور ہو، آپ کے ایسے ہی کارناموں سے پر ہیں۔ البتہ آذربائيجان کے عوام نے بعض مواقع پر اپنی جد و جہد کو نقطہ کمال تک پہنچایا ہے، انتیس بہمن کا شمار ایسے ہی مواقع میں کیا جاتا ہے۔
ہم اپنے نوجوانوں کو، جو اس وقت موجود نہیں تھے، اس عظیم واقعے سے اگر روشناس کرانا چاہیں تو مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ، شاہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف ملک کے ایک گوشے یعنی قم سے آواز بلند ہوئي، امریکا کے رحم و کرم پر منحصر، غدار شاہی حکومت نے اس کو بے رحمی سے کچل دیا۔ لوگ سمجھے کہ مخالفت کی آواز نابود ہو گئي لیکن جس واقعے نے اس آواز کو ختم ہونے سے بچا لیا اور اس واقعے کو ایک تحریک کی شکل دے دی وہ آذربائیجان اور تبریز کے عوام کا کارنامہ تھا۔ تبریز کے عوام نے اس آواز کو قم میں ہی دفن ہو جانے سے بچا لیا۔ اگر ہم صدر اسلام سے اس کی مثال پیش کرنا چاہیں تو فرزند رسول حضرت امام زین العابدین اور زینب کبری سلام اللہ علیھما کے کارنامے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کو سر زمین کربلا میں دفن ہو جانے اور محو ہو جانے سے بچایا۔ آپ نے قم کی تحریک کا پرچم بلند کیا اور یہ پرچم اس تحریک کی پہچان بن گيا، اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انتیس بہمن کے واقعے کی اہمیت کیا ہے۔
اس واقعے کی روشنی میں آذربائیجان کے عوام کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جا سکتا ہے کہ آذربائیجان کے عوام میں جوش و خروش ہے، اعلی سطح کا شعور اور ہوشیاری ہے، انہیں علم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ شجاعت و حمیت سے سرشار یہ عوام ہر خطرے سے ٹکرا جانے کے لئے آمادہ ہیں۔ یہ بیداری کا پیکر و سرچشمہ ہیں۔ میں بیداری کے آپ کے نعرے کی تائید کرتا ہوں میں برسوں سے کہتا آیا ہوں کہ آپ کے نعرے کی صداقت کی تائيد میں میں کہوں گا آذربائیجان اوباخسان، انقلابا دایاخسان ( آذربائیجان تو بیدار ہے، انقلاب کا پشت پناہ ہے)
یہ پورا واقعہ ہی، بیداری و ہوشیاری، ادراک و موقع شناسی، شجاعانہ و بر وقت کاروائي سے عبارت ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک زمانے تک حکومت کے ظلم و استبداد اور فتنہ و فساد کے باعث ایک قوم، پسماندگي کا شکار ہو جاتی ہے، اسے حالات کی خبر نہیں رہ جاتی، علم و دانش سے محروم ہو جاتی ہے۔ پھر سامراجی طاقتیں وارد میدان ہوتی ہیں۔ پیچیدہ، گوناگوں اور پر اسرار حربوں سے اس قوم کو اسی صورت حال میں قید رکھنے کی کوششیں کرتی ہیں، ان کے قدرتی ذخائر، تاریخی و ثقافتی اقدار کو نابود کر دیتی ہیں۔ اس قوم کی باگڈور اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں۔ اب یہ قوم چاہتی ہے کہ اس کی تقدیر بدل جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ظالم سامراجی طاقتوں سے درخواست کی جائے کہ آپ سامراجیت کی بساط سمیٹ لیں، اپنے مفادات کو نظر انداز کر دیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس کا کوئي نتیجہ نکلے گا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ درخواست کرنا بے فائدہ ہے، مذاکرات کئے جائيں۔ تو کیا مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ منطقی و مدلل گفتگو اور درخواست سے آیا بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کرانا ممکن ہے؟
ایسے مواقع پر قوموں کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اپنی طاقت کو منظم کریں اور اپنی توانائيوں کو بروی کار لائيں تاکہ دشمن ان کی کمزوریوں کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ واحد راستہ ہے اس کے علاوہ قوموں کے پاس کوئي چارہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس کے لئے بیدار ہونا ضروری ہے، آکاہ رہنا ضروری ہے، ہر قسم کی کوتاہی سے بچنا ضروری ہے، بے وقعت مادی آسائش اور خواہشات کے دام میں نہ آنا ضروری ہے، بلند اہداف و حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں اتر جانا ضروری ہے۔ ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایرانی قوم نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
بائيس بہمن اس شجاعانہ اقدام کا نقطہ اوج تھا۔ عوام کو بیدار کرنے کے لئے برسوں جس شخصیت نے جد و جہد کی وہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت تھی۔ اس عظیم کام میں تمام مخلص دانشوروں، اور علما کا تعاون ملا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بتدریج اس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ پھر کیا تھا ہماری قوم جس نے دور قاجاریہ کے ظلم و استبداد برداشت کئے تھے اور جسے پہلوی دور حکومت میں کچل کر رکھ دیا گيا تھا، ایک زندہ و بیدار قوم بن گئي۔ یہ قوم میدان عمل میں اتر آئی اور دنیا نے اس کی بے مثال قوت کا مشاہدہ کیا۔ یہ قومی طاقت تھی یہ قوم کے ایک ایک فرد کی طاقت تھی، اس قوت کا سامنا کرنے کی کون جرئت کر سکتا ہے؟ قومیں اس کا تجربہ تو کریں، البتہ یہ تجربہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے ایثار و قربانی کی ضرورت ہے۔ صحیح قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ شرطیں پوری ہو جائيں تو دنیا میں کوئي بھی قوم ظلم کے پنجے میں قید نہیں رہ سکتی۔ غربت کا شکار نہیں رہ سکتی۔ ہمارے ملک میں یہ شرطیں پوری کی گئيں۔
اس بیداری میں سچے ایمان کا کردار بھی کلیدی رہا۔ ایمان نے کسی طاقتور انجن کی طرح لوگوں کے پیکر میں توانائياں بھر دیں۔ اگر ایمان نہ ہوتا تو موت کو بازیچہ اطفال میں تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ ایمان ہی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے کی جرئت پیدا کرتا ہے۔ موت کی کوئي وقعت نہیں رہ جاتی۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ایمان، موت کو ایسی معمولی شیء بنا دیتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ موت سے وحشت کیسی میں تو اس سے خاص انسیت رکھتا ہوں۔ ( آنس للموت من الطفل بثدی امہ) مجھے تو موت سے محبت ہے، اس سے ڈرنا کیسا میں تو اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ ایمان کا اثر ہے۔ اگر ایمان ہے تو موت کو زندگي کا خاتمہ تصور نہیں کیا جاتا۔
وقت مردن آمد و جستن ز جو کل شیء ھالک الی وجہہ
مومن انسان موت کی جانب جھپٹ کر آگے بڑھتا ہے۔ موت دنیا و آخرت کے درمیان ایک لکیر ہے۔کچھ لوگوں کو، کشاں کشاں اس طرف سے اس طرف لے جانا پڑتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی میں غرق ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں جو چھلانگ مار کر اس لکیر سے گذر جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ لکیر کے دوسری طرف کیا ہے۔ وہ وعدہ الھی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عزیز شہدا، جن کے نام آپ کے ذہنوں میں ہیں، آپ بہتوں سے آشنا ہیں، آپ ان کے ہمراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت گذار چکے ہیں۔ یہ شہدا موت سے نہیں ڈرتے تھے۔ انہیں اپنی زندگي سے پیار تھا۔ ان کے وصیتنامے پڑھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ کسی قوم کا مثالی راستہ یہ ہے اور ہماری قوم نے اس راستے کے خد و خال واضح کئے ہیں۔
اس قوم اور اس قوم کے انقلاب کا دنیا کی دیگر اقوام اور انقلابوں کے مقابلے میں طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس قوم نے خود کو بڑی مضبوط پناہ گاہ سے وابستہ کر لیا۔ ( قد استمسک بالعروۃ الوثقی) عروہ وثقی کو آپ یوں سمجھئے کہ بالفرض آپ کو کسی گہری کھائي سے گذرنا ہے، اگر آپ کسی مضبوط رسی کو پکڑے ہوئے ہیں تو آپ مطمئن ہیں کہ گریں گے نہیں۔ عروہ وثقی اسی کو کہتے ہیں۔ ( فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی) ، طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان کی خصوصیات سے ہماری قوم آراستہ تھی۔ نتیجتا یہ قوم کھائي سے عبور کر گئي۔ اس پر خوف و دشہت طاری نہیں ہوئي اور یہی وجہ ہےکہ یہ عظیم تحریک آج بھی باقی ہے۔
ہمارے نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں، اہل معرفت اس پر غور فرمائيں۔ انقلاب ایک طویل تحریک ہے، یہ یکبارگي رونما ہوکر ختم ہو جانے والا کوئي واقعہ نہیں ہے۔ البتہ یہ تحریک دنیا کے بہت سے خطوں میں بیچ راہ میں ہی رک گئي۔ آپ گوناگوں انقلابوں کی تاریخ پڑھئے۔ یہ انقلاب بیچ راہ میں ٹھہر گئے۔ انقلاب آئے، کچھ لوگوں کو زبردست فائدہ ہوا اور وہ مست ہوکر رہ گئے، رفتہ رفتہ عوام نے میدان سے کنارہ کشی کر لی، پھر سب کچھ ختم ہو گيا۔
فرانس کا انقلاب جو اٹھارہویں صدی کے آواخر میں شروع ہو، انیسویں صدی کے اوائل میں ختم ہو گیا اس کا کوئي نام ونشان باقی نہ رہا۔ ایک مطلق العنان سلطنت کے خلاف بغاوت کی گئي اور سلطنت کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن تقریبا پندرہ سال گذرے تھے کہ نیپولین نامی ایک دوسرے آمر نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ کئي دہائيوں تک عوام مسائل سے دوچار رہے پھر رفتہ رفتہ کسی طرح بعض مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انقلاب ادھورے رہ جاتے ہیں، بیچ ہی میں مٹ جاتے ہیں، اس لئے کہ ایمان کے عنصر سے خالی ہیں۔ چونکہ عروہ وثقی سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارا انقلاب عوام کے درمیان ہے اور روز بروز اس پر مزید نکھار آتا جا رہا ہے۔ اس کی افادیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ غور کیجئے، اس سال انقلاب کو انتیس سال پورے ہو گئے۔ اس سال بھی جیسا کہ احباب نے بتایا اور میں نے خود بھی تہران سمیت ملک کے مختلف علاقوں کی صورت حال کا جائزہ لیا، جو لوگ صاحب نظر ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس سال جشن انقلاب کے مظاہروں میں عوام کی شرکت گذشتہ برسوں سے زیادہ تھی۔ کیوں؟ کیونکہ یہ قوم بیدار ہے اور یہ انقلاب زندہ ہے۔
جو افراد گذشتہ برسوں کے دوران کبھی کبھی ہیجان زدہ ہوکر کہنے لگے کہ انقلاب کی کہانی ختم ہو چکی ہے، انقلاب طاق نسیاں کی زینت بن گیا ہے۔ ان سے اندازے کی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انقلاب پر اور بھی نکھار آیا ہے۔ انقلابی اقدار کو جلا ملی ہے۔
آج عالم یہ ہے کہ جو شخص عوام کے درمیان جاکر انقلاب سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتا ہے، عوام اس کی حمایت کرتے ہیں، اس کا انتخاب کرتے ہیں، کیوں کہ انقلاب کے اثرات و ثمرات ان کے سامنے ہیں۔ انقلاب نے ملک کی جو خدمت کی ہے، قوم کو دنیا میں جو مقام دلایا ہے، نوجوانوں میں جو خود اعتمادی، نئي روح پھونک دی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لئے سیکڑوں سال جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انقلاب نے یہ کارنامے کئے ہیں، مسائل کو اس طرح حل کیا ہے۔
اندرونی صلاحیتیں، توانائیاں، رفتہ رفتہ انگڑائياں لےکر باہر آ رہی ہیں، ادھوری شخصیتوں کے مالک انسان، قابل رشک شخصیت کے مالک بن رہے ہیں۔ انتظامی صلاحیتیں، خلاقیت، پیداواری توانائیاں، عالمی مقابلوں کے لئے ضروری مہارتیں سب یکجا ہوکر قوم کو آگے لے جا رہی ہیں۔ یہ سب انقلاب ہی کے ثمرات ہیں، انقلابی اقدار ہی کا نتیجہ ہے۔
ان قدروں کو استحکام و دوام حاصل ہونا چاہئے۔ اب تک یہ قدریں محفوظ رہی ہیں، زندہ رہی ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان، انیس سو اسی کی نوجوان نسل کے مقابلے میں میدان کارزار کے لئے اگر زیادہ صلاحیت مند اور آمادہ نہیں ہے تو اس نسل سے کم بھی نہیں۔ مستقبل کے لئے ہمارا راستہ طے ہے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے طولانی مدت منصوبوں میں انقلابی تشخص کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے آئندہ پروگرام پوری طرح واضح ہیں۔
ایرانی قوم کے پاس ملک کے اندر عوام کی صلاحیتوں میں اور تاریخ کی گہرائیوں میں بڑے بیش بہا خزینے ہیں۔ ہم ان خزانوں کو بروی کار لانا چاہتے ہیں۔ اگر ان خزانوں کا استعمال شروع ہو گیا تو یہ قوم دولتمند ہو جائے گی۔ علم کے کارواں کا پرچم اس کے ہاتھوں میں ہوگا۔ علم و دانش، تہذیب و ثقافت اور قوت و طاقت کے میدان میں اسے ممتاز عالمی مقام حاصل ہوگا۔ پھر یہ قوم دنیا کی دیگر اقوام کے لئے مثالی نمونہ ہوگی۔ البتہ اس وقت بھی یہ قوم، ایک نمونہ قوم ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل تک فلسطینی قوم کو ہر موقع پر شکست ہوئي، اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ مسلم قوموں میں کچھ نوجوان ایسے تھے جن میں جوش و جذبہ تھا لیکن وہ بھی سیاسی تغیرات کے نتیجے میں دب کر رہ گئے۔ اسلامی انقلاب نے ان قوموں میں نئی روح ڈال دی۔ ان میں بیداری پیدا کر دی۔ ہم اپنے اطراف اور عالم اسلام کے حالات کا سرسری جائزہ لیں تو اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی قوم اب تک بھی نمونہ عمل رہی ہے، لیکن جس دن آپ نوجوانوں نے ملک کے ذرے ذرے سے چھلکتی صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروی کار لانے میں کامیابی حاصل کر لی اس دن پوری دنیا ایرانی قوم کا اتباع شروع کر دے گی اور ایران ان ممالک کے لئے بہترین نمونہ عمل بن جائے گا جو ظلم و جور کا شکار ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر اور دیگر اقوام کی تقدیر کی کنجی ہمارے نوجوانوں کے پاس ہے۔ البتہ دشمن بھی اس سے آگاہ ہے اور وہ مسلسل اسی کوشش میں مصروف ہے کہ اس قوم کا رخ بدل دے۔
سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی کوششیں، مختلف زاویوں سے شدید دباؤ، پابندیاں، قراردادیں، سب کا ایک ہی ہدف ہے، ایرانی قوم کو اس راستے سے ہٹانا جس پر وہ گامزن ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ یہ قوم کسی اور راستے پر چلے۔ انہیں اندازہ ہے کہ یہ قوم اسی راستے پر اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو ظلم و استبداد، سامراج و استکبار اور قتل و غارت گری کا جو بازار عالم اسلام میں گرم ہے وہ باقی نہ رہے گا۔ امت مسلمہ کا جز شمار ہونے والے ممالک میں سامراجی طاقتوں کے مفادات نابود ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن اپنی سازشوں میں مصروف ہے۔
آپ غور فرمائیں، ابھی چند ہی روز قبل امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایران پر دباؤ بڑھائیں گے تاکہ ایران کے عوام اس نتیجے پر پہنچ جائيں کہ ایٹمی توانائی حاصل کرنا بے فائدہ ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایرانی قوم نے سائنس و ٹکنالوجی کے اوج تک، جس کا ایک مظہر آج ایٹمی توانائی ہے، رسائی حاصل کر لی تو دیگر اقوام کے بھی حوصلے بلند ہوں گے۔ مسلم قومیں جاگ جائیں گی، انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کا علم ہو جائے گا اور پھر ان قوموں پر اغیار کا تسلط باقی نہیں رہ پائےگا۔ اس کے لئے وہ بڑی عیاری کے ساتھ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ایٹم بم کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک آگاہ ہیں کہ ایٹم بم کا الزام بے بنیاد ہے۔ ان کی تشویش کی وجہ ایٹم بم نہیں ہے۔ انہیں علم ہے کہ ایرانی قوم ایٹم بم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہی ان کی ناراضگی کی وجہ ہے۔ کوئی قوم ان کی مرضی اور مدد کے بغیر ان کی جانب دست نیاز دراز کئے بغیر صرف اپنی صلاحیتوں کے سہارے اس طرح ترقی کی منزلیں طے کر لے کہ ثریا اس کے قدم چومے تو یہ طاقتیں اسے کیسے برداشت کر سکتی ہیں۔ ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے۔ ان کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم فلاں گروہ اور فلاں جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لئےکہ اس گروہ نے کہا ہے کہ وہ ترقی کے اس سفر سے متفق نہیں ہے، استقامت سے متفق نہیں ہے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ کی خدمت میں بصد احترام یہ عرض کرے کہ آپ کی مرضی ہوئی تو ہم آگے بڑھیں گے ورنہ نہیں۔
بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کروانے کے لئے مذاکرات بے اثر ثابت ہوں گے۔ اس کے لئے طاقت کا استعمال ضروری ہوگا۔
مہتری گر بہ کام شیر در است رو خطر کن ز کام شیر بجوی
ہمارے ملک میں بسا اوقات اس نصیحت پر عمل ہوا ہے اور بسا اوقات اسے نظر انداز کیا گيا ہے، لیکن آج ایرانی قوم پوری استقامت کے ساتھ اس نصیحت پر عمل کر رہی ہے۔
امریکہ اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہمارا سارا تنازعہ اسی بات کا ہے۔ سامراجی طاقتیں کہتی ہیں کہ آپ اپنا وجود، صلاحتیں اور توانائیاں منظر عام پر نہ لائیں تاکہ ہماری طاقت، ہمارے اسلحوں اور ہماری تشہیراتی مہم کا کوئی جواب نہ ہو، میدان ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے۔ ان طاقتوں کے لئے ہماری قوم کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ہم اپنے حقوق کا دفاع کریں گے ، ہم آپ کی جارحیتوں کا راستہ بند کر دیں گے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اللہ تعالی کے سامنے ہم جوابدہ ہوں گے۔
ملت ایران نے بالکل صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ میدان عمل میں ہمیشہ موجود رہنا، اب تک کے ثمرات اور کامیابیوں کا بھرپور تحفظ، یہ بالکل صحیح راستہ ہے۔ ضمنی باتوں اور چھوٹے موٹے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جماعتوں اور افراد میں نظریات کا اختلاف کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ انقلاب کے ورثا کو چاہئے کہ اس عظیم وراثت کی حفاظت کریں۔ میں نے اس سال (1386 ہجری شمسی ) کے اوائل میں عرض کیا تھا کہ قومی اتحاد کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا قومی کنبہ، انقلاب کا کنبہ اپنے اتحاد، باہمی انس و محبت اور لگاؤ کی حفاظت کرے۔ ایک دوسرے سے غفلت کا ماحول نہ بننے دیجئے۔ ہماری قوم اس سلسلے میں بیدار ہے اور ہماری نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بھی اسی عظیم فکری ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ ہم نے قوم کے سامنے یہ باتیں پیش کیں اور قوم نے انہیں سچ کر دکھایا۔
انتخابات کی دستک سنائي دینے لگی ہے۔ انتخابات میں شرکت بھی اسی ماہیت کا فعل ہے۔ میں نے تمام انتخابات میں عوامی شرکت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حق رای دہی کے لئے باہر نکلنا چاہئے دشمن کو مزید مایوس کرنا ضروری ہے۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ا؛ران میں انتخابات نہ ہوں، انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر مظاہرے نہ ہوں۔ یوم قدس کے موقع پر مظاہرے نہ کئے جائيں۔ دینی پروگراموں میں عوام کی پر جوش شرکت کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ دینی جذبات کی گرمی ختم ہو جائے۔ ہمارے نوجوان، لا پرواہ، مایوس اور بے حس ہو کر منشیات اور نفسانی خواہشات میں غرق ہو جائیں۔ دشمن کی دلی خواہش یہ ہے۔ دشمن کے لئے یہ سازگار ہے اس لئے اس کا خوب پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کبھی نظریات اور آئیڈیالوجی، کبھی سیاسی دھمکی، کبھی فوجی دھونس، کبھی منشیات کی اسمگلنگ کے گروہوں اور کبھی غیر اخلاقی فلموں کے ذریعے دشمن میدان میں آتا ہے اور اپنی سازشوں کو علمی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے راستے سے ہٹانے کے لئے جی توڑ کوشش کرتا ہے۔ جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو اشارے کنائے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ عوام انتخابات میں شرکت نہ کریں۔ سادہ لوح افراد کو استعمال کیا جاتا ہے، بکے ہوئے ضمیروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ عوام اس عظیم اور اہم ترین پروگرام میں شرکت نہ کریں۔
عوام کو میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ انتخابات میں شرکت کریں۔ ووٹنگ کے عمل کو پر رونق بنائیں۔ صفوں میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم زیادہ کھڑے رہنا ممکن ہے تکلیف دہ ہو لیکن یہ جہاد ہے۔ اس کا اللہ تعالی کے نزدیک اجر ہے۔ تو لوگ ضرور جائیں اور حق رای دہی کا استعمال کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دیں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلاب کے نعرے اور اہداف کو متعلقہ حکام بنیادی معیار کے طور پر پیش کریں۔ یہی سب سے اہم معیار ہے۔ ناموں اور گروہ بندی کی کوئي اہمیت نہیں ہے۔ اس قوم کے مسائل کا حل اور اس کے درد کی دوا انقلاب کے اہداف اور امنگیں ہیں۔ ان چیزوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ ان نعروں اور اہداف کے مخالف ہیں انہیں کبھی بھی پالیسی ساز اداروں میں داخل ہونے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ ایسے لوگ عوام میں شامل ہیں تو کوئي بات نہیں ہے، معاشرے میں ہر طرز فکر اور خیال کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن جس شخص کی آرزو یہ ہے کہ یہ گاڑی آگے نہ بڑھے اسے اسٹیئرنگ پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ ایسے شخص کو اگر اسٹیئرنگ پر بٹھا دیا گیا تو گاڑی آگے بڑھنے والی نہیں ہے۔ ایسے شخص کا انتخاب کیا جانا چاہئے جو آگے بڑھنے میں یقین رکھتا ہو۔ اس راستے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو، انقلاب کے اہداف سے قلبی وابستگی رکھتا ہو، قومی صلاحیتوں سے آشنا ہو۔ اسلام کا دلدادہ ہو۔ انقلاب کا پیرو ہو۔ معیاروں کو تسلیم کرتا ہو۔ یہ ہوئي دوسری بات۔
بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دو چہرے والوں، ظاہر و باطن میں اختلاف والے افراد اور دوہری شخصیت کے مالک لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ایسے افراد سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں کئی روایتیں منقول ہیں۔ اس نکتے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم بیدار قوم ہے اسے کوئي تسلیم کرے یا نہ کرے، گذشتہ انتیس برسوں کے تجربے سے ہمارے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ یہی عماد مغنیہ اور دیگر شہدا جو چند روز قبل صیہونیوں کے ذریعے شہید کر دئے گئے خود کو امام خمینی (رہ) کا پیروکار مانتے تھے اور اس پر افتخار کیا کرتے تھے۔ عماد مغنیہ امام خمینی (رہ) سے قربت اور لگاؤ کے سلسلے میں خود کو کسی بھی ایرانی نوجوان سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ کیوں؟ کیوں کہ امام خمینی(رہ) نے انہیں نئي زندگي دی تھی۔ ان کے پیکر میں نئي روح ڈال دی تھی۔ یہی جوان، لبنان فلسطین، غزہ اور دیگر علاقوں میں پہلے بھی موجود رہے ہیں لیکن وہ اتنے بڑے کارنامے نہیں کر پاتے تھے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ لبنانی جوان معمولی اسحلوں کے سہارے اسرائیل کی کیل کانٹوں سے لیس فوج کو اتنی شرمناک شکست سے دوچار کر دیں گے۔ جب تینتیس روزہ جنگ ختم ہوئي تو شروع کے ایام میں صیہونی حکام کہتےتھے کہ ہمیں شکست نہیں ہوئي ہے۔ لیکن اب وینوگراڈ کمیٹی کی رپورٹ نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ اس کمیٹی نے بھی بڑی رفوگری کی ہے تاکہ بہت زیادہ بے عزتی نہ ہو جائے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ جدید اسلحوں سے مسلح فوج جسے امریکہ کی بھی حمایت حاصل تھی شکست کھا گئي۔ آپ یہ یاد رکھئے کہ اس جنگ میں امریکہ اسرائيل کی حمایت بھی کر رہا تھا اور براہ راست بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اسرائيل کو شکست ہو گئي۔ کس سے؟ ایسے مٹھی بھر جوانوں سے جن کا اسلحہ تھا خود اعتمادی، توکل بر خدا، موت سے بے باکی اور میدان میں استقامت۔ طاقتوں کے نا قابل تسخیر ہونے کے افسانے اس طرح قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
ہم انقلاب کی عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی شکل میں ملنے والی نعمت پر ہم اللہ تعالی کے شکر گذار ہیں۔ ایرانی قوم کی اس عظمت پر جس کا وہ مظاہر کر رہی ہے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ جو کامیابیاں ہماری قوم کو ملی ہیں اس پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمارا ایک ایک نوجوان ایک بڑی نعمت ہپے۔ اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ( وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصواھا) بھلا اللہ کی نعمتوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔ ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ حکام کو ہونا چاہئےاور انہیں ان نعمتوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ نعمتیں ہمیشہ ہمیں ملتی رہیں۔ عوام کو بھی ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ اس قوم کا آنے والا کل، آج کی بہ نسبت زیادہ تابناک اور دلکش ہے۔ ان شاء اللہ آپ نوجوان اس دل آویز منظر کا مشاہدہ کریں گے۔ آپ دنیا کو سعادت و خوش بختی سے آراستہ کر يں گے۔
اے پروردگار، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود فرما۔ ہمیں ان کے سپاہیوں میں قرار دے۔ ہمیں ان کی محبت کے ساتھ زندہ رکھ۔ پروردگارا امام خمینی(رہ) کی روح طیبہ کو ہم سے راضی رکھ اور انہیں اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد رضا توسلی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجت الاسلام و المسلمین الحاج شیخ محمد رضا توسلی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی افسوسناک خبر ملی۔ یہ محترم عالم ربانی، امام خمینی (رہ) کے شاگرد اور آپ کی تحریک میں شامل سر فہرست افراد میں تھے۔ انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک آپ ان کی خدمت میں رہے، انشاء اللہ آخرت کے دن بھی آپ امام خمینی (رہ) کے ساتھ ہی محشور کئے جائیں گے۔ میں اس محترم عالم دین کے انتقال پر ان کے بیوی بچوں اور دیگر ورثا نیز دوست و احباب کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور مرحوم کے لئے رحمت و مغفرت اور ان کے خاندان کے لئے صبر واجر کی دعا کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
27/11/86
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے نام ایک پیغام میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حزب اللہ کے مخلص اور فداکار مجاہد الحاج عماد مغنیہ کی شہادت پر، تنظیم کے سربراہ، جانبازوں اور لبنانی عوام کو تہنیت و تعزیت پیش کی۔
جو واقعہ انیس بہمن تیرہ سو ستاون کو رونما ہوا بلا شبہ ایک اہم ترین موڑ تھا۔ فضائیہ کے جوانوں اور عہدیداروں نے ایک سچے باطنی جذبے کے تحت جو ان جوانوں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا آئينہ دار تھا ایسا کارنامہ انجام دیا جو طاغوتی شاہی حکومت کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ انتہائي شجاعانہ اورساتھ ہی دانشمندانہ اقدام تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علامہ ڈاکٹر جعفر شہیدی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر، ان کے خاندان،ورثا، عقیدتمند شاگردوں اور ملک کے علمی و ادبی حلقوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ آپ بے مثال ادیب، وسیع النظر مورخ، عظیم انسان اور عصر حاضر کی قابل افتخار علمی شخصیت تھے۔ آپ نے بڑی قیمتی تحریریں چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالی اس سچے مومن انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور انہیں اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ محشور فرمائے۔
سید علی خامنہ ای25/10/86
بسم الله الرّحمن الرّحیم الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی سیّدنا محمد المصطفی وعلی آله الطیبین و صحبه المنتجبین سلام ہو خانۂ خدا کے زائروں، سرائے دوست کے میہمانوں اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والوں پر۔ مخصوص درود و سلام ہو ذکر خدا سے منور اور الطاف و عنایات الہی سے معمور دلوں پر جن کے استقبال کے لئے رحمت کے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ حج کےشب و روز اور روح بخش لمحوں میں بہت سے لوگوں نے موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے خود کو دریائے روحانیت و معنویت سے سیراب کر لیا۔ توبہ و استغفار کے ذریعے دل وجان کو نورانیت بخشی اور رحمت الہی کی امواج میں جو اس وادی مقدس میں پے در پے اٹھ رہی ہیں خود کو گناہ و شرک کے زنگ سے صاف کرلیا ہے۔ اللہ کا سلام ہو پاکیزہ دلوں، نیک سرشت افراد اور صاحبان دل پر۔ تمام بہن بھائیوں کے لئے بہتر ہے کہ ان ثمرات کے بارے میں غور و فکر کریں اور ان عظيم لمحات کی قدر کریں۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس مقدس وادی میں بھی مادی زندگي کے جھمیلے جس میں ہمیشہ ہم پھنسے رہتے ہیں ہمارے دلوں کو مشغول رکھیں بلکہ ذکر خدا، توبہ و استغفار، گریہ و زاری، صداقت و پاکیزگي، حسن کردار اور فکر صالح کے لئے عزم راسخ اور خداوند عالم کی بارگاہ میں نصرت و مدد کی التجا کے ذریعے اپنے دل بیتاب و مشتاق کو الوہیت و وحدانیت و معنویت سے معطر فضا میں پرواز کے قابل بنا لیں۔ خدا کی راہ میں استقامت اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے لئے ضروری اسباب و وسائل حاصل کر لیں۔ یہ حقیقی وحدانیت کا مرکز ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پارۂ جگر کو قربان گاہ میں لاکر یکتا پرستی کا بے مثال نمونہ، جو در اصل نفس پر غلبےاور حکم الہی کے سامنےسراپا تسلیم ہو جانے سے عبارت ہے، پیش کیا اور پوری تاریخ عالم میں تمام یکتا پرستوں کے لئے یادگار بنادیا، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمانے کی بڑی طاقتوں اور زور و زر کے خداؤں کے سامنے توحید و وحدانیت کا پرچم لہرایا اور اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی طاغوت سے نفرت و بیزاری کو نجات و سعادت کی شرط بنا دیا۔فمن یکفر بالطاغوت و یومن با الله فقد استمسک بالعروه الوثقی ( اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے ) حج انہی عظيم تعلیمات کے اعادے اور انہیں یاد کرنے کے معنی میں ہے، مشرکین سے برائت و بیزاری، بتوں اور بت سازوں سے نفرت کا اعلان، وہ جذبہ ہے جو مؤمنین اور صاحبان ایمان کے مناسک حج پر حکم فرما رہتا ہے۔ اعمال حج کا ہر مقام اور اس کا ہر لمحہ اللہ تعالی کے سامنے خود سپردگی، اس کی راہ میں سعی و کوشش، شیطان سے دوری و بیزاری اس کو کنکریاں مارنے اور خود سے دور کرنے اور خود کو اس کے مد مقابل کھڑا کرنے کا حقیقی مظہر ہے۔ حج کا ہر مرحلہ، قبلے کے محور پر اجتماع، اتحاد و یکجہتی، نسلی و لسانی تفریق کے انکار اور مسلمانوں کی حقیقی اخوت و دوستی کا نمونہ ہے۔ یہ وہ دروس و تعلیمات ہیں جو ہم سبھی مسلمانوں کے لئے خواہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ہمارا تعلق ہو، واجب العمل ہیں۔ ہمیں انہی کی بنیاد پر اپنی زندگي اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ قرآن نے دشمنوں کے مقابلے میں قوت و اقتدار کے ساتھ محاذ آرائی، مؤمنین کے درمیان مہر و محبت اور خداوند عالم کے حضور خضوع و خشوع کو اسلامی معاشرے کی تین نشانیاں اور علامتیں قرار دیا ہے۔محمد رسول الله و الذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم تراحم رکعا سجدا یبتغوه فضلا من الله و رضوانا ...(حضرت محمّد (ص) اللہ کے رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں کے خلاف سخت آپس میں رحم دل ہیں آپ انہیں دیکھیں گے کہ رکوع اور سجدہ کررہے ہیں اللہ کے فضل و کرم اور رضا و خوشنودی کی کوشش میں رہتے ہیں ) امت اسلامیہ کے باشکوہ اور پر وقار پیکر و پرچم کے یہ تین بنیادی ستون ہیں۔ تمام مسلمان اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر عالم اسلام کے موجودہ مسائل و مشکلات کو صحیح طریقے سے پہچان سکتے ہیں۔ آج امت اسلامیہ کے سب سے بڑے دشمن وہ استکباری عناصر اور توسیع پسند اور جارح طاقتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے ناجائز مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلّط کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔ تمام مسلمانوں اور خاصوصا سیاستدانوں، علماء و دانشوروں، روشن فکر افراد اور مختلف ملکوں کے سربراہوں کا فریضہ ہے کہ اس جارح دشمن کے خلاف زیادہ سے زیادہ قوت و استحکام کے ساتھ ایک متحد اسلامی محاذ تشکیل دیں۔ اپنی اندرونی توانائیوں کو منظم کریں اور امت اسلامیہ کو حقیقی معنی میں طاقتور اور با اثر بنائیں۔ علم و معرفت، دانشمندی و ہوشیاری، احساس ذمہ داری، سچی دینداری، الہی وعدوں پرایقان وایمان، فریضے کی ادائیگي اور رضائے خدا کے حصول کے لئے حقیر و ناچیز خواہشات سے چشم پوشی یہ سب امت مسلمہ کی قوت و اقتدار کی بنیادی شرطیں ہیں جو اس کو عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی ترقی سے ہم کنار کر سکتی ہیں، دشمن کو اسلامی ملکوں میں دست درازی توسیع پسندی اور ریشہ دوانیوں میں ناکام بناسکتی ہیں ۔ مؤمنین کے درمیان صلح و آشتی، امت مسلمہ کی ایک اور پسندیدہ صفت ہے۔ امت مسلمہ کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے مابین اختلاف و تفرقہ، خطرناک بیماری ہے جس کا پوری توانائي کے ساتھ فوری علاج کرنا چاہئے۔ ہمارے دشمنوں نے اس میدان میں بھی عرصہ دراز سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور آج جب اسلامی بیداری نے ان کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے تو انہوں نے اپنی کوششیں اور تیز کردی ہیں۔ تمام ہمدردوں کا کہنا یہ ہے کہ تفاوت و فرق کو کینہ توزی و دشمنی کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے، رنگ و نسل کا تنوع جنگ و جدل پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔ اس سال کو ملت ایران نے قومی اتحاد و اسلامی یکجہتی کے سال کا نام دیا ہے۔ مسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والی سازشوں کی شدت کا ادراک کرتے ہوئے اس سال کو اس نام سے موسوم کیا گیا۔ فلسطین، لبنان، عراق، پاکستان اور افغانستان میں دشمنوں کی یہ سازشیں کامیاب ہوئیں اور ایک ہی مسلمان ملک کے کچھ لوگ اسی ملک کے کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف قتل و غارت کےلئے کمربستہ ہو گئے۔ ایک دوسرے کا خون بہایا۔ ان تمام تلخ اور افسوسناک واقعات میں دشمنوں کی سازشیں بالکل عیاں تھیں اور باریک بیں نگاہوں نے ( ان حادثات میں ) دشمن کا ہاتھ دیکھا ہے۔ قرآن کریم میں رحماء بینہم کا حکم اسی طرح کی جنگوں اور لڑائیوں کی بیخ کنی کے لئے ہے۔ آپ ان پرشکوہ ایّام اور حج کے گوناگوں مناسک میں دنیا کے مختلف مقامات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو ایک گھر کا طواف کررہے ہیں، ایک ہی کعبے کی جانب رخ کرکے نماز ادا کررہے ہیں۔ شیطان رجیم کی علامت (جمرات) کو ایک ساتھ ملکر پتھر ماررہے ہیں اور نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی قربانی کی علامت کے طور پر یکساں عمل انجام دے رہے ہیں اور عرفات و مشعر میں ٹھہرنے کے دوران ایک ساتھ مل کر ( خدا کے حضور ) گریہ و زاری کر رہے ہیں۔ اسلامی فرقے اپنے بنیادی عقائد اور بیش تر اعمال و احکام میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ان میں یکسانیت ہے۔ ان تمام مشترکات کے ہوتے ہوئے بھی تعصب اور تنگ نظری ان کے درمیان اختلاف کی آگ کیوں کر بھڑکاتی ہے اور خائن و غدار دشمن کو اس خطرناک آگ کو ہوا دینے کا موقع کیسے مل جاتا ہے؟ آج جو لوگ تنگ نظری و نادانی کی وجہ سے بے بنیاد مسائل کے بہانے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت و فرقے کو مشرک گردانتے ہیں اور حتی ان کا خون بہانے کو روا جانتے ہیں، یہ لوگ در حقیقت، دانستہ یا ندانستہ طور پر شرک و کفر اور سامراج کی خدمت کررہے ہیں۔ کیا معلوم کہ جن لوگوں نے پیغمبر اعظم (ص) اولیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کی زیارت و تکریم کو جو دینداری کا مظہر ہے شرک و کفر قراردیا کہیں وہ خود کافروں اور ظالموں کے دربار کی تکریم میں مصروف تو نہیں ہیں، کہیں وہ ان کے ناپاک عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں ممد و معاون تو ثابت نہیں ہورہے ہیں؟! سچے علماء، دینی جذبے سے روشن دماغوں اور مخلص حکمرانوں کو چاہئے کہ اس طرح کی خطرناک لعنتوں اور اقدامات کا مقابلہ کریں۔ آج اسلامی اتحاد و یکجہتی ایک لازمی ہدف ہے جو دانشمندوں اور قومی ہمدردی کے جذبے سے سرشار افراد کے محنت و مشقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس عظیم مقصد کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ عزت و سربلندی کے یہ دونوں ستون، یعنی ایک طرف استکبار کے مقابلے میں مضبوط صف آرائي اور مستحکم محاذ کی تشکیل اور دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت و مہربانی جب تیسرے ستون یعنی پروردگار کے حضور خشوع و تعبّد و بندگي کے ساتھ مل جائیں گے توامت اسلامیہ دوبارہ اسی راستے پر چل پڑےگی جس پر چل کر صدر اسلام کے مسلمانوں کو عزت و عظمت ملی تھی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان قومیں اس ذلت آمیز پسماندگی سے جو حالیہ صدیوں کے دوران ان پر مسلّط کر دی گئی ہے نجات و چھٹکارہ حاصل کرلیں گی۔ اس عظیم تحرک کا آغاز ہوچکا ہے اور پورے عالم اسلام میں بیداری کی لہریں ہر جگہ ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔ دشمنوں کے ذرائع ابلاغ، ان کی پروپیگنڈہ مہم اور ان کے ایجنٹوں کی کوشش ہے کہ عالم اسلام کے کسی بھی گوشہ میں عدل و انصاف کے مطالبے اور حریت پسندی کی جو بھی تحریک اٹھے اسے ایران یا پھر شیعیت سے منسوب کردیں اور اسلامی ملک ایران کو جو اسلامی بیداری کا کامیاب علمبردار ہے ان کاری ضربوں کا ذمہ دار قرار دیں جو میدان سیاست و ثقافت میں مسلمان ملکوں کے غیور عوام کی جانب سے ان پر لگائی جاتی ہیں۔ وہ تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ کے بے مثال کارناموں، عراقی عوام کی مدبرانہ استقامت کو جو غاصبوں کی مرضی کے برخلاف پارلیمنٹ اور (عوامی ) حکومت کی تشکیل پر منتج ہوئي، فلسطین کی قانونی حکومت اور وہاں کے جاں نثار عوام کی حیران کن مزاحمت و پائمردی، مسلمان ملکوں میں مذہبی بیداری اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی دیگر بہت سی علامتوں اورنشانیوں کو ایرانیت اور شیعیت کے دائرے میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس بیداری کے لئے عالم اسلام کی ہمہ گير حمایت کو معمولی اور غیر اہم ظاہر کر سکیں، لیکن یہ ہتھکنڈہ سنت الہی کے مقابلے میں جو مجاہدین فی سبیل اللہ اور دین خدا کی مدد کرنے والوں کی کامیابی ہے نہیں ٹھہر سکے گا۔ آنے والا دور امت اسلامیہ کا دور ہوگا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی طاقت و توانائي، صلاحیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے اس نئے دور کی جانب پیش قدمی کے عمل کو سرعت بخش سکتا ہے۔ حج کے مناسک آپ جیسے خوش قسمت حاجیوں کے لئے ایک بڑا اور بہترین موقع ہے کہ خود کو پہلے سے زیادہ اپنے اوپر عائد اس فریضے کی ادائیگي کے لئے آمادہ کریں۔ امید ہے کہ توفیق الہی اور حضرت مہدی موعود عجل اللہ لہ الفرج کی دعا اس عظیم مقصد تک پہنچنے میں آپ کی مدد کرے گی ۔و السلام علیکم و رحمه الله و برکاته السید علی الحسینی الخامنه ای 4 ذی الحجه 1428 هجری قمری12 دسمبر 2007
بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحيم
اسلامي ممالک سے تشريف لانے والے اپنے تما م مہمانوں کو آپ کے اپنے وطن ''ايران‘‘ميں خوش آمديد کہتا ہوں۔آج آپ اپنے گھر ميں اور اپنے بھائيوں کے درميان موجود ہيں۔ بين الاقوامي سطح پر اسلامي ممالک کي عدليہ کے سربراہوں کا اپني نوعيت کا حساس اور اہم ترين اجلاس ہماري نظر ميں ايک سنہری موقع ہے جس سے ہميں زيادہ سے زيادہ استفادہ کرنا چاہئے۔اِس قسم کے اجلاسوں اور ملاقاتوں سے ہم اپنے مسلم بھائیوں سے متعارف ہوتے ہیں جو کہ بڑی اہم چیز ہے۔
مسلمان ہوتے ہوئے بھی ايک دوسرے سے نا آشنا اور اجنبي!
اُمت ِ مسلمہ کے دشمن عرصہ دراز سے ہم مسلمانوں کي غفلت سے بہت فائد ہ اُٹھاتے رہے ہیں اوراُنہوں نے مختلف حربوں کوبروئے کارلاتے ہوئے ہميں ايک دوسرے سے دور اور جدا کر ديا ہے، ہمارے درميان جدائي اور فاصلے ڈال کر ہميں ايک دوسرے سے بے گانہ بنا ديا ہے اور ہميں ايک دوسرے کي بابت بدگمانی و غلطفہمی ميں مبتلا کرديا ہے۔ ہم وہ بھائي ہيں جو آپس میں غیروں اور بےگانوں کی طرح ملتے ہیں۔ امت ِ مسلمہ کے اندے ہماری اس حالت کا، دشمن پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ ہميں ہر حالت ميں اس کاسد باب کرنا چاہئے اور اِس قسم کے يہ اجلاس اِس راستے ميں سنگ ِميل ثابت ہوں گے۔
مسلمانوں کا اتحاد اُن کے مشترکہ اہداف تک رسائي کيلئے نا گزير ہے
امت ِ مسلمہ ايک بڑے اور زندہ پیکر کي مانند ہے، اِس کے اپنے اہداف، آرزوئيں اورامنگیں ہیں۔ يہ اہداف اور يہ آرزوئيں کسي ايک قوم یا کسي ايک اسلامي ملک سے مختص نہيں ہيں؛ بلکہ يہ پوري دنيائے اسلام کي مشترکہ آرزوئيں ہيں۔ اِن آرزوؤں کو پورا کرنے کيلئے ضروري ہے کہ ہم ايک دوسرے سے نزديک ہوں۔ اسلامي حکومتوں کي قربت اُن کي اقوام کي دوستی کا سبب بنے گي اور جب يہ اقوام ايک دوسرے کے نزديک ہو جائيں گي تو اُ س وقت اپنے تجربات، ہمت وحوصلے اور اپني اچھي اور پسنديدہ صفات کا ايک دوسرے سے تبادلہ کريں گي، نتيجتا امت ِمسلمہ کو جو چيزملے گي وہ بہت قيمتي ہو گي۔
اگرمسلمان فقہا کے مرتب کردہ قوانين ہمارا نقطہ اتحاد ہو تے!
آج ہم دنيائے اسلام کے پيکر واحد پر استعماري طاقتوں کي جانب سے مسلسل ضربوں کا مشاہدہ کر رہے ہيں؛ يہ حملے کسي ايک ملک يا قوم پر نہيں بلکہ پوري امت ِ مسلمہ پر ہو رہے ہيں۔ ايک حملہ اسلامي قوانین اور اسلامي عدالتی نظام پر ہو رہاہے۔ اسلام بہترين اورترقی یافتہ ترين عدالتی قوانين کا حامل ہے اور اِسي طرح اسلام ميں بيا ن کيے گئے (حشرات وحيوانات کي سطح سے لے کر انسانوں اور اُس سے بھي بڑھ کے تمام موجودات کی سطح تک) تمام حقوق و قوانین، دنيا کے ترقی یافتہ اور عالي ترين قوانین سے بالا و برتر ہیں۔ اِس با ت کو سب اچھي طرح ديکھ سکتے ہيں۔ آپ تاريخ کے اوراق ميں اسلامي ممالک کے عدالتی اور قانونی مسائل، حدود وتعزيرات اور ديت وغيرہ کے مسائل اورعدليہ کے قوانين کو مرتب و مدوّن کرنے کے سلسلے ميں مسلمان فقہا و علما کی کوششوں کا جائزہ ليجئے۔ جب ہم اِن قوانين پر نگاہ ڈالتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ يہ بہت ہي قيمتي قوانين ہيں۔ اگر ہم مسلمان، تاريخ ميں مرتب کيے جانے والے اِ ن قوانين پر اپني توجہ مرکوز کرتے اوراِنہي کواپنا نقطہ اتحاد قرار ديتے تو ہم آج حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ دنيائے اسلام ميں يہ کا م انجام نہ پا سکا۔ استعماري طاقتوں نے جس طرح امت ِ مسلمہ کي'' سياست اور اقتصاد‘‘ پرغلبہ پايا اُسي طرح اسلامي ممالک کے عدالتی نظام کو بھی اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ ہماري عدليہ بغیر کسی وجہ کے مغربی عدلیہ میں تبدیل ہو گئی۔ يہ ہيں امت ِ مسلمہ کے درد اور مشکلات۔!
آج امت ِ مسلمہ کوخود اعتمادی اور خدا ئے وحدہ لا شریک لہ کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنے کي اشد ضرورت ہے؛ ہميں اپنی خوداعتمادی دوبارہ حاصل کرنا چاہئے۔جب ايک انسان دنيائے اسلام پر نگاہ ڈالتا ہے تو وہ ديکھتا ہے کہ ايک فقيہ فتويٰ دينے ميں خود اعتمادی کی کمی سے دوچار ہے، قاضي عدالت ميں آزادانہ فيصلے کرنے ميں ہچکچاتا ہے وہ مغرب کی تشہیراتی مہم سے گھبراتا ہے۔ آج پوري دنيائے اسلام کوخود اعتمادی کي ضرورت ہے۔ سیاسی میدان ہو ثقافتی میدان ہو اقتصادی میدان ہو یا عدالتی نظام ہر مرحلے پر خود اعتمادی کی ضرورت ہے ۔
قرآن و سنت کي حقيقي تعليمات سے عصر حاضر کے مسائل کا تصفیہ
ہم کبھي اِس چيز کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ ايک فقیہ ايک اسلامي حکم کو صراحت کے ساتھ بيان نہيں کرتا ہے یا اُس کا انکار کر تا ہے کيونکہ مغرب کے سياستدان اُسے پسند نہيں کرتے ہيں، يہ بہت ہي بري با ت ہے۔ ہر( چيز کے اچھے اوربر ے ہونے) کا ہمارے پا س ''معيار‘‘ موجود ہے اور وہ ''قرآن و سنت‘‘ ہے۔ يہ وہ معيار ہيں کہ جو آج اکيسويں صدي ميں بھی انساني زندگي کی صحيح سمت ميں راہنمائي کيلئے بہت مفيد اور کا رآمد ہيں۔ايسا نہيں ہے کہ ہم قرآن و سنت کے چودہ سو سال قبل بيا ن کيے جانے والے معياروں پر عمل پيرا ہونے کي وجہ سے دنيا سے پيچھے رہ گئے ہيں، اگر ہم اسلامي احکا مات کي جانب صحيح طور پر رجوع کريں اور اُنہيں نا فذ کريں تو ہم عصر حاضر کے انسان کي تمام ضرورتوں کو مغربي ثقافت سے زيادہ بہتر انداز سے پورا کر سکتے ہيں۔
دنيا پر مغربي ثقافت کے تسلط وغلبے کے نتائج!
آپ دنيا ميں مغربی ثقافت کے غلبے اور تسلط کا نتيجہ خود اپني آنکھوں سے دیکھ رہے ہيں؛ آج دنيا ميں عدل و انصاف عنقا ہے، امن و امان کا دور دور تک کو ئي نا م ونشان نہيں ہے، انسانوں کے درمیان سے اخوت و برادري اُٹھ گئي ہے اور اِس کے بر عکس ايک دو سرے سے دشمني، کينہ اورمنافقت کا بول بالا ہے، بے مہار استعماري طاقتوں کا تسلط اور قبضہ آپکو جگہ جگہ نظر آرہا ہے۔ دوستو! يہ سب مغربي ثقافت اور دنيا پر اُس کے تسلط و قبضے کے نتا ئج ہيں۔
غير مسلم اقليتوں سے اسلام کاسلوک!
آپ آزادي قلم وصحافت کادعويٰ کرنے والے ممالک ميں مسلمان اقليتوں سے اُن کے رويے اور سلوک کا جائزہ لیں اور اُ ن کے اِس رويے اور سلوک کا تاريخ کے مختلف حصوں ميں اسلامي ممالک ميں موجودغير مسلم اقليتوں سے اسلام کے برتاؤ سے موازنہ کريں۔ خلفائے راشدين کے زمانے ميں ہو نے والي فتوحات کے بعد مسلمان جس علاقے ميں بھي گئے ، اختمام جنگ کےبعد اُن کي حکومت و اقتدار کے زمانے ميں غير مسلموں سے اُن کا رويہ اور سلوک مہرباني اور رحمدلي سے لبریز تھا۔ مشرقي روم کے اِسي علاقے کو ہی لے ليجئے جہاں بہت سے يہودي زندگي بسر کرتے تھے۔اِن تمام واقعات کو تاريخ نے ذکر کيا ہے کہ جب مسلمان وہاں گئے تو يہوديوں نے قسم کھائي؛'' وَالتَّورَاۃِ لِعَدلِکُم اَحَبُّ اِلَينَا مِمَّا مَضيٰ عَلَينَا ‘‘؛''توریت کي قسم ، آپ مسلمانوں کا عدل و انصاف ہميں اپنے ماضي کے مقابلے میں بہت پسند ہے‘‘ وہ تقريباً اِسي قسم کے الفاظ سے مسلمانوں کے عدل وانصاف کوسراہتے تھے۔
ايران ميں غير مسلم اقليتوں کي آزادي!
آج آپ اسلامي جمہوریہ ایران پرنظر ڈاليے، ہمارے ملک میں يہودي، عيسائي اور آتش پرست آزادانہ زندگي بسر کر رہے ہيں، يہ اقليتيں انتخابات ميں آزادانہ طور پرحصہ لے کر اپنے نمائندے پارليمنٹ ميں بھيجتي ہيں اوراپنے مذہب پر بغير کسي روک ٹوک کے آزادانہ طور پر عمل کرتي ہيں۔ دوسرے اسلامي ممالک ميں بھي يہي صورتحال ہے ، يہ ہے اسلام ! آپ اِن اقليتوں سے اسلام کے سلوک کا آج کي مہذب اور بظاہر انساني حقوق کي طرفدار حکومتوں کے اس برتاؤ سے موازنہ کريں جو وہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےساتھ روا رکھتی ہیں۔
اسلام ہي عالمي سطح پر عدل وانصاف اور امن و امان کا ضامن بن سکتا ہے
آج دنيا عدل وانصاف کي پیاسی ہے، وہ امن و امان کي طالب ہے اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکا ر ہے؛ يہ اسلام ہي ہے جو اِن تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ مغربي تہذیب و ثقافت نے يہ بات ثابت کر دي ہے کہ وہ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے عاجز کو قاصر ہے۔ آپ آج دنيا کي موجودہ حا لت پر ايک سرسری نگاہ ڈاليے، فلسطين کو ديکھئے، صہيوني صاحبان اقتدار کھلے عام اِس بات کا اظہار کر رہے ہيں کہ''اگر ہم صہيونيوں اور فلسطينيوں کے درميان غصب شدہ فلسطيني سرزمين برابر برابر تقسيم ہو جائے تو جو کچھ جنوبي افريقہ ميں وقوع پذير ہوا تھا وہي چيز ہميں بھي حاصل ہو جائے گي! يعني وہ اِس با ت کا اقرار کر رہے ہيں کہ وہ نسل پرستي کي ترويج و حمايت کر رہے ہيں گويا وہ طبقاتي نظام اور نسل پر ستي کا اعتراف کر رہے ہيں۔ دنيا اِن تمام واقعات کا اپني آنکھوں سے مشاہدہ کر رہي ہے، مغربي تہذیب و ثقافت کے پنجوں ميں جکڑي ہوئي دنيا يہ سب ديکھ رہي ہے ليکن اُس نے اپنی زبان پر تالے لگا ليے ہيں اور وہ اپنےفرائض کي انجام دہي سے گریز کر رہی ہے۔
يہ ہمارے لئے خطرے کي گھنٹي ہے اور ہم مسلمانوں انتباہ ہے کہ ہميں خود اعتمادی پيدا کر نا ہوگی، ہميں خدا وندعالم کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے اوراِس با ت کو اچھي طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ہم اپنے عقيدے، طرزفکر، تدبير، منصونہ بندي اوراتحاد کے ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے تو خدا وندعالم بھي ہماري مدد فرما ئے گا اور ہميں کاميابي سے ہمکنار کرے گا۔ ہميں اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہئے، خدا وند عالم قرآن کريم ميں ايسے لوگوں کي مذمت کرتا ہے جو اُس کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہيں:''وَيُعَذِّبُ المُنَا فِقِينَ وَالمُنَافِقَاتِ وَالمُشرِکِينَ وَالمُشرِکَاتِ الظَّانِّينَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السّوئِ عَلَيھِم دَائِرَۃُ السُّوئِ وَغَضبَ اللّٰہُ عَلَيھِم وَلَعَنَھُم وَاَعَدَّلَھُم جَھَنَّمَ وَسَا ئت مَصِيراً‘‘ اللہ تعالي منافق مردوں عورتوں اورمشر ک مردوں و عورتوں کو عذاب دے تا ہےجو اللہ تعالي کے بارے ميں بدگمانی کا شکار ہیں، اِن پر خدا نےاپنا غضب نا زل کيا ہے اوراِن پر لعنت کي ہے اور اِن کيلئے جھنم تيا رکيا ہے۔لہذا ہميں خدا کي ذات پر بھروسہ و توکل رکھناچاہئے۔ ہم نے کب اور کہاں کوئي عمل انجام ديا اور کوئي اقدام کيا کہ جس میں خدا وند عالم نے ہماري مدد نہ کي ہو؟ ہميں وہیں مشکلات کا سامنا ہوا اور ہم وہیں کمزوري اور شکست سے دوچار ہوئے جہاں ہم نے عمل انجام نہيں ديا تھا اور اپني ذمہ داريوں اور فرائض سے کنا رہ کشي اختيار کي، ليکن جہاں بھي ہم نے اپني ذمہ داريوں کو پورا کيا خدا وند عالم نے وہاں ہماري مدد فرمائي اور يہ خدا کا وعدہ ہے؛''وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ لَيَستَخلِفَنَّھُم فِي الاَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِينَ مِن قَبلھِم‘‘؛ اور اِس طرح دوسری آيات میں بھی یہی بات کہی کئي ہے۔
مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے عدالتی نظام اور عدلیہ کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے
آج کے اِ س بين الاقوامي اجلاس میں جو با ت کہي جا سکتي ہے وہ يہ ہے کہ ہم اسلامي عدليہ کے قوانين ميں اپني آرا و نظريات کی آزادی، خود اعتمادی اور قرآن ميں بيان کي گئي اسلامي تعليمات کي طرف واپس آئیں۔ اِس قسم کے اجلاس اور نشستيں اِس راہ ميں ہماري مدد کر سکتي ہيں۔ بہت خوشي کي با ت ہے کہ اسلامي ممالک نے اِس سلسلے ميں بہت اچھے تجربا ت حاصل کئے ہيں اور ہمارے پاس بھي اچھے تجربا ت موجود ہيں۔ اسلامي انقلاب کي کا ميابي کے بعد گزرنے والي اِن تين دہا ئيوں ميں ہمیں مفید تجربات حاصل ہوئے ہيں ليکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بھائيوں کے قيمتي تجربا ت سے بھي استفادہ کريں گے اور وہ ہمارے تجربا ت سے مستفيد ہوسکتے ہیں۔ ہم ايک دوسرے کي مدد کريں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تا کہ اسلامي عدالتی نظام اورعدليہ کو جو ايک عظيم الشان عمارت کي مانند ہے ، حقيقي معنيٰ ميں رفعت و بلندي حاصل ہو سکے۔
اِس اجلاس ميں شرکت کرنے والے مہمانوں اور ميزبا نوں کي جا نب سے بہت اچھي آرا وتجاويز سامنے آئي ہيں، ميں نے سب کو سنا ہے، يہ بہت اچھي تجاويز ہيں اور ہم اِن تجاويز کو عملي جامہ پہنانے کيلئے ايک بين الاقوامي کميٹي یا کميشن تشکيل دينے کي حمايت کرتے ہيں۔ ہميں ايک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ايک دوسرے کي مدد کرني چاہئے تا کہ موجودہ زمانے ميں اسلامي ممالک ترقي کر سکيں۔ اِس با ت کي طرف توجہ رہے کہ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے اور باہمی قربت سے بہت سی طاقتيں ناخوش ہيں اور وہ اِس با ت کو ہر گز پسند نہيں کريں گي۔ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے پر ہمارے مخالفين خاموش نہيں بيٹھے رہيں گے؛اِس کي طر ف بھي متوجہ رہيں۔ مل جل کر فيصلہ کريں اور اللہ تعالی کی مدد سے باہمی تعاون کےساتھ اپنے امور انجام دیں۔ اپنے اِس کا م کيلئے اللہ تعالی سے توفيق کی دعا کيجئے، اُ س سے مدد طلب کیجئے۔ اِ ن شائ اللہ اُميد رکھيں کہ خدا وند عالم ہماري مدد و اعانت فر مائے گا۔
مجھے اُميد ہے کہ تہران اور دوسرے مقامات پر آپ کا سفر اچھا گزرےگا اور آپ ايران سے اچھي ياديں اپنے ہمراہ لے کر جائيں۔
والسّلام عليکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ سب عزیز نوجوانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ ان فارغ التحصیل طلبہ کوبھی جو آج سے پولیس کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور ملک کی عملی خدمت کے میدان میں داخل ہوں گے ؛ اور ان عزیز نوجوانوں کو بھی جو آج باضابطہ طور پر اس علمی اور تربیتی مرکز کے طالب علم بن جائیں گے ۔
اگر انسان تعلیم اور زندگي کے راستے کے انتخاب کے لیے اہم مقاصد میں سے کسی مقصد کو چننا چاہے تو بلا شبہ جو مقصد آپ نے چنا ہے وہ ایک بہترین اور برترین مقصد ہوگا۔ آپ کو اس توفیق کی قدر کرنی چاہیے، خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور خود پر فخر کرنا چاہیے؛ کیونکہ امن و سلامتی ایک انتہائی اہم امر ہے ۔آپ دیکھیے کہ خداوند متعال قرآن کریم میں ، وآمنھم من خوف ، امن و سلامتی کو ایک بڑی نعمت شمار کرتا ہے ۔
امن و سلامتی تمام کامیابیوں اور ترقیوں کی پہلی منزل ہے۔ اس کے علاوہ اگر معاشرے میں امن و امان نہ ہو اور عوام کو بدامنی کا دھڑکا لگا رہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا ایک بڑا حق پامال ہوا ہے۔ آپ نے اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیا ہے؛ اس فریضے کو نبھانے کا عہد کیا ہے۔
مختلف زمانوں میں انسانی معاشروں کے تمام طبقوں میں ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جو قانون شکنی اور دوسروں کی خواہشات پر اپنی ناجائز خواہشات کو ترجیح دے کر معاشرے میں بدامنی کے اسباب فراہم کرتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی لگام کون کسے؟ جس ادارے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اعلی انسانی خصوصیات میں سے دو اہم خصوصیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایک تو لوگوں سے اس کی ہمدردی ہے کہ وہ ان کا دفاع کرنا چاہتا ہے، ان کے امن و امان کو تحفظ دینا چاہتا ہے؛ دوسرے وہ ان لوگوں کے خلاف طاقت اور زور بازو کا استعمال کرتا ہے؛ جو معاشرے میں قانون اور نظم و ضبط کو اپنا بازیچہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون کے احترام کے بجائے جو سب لوگوں کے لیے لازمی ہے، سینہ زوری پر اتر آتے ہیں۔ یہ ادارہ ایک طرف تو لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا برتاؤ کرتا ہے اور دوسری طرف، ان لوگوں کے سلسلے میں طاقت کا استعمال اور سختی کرتا ہے جنہوں نے دوسروں کے حقوق کو پامال کیا۔ ان دونوں خصوصیتوں پیدا ہونا ضروری ہے۔آپ کو اس بات پر فخر اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کو ایسی ذمہ داری ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فریضے کی اہمیت کے بارے میں بھی سوچیں اور خود کو حقیقی معنی میں آمادہ کریں۔
ہماری پولیس شاہی حکومت کے گذشتہ طاغوتی دور بہ نسبت بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے؛ آپ لوگ اس وقت پیدا نہیں ہوئےہوں گے۔ زمین آسمان کا فرق پیدا ہوا ہے۔ ایک دن وہ تھا جب اس ملک میں پولیس حکام لوگوں کو ڈرانے دھمکانے ان میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے تھے؛ آج پولیس کے افراد، عوام کے اپنے لوگ ہیں، ان کے ہمراہ ہیں، عوام کی پشت پناہی کر رہے ہیں؛ لوگوں کا ان پر اعتماد ہے۔ آپ جب میدان عمل میں ہیں اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں، ان امور کو جنہیں لوگ معاشرے میں امن و امان اور نظم ونسق کے لحاظ سے اپنے مسائل کے عنوان سے پیش کرتے ہیں، آپ انہیں ڈھارس دیتے ہیں۔ لوگوں کا آپ پر اعتماد بڑھتاہے؛ وہ تحفظ کا احساس کرتے ہیں؛ آپ سے محبت کرتے ہیں؛ آپ پر فخر کرتے ہیں۔
گذشتہ عرصے کے دوران عوام کے نفسیاتی چین وسکون اور سماجی امن و سلامتی میں خلل ڈالنے والے افراد اور شر پسند عناصر کی پولس نے نکیل کسی نتیجتا عوام نے ہر جگہ آپ کی کامیابی اخلاقی و سماجی صورتحال میں بہتری کا مشاہدہ کیا، انہیں ایسا لگا کہ یہ ان کی اپنی کامیابی ہے، انہیں آپ پر فخر کرے کا موقع ملا۔
میں یہ دعوی تو نہیں کر سکتا کہ آج پولیس ہر جہت سے اسلامی معاشرے کی توقعات پر پوری اتری ہے لیکن میں یہ دعوی ضرور کر سکتا ہوں کہ جو راستہ طے کر کے آج آپ اس منزل پر پہنچے ہیں وہ راستہ انتہائی طویل، پر نشیب و فراز تھا۔ اس پر آگے بڑھنا قابل تحسین ہے، اس پیش قدمی کو ضرور جاری رکھیے۔
فرائض کی ادائگي کے لئے آپ کا سب سے بڑا سرمایہ، آپ کا وہ دل ہے جو فرض شناسی، ذمہ داری کے احساس اور عوام کی محبت سے سرشار ہے، جو اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف اقدام کی قوت عطا کرتا ہے جو معاشرے کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کا کام بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ ظریف اور پیچیدہ بھی ہے۔عزیز نوجوانو! جتنا ہو سکے خود کو آمادہ کرو۔
اللہ تعالی کی عنایت اور اسلامی انقلاب کی برکت سے ہمیں علمی، سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت ملی، قومی عزت و افتخار حاصل ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تحفظ کے احساس کی ضرورت ہے۔جس طرح کسی شخص کی کامیابی سے دوسرے افراد حسد کرتے ہیں ایک ملت کو بھی کامیابی کی مزلیں طے کرتا دیکھ کر حاسد جلنے لگتے ہیں لہذا جب کسی شخص کو کوئی کامیابی حاصل ہو تو اسے خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حاسدوں کی نگاہوں سے بھی بچنا چاہئے۔ قوم بھی اسی طرح ہے۔ایسے لوگ ہیں جو صرف برا چاہتے ہیں حسد کرتے ہیں وہ ایرانی قوم کی ترقی و پیشرفت سے سخت ناراض ہیں؛ اس لیے کہ انہوں ( بیرونی طاقتوں ) نے اس علاقے میں اپنے لیے جو مفادات مدنظر رکھے ہیں ان کا حصول، قوموں کی علمی سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت کی صورت میں ممکن نہ ہوگا۔ اس قسم کے عناصر، یہ دشمن، یہ حاسد اور یہ بدخواہ باقی نہیں رہیں گے۔ ہر ملک اور قوم کے لیے انتہائي حساس مسائل میں ایک، امن و سلامتی کا مسئلہ ہے؛ آپ کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے۔راستے بحمداللہ ہموار کر دیے گئے ہیں؛ آپ بہ آسانی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اس تربیتی مرکز کا ماحول دینی ہے، روحانی ہے، انتہائی اچھا ہے؛ اس ماحول کو برقرار رکھیے اسے اور اچھا بنائیے۔ آپ طلبا جو اس یونیورسٹی میں داخل ہوئے ہیں اور اسی طرح جو طلبا یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر عملی میدان میں داخل ہوں گے، آپ سب اس بات پر توجہ دیں کہ اس جذبے کو ہمیشہ باقی رکھیں؛اس بات کی اجازت نہ دیں کہ مختلف قسم کے عوامل آپ کے اس جذبے کو نقصان پہنچائیں اور آپ کے جوش و ولولے میں کمی واقع ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امن و سلامتی قائم اور تمام لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے عمل میں کسی سیاسی رجحان ھڑے بندی، مذہبی اختلافات اور نسلی و قومی تعصب وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ پر امن ماحول میں سانس لینا، معاشرے کی ہر فرد کا حق ہے۔امن و امان سے محروم صرف وہ شخص رہے جو لوگوں کا امن و امان تہہ و بالا اور درہم برہم کر دیناچاہتا ہے۔ ایسے ہی عناصر پر آپ کا خوف طاری رہنا چاہئے؛ ورنہ قوم کے تمام طبقے چاہے وہ کسی بھی مذہب،کسی بھی دین،کسی بھی سیاسی رجحان اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، سب یکساں اور برابر ہیں ان میں کوئي فرق نہیں ہے، اس عظیم فریضے کے تعلق سے جو آپ کے کاندھوں پر ہے یعنی امن کا قیام۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ خدمت کا پرافتخار دور گزار سکیں، خدا کی بارگاہ میں اور شہداء کی پاکیزہ ارواح کے سامنے سربلند و سرفراز ہوں اور قوم آپ کی اس خدمت گذاری کے نتیجے میں روزبروز زیادہ تحفظ کا احساس کرے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حج کے امور کی انجام دہی میں مصروف منظمین، متعلقہ عہدہ داروں خاص طور سے جناب ری شہری اور جناب خکسار کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بڑی خوشی کا مقام ہے کہ مناسک حج کے لئے تمام انتظامات اور اقدامات خوش اسلوبی سے انجام دئے گئے ہیں۔
دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ افواج جہاں فوجی ساز و سامان اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں وہیں اعلی اخلاقی قدریں اور معنوی و روحانی پہلو بھی ان میں نمایاں ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر اسلامی جمہوری نظام میں خاص طور پر قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے خاص تاکید کی جاتی ہے۔ کیڈٹ کالج کے فارغ التحصیل اور نووارد اسٹوڈنٹس کی مشترکہ تقریب سے رھبر معظم انقلاب حضرت آیت اللھ العظمی خامنھ ای نے اپنے خطاب میں ایسے ہی چند نکات کی جانب اشارہ فرمایا، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پوری اسلامی امہ، ایران کی مؤمن اورسر بلند قوم اور اس محفل میں شریک اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف حکومتی شعبوں کے اعلی' حکام، اسلامی ممالک کے محترم سفیروں، اور آپ تمام حاضرین کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ایک نظر میں عیدالفطر کو اسلامی امہ کےاتحاد اور مسلم اقوام کی یکجہتی کا جشن قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں دل نورانی اورلطیف ہو جاتے ہیں جبکہ انسان کے وجود میں اختلافات کے شیطانی جذبات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عیدالفطر درحقیقت فطرت انسانی کی طرف رجوع ہے۔ ؛خداوندعالم، توحید اور ایک اعلی مرکز کی طرف رجحان، انسانی فطرت کاتقاضہ ہے۔ تمام محرکات اور انسانی جذبات و احساسات یکجا ہو سکتے ہیں اور ان میں ہم آہنگي پیدا ہو سکتی ہے۔
عیدالفطر کی نماز بھی جہان اسلام کے ہر مقام پر اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ لہذا اس دعا میں جو ہم قنوت میں پڑھتے ہیں( الذی جعلتہ للمسلمین عیدا ولمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ ذخرا و شرفا و کرامتا و مزیدا ) یہ عید نبی اکرم کی مقدس ذات کا ایک ذخیرہ ہے، شرف کا ایک وسیلہ ہے، اس مقدس ذات کی کرامت اور اعلی و بلند مقام میں اضافے کا وسیلہ ہے۔کب یہ خصوصیات پیدا ہوتی ہیں؟ اس وقت کہ جب یہ عید مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے۔ قومی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے اور اسلامی امہ کی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔قومی سطح پر جیسا کہ ہماری غیور قوم نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں آج تک اس کا مظاہرہ کیا ہے، اتحاد اور وحدت کلمہ اس کی عزت وسربلندی کا باعث ہے، اس کی طاقت و توانائي کاسرچشمہ ہے۔
ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے جہاں ہماری غیور اور متحد قوم مختلف فرقوں اور مذاہب مشتمل ہے۔ ہمارے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ نسلی تعصب، مذہبی اختلافات، فرقہ واریت کو ایرانی قوم کے سیاسی عمل اور وحدت کلمہ کے عام جذبے او نظرئے پر مسلط کردیں لیکن آج تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے؛ ایران میں بسنے والی مختلف اقوام ایک دوسرے کی ہمدرد ہیں، مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔انہوں ( دشمن )نے بڑی سازشیں کی ہیں۔
انقلاب کی تحریک کے دوران جب فتح و کامرانی کا پرچم بابصیرت انسانوں کو دور سے نظر آنے لگا تھا تو شاہ کی طاغوتی حکومت کے آلہ کار اور ایجنٹ کہتے تھے کہ ایران تقسیم ہو جائے گا۔ وہ اس پر پورا یقین رکھتے تھے۔
ہمارے انقلاب کے اوائل میں ایرانی اقوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے اور مذاہب کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کے لئے بہت زیادہ پیسہ خرج کیا گیا ۔انقلاب ان ساری سازشوں پر غالب آیا۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ہماری غیور قوم کے عظیم الشان مظاہروں میں اس عظیم سرزمین کے سبھی علاقوں سے ہر طبقے اور ہر قوم اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ شریک ہوئے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی ہدف و مقصد کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
دو بھائی اکٹھا زندگی گذار رہے ہیں، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر چل رہے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ بعض مسائل کے سلسلے مین ان کے نظریات مختلف ہوں۔ یہ اختلاف نظر لڑائي جھگڑے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ انقلاب نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے۔ یہ بات ہم نے انقلاب کی برکت سے سیکھی ہے اور اس پر عمل کیا ہے؛ لہذا آج ہماری قوم متحد ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران دشمنوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ جب ہماری قوم میں نسلی و قومی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، مذہبی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، لسانی اختلافات نہیں ڈالے جا سکےتو سیاسی اختلافات پیدا کئے جائيں۔ البتہ ایک چھوٹا سا گروہ دھوکہ بھی کھا گيا اور غلطی کر بیٹھا تاہم قوم کے باشعور اور پڑھے لکھے افراد اس سازش کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں اتحاد کا محور و مرکز، اسلامی جمہوری نظام، اسلام اور قرآن کریم ہے کہ جس پر سب کا یقین اور اعتقاد ہے۔ نماز کے خطبے میں آج صبح میں نے عرض کیا کہ ماہ رمضان کے ایام، ماہ رمضان کی راتیں وطن عزیز کے نوجوانوں کا اعتقاد و ایمان اور ان کی معنوی لطافت، تقرب الہی اور خضوع و خشوع کا مظہر تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔
آج ہماری قوم کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، بہت کم قوموں میں اتنے نوجوان ہیں جو خلوص دل سے ذکر پروردگار کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں، خدا سے رازونیاز کرتے ہیں، پاکیزہ دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، یہ سب اسلام کی برکتیں ہیں۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔ عیدالفطر وہ دن ہے کہ جب ہمیں اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اگر ہمارے دلوں میں کینہ و دشمنی، نفاق اور عناد ہے تو حتی المقدور ہمیں خود کو اس سے نجات دلانا چاہئے۔اپنے دلوں سے ان برے احساسات کو محوکردینا چاہیے۔ ہمارے سامنے ایک طویل راستہ ہے۔ یہ درست ہے کہ انقلاب نے ہمیں اور ہماری تحریک کو سرعت بخشی، ہم نے بہت زیادہ ترقی کی۔ ہم دنیا کی تیسرے درجے کی قوم سے ایک پر وقار قوم میں تبدیل ہو گئے اور ایک ایسی قوم بن گئے جو مسلم اقوام کی مطمح نظر ہے۔ خود اندرونی طور پر بھی ہم نے بہت زیادہ ترقی و پیشرفت کی ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے،لیکن یہ بھی آغاز ہے۔ ابتدائي مرحلہ ہے۔
اسلام میں ترقی کے لئے بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اسلام نے ہمارے سامنے جو چوٹیاں رکھی ہیں وہ بہت بلند ہیں۔ ہمیں ان چوٹیوں کے راستے کو طے کر کے ان کو سر کرنا چاہیے۔ اسلام نے ایک ایسی عرب قوم کو کہ جس نے تہذیب و تمدن کی بو بھی نہیں سونگھی تھی اور انسانی علم و دانش سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا، عالمی سطح پر علم و دانش کی ایسی چوٹی پر پہنچا دیا کہ پوری دنیا کے انسانوں نے اس کے علم و دانش، اس کی معرفت، اس قوم کی تحریروں اور ان کے افکارونظریات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ اسلام کا ہنر ہے۔ ہم مسلمانوں نے خود کو اس چوٹی سے نیچے گرا لیا؛ غلطی ہماری اپنی ہے، ہم نے پستی اور ذلتوں کو قبول کر لیا۔ اس لیے آج عالم اسلام پسماندہ ہے۔ ہم دوبارہ اسی راستے پر چل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمھا علی' قوم حتی' یغیروا ما بانفسھم ہم نے اپنے آپ میں جتنی تبدیلی کی اتنا ہی ہم آگے بڑھے؛ اللہ تعالی ہمیں آگے لے گيا۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ملک کے اندرونی مسائل سے مربوط ہے۔ امتحان بھی زیادہ ہیں۔
اس سال کے آخر میں (2008 اوایل میں ) انتخابات آ رہے ہیں۔ انتخابات ہمارے اتحاد ، ہماری بصیرت و تدبر اور ہمارے قومی شعور کے اظہار اور مظاہرے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انتخابات، انتخابی سرگرمیاں اور انتخابی ماحول اختلاف کا باعث ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد کا باعث ہو سکتا ہے، مثبت اور شفاف مقابلہ آرائي سے پیشرفت کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ ہر پارٹی قوم کی خدمت کے لیے وہ حصہ حاصل کرے جس کے لائق وہ خود کو سمجھتی ہے؛ اس میں کوئی برائي نہیں ہے۔ یہ مثبت رقابت اور مقابلہ معاشرے کو نشاط و شادمانی بخشتا ہے، ہمیں زندہ دل بناتا ہے، ہمارے معاشرے میں جوش و جذبہ بھر دیتا ہے۔ ان انتخابات میں اگر ہم برا طرزعمل اختیار کریں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں، ایک دوسرے سے کینہ رکھیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کریں، اصول و آداب کے برخلاف عمل کریں تو یہ تنزلی، کمزوری اور انحطاط کا سبب بن سکتا ہے، یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، یہ ایک الہی آزمایش ہے ۔
آج عیدالفطر کا دن ہے، جو الہی نعمتوں اور معنوی برکتوں سے سرشار اور بابرکت تیس دن کے ماہ رمضان کے بعد جلوہ افروز ہوا ہے۔ مبارک ہو آپ کو۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ماہ رمضان گزارا ہے، آج عید آئي ہے۔ اسے اعلی' انسانی منزل کی سمت روانگی و سفر کا نقطہ آغاز قرار دیجیے۔ یہ ملک کے داخلی امور سے مربوط ہے۔
اسلامی امہ کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ آپ دیکھیے کہ بین الاقوامی توسیع پسند طاقتیں عالم اسلام کے تمام مسائل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی سینیٹ بل پاس کرتی ہے کہ عراق تقسیم ہوجانا چاہیے۔ آخر آپ ہوتے کون ہیں جو یہ فیصلہ سنا رہے ہیں؟ تو عراقی قوم کس لیے ہے؟ یہ غلط ہے کہ ایک ملک کی قانون ساز اسمبلی دوسرے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرے ۔ ایک اہم اسلامی ملک (عراق ) کو تقسیم کرنا، اس تین حصوں میں بانٹ دینا تاکہ اس پر آسانی سے تسلط قائم کیا جا سکے، اسے اپنا بازیچہ قرار دینا یہ عالم اسلام اورعراقی قوم کے ساتھ سب سے بڑی خیانت اور غداری ہے۔ عراقی حکام نے اس کی مخالفت کی ہے اور وہ حق بجانب ہیں ۔اسے دیکھیے یہ استعمار کی سامراجی اور خودسرانہ مداخلت کی ایک مثال ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟
مسئلہ فلسطین اس کی دوسری مثال ہے۔ اب چونکہ صیہونیوں کو مسلمان عرب نوجوانوں سے منہ توڑ جواب ملا ہے، اس لیے اب وہ صیہونیوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور کسی طرح اس شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ امن کانفرنس تشکیل دیتے ہیں۔ یہ امن کانفرنس ہے؟ امن کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے تمام حقوق سے محروم کردیا جائے، اور دوسروں کے کام میں بے جا مداخلت کرنے والے ایک بے سروپا اور غاصب گروہ کو ملت فلسطین پر مسلط کرکے اس قوم کو اس کے گھربار، حق زندگی، زمین اور وطن سے محروم کردیا جائے، اس کے بعد اسی قوم کے خلاف قانون پاس کیا جائے اقدامات کئے جائيں ! آپ کو اس کا کوئی حق نہیں ہے! امن کانفرنس اس لیے ہے؟ فلسطینی عوام کو گذشتہ کانفرنسوں سے کیا ملا ہے؟ بتائیے، آج غزہ میں عوامی حکومت منتخب ہوئی ہے۔ یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اس میں کوئی شک ہے؟ عوام نے اس حکومت کو منتخب کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اگر یہ ایسی حکومت ہے جسے فلسطینی قوم نے منتخب کیا ہے تو پھر امریکہ اور اس کے پٹھو کسی ملک کو کیا حق ہے کہ وہ اس قوم کے مسائل میں مداخلت کریں اور اپنی مرضی چلائیں ۔ یہ اس قوم کا حق ہے! فلسطینیوں نے کہا ہے کہ ہم مخالف ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ یہ فلسطینیوں کے خلاف سازش ہے۔ علاقے کی بعض حکومتیں ماضی میں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہیں ہیں- اس وقت کہ جب ان سازشی کانفرنسوں کو بعض ملکوں نے فلسطینی عوام کے نام پر قبول کر لیا تھا۔ (اس وقت کہا گیا ) کہ فلسطینیوں نے قبول کیا ہے۔ آپ فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہ بنیں اب کیا ہوا؟ اب توخود فلسطینی کہتے ہیں کہ ہمیں یہ امن کانفرنس قبول نہیں ہے، اب کیوں اسے مکروفریب قرار دیتے ہیں۔ کیوں بعض ممالک اس سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں حالانکہ یہ فلسطینی قوم کی خواہش کے برخلاف ہے، عالم اسلام کی خواہش کے برخلاف ہے، خود علاقے کی حکومتوں کی خواہش کے برخلاف ہے، کیوں یہ مداخلتیں کی جاتی ہیں؟ کیونکہ ہم آپس میں متحد نہیں ہیں، کیونکہ ہماری طاقت ایک دوسرے کی تقویت کا باعث نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔اگر عالم اسلام کے کسی بھی علاقے میں مسلمان ممالک کسی بھی زبان اور آبادی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں اور ایک ہی بات کریں تو پھر امریکہ یا کسی اور طاقت کو اسلامی امہ کے خلاف بات کرنے اور اقدام کرنے کی جرئت نہیں ہو گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران نہیں کہتا کہ دوسری حکومتیں وہی کہیں جو ہم کہتے ہیں۔ آئیں مل بیٹھ کر مسئلہ فلسطین کے بارے میں کسی بھی توسیع پسند اور مداخلت پسند بڑی طاقت کی خواہش کو پیش نظر رکھے بغیر فیصلہ کریں، اسی فیصلے کا اعلان کریں، فیصلے کو قبول کرنا یا نہ کرنا خود فلسطینی قوم کا حق ہے ۔ کیوں دنیا کے دوسرے کونے سے اٹھ کر کوئی آئے اور ان کی پوری کوشش یہ ہو کہ ، اس علاقے میں سامراج اور استعمار کی اس ناجائز اولاد اسرائیل کے لیے امن و سلامتی فراہم کریں۔ چاہے قومیں تباہ و برباد ہو جائيں؛ جو ہوتا ہے ہو جائے۔ یہ ہماری کمزوری کا نتیجہ ہے۔
آبادی بتخانہ ز ویرانی ما ست جمعیت کفر از پریشانی ما ست
ہم مسلم قوموں کو اکٹھا ہونا چاہیے، ہم مسلمان حکومتوں کو اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ ہماری طاقت کا لوہا مانا جائے۔ آپ خود کو پیش کر سکیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا کہنا ہے۔ ہم یہ بات کہتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔ سامراج بھی ہم سے دشمنی رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال آپ ایٹمی توانائی کے مسئلے اور دوسرے امور میں دیکھ رہے ہیں۔ الحمد للہ سامراج کی دشمنیوں کا بھی ہماری قوم پر نہ تو اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔
خدا ہمیں ہدایت دے۔ خدا ہمیں اس امر کی ہدایت دے جو اسلامی امہ کے حق میں ہے اور یہ حساس تاریخی لمحہ، جس کا متقاضی ہے اور خدا ہمیں اس کی توفیق دے اور ہماری مدد کرے۔
پروردگارا ! شہداء عزيز راہ اسلام ،خصوصا اسلامی جمہوریہ کے مظلوم شہداء اور فلسطین،عراق اور دیگر مسلمان قوموں کے شہیدوں کی ارواح طیبہ پر اپنی رحمت نازل فرما اور امام خمینی بزرگوار (رہ) کی پاک روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما اور امام زمانہ( ارواحنا فداہ ) کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خطبہ اول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمہ للہ الذی خلق السموات والارض و جعل الظلمات والنور ثم الذین کفروا بربھم یعدلون ۔نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی' حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرہ و مبلغ رسالاتہ بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی' آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و علی' صحبہ المنتجبین۔
عید سعید فطر کی پورے عالم اسلام کے تمام روزہ دار مؤمنوں اور مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ خاص طور پر ایران کی مؤمن اور غیور قوم اور آپ نماز گزار بہنوں اور بھائیوں کو۔
عید الفطر درحقیقت عید شکر ہے، ضیافت الہی کا ایک مہینہ کامیابی سے گزارنے کا شکر، روزہ داری کا شکر، عبادت، ذکر، خشوع اور بارگاہ کبریائی سے توسل کی توفیق کا شکر، حقیقت میں اس شکر کے لیے بھی مؤمن انسان کو عید منانی چاہیے۔ میرے پاس جو ٹھوس اور باوثوق معلومات ہیں ان کے مطابق ایران کی عزیز قوم نے اس مہینے (رمضان ) سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ہماری قوم نے حقیقتا رمضان المبارک کے مہینے سے فائدہ اٹھایا ہے، معاشرے کے تمام طبقے، مختلف رجحانات رکھنے والے لوگ اور وہ لوگ کہ جن کی روزمرہ کی زندگی، ان کے طرزعمل،لباس اور طور طریقوں میں ایک دوسرے کے ساتھ قدرے فرق پایا جاتا ہے، سب آئے۔ خدا کا اس عظیم نعمت پر کہ جو مسلمان قوم کے ایمان اور اس کے دین اور دینی و اسلامی حقائق پر قلبی ایمان کی نعمت ہے، بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قوم کی ایک اہم نمایاں خصوصیت ہے۔ جو کچھ ذرائع ابلاغ مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں لوگوں کی دینداری کے بارے میں بتایا جاتا ہے، بلاشبہ وہ لوگوں کے خلوص اور خضوع و خشوع کا ایک گوشہ ہے۔ وطن عزيز میں، ان تمام شہروں میں، ان تمام دیہاتوں میں، ہزاروں مساجد، امام بارگاہوں اور مختلف مراکز میں اس مہینے کی شبہائے قدر اور دیگر راتوں میں یہ لوگ، یہ نوجوان، یہ بچے اور بچیاں جمع ہوئے، توسل کے لیے ہاتھ بلند کیے، خدا سے حاجت طلب کی، خدا سے ہم کلام ہوئے اور رازونیاز کیا؛ یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
اس مہینے میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں؛ اس قسم کے سبق نہیں جو انسان استاد یا کتاب سے سیکھتا ہے، بلکہ اس قسم کے درس جو انسان ایک عملی مشق میں، ایک عظیم اجتماعی کام کے دوران سیکھتا ہے۔ پہلا سبق خدا سے تعلق اور ذات احدیت اور حضرت حق کے ساتھ قلبی رشتہ قائم رکھنے کا سبق ہے۔ اس سبق کی لذت آپ نے چکھی ہے کہ کس طرح آسانی کے ساتھ خدا سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے (( و ان الراحل الیک قریب المسافۃ و انک لا تحتجب عن خلقک الا ان یحجبھم الاعمال دونک ))خدا کی راہ نزدیک ہے۔ اس کا مشاہدہ آپ نے شب قدر میں کیا؛ توسل، زیارت اور دعا کے موقع پر دیکھا؛ آپ نے رازونیاز کیا؛ اپنا دل خدا کے لیے تحفے میں لے کر گئے اور خدا سے اپنی محبت کو مضبوط کیا اور اسے استحکام بخشا۔ اس یہ سرور اپنے وجود میں برقرار رکھئے۔اس رابطے اور تعلق کو منقطع نہ ہونے دیجیے، یہ ہے پہلا سبق۔
ایک اور سبق مختلف طور طریقوں کے باوجود قوم کا دین اور توحید کے محور پر اکٹھا ہو جانا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں قومی اتحاد، یہ جو ہم کہتے ہیں ایرانی قوم میں یکجہتی ہے، یہ اتحاد و یکجہتی بلا سبب نہیں ہے، صرف ایک نصیحت، ایک حکم اور فرمان کی بنا پر نہیں ہے؛ اس اتحاد کی بنیاد مذہب و ایمان ہے، دین اور اعتقاد ہے جو ہم سب کو ایک مرکز کی طرف لے جاتا ہے؛ وہ مرکز باری تعالی کی ذات اقدس ہے۔ یہ ہماری قومی یکجہتی کا باعث ہے؛ دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے، عطر آگیں کرتا ہے۔ نماز جماعت میں، نماز جمعہ میں، شبہائے قدر میں عبادت، قرآن سر پر رکھنے، دعا اور گریہ و زاری کرنے میں آپ اایک دوسرے کے ہمراہ ہوتے ہیں خواہ وہ کوئي بھی ہو، کسی بھی طرزفکر اور معاشرے کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو، کیسے ہی حلیے کا ہو، آپ کا بھائی ہے؛ آپ کے ہمراہ ہے، پروردگار عالم کی بارگاہ میں آپ کا ہمراز ہے۔ اس قلبی رابطے کو قائم رکھیے؛ یہ بھی ایک درس ہے۔
ایک اور درس خود پر جبر اور سختی کرنا اور دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔ یہ بھوک اور پیاس برداشت کرنا، اذان صبح سے لے کر اذان مغرب تک روزہ رکھنا، یہ خود پر جبر اور سختی کرنا ہے۔ہمارے بہت سے لوگوں نے روزہ رکھ کر خود پر جبر اور سختی کی ہے اور دوسروں پر انواع و اقسام کا انفاق کیا ہے۔انسان کتنی لذت محسوس کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ نیمہ ماہ رمضان کو امام حسن مجتبی (علیہ الصلواۃ والسلام) کی شب ولادت میں ایک تنور کے سامنے بورڈ لگا ہوتا ہے کہ آج رات امام حسن کے عشق میں اس تنور پر روٹی صلواتی(مفت)ہے؛جو چاہتا ہے روٹی لے جائے۔ اس قسم کے انفاق، اپنا نام ظاہر کیے بغیر افطار کا انتظام اور مساجد میں افطار کا بند و بست، یہ عمل ہمارے عوام نے انجام دیا ہے۔یہ ایک اور سبق ہے۔ایک اور مشق ہے۔اپنے اوپر سختی اور جبر کریں اور دوسروں پر انفاق کریں۔ میں اس نکتے پر تھوڑی روشنی ڈالوں گا؛ کیونکہ یہ ہمارے ملک اور معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
ہم اسراف(فضول خرچی) کرنے والے لوگ ہیں؛ ہم اسراف کرتے ہیں؛ پانی میں اسراف، روٹی میں اسراف، مختلف وسائل اور خشک میوے میں اسراف، پٹرول میں اسراف، تیل پیدا کرنے والا ایک ملک پٹرولیم مصنوعات یعنی پٹرول درآمد کرتا ہے! یہ باعث تعجب نہیں ہے؟ ہرسال اربوں خرچ کرکے پٹرول درآمد کریں یا دوسری چیزیں درآمد کریں اس لیے کہ ہمارے ملک اور قوم کے کچھ لوگ فضول خرچی کرنا چاہتے ہیں! کیا یہ درست ہے؟ اسے قومی سطح پر عیب و نقص کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اسراف بری چیز ہے؛ حتی راہ خدا میں انفاق کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔خداوند متعال قرآن میں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے (لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط)خدا کے لیے انفاق میں بھی اسی طرح عمل کرو۔افراط و تفریط نہ کرو۔میانہ روی؛ خرچ کرنے میں میانہ روی لازمی ہے ہمیں قومی سطح پر میانہ روی کو ایک کلچر میں تبدیل کر دینا چاہیے۔قرآن فرماتا ہے(والذین اذا انفقوا) اور وہ لوگ کہ جو، جب انفاق کرتے ہیں،(لم یسرفوا ولم یقتروا)نہ اسراف یعنی زیادہ روی کرتے ہیں، نہ کنجوسی کرتے ہیں۔ خود کو مصیبتوں سے دوچار کر لینا مناسب نہیں اسلام یہ نہیں کہتا۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ لوگ ضرور ریاضت اور زہد کے ساتھ اس طرح کی زندگي گزاریں؛ نہیں، معمولی زندگی گزاریں، متوسط زندگی گزاریں۔یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے لوگ مسلسل کئی برسوں سے ہماری قوم کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے۔ کئی بار بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے لیے امید کی کرن ہماری یہی بری عادت ہے۔ ہمارا شمار اسراف اور فضول خرچی کرنے والے لوگوں میں ہو تو ممکن ہے کہ یہ بائیکاٹ، اسراف اور فضول خرچی کرنے والے کے لیے بھاری اور سخت ہو؛ لیکن اس قوم کے لیے نہیں جو اپنا حساب کتاب رکھتی ہو، جو اپنی آمدنی اور خرچ کا حساب رکھتی ہو،جو اپنے فائدہ و نقصان کا حساب رکھتی ہو،جو زیادہ روی اور افراط نہیں کرتی، اسراف نہیں کرتی۔ اچھا، بائیکاٹ کر دیں۔ان خصوصیات کی حامل قوم کو بائیکاٹ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ماہ رمضان سے اس نکتے کو سیکھیں اور انشاءاللہ اس پر عمل کریں۔
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والعصر ۔ ان الاانسان لفی خسر ۔ الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر
خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما علی امیرالمؤمنین والصدیقۃ الطاہرۃ والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی باقر علم النبیین و جعفر بن محمد الصادق موسی بن جعفر الکاظم وعلی بن موسی الرضا و محمد بن علی الجواد و علی بن محمد الھادی والحسن بن علی الزکی العسکری والخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صل علی ائمۃ المسلمین حماۃ لمستضعفین ھداۃ المؤمنین ۔اوصیکم عباداللہ بتقوی اللہ۔
دوسرے خطبے میں سب سے پہلے یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت پر ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرناچاہوں گا۔ دل سے یہی آواز نکلتی ہے: سلام ہو ایرانی قوم پر! آپ نے دنیا کو اپنی عظمت، اپنا اسلامی تشخص پر رقار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ان جلوسوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔استعماری طاقتوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ فلسطین کے نام و نشان کو مٹا دیں اس مسئلے کو طاق نسیان کی زینت بنا دیں؛ دنیا کے لوگ اور بعد کی نسلیں بھول جائیں کہ کبھی دنیا میں فلسطین نام کی کوئی سرزمین اور ملک بھی تھا؛ ان کا مقصد یہ تھا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اور فلسطینی قوم کی عظیم تحریک نے، چاہے وہ انتفاضہ اول ہو یا انتفاضہ مسجد الاقصی، ایک بار پھر دنیا میں مسئلے کو زندہ کر دیا۔ قوموں، عوام اور دنیا کے انصاف پسندوں حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، انہوں نے اس کا علاج یہ ڈھونڈا کہ وہ اس سرزمین میں واقع عرب فلسطین کو ایک زندان بنا دیں؛ محصور کر دیں۔شاد و آباد اور نعمتوں سے مالامال ملک فلسطین اور اس اسٹراٹیجک اہمیت کے حامل خطے کو مکمل طور پر صیہونیوں کے حوالے کر دیں۔ اس کو صیہونی علاقہ بنا دیں۔ عربوں کو غزہ اور مغربی ساحل کی طرف دھکیل دیں۔
آج بھی آپ صیہونیوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جس قدر ہو سکے فلسطینی عوام میں استقامت و پائیداری کے جذبات کو ختم کر دیں؛ ان کے تمام کام اسی سیاست کے تحت انجام پا رہے ہیں کہ استقامت کا جذبہ ختم کر دیا جائے۔ لیکن فلسطینی عوام ڈٹے ہوئے ہیں۔اول تو یہ کہ انہوں نے جدوجہد ترک نہیں کی، دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنے ووٹوں سے ایک حکومت منتخب کی ہے کہ جس کا نعرہ قابضوں کے خلاف جدوجہد اور استقامت و پائیداری ہے۔ تمام تر دباؤ کے باوجود جو گذ شتہ ایک دو برسوں کے دوران حماس حکومت اور اس علاقے کے عوام پر ڈالا گيا ہے، یہ لوگ مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں؛ مزاحمت کر رہے ہیں لیکن ایک گوشے میں الگ تھلگ محصور قوم کے پاس جس کا دنیا بھر سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے، خدا سے امید کے علاوہ کوئی اور روشنی کی کرن ہونی چاہیے۔ فلسطینیوں کے حق میں مسلمان قوموں کا یہ عظیم نعرہ انہیں جذبہ عطا کرتا ہے؛ ان کے دلوں کو استقامت و پائیداری کے لیے مزید آمادہ کرتا ہے،اس کے علاوہ عالمی رائے عامہ کو فلسطینی کاز کی حقانیت سے آشنا کرتا ہے۔
ایرانی قوم نے ان ( یوم قدس کے) جلوسوں سے اسلامی جمہوریہ کو عزت و آبرو بخشی ہے؛ ایران اور ہر ایرانی کو سربلند کر دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بدستور فلسطین اور فلسطینی قوم کے ساتھ ہیں۔ اسلامی امہ کے دفاع کے لئے صف اول میں موجود ہیں۔یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
فلسطین کےمسائل کے سلسلے میں آج یہ سازش ہو رہی ہے کہ ایک بار پھر امن کے نام پر فلسطینی عوام پر کچھ اور مسلط کر دیا جائے۔اب تک امن کے نام پر جو اجلاس منعقد ہوئے ہیں، ان کا نتیجہ فلسطینی عوام کے خلاف اور ان کے نقصان میں رہا ہے۔ پھر امریکیوں نے ایک اور کانفرنس کی تجویز پیش کی، جسے فلسطینی قوم ٹھکرا چکی ہے۔ اس کانفرنس کو جس کا نام انہوں نے خزاں کانفرنس رکھا، فلسطینیوں نے مسترد کر دیا۔ جب فلسطینی اپنے تعلق سے کوئی کام، کوئی اقدام کرتے ہیں تو دوسری حکومتیں اس کو مسترد کر دیتی ہیں، پھر کس طرح فلسطینی اس کانفرنس کو قبول کر سکتے ہیں۔ جب وہ ( فلسطینی ) اس کانفرنس کو نیرنگ و فریب سمجھتے ہیں تو دوسرے بھی فریب سمجھیں۔ یہ اقدامات درحقیقت صیہونیوں کو نجات دلانے کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے اقدامات ہیں۔ وہ صیہونی کہ جن کی حکومت اور فوج نے گذشتہ سال لبنان کی بہادر اور فداکار تنظیم حزب اللہ سے شکست کا تلخ مزہ چکھا اور اسی طرح فلسطین کی حکومت _ حماس کی حکومت _ کی انکار کی بلند دیوار کا انہیں سامنا ہوا ہے۔ وہ اس ذلت و رسوائی داغ اپنی پیشانی سے صاف کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت وہ فلسطینی کے مقابلے میں فلسطینی کو کھڑا کررہے ہیں۔ میں اگر فلسطینی بھائیوں کو پیغام دینا چاہوں تو ایک جملہ کہوں گا :بھائیو! ایک دوسرے کے مقابل نہ آؤ۔ دشمن آپ کے گھر میں ہے۔ دشمن آپ کے درمیان فتنہ انگيزی کر رہا ہے۔ فلسطینی عوام کو فلسطین بچانا ہوگا، اسلامی امہ کو بھی ان کی حمایت کرنا ہوگي۔ فلسطینی عوام، فلسطینی قوم کومتحد ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین ایک مسئلہ ہے۔ مسئلہ عراق عالم اسلام کا ایک اور مسئلہ ہے۔ ہمارا دل عراق کے لیے خون کے آنسو روتا ہے۔ عراقی قوم کے دشمنوں کی طرف سے تائید و حمایت یافتہ اس اندھی دہشت گردی نے عراقی قوم کی حالت تباہ کر کے رکھ دی ہے۔یہاں بھی پہلی غلطی غاصبوں کی ہے۔ وہ خود امن و امان قائم نہیں کرتے؛ یا نہیں کر سکتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔ عراقی عوامی حکومت کو بھی یہ موقع نہیں دیتے کہ سکیورٹی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لے اور وہ خود کام کرے۔ وہ (غاصب) قصوروار ہیں۔آج عراق میں جو بھی المیہ رونما ہوتا ہے _ انسانی المیہ،سماجی المیہ،سیاسی المیہ _ اس کے پہلے قصوروار اور ذمہ دار غاصبین ہیں؛ یعنی پہلے درجے میں امریکہ اور اس کے بعد اس کے وہ اتحادی ذمہ دار ہیں جو عراق پر فوجی قبضے میں شریک ہیں۔
پروردگارا ! اسلامی امہ کو دشمنوں کے شر سے نجات دے۔ پروردگارا ! اسلامی قوموں اور حکومتوں کو بیدار کر، انہیں طاقت و توانائي عطا فرما۔پروردگارا ! ہمیں اس چیز کی ہدایت و رہنمائی فرما جس میں تیری رضا ہے؛ ہمیں اسے انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! شہدائے اسلام، اسلامی جمہوریہ اور مسلط کردہ جنگ کے شہدا اور امام خمینی(رہ) کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا ! ہمارے حق میں حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ)کی دعا مستجاب فرما اور اس عید کے دن ہمارا سلام اس بزرگوار ( امام زمانہ ع ) کی خدمت میں پہنچا-
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا اعطیناک الکوثر۔فصل لربک وانحر۔ان شانئک ھو الابتر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ حضرات نے جو خیالات پیش کئے، اس پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں؛ ان افراد نے بھی جنہوں نے تنظیموں کی نمایندگی کی ہے اور اسی طرح ان لوگوں نے بھی جنہوں نے اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کیا ہے، بڑی کارآمد باتیں ہم تک پہنچائی ہی، ان میں بعض نکات بہت اہم ہیں۔ انشاءاللہ یہ نظریات اور خیالات عملی اقدامات کی بنیاد قرار پائیں گے۔ البتہ یہ بات بھی اپنے آپ میں بہت اہم دلچسپ ہے بات ہے کہ ہمارے نوجوان، ہمارے طلبہ اہم اور بنیادی مسائل کے بارے میں، چاہے ان کا تعلق یونیورسٹی سے ہو یا سیاسی و سماجی میدان سے، اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں،اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں، مدعا بیان کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے اہم اور دلچسپ ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اس دن سے ڈریے کہ جب یونیورسٹی میں ہمارے طلبہ اور نوجوانوں میں مسائل پر تبصرہ کرنے، سوال اٹھانے اور مطالبات سامنے رکھنے کا جذبہ اور حوصلہ نہ رہے۔ ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم، مختلف میدانوں اور شعبوں کے تعلق سے مطالبات پیش کرنے اور نظریات بیان کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ ہمارے ملک کے نوجوان اور خاص طور پر علم دوست افراد میں جرئت تنقید ضروری ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ بہت سے مطالبات پورے نہ کئے جا سکیں، کیونکہ قلیل مدت میں مطالبات کی تکمیل ظاہر ہے کہ مشکل کام ہے۔ لیکن انہیں مطالبات کے آئینے میں ایک روشن مستقبل کا نظارہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں کو اپنے مطالبات پیش کرنا چاہئے اور ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی احساس رہنا چاہئے کہ مطالبہ کتنا سودمند اور ثمربخش ثابت ہو سکتا ہے، ایسے مطالبات پیش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ مطالبہ کرنے والے کی بھی ذمہ داری ہے کہ صرف اسے پیش کر کے خاموش نہ بیٹھ جائے، نوجوان کی ذمہ داری صرف نعرہ لگانا اور آواز بلند کر دینا نہیں ہے بلکہ اسے چاہئے کہ ہدف تک رسائی کے لئے کوشش جاری رکھے۔ متعلقہ افراد سے رابطہ کرے اور ضرورت پڑے تو خود میدان عمل میں وارد ہو جائے۔یہ ہمارے نوجوانوں کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو مطالبات کےساتھ ہی ان ذمہ داریوں کا بھی پورا پورا احساس اور ادراک ہونا چاہئے۔
ایک بہت اہم مسئلہ، جس کی جانب ایک نوجوان نے اشارہ کیا، وہ قیاس آرائیاں ہیں جو عوام اور قائد انقلاب کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں۔
نشست میں کہی گئی اس بات کو معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سلسلے میں جو قیاس آرائیاں کی گئي ہیں اور جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں، درست نہیں ہیں۔میرا موقف وہی ہے جو منظر عام پر بیان کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بات کا منظر عام پر آنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے تو میں اسے برملا ذکر کرنے سے گریز کروں گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا ہے حقیقت اور سچائی کے خلاف کوئی بات کہوں۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ عوامی سطح پر ایک بات کہی جائے اور پھر خصوصی ملاقاتوں میں اس کی اصلاح کی جائے۔ ایسے بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں جنہیں منظر عام پر لانا حرام ہے۔ایسے مسائل کو موضوع بحث نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر ہم وہ ساری باتیں اور سارے مسائل منظر عام پر لائيں جو ہمارے علم میں ہیں تو ان مسائل سے آپ کو آگاہی تو ہو جائے گي لیکن ہمارے دشمن بھی ان سے باخبر ہو جائیں گے، لہذا ضروی ہے کہ بہت سے حساس مسائل کو پردہ راز میں ہی رہنے دیا جائے لیکن یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ حقیقت کے خلاف بات کی جائے۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ ہمارا موقف وہی ہے جو آپ ہماری زبان سے سن رہے ہیں، چاہے وہ نماز جمعہ میں ہو یا عمومی ملاقاتوں میں، موقف میں کوئي تبدیلی نہیں ہے ۔
ایک اور درخواست کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ منتخب طلبہ کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں انہوں نے اپنے بیان میں بڑے اچھے اور اہم نکات پر گفتگو کی۔ البتہ بعض نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنی بات پیش کی۔ میں تمام نکات نوٹ نہیں کر سکا۔میری آپ سے درخواست ہے کہ جو تجاویز آپ کے پیش نظر ہیں، واضح طور پر ایک کاغذ پر لکھیے، اس طرح آپ کے ذہن میں بھی ان کا صحیح خاکہ تیار ہو جائے گا اور میں بھی ان کا بغور جائزہ لے سکوں گا اور پھر ان تجاویز پر عملدرآمد کی کوشش کی جائے گی۔
طلبہ کے لیے میری نصیحت یہی ہے جو میں نے عرض کی یعنی خواہ سیاسی و سماجی مسائل ہوں، علمی مسائل یا یونیورسٹی کے امور ہوں، ان کے سلسلے میں اپنی تجاویز اور مطالبات ضرور پیش کیجیئے۔ ہاں ان تجاویز کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھ ضرور لیجئے۔ انقلاب کے اوائل سے اب تک، میرا یہی خیال رہا ہے کہ طالب علم کو افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے؛ میں کسی بھی جہت اور سمت میں افراط اور انتہا پسندی کا قائل نہیں ہوں۔ اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عقلی و منطقی نقطہ نظر سے مسائل کا جائزہ لیجئے اور یاد رکھیے کہ آپ کی خواہش اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بے اثر نہیں ہے۔ یہ خیال ذہن میں ہرگز نہ آئے کہ کیا فائدہ ہے ؟ نہیں بالکل فائدہ ہے۔ ابھی ایک عہدہ دار نے انصاف پسندی کا ذکر کیا، اگر ایسا ہوتا کہ انصاف پسندی کا نعرہ لگایا جاتا اور اس کا کوئی اثر نہ ہوتا، معاشرے میں کوئی بھی اسے لائق توجہ نہ سمجھتا تو آپ یقین رکھئے کہ ایک انصاف پسند حکومت اور انصاف پسندی کی ہمہ گير تحریک وجود میں نہ آ پاتی۔ لیکن وجود میں آئي آپ نے کر دکھایا؛ یہ آپ نوجوانوں کا کارنامہ تھا؛ انصاف پسندی کی تحریک کی حیثیت سے،انصاف پسندی کے مسئلے کو پیش کرنے کی حیثیت سے آپ کا موقف قابل ستائش ہے۔ میں اس وقت کسی خاص تنظیم کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوں ، اسے یونیورسٹی کے مؤمن نوجوانوں نے، فرض شناس نوجوانوں نے، ذمہ دار نوجوانوں نے پیش کیا، اس کے بارے میں بات کی اور جب اس کو بار بار دہرایا گيا تو پھر یہ مسئلہ زباں زد خاص و عام ہو گيا۔ نتیجتا اس تحریک کے اثرات، عوامی رجحان،عوامی افکار و نظریات، نعروں اور انتخابات میں صاف طور پر نظر آئے۔ بنا بریں آپ ایک قدم آگے آئے۔
البتہ یونیورسٹی کے طلبہ دریا کے بہاؤ کی مانند ہیں یعنی آج آپ طالب علم ہیں، پانچ سال بعد آپ میں سے اکثر طالب علم نہیں ہوں گے۔ کہیں اور پہنچ چکے ہوں گے، جبکہ آپ کی پہلی جگہ پر نئے چہرے نظر آئیں گے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو دو انداز اور شکلوں میں ہمیشہ برقرار رہ سکتا ہے: ایک خود آپ کی شکل میں، یعنی جب آپ یونیورسٹی کے ماحول سے باہر نکلے تو یہ فراموش نہ کریں کہ طلبہ کی تنظیم میں،طلبہ کے ماحول میں،کلاس روم میں اور میٹنگوں میں آپ کن نظریات کے حامل تھے آپ کیا کہتے تھے، کیا چاہتے تھے آپ کے اہداف اور مقاصد کیا تھے؛ ان کو فراموش نہ کیجیے؛ ان کو محفوظ رکھیے۔ ہماری ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ لوگ چند دن ایک ماحول میں رہتے ہیں، اس کا رنگ اختیار کرتے ہیں لیکن اس ماحول سے جب دور ہوتے ہیں تو اس لوہے کی مانند ہو جاتے ہیں جسے بھٹی سے باہر لایا گيا ہو؛ جب تک وہ بھٹی میں تھا اس کا رنگ سرخ تھا جب باہر لایا گيا تو آہستہ آہستہ اس کا رنگ سیاہ ہونا شروع ہو گيا؛اس طرح نہیں ہونا چاہئے، اندر سے کندن بنیے۔ان افکار کو اپنے دل میں جگہ دیجیے۔
البتہ ضمنی پیرائے میں یہ کام کیجئے ۔اس کا راستہ بھی یہی ہے کہ اسے ایمان اور عقائد سے جوڑیں۔آپ اس فریضہ الہی سے کبھی بھی خود کو الگ نہ سمجھئے۔ جو لوگ جدوجہد کرنے میں کامیاب رہے، جو ڈٹے رہے، جو مشکلات کے مقابل سینہ سپر رہے، انہوں نے اس دستورالعمل، اس نسخے سے فائدہ اٹھایا ہے ورنہ آج آپ طالب علم ہیں، یونیورسٹی کا ماحول ہے، نوجوانی کا زمانہ ہے جوش و جذبہ ہے، انصاف پسندی اور اعتدال پسندی کی باتیں ہیں، امنگیں ہیں، آرزوؤں ہیں۔ ایک وقت وہ آئے گا کہ آپ اس ماحول سے نکل جائیں گے پھر یا تو یہ سب کچھ آپ یکسر فراموش کر دیں گے یا وہ بتدریج آپے کے صفحہ ذہن سے محو ہوتی جائیں گي تو یہ درست نہیں ہے۔یہ تسلسل ٹوٹنا نہیں چاہئے۔
اس تسلسل کے جاری رہنے کی دوسری شکل، یونیورسٹی کی داخلی فضا ہے۔ آج آپ طالب علم ہیں اورآپ کے جذبات و محرکات ہیں؛ یہ بہت اچھی بات ہے، کل پانچ سال بعد،چھ سال بعد تو آپ یہاں نہیں ہوں گے، نئےافراد آ چکے ہوں گے۔ وہ کس کے وارث ہیں؟ دوسرے الفاظ میں، انہیں کس فضا میں سانس لینا ہے اور کس ماحول کو برقرار رکھنا ہے؟ یقینی طور پر اسی ماحول کو بر قرار رکھنا ہے جس کی ذمہ داری آج آپ کے کاندھوں پر ہے، ایک چیز جو میں نے یہاں نوٹ کی ہے جو میں آپ دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں،یہ ہے کہ ہم نے علمی میدان میں دانشورں کی تربیت کی بات کی ہے،میں اب سیاسی دانشوروں کی تربیت پر بھی تاکید کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور تشہیراتی مہم میں سیاسی اور سماجی دانشوروں کو سامنے لایا جائے، لیکن دانشوروں کی تربیت کا ایک حصہ آپ سے بھی تعلق رکھتا ہے؛ یعنی طلبہ تنظیموں کے ماحول میں سیاسی دانشور تربیت پائیں؛ فضا تیار کیجئے۔یہ کام تو یونیورسٹی سے باہر کا نہیں ہے؛ خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ فکروشعور سے کام لیتے ہوئے آپ اپنے بعد آنے والے طلبہ کے لیے بحث و استدلال اور ذہنی رشد کے لئے ماحول کو سازگار بنائیے۔ امید اور حوصلے بڑھائیے، سیاسی شعور کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے منصوبہ بندی کیجیے۔ آپ اطمینان رکھئے کہ آئندہ آنے والے طلبہ آپ کی ہی مانند بلند مقاصد کی سمت قدم بڑھائیں گے۔البتہ بعض باتوں سے ہوشیار بھی رہنا چاہیے؛ گمراہی کو دیکھنا اور پہچاننا چاہیے۔
ایک اور نکتہ جو طلبہ کے مطالبے کے ذیل میں عرض کرنا چاہوں گا، یہ ہے کہ مطالبہ کرنا دشمنی پر اتر آنے سے مختلف ہے۔ میں نے کہا ہے کہ حکام سے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ ہو اور میں اب بھی اس پر تاکید کرتا ہوں؛ تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تنقید نہ کی جائے، مطالبہ نہ کیا جائے؛ قیادت کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ہمارا عزیز بھائی کہتا ہے کہ ضد ولایت فقیہ(ولایت فقیہ کے مخالف) کی وضاحت کیجئے۔تو ٹھیک ہے، آپ کو معلوم ہے کہ ضد کے معنی کیا ہیں۔ضدیت یعنی پنجہ لڑانا، دشمنی کرنا؛ اس کے معنی اعتقاد نہ ہونا نہیں ہے۔اگر میرا آپ پر عقیدہ نہ ہو تو میں آپ کا مخالف (ضد) نہیں ہوں؛ ممکن ہے کوئی کسی پر اعتقاد نہ رکھتا ہو۔البتہ یہ ضد ولایت فقیہ کا جملہ ،آسمان سے اتری ہوئی آیت نہیں ہے کہ ہم کہیں باریکی کے ساتھ اس لفظ کی حدود معین کی جانی چاہییں؛ بہرحال معاشرے میں رائج ایک بات ہے۔دو افراد ہیں، ایک دوسرے کے مخلص ہیں،ایک ہی کلاس میں ہیں، آپس میں مباحثہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتوں کو رد یا قبول کرتے ہیں؛ یہ اس کی بات کو رد کرتا ہے،وہ اس کی بات کو رد کرتا ہے۔بات کو مسترد کرنا،مخالفت دشمنی کے معنی میں نہیں ہے؛ ان مفاہیم کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہیے۔ بنا بریں ہم کسی بھی طرح تنقید کو مخالفت اور دشمنی نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم چونکہ ملکی حکام اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو اس حمایت اور طرفداری کا مطلب یہ ہے کہ تنقید نہیں کرنی چاہیے، یا میں خود تنقید نہیں کروں گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، ممکن ہے بعض مواقع پر میں بھی تنقید کروں۔لیکن ایک ایسی حکومت کی جو واقعا عوام کی خدمت گذار ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے ؛ انصاف کی بات تو یہی ہے کہ جو کام ہو رہے ہیں وہ آپ دیکھ رہے ہیں؛ نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ان کاموں کو نظر انداز کرنا نا انصافی ہوگی۔
بہرحال مجھے طلبہ کے ماحول کے سلسلے میں آپ سے جو امید ہے وہ یہ ہے۔ واقعا ایسا ہی ہو گا ۔آپ اطمینان رکھیے۔ اس لیے کہ انسان کچھ چیزوں کا صحیح اندازہ کرنے پر قادر ہے کیونکہ جہاں ایمان ہو گا اس کے ساتھ جدوجہد بھی ہو گی اور اس کانتیجہ بھی واضح ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کامیابی ملنے والی ہے۔
جس چیز کی ہمیں طلبہ سے توقع ہے، وہ طلبہ کے ماحول میں علمی ترقی و پیشرفت،سیاسی شعور میں اضافہ، دینی نظریات اور ایمان کی گہرائی، معرفت میں اضافہ، روشن خیالی، علم کے میدان میں بھی،سیاست کے میدان میں بھی اور دینی معرفت کے میدان میں بھی نئی منزلیں طے کرنا ہے۔ البتہ یہ کام ہر شعبے کے استاد اور رہنما کی مدد سے ہونا چاہئے۔ ہر علمی کام کے لیے آپ کا ایک استاد ہونا چاہیے۔ دینی معرفت کے کام کے لیے بھی آپ کا کوئی استاد ہونا چاہیے، سیاسی شعور کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ کام آپ کریں گے؛ استاد رہنمائی کرے گا۔ تمام شعبوں اور میدانوں کے سلسلے میں ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے طلبہ کے ماحول کو حقیقی اور قابل ذکر ترقی و پیشرفت کی ضرورت ہے اور یہ ترقی و پیشرفت انشاءاللہ ہوگی۔
پروردگارا ! میں ان نوجوانوں کو اپنے ان فرزندوں کو، تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پروردگارا ! ان سب کو اپنی مدد، ہدایت اور لطف و کرم کے سائے میں رکھ ۔ پروردگارا ! ہماری نوجوان نسل کو اس ملک کے مستقبل کا معمار قرار دے۔ پروردگارا ! ان سب کو،ان کے اقدامات کو اور ان کی پالیسیوں کو اپنی رضا کے مطابق بنا دے۔ پروردگارا ! ہمارے نوجوانوں کو ایسا علم اور مفید علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما کے ہمراہ عمل بھی ہو۔ پروردگارا ! ولی عصر(ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما؛ ہمارے عزیز شہداء کی ارواح طیبہ اور امام(خمینی) کی روح مطہر کو ہم سے راضی و خوشنود فرما ؛ ایران اور اسلامی جمہوریہ کو سربلند و سرافراز فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جو دوست یہاں تشریف لائے اور مختلف موضوعات پر انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا،ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جناب ڈاکٹر لاریجانی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس نشست کو اچھے طریقے سے چلایا۔
اگرچہ میں نے بار بار اس نشست میں گذ شتہ برسوں میں اور اس سے ملتی جلتی نشستوں میں کہا ہے کہ ہماری اس سالانہ نشست میں ایک علامتی پہلو ہے؛ یعنی ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملاقات ملک کے اساتذہ، یونیورسٹی سے منسلک افراد کے حکومتی احترام کا مظہر ہو؛لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ نشست نمائشی پہلو کی حامل ہے بلکہ اس کے برعکس توقع اور امید یہ ہے کہ اس نشست میں اٹھائے جانے والے موضوعات، حکومت کے پالیسی سازوں، وزرا،مختلف حکام اور خود ہماری کہ جو یہاں پر موجود ہیں،اس چیز کی طرف رہنمائی کریں گے جو اس سلسلے میں ترقی و پیشرفت اور علمی کام کے شایان شان ہے۔یہ جو میں نے عرض کیا کہ میں صرف آپ کی گفتگو سنوں گا ،اس جہت سے ہے۔فرض یہ ہے کہ جو قابل قدر اساتذہ یہاں بات کرنا چاہتے ہیں،انہوں نے لیا ہے اور ملک میں علم اور یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی اہم تجویز آئی ہے وہ اسے یہاں بیان کریں؛ہمیں اس نشست سے یہ توقع ہے۔البتہ اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔
ہم کیوں یونیورسٹی اور علم و تحقیق سے متعلق مسائل کے بارے میں یہ اہتمام کر رہے ہیں؟کیونکہ ہم پیچھے ہیں؛ہم کو پیچھے رکھا گيا ہے اور ہماری عزت اور ہمارا قومی و اسلامی تشخص اس سے وابستہ ہے کہ ہم اس شعبے میں ٹھوس کام کریں۔یہ اس کی وجہ ہے۔ہم مختلف ہیں فلاں ملک سے کہ فرض کیجیے جو ایک قلیل مدت تمدن کا حامل ہے۔ بعض ملک ہیں جو ایک سو سال بھی نہیں ہوا کہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے وجود میں آئے ہیں؛اس جغرافیائی تشخص کا گزشتہ سو سال میں اس معنی میں اور اس نام کے ساتھ کوئی وجود نہیں تھا اور ہمارے ہی علاقے میں بعض قومیں ایسی بھی ہیں کہ جن کا تاریخ میں کوئی قابل ذکر ماضی نہیں ہے۔دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ہیں؛لاطینی امریکہ میں یورپ میں اور دیگر مختلف جگہوں پر ایسے ممالک موجود ہیں۔لیکن ہماری قوم اور ہمارا ملک ایک قدیم ملک ہے؛ہماری قدیم تاریخ ہے؛ہمارا ماضی ہے؛ہم تازہ وجود میں نہیں آئے ہیں؛ہم اپنے ماضی سے بھی رہنمائی اور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں رہنمائی اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے تھا۔آپ اسلام کے بعد پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی ہجری تک ملک کی علمی ترقی کے عمل پر نظر ڈالیے،اگر ہم اسی رفتار سے ترقی کرتے اور آگے بڑھتے تو آج چوٹی پر پہنچے ہوتے۔ہم نے اس رفتار سے ترقی نہیں کی ہے؛کیوں نہیں کی ہے؟اس کا جائزہ لینے اور تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے؛ (شاہی) حکومتیں نالائق اور نااہل تھیں،ہمت کم تھی،اس کے بعد گزشتہ دو تین سو سال کے عرصے کے دوران غیر ملکی عوامل بھی دخیل رہے ہیں اور بالآخر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس رفتار سے حرکت اور ترقی نہیں کی ہے؛بلکہ پستی کی طرف ہی گئے ہیں۔
اب ہم ازالہ اور تلافی کرنا چاہتے ہیں،اب حکومت، ایک لائق اور اہل حکومت ہے؛قوم ایک بیدار قوم ہے؛دانشور ایسے ہیں جو مرد میدان ہیں؛اب ہم ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک باعث افتخار سند کے طور پر جیب میں ڈالتے ہیں اور کبھی اس کے بارے میں صرف باتیں کرتے ہیں،ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک دستورالعمل کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے ہر جزء پر عمل درآمد کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔اگر ہم دوسروں کے لیے نمونہ عمل بننا چاہتے ہیں تو ہمیں علاقے میں علمی مرکز اور محور بننا ہوگا،اس کا ایک راستہ ہے۔اس کا راستہ مستقبل کے وژن میں ہمیں معین نہیں کرنا چاہیے،عمل درآمد کے شعبے کے ذمہ داروں اور حکام کو اسے واضح اور مشخص کرنا چاہیے؛ہمارا اصرار یہ ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام علم و تحقیق کے میدان میں صحیح،اچھے اور کامل طریقے سے انجام پائے۔اس اہتمام و انصرام کی وجہ یہ ہے۔
اس سلسلے میں البتہ بہت سی باتیں اور نصیحتیں ہیں کہ جنہیں ہم عام طور پر ان نشستوں میں عرض کرتے ہیں،آج بھی میں چند باتیں عرض کروں گا:
ایک بات جامع علمی منصوبے کے بارے میں ہے۔میں نے یہاں نوٹ کیا تھا کہ اسے ذکر کروں،خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ تین چار افراد نے اپنی تقریروں میں جامع علمی منصوبے کی طرف اشارہ کیا ہے، جناب ڈاکٹر لاریجانی نے بھی اس سلسلے میں بات کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جامع علمی منصوبہ تیار کر کے پیش کیا جائے اور یہ علمی منصوبہ بندی کے لیے ایک دستورالعمل قرار پائے۔یہ ایک اچھی خوش خبری ہے؛لیکن مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع نہیں تھی ۔میں یہ جانتا ہوں کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے؛یعنی کچھ کمیٹیوں میں اس مسئلے پر کام ہو رہا ہے؛لیکن جس کام کی توقع ہے اور جو ہماری نظر میں انجام پانا چاہیے،وہ یہ نہیں ہے کہ اس کام میں تاخیر ہو اور زیادہ عرصہ لگے؛ایک دو سال ہم بیٹھیں اور بالآخر ایک جامع علمی منصوبہ پیش کریں؛نہیں،ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کی مدد سے دانشور،محققین اور اہم افراد بیٹھیں اور اسے پورا کریں اور ایک ایسی پختہ اور کامل چیز پیش کریں کہ جس کی بنیاد پر یونیورسٹیوں اور ملک کے مستقبل کے لیے علمی منصوبہ بندی کی جا سکے۔میں یہیں پر محترم وزراء اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے محترم عہدیداروں کو کہ جو یہاں تشریف فرما ہیں،ہدایت کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔ہم اگر چاہتے ہیں کہ مستقبل کے وژن پر عمل درآمد ہو اور وہ علمی مقام و مرتبہ جو ملک کے لیے پیش نظر رکھا گيا ہے،وجود میں آئے تو ان کاموں کو انجام دینا ناگزیر ہے کہ جن میں سے اہم ترین ایک جامع علمی منصوبہ تیار کرنا ہے۔ یعنی ان اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ایک اہم قدم اور باب ہے کہ جن کا ذکر کیا گيا اور بحمداللہ علمی ماحول میں یہ ہر ایک کی زبان پر ہے۔
دوسری بات جو محترم اساتذہ سے متعلق ہے،یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک کام یہ ہونا چاہیے کو شاگردوں کی تربیت کریں۔ استاد کی قدروقیمت اور استاد کا اعتبار اس کے شاگردوں سے ہے۔ہمارے اعلی دینی مراکز(حوزہ ہائے علمیہ)میں بھی ایسا ہی ہے۔اس استاد،اس فقیہ یا اصولی یا حکیم کی لوگوں میں زیادہ قدر ہے کہ جس کے وجودی آثار اس کے ممتاز شاگردوں میں نمایاں ہوں۔شاگردوں کی تربیت کیجیے۔یہ افراد جو آپ کی کلاسوں میں آتے ہیں _ چاہے وہ گریجویشن کی کلاسیں ہوں یا اس کے بعد اعلی تعلیم کی _ وہ آپ کے سامنے بیٹھتے ہیں اور آپ استاد کی حیثیت سے ان کے سامنے آتے ہیں،انہیں صرف ایک تقریر سننے والا نہیں سمجھنا چاہیے؛نہیں،آپ جیسا انہیں چاہتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائیے،ان کے ساتھ میل جول رکھیے۔البتہ استعداد اور صلاحیت برابر نہیں ہے،جوش و ولولہ ایک جیسا نہیں ہے،مختلف قسم کی فضا اور ماحول یکساں نہیں ہے؛لیکن اساتذہ کے لیے یہ ہدف و مقصد میری نظر میں ایک سنجیدہ ہدف ہونا چاہیے،دیکھیے کہ آپ نے کتنے شاگردوں کی تربیت کی ہے۔شاگرد صرف وہی نہیں ہے کہ جو آپ کی کلاس میں حاضر ہوتا ہے؛وہ بھی ہے جسے آپ بناتے ہیں اور اسے ایک کارآمد اور علمی فرد کی حیثیت سے علمی دنیا کے حوالے کرتے ہیں۔
یہیں پر میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی حاضری اور موجودگي کے مسئلے کی طرف اشارہ کروں،جو یونیورسٹی کے قوانین کا حصہ بن گيا ہے،کہ اساتذہ کو ہفتے میں معین گھنٹوں میں حتما یونیورسٹی میں موجود ہونا چاہیے۔یہ بہت اہم چیز ہے؛اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ایک بات جو میں نے گزشتہ تین چار برسوں کے دوران بار بار کہی ہے اور اتنا زیادہ دہرایا ہے کہ اسے دوبارہ کہنا نہیں چاہتا تھا،طلبہ کے ساتھ استاد کی ہمراہی ہے؛سوال کا جواب دینا۔یعنی استاد اور شاگرد کا تعلق اور رابطہ صرف کلاس تک ہی نہیں ہونا چاہیے،طالب علم کے پاس موقع ہونا چاہیے کہ وہ استاد سے رجوع کرے اور اس سے معلوم کرے ،اس سے تشریح پوچھے،اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرے؛بلکہ بعض مواقع پر استاد شاگرد کو اپنے کمرے میں بلائے اور ایک اضافی اور تکمیلی بات اسے سمجھائے یا اس کے ذمہ کوئی کام لگائے۔اسے کوئی علمی اور تحقیقی کام دے۔یہ سب کچھ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی موجودگي پر منحصر ہے۔ایک دن میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس اساتذہ کم ہیں،آج بحمداللہ اساتذہ کی ایک اچھی اور قابل ذکر تعداد موجود ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اسے اہمیت دینی چاہیے۔کلاس روم میں طالب علم کی تربیت _ جو میری نظر میں شاگرد اور دانشور کی تربیت ہے _ اس کا ایک حصہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی انہی چند گھنٹوں _ قوانین میں چالیس گھنٹے ہیں کی موجودگي پر منحصر ہے یعنی اساتذہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اسے اہمیت دینی چاہیے۔
ایک اور مسئلہ کہ البتہ یہ مسئلہ تکراری ہے جو میں عرض کر رہا ہوں، لیکن اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ دوبارہ عرض کر رہا ہوں _ تحقیق کا مسئلہ ہے۔ہم نے کابینہ کے اجلاس میں بھی سرکاری عہدیداروں کو ہدایت کی ہے اور کہا ہے، خود صدر جیسے حکام کے ساتھ خصوصی اجلاسوں میں بھی کہا ہے؛لیکن مسئلے کا ایک حصہ خود یونیورسٹیوں سے متعلق ہے کہ تحقیق کے بجٹ کو صحیح طریقے سے استعمال کریں؛خود اس کے مقام پر صرف کریں؛کیونکہ تحقیق تعلیم حاصل کرنے کا مآخذ و منبع ہے۔ہم اگر تحقیق کو سنجیدگي سے نہ لیں،تو ہمیں پھر برسوں غیرملکی ذرائع کی طرف دیکھنا پڑے گا اور انتظار کرنا پڑے گا کہ دنیا کے کسی گوشے میں کوئی تحقیق کرے اور ہم اس کی تحقیق سے یا اس کی کتابوں سے استفادہ کریں اور یہاں تعلیم دیں۔یہ نہیں ہو گا؛یہ وابستگي ہے؛یہ وہی ترجمہ کا کام اور کسی ملک اور یونیورسٹیوں کے لیے علمی شخصیت کا آزاد و خودمختار نہ ہونا ہے۔کسی ملک کی یونیورسٹی،کسی ملک کا علمی ماحول دنیا کے ساتھ اپنے علمی تعلقات قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے علم حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم ( کسی اور کا ) شاگرد بننے سے شرم محسوس نہیں کرتے؛استاد مل جائے،ہم اس کی شاگردی اختیار کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہر مقام پر شاگرد ہی رہیں؛یہ نہیں ہو گا۔ایک علمی حلقے کے لیے یہ کمی اور نقصان کا باعث ہے کہ وہ تحقیق میں کہ جو علمی رشدوترقی کا مآخذ اور ذریعہ ہے،کمزور ہو؛اسے علمی لحاظ سے خود پر بھروسہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔البتہ دوسروں سے بھی استفادہ کرے،دنیا سے بھی تبادلہ کرے،اس وقت اور اس صورت میں دنیا میں علمی تبادلوں میں اپنا مناسب مقام پیدا کرے گا؛جب وہ اپنے علمی کام اور علم و دانش پر بھروسہ کرتا ہے۔یہ دنیا اور علمی تبادلوں میں اپنا اثر رکھتی ہے۔یہ ہے تحقیق کے بارے میں ہماری بار بار کی تاکید۔۔۔
وہ افراد جو یونیورسٹیوں میں علمائے دین کی حیثیت سے اور(میرے) نمائندہ ادارے کے دفتر کے عنوان کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں،انہیں خود کو یونیورسٹی میں دینی ارتقاء کا اصل ذمہ دار سمجھنا چاہیے ہم نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو ہمیشہ ہدایت کی ہے کہ ان کے کاندھوں پر یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے ماحول کو دینی کرنے کے سلسلے میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛یہ اپنی جگہ پر محفوظ،لیکن اگر تمام ضروری ابتدائی کام اور اقدامات انجام پائیں لیکن وہ عالم دین جو یونیورسٹی میں ( بحیثیت ہمارے نمائندے کے ) تعینات ہے، طلبہ کی نظر میں ایک گہری،بااستدلال،لائق تحسین اور دوسروں کو قائل کرنے والی دینی فکروسوچ کا منشا،منبع اور مرکز نہ ہو تو وہ تمام کام اور اقدامات بے فائدہ ہوں گے۔آپ کو یونیورسٹی کے ماحول میں مسلسل نئی اور مستدل دینی فکر پیش کرنی چاہیے اور طلبہ کی دینی سوچ کو بلند کرنا چاہیے۔ صرف متدین مذہبی اور حزب اللہی طلبہ کو ہی اپنے مخاطبین نہ سمجھیے؛البتہ وہ تو ہیں ہی۔آپ کے مخاطبین پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے تمام طلبہ ہیں؛حتی کہ وہ بھی جو دل میں دین کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں،وہ بھی آپ کے مخاطب ہیں؛ان کو بھی اپنی طرف کھینچیے اور قوی منطق،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا جا سکتا ہے،عناد و دشمنی کو حتی کم کیا جا سکتا ہے یا بہت سے مقامات پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہی موضوع جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، کولمبیا یونیورسٹی کا واقعہ ،ایک اچھی مثال ہے۔انصافا اس قوی منطق،نفس پر تسلط یعنی اچھے جذبے،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد نے اپنا کام کر دکھایا۔البتہ ظاہر ہے کہ ابتدائی کام کیے گئے تھے؛اس تقریب کو براہ راست نشر کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کے بیس سے زائد ٹی وی چینلوں کو بلایا گيا تھا،جو کام انجام دیا گیا اور اس یونیورسٹی کے پروفیسر نے جو افسوسناک رویہ اختیار کیا کہ حقا اور انصافا نامناسب رویہ تھا اور یونیورسٹی کی ایک شخصیت کا رویہ نہیں تھا؛بلکہ ایک نفیس انسان کا رویہ نہیں تھا۔بنا برایں واضح تھا کہ انہوں نے ایسے کام انجام دیے تھے تاکہ مقابل (صدر احمدی نژاد ) کو غصہ دلایاجائے یا شرمندہ کیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے ایک ثبوت اور دستاویز کے طور پر سیاسی و تشہیراتی شوروغل میں اپنے ہاتھ میں رکھیں؛لیکن خداوند متعال نے اس کے برخلاف کیا اور جیسا وہ چاہتے تھے بحمداللہ اس کے بالکل برعکس ہوا اور آپ نے دیکھا کہ انہوں نے تائید و تصدیق بھی کی۔میرا اعتقاد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ماحول میں یہ مسئلہ اتنی جلدی ختم نہیں ہو گا،ایک سوال کے طور پر،ایک مسئلے کے عنوان سے اور ایک بات کی حیثیت سے کہ مسئلہ کیا تھا،جاری رہے گا۔
اسلامی جمہوریہ کی منطق وہاں بیان کی گئی؛دین کی منطق بیان کی گئی؛علم،علم کے نور ہونے اور علم کے نورافگن کے ، خدا کے ہاتھ میں ہونے کے بارے میں اسلام اور دین کی نظر کے موضوع پر بات کی گئی۔ کہ یہ اچھی بحثیں ہیں _ اچھی بحث کی گئی۔وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ فرنگی(یورپی،امریکی) ماحول میں جب وہ جاتے ہیں تو وہ خود انہی کی باتوں کو جو گزشتہ سو دو سو سال سے کی جا رہی ہیں،تکرار کریں اور اپنے آپ سے کہیں کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی اسلام کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے۔
آج حقا اور انصافا فکروسوچ کی دنیا میں _ جو لوگ فکروسوچ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہمیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے _ ایک خلا اور ایک سوال مغربی دنیا میں موجود ہے؛اس خلا کو لبرل ڈیموکریسی کے نظریات پُر نہیں کر سکتے،جس طرح سوشلزم پر نہیں کر سکتا۔اس خلا کو ایک انسانی اور معنوی منطق پر کر سکتی ہے اور یہ اسلام کے پاس ہے۔ڈاکٹر زریاب مرحوم سے _ جنہوں نے یونیورسٹی کی اعلی تعلیم بھی حاصل کی تھی،اورایک اچھے دینی طالب علم بھی تھے انہوں نے بہترین دینی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی علوم سے آشنا تھے اور امام(خمینی) کے شاگرد تھے _ میرے ایک دوست نقل کر رہے تھے _ میں نے خود ان سے نہیں سنا _ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ ایک مطالعاتی دورے پر یورپ گئے تھے،جب وہ واپس پلٹے تو انہوں نے کہا کہ آج جو چیز میں نے یورپ کی یونیورسٹیوں کے علمی ماحول میں مشاہدہ کی ہے،اس کو ملا صدرا اور شیخ انصاری کی ضرورت ہے۔شیخ انصاری کا کام قانون اور فقہ کے موضوع پر ہے اور ملا صدرا نے حکمت الہی میں کام کیا ہے۔وہ(ڈاکٹر زریاب)کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ملا صدرا اور شیخ انصاری کی تعلیمات کے پیاسے ہیں۔یہ خیال ایک مغرب شناس اور کئی یورپی زبانیں جاننے والے استاد کا ہے کہ جس نے برسوں وہاں زندگي گزاری اور علم حاصل کیا تھا اور اسلامی علوم سے بھی آشنا تھا۔یہ ان کا خیال ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔
ہمیں خود اپنے اندر اور اپنی یونیورسٹیوں میں اس قوی منطق کی ضرورت ہے۔یونیورسٹی کی زبان اور طلبہ کی زبان کے ساتھ اس منطق کو فروغ پانا چاہیے۔یہاں بعض اساتذہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہمارے عزیز اساتذہ کو بھی ان کی ضرورت ہے۔اساتذہ بھی خود کو دینی تعلیمات و معارف سے آشنائی سے بے نیاز نہ سمجھیں۔
اسلامی موضوعات پر کتابیں لکھنے والے ایک محقق کہ جن کی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتی ہیں اور یورپ اور دیگر علاقوں میں ان کی کتابیں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ہمیں اس کی اطلاع ہے _ میں ان کا نام لینا نہیں چاہتا _ مجھے بتا رہے تھے کہ جب میں خلیج فارس کے ممالک سمیت عرب ملکوں میں جاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دانشور اور یونیورسٹی کے اساتذہ ہمارے دانشوروں اور اساتذہ کے مقابلے میں قرآن و حدیث سے زیادہ آشنا ہیں۔انہوں نے یہ بات تقریبا دس سال قبل مجھ سے کہی تھی۔البتہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی زبان ان کی زبان ہے؛یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے ذہن میں سعدی ، فردوسی یا حافظ (شیرازی) کی ضرب المثل ہے؛ اس لیے کہ آپ نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں اور آپ کی زبان بھی وہی ہے،آپ کے ذہن میں باقی رہ گئی،اب آپ دیکھتے ہیں کہ جو مقررین حضرات آتے ہیں ان میں سے بعض شعر و ادب سے شروع کرتے ہیں۔ان کی زبان اور قرآن کی زبان چونکہ ایک ہے _ ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن کی زبان خود ان کی زبان ہے _ اس زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں؛اس لیے وہ قرآنی تعلیمات و معارف سے آشنا ہیں۔ان کے سیاستدانوں کو بھی ہم نے دیکھا ہے،ایسے ہی ہیں؛ ان کے سیاستدان بھی آتے ہیں_ تو اب اگرچہ وہ فاسق و فاجر اور معنویات سے دور افراد قرآن کی بعض آیات اور دین اور دینی کتابوں کے بارے میں بعض باتیں جانتے ہیں اور ان کے ذہن میں ہیں۔یہ کمی ہے،ہمیں اس کو دور اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔اب اس کے بنیادی اور اصولی ازالہ کے لیے البتہ منصوبہ بندی ضروری ہے؛لیکن جو مقدار اساتذہ کے لیے فوری طور پر ضروری ہے _ کہ جنہوں نے ایک عمر گزاری ہے اور زحمتیں کی ہیں _ یہ ہے کہ وہ خود کو اسلامی مسائل اور اسلامی تعلیمات و معارف سے آشنا کریں۔واقعا اس کام کے لیے منصوبہ بندی کریں؛خود اساتذہ بھی اور یونیورسٹی سے منسلک افراد بھی منصوبہ بندی کریں۔لیکن اصل مخاطب آپ طالب علم ہیں۔
بہرحال یونیورسٹیوں میں دینی فکر و سوچ کے ارتقاء کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگي سے لینا چاہیے اور ہوشیار رہیے کہ ہمارے طلبہ اور یونیورسٹی کے روشن خیال افراد کے لیے فکری خلا پیدا نہ ہو۔ ہمارے پاس کہنے اور قائل کرنے والی بہت سی باتیں ہیں۔روشن خیالی کے معیارات سے مطابقت رکھنے والی نئی اور قوی باتوں سے تبلیغ کو وسیع کرنا چاہیے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس دینی روشن خیالی ہے یا نہیں ہے؛میں ان بحثوں سے بیگانہ اور بیزار ہوں۔دینی مسائل اور اسلامی نظریاتی مسائل پر نئی اور تخلیقی نگاہ، بلاشبہ روشن خیالی کی نگاہ ہے اور اس کا مطلب بدعت کھڑی کرنا نہیں ہے۔انہی بنیادی تعلیمات اور اصولوں کو نئے زادیوں سے کہ، انسان وقت گزرنے کی برکت سے ان زاویوں کو پہچانتا ہے،سمجھنا اور بیان کرنا ہے اس سے ہمیں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
بہرحال امید ہے کہ خداوند متعال آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو کامیاب کرے گا اور آپ کی مدد کرے گا۔آج کی نشست بھی اچھی نشست تھی؛میرے لیے بھی مفید تھی۔بعض خصوصی باتوں کو میں نے نوٹ کیا ہے اور جو تفصیلات آپ نے بیان کی ہیں،انشاءاللہ اس کام کے ذمہ دار اداروں؛خود ہمارے دفتر میں اور ہمارے دفتر سے باہر ان کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سلسلے میں جو اقدام ہم سے مربوط ہے انشاءاللہ انجام دیا جائے گا،جو حکومتی عہدیداروں سے مربوط ہے _ وزرائے محترم خود یہاں تشریف فرما ہیں _ ان سے کہا جائے گا اور انشاءاللہ اس پر عمل درآمد ہو گا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
١٠رمضان المبارک١٤٢٨ ھ ق مطابق 31 شہریور سنہ 1386 ہجری شمسی برابر ٢٢ ستمبر ٢٠٠٧ عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي دامت برکاتہ نے ماہِ خدا اور ماہِ ذکر الٰہي کي مناسبت سے ملک کے اعلی عہديداروں اور حکام سے خطاب میں اہم سفارشات کیں۔ آپ نے حکام کے لئے اس مہینے سے کما حقہ بہرہ مند ہونے کو زیادہ ضروری قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پہلی رمضان المبارک سنہ چودہ سو اٹھائیس ہجری قمری، مطابق تیئیس شہریور سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی برابر چودہ ستمبر سنہ دو ہزار سات عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ پڑھائي۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ماہ رمضان المبارک کی خصوصیات کا ذکر کیا اور اسے قیمتی اور سنہری لمحات والا مہینہ قرار دیتے ہوئے اس سے بھرپور اور کما حقہ استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
طلب علم،تزکہ نفس اور ورزش و تفریح جوانوں کی ترقی کے اہم اسباب ہیں
آپ تمام لوگ ایک ایسے گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں جسکی سعی و کوشش یہ ہے کہ کوئی غرق نہ ہو لہذا کسی کو خطا کا مرتکب نہ ہونے دیجئے،کسی کو پیچھے نہ ہونے دیجئے،کج رفتاری و ہلاکت ہی بری چیز نہیں ہے بلکہ آگے نہ بڑھنا اور قافلے سے پیچھے رہ جانا بھی بہت بری شی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم نے بہت استفادہ کیا اور لطف اٹھایا آپ حقیقتا میرے بیٹوں کی طرح ہیں آپ عزيز نوجوانوں سے یہ باتیں سننا واقعا لذت بخش ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں یہ دیکھتا ہوں یہ خود آگاہی ملک کے نوجوانوں میں وسیع سطح پر روزبروز فروغ پارہی ہے۔یہ باتیں جو آپ نے یہاں بیان کی ہیں،ان میں سے ہر ایک _ چاہے وہ نیچرل سائنسز کے شعبے سے تعلق رکھتی ہو یا اخلاقی تعلیم و تربیت کے شعبے سے،چاہے اس کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہو یا دانشوروں اور باصلاحیت افراد کو وسائل و امکان فراہم کرنے سے _ یہ میری دیرینہ آرزوؤں میں شامل رہی ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران میں نے انہیں بیان کیا ہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کہا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ایک عوامی خواہش میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛اس قومی کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ نے جو باتیں کی ہیں ان میں سے اکثر کو قبول کرتا ہوں؛ان پر اعتقاد رکھتا ہوں اور جیسا کہ جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کیا ہے،یہ باتیں اور جو باتیں خود کانفرنس میں بیان کی گئی ہیں،نوٹ کر لی گئی ہیں۔ان میں سے ہر ایک پر توجہ دینی چاہیے اور عمل درآمد کرنا چاہیے اور ہو گا۔
ممکن ہے مختلف عوامل ان آرزوؤں تک پہنچنے میں ہمیں تھوڑی تاخیر میں ڈال دیں؛لیکن جان لیجیے اس علمی تحریک ،اس جذبے اور شکوفائی اور رشدونمو کو اب روکا نہیں جا سکتا اور یہ توفیق الہی سے آگے بڑھے گا،یہ کسی شخص پر قائم اور منحصر نہیں ہے۔یہ تحریک ملک میں شروع ہو چکی ہے؛ یہ آگاہی پیدا ہو چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اپنی منزل پر بھی پہنچے گی۔
ہماری آج کی نشست کے میری نظر میں دو اہداف و مقاصد ہیں؛ایک،قومی اور عام سطح پر علامتی ہدف و مقصد،کہ ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک میں _ ملک کی رائے عامہ کی سطح پر _ یہ خیال وجود میں آئے کہ ملک میں علمی تحریک سنجیدگی سے جاری ہے۔ملکی حکام اسے چاہتے ہیں اور سنجیدگی سے اس پر عمل کر رہے ہیں اور وہ علم،علم کے متلاشی اور علمی شخصیت کو اہمیت دیتے ہیں؛یہ آج یہاں پر ہمارے علامتی اجتماع اور علامتی اقدام کے معنی ہیں ۔
اور دوسرا مقصد ملکی حکام _ سرکاری حکام،مختلف شعبوں کے عہدیداروں _ کو ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ہے کہ وہ جان لیں اس خواہش پر عمل کرنا ہے۔بڑی پالیسیوں اور انتظامی پالیسیوں میں ملک کی علمی ترقی و پیشرفت کو قطعی اور حتمی پروگرام شمار کرنا چاہیے اور اسے مدنظر رکھنا چاہیے۔یہ دو ہدف و مقصد انشاءاللہ حاصل ہو گئے ہیں۔
میں صرف چند نکات بیان کروں گا؛بہت سی اچھی باتیں خود آپ لوگوں نے بیان کر دی ہیں۔ایک نکتہ جو نیا بھی نہیں ہے،یہ ہے کہ:ہمارے ملک کے لیے علمی تحریک ایک دوچندا ضرورت ہے؛ایک دوچندا اور حتمی ضرورت ہے۔ضرورت ہے؛کیوں؟اس لیے کہ علم ، کسی بھی قوم کی عزت و طاقت اور سلامتی کا باعث ہے _ اس کی میں مختصر وضاحت کروں گا _ دوچندا اور حتمی ہے؛ کیوں؟اس لیے کہ اس فریضہ پر بہترین زمانے کے سو سال کے دوران عمل نہیں ہوا؛قاجاری دور کے اواسط سے کہ جب دنیا کی علمی اور صنعتی تحریک نے عروج حاصل کیا اور پھلی پھولی تھی _ انیسویں صدی کے نصف دوم کے اواسط سے _ اور علم نے استعمار کی شکل میں خود کو دکھایا تھا؛مغرب علم کے وسیلے کو حاصل کر کے دنیا کو لوٹنے اور اس کے استثمار میں مشغول ہو گيا تھا۔اس دن سے لے کر _ تقریبا سو سال یا اس سے زیادہ _ کہ جو ہماری بیداری اور ہوشیاری کا دور تھا،اس عظیم فریضے،ملک کی علمی ترقی کے فریضے پر مختلف وجوہات کی بنا پر عمل درآمد رک گيا۔اس کی ایک بڑی وجہ تھی ( اور وہ یہ تھی )استبداد کی حاکمیت،طاغوتوں کی حاکمیت،کٹھ پتلی،کمزور اور ناتواں بادشاہوں کی حاکمیت، یہ پسماندگي ہمیں وراثت میں ملی ہے۔لہذا ہماری کوشش دوچند ہونی چاہیے۔پس،ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دوچندا اور حتمی ہے۔
اس بارے میں علم ضرورت ہے،آپ لوگ جانتے ہیں،لیکن مناسب ہے میں ایک بار پھر بیان کر دوں کہ حقیقتا جس ملک کا ہاتھ علم کی جانب سے تنگ ہے ،اسے عزت،آزادی و خودمختاری،تشخص،شخصیت،سلامتی اور رفاہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔انسانی زندگی کی فطرت اور زندگی کے امور اسی طرح ہیں۔علم عزت دیتا ہے۔نہج البلاغہ میں ایک جملہ ہے کہ جملہ بہت ہی بامعنی ہے۔امیرالمؤمنین فرماتے ہیں(( العلم سلطان )) علم اقتدار ہے۔سلطان یعنی اقتدار،قدرت۔(( العلم سلطان من وجدہ صال و من لم یجدہ صیل علیہ )) ؛ علم اقتدار ہے۔جو اس اقتدار کو حاصل کر لے ،وہ حکومت کر سکتا ہے؛ جو اس اقتدار کو حاصل نہ کرے (( صیل علیہ )) اس پر غلبہ ہو جائے گا؛ دوسرے اس پر تسلط اور غلبہ پا لیتے ہیں؛ اس پر حکم چلاتے ہیں۔اس حقیقت کو ایرانی قوم نے ایک طویل دور میں اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ہم پر انہوں ( اغیار) نے حکم چلایا؛زور و زبردستی سے کام لیا؛ہمارے وسائل و ذخائر کو لوٹا؛ہماری قوم کو رفاہ سے محروم کیا۔ہمارے ملک کی اس سو سالہ دور کی تلخ اور محنت بار تاریخ ہے کہ جس کے نتائج ہم اس وقت بھگت رہے ہیں؛ہم نے تحریک شروع کی؛انقلاب نے حالات کو تبدیل کر دیا؛ورق کو الٹ دیا۔آج ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے کہ جو سیاسی و بین الاقوامی (سطح پر ) عزت کے لحاظ سے دنیا میں کم نظیر ہے؛اس بات کو ہمارے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔قوم بیدار ہو گئی ہے۔بہادر ہے۔ملک تشخص اور شخصیت کا حامل ہے؛لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہم سے سو دو سو سال پہلے علم حاصل کیا اور ہم سے چند میدان آگے حرکت کی اور آگے نکل گئے اور علم کی برکتیں حاصل کر لیں،اب زور و زبردستی کی زبان بول رہے ہیں۔یہی ایٹمی توانائی،سائنسی طاقت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا مسئلہ،اس کا ایک نمونہ ہے۔(( آپ کے پاس نہیں ہونا چاہیے؛آپ پر اطمینان نہیں ہے ))؛ زور و زبردستی کی بات۔کون لوگ ہمیں کہتے ہیں:آپ پر اطمینان نہیں ہے؟ ! وہی لوگ جنہوں نے بیس سال کے دوران دو عالمی جنگیں شروع کیں اور پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں میں جلا دیا؛یورپیوں نے۔
جو ہم سے کہتے ہیں کہ آپ پر اطمینان نہیں ہے،کہ جہاں پر بھی ان کا ہاتھ پہنچا انہوں نے اپنی فوجیں داخل کر دیں۔اس کی زندہ مثال عراق ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں؛اس کا قدیمی تر اور دردناک تر نمونہ فلسطین ہے؛اس کا ایک اور نمونہ افغانستان ہے؛اس کا ایک اور نمونہ کوسوو ہے؛اس کا ایک اور نمونہ دنیا کے مختلف علاقے ہیں؛اس کا ایک نمونہ ہیروشیما ہے۔
یہ لوگ ( یورپی مغربی ممالک ) کہ صنعتی دور میں دنیا کی اہم فتنہ انگیزی ان کی طرف سے ہوئی ہے ملت ایران کو کہ اب تک ان برسوں کے دوران ایک بار بھی _ منجملہ انقلاب کے بعد کے دور میں _ اس ملک ( ایران ) کی طرف سے کسی ہمسایہ اور غیر ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا مشاہدہ نہیں کیا گيا _ ہم اسلامی جمہوریہ حکومت کی بات کر رہے ہیں؛اس سے پہلے سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ کے دور میں ہمارے ملک کی طرف سے ابتدائی طور پر گولہ بھی کسی ہمسائے پر فائر نہیں ہوا ہے؛اس بات کو سب قبول کرتے ہیں _ کہتے ہیں:ہمیں آپ پر اطمینان نہیں ہے ! یہ یعنی زور و زبردستی۔اب شمالی افریقہ کے کسی ملک کی مانند ملک ( لیبیا ) کو ایسے آنکھیں دکھاتے ہیں کہ اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،اپنے تمام وسائل اور سازوسامان اکٹھا کرتا ہے بحری جہاز پر لادتا ہے اور کہتا ہے لے جائیے !
ملت ایران ڈٹی ہے اور ڈٹی رہے گی؛نہ صرف اس معاملے میں بلکہ ہم بہت سے دیگر معاملوں میں اسی طرح ڈٹے ہیں؛اب یہ معاملہ عوامی سطح پر لے جایا گیا ہے۔اول انقلاب سے لے کر آج تک دسیوں معاملوں میں ہم نے زور و زبردستیوں،بدمعاشیوں،ہٹ دھرمیوں اور دھمکیوں کے مقابل استقامت کا مظاہرہ کیا؛وہ جان چکے ہیں کہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔لیکن یہ زور و زبردستی ہے۔یہ زور و زبردستی کس بنا پر ہے ؟ اس لیے کہ مقابل فریق علم سے مسلح ہے۔دیکھیے یہ آپ نوجوانوں کے لیے بہت عبرت انگیز ہے۔
امریکی حکومت کی مانند اخلاق سے عاری،معنویت سے عاری اور بین الاقوامی قوانین سے بے اعتنائی برتنے والی حکومت چونکہ علم کی حامل ہے اور اس نے علم کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا اور اپنی زندگي میں اس کا استعمال کیا،وہ اپنے آپ کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح زور و زبردستی کرے۔(( من وجد صال )) جس کے پاس علم ہو،دوسروں پر حکم چلا سکتا ہے _ (( و من لم یجدہ صیل علیہ )) _ آپ کے پاس نہ ہو تو آپ پر حکم چلاتے ہیں۔دیکھیے،ضرورت یہاں ہے۔
ہر انسان کا ضمیر،وہ انسان جو اپنی ذات،اپنے تشخص،اپنے خاندان،اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل،اپنی قومیت،ملک اور اپنے قومی و ملی تشخص میں دلچسپی رکھتا ہے،اس معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔میں جو برسوں سے علمی تحریک پر زور دے رہا ہوں،اصرار کر رہا ہوں اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا ہوں تو اس کی وجہ یہی ہے۔
علم، سائنسی ترقی و پیشرفت،ہمارف ملک کی اولین ضرورت ہے؛البتہ تمام علوم _ ابھی عرض کروں گا _ صرف تجربی علوم نہیں بلکہ تمام علوم کو اپنے مقام پر حاصل کرنا چاہیے اور ہمارا ملک ایسا کر سکتا ہے۔بنابریں پہلے نکتے کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ جو ملک کے دانشوروں کے عظیم ذخیرے کا ایک حصہ ہیں،قومی قوت و طاقت پیدا کرنے اور ملک کے مستقبل اور اس کی تعمیر میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارا ملک دانشوروں کی تربیت کی استعداد اور دانشوروں کا حامل ہونے کے لحاظ سے متوسط سطح سے بالاتر ہے۔حساب کتاب میں اس کا ذکر ہونا چاہیے۔میں نے ایک مرتبہ اسی مقام پر(حسینیہ میں) ملکی حکام کے اجتماع میں _ آج سے چند سال قبل _ کہا تھا ہمارے ملکی کی جغرافیائی سطح دنیا کی آباد جغرافیائی سطح کا تقریبا ایک فیصد ہے،ہمارے ملک کی آبادی بھی تقریبا سات کروڑ ہے کہ جو انسانی آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہے۔بنابریں متوسط طور پر دنیا کے زیرزمین ذخائر میں ہمارا حق ایک فیصد بنتا ہے؛لیکن ہمارے پاس اہم ترین زیرزمین ذخائر ایک فیصد سے زیادہ ہیں: دھاتیں،فولاد،تانبا،سیسہ اور بہت سی دیگر معدنیات؛یہ تمام دنیا کے کل ذخائر کا تین فیصد،دو فیصد اور چار فیصد ہمارے ملک میں ہیں۔تیل،اس کی صورت حال تو آپ کو پتہ ہی ہے اور ہمارے پاس مشرق وسطی اور خلیج فارس کے تیل سے مالامال علاقے میں تیل کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔گیس،ہمارے پاس دنیا میں گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔آپ دیکھیے ہماری قوم اور ہمارے ملک کے پاس انسانی آبادی کے فی کس سے کئی گنا زیادہ قدرتی ذخائر ہیں۔
میں اب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہی نسبت کا اضافہ افرادی قوت کے سلسلے میں بھی ہے۔یعنی ہمارے ملک کے پاس دنیا کی دانشور افرادی قوت کا ایک فیصد نہیں ہے ،ایک فیصد سے زیادہ ہے۔ہم اعداد و شمار نہیں دے سکتے؛اس لیے کہ اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔قدرتی ذخائر کے بارے میں میں نے جو کہا ہے اس کا اندازہ لگایا گیا ہے۔اس کا ہم نے اندازہ اور حساب کتاب نہیں لگایا ہے؛انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ آئندہ اس پر بھی کام ہو گا۔لیکن قرائن یہ ظاہر کرتے ہیں۔دنیا کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے جہاں دیدہ افراد سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں،سب اسی کی تائید کرتی ہیں۔میں نے بہت سے افراد سے سنا ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ایرانی دانشوروں کی تعداد کہ جہاں ایرانی ہیں دوسرے ملکوں سے دوگنا اور تین گنا زیادہ ہے۔ڈاکٹر چمران مرحوم حقا اور انصافا خود ایک سائنسدان تھے _ اب ان کا علمی پہلو ان کے فوجی پہلو،جدوجہد،فداکاری اور شہادت کے پیچھے چھپ گيا ہے _ اور انہوں نے امریکہ کی اعلی ترین اور جدید ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔وہ مجھے بتا رہے تھے اس مرکز میں دوسرے ملکوں کے دانشور بھی موجود تھے ؛لیکن یونیورسٹی کے اکثر شعبوں میں اور دوسری یونیورسٹیوں میں ایرانیوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ زیادہ ذہین اور ممتاز تھے۔۔۔۔ میں نے متعدد افراد سے یہ سنا ہے اور میرے پاس اس سلسلے میں متعدد رپورٹیں بھی موجود ہیں۔پس ہم مستقبل میں افرادی قوت کے لحاظ سے کمی کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہمارا ماضی بھی یہی ظاہر کرتا ہے ۔افسوس ہم ماضی سے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ہمارے نوجوان ہماری علمی تاریخ کو نہیں جانتے ہیں۔یہ ہماری ایک کمزوری ہے کہ البتہ تاکید کی گئی ہے اور کہا گيا ہے کہ اس شعبہ میں ایران میں علم کی تاریخ کے میدان میں _ کام کیا جائے؛اور کام ہو بھی رہا ہے اور اچھا کام بھی ہوا ہے۔کہ انشاءاللہ اس کے بعد مزید زیادہ کام ہو گا۔
ان تمام صدیوں میں ہمارے ملک میں ممتاز علمی شخصیات موجود تھیں کہ البتہ حالیہ صدیوں میں ان کی تعداد کم ہوئی ہے۔نالائق بادشاہوں اور مختلف داخلی جنگوں نے ( یہ کام) نہ ہونے دیا؛ورنہ مختلف ادوار میں اور دنیا کے رائج علوم کے مختلف میدانوں میں ہم دانشور پرور رہے ہیں۔
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں _ یعنی دسویں اور گيارہویں صدی عیسوی کہ جو یورپ کے قرون وسطی کا دور ہے؛یعنی جہالت کا تاریک دور _ ہمارے پاس ابن سینا(بوعلی سینا) تھے،محمد بن زکریا رازی تھے۔یورپ والے جب ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں،تو وہ خیال کرتے ہیں کہ تمام دنیا قرون وسطی میں تھی! تاریخ بھی انہوں نے ہی لکھی ہے!افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تاریخیں بھی ہمارے ملک میں ترجمہ ہوئی ہیں اور ان کی ترویج ہوئی ہے۔یورپ کا قرون وسطی کا دور یعنی انتہائی تاریکی،ظلمت اور بےخبری کا دور؛یہ وہ دور ہے جب ہمارے پاس فارابی تھے،ابن سینا تھے،خوارزمی تھے۔دیکھیے فاصلہ کتنا ہے!
میں نے ایک مرتبہ نوجوانوں کے اجتماع میں(( جارج سارٹن کی تاریخ علم )) یا دیگر علوم کی تاریخ سے - اس وقت اس کے مؤلف کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔یہ سب فرنگی(یورپی) ہیں؛میں ان کا نام دہرانا نہیں چاہتا - اس دور میں مسلمانوں کی ترقی و پیشرفت کی صورت حال کے بارے میں باتیں بیان کی تھیں۔
بنابریں ہم دانشور افرادی قوت کے لحاظ سے مشکل اور کمزوری سے دوچار نہیں ہیں؛نہ آج اور نہ ہی انشاءاللہ آئندہ۔روزبروز اسے بڑھنا چاہیے؛دانشوروں کو تلاش کرنا چاہیے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ: دیکھیے میرے عزیزو،ہم ملک کو علمی بنانا چاہتے ہیں؛لیکن ملک کے علمی بننے کا ہدف و مقصد یہ نہیں ہے کہ ملک کو مغربی بنائیں۔اشتباہ نہ ہو۔مغرب والے علم رکھتے ہیں۔لیکن اس علم و دانش کے ساتھ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن سے گریز کرتے ہیں۔ہم مغربی ہونا نہیں چاہتے؛ہم عالم ( دانشور) ہونا چاہتے ہیں۔آج کی دنیا کا علم کو جو عالم سمجھا جاتا ہے،انسان کے لیے ایک خطرناک علم ہے۔علم کو انہوں نے جنگ،تشدد،فحاشی و سیکس،منشیات،دوسری قوموں پر جارحیت،استعمار،اور جنگ و خونریزی کے لیے قرار دے رکھا ہے۔ایسا علم ہم نہیں چاہتے؛ہم ایسا عالم بننا نہیں چاہتے۔ہم چاہتے ہیں کہ علم انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔انصاف کی خدمت کے لیے ہو،امن و سلامتی کی خدمت کے لیے ہو۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں۔اسلام ہم کو ایسے علم کی سفارش و ہدایت کرتا ہے۔
اس دن کہ جب اسلامی ممالک خصوصا ہمارا اسلامی ایران علم کے لحاظ سے دنیا میں آگے اور سربلند تھا،اس دن ہم نے کسی ملک کو نہیں لوٹا،کسی قوم کے خلاف جارحیت نہیں کی،کسی ملت سے زور و زبردستی نہیں کی۔اسلام علم کو ایمان،کتاب و سنت،اخلاقی تہذیب اور اخلاق و معنویت کے ساتھ چاہتا ہے۔میں مناجات شعبانیہ کے اس جملے سے جو اس بچی نے اپنی تقریر میں پڑھا،کتنی محظوظ ہوا :(( الہی ھب لی قلبا یدنیہ منک شوقہ و لسانا یرفع الیک ذکرہ )) یا (( صدقہ و نظرا یقربہ منک حقہ)) ؛ خدایا مجھے ایسا دل عطا کر کہ شوق و عشق اسے تجھ سے قریب کر دے۔مسلمان عالم ( دانشور) یہ چاہتا ہے؛خدا سے قربت،معنویت،اخلاص اور پاکیزگی۔اس وقت یہ علم ،یہ عظیم ذخیرہ،یہ عظیم ہتھیار انسانیت کے دفاع کے لیے استعمال ہوتا ہے؛انسانوں کی سلامتی،انسانوں میں انصاف،انسانوں اور انسانی معاشروں میں صلح صفائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد بنائیے۔
آپ آج ان کا لب و لہجہ دیکھیے جو سیاسی کرسیوں پر براجمان ہیں کہ جن کے پائے دولت اور منحرف علم - سرمایہ داری - پر استوار ہیں۔مغربی حکومتیں اس وقت ایسی ہیں۔اب مغربی طاقتوں کی چوٹی پر امریکہ ہے۔اس کی طاقت کی کرسی کے پائے سرمایہ داروں کی کمپنیوں کے پایوں پر ہیں اور اس کا حربہ اور وسیلہ علم ہے۔علم کے ذریعہ ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں؛اطلاعات و معلومات کی جاسوسی اور چوری کے لیے علم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں؛دنیا کے مختلف علاقوں میں قیدوبند کے لیے علم کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔آپ دیکھیے کہ اس قسم کے ممالک کے سربراہوں کا کہ جن کے پاس اس قسم کا منحرف اور گمراہ کن علم ہے، ان کا لب و لہجہ کیسا ہے؟ آپ نے چند روز قبل امریکی صدر ( جارج بش) کی تقریر سنی کہ کتنی نفرت انگیز،کتنی تشدد پسندانہ اور متکبرانہ تھی۔یہی غرور و تکبر انہیں روز بروز گرداب میں پھنساتا چلا جا رہا ہے۔آج آپ یہ جان لیں - میں اب آپ سے یہ کہہ رہا ہوں۔آپ وہ دن دیکھیں گے؛اس دن ہم نہیں ہوں گے،لیکن آپ نوجوان وہ دن دیکھیں گے - کہ یہ غلط بنیادوں پر بنایا گيا تمدن،گرداب میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے؛ہر لمحہ دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور سقوط کر جائے گا؛بلاشبہ یہی غرور،یہی احمقانہ تکبر اسی سقوط کے عوامل میں سے ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے۔یہ سقوط کر جائیں گے۔آج یہ اترا رہے ہیں؛لیکن پستی کی جانب حرکت کر رہے ہیں،خود بھی متوجہ نہیں ہیں؛البتہ ان کے ہوشیار اور باخبر افراد متوجہ ہیں جو برسوں سے فریاد کر رہے ہیں؛خبردار کر رہے ہیں؛خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں !لیکن کون ہے جو ان کی بات سنے؛مست ہی مست ہیں۔نشے میں ہیں۔
سکران سکر ھوی سکر مدامہ انّا یفیق فتی بہ سکران
ان میں دو نشے ہیں؛ہوس پرستی کا نشہ،طاقت کا نشہ۔جو آدمی ایک نشے کا شکار ہو اس کے ذہن میں کوئی چیز نہیں ڈالی جا سکتی؛جب کوئی دو نشوں میں مبتلا ہو تو پھر واویلا ہے!مثلا کوئی شراب بھی پئیے اور نشے کی گولی بھی کھائے انہوں نے دونوں کام کیے ہیں! اب علم کی تلوار بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ہنر مندی سے اور عقل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے اور زمین پر گرانا چاہیے؛اور انشاءاللہ ہم ان کو چت کر کے رہیں گے۔
توجہ رکھیے کہ ہم اس علم کے پیچھے نہیں ہیں۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں جو ہمیں معنویت،انسانیت،خدا اور بہشت سے قریب کرے۔آپ نوجوانوں کے دل پاک ہیں۔میں یہ باتیں کر رہا ہوں لیکن جو دل ان باتوں سے بننے اور شکل اختیار کرنے پر آمادہ ہے وہ آپ کا دل ہے۔آپ ہیں جو اپنے جوان دلوں اور اپنے شاداب و تروتازہ جذبات کے ساتھ اس راستے کو طے کر سکتے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے:دانشوروں کے سلسلے میں ایک ذمہ داری حکومت کی ہے،ایک ذمہ داری دانشوروں کی ہے۔حکومت کی ذمہ داری وہی چیزیں ہیں جو - ہمارے عزیز صدر ( احمدی نژاد ) کے محترم نائب - جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کی ہیں۔یہ حکومت کی ذمہ داریاں ہیں،انہیں انجام دیا جانا چاہیے،میں بھی تاکید کرتا ہوں اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لوں گا انشاءاللہ۔خوش قسمتی سے حکومت کی پالیسی بھی یہی ہے کہ یہ نتیجہ خیز ہوں۔یہ جو آپ نے کہا ہے کہ دانشوروں کو دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور مختلف مراکز میں ہونا چاہیے،یقینا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔اب بھی میں کہنا چاہتا ہوں ایسا ہی ہے۔یہی افراد جو آج دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور اس علمی ادارے کا انتظام چلا رہے ہیں،ہمارے نوجوان دانشوروں میں سے ہیں۔ان کا آپ سے عمر کے لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہے اور انہی دانشوروں کا حصہ ہیں کہ جو اب سرکاری عہدوں پر آگے آئے ہیں اور صدر کے نائب،علمی ادارے اور دانشوروں کی فاؤنڈیشن کی تشکیل تک اوپر آئے ہیں اور یہ عظیم کام درحقیقت آپ نوجوان دانشور ہی ہیں جو انجام دے رہے ہیں۔بعد میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے ۔
لیکن خود دانشور۔یہ آپ سے جو یہاں موجود ہیں،عرض کر رہا ہوں؛لیکن خطاب ملک کے تمام دانشوروں سے ہے۔ہمارے دانشور صرف آپ نہیں ہیں۔صلاحیت کے لحاظ سے ہزاروں،لاکھوں،شاید کروڑوں دانشور موجود ہیں کہ البتہ ان کو تلاش کرنا چاہیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہوشیار رہیے غرور کا شکار نہ ہوئيے۔ غرور،خود کو بڑاسمجھنا اور اپنا حق جتانا یہ صحیح نہیں ہے ؛ یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے ۔آپ اس گھر کے فرزند ہیں؛اس سرزمین کے فرزند ہیں۔آپ کے ماں باپ اس ملک میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی صرف کی کہ اس عمارت کو تعمیر کریں تا کہ آپ اس عمارت میں آسائش سے زندگی گزار سکیں۔ان کے حقوق ہیں۔ہوشیار رہیے بزرگوں پر حکم نہ چلایا جائے،ان کی توہین نہ ہو،بے اعتنائي نہ ہو،ملک و قوم پ اپنا حق نہ جتایا جائے ۔البتہ میں نے کہا ہے کہ حکومت کے فرائض اور ان کے فرائض جو غیرسرکاری شعبوں میں توانائی رکھتے ہیں،معلوم ہیں؛ان کی ذمہ داری معین ہے؛لیکن آپ بھی اس طرف سے اس نکتے پر توجہ کریں۔
آپ عزیزوں کے لیے میری دوسری نصیحت:آپ اپنے لیے ایک تاریخی اور قومی کردار کی تعریف کیجیے،نہ کہ ایک ذاتی کردار کی۔جب انسان اپنے لیے ایک ذاتی کردار کی تعریف کرتا ہے - ایک بااستعداد آدمی - تو اس کا ہدف و مقصد یہ ہو جاتا ہے کہ دولت و ثروت حاصل کر لے،شہرت حاصل کر لے،سب اس کو پہچانیں،سب اس کا احترام کریں؛یہ ہو جاتا ہے ہدف و مقصد۔ان چیزوں کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے کوئی کام نہیں ہوتا،اس کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا؛لیکن جب انسان اپنے لیے ایک قومی کردار،ایک تاریخی کردار کی تعریف کرتا ہے تو پھر صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔آپ ملک کے مستقبل اور تاریخ کو پیش نظر رکھیے اور دیکھیے کہ قوم کو کہاں پہنچنا چاہیے اور آپ آج اس راستے میں کہاں پر ہیں۔آج آپ کو کون سا کردار ادا کرنا ہے تا کہ اس روز یہ قوم وہاں پر پہنچ سکے۔ایسا ہدف و مقصد اپنے لیے تعریف اور وضع کیجیے؛ہدف و مقصد کو اعلیٰ بنائیے ۔
میری تیسری نصیحت یہ ہے کہ اپنی ہمت بلند رکھیے۔میں نے نوجوانوں اور دانشوروں کے اجتماع میں کئی بار یہ بات کہی ہے۔ہمت یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کوئی خاص ٹیکنالوجی کہ جسے دوسروں نے بنایا ہے اور ہم ہمیشہ اسے خریدتے اور درآمد کرتے تھے،اب فرض کیجیے ہم خود یہاں بنا سکتے ہیں۔یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔البتہ چیز ہے،کم اہمیت نہیں ہے؛لیکن وہ چیز نہیں ہے کہ ہم جس کے پیچھے ہیں۔آپ ہدف و مقصد یہ بنائیے کہ آپ کا ملک اور قوم ایک زمانے میں پوری دنیا میں علم و ٹیکنالوجی کا مرکز ہو۔میں نے ایک بارنوجوان دانشوروں کے اجتماع میں کہا تھا :آپ ایسا کام کیجیے کہ ایک وقت میں - اب ممکن ہے یہ وقت پچاس سال بعد یا چالیس سال بعد کا ہو - اگر کوئی دانشور تازہ ترین علمی و سائنسی نتائج حاصل کرنا چاہے تو وہ مجبور ہو کہ فارسی زبان سیکھے کہ آپ نے اپنی تحقیق فارسی زبان میں لکھی ہے؛جس طرح کہ آج آپ کوئی علم حاصل کرنے کے لیے کوئی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں تا کہ آپ اصل کتاب حاصل کر کے اسے پڑھ سکیں۔آپ ایسا کام کیجیے کہ مستقبل میں آپ کے ملک کی صورت حال ایسی ہی ہو؛آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ایک دن ایسا ہی تھا؛ایرانی دانشوروں کی کتابیں وہ ( یورپی ) اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے تھے،یا اس ( فارسی ) زبان کو سیکھتے تھے تا کہ سمجھ سکیں۔یہ بھی برا نہیں ہے آپ جان لیجیے کہ طب کے موضوع پر لکھی گئی ابن سینا کی کتاب قانون کا گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران - میری صدارت کے دور میں - فارسی میں ترجمہ ہوا! میں اس کام کے پیچھے پڑا؛بعض افراد کو ذمہ داری سونپی،بعد میں میں نے سنا کہ ایک صاحب ذوق خوش قلم کرد مترجم نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا کہ آج اس کا فارسی ترجمہ موجود ہے۔اس وقت تک کتاب قانون کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا - ابن سینا نے یہ کتاب عربی میں لکھی ہے - اور اس کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا؛جب کہ کئی سو سال پہلے اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہو چکا تھا ! یعنی جن کے لیے یہ کتاب ضروری تھی وہ اسے لے گئے تھے اور اس کا ترجمہ کیا تھا۔دیکھیے،یہ ہے علمی مرجعیت؛وہ مجبور ہیں کہ آپ کی کتاب کا ترجمہ کریں یا آپ کی زبان سیکھیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد قرار دیں۔اپنی ہمت بلند رکھیے۔علم و دانش کے میدان میں ترقی اور علم کی سرحدوں کو ختم کرنے اور توڑنے کا حوصلہ پیدا کیجئے البتہ اس سلسلے میں میرے پاس اور باتیں بھی ہیں لیکن وقت ختم ہو گیا ہے اور میں مجبور ہوں کہ آخری نکتہ بیان کروں۔
ہمیں ملک کےلیے ایک جامع علمی وژن تیار کرنا چاہیے۔یہ بات میں نے گزشتہ سال بھی اس علمی مجموعہ میں کہی تھی،اس وقت بھی ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے،لیکن یہ کام زیادہ سے زیادہ سنجیدگي سے ہونا چاہیے۔ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ملک کا جامع علمی وژن کیا ہے۔اس وژن میں کس علم کا کتنا اور کہاں پر مقام ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم ایک ایسے ایکسرسائز کرنے والے کی مانند ہوں کہ جو صرف بازوؤں کی ورزش کرتا ہے اور اس کے بازو موٹے ہو جاتے ہیں،جب کہ اس کی ٹانگیں اور شانے ایک کمزور آدمی جیسے ہوں! اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ایک ورزش کرنے والا صرف چھاتی کی ورزش کرے اور اس کے بقیہ بدن کے اعضاء میں کوئی طاقت نہ ہو،اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔،کام متناسب ہونا چاہیے۔ان عزیز نوجوانوں میں سے بعض نے نچرل سائنسز کے بارے میں بات کی ہے۔ہم نیچرل سائنسز کے بعض مضامین میں دنیا سے صدیوں آگے ہیں۔ان لوگوں سے کہیں آگے ہیں جو آج اس مضمون میں دنیا میں سر فہرست ہیں۔ہم ان پر کام کیوں نہ کریں؟نیچرل سائنسز کے مختلف شعبوں میں؛ادب،فلسفہ،تاریخ اور ہنر میں ہمارا قدیم ماضی ہے۔نیچرل سائنسز کے بعض مضامین ایسے ہیں کہ جو اگرچہ مغرب سے آئے ہیں،لیکن اگر ہم صحیح غور کریں تو اس کی بنیاد اور اصل کہ جو عقلانیت اور تجربے سے عبارت ہے،ایرانی - اسلامی روح اور فکر و سوچ سے ہے۔خرافاتی یورپ ،جیالوجی،اقتصاد،مدیریت(مینجمنٹ)،نفسیات اور سوشیالوجی کو اس شکل میں مرتب نہیں کر سکتا تھا۔یہ مشرق خصوصا ایران اسلامی کی علم دوستی اور تجربہ کرنے کی سوچ کی سوغات تھی کہ جو وہاں گئی اور اس تبدیلی کا باعث بنی۔بہرحال جن چیزوں میں ہم پیچھے ہیں ان میں ہمیں خود کو آگے لے جانا چاہیے اور ہم خود ایجاد کریں؛ترجمہ نہ کریں( دوسروں کے نظریات کی کاپی نہ کریں) یہ ہمارے لیے بہت زیادہ نقصان ہے۔
بنابریں جامع علمی وژن ایک لازمی چیز ہے۔مختلف علوم،ان میں سے ہر ایک علم،طلبہ کی تعداد،طلبہ کی جنسیت _ لڑکا،لڑکی _ مختلف علاقوں کا مقام و مرتبہ واضح ہونا چاہیے؛ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔یہ کام البتہ شروع ہو چکے ہیں،لیکن ان میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیجیے اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیجیے۔
تحقیقات اور ایجادات کو کام میں لانے اور مفید بنانے کا مسئلہ - کہ اتفاقا بعض نوجوانوں نے اس کے بارے میں بات کی ہے - ان چیزوں میں سے ہے کہ جن پر میں زور دیتا ہوں۔ممکن ہے ہم تحقیقات انجام دیں،ایک تشہیراتی منصوبے میں ہمارا محقق اچھے مقام پر پہنچے؛لیکن اس کا ملک کی صورت حال، ملک کی ترقی و پیشرفت میں کوئی کردار نہ ہو؛یعنی یہ قومی دولت میں تبدیل نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے علم کو قومی دولت میں تبدیل کرنا چاہیے۔اس کے لیے کوشش ضروری ہے،منصوبہ بندی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ایک اور نکتہ بھی ہے - کہ جو اسی جامع علمی وژن کے دائرے میں آتا ہے - کہ ہمیں علم اور ٹیکنالوجی کی زنجیر کو مکمل کرنا چاہیے،کہ بعض مقامات پر یہ زنجیر ٹوٹ گئی ہے،تاکہ حقیقی پیداوار کا سلسلہ شروع ہو اور علم تمام جہات سے اپنے اہداف تک پہنچ سکے۔
ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد آپ کا شوق،آپ کی ہمت،آپ کی دلچسپی اور متعلقہ افراد کی کوشش ہے مجھے امید ہے کہ خدا مدد کرے گا۔انشاءاللہ یہ کوشش کیجیے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بحمداللہ ( کوشش ) شروع ہو گئی ہے؛یہ علمی تحریک شروع ہو گئی ہے اور انشاءاللہ نتائج تک پہنچے گی۔
میں خوش قسمت ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوئی اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات ملک اور قوم کے اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچنے میں مدد دے گی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عید کے مبارک دن کی پوری امت مسلمہ،مومن و غیور ایرانی قوم اسی طرح ملک کے اعلی عہدیداران، اسلامی ممالک کے معزز سفرا کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں بلکہ زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ میں اس عید کی مبارکباد تمام عالم انسانیت کو پیش کروں، کیونکہ ختم المرسلین کی بعثت، تمام انسانوں کے لئے ایک نیا موڑ ہے جہاں انسانی معاشروں کو سالہا سال کے رنج و الم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس نئے باب کا حصہ بننے کی دعوت قبول کی اور کامبیاب و کامران ہو گئے اور جن لوگوں نے روگردانی کی وہ خسارے میں چلے گئے۔
ہماری نظر میں آج بھی انسانیت کو ضرورت ہے پیام بعثت کی اور انبیا ئے کرام کی تعلیمات پر عمل آوری کی جو مکمل طور پر اسلام اور قرآن کی تعلیمات میں مجتمع ہیں۔ تبلیغ دین کے مشن میں تین چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں اور ان پر قرآن کریم کی آیات میں بھی خصوصی تاکید کی گئی ہے: علم بصیرت، تزکیہ نفس و اخلاق اور عدل و انصاف۔
اگر غور کریں تو آج بھی عالم انسانیت کو انہیں تین چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔آج انسان علم کے میدان میں بہت آگے پہنچ چکا ہے، لیکن یہ علمی ترقی ایک خاص پہلو تک محدود ہے اور وہ ہے مادی پہلو، یعنی وہ علم جس کا تعلق انسان کی مادی زندگی سے ہے، انسانی معاشرے نے بلاشبہ سائنس میں بے پناہ ترقی کی ہے لیکن معنویت سے تعلق رکھنے والے علوم میں یعنی ان موضوعات کے سلسلے میں، جو انسانی ذہن کو خلقت کے آغاز اور خالق کی وحدانیت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس کے دل کو اس راہ کی جانب مائل کرتے ہیں جس پر گامزن ہونے کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے، ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کرنا باقی رہ گیا ہے۔ جب اسلام حصول علم کی دعوت دیتا ہے تو یہ دعوت تمام پہلوؤں پر محیط ہوتی ہے۔ اخلاقیات، تزکیہ نفس اور معنویت اس سے بھی زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ انسانی زندگی کی مشکلات، اخلاقیات اور تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔
سب سے پہلے مرحلے میں، اہم شخصیات، سرکاری حکام اور عہدیداروں کے لئے اس کی پابندی لازمی ہے۔ اگر انسانی معاشروں کی قیادت کرنے والے طبقے میں جو سیاسی، علمی اور سماجی شخصیات پر مشتمل ہوتا ہے، روحانیت، اخلاقیات اور پاکیزگی نفس کا ماحول قائم ہو جائے تو اس کا فیض آبشار کی مانند دیگر طبقات تک یقینا پہنچے گا اور عوام بھی اخلاق حسنہ سے آراستہ ہوں گے۔ مسلم ممالک کے حکام کی ذمہ داری اس سلسلے میں سب سے زیادہ ہے۔ حب دنیا، ہوس، گمراہ کن خواہشات، مادی بنیادوں پر دوستیاں اور دشمنیاں، جنگ کی آگ جس کا مقصد تسلط پسندی اور مادی مقام و منزلت کا حصول ہو، وہ بد امنی جس کا سرچشمہ سیاسی خباثتیں اور سیاستدانوں کی سازشیں ہوں، انسانیت کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ ہر ملک کے لئے اخلاقی پاکیزگی، بہت ضروری ہے۔لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت و انسیت، ایک دوسرے کے لئے احترام کا جذبہ، اپنے منصوبوں میں دیگر افراد کے حالات کا دھیان رکھنا، لوگوں میں مروت و ہمدردی، وہ چیزیں ہیں جوانسانی زندگی کو سکون بخشتی ہیں۔ اگر آج ہم دنیا میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ بے چینی، بد امنی اور تشدد دیکھ رہے ہیں اور بد امنی انسانی معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یا کم از کم سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک ہے، لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، سماجی زندگی میں انہیں تحفظ حاصل نہیں، اپنے وطن اور اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہیں، تو یہ بد امنی اور عدم تحفظ غلط سیاست کا نتیجہ ہے اور بری سیاست تسلط پسندی کا نتیجہ ہے، تسلط پسندی اخلاقیات سے دوری کا نتیجہ ہے اور اخلاقیات سے دوری تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے ہمیں تزکیہ نفس کی دعوت دی ہے اور یہ اسلام کی گرانبہا تعلیم اور ہدایت ہے ( یتلو علیکم آیاتناو یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمۃ ) آيات الہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں تعلیم دیتے ہیں۔
عدل انصاف کا قیام تمام انبیائے کرام کی دعوت کا سب سے اہم اصول رہا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ انبیا کو بھیجنا، کتابوں کا نزول اور انبیا اور ان کے پیروکاروں کی یہ ساری زحمتیں اور کوششیں اس لئے تھیں کہ ( لیقوم الناس بالقسط) عوامی زندگی عدل و انصاف کے پیرائے میں ڈھل جائے۔
بھائیوں اور بہنو! اسلامی جد و جہد سے ہمارا مقصد و ہدف ایسے معاشرے کی تشکیل تھا کہ جو ان خصوصیات سے آراستہ ہو۔ اسلامی انقلاب کسی ایک گروہ، ایک جماعت یا افراد کی تسلط پسندی کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا۔ اسلامی انقلاب کو ایران کے مسلمان عوام نےبرپا کیا اور اس انقلاب کا مقصد ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے، ایک مسلم سماج کی یہی خصوصیات ، یہی تشخص اور یہی معیار ہیں کہ وہ علم و اخلاق اور عدل و انصاف سے آراستہ ہو۔ سب کو اس کے لئے سعی پیہم کرنا چاہئے۔وہ رہنما اصول جن کے ہم پابند ہیں یہی ہیں۔ وہ اقدار جن کے لئے اسلامی معاشرہ تشکیل پایا ہے، یہی ہیں۔ یہی چیزیں ہیں جو ہماری مادی زندگی میں سکون و اطمینان دنیا میں ہمارے وقار اور ہماری سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ سب کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ معاشرہ علم و اخلاق اور انصاف سے مالامال ہو۔ حکام کی فریضہ بھی یہی ہے۔ تمام عہدیداراں کی ذمہ داری یہی ہے۔ مختلف اداروں کے سربراہوں کا فریضہ یہی ہے۔عوام کے ہر فرد کی آرزو بھی یہی ہے۔ وہ حکام سے جس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں علم و اخلاق اور انصاف سے آراستہ معاشرہ ہے۔اسلامی انقلاب کے شروع کے ایام سے لیکر اب تک جہاں بھی ہم نے اپنے اسلامی فریضے پر عمل کیا ہے، الہی احکام کی پابندی کی ہے، اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر انجام دیا ہے، ہم نے پیش رفت کی ہے اور جہاں بھی مختلف النوع تحفظات نے ہم پر غلبہ کیا، ہم نے اسلام کے ان بنیادو اصولوں سے کنارہ کشی کی، اپنے دل وجان میں دنیاوی زندگي کی رنگینیوں کو بسایا ہے وہیں ہمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، ہم وہیں مغلوب ہو گئے ہیں اور وہیں ناکامیوں نے ہمیں گھیر لیا ہے۔
موجودہ دور کے دنیاوی مکاتب فکر، جو طاقتور ممالک میں عالمی سیاست کی ترجمانی کرتے ہیں، انسانیت کی کامیابی و کامرانی کے ضامن نہیں بن سکتے۔ اس کے علاوہ بڑی طاقتوں کے حکام اور عہدیداران جو دعوے کر رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت انسانی معاشرہ دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ ایک تو یہ کو انسان کو نجات کا جو راستہ دکھایا جا رہا ہے وہ دنیا پرستی کا راستہ ہے، دوسرے یہ کہ جو لوگ عالمی برادری کے امور کے نگراں کا رول ادا کر رہے ہیں، نیک اور بھلے لوگ نہیں ہیں۔ آپ عالمی حالات کو دیکھئے، مختلف اقوام پر جو مظالم ہو رہے ہیں، مسلم امہ پر جو ظلم ہو رہے ہیں، فلسطین میں جوظلم کا بازار گرم ہے، عراق و افغانستان میں جو بربریت پھیلی ہوئي ہے، اسلامی احکام اور اصولوں کی جو ناقدری ہو رہی ہے، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عناصر جنگ و جدال، مار کاٹ اور فتنہ و فساد کی جڑ ہیں وہی اسلام پر رجعت پرستی کا الزام لگا رہےہیں۔کچھ افراد پوری دنیا پر اپنی مطلق العنان حکومت اور تسلط کے خواہاں ہیں، آج سامراجی، شیطانی اور طاغوتی طاقت امریکہ پوری دنیا کو ہضم کر جانے کی کوشش میں ہے۔ وہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور پہلو میں اپنا تسلط دیکھنا چاہتا ہے اور دعوی یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا حامی ہے انسانی حقوق کا حامی ہے۔ بد عنوان اور گمراہ ترین افراد نے انسانیت کو راہ راست پر لانے کا پرچم بلند کیاہے۔ یہ عالم انسانیت کے لئے بہت بڑا المیہ ہے۔
ہماری مسلم امہ آج ایک بہت بڑے امتحان اور آزمائش کے سامنے کھڑی ہے۔ ہم دوسروں کو نہیں دیکھیں گے خود مسلم امہ پر توجہ دیں گے۔ مسلم امہ کے پاس قرآن کریم ہے، اسلامی احکام ہیں، قرآن نے سعادتمند اور کامیابی سے سرشار انسانی زندگی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ مسلم امہ اپنے اسلامی تشخص کی جانب واپسی کےساتھ اس تخریبی لہر کو دبا سکتی ہے جو انسانی زندگي کی بنیادوں کو مٹا دینے کے لئے اٹھی ہے بس شرط ہے یہ کہ مسلم امہ ہمت سے کام لے۔ مسلم امہ کو چاہئے کہ شجاعت سے کام لے اور اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی ممالک کے حکام کی ہے انہیں چاہئے کہ کمر ہمت باندھیں۔
اسلامی یکجہتی یعنی مسلم ممالک مسلم امہ کی قدر کو پہنچانیں ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم ایک دوسرے سے دشمنی کرکے کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم نسلی، فرقہ پرستی ، شیعہ سنی، عرب اور عجم کے اختلافات سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ مسلم امہ ایک عظیم پیکر ہے جس میں بے شمار وسائل، بے پناہ سرمایہ ہے۔ لیکن مغربی دنیا نے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ ہماری فرقہ پرستی کو مسلمانوں کی نابودی کا وسیلہ قرار دیا ہے، اور ہم نے ( مسلمانوں نے ) بھی نادانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس سازش کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہیں، اس جال میں پھنس گئے ہیں، ہمیں بیدار ہونا چاہئے۔
ہم نے موجودہ سال ( 1386 ھ ش ) کو اسلامی یکجہتی کا سال قرار دیا ہے تو یہ کوئي رسم کی ادائگي نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان بھائیوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں، رقم خرچ کی جا رہی ہے تاکہ ہماری توانائیاں آپس ہی میں ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائي میں صرف ہو جائیں اور ہم میں آگے بڑھنے کی سکت نہ رہ جائے۔ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، عالم اسلام بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہمیں آگے جانا ہےاور اس سےبھی بڑھ کر ہمیں تہذیب نفس، اور خواب غفلت سے بیداری کی سمت قدم بڑھانا ہے۔
آج مغربی ممالک ڈیموکریسی کے نام سے جو چیز پیش کر رہے ہیں، در حقیقت عوامی حکومت نہیں ہے، عوامی حکومت تو اسلام نے قائم کی۔ اسلام میں عوام اور حکام کے تعلقات ایمان کی بنیاد پر استوار ہیں، یہ رابطہ محبت و انسیت کا رابطہ ہے، پر خلوص تعاون اور خدمت کا رابطہ ہے، حقیقی خوشی اور رضامندی کا رابطہ ہے۔ یہ طرز عمل آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے جب بھی جس مقدار میں بھی اس نسخے پر عمل کیا ہے اسی مقدار میں کامیابی اور کامرانی بھی ہمیں حاصل ہوئي ہے۔ آج عالم اسلام مجروح ہے۔ فلسطینی قوم کے لئے آنکھیں گریہ کناں ہیں، عراقی قوم کے لئے دل جلتا ہے۔ افغان عوام کے رنج و غم نا قابل برداشت ہیں، یہ سب شدید دباؤ میں ہیں یہ لوگ مسلم امہ کے سب سے بڑے دشمنوں کے شدید دباؤ میں ہیں۔
آج جو لوگ مسئلہ فلسطین میں فلسطینیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں، عراق میں عراقی عوام کو کچل رہے ہیں، یہ ایسے لوگ نہیں ہیں جنہیں عراقی یا فلسطینی عوام سے کوئی خاص دشمنی ہے بلکہ یہ مسلم امہ کے دشمن ہیں۔جہاں بھی ان کے قدم پڑتے ہیں یہی رویہ سامنے آتاہے۔ ان کے لئے شیعہ، سنی، عرب اور عجم میں کوئي فرق نہیں ہے۔ یہی تسلط پسندی ہے۔ یہ ہے طاقت کا نشہ کہ جس کے نتیجے میں مادی اہداف، ہوس و خواہشات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا، عالم انسانیت کے لئے اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے، مسلم امہ کو اب بیدار ہو جانا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مقدس ذات تمام مسلم فرقوں کے لئے نقطہ اتحاد ہے۔ سب کے دل نبی اکرم کی عقیدت سے لبریز ہیں۔ مسلم امہ کا ہر فرد اللہ کے اس منتخب بندہ کامل سے والہانہ لگاؤ رکھتاہے۔ اس مقدس ذات کو ہم مسلم امہ کے اتحاد کا محور قرار دے سکتے ہیں اور مسلم اقوام کو ایک دوسرے کے نزدیک لا سکتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ خدا وند عالم ہماری ہدایت فرمائے، ہمیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق کرامت فرمائے۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی رکھے۔ درود ہو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور شہدا کی پاکیزہ ارواح پر جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اس پر گامزن ہونے میں ہماری مدد کی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
کچھ سال قبل ملک میں ایک مبارک علمی تحریک شروع ہوئي ۔سبھی اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ مبارک تحریک اساتذہ ، طلباء ، محققین ، یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے ساتھ ساتھ سبھی علمی حلقوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ اس عظیم تحریک کی قدردانی و شکریہ اداکروں جسے پورے ملک میں ہمارے اساتذہ ، محققین اور دانشوروں نے شروع کیا ہے۔ ہمارے ملک میں خوش قسمتی سے شروع ہوئی اس عظیم اور وسیع تحریک کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے میری آج یہاں آمد ، حقیقت میں ایک علامتی قدم ہے ۔ حالانکہ ابھی یہ تحریک اپنے شروعاتی دور میں ہے۔ میں نے اس جگہ کو اوّل تو رویان اور دوسرے جہاد دانشگاہی کی خاطر منتخب کیا ہے۔ سائنسی تحقیقاتی مرکز رویان ، ایک کامیاب ادارہ اور اس چیز کا ایک اہم و مکمل نمونہ تھا اور ہے جس کی انسان آرزو کرتا ہے ۔ مرحوم سعید کاظمی کی میرے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت کی وجہ یہی ہے اور آج بھی میرے دل میں اس عزیز جوان کا خاص مقام ہے۔ ان کا کام ، ان کا کام کرنے کا طریقہ ، ان کی انتظامی صلاحیتيں اور کاموں کا جائزہ لینا اور فرائض کی انجام دہی کی ان میں فکر ، یہ سب چیزیں ان میں کمال کی اس حد تک تھیں جسے آدمی پسند کرتا ہے اور اس کی آرزو کرتا ہے ۔
رویان سائنسی تحقیقاتی مرکز ان کی اور ان کے باقی ساتھیوں کی مدد سے کہ جو شروع سے ہی اس میں کام کررہے ہیں، پروان چڑھا۔ مجھے اس بات کا شروع سے اندازہ تھا ۔ میرے اور مرحوم کاظمی کے مشترک دوست نے پندرہ سولہ سال پہلے، مرحوم کاظمی کے منصوبے کو میرے سامنے پیش کیاتھا ، مجھے اس کام میں، ایک صحیح تحریک کی علامتوں کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ میں اپنے امکان بھر اس کام کا ساتھ دوں گا اور پشت پناہی کروں گا ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا کیا میرا اندازہ یقین میں بدلتا گيا، اسے ٹھیس نہیں پہنچی۔ اگر اس مثالی شخصیت کا اک جملہ میں تعارف کراؤں تو یہ کہوں گا کہ وہ علم ، ایمان اور جد وجہد کا نمونہ تھے ۔ وہ ، مذہب پر عمل کے ساتھ ساتھ سائنس کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے ۔ ایک بوجھ کی طرح نہیں بلکہ اسے وہ اسٹاف کے لئے بنیادی عنصر مانتے تھے ۔ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ تھکن کیا چیز ہے ۔ میرے خیال میں مرحوم کاظمی نے اپنی زندگی کو اسی کام کے لئے وقف کردیا تھا ، اس لئے میری نگاہ میں رویان کی بہت قدر و منزلت ہے ،اور آپ سب لوگ جو اس مرکز میں کام کررہے ہیں ، میرے لئے بہت محترم ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رویان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے ۔ میرے حوالہ سے یہ کہا گيا ہے : یہ اسٹم سل ایک علمی تحریک ہے ، حقیقت بھی یہی ہے۔ جس طرح یہ اسٹم سل تحقیق کا ایک بیکراں سمندر ہے اور آپ اس کے بارے میں جتنا تحقیق کریں گے، آگے بڑھیں گے آپ کے سامنے تحقیق کا ایک نیا دریچہ کھل جائے گا جسے آپ تحقیق کا موضوع قراردے کر آگے بڑھ کر نئے نتیجوں تک پہنچ سکتے ہیں، رویان بھی ایسا ہی ہے آپ کا یہ ادارہ جتنا بھی کام کرے اور آگے بڑھے، نئي نئي منزلیں سامنے نظر آئیں گی۔ سائنس اور مذہب پر یقین رکھنے والے ہر ایک محقق کے بارے میں چاہے وہ اس ادارہ کا ہو یا کسی اور ادارہ کا، یہی حکم ہے یعنی یہ میدا بہت وسیع ہے۔ میں نے جہاد دانشگاہی ( جہاد دانشگاہی نامی ادارہ تہران یونیورسٹی کا ایک عظیم تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں ایرانی محققین علم و سائنس کے میدان میں جہاد کرتے ہیں ) کا اس لئے انتخاب کیا کہ یہ انقلاب کا مبارک ثمرہ ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں دو مسجدوں کا موازنہ کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے : لمسجد اسّس علی التّقوی من اوّل یوم احقّ ان تقوم فیہ، فیہ رجال یحبّون ان یتطہّروا جہاد دانشگاہی بھی اسی طرح ان چنندہ اداروں میں ہے جو انقلاب کا ثمرہ ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جہاد دانشگاہی نے شروع سے جو نظریات قائم کئے اور جس طرح کام کیا سب صحیح ہے۔ نہیں ! ہم انسان کبھی صحیح سوچتے ہیں تو کبھی غلط، کبھی صحیح عمل کرتے ہیں تو کبھی غلط عمل کرتے ہیں ۔ کبھی کبھار کی غلطیوں کو کسی کی صلاحیت کے بارے میں فیصلہ سنانے کے لئے معیار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ہدف ، ہدف کی راہ میں چلنا اور بغیر کرے آگے بڑھتے رہنا معیار ہے، اگرچہ انسان سے کبھی غلطیاں اور لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں۔ میری نظر میں جہاد دانشگاہی کا اپنا خاص تشخص ہے اور الحمدللہ اس سے بڑے اہم نتایج ملے ہیں ۔ اب میں تھوڑا بہت جہاد اور پھر اس کے بعد کچھ جملے علم ، تحقیق اور ملک کے دیگر امور کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا ۔
جہاد دانشگاہی ، یہ مرکب لفظ دو الفاظ پر مبنی ہے، ایک جہاد اور دوسرے دانشگاہ یعنی وہاں جہاد ایسا ہو جو یونیورسٹی کے شایان شان ہے ، ہر طرح کے کام کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ جہد و کوشش اور جہاد کی اصل ایک ہے یعنی جہاد میں جد وجہد کا معنی موجود ہے لیکن جہاد صرف اس کو نہیں کہتے ۔ جہاد کامطلب ہے مقابلہ کرنا ، آج کی ہماری اصطلاح میں جہاد کی بھی کئي قسمیں ہیں مثلا علمی جہاد ، صحافتی اور مواصلاتی میدان میں جہاد ، سیاسی میدان میں جہاد ، فوجی و دفاعی میدان میں جہاد ، معیشتی میدان میں جہاد ، کھلا ہوا جہاد ، غیر اعلانیہ و پنہاں جہاد ، لیکن ان سب میں ایک مشترکہ عنصر ہے اور وہ ہے رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا موانع کو رفع کرنا۔ دوست سے جہاد کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ جہاد، دشمن کے مقابلے میں ہوتا ہے فرض کیجئے کہ طاغوتی حکومت میں اگر کوئی شخص ہرہفتہ پانچ کتاب پڑھتا تھا، یہ ایک اچھا کام تھا، جد و جہد تھی مگر جہاد نہيں تھا ۔ جہاد اس وقت ہوسکتا تھا جب وہ کسی ایسی کتاب کو پڑھتا جو طاغوتی حکومت کے خلاف اس کے افکار و ذہن پر اثر انداز ہوتی ، اس وقت اس کا یہ کام جہاد ہوتا ۔جہاد کی خاصیت یہی ہے ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی آپ کے جہاد کا میدان ہے، یعنی آپ یہاں توپ و بندوق (شمشیر و نیزہ ) کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ دماغ انسانی کے اندر سوچنے و غور کرنے کی صلاحیت، قلم، اور آنکھیں وغیرہ اس میدان کے ہتھیار ہیں ۔
آپ کا گروہ، ایک علمی گروہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ آپ کے ملک ، آپ کے انقلاب اور انقلاب نے جو اہداف و مقاصد معین کئے ہیں اس کے خلاف کون ضدی دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے آپ کو اس دشمن سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔اگر آپ کا کام اس راستہ پر ہوا تو جہاد کہلائے گا ۔اس لئے اگر آپ سائنس کے کسی ایسے شعبےمیں کوشش کررہے ہیں جو دشمن کو پسند ہے اور اسے کوئی تکلیف ہونے کےبجائے خوشی ہورہی ہے تو یہ جہاد نہیں ہے ۔ فرض کریں ، جہاد دانشگاہی یا اس سے مربوط کوئي ادارہ یہ کہے کہ فلاں سال ہمارے سو یا پانچ سو مقالے آئي اس آئی میں چھپے ۔ یہ معیار نہیں ہے ۔ یہ مقالہ کیا تھا ؟ کس مقصد کے لئے تھا ؟ اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوا ؟ اور جو آپ کے اہداف و مقاصد کے دشمن ہیں ان کا ان مقالوں کے بارے میں کیا موقف تھا ؟ کیا انہوں نے اس سے خطرے کا احساس کیا ؟ یا نہیں ؟ البتہ میری مراد ان کے سیاسی رہنما و شخصیتیں ہیں کیونکہ اہل علم کا طرز فکر الگ ہوتا ہے ۔ جب آپ نے کلوننگ کے اسٹم سل اور اس طرح کے کاموں کے بارے میں گفتگو کی اور میں نے یا کسی دوسرے شخص نے اس کام کو سراہا امریکی حکام نے یہ اعلان کیا کہ جینیاتی علوم (ژنتیک) کے لئے بھی ایک نگراں کمیٹی ہونی چاہئے، ان کے یہ کہنے کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟ دشمن ، آپ کے اس میدان میں آگے بڑھنے سے پریشان ہوگیا ہے ۔اس کی ہزاروں واضح مثالیں ہیں جس دن آپ ایسا رڈار بنا لیں جو ملک کی فضائي حدود سے کسی چیز کو داخل نہ ہونے دے اس وقت آپ کا دشمن آپ سے پریشان ہوجائےگا، یعنی یہ وہ تیر ہے جو سیدھے اس کے سینے پر لگے گا ، اسے جہاد کہیں گے۔ جذبہ جہاد کے ساتھ کئے جانے والے کام ، علمی جد وجہد اور تحقیق کے لئے یہ عنصر لازمی شرط ہے۔
دشمن سے ہماری مراد صرف امریکہ نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارا کھلا دشمن امریکہ اور عالمی سامراج ہے لیکن دشمنوں کی کئی قسمیں ہیں ۔ کبھی ایک کثیر القومی کمپنی اس لئے آپ سے ناراض ہوجاتی ہے کہ آپ مثلا سمنٹ کا کارخانہ لگانا چاہتے ہیں وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، آگے بڑھنے نہیں دیتی یہاں پر مجھے جو رپورٹیں دی گئی ہیں اس میں یہ موضوع بھی شامل تھا وہ سمنٹ بنانے سے مربوط ایک نگراں کمیٹی بنانا چاہتے ہیں تا کہ کسی کے پاس سمنٹ کا کارخانہ لگانے یا سمنٹ پیدا کرنے کا حق نہ رہے ۔
جہاد کے جذبہ کے ساتھ کئے جانے والے کام کا مقصد معین ہونا چاہئے۔ اسے اہداف پر مرکوز ہونا چاہئے، اسے ہوشیاری اور دانشمندی سے کیا جانا چاہئے اور دشمن کو شکست دینے والا ہونا چاہئے ۔ جہاد کا معنی وہی ہے جسے ہم روز مرہ کی اصطلاح میں جد و جہد کہتے ہیں ، جیسے میں جد وجہد کررہا ہوں ، یہ ایک جد وجہد ہے ۔ جہاد کے یہ معنی ہیں اور یہ ہوئي جہاد کی تعریف ۔
یونیورسٹی میں جو سرگرمیاں ہوں معیاری ہونا چاہئیں وہ طلباء ، اساتذہ اور فعال علمی ذہنوں سے مطابقت رکھتی ہوں اور سبھی کاموں میں اس بات کا لحاظ رکھا جانا چاہئے، سطحی اور ہلکا کام مد نظر نہیں ہونا چاہئے ۔ البتہ کچھ سرگرمیاں سائنسی ہیں جیسے یہی ( اسٹم سل کے بارے میں ) تحقیق ۔ فرض کیجئے اگر علمی سرگرمیاں علوم انسانی کے میدان میں ہوں مثلا ادب میں ہو تو اس کا معیار اتنا بلند ہو کہ وہ کسی معمولی ادیب کے بس کی بات نہ رہے۔ ۔یعنی اس کی سطح بلند ہو ۔ تاریخ ، ادب اور فلسفہ جیسے موضوعات کے بارے میں بہت سی باتیں ہیں جن میں سے کچھ تو معمول کے مطابق عام باتیں ہیں، اگر اس بارے میں جہاد دانشگاہی نہ بھی بولے تب بھی بہت سے ہیں اس بارے میں بولنے والے۔ جہاد دانشگاہی کو ایسی بات سامنے لانی چاہئے جو خصوصیت کی حامل ہو ۔ مثلا آپ علوم قرآنی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔ بہت سے ہیں جو اسی سرگرمی کو انجام دے رہے ہیں ۔ سبھی سرگرمیاں خوب ہیں ، آپ جانتے ہیں میں ان لوگوں میں ہوں جو قرآنی سرگرمیوں کے متعلق احساس ذمہ داری رکھتے ہیں اور اس کے لئے خاص اہتمام کرتے ہیں۔ ایسا میں انقلاب سے پہلے بھی کیا کرتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے ۔ اگر ایک مسجد مین دس نوجوان اکٹھا ہوکر قرآن کی تلاوت کریں ، بہت اچھا کام ہے ، مجھے پسند ہے لیکن اگر آپ قرآنی سرگرمیاں انجام دینا چاہیں تو اس کا معیار معاشرے میں جاری سطحی سرگرمی سے بلند ہونا چاہئے ۔ فرض کریں کہ آپ کسی قاری کے لحن ، آواز اور تجوید کو بقیہ لوگوں کی طرح دہرانا چاہتے ہیں ، بہت اچھا کام ہے لیکن قرآنی علوم کے میدان میں جہاد دانشگاہی کی سرگرمیوں کا معیار اس سے بلند ہونا چاہئے ، اس بات پر غور کیجئے کہ جو یونیورسٹی میں ہیں انہیں قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے ، قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔آپ کو قرآن اس طرح سے پڑھنا چاہئے کہ جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اس کے مفہوم کو اپنے دل میں محسوس کریں ، آپ کا کلاس ایسا ہو جس میں قرآن کے مفاہیم سمجھائے جارہے ہوں ۔اس کے لئے جدت پسندی کی ضرورت ہے اور یہ آپ کا کام ہے ۔
اس لئے جہاد دانشگاہی کے پاس یہ امکانات اور وسائل موجود ہیں اور مجھے بھی جہاد دانشگاہی پر پورا بھروسہ ہے۔ بہت بڑے اور اچھے کارنامے انجام دیئے گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ شروع سے اب تک میں نے جہاد دانشگاہی کو دین و تقوی کی سے منسلک پایا۔ اسے اسی حال میں باقی رکھئے ۔ کچھ منٹ پہلے یہاں کے عہدہ داروں کے ساتھ گفتگو میں میں نے کہا کہ اس بات کی کوشش کیجئے کہ جہاد (دانشگاہی ) کی شناخت بدلنے نہ پائے آپ جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب کے آغاز سے اب تک کچھ لوگوں کے افکار و خیالات ایک سو اسی درجہ تک بدل گئے ہیں یہ فطری روش نہیں ہے کہ آپ کہہ دیں کہ اس کی فطرت ہی ایسی تھی ، نہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فطری یہ ہے کہ اگر انسان منطق اور دلیل کے ذریعہ کسی راستہ کوچنے تو اس پر مرتے دم تک چلتا رہے ۔ یہ فطری بات نہیں ہے کہ ہم کسی راستہ پر بہت جوش و خروش کے ساتھ چلیں اور پھر کچھ دور جانے کے بعد رخ بدل دیں یہاں تک کہ پوری طرح روگرداں ہوجائیں ۔
کچھ لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ابتدای انقلاب کا زمانہ کچھ اور تھا اور اب کا زمانہ کچھ اور ہے ، حالات بدل گئے ہیں ، ہم بھی بدل گئے ۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ زمانہ ایسے لوگوں کو بدل دیتا ہے جو کمزور، ناپائیدار اور بے بنیاد اعتقادات کے حامل ہیں ۔ زمانہ حریص اور لالچی لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔قرآن کہہ رہا ہے : جولوگ جنگ احد سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ان میں ڈٹ جانے کی طاقت نہیں تھی، ان کی یہ لغزش ( ان کے ناپختہ افکار کا نتیجہ تھی) اس کام کے سبب تھی جسے انہوں نے پہلے انجام دیا تھا ۔جب تک ہم روح کی تربیت نہیں کریں گے اپنی شخصیت کو پختہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہر چیز سے ہم متاثر ہو جائیں گے۔ ایک بار اثر انداز ہوگي، دوسری بار ہوگی تیسری بار اثر انداز ہوگي یہاں تک کہ پوری شخصیت ہی بدل جائے گي ۔ جب صحیح منطق اور صحیح فکر پر انسان کی دینی اور انقلابی شخصیت استوار ہوتی ہے اور اس میں فولاد کی طرح استحکام آجاتا ہے تو زمانہ گذرنے سے اس کی یہ شخصیت مزید نکھرکر سامنے آتی ہے اور اس میں استحکام پیدا ہوتا جاتا ہے۔ آدمی کچھ ایسا ہی ہے اور سرشت بھی ایسی ہی ہے۔ جہاد دانشگاہی کی ماہیت بدلنے نہ پائے کہ وہ کوئی غیر دینی اور غیر انقلابی شناخت اختیار کرے ۔
میں نے کچھ سال پہلے جہاد دانشگاہی کے کارکنوں کے بیچ کچھ گفتگو کی تھی، جو مجھے یاد نہیں تھی، اس کے ریکارڈ کو میرے سامنے لایا گیا میں نے پڑھا اور مجھے یاد آگیا ۔ اس کی صحیح و دینی شناخت کی حفاظت کیجئے ۔ خوشی کی بات ہے کہ یہ پہلے کی طرح ابھی بھی باقی ہے کیونکہ جہاد دانشگاہی کا ڈھانچہ ، اس کی انتظامیہ، کارکردگی کی نوعیت پالیسی اور مقاصد اچھے رہے ہیں ۔ اس مرتبہ جو میں نے کہا تھا وہ یہ کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انقلابی ہونے یا انقلابی تحریک کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی تحریک جس میں بد نظمی اور افراتفری کا ماحول ہو۔ وہ لوگ کہتے ہیں جناب وہ ایک انقلاب آیا تھا اب ختم ہوگیا۔ یہ غلط ہے۔ انقلابی تحریک میں خلفشارو انتشار، مطلق نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے برعکس انقلابی تحریکوں میں بہترین نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔
شروع میں انقلابیوں کے اندر جو بے نظمی دکھائی دیتی ہے اس کا سبب انقلابی تحریک کا ابتدائي مراحل میں ہونا ہے۔ چونکہ ایک پرانی عمارت (نظام ) کو پوری طرح نیست و نابود کرنے کے بعد اس کی جگہ ایک نئی عمارت بنانی ہوتی ہے تو یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر صحیح ستونوں پر نئی عمارت بن جاتی ہے تو اس کی بنیاد پر نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے اور تحریک آگے بڑھنے لگتی ہے اور یہ ایک طرح کا انقلاب ہے ۔اس لئے انقلابی ہونے کو بے نظمی ، افراتفری اور قانون شکنی سے تعبیر نہ کیا جائے ۔ بہرحال جہاد دانشگاہی ان اداروں میں ہے جو ملک کے علمی و سائنسی مستقبل کو سنوارنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں ۔
علم اور تحقیق کے موضوع پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک ، علم و تحقیق کے میدان کو وسعت دیئے بنا ، ترقی نہیں کرسکتا ، اور یہ بات صرف ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے علم و تحقیق ، کنجی ہے ترقی و پیش رفت کی ۔
کسی قوم و ملت کے دانشور ہونے کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے علوم سے فائدہ اٹھائے۔ یہ کام کا مقدمہ ہے علم کا دامن بہت وسیع ہے اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی کہ ہم یہ فرض کرلیں کچھ مما لک یا قوموں کے سائنسداں ، علم کی نئي نئي منزلوں کو طے کریں ، جن میں سے کچھ سے خود فیضیاب ہوں اور جو بچ جائے اسے دوسروں کو دے دیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔اگر ایسا ہوگا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ کچھ ملک ہمیشہ پچھڑے رہیں گے ۔ملکوں کے درمیان غیر منصفانہ تعلقات ہوں گے اورترقی یافتہ ملک ، ترقی پذیر ملک ، پچھڑے ہوئے ملک اور شمال و جنوب جیسی تقسیم بندی کی باتیں سننے میں آتی رہیں گی جو آج کی سیاسی گفتگو میں عام ہیں اور پچھلی صدی میں بھی رائج تھیں ۔
سبھی انسان علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں البتہ ان کی صلاحیتوں کی سطح میں فرق ہوسکتا ہے ہر ملک کے پاس باصلاحیت افراد ہیں جو علم و سائنس کے میدان میں اپنے لئے ایک مقام بنا سکتے ہیں ۔اگر کسی ملک کی تاریخ اور اس کے تجربے سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اس کی توانائیاں صلاحیتیں اعلی سطح کی ہیں ، متوسط توانائیوں سے بالاتر ہیں اور ہمارا ملک بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے، تو ایسے ملک کو چاہئے کہ علم و سائنس کے میدان اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے اور اگر اس میں کامیاب ہوجائے تو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں اس کا پچھڑاپن اور اس کے ساتھ امتیازی رویہ اور ناانصافی ختم ہوجائے گي۔ پھر وہ بھی آج کی بڑی طاقتوں اور دوسرے ملکوں سے برابری کرنے لگے گا ۔اس وقت خود اپنا انتظام چلا سکے گا ، خود کفیل ہوسکتا ہے، ایک چیز دے سکتا ہے اور ایک چیز لے سکتا ہے، جبکہ آج کی دنیا میں ایسا نہیں ہے۔
آج دنیا پر حکمفرما تسلط پسندانہ نظام کچھ دے کر کچھ لینے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ کم سے کم دے کر زیادہ سے زیادہ لینے پر یقین رکھتا ہے ۔ قوموں کے مال و دولت اور ان کے وسائل و ذرائع کو لوٹ لیتا ہے، ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی اختیارات سلب کرلیتا ہے اور اس کے بدلے میں کچھ نہیں دیتا اور اگر دیتا ہے تو کبھی ضرررساں چیز تو کبھی بہت ہی حقیر سی چیز دیتا ہے ۔ آج دنیا کا سیاسی نظام و ڈھانچہ ایسا ہی ہے۔ تسلط پسندی اور تسلط کو تحمل کرنا۔
اس نظام کو توڑنے اور عالمی روابط میں ملکوں کو ان کی قومی صلاحیتوں کے مطابق مقام دلانے میں جو چیز سب سے زیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے وہ علم و سائنس ہے اس لئے علم و سائنس کے لئے سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری تحریک شروع ہوچکی ہے لیکن ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں ۔ سائنسی اور تحقیقی مراکز کی مدد کی جانی چاہئے اور ساتھ ہی سائنسی، تحقیقی اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی سائنس اور تحقیق کا رجحان عام ہونا چاہئے۔ یہ صرف اساتذہ اور محققین تک محدود نہ رہے بلکہ طلباء کی سطح پر اس رجحان کو عام ہونا چاہئے ۔ یعنی طلباء میں علم سیکھنے اور اس میں آگے بڑھنے کا رجحان ہونا چاہئے اور یہ کام منصوبہ بندی سے ہوگا۔ سفارش، درخواست اور حکم و غیرہ سے اسے انجام نہیں دیا جا سکتا ۔ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں کی اس سلسلہ میں ذمہ داری ہے چاہے وہ وزارت تعلیم ہو ، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ہو ، وزارت صحت ہو یا وہ ادارے ہوں جن پر ملک کی تہذیب و ثقافت کے امور کی ذمہ داری ہے ۔ وہ ایسا کام کریں جس سے یونیورسٹی کا ماحول حقیقی معنی میں علم دوستی کا ماحول بن جائے ۔ ہمارا نوجوان صحیح معنوں میں سائنسداں بنے صرف ڈگری لینے کے لئے وہاں نہ جائے ۔ اس کے لئے تحریک کی ضرورت ہے اور اسے جاری و ساری رہنا چاہئے اور اس سلسلے میں حکومت متعلقہ ذمہ دار اداروں اور با اثر لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ میری یہ تاکید ہے کہ جس وقت بھی سائنسی ترقی کے لئے کام کریں، اس بات کو نہ بھولیں کہ سائنس اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ دین سے عاری علم و سائنس ہوسکتا ہے کسی ملک کوکم مدت کے لئے کامیابیوں کی منزلوں سے ہمکنار کردے لیکن طویل مدت میں انسانیت کے لئے نقصان دہ ہے ۔جیسا کہ آپ دین سے عاری سائنس کے نقصانات کو دیکھ ہی رہے ہیں۔ دین سے خالی سائنس کا نتیجہ یہی ہوگا جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا علم ایک طرف منہ زوری ، لوٹ کھسوٹ اور نسلوں کی تباہی کا ذریعہ ہے اور ایسے ہی علم کی دین ایٹم بم ہے تو دوسری طرف ایسے علم کا نتیجہ منشیات ہے اور ایسے ہی علم کے نتیجہ میں دنیا کےاکثر ممالک میں انسانی جذبہ سے خالی سیاستدان حکومت چلاتے ہیں ۔ سائنس کو دین کے ساتھ سمجھنا چاہئے سائنس کو مرضی خدا کے لئے حاصل کرن اور راہ خدا میں استعمال کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا بنیادی اصول ہے۔
آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایسے علم کی برکتیں بھی بہت ہیں۔ یہ نہ کہا جائے کہ اگر ہم نے سائنس کو مقدس مانا ، اسے دین کے ساتھ کردیا اور اللہ و رسول (ص) کی باتیں کرنے لگے تو اس سے ترقی نہیں ہوگي۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آپ کا یہی جہاد دانشگاہی اور اس کے مؤمن کارکن کہ جن کی بدولت اتنے بڑے کام انجام پائے ہیں، اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ علم جب ایمان کے ساتھ ہوگا تو اس کی برکتیں بھی زیادہ ہوں گی ۔
کچھ چیزیں اور بھی لکھ کرلایا ہو مگر اب اسے ذکر کرنے کا وقت نہیں ہے ۔بارہ بج چکے ہیں (نماز ظہر کا وقت آگيا ہے ) مجھے امید ہے کہ ہماری یہ ملاقات ان شاء اللہ ملک کے علمی اور سائنسی حلقوں کے لئے قدردانی اور شکریہ کا پیغام ثابت ہوگي خاص طور سے جہاد دانشگاہی کے لئے اور خاص الخاص طور پر رویان انسٹیٹوٹ کے لئے، خدا ان شاء اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے ، مرحوم کاظمی کی روح کو اپنی نعمتوں سے سرشار کرے اور ان کے اہل خانہ کو جو یہاں تشریف رکھتے ہیں صبر و ضبط عطا فرمائے اور ہم روز بروز رویان انسٹیٹوٹ اور جہاد دانشگاہی کی ترقیوں کا مشاہدہ کریں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ