امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نمایاں اور ممتاز شخصیت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں ۔وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت کے موقع ہر قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2007-6-6ارادہ الہی اور شرعی ذمہ داریوں میں محوامام کی شخصیت بڑی حد تک ان کے عظیم اہداف اور مقاصد سے وابستہ ہے۔ آپ اپنی بلند ہمتی کےباعث اعلیٰ اہداف کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے ایسے اہداف کا تصور بھی دشوار تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اعلیٰ اہداف ناقابل حصول ہیں۔ لیکن آپ کی بلند ہمتی، ایمان و توکل،جہد مسلسل اور اس عظیم انسان کی ذات میں پوشیدہ بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں کارفرما تھیں اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کی سمت بڑھتے چلے جاتے اور اچانک سب دیکھتے کہ وہ اعلیٰ اہداف حاصل ہوگئے ہیں۔آپ کے کام کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آپ حکم الہی اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں کھو جا یا کرتے تھے ۔ آپ کے سامنے ذمہ داریوں کی ادائگی کے سوا اور کچھ نہی ہوتا تھا۔ آپ حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کے مصداق تھے۔ آپ کا ایمان پہاڑ کی مانند مستحکم تھا اور عمل صالح کی انجام دہی میں آپ کھبی نہ تھکنے والی حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ (نیک) کاموں کی انجام دہی میں آپ انتہائی قوی اور باہمت شخصیت کے مالک تھے جو سبھی کے لئے حیران کن تھی۔وزیر اعظم اور کابینہ سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1988-6-6جامع صفات کی حامل عظیم شخصیتہمارے عظیم اور ہردلعزیز رہبر کبیر کی شخصیت کا در حقیقت انبیائے الہی اور آئمہ معصومین کے بعد کسی بھی اور شخصیت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے لئے عطیہ الہی، حجت خدا اور عظمت الہی کی نشانی تھے۔ جب انسان انہیں دیکتھا تو بزرگان دین کی عظمت کا اندازہ کر لیتا۔ ہم رسول خدا، امیرالمومینین ، سید الشہداء امام جعفرصادق اور دیگر اولیاء علیہھم السلام کی عظمت کا صحیح تصور تک بھی نہی کرسکتے ۔ ہمارے ذہن اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ ان عظیم ہستیوں کی عظمت ذاتی کا احاطہ کر سکیں یا اسے دائرہ تصور میں لاسکیں ۔ لیکن جب کوئی شخص ہمارے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کودیکھتا ہے، قوت ایمانی، عقل سلیم، حکمت و دانا ئی، صبر و بردباری، سچائی و پاکیزگی ، تجملات دنیا سے بے اعتنائی،، زھدو تقویٰ و پرھزگاری، خوف خدا، اور اللہ تعلی کا پر خلوص عبادت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس عظیم انسان اور آسمان ولایت کے خورشید تابناک کے سامنے سر تعظیم خم کر دیتا ہے اور خود کو انکے سامنے ذرے سے بھی کمتر سمجھتا ہے ، انسان کو کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء معصومین کی ذات کس قدر عظیم ہے۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7فاتح فتح الفتوحآ پ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7نماز شب کا گریہامام خمینی (رہ) ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیااور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔وہ ملت ایران کے لئے رہبر ، باپ ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے ، نیمہ شب میں پیش پروردگارگریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور قران کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھےا نہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے ۔ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8بے مثال شخصیتامام( رح) کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ( امام خمینی کا) دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا۔اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8حکیم و دانا اور دور اندیش انسانامام (رح) انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ امام (خمینی رح ) ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے ۔اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8نفس اور خواہشات پر مسلط انسانحقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان ، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے ۔امام ( رہ) مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔افق انسانی کا سورج میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا۔فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8مخلص اور عبادت گزاراصل بات یہ ہے کہ اگر امام خمینی (رہ) کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا امام(رہ) دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے۔تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10خلوص کا پیکرہمارے عظیم رہبرو رہنما اور امام (رہ) خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں۔نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11خلوص اور خدا سے رابطہ کامیابی کا رازمیرے خیال میں انکی ( امام خمینی رہ) کی کامیابی کا سب سے بڑا راز خلوص اور خدا سے رابطہ تھا ۔ آپ ایاک نعبد و ایاک نستعین کے معنی پر عمل کرنےاور خدا کی لازوال طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہونے میں کامیاب رہے۔ جب کوئی ناچیز، کمزور اور محدود ظرفیت رکھنے والا انسان کسی بحر بے کراں سے متصل ہوجائے تو پھر کوئی مشکل اسکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی ۔ کوئی بھی انسان یہ کام کرےگا تو ایسا ہی ہوگا، البتہ ہر انسان کے لیے ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہی ہے لیکن آپ( امام خمینی رہ) نے ایسا کر دکھایا۔ ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش کرنا چاہیے ۔ بزرگ ہستیاں چوٹیوں پر کھڑی ہیں ، ہمیں بھی پہاڑیوں کے دامن سے اوپر چڑھنا چاہیے اور ان کی طرف جانا چاہیے ، اگر ہم چوٹیوں تک نہ بھی پہنچ پائیں تب بھی عمل کرنا ہم سب کا فریضہ اور ذمہ داری ہے۔نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-11امام خمینی کے مشن کی خصوصیاتامام خمینی اپنے مشن کے اہداف گنواتے ہوئے فرماتے تھے عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد ، نہ مشرق نہ مغرب کے نعرے کے ضمن میں پوری قوت کے ساتھ اعتدال کو برقرار رکھنا ، قوموں کی ہمہ گیر اورحقیقی خودمختاری، حقیقی معنوں میں خود کفالت، دینی اصول و شریعت وفقہ اسلامی کے تحفظ پر مسلسل اصرار اور عزم راسخ، اتحاد ویکجہتی کی برقراری، دنیا کی مسلمان اور مظلوم قوموں پر توجہ، اسلام اور مسلمان اقوام کے وقار کی بحالی، عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مرعوب نہ ہونا ، اسلامی معاشروں میں عدل وانصاف کا قیام ، معاشرے کے مستضعف و پسماندہ اورمحروم لوگوں کی بے دریغ حمایت اوران کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش، ہم سب اس بات کے شاہد رہے ہيں کہ امام نے ہمیشہ ان خطوط پر بھرپورطریقے سے عمل کیا ہے اورکسی بھی طرح کے پس وپیش کے بغیر ان خطوط اور مشن کو آگے بڑھایاہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے راستے، اعمال صالح اوران کے کردار و رفتار کی پیروی کریں۔وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت یاتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیان سے اقتباس 1989-6-7امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد نو کی خصوصیتیںامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے عظیم امام کی خصوصیات نے نئے دورکا آغازکردیاہے اورآج جب ہمارے دل اورہماری جانیں امت اسلامیہ کی اس بے مثال ہستی کے فراق میں غمزدہ ہیں تو ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ان عصری خصوصیات کوکہ جن کا آغازامام خمینی نے کیاتھا اورپوری قوم اور دنیا کو جن سے متعارف کرایا پہچانیں اوران کو برقرار رکھیں ۔حقیقی سوگواری یہ ہے کہ ہم فریضوں پرعمل کریں وہ عصر وہ دورجس کاآغازامام خمینی نے کیا اسے جاری رکھیں اس نئے دور کی اپنی خصوصیات اورپہچان ہے ان خصوصیات میں قوم کے اندر خود مختاری و آزادی کے جذبے کی بیداری اور خود اعتمادی و خود کفالت ہیں وہ خصوصیات جنہیں قوموں سے چھین لینے کی منظم سازش کی گئي۔ اس دورکی ایک اورپہچان وخصوصیت امام خمینی جس کے موجد وبانی تھے انسانی اقدارکااحترام اوراس کی جانب رجحان ، عدل وانصاف اورانسانوں کے لئے حریت وآزادی اورلوگوں کےنظریات اوران کی رای کا احترام ہے ۔ یہی عظیم شخصیت جسے پوری دنیاکے لوگ آج احترام سے یاد کرتے ہيں اورجس کی عظمت وبزرگي کے صدق دل سے معترف ہيں کہتی تھی کہ مجھے رہبر کےبجائے خادم کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ یہ بات بڑی سنجیدگی سے فرماتے تھے اوراس میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے تھے وہ اس قدر عوام کااحترام کرتے تھے کہ خود کو ان کا خدمت گزارکہتے تھے ہم اس طرح کی پوری دنیامیں کوئی نظیرومثال نہیں رکھتے اورتاريخ میں اس جیسی شخصیت کی مثال نہيں ملتی ۔فوجی کمانڈروں اورولی فقیہ کے نمائندوں کی طرف سے بیعت وتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1989-6-11امام خمینی کے مشن اور راستے کا تعینامام خمینی کا مشن ان کا راستہ جس پر ایرانی قوم رواں دواں ہے اسلام اورمسلمانوں کی عظمت و سربلندی، محروموں اور مستضعفوں کے کے دفاع کا راستہ ہے جس نے ایرانی قوم کو پوری دنیا میں ایک زندہ اور سرافراز و آزاد قوم میں تبدیل کر دیاہے۔ یہ قوم آج دنیاکی سب سے بیدار اور فعال قوم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے، اب یہ قوم دوسروں پر منحصر اور نہیں رہ گئی ہے۔ یہ وہ خط ہے کہ جس نے اسلام کے تئیں لوگو ں کے دلوں میں عشق و محبت کا جذبہ جگایا ہے اورانھیں اس راستے میں بے مثال فداکاریوں اورقربانیوں کا حوصلہ دیا ہے یہ راستہ، ہماری زندگی ہے یہی ہمارا وجود اورہمارا انقلابی اور قومی تشخص ہے ۔ پرودگار عالم کے فضل وکرم سے ہم اس راستہ ہر پوری پائداری و ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہیں جس کی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری تحریک کے دوران ہمیں تعلیم دی ہے۔ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ اوران کے مشن، ان کے انقلاب ان کی کوششو ں اور ایثار کو اپنی حیثیت اور سکت کے مطابق جاری رکھنے کے لئے آمادہ ہیں ۔ ہمارا لہو اور ہماری زندگي اس راہ پر قربان ہے ۔ ہماری سعادت خوشبختی اسی میں ہے کہ اپنی زندگی اسی راہ میں گذاريں اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔صدرکی تقرری اورتوثیق کی تقریب میں رہبرانقلاب کا خطاب 1989-8-3حقیقی رہنماامام خمینی کے بعد گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران ہم نے ہدایت کا جو راستا طے کیاہے وہ کوئی معمولی اورعام راستہ نہیں ہے اس مشکل ترین راستے کو طے کرنے کے لئے تائيد غیبی اور توفیق الہی ناگزیر ہے۔ ہم عجیب وغریب پیچ وخم سے گذرے ہيں ۔ امام خمینی کی قیادت ورہبری کی برکت کی وجہ سے عجیب وغریب نشیب وفرازکو ہم نے عبورکیاہے اس راستے کو طے کرنے میں تائيد الہی ہمارے شامل حال رہی ہے ،خود امام خمینی کابھی اسپر ایقان و ایمان تھا میں نے خود ان کی زبانی سناتھا۔ وہ فرمایاکرتے تھے کہ میں انقلاب کے آغازسے ہی اس بات کا احساس کررہاہوں کہ ہر مقام پر راہ راست دکھانے اور ہدایت کرنے والا غیبی ہاتھ ہماری مدد کررہاہے اوریہ ہاتھ ہمارے آگے آگے چل رہاہے نتیجتا راستے ہمارے لئے آسان ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ واقعی ایک حقیقت تھی کہ خداوند عالم نے ہماری سعی و کوشش اور خلوص و رغبت کے عوض ہماری مدد فرمائی تھی۔ یہ ہدایت و تائيد الہی غافل انسان کو میسرنہیں ہوتی۔ اسی مناجات شعبانیہ میں ارشادہوتاہے کہ دل کی آنکھ کو منورکرنا اور بیدار دل کے لئے حقائق کو روشن کرنا اور مومن کو چشم بصیرت عطاہونا یہ سب مفت اوربلاسبب انجام نہیں پاتا۔ بغیرجدوجہد اور سعی وکوشش کے خدا سے ارتباط ممکن نہیں ہوپاتا ۔امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد سے ملاقات میں خطاب 1990-3-1امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دس سالہ دورایک انقلابی معاشرے کا نمونہامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کایہ دس سالہ دور ایک انقلابی معاشرے کا بہترین نمونہ ہے ۔ امام خمینی کی حیات مبارک کے آخری دس سال ہمارے انقلابی معاشرے کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے اورانقلاب کا اصلی راستہ وہي ہے جو امام خمینی نے ہمیں دکھایا۔ خام خیالی میں مبتلا ہمارےاندھے دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ امام خمینی کی رحلت کے بعد وہ انقلابی راستہ بھی معاشرے سے رخصت ہو جائے گا جس کے بانی امام خمینی تھے۔ امام خمینی ہمیشہ زندہ رہنےوالی حقیقت کانام ہے ۔ ان کا نام اس انقلاب کاپرچم، اور ان کی راہ اس انقلاب کی راہ ، اور ان کے اہداف اس انقلاب کے اہداف ہيں۔ امام خمینی کی امت اور ان کے شاگرد جو اس ملکوتی وجود کے سرچشمہ سے سیراب ہوئے ہیں اورجنھوں نے اپنا اسلامی عز و شرف اسی ذات سے حاصل کیا ہے اس وقت اس بات کامشاہدہ کررہے ہيں کہ دوسری مسلمان اور غیر مسلم قوميں بھی اس عظيم قائد و رہنما کی انقلابی تعلیم کے نسخے کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں اور انھوں نے اپنی آزادی و سربلندی اسی راہ میں پائی ہے۔ آج اس دور کی اس بے مثال تحریک کی برکت سے پوری دنیاکے مسلمان بیدار ہو چکے ہيں اور ظالمانہ تسلط کے شاہی محل کھنڈرات میں تبدیل ہورہے ہیں۔ قوموں نے قومی تحریک کی اہمیت کو درک کرلیاہے اور انھوں نے شمشیر پر خون کے غلبے کا تجربہ کرلیاہے دنیا والوں کی نظریں ایران کی شجاع قوم پو ٹکی ہوئي ہیں۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پہلی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام کا اقتباس 1990-5-31اسلامی جمھوریہ کی تشکیل کے بنیادی عناصر اسلامی جمھوری نظام کی تشکیل کا ایک بنیادی عنصر اسلام پسندی اور مستحکم اسلامی اور قرآنی بنیادوں پر تکیہ ہے- امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام پرتکیہ کیا اور اسلام کے نام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بات پر ان کا اصرارتھا کہ ملک کے تمام سرکاری محکموں اورسماج کے اندر اسلامی قوانین اوراصولوں کو حقیقی معنای میں نافذ کیا جائے البتہ یہ ایک طویل المیعاد کام تھا۔ امام بھی اس کو جانتے تھے کہ مختصر سے عرصے میں یہ مقصود حاصل نہيں کیا جاسکتا ، امام نے راستہ کھلا رکھا اوراپنی تحریک شروع کردی اور سمت کی بھی نشاندہی فرمادی اور سب یہ سمجھ گئے کہ تمام معنی میں اسلامی تعلیم اور اسلامی احکامات کی جانب ہی رخ کرنا ہے اور معاشرے و نظام کو اسلامی معاشرہ اورنظام بناناہے تاکہ انصاف قائم کیا جاسکے غربت کا خاتمہ ہو بدعنوانیوں کوجڑسے اکھاڑ پھینکا جائے اور قوم کوجو مسائل اور مشکلات در پیش ہیں ان کا ازالہ ہو۔دوسراعنصر جس پر امام خمینی بہت زیادہ توجہ فرماتے تھے وہ عوامی عنصرتھا - امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے عوامی نظام پر یقین رکھتے تھے جو صحیح معنوں میں اسلامی ہو اورجس کا بنیادی عنصر عوام ہوں۔ وہ عوام کو تمام موقعوں اور مرحلوں پر خاص توجہ کا مرکزقراردیتے تھے پہلاموقع نظام کی تشکیل کا تھا اس موقعے پر آپ نے فرمایا کہ نظام ایسا ہونا چاہئے جسے عوام پسند کرتے ہوں اور جس سے وہ راضی ہوں۔ دوسرا مرحلہ عوام کے سلسلے میں حکام کی ذمہ داریوں کا تھا - تیسرا مرحلہ ملک کی ترقی وپیشرفت میں عوام کے افکارونظریات اور تعاون سے استفادے کا تھا یعنی یعنی عوام کی صلاحیتوں کا نکھارا جائے اور پھر اس سے استفادہ کیا جائے۔ اسی طرح عوا م کوہمیشہ تمام امور سے آگاہ اور باخبر رکھا جائے -تیسراعنصر جوامام کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا وہ نظم ونسق کا عنصر تھا یہی وجہ تھی کہ انقلاب کی کا میابی سے قبل ہی امام نے حکومت کا تعین کردیاتھا -چوتھا بنیادی عنصرجسے امام نے اسلامی جمھوری نظام کی بنیاد قراردیا اوربحمد اللہ جس کی وجہ سے یہ نظام باقی ہے وہ دشمن کے مقابلے میں استقامت اورتسلط کوقبول نہ کرناہے۔ امام نے ایک لمحے کے لئے بھی دشمن کے مکروحیلے سے خود کوغافل نہیں رکھا اورنہ حکام کو غافل ہونے دیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقدکے زائرین سے خطاب سے اقتباس 2001-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا بے مثال فنامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ اور ہنر قوم کی مدد سے اپنی تحریک کے ذریعے اس سیاسی نظام کاخاتمہ کرنا تھا جو ایک بے ضمیر اور پٹھو شاہی نظام تھا وہ ایک ایسا نظام تھا جس کے حکام اورعہدیداروں کو نہ تو قوم کے جوانوں کے مستقبل کی کوئي فکر تھی نہ ہی ملک کی خود مختاری سے کوئي دلچسپی۔ رفاہ عامہ کے امور تو ان کے نزدیک درخور اعتنا ہی نہیں تھے۔ ملک کا نظم و نسق ایسا تھا کہ اسے نظم و نسق کا نام دینا مناسب نہیں جبکہ یہ وہ نظم و نسق تھا جس کی تھئوری دوسرے ملکوں سے درآمد کی گئي تھی یہ ایک خالص ڈکٹیٹرشپ اورآمرانہ نظام تھا ۔ ایسا نظام جومختلف عناوین اورگوناگوں روشوں سے کہ جن میں سے کوئی بھی روش عوا م کے عزم وارادے کی آئینہ دارنہ تھی اورکوئی بھی روش ملک کے مفاد میں بھی نہ تھی ،چلایاجارہاتھا ۔ انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا ۔امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگردامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دوسری اہم بات جسے میں آج آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں اورمختصرا عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ اس طرح کی عظيم تحریک عام طورپر رجعت پسندی یا پسپائی جیسے مسائل سے دوچارہوجاتی ہیں۔ اس طرح کے عظيم کارناموں کے سامنے رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔ رجعت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ کوئي شخص اسلام کےاصولوں اورفقہ اسلامی کے تناظر میں معاشرے کی تشکیل کرے لیکن وہ ظواہر پر ہی اکتفا کرلے اور اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی چاشنی اور معنوی کشش سے نا بلد رہے اور اس کا تشکیل کردہ نظام کسی قوم کسی ملک کے مسائل کے حل پر قادر نہ ہو۔ دیکھئے اسلامی تعلیمات کی ہر انسان کو ہر آن ضرورت رہتی ہے اب اگر اسلامی نظام کو تشکیل دینے والا شخص ان اصولوں، احکام اور تعلیمات سے بے خبر ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اگرایک ایسے سیاسی نظام کے سربراہوں کی حالت جواپنے نظام کواسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کے دعوے کرتے ہیں ایسی ہوگي تویقینی طور پر اسلام بدنام ہوجائے گا اور اسلامی احکام و معارف کا لازوال سرچشمہ معاشرے کو سیراب نہیں کر سکے گا ۔ امام نےخود کواس آفت سے مبراکرلیاتھا ۔دوسری آفت وبلا جواس طرح کے مواقع پر حکام اورعہدیداروں کو خطرات سے دوچارکرتی ہے وہ موقف سے پسپائی ہے یہ ایک خطرہ ہے یہ ایک بڑاخطرہ ہے جو صاحبان فکر و نظر کو لاحق رہتا ہے۔ امام خمینی(رہ) اس آفت کے مقابلے میں پہاڑ کی مانند ڈٹے رہے اورکوہسارکی مانند ثابت قدم رہے (کالجبل لاتحرکہ العواصف ) امام اس نظام کی تشکیل اور چھوٹے بڑے تمام امور میں ہمیشہ ثابت قدم رہے۔امام خمینی کی برسی میں شریک زائرین سے رہبرانقلاب اسلامی خطاب 1997-6-4محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کے سپاہی محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کا لشکر ہیں اور یہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کا شاخصانہ تھا۔ دو چیزیں اس انقلاب کا گرانقدر سرمایہ تھیں اورہيں۔ ایک یہ ہے کہ انقلاب کا نصب العین اسلام اور دوسرے انقلاب کے سپاہی اوراس انقلاب کا لشکرمستضعف، ومحروم طبقہ اورجوان نسل ہے ۔ انقلاب کو مستضعف اورغریب طبقے نے کامیابی سے ہمکنارکیاہے اور آٹھ سالہ طویل جنگ کو اس مملکت کے جوانوں نے فتح مبیں میں تبدیل کر دیا اورآج بھی ہمارے جوان اللہ اوراس کے دین کی راہ میں قدم بڑھارہے ۔آج بھی اگر انقلاب کوکوئی خطرہ لاحق ہوگا توسب سے پہلے میدان میں جولوگ اتریں گے وہ ہمارے نوجوان ہوں گے ۔دینی تعلیمی مراکز کے نوجوان یونیورسٹیوں کے نوجوان پورے ملک کے نوجوان اورمختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالے نوجوان اورافراد ہوں گے جواس انقلاب کی حفاظت کے لئے میدان میں قدم رکھیں گے ۔امام خمینی اپنے پورے وجود کےساتھ اسلام کے شیدائی تھے اور آج سب لوگ پورے وجود کےساتھ امام کوچاہتے ہيں۔ امام کی باتیں بہت ہی صاف وشفاف ہیں ان کے کلمات واضح کلمات ہيں ان کے کلمات قرآنی جھلک ہے ۔ امام کے خطابات اوران کی باتیں آج بھی فضا میں گونج رہی ہیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ اپنے امام کے ساتھ امت کا دائمی میثاق ہے۔ سب کوچاہئے کہ ان کی ان باتوں کوصحیح طریقے سے درک کریں اوران میں غور و فکر کریں تاکہ امام کی راہ کو صحیح طور پر پہچان سکیں اوراس میں کوئي غلطی نہ کریں ۔جولوگ امام سے محبت کادم بھرتے ہيں لیکن امام کے افکار ان کی راہ و تعلیمات سے دور ہیں ہو امام خمینی(رہ) کے شیدائي نہیں کہے جا سکتے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نويں برسی میں شریک سوگواروں کے عظیم الشان اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کےخطاب سے اقتباس 1998-6-4سماجی انصاف اورعوام پراعتماد میں چند اہم باتیں جنہیں ہم امام کی راہ و روش سے تعبیرکرتے ہيں یہاں پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ باتیں ہمیشہ امام کے پیش نظر رہتی تھیں، ان میں پہلے مرحلے میں تو اسلام ہے۔ امام اسلام سے بڑھ کرکسی بھی چیزکواہمیت نہيں دیتے تھے ۔ امام کی تحریک اورانقلاب اسی اسلام کی حاکمیت کے لئے ہی تھا اورعوام نے بھی کہ جنھوں نے اس نظام کوقبول کیا انقلاب برپا کیا اورامام کو( رہبر ) تسلیم کیاتھا وہ سب اسلامی جذبے کے تحت تھا - سب سےپہلی چیزجوامام کی نظرمیں اوران کے مشن میں سب سے اہم تھی وہ اسلام کے احکامات پر عمل آوری اورایمان وعمل کے میدان میں اسلام کی حاکمیت تھی ۔دوسری بات عوام پر تکیہ اوراعتماد ہے ۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ۔ کسی کو بھی اسلامی نظام میں عوام ،عوام کی رائے اورعوام کی خواہشات کونظراندازنہیں کرناچاہئے ۔ کچھ لوگ اب عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد قراردیتے ہيں کم ازکم عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد تومانتے ہيں ۔عوام کی رائے کے بغیر،عوام کی مشارکت کے بغیر اورعوامی خواہشات کا احترام کئے بغیر اسلامی نظام کا خیمہ اوراس کا ستون ٹھہرنہیں سکے گا اوراس کی بنیاد مضبوط نہیں ہوسکے گی ۔ البتہ عوام ، مسلمان ہيں اورعوام کا یہ ارادہ اوران کی خواہشات بھی اسلامی احکامات وقوانین کے دائرے میں ہی ہیں۔ امام کے مشن کی تیسری خصوصیت سماجی انصاف کاقیام اورمحروم ومستضعف افراد کی مدد کرناہے کہ امام انہی لوگوں کواس انقلاب کا وارث اوراس ملک کا مالک سمجھتے تھے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ غریب طبقے کواس انقلاب کی کامیابی کا سب سے اہم عنصر سمجھتے تھے - ایک اورعنصر دشمن کوپہچاننا اوردشمن کے فریب میں نہ آناہے دشمن کا پہلاکام یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کرتاہے کہ کوئی بھی دشمن نہيں ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی نظام کاکوئی دشمن نہیں ہے ؟ اس اسلامی نظام نےعالمی لٹیروں کوجوسالہاسال اس ملک کی دولت کولوٹتے رہے اس سنہری موقع سے محروم کردیاہے۔ ظاہرہے کہ وہ دشمن تو ہوں گے ہی ۔ اورہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ ہم سے دشمنی کررہے ہيں ۔ پروپیگنڈوں میں ، اقتصادی پابندیوں میں اورجہاں جہاں بھی ان سے ممکن ہوتاہے ہمارے نظام کے خلاف دشمنی کرتےہيں اوریہ بات وہ کھل کرکہتےبھی ہیں ۔نمازجمعہ کے خطبہ سے اقتباس 1999-6-4تمام اصولوں کا محور اسلام اورعوام ہيں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کے تمام اصول وقواعد کامحور دو چیزیں تھیں ۔ایک اسلام اوردوسرے عوام ۔ عوام پراعتماد کانظریہ بھی امام نے اسلام سے حاصل کیا ۔ یہ اسلام ہے جو قوموں کے حقوق ، ان کی آراء ، اور عوامی جہاد کے اثر اور اس کی اہمیت پر تاکید کرتاہے۔ اسی لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشن کا محوراسلام اورعوام کوقراردیاتھا ۔ یعنی اسلام کی عظمت عوام کی عظمت ، اسلام کااقتدارعوام کااقتدار، اسلام کا ناقابل تسخیررہناعوام کا ناقابل تسخیررہناہے ۔اسلامی جمھوریہ ایران کے بانی کی چوتھی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2003-6-4امام کے سیاسی مکتب فکر کی شناخت میں امام کے سیاسی مکتب فکر پر تکیہ کرناچاہتاہوں ۔امام کا سیاسی مکتب فکر ان کی پرکشش شخصیت سے جدانہیں ہوسکتا ۔امام کی کامیابی کارازاس مکتب فکر میں پنہاں ہے جسے انھوں نے متعارف کرایاہے اورجسے انھوں نےایک نظام کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ البتہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب عوام کے ہاتھوں کامیاب ہوا اورایرانی عوام نے اپنی بے پناہ توانائیوں اورصلاحیتوں کا مظاہرہ کیا لیکن امت امام کے بغیر اوران کے سیاسی مکتب فکر کے بغیر اس عظیم کام کوانجام دینے پر قادرنہیں تھی ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ایک ایسا باب وا کرتا ہے کہ جس کا دائرہ اسلامی نظام کی تشکیل سے بھی کافی وسیع ہے ۔ وہ سیاسی مکتب فکر کہ جسے امام نے پیش کیا اورجس کے لئے جدوجہد کی اس میں دنیاوالوں کے لئے ایک نئی بات ہے اوراس کے ذریعہ انھوں نے دنیاوالوں کے سامنے ایک نئی بات رکھی اور نئي راہوں کی نشاندہی کی۔ اس مکتب فکر میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں کہ انسانیت جسے حاصل کرنے کے لئے بے قرار ہے اسی لئے یہ باتیں کبھی بھی پرانی نہيں ہوں گی ۔ جو لوگ کوشش کررہے ہيں کہ امام کوایک ایسی شخصیت کے طور پرپیش کریں جوتاریخ کاحصہ بن چکی ہو اورجو ماضي کی بات بن چکی ہے وہ اپنی اس کوشش میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے ۔امام اپنے سیاسی مکتب فکر کی شکل میں زندہ ہيں اورجب تک یہ سیاسی مکتب فکر زندہ ہے اس وقت تک امام کا وجود، امت اسلامیہ کے درمیان بلکہ بشریت کے درمیان باعث برکت اورجاوداں رہے گا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا سیاسی مکتب فکر بہت سی غیرمعمولی خصوصیات کا حامل ہے ۔میں یہاں پر ان میں سے چند کی جانب اشارہ کرناچاہوں گا ۔ان میں سے ایک خصوصیات یہ ہے کہ امام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت اورسیاست باہم آمیختہ ہيں اورامام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت سیاست سے جدانہیں ہے ، سیاست وعرفان سیاست واخلاق ۔ امام جواپنے سیاسی مکتب فکر کے مجسم نمونہ تھے ان کے اندرسیاست اورمعنویت ایک ساتھ جمع تھی امام کے تمام اعمال وافعال اوران کے تمام اصول خدا اور معنویت کے محورکے گرد گھومتے تھے ۔امام کے اندرسیاست اورمعنویت باہم تھی اور آپ اسی پرعمل کرتے تھے حتی اپنی سیاسی جدوجہد میں بھی وہ اپنامحورمعنویت کوہی قراردیتے تھے ۔ امام کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے دنیا کی احسن تقویم کے معیار پر تخلیق فرمائی ہے اور وہ اس دنیا کو چلانے والا اور اس کا مالک ہے ۔ آپ کا کہنا تھا کہ جو اللہ کی شریعت کی ترویج کے راستے میں قدم بڑھاتاہے الہی سنت اورقوانین الہی اس کی مددکرتے ہيں ۔امام کا یہ یقین تھا کہ (وللہ جنودالسماوات والارض وکان اللہ عزیزاحکیما) امام قوانین شریعت کوہی اپنے اقدام وتحریک کی بنیاد سمجھتے تھے اورقوانین الہی کوہی اپنی تحریک کی علامت سمجھتے تھے ۔امام کا ہر اقدام اور تحریک ملک وقوم کی فلاح وسعادت کے لئے تھے جو اسلامی اورشرعی تعلیمات کی بنیادپرشروع کئے گئے۔ اسی لئے الہی فریضہ ہی امام کی نظرمیں سعادت وبھلائی کی کنجی تھی۔ یہی چیزامام کوبڑے بڑے اہداف تک پہنچانے میں مدد دیتی تھی ۔دوسری خصوصیات عوام کے کردارپر پختہ اورسچایقین ۔ اوراسی طرح انسان کی شرافت اورانسان کے ارادے کے فیصلہ کن ہونے کے بارے میں یقین بھی امام کے مکتب فکر کی ایک اہم خصوصیات ہیں۔ امام کے سیاسی مکتب فکر میں انسانی تشخص گرانقدرہے اور انسان عزت و اکرام کے لائق ہے اوراسی طرح انسانی تشخص طاقتوربھی ہے اورکارسازبھی۔ انسانی تشخص کوگرانقدراورباشرف سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی معاشرے کا نظم ونسق چلانے میں عوام کی آراء بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہیں ۔ ہمارے عظیم امام کے سیاسی مکتب فکر میں عوام کی رائے کا احترام یا جمھوریت، اسلامی تعلیمات سے اخذ کی گئی تھی اوریہی حقیقی جمھوریت ہے ، امریکی یا وہ جمھوریت نہيں ہے جس میں عوام کونعروں کے ذریعے محض فریب دیاجاتاہے اورلوگوں کےذہنوں کواغواکیاجاتاہے ۔امام کے سیاسی مکتب فکر کی تیسری خصوصیت ، اس مکتب فکر کا عالمی اوربین الاقوامی زاویہ نگاہ ہے۔ امام کےکلام میں مخاطب انسانیت ہے نہ فقط ملت ایران ۔ ایران کی قوم نے امام کے اس پیغام کودل کی گہرائیوں سے سنا، قبول کیا اوراس پرعمل کیا اس کے لئے جدوجہدکی اور وہ اسی کے سایہ میں عزت وخودمختاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ پیام تمام بشریت کے لئے ہے ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ، پوری امت اسلامیہ اورپوری انسانیت کے لئے فلاح و بہبود اور عزت و خود مختاری کا ضامن ہے، یہ ایک مسلمان انسان کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے اور ساتھ ہی اس کے کاندھے پر بڑی ذمہ داری بھی ، البتہ امام میں اوران لوگوں میں جواپنے آپ ہی اپنے لئے عالمی ذمہ داری کے قائل ہیں یہ فرق ہے کہ امام کا سیاسی مکتب توپ ٹینک اسلحہ اورشکنجہ کے ذریعہ کسی قوم کواپنا پیرونہیں بناناچاہتا ۔ امریکی کہتےہيں کہ ہماری ذمہ داری عالمی سطح کی ہے اور ہم دنیامیں جمھوریت اورانسانی حقوق کا قیام و فروغ چاہتے ۔ کیا ڈیموکریسی کو پھیلانے کا طریقہ یہی ہے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم گرایاجائے؟ اسی طرح لاطینی امریکہ اورافریقہ میں حکومتوں کے خلاف بغاوت اورجنگ کی آگ بھڑکائی جائے؟ آج بھی مشرق وسطی میں فریب کاری، سازش اور ظلم و ستم کابازارگرم ہے۔ وہ اس طرح سے انسانی حقوق اوراپنی عالمی ذمہ داری کوپوراکرناچاہتے ہيں ۔جبکہ اسلام کاسیاسی مکتب فکر ذہن انسانی کو اعلی افکار و نظریات سے معمور اور نسیم بہاری کی مانند فضا کو معطر کر دیتا ہے۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی مکتب فکر کی ایک اوراہم خصوصیت، اقدار کی پاسداری و حفاظت ہے کہ جسے امام نے ولایت فقیہ کے مسائل بیان کرتے وقت واضح کردیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے آغاز اور اسلامی انقلاب کی کامیابی واسلامی نظام کی تشکیل کے بعد سے ہی بہت زیادہ کوشش ہوئی کہ ولایت فقیہ کے مسئلہ کو گمراہ کن انداز میں اورحقیقت کے برخلاف پیش کیا جائے۔ اسلام کے سیاسی نظام سے مختلف اور امام کے سیاسی نظريئے کے بالکل منافی مطالبات اور توقعات جو آپ دشمن سے مرعوب عناصر کی زبانی سنتے ہیں یہ کوئی نئي بات نہیں ہے شروع سے ہی یہ لوگ دوسروں کے کہنےمیں آکر اس طرح کی باتیں کرتے آئے ہیں ۔امام کے سیاسی مکتب فکر کی پہچان کے عنوان سے آخری بات جو میں یہاں بیان کرناچاہتاہوں وہ سماجی انصاف ہے۔ سماجی انصاف امام کے سیاسی مکتب فکر کا ایک بہت ہی اہم عنصر اورخصوصیت ہے ۔ حکومت کے تمام پروگراموں، قانون سازی اوراس پر عمل درامد، عدالتی امورغرضیکہ ہرجگہ آپ نے سماجی انصاف و مساوات کومد نظر رکھا اورآپ اس سلسلے میں سماجی اورطبقاتی شگاف کوپر کرنے پر بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ امام کے سیاسی مکتب فکر کا یہ خاصہ تھا .امام خمینی (رہ) کی رحلت کی پندرہويں برسی پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2004-6-4ایرانی عوام کی فلاح وسعادت کی راہ ہماری راہ ہے جیسا کہ اس عظیم مردمجاہد نے ہمیں بتایاہے یہ راستہ استقامت اوراسلامی نظام کے اہداف کے حصول کاراستہ ہے ۔ امام کے دروس اور ان کی وصیت کے مطابق قوم کاراستہ یہی ہے ۔ پورے ایران میں ہمارے بھائي بہنیں توجہ دیں کہ ایرانی عوام کی سعادت کی راہ اسلامی و الہی احکام سے تمسک ہے۔ ایرانی قوم کی سعادت کا راستہ اپنے صلاحیتوں پر بھروسہ اوراپنی توانائیوں اوراستعداد پریقین ہے قوم کی فلاح کاراستہ عالمی تسلط پسندطاقتوں سے قطع امید کا راستہ ہے اورساتھ ہی ان سے بے خوفی کا درس دیتا ہے ۔ نہ تو ان سے ذرہ برابر خوف کھائيے اورنہ ہی ان سے ذرہ برابرامید رکھئے ۔ عزیزان گرامی ، اس اسلامی انقلاب نے جو سب سے بڑا ہدیہ قوم کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے بد عنوان پٹھو حکومتوں کے شر سے ملک و قوم کو نجات دلائی جو برسہا برس تک ظلم و ستم کے نشانے پر تھے اور اپنے قدرتی ذخائر کو غیروں کو ہاتھوں لٹتا دیکھ رہے تھے۔ آج خداوندعالم کے فضل وکرم سے ملک ( کا انتظام ) چلانے والے خود اسی ملک کے لوگ ہيں آج ہماری قوم کی ہمت و شجاعت اور فہم و فراست سے ملک میں عوام کی منتخب کردہ حکومت بہترین شکل میں ملک کا نظم نسق چلا رہی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پانچویں برسی ميں رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1994-6-4ایرانی عوام کے کارناموں کے عظیم ثمرات اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ عزت وشرف کی راہ کو جاری رکھے تو کامیابی اس کا مقدر ہوگی جیسا کہ بحمداللہ ان چند برسوں میں اسلامی جمھوری نظام کے پرتو میں خدمت گزار حکام کی کوششوں سے مختلف میدانوں میں پیش رفت ہو رہی ہے اورترقی وپیشرفت کےثمرات دیکھے جارہے ہيں ۔ اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ یہ ترقی وپیشرفت اسی طرح سے جاری رہے اور قوم رفاہ وآسائش میں زندگی گزارے اورکسی بلند مقام پر پہنچے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمنوں اور استکباری طاقتوں کے مقابلے میں استقامت اور پائمردی دکھاتی رہے۔ ایرانی عوام نے گزشتہ چند برسوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ہيں اوراس کے ثمرات بھی حاصل کئے ہيں اسی لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان ثمرات کاتحفظ کرے۔ ایرانی قوم اوربالخصوص حکام کوچاہئے اوران کی ذمہ داری ہے کہ اپنی تدبیر، دانشمندی، اور فہم و فراست سے ایرانی عوام کے ان گرانقدرثمرات کو ضائع ہونے سے بچائے خواہ وہ کامیابیاں جو براہ راست انقلاب کے ذریعہ قوم کو ملی ہیں، جیسے عوامی حکومت، عوامی صدر، عوامی نمائندے وغیرہ یا وہ ثمرات جوانقلاب سے متعلق ہيں مگربالواسطہ طورپراس قوم کو دئے گئے ہيں جیسے ملک کی تعمیر و ترقی کہ یہ سب انقلاب کی برکت کانتیجہ ہے اورانقلابی عناصر نے ان کارناموں کو انجام دیا ہے اور جو سارے بنیادی کام مختلف شعبوں اورمیدانوں میں انجام پائے ہيں اس طرح کے ثمرات کو ایرانی عوام اورحکام کو چاہئے کہ محفوظ رکھیں اور دل وجان سے ان کی حفاظت کریں، یہ بات ظاہر ہے کہ ان ثمرات کی حفاظت اور مزید ثمرات اورکامیابیوں کے حصول کاراستہ یہ ہے کہ ملت ایران اور ایران کے حکام اس راہ کو جس کی نشاندہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عمل کے ذریعہ کی ہے یعنی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت اورپائمردی کا راستہ اور ملک کے باہر جو لوگ دریدہ دہنی کررہے ہيں ان کی دریدہ دہنی کے مقابلے میں ثابت قدمی کا راستہ، اس سے کبھی بھی منحرف نہ ہوں۔ یہ جو بار بار کہا جا رہا ہے کہ (امام کی راہ) سےکیامراد ہے ؟ اگرہم کہیں کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب ہے تو یہ ایک کلی بات ہے یہ بات تو ا ظہرمن الشمس ہے کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب کا ہے اورکوئی بھی شخص اسلام وانقلاب کامخالف نہیں ہے ۔وہ عامل جو امام بزرگوار کے مقصود کو جو انقلاب کے معمار اور بانی ہيں صحیح طور پر پیش کرتا ہے استقامت ہے جسے انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا تھا اورجس کا انھوں نے مظاہرہ کیاتھا وہ دشمن کے مقابلے میں سرموبھی پیچھے نہيں ہٹے، دشمن سے ذرابھی نہيں ڈرے اور دشمنوں کی دھمکیاں ان کے ارادوں میں معمولی سا بھی خلل ایجاد نہ کرسکیں ۔امام خمینی (رہ) کے مرقد مطہرپر زائرین کے اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1996-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر اور انقلاب کے ثمرات و برکات آپ وہ روح اللہ تھے کہ جنھوں نے موسوی عصا اور یدبیضاء اورمصطفوی بیان وفرقان سے مظلوموں کی نجات کی راہ ہموار کی، انھوں نے وقت کے فرعونوں کے تخت وتاج کولرزہ براندام کردیا اورکمزوروں کے دلوں کو نورامید سے روشن ومنور فرمایا، انھوں نے لوگوں کو وقار اور مومنوں کو عز و شرف عطا کیا اور مسلمانوں کو قوت و شوکت اور مادی وبے روح دنیا کو روحانیت و معنویت عطا کی اور عالم اسلام کو بیداری اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو شجاعت ودلیری اور درس شہادت دیا۔ انھوں نے طاغوتی بتوں کو پاش پاش کردیا اور شرک آلود اعتقادات کو کاری ضرب لگائي، آپ نے پوری دنیا کو یہ سمجھا دیا کہ انسان کامل ہونا حضرت علی کے نقش قدم پر چلنا اور عصمت کی سرحدوں کے قریب تک پہنچ جانا کوئی افسانہ نہیں ہے۔ انھوں نے قوموں کو بھی یہ باور کرا دیا کہ خود اعتمادی کے ساتھ تسلط پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ممکن ہے ۔ قرب حق کی چمک صاحبان بصیرت نے ان کے چہرہ منور پر دیکھی ہے اور ان کی حیات و ممات کے دوران ان پر نازل ہونے والی الہی نعمات و برکات سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں آپ کہتے تھے ( الہی لم یزل برّک علیّ ایام حیاتی ، فلاتقطع برّک عنی فی مماتی ) ۔امام خمینی کے چہلم کی مناسبت سے عوام کے نام پیغام2007-7-14 امام خمینی (رہ) کے دس عظیم کارنامے امام خمینی (رہ) کاپہلاعظیم کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلام کو حیات نو عطا کی۔ گزشتہ دوسو برسوں سے سامراجی مشینریوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کوفراموش کردیاجائے۔ برطانیہ کے ایک وزیر اعظم نے دنیاکے سامراجی سیاستدانوں کے اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ اسلام کو اسلامی ملکوں میں گوشہ نشین کردیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد اس کام کے لئے بےپناہ پیسے خرچ کئے گئے تاکہ اسلام پہلے مرحلے میں لوگوں کی زندگی سے ختم ہوجائے اوردوسرے مرحلے میں لوگوں کے دل و دماغ و ذہن سے نکل جائے کیونکہ سامراجی طاقتوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ دین بڑی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے امام نے اسلام کودوبارہ زندہ کیا اسلام کوانھوں نے لوگوں کے ذہنوں اورعمل میں اوراسی طرح دنیاکے سیاسی میدان میں اتارا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کے وقار کو بحال کرنا تھا امام خمینی کی تحریک کے نتیجے میں پوری دنیاکے مسلمانوں نے عزت وسربلندی کااحساس کیا اور اسلام محدود بحثوں سے نکل کر باقاعدہ سماجی اور سیاسی میدان میں وارد ہوا۔ ایک بڑے ملک کے ایک مسلمان شخص نے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مجھ سے کہاکہ اسلامی انقلاب سے پہلے میں خود کو کبھی بھی دوسروں کے سامنے مسلمان ظاہر نہيں کرتا تھا ۔ اس ملک کے رسم و رواج کے مطابق سبھی لوگ وہاں کے مقامی نام رکھتے ۔ اگرچہ گھرکے اندرمسلمان اپنے بچوں کے نام اسلامی رکھتے لیکن گھرکے باہر وہاں کا مقامی نام پکاراجاتا اور اسلامی نام کوگھرکے باہرظاہرکرنے کی جرات نہ ہوتی تھی اوراس کو بتانے سے گریز کیا جاتا تھا ہم خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے احساس شرمندگی کرتے ، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے یہاں کے لوگ بڑے فخر کے ساتھ اپنا اسلامی نام ظاہر کرتے ہيں اور اگر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کون ہیں تو فخر کے ساتھ پہلے اسلامی نام بتاتے ہیں۔ بنابريں امام نے جوبڑاکارنامہ انجام دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت کا احساس ہونے لگا اوروہ اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی کی پیروی کرنے پر فخر کرنے لگے۔امام خمینی کاتیسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے مسلمانوں میں امت واحدہ کے جز ہونے کا احساس دلایا۔ اس سے قبل مسلمان جہاں بھی تھا اس کے لئے امت اسلامیہ کی کوئي اہمیت نہیں تھی آج تمام مسلمان پورے ایشیاء میں پورے افریقہ میں ، مشرق وسطی سے لے کریورپ تک اوریورپ سے لے کرامریکہ ولاطینی امریکہ تک اس بات کا احساس کررہے ہيں کہ وہ امت اسلامیہ کے نام کے ایک بڑے عالمی معاشرے کا حصہ ہيں ۔ امام خمینی نے امت اسلامیہ کےتئیں شعور کا احساس جگایا جو عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے دفاع کے لئے سب سے بڑا وسیلہ ہے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا چوتھا بڑاکارنامہ ، علاقے اوردنیاکی ایک بد عنوان ترین حکومت کاخاتمہ تھا یعنی ایران میں شاہی حکومت کاخاتمہ۔ شاہی حکومت کا خاتمہ ان چند بڑے کاموں میں سے ایک ہے جو بالکل سامنے ہیں۔ ایران علاقے اورمشرق وسطی میں استکبار کا سب سے بڑا اورمضبوط قلعہ بن چکا تھا یہ مضبوط قلعہ ہمارے امام کے دست توانا سے ڈھہ گیا ۔امام خمینی(رہ )کاپانچواں بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت قائم کی یہ وہ چیز ہے جو غیر مسلم تو غیرمسلم مسلمانوں کے ذہن میں بھی نہيں سماتی تھی اوریہ ایک خوش نماخواب تھا جس کی تعبیر کے بارے میں سادہ لوح مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ امام نے معجزاتی طورپر اس افسانہ کوحقیقت کا لبادہ پہنایا ۔امام کاچھٹا اہم کام، پوری دنیا میں اسلامی تحریک کا قیام تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل بہت سے ملکوں منجملہ اسلامی ملکوں میں مختلف گروہ، جوان، ناراض عناصر، حریت پسند اور ديگر گروہ بائيں محاذ کی آئیڈیالوجی کے سہارے میدان عمل میں اترتے تھے، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تحریکوں اورحریت پسندانہ قیام کی بنیاد اسلام بن گیا آج عالم اسلام کے وسیع وعريض علاقے میں جہاں کہیں بھی کوئی گروہ حریت پسند تحریک چلاتا ہے اور استکبار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کا مبنا اسلام ہی ہوتا ہے اور وہ اسلامی اصولوں کوہی اپنے کام کی بنیاد بناتا ہے اور اس کی فکر اسلامی فکر ہوتی ہے ۔امام کاساتواں اہم کام، فقہ شیعہ ميں ایک جدید سوچ کو رائج کرنا اور شیعہ فقہ میں نیا نظریہ پیش کرنا تھا۔ ہماری فقہ کی بنیاد بہت ہی محکم تھی اورآج بھی ہے فقہ شیعہ ایک محکم ترین فقہ اوربہت ہی مستحکم اصول وقواعد پر استوارہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مستحکم فقہ کو مزید وسیع دائرے ميں اورایک نئے اندازمیں جو آفاقی اورحکومتی ہے پیش کیا اورفقہ کے متعدد پہلوؤں کوہمارے سامنے واضح و عیاں کیا جو اس سے پہلے عیاں نہیں تھے ۔امام کا آٹھواں اہم کام ایسےغلط عقائد کو باطل قرار دینا جو انفرادی امور میں رائج تھے ۔ دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ جو لوگ سماج کے اعلی منصب پر فائز ہوتے ہيں ان کا مخصوص طور طریقہ ہوتاہے۔ کچھ غرور وتکبر بھی ہوتا ہے عیش و عشرت کی زندگي ہوتی ہے اور اسی طرح ان کا اپناخاص ٹھاٹھ باٹ ہوتاہے اور ان کا اپنا خاص انداز ہوتا ہے۔ اس دورمیں اعلی حکام کے لئے پروٹوکول ہوتاہے اور وہ اپنے لئے اس کو اپنی سرکاری زندگی کا لازمہ سمجھتے ہیں اوریہ سب ایسی باتیں ہیں جن کو دنیا نے آج تسلیم بھی کر لیا ہے کہ جو لوگ اعلی منصب پر فائز ہيں ان کا گویا یہ سب حق ہوتا ہے حتی ان ملکوں میں جہاں انقلاب آیا ہے وہاں کے انقلابی رہنما بھی جو کل تک خیموں اور قناتوں میں زندگی گزارتے تھے اور قید خانوں اورمخفی گاہوں میں روپوش رہتے تھے وہ جیسے ہی حکومت میں آتے ہيں ان کا رہن سہن تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کے حکومتی انداز بدل جاتے ہیں اوروہی سب کچھ انداز ان کا بھی ہو جاتا ہے جو ان سے پہلے کے حکمرانوں کا تھا اور جس طرح سے دنیا کے دیگر سلاطین اور بادشاہوں کا ہوا کرتا ہے۔ ہم نے تو قریب سے یہ ساری چیزیں دیکھي ہيں ہمارے عوام کے لئے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور تعجب کی بات بھی نہيں ہے ۔ امام نے اس طرح کے نظریات وعقائد کوغلط قرار دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ کسی قوم اور مسلمانوں کے محبوب قائد زاہدانہ زندگی کے مالک ہو سکتے ہيں اور سادہ زندگی گزار سکتے ہيں عالیشان محلوں کےبجائے ایک امام بارگاہ میں اپنے ملنے والوں سے ملاقات کرسکتے ہيں انبیاء کی زبان و اخلاق و لباس میں لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ اگر حکام اور حکومتی عہدیداروں کے دل نور معرفت وحقیقت سے روشن ہوتے ہيں تو ظاہری چمک دمک، ٹھاٹ باٹ ، اسراف، عیش وعشرت کی زندگی، خودنمائی، تکبر و غرور ، اکڑ اور اس جیسی ديگرتمام باتیں ان کی زمام داری کا جزء نہيں سمجھی جائيں گي ۔ امام خمینی کےمعجزات میں سے ایک یہ تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگي میں بھی اور جب آپ ملک اورقوم کے اعلی ترین رہبر تھے اس وقت بھی نور معرفت وحقیقت ان کے پورے وجود میں جلوہ نما تھا ۔امام کا نواں اہم کام ملت ایران کے اندر خود اعتمادی اور عزت نفس کا احیا تھا ۔ برادران گرامی ، فرد واحد کی مطلق العنان اور استبدادی حکومتوں نے سالہا سال ہماری قوم کو ایک کمزور قوم میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا وہ بھی ایک ایسی قوم جس کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور صدر اسلام کے بعد سے پوری تاریخ میں اس کا شاندار علمی اورسیاسی ماضی تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے کافی عرصے تک جن میں کبھی انگریزوں تو کبھی روسیوں نے اور اسی طرح یورپی حکومتوں نے اور پھر اس کے بعد امریکیوں نے ہماری قوم کی تحقیر کی ہمااری قوم کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکھتی۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کچھ بھی کرنے کی توانائی نہیں رکھتی ، کچھ نیاکرنے اورخلاقیت کے لئے اس کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ دوسرے ہی آئیں اور ان کے لئے کام کریں ان پرحکومت کریں ان سے سخت لہجے میں باتیں کریں اور اس طرح ہماری قوم سے ان کا قومی وقار چھین لیا گيا تھا اور اس کی عزت نفس کا خون کر دیا گياتھا لیکن ہمارے امام نے ایران کے عوام میں قومی افتخار اور عزت نفس کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ ہماری قوم کے اندر فرقہ پرستی اور غرور تکبر نہیں ہے لیکن اس کے اندر عزت و طاقت کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ۔ آج ہماری قوم مشرق و مغرب کی مشترکہ سازشوں اور اپنے خلاف کسی بھی طرح کی دھونس و دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتی اور کمزوری کا احساس نہیں کرتی۔ ہمارے جوان اس بات کا احساس کررہے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اب اپنی اس طاقت و توانائی کا احساس ہے کہ وہ مغرب و مشرق کی دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں،عزت نفس کا یہ احساس اور یہ خود اعتمادی وحقیقی قومی افتخار امام خمینی نے قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہے۔ امام خمینی کادسواں بڑاکارنامہ، اس بات کوثابت کرناتھا مشرق اور مغرب کے بلاکوں سے فاصلہ بر قرار رکھنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔ دنیا والے یہ سمجھ رہے تھے کہ یا تو مشرقی بلا ک سے وابستہ ہونا پڑےگا یاپھر مغربی بلاک سے شامل ہونا پڑے گا۔ یا تو اس طاقت کی روٹی کھانی پڑے گی یاپھر ان کی چاپلوسی اورتعریف کرنی پڑے گی یاپھر اس طاقت کا گن گانا پڑے گا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا پڑے گی ۔ لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کوئی قوم کیسے مشرق سے بھی خود کو الگ رکھے اور مغرب سے بھی خود کوالگ رکھے اور دونوں سے بیزاری کا اظہار کرے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی بھی رہ جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی بلاک سے وابستہ نہ ہو اور کسی کے بھی پرچم تلے نہ جائے اور اس دنیامیں اپنانام روشن کرے ؟ مگرامام خمینی نے اس کارنامہ کر دکھایا اور اس نکتہ کو ثابت کر دیا کہ مشرق و مغرب کی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔نمازجمعہ کےخطبہ سے اقتباس 2007-7-14بسیجی (رضاکار) ہونا ایک افتخارامام خمینی بسیجی ہونے پرفخرکرتےتھے، جی ہاں امام (رہ) بسیجی ہونے پرفخرکرتے تھے رہبر کبیر انقلاب اسلامی خود کو بسیجی کہتے اور سمجھتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ انھوں نےپوری دنیا کو عالمی استکباری طاقتوں اور ظالموں کے مقابلے میں لا کھڑا کیاتھا اور لوگوں بسیجی یا رضاکاربننے کا شوق پیدا کر دیا تھا۔ یعنی سبھی رضاکارانہ طورپر اس فکرکے حامل ہورہے تھے کہ عالمی استکبار اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں۔ امام خمینی نے اپنے اس اقدام سے جابر طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور قوموں کے دلوں میں نور امید کو جو تمام کامیابیوں کی کنجی ہے روشن و منور کر دیا تھا۔ بلا شبہ تمام تر استکباری مشینریاں مل کر اس آبشار کو روک نہیں سکتی جو آپ نے جاری کر دیا اگرچہ وہ پوری قوت وقساوت کے ساتھ امام کے عظیم جہاد کے ثمرات کوختم کرنے میں لگی ہوئی ہيں ۔رضاکارفورس بسیج کے کمانڈروں کے اجلاس سے رہبرانقلاب کے خطاب کا اقتباس 2007-11-23 انقلاب کی صورت میں امام خمینی کی حیات ابدی جی ہاں ہمارے عظیم قائد امام خمینی (رہ) اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان نہيں ہیں جس طرح سے ہمارے شہداء ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن امام بھی اورشہداء بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں اورہماری زندگي وہمارے انقلاب میں زندہ و پایندہ ہیں اور سرگرم و فعال ہيں۔ اس عظیم انسان اور ان کےشہید ساتھیوں کے وجود کااثرفقط ان کے زمانۂ حیات سےہی مختص نہیں تھا اور آپ کے وجود کااثر صرف ایران تک ہی محدود نہيں تھا ۔ آج ان کے وجود اور ان کی مبارک عمر اور اسی طرح سے ان کے شہید ساتھیوں کے وجود مبارک کی بدولت اسلام روز بروز تابندہ و درخشاں ہوتا جا رہا ہے اور تحریفوں، جہالتوں ، اورفتنوں کاابرغلیظ ہر روز چھٹتاچلاجارہاہے۔ جوانقلاب امام خمینی نے برپا کیا اورشہیدوں نے اپنے خون سے جسے لالہ زار بنا دیا اور اسے بوئے گل عطا کی اس وقت پوری دنیامیں مظلوم قوموں کی بیداری، مسلم معاشروں کی حیات نو، معنویت کی بنیادوں کو استحکام بخشنے ، اور دنیا پرستی کاشیرازہ بکھیرنے الغرض حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی میں اس نے خود کوپوری دنیا سے منوایا ہے ۔ انسان کے بام معنویت پر عروج کا پرچم جو آج دنیا کے گوشہ و کنار میں بلند ہے در اصل وہ ہمارے امام اور ان کے شہید ساتھیوں کا پرچم ہے وہ لوگ زندہ ہيں اورہر روز پہلے سے بھی موثر انداز میں اپنے معنی وجود اور زندگی کو پیش کر رہے ہیں ۔شہداء جانبازوں اور عراق میں قید غازیان اسلام کوخراج عقیدت پیش کرنے کےلئے رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام سے اقتباس2008-2-8امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا منفرد فنامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ خود اعتمادی کے معمار انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں ۔وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3 امام خمینی حالات کے ماہر نباض تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ امام خمینی (رہ) کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں ۔وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10نمازجمعہ کاقیام امام خمینی (رہ) کا دوراندیشانہ اقدام آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے ۔ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کی قوت وعزت آج چند باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جنھيں میں یہاں پر عرض کرناچاہتاہوں اوراس کے بعد ایک نتیجہ اخذ کروں گا جوملت ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اہم ہے ۔پہلی حقیقت جس کاکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا اور ہر منصف انسان جس کا معترف ہے یہ ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی ۔ دشمنان اسلام، اسلام کو کمزورکرنا چاہتے تھے ان کی یہ کوشش تھی کہ اسلام کومیدان عمل سے بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں سے دور کر دیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمن اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہيں ۔ اس گندی سیاست میں استکباری طاقتوں سے وابستہ فاسد حکومتوں نے بھی دشمنان اسلام کا ساتھ دیا ہے اوران سے تعاون کیا ہے ۔ امام نے اپنے اس انقلاب سے مسلمانوں کوجوش وولولہ عطاکیا انھیں ہمت وجرات دی اوراسلام کوزندہ کیا۔ آج بہت سے ملکوں میں اسلام، نوجوانوں کی آرزو اور مطمح نظر میں تبدیل ہوچکاہے اوربہت سےروشن فکر افراد اسلام کوگلے لگانےکے لئے بے تاب نظر آ رہے ہيں۔ اس کی ایک مثال فلسطین ہے، برسوں فلسطین کے موضوع پرباتیں ہوتی رہیں اور جدوجہد ہوتی رہی لیکن کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ مگرآج ملت فلسطین ، اسلام کےنام پر جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی طرف سے اسلام کےنام پر جد و جہد کی جا رہی ہے اسی لئے اب یہ جدوجہد تنظیموں، گروہوں، شخصیتوں اورحکام کے دائرے سے نکل کرعوام تک پہنچ چکی ہے اور اس طرح کا جہاد اورجدوجہد کبھی بھی ناکام نہیں ہوگی۔ عوامی جدوجہد اگر جاری رہتی ہے تو بلاشبہ اسے ایک دن ہرحال میں کامیابی نصیب ہوگی یہ اس اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے جسے امام نے دوبارہ زندہ کیا اور جسے آپ نے مسلمانوں کے قلوب میں سنوارا۔ آج شمالی افریقہ کے اسلامی ملکوں میں کچھ گروہ اسلام کے نام پر اورایک اسلامی حکومت کے قیام کے مقصدسے جدوجہدکررہے ہيں ،اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں آگے بھی بڑھے ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے قبل کس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی ؟ مشرق سے لے کرمغرب تک آج مسلمان بیدار ہو چکے ہيں۔ یورپی اورغیریورپی ملکوں میں جہاں کفر و الحاد کی حکومتیں ہیں مسلمان اپنی اہمیت کا احساس کررہے ہيں مسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص اور شناخت پیدا ہو چکی ہے یہ سب کچھ امام اور ان کی اسی عظيم تحریک کی برکت ہے ۔دور اندیشی، صبر و استقامت امام خمینی (رہ) اور قوم کی کامیابی کا رازدوسری حقیقت یہ ہے کہ جس چیز نے ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ہماری بہادر قوم کو اس عظيم تحریک میں کامیابی سے ہمکنار کیا وہ دوراندیشی و صبر و استقامت تھی۔ ایک ایسی استقامت جس میں بصیرت بھی ساتھ تھی جیسا کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا ۔ علم کی سنگینی کو صرف صاحبان بصیرت و استقامت ہی اٹھاسکتے ہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ آج مقابلہ خالص کفر اور خالص نفاق سے نہیں ہے کہ افکار و نظریات واضح ہوں اور ایک دوسرے کے سامنے محاذ آرائی اور صف بندی بھی آشکارہ ہو، بلکہ آج مقابلہ نفاق ، کھوکھلے دعووں ، مکر و فریب اور جھوٹ سے ہے جسے سامراج نے پورے عالم میں پھیلا رکھا ہے۔ بہت سے لوگ انسانی حقوق کی طرفداری کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ، بہت سے لوگ اسلام کا دم بھرنے کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ان کا اسلام ، سامراج کی مرضی و منشا کا تابع ہے۔ بہت سے لوگ انسانوں کے بیچ مساوات قائم کرنے کا دعوی کرتے تھے اور کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے تھے اور بولتے ہیں۔ اس لئے آج کل مقابلہ دشوار ہے ، نہ صرف سامراج کی دولت اور طاقت کے سبب بلکہ اس کے تشہیراتی وسائل کے سبب۔ کیونکہ سامراجی طاقتیں اپنے غلط کاموں کا جواز پیش کرنے کےلئے ، پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں۔ بے بصیرت لوگ جلدی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ فریب میں ہیں۔ اپنی اور دشمن کی صف میں تمیز نہیں کرپاتے ۔ ایران میں ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایرانی قوم کی بصیرت سے کہ جس میں صبر اور پائداری بھی ساتھ تھی اس راستہ کو طے کیا اور وہ کامیابی تک پہنچے ۔خود انہوں نے لوگوں میں بصیرت پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جہاں بھی دنیا میں کوئی تحریک چل رہی ہے اور کوئی نیک انسان لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش میں لگا ہے اسے یہ جان لینا چاہئے کہ یہ راستہ صرف اور صرف ہوشیاری اور بصیرت نیز صبر و پائداری سے طے ہوسکتا ہے ۔مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک کا سرچشمہ اسلامی جمہوریہ ایرانتیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پوری دنیا کے مسلمانوں کی عظیم تحریک کامرکز ہے ۔نہ صرف مسلمان اور محروم و ستم رسیدہ لوگ بلکہ سامراج بھی اس بات کو سمجھ گيا ہے کہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی اہداف کے لئے تحریک چل رہی ہے اس کا مرکز اسلامی جمہوریۂ ایران ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ساری دنیا میں دشمنی کا رخ ہماری طرف ہے۔ ہم میٹھی باتوں کی آڑ میں چھپی ہوئي دشمنی و کینہ کو پہچانتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سامراج کواسلامی جمہوریۂ ایران ،ایرانی قوم اور ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی دشمنی ہے۔دشمن چونکہ ان کےافکار و نظریات کو زندہ دیکھ رہا ہے اس لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس کی دشمنی میں سرمو فرق نہیں آیا ہے۔ اگر سامراج اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری یہ سوچتے کہ وہ انتقال کرگئے اور ان کا زمانہ ختم ہوچکا ہے توکبھی بھی ان سے اور اس کے نام سے اتنی دشمنی نہ کرتے جیسا کہ آج کررہے ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاایران ، انقلاب ایران ،اسلامی جمہوریۂ ایران ، مسلمانوں کی عالمی تحریک کا مرکز ہے اور اس لئے سب کی دشمنی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس چیز سے ہم غمگین ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں، ڈرنے کے بجائے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم طاقتور ہیں اور سامراج ، چوروں و لٹیروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ سامراج کی دشمنی سے ہمیں مزيد اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے انقلاب کو آگے بڑھانے اور ملک و سماج کی تعمیر کے لئے جس راستہ کو چنا ہے وہ صحیح اور کامیابی کا راستہ ہے ۔ اگر ہم نے انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور انقلاب و ملک کی مصلحتوں کی سمت میں غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا، تو دشمن، ہم سے اتنی دشمنی نہیں کرتا۔ پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ ہمیں صراحت کے ساتھ برا بھلا نہ کہیں ، لیکن یہ ان کی دوستی کی علامت نہیں ہے ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے صراحتا ہمیں برا بھلا کہا تو پوری دنیا کی اقوام کے دل ہماری طرف اور مائل ہو جائیں گے ۔ اس لئے وہ سیدھے طور پر برا کہنے کے بجائے ہم پر الزام لگاتے ہیں خود کو ہم سے نزدیک دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں، یہ سب ان کے ہتھکنڈے اور خباثتیں ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس 1991-6-4آزادی و خود مختاری، اخلاقیات و روحانیت کے ہمراہ ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاکمال یہ تھا کہ انہوں نے اس انقلاب کے لئے ایک محکم لائحہ عمل اور اصول و ضوابط بنائے اور انہوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ انقلاب بڑی طاقتوں کے زير اثر آجائے اور مسلط کردہ سیاسی دھاروں میں بہہ جائے ۔نہ شرقی، نہ غربی، جمہوری اسلامی یا خود مختاری، آزادی، جمہوری اسلامی جیسے نعروں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات اور ان کی راہ کو عوام کے لئے واضح کیا اور ان نعروں کے معنی یہ تھے کہ یہ انقلاب ٹھوس اصولوں پر استوار ہے۔ یہ نہ تو مشرقی سوشلسٹ بلاک کے اصولوں سے وابستہ ہے اور نہ ہی مغرب کے لیبرل سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں سے ۔ مشرق اور مغرب کی انقلاب سے دشمنی کا سبب بھی یہی ہے ۔ انقلاب کی بنیاد ٹھوس اصولوں پر ہے، اس میں عدل و انصاف کے نفاذ، ملک کی آزادی و خودمختاری اور معنویت و اخلاق جیسی عوام کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی قدروں پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ انقلاب، انصاف، حریت، عوام کی حاکمیت، روحانیت اور اخلاق پر مشتمل ہے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چودھویں برسی کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس2002-6-4فراموش شدہ اسلامی اقدار کا احیاء امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے طاق نسیاں کی زینت بن جانے والی اسلامی اقدار کو معاشرے کی عملی زندگی میں شامل کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے اہم جو کام انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے سیاسی اورسماجی پہلوؤں کو زندہ کیا۔جب سے سامراج نے اسلامی ملکوں میں قدم رکھا اس کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ اسلام کو سیاست، سماجی مساوات ،حریت پسندی اور خود مختاری کے پہلو سے عاری دکھائے ۔ سامراج و تسلط پسند طاقتوں کو قوموں کو دبانے اور اسلامی ملکوں کے ذخائر پر اپنا تسلط بڑھانے کے لئے، اسلام کے سیاسی پہلوؤں کو اسلام سے الگ کرنے کے سوا اور کوئي چارہ کار سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور سامراج اسلام کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا کرتا تھا کہ اسلام حادثات اور واقعات کے سامنے تسلیم ہونے اور جارح قوتوں کے سامنے جھک جانے نیز ظالم و طاقتور دشمن کے سامنے سر جھکانے کا نام ہے ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کے فراموش شدہ حقائق کو زندہ کیا۔ اسلام کی انصاف پسندی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات کو آشکار کیا کہ اسلام امتیازی سلوک سماجی تفریق اور غلامی کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دن سے زندگي کے آخری لمحہ تک ، غریب ، مستضعف اور محروم طبقوں کی حمایت کی اور ان پر اتکا کیا۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے آغاز سے اور دس سال تک اس نظام کی قیادت کے دوران تمام حکام اور ہم سب سے زور دے کر کہتے تھے کہ غریبوں کا خیال رکھیں کیونکہ آپ کو جو یہ مقام ملا وہ اسی غریب طبقہ کی جد و جہد کا ثمرہ ہے ۔اے ایران کی عظيم قوم ہم نے امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی اس نصیحت پر منصوبہ بندی، قانون سازی، لوگوں کو منصبوں پر فائز کرنے اور انہیں معزول کرنے کے سلسلے میں جہاں جہاں عمل کیا، ہمیں کامیابی ملی عوام کے سلسلے میں امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت کے مفہوم کو مغربی معنی و مفہوم سے یکسر الگ کردیا ۔ مغربی منصوبہ ساز اور ان کے پٹھوؤں کی کوشش یہ تھی کہ اس بات کو عام کردیں کہ جمہوریت دین کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دعوے پر خط بطلان کھینچ دیا اور دینی بنیادوں پر جمہوریت یعنی اسی اسلامی جمہوریہ کو نمونہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے صرف علمی دلیل کی حد تک نہیں بلکہ عملا اسے انجام دے کر دکھا دیا ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کارنامے کے تئیں ہمارے فرائضانقلاب کے ہاتھوں زخم کھائے اور گھات لگائے ہوئے دشمن برسوں اس موقع کی تلاش میں تھے اور آج بھی وہ سورج کے غروب کا انتظار کرنے والی چمگادڑوں کی طرح اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایرانی قوم کے جذبات کی گرمی ایسی ہے کہ دوستوں کو اس سے راحت ملتی ہے اور دشمنوں کے پر جل جاتے ہیں، پھر وہ شیطانی پرواز کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ہمارے رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم ورثاء جمہوری اسلامی نظام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔ ہر مشکوک اقدام کے سلسلے میں ہم سب کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سامراج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک ، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی ترک نہیں کیا ہے اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے ہر ممکن کاروائي کر رہا ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ کے حکام اور ایرانی قوم، قومی وقار، خود مختاری اور اپنے اسلامی اصولوں کے پابند رہیں گے وہ ناقابل تسخیر بنے رہیں گے۔ اب تک خدا کے فضل و کرم سے، ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے سامنے عالمی سامراج کی سازش بے نتیجہ رہی ہے اور اس کے مکر و فریب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لئے میں قوم کےایک ایک فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں آمادہ و ہوشیاری کو انقلابی فریضہ سمجھیں اور دشمن کے مذموم سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی عزائم کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ آمادہ و ہوشیار رہنے سے دشمن کی سازش ناکام ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے عزیز رہبر کبیر ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) باربار اس بات پر زوردیتے تھے اور اپنے وصیتنامہ میں بھی آپ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ ہمارے بیچ اتحاد ہی، انقلاب کی کامیابی کا راز تھا اور یہی اس کی بقا کی کنجی ہے۔ قوم کا ایک دوسرے کے مخالف گروہوں میں بٹ جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اڑجانا، ہماری پوری قوم یا کم سے کم اس کی اکثریت سے وابستہ اہم اصولوں کو فراموش کردینا، دشمن کو بھلا دینا اور اس کو بھلا دینے سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرنا ، ایسی قوم کے لئے ایک المیہ ہے جو اپنے پائمال شدہ حقوق کی بازیابی اور دوسروں پر انحصار سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔قائد انقلاب اسلامی کا ایران قوم سے خطاب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدح سرائی کا اقتباس2007-6-8 امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مشن سے وفاداری ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور کوئی بھی اس بارے میں شک نہیں کرسکتا کہ ایرانی قوم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے سچی محبت کرتی ہے چنانچہ ہمیں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ان کے ہدف کو انقلاب کا نصب العین سمجھیں اور اس کی سمت بڑھیں۔ اپنی طرف سے کوئی نیا ہدف نہ بنا لیں۔ امام کے بتائے ہوئے اہداف و مقاصد واضح ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے بہت غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ کاتب تقدیر کا فیصلہ یہی تھا کہ اس کا نیک بندہ آگے بڑھتے بڑھتے یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپ کر ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے اور اس کے جوار میں پناہ لے لے تو ہم اس ذمہ داری کو یونہی نہیں چھوڑدیں گے۔ قوم کا ایک ایک فرد اور ہر سطح کے عہدہ دار و حکام اس نکتے کو ذہن نشین کرلیں اور یہ عہد کریں کہ امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور ان کے اہداف و مقاصد کے لئے کام کریں گے اسی صورت میں ہم امام خمینی سے اپنی سچی محبت کا ثبوت پیش کر سکیں گے اور اگر اس کے برعکس ہم ان کی جدائی میں روئیں، سروسینہ پیٹیں، لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلیں، تو ان سے ہماری محبت و عقیدت سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے راستے پر چلیں، اس سے منحرف نہ ہوں ۔انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8امام خمینی کا خلوصبرادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے۔انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہدہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5 ایرانی قوم کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت : خدا سے لولگائیں، اسلام کے پابند رہیں اور اپنی صفوں میں انتشار نہ پیدا ہونے دیںہمارے عزیز قائد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت میں ایک بات ایسی ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا : جس چیز نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا وہی اس کی بقا کی ضامن ہے۔ یعنی خدا پر توکل، اسلام پر ایمان، اسلامی احکام کی بجا آوری اور اتحاد، انقلاب کی کامیابی اور اس کی بقا کی کنجی ہے۔ یہ ایک ایسی نصیحت ہے جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آج ہمارے ملک پر اتحاد اور خلوص کا سایہ ہے۔ یہ سب کچھ عظیم انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پاکیزہ وجود کا ثمرہ ہے۔ اس عظیم مرد الہی کی رحلت کے بعد بھی آپ کا خلوص سرچشمہ برکات بنا ہوا ہے۔ اس خلوص نے دلوں کو باہمی محبت کے رشتہ سے جوڑ دیا اور رشتوں کو مستحکم بنایا ہے۔ آپ کا اتحاد و یکجہتی اور حکومت سے آپ کا تعاون اور گہرا رشتہ ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز ہے۔ دشمن اسے دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگیا ہے، 1978 میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے انقلابی تحریک میں نئي جان آگئی اور یہ تحریک آگے بڑھنے لگی۔ اس کے نتایج حاصل ہونے لگے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خدا کا یہ لطف تھا کہ ان کے وجود میں اس نے یہ ساری برکتیں ودیعت کی تھیں اور ان کی وفات اور ملکوت اعلی کی طرف پرواز کے وقت بھی خدا کی خاص نعمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال تھیں جو اس بات کا سبب بنیں کہ ان کی رحلت کے بعد بھی انقلاب اسلامی، کامیابی کے ابتدائی دنوں کی طرح ہی آگے بھی ترقی کرتا رہے اور دنیا میں اس کی عظمت قائم ہو جائے۔ اس انقلاب نے دشمن کو مایوس کردیا۔ آج ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وجود کی برکت سے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔ کوئی یہ خیال بھی نہ لائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اندر کسی طرح کسی کمزوری کا احساس کررہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اپنے معاملوں کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اپنے اصولوں، اپنے دین اور مسلمان بھائيوں کے مفادات کے مطابق دیگر ملکوں سے بھی اپنے تعلقات کومستحکم کریں گے۔ اس بات کو یاد رکھئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا تاکید کی ہے کہ اتحاد و بیداری سبھی کامیابیوں کا راز ہے۔ اگر لوگوں میں اتحاد و بیداری نہ ہو تو ایرانی قوم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا پائے گي لیکن اگر لوگوں نے اس راز کو سمجھ لیا اور اس کا خیال رکھا تو خدا بھی ان کی مدد کرے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد رب العزت ہے: جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم اپنے راستوں کی طرف ان کی ہدایت کریں گے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے خدا اس کے ساتھ ہے اور خدا کا وعدہ سچا ہے۔ الحمدللہ خداایرانی قوم کے ساتھ ہے اور اس عظیم و بے نظیر مرد الہی کا وجود ہمارے لئے ایک حقیقی نعمت تھی۔ آج بھی آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے بہترین نعمت ہے کیوں کہ ان کے کلام کا سرچشمہ خدا و انبیاء کا کلام ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔خوزستان کے علماء ، حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-12امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر اور انہیں ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورتآج ایرانی قوم کا کہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے ۔( زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي ۔( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحتل کی دوسری برسی پر ، قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-3امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے وابستہ کچھ یادیںخدا جانتا ہے کہ ان دس سالوں کے دوران، اس دن کے خیال سے دل ہمیشہ لرز اٹھتا تھا۔ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بنا دنیا کا رنگ کیا ہوگا۔ اسی لئے ہم نے کئی بار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا: ہماری خدا سے اہم دعا یہی تھی کہ مجھے آپ سے پہلے اس دنیا سے اٹھالے۔ جب امام خمینی کی طبیعت بگڑ رہی تھی میں نے آئین پر نظر ثانی کرنے والی کاؤنسل کے کچھ اراکین کو بلایا اور کہا کہ امام کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں نظر ثانی کے کام میں تھوڑی تیزی لانی چاہئے اور اس کے مکمل ہونے کی خوش خبری امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اسپتال میں دینی چاہئے تا کہ انہیں اطمینان حاصل ہوجائے۔ واقعا اس ممکنہ لمحے کے تصور سے میرا دل لرزتا تھا۔ شاید اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد یہ خبر پہنچی کہ یہ نعمت الہی اور گوہر نایاب ہم سے چھن گيا ہے ۔فوج کے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-6-7قوم کے روح رواں امام خمینی کی رحلت اور قوم سے آپ کی جدائي کےبارے میں کچھ کہنا بڑا سخت اور دشوار کام ہےـ ہم تو یتیم ہو گئے۔ دس سال قبل جب آپ کو دل کا دورہ پڑا آّپ کے چاہنے والے افراد جن میں سے بڑی تعداد جام شہادت نوش کرنے کے بعد اس وقت ملکوت اعلی کی زینت بنی ہوئي ہے، پروانہ وار قم پہنچے۔ آپ کو تہران لایا گیا اور دل کے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ایک ایک پل بڑی مشکل سے گزرتا تھا، ایک انجانا خوف ہر آن ستاتا۔ بارگاہ پروردگار میں ہم سب کی ایک ہی دعا اور التجا تھی کہ خدایا بشریت کی رگوں میں زندگی بھر دینے والے اس پاکیزہ دل کو شفا بخش دے۔ ہماری قوم کی دعا سن لے۔ اپنے عزیز قائد کی جدائي کا تصور ہمارے لئے جان لیوا تھا ہمیں ایسا لگتا تھا کہ گویا دنیا اندھیری ہو جائے گي۔ آج ہمارے سامنے یہی دشوار پل ہے ہم پر مصیبت عظمی ٹوٹ پڑی ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی کوئي مصییبت ہو سکتی ہے ـ کمانڈروں اور اسلامی انقلاب کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے بیعت کے موقع پر خطاب سے اقتباس 1989-6-8آپ سب نے دیکھا کہ آپ کے امام (رہ) وصیت نامے کے آخر میں ایسے معاملات کی جانب اشارہ کیا گیا جن پر امام اس سے قبل خاموش تھے ۔ بنی صدر کے زمانے میں جب میں امام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ فرماتے تھے کہ وہ میرے حوالے سے جو کچھ کہتا ہے وہ غلط ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ لہذا جو بات بھی ہوتی آپ اس پر فورا مشتعل اور آشفتہ نہیں ہوتے اور اس کا فوری جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ متانت، بردباری، حلم، نفس پر قابو اور وسیع القلبی کی اعلی مثال ہے۔ جس میں بھی یہ صفات ہونگی وہ عظیم انسان ہوگا۔ ساتھ ہی اگر امام (خمینی رح) میں روحانیت ، خدا سے رابطہ، رضائے الہی کے لیے اقدام، تقویٰ، ذمہ داریوں کی ادائیگی جیسی اہم صفات نہ ہوتیں تو انقلاب کامیاب ہوتا اور نہ ہی آپ لوگ اس طرح ان کے گرویدہ ہوتے، وہ نہ تو دنیا میں ایسی ہلچل مچا سکتے تھے اور نہ ہی دشمن کے رعب و دبدے اور دھمکیوں کے سامنے پہاڑ کی مانند سینہ سپر ہوسکتے تھے ۔اسی حوالے سے ایک واقعہ میرے ذہن میں محفوظ ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ سن 1986 کے اختتام سے چند دن قبل امام(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ کے فرزند رشید جناب احمد خمینی بھی تشریف فرما تھے کسی امام معصوم کا یوم ولادت نزدیک تھا ہم نے امام سے درخواست کی کہ حسینیہ جماران میں لوگوں سے ملاقات فرمائیں۔ امام(خمینی رہ) نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ میں ملاقات نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد میرا مشہد جانا ہوگیا، اچانک امام(خمینی رہ) کو دل کی کوئي تکلیف پیدا ہوئی جناب اخمد خمینی نے جن کا قوم پر بڑا احسان ہے اور جنہوں نے امام خمینی رہ کی بڑی خدمت کی ہے، فوری طور پر ضروری طبی وسائل مہیا کئے۔ جب ھسپتال میں امام(رہ) کی خدمت میں حاضرہوا تو عرض کی، کتنا اچھا ہو ا جو آپ نے اس رات عوام سے ملاقات پر ہمارے اصرار کو قبول نہیں فرمایا ورنہ اگر لوگوں کےساتھ ملاقات کی خبر جار ی ہوجاتی اور لوگ آپ سے ملاقات کے لیے آجاتے اور اس وقت آپ اس حالت میں لوگوں سے ملاقات نہ کر پاتے تو اس کا دنیا میں منفی انداز میں پرو پیگنڈا کیا جاتا۔ آپ نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ۔ انہوں نے میری بات کے جواب میں فرمایا: جہاں تک میں سمجھا ہوں ، ایسا لگتا ہے کہ انقلاب کےآغاز سے اب تک ایک غیبی ہاتھ ہے جو تمام کاموں میں ہماری رہنمائی اور پشتپناہی کررہا ہے۔عوام اور شہداء کے خاندانوں کے جذبات اور محاذ جنگ پر مجاہدین کا خلوص امام(رہ) کی حالت دگرگوں کئے دیتا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ امام(رہ) کو ، مجالس اور ذکر مصائب سید الشہدا کے علاوہ، روتے دیکھا ہے ۔ جب بھی عوام کے ایثار و قربانی کی بات امام(رہ) کے سامنے ہوتی آپ کی حالت منقلب ہوجاتی۔ مثال کے طور پر جب تہران کی نماز جمعہ کے دوران ، محاذ جنگ کی امداد کے لیے بچوں کی دی ہوئی غلقوں کو توڑا گیا تھا اور پیسوں کا ڈھیر لگ گیا، امام خمینی (رہ) اسپتال میں تھے آپ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، میں ان کے پاس تھا، مجھ سے فرمایا : تم نے دیکھا ان بچوں نے کیا کردکھایا! اور میں نے دیکھا کہ اس لمحے آپ آبدیدہ ہوگئے اور رونے لگے۔انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8آپ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ذکرخدا اور نمازو دعا میں مصروف رہے۔ حضرت امام خمینی(رہ) کے فرزند الحاج احمد خمینی کہا کرتے تھے: امام( خمینی رہ) اپنی حیات کے آخر دن دوپہر تک بستر پر لیٹے مسلسل نماز پڑھ رہے تھے۔ کافی دیر گزر گئی تو آپ نے پوچھا نمازظھر کا وقت ہوگیا ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ تب آپ نے ظہر اور عصر کی نماز،نوافل کے ساتھ پڑھنا شروع کی۔ نماز ختم کرنے کے بعد آپ تعقیبات میں مشغول ہوگئے اور کوما کی حالت میں جانے تک مسلسل سبحان اللہ والحمد للٌہ ولا الہ الا اللہ اللہ اکبر کہتے رہے ۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے ۔ ہم اگر اپنے رہبر سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں ان کے کاموں اور کردار پر توجہ دینا چاہیے اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8انہوں نے ہمیشہ عوام اور قوموں پر ھی بھروسہ کیا۔ بیرون ملک دورے سے قبل امام (خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت ایک ایسا معاملہ درپیش تھا جس پر میں نے آپ سے کہا کہ اس معاملے پر دنیا میں ہمارے خلاف بڑا پروپیگنڈا ہورہاہے البتہ میں یہ بات ان کے علم میں لانا چاہتا تھا ورنہ مجھے بھی عالمی ہنگامہ آرائی کا کوئی خوف تھا اور نہ ہی کوئی ڈر، میں نے سارا ماجرا سنایا۔ آپ ساری دنیا کی خبروں کا بڑے قریب سے ناقدانہ جائزہ لیا کرتے تھے اور شاید عالمی خبریں دوسروں سے پہلے امام(خمینی رہ) تک پہنچ جایا کرتی تھیں ۔ امام (خمینی رہ) نے میرے جواب میں تائیدی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن قومیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اور وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ اس دورے میں ہمارے ساتھ قوموں کی حمایت ایسی کھل کر سامنے آئی کہ سب حیران رہ گئے۔ بنا بر ایں آپ اپنے دوستوں کو بھی بخوبی پہچانتے تھے اور دشمنوں کو بھی، دوستوں پر اعتماد اور بھروسہ کیا کرتے تھے۔ آپ جیسے وفادار عوام ہی امام(خمینی رہ) کے سب سے بڑے دوست تھے اور امام(خمینی رہ) بھی آپ(ایرانی قوم) کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس 1989-7-15انقلاب اسلامی کے آغاز سے آج تک مسلسل ذمہ داریاں نبھانے کے دوران، امیرالمومنین (علیہ الصّلاةوالسّلام) کا وہ جملہ ہمیشہ میرے مد نظر رہا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں اذا اشتدّ بنا الحراق التجينا برسولاللّہ جب جنگوں میں ہمیں دشوار ترین حالات کا سامنا ہوتا تھا تو ہم دامن رسول خدا(ص) میں پناہ لیتے تھے۔ جب امیرالمومنین (صلوات اللہ علیہ) کا یہ جملہ مجھے یاد آتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ یہ ہم پر بھی صادق آتا ہے ۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ مختلف مسائل اور مشکلات کے بارے میں دیگر عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے اور پھر مسئلے کو امام خمینی (رہ) کی خدمت میں لے جاتے اور وہ اپنی باریک بینی، قوت ایمانی کے ذریعے مشکل کو حل کر دیا کرتے ۔ خدا گواہ ہے ،میں نے اپنی پوری زندگی میں خدا پر اس حدتک بھروسہ اور اس سے امید رکھنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ہے ۔ وہ مشکلات اور گتھیاں بآسانی سلجھا دیتے تھے۔ آج وہ ہمارا سرپرست، مضبوط آسرا اور ہماری ڈھارس جو مشکلات میں ہماری پناہ گاہ تھا، ہمارے درمیان نہیں ہے ۔صدر کی تقرری کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-8-3ایک(جنگی)قیدی کی ماں نے، نہیں معلوم تبریز میں یا کہیں اور، مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا اسیر تھا ، آج خبر آئی ہے کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ آپ امام (خمینی رہ) کی خدمت میں جائیں تو ان سے کہہ دیں کہ (میرابیٹا) آپ پر قربان، میں پریشان نہیں ہوں۔ وہ خاتون عجیب حال میں تھی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجمع کو ہٹاتی ہوئی آگے آ رہی ہے۔ لوگ آنے نہیں دے رہے تھے، میں نے کہا اسے آنے دیجئے، دیکھیں یہ خاتون کیا کہنا چاہتی ہے ۔ وہ آئی اور اس نے یہ بات مجھ سے کہی ۔ اس کی اس بات سے میں بہت متاثر ہوا ۔ امام(خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، پہلے تو بتانا بھول گیا، باہر آیا تو یاد آیا ، وہاں جو صاحب موجود تھے میں نے ان سے کہا کہ امام(خمینی رہ) سے کہیں کہ ایک بات رہ گئ ہے ۔ آپ (امام خمینی رہ) صحن کے دروازے پر تشریف لائے ، میں بھی وہاں گیا اور جب اس خاتون کی بات ان کو بتائی تو امام کا چہرا متغیر ہوگیا، آپ پرایسی رقت طاری ہوئي کہ مجھے پچھتاوا ہونے لگا کہ میں نے کیوں ان سے یہ بات ذکر کی۔امام خمینی کی پہلی برسی کی مہتمم کمیٹی کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 22-5-1990وہ اپنی ذات کےلیے کسی چیز کے خواہشمند نہیں تھے۔ الحاج احمد خمینی مرحوم جو امام(خمینی رہ) کو بہت عزیز تھے اور بارہا ہم نے امام(خمینی رہ) سے سنا کہ یہ(احمدخمینی) مجھے بہت عزیز ہیں۔ وہ امام خمینی (رہ) کی اس دس سالہ قیادت اور رہبری کے دوران ایک گھر بھی نہیں خرید سکے۔ ہم بارہا گئے اور ہم نے دیکھا ہے کہ امام(خمینی رہ) کے فرزند عزیز جناب احمد خمینی، حسینیہ (جماران میں) جہاں امام (خمینی رہ) مقیم تھے، پچھلے حصے میں واقع باغیچے کےدو تین کمروں میں رہتے تھے۔ وہ عظیم انسان اپنے لیے، دنیاوی مال ومتاع کے طالب نہیں تھے، جو تحفے تحائف انکے لیے لائے جاتے تھے وہ انہں بھی راہ خدا میں دے دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ ان کے پاس ہوتا اور جس کا بیت المال سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا وہ بھی بیت المال کی مد میں دے دیا کرتے تھے۔ یہ انسان کے زہد و تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے عزیز ترین فرزند کو دو چار لاکھ روپئے کا گھر بھی دلانے کو تیار نہیں تھے جبکہ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے پاس سے کروڑں تومان ، مختلف علاقوں کی ترقی، غریبوں اور سیلاب زدگان کی مدد میں خرچ کردیاکرتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے معاملات میں امام(خمینی رہ) کا ذاتی سرمایہ لوگوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ یہ سرمایہ وہ تحائف تھے جو امام(خمینی رہ) کے عقیدتمند اور چاہنے والے امام(خمینی رہ) کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ وہ انسان جس کا عزم و ارادہ قوم کےدشمنوں کو لرزہ براندام کر دیتا تھا، جو دیوار کی طرح مستحکم اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھا، جب بھی کوئي انسانی اور جذباتی مسئلہ درپیش ہوتا تو انتہائی رحمدل، مہربان انسان کامل دکھائی دیتا تھا۔ میں یہ بات پہلے بھی نقل کر چکا ہوں کہ میرے ایک سفر کے دوران ، ایک خاتوں نے مجھ سے آکر کہا تھا کہ میری جانب سے امام(خمینی رہ) سے کہہ دیجئے گا کہ میرا بیٹا جنگ میں اسیر ہوگیا تھا اور اب خبر آئی ہے کی وہ شہید ہوگیاہے۔ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے لیکن مجھے کوئی غم نہیں، میرے لئے آپ کی سلامتی زیادہ اہم ہے۔ مجھ سے یہ بات اس خاتون نے انتہائی جذباتی انداز میں کہی تھی۔ میں جب امام(خمینی رہ) کی خدمت حاضر ہوا، امام (خمینی رہ) کھڑے تھے میں نے یہ بات ان سےکہہ دی، میں نے دیکھاکہ استقامت و وقار کا وہی کوہ گراں، اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیسے کوئي تناور درخت توفان کے باعث ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کی روح اس خاتون کی اس بات سے شدید طور پر متاثر ہوئی تھی۔ نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس1999-6-4ایک رات، خصوصی میٹنگ کے دوران، الحاج احمد خمینی مرحوم اور دیگر دو تین افراد کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا۔ امام بھی تشریف فرما تھے۔ ہم میں سے کسی نے کہا: امام آپ روحانی مقام پر ہیں، منزل عرفان پر فائز ہیں ، ہمیں کچھ نصیحت کیجئے اور رہنمائی فرمائیے۔ اس عظیم انسان نے جو روحانیت و معنویت کی اس عظیم منزل پر فائز تھے، ایک شاگرد کے اس مختصر سے تعریفی جملے پر (البتہ ہم سب امام کے شاگرد اور ان کے بیٹوں کی مانند تھے اور وہ بھی ہمارے ساتھ باپ جیسا سلوک کیا کرتے تھے) شرمندگی اور انکساری میں ایسے ڈوب گئے کہ ہم سب کو بڑی تعجب ہوا۔ در حقیقت یہ بات کہہ کر ہم خود ہی شرمندہ ہوگئے۔ نماز جمعہ کے خطبے سے اقتباس 1999-6-4
اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ اور عشرہ فجر کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار ہزار آٹھ سو ترانوے قیدیوں کی معافی اور سزاؤں میں کمی کی موافقت فرمائي۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے جوانوں اور کمانڈروں سے ملاقات میں، گذشتہ اٹھائیس برسوں کے دوران ایرانی قوم کی مستقل پیش قدمی اور استقامت کو اسلامی نظام کی عزت و وقار کا سرچشمہ قرار دیا، ۔۔۔۔
جو واقعہ انیس بہمن تیرہ سو ستاون کو رونما ہوا بلا شبہ ایک اہم ترین موڑ تھا۔ فضائیہ کے جوانوں اور عہدیداروں نے ایک سچے باطنی جذبے کے تحت جو ان جوانوں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا آئينہ دار تھا ایسا کارنامہ انجام دیا جو طاغوتی شاہی حکومت کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ انتہائي شجاعانہ اورساتھ ہی دانشمندانہ اقدام تھا۔
عشرہ فجر اور امام خمینی (رہ) کی وطن تاریخی واپسی کی سالگرہ کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے آج صبح حضرت امام خمینی ( رہ) کی مرقد پر پہنچ کر، اسلامی جمہوری نظام کے بانی سے اظہار عقیدت کیا۔
شب عاشور امام خمینی (رہ) امام بارگاہ میں قائد انقالاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی امامت میں مغربین کے نماز کے بعد سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے با وفا ساتھیوں کی مجلس غم برپا کی گئي۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علامہ ڈاکٹر جعفر شہیدی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر، ان کے خاندان،ورثا، عقیدتمند شاگردوں اور ملک کے علمی و ادبی حلقوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ آپ بے مثال ادیب، وسیع النظر مورخ، عظیم انسان اور عصر حاضر کی قابل افتخار علمی شخصیت تھے۔ آپ نے بڑی قیمتی تحریریں چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالی اس سچے مومن انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور انہیں اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ محشور فرمائے۔
سید علی خامنہ ای25/10/86
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی سے ملاقات میں اس بات پر تاکید کی کہ آئي اے ای اے کو ایک خود مختار ادارے کی اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج تہران میں قم علما اور عوام کے ایک اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ ایرانی قوم کو سوچ سمجھ کر آٹھویں پارلیمانی انتخابات میں بھرپور شرکت کرنی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ یزد کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور انتظامیہ کے عہدہ داروں سے خطاب کرتے ہوئے استبداد و ظلم پر خاموشی کی بیماری سے ملک کو ملنے والی نجات کو اسلامی انقلاب کا ایک اہم ترین ثمرہ قرار دیا۔
صوبہ یزد کے دینی، قرآنی، سائنسی، ثقافتی، صنعتی، فنی، اقتصادی، زرعی اور دیگر شعبوں کے منتخب افراد کی بڑی تعداد نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی اور صوبے کی بعض منتخب شخصیات نے اپنے خیالات اور تجاویز پیش کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صوبہ یزد کے دورے کے چوتھے دن آج صبح ابرکوہ علاقے کے عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب میں، عوام کے سلسلے میں حکام اور عہدہ داران کے احساس ذمہ داری اور قومی خود اعتمادی و قوت ارادی کو ملک کی پیش رفت و ترقی کے تسلسل کے دو بنیادی عناصر قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی اور تمام مسلح فورسز کے سربراہ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ یزد میں تعینات مسلح فورسز کے مشترکہ پروگرام میں، آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران مسلح افواج کی افتخار آمیز جاں نثاری کو ایرانی قوم کے لئے بیش بہا خزانہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم اپنی طاقت کی حفاظت اور بھرپور آمادگی کے ساتھ امن و سلامتی کی فضا میں پیش رفت کا عمل جاری رکھے گی۔
بسم الله الرّحمن الرّحیم الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی سیّدنا محمد المصطفی وعلی آله الطیبین و صحبه المنتجبین سلام ہو خانۂ خدا کے زائروں، سرائے دوست کے میہمانوں اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والوں پر۔ مخصوص درود و سلام ہو ذکر خدا سے منور اور الطاف و عنایات الہی سے معمور دلوں پر جن کے استقبال کے لئے رحمت کے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ حج کےشب و روز اور روح بخش لمحوں میں بہت سے لوگوں نے موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے خود کو دریائے روحانیت و معنویت سے سیراب کر لیا۔ توبہ و استغفار کے ذریعے دل وجان کو نورانیت بخشی اور رحمت الہی کی امواج میں جو اس وادی مقدس میں پے در پے اٹھ رہی ہیں خود کو گناہ و شرک کے زنگ سے صاف کرلیا ہے۔ اللہ کا سلام ہو پاکیزہ دلوں، نیک سرشت افراد اور صاحبان دل پر۔ تمام بہن بھائیوں کے لئے بہتر ہے کہ ان ثمرات کے بارے میں غور و فکر کریں اور ان عظيم لمحات کی قدر کریں۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس مقدس وادی میں بھی مادی زندگي کے جھمیلے جس میں ہمیشہ ہم پھنسے رہتے ہیں ہمارے دلوں کو مشغول رکھیں بلکہ ذکر خدا، توبہ و استغفار، گریہ و زاری، صداقت و پاکیزگي، حسن کردار اور فکر صالح کے لئے عزم راسخ اور خداوند عالم کی بارگاہ میں نصرت و مدد کی التجا کے ذریعے اپنے دل بیتاب و مشتاق کو الوہیت و وحدانیت و معنویت سے معطر فضا میں پرواز کے قابل بنا لیں۔ خدا کی راہ میں استقامت اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے لئے ضروری اسباب و وسائل حاصل کر لیں۔ یہ حقیقی وحدانیت کا مرکز ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پارۂ جگر کو قربان گاہ میں لاکر یکتا پرستی کا بے مثال نمونہ، جو در اصل نفس پر غلبےاور حکم الہی کے سامنےسراپا تسلیم ہو جانے سے عبارت ہے، پیش کیا اور پوری تاریخ عالم میں تمام یکتا پرستوں کے لئے یادگار بنادیا، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمانے کی بڑی طاقتوں اور زور و زر کے خداؤں کے سامنے توحید و وحدانیت کا پرچم لہرایا اور اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی طاغوت سے نفرت و بیزاری کو نجات و سعادت کی شرط بنا دیا۔فمن یکفر بالطاغوت و یومن با الله فقد استمسک بالعروه الوثقی ( اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے ) حج انہی عظيم تعلیمات کے اعادے اور انہیں یاد کرنے کے معنی میں ہے، مشرکین سے برائت و بیزاری، بتوں اور بت سازوں سے نفرت کا اعلان، وہ جذبہ ہے جو مؤمنین اور صاحبان ایمان کے مناسک حج پر حکم فرما رہتا ہے۔ اعمال حج کا ہر مقام اور اس کا ہر لمحہ اللہ تعالی کے سامنے خود سپردگی، اس کی راہ میں سعی و کوشش، شیطان سے دوری و بیزاری اس کو کنکریاں مارنے اور خود سے دور کرنے اور خود کو اس کے مد مقابل کھڑا کرنے کا حقیقی مظہر ہے۔ حج کا ہر مرحلہ، قبلے کے محور پر اجتماع، اتحاد و یکجہتی، نسلی و لسانی تفریق کے انکار اور مسلمانوں کی حقیقی اخوت و دوستی کا نمونہ ہے۔ یہ وہ دروس و تعلیمات ہیں جو ہم سبھی مسلمانوں کے لئے خواہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ہمارا تعلق ہو، واجب العمل ہیں۔ ہمیں انہی کی بنیاد پر اپنی زندگي اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ قرآن نے دشمنوں کے مقابلے میں قوت و اقتدار کے ساتھ محاذ آرائی، مؤمنین کے درمیان مہر و محبت اور خداوند عالم کے حضور خضوع و خشوع کو اسلامی معاشرے کی تین نشانیاں اور علامتیں قرار دیا ہے۔محمد رسول الله و الذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم تراحم رکعا سجدا یبتغوه فضلا من الله و رضوانا ...(حضرت محمّد (ص) اللہ کے رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں کے خلاف سخت آپس میں رحم دل ہیں آپ انہیں دیکھیں گے کہ رکوع اور سجدہ کررہے ہیں اللہ کے فضل و کرم اور رضا و خوشنودی کی کوشش میں رہتے ہیں ) امت اسلامیہ کے باشکوہ اور پر وقار پیکر و پرچم کے یہ تین بنیادی ستون ہیں۔ تمام مسلمان اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر عالم اسلام کے موجودہ مسائل و مشکلات کو صحیح طریقے سے پہچان سکتے ہیں۔ آج امت اسلامیہ کے سب سے بڑے دشمن وہ استکباری عناصر اور توسیع پسند اور جارح طاقتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے ناجائز مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلّط کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔ تمام مسلمانوں اور خاصوصا سیاستدانوں، علماء و دانشوروں، روشن فکر افراد اور مختلف ملکوں کے سربراہوں کا فریضہ ہے کہ اس جارح دشمن کے خلاف زیادہ سے زیادہ قوت و استحکام کے ساتھ ایک متحد اسلامی محاذ تشکیل دیں۔ اپنی اندرونی توانائیوں کو منظم کریں اور امت اسلامیہ کو حقیقی معنی میں طاقتور اور با اثر بنائیں۔ علم و معرفت، دانشمندی و ہوشیاری، احساس ذمہ داری، سچی دینداری، الہی وعدوں پرایقان وایمان، فریضے کی ادائیگي اور رضائے خدا کے حصول کے لئے حقیر و ناچیز خواہشات سے چشم پوشی یہ سب امت مسلمہ کی قوت و اقتدار کی بنیادی شرطیں ہیں جو اس کو عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی ترقی سے ہم کنار کر سکتی ہیں، دشمن کو اسلامی ملکوں میں دست درازی توسیع پسندی اور ریشہ دوانیوں میں ناکام بناسکتی ہیں ۔ مؤمنین کے درمیان صلح و آشتی، امت مسلمہ کی ایک اور پسندیدہ صفت ہے۔ امت مسلمہ کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے مابین اختلاف و تفرقہ، خطرناک بیماری ہے جس کا پوری توانائي کے ساتھ فوری علاج کرنا چاہئے۔ ہمارے دشمنوں نے اس میدان میں بھی عرصہ دراز سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور آج جب اسلامی بیداری نے ان کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے تو انہوں نے اپنی کوششیں اور تیز کردی ہیں۔ تمام ہمدردوں کا کہنا یہ ہے کہ تفاوت و فرق کو کینہ توزی و دشمنی کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے، رنگ و نسل کا تنوع جنگ و جدل پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔ اس سال کو ملت ایران نے قومی اتحاد و اسلامی یکجہتی کے سال کا نام دیا ہے۔ مسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والی سازشوں کی شدت کا ادراک کرتے ہوئے اس سال کو اس نام سے موسوم کیا گیا۔ فلسطین، لبنان، عراق، پاکستان اور افغانستان میں دشمنوں کی یہ سازشیں کامیاب ہوئیں اور ایک ہی مسلمان ملک کے کچھ لوگ اسی ملک کے کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف قتل و غارت کےلئے کمربستہ ہو گئے۔ ایک دوسرے کا خون بہایا۔ ان تمام تلخ اور افسوسناک واقعات میں دشمنوں کی سازشیں بالکل عیاں تھیں اور باریک بیں نگاہوں نے ( ان حادثات میں ) دشمن کا ہاتھ دیکھا ہے۔ قرآن کریم میں رحماء بینہم کا حکم اسی طرح کی جنگوں اور لڑائیوں کی بیخ کنی کے لئے ہے۔ آپ ان پرشکوہ ایّام اور حج کے گوناگوں مناسک میں دنیا کے مختلف مقامات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو ایک گھر کا طواف کررہے ہیں، ایک ہی کعبے کی جانب رخ کرکے نماز ادا کررہے ہیں۔ شیطان رجیم کی علامت (جمرات) کو ایک ساتھ ملکر پتھر ماررہے ہیں اور نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی قربانی کی علامت کے طور پر یکساں عمل انجام دے رہے ہیں اور عرفات و مشعر میں ٹھہرنے کے دوران ایک ساتھ مل کر ( خدا کے حضور ) گریہ و زاری کر رہے ہیں۔ اسلامی فرقے اپنے بنیادی عقائد اور بیش تر اعمال و احکام میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ان میں یکسانیت ہے۔ ان تمام مشترکات کے ہوتے ہوئے بھی تعصب اور تنگ نظری ان کے درمیان اختلاف کی آگ کیوں کر بھڑکاتی ہے اور خائن و غدار دشمن کو اس خطرناک آگ کو ہوا دینے کا موقع کیسے مل جاتا ہے؟ آج جو لوگ تنگ نظری و نادانی کی وجہ سے بے بنیاد مسائل کے بہانے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت و فرقے کو مشرک گردانتے ہیں اور حتی ان کا خون بہانے کو روا جانتے ہیں، یہ لوگ در حقیقت، دانستہ یا ندانستہ طور پر شرک و کفر اور سامراج کی خدمت کررہے ہیں۔ کیا معلوم کہ جن لوگوں نے پیغمبر اعظم (ص) اولیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کی زیارت و تکریم کو جو دینداری کا مظہر ہے شرک و کفر قراردیا کہیں وہ خود کافروں اور ظالموں کے دربار کی تکریم میں مصروف تو نہیں ہیں، کہیں وہ ان کے ناپاک عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں ممد و معاون تو ثابت نہیں ہورہے ہیں؟! سچے علماء، دینی جذبے سے روشن دماغوں اور مخلص حکمرانوں کو چاہئے کہ اس طرح کی خطرناک لعنتوں اور اقدامات کا مقابلہ کریں۔ آج اسلامی اتحاد و یکجہتی ایک لازمی ہدف ہے جو دانشمندوں اور قومی ہمدردی کے جذبے سے سرشار افراد کے محنت و مشقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس عظیم مقصد کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ عزت و سربلندی کے یہ دونوں ستون، یعنی ایک طرف استکبار کے مقابلے میں مضبوط صف آرائي اور مستحکم محاذ کی تشکیل اور دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت و مہربانی جب تیسرے ستون یعنی پروردگار کے حضور خشوع و تعبّد و بندگي کے ساتھ مل جائیں گے توامت اسلامیہ دوبارہ اسی راستے پر چل پڑےگی جس پر چل کر صدر اسلام کے مسلمانوں کو عزت و عظمت ملی تھی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان قومیں اس ذلت آمیز پسماندگی سے جو حالیہ صدیوں کے دوران ان پر مسلّط کر دی گئی ہے نجات و چھٹکارہ حاصل کرلیں گی۔ اس عظیم تحرک کا آغاز ہوچکا ہے اور پورے عالم اسلام میں بیداری کی لہریں ہر جگہ ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔ دشمنوں کے ذرائع ابلاغ، ان کی پروپیگنڈہ مہم اور ان کے ایجنٹوں کی کوشش ہے کہ عالم اسلام کے کسی بھی گوشہ میں عدل و انصاف کے مطالبے اور حریت پسندی کی جو بھی تحریک اٹھے اسے ایران یا پھر شیعیت سے منسوب کردیں اور اسلامی ملک ایران کو جو اسلامی بیداری کا کامیاب علمبردار ہے ان کاری ضربوں کا ذمہ دار قرار دیں جو میدان سیاست و ثقافت میں مسلمان ملکوں کے غیور عوام کی جانب سے ان پر لگائی جاتی ہیں۔ وہ تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ کے بے مثال کارناموں، عراقی عوام کی مدبرانہ استقامت کو جو غاصبوں کی مرضی کے برخلاف پارلیمنٹ اور (عوامی ) حکومت کی تشکیل پر منتج ہوئي، فلسطین کی قانونی حکومت اور وہاں کے جاں نثار عوام کی حیران کن مزاحمت و پائمردی، مسلمان ملکوں میں مذہبی بیداری اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی دیگر بہت سی علامتوں اورنشانیوں کو ایرانیت اور شیعیت کے دائرے میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس بیداری کے لئے عالم اسلام کی ہمہ گير حمایت کو معمولی اور غیر اہم ظاہر کر سکیں، لیکن یہ ہتھکنڈہ سنت الہی کے مقابلے میں جو مجاہدین فی سبیل اللہ اور دین خدا کی مدد کرنے والوں کی کامیابی ہے نہیں ٹھہر سکے گا۔ آنے والا دور امت اسلامیہ کا دور ہوگا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی طاقت و توانائي، صلاحیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے اس نئے دور کی جانب پیش قدمی کے عمل کو سرعت بخش سکتا ہے۔ حج کے مناسک آپ جیسے خوش قسمت حاجیوں کے لئے ایک بڑا اور بہترین موقع ہے کہ خود کو پہلے سے زیادہ اپنے اوپر عائد اس فریضے کی ادائیگي کے لئے آمادہ کریں۔ امید ہے کہ توفیق الہی اور حضرت مہدی موعود عجل اللہ لہ الفرج کی دعا اس عظیم مقصد تک پہنچنے میں آپ کی مدد کرے گی ۔و السلام علیکم و رحمه الله و برکاته السید علی الحسینی الخامنه ای 4 ذی الحجه 1428 هجری قمری12 دسمبر 2007
بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحيم
اسلامي ممالک سے تشريف لانے والے اپنے تما م مہمانوں کو آپ کے اپنے وطن ''ايران‘‘ميں خوش آمديد کہتا ہوں۔آج آپ اپنے گھر ميں اور اپنے بھائيوں کے درميان موجود ہيں۔ بين الاقوامي سطح پر اسلامي ممالک کي عدليہ کے سربراہوں کا اپني نوعيت کا حساس اور اہم ترين اجلاس ہماري نظر ميں ايک سنہری موقع ہے جس سے ہميں زيادہ سے زيادہ استفادہ کرنا چاہئے۔اِس قسم کے اجلاسوں اور ملاقاتوں سے ہم اپنے مسلم بھائیوں سے متعارف ہوتے ہیں جو کہ بڑی اہم چیز ہے۔
مسلمان ہوتے ہوئے بھی ايک دوسرے سے نا آشنا اور اجنبي!
اُمت ِ مسلمہ کے دشمن عرصہ دراز سے ہم مسلمانوں کي غفلت سے بہت فائد ہ اُٹھاتے رہے ہیں اوراُنہوں نے مختلف حربوں کوبروئے کارلاتے ہوئے ہميں ايک دوسرے سے دور اور جدا کر ديا ہے، ہمارے درميان جدائي اور فاصلے ڈال کر ہميں ايک دوسرے سے بے گانہ بنا ديا ہے اور ہميں ايک دوسرے کي بابت بدگمانی و غلطفہمی ميں مبتلا کرديا ہے۔ ہم وہ بھائي ہيں جو آپس میں غیروں اور بےگانوں کی طرح ملتے ہیں۔ امت ِ مسلمہ کے اندے ہماری اس حالت کا، دشمن پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ ہميں ہر حالت ميں اس کاسد باب کرنا چاہئے اور اِس قسم کے يہ اجلاس اِس راستے ميں سنگ ِميل ثابت ہوں گے۔
مسلمانوں کا اتحاد اُن کے مشترکہ اہداف تک رسائي کيلئے نا گزير ہے
امت ِ مسلمہ ايک بڑے اور زندہ پیکر کي مانند ہے، اِس کے اپنے اہداف، آرزوئيں اورامنگیں ہیں۔ يہ اہداف اور يہ آرزوئيں کسي ايک قوم یا کسي ايک اسلامي ملک سے مختص نہيں ہيں؛ بلکہ يہ پوري دنيائے اسلام کي مشترکہ آرزوئيں ہيں۔ اِن آرزوؤں کو پورا کرنے کيلئے ضروري ہے کہ ہم ايک دوسرے سے نزديک ہوں۔ اسلامي حکومتوں کي قربت اُن کي اقوام کي دوستی کا سبب بنے گي اور جب يہ اقوام ايک دوسرے کے نزديک ہو جائيں گي تو اُ س وقت اپنے تجربات، ہمت وحوصلے اور اپني اچھي اور پسنديدہ صفات کا ايک دوسرے سے تبادلہ کريں گي، نتيجتا امت ِمسلمہ کو جو چيزملے گي وہ بہت قيمتي ہو گي۔
اگرمسلمان فقہا کے مرتب کردہ قوانين ہمارا نقطہ اتحاد ہو تے!
آج ہم دنيائے اسلام کے پيکر واحد پر استعماري طاقتوں کي جانب سے مسلسل ضربوں کا مشاہدہ کر رہے ہيں؛ يہ حملے کسي ايک ملک يا قوم پر نہيں بلکہ پوري امت ِ مسلمہ پر ہو رہے ہيں۔ ايک حملہ اسلامي قوانین اور اسلامي عدالتی نظام پر ہو رہاہے۔ اسلام بہترين اورترقی یافتہ ترين عدالتی قوانين کا حامل ہے اور اِسي طرح اسلام ميں بيا ن کيے گئے (حشرات وحيوانات کي سطح سے لے کر انسانوں اور اُس سے بھي بڑھ کے تمام موجودات کی سطح تک) تمام حقوق و قوانین، دنيا کے ترقی یافتہ اور عالي ترين قوانین سے بالا و برتر ہیں۔ اِس با ت کو سب اچھي طرح ديکھ سکتے ہيں۔ آپ تاريخ کے اوراق ميں اسلامي ممالک کے عدالتی اور قانونی مسائل، حدود وتعزيرات اور ديت وغيرہ کے مسائل اورعدليہ کے قوانين کو مرتب و مدوّن کرنے کے سلسلے ميں مسلمان فقہا و علما کی کوششوں کا جائزہ ليجئے۔ جب ہم اِن قوانين پر نگاہ ڈالتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ يہ بہت ہي قيمتي قوانين ہيں۔ اگر ہم مسلمان، تاريخ ميں مرتب کيے جانے والے اِ ن قوانين پر اپني توجہ مرکوز کرتے اوراِنہي کواپنا نقطہ اتحاد قرار ديتے تو ہم آج حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ دنيائے اسلام ميں يہ کا م انجام نہ پا سکا۔ استعماري طاقتوں نے جس طرح امت ِ مسلمہ کي'' سياست اور اقتصاد‘‘ پرغلبہ پايا اُسي طرح اسلامي ممالک کے عدالتی نظام کو بھی اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ ہماري عدليہ بغیر کسی وجہ کے مغربی عدلیہ میں تبدیل ہو گئی۔ يہ ہيں امت ِ مسلمہ کے درد اور مشکلات۔!
آج امت ِ مسلمہ کوخود اعتمادی اور خدا ئے وحدہ لا شریک لہ کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنے کي اشد ضرورت ہے؛ ہميں اپنی خوداعتمادی دوبارہ حاصل کرنا چاہئے۔جب ايک انسان دنيائے اسلام پر نگاہ ڈالتا ہے تو وہ ديکھتا ہے کہ ايک فقيہ فتويٰ دينے ميں خود اعتمادی کی کمی سے دوچار ہے، قاضي عدالت ميں آزادانہ فيصلے کرنے ميں ہچکچاتا ہے وہ مغرب کی تشہیراتی مہم سے گھبراتا ہے۔ آج پوري دنيائے اسلام کوخود اعتمادی کي ضرورت ہے۔ سیاسی میدان ہو ثقافتی میدان ہو اقتصادی میدان ہو یا عدالتی نظام ہر مرحلے پر خود اعتمادی کی ضرورت ہے ۔
قرآن و سنت کي حقيقي تعليمات سے عصر حاضر کے مسائل کا تصفیہ
ہم کبھي اِس چيز کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ ايک فقیہ ايک اسلامي حکم کو صراحت کے ساتھ بيان نہيں کرتا ہے یا اُس کا انکار کر تا ہے کيونکہ مغرب کے سياستدان اُسے پسند نہيں کرتے ہيں، يہ بہت ہي بري با ت ہے۔ ہر( چيز کے اچھے اوربر ے ہونے) کا ہمارے پا س ''معيار‘‘ موجود ہے اور وہ ''قرآن و سنت‘‘ ہے۔ يہ وہ معيار ہيں کہ جو آج اکيسويں صدي ميں بھی انساني زندگي کی صحيح سمت ميں راہنمائي کيلئے بہت مفيد اور کا رآمد ہيں۔ايسا نہيں ہے کہ ہم قرآن و سنت کے چودہ سو سال قبل بيا ن کيے جانے والے معياروں پر عمل پيرا ہونے کي وجہ سے دنيا سے پيچھے رہ گئے ہيں، اگر ہم اسلامي احکا مات کي جانب صحيح طور پر رجوع کريں اور اُنہيں نا فذ کريں تو ہم عصر حاضر کے انسان کي تمام ضرورتوں کو مغربي ثقافت سے زيادہ بہتر انداز سے پورا کر سکتے ہيں۔
دنيا پر مغربي ثقافت کے تسلط وغلبے کے نتائج!
آپ دنيا ميں مغربی ثقافت کے غلبے اور تسلط کا نتيجہ خود اپني آنکھوں سے دیکھ رہے ہيں؛ آج دنيا ميں عدل و انصاف عنقا ہے، امن و امان کا دور دور تک کو ئي نا م ونشان نہيں ہے، انسانوں کے درمیان سے اخوت و برادري اُٹھ گئي ہے اور اِس کے بر عکس ايک دو سرے سے دشمني، کينہ اورمنافقت کا بول بالا ہے، بے مہار استعماري طاقتوں کا تسلط اور قبضہ آپکو جگہ جگہ نظر آرہا ہے۔ دوستو! يہ سب مغربي ثقافت اور دنيا پر اُس کے تسلط و قبضے کے نتا ئج ہيں۔
غير مسلم اقليتوں سے اسلام کاسلوک!
آپ آزادي قلم وصحافت کادعويٰ کرنے والے ممالک ميں مسلمان اقليتوں سے اُن کے رويے اور سلوک کا جائزہ لیں اور اُ ن کے اِس رويے اور سلوک کا تاريخ کے مختلف حصوں ميں اسلامي ممالک ميں موجودغير مسلم اقليتوں سے اسلام کے برتاؤ سے موازنہ کريں۔ خلفائے راشدين کے زمانے ميں ہو نے والي فتوحات کے بعد مسلمان جس علاقے ميں بھي گئے ، اختمام جنگ کےبعد اُن کي حکومت و اقتدار کے زمانے ميں غير مسلموں سے اُن کا رويہ اور سلوک مہرباني اور رحمدلي سے لبریز تھا۔ مشرقي روم کے اِسي علاقے کو ہی لے ليجئے جہاں بہت سے يہودي زندگي بسر کرتے تھے۔اِن تمام واقعات کو تاريخ نے ذکر کيا ہے کہ جب مسلمان وہاں گئے تو يہوديوں نے قسم کھائي؛'' وَالتَّورَاۃِ لِعَدلِکُم اَحَبُّ اِلَينَا مِمَّا مَضيٰ عَلَينَا ‘‘؛''توریت کي قسم ، آپ مسلمانوں کا عدل و انصاف ہميں اپنے ماضي کے مقابلے میں بہت پسند ہے‘‘ وہ تقريباً اِسي قسم کے الفاظ سے مسلمانوں کے عدل وانصاف کوسراہتے تھے۔
ايران ميں غير مسلم اقليتوں کي آزادي!
آج آپ اسلامي جمہوریہ ایران پرنظر ڈاليے، ہمارے ملک میں يہودي، عيسائي اور آتش پرست آزادانہ زندگي بسر کر رہے ہيں، يہ اقليتيں انتخابات ميں آزادانہ طور پرحصہ لے کر اپنے نمائندے پارليمنٹ ميں بھيجتي ہيں اوراپنے مذہب پر بغير کسي روک ٹوک کے آزادانہ طور پر عمل کرتي ہيں۔ دوسرے اسلامي ممالک ميں بھي يہي صورتحال ہے ، يہ ہے اسلام ! آپ اِن اقليتوں سے اسلام کے سلوک کا آج کي مہذب اور بظاہر انساني حقوق کي طرفدار حکومتوں کے اس برتاؤ سے موازنہ کريں جو وہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےساتھ روا رکھتی ہیں۔
اسلام ہي عالمي سطح پر عدل وانصاف اور امن و امان کا ضامن بن سکتا ہے
آج دنيا عدل وانصاف کي پیاسی ہے، وہ امن و امان کي طالب ہے اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکا ر ہے؛ يہ اسلام ہي ہے جو اِن تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ مغربي تہذیب و ثقافت نے يہ بات ثابت کر دي ہے کہ وہ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے عاجز کو قاصر ہے۔ آپ آج دنيا کي موجودہ حا لت پر ايک سرسری نگاہ ڈاليے، فلسطين کو ديکھئے، صہيوني صاحبان اقتدار کھلے عام اِس بات کا اظہار کر رہے ہيں کہ''اگر ہم صہيونيوں اور فلسطينيوں کے درميان غصب شدہ فلسطيني سرزمين برابر برابر تقسيم ہو جائے تو جو کچھ جنوبي افريقہ ميں وقوع پذير ہوا تھا وہي چيز ہميں بھي حاصل ہو جائے گي! يعني وہ اِس با ت کا اقرار کر رہے ہيں کہ وہ نسل پرستي کي ترويج و حمايت کر رہے ہيں گويا وہ طبقاتي نظام اور نسل پر ستي کا اعتراف کر رہے ہيں۔ دنيا اِن تمام واقعات کا اپني آنکھوں سے مشاہدہ کر رہي ہے، مغربي تہذیب و ثقافت کے پنجوں ميں جکڑي ہوئي دنيا يہ سب ديکھ رہي ہے ليکن اُس نے اپنی زبان پر تالے لگا ليے ہيں اور وہ اپنےفرائض کي انجام دہي سے گریز کر رہی ہے۔
يہ ہمارے لئے خطرے کي گھنٹي ہے اور ہم مسلمانوں انتباہ ہے کہ ہميں خود اعتمادی پيدا کر نا ہوگی، ہميں خدا وندعالم کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے اوراِس با ت کو اچھي طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ہم اپنے عقيدے، طرزفکر، تدبير، منصونہ بندي اوراتحاد کے ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے تو خدا وندعالم بھي ہماري مدد فرما ئے گا اور ہميں کاميابي سے ہمکنار کرے گا۔ ہميں اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہئے، خدا وند عالم قرآن کريم ميں ايسے لوگوں کي مذمت کرتا ہے جو اُس کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہيں:''وَيُعَذِّبُ المُنَا فِقِينَ وَالمُنَافِقَاتِ وَالمُشرِکِينَ وَالمُشرِکَاتِ الظَّانِّينَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السّوئِ عَلَيھِم دَائِرَۃُ السُّوئِ وَغَضبَ اللّٰہُ عَلَيھِم وَلَعَنَھُم وَاَعَدَّلَھُم جَھَنَّمَ وَسَا ئت مَصِيراً‘‘ اللہ تعالي منافق مردوں عورتوں اورمشر ک مردوں و عورتوں کو عذاب دے تا ہےجو اللہ تعالي کے بارے ميں بدگمانی کا شکار ہیں، اِن پر خدا نےاپنا غضب نا زل کيا ہے اوراِن پر لعنت کي ہے اور اِن کيلئے جھنم تيا رکيا ہے۔لہذا ہميں خدا کي ذات پر بھروسہ و توکل رکھناچاہئے۔ ہم نے کب اور کہاں کوئي عمل انجام ديا اور کوئي اقدام کيا کہ جس میں خدا وند عالم نے ہماري مدد نہ کي ہو؟ ہميں وہیں مشکلات کا سامنا ہوا اور ہم وہیں کمزوري اور شکست سے دوچار ہوئے جہاں ہم نے عمل انجام نہيں ديا تھا اور اپني ذمہ داريوں اور فرائض سے کنا رہ کشي اختيار کي، ليکن جہاں بھي ہم نے اپني ذمہ داريوں کو پورا کيا خدا وند عالم نے وہاں ہماري مدد فرمائي اور يہ خدا کا وعدہ ہے؛''وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ لَيَستَخلِفَنَّھُم فِي الاَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِينَ مِن قَبلھِم‘‘؛ اور اِس طرح دوسری آيات میں بھی یہی بات کہی کئي ہے۔
مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے عدالتی نظام اور عدلیہ کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے
آج کے اِ س بين الاقوامي اجلاس میں جو با ت کہي جا سکتي ہے وہ يہ ہے کہ ہم اسلامي عدليہ کے قوانين ميں اپني آرا و نظريات کی آزادی، خود اعتمادی اور قرآن ميں بيان کي گئي اسلامي تعليمات کي طرف واپس آئیں۔ اِس قسم کے اجلاس اور نشستيں اِس راہ ميں ہماري مدد کر سکتي ہيں۔ بہت خوشي کي با ت ہے کہ اسلامي ممالک نے اِس سلسلے ميں بہت اچھے تجربا ت حاصل کئے ہيں اور ہمارے پاس بھي اچھے تجربا ت موجود ہيں۔ اسلامي انقلاب کي کا ميابي کے بعد گزرنے والي اِن تين دہا ئيوں ميں ہمیں مفید تجربات حاصل ہوئے ہيں ليکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بھائيوں کے قيمتي تجربا ت سے بھي استفادہ کريں گے اور وہ ہمارے تجربا ت سے مستفيد ہوسکتے ہیں۔ ہم ايک دوسرے کي مدد کريں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تا کہ اسلامي عدالتی نظام اورعدليہ کو جو ايک عظيم الشان عمارت کي مانند ہے ، حقيقي معنيٰ ميں رفعت و بلندي حاصل ہو سکے۔
اِس اجلاس ميں شرکت کرنے والے مہمانوں اور ميزبا نوں کي جا نب سے بہت اچھي آرا وتجاويز سامنے آئي ہيں، ميں نے سب کو سنا ہے، يہ بہت اچھي تجاويز ہيں اور ہم اِن تجاويز کو عملي جامہ پہنانے کيلئے ايک بين الاقوامي کميٹي یا کميشن تشکيل دينے کي حمايت کرتے ہيں۔ ہميں ايک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ايک دوسرے کي مدد کرني چاہئے تا کہ موجودہ زمانے ميں اسلامي ممالک ترقي کر سکيں۔ اِس با ت کي طرف توجہ رہے کہ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے اور باہمی قربت سے بہت سی طاقتيں ناخوش ہيں اور وہ اِس با ت کو ہر گز پسند نہيں کريں گي۔ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے پر ہمارے مخالفين خاموش نہيں بيٹھے رہيں گے؛اِس کي طر ف بھي متوجہ رہيں۔ مل جل کر فيصلہ کريں اور اللہ تعالی کی مدد سے باہمی تعاون کےساتھ اپنے امور انجام دیں۔ اپنے اِس کا م کيلئے اللہ تعالی سے توفيق کی دعا کيجئے، اُ س سے مدد طلب کیجئے۔ اِ ن شائ اللہ اُميد رکھيں کہ خدا وند عالم ہماري مدد و اعانت فر مائے گا۔
مجھے اُميد ہے کہ تہران اور دوسرے مقامات پر آپ کا سفر اچھا گزرےگا اور آپ ايران سے اچھي ياديں اپنے ہمراہ لے کر جائيں۔
والسّلام عليکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ سب عزیز نوجوانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ ان فارغ التحصیل طلبہ کوبھی جو آج سے پولیس کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور ملک کی عملی خدمت کے میدان میں داخل ہوں گے ؛ اور ان عزیز نوجوانوں کو بھی جو آج باضابطہ طور پر اس علمی اور تربیتی مرکز کے طالب علم بن جائیں گے ۔
اگر انسان تعلیم اور زندگي کے راستے کے انتخاب کے لیے اہم مقاصد میں سے کسی مقصد کو چننا چاہے تو بلا شبہ جو مقصد آپ نے چنا ہے وہ ایک بہترین اور برترین مقصد ہوگا۔ آپ کو اس توفیق کی قدر کرنی چاہیے، خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور خود پر فخر کرنا چاہیے؛ کیونکہ امن و سلامتی ایک انتہائی اہم امر ہے ۔آپ دیکھیے کہ خداوند متعال قرآن کریم میں ، وآمنھم من خوف ، امن و سلامتی کو ایک بڑی نعمت شمار کرتا ہے ۔
امن و سلامتی تمام کامیابیوں اور ترقیوں کی پہلی منزل ہے۔ اس کے علاوہ اگر معاشرے میں امن و امان نہ ہو اور عوام کو بدامنی کا دھڑکا لگا رہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا ایک بڑا حق پامال ہوا ہے۔ آپ نے اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیا ہے؛ اس فریضے کو نبھانے کا عہد کیا ہے۔
مختلف زمانوں میں انسانی معاشروں کے تمام طبقوں میں ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جو قانون شکنی اور دوسروں کی خواہشات پر اپنی ناجائز خواہشات کو ترجیح دے کر معاشرے میں بدامنی کے اسباب فراہم کرتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی لگام کون کسے؟ جس ادارے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اعلی انسانی خصوصیات میں سے دو اہم خصوصیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایک تو لوگوں سے اس کی ہمدردی ہے کہ وہ ان کا دفاع کرنا چاہتا ہے، ان کے امن و امان کو تحفظ دینا چاہتا ہے؛ دوسرے وہ ان لوگوں کے خلاف طاقت اور زور بازو کا استعمال کرتا ہے؛ جو معاشرے میں قانون اور نظم و ضبط کو اپنا بازیچہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون کے احترام کے بجائے جو سب لوگوں کے لیے لازمی ہے، سینہ زوری پر اتر آتے ہیں۔ یہ ادارہ ایک طرف تو لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا برتاؤ کرتا ہے اور دوسری طرف، ان لوگوں کے سلسلے میں طاقت کا استعمال اور سختی کرتا ہے جنہوں نے دوسروں کے حقوق کو پامال کیا۔ ان دونوں خصوصیتوں پیدا ہونا ضروری ہے۔آپ کو اس بات پر فخر اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کو ایسی ذمہ داری ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فریضے کی اہمیت کے بارے میں بھی سوچیں اور خود کو حقیقی معنی میں آمادہ کریں۔
ہماری پولیس شاہی حکومت کے گذشتہ طاغوتی دور بہ نسبت بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے؛ آپ لوگ اس وقت پیدا نہیں ہوئےہوں گے۔ زمین آسمان کا فرق پیدا ہوا ہے۔ ایک دن وہ تھا جب اس ملک میں پولیس حکام لوگوں کو ڈرانے دھمکانے ان میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے تھے؛ آج پولیس کے افراد، عوام کے اپنے لوگ ہیں، ان کے ہمراہ ہیں، عوام کی پشت پناہی کر رہے ہیں؛ لوگوں کا ان پر اعتماد ہے۔ آپ جب میدان عمل میں ہیں اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں، ان امور کو جنہیں لوگ معاشرے میں امن و امان اور نظم ونسق کے لحاظ سے اپنے مسائل کے عنوان سے پیش کرتے ہیں، آپ انہیں ڈھارس دیتے ہیں۔ لوگوں کا آپ پر اعتماد بڑھتاہے؛ وہ تحفظ کا احساس کرتے ہیں؛ آپ سے محبت کرتے ہیں؛ آپ پر فخر کرتے ہیں۔
گذشتہ عرصے کے دوران عوام کے نفسیاتی چین وسکون اور سماجی امن و سلامتی میں خلل ڈالنے والے افراد اور شر پسند عناصر کی پولس نے نکیل کسی نتیجتا عوام نے ہر جگہ آپ کی کامیابی اخلاقی و سماجی صورتحال میں بہتری کا مشاہدہ کیا، انہیں ایسا لگا کہ یہ ان کی اپنی کامیابی ہے، انہیں آپ پر فخر کرے کا موقع ملا۔
میں یہ دعوی تو نہیں کر سکتا کہ آج پولیس ہر جہت سے اسلامی معاشرے کی توقعات پر پوری اتری ہے لیکن میں یہ دعوی ضرور کر سکتا ہوں کہ جو راستہ طے کر کے آج آپ اس منزل پر پہنچے ہیں وہ راستہ انتہائی طویل، پر نشیب و فراز تھا۔ اس پر آگے بڑھنا قابل تحسین ہے، اس پیش قدمی کو ضرور جاری رکھیے۔
فرائض کی ادائگي کے لئے آپ کا سب سے بڑا سرمایہ، آپ کا وہ دل ہے جو فرض شناسی، ذمہ داری کے احساس اور عوام کی محبت سے سرشار ہے، جو اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف اقدام کی قوت عطا کرتا ہے جو معاشرے کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کا کام بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ ظریف اور پیچیدہ بھی ہے۔عزیز نوجوانو! جتنا ہو سکے خود کو آمادہ کرو۔
اللہ تعالی کی عنایت اور اسلامی انقلاب کی برکت سے ہمیں علمی، سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت ملی، قومی عزت و افتخار حاصل ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تحفظ کے احساس کی ضرورت ہے۔جس طرح کسی شخص کی کامیابی سے دوسرے افراد حسد کرتے ہیں ایک ملت کو بھی کامیابی کی مزلیں طے کرتا دیکھ کر حاسد جلنے لگتے ہیں لہذا جب کسی شخص کو کوئی کامیابی حاصل ہو تو اسے خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حاسدوں کی نگاہوں سے بھی بچنا چاہئے۔ قوم بھی اسی طرح ہے۔ایسے لوگ ہیں جو صرف برا چاہتے ہیں حسد کرتے ہیں وہ ایرانی قوم کی ترقی و پیشرفت سے سخت ناراض ہیں؛ اس لیے کہ انہوں ( بیرونی طاقتوں ) نے اس علاقے میں اپنے لیے جو مفادات مدنظر رکھے ہیں ان کا حصول، قوموں کی علمی سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت کی صورت میں ممکن نہ ہوگا۔ اس قسم کے عناصر، یہ دشمن، یہ حاسد اور یہ بدخواہ باقی نہیں رہیں گے۔ ہر ملک اور قوم کے لیے انتہائي حساس مسائل میں ایک، امن و سلامتی کا مسئلہ ہے؛ آپ کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے۔راستے بحمداللہ ہموار کر دیے گئے ہیں؛ آپ بہ آسانی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اس تربیتی مرکز کا ماحول دینی ہے، روحانی ہے، انتہائی اچھا ہے؛ اس ماحول کو برقرار رکھیے اسے اور اچھا بنائیے۔ آپ طلبا جو اس یونیورسٹی میں داخل ہوئے ہیں اور اسی طرح جو طلبا یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر عملی میدان میں داخل ہوں گے، آپ سب اس بات پر توجہ دیں کہ اس جذبے کو ہمیشہ باقی رکھیں؛اس بات کی اجازت نہ دیں کہ مختلف قسم کے عوامل آپ کے اس جذبے کو نقصان پہنچائیں اور آپ کے جوش و ولولے میں کمی واقع ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امن و سلامتی قائم اور تمام لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے عمل میں کسی سیاسی رجحان ھڑے بندی، مذہبی اختلافات اور نسلی و قومی تعصب وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ پر امن ماحول میں سانس لینا، معاشرے کی ہر فرد کا حق ہے۔امن و امان سے محروم صرف وہ شخص رہے جو لوگوں کا امن و امان تہہ و بالا اور درہم برہم کر دیناچاہتا ہے۔ ایسے ہی عناصر پر آپ کا خوف طاری رہنا چاہئے؛ ورنہ قوم کے تمام طبقے چاہے وہ کسی بھی مذہب،کسی بھی دین،کسی بھی سیاسی رجحان اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، سب یکساں اور برابر ہیں ان میں کوئي فرق نہیں ہے، اس عظیم فریضے کے تعلق سے جو آپ کے کاندھوں پر ہے یعنی امن کا قیام۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ خدمت کا پرافتخار دور گزار سکیں، خدا کی بارگاہ میں اور شہداء کی پاکیزہ ارواح کے سامنے سربلند و سرفراز ہوں اور قوم آپ کی اس خدمت گذاری کے نتیجے میں روزبروز زیادہ تحفظ کا احساس کرے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حج کے امور کی انجام دہی میں مصروف منظمین، متعلقہ عہدہ داروں خاص طور سے جناب ری شہری اور جناب خکسار کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بڑی خوشی کا مقام ہے کہ مناسک حج کے لئے تمام انتظامات اور اقدامات خوش اسلوبی سے انجام دئے گئے ہیں۔
دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ افواج جہاں فوجی ساز و سامان اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں وہیں اعلی اخلاقی قدریں اور معنوی و روحانی پہلو بھی ان میں نمایاں ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر اسلامی جمہوری نظام میں خاص طور پر قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے خاص تاکید کی جاتی ہے۔ کیڈٹ کالج کے فارغ التحصیل اور نووارد اسٹوڈنٹس کی مشترکہ تقریب سے رھبر معظم انقلاب حضرت آیت اللھ العظمی خامنھ ای نے اپنے خطاب میں ایسے ہی چند نکات کی جانب اشارہ فرمایا، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پوری اسلامی امہ، ایران کی مؤمن اورسر بلند قوم اور اس محفل میں شریک اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف حکومتی شعبوں کے اعلی' حکام، اسلامی ممالک کے محترم سفیروں، اور آپ تمام حاضرین کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ایک نظر میں عیدالفطر کو اسلامی امہ کےاتحاد اور مسلم اقوام کی یکجہتی کا جشن قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں دل نورانی اورلطیف ہو جاتے ہیں جبکہ انسان کے وجود میں اختلافات کے شیطانی جذبات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عیدالفطر درحقیقت فطرت انسانی کی طرف رجوع ہے۔ ؛خداوندعالم، توحید اور ایک اعلی مرکز کی طرف رجحان، انسانی فطرت کاتقاضہ ہے۔ تمام محرکات اور انسانی جذبات و احساسات یکجا ہو سکتے ہیں اور ان میں ہم آہنگي پیدا ہو سکتی ہے۔
عیدالفطر کی نماز بھی جہان اسلام کے ہر مقام پر اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ لہذا اس دعا میں جو ہم قنوت میں پڑھتے ہیں( الذی جعلتہ للمسلمین عیدا ولمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ ذخرا و شرفا و کرامتا و مزیدا ) یہ عید نبی اکرم کی مقدس ذات کا ایک ذخیرہ ہے، شرف کا ایک وسیلہ ہے، اس مقدس ذات کی کرامت اور اعلی و بلند مقام میں اضافے کا وسیلہ ہے۔کب یہ خصوصیات پیدا ہوتی ہیں؟ اس وقت کہ جب یہ عید مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے۔ قومی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے اور اسلامی امہ کی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔قومی سطح پر جیسا کہ ہماری غیور قوم نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں آج تک اس کا مظاہرہ کیا ہے، اتحاد اور وحدت کلمہ اس کی عزت وسربلندی کا باعث ہے، اس کی طاقت و توانائي کاسرچشمہ ہے۔
ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے جہاں ہماری غیور اور متحد قوم مختلف فرقوں اور مذاہب مشتمل ہے۔ ہمارے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ نسلی تعصب، مذہبی اختلافات، فرقہ واریت کو ایرانی قوم کے سیاسی عمل اور وحدت کلمہ کے عام جذبے او نظرئے پر مسلط کردیں لیکن آج تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے؛ ایران میں بسنے والی مختلف اقوام ایک دوسرے کی ہمدرد ہیں، مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔انہوں ( دشمن )نے بڑی سازشیں کی ہیں۔
انقلاب کی تحریک کے دوران جب فتح و کامرانی کا پرچم بابصیرت انسانوں کو دور سے نظر آنے لگا تھا تو شاہ کی طاغوتی حکومت کے آلہ کار اور ایجنٹ کہتے تھے کہ ایران تقسیم ہو جائے گا۔ وہ اس پر پورا یقین رکھتے تھے۔
ہمارے انقلاب کے اوائل میں ایرانی اقوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے اور مذاہب کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کے لئے بہت زیادہ پیسہ خرج کیا گیا ۔انقلاب ان ساری سازشوں پر غالب آیا۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ہماری غیور قوم کے عظیم الشان مظاہروں میں اس عظیم سرزمین کے سبھی علاقوں سے ہر طبقے اور ہر قوم اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ شریک ہوئے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی ہدف و مقصد کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
دو بھائی اکٹھا زندگی گذار رہے ہیں، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر چل رہے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ بعض مسائل کے سلسلے مین ان کے نظریات مختلف ہوں۔ یہ اختلاف نظر لڑائي جھگڑے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ انقلاب نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے۔ یہ بات ہم نے انقلاب کی برکت سے سیکھی ہے اور اس پر عمل کیا ہے؛ لہذا آج ہماری قوم متحد ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران دشمنوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ جب ہماری قوم میں نسلی و قومی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، مذہبی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، لسانی اختلافات نہیں ڈالے جا سکےتو سیاسی اختلافات پیدا کئے جائيں۔ البتہ ایک چھوٹا سا گروہ دھوکہ بھی کھا گيا اور غلطی کر بیٹھا تاہم قوم کے باشعور اور پڑھے لکھے افراد اس سازش کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں اتحاد کا محور و مرکز، اسلامی جمہوری نظام، اسلام اور قرآن کریم ہے کہ جس پر سب کا یقین اور اعتقاد ہے۔ نماز کے خطبے میں آج صبح میں نے عرض کیا کہ ماہ رمضان کے ایام، ماہ رمضان کی راتیں وطن عزیز کے نوجوانوں کا اعتقاد و ایمان اور ان کی معنوی لطافت، تقرب الہی اور خضوع و خشوع کا مظہر تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔
آج ہماری قوم کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، بہت کم قوموں میں اتنے نوجوان ہیں جو خلوص دل سے ذکر پروردگار کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں، خدا سے رازونیاز کرتے ہیں، پاکیزہ دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، یہ سب اسلام کی برکتیں ہیں۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔ عیدالفطر وہ دن ہے کہ جب ہمیں اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اگر ہمارے دلوں میں کینہ و دشمنی، نفاق اور عناد ہے تو حتی المقدور ہمیں خود کو اس سے نجات دلانا چاہئے۔اپنے دلوں سے ان برے احساسات کو محوکردینا چاہیے۔ ہمارے سامنے ایک طویل راستہ ہے۔ یہ درست ہے کہ انقلاب نے ہمیں اور ہماری تحریک کو سرعت بخشی، ہم نے بہت زیادہ ترقی کی۔ ہم دنیا کی تیسرے درجے کی قوم سے ایک پر وقار قوم میں تبدیل ہو گئے اور ایک ایسی قوم بن گئے جو مسلم اقوام کی مطمح نظر ہے۔ خود اندرونی طور پر بھی ہم نے بہت زیادہ ترقی و پیشرفت کی ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے،لیکن یہ بھی آغاز ہے۔ ابتدائي مرحلہ ہے۔
اسلام میں ترقی کے لئے بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اسلام نے ہمارے سامنے جو چوٹیاں رکھی ہیں وہ بہت بلند ہیں۔ ہمیں ان چوٹیوں کے راستے کو طے کر کے ان کو سر کرنا چاہیے۔ اسلام نے ایک ایسی عرب قوم کو کہ جس نے تہذیب و تمدن کی بو بھی نہیں سونگھی تھی اور انسانی علم و دانش سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا، عالمی سطح پر علم و دانش کی ایسی چوٹی پر پہنچا دیا کہ پوری دنیا کے انسانوں نے اس کے علم و دانش، اس کی معرفت، اس قوم کی تحریروں اور ان کے افکارونظریات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ اسلام کا ہنر ہے۔ ہم مسلمانوں نے خود کو اس چوٹی سے نیچے گرا لیا؛ غلطی ہماری اپنی ہے، ہم نے پستی اور ذلتوں کو قبول کر لیا۔ اس لیے آج عالم اسلام پسماندہ ہے۔ ہم دوبارہ اسی راستے پر چل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمھا علی' قوم حتی' یغیروا ما بانفسھم ہم نے اپنے آپ میں جتنی تبدیلی کی اتنا ہی ہم آگے بڑھے؛ اللہ تعالی ہمیں آگے لے گيا۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ملک کے اندرونی مسائل سے مربوط ہے۔ امتحان بھی زیادہ ہیں۔
اس سال کے آخر میں (2008 اوایل میں ) انتخابات آ رہے ہیں۔ انتخابات ہمارے اتحاد ، ہماری بصیرت و تدبر اور ہمارے قومی شعور کے اظہار اور مظاہرے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انتخابات، انتخابی سرگرمیاں اور انتخابی ماحول اختلاف کا باعث ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد کا باعث ہو سکتا ہے، مثبت اور شفاف مقابلہ آرائي سے پیشرفت کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ ہر پارٹی قوم کی خدمت کے لیے وہ حصہ حاصل کرے جس کے لائق وہ خود کو سمجھتی ہے؛ اس میں کوئی برائي نہیں ہے۔ یہ مثبت رقابت اور مقابلہ معاشرے کو نشاط و شادمانی بخشتا ہے، ہمیں زندہ دل بناتا ہے، ہمارے معاشرے میں جوش و جذبہ بھر دیتا ہے۔ ان انتخابات میں اگر ہم برا طرزعمل اختیار کریں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں، ایک دوسرے سے کینہ رکھیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کریں، اصول و آداب کے برخلاف عمل کریں تو یہ تنزلی، کمزوری اور انحطاط کا سبب بن سکتا ہے، یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، یہ ایک الہی آزمایش ہے ۔
آج عیدالفطر کا دن ہے، جو الہی نعمتوں اور معنوی برکتوں سے سرشار اور بابرکت تیس دن کے ماہ رمضان کے بعد جلوہ افروز ہوا ہے۔ مبارک ہو آپ کو۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ماہ رمضان گزارا ہے، آج عید آئي ہے۔ اسے اعلی' انسانی منزل کی سمت روانگی و سفر کا نقطہ آغاز قرار دیجیے۔ یہ ملک کے داخلی امور سے مربوط ہے۔
اسلامی امہ کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ آپ دیکھیے کہ بین الاقوامی توسیع پسند طاقتیں عالم اسلام کے تمام مسائل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی سینیٹ بل پاس کرتی ہے کہ عراق تقسیم ہوجانا چاہیے۔ آخر آپ ہوتے کون ہیں جو یہ فیصلہ سنا رہے ہیں؟ تو عراقی قوم کس لیے ہے؟ یہ غلط ہے کہ ایک ملک کی قانون ساز اسمبلی دوسرے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرے ۔ ایک اہم اسلامی ملک (عراق ) کو تقسیم کرنا، اس تین حصوں میں بانٹ دینا تاکہ اس پر آسانی سے تسلط قائم کیا جا سکے، اسے اپنا بازیچہ قرار دینا یہ عالم اسلام اورعراقی قوم کے ساتھ سب سے بڑی خیانت اور غداری ہے۔ عراقی حکام نے اس کی مخالفت کی ہے اور وہ حق بجانب ہیں ۔اسے دیکھیے یہ استعمار کی سامراجی اور خودسرانہ مداخلت کی ایک مثال ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟
مسئلہ فلسطین اس کی دوسری مثال ہے۔ اب چونکہ صیہونیوں کو مسلمان عرب نوجوانوں سے منہ توڑ جواب ملا ہے، اس لیے اب وہ صیہونیوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور کسی طرح اس شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ امن کانفرنس تشکیل دیتے ہیں۔ یہ امن کانفرنس ہے؟ امن کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے تمام حقوق سے محروم کردیا جائے، اور دوسروں کے کام میں بے جا مداخلت کرنے والے ایک بے سروپا اور غاصب گروہ کو ملت فلسطین پر مسلط کرکے اس قوم کو اس کے گھربار، حق زندگی، زمین اور وطن سے محروم کردیا جائے، اس کے بعد اسی قوم کے خلاف قانون پاس کیا جائے اقدامات کئے جائيں ! آپ کو اس کا کوئی حق نہیں ہے! امن کانفرنس اس لیے ہے؟ فلسطینی عوام کو گذشتہ کانفرنسوں سے کیا ملا ہے؟ بتائیے، آج غزہ میں عوامی حکومت منتخب ہوئی ہے۔ یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اس میں کوئی شک ہے؟ عوام نے اس حکومت کو منتخب کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اگر یہ ایسی حکومت ہے جسے فلسطینی قوم نے منتخب کیا ہے تو پھر امریکہ اور اس کے پٹھو کسی ملک کو کیا حق ہے کہ وہ اس قوم کے مسائل میں مداخلت کریں اور اپنی مرضی چلائیں ۔ یہ اس قوم کا حق ہے! فلسطینیوں نے کہا ہے کہ ہم مخالف ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ یہ فلسطینیوں کے خلاف سازش ہے۔ علاقے کی بعض حکومتیں ماضی میں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہیں ہیں- اس وقت کہ جب ان سازشی کانفرنسوں کو بعض ملکوں نے فلسطینی عوام کے نام پر قبول کر لیا تھا۔ (اس وقت کہا گیا ) کہ فلسطینیوں نے قبول کیا ہے۔ آپ فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہ بنیں اب کیا ہوا؟ اب توخود فلسطینی کہتے ہیں کہ ہمیں یہ امن کانفرنس قبول نہیں ہے، اب کیوں اسے مکروفریب قرار دیتے ہیں۔ کیوں بعض ممالک اس سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں حالانکہ یہ فلسطینی قوم کی خواہش کے برخلاف ہے، عالم اسلام کی خواہش کے برخلاف ہے، خود علاقے کی حکومتوں کی خواہش کے برخلاف ہے، کیوں یہ مداخلتیں کی جاتی ہیں؟ کیونکہ ہم آپس میں متحد نہیں ہیں، کیونکہ ہماری طاقت ایک دوسرے کی تقویت کا باعث نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔اگر عالم اسلام کے کسی بھی علاقے میں مسلمان ممالک کسی بھی زبان اور آبادی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں اور ایک ہی بات کریں تو پھر امریکہ یا کسی اور طاقت کو اسلامی امہ کے خلاف بات کرنے اور اقدام کرنے کی جرئت نہیں ہو گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران نہیں کہتا کہ دوسری حکومتیں وہی کہیں جو ہم کہتے ہیں۔ آئیں مل بیٹھ کر مسئلہ فلسطین کے بارے میں کسی بھی توسیع پسند اور مداخلت پسند بڑی طاقت کی خواہش کو پیش نظر رکھے بغیر فیصلہ کریں، اسی فیصلے کا اعلان کریں، فیصلے کو قبول کرنا یا نہ کرنا خود فلسطینی قوم کا حق ہے ۔ کیوں دنیا کے دوسرے کونے سے اٹھ کر کوئی آئے اور ان کی پوری کوشش یہ ہو کہ ، اس علاقے میں سامراج اور استعمار کی اس ناجائز اولاد اسرائیل کے لیے امن و سلامتی فراہم کریں۔ چاہے قومیں تباہ و برباد ہو جائيں؛ جو ہوتا ہے ہو جائے۔ یہ ہماری کمزوری کا نتیجہ ہے۔
آبادی بتخانہ ز ویرانی ما ست جمعیت کفر از پریشانی ما ست
ہم مسلم قوموں کو اکٹھا ہونا چاہیے، ہم مسلمان حکومتوں کو اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ ہماری طاقت کا لوہا مانا جائے۔ آپ خود کو پیش کر سکیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا کہنا ہے۔ ہم یہ بات کہتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔ سامراج بھی ہم سے دشمنی رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال آپ ایٹمی توانائی کے مسئلے اور دوسرے امور میں دیکھ رہے ہیں۔ الحمد للہ سامراج کی دشمنیوں کا بھی ہماری قوم پر نہ تو اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔
خدا ہمیں ہدایت دے۔ خدا ہمیں اس امر کی ہدایت دے جو اسلامی امہ کے حق میں ہے اور یہ حساس تاریخی لمحہ، جس کا متقاضی ہے اور خدا ہمیں اس کی توفیق دے اور ہماری مدد کرے۔
پروردگارا ! شہداء عزيز راہ اسلام ،خصوصا اسلامی جمہوریہ کے مظلوم شہداء اور فلسطین،عراق اور دیگر مسلمان قوموں کے شہیدوں کی ارواح طیبہ پر اپنی رحمت نازل فرما اور امام خمینی بزرگوار (رہ) کی پاک روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما اور امام زمانہ( ارواحنا فداہ ) کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خطبہ اول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمہ للہ الذی خلق السموات والارض و جعل الظلمات والنور ثم الذین کفروا بربھم یعدلون ۔نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی' حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرہ و مبلغ رسالاتہ بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی' آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و علی' صحبہ المنتجبین۔
عید سعید فطر کی پورے عالم اسلام کے تمام روزہ دار مؤمنوں اور مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ خاص طور پر ایران کی مؤمن اور غیور قوم اور آپ نماز گزار بہنوں اور بھائیوں کو۔
عید الفطر درحقیقت عید شکر ہے، ضیافت الہی کا ایک مہینہ کامیابی سے گزارنے کا شکر، روزہ داری کا شکر، عبادت، ذکر، خشوع اور بارگاہ کبریائی سے توسل کی توفیق کا شکر، حقیقت میں اس شکر کے لیے بھی مؤمن انسان کو عید منانی چاہیے۔ میرے پاس جو ٹھوس اور باوثوق معلومات ہیں ان کے مطابق ایران کی عزیز قوم نے اس مہینے (رمضان ) سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ہماری قوم نے حقیقتا رمضان المبارک کے مہینے سے فائدہ اٹھایا ہے، معاشرے کے تمام طبقے، مختلف رجحانات رکھنے والے لوگ اور وہ لوگ کہ جن کی روزمرہ کی زندگی، ان کے طرزعمل،لباس اور طور طریقوں میں ایک دوسرے کے ساتھ قدرے فرق پایا جاتا ہے، سب آئے۔ خدا کا اس عظیم نعمت پر کہ جو مسلمان قوم کے ایمان اور اس کے دین اور دینی و اسلامی حقائق پر قلبی ایمان کی نعمت ہے، بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قوم کی ایک اہم نمایاں خصوصیت ہے۔ جو کچھ ذرائع ابلاغ مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں لوگوں کی دینداری کے بارے میں بتایا جاتا ہے، بلاشبہ وہ لوگوں کے خلوص اور خضوع و خشوع کا ایک گوشہ ہے۔ وطن عزيز میں، ان تمام شہروں میں، ان تمام دیہاتوں میں، ہزاروں مساجد، امام بارگاہوں اور مختلف مراکز میں اس مہینے کی شبہائے قدر اور دیگر راتوں میں یہ لوگ، یہ نوجوان، یہ بچے اور بچیاں جمع ہوئے، توسل کے لیے ہاتھ بلند کیے، خدا سے حاجت طلب کی، خدا سے ہم کلام ہوئے اور رازونیاز کیا؛ یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
اس مہینے میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں؛ اس قسم کے سبق نہیں جو انسان استاد یا کتاب سے سیکھتا ہے، بلکہ اس قسم کے درس جو انسان ایک عملی مشق میں، ایک عظیم اجتماعی کام کے دوران سیکھتا ہے۔ پہلا سبق خدا سے تعلق اور ذات احدیت اور حضرت حق کے ساتھ قلبی رشتہ قائم رکھنے کا سبق ہے۔ اس سبق کی لذت آپ نے چکھی ہے کہ کس طرح آسانی کے ساتھ خدا سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے (( و ان الراحل الیک قریب المسافۃ و انک لا تحتجب عن خلقک الا ان یحجبھم الاعمال دونک ))خدا کی راہ نزدیک ہے۔ اس کا مشاہدہ آپ نے شب قدر میں کیا؛ توسل، زیارت اور دعا کے موقع پر دیکھا؛ آپ نے رازونیاز کیا؛ اپنا دل خدا کے لیے تحفے میں لے کر گئے اور خدا سے اپنی محبت کو مضبوط کیا اور اسے استحکام بخشا۔ اس یہ سرور اپنے وجود میں برقرار رکھئے۔اس رابطے اور تعلق کو منقطع نہ ہونے دیجیے، یہ ہے پہلا سبق۔
ایک اور سبق مختلف طور طریقوں کے باوجود قوم کا دین اور توحید کے محور پر اکٹھا ہو جانا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں قومی اتحاد، یہ جو ہم کہتے ہیں ایرانی قوم میں یکجہتی ہے، یہ اتحاد و یکجہتی بلا سبب نہیں ہے، صرف ایک نصیحت، ایک حکم اور فرمان کی بنا پر نہیں ہے؛ اس اتحاد کی بنیاد مذہب و ایمان ہے، دین اور اعتقاد ہے جو ہم سب کو ایک مرکز کی طرف لے جاتا ہے؛ وہ مرکز باری تعالی کی ذات اقدس ہے۔ یہ ہماری قومی یکجہتی کا باعث ہے؛ دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے، عطر آگیں کرتا ہے۔ نماز جماعت میں، نماز جمعہ میں، شبہائے قدر میں عبادت، قرآن سر پر رکھنے، دعا اور گریہ و زاری کرنے میں آپ اایک دوسرے کے ہمراہ ہوتے ہیں خواہ وہ کوئي بھی ہو، کسی بھی طرزفکر اور معاشرے کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو، کیسے ہی حلیے کا ہو، آپ کا بھائی ہے؛ آپ کے ہمراہ ہے، پروردگار عالم کی بارگاہ میں آپ کا ہمراز ہے۔ اس قلبی رابطے کو قائم رکھیے؛ یہ بھی ایک درس ہے۔
ایک اور درس خود پر جبر اور سختی کرنا اور دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔ یہ بھوک اور پیاس برداشت کرنا، اذان صبح سے لے کر اذان مغرب تک روزہ رکھنا، یہ خود پر جبر اور سختی کرنا ہے۔ہمارے بہت سے لوگوں نے روزہ رکھ کر خود پر جبر اور سختی کی ہے اور دوسروں پر انواع و اقسام کا انفاق کیا ہے۔انسان کتنی لذت محسوس کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ نیمہ ماہ رمضان کو امام حسن مجتبی (علیہ الصلواۃ والسلام) کی شب ولادت میں ایک تنور کے سامنے بورڈ لگا ہوتا ہے کہ آج رات امام حسن کے عشق میں اس تنور پر روٹی صلواتی(مفت)ہے؛جو چاہتا ہے روٹی لے جائے۔ اس قسم کے انفاق، اپنا نام ظاہر کیے بغیر افطار کا انتظام اور مساجد میں افطار کا بند و بست، یہ عمل ہمارے عوام نے انجام دیا ہے۔یہ ایک اور سبق ہے۔ایک اور مشق ہے۔اپنے اوپر سختی اور جبر کریں اور دوسروں پر انفاق کریں۔ میں اس نکتے پر تھوڑی روشنی ڈالوں گا؛ کیونکہ یہ ہمارے ملک اور معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
ہم اسراف(فضول خرچی) کرنے والے لوگ ہیں؛ ہم اسراف کرتے ہیں؛ پانی میں اسراف، روٹی میں اسراف، مختلف وسائل اور خشک میوے میں اسراف، پٹرول میں اسراف، تیل پیدا کرنے والا ایک ملک پٹرولیم مصنوعات یعنی پٹرول درآمد کرتا ہے! یہ باعث تعجب نہیں ہے؟ ہرسال اربوں خرچ کرکے پٹرول درآمد کریں یا دوسری چیزیں درآمد کریں اس لیے کہ ہمارے ملک اور قوم کے کچھ لوگ فضول خرچی کرنا چاہتے ہیں! کیا یہ درست ہے؟ اسے قومی سطح پر عیب و نقص کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اسراف بری چیز ہے؛ حتی راہ خدا میں انفاق کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔خداوند متعال قرآن میں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے (لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط)خدا کے لیے انفاق میں بھی اسی طرح عمل کرو۔افراط و تفریط نہ کرو۔میانہ روی؛ خرچ کرنے میں میانہ روی لازمی ہے ہمیں قومی سطح پر میانہ روی کو ایک کلچر میں تبدیل کر دینا چاہیے۔قرآن فرماتا ہے(والذین اذا انفقوا) اور وہ لوگ کہ جو، جب انفاق کرتے ہیں،(لم یسرفوا ولم یقتروا)نہ اسراف یعنی زیادہ روی کرتے ہیں، نہ کنجوسی کرتے ہیں۔ خود کو مصیبتوں سے دوچار کر لینا مناسب نہیں اسلام یہ نہیں کہتا۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ لوگ ضرور ریاضت اور زہد کے ساتھ اس طرح کی زندگي گزاریں؛ نہیں، معمولی زندگی گزاریں، متوسط زندگی گزاریں۔یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے لوگ مسلسل کئی برسوں سے ہماری قوم کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے۔ کئی بار بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے لیے امید کی کرن ہماری یہی بری عادت ہے۔ ہمارا شمار اسراف اور فضول خرچی کرنے والے لوگوں میں ہو تو ممکن ہے کہ یہ بائیکاٹ، اسراف اور فضول خرچی کرنے والے کے لیے بھاری اور سخت ہو؛ لیکن اس قوم کے لیے نہیں جو اپنا حساب کتاب رکھتی ہو، جو اپنی آمدنی اور خرچ کا حساب رکھتی ہو،جو اپنے فائدہ و نقصان کا حساب رکھتی ہو،جو زیادہ روی اور افراط نہیں کرتی، اسراف نہیں کرتی۔ اچھا، بائیکاٹ کر دیں۔ان خصوصیات کی حامل قوم کو بائیکاٹ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ماہ رمضان سے اس نکتے کو سیکھیں اور انشاءاللہ اس پر عمل کریں۔
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والعصر ۔ ان الاانسان لفی خسر ۔ الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر
خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما علی امیرالمؤمنین والصدیقۃ الطاہرۃ والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی باقر علم النبیین و جعفر بن محمد الصادق موسی بن جعفر الکاظم وعلی بن موسی الرضا و محمد بن علی الجواد و علی بن محمد الھادی والحسن بن علی الزکی العسکری والخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صل علی ائمۃ المسلمین حماۃ لمستضعفین ھداۃ المؤمنین ۔اوصیکم عباداللہ بتقوی اللہ۔
دوسرے خطبے میں سب سے پہلے یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت پر ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرناچاہوں گا۔ دل سے یہی آواز نکلتی ہے: سلام ہو ایرانی قوم پر! آپ نے دنیا کو اپنی عظمت، اپنا اسلامی تشخص پر رقار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ان جلوسوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔استعماری طاقتوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ فلسطین کے نام و نشان کو مٹا دیں اس مسئلے کو طاق نسیان کی زینت بنا دیں؛ دنیا کے لوگ اور بعد کی نسلیں بھول جائیں کہ کبھی دنیا میں فلسطین نام کی کوئی سرزمین اور ملک بھی تھا؛ ان کا مقصد یہ تھا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اور فلسطینی قوم کی عظیم تحریک نے، چاہے وہ انتفاضہ اول ہو یا انتفاضہ مسجد الاقصی، ایک بار پھر دنیا میں مسئلے کو زندہ کر دیا۔ قوموں، عوام اور دنیا کے انصاف پسندوں حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، انہوں نے اس کا علاج یہ ڈھونڈا کہ وہ اس سرزمین میں واقع عرب فلسطین کو ایک زندان بنا دیں؛ محصور کر دیں۔شاد و آباد اور نعمتوں سے مالامال ملک فلسطین اور اس اسٹراٹیجک اہمیت کے حامل خطے کو مکمل طور پر صیہونیوں کے حوالے کر دیں۔ اس کو صیہونی علاقہ بنا دیں۔ عربوں کو غزہ اور مغربی ساحل کی طرف دھکیل دیں۔
آج بھی آپ صیہونیوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جس قدر ہو سکے فلسطینی عوام میں استقامت و پائیداری کے جذبات کو ختم کر دیں؛ ان کے تمام کام اسی سیاست کے تحت انجام پا رہے ہیں کہ استقامت کا جذبہ ختم کر دیا جائے۔ لیکن فلسطینی عوام ڈٹے ہوئے ہیں۔اول تو یہ کہ انہوں نے جدوجہد ترک نہیں کی، دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنے ووٹوں سے ایک حکومت منتخب کی ہے کہ جس کا نعرہ قابضوں کے خلاف جدوجہد اور استقامت و پائیداری ہے۔ تمام تر دباؤ کے باوجود جو گذ شتہ ایک دو برسوں کے دوران حماس حکومت اور اس علاقے کے عوام پر ڈالا گيا ہے، یہ لوگ مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں؛ مزاحمت کر رہے ہیں لیکن ایک گوشے میں الگ تھلگ محصور قوم کے پاس جس کا دنیا بھر سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے، خدا سے امید کے علاوہ کوئی اور روشنی کی کرن ہونی چاہیے۔ فلسطینیوں کے حق میں مسلمان قوموں کا یہ عظیم نعرہ انہیں جذبہ عطا کرتا ہے؛ ان کے دلوں کو استقامت و پائیداری کے لیے مزید آمادہ کرتا ہے،اس کے علاوہ عالمی رائے عامہ کو فلسطینی کاز کی حقانیت سے آشنا کرتا ہے۔
ایرانی قوم نے ان ( یوم قدس کے) جلوسوں سے اسلامی جمہوریہ کو عزت و آبرو بخشی ہے؛ ایران اور ہر ایرانی کو سربلند کر دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بدستور فلسطین اور فلسطینی قوم کے ساتھ ہیں۔ اسلامی امہ کے دفاع کے لئے صف اول میں موجود ہیں۔یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
فلسطین کےمسائل کے سلسلے میں آج یہ سازش ہو رہی ہے کہ ایک بار پھر امن کے نام پر فلسطینی عوام پر کچھ اور مسلط کر دیا جائے۔اب تک امن کے نام پر جو اجلاس منعقد ہوئے ہیں، ان کا نتیجہ فلسطینی عوام کے خلاف اور ان کے نقصان میں رہا ہے۔ پھر امریکیوں نے ایک اور کانفرنس کی تجویز پیش کی، جسے فلسطینی قوم ٹھکرا چکی ہے۔ اس کانفرنس کو جس کا نام انہوں نے خزاں کانفرنس رکھا، فلسطینیوں نے مسترد کر دیا۔ جب فلسطینی اپنے تعلق سے کوئی کام، کوئی اقدام کرتے ہیں تو دوسری حکومتیں اس کو مسترد کر دیتی ہیں، پھر کس طرح فلسطینی اس کانفرنس کو قبول کر سکتے ہیں۔ جب وہ ( فلسطینی ) اس کانفرنس کو نیرنگ و فریب سمجھتے ہیں تو دوسرے بھی فریب سمجھیں۔ یہ اقدامات درحقیقت صیہونیوں کو نجات دلانے کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے اقدامات ہیں۔ وہ صیہونی کہ جن کی حکومت اور فوج نے گذشتہ سال لبنان کی بہادر اور فداکار تنظیم حزب اللہ سے شکست کا تلخ مزہ چکھا اور اسی طرح فلسطین کی حکومت _ حماس کی حکومت _ کی انکار کی بلند دیوار کا انہیں سامنا ہوا ہے۔ وہ اس ذلت و رسوائی داغ اپنی پیشانی سے صاف کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت وہ فلسطینی کے مقابلے میں فلسطینی کو کھڑا کررہے ہیں۔ میں اگر فلسطینی بھائیوں کو پیغام دینا چاہوں تو ایک جملہ کہوں گا :بھائیو! ایک دوسرے کے مقابل نہ آؤ۔ دشمن آپ کے گھر میں ہے۔ دشمن آپ کے درمیان فتنہ انگيزی کر رہا ہے۔ فلسطینی عوام کو فلسطین بچانا ہوگا، اسلامی امہ کو بھی ان کی حمایت کرنا ہوگي۔ فلسطینی عوام، فلسطینی قوم کومتحد ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین ایک مسئلہ ہے۔ مسئلہ عراق عالم اسلام کا ایک اور مسئلہ ہے۔ ہمارا دل عراق کے لیے خون کے آنسو روتا ہے۔ عراقی قوم کے دشمنوں کی طرف سے تائید و حمایت یافتہ اس اندھی دہشت گردی نے عراقی قوم کی حالت تباہ کر کے رکھ دی ہے۔یہاں بھی پہلی غلطی غاصبوں کی ہے۔ وہ خود امن و امان قائم نہیں کرتے؛ یا نہیں کر سکتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔ عراقی عوامی حکومت کو بھی یہ موقع نہیں دیتے کہ سکیورٹی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لے اور وہ خود کام کرے۔ وہ (غاصب) قصوروار ہیں۔آج عراق میں جو بھی المیہ رونما ہوتا ہے _ انسانی المیہ،سماجی المیہ،سیاسی المیہ _ اس کے پہلے قصوروار اور ذمہ دار غاصبین ہیں؛ یعنی پہلے درجے میں امریکہ اور اس کے بعد اس کے وہ اتحادی ذمہ دار ہیں جو عراق پر فوجی قبضے میں شریک ہیں۔
پروردگارا ! اسلامی امہ کو دشمنوں کے شر سے نجات دے۔ پروردگارا ! اسلامی قوموں اور حکومتوں کو بیدار کر، انہیں طاقت و توانائي عطا فرما۔پروردگارا ! ہمیں اس چیز کی ہدایت و رہنمائی فرما جس میں تیری رضا ہے؛ ہمیں اسے انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! شہدائے اسلام، اسلامی جمہوریہ اور مسلط کردہ جنگ کے شہدا اور امام خمینی(رہ) کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا ! ہمارے حق میں حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ)کی دعا مستجاب فرما اور اس عید کے دن ہمارا سلام اس بزرگوار ( امام زمانہ ع ) کی خدمت میں پہنچا-
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا اعطیناک الکوثر۔فصل لربک وانحر۔ان شانئک ھو الابتر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ حضرات نے جو خیالات پیش کئے، اس پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں؛ ان افراد نے بھی جنہوں نے تنظیموں کی نمایندگی کی ہے اور اسی طرح ان لوگوں نے بھی جنہوں نے اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کیا ہے، بڑی کارآمد باتیں ہم تک پہنچائی ہی، ان میں بعض نکات بہت اہم ہیں۔ انشاءاللہ یہ نظریات اور خیالات عملی اقدامات کی بنیاد قرار پائیں گے۔ البتہ یہ بات بھی اپنے آپ میں بہت اہم دلچسپ ہے بات ہے کہ ہمارے نوجوان، ہمارے طلبہ اہم اور بنیادی مسائل کے بارے میں، چاہے ان کا تعلق یونیورسٹی سے ہو یا سیاسی و سماجی میدان سے، اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں،اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں، مدعا بیان کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے اہم اور دلچسپ ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اس دن سے ڈریے کہ جب یونیورسٹی میں ہمارے طلبہ اور نوجوانوں میں مسائل پر تبصرہ کرنے، سوال اٹھانے اور مطالبات سامنے رکھنے کا جذبہ اور حوصلہ نہ رہے۔ ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم، مختلف میدانوں اور شعبوں کے تعلق سے مطالبات پیش کرنے اور نظریات بیان کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ ہمارے ملک کے نوجوان اور خاص طور پر علم دوست افراد میں جرئت تنقید ضروری ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ بہت سے مطالبات پورے نہ کئے جا سکیں، کیونکہ قلیل مدت میں مطالبات کی تکمیل ظاہر ہے کہ مشکل کام ہے۔ لیکن انہیں مطالبات کے آئینے میں ایک روشن مستقبل کا نظارہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں کو اپنے مطالبات پیش کرنا چاہئے اور ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی احساس رہنا چاہئے کہ مطالبہ کتنا سودمند اور ثمربخش ثابت ہو سکتا ہے، ایسے مطالبات پیش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ مطالبہ کرنے والے کی بھی ذمہ داری ہے کہ صرف اسے پیش کر کے خاموش نہ بیٹھ جائے، نوجوان کی ذمہ داری صرف نعرہ لگانا اور آواز بلند کر دینا نہیں ہے بلکہ اسے چاہئے کہ ہدف تک رسائی کے لئے کوشش جاری رکھے۔ متعلقہ افراد سے رابطہ کرے اور ضرورت پڑے تو خود میدان عمل میں وارد ہو جائے۔یہ ہمارے نوجوانوں کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو مطالبات کےساتھ ہی ان ذمہ داریوں کا بھی پورا پورا احساس اور ادراک ہونا چاہئے۔
ایک بہت اہم مسئلہ، جس کی جانب ایک نوجوان نے اشارہ کیا، وہ قیاس آرائیاں ہیں جو عوام اور قائد انقلاب کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں۔
نشست میں کہی گئی اس بات کو معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سلسلے میں جو قیاس آرائیاں کی گئي ہیں اور جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں، درست نہیں ہیں۔میرا موقف وہی ہے جو منظر عام پر بیان کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بات کا منظر عام پر آنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے تو میں اسے برملا ذکر کرنے سے گریز کروں گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا ہے حقیقت اور سچائی کے خلاف کوئی بات کہوں۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ عوامی سطح پر ایک بات کہی جائے اور پھر خصوصی ملاقاتوں میں اس کی اصلاح کی جائے۔ ایسے بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں جنہیں منظر عام پر لانا حرام ہے۔ایسے مسائل کو موضوع بحث نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر ہم وہ ساری باتیں اور سارے مسائل منظر عام پر لائيں جو ہمارے علم میں ہیں تو ان مسائل سے آپ کو آگاہی تو ہو جائے گي لیکن ہمارے دشمن بھی ان سے باخبر ہو جائیں گے، لہذا ضروی ہے کہ بہت سے حساس مسائل کو پردہ راز میں ہی رہنے دیا جائے لیکن یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ حقیقت کے خلاف بات کی جائے۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ ہمارا موقف وہی ہے جو آپ ہماری زبان سے سن رہے ہیں، چاہے وہ نماز جمعہ میں ہو یا عمومی ملاقاتوں میں، موقف میں کوئي تبدیلی نہیں ہے ۔
ایک اور درخواست کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ منتخب طلبہ کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں انہوں نے اپنے بیان میں بڑے اچھے اور اہم نکات پر گفتگو کی۔ البتہ بعض نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنی بات پیش کی۔ میں تمام نکات نوٹ نہیں کر سکا۔میری آپ سے درخواست ہے کہ جو تجاویز آپ کے پیش نظر ہیں، واضح طور پر ایک کاغذ پر لکھیے، اس طرح آپ کے ذہن میں بھی ان کا صحیح خاکہ تیار ہو جائے گا اور میں بھی ان کا بغور جائزہ لے سکوں گا اور پھر ان تجاویز پر عملدرآمد کی کوشش کی جائے گی۔
طلبہ کے لیے میری نصیحت یہی ہے جو میں نے عرض کی یعنی خواہ سیاسی و سماجی مسائل ہوں، علمی مسائل یا یونیورسٹی کے امور ہوں، ان کے سلسلے میں اپنی تجاویز اور مطالبات ضرور پیش کیجیئے۔ ہاں ان تجاویز کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھ ضرور لیجئے۔ انقلاب کے اوائل سے اب تک، میرا یہی خیال رہا ہے کہ طالب علم کو افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے؛ میں کسی بھی جہت اور سمت میں افراط اور انتہا پسندی کا قائل نہیں ہوں۔ اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عقلی و منطقی نقطہ نظر سے مسائل کا جائزہ لیجئے اور یاد رکھیے کہ آپ کی خواہش اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بے اثر نہیں ہے۔ یہ خیال ذہن میں ہرگز نہ آئے کہ کیا فائدہ ہے ؟ نہیں بالکل فائدہ ہے۔ ابھی ایک عہدہ دار نے انصاف پسندی کا ذکر کیا، اگر ایسا ہوتا کہ انصاف پسندی کا نعرہ لگایا جاتا اور اس کا کوئی اثر نہ ہوتا، معاشرے میں کوئی بھی اسے لائق توجہ نہ سمجھتا تو آپ یقین رکھئے کہ ایک انصاف پسند حکومت اور انصاف پسندی کی ہمہ گير تحریک وجود میں نہ آ پاتی۔ لیکن وجود میں آئي آپ نے کر دکھایا؛ یہ آپ نوجوانوں کا کارنامہ تھا؛ انصاف پسندی کی تحریک کی حیثیت سے،انصاف پسندی کے مسئلے کو پیش کرنے کی حیثیت سے آپ کا موقف قابل ستائش ہے۔ میں اس وقت کسی خاص تنظیم کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوں ، اسے یونیورسٹی کے مؤمن نوجوانوں نے، فرض شناس نوجوانوں نے، ذمہ دار نوجوانوں نے پیش کیا، اس کے بارے میں بات کی اور جب اس کو بار بار دہرایا گيا تو پھر یہ مسئلہ زباں زد خاص و عام ہو گيا۔ نتیجتا اس تحریک کے اثرات، عوامی رجحان،عوامی افکار و نظریات، نعروں اور انتخابات میں صاف طور پر نظر آئے۔ بنا بریں آپ ایک قدم آگے آئے۔
البتہ یونیورسٹی کے طلبہ دریا کے بہاؤ کی مانند ہیں یعنی آج آپ طالب علم ہیں، پانچ سال بعد آپ میں سے اکثر طالب علم نہیں ہوں گے۔ کہیں اور پہنچ چکے ہوں گے، جبکہ آپ کی پہلی جگہ پر نئے چہرے نظر آئیں گے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو دو انداز اور شکلوں میں ہمیشہ برقرار رہ سکتا ہے: ایک خود آپ کی شکل میں، یعنی جب آپ یونیورسٹی کے ماحول سے باہر نکلے تو یہ فراموش نہ کریں کہ طلبہ کی تنظیم میں،طلبہ کے ماحول میں،کلاس روم میں اور میٹنگوں میں آپ کن نظریات کے حامل تھے آپ کیا کہتے تھے، کیا چاہتے تھے آپ کے اہداف اور مقاصد کیا تھے؛ ان کو فراموش نہ کیجیے؛ ان کو محفوظ رکھیے۔ ہماری ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ لوگ چند دن ایک ماحول میں رہتے ہیں، اس کا رنگ اختیار کرتے ہیں لیکن اس ماحول سے جب دور ہوتے ہیں تو اس لوہے کی مانند ہو جاتے ہیں جسے بھٹی سے باہر لایا گيا ہو؛ جب تک وہ بھٹی میں تھا اس کا رنگ سرخ تھا جب باہر لایا گيا تو آہستہ آہستہ اس کا رنگ سیاہ ہونا شروع ہو گيا؛اس طرح نہیں ہونا چاہئے، اندر سے کندن بنیے۔ان افکار کو اپنے دل میں جگہ دیجیے۔
البتہ ضمنی پیرائے میں یہ کام کیجئے ۔اس کا راستہ بھی یہی ہے کہ اسے ایمان اور عقائد سے جوڑیں۔آپ اس فریضہ الہی سے کبھی بھی خود کو الگ نہ سمجھئے۔ جو لوگ جدوجہد کرنے میں کامیاب رہے، جو ڈٹے رہے، جو مشکلات کے مقابل سینہ سپر رہے، انہوں نے اس دستورالعمل، اس نسخے سے فائدہ اٹھایا ہے ورنہ آج آپ طالب علم ہیں، یونیورسٹی کا ماحول ہے، نوجوانی کا زمانہ ہے جوش و جذبہ ہے، انصاف پسندی اور اعتدال پسندی کی باتیں ہیں، امنگیں ہیں، آرزوؤں ہیں۔ ایک وقت وہ آئے گا کہ آپ اس ماحول سے نکل جائیں گے پھر یا تو یہ سب کچھ آپ یکسر فراموش کر دیں گے یا وہ بتدریج آپے کے صفحہ ذہن سے محو ہوتی جائیں گي تو یہ درست نہیں ہے۔یہ تسلسل ٹوٹنا نہیں چاہئے۔
اس تسلسل کے جاری رہنے کی دوسری شکل، یونیورسٹی کی داخلی فضا ہے۔ آج آپ طالب علم ہیں اورآپ کے جذبات و محرکات ہیں؛ یہ بہت اچھی بات ہے، کل پانچ سال بعد،چھ سال بعد تو آپ یہاں نہیں ہوں گے، نئےافراد آ چکے ہوں گے۔ وہ کس کے وارث ہیں؟ دوسرے الفاظ میں، انہیں کس فضا میں سانس لینا ہے اور کس ماحول کو برقرار رکھنا ہے؟ یقینی طور پر اسی ماحول کو بر قرار رکھنا ہے جس کی ذمہ داری آج آپ کے کاندھوں پر ہے، ایک چیز جو میں نے یہاں نوٹ کی ہے جو میں آپ دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں،یہ ہے کہ ہم نے علمی میدان میں دانشورں کی تربیت کی بات کی ہے،میں اب سیاسی دانشوروں کی تربیت پر بھی تاکید کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور تشہیراتی مہم میں سیاسی اور سماجی دانشوروں کو سامنے لایا جائے، لیکن دانشوروں کی تربیت کا ایک حصہ آپ سے بھی تعلق رکھتا ہے؛ یعنی طلبہ تنظیموں کے ماحول میں سیاسی دانشور تربیت پائیں؛ فضا تیار کیجئے۔یہ کام تو یونیورسٹی سے باہر کا نہیں ہے؛ خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ فکروشعور سے کام لیتے ہوئے آپ اپنے بعد آنے والے طلبہ کے لیے بحث و استدلال اور ذہنی رشد کے لئے ماحول کو سازگار بنائیے۔ امید اور حوصلے بڑھائیے، سیاسی شعور کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے منصوبہ بندی کیجیے۔ آپ اطمینان رکھئے کہ آئندہ آنے والے طلبہ آپ کی ہی مانند بلند مقاصد کی سمت قدم بڑھائیں گے۔البتہ بعض باتوں سے ہوشیار بھی رہنا چاہیے؛ گمراہی کو دیکھنا اور پہچاننا چاہیے۔
ایک اور نکتہ جو طلبہ کے مطالبے کے ذیل میں عرض کرنا چاہوں گا، یہ ہے کہ مطالبہ کرنا دشمنی پر اتر آنے سے مختلف ہے۔ میں نے کہا ہے کہ حکام سے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ ہو اور میں اب بھی اس پر تاکید کرتا ہوں؛ تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تنقید نہ کی جائے، مطالبہ نہ کیا جائے؛ قیادت کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ہمارا عزیز بھائی کہتا ہے کہ ضد ولایت فقیہ(ولایت فقیہ کے مخالف) کی وضاحت کیجئے۔تو ٹھیک ہے، آپ کو معلوم ہے کہ ضد کے معنی کیا ہیں۔ضدیت یعنی پنجہ لڑانا، دشمنی کرنا؛ اس کے معنی اعتقاد نہ ہونا نہیں ہے۔اگر میرا آپ پر عقیدہ نہ ہو تو میں آپ کا مخالف (ضد) نہیں ہوں؛ ممکن ہے کوئی کسی پر اعتقاد نہ رکھتا ہو۔البتہ یہ ضد ولایت فقیہ کا جملہ ،آسمان سے اتری ہوئی آیت نہیں ہے کہ ہم کہیں باریکی کے ساتھ اس لفظ کی حدود معین کی جانی چاہییں؛ بہرحال معاشرے میں رائج ایک بات ہے۔دو افراد ہیں، ایک دوسرے کے مخلص ہیں،ایک ہی کلاس میں ہیں، آپس میں مباحثہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتوں کو رد یا قبول کرتے ہیں؛ یہ اس کی بات کو رد کرتا ہے،وہ اس کی بات کو رد کرتا ہے۔بات کو مسترد کرنا،مخالفت دشمنی کے معنی میں نہیں ہے؛ ان مفاہیم کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہیے۔ بنا بریں ہم کسی بھی طرح تنقید کو مخالفت اور دشمنی نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم چونکہ ملکی حکام اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو اس حمایت اور طرفداری کا مطلب یہ ہے کہ تنقید نہیں کرنی چاہیے، یا میں خود تنقید نہیں کروں گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، ممکن ہے بعض مواقع پر میں بھی تنقید کروں۔لیکن ایک ایسی حکومت کی جو واقعا عوام کی خدمت گذار ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے ؛ انصاف کی بات تو یہی ہے کہ جو کام ہو رہے ہیں وہ آپ دیکھ رہے ہیں؛ نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ان کاموں کو نظر انداز کرنا نا انصافی ہوگی۔
بہرحال مجھے طلبہ کے ماحول کے سلسلے میں آپ سے جو امید ہے وہ یہ ہے۔ واقعا ایسا ہی ہو گا ۔آپ اطمینان رکھیے۔ اس لیے کہ انسان کچھ چیزوں کا صحیح اندازہ کرنے پر قادر ہے کیونکہ جہاں ایمان ہو گا اس کے ساتھ جدوجہد بھی ہو گی اور اس کانتیجہ بھی واضح ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کامیابی ملنے والی ہے۔
جس چیز کی ہمیں طلبہ سے توقع ہے، وہ طلبہ کے ماحول میں علمی ترقی و پیشرفت،سیاسی شعور میں اضافہ، دینی نظریات اور ایمان کی گہرائی، معرفت میں اضافہ، روشن خیالی، علم کے میدان میں بھی،سیاست کے میدان میں بھی اور دینی معرفت کے میدان میں بھی نئی منزلیں طے کرنا ہے۔ البتہ یہ کام ہر شعبے کے استاد اور رہنما کی مدد سے ہونا چاہئے۔ ہر علمی کام کے لیے آپ کا ایک استاد ہونا چاہیے۔ دینی معرفت کے کام کے لیے بھی آپ کا کوئی استاد ہونا چاہیے، سیاسی شعور کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ کام آپ کریں گے؛ استاد رہنمائی کرے گا۔ تمام شعبوں اور میدانوں کے سلسلے میں ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے طلبہ کے ماحول کو حقیقی اور قابل ذکر ترقی و پیشرفت کی ضرورت ہے اور یہ ترقی و پیشرفت انشاءاللہ ہوگی۔
پروردگارا ! میں ان نوجوانوں کو اپنے ان فرزندوں کو، تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پروردگارا ! ان سب کو اپنی مدد، ہدایت اور لطف و کرم کے سائے میں رکھ ۔ پروردگارا ! ہماری نوجوان نسل کو اس ملک کے مستقبل کا معمار قرار دے۔ پروردگارا ! ان سب کو،ان کے اقدامات کو اور ان کی پالیسیوں کو اپنی رضا کے مطابق بنا دے۔ پروردگارا ! ہمارے نوجوانوں کو ایسا علم اور مفید علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما کے ہمراہ عمل بھی ہو۔ پروردگارا ! ولی عصر(ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما؛ ہمارے عزیز شہداء کی ارواح طیبہ اور امام(خمینی) کی روح مطہر کو ہم سے راضی و خوشنود فرما ؛ ایران اور اسلامی جمہوریہ کو سربلند و سرافراز فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جو دوست یہاں تشریف لائے اور مختلف موضوعات پر انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا،ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جناب ڈاکٹر لاریجانی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس نشست کو اچھے طریقے سے چلایا۔
اگرچہ میں نے بار بار اس نشست میں گذ شتہ برسوں میں اور اس سے ملتی جلتی نشستوں میں کہا ہے کہ ہماری اس سالانہ نشست میں ایک علامتی پہلو ہے؛ یعنی ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملاقات ملک کے اساتذہ، یونیورسٹی سے منسلک افراد کے حکومتی احترام کا مظہر ہو؛لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ نشست نمائشی پہلو کی حامل ہے بلکہ اس کے برعکس توقع اور امید یہ ہے کہ اس نشست میں اٹھائے جانے والے موضوعات، حکومت کے پالیسی سازوں، وزرا،مختلف حکام اور خود ہماری کہ جو یہاں پر موجود ہیں،اس چیز کی طرف رہنمائی کریں گے جو اس سلسلے میں ترقی و پیشرفت اور علمی کام کے شایان شان ہے۔یہ جو میں نے عرض کیا کہ میں صرف آپ کی گفتگو سنوں گا ،اس جہت سے ہے۔فرض یہ ہے کہ جو قابل قدر اساتذہ یہاں بات کرنا چاہتے ہیں،انہوں نے لیا ہے اور ملک میں علم اور یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی اہم تجویز آئی ہے وہ اسے یہاں بیان کریں؛ہمیں اس نشست سے یہ توقع ہے۔البتہ اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔
ہم کیوں یونیورسٹی اور علم و تحقیق سے متعلق مسائل کے بارے میں یہ اہتمام کر رہے ہیں؟کیونکہ ہم پیچھے ہیں؛ہم کو پیچھے رکھا گيا ہے اور ہماری عزت اور ہمارا قومی و اسلامی تشخص اس سے وابستہ ہے کہ ہم اس شعبے میں ٹھوس کام کریں۔یہ اس کی وجہ ہے۔ہم مختلف ہیں فلاں ملک سے کہ فرض کیجیے جو ایک قلیل مدت تمدن کا حامل ہے۔ بعض ملک ہیں جو ایک سو سال بھی نہیں ہوا کہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے وجود میں آئے ہیں؛اس جغرافیائی تشخص کا گزشتہ سو سال میں اس معنی میں اور اس نام کے ساتھ کوئی وجود نہیں تھا اور ہمارے ہی علاقے میں بعض قومیں ایسی بھی ہیں کہ جن کا تاریخ میں کوئی قابل ذکر ماضی نہیں ہے۔دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ہیں؛لاطینی امریکہ میں یورپ میں اور دیگر مختلف جگہوں پر ایسے ممالک موجود ہیں۔لیکن ہماری قوم اور ہمارا ملک ایک قدیم ملک ہے؛ہماری قدیم تاریخ ہے؛ہمارا ماضی ہے؛ہم تازہ وجود میں نہیں آئے ہیں؛ہم اپنے ماضی سے بھی رہنمائی اور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں رہنمائی اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے تھا۔آپ اسلام کے بعد پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی ہجری تک ملک کی علمی ترقی کے عمل پر نظر ڈالیے،اگر ہم اسی رفتار سے ترقی کرتے اور آگے بڑھتے تو آج چوٹی پر پہنچے ہوتے۔ہم نے اس رفتار سے ترقی نہیں کی ہے؛کیوں نہیں کی ہے؟اس کا جائزہ لینے اور تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے؛ (شاہی) حکومتیں نالائق اور نااہل تھیں،ہمت کم تھی،اس کے بعد گزشتہ دو تین سو سال کے عرصے کے دوران غیر ملکی عوامل بھی دخیل رہے ہیں اور بالآخر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس رفتار سے حرکت اور ترقی نہیں کی ہے؛بلکہ پستی کی طرف ہی گئے ہیں۔
اب ہم ازالہ اور تلافی کرنا چاہتے ہیں،اب حکومت، ایک لائق اور اہل حکومت ہے؛قوم ایک بیدار قوم ہے؛دانشور ایسے ہیں جو مرد میدان ہیں؛اب ہم ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک باعث افتخار سند کے طور پر جیب میں ڈالتے ہیں اور کبھی اس کے بارے میں صرف باتیں کرتے ہیں،ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک دستورالعمل کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے ہر جزء پر عمل درآمد کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔اگر ہم دوسروں کے لیے نمونہ عمل بننا چاہتے ہیں تو ہمیں علاقے میں علمی مرکز اور محور بننا ہوگا،اس کا ایک راستہ ہے۔اس کا راستہ مستقبل کے وژن میں ہمیں معین نہیں کرنا چاہیے،عمل درآمد کے شعبے کے ذمہ داروں اور حکام کو اسے واضح اور مشخص کرنا چاہیے؛ہمارا اصرار یہ ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام علم و تحقیق کے میدان میں صحیح،اچھے اور کامل طریقے سے انجام پائے۔اس اہتمام و انصرام کی وجہ یہ ہے۔
اس سلسلے میں البتہ بہت سی باتیں اور نصیحتیں ہیں کہ جنہیں ہم عام طور پر ان نشستوں میں عرض کرتے ہیں،آج بھی میں چند باتیں عرض کروں گا:
ایک بات جامع علمی منصوبے کے بارے میں ہے۔میں نے یہاں نوٹ کیا تھا کہ اسے ذکر کروں،خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ تین چار افراد نے اپنی تقریروں میں جامع علمی منصوبے کی طرف اشارہ کیا ہے، جناب ڈاکٹر لاریجانی نے بھی اس سلسلے میں بات کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جامع علمی منصوبہ تیار کر کے پیش کیا جائے اور یہ علمی منصوبہ بندی کے لیے ایک دستورالعمل قرار پائے۔یہ ایک اچھی خوش خبری ہے؛لیکن مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع نہیں تھی ۔میں یہ جانتا ہوں کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے؛یعنی کچھ کمیٹیوں میں اس مسئلے پر کام ہو رہا ہے؛لیکن جس کام کی توقع ہے اور جو ہماری نظر میں انجام پانا چاہیے،وہ یہ نہیں ہے کہ اس کام میں تاخیر ہو اور زیادہ عرصہ لگے؛ایک دو سال ہم بیٹھیں اور بالآخر ایک جامع علمی منصوبہ پیش کریں؛نہیں،ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کی مدد سے دانشور،محققین اور اہم افراد بیٹھیں اور اسے پورا کریں اور ایک ایسی پختہ اور کامل چیز پیش کریں کہ جس کی بنیاد پر یونیورسٹیوں اور ملک کے مستقبل کے لیے علمی منصوبہ بندی کی جا سکے۔میں یہیں پر محترم وزراء اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے محترم عہدیداروں کو کہ جو یہاں تشریف فرما ہیں،ہدایت کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔ہم اگر چاہتے ہیں کہ مستقبل کے وژن پر عمل درآمد ہو اور وہ علمی مقام و مرتبہ جو ملک کے لیے پیش نظر رکھا گيا ہے،وجود میں آئے تو ان کاموں کو انجام دینا ناگزیر ہے کہ جن میں سے اہم ترین ایک جامع علمی منصوبہ تیار کرنا ہے۔ یعنی ان اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ایک اہم قدم اور باب ہے کہ جن کا ذکر کیا گيا اور بحمداللہ علمی ماحول میں یہ ہر ایک کی زبان پر ہے۔
دوسری بات جو محترم اساتذہ سے متعلق ہے،یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک کام یہ ہونا چاہیے کو شاگردوں کی تربیت کریں۔ استاد کی قدروقیمت اور استاد کا اعتبار اس کے شاگردوں سے ہے۔ہمارے اعلی دینی مراکز(حوزہ ہائے علمیہ)میں بھی ایسا ہی ہے۔اس استاد،اس فقیہ یا اصولی یا حکیم کی لوگوں میں زیادہ قدر ہے کہ جس کے وجودی آثار اس کے ممتاز شاگردوں میں نمایاں ہوں۔شاگردوں کی تربیت کیجیے۔یہ افراد جو آپ کی کلاسوں میں آتے ہیں _ چاہے وہ گریجویشن کی کلاسیں ہوں یا اس کے بعد اعلی تعلیم کی _ وہ آپ کے سامنے بیٹھتے ہیں اور آپ استاد کی حیثیت سے ان کے سامنے آتے ہیں،انہیں صرف ایک تقریر سننے والا نہیں سمجھنا چاہیے؛نہیں،آپ جیسا انہیں چاہتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائیے،ان کے ساتھ میل جول رکھیے۔البتہ استعداد اور صلاحیت برابر نہیں ہے،جوش و ولولہ ایک جیسا نہیں ہے،مختلف قسم کی فضا اور ماحول یکساں نہیں ہے؛لیکن اساتذہ کے لیے یہ ہدف و مقصد میری نظر میں ایک سنجیدہ ہدف ہونا چاہیے،دیکھیے کہ آپ نے کتنے شاگردوں کی تربیت کی ہے۔شاگرد صرف وہی نہیں ہے کہ جو آپ کی کلاس میں حاضر ہوتا ہے؛وہ بھی ہے جسے آپ بناتے ہیں اور اسے ایک کارآمد اور علمی فرد کی حیثیت سے علمی دنیا کے حوالے کرتے ہیں۔
یہیں پر میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی حاضری اور موجودگي کے مسئلے کی طرف اشارہ کروں،جو یونیورسٹی کے قوانین کا حصہ بن گيا ہے،کہ اساتذہ کو ہفتے میں معین گھنٹوں میں حتما یونیورسٹی میں موجود ہونا چاہیے۔یہ بہت اہم چیز ہے؛اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ایک بات جو میں نے گزشتہ تین چار برسوں کے دوران بار بار کہی ہے اور اتنا زیادہ دہرایا ہے کہ اسے دوبارہ کہنا نہیں چاہتا تھا،طلبہ کے ساتھ استاد کی ہمراہی ہے؛سوال کا جواب دینا۔یعنی استاد اور شاگرد کا تعلق اور رابطہ صرف کلاس تک ہی نہیں ہونا چاہیے،طالب علم کے پاس موقع ہونا چاہیے کہ وہ استاد سے رجوع کرے اور اس سے معلوم کرے ،اس سے تشریح پوچھے،اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرے؛بلکہ بعض مواقع پر استاد شاگرد کو اپنے کمرے میں بلائے اور ایک اضافی اور تکمیلی بات اسے سمجھائے یا اس کے ذمہ کوئی کام لگائے۔اسے کوئی علمی اور تحقیقی کام دے۔یہ سب کچھ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی موجودگي پر منحصر ہے۔ایک دن میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس اساتذہ کم ہیں،آج بحمداللہ اساتذہ کی ایک اچھی اور قابل ذکر تعداد موجود ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اسے اہمیت دینی چاہیے۔کلاس روم میں طالب علم کی تربیت _ جو میری نظر میں شاگرد اور دانشور کی تربیت ہے _ اس کا ایک حصہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی انہی چند گھنٹوں _ قوانین میں چالیس گھنٹے ہیں کی موجودگي پر منحصر ہے یعنی اساتذہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اسے اہمیت دینی چاہیے۔
ایک اور مسئلہ کہ البتہ یہ مسئلہ تکراری ہے جو میں عرض کر رہا ہوں، لیکن اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ دوبارہ عرض کر رہا ہوں _ تحقیق کا مسئلہ ہے۔ہم نے کابینہ کے اجلاس میں بھی سرکاری عہدیداروں کو ہدایت کی ہے اور کہا ہے، خود صدر جیسے حکام کے ساتھ خصوصی اجلاسوں میں بھی کہا ہے؛لیکن مسئلے کا ایک حصہ خود یونیورسٹیوں سے متعلق ہے کہ تحقیق کے بجٹ کو صحیح طریقے سے استعمال کریں؛خود اس کے مقام پر صرف کریں؛کیونکہ تحقیق تعلیم حاصل کرنے کا مآخذ و منبع ہے۔ہم اگر تحقیق کو سنجیدگي سے نہ لیں،تو ہمیں پھر برسوں غیرملکی ذرائع کی طرف دیکھنا پڑے گا اور انتظار کرنا پڑے گا کہ دنیا کے کسی گوشے میں کوئی تحقیق کرے اور ہم اس کی تحقیق سے یا اس کی کتابوں سے استفادہ کریں اور یہاں تعلیم دیں۔یہ نہیں ہو گا؛یہ وابستگي ہے؛یہ وہی ترجمہ کا کام اور کسی ملک اور یونیورسٹیوں کے لیے علمی شخصیت کا آزاد و خودمختار نہ ہونا ہے۔کسی ملک کی یونیورسٹی،کسی ملک کا علمی ماحول دنیا کے ساتھ اپنے علمی تعلقات قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے علم حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم ( کسی اور کا ) شاگرد بننے سے شرم محسوس نہیں کرتے؛استاد مل جائے،ہم اس کی شاگردی اختیار کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہر مقام پر شاگرد ہی رہیں؛یہ نہیں ہو گا۔ایک علمی حلقے کے لیے یہ کمی اور نقصان کا باعث ہے کہ وہ تحقیق میں کہ جو علمی رشدوترقی کا مآخذ اور ذریعہ ہے،کمزور ہو؛اسے علمی لحاظ سے خود پر بھروسہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔البتہ دوسروں سے بھی استفادہ کرے،دنیا سے بھی تبادلہ کرے،اس وقت اور اس صورت میں دنیا میں علمی تبادلوں میں اپنا مناسب مقام پیدا کرے گا؛جب وہ اپنے علمی کام اور علم و دانش پر بھروسہ کرتا ہے۔یہ دنیا اور علمی تبادلوں میں اپنا اثر رکھتی ہے۔یہ ہے تحقیق کے بارے میں ہماری بار بار کی تاکید۔۔۔
وہ افراد جو یونیورسٹیوں میں علمائے دین کی حیثیت سے اور(میرے) نمائندہ ادارے کے دفتر کے عنوان کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں،انہیں خود کو یونیورسٹی میں دینی ارتقاء کا اصل ذمہ دار سمجھنا چاہیے ہم نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو ہمیشہ ہدایت کی ہے کہ ان کے کاندھوں پر یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے ماحول کو دینی کرنے کے سلسلے میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛یہ اپنی جگہ پر محفوظ،لیکن اگر تمام ضروری ابتدائی کام اور اقدامات انجام پائیں لیکن وہ عالم دین جو یونیورسٹی میں ( بحیثیت ہمارے نمائندے کے ) تعینات ہے، طلبہ کی نظر میں ایک گہری،بااستدلال،لائق تحسین اور دوسروں کو قائل کرنے والی دینی فکروسوچ کا منشا،منبع اور مرکز نہ ہو تو وہ تمام کام اور اقدامات بے فائدہ ہوں گے۔آپ کو یونیورسٹی کے ماحول میں مسلسل نئی اور مستدل دینی فکر پیش کرنی چاہیے اور طلبہ کی دینی سوچ کو بلند کرنا چاہیے۔ صرف متدین مذہبی اور حزب اللہی طلبہ کو ہی اپنے مخاطبین نہ سمجھیے؛البتہ وہ تو ہیں ہی۔آپ کے مخاطبین پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے تمام طلبہ ہیں؛حتی کہ وہ بھی جو دل میں دین کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں،وہ بھی آپ کے مخاطب ہیں؛ان کو بھی اپنی طرف کھینچیے اور قوی منطق،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا جا سکتا ہے،عناد و دشمنی کو حتی کم کیا جا سکتا ہے یا بہت سے مقامات پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہی موضوع جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، کولمبیا یونیورسٹی کا واقعہ ،ایک اچھی مثال ہے۔انصافا اس قوی منطق،نفس پر تسلط یعنی اچھے جذبے،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد نے اپنا کام کر دکھایا۔البتہ ظاہر ہے کہ ابتدائی کام کیے گئے تھے؛اس تقریب کو براہ راست نشر کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کے بیس سے زائد ٹی وی چینلوں کو بلایا گيا تھا،جو کام انجام دیا گیا اور اس یونیورسٹی کے پروفیسر نے جو افسوسناک رویہ اختیار کیا کہ حقا اور انصافا نامناسب رویہ تھا اور یونیورسٹی کی ایک شخصیت کا رویہ نہیں تھا؛بلکہ ایک نفیس انسان کا رویہ نہیں تھا۔بنا برایں واضح تھا کہ انہوں نے ایسے کام انجام دیے تھے تاکہ مقابل (صدر احمدی نژاد ) کو غصہ دلایاجائے یا شرمندہ کیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے ایک ثبوت اور دستاویز کے طور پر سیاسی و تشہیراتی شوروغل میں اپنے ہاتھ میں رکھیں؛لیکن خداوند متعال نے اس کے برخلاف کیا اور جیسا وہ چاہتے تھے بحمداللہ اس کے بالکل برعکس ہوا اور آپ نے دیکھا کہ انہوں نے تائید و تصدیق بھی کی۔میرا اعتقاد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ماحول میں یہ مسئلہ اتنی جلدی ختم نہیں ہو گا،ایک سوال کے طور پر،ایک مسئلے کے عنوان سے اور ایک بات کی حیثیت سے کہ مسئلہ کیا تھا،جاری رہے گا۔
اسلامی جمہوریہ کی منطق وہاں بیان کی گئی؛دین کی منطق بیان کی گئی؛علم،علم کے نور ہونے اور علم کے نورافگن کے ، خدا کے ہاتھ میں ہونے کے بارے میں اسلام اور دین کی نظر کے موضوع پر بات کی گئی۔ کہ یہ اچھی بحثیں ہیں _ اچھی بحث کی گئی۔وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ فرنگی(یورپی،امریکی) ماحول میں جب وہ جاتے ہیں تو وہ خود انہی کی باتوں کو جو گزشتہ سو دو سو سال سے کی جا رہی ہیں،تکرار کریں اور اپنے آپ سے کہیں کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی اسلام کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے۔
آج حقا اور انصافا فکروسوچ کی دنیا میں _ جو لوگ فکروسوچ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہمیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے _ ایک خلا اور ایک سوال مغربی دنیا میں موجود ہے؛اس خلا کو لبرل ڈیموکریسی کے نظریات پُر نہیں کر سکتے،جس طرح سوشلزم پر نہیں کر سکتا۔اس خلا کو ایک انسانی اور معنوی منطق پر کر سکتی ہے اور یہ اسلام کے پاس ہے۔ڈاکٹر زریاب مرحوم سے _ جنہوں نے یونیورسٹی کی اعلی تعلیم بھی حاصل کی تھی،اورایک اچھے دینی طالب علم بھی تھے انہوں نے بہترین دینی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی علوم سے آشنا تھے اور امام(خمینی) کے شاگرد تھے _ میرے ایک دوست نقل کر رہے تھے _ میں نے خود ان سے نہیں سنا _ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ ایک مطالعاتی دورے پر یورپ گئے تھے،جب وہ واپس پلٹے تو انہوں نے کہا کہ آج جو چیز میں نے یورپ کی یونیورسٹیوں کے علمی ماحول میں مشاہدہ کی ہے،اس کو ملا صدرا اور شیخ انصاری کی ضرورت ہے۔شیخ انصاری کا کام قانون اور فقہ کے موضوع پر ہے اور ملا صدرا نے حکمت الہی میں کام کیا ہے۔وہ(ڈاکٹر زریاب)کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ملا صدرا اور شیخ انصاری کی تعلیمات کے پیاسے ہیں۔یہ خیال ایک مغرب شناس اور کئی یورپی زبانیں جاننے والے استاد کا ہے کہ جس نے برسوں وہاں زندگي گزاری اور علم حاصل کیا تھا اور اسلامی علوم سے بھی آشنا تھا۔یہ ان کا خیال ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔
ہمیں خود اپنے اندر اور اپنی یونیورسٹیوں میں اس قوی منطق کی ضرورت ہے۔یونیورسٹی کی زبان اور طلبہ کی زبان کے ساتھ اس منطق کو فروغ پانا چاہیے۔یہاں بعض اساتذہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہمارے عزیز اساتذہ کو بھی ان کی ضرورت ہے۔اساتذہ بھی خود کو دینی تعلیمات و معارف سے آشنائی سے بے نیاز نہ سمجھیں۔
اسلامی موضوعات پر کتابیں لکھنے والے ایک محقق کہ جن کی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتی ہیں اور یورپ اور دیگر علاقوں میں ان کی کتابیں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ہمیں اس کی اطلاع ہے _ میں ان کا نام لینا نہیں چاہتا _ مجھے بتا رہے تھے کہ جب میں خلیج فارس کے ممالک سمیت عرب ملکوں میں جاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دانشور اور یونیورسٹی کے اساتذہ ہمارے دانشوروں اور اساتذہ کے مقابلے میں قرآن و حدیث سے زیادہ آشنا ہیں۔انہوں نے یہ بات تقریبا دس سال قبل مجھ سے کہی تھی۔البتہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی زبان ان کی زبان ہے؛یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے ذہن میں سعدی ، فردوسی یا حافظ (شیرازی) کی ضرب المثل ہے؛ اس لیے کہ آپ نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں اور آپ کی زبان بھی وہی ہے،آپ کے ذہن میں باقی رہ گئی،اب آپ دیکھتے ہیں کہ جو مقررین حضرات آتے ہیں ان میں سے بعض شعر و ادب سے شروع کرتے ہیں۔ان کی زبان اور قرآن کی زبان چونکہ ایک ہے _ ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن کی زبان خود ان کی زبان ہے _ اس زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں؛اس لیے وہ قرآنی تعلیمات و معارف سے آشنا ہیں۔ان کے سیاستدانوں کو بھی ہم نے دیکھا ہے،ایسے ہی ہیں؛ ان کے سیاستدان بھی آتے ہیں_ تو اب اگرچہ وہ فاسق و فاجر اور معنویات سے دور افراد قرآن کی بعض آیات اور دین اور دینی کتابوں کے بارے میں بعض باتیں جانتے ہیں اور ان کے ذہن میں ہیں۔یہ کمی ہے،ہمیں اس کو دور اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔اب اس کے بنیادی اور اصولی ازالہ کے لیے البتہ منصوبہ بندی ضروری ہے؛لیکن جو مقدار اساتذہ کے لیے فوری طور پر ضروری ہے _ کہ جنہوں نے ایک عمر گزاری ہے اور زحمتیں کی ہیں _ یہ ہے کہ وہ خود کو اسلامی مسائل اور اسلامی تعلیمات و معارف سے آشنا کریں۔واقعا اس کام کے لیے منصوبہ بندی کریں؛خود اساتذہ بھی اور یونیورسٹی سے منسلک افراد بھی منصوبہ بندی کریں۔لیکن اصل مخاطب آپ طالب علم ہیں۔
بہرحال یونیورسٹیوں میں دینی فکر و سوچ کے ارتقاء کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگي سے لینا چاہیے اور ہوشیار رہیے کہ ہمارے طلبہ اور یونیورسٹی کے روشن خیال افراد کے لیے فکری خلا پیدا نہ ہو۔ ہمارے پاس کہنے اور قائل کرنے والی بہت سی باتیں ہیں۔روشن خیالی کے معیارات سے مطابقت رکھنے والی نئی اور قوی باتوں سے تبلیغ کو وسیع کرنا چاہیے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس دینی روشن خیالی ہے یا نہیں ہے؛میں ان بحثوں سے بیگانہ اور بیزار ہوں۔دینی مسائل اور اسلامی نظریاتی مسائل پر نئی اور تخلیقی نگاہ، بلاشبہ روشن خیالی کی نگاہ ہے اور اس کا مطلب بدعت کھڑی کرنا نہیں ہے۔انہی بنیادی تعلیمات اور اصولوں کو نئے زادیوں سے کہ، انسان وقت گزرنے کی برکت سے ان زاویوں کو پہچانتا ہے،سمجھنا اور بیان کرنا ہے اس سے ہمیں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
بہرحال امید ہے کہ خداوند متعال آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو کامیاب کرے گا اور آپ کی مدد کرے گا۔آج کی نشست بھی اچھی نشست تھی؛میرے لیے بھی مفید تھی۔بعض خصوصی باتوں کو میں نے نوٹ کیا ہے اور جو تفصیلات آپ نے بیان کی ہیں،انشاءاللہ اس کام کے ذمہ دار اداروں؛خود ہمارے دفتر میں اور ہمارے دفتر سے باہر ان کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سلسلے میں جو اقدام ہم سے مربوط ہے انشاءاللہ انجام دیا جائے گا،جو حکومتی عہدیداروں سے مربوط ہے _ وزرائے محترم خود یہاں تشریف فرما ہیں _ ان سے کہا جائے گا اور انشاءاللہ اس پر عمل درآمد ہو گا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
١٠رمضان المبارک١٤٢٨ ھ ق مطابق 31 شہریور سنہ 1386 ہجری شمسی برابر ٢٢ ستمبر ٢٠٠٧ عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي دامت برکاتہ نے ماہِ خدا اور ماہِ ذکر الٰہي کي مناسبت سے ملک کے اعلی عہديداروں اور حکام سے خطاب میں اہم سفارشات کیں۔ آپ نے حکام کے لئے اس مہینے سے کما حقہ بہرہ مند ہونے کو زیادہ ضروری قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پہلی رمضان المبارک سنہ چودہ سو اٹھائیس ہجری قمری، مطابق تیئیس شہریور سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی برابر چودہ ستمبر سنہ دو ہزار سات عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ پڑھائي۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ماہ رمضان المبارک کی خصوصیات کا ذکر کیا اور اسے قیمتی اور سنہری لمحات والا مہینہ قرار دیتے ہوئے اس سے بھرپور اور کما حقہ استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
طلب علم،تزکہ نفس اور ورزش و تفریح جوانوں کی ترقی کے اہم اسباب ہیں
آپ تمام لوگ ایک ایسے گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں جسکی سعی و کوشش یہ ہے کہ کوئی غرق نہ ہو لہذا کسی کو خطا کا مرتکب نہ ہونے دیجئے،کسی کو پیچھے نہ ہونے دیجئے،کج رفتاری و ہلاکت ہی بری چیز نہیں ہے بلکہ آگے نہ بڑھنا اور قافلے سے پیچھے رہ جانا بھی بہت بری شی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم نے بہت استفادہ کیا اور لطف اٹھایا آپ حقیقتا میرے بیٹوں کی طرح ہیں آپ عزيز نوجوانوں سے یہ باتیں سننا واقعا لذت بخش ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں یہ دیکھتا ہوں یہ خود آگاہی ملک کے نوجوانوں میں وسیع سطح پر روزبروز فروغ پارہی ہے۔یہ باتیں جو آپ نے یہاں بیان کی ہیں،ان میں سے ہر ایک _ چاہے وہ نیچرل سائنسز کے شعبے سے تعلق رکھتی ہو یا اخلاقی تعلیم و تربیت کے شعبے سے،چاہے اس کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہو یا دانشوروں اور باصلاحیت افراد کو وسائل و امکان فراہم کرنے سے _ یہ میری دیرینہ آرزوؤں میں شامل رہی ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران میں نے انہیں بیان کیا ہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کہا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ایک عوامی خواہش میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛اس قومی کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ نے جو باتیں کی ہیں ان میں سے اکثر کو قبول کرتا ہوں؛ان پر اعتقاد رکھتا ہوں اور جیسا کہ جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کیا ہے،یہ باتیں اور جو باتیں خود کانفرنس میں بیان کی گئی ہیں،نوٹ کر لی گئی ہیں۔ان میں سے ہر ایک پر توجہ دینی چاہیے اور عمل درآمد کرنا چاہیے اور ہو گا۔
ممکن ہے مختلف عوامل ان آرزوؤں تک پہنچنے میں ہمیں تھوڑی تاخیر میں ڈال دیں؛لیکن جان لیجیے اس علمی تحریک ،اس جذبے اور شکوفائی اور رشدونمو کو اب روکا نہیں جا سکتا اور یہ توفیق الہی سے آگے بڑھے گا،یہ کسی شخص پر قائم اور منحصر نہیں ہے۔یہ تحریک ملک میں شروع ہو چکی ہے؛ یہ آگاہی پیدا ہو چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اپنی منزل پر بھی پہنچے گی۔
ہماری آج کی نشست کے میری نظر میں دو اہداف و مقاصد ہیں؛ایک،قومی اور عام سطح پر علامتی ہدف و مقصد،کہ ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک میں _ ملک کی رائے عامہ کی سطح پر _ یہ خیال وجود میں آئے کہ ملک میں علمی تحریک سنجیدگی سے جاری ہے۔ملکی حکام اسے چاہتے ہیں اور سنجیدگی سے اس پر عمل کر رہے ہیں اور وہ علم،علم کے متلاشی اور علمی شخصیت کو اہمیت دیتے ہیں؛یہ آج یہاں پر ہمارے علامتی اجتماع اور علامتی اقدام کے معنی ہیں ۔
اور دوسرا مقصد ملکی حکام _ سرکاری حکام،مختلف شعبوں کے عہدیداروں _ کو ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ہے کہ وہ جان لیں اس خواہش پر عمل کرنا ہے۔بڑی پالیسیوں اور انتظامی پالیسیوں میں ملک کی علمی ترقی و پیشرفت کو قطعی اور حتمی پروگرام شمار کرنا چاہیے اور اسے مدنظر رکھنا چاہیے۔یہ دو ہدف و مقصد انشاءاللہ حاصل ہو گئے ہیں۔
میں صرف چند نکات بیان کروں گا؛بہت سی اچھی باتیں خود آپ لوگوں نے بیان کر دی ہیں۔ایک نکتہ جو نیا بھی نہیں ہے،یہ ہے کہ:ہمارے ملک کے لیے علمی تحریک ایک دوچندا ضرورت ہے؛ایک دوچندا اور حتمی ضرورت ہے۔ضرورت ہے؛کیوں؟اس لیے کہ علم ، کسی بھی قوم کی عزت و طاقت اور سلامتی کا باعث ہے _ اس کی میں مختصر وضاحت کروں گا _ دوچندا اور حتمی ہے؛ کیوں؟اس لیے کہ اس فریضہ پر بہترین زمانے کے سو سال کے دوران عمل نہیں ہوا؛قاجاری دور کے اواسط سے کہ جب دنیا کی علمی اور صنعتی تحریک نے عروج حاصل کیا اور پھلی پھولی تھی _ انیسویں صدی کے نصف دوم کے اواسط سے _ اور علم نے استعمار کی شکل میں خود کو دکھایا تھا؛مغرب علم کے وسیلے کو حاصل کر کے دنیا کو لوٹنے اور اس کے استثمار میں مشغول ہو گيا تھا۔اس دن سے لے کر _ تقریبا سو سال یا اس سے زیادہ _ کہ جو ہماری بیداری اور ہوشیاری کا دور تھا،اس عظیم فریضے،ملک کی علمی ترقی کے فریضے پر مختلف وجوہات کی بنا پر عمل درآمد رک گيا۔اس کی ایک بڑی وجہ تھی ( اور وہ یہ تھی )استبداد کی حاکمیت،طاغوتوں کی حاکمیت،کٹھ پتلی،کمزور اور ناتواں بادشاہوں کی حاکمیت، یہ پسماندگي ہمیں وراثت میں ملی ہے۔لہذا ہماری کوشش دوچند ہونی چاہیے۔پس،ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دوچندا اور حتمی ہے۔
اس بارے میں علم ضرورت ہے،آپ لوگ جانتے ہیں،لیکن مناسب ہے میں ایک بار پھر بیان کر دوں کہ حقیقتا جس ملک کا ہاتھ علم کی جانب سے تنگ ہے ،اسے عزت،آزادی و خودمختاری،تشخص،شخصیت،سلامتی اور رفاہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔انسانی زندگی کی فطرت اور زندگی کے امور اسی طرح ہیں۔علم عزت دیتا ہے۔نہج البلاغہ میں ایک جملہ ہے کہ جملہ بہت ہی بامعنی ہے۔امیرالمؤمنین فرماتے ہیں(( العلم سلطان )) علم اقتدار ہے۔سلطان یعنی اقتدار،قدرت۔(( العلم سلطان من وجدہ صال و من لم یجدہ صیل علیہ )) ؛ علم اقتدار ہے۔جو اس اقتدار کو حاصل کر لے ،وہ حکومت کر سکتا ہے؛ جو اس اقتدار کو حاصل نہ کرے (( صیل علیہ )) اس پر غلبہ ہو جائے گا؛ دوسرے اس پر تسلط اور غلبہ پا لیتے ہیں؛ اس پر حکم چلاتے ہیں۔اس حقیقت کو ایرانی قوم نے ایک طویل دور میں اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ہم پر انہوں ( اغیار) نے حکم چلایا؛زور و زبردستی سے کام لیا؛ہمارے وسائل و ذخائر کو لوٹا؛ہماری قوم کو رفاہ سے محروم کیا۔ہمارے ملک کی اس سو سالہ دور کی تلخ اور محنت بار تاریخ ہے کہ جس کے نتائج ہم اس وقت بھگت رہے ہیں؛ہم نے تحریک شروع کی؛انقلاب نے حالات کو تبدیل کر دیا؛ورق کو الٹ دیا۔آج ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے کہ جو سیاسی و بین الاقوامی (سطح پر ) عزت کے لحاظ سے دنیا میں کم نظیر ہے؛اس بات کو ہمارے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔قوم بیدار ہو گئی ہے۔بہادر ہے۔ملک تشخص اور شخصیت کا حامل ہے؛لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہم سے سو دو سو سال پہلے علم حاصل کیا اور ہم سے چند میدان آگے حرکت کی اور آگے نکل گئے اور علم کی برکتیں حاصل کر لیں،اب زور و زبردستی کی زبان بول رہے ہیں۔یہی ایٹمی توانائی،سائنسی طاقت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا مسئلہ،اس کا ایک نمونہ ہے۔(( آپ کے پاس نہیں ہونا چاہیے؛آپ پر اطمینان نہیں ہے ))؛ زور و زبردستی کی بات۔کون لوگ ہمیں کہتے ہیں:آپ پر اطمینان نہیں ہے؟ ! وہی لوگ جنہوں نے بیس سال کے دوران دو عالمی جنگیں شروع کیں اور پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں میں جلا دیا؛یورپیوں نے۔
جو ہم سے کہتے ہیں کہ آپ پر اطمینان نہیں ہے،کہ جہاں پر بھی ان کا ہاتھ پہنچا انہوں نے اپنی فوجیں داخل کر دیں۔اس کی زندہ مثال عراق ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں؛اس کا قدیمی تر اور دردناک تر نمونہ فلسطین ہے؛اس کا ایک اور نمونہ افغانستان ہے؛اس کا ایک اور نمونہ کوسوو ہے؛اس کا ایک اور نمونہ دنیا کے مختلف علاقے ہیں؛اس کا ایک نمونہ ہیروشیما ہے۔
یہ لوگ ( یورپی مغربی ممالک ) کہ صنعتی دور میں دنیا کی اہم فتنہ انگیزی ان کی طرف سے ہوئی ہے ملت ایران کو کہ اب تک ان برسوں کے دوران ایک بار بھی _ منجملہ انقلاب کے بعد کے دور میں _ اس ملک ( ایران ) کی طرف سے کسی ہمسایہ اور غیر ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا مشاہدہ نہیں کیا گيا _ ہم اسلامی جمہوریہ حکومت کی بات کر رہے ہیں؛اس سے پہلے سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ کے دور میں ہمارے ملک کی طرف سے ابتدائی طور پر گولہ بھی کسی ہمسائے پر فائر نہیں ہوا ہے؛اس بات کو سب قبول کرتے ہیں _ کہتے ہیں:ہمیں آپ پر اطمینان نہیں ہے ! یہ یعنی زور و زبردستی۔اب شمالی افریقہ کے کسی ملک کی مانند ملک ( لیبیا ) کو ایسے آنکھیں دکھاتے ہیں کہ اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،اپنے تمام وسائل اور سازوسامان اکٹھا کرتا ہے بحری جہاز پر لادتا ہے اور کہتا ہے لے جائیے !
ملت ایران ڈٹی ہے اور ڈٹی رہے گی؛نہ صرف اس معاملے میں بلکہ ہم بہت سے دیگر معاملوں میں اسی طرح ڈٹے ہیں؛اب یہ معاملہ عوامی سطح پر لے جایا گیا ہے۔اول انقلاب سے لے کر آج تک دسیوں معاملوں میں ہم نے زور و زبردستیوں،بدمعاشیوں،ہٹ دھرمیوں اور دھمکیوں کے مقابل استقامت کا مظاہرہ کیا؛وہ جان چکے ہیں کہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔لیکن یہ زور و زبردستی ہے۔یہ زور و زبردستی کس بنا پر ہے ؟ اس لیے کہ مقابل فریق علم سے مسلح ہے۔دیکھیے یہ آپ نوجوانوں کے لیے بہت عبرت انگیز ہے۔
امریکی حکومت کی مانند اخلاق سے عاری،معنویت سے عاری اور بین الاقوامی قوانین سے بے اعتنائی برتنے والی حکومت چونکہ علم کی حامل ہے اور اس نے علم کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا اور اپنی زندگي میں اس کا استعمال کیا،وہ اپنے آپ کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح زور و زبردستی کرے۔(( من وجد صال )) جس کے پاس علم ہو،دوسروں پر حکم چلا سکتا ہے _ (( و من لم یجدہ صیل علیہ )) _ آپ کے پاس نہ ہو تو آپ پر حکم چلاتے ہیں۔دیکھیے،ضرورت یہاں ہے۔
ہر انسان کا ضمیر،وہ انسان جو اپنی ذات،اپنے تشخص،اپنے خاندان،اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل،اپنی قومیت،ملک اور اپنے قومی و ملی تشخص میں دلچسپی رکھتا ہے،اس معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔میں جو برسوں سے علمی تحریک پر زور دے رہا ہوں،اصرار کر رہا ہوں اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا ہوں تو اس کی وجہ یہی ہے۔
علم، سائنسی ترقی و پیشرفت،ہمارف ملک کی اولین ضرورت ہے؛البتہ تمام علوم _ ابھی عرض کروں گا _ صرف تجربی علوم نہیں بلکہ تمام علوم کو اپنے مقام پر حاصل کرنا چاہیے اور ہمارا ملک ایسا کر سکتا ہے۔بنابریں پہلے نکتے کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ جو ملک کے دانشوروں کے عظیم ذخیرے کا ایک حصہ ہیں،قومی قوت و طاقت پیدا کرنے اور ملک کے مستقبل اور اس کی تعمیر میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارا ملک دانشوروں کی تربیت کی استعداد اور دانشوروں کا حامل ہونے کے لحاظ سے متوسط سطح سے بالاتر ہے۔حساب کتاب میں اس کا ذکر ہونا چاہیے۔میں نے ایک مرتبہ اسی مقام پر(حسینیہ میں) ملکی حکام کے اجتماع میں _ آج سے چند سال قبل _ کہا تھا ہمارے ملکی کی جغرافیائی سطح دنیا کی آباد جغرافیائی سطح کا تقریبا ایک فیصد ہے،ہمارے ملک کی آبادی بھی تقریبا سات کروڑ ہے کہ جو انسانی آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہے۔بنابریں متوسط طور پر دنیا کے زیرزمین ذخائر میں ہمارا حق ایک فیصد بنتا ہے؛لیکن ہمارے پاس اہم ترین زیرزمین ذخائر ایک فیصد سے زیادہ ہیں: دھاتیں،فولاد،تانبا،سیسہ اور بہت سی دیگر معدنیات؛یہ تمام دنیا کے کل ذخائر کا تین فیصد،دو فیصد اور چار فیصد ہمارے ملک میں ہیں۔تیل،اس کی صورت حال تو آپ کو پتہ ہی ہے اور ہمارے پاس مشرق وسطی اور خلیج فارس کے تیل سے مالامال علاقے میں تیل کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔گیس،ہمارے پاس دنیا میں گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔آپ دیکھیے ہماری قوم اور ہمارے ملک کے پاس انسانی آبادی کے فی کس سے کئی گنا زیادہ قدرتی ذخائر ہیں۔
میں اب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہی نسبت کا اضافہ افرادی قوت کے سلسلے میں بھی ہے۔یعنی ہمارے ملک کے پاس دنیا کی دانشور افرادی قوت کا ایک فیصد نہیں ہے ،ایک فیصد سے زیادہ ہے۔ہم اعداد و شمار نہیں دے سکتے؛اس لیے کہ اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔قدرتی ذخائر کے بارے میں میں نے جو کہا ہے اس کا اندازہ لگایا گیا ہے۔اس کا ہم نے اندازہ اور حساب کتاب نہیں لگایا ہے؛انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ آئندہ اس پر بھی کام ہو گا۔لیکن قرائن یہ ظاہر کرتے ہیں۔دنیا کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے جہاں دیدہ افراد سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں،سب اسی کی تائید کرتی ہیں۔میں نے بہت سے افراد سے سنا ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ایرانی دانشوروں کی تعداد کہ جہاں ایرانی ہیں دوسرے ملکوں سے دوگنا اور تین گنا زیادہ ہے۔ڈاکٹر چمران مرحوم حقا اور انصافا خود ایک سائنسدان تھے _ اب ان کا علمی پہلو ان کے فوجی پہلو،جدوجہد،فداکاری اور شہادت کے پیچھے چھپ گيا ہے _ اور انہوں نے امریکہ کی اعلی ترین اور جدید ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔وہ مجھے بتا رہے تھے اس مرکز میں دوسرے ملکوں کے دانشور بھی موجود تھے ؛لیکن یونیورسٹی کے اکثر شعبوں میں اور دوسری یونیورسٹیوں میں ایرانیوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ زیادہ ذہین اور ممتاز تھے۔۔۔۔ میں نے متعدد افراد سے یہ سنا ہے اور میرے پاس اس سلسلے میں متعدد رپورٹیں بھی موجود ہیں۔پس ہم مستقبل میں افرادی قوت کے لحاظ سے کمی کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہمارا ماضی بھی یہی ظاہر کرتا ہے ۔افسوس ہم ماضی سے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ہمارے نوجوان ہماری علمی تاریخ کو نہیں جانتے ہیں۔یہ ہماری ایک کمزوری ہے کہ البتہ تاکید کی گئی ہے اور کہا گيا ہے کہ اس شعبہ میں ایران میں علم کی تاریخ کے میدان میں _ کام کیا جائے؛اور کام ہو بھی رہا ہے اور اچھا کام بھی ہوا ہے۔کہ انشاءاللہ اس کے بعد مزید زیادہ کام ہو گا۔
ان تمام صدیوں میں ہمارے ملک میں ممتاز علمی شخصیات موجود تھیں کہ البتہ حالیہ صدیوں میں ان کی تعداد کم ہوئی ہے۔نالائق بادشاہوں اور مختلف داخلی جنگوں نے ( یہ کام) نہ ہونے دیا؛ورنہ مختلف ادوار میں اور دنیا کے رائج علوم کے مختلف میدانوں میں ہم دانشور پرور رہے ہیں۔
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں _ یعنی دسویں اور گيارہویں صدی عیسوی کہ جو یورپ کے قرون وسطی کا دور ہے؛یعنی جہالت کا تاریک دور _ ہمارے پاس ابن سینا(بوعلی سینا) تھے،محمد بن زکریا رازی تھے۔یورپ والے جب ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں،تو وہ خیال کرتے ہیں کہ تمام دنیا قرون وسطی میں تھی! تاریخ بھی انہوں نے ہی لکھی ہے!افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تاریخیں بھی ہمارے ملک میں ترجمہ ہوئی ہیں اور ان کی ترویج ہوئی ہے۔یورپ کا قرون وسطی کا دور یعنی انتہائی تاریکی،ظلمت اور بےخبری کا دور؛یہ وہ دور ہے جب ہمارے پاس فارابی تھے،ابن سینا تھے،خوارزمی تھے۔دیکھیے فاصلہ کتنا ہے!
میں نے ایک مرتبہ نوجوانوں کے اجتماع میں(( جارج سارٹن کی تاریخ علم )) یا دیگر علوم کی تاریخ سے - اس وقت اس کے مؤلف کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔یہ سب فرنگی(یورپی) ہیں؛میں ان کا نام دہرانا نہیں چاہتا - اس دور میں مسلمانوں کی ترقی و پیشرفت کی صورت حال کے بارے میں باتیں بیان کی تھیں۔
بنابریں ہم دانشور افرادی قوت کے لحاظ سے مشکل اور کمزوری سے دوچار نہیں ہیں؛نہ آج اور نہ ہی انشاءاللہ آئندہ۔روزبروز اسے بڑھنا چاہیے؛دانشوروں کو تلاش کرنا چاہیے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ: دیکھیے میرے عزیزو،ہم ملک کو علمی بنانا چاہتے ہیں؛لیکن ملک کے علمی بننے کا ہدف و مقصد یہ نہیں ہے کہ ملک کو مغربی بنائیں۔اشتباہ نہ ہو۔مغرب والے علم رکھتے ہیں۔لیکن اس علم و دانش کے ساتھ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن سے گریز کرتے ہیں۔ہم مغربی ہونا نہیں چاہتے؛ہم عالم ( دانشور) ہونا چاہتے ہیں۔آج کی دنیا کا علم کو جو عالم سمجھا جاتا ہے،انسان کے لیے ایک خطرناک علم ہے۔علم کو انہوں نے جنگ،تشدد،فحاشی و سیکس،منشیات،دوسری قوموں پر جارحیت،استعمار،اور جنگ و خونریزی کے لیے قرار دے رکھا ہے۔ایسا علم ہم نہیں چاہتے؛ہم ایسا عالم بننا نہیں چاہتے۔ہم چاہتے ہیں کہ علم انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔انصاف کی خدمت کے لیے ہو،امن و سلامتی کی خدمت کے لیے ہو۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں۔اسلام ہم کو ایسے علم کی سفارش و ہدایت کرتا ہے۔
اس دن کہ جب اسلامی ممالک خصوصا ہمارا اسلامی ایران علم کے لحاظ سے دنیا میں آگے اور سربلند تھا،اس دن ہم نے کسی ملک کو نہیں لوٹا،کسی قوم کے خلاف جارحیت نہیں کی،کسی ملت سے زور و زبردستی نہیں کی۔اسلام علم کو ایمان،کتاب و سنت،اخلاقی تہذیب اور اخلاق و معنویت کے ساتھ چاہتا ہے۔میں مناجات شعبانیہ کے اس جملے سے جو اس بچی نے اپنی تقریر میں پڑھا،کتنی محظوظ ہوا :(( الہی ھب لی قلبا یدنیہ منک شوقہ و لسانا یرفع الیک ذکرہ )) یا (( صدقہ و نظرا یقربہ منک حقہ)) ؛ خدایا مجھے ایسا دل عطا کر کہ شوق و عشق اسے تجھ سے قریب کر دے۔مسلمان عالم ( دانشور) یہ چاہتا ہے؛خدا سے قربت،معنویت،اخلاص اور پاکیزگی۔اس وقت یہ علم ،یہ عظیم ذخیرہ،یہ عظیم ہتھیار انسانیت کے دفاع کے لیے استعمال ہوتا ہے؛انسانوں کی سلامتی،انسانوں میں انصاف،انسانوں اور انسانی معاشروں میں صلح صفائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد بنائیے۔
آپ آج ان کا لب و لہجہ دیکھیے جو سیاسی کرسیوں پر براجمان ہیں کہ جن کے پائے دولت اور منحرف علم - سرمایہ داری - پر استوار ہیں۔مغربی حکومتیں اس وقت ایسی ہیں۔اب مغربی طاقتوں کی چوٹی پر امریکہ ہے۔اس کی طاقت کی کرسی کے پائے سرمایہ داروں کی کمپنیوں کے پایوں پر ہیں اور اس کا حربہ اور وسیلہ علم ہے۔علم کے ذریعہ ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں؛اطلاعات و معلومات کی جاسوسی اور چوری کے لیے علم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں؛دنیا کے مختلف علاقوں میں قیدوبند کے لیے علم کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔آپ دیکھیے کہ اس قسم کے ممالک کے سربراہوں کا کہ جن کے پاس اس قسم کا منحرف اور گمراہ کن علم ہے، ان کا لب و لہجہ کیسا ہے؟ آپ نے چند روز قبل امریکی صدر ( جارج بش) کی تقریر سنی کہ کتنی نفرت انگیز،کتنی تشدد پسندانہ اور متکبرانہ تھی۔یہی غرور و تکبر انہیں روز بروز گرداب میں پھنساتا چلا جا رہا ہے۔آج آپ یہ جان لیں - میں اب آپ سے یہ کہہ رہا ہوں۔آپ وہ دن دیکھیں گے؛اس دن ہم نہیں ہوں گے،لیکن آپ نوجوان وہ دن دیکھیں گے - کہ یہ غلط بنیادوں پر بنایا گيا تمدن،گرداب میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے؛ہر لمحہ دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور سقوط کر جائے گا؛بلاشبہ یہی غرور،یہی احمقانہ تکبر اسی سقوط کے عوامل میں سے ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے۔یہ سقوط کر جائیں گے۔آج یہ اترا رہے ہیں؛لیکن پستی کی جانب حرکت کر رہے ہیں،خود بھی متوجہ نہیں ہیں؛البتہ ان کے ہوشیار اور باخبر افراد متوجہ ہیں جو برسوں سے فریاد کر رہے ہیں؛خبردار کر رہے ہیں؛خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں !لیکن کون ہے جو ان کی بات سنے؛مست ہی مست ہیں۔نشے میں ہیں۔
سکران سکر ھوی سکر مدامہ انّا یفیق فتی بہ سکران
ان میں دو نشے ہیں؛ہوس پرستی کا نشہ،طاقت کا نشہ۔جو آدمی ایک نشے کا شکار ہو اس کے ذہن میں کوئی چیز نہیں ڈالی جا سکتی؛جب کوئی دو نشوں میں مبتلا ہو تو پھر واویلا ہے!مثلا کوئی شراب بھی پئیے اور نشے کی گولی بھی کھائے انہوں نے دونوں کام کیے ہیں! اب علم کی تلوار بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ہنر مندی سے اور عقل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے اور زمین پر گرانا چاہیے؛اور انشاءاللہ ہم ان کو چت کر کے رہیں گے۔
توجہ رکھیے کہ ہم اس علم کے پیچھے نہیں ہیں۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں جو ہمیں معنویت،انسانیت،خدا اور بہشت سے قریب کرے۔آپ نوجوانوں کے دل پاک ہیں۔میں یہ باتیں کر رہا ہوں لیکن جو دل ان باتوں سے بننے اور شکل اختیار کرنے پر آمادہ ہے وہ آپ کا دل ہے۔آپ ہیں جو اپنے جوان دلوں اور اپنے شاداب و تروتازہ جذبات کے ساتھ اس راستے کو طے کر سکتے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے:دانشوروں کے سلسلے میں ایک ذمہ داری حکومت کی ہے،ایک ذمہ داری دانشوروں کی ہے۔حکومت کی ذمہ داری وہی چیزیں ہیں جو - ہمارے عزیز صدر ( احمدی نژاد ) کے محترم نائب - جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کی ہیں۔یہ حکومت کی ذمہ داریاں ہیں،انہیں انجام دیا جانا چاہیے،میں بھی تاکید کرتا ہوں اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لوں گا انشاءاللہ۔خوش قسمتی سے حکومت کی پالیسی بھی یہی ہے کہ یہ نتیجہ خیز ہوں۔یہ جو آپ نے کہا ہے کہ دانشوروں کو دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور مختلف مراکز میں ہونا چاہیے،یقینا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔اب بھی میں کہنا چاہتا ہوں ایسا ہی ہے۔یہی افراد جو آج دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور اس علمی ادارے کا انتظام چلا رہے ہیں،ہمارے نوجوان دانشوروں میں سے ہیں۔ان کا آپ سے عمر کے لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہے اور انہی دانشوروں کا حصہ ہیں کہ جو اب سرکاری عہدوں پر آگے آئے ہیں اور صدر کے نائب،علمی ادارے اور دانشوروں کی فاؤنڈیشن کی تشکیل تک اوپر آئے ہیں اور یہ عظیم کام درحقیقت آپ نوجوان دانشور ہی ہیں جو انجام دے رہے ہیں۔بعد میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے ۔
لیکن خود دانشور۔یہ آپ سے جو یہاں موجود ہیں،عرض کر رہا ہوں؛لیکن خطاب ملک کے تمام دانشوروں سے ہے۔ہمارے دانشور صرف آپ نہیں ہیں۔صلاحیت کے لحاظ سے ہزاروں،لاکھوں،شاید کروڑوں دانشور موجود ہیں کہ البتہ ان کو تلاش کرنا چاہیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہوشیار رہیے غرور کا شکار نہ ہوئيے۔ غرور،خود کو بڑاسمجھنا اور اپنا حق جتانا یہ صحیح نہیں ہے ؛ یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے ۔آپ اس گھر کے فرزند ہیں؛اس سرزمین کے فرزند ہیں۔آپ کے ماں باپ اس ملک میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی صرف کی کہ اس عمارت کو تعمیر کریں تا کہ آپ اس عمارت میں آسائش سے زندگی گزار سکیں۔ان کے حقوق ہیں۔ہوشیار رہیے بزرگوں پر حکم نہ چلایا جائے،ان کی توہین نہ ہو،بے اعتنائي نہ ہو،ملک و قوم پ اپنا حق نہ جتایا جائے ۔البتہ میں نے کہا ہے کہ حکومت کے فرائض اور ان کے فرائض جو غیرسرکاری شعبوں میں توانائی رکھتے ہیں،معلوم ہیں؛ان کی ذمہ داری معین ہے؛لیکن آپ بھی اس طرف سے اس نکتے پر توجہ کریں۔
آپ عزیزوں کے لیے میری دوسری نصیحت:آپ اپنے لیے ایک تاریخی اور قومی کردار کی تعریف کیجیے،نہ کہ ایک ذاتی کردار کی۔جب انسان اپنے لیے ایک ذاتی کردار کی تعریف کرتا ہے - ایک بااستعداد آدمی - تو اس کا ہدف و مقصد یہ ہو جاتا ہے کہ دولت و ثروت حاصل کر لے،شہرت حاصل کر لے،سب اس کو پہچانیں،سب اس کا احترام کریں؛یہ ہو جاتا ہے ہدف و مقصد۔ان چیزوں کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے کوئی کام نہیں ہوتا،اس کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا؛لیکن جب انسان اپنے لیے ایک قومی کردار،ایک تاریخی کردار کی تعریف کرتا ہے تو پھر صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔آپ ملک کے مستقبل اور تاریخ کو پیش نظر رکھیے اور دیکھیے کہ قوم کو کہاں پہنچنا چاہیے اور آپ آج اس راستے میں کہاں پر ہیں۔آج آپ کو کون سا کردار ادا کرنا ہے تا کہ اس روز یہ قوم وہاں پر پہنچ سکے۔ایسا ہدف و مقصد اپنے لیے تعریف اور وضع کیجیے؛ہدف و مقصد کو اعلیٰ بنائیے ۔
میری تیسری نصیحت یہ ہے کہ اپنی ہمت بلند رکھیے۔میں نے نوجوانوں اور دانشوروں کے اجتماع میں کئی بار یہ بات کہی ہے۔ہمت یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کوئی خاص ٹیکنالوجی کہ جسے دوسروں نے بنایا ہے اور ہم ہمیشہ اسے خریدتے اور درآمد کرتے تھے،اب فرض کیجیے ہم خود یہاں بنا سکتے ہیں۔یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔البتہ چیز ہے،کم اہمیت نہیں ہے؛لیکن وہ چیز نہیں ہے کہ ہم جس کے پیچھے ہیں۔آپ ہدف و مقصد یہ بنائیے کہ آپ کا ملک اور قوم ایک زمانے میں پوری دنیا میں علم و ٹیکنالوجی کا مرکز ہو۔میں نے ایک بارنوجوان دانشوروں کے اجتماع میں کہا تھا :آپ ایسا کام کیجیے کہ ایک وقت میں - اب ممکن ہے یہ وقت پچاس سال بعد یا چالیس سال بعد کا ہو - اگر کوئی دانشور تازہ ترین علمی و سائنسی نتائج حاصل کرنا چاہے تو وہ مجبور ہو کہ فارسی زبان سیکھے کہ آپ نے اپنی تحقیق فارسی زبان میں لکھی ہے؛جس طرح کہ آج آپ کوئی علم حاصل کرنے کے لیے کوئی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں تا کہ آپ اصل کتاب حاصل کر کے اسے پڑھ سکیں۔آپ ایسا کام کیجیے کہ مستقبل میں آپ کے ملک کی صورت حال ایسی ہی ہو؛آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ایک دن ایسا ہی تھا؛ایرانی دانشوروں کی کتابیں وہ ( یورپی ) اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے تھے،یا اس ( فارسی ) زبان کو سیکھتے تھے تا کہ سمجھ سکیں۔یہ بھی برا نہیں ہے آپ جان لیجیے کہ طب کے موضوع پر لکھی گئی ابن سینا کی کتاب قانون کا گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران - میری صدارت کے دور میں - فارسی میں ترجمہ ہوا! میں اس کام کے پیچھے پڑا؛بعض افراد کو ذمہ داری سونپی،بعد میں میں نے سنا کہ ایک صاحب ذوق خوش قلم کرد مترجم نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا کہ آج اس کا فارسی ترجمہ موجود ہے۔اس وقت تک کتاب قانون کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا - ابن سینا نے یہ کتاب عربی میں لکھی ہے - اور اس کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا؛جب کہ کئی سو سال پہلے اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہو چکا تھا ! یعنی جن کے لیے یہ کتاب ضروری تھی وہ اسے لے گئے تھے اور اس کا ترجمہ کیا تھا۔دیکھیے،یہ ہے علمی مرجعیت؛وہ مجبور ہیں کہ آپ کی کتاب کا ترجمہ کریں یا آپ کی زبان سیکھیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد قرار دیں۔اپنی ہمت بلند رکھیے۔علم و دانش کے میدان میں ترقی اور علم کی سرحدوں کو ختم کرنے اور توڑنے کا حوصلہ پیدا کیجئے البتہ اس سلسلے میں میرے پاس اور باتیں بھی ہیں لیکن وقت ختم ہو گیا ہے اور میں مجبور ہوں کہ آخری نکتہ بیان کروں۔
ہمیں ملک کےلیے ایک جامع علمی وژن تیار کرنا چاہیے۔یہ بات میں نے گزشتہ سال بھی اس علمی مجموعہ میں کہی تھی،اس وقت بھی ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے،لیکن یہ کام زیادہ سے زیادہ سنجیدگي سے ہونا چاہیے۔ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ملک کا جامع علمی وژن کیا ہے۔اس وژن میں کس علم کا کتنا اور کہاں پر مقام ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم ایک ایسے ایکسرسائز کرنے والے کی مانند ہوں کہ جو صرف بازوؤں کی ورزش کرتا ہے اور اس کے بازو موٹے ہو جاتے ہیں،جب کہ اس کی ٹانگیں اور شانے ایک کمزور آدمی جیسے ہوں! اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ایک ورزش کرنے والا صرف چھاتی کی ورزش کرے اور اس کے بقیہ بدن کے اعضاء میں کوئی طاقت نہ ہو،اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔،کام متناسب ہونا چاہیے۔ان عزیز نوجوانوں میں سے بعض نے نچرل سائنسز کے بارے میں بات کی ہے۔ہم نیچرل سائنسز کے بعض مضامین میں دنیا سے صدیوں آگے ہیں۔ان لوگوں سے کہیں آگے ہیں جو آج اس مضمون میں دنیا میں سر فہرست ہیں۔ہم ان پر کام کیوں نہ کریں؟نیچرل سائنسز کے مختلف شعبوں میں؛ادب،فلسفہ،تاریخ اور ہنر میں ہمارا قدیم ماضی ہے۔نیچرل سائنسز کے بعض مضامین ایسے ہیں کہ جو اگرچہ مغرب سے آئے ہیں،لیکن اگر ہم صحیح غور کریں تو اس کی بنیاد اور اصل کہ جو عقلانیت اور تجربے سے عبارت ہے،ایرانی - اسلامی روح اور فکر و سوچ سے ہے۔خرافاتی یورپ ،جیالوجی،اقتصاد،مدیریت(مینجمنٹ)،نفسیات اور سوشیالوجی کو اس شکل میں مرتب نہیں کر سکتا تھا۔یہ مشرق خصوصا ایران اسلامی کی علم دوستی اور تجربہ کرنے کی سوچ کی سوغات تھی کہ جو وہاں گئی اور اس تبدیلی کا باعث بنی۔بہرحال جن چیزوں میں ہم پیچھے ہیں ان میں ہمیں خود کو آگے لے جانا چاہیے اور ہم خود ایجاد کریں؛ترجمہ نہ کریں( دوسروں کے نظریات کی کاپی نہ کریں) یہ ہمارے لیے بہت زیادہ نقصان ہے۔
بنابریں جامع علمی وژن ایک لازمی چیز ہے۔مختلف علوم،ان میں سے ہر ایک علم،طلبہ کی تعداد،طلبہ کی جنسیت _ لڑکا،لڑکی _ مختلف علاقوں کا مقام و مرتبہ واضح ہونا چاہیے؛ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔یہ کام البتہ شروع ہو چکے ہیں،لیکن ان میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیجیے اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیجیے۔
تحقیقات اور ایجادات کو کام میں لانے اور مفید بنانے کا مسئلہ - کہ اتفاقا بعض نوجوانوں نے اس کے بارے میں بات کی ہے - ان چیزوں میں سے ہے کہ جن پر میں زور دیتا ہوں۔ممکن ہے ہم تحقیقات انجام دیں،ایک تشہیراتی منصوبے میں ہمارا محقق اچھے مقام پر پہنچے؛لیکن اس کا ملک کی صورت حال، ملک کی ترقی و پیشرفت میں کوئی کردار نہ ہو؛یعنی یہ قومی دولت میں تبدیل نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے علم کو قومی دولت میں تبدیل کرنا چاہیے۔اس کے لیے کوشش ضروری ہے،منصوبہ بندی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ایک اور نکتہ بھی ہے - کہ جو اسی جامع علمی وژن کے دائرے میں آتا ہے - کہ ہمیں علم اور ٹیکنالوجی کی زنجیر کو مکمل کرنا چاہیے،کہ بعض مقامات پر یہ زنجیر ٹوٹ گئی ہے،تاکہ حقیقی پیداوار کا سلسلہ شروع ہو اور علم تمام جہات سے اپنے اہداف تک پہنچ سکے۔
ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد آپ کا شوق،آپ کی ہمت،آپ کی دلچسپی اور متعلقہ افراد کی کوشش ہے مجھے امید ہے کہ خدا مدد کرے گا۔انشاءاللہ یہ کوشش کیجیے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بحمداللہ ( کوشش ) شروع ہو گئی ہے؛یہ علمی تحریک شروع ہو گئی ہے اور انشاءاللہ نتائج تک پہنچے گی۔
میں خوش قسمت ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوئی اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات ملک اور قوم کے اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچنے میں مدد دے گی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عید کے مبارک دن کی پوری امت مسلمہ،مومن و غیور ایرانی قوم اسی طرح ملک کے اعلی عہدیداران، اسلامی ممالک کے معزز سفرا کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں بلکہ زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ میں اس عید کی مبارکباد تمام عالم انسانیت کو پیش کروں، کیونکہ ختم المرسلین کی بعثت، تمام انسانوں کے لئے ایک نیا موڑ ہے جہاں انسانی معاشروں کو سالہا سال کے رنج و الم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس نئے باب کا حصہ بننے کی دعوت قبول کی اور کامبیاب و کامران ہو گئے اور جن لوگوں نے روگردانی کی وہ خسارے میں چلے گئے۔
ہماری نظر میں آج بھی انسانیت کو ضرورت ہے پیام بعثت کی اور انبیا ئے کرام کی تعلیمات پر عمل آوری کی جو مکمل طور پر اسلام اور قرآن کی تعلیمات میں مجتمع ہیں۔ تبلیغ دین کے مشن میں تین چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں اور ان پر قرآن کریم کی آیات میں بھی خصوصی تاکید کی گئی ہے: علم بصیرت، تزکیہ نفس و اخلاق اور عدل و انصاف۔
اگر غور کریں تو آج بھی عالم انسانیت کو انہیں تین چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔آج انسان علم کے میدان میں بہت آگے پہنچ چکا ہے، لیکن یہ علمی ترقی ایک خاص پہلو تک محدود ہے اور وہ ہے مادی پہلو، یعنی وہ علم جس کا تعلق انسان کی مادی زندگی سے ہے، انسانی معاشرے نے بلاشبہ سائنس میں بے پناہ ترقی کی ہے لیکن معنویت سے تعلق رکھنے والے علوم میں یعنی ان موضوعات کے سلسلے میں، جو انسانی ذہن کو خلقت کے آغاز اور خالق کی وحدانیت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس کے دل کو اس راہ کی جانب مائل کرتے ہیں جس پر گامزن ہونے کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے، ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کرنا باقی رہ گیا ہے۔ جب اسلام حصول علم کی دعوت دیتا ہے تو یہ دعوت تمام پہلوؤں پر محیط ہوتی ہے۔ اخلاقیات، تزکیہ نفس اور معنویت اس سے بھی زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ انسانی زندگی کی مشکلات، اخلاقیات اور تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔
سب سے پہلے مرحلے میں، اہم شخصیات، سرکاری حکام اور عہدیداروں کے لئے اس کی پابندی لازمی ہے۔ اگر انسانی معاشروں کی قیادت کرنے والے طبقے میں جو سیاسی، علمی اور سماجی شخصیات پر مشتمل ہوتا ہے، روحانیت، اخلاقیات اور پاکیزگی نفس کا ماحول قائم ہو جائے تو اس کا فیض آبشار کی مانند دیگر طبقات تک یقینا پہنچے گا اور عوام بھی اخلاق حسنہ سے آراستہ ہوں گے۔ مسلم ممالک کے حکام کی ذمہ داری اس سلسلے میں سب سے زیادہ ہے۔ حب دنیا، ہوس، گمراہ کن خواہشات، مادی بنیادوں پر دوستیاں اور دشمنیاں، جنگ کی آگ جس کا مقصد تسلط پسندی اور مادی مقام و منزلت کا حصول ہو، وہ بد امنی جس کا سرچشمہ سیاسی خباثتیں اور سیاستدانوں کی سازشیں ہوں، انسانیت کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ ہر ملک کے لئے اخلاقی پاکیزگی، بہت ضروری ہے۔لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت و انسیت، ایک دوسرے کے لئے احترام کا جذبہ، اپنے منصوبوں میں دیگر افراد کے حالات کا دھیان رکھنا، لوگوں میں مروت و ہمدردی، وہ چیزیں ہیں جوانسانی زندگی کو سکون بخشتی ہیں۔ اگر آج ہم دنیا میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ بے چینی، بد امنی اور تشدد دیکھ رہے ہیں اور بد امنی انسانی معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یا کم از کم سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک ہے، لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، سماجی زندگی میں انہیں تحفظ حاصل نہیں، اپنے وطن اور اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہیں، تو یہ بد امنی اور عدم تحفظ غلط سیاست کا نتیجہ ہے اور بری سیاست تسلط پسندی کا نتیجہ ہے، تسلط پسندی اخلاقیات سے دوری کا نتیجہ ہے اور اخلاقیات سے دوری تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے ہمیں تزکیہ نفس کی دعوت دی ہے اور یہ اسلام کی گرانبہا تعلیم اور ہدایت ہے ( یتلو علیکم آیاتناو یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمۃ ) آيات الہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں تعلیم دیتے ہیں۔
عدل انصاف کا قیام تمام انبیائے کرام کی دعوت کا سب سے اہم اصول رہا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ انبیا کو بھیجنا، کتابوں کا نزول اور انبیا اور ان کے پیروکاروں کی یہ ساری زحمتیں اور کوششیں اس لئے تھیں کہ ( لیقوم الناس بالقسط) عوامی زندگی عدل و انصاف کے پیرائے میں ڈھل جائے۔
بھائیوں اور بہنو! اسلامی جد و جہد سے ہمارا مقصد و ہدف ایسے معاشرے کی تشکیل تھا کہ جو ان خصوصیات سے آراستہ ہو۔ اسلامی انقلاب کسی ایک گروہ، ایک جماعت یا افراد کی تسلط پسندی کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا۔ اسلامی انقلاب کو ایران کے مسلمان عوام نےبرپا کیا اور اس انقلاب کا مقصد ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے، ایک مسلم سماج کی یہی خصوصیات ، یہی تشخص اور یہی معیار ہیں کہ وہ علم و اخلاق اور عدل و انصاف سے آراستہ ہو۔ سب کو اس کے لئے سعی پیہم کرنا چاہئے۔وہ رہنما اصول جن کے ہم پابند ہیں یہی ہیں۔ وہ اقدار جن کے لئے اسلامی معاشرہ تشکیل پایا ہے، یہی ہیں۔ یہی چیزیں ہیں جو ہماری مادی زندگی میں سکون و اطمینان دنیا میں ہمارے وقار اور ہماری سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ سب کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ معاشرہ علم و اخلاق اور انصاف سے مالامال ہو۔ حکام کی فریضہ بھی یہی ہے۔ تمام عہدیداراں کی ذمہ داری یہی ہے۔ مختلف اداروں کے سربراہوں کا فریضہ یہی ہے۔عوام کے ہر فرد کی آرزو بھی یہی ہے۔ وہ حکام سے جس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں علم و اخلاق اور انصاف سے آراستہ معاشرہ ہے۔اسلامی انقلاب کے شروع کے ایام سے لیکر اب تک جہاں بھی ہم نے اپنے اسلامی فریضے پر عمل کیا ہے، الہی احکام کی پابندی کی ہے، اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر انجام دیا ہے، ہم نے پیش رفت کی ہے اور جہاں بھی مختلف النوع تحفظات نے ہم پر غلبہ کیا، ہم نے اسلام کے ان بنیادو اصولوں سے کنارہ کشی کی، اپنے دل وجان میں دنیاوی زندگي کی رنگینیوں کو بسایا ہے وہیں ہمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، ہم وہیں مغلوب ہو گئے ہیں اور وہیں ناکامیوں نے ہمیں گھیر لیا ہے۔
موجودہ دور کے دنیاوی مکاتب فکر، جو طاقتور ممالک میں عالمی سیاست کی ترجمانی کرتے ہیں، انسانیت کی کامیابی و کامرانی کے ضامن نہیں بن سکتے۔ اس کے علاوہ بڑی طاقتوں کے حکام اور عہدیداران جو دعوے کر رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت انسانی معاشرہ دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ ایک تو یہ کو انسان کو نجات کا جو راستہ دکھایا جا رہا ہے وہ دنیا پرستی کا راستہ ہے، دوسرے یہ کہ جو لوگ عالمی برادری کے امور کے نگراں کا رول ادا کر رہے ہیں، نیک اور بھلے لوگ نہیں ہیں۔ آپ عالمی حالات کو دیکھئے، مختلف اقوام پر جو مظالم ہو رہے ہیں، مسلم امہ پر جو ظلم ہو رہے ہیں، فلسطین میں جوظلم کا بازار گرم ہے، عراق و افغانستان میں جو بربریت پھیلی ہوئي ہے، اسلامی احکام اور اصولوں کی جو ناقدری ہو رہی ہے، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عناصر جنگ و جدال، مار کاٹ اور فتنہ و فساد کی جڑ ہیں وہی اسلام پر رجعت پرستی کا الزام لگا رہےہیں۔کچھ افراد پوری دنیا پر اپنی مطلق العنان حکومت اور تسلط کے خواہاں ہیں، آج سامراجی، شیطانی اور طاغوتی طاقت امریکہ پوری دنیا کو ہضم کر جانے کی کوشش میں ہے۔ وہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور پہلو میں اپنا تسلط دیکھنا چاہتا ہے اور دعوی یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا حامی ہے انسانی حقوق کا حامی ہے۔ بد عنوان اور گمراہ ترین افراد نے انسانیت کو راہ راست پر لانے کا پرچم بلند کیاہے۔ یہ عالم انسانیت کے لئے بہت بڑا المیہ ہے۔
ہماری مسلم امہ آج ایک بہت بڑے امتحان اور آزمائش کے سامنے کھڑی ہے۔ ہم دوسروں کو نہیں دیکھیں گے خود مسلم امہ پر توجہ دیں گے۔ مسلم امہ کے پاس قرآن کریم ہے، اسلامی احکام ہیں، قرآن نے سعادتمند اور کامیابی سے سرشار انسانی زندگی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ مسلم امہ اپنے اسلامی تشخص کی جانب واپسی کےساتھ اس تخریبی لہر کو دبا سکتی ہے جو انسانی زندگي کی بنیادوں کو مٹا دینے کے لئے اٹھی ہے بس شرط ہے یہ کہ مسلم امہ ہمت سے کام لے۔ مسلم امہ کو چاہئے کہ شجاعت سے کام لے اور اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی ممالک کے حکام کی ہے انہیں چاہئے کہ کمر ہمت باندھیں۔
اسلامی یکجہتی یعنی مسلم ممالک مسلم امہ کی قدر کو پہنچانیں ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم ایک دوسرے سے دشمنی کرکے کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم نسلی، فرقہ پرستی ، شیعہ سنی، عرب اور عجم کے اختلافات سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ مسلم امہ ایک عظیم پیکر ہے جس میں بے شمار وسائل، بے پناہ سرمایہ ہے۔ لیکن مغربی دنیا نے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ ہماری فرقہ پرستی کو مسلمانوں کی نابودی کا وسیلہ قرار دیا ہے، اور ہم نے ( مسلمانوں نے ) بھی نادانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس سازش کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہیں، اس جال میں پھنس گئے ہیں، ہمیں بیدار ہونا چاہئے۔
ہم نے موجودہ سال ( 1386 ھ ش ) کو اسلامی یکجہتی کا سال قرار دیا ہے تو یہ کوئي رسم کی ادائگي نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان بھائیوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں، رقم خرچ کی جا رہی ہے تاکہ ہماری توانائیاں آپس ہی میں ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائي میں صرف ہو جائیں اور ہم میں آگے بڑھنے کی سکت نہ رہ جائے۔ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، عالم اسلام بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہمیں آگے جانا ہےاور اس سےبھی بڑھ کر ہمیں تہذیب نفس، اور خواب غفلت سے بیداری کی سمت قدم بڑھانا ہے۔
آج مغربی ممالک ڈیموکریسی کے نام سے جو چیز پیش کر رہے ہیں، در حقیقت عوامی حکومت نہیں ہے، عوامی حکومت تو اسلام نے قائم کی۔ اسلام میں عوام اور حکام کے تعلقات ایمان کی بنیاد پر استوار ہیں، یہ رابطہ محبت و انسیت کا رابطہ ہے، پر خلوص تعاون اور خدمت کا رابطہ ہے، حقیقی خوشی اور رضامندی کا رابطہ ہے۔ یہ طرز عمل آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے جب بھی جس مقدار میں بھی اس نسخے پر عمل کیا ہے اسی مقدار میں کامیابی اور کامرانی بھی ہمیں حاصل ہوئي ہے۔ آج عالم اسلام مجروح ہے۔ فلسطینی قوم کے لئے آنکھیں گریہ کناں ہیں، عراقی قوم کے لئے دل جلتا ہے۔ افغان عوام کے رنج و غم نا قابل برداشت ہیں، یہ سب شدید دباؤ میں ہیں یہ لوگ مسلم امہ کے سب سے بڑے دشمنوں کے شدید دباؤ میں ہیں۔
آج جو لوگ مسئلہ فلسطین میں فلسطینیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں، عراق میں عراقی عوام کو کچل رہے ہیں، یہ ایسے لوگ نہیں ہیں جنہیں عراقی یا فلسطینی عوام سے کوئی خاص دشمنی ہے بلکہ یہ مسلم امہ کے دشمن ہیں۔جہاں بھی ان کے قدم پڑتے ہیں یہی رویہ سامنے آتاہے۔ ان کے لئے شیعہ، سنی، عرب اور عجم میں کوئي فرق نہیں ہے۔ یہی تسلط پسندی ہے۔ یہ ہے طاقت کا نشہ کہ جس کے نتیجے میں مادی اہداف، ہوس و خواہشات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا، عالم انسانیت کے لئے اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے، مسلم امہ کو اب بیدار ہو جانا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مقدس ذات تمام مسلم فرقوں کے لئے نقطہ اتحاد ہے۔ سب کے دل نبی اکرم کی عقیدت سے لبریز ہیں۔ مسلم امہ کا ہر فرد اللہ کے اس منتخب بندہ کامل سے والہانہ لگاؤ رکھتاہے۔ اس مقدس ذات کو ہم مسلم امہ کے اتحاد کا محور قرار دے سکتے ہیں اور مسلم اقوام کو ایک دوسرے کے نزدیک لا سکتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ خدا وند عالم ہماری ہدایت فرمائے، ہمیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق کرامت فرمائے۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی رکھے۔ درود ہو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور شہدا کی پاکیزہ ارواح پر جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اس پر گامزن ہونے میں ہماری مدد کی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
کچھ سال قبل ملک میں ایک مبارک علمی تحریک شروع ہوئي ۔سبھی اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ مبارک تحریک اساتذہ ، طلباء ، محققین ، یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے ساتھ ساتھ سبھی علمی حلقوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ اس عظیم تحریک کی قدردانی و شکریہ اداکروں جسے پورے ملک میں ہمارے اساتذہ ، محققین اور دانشوروں نے شروع کیا ہے۔ ہمارے ملک میں خوش قسمتی سے شروع ہوئی اس عظیم اور وسیع تحریک کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے میری آج یہاں آمد ، حقیقت میں ایک علامتی قدم ہے ۔ حالانکہ ابھی یہ تحریک اپنے شروعاتی دور میں ہے۔ میں نے اس جگہ کو اوّل تو رویان اور دوسرے جہاد دانشگاہی کی خاطر منتخب کیا ہے۔ سائنسی تحقیقاتی مرکز رویان ، ایک کامیاب ادارہ اور اس چیز کا ایک اہم و مکمل نمونہ تھا اور ہے جس کی انسان آرزو کرتا ہے ۔ مرحوم سعید کاظمی کی میرے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت کی وجہ یہی ہے اور آج بھی میرے دل میں اس عزیز جوان کا خاص مقام ہے۔ ان کا کام ، ان کا کام کرنے کا طریقہ ، ان کی انتظامی صلاحیتيں اور کاموں کا جائزہ لینا اور فرائض کی انجام دہی کی ان میں فکر ، یہ سب چیزیں ان میں کمال کی اس حد تک تھیں جسے آدمی پسند کرتا ہے اور اس کی آرزو کرتا ہے ۔
رویان سائنسی تحقیقاتی مرکز ان کی اور ان کے باقی ساتھیوں کی مدد سے کہ جو شروع سے ہی اس میں کام کررہے ہیں، پروان چڑھا۔ مجھے اس بات کا شروع سے اندازہ تھا ۔ میرے اور مرحوم کاظمی کے مشترک دوست نے پندرہ سولہ سال پہلے، مرحوم کاظمی کے منصوبے کو میرے سامنے پیش کیاتھا ، مجھے اس کام میں، ایک صحیح تحریک کی علامتوں کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ میں اپنے امکان بھر اس کام کا ساتھ دوں گا اور پشت پناہی کروں گا ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا کیا میرا اندازہ یقین میں بدلتا گيا، اسے ٹھیس نہیں پہنچی۔ اگر اس مثالی شخصیت کا اک جملہ میں تعارف کراؤں تو یہ کہوں گا کہ وہ علم ، ایمان اور جد وجہد کا نمونہ تھے ۔ وہ ، مذہب پر عمل کے ساتھ ساتھ سائنس کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے ۔ ایک بوجھ کی طرح نہیں بلکہ اسے وہ اسٹاف کے لئے بنیادی عنصر مانتے تھے ۔ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ تھکن کیا چیز ہے ۔ میرے خیال میں مرحوم کاظمی نے اپنی زندگی کو اسی کام کے لئے وقف کردیا تھا ، اس لئے میری نگاہ میں رویان کی بہت قدر و منزلت ہے ،اور آپ سب لوگ جو اس مرکز میں کام کررہے ہیں ، میرے لئے بہت محترم ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رویان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے ۔ میرے حوالہ سے یہ کہا گيا ہے : یہ اسٹم سل ایک علمی تحریک ہے ، حقیقت بھی یہی ہے۔ جس طرح یہ اسٹم سل تحقیق کا ایک بیکراں سمندر ہے اور آپ اس کے بارے میں جتنا تحقیق کریں گے، آگے بڑھیں گے آپ کے سامنے تحقیق کا ایک نیا دریچہ کھل جائے گا جسے آپ تحقیق کا موضوع قراردے کر آگے بڑھ کر نئے نتیجوں تک پہنچ سکتے ہیں، رویان بھی ایسا ہی ہے آپ کا یہ ادارہ جتنا بھی کام کرے اور آگے بڑھے، نئي نئي منزلیں سامنے نظر آئیں گی۔ سائنس اور مذہب پر یقین رکھنے والے ہر ایک محقق کے بارے میں چاہے وہ اس ادارہ کا ہو یا کسی اور ادارہ کا، یہی حکم ہے یعنی یہ میدا بہت وسیع ہے۔ میں نے جہاد دانشگاہی ( جہاد دانشگاہی نامی ادارہ تہران یونیورسٹی کا ایک عظیم تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں ایرانی محققین علم و سائنس کے میدان میں جہاد کرتے ہیں ) کا اس لئے انتخاب کیا کہ یہ انقلاب کا مبارک ثمرہ ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں دو مسجدوں کا موازنہ کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے : لمسجد اسّس علی التّقوی من اوّل یوم احقّ ان تقوم فیہ، فیہ رجال یحبّون ان یتطہّروا جہاد دانشگاہی بھی اسی طرح ان چنندہ اداروں میں ہے جو انقلاب کا ثمرہ ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جہاد دانشگاہی نے شروع سے جو نظریات قائم کئے اور جس طرح کام کیا سب صحیح ہے۔ نہیں ! ہم انسان کبھی صحیح سوچتے ہیں تو کبھی غلط، کبھی صحیح عمل کرتے ہیں تو کبھی غلط عمل کرتے ہیں ۔ کبھی کبھار کی غلطیوں کو کسی کی صلاحیت کے بارے میں فیصلہ سنانے کے لئے معیار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ہدف ، ہدف کی راہ میں چلنا اور بغیر کرے آگے بڑھتے رہنا معیار ہے، اگرچہ انسان سے کبھی غلطیاں اور لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں۔ میری نظر میں جہاد دانشگاہی کا اپنا خاص تشخص ہے اور الحمدللہ اس سے بڑے اہم نتایج ملے ہیں ۔ اب میں تھوڑا بہت جہاد اور پھر اس کے بعد کچھ جملے علم ، تحقیق اور ملک کے دیگر امور کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا ۔
جہاد دانشگاہی ، یہ مرکب لفظ دو الفاظ پر مبنی ہے، ایک جہاد اور دوسرے دانشگاہ یعنی وہاں جہاد ایسا ہو جو یونیورسٹی کے شایان شان ہے ، ہر طرح کے کام کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ جہد و کوشش اور جہاد کی اصل ایک ہے یعنی جہاد میں جد وجہد کا معنی موجود ہے لیکن جہاد صرف اس کو نہیں کہتے ۔ جہاد کامطلب ہے مقابلہ کرنا ، آج کی ہماری اصطلاح میں جہاد کی بھی کئي قسمیں ہیں مثلا علمی جہاد ، صحافتی اور مواصلاتی میدان میں جہاد ، سیاسی میدان میں جہاد ، فوجی و دفاعی میدان میں جہاد ، معیشتی میدان میں جہاد ، کھلا ہوا جہاد ، غیر اعلانیہ و پنہاں جہاد ، لیکن ان سب میں ایک مشترکہ عنصر ہے اور وہ ہے رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا موانع کو رفع کرنا۔ دوست سے جہاد کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ جہاد، دشمن کے مقابلے میں ہوتا ہے فرض کیجئے کہ طاغوتی حکومت میں اگر کوئی شخص ہرہفتہ پانچ کتاب پڑھتا تھا، یہ ایک اچھا کام تھا، جد و جہد تھی مگر جہاد نہيں تھا ۔ جہاد اس وقت ہوسکتا تھا جب وہ کسی ایسی کتاب کو پڑھتا جو طاغوتی حکومت کے خلاف اس کے افکار و ذہن پر اثر انداز ہوتی ، اس وقت اس کا یہ کام جہاد ہوتا ۔جہاد کی خاصیت یہی ہے ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی آپ کے جہاد کا میدان ہے، یعنی آپ یہاں توپ و بندوق (شمشیر و نیزہ ) کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ دماغ انسانی کے اندر سوچنے و غور کرنے کی صلاحیت، قلم، اور آنکھیں وغیرہ اس میدان کے ہتھیار ہیں ۔
آپ کا گروہ، ایک علمی گروہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ آپ کے ملک ، آپ کے انقلاب اور انقلاب نے جو اہداف و مقاصد معین کئے ہیں اس کے خلاف کون ضدی دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے آپ کو اس دشمن سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔اگر آپ کا کام اس راستہ پر ہوا تو جہاد کہلائے گا ۔اس لئے اگر آپ سائنس کے کسی ایسے شعبےمیں کوشش کررہے ہیں جو دشمن کو پسند ہے اور اسے کوئی تکلیف ہونے کےبجائے خوشی ہورہی ہے تو یہ جہاد نہیں ہے ۔ فرض کریں ، جہاد دانشگاہی یا اس سے مربوط کوئي ادارہ یہ کہے کہ فلاں سال ہمارے سو یا پانچ سو مقالے آئي اس آئی میں چھپے ۔ یہ معیار نہیں ہے ۔ یہ مقالہ کیا تھا ؟ کس مقصد کے لئے تھا ؟ اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوا ؟ اور جو آپ کے اہداف و مقاصد کے دشمن ہیں ان کا ان مقالوں کے بارے میں کیا موقف تھا ؟ کیا انہوں نے اس سے خطرے کا احساس کیا ؟ یا نہیں ؟ البتہ میری مراد ان کے سیاسی رہنما و شخصیتیں ہیں کیونکہ اہل علم کا طرز فکر الگ ہوتا ہے ۔ جب آپ نے کلوننگ کے اسٹم سل اور اس طرح کے کاموں کے بارے میں گفتگو کی اور میں نے یا کسی دوسرے شخص نے اس کام کو سراہا امریکی حکام نے یہ اعلان کیا کہ جینیاتی علوم (ژنتیک) کے لئے بھی ایک نگراں کمیٹی ہونی چاہئے، ان کے یہ کہنے کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟ دشمن ، آپ کے اس میدان میں آگے بڑھنے سے پریشان ہوگیا ہے ۔اس کی ہزاروں واضح مثالیں ہیں جس دن آپ ایسا رڈار بنا لیں جو ملک کی فضائي حدود سے کسی چیز کو داخل نہ ہونے دے اس وقت آپ کا دشمن آپ سے پریشان ہوجائےگا، یعنی یہ وہ تیر ہے جو سیدھے اس کے سینے پر لگے گا ، اسے جہاد کہیں گے۔ جذبہ جہاد کے ساتھ کئے جانے والے کام ، علمی جد وجہد اور تحقیق کے لئے یہ عنصر لازمی شرط ہے۔
دشمن سے ہماری مراد صرف امریکہ نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارا کھلا دشمن امریکہ اور عالمی سامراج ہے لیکن دشمنوں کی کئی قسمیں ہیں ۔ کبھی ایک کثیر القومی کمپنی اس لئے آپ سے ناراض ہوجاتی ہے کہ آپ مثلا سمنٹ کا کارخانہ لگانا چاہتے ہیں وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، آگے بڑھنے نہیں دیتی یہاں پر مجھے جو رپورٹیں دی گئی ہیں اس میں یہ موضوع بھی شامل تھا وہ سمنٹ بنانے سے مربوط ایک نگراں کمیٹی بنانا چاہتے ہیں تا کہ کسی کے پاس سمنٹ کا کارخانہ لگانے یا سمنٹ پیدا کرنے کا حق نہ رہے ۔
جہاد کے جذبہ کے ساتھ کئے جانے والے کام کا مقصد معین ہونا چاہئے۔ اسے اہداف پر مرکوز ہونا چاہئے، اسے ہوشیاری اور دانشمندی سے کیا جانا چاہئے اور دشمن کو شکست دینے والا ہونا چاہئے ۔ جہاد کا معنی وہی ہے جسے ہم روز مرہ کی اصطلاح میں جد و جہد کہتے ہیں ، جیسے میں جد وجہد کررہا ہوں ، یہ ایک جد وجہد ہے ۔ جہاد کے یہ معنی ہیں اور یہ ہوئي جہاد کی تعریف ۔
یونیورسٹی میں جو سرگرمیاں ہوں معیاری ہونا چاہئیں وہ طلباء ، اساتذہ اور فعال علمی ذہنوں سے مطابقت رکھتی ہوں اور سبھی کاموں میں اس بات کا لحاظ رکھا جانا چاہئے، سطحی اور ہلکا کام مد نظر نہیں ہونا چاہئے ۔ البتہ کچھ سرگرمیاں سائنسی ہیں جیسے یہی ( اسٹم سل کے بارے میں ) تحقیق ۔ فرض کیجئے اگر علمی سرگرمیاں علوم انسانی کے میدان میں ہوں مثلا ادب میں ہو تو اس کا معیار اتنا بلند ہو کہ وہ کسی معمولی ادیب کے بس کی بات نہ رہے۔ ۔یعنی اس کی سطح بلند ہو ۔ تاریخ ، ادب اور فلسفہ جیسے موضوعات کے بارے میں بہت سی باتیں ہیں جن میں سے کچھ تو معمول کے مطابق عام باتیں ہیں، اگر اس بارے میں جہاد دانشگاہی نہ بھی بولے تب بھی بہت سے ہیں اس بارے میں بولنے والے۔ جہاد دانشگاہی کو ایسی بات سامنے لانی چاہئے جو خصوصیت کی حامل ہو ۔ مثلا آپ علوم قرآنی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔ بہت سے ہیں جو اسی سرگرمی کو انجام دے رہے ہیں ۔ سبھی سرگرمیاں خوب ہیں ، آپ جانتے ہیں میں ان لوگوں میں ہوں جو قرآنی سرگرمیوں کے متعلق احساس ذمہ داری رکھتے ہیں اور اس کے لئے خاص اہتمام کرتے ہیں۔ ایسا میں انقلاب سے پہلے بھی کیا کرتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے ۔ اگر ایک مسجد مین دس نوجوان اکٹھا ہوکر قرآن کی تلاوت کریں ، بہت اچھا کام ہے ، مجھے پسند ہے لیکن اگر آپ قرآنی سرگرمیاں انجام دینا چاہیں تو اس کا معیار معاشرے میں جاری سطحی سرگرمی سے بلند ہونا چاہئے ۔ فرض کریں کہ آپ کسی قاری کے لحن ، آواز اور تجوید کو بقیہ لوگوں کی طرح دہرانا چاہتے ہیں ، بہت اچھا کام ہے لیکن قرآنی علوم کے میدان میں جہاد دانشگاہی کی سرگرمیوں کا معیار اس سے بلند ہونا چاہئے ، اس بات پر غور کیجئے کہ جو یونیورسٹی میں ہیں انہیں قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے ، قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔آپ کو قرآن اس طرح سے پڑھنا چاہئے کہ جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اس کے مفہوم کو اپنے دل میں محسوس کریں ، آپ کا کلاس ایسا ہو جس میں قرآن کے مفاہیم سمجھائے جارہے ہوں ۔اس کے لئے جدت پسندی کی ضرورت ہے اور یہ آپ کا کام ہے ۔
اس لئے جہاد دانشگاہی کے پاس یہ امکانات اور وسائل موجود ہیں اور مجھے بھی جہاد دانشگاہی پر پورا بھروسہ ہے۔ بہت بڑے اور اچھے کارنامے انجام دیئے گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ شروع سے اب تک میں نے جہاد دانشگاہی کو دین و تقوی کی سے منسلک پایا۔ اسے اسی حال میں باقی رکھئے ۔ کچھ منٹ پہلے یہاں کے عہدہ داروں کے ساتھ گفتگو میں میں نے کہا کہ اس بات کی کوشش کیجئے کہ جہاد (دانشگاہی ) کی شناخت بدلنے نہ پائے آپ جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب کے آغاز سے اب تک کچھ لوگوں کے افکار و خیالات ایک سو اسی درجہ تک بدل گئے ہیں یہ فطری روش نہیں ہے کہ آپ کہہ دیں کہ اس کی فطرت ہی ایسی تھی ، نہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فطری یہ ہے کہ اگر انسان منطق اور دلیل کے ذریعہ کسی راستہ کوچنے تو اس پر مرتے دم تک چلتا رہے ۔ یہ فطری بات نہیں ہے کہ ہم کسی راستہ پر بہت جوش و خروش کے ساتھ چلیں اور پھر کچھ دور جانے کے بعد رخ بدل دیں یہاں تک کہ پوری طرح روگرداں ہوجائیں ۔
کچھ لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ابتدای انقلاب کا زمانہ کچھ اور تھا اور اب کا زمانہ کچھ اور ہے ، حالات بدل گئے ہیں ، ہم بھی بدل گئے ۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ زمانہ ایسے لوگوں کو بدل دیتا ہے جو کمزور، ناپائیدار اور بے بنیاد اعتقادات کے حامل ہیں ۔ زمانہ حریص اور لالچی لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔قرآن کہہ رہا ہے : جولوگ جنگ احد سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ان میں ڈٹ جانے کی طاقت نہیں تھی، ان کی یہ لغزش ( ان کے ناپختہ افکار کا نتیجہ تھی) اس کام کے سبب تھی جسے انہوں نے پہلے انجام دیا تھا ۔جب تک ہم روح کی تربیت نہیں کریں گے اپنی شخصیت کو پختہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہر چیز سے ہم متاثر ہو جائیں گے۔ ایک بار اثر انداز ہوگي، دوسری بار ہوگی تیسری بار اثر انداز ہوگي یہاں تک کہ پوری شخصیت ہی بدل جائے گي ۔ جب صحیح منطق اور صحیح فکر پر انسان کی دینی اور انقلابی شخصیت استوار ہوتی ہے اور اس میں فولاد کی طرح استحکام آجاتا ہے تو زمانہ گذرنے سے اس کی یہ شخصیت مزید نکھرکر سامنے آتی ہے اور اس میں استحکام پیدا ہوتا جاتا ہے۔ آدمی کچھ ایسا ہی ہے اور سرشت بھی ایسی ہی ہے۔ جہاد دانشگاہی کی ماہیت بدلنے نہ پائے کہ وہ کوئی غیر دینی اور غیر انقلابی شناخت اختیار کرے ۔
میں نے کچھ سال پہلے جہاد دانشگاہی کے کارکنوں کے بیچ کچھ گفتگو کی تھی، جو مجھے یاد نہیں تھی، اس کے ریکارڈ کو میرے سامنے لایا گیا میں نے پڑھا اور مجھے یاد آگیا ۔ اس کی صحیح و دینی شناخت کی حفاظت کیجئے ۔ خوشی کی بات ہے کہ یہ پہلے کی طرح ابھی بھی باقی ہے کیونکہ جہاد دانشگاہی کا ڈھانچہ ، اس کی انتظامیہ، کارکردگی کی نوعیت پالیسی اور مقاصد اچھے رہے ہیں ۔ اس مرتبہ جو میں نے کہا تھا وہ یہ کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انقلابی ہونے یا انقلابی تحریک کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی تحریک جس میں بد نظمی اور افراتفری کا ماحول ہو۔ وہ لوگ کہتے ہیں جناب وہ ایک انقلاب آیا تھا اب ختم ہوگیا۔ یہ غلط ہے۔ انقلابی تحریک میں خلفشارو انتشار، مطلق نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے برعکس انقلابی تحریکوں میں بہترین نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔
شروع میں انقلابیوں کے اندر جو بے نظمی دکھائی دیتی ہے اس کا سبب انقلابی تحریک کا ابتدائي مراحل میں ہونا ہے۔ چونکہ ایک پرانی عمارت (نظام ) کو پوری طرح نیست و نابود کرنے کے بعد اس کی جگہ ایک نئی عمارت بنانی ہوتی ہے تو یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر صحیح ستونوں پر نئی عمارت بن جاتی ہے تو اس کی بنیاد پر نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے اور تحریک آگے بڑھنے لگتی ہے اور یہ ایک طرح کا انقلاب ہے ۔اس لئے انقلابی ہونے کو بے نظمی ، افراتفری اور قانون شکنی سے تعبیر نہ کیا جائے ۔ بہرحال جہاد دانشگاہی ان اداروں میں ہے جو ملک کے علمی و سائنسی مستقبل کو سنوارنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں ۔
علم اور تحقیق کے موضوع پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک ، علم و تحقیق کے میدان کو وسعت دیئے بنا ، ترقی نہیں کرسکتا ، اور یہ بات صرف ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے علم و تحقیق ، کنجی ہے ترقی و پیش رفت کی ۔
کسی قوم و ملت کے دانشور ہونے کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے علوم سے فائدہ اٹھائے۔ یہ کام کا مقدمہ ہے علم کا دامن بہت وسیع ہے اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی کہ ہم یہ فرض کرلیں کچھ مما لک یا قوموں کے سائنسداں ، علم کی نئي نئي منزلوں کو طے کریں ، جن میں سے کچھ سے خود فیضیاب ہوں اور جو بچ جائے اسے دوسروں کو دے دیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔اگر ایسا ہوگا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ کچھ ملک ہمیشہ پچھڑے رہیں گے ۔ملکوں کے درمیان غیر منصفانہ تعلقات ہوں گے اورترقی یافتہ ملک ، ترقی پذیر ملک ، پچھڑے ہوئے ملک اور شمال و جنوب جیسی تقسیم بندی کی باتیں سننے میں آتی رہیں گی جو آج کی سیاسی گفتگو میں عام ہیں اور پچھلی صدی میں بھی رائج تھیں ۔
سبھی انسان علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں البتہ ان کی صلاحیتوں کی سطح میں فرق ہوسکتا ہے ہر ملک کے پاس باصلاحیت افراد ہیں جو علم و سائنس کے میدان میں اپنے لئے ایک مقام بنا سکتے ہیں ۔اگر کسی ملک کی تاریخ اور اس کے تجربے سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اس کی توانائیاں صلاحیتیں اعلی سطح کی ہیں ، متوسط توانائیوں سے بالاتر ہیں اور ہمارا ملک بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے، تو ایسے ملک کو چاہئے کہ علم و سائنس کے میدان اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے اور اگر اس میں کامیاب ہوجائے تو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں اس کا پچھڑاپن اور اس کے ساتھ امتیازی رویہ اور ناانصافی ختم ہوجائے گي۔ پھر وہ بھی آج کی بڑی طاقتوں اور دوسرے ملکوں سے برابری کرنے لگے گا ۔اس وقت خود اپنا انتظام چلا سکے گا ، خود کفیل ہوسکتا ہے، ایک چیز دے سکتا ہے اور ایک چیز لے سکتا ہے، جبکہ آج کی دنیا میں ایسا نہیں ہے۔
آج دنیا پر حکمفرما تسلط پسندانہ نظام کچھ دے کر کچھ لینے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ کم سے کم دے کر زیادہ سے زیادہ لینے پر یقین رکھتا ہے ۔ قوموں کے مال و دولت اور ان کے وسائل و ذرائع کو لوٹ لیتا ہے، ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی اختیارات سلب کرلیتا ہے اور اس کے بدلے میں کچھ نہیں دیتا اور اگر دیتا ہے تو کبھی ضرررساں چیز تو کبھی بہت ہی حقیر سی چیز دیتا ہے ۔ آج دنیا کا سیاسی نظام و ڈھانچہ ایسا ہی ہے۔ تسلط پسندی اور تسلط کو تحمل کرنا۔
اس نظام کو توڑنے اور عالمی روابط میں ملکوں کو ان کی قومی صلاحیتوں کے مطابق مقام دلانے میں جو چیز سب سے زیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے وہ علم و سائنس ہے اس لئے علم و سائنس کے لئے سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری تحریک شروع ہوچکی ہے لیکن ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں ۔ سائنسی اور تحقیقی مراکز کی مدد کی جانی چاہئے اور ساتھ ہی سائنسی، تحقیقی اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی سائنس اور تحقیق کا رجحان عام ہونا چاہئے۔ یہ صرف اساتذہ اور محققین تک محدود نہ رہے بلکہ طلباء کی سطح پر اس رجحان کو عام ہونا چاہئے ۔ یعنی طلباء میں علم سیکھنے اور اس میں آگے بڑھنے کا رجحان ہونا چاہئے اور یہ کام منصوبہ بندی سے ہوگا۔ سفارش، درخواست اور حکم و غیرہ سے اسے انجام نہیں دیا جا سکتا ۔ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں کی اس سلسلہ میں ذمہ داری ہے چاہے وہ وزارت تعلیم ہو ، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ہو ، وزارت صحت ہو یا وہ ادارے ہوں جن پر ملک کی تہذیب و ثقافت کے امور کی ذمہ داری ہے ۔ وہ ایسا کام کریں جس سے یونیورسٹی کا ماحول حقیقی معنی میں علم دوستی کا ماحول بن جائے ۔ ہمارا نوجوان صحیح معنوں میں سائنسداں بنے صرف ڈگری لینے کے لئے وہاں نہ جائے ۔ اس کے لئے تحریک کی ضرورت ہے اور اسے جاری و ساری رہنا چاہئے اور اس سلسلے میں حکومت متعلقہ ذمہ دار اداروں اور با اثر لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ میری یہ تاکید ہے کہ جس وقت بھی سائنسی ترقی کے لئے کام کریں، اس بات کو نہ بھولیں کہ سائنس اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ دین سے عاری علم و سائنس ہوسکتا ہے کسی ملک کوکم مدت کے لئے کامیابیوں کی منزلوں سے ہمکنار کردے لیکن طویل مدت میں انسانیت کے لئے نقصان دہ ہے ۔جیسا کہ آپ دین سے عاری سائنس کے نقصانات کو دیکھ ہی رہے ہیں۔ دین سے خالی سائنس کا نتیجہ یہی ہوگا جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا علم ایک طرف منہ زوری ، لوٹ کھسوٹ اور نسلوں کی تباہی کا ذریعہ ہے اور ایسے ہی علم کی دین ایٹم بم ہے تو دوسری طرف ایسے علم کا نتیجہ منشیات ہے اور ایسے ہی علم کے نتیجہ میں دنیا کےاکثر ممالک میں انسانی جذبہ سے خالی سیاستدان حکومت چلاتے ہیں ۔ سائنس کو دین کے ساتھ سمجھنا چاہئے سائنس کو مرضی خدا کے لئے حاصل کرن اور راہ خدا میں استعمال کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا بنیادی اصول ہے۔
آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایسے علم کی برکتیں بھی بہت ہیں۔ یہ نہ کہا جائے کہ اگر ہم نے سائنس کو مقدس مانا ، اسے دین کے ساتھ کردیا اور اللہ و رسول (ص) کی باتیں کرنے لگے تو اس سے ترقی نہیں ہوگي۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آپ کا یہی جہاد دانشگاہی اور اس کے مؤمن کارکن کہ جن کی بدولت اتنے بڑے کام انجام پائے ہیں، اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ علم جب ایمان کے ساتھ ہوگا تو اس کی برکتیں بھی زیادہ ہوں گی ۔
کچھ چیزیں اور بھی لکھ کرلایا ہو مگر اب اسے ذکر کرنے کا وقت نہیں ہے ۔بارہ بج چکے ہیں (نماز ظہر کا وقت آگيا ہے ) مجھے امید ہے کہ ہماری یہ ملاقات ان شاء اللہ ملک کے علمی اور سائنسی حلقوں کے لئے قدردانی اور شکریہ کا پیغام ثابت ہوگي خاص طور سے جہاد دانشگاہی کے لئے اور خاص الخاص طور پر رویان انسٹیٹوٹ کے لئے، خدا ان شاء اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے ، مرحوم کاظمی کی روح کو اپنی نعمتوں سے سرشار کرے اور ان کے اہل خانہ کو جو یہاں تشریف رکھتے ہیں صبر و ضبط عطا فرمائے اور ہم روز بروز رویان انسٹیٹوٹ اور جہاد دانشگاہی کی ترقیوں کا مشاہدہ کریں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نگہبان کونسل کے ارکان اور دیگر نگراں اداروں کے ذمہ دار حضرات! آپ لوگوں نے اتنی بڑی اور اہم ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھا رکھی ہے۔ انشاء اللہ اس عظیم فریضے کی ادائگی کے نتیجے میں خوشنودی باری تعالی آپ کے شامل حال ہو ۔
ہمارے ملک کے آئين میں نگہبان کونسل کا مسئلہ ، بہت ہی اہم اور حساس ہے اور یہ ادارہ دیگر اداروں سے قدرے مختلف ہے۔ پارلیمنٹ میں منظور کئے جانے والے قوانین، آئين اور شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں اس کا تعین یقینا بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر یہ کام نہ ہوتا تو پھر نظام کی اسلامی و شرعی ماہیت محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہ رہتی اور یہ ایسا حساس ادارہ ہے جو ہمارے نظام کے اسلامی تشخص کی بقا کا ضامن ہے۔ آئين کی تشریح بہت اہم اورسنگین ہے۔ کبھی بھی کسی وجہ سے آئین کی کسی شق کے سلسلے میں اختلاف رای پیدا ہو جائے تو نگہان کونسل کا نظریہ فیصلہ کن ہوتا ہے اور نگہبان کونسل کے نظریئے کی اہمیت آئين کے جتنی ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اسی طرح انتخابات کے انعقاد اور انتخابات کے شفاف ہونے کو یقینی بنانا بھی وہ اہم ذمہ داری ہے جو آئين میں نگہبان کونسل کو سونپی گئ ہے، اگر نـگہبان کونسل کی نگرانی نہ ہو اور اگر نگہبان کونسل انتخابات کے عمل کے شفاف ہونے کی تائید نہ کرے تو خود انتخابات پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے گا اور اس کی کوئي حیثیت باقی نہيں رہے گی۔ خواہ وہ پارلیمانی انتخابات ہوں یا ماہرین کی کونسل کے انتخابات یا صدارتی انتخابات، تمام انتخابات کی نگرانی نگہبان کونسل کی ذمہ داری ہے۔ نگہبان کونسل کے دوش پر یہ ایک سے بڑھ کر ایک اہم ذمہ داریاں ہیں ۔
آئين میں نگہبان کونسل کی شق، ملکی نظام کے صحیح ادراک کی علامت ہے ہی ساتھ ہی عقلی و منطقی نظام حکومت کے لحاظ سے بھی مدبرانہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدام ہے۔ جب نگہبان کونسل کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئ، البتہ اصولی طور پر یہ ضروری بھی تھا کہ اسلامی حکومت کی کارکردگی کے دائرہ شریعت میں ہونے کی نگرانی کے لئے کوئی ادارہ ہو ، اس وقت بھی یہ تجویز معقول نظر آئی۔ چنانچہ اس وقت بھی جب جدید نظام اور عصر حاضر پر نظر ڈالی گئ تو ہم نے دیکھا کہ تقریبا تمام جگہوں پر اس قسم کا ایک ادارہ موجود ہے یعنی مستحکم اصولوں پر استوار حکومتی نظام میں شاید یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ایسا ادارہ نہ ہو جو آئین اور نظام پر عملدرآمد کی نگرانی کرے۔ البتہ ہر نظام کے لئے اپنے اصول اور اقدار ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئي نگراں ادارہ ہوتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ ملک کے مفاد میں ہے۔ اب کچھ جگہوں پر اسے آئینی عدالت کہا جاتا ہے، کچھ جگہوں پر آئین کا محافظ ادارہ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے ادارے ہوتے ہیں۔ ایران میں اسے نگہبان کونسل کہا جاتا ہے۔ البتہ اوائل انقلاب سے ہی بعض افراد کو نگہبان کونسل کے وجود پر اعتراض رہا ہے۔ ہمارے خیال میں اس قسم کا اعتراض نا انصافی تو ہے ہی، عالمی معاملات سے عدم واقفیت کی علامت بھی ہے۔ نگہبان کونسل یا ایسے کسی ادارے کے بغیر جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے، اصول و اقدار پر استوار کسی نظام کو چلانا عقل سے بعید نظر آتا ہے۔ اس بنا پر آئین میں نگہبان کونسل کی تشیکل کی شق ، نہایت اہم اور ضروری تھی۔ آج ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے ہيں، نگہبان کونسل کی اہمیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے مختلف مواقع آئے جب واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ آئین میں نگہبان کونسل کی شق کتنی ضروری اور کارآمد تھی۔ خدا نے ہم پر کتنا بڑا کرم کیا ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائي فرمائي۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اعتراضات کو مسترد فرما دیا اور نگہبان کونسل کی تشکیل کا دفاع کیا، آپ کتنا بڑا کام کررہے تھے اور آپ کی دور رس نگاہیں کن ممکنہ مسائل پر مرکوز تھیں، اس کا اندازہ بخوبی ہو چکا ہے۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ اسلامی حکومت کے دشمن، اپنے پروپگنڈوں میں جس چیز کو ہدف تنقید قرار دینا کبھی نہيں بھولتے وہ نگہبان کونسل ہے۔ وہ اس اہم اور موثر ادارے کی موجودگی سے پریشان ہیں۔ ہمیں نگہبان کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، ادارے میں شامل فقہاء کا بھی اور قانون داں حضرات کا بھی، جو بظاہر ایک چھوٹے سے ادارے میں عوام کی توقعات مد نظر رکھتے ہوئے اتنا عظیم فریضہ ادا کر رہے ہيں ۔ عوام کو یہ اطمینان ہے کہ نگہبان کونسل جو اقدام کرتی ہے وہ آئین کے دائرے میں اور عقلی و منطقی بنیادوں پر استوار ہوتاہے۔ کونسل کے اقدامات میں مکمل نظم و نسق اور ہم آہنگی ہونا چاہئے، اس کے اقدامات کا بر وقت ہونا بھی ضروری ہے، تاخیر مناسب نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس عرصے میں کسی کو اس ادارے سے شکایت کا موقع نہیں ملا۔
نگراں کمیٹیاں بھی نگہبان کونسل کی ہی ماہیت کا حامل ہیں یہ کمیٹیاں جو فیصلے کرتی ہیں وہ در حقیقت، نگہبان کونسل کے فیصلوں کی ہی ایک کڑی ہے، اس کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ یہ بھی بہت اہم کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہيں اور اس نظام پر سوال کھڑے کرتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہيں ہے۔ نظریات کا الگ الگ ہونا ایک فطری امر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر انسان پوری طرح آگاہ ہو کہ وہ کر کیا رہا ہے۔
آپ کے شانوں پر بہت حساس اور اہم ذمہ داری ہے۔ آپ ان افراد اور اداروں کی نگرانی کرتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قوم کا مستقل ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین ہوں پارلیمنٹ کے اراکین ہوں یا صدر مملکت، سب میں خاص صلاحتیوں اور کچھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے، ورنہ یونہی کسی کو قوم کے مستقبل کا ذمہ دار نہیں بنایا جا سکتا۔ ہر کسی کو تو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آئے اور قوم کے لئے قانون سازی کرے، احکام جاری کرے کہ یہ کرنا ہے وہ نہیں کرنا ہے۔ اس کے لئے کچھ صفات کا ہونا شرط ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرنے والے افراد کے لئے کچھ شرطیں لازمی ہیں، کچھ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہر کسی کو تو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرے اور چاہےتو ہٹا دے۔ یہ ماہرین کی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ اعلی صلاحیتوں کے حامل کچھ چنندہ افراد کو یہ اختیارات دئے گئے ہيں۔ یا وہ لوگ جو ملک کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور حکومت کے لئے لائحہ عمل طے کرتےہیں، حکومت کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ اسے کس پالیسی کے تحت آگے بڑھنا ہے، در اصل ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، ان اہم اور حساس عہدوں پر فائز ہونے کے لئے کچھ خصوصیات اور شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔ یا جو حکومت کی باگڈور سنبھالنے والا ہے اور جس کے اختیار میں ملک کا سارا سرمایہ اور وسائل قرار پانے والے ہیں، جو چار برسوں تک ملک چلانے والا ہے، نظم و نسق پر نظر رکھنے والا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا ہے، جو ملک کو بنانے اور سنوارنے والا ہے، مسائل کو حل کرنے کی سنگین ذمہ داری قبول کرنے والا ہے وہ ہر کوئی تو نہيں ہو سکتا۔ اس میں کچھ صلاحتیوں کا ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحتیوں کا تعین کون کرے گا ؟ کیا کسی ایسے ادارے کی ضرورت نہيں ہے جو اس بات کا تعین کرے کہ کس شخص میں یہ صلاحتیں ہیں اور کس میں نہيں ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے ادارے کی ضرورت ہے اور وہ ادارہ بلاشبہ نگہبان کونسل اور اس کے نگراں شعبے ہيں۔ دیکھیں یہ کتنا اہم کام ہے۔ جب ہماری سمجھ میں یہ آ جائے گا کہ یہ کونسل کتنی اہم ہے تو ہم یہ بھی سمجھ لیں گے کہ کیوں اسلامی نظام سے ناراض کچھ لوگ اس ادارے کے خلاف پروپگنڈے کرتے ہیں۔ غیر ملکی پروپگنڈہ مشنری کا کام بھی یہی ہے۔ ہمیشہ اور خاص طور پر انتخابات کے موقع پر نگہبان کونسل کا کردار اور کونسل کی جانب سے انتخابات کے امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لیا جانا، دشمنوں کی ہنگامہ آرائی کا موضوع قرار پاتا ہے۔
کسی کو اہل یا نا اہل قرار دینا ایک ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اسے حکومتی نظام سے ہٹا دیں تو پھر نظام میں کچھ باقی نہيں بچے گا۔ کیوں کر اس کی اجازت دی جا سکتی کہ ایک آدمی جو نظام کے اصولوں پر یقین نہیں رکھتا ، جس کا طور طریقہ درست نہیں ہے، جسے ملک اور قوم کے مسائل سے کم اور غیر ملکیوں کے مفادات سے زیادہ دلچسپیی ہے، آئے اور حکومت یا قانون ساز ادارے کا سربراہ بن جائے؟ یہ مناسب ہے ؟ انتخابات کےامور کی دیکھ بھال نگہبان کونسل کی اہم ذمہ داری ہے، یہ بہت اہم اور ضروری کام ہے۔ اس کے خلاف جو ماحول تیار کیا جاتا ہے اس پر بالکل توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔ ہاں کام صحیح ڈھنگ سے انجام دیا جانا چاہئے ۔ جتنا یہ کام اہم ہے اتنا ہی اس کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کی اہمیت ہے۔ یعنی معیاروں کو صحیح طور پر سمجھنا چاہئے اور صرف انہی معیاروں کی بنیاد پر کسی کی صلاحیت کی تائید یا تردید کرنی چاہئے۔ ان معیاروں سے آگے نہيں بڑھنا چاہئے اور نہ ہی ان پر توجہ دینے میں کوئی کوتاہی کرنا چاہئے۔
معیار کا مطلب ہے قوانین اور اصول ۔ ذاتی راے کی کوئي حیثیت نہیں ہے۔ سیاسی رجحان، جماعتی رجحان یا دھڑے بندی بالکل نہيں ہونی چاہئے، سفارش پر توجہ نہيں دی جانی چاہئے۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر معین معیاروں پر نظر رکھنا چاہئے، نگرانی کے معاملے میں بھی اور پارلیمنٹ کے قوانین کی تائید یا تردید کے معاملے میں بھی۔ صرف قانون کو معیار قرار دیا جانا چاہئے۔ قانون کا احترام ضروری ہے۔ ممکن ہے کبھی انسان یہ محسوس کرے کہ اس وقت قانون کی پابندی شائد مصلحت کے خلاف ہو، لیکن ایسے موقع پر بھی قانون کی پابندی کو مصلحت کوشی پر ترجیح دینا چاہئے۔ کیونکہ اگر یہ ہونے لگے کہ لوگوں کے خیالات و نظریات اور مصلحت پسندی کی وجہ سے معیار اور قوانین نظر انداز کر دئے جائيں تو قانون کا وجود ہی عبث ہوکر رہ جائے گا ۔ کسی دن ایک شخص کسی کام کو مصلحت کے مطابق سمجھ رہا ہے لیکن دوسرے دن دوسرے شخص کو کسی اور کام میں مصلحت نظر آنے لگے۔ یا ایک ہی دن دو لوگ الگ الگ کاموں کو مصلحت کے مطابق تصور کریں۔ ذاتی نظریات پر قوانین کو قربان کیا جانے لگا تو قانون کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائےگا ۔ اصول و قانون کو تمام مصلحتوں، آراء و نظریات پر ترجیح حاصل ہے۔ البتہ نگہبان کونسل میں قانونی و فقہی استدلال و بحث کے وقت ممکن ہے کچھ تبدیلیاں ہو جائيں اس میں کوئي مضائقہ بھی نہيں ہے ہر مجتہد و استدلال کرنے والے کی رائے میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ آج دلیلوں کی بنیاد پر وہ کسی نتیجے پر پہنچا ہے، کل ممکن ہے کہ مزید غور کرنے کے بعد اس کا خیال بدل جائے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہيں ہے۔ مختلف امور سے متعلق نگہبان کونسل کی آراء میں تبدیلی میں کوئي قباحت نہیں ہے لیکن اس تبدیلی کو بھی قوانین و اصولوں کی کسوٹی پر پورا اترنا چاہئے ۔
دوسری بات، جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں، یہ ہے کہ نگہبان کونسل میں جو چیز نظریئے اور رائے کے طور پر سامنے آتی ہے، خواہ وہ آئین کے سلسلے میں ہو، شریعت کے سلسلے میں ہو یا امیدواروں کی اہلیت کی تائید و تردید کے سلسلے میں ہو ، اس کے لئے پختہ دلیل و منطقی استدلال ضروری ہے۔ استدلال کا یہ عمل بڑی اہم قانونی شقوں اور پختہ دلیلوں پر استوار ہوتا ہے جو بعد میں قانونی اور شرعی امور سے سروکار رکھنے والے افراد کے لئے مستند مآخذ اور دستاویز قرار پا سکتا ہے۔ نگہبان کونسل میں کبھی کسی مسئلے پر بہت تفصیلی بحث ہوتی ہے۔ بڑی کارآمد باتیں اور نادر خیالات سامنے ہیں ، یہ بہت اچھی چیز ہے، یہ عمل جاری رہنا چاہئے، یہ گراں بہا فکری سرمایہ محفوظ کرکے محققین کو فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں۔
اس طرح نگہبان کونسل ہمارے لئے اللہ کی ایک نعمت ہے اس نعمت کی قدر کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اس کا وقار مجروح نہ ہونے پائے۔ اس کے وقار کا خیال رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تعریفیں کی جائیں بلکہ نگہبان کونسل کے فیصلوں اور اقدامات کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ یہ آپ دوستوں، بھائیوں اور بہنوں کی ذمہ داری ہے ۔
پروردگار عالم سے میری دعا ہے کہ آپ سب کو جزائے خیر دے۔ آپ کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور امام زمانہ (ارواحنا لہ الفداء) کو آپ سے راضی و خوشنود رکھے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چودہ تیر سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق پانچ جولائی سنہ دو ہزار سات عیسوی کو دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ذاکرین اور شعرائے اہلبیت اطہار کے سالانہ اجتماع سے خطاب کیا۔
اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کے ارکان نے انیس اردیبہشت سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق نو مئی سنہ دو ہزار سات عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کی اہمیت اور اس کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ تمام لوگ ایک ایسے نجات دہندہ گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی سعی و کوشش یہ ہے کہ کوئی غرق نہ ہو لہذا کسی کو خطا کا مرتکب نہ ہونے دیجئے، کسی کو پیچھے نہ ہونے دیجئے، کج رفتاری و ہلاکت ہی بری چیز نہیں ہے بلکہ آگے نہ بڑھنا اور قافلے سے پیچھے رہ جانا بھی بہت بری شئے ہے۔ اسلامی انجمن (اسلامک اسٹوڈنٹس یونین) کا نصب العین کچھ ایسا ہی ہونا چاہئے اور کچھ اسی طرح کا جذبہ ہونا چاہئے۔
عمدہ افکار و نظریات رکھنے والے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم و تعلم کو بہتر بنانے کے لئے موجودہ تعلیمی امور میں تبدیلی لائیں۔
جب معلم کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے تو معلم کے عام معنٰی کو مد نظر رکھا جاتا ہے جو کہ کافی عظمتوں کا حامل ہوتا ہے۔
معلم وہ ہے جو انسان کے دل میں ایک چراغ روشن کرتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر نور علم و معرفت کی طرف لاتا ہے۔
معلم ہونے کا مطلب یہی ہے۔یہ انسانی زندگی میں تصور کی جانے والی سب سے بڑی فضیلت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سترہ فروردین سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق چھے اپریل سنہ دو ہزار سات عیسوی کو یوم ولادت حضرت ختمی مرتبت اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کی مناسبت سے ملک کے حکام اور تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں رسول اسلام کے ہاتھوں امت اسلامیہ کو حاصل ہونے والے عظیم ترین تحفے کے طور پر قرآن کریم کا نام لیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کی حمد و ستائش اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام
ربنا علیک توکلنا و الیک انبنا و الیک المصیر
اس سال کی عید دوہری مبارکبادیوں کی حامل ہے۔ عید نوروز کی بھی مبارکباددینی ہے اور ماہ ربیع المولود کی بھی مبارکباددینی ہے کونکہ اس میں نیّر اعظم، نبی اکرم حضرت محمد ابن عبداللہ (ص)کی ولادت ہوئی ہے۔ خود عید نوروز بھی ہم ایرانیوں کی مبارک عیدوں میں سے ہے۔
لوگ اپنا سال ذکر خدا سے شروع کرتے ہیں اور خدا وند متعال سے اپنے حالات بہترین حالات میں بدلنے کی دعا کرتے ہیں۔اس سال ان سب کے علاوہ ماہ محرم وصفر کی معنوی یادوں اور توسلوں کا ذخیرہ بھی اس عید کی برکتوں میں شامل ہے۔ اس صحن مبارک میں موجود آپ سب حضرات جو بارگاہ حضرت علی ابن موسٰی الرضا(ع)کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں،اور زیادہ برکتوں سے مالا مال ہیں۔میرے لئے بھی یہ ایک موقع ہے کہ چند مسائل جو آغاز سال میں ہمارے لئے انشاء اللہ مفید واقع ہوں گے ،بیان کروں۔
آغاز سال، قومی عزم کی تقویت اور سال رواں میں اپنی عمر کو با برکت بنانے کا بہترین موقع ہے۔ اگر ہم ایرانی عوام کا ایک ایک فرد آغاز سال سے ہی اپنا عزم اس بات پر مرکوز کردے کہ اپنی کوشش اور اپنے عمل سے اس سال کو ایک پر ثمر سال بنانا ہے تو خداوند متعال بھی یقیناً ہماری مدد کرے گا۔ البتہ اس بڑے قومی عزم میں بنیادی روح نیت کی پاکیزگی اور رضائے الٰہی کے حصول کا فیصلہ(یعنی) صراط مستقیم پر چلنے کا فیصلہ کر لینا ہے ، اور اس وقت دنیا کے موجودہ حالات میں اپنی حیثیت،اپنی کیفیت ، اپنے مقام اور ان چیلنجوں کا جاننا کہ جن کا قوم کو سامنا ہے ۔ ان چیلنجوں سے مقابلے کے بنیادی طریقوں کا جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک زندہ قوم کی کامیابی کی اولین شرط ہے کہ اپنی پوزیشن ، اپنے مقام کو اور اپنے حالات کو صحیح طور پر جانے اور پہچانے اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے پروگرام بنائے اور اس راہ میں ایک انسان کے لئے قدرتی طور پر پیش آنے والے تمام حالات سے مقابلے کا پختہ ارادہ کر لے۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں، جتنی دیر اس وقت میں آپ کی خدمت میں ہوں اسی سلسلے میں آپ کے سامنے کچھ باتیں عرض کروں گا۔
ہم ایرانیوں کے لئے جو بنیادی بات ہے۔ اور جسے ہمیں ہمیشہ مدّ نظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ ہماری قوم اور ہم تمام ایرانی لوگوں نے اپنے لئے ایک بڑے ہدف کا نقشہ کھینچا اور انقلاب کے بعد کی دہائیوں کے دوران ہم نے اسی ہدف کو حاصل کرنا چاہا ہے۔ ہم جتنا بھی غور کرتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان دونوں اہداف تک پہونچنے کے لئے ہمارے اندر ضروری توانائی موجود ہے۔ یہ عظیم ہدف اسلامی ایران کی سربلندی اور مسلمان قوموں کے درمیان مادّی لحاظ سے بھی اور معنوی لحاظ سے بھی مثالی قرار پانے سے عبارت ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہماری قوم مادی لحاظ سے بھی اور معنوی پہلوؤں سے بھی ترقی کر ے، قومی خودمختاری کی مالک ہو، قومی وقار کی حامل ہو، قومی استعداد و صلاحیت سے آراستہ ہو، اور اپنی تمام صلاحیتوں کا بھر پور طریقے سے استعمال کرے، فلاح عامہ کی مالک ہو اور اس کی زندگی پر سماجی اور عوامی انصاف حکمفرماں ہو۔ اس وقت یہ قوم تمام مسلمان معاشروں حتی غیر مسلموں کے لئے بھی نمونہ عمل بن جائے گی۔ ایرانی قوم چاہتی ہے کہ وہ ایک آزاد ، خوشحال اور با ایمان قوم کہلائے اور وہ ایک آباد اور ترقی یافتہ ملک کی مالک ہو۔یہ ایرانی قوم کا ہدف ہے۔
اس ہدف میں کوئی اختلاف بھی نہیں پایا جاتا۔ یہاں تمام گروہی جھگڑے اور سیاسی اختلافات ختم ہو جاتے ہیں،یہ ہدف ملت ایران کی ایک ایک فرد کےلئے قابل قبول ہے۔ ہمارا ملک ایک آباد ملک ہو، ہماری قوم ایک آزاد اور سربلند قوم ہو، ہم اپنی تمام تر قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، ہم دوسروں سے آگے ہوں، سماجی انصاف کا جھنڈا ہمارے ہاتھوں میں ہو، اسلامی ایمان کا پرچم ہمارے ہاتھوں میں ہو اور تمام مسلمان اقوام میں ہم آگے آگے چلیں، یہ وہ چیز ہے کہ پوری ایرانی قوم جس کی عاشق و طلبگار ہے۔ اور ہم اس ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں؛ قومی صلاحیتوں کی شناخت بھی ہمارے اندر یہ امید جگاتی ہے اور تجربات بھی اس چیز کی تائید کرتے ہیں۔
ایرانی قوم ایک با استعداد قوم ہے، ثبات واستقامت کی مالک ہے، دینی غیرت اور قومی حمیت کی مالک ہے، اسلام پر دل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتی ہے، اپنے ملک سے محبت کرتی ہے؛ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمیں یہ امید اور اعتماد بخشتی ہیں کہ ہماری قوم اس مقصد کے حصول پر قادر ہے اور اس ہدف کو پا سکتی ہے اور وہاں تک پہونچ سکتی ہے؛ یہ اس کی دسترس سے دور نہیں ہے تجربات بھی ہم کو یہی بتارہے ہیں۔
دیکھئے؛ ہم (غیروں سے ) وابستہ بد عنوان حکومتوں کے تسلط کے زیر اثر سالہا سال سے مسلسل عالمی رقابتوں کے میدان سے باہر رہے ہیں۔ ملت ایران جو ایک زمانے میں علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے میدان میں پیش پیش تھی، جابرو جائر بادشاہوں کے تسلط اور عوام سے دور اور ان کے لئے اجنبی طاقتوں کے سبب وہ اس مقام پر پہنچ گئی کہ تقریباً ۲۰۰ سال سے دنیا میں جو سیاسی اور علمی مقابلے شروع ہوئے ہیں، (یہ قوم ) مقابلوں کے میدان سے باہر رہی ہے۔ جب ایک قوم، بین الاقوامی مقابلوں میں شامل نہ ہو تو قدرتی طور پر اسکی توانائیاں بھی ضائع ہو جاتی ہیں اور اس کی کامیابیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ آپ کھیل کی ایک ٹیم کو ہی لے لیجئے، کہ جو قوت و نشاط سے سرشار ہو، کارکردگی دکھانا چاہتی ہو اور اس کو مقابلے کے میدانوں میں اترنے کا موقع نہ دیا جائے؛ تو قدرتی طور پر اس کی توانائیاں کم اور ضائع ہو جائیں گی۔ ہماری قوم کے ساتھ یہی کام کیا گیا۔
باوجود اس کے کہ سالہا سال (غیروں سے) مسلسل وابستہ رہنے والی حکومتوں، بد عنوان طاقتوں ، ناکارہ قوتوں اور ظالم بادشاہوں نے ہماری قوم کے لئےاس طرح کی حالت پیدا کر رکھی تھی۔ جیسے ہی اسلامی انقلاب کے ذریعہ اس شاہراہ کا دروازہ ہماری قوم کے لئے کھلا اور ہماری قوم عالمی مقابلوں کے میدان میں اتری، اسے بڑی ترقیاں حاصل ہوئیں۔ ہماری قوم علمی میدانوں میں بھی اور سیاسی میدانوں میں بھی آج عالمی سطح پر ایک جانی پہچانی رہنما قوم سمجھی جاتی ہے۔ اقوام عالم کے درمیان ایران کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہے۔ علمی میدانوں میں ہم دور حاضر کی نسبت ترقی یافتہ ہیں۔ یقینا دو سو سال کی پسماندگی کی تلافی بیس، تیس سالوں میں نہیں کی جاسکتی لیکن اسی مدت میں، اس مختصر عرصے کے لحاظ سے ہم بہت ہی زیادہ تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔آج آپ دیکھئے؛ہمارے جوانوں نے جوہری توانائی کے میدان میں، بنیادی خلیوں (stem-cells)کے میدان میں، اور اسی طرح کے دوسرے دسیوں سائنسی میدانوں میں زبردست ترقی کی ہے۔ اگر ہماری قوم پوری طرح ان چیزوں سے مطلع ہوجائے تو اس کی خود اعتمادی میں زبردست اضافہ ہوگا۔
ہمارے ملک کی ممتاز علمی شخصیتوں کے نام اس وقت دنیا میں چمک رہے ہیں اور دنیا والے انہیں تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی رسہ کشی کے میدان میں بھی یہی صورت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سیاسی میدانوں میں، چاہے علاقائی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر، ان حکومتوں میں ہے جن کے موقف کو وسیع عوامی حمایت ملتی ہے۔ اس کی بات سننے والی ہوتی ہے، ہمارے ملک کے ذمہ دار حکام، عالمی تنظیموں میں بھی، دوسرے ممالک کے دوروں میں بھی جو موقف اختیار کرتے ہیں، وہ بالکل نمایاں اور ممتاز ہوتے ہیں۔ یہ حالات ان میدانوں میں قوم کی زبردست کارکردگي اور ترقی میں اس ملت کی استعداد وصلاحیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہماری قوم نے بین الاقوامی سیاسی نظام میں نئے افکار داخل کئے ہیں۔ دنیا دینی جمہوریت سے ناآشنا تھی؛ آج تمام اسلامی اقوام میں دینی جمہوریت ایک مقبول عنوان اور نعرہ بن ہے۔ دنیا تسلط پسندانہ نظام کی تعریف سے نا بلد تھی؛ ہماری قوم نے اس کی تعریف کی اور وہ بین الاقوامی سیاسی تہذیب میں شامل ہوگئی۔ ملک کی سیاست، قانون اور نظام میں دین کو محور قرار دینے کا مسئلہ؛ وہ جدید فکر ہےجو ہماری قوم نے اس نطام میں شامل کی ہے۔ لہذا ہم عالمی مقابلوں میں ۔ علمی، سیاسی، صنعتی، اقتصادی اور اسی طرح ثقافتی شعبوں میں رقابت اور مقابلے کی توانائی رکھتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں ہم کامیابی کی امید کر سکتے ہیں طولانی فہرست میں پہلےدرجے پر اپنا نام درج کرانے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہماری قوم کا مقام ہے۔
لیکن یہ راہ جس پر ایرانی قوم چلنا چاہتی ہے، آسان اور ہموار راستہ نہیں ہے۔ اس راستے میں ہمیں چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ہمارے دو بڑے دشمن ہیں۔ میں آج ان دو دشمنوں کا مختصر تعارف آپ کے سامنے کراؤں گا تاکہ میں بھی اور آپ بھی دیکھیں کہ ان دو دشمنوں کے مقابلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمن کو پہچانے اور اس کے منصوبوں سے باخبر ہو اور خود کو اس سے مقابلے کے لئے آمادہ کرے۔
ہمارے دو دشمن ہیں: ایک اندرونی دشمن ہے اور دوسرا بیرونی دشمن ہے۔ اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دشمن کیا ہے؟ اندرونی دشمن وہ تمام بری خصلتیں ہیں جو ممکن ہے ہم میں پائی جائیں۔ سستی، کام کے لئے جوش و جذبہ کا فقدان، مایوسی، حد سے زیادہ خود غرضی یا مفاد پرستی، دوسروں کے سلسلہ میں بدگمانی، مستقبل کے سلسلے میں بدگمانی، خود اعتمادی کی کمی۔ نہ اپنے آپ پراعتماد ہو، نہ اپنی قوم پر تو یہ سب بیماریاں ہیں۔اگر یہ دشمن ہمارے اندر موجود ہو تو ہمارا کام مشکل ہو جاتا ہے۔ ملت ایران کے بیرونی دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ہمارے ایرانی سماج میں ان جراثیم کی تقویت کریں: ''تم نہیں کر سکتے‘‘ ، ''تم میں اتنی توانائی نہیں ہے‘‘ ، ''تمہارا مستقبل تاریک ہے‘‘ ''تمہارا افق روشن نہیں ہے، ''تم بے بس ہو، تم بدترین صورت حال سے دوچار ہو۔ کوشش یہ رہی ہے کہ ہماری قوم کو مایوس، کاہل، اپنی طرف سے ناامیدی اور بے اعتمادی کا شکار بنا دیں ۔ اس قوم کو غیروں پر منحصر کر دیں۔ یہ سب اندرونی دشمن ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی تحریک شروع ہونے سے قبل سالہا سال تک ہماری قوم کی اصل بلا یہی چیزیں تھیں۔اگر ایک قوم میں یہ بیماریاں موجود ہوں تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔اگر کسی قوم کے لوگ کاہل ہوں، مایوسی کا شکار ہوں، اپنے آپ پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نہ رہتے ہوں،ایک دوسرے سے بدگمان ہوں،مستقبل سے مایوس ہوں تو ایسی قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ چیزیں ان دیمکوں کی طرح ہیں جو کسی عمارت کے ستون کو اندر سے کھوکھلا اور عمارت کو ویران کردیتی ہیں؛ اس کیڑے کی طرح ہیں جو کسی پھل میں گھس کر پھل کو اندر ہی اندر سے خراب کر دیتا ہے۔ ان بری عادتوں سے جنگ کرنا چاہیئے۔ہماری قوم کو پر امید ، پر اعتماد، مستقبل کے سلسلے میں خوش بین،ترقی کی دلدادہ اور معنویات پر اعتقاد اور ايمان رکھنا چاہئے کیونکہ یہ باتیں اس راہ میں اس کی معاون ثابت ہو ں گی۔ الحمد اللہ آج ہماری قوم اس طرح کا اپنے آپ پر اعتماد پایا جاتا ہے اور اس طرح کی امید موجود ہے؛ اس کی تکمیل ہونی چاہیئے۔اگر ہم ان دشمنوں کو اپنے وجود سے، اپنی زندگی سے اور اپنے سماج کے عام کلچر سے دور اور ناکارہ کر دیں تو بیرونی دشمن بھی ہمیں کوئی ضروری نقصان نہیں پہونچا سکتا ہے۔
اور اب بیرونی دشمن۔ تو ہمارے اس ہدف کا بیرونی دشمن ''بین الاقوامی سامراجی نظام‘‘ ہے۔ یعنی وہی چیز جسے ہم عالمی استکبار کہتے ہیں۔ عالمی استکبار اور سامراجی نظام،دنیا کو تسلط گروں اور تسلط پذیروں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اگر ایک قوم تسلط گروں کے خلاف اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہتی ہے تو تسلط گر اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کی مزاحمت کو توڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی قوم کا دشمن ہے جو خود کو خود مختار،عزت دار،آبرومند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے اور تسلط گروں کا تسلط پسند نہیں کرتی۔ یہ بیرونی دشمن ہے۔ آج اس دشمنی کا مظہر عالمی صیہونیت کا پھیلا ہوا جال اور ریاستھائے متحدہ امریکہ کی موجودہ حکومت ہے۔ البتہ یہ آج کی دشمنی نہیں ہے؛صرف طریقے بدل جاتے ہے،لیکن ایرانی قوم سے دشمنی کی سیاست اوائل انقلاب سے آج تک ہمیشہ ایک رہی ہے۔ جتنا ان سے ممکن ہوا ہے، ہم پر دباؤ ڈالا ہے، لیکن بے کار؛ ان کا یہ دباؤ ایرانی قوم کو آج تک کمزور نہیں کر سکا اور نہ ہی پسپائی پر مجبور کر سکا ہے؛ نہ تو ان کا اقتصادی بائیکاٹ اور نہ ہی ان کی فوجی یلغار کی دھمکیاں،نہ ان کا سیاسی دباؤ اور نہ ہی ان کی نفسیاتی جنگ۔آج ہم پندرہ سال پہلے سے ، بیس سال پہلے سے ،ستائیس سال پہلے سے بہت زیادہ قوی ہیں؛ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دشمن، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ اپنی دشمنی میں ناکام رہا ہے؛لیکن یہ دشمنی ہے۔
آج کی دنیا میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے۔ ایرانی قوم،دیگر مسلمان اقوام اور علاقائی اقوام کی نظر سے ۔ایشیائی اقوام، افریقی اقوام، جنوبی امریکہ کی اقوام ،مشرق وسطٰی کی اقوام۔ کی نظر سے ایک بہادر،حق وانصاف کا دفاع کرنے والی اور زور زبردستیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ثابت قدم قوم ہے؛ایرانی قوم کو اس طور پر پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ ملت ایران کی تحسین و تعریف کرتے ہیں۔ لیکن اسی ایرانی قوم اور اسی اسلامی جمہوری نظام پر جس کی قومیں اس قدر تعریف کرتی ہیں، سامراجی طاقتوں کی طرف سے حقوق انسانی کی پامالی کا الزام ہے۔ عالمی امن چھین لینے کا الزام ہے، دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے! یہی تناقض اور تضاد ہے۔ یہی تناقض جو قوموں کی نگاہوں اور بڑی طاقتوں کی خواہشوں کے درمیان ہے۔ یہی تضاد، عالمی سامراجی نظام کے لئے خطرہ اور چیلنج بن گیا ہے۔
روز بروز یہ لوگ اقوام عالم سے دور ہوتے جا رہے ہیں؛اس چیز نے مغرب کی لبرل ڈیمو کریسی کی عمارت کو اندر سے ہلا کر دراڑ پیدا کر دی ہے اور دن بہ دن یہ دراڑ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ سامراجی ذرائع ابلاغ بلآخر ایک مدت تک ہی حقائق کو چھپا سکتے ہیں، ہمیشہ تو حقائق کو چھپا سکتے ، قوموں میں روز بروز بیداری بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ دیکھئے ملت ایران کا صدر جمہوریہ ایشیائی ممالک، افریقی ممالک، جنوبی امریکہ کے ممالک کا دورہ کرتے ہیں، تو قومیں اس کے حق میں نعرے لگاتی ہیں، اس کے حق میں مظاہرے کرتی ہیں، اپنی حمایت کا اظہار کرتی ہیں؛ امریکی صدر جمہوریہ بھی جنوبی امریکہ کے ممالک کا ، جہاں امریکی اپنے فرصت کے اوقات گزارنے (عیاشی کے لئے) جاتے ہیں ، سفر کرتے ہیں تو قومیں امریکی جھنڈے کو ان کے آنے کے سبب نذر آتش کر تی ہیں؛ اس کا مطلب ہے کہ لبرل ڈیمو کریسی کے ستون لڑکھڑا رہے ہیں جس کی پرچمداری کا دعوی اس وقت مغرب کو ہے والے اور ان میں سب سے آگے امریکہ ہے۔ ان ملکوں کے مفادات اور قوموں کے رجحانات اور مشاہدات میں تضاد دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حکومتیں جمہوریت کا دم بھرتی ہیں، حقوق انسانی کا نعرہ لگاتی ہیں، عالمی امن کے دعوے کرتی ہیں، دہشت گردی سے مقابلے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں،لیکن ان کا شرپسند باطن ان کی جنگ افروزی کی حکایت کرتا ہے۔قوموں کے حقوق کی پامالی کی حکایت کرتا ہے، ایندھن کے عالمی ذخیروں پر تسلط کے بے پناہ میلان اور کبھی نہ سیر ہونے والی اشتہا کی حکایت کرتا ہے؛ قومیں یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ دن بہ دن لبرل ڈیمو کریسی کی آبرو اور امریکہ کی آبرو ، جو لبرل ڈیمو کریسی کا سر غنہ ہے۔ دنیا میں اور اقوام کی نظر میں کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔اسکے برعکس اسلامی ایران کی عزت وآبرو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اقوام سمجھتی جا رہی ہیں کہ امریکی(حکام ) انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے میں جھوٹ بول رہے ہیں؛ اس کا ایک نمونہ، ان لوگوں کا خود ہمارے ملک کے ساتھ رویہ ہے۔ ایران طاغوت کے زمانہ میں ، پہلوی حکومت کے زمانے میں ، پوری طرح امریکیوں کی مٹھی میں تھا، پورے ایران پر امریکیوں کا تسلط تھا ، ایران میں انہوں نے فوجی چھاؤنی بنا رکھی تھی کہ علاقے کے عرب ملکوں کے تحرک پر قابو رکھ سکیں ، چاہتے تھے کہ ان سب پر ایران کی چھاؤنی سے نگاہ رکھیں ۔ ایران،اسرائیل کامعاہدی تھا۔ بدترین ڈکٹیٹر شپ اس ملک پر حکمراں تھی؛ مجاہدین کو جیلوں میں شکنجے دئے جا رہے تھے، پورے ایران میں ۔اسی شہر مشہد میں، تہران میں اور ملک کے تمام شہروں میں، طاغوتی حکومت کے جلاد عمالوں کی سختی اور گھٹن لوگوں پر چھائی ہوئی تھی، ہمارا تیل تاراج کیا جا رہا تھا؛ عوامی اثاثے اور قومی سرمائے (شاہی) حکام اور بیگانہ حکومتوں کے مفاد میں تاراج کئے جا رہے تھے؛ ایرانی قوم پر عالمی سطح کے علمی اور صنعتی مقابلوں میں حصہ لینے کی پابندیاں تھیں تھی۔ قوم کو ذلیل کررکھا تھا۔ اس وقت کا ایران ، اس خطے میں امریکہ کا پہلے درجہ کا اتحادی تھا، اس کے حکام بھی امریکہ کے محبوب تھے، انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی خلاف ورزی کے سلسلے میں اس طاغوتی حکومت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ آج ایران ایک آزاد ملک ہے اور اتنی کھلی جمہوریت کے باوجود جب کہ ہماری جمہوریت کی دنیا میں کم بی مثال ملے گی۔ عوام اور ملک کے حکام کے درمیان ایسے مضبوط رشتے کے باوجود ، یہ ایران،امریکیوں کی نظر میں، امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں کی نظر میں ایک ناپسند ملک شمار ہوتا ہے، یہ چیز دنیا کے موجودہ حقائق کے سلسلے میں عالمی استکبار کی نگاہ اور پالسیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یقینا امریکیوں کو اس دشمنی کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔
ملت ایران دن بہ دن زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور انقلابی اقدار روز بروز زیادہ نمایاں اور تازہ ہوتے جا رہے ہیں۔
ان دونوں دشمنوں کے مقابلے میں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ پہلے دشمن کو پہچانیں پھر اس کے بعد اس کے منصوبوں کو سمجھیں ۔آج ہمارے بیرونی دشمنوں نے بھی ملت ایران کے خلاف منصوبے بنا رکھے ہیں۔ ہم نے اپنے پنج سالہ منصوبے بیان کئے ہیں۔ بیس سالہ منصوبوں کے خطوط معین و مشخص کئے ہیں؛ اس لئے کہ اپنی راہ کا تعین کر سکیں۔ہمارا دشمن بھی اسی طرح ہے،اس نے بھی ہمارے لئے منصوبے بنائے ہیں؛ اس کی بھی پالسیاں ہیں ، ہمیں اس کی پالیسی سے آگاہ ہونا چاہیئے۔
ملت ایران کے خلاف عالمی استکبار کے منصوبے کو میں صرف تین جملوں میں خلاصہ کرتا ہوں: ایک : نفسیاتی جنگ؛ دو؛ اقتصادی جنگ اور تین: علمی ترقی اور اقتدار سے مقابلہ ، ہماری قوم کے ساتھ عالمی استکبار کی دشمنیاں انہی تین اہم عنوانوں میں خلاصہ ہوتی ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں ہمارے ذرائع ابلاغ ، تشہیراتی مشینریوں، اور سیاسی شخصیتوں کافریضہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس کی مزید وضاحت کریں۔ میں صرف اجمالی طور پر فہرست وار ان مطالب کا ایک خلاصہ آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں۔
نفسیاتی جنگ کا کیا مطلب ہے؟نفسیاتی جنگ کا مقصد،خوف و دہشت ایجاد کرنا ہے۔ کسے خوف زدہ اور مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ قوم تو مرعوب ہونے سےرہی؛ لوگوں کی عظیم آبادی دہشت زدہ نہیں ہوا کرتی۔ تو پھر کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ حکام کو؟ سیاسی شخصیتوں کو؟ یا بقول معروف ہم غیر معمولی دماغوں کو؟ ایسے لوگ کہ جنہیں لالچ میں پھنسایا جا سکتا ہے، انہیں لالچ دینا چاہتے ہیں؛ عوامی عزم و ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؟ خود اپنے سماج کی حقیقتوں سے متعلق لوگوں کے فہم و خیال بدل دینا چاہتے ہیں؛ نفسیاتی جنگ کا مقصد یہی ہے۔ایک آدمی جو بیمار نہیں ہے،سوبار اس سے کہیں گے: جناب! آپ بہت سست دکھائی دے رہے ہیں، لگتا ہے مریض ہیں اور یہ شخص واقعا خود کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی حقیقتاً بیمار ہو اور سو بار اس سے کہا جائے کہ آپ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، تو مریض حود کو صحت مند محسوس کرتا ہے۔ اپنے القاآت کے ذریعہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حقائق ہماری قوم کی نظر میں بدل ڈالیں۔ ہماری قوم ایک صاحب صلاحیت ،صاحب لیاقت، اور صاحب استعداد قوم ہے جو عظیم قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے؛ ایک ایسی قوم ترقی یافتہ قوم ہو سکتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ناامید ہو؛ لیکن وہ لوگ حقیقتوں کو الٹ دینا اور حقائق بدل کر قوم کو ناامید کردینا چاہتے ہیں؛ اپنے حکام پر سے ملت کا اعتماد کمزور کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کہ عوام کا اپنی حکومت اور اس کے حکام پر اعتماد ہو ایک ملک کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔یہ لوگ اس نعمت کو ہم سے چھین لینا اور لوگوں کا اعتماد ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ خود اپنے آپ پر سے بھی اور اپنے ذمہ دار حکام پر سے بھی عوام کو افواہوں کے ذریعہ، بائیکاٹ اور سخت رویوں کے ذریعے دھمکاتے اور ڈراتے ہیں؛ اپنے پروپیکنڈوں میں مدعی اور ملزم کی جگہ بدل دیتے ہیں۔آج امریکہ ملزم ہے اور قومیں امریکہ کے خلاف مدعی ہیں۔ ہم آج امریکہ کے خلاف دعویدار ہیں، امریکہ ملزم ہے استکباری دست درازیوں کا، مستعمرہ پروری کا، جنگ افروزی کا، فوجی یلغار اور فتنے کھڑا کرنے کا۔ ہم طلبگار ہیں، ہم مدعی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مدعی کی جگہ اور ملت ایران کو ملزم کی جگہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکہ میں انسانی حقوق کی حالت افسوسناک ہے اور بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ صرف ایک سال ۲۰۰۳ ء کے دوران خود ان ہی کی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ (13000000) امریکی شہریوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے! تشدد اور آزار و اذیت کو قانونی کر دیا ہے، لوگوں کے ٹیلیفون سننے کی قانونی اجازت ہے۔ چند سال پہلے ۱۱ستمبر (۲۰۰۱ ء) کے حادثے کے بعد انہوں نے بیسیوں لاکھ افراد سے باز پرس اور تفتیش کی۔ اس طرح کا بد امن ماحول خود امریکہ کے اندر ہے؛ امریکہ کے باہر بھی، ابو غریب کے جیل خانے اور اذیت رسانیاں، گوانٹانامو جیل اور یورپ نیز دنیا کے دیگر خطوں میں ان کے خفیہ جیل خانے موجود ہیں۔ ان کو جواب دینا چاہئے، وہ لوگ ملزم ہیں، وہ لوگ انسانی حقوق پامال کررہے ہیں؛ اس کے بعد انسانی حقوق کے حامی و مدعی بھی ہیں اور ملت ایران پر جہاں کہیں بھی وہ چاہیں الزام لگا کر باز پرس کرتے ہیں کہ تم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے! دہشت گردی کی وہی لوگ ترویج کررہے ہیں۔ یہ سب نفسیاتی جنگ ہے جو وہ لوگ انجام دے رہے ہیں۔
دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک حصہ، اختلافات بھڑکانا ہے۔ یہ لوگ ہمارے ملک میں، قومی اختلافات، شیعہ و سنی۔ مذہبی اختلافات، جماعتی اختلافات، گروہی اور صنفی اختلافات اور صنفی رقابتوں کی ترویج اور پروپیگنڈے کیا کرتے ہیں۔ملک کے اندر ان لوگوں کے ایجنٹ اور زرخرید افراد بھی موجود ہیں جو یہاں مختلف شکلوں میں ان کے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں۔یہ لوگ افواہیں پھیلاتے ہیں۔عراق کے مسئلے میں،ایران کو ملزم ٹھہراتے ہیں۔یہ لوگ جنہوں نے باہر سے آکر عراق پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے، ملت عراق کو ذلیل کیا ہے، عراق کے مردوں، عورتوں اور جوانوں کی مختلف طریقوں سے توہین کی ہے اور اس وقت بھی امریکی اور برطانوی فوجی عراق میں نہایت ہی بدسلوکی سے کام لے رہے ہیں، یہی لوگ ایران پر الزام لگا رہے ہیں کہ عراق کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ جس وقت امریکی حکومت اور بہت سی مغربی حکومتیں نابود ہو جانے والے بعثی صدام کی حمایت کیا کرتی تھیں، ملت ایران نے عراقی حریت نوازوں کے لئے اپنی آغوش باز کر رکھی تھی ، عراقی حریت نواز یہاں آئے اور ہم نے صدام کے شر سے ان کی حفاظت کی ؛ آج ان ہی لوگوں نے عراق میں حکومت و اقتدار سنبھالا ہے۔ عراق میں دہشت گردی امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کی جاسوسی ایجنسیوں کی تحریک کا نتیجہ ہے ، عراق میں یہ برادر کشی شیعہ ۔ سنی جنگ کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے؛ شیعہ اور سنی عراق میں صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور آپس میں کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی ہے۔ عراق میں بہت سارے ایسے گھرانے ہیں کہ جنکے بعض افراد شیعہ ہیں اور بعض سنی؛ ایک دوسرے کے ساتھ شادیاں رچائی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں، یہ قتل وغارت گری عراق پر قابض ان لوگوں نے شروع کی ہے، یہی لوگ وہاں کی بد امنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
شیعوں کے اثر و رسوخ اور ایران اور ہلال شیعی کی طرف سے تشیع کی ترویج اور اسی طرح کی باتیں افواہیں جنم دیتی ہیں۔ ان کی نفسیاتی جنگ کا ایک شعبہ یہی ہے:پہلا کام یہ کہ ملت ایران کے درمیان اختلافات ڈالیں، اور دوسرا کام یہ کہ ملت ایران اور دوسری مسلمان اقوام کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں۔ امریکہ کی سیاست یہی رہی ہے کہ خلیج فارس میں ہمارے پڑوسی ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ڈرائے۔البتہ ان میں سے بعض نے اپنی ہوشیاری اور آگاہی سے اس سازش کو سمجھ لیا ہے لیکن ممکن ہے بعض اس سلسلے میں غلطی کر یں اور امریکہ کی سازش میں پھنس جائیں۔ ہم نے خلیج فارس کے پڑوسیوں کی طرف۔ کہ جہاں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ہمشہ دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے؛ اس وقت بھی ہم ان کے دوست ہیں اور دوستی کا ہاتھ انکی طرف پھلائے ہوئے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ خلیج فارس کے خطے کے ممالک کے درمیان ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اس اہم خطے کے دفاع کے لئے امریکہ، برطانیہ، اجنبی طاقتوں اور دیگر لالچیوں کو یہاں آنا چاہئے؛ خود ہمیں اس خطے کے امن کی حفاظت کرنی چاہیئے، محفوظ بنائے رکھنا چاہئے؛ اور یہ خلیج فارس کے ممالک کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
اسی مناسبت سے میں اپنے ملک کے اندرونی سیاسی عناصرکو بھی دوستانہ نصیحت کرتا ہوں کہ خبردار رہیں، اس طرح کی بات نہ کریں یا اس طرح کا موقف اختیار نہ کریں جو اس نفسیاتی جنگ میں دشمن کے مقاصد کی مدد کرے، دشمن کی مدد نہ کریں۔ آج جس کسی نے بھی ہمارے عوام کو ناامید کیا اور انہیں اپنے آپ سے، اپنے حکام سے اور اپنے مستقبل کی طرف سے بے اعتماد کیا اس نے دشمن کی مدد کی ہے۔ آج جو بھی اختلافات کو ہوا دے گا ۔ چاہے یہ اختلاف کسی بھی طرح کا اختلاف ہو ۔ اس نے ملت ایران کے دشمن کی مدد کی ہے۔ جو لوگ صاحب قلم ہیں، صاحب زبان ہیں، کوئی پلیٹ فارم اور کوئی مقام رکھتے ہیں، انہیں خبر دار رہنا چاہیئے؛ دشمن کو اپنے آپ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دیں۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ،ملت ایران کے ساتھ دشمن کی جنگ کا اہم ترین حصہ ہے۔
اقتصادی جنگ بھی ایک دوسری جنگ ہے۔ یہ لوگ ملت ایران کو اقتصادی مسائل کے لحاظ سے بے بس و لاچار کر دینا چاہتے ہیں۔ میں یہ بتا دوں کہ ملت ایران کے لئے اقتصادی سرگرمیوں کا میدان کھلا ہوا ہے۔ آئین کی چوالیسویں شق میں مندرج پالسیوں کے تحت سرکاری طور پرابلاغ کی جا چکی ہیں اور حکومت بھی پورے شد و مد کے ساتھ کوشاں ہے کہ اس کو عمل میں لائے اور اسے کوشش کرنا بھی چاہئے، اقتصادی امور کے لئے میدان کھلا ہوا ہے، نہ صرف ثروت مند افراد کے لئے بلکہ عوام کی حتی ایک ایک فرد کے لئے۔
۸-۲۰۰۷ء اور اس کے ایک دوسال بعد تک حکومت اور ملک کے دوسرے مستعد ارکان کی اولین توجہ اقتصادی امور پر ہوگی۔ ہم اپنے اقتصاد کو شگوہ آور کر سکتے ہیں۔ ہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ ہم بائیکاٹ کرینگے، بائیکاٹ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ کیا اب تک انہوں نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے؟ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں جوہری توانائی پر دسترس کی ہے؛ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں علمی ترقیوں کی منزلیں سر کی ہیں۔ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں ہی ملک میں اس وسیع سطح پر تعمیری کام کئے ہیں ، بائیکاٹ بعض حالات میں ممکن ہے ہمارے حق میں تمام ہو؛ اس اعتبار سے کہ یہ تلاش و کوشش کی راہ میں ہماری ہمت اور زیادہ بڑھا دے گا۔ نئے سال کے دوران کہ جس کا آج پہلا دن ہے حتی بعد کے ایک دو سال کے دوران بھی ملک کی توجہ کامرکز اقتصادی کارکردگی ہونی چاہئے۔ آئین کی چوالیسویں شق کی پالسیوں سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کی توانائی رکھتے ہیں حتی جو لوگ شراکت اور کمپنی کی صورت میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، ان کے لئے بھی راہ اس میں موجود ہے۔ ہر فرد ، کسی بھی مشغلے اور صنف کا ہو ، سرمایہ کاری میں حصہ لے سکتا ہے؛اس راہ میں سب ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہو سکتے ہیں۔ انصاف کی بر قراری کے حصص کے علاوہ جو تقریباً ایک کروڑ افراد کے شامل حال ہے اور معاشرہ کے نچلے اور غریب طبقوں کے لئے ہے، بقیہ لوگ بھی ان پالسیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؛ اس میں اس کی راہ رکھی گئی ہے۔ حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو چاہیے کہ وہ اقتصادی سرگرمیوں میں لوگوں کی مشارکت کے طریقے انہیں بتائیں۔ ان پالسیوں کا مطلب سماج میں عمومی سرمایہ کی پیداوار ہے۔ سرمایہ کی پیداوار میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرج نہیں ہے۔ سرمایہ کی پیداوار دوسروں کا سرمایہ غارت کرنے سے فرق کرتی ہے۔ کبھی آدمی بیت المال میں دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی لاقانونیت اور قانون کا کوئی لحاظ رکھے بغیر مادی ثمرات حاصل کرتا ہے؛ یہ ممنوع ہے؛ لیکن قانونی طریقوں سے سرمائے کی پیداوار شارع مقدس کی نظر میں اور اسلام کی نظر میں قابل قبول اور مستحسن عمل ہے۔ ثروت و دولت کمائیں، لیکن اس کے ساتھ اسراف نہ ہو۔ اسلام نے ہم سے کہا ہے کہ سرمایہ بنائیں، لیکن اسراف نہ کریں۔ خرچ میں افراط کا رجحان اسلام قبول نہیں کرتا۔ سرمایہ کی پیداوار کے ذریعہ جو کچھ آپ حاصل کرتے ہیں، دوبارہ اس کو ثروت کی پیداوار کے لئے وسیلہ قرار دیں۔ مال کو راکد اور منجمد نہ رکھیں جسے اسلام میں احتکار اور ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں، اور نہ ہی مال خرچ کرنے میں فضول خرچی اور بربادی سے کام لیں یعنی اسے ایسی غیر ضروری چیزوں میں خرچ کر ڈالیں جس کی زندگی میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ثروت و دولت خود اپنے لئے کمائیں اور بنائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لوگوں کا سرمایہ پورے ملک کا سرمایہ ہے؛سب لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ چوالیسویں شق کی اصل روح اور بنیادی پالسی یہی ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ عوام مخصوصاً کمزور طبقوں کی آمدنی کے ذرائع مختلف ہوں اور لوگوں میں گشادگی پیدا ہوسکے؛ یہ عوامی فلاح و بہبود کی راہ میں ایک بلند قدم ہے۔
علمی اور سائنسی ترقی کے دائرے میں بھی مقابلہ آرائی کا ایک اہم نمونہ یہی جوہری توانائی کا مسئلہ ہے۔ بیانات میں اور سیاسی مذاکرات میں بھی کہتے ہیں کہ مغربی حکومتیں، ایران میں جوہری توانائی کی صلاحیت کے حق میں نہیں ہیں؛ تو ٹھک ہے نہ ہوں۔ کیا ہم نے جوہری توانائی پر دسترسی کے لئے کسی سے اجازت چاہی ہے؟ کیا ملت ایران دوسروں کی اجازت سے اس میدان میں اتری ہے؟ کہ کہتے ہیں ہم اس کے حق میں نہیں ہیں؟ ٹھک ہے آپ موافق نہ ہوں۔ ملت ایران موافق ہے اور چاہتی ہے اس کے پاس یہ انرجی (energy) اور توانائی ہو۔ پچھلے سال بھی میں نے 21 مارچ کے اسی اجتماع میں اسی جگہ کہا تھا کہ جوہری توانائی ہمارے ملک کے لئے ایک ضرورت ہے،ایک طویل المدت احتیاج ہے۔ آج اگر ملک کے حکام جوہری توانائی پر دسترسی میں کوتاہی برتیں گے تو آئندہ نسلیں ان سے جواب طلب کریں گی۔ ملت ایران اور مملکت ایران کو اپنی زندگی کے لئے ۔نہ کہ ہتھیارکے لئے۔ جوہری توانائی اور ایٹمی انرجی کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ بیٹھ کر دشمن ہی کی باتیں دہراتے ہیں کہ:جناب!ہمیں ایسی کون سی ضرورت آگئی ہے؟ کیا ضرورت ہے؟ کیا ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کی کل کی ضرورت کو سرے سے نظر انداز کر دینے میں کوئی حرج ہی نہیں ہے؟ کیا ملک کے حکام کو آئندہ نسلوں کےساتھ خیانت کرنے کا حق حاصل ہے؟ آج ہم تیل نکال کے خرچ کریں؛ تو ایک دن یہ پورا تیل ختم ہو جائے گا،اس دن ملت ایران کو اپنی بجلی کے لئے، اپنے کارخانوں کے لئے،اپنی گرمیوں کے لئے، اپنی روشنی کے لئے،اپنی زندگی چلانے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف دست سوال پھیلانا ہوگا کہ وہ لوگ اسے انرجی فراہم کریں؟ کیا یہ ملک کے موجودہ حکام کے لئے جائز ہوگا؟ کچھ لوگ دشمن ہی کی باتوں کو دہراتے ہیں۔وہی لوگ جو ڈاکٹر مصداق اور آیت اللہ کاشانی مرحوم کے ذریعہ''تیل کے قومیانے کی آج تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ جب کہ اس کام کے مقابلے میں وہ کام ایک چھوٹا سا کام تھا، اور یہ اقدام اس سے کہیں عظیم ۔ وہی لوگ آج جوہری توانائی کے سلسلے میں وہی باتیں کررہے ہیں جو ڈاکٹر مصدق اور مرحوم کاشانی کے مخالفین اس وقت کیا کرتے تھے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہم اس راہ میں آگے بڑھے ہیں اور خود اپنی خلاقیت سے آگے بڑھے ہیں۔ ہمارے ملک کے حکام نے کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں کیا ہے۔ ہماری تمام تر سرگرمیاں بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی(iaea) کی آنکھوں کے سامنے ہے ، کوئی حرج بھی نہیں ہے؛ ہميں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہماری سرگرمیاں انکے زیر نظرہوں۔
اس مسئلے ميں جنجال کھڑا کرنا ، ملت ایران پر دباؤ ڈالنا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنے ناجائز مقاصد کے لئے استعمال کرنا ملت ایران کی مخالف طاقتوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ میں یہ کہے دیتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے سلامتی کونسل کا وسیلہ کے طور پر استعمال کیا اور ہمارے اس مسلمہ حق کو اس طریقے سے نظر انداز کرنا چاہا تو(یاد رکھیں) آج تک جو کچھ بھی ہم نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کیا ہے، اگر یہ لوگ غیر قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہیں گے تو ہم بھی غیر قانونی طریقہ کار اختیار کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ اگر یہ لوگ دھمکی، زور زبردستی اور تشدد کا رویہ اپنانا چاہیں گے تو یہ جان لیں کسی بھی شک و شبہ کے بغیر ایران کے عوام اور ایران کے حکام ان دشمنوں کے مقابلے میں جو ان کے خلاف جارحیت کرنا چاہیں گے، ان پر ضرب لگانے کے لئے اپنی پوری قوت و صلاحیت سے استفادہ کریں گے۔
میں اپنے عرائض تمام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ملت ایران کے ایک خادم کی ایرانی قوم کے نام کچھ نصیحتیں ہیں۔ میری ایک اہم نصیحت یہ ہےکہ: یہ قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا نعرہ جو ہم نے اس سال دیا ہے ، سب اس کی رعایت کریں۔ قومی اتحاد یعنی ملت ایران کی اکائی اسلامی یکجہتی یعنی اسلامی اقوام کی ایک دوسرے کے ساتھ ہمراہی ملت ایران اپنے روابط اسلامی اقوام کے ساتھ اور مضبوط کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ''قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی عملی شکل اختیار کرے تو ہمیں ان اصولوں پر تکیہ کرنا ہوگا جو ہمارے درمیان مشترک ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو فروعی مسائل میں جو اختلافی ہیں، نہیں الجھانا ا چاہیے۔
دوسری نصیحت یہ ہے کہ ہماری پر وقار قوم خصوصاً ہمارے جوان اپنی خود اعتمادی کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں۔
میرے عزیزجوانو! ملت ایران کے عزیز جوانو! تم کرسکتے ہو ؛ تم بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہو، تم اپنے ملک کو عزت و اقتدار کی بلندیوں تک پہونچا سکتے ہو۔ اپنے آپ پر اعتماد، ملک کے حکام افراد پر اعتماد، حکومت پر اعتماد، وہی چیز ہے جو دشمن چاہتے ہیں کہ پیدا نہ ہو۔ دشمن چاہتے ہیں کہ عوام کا حکومت پر سے ۔ جو ملک کے امور چلانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔اعتماد اٹھ جائے؛ دشمن کے اس منصوبے کو ناکام بنادینے کی کوشش کیجئے۔ میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ میں نے عوام کے ذریعہ منتخب تمام حکومتوں کی حمایت کی ہے، اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا؛ موجودہ حکومت کی بھی خاص طور پر حمایت کررہا ہوں۔ یہ حمایت بلا وجہ اور کسی حساب و کتاب کے بغیر نہیں کر رہا ہوں ۔پہلی بات تو یہ کہ اسلامی جمہوری نظام میں اور ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں ، حکومت ایک بہت ہی اہم مقام و منزلت رکھتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملک کی زیادہ تر ذمہ داریاں حکومت ہی کے کندھوں پر ہیں؛ اس کے علاوہ اس کے فیصلوں میں یہ دینی ترجیحات اور اسلامی و انقلابی اقدار و معیارات کی طرف جھکاؤ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ سخت جدوجہد، انتھک کوششیں عام لوگوں کے ساتھ رشتہ، ملک کے مختلف صوبوں کے سفر، انصاف کی برقراری کی فکر اور عوامی رنگ و بو، یہ سب بیش بہا چیزیں ہیں اور میں ان چیزوں کی قدر سمجھتا ہوں۔ میں ان ہی چیزوں کی وجہ سے حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ یقینا یہ حمایت، بغیر سوچے سمجھے آنکھ بند کرکے کی جانے والی حمایت نہیں ہے۔ مجھے اس کے بدلے میں حکومت سے کچھ توقعات اور انتظارات بھی ہیں۔ سب سے پہلی توقع کے طور پر میں حکومت کے ذمہ داروں سے کہتا ہوں کہ وہ تھکن اور خستگی کا احساس نہ کریں؛ خدا پر اعتماد اور توکل اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں؛ خدا پر بھروسہ رکھیں اور ان عوام پر اعتماد کریں؛ اپنے عوامی رنگ، بو کو محفوظ رکھیں؛ ظاہری آرائش اور تجملات میں کہ اکثر لوگ جن کا شکار ہوجاتے ہیں، نہ پڑیں۔ ہر وقت خبر دار اور ہوشیار رہیں؛ جماعتی اختلافات میں شامل نہ ہوں؛ اپنے اوقات سیاسی جھگڑوں میں ضائع نہ کریں۔ اپنے تمام تر وجود اور تمام تر توانائیوں کے ساتھ عوام کے لئے کام کریں؛ جو کچھ لوگوں سے وعدے کریں اسے انجام دیں اور اسکی تکمیل کی جستجو میں لگے رہیں۔
ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا چاہیئں۔ ہمیں خدا سے متوسل رہنا چاہیئے، ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہنا چاہئے ۔ملت ایران ایک عظیم ملت ہے، قدرت و توانائی رکھنے والی قوم ہے، عظیم مقاصد کی حامل ہے اور ان ہی اہداف کی طرف گامزن بھی ہے جسے وہ طے کر سکتی ہے۔ مجھے میں دعا کرتا ہوں کہ خداوند متعال اپنا الطاف و کرم آپ تمام ملت ایران پر جاری وساری رکھے؛
آپ کے سروں پر اپنا باران لطف وکرم برساتا رہے اور انشاء اللہ آج کا دن جو ہمارے ایرانی سال (1386 ھجری شمسی)کا پہلا دن (۲۱مارچ۲۰۰۷) ہے، لوگوں کے لئے ایک با برکت سال کا نقطۂ آغاز ثابت ہو۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ