تہران میں چوبیسویں اسلامی اتحاد کانفرنس میں شرکت کرنے والے مفکرین اور دانشوروں نے آج قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے موحودہ حالات کو انتہائی نازک اور تاریخی قرار دیا اور فرمایا کہ اس نازک دور کی صحیح شناخت، عوام کے جذبہ ایمانی کی تقویت، اتحاد کی حفاظت، امریکہ کی دھونس میں نہ آنا اور نصرت الہی کی طرف سے پرامید رہنا عالم اسلام میں دسیوں لاکھ افراد کی شراکت سے شروع ہونے والی عدیم المثال تحریک کی کامیابی اور فتح کی تمہید ہے۔
تہران میں چوبیسویں اسلامی اتحاد کانفرنس میں شرکت کرنے والے مفکرین اور دانشوروں نے پہلی اسفند سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق بیس فروری سنہ دو ہزار گیارہ عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں صوبہ آذربائیجان کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں عالم اسلام میں روز بروز پھیلتی جا رہی اسلامی بیداری کو گزشتہ تینتیس برسوں کے دوران جاری رہنے والی عظیم ملت ایران کی استقامت و پائيداری کا شیریں ثمرہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج تہران میں صوبہ آذربائیجان کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں عالم اسلام میں روز بروز پھیلتی جا رہی اسلامی بیداری کو گزشتہ تینتیس برسوں کے دوران جاری رہنے والی عظیم ملت ایران کی استقامت و پائيداری کا شیریں ثمرہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ترکی کے صدر سے ملاقات میں علاقے کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے اتحاد اور ہوشیاری پر زور دیا ہےـ ترکی کے صدر عبد اللہ گل نے جو ایران کے سرکاری دورے پر آئے ہیں، آج تہران میں قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے ترکی اور اسلامی جمہوریہ ایران کو دو مسلمان برادر اور دوست ملک قرار دیا اور فرمایا کہ سیاسی اور معاشی شعبوں میں دونوں ملکوں کے موجودہ تعلقات گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بے مثال ہیں لہذا اس تاریخی موقعے سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے اور دونوں ملکوں میں موجودہ توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج دار الحکومت تہران میں فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اصولوں، اقدار اور خاص طور پر اسلام پر ملت ایران کی ثابت قدمی و استقامت کو اسلامی جمہوریہ کے دوام اور دیگر قوموں کے لئے اس کے نمونہ عمل بن جانے کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ بعض ممالک میں قوموں کی عظیم تحریکیں اور علاقے میں اسلامی بیداری یقینی طور پر بتیس سال قبل کی ایرانی عوام کی تحریک سے متاثر ہے اور اب بڑی طاقتوں اور ان کے تسلط کا زمانہ رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس بہمن سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق آٹھ فروی سن دو ہزار گیارہ عیسوی کو تہران کے حسینیہ امام خمینی میں فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اصولوں، اقدار اور خاص طور پر اسلام پر ملت ایران کی ثابت قدمی و استقامت کو اسلامی جمہوریہ کے دوام اور دیگر قوموں کے لئے اس کے نمونہ عمل بن جانے کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ بعض ممالک میں قوموں کی عظیم تحریکیں اور علاقے میں اسلامی بیداری یقینی طور پر بتیس سال قبل کی ایرانی عوام کی تحریک سے متاثر ہے اور اب بڑی طاقتوں اور ان کے تسلط کا زمانہ رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران کی مرکزی نماز جمعہ میں باایمان و انقلابی عوام کے عظیم الشان اجتماع میں اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کو ایک الگ ہی جوش و جذبے سے سرشار قرار دیا اور اسلامی انقلاب کے نتیجے میں انجام پانے والی بنیادی اور گہری تبدیلیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قوم کی پائيداری کی برکت سے یہ تبدیلیاں ان پورے بتیس برسوں کے دوران جاری رہیں اور ایرانی عوام برسوں کی جد و جہد کے بعد اب اپنی مظلومانہ لیکن مقتدرانہ آواز کی بازگشت کا، شمالی افریقہ کے تازہ واقعات اور خاص طور پر مصر اور تیونس کے عوام میں اسلامی بیداری کی شکل میں، مشاہدہ کر رہے ہیں۔
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آج قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی جا رہی ہے۔ نماز جمعہ کے خطبے شروع ہو چکے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے پہلے خطبے میں فرمایا ہے کہ شمالی افریقہ میں رونما ہونے والے موجودہ واقعات ملت ایران کے لئے خاص معنی و مفہوم کے حامل ہیں۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کو دگرگوں کر دینے کے مقصد سے دشمن کی تازہ ترین سازش دو ہزار نو کا فتنہ و آشوب تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے ان ممالک میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ اس کی خواہش (ہمارے) ملک کے حکام کے ارادوں پر اثر انداز ہوئی ہے۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی قومیں ملت ایران کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اس کی سب سے اہم وجہ (ایران کی) سیاسی آزادی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انقلاب اسی وقت گہرے اثرات کا حامل اور دوسروں کے لئے نمونہ عمل بنتا ہے جب اس میں استحکام اور پائیداری کی اہم خصوصیات اس میں موجود ہوں۔ ہمارا انقلاب نمونہ عمل اور اثر بخش ثابت ہوا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ نو فروری (اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) تک پیٹرول درآمد کرنے سے بے نیاز اور خود کفیل ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے دنیا کے مسلمانوں کے سامنے مکمل دینی اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ حکومت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہماری حکومت، اسلامی ہے، ہم اس پر افتخار کرتے ہیں اور ہم ثابت کر دیں گے کہ بشر کی نجات کا راستہ یہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سماجی انصاف کی جانب پیشروی کا عمل رکا نہیں ہے بلکہ ماضی کے برسوں اور ادوار سے زیادہ (تیز رفتاری سے یہ عمل) جاری ہے۔ حکام کے (صوبائی) دورے اسی ہدف کے حصول کے لئے انجام پا رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبے میں فرمایا کہ عالمی سطح پر (ذرائع ابلاغ کے) تجزیوں میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مصری عوام کے قیام کے بنیادی سبب کو نظر انداز کر دیں۔ مصری اور تیونسی عوام کی اس عظیم تحریک کا اصلی سبب وہ احساس حقارت تھا جو عوام میں اپنے حکام کی حالت کو دیکھ کر پیدا ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مصر پہلا اسلامی ملک تھا جو مغربی تہذیب سے روشناس ہوا، پہلا ملک تھا جو مغرب کے مقابلے پر ڈٹ گیا اور عرب ممالک کا رہنما قرار پایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مصر اور تیونس کا واقعہ ایک حقیقی زلزلہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مصری قوم توفیقات (الہی) کی مدد سے اپنے قیام کو کامیابی سے ہمکنار کر لے جائے تو یہ امریکا کے لئے ناقابل تلافی شکست ہوگی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت امریکہ مصری قوم کے مقابلے میں سراسیمگی کا شکار ہے اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے مصری قوم کی حمایت کا دم بھر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر حسنی مبارک اسرائیل کی مدد نہ کرتا تو اسرائیل غزہ کا محاصرہ نہیں کر سکتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا کا خادم حسنی مبارک مصر کو ترقی و پیشرفت کی جانب ایک قدم بھی آگے نہیں لے جا سکا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران کی مرکزی نماز جمعہ میں باایمان و انقلابی عوام کے عظیم الشان اجتماع میں اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کو ایک الگ ہی جوش و جذبے سے سرشار قرار دیا اور اسلامی انقلاب کے نتیجے میں انجام پانے والی بنیادی اور گہری تبدیلیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قوم کی پائيداری کی برکت سے یہ تبدیلیاں ان پورے بتیس برسوں کے دوران جاری رہیں اور ایرانی عوام برسوں کی جد و جہد کے بعد اب اپنی مظلومانہ لیکن مقتدرانہ آواز کی بازگشت کا، شمالی افریقہ کے تازہ واقعات اور خاص طور پر مصر اور تیونس کے عوام میں اسلامی بیداری کی شکل میں، مشاہدہ کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے پہلے خطبے میں تہران یونیورسٹی میں اور تمام ملحقہ سڑکوں پر صف نماز میں بیٹھے بے شمار نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے اسلامی انقلاب سے قبل کے حالات اور دنیا کے سیاسی امور پر اس انقلاب کے اثرات کا تجزیہ کیا اور فرمایا کہ دنیا کی استبدادی اور استکباری طاقتوں نے مشرق وسطی کے انتہائی اہم اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل علاقے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے بڑی باریک بینی سے منصوبے تیار کئے تھے اور برسوں انہوں نے اس منصوبے پر کامیابی سے عملدرآمد بھی کیا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی نے ان کے سارے منصوبوں کو درہم برہم کر دیا۔
مشرق وسطی میں جو شاہی حکومتیں ہیں وہ بھی امریکیوں کو پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ حکومتیں ان کے لئے درد سر ہیں۔ اس حقیقت پر اسلامی اور عرب حکومتوں کو توجہ دینا چاہئے۔ امریکا کے پاس مصر کے لئے منصوبہ ہے اور سعودی عرب کے لئے بھی اس نے منصوبہ تیار کر رکھا ہے، اردن کے لئے بھی اس کے پاس منصوبہ ہے اور خلیج فارس کے ان ممالک کے لئے بھی اس کے پاس منصوبہ ہے۔
امریکا بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔ امریکا عرب حکومتوں کو شرمناک مذاکرات کے لئے ایک میز پر جمع کرکے در حقیقت ان حکومتوں کو جو ان مذاکرات میں شریک ہوئی ہیں ان کے عوام کی نظروں میں اور بھی نفرت انگیز بنا رہا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ عرب ملکوں کے عوام اپنے حکام کو یہ اجازت دے دیں کہ وہ فلسطینی قوم کا گھر دوسروں کو بیچ دیں؟ اگر (معاہدے پر) دستخط ہوئے تو ان حکام کا ان کی قوموں سے فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے گا۔ یہ حرکت ان کی قوموں کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔
عشرہ فجر کے پہلے دن قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے بانی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے روضے کی زیارت کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی قبر پر جاکر فاتحہ خوانی کی اور اس کے بعد قریب ہی واقع اسلامی انقلاب کی تحریک اور آٹھ سالہ مقدس دفاع کے شہیدوں کی قبروں کی زیارت، فاتحہ خوانی اور ان کی ارواح طیبہ کی بلندی درجات کے لئے دعا کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج تہران میں مقدس شہر قم کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں حالات کی صحیح شناخت و بصیرت، فرض شناسی اور بروقت اقدام کو اللہ کی جانب سے لئے جانے والے امتحانوں میں کامیابی کے تین بنیادی عوامل اور روحانی و مادی پیشرفت کی تمہید قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج تہران میں مقدس شہر قم کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں حالات کی صحیح شناخت و بصیرت، فرض شناسی اور بروقت اقدام کو اللہ کی جانب سے لئے جانے والے امتحانوں میں کامیابی کے تین بنیادی عوامل اور روحانی و مادی پیشرفت کی تمہید قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شمالی صوبے گیلان کے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں ہمت و شجاعت، بصیرت و آگہی اور ہوشیاری و دانشمندی کو بلند چوٹیوں کی جانب قوم کی پیش قدمی کے بنیادی عوامل قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران نے جس طرح آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اپنی خلاقی صلاحیتوں، فداکاری و جاں نثاری اور میدان عمل میں موجودگی کے ذریعے دشمن پرغلبہ حاصل کیا، آٹھ مہینے کی نرم جنگ میں بھی اللہ تعالی کی عنایتوں کے طفیل میں مثالی مہارت اور سمجھداری کا ثبوت دیا
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ دی سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق انتیس دسمبر سنہ دو ہزار دس عیسوی کو شمالی صوبے گیلان کے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں ہمت و شجاعت، بصیرت و آگہی اور ہوشیاری و دانشمندی کو بلند چوٹیوں کی جانب قوم کی پیش قدمی کے بنیادی عوامل قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران نے جس طرح آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اپنی خلاقی صلاحیتوں، فداکاری و جاں نثاری اور میدان عمل میں موجودگی کے ذریعے دشمن پرغلبہ حاصل کیا، آٹھ مہینے کی نرم جنگ میں بھی اللہ تعالی کی عنایتوں کے طفیل میں مثالی مہارت اور سمجھداری کا ثبوت دیا اور گزشتہ سال تیس دسمبر کو سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے ذکر کی برکت سے اور اپنی ہمت و شجاعت، بصیرت و آگہی اور ہوشیاری و دانشمندی کے ذریعے آشوب پسند عناصر کی بساط لپیٹ دی۔
تہران کے دورے پر آئے امیر قطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے اپنے وفد کے ساتھ آج قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے علاقے بالخصوص خلیج فارس میں سیکورٹی کی خاص اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خلیج فارس کے علاقے میں سیکورٹی کے سلسلے میں کسی طرح کا امتیاز اور تفریق ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر علاقے میں امن و استحکام ہوگا تو علاقے کے تمام ممالک کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور اگر سیکورٹی کے لئے مسائل پیدا ہوئے تو علاقے کے تمام ممالک کو بد امنی اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
توحید پہلا باب ؛ توحید اور اس کا نظریۂ کائنات
توحید کے اصطلاحی معنی خدا کے وجود کی دلیل خدا شناسی میں عقل کا مقام اسلام کا بنیادی ستون اسلامی نظریہ کائنات میں توحید اسلامی توحیدی نظریئے میں مخلوقات کی حیثیت خلقت، موحد کی نگاہ میں اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان توحیدی فکرکی بقا کا راز دوسرا باب ،منکرین وحدانیت
بشریت کی تباہی کا راستہ جاہلیت کے معاشرے میں شرک اسلامی معاشرہ میں شرک مفہوم شرک کی شناخت کی ضرورت انسان کے مشرک بننے کی وجوہات خدا کے صاحب اولاد ہونے کا دعوی اور اس کی نفی مادہ پرستوں کے انکار توحید کی دلیل مادہ پرستی کی طرف جھکاؤ کا سبب شیطان کی اطاعت کیسے ہوتی ہے کیا خدا کچھ لوگوں سے زیادہ محبت کرتا ہے؟تیسرا باب، توحیدی نظریۂ کائنات کے اثرات
عبادت کے مصادیق خدا اور شیطان کی عبادت توحیدی معاشرہ اسلامی معاشرے کی علامتیں معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کے اثرات معاشرے کی اخلاقیات پر توحید کے اثرات اسلامی معاشرے کی تعمیر میں توحیدی نظریئے کے اثرات اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد توحید، حقوق میں انسانوں کی برابری شرط نجات سیاسی نظام میں توحید وسعت نظر موحد انسان کے دل سے خوف دور ہو جاتا ہے طاغوت سے موحدانہ برتاؤ زندگی میں توحیدی فرائض توحیدی تفکر کے دفاع کی آمادگی
پہلا باب ؛ توحید اور اس کا نظریۂ کائنات
توحید کے اصطلاحی معنی قرآن کی تعلیمات کے مطابق توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدائے واحد و لاشریک نے کائنات کو پیدا کیا، اسی نے انسانوں کو پیدا کیا اور تدبیر خلق، گردش قوانین عالم اور زندگی بشر میں جاری قوانین کی گردش اسی کے اختیار میں ہے۔ توحید یعنی اس بات پر یقین کہ عالم خلقت اور کائنات میں کہکشانوں، بادلوں، آسمانی گہرائیوں، بے شمار کرات اور لاکھوں شمسی منظوموں سے لیکر کسی پیکر اور جسم کے چھوٹے چھوٹے خلیوں اور باریک کیمیائی ترکیب تک میں پایا جانے والا عجیب وغریب، حیرت انگیز اور انتہائی پیچیدہ تناسب کہ جو اتنا عظیم، متنوع اور پیچیدہ ہے کہ اس سے ہزاروں قانون اور اصول نکالے گئے ہیں، اس لئے کہ اگر نظم ایسا ہو کہ جس کے برعکس ہونا ناممکن ہو تو اس سے آفرینش کے ایسے قوانین کا استنباط ہوتا ہے کہ جس کے خلاف ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ سب کسی فکر، تدبیر اور قدرت کا کرشمہ ہے اور اتفاقیہ وجود میں نہیں آیا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے کہ ہر عقل سلیم، ہر عاقل اور صاحب فکر انسان جو فکر میں جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو، فیصلہ کرنے میں تحمل کا دامن نہ چھوڑتا ہو اور معاملات میں پہلے سے ہی کوئی فیصلہ نہ کر لیتا ہو، اس کو قبول کرتا ہے۔ یہ فکر، تدبیر، تفکر ، عظیم و بیکراں اور ناقابل بیان قدرت جو یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز تناسب وجود میں لائی ہے، انسان کا بنایا ہوا کوئی بت، خدائی کا دعویدار کوئی محدود انسان یا کوئی اساطیری اور علامتی سمبل اور علامت نہیں ہو سکتی؛ بلکہ ذات واحد و یکتا و لایزال ہے جس کو ادیان خدا کہتے ہیں اور اس کو اس کے آثار سے پہچانتے ہیں۔ بنابریں یہ قدرت، یہ ارادہ اور عظیم و پیچیدہ منظومے کا ناظم اور بے نظیر اور ناقابل توصیف خالق وہ معمولی چیزیں نہیں ہوسکتیں جو انسان کے اختیار میں ہیں، یا وہ خود یا اس کے جیسا کوئی اور انہیں بناتا ہے، یا اس کے جیسی کوئی مخلوق جو ختم ہوجانے والی ہے (اس کی خالق) نہیں ہوسکتی بلکہ ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان اللہ عما یشرکون توحید یعنی خدا کے علاوہ ہر ایک اور ہر چیز کی بندگی، اطاعت اور پرستش سے رہائی، یعنی بشری نظاموں کے تسلط کی زنجیروں کا کھل جانا، یعنی مادی و شیطانی طاقتوں کے خوف کے طلسم کا ٹوٹ جانا، یعنی ان بے نہایت طاقتوں پر بھروسہ کرنا جو خداوند عالم نے انسان کے باطن میں قرار دی ہیں اور ان سے استفادے کو ایسا فریضہ قرار دیا ہے جس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ توحید یعنی ستمگروں اور مستکبرین پر مستضعفین کے قیام، مجاہدت اور استقامت کی صورت میں، ان کی کامیابی کے وعدہ الہی پر یقین، یعنی رحمت خدا پر بھروسہ کرنا اور ناکامی کے احتمال سے نہ ڈرنا، یعنی ان تمام زحمتوں اور خطرات کا سامنا کرنا جو وعدہ الہی کی تکمیل کی راہ میں انسانوں کو درپیش ہوتے ہیں، یعنی راستے کی مشکلات کو خدا پر چھوڑدینا اور حتمی اور آخری کامیابی کی امید رکھنا، یعنی مجاہدت میں اعلی ہدف پر جو ہر قسم کے ظلم و ستم، امتیاز و تفریق، جہالت اور شرک سے معاشرے کی نجات ہے، نظر رکھنا اور راستے میں ہونے والی ذاتی ناکامیوں کا اجر، خدا سے چاہنا اور مختصر یہ کہ توحید یعنی خود کو قدرت و حکمت الہی کے بحر بیکران و لایزال سے متصل پانا، اعلی ہدف کی جانب کسی تشویش کے بغیر، امید کے ساتھ آگے بڑھنا۔ وہ تمام عزت و بلندی جس کا وعدہ کیا گيا ہے، توحید کے اسی عمیق اور روشن ادراک اور ایمان کے سائے میں حاصل ہوگی۔ توحید کے صحیح فہم، اور اس کی عقیدتی اور عملی پابندی کے بغیر مسلمانوں کے بارے میں کوئی بھی وعدہ الہی عملی نہیں ہوگا۔
خدا کے وجود کی دلیل خود شناسی جو خدا کی زیادہ معرفت حاصل کرنے سے عبارت ہے اس کے بنیادی ستونوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے نفس، اپنی کمزوری، اپنے عشق اور اپنی قلبی احتیاج سے واقف ہو۔ انسان کے دل کے اندر ایک چیز ہے جو خود خدا کے وجود کی دلیل ہے۔ وہ چیز کیا ہے؟ وہ جستجوئے خدا کی جذبہ ہے، عشق خدا ہے، جاذبیت خدا ہے جو ہمارے دل کے اندر ہے۔ مادہ پرستوں کے دل میں بھی ہے مگر غافل انسان یہ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کیا ہے۔ یہ جو انسان دلی وابستگیوں، محبتوں اور کششوں کے پیچھے دوڑتا ہے، اس دوڑنے کی وجہ اور اس قلبی احساس کی جڑ وہی جذبہ الہی ہے لیکن غافل اور تاریکیوں میں ڈوبا انسان وہ ضروری قلبی روشنی نہیں رکھتا اس لئے نہ اس کو پہچانتا ہے اور نہ ہی اس کو سمجھ پاتا ہے۔
خدا شناسی میں عقل کا مقام
توحید صرف یہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ خدا ہے اور وہ بھی ایک ہے دو نہیں ہے۔ یہ توحید کی ظاہری شکل ہے۔ باطن توحید بحر بیکراں ہے جس میں اولیائے خدا غرق ہوتے ہیں۔ وادی توحید بہت عظیم ہے اور اس عظیم وادی میں مومنین، مسلمین اور موحدین سے کہا گیا ہے کہ فکر، تدبر اور تعقل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ واقعی تعقل اور تدبر ہی ہے جو انسان کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ البتہ مختلف مراحل میں عقل نور وحی، نور معرفت اور اولیائے خدا کی تعلیمات سے آراستہ ہوتی ہے؛ لیکن سرانجام جو چیز آگے بڑھتی ہے وہ عقل ہی ہے۔ عقل کے بغیر کہیں بھی نہیں پہنچا جا سکتا۔
اسلام کا بنیادی ستون
آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر جو بھی مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں وہ توحید کے زیر سایہ زندگی نہ گزارنے کا نتیجہ ہیں۔ توحید صرف ایک ذہنی چیز نہیں ہے۔ توحید ایک حقیقی امر، زندگی کا ایک دستورالعمل اورایک نظام ہے۔ توحید مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ کس طرح رہیں، سماجی نظام میں کس طرح رہیں اور کس طرح زندگی گزاریں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ توحید پر اعتقاد کا تعلق موت کے بعد سے ہے جبکہ توحید پر اعتقاد اس عالم اور زندگی کی تعمیر کرتا ہے۔ مسلمان توحید اور عبودیت کی طرف جتنا بڑھیں گے ، ان کے لئے خدا کے دشمنوں اور طاغوتوں کا شر اتنا ہی کم ہوگا۔ دوسروں کی بندگی اور غلامی کے ساتھ خدا کی بندگی نہیں ہو سکتی۔
اسلامی نظریہ کائنات میں توحید
دنیا کے بارے میں ہر مکتب کی ایک خاص آئیڈیالوجی، ایک خاص نظریہ اور ایک خاص ادراک ہوتا ہے۔ دنیا کے تعلق سے یہ خاص ادراک اور دنیا کے بارے میں یہ مخصوص نقطۂ نگاہ، نظریۂ کائنات ( آئیڈیالوجی) ہے۔ توحید بھی اسلامی نظریۂ کائنات کا حصہ ہے۔ توحید اسلام کی زندگی ساز آئیڈیالوجی کا جز بھی ہے۔ توحید تمام اسلامی ضوابط کے لئے جسم میں روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پیکر اور جسم کے تمام اعضا میں نرم و لطیف ہوا کی طرح حرکت کرتی ہے اور اسی کا نام ہے اسلام ہے۔ اس پیکر اور جسم میں صاف اور پاکیزہ خون کی طرح ہے جس کا نام دین اور اسلام ہے۔ اسلام کی تمام باریک ترین رگوں میں ( توحید موجود ہے) ، حتی کوئی بھی اسلامی حکم ایسا نہیں مل سکتا جس میں توحید کا رنگ و بو اور نشانی نہ ہو۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ اس مجموعے میں جس کا نام دنیا ہے، ہر جگہ، اوپر سے لیکر نیچے تک، ناچیز اور حقیر مخلوقات سے لیکر بڑی اور عظیم مخلوقات تک، پست ترین جاندار یا بے جان سے لیکر باشرف ترین، طاقتور ترین اور عقل و خرد کی مالک مخلوق یعنی انسان تک، اس دنیا میں ہرجگہ، سب کے سب، ایک عظیم طاقت کے بندے، اس کے غلام، اس کے پیدا کردہ اور اسی سے وابستہ ہیں۔ اس ظاہر سے ماورا جسے انسان کی نگاہیں دیکھتی ہیں، اس سے حد سے ماورا جہاں تک تجرباتی علم و دانش ( سائنس) کی تیز بیں نگاہیں پہنچ سکتی ہیں، ان تمام چیزوں سے ماورا جو قابل لمس اور قابل حس ہیں ان سب کے ماورا ایک حقیقت ہے جو تمام حقیقتوں سے بالاتر، اعلی تر، باشرف تر اور باعزت تر ہے اور تمام مخلوقات عالم اسی کے دست قدرت کے بنائے ہوئے، تیار کردہ اور اسی کے خلق کردہ ہیں۔ اس بالاتر طاقت کو ایک نام دیا گيا ہے۔ اس کا نام خدا ہے۔ اس کا نام اللہ ہے۔ بنابریں دنیا ایک حقیقت ہے جو خود سے قائم نہیں ہے۔ جو خود ہی خود کو وجود میں نہیں لائی ہے، اپنے باطن اور اندر سے ابھر کے سامنے نہیں آئی ہے بلکہ ان گوناگوں مخلوقات کو جو سائنس کی ترقی و پیشرفت کے ساتھ زیادہ نمایاں ہوکے سامنے آرہی ہیں، ایک لا متناہی طاقت نے خلق کیا ہے اور وجود بخشا ہے۔ اس کی حیات کسی سے نہیں لی گئی ہے ، اس کا علم کسی جگہ سے اخذ اور کسب نہیں کیا گیا ہے۔ پورے عالم کا اختیار اس کے پاس ہے۔ ذرات عالم اس کے سامنے کس طرح ہیں؟ کیا ذرات جب خلق کئے گئے اور بنائے گئے تو اس بچے کی طرح جو اپنی ماں سے الگ ہوتا ہے، اس سے الگ ہوئے؟ نہیں بلکہ یہ ہر لمحہ باقی رہنے کے لئے اس کے محتاج ہیں، اس کی قدرت کے محتاج ہیں اور اس کے ارادے کے محتاج ہیں۔ سب اس کے بندے ہیں۔ تمام مخلوقات اسی کے بندے، اسی کے غلام ، اسی کے پیدا کردہ اور اسی کی مخلوق ہیں۔ سب پر اس کو تصرف حاصل ہے۔ سب کو اس نے خاص نظم کے ساتھ خلق کیا ہے۔ سب کو اس نے منظم اور دقیق قوانین اور طریقوں سے وجود بخشا ہے۔ ان قوانین کا آج سائنس انکشاف کر رہی ہے۔ اسلامی نظریۂ کائنات میں توحید یعنی دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا اور بنانے والا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اس دنیا کی ایک پاک و لطیف روح ہے۔ دنیا کا کوئی خلق کرنے والا ہے اور تمام اجزائے عالم اس کے بندے، اس کے غلام اور تمام مخلوقات اس خدا اور اس خالق کے اختیار میں ہیں۔
اسلامی توحیدی نظریئے میں مخلوقات کی حیثیت
اسلام کا خالص توحیدی نظریہ کہتا ہے کہ تمام ممکنات و موجودات، ایک جگہ سے، ایک مبدا سے اور ایک دست قدرت سے خلق ہوئے ہیں، پیدا ہوئے ہیں اور بنائے گئے ہیں۔ سب اس کے بندے اور غلام ہیں۔ سب اس کی قدرت کے سامنے بے بس ہیں اور سب کو اس کا فرمانبردار ہونا چاہئے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنا سر کسی اور کے پیر پر رکھے اور اسی طرح کسی کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ اپنا پیر کسی دوسرے کے سر پر رکھے۔ جس طرح انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنا پیر کسی کے سر پر رکھے، اسی طرح اس کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ اپنا سر کسی دوسرے کے پیر پر رکھے۔ اس لئے کہ دونوں صورتوں میں حق و حقیقت کے خلاف عمل ہوگا۔ جو گھوڑے پر بیٹھا ہے اور اس کے گھوڑے کی سم کے نیچے بندگان خدا ہاتھ پیر مار رہے ہیں، اس میں اور ان بندگان خدا میں کوئی فرق نہیں ہے۔
خلقت، موحد کی نگاہ میں
جب انسان مسلمان ہو گیا تو ہر چیز اس کے لئے تمہید اور وسیلہ ہو جاتی ہے۔ ایک وسیع تر عالم تک پہنچنے کا وسیلہ، موت کے بعد کی دنیا تک پہنچنے کا وسیلہ نہیں، بلکہ انسان کے عالم فکر و بینش تک پہنچنے کا وسیلہ جو ذات خدا جتنی وسعت رکھتا ہے۔ انسان کے لئے تمام چیزیں وسیلہ ہیں اس بات کا کہ انسان رضائے خدا حاصل کر سکے۔ دنیا کی زندگی، دنیا کی دولت، دنیا کی آسائش اور دنیا کی محبتوں کی اس کے لئے کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ چیزیں اس وقت اس کے لئے اہم ہوتی ہیں کہ جب راہ خدا میں ہوں۔ لیکن اگر یہ محبت، یہ دولت، یہ مقام و مرتبہ، یہ زندگی، یہ اولاد، یہ عزت خدا کی راہ میں اور فریضے ادائیگی کی راہ میں نہ ہو تو اس کے لئے ان کی کوئی اہمیت و حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔
اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان
اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان ایسی مخلوق ہے جس میں بے پناہ صلاحیتیں نہفتہ ہیں۔ یہ انسان علم و دانش، حقائق خلقت اور رازہائے پنہاں کے انکشاف میں بے انتہا پیشرفت کر سکتا ہے۔ معنوی اور روحانی سیر و سلوک کی منزلیں طے کرنے میں بھی بے پناہ ترقی کر سکتا ہے، فرشتوں سے بھی بلند تر ہو سکتا ہے اور انواع و اقسام کی توانائیوں کے لحاظ سے طاقت و اقتدار کی بلند ترین چوٹیاں سر کر سکتا ہے۔ اگر اس سے خدا کی عبودیت کی، خدا کی اطاعت کی تو یہ راستے اس کے سامنے کھل جائیں گے اور اگر غیر خدا کی اطاعت کی تو اس کے بال و پر بندھ جائیں گے اور وہ پرواز سے محروم رہ جائے گا۔ علم و دانش کے تمام شعبوں میں انسان کی راہ میں توحید موجود ہوتی ہے اور انسان آشنا ہوتا ہے۔ صدر اسلام کا مسلمان، اگرچہ اس دور میں دنیا پر جہالت اور شرک کی حکمرانی تھی، توحید کا گرویدہ ہوا تو اس کو ایسی آزادی اور فتوحات نصیب ہوئیں کہ علم و دانش کے دروازے اس پر کھل گئے اوراس کی پیروی میں پوری بشریت وادی علم میں داخل ہوئی۔ آج دنیا اور بشریت اپنے علم و دانش کے لئے اسلام کی ممنون احسان ہے، ان مسلمانوں کی توحید کی احسانمند ہے، جنہوں نے پہلی بار علم و انش کی وادی
میں قدم رکھا۔
توحیدی فکرکی بقا کا راز
تاریخ میں، زمین پر توحید اور حکومت خدا کے دشمن بہت رہے ہیں۔ کیسے ممکن ہوا کہ پیغمبر تاریخ میں اپنے دشمنوں پر کامیاب ہوئے؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اتنے دباؤ کے باوجود جو موسی، شعیب، یوشع اور ہارون ( علیہم السلام) پر پڑے، بنی اسرائیل ایک روز پوری دنیا میں حکومت اور اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے؟ یہ کیسے ہوا کہ پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جو زمانے میں تنہا تھے، صرف آپ تھے اور آپ کی تنہائی اور پوری دنیائے جاہلیت آپ کی مخالف تھی، مدینہ تشریف لائے، حکومت تشکیل دی، اور اسی حکومت کے ذریعے پوری دنیا کو توحید کے زیر سایہ لائے اور تاریخ میں ایک نئی تحریک شروع کی؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایران کا اسلامی انقلاب جس کی مشرق اور مغرب دونوں مخالفت کر رہے تھے اور آج کی مادی دنیا میں اس کا ایک بھی حامی و طرفدار نہ تھا، صرف اقوام اس کے ساتھ تھیں، کامیاب ہوا؟ زمانے اور تاریخ میں توحیدی نظریئے کی بقا اور ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی میں ایک راز ہے اور وہ یہ ہے کہ بندگان خدا میں سے کچھ لوگ اس ہدف اور اصول کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ شہادت پسندی، اگر شہادت پسندی نہ ہوتی، اعلی ہدف کی راہ میں اگر جانیں نہ پیش کی گئی ہوتیں، تونہ ایران کا اسلامی انقلاب سامنے آتا، نہ پیغمبر اسلام کامیاب ہوتے، اور نہ ہی تاریخ میں توحید کوئی کامیابی حاصل کرپاتی۔ اس طرح خدا وند عالم نے تمام انبیائے الہی اور ادیان الہی کے لئے اس معاملے کو قرار دیا ہے ۔ ان اللہ اشتری من المومنین خدا خریدتا ہے، مومنین سے خریدتا ہے انفسہم ان کی جانوں کو واموالھم اور ان کی مادی ہستی کو ان کے اموال کو بان لھم الجنۃ اور اس کے بدلے میں انہیں بہشت عطا کرتا ہے۔ یہ اقوام کی شہادت پسندی کا جذبہ ہے جو انہیں کامیابی تک پہنچاتا ہے۔
دوسرا باب ،منکرین وحدانیت
بشریت کی تباہی کا راستہ
سب سے بڑا گناہ جس سے کوئی انسان یا معاشرہ دوچار ہوتا ہے، شرک ہے۔ خداوند عالم سبھی گناہوں کو معاف کر دیتا ہے مگر شرک کو نہیں معاف کرتا۔ ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء۔ لیکن شرک اتنا بڑا اور مہیب گناہ ہونے کے باوجود ان گناہوں میں سے ہے کہ دنیا کے لوگوں میں اس کے مرتکبین بہت زیادہ ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ گناہ بہت سے گناہوں کے برخلاف ہمیشہ ہر ایک کے لئے اور ہر شکل میں قابل شناخت نہیں ہے۔ لہذا روایات میں شرک کو، شرک آشکارا اور شرک پنہاں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شرک جاہلیت کے معاشرے میں بھی ہوتا ہے اور اسلامی معاشرے میں بھی ہوتا ہے۔
جاہلیت کے معاشرے میں شرک
جاہلیت کے معاشرے میں سب کچھ شرک ہے۔ لوگوں کے سارے کام شرک آلود ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ جاہلیت اور غیر اسلامی معاشرے میں بر سرکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کی سمت اور حرکت، شرک آمیز بنا دیتے ہیں۔ اس لئے خود وہ بھی اور وہ تمام لوگ بھی جو ان کی پیروی کرتے ہیں، درحقیقت آتش (جہنم) اور ہلاکت کی طرف جاتے ہیں۔ جب کسی شرک آلود معاشرے میں مبداء ہستی اور عالم پر مسلط قوت قاہرہ سے انسانوں کے رابطے کا مسئلہ انحراف کا شکار ہوتا ہے تو لازمی طور پر اس معاشرے کے انسان ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں۔ کوئی، ایک خدا کی طرف جاتا ہے تو دوسرا دوسرے خدا کا رخ کرتا اور تیسرا تیسرے خدا کی طرف جاتا ہے۔ جو معاشرے شرک کی بنیاد پر استوار ہو ان میں افراد اور انسانوں کے گروہوں کے درمیان ایک ناقابل نفوذ دیوار اور کبھی نہ ختم ہونے والی کھائی حائل ہوجاتی ہے۔
اسلامی معاشرہ میں شرک
اسلامی معاشرے میں خدا کے جانشین اور اس کے مامور کردہ افراد، برسراقتدار ہوتے ہیں، اس کے باوجود وہاں بھی شرک موجود ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں جو اسلامی معاشرہ بنا رہنا چاہتا ہے، شرک کا پہلا نمونہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں حکام کچھ باتوں کے لحاظ میں پڑ کر، جذبات کے ٹھنڈے پڑ جانے کی وجہ سے یا مستقبل، اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں مایوسی کا شکار ہوکر، غیر الہی احکام وضع کرنے اور پھر ان کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل شرک کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ شرک اور بہت بڑا شرک ہے۔ اس معاشرے میں جو اسلام کے نام پر اور مسلمان عوام کے ذریعے وجود میں آیا ہو، اگر اس معاشرے کے برسراقتدار کچھ لوگ بعض مصلحتوں کے پیش نظر احکام خدا پر معاملہ کرنا چاہیں تو یشترون بآیات اللہ ثمنا قلیلا یہ اس معاشرے میں شرک آلود فعل ہے۔ یہ معاشرہ اگرچہ مسلمان عوام کے ذریعے تشکیل پایا ہے لیکن ایک پنہاں شرک اس پر حکمفرما ہے۔
مفہوم شرک کی شناخت کی ضرورت
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیںان بنی امیۃ اطلبوا للناس تعلیم الایمان ولم یطلبوا تعلیم الشرک لکی اذا حملوھم علیہ لم یعرفوا یعنی بنی امیہ نے عوام کے لئے ایمان سیکھنے کا راستہ کھلا رکھا لیکن شرک کیا ہے یہ جاننے کا راستہ بند کر دیا تاکہ اگر لوگوں کو شرک کی طرف لے جائیں تو لوگ اس کو نہ پہچان سکیں۔ بنی امیہ علماء، اہل دین اور ائمہ علیہم السلام کو نماز، حج، زکات، روزہ اور عبادات کے بارے میں بولنے اور احکام الہی بیان کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ اس کا راستہ کھلا رکھتے تھے کہ توحید اور نبوت لوگوں کو سمجھائیں لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ شرک کا مفہوم، اس کے مصادیق اور معاشرے میں شرک کی علامتوں کے بارے میں لوگوں کو کچھ بتایا جائے۔ اس لئے کہ اگرشرک کے بارے میں لوگوں کو یہ باتیں سکھائی جاتیں تو وہ فورا سمجھ جاتے کہ وہ شرک میں مبتلا ہو رہے ہیں اور جان جاتے کہ بنی امیہ انہیں شرک کی طرف لے جا رہے ہیں۔ فورا سمجھ جاتے کہ بنی امیہ ایسے طاغوت ہیں جنہوں نے خدا کے مقابلے میں سر اٹھایا ہے اور اگر کوئی ان کی اطاعت کرے تو درحقیقت اس نے شرک کا راستہ اپنایا ہے۔ اس لئے وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ عوام شرک کے بارے میں کچھ جانیں۔
انسان کے مشرک بننے کی وجوہات
علامہ مجلسی بحار الانوار کی اڑتالیسویں جلد میں فرماتے ہیں کہ انّ آیات الشرک ظاھرھا فی الاصنام الظاھرۃ وباطنھا فی خلفاء الجور، الذین اشرکوا مع آئمۃ الحق ونصبوا مکانہ یعنی قرآن کریم میں شرک کی آیات بظاہر ظاہری بتوں یعنی انہی پتھر اور لکڑی کے بتوں کے بارے میں ہیں مگران کی باطنی تاویل یہ ہے کہ یہ آیات خلفائے جور (یعنی ظالم حکام) کے بارے میں ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ناحق خود کو خلیفہ (اسلامی حاکم) کہتے تھے اور اسلامی معاشرے پر حکومت کرتے تھے۔ یہ خلفائے جور ( یعنی ظالم حکام ) اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے معاشرے پر حکمرانی کے دعوے میں برحق اماموں کے شریک بن گئے اور خود کو آئمہ حق کا شریک قرار دینا خدا کا شریک قرار دینا ہے۔ کیونکہ آئمہ حق خدا کے نمائندے ہیں، خدا کی زبان بولتے ہیں اور خدا کی طرف سے بولتے ہیں۔ چونکہ خلفائے جور نے ان کی جگہ خود کو خلیفہ کہا اور ان کے امامت کے دعوے میں خود کو شریک قرار دیا اس لئے یہ بت اور طاغوت ہیں اور جو بھی ان کی اطاعت کرے وہ درحقیقت مشرک ہے۔
خدا کے صاحب اولاد ہونے کا دعوی اور اس کی نفی
قرآن کریم انسانوں کو جو عقیدہ دیتا ہے، وہ اہداف الہی کی تکمیل میں دخیل ہوتا ہے اورجس چیز کو غلط عقیدہ قرار دیکر اس کی نفی کرتا ہے، وہ چیز معاشرے کی گمراہی میں دخیل ہوتی ہے۔ غلط عقیدے کی نفی دراصل انسانی معاشر ے میں گمراہی کی جڑوں کی نفی ہے۔ قرآن کریم سورۂ رحمان کی آیت نمبر ستاسی میں فرماتا ہے وقالوا اتّخذ الرّحمن ولدا عیسائی، یہودی، مشرکین قریش، مشرکین عربستان اور دوسری جگہوں کے مشرک کہتے تھے کہ خدا رحمان صاحب اولاد ہے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ خدا کی بیٹی ہے، کچھ کہتے تھے بیٹا ہے، کچھ کہتے ہیں اس کے بیٹی اور بیٹا دونوں ہیں، بعض کہتے تھے کہ ایک اولاد ہے اور بعض کہتے تھے اس کی اولادیں لاتعداد ہیں۔ کنبے والا ہے۔ اس دعوے کا مطلب یہ تھا کہ مخلوقات عالم میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی خدا سے نسبت ، خدا سے بندے کی نسبت نہیں ہے بلکہ یہ نسبت ولدیت کی ہے۔ یہ اگرچہ مالک نہیں ہیں لیکن مالک کے بیٹے ہیں اس کے بندے کے بیٹے نہیں ہیں۔ یہودی کہتے تھے کہ عزیزبن اللہ یعنی عزیز پیغمبر خدا کے بیٹے ہیں ، وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ تمام مخلوقات عالم خدا کے بندے اور غلام ہیں لیکن وہ خدا کے بندے اور غلام نہیں ہیں، وہ خدا کے بیٹے ہیں، خدا کے نورچشم ہیں۔ عیسائی، حضرت عیسی کے بارے میں یہی کہتے تھے۔ کفار لات، منات اور عزی کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔ یونان اور روم کے مشرکین کہتے تھے کہ خدا کے لاتعداد اولادیں ہیں۔ سب کا نظریہ یہی تھا یعنی دو صفیں مد نظر رکھی گئیں ، ایک خدا کی صف اور دوسری تمام بندوں اور مخلوقات کی صف جس میں سب خدا کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ ان دو صفوں کو تین قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا، خدا کی اولادیں اور اس کے بندے۔ خدا اور انسان کے بیچ ایک درمیانی حد کا عقیدہ معاشرے میں بڑی گمراہیوں کا موجب ہے۔ یہ درحقیقت یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ بندگان خدا، خدا کے بندے ہونے کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے بندے بھی ہوں۔
مادہ پرستوں کے انکار توحید کی دلیل
خدائی انسان کہتا ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے، جو مشاہدہ کرتا ہے، اس سے ماورا ایک برتر اور عظیم تر حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت نہ ہوتی تو یہ موجودات وجود میں نہ آتے۔ مادہ پرست کہتا ہے کہ نہیں، ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، اس کے علاوہ کسی اور چیز کے معتقد اور پابند نہیں ہو سکتے۔ ہم نے لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں میں بہت جستجو کی لیکن وہ وجود ہمیں نظر نہ آیا جس کے موحدین قائل ہیں۔ اس دور کے مادہ پرست کہتے ہیں کہ اس عالم سے ماورا کوئی حقیقت وجود نہیں رکھتی۔ مادہ پرست چونکہ مکتب الہی سے فکری اور ذہنی مایوسی سے دوچار ہوا ہے اس لئے یہ باتیں کرتا ہے۔ وہ چونکہ اس بات کا قائل ہے کہ آج کی دنیا اور انسانوں کے امور کو چلانا، قیام عدل اور امتیاز کا خاتمہ مادی طرز فکر کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے اسی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر مکتب الہی سے روگرداں ہے۔ جو لوگ اس زمانے کے بعض ازموں کے گرویدہ ہیں، ان کی فکری حالت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خدا سے ان کی لڑائی ہے، یا وجود خدا پر ان کے پاس کوئی محکم دلیل نہیں ہے اس لئے وجود خدا کا انکار کرتے ہیں یا اس کو قبول نہیں کرتے۔ معاملے کے دوسرے رخ کی بھی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ خدا کی نفی میں کوئي استدلال ہے ہی نہیں، نہ اس وقت ہے اور نہ کبھی ماضی میں تھا۔ کوئی نہیں ہے جو کہے خدا کے نہ ہونے کی دلیل یہ ہے۔ دنیا کے تمام مادہ پرستوں میں پہلے دن سے آج تک کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کہے کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ اس دلیل سے خدا کی نفی ہوتی ہے۔ جو بھی اس بارے میں بولتا ہے کہتا ہے کہ میرے لئے یہ ثابت نہیں ہے کہ خدا ہے؛ میں نے نہیں سمجھا، میں نے خدا کے ہونے کے استدلال کو قبول نہیں کیا۔ قرآن کریم بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ان ھم الّا یظنّون یہ وہم و گمان کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں ورنہ دلیل سے خدا کی نفی نہیں کر سکتے۔
مادہ پرستی کی طرف جھکاؤ کا سبب
اس چیز کی طرف جس کو مادی مکتب کہا جاتا ہے، جھکاؤ کی وجہ یہ ہے کہ مادہ پرست انسان سمجھتا ہے کہ آج دنیا کو مادی مکتب بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے۔ کہتا ہے کہ مادی مکتب ، ظلم کو زیادہ اچھی طرح ختم کر سکتا ہے، امتیاز اور عدم مساوات کو بہتر طور پر مٹا سکتا ہے، ظلم و انانیت کو بہتر طور پرجڑ سے ختم کر سکتا ہے۔ مادہ پرست کہتا ہے کہ دین یہ کام نہیں کر سکتا۔ کیوں کہتا ہے کہ دین یہ کام نہیں کر سکتا؟ اس لئے کہ دین کے معنی و مفہوم سے بالکل واقف نہیں ہے۔ دین کے بارے میں اس کے علاوہ اور کـچھ نہیں جانتا جو اس نے کوچہ و بازار میں لوگوں میں مشاہدہ کیا ہے۔ مختصر یہ کہ اسے دین کی کوئی خبر نہیں ہے اور دین کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ اس سے پوچھا جائے کہ دین کیا ہے تو کچھ مذاہب کا نام گنواکر کہے گا یہ دین ہیں اور چونکہ یہ نشہ آور ہیں (افیم کی خاصیت رکھتے ہیں) ظلم اور ظالم کے مترادف ہیں اس لئے عوام کی کوئی مشکل حل نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسے غیر معقول فرد سے دوچار ہونے کے بعد ان کا بہترین اور صحیح ترین جواب یہ ہے کہ جی ہاں اگر کوئی ایسا دین تمہیں مل جائے جو ظالم کے لئے سازگار ہو، مستبد کے ساتھ تعاون کرے ، مظلوم کا ساتھ نہ دے سکے، لوگوں کی کوئی مشکل حل نہ کرسکے، لوگوں کے آج اور کل کے لئے ذرہ برابر بھی فائدہ نہ رکھتا ہو، ہم تمہیں اپنا وکیل بناتے ہیں، جب بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی ایسا دین مل جائے، اس کو مسترد کر دو۔ ایک لمحے کے لئے بھی اس دین کو قبول نہ کرو۔ اس لئے کہ جو دین خدا کی طرف سے ہے وہ ایسا نہیں ہے۔
شیطان کی اطاعت کیسے ہوتی ہے
وانّ الشّیاطین لیوحون الی اولیائھم لیجادلوکم یعنی شیاطین اور وہ جو بدی کے محور ہیں، اپنے دوستوں، اپنے محاذ والوں اور خود سے وابستہ لوگوں میں یہ وسوسہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنگ کریں۔ شیاطین بدی، برائیوں اور بربادی کے محور، اپنے کارندوں، دوستوں، اپنے محاذ والوں اور خود سے وابستہ لوگوں کے اندر یہ وسوسہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور آپ سے بحث کریں، مباحثہ کریں اور آپ کو باتوں میں الجھائیں۔ شیطان کے ان کارندوں کے مقابلے میں آپ کا فریضہ کیا ہے؟ وان اطعتموھم انکم لمشرکون اگر آپ نے ان کی اطاعت کی اور ان کی پیروی کی تو مشرک ہو گئے۔ شیطان کی اطاعت یعنی رحمان کے مقابلے میں بدی کے محور کی اطاعت۔ شیطان خدا کے مقابلے میں ہے۔ شیطان یعنی بدی کے محور کی اطاعت سے، شیطان کے دوستوں کی اطاعت سے، اس کے زرخرید کارندوں کی اطاعت سے، اس کے پٹھوؤں کی اطاعت سے، اس کے رفیقوں کی اطاعت سے اور اس کے غلاموں کی اطاعت سے انسان مشرک ہو جاتا ہے۔ ان اطعتموھم اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو انّکم بیشک تم ، لمشرکون مشرک ہوگئے۔
کیا خدا کچھ لوگوں سے زیادہ محبت کرتا ہے؟
وقالت الیھود و النصاری نحن ابناء اللہ و احباؤہ یہودیوں نے کہا ہم خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں۔ پھر خدا ان کے ایک جرم پر ان سے منہ پھیر لیتا ہے۔ (ان کے دعوے کا) جواب بھی دیتا ہے اور ان کی مذمت بھی کرتا ہے۔قل فلم تقتلون انبیاء اللہ بغیر حق اگر تم خدا کے اتنے چاہنے والے، اتنے نزدیک اور اس کے قرابتدار ہو تو اس کے پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے ہو؟ اس کے برگزیدہ بندوں کو کیوں قتل کرتے ہو؟ یہودی کہتے تھے، ہم خدا کی اولاد اور خدا کے قرابت دار ہیں، اس لئے ہم برتری رکھتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ ایک اور جگہ پر فرماتا ہے یا ایھا الذین ھادوا ان زعمتم انّکم اولیاء اللہ من دون النّاس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین اگر تم یہ کہتے ہو کہ خدا کے بڑے رفیق ہو اور اس کے قرابت دار ہو، تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو، تاکہ اس کھوکھلی زندگی سے نجات پاکے اپنے عزیز محبوب اور اس کے پاس پہنچ جاؤ جس کے قوم و قبیلے سے ہونے کے دعویدار ہو۔ اس کے بعد خداوند عالم فرماتا ہے ولا یتمنونہ ابدا محال ہے ، یہ موت کی تمنا ہرگز نہیں کریں گے، یہودی اور موت کی تمنا؟!
تیسرا باب، توحیدی نظریۂ کائنات کے اثرات
عبادت کے مصادیق
کبھی کسی کی عبادت اس صورت میں کی جاتی ہے کہ اس کو مقدس اور مافوق الفطرت قوتوں کا مالک سمجھیں۔ جیسے تاریخ میں لوگ بتوں اور مقدس شخصیات کی پرستش کرتے رہے ہیں۔ عبادت میں سب سے پہلے جو چیز نظر آتی ہے، یہی تقدس اور روحانی اور قلبی حالت ہے۔ جیسے مثال کے طور پر عیسائی جو حضرت عیسی علیہ السلام یا آپ کی والدۂ گرامی حضرت مریم صلوات اللہ علیہا کی پاکیزگی اور تقدس کے قائل ہیں، ان کے تخیلاتی مجسمے کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہیں، گریہ کرتے ہیں اوران کی پرستش کرتے ہیں۔ عبادت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کسی مقدس وجود کے سامنے، قلبی احترام کے ساتھ ، اس کو بالاتر سمجھتے ہوئے، اس کے سامنے جھکے، سجدہ کرے رکوع میں جائے، اس سے دعا مانگے، اس کی ستائش کرے اور اس کی طرف خضوع و خشوع کے ساتھ ہاتھ بلند کرے۔ بلکہ کچھ اور کام بھی ہیں جنہیں دوسرے معنی میں عبادت کہا جا سکتا ہے۔ عبادت کے دوسرے معنی کیا ہیں؟ عبادت کے دوسرے معنی کے لئے فارسی میں جو لفظ زبانوں پر رائج ہے ، وہ اطاعت ہے۔ کسی کی بھی بلاقید و شرط اطاعت اس کی عبادت ہے۔ قرآن کی زبان میں کسی بھی غیر خدا کی عبادت، اب وہ غیر خدا چاہے کوئی سیاسی طاقت ہو، مذہبی قوت ہو، کوئی باطنی عامل جیسے انسان کا نفس ہو، اس کی نفسانی و شہوانی خواہشات ہوں، انسان کے وجود سے الگ کوئی وجود ہو لیکن کوئی متمرکز سیاسی یا دینی قوت نہ ہو، کوئی عورت ہو کوئی مرد ہو جس کے لئے انسان بیجا احترام کا قائل ہے، یا کوئی دوست ہو- اس کی مطلق اطاعت کرنا اس کی عبادت کرنا ہے۔ جو بھی کسی فرد یا کسی شئے کی اطاعت کرے گویا اس نے اس کی عبادت کی ہے۔
خدا اور شیطان کی عبادت
امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیںمن اصغی الناطق فقد عبدہ عبادت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ صرف اطاعت ہی نہیں بلکہ تمام حواس کسی کے حوالے کر دینا ( یعنی پورے حواس کے ساتھ کسی کی طرف ملتفت ہونا ) بھی اس کی عبادت ہے۔ کیا انسان صحیح باتیں بھی نہ سنے؟ اس بارے میں حدیث میں آگے چل کے فرماتے ہیں و ان کان الناطق ینطق عن اللہ فقد عبد اللہ اگر وہ شخص جو بول رہا ہے اور اس نے لوگوں کے تمام حواس اپنی طرف مبذول کر رکھے ہیں، خدا کی باتیں کر رہا ہے، تو اگرچہ سننے والوں کے دل اس کی طرف مبذول ہیں، اذہان اس پر متمرکز ہیں اور فکر و روح اس کی طرف متوجہ ہے، لیکن وہ لوگ خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ وان کان الناطق ینطق عن لسان ابلیس فقد عبد ابلیس لیکن اگر بولنے والا شیطان کی باتیں کر رہا ہے، ابلیس کی زبان بول رہا ہے، فکر و فلسفہ الہی کے خلاف بحث کر رہا ہے اور لوگ اس کی باتیں سن رہے ہیں، تو ابلیس کی اطاعت اور عبادت میں مصروف ہیں۔ یعنی در اصل وہ خود شیطان ہے۔ وہ خود جو اس طرح بول رہا ہے، شیطان کا نمائندہ یا اس کا ترجمان نہیں بلکہ قرآن کے نزدیک وہ خود شیطان ہے۔
توحیدی معاشرہ
جب کسی معاشرے میں توحید آ جاتی ہے تو بندوں میں برابری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ توحیدی معاشرے میں مبدا، مالک ہستی اور سلطان عالم وجود اس ذات حی و قیوم اور قاہر مطلق کو سمجھا جاتا ہے کہ تمام اتفاقات عالم اسی کی قدرت کاملہ اور ارادے کے مرہون منت ہوتے ہیں، تو سارے انسان چاہے وہ کالے ہوں یا گورے، کسی بھی رنگ و نسل اور سماجی حالت سے تعلق رکھتے ہوں، سب ایک ہی رشتے میں بندھ جاتے ہیں چونکہ اس خدا سے مل جاتے ہیں اور ایک ہی جگہ متصل ہوتے ہیں اور اسی سے نصرت اور مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ توحید پر اعتقاد کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس نقطۂ نگاہ میں صرف انسان ہی ایک دوسرے سے مرتبط نہیں ہوتے بلکہ توحیدی نقطۂ نگاہ سے تمام اشیاء، اجزائے عالم، حیوانات، جمادات، آسمان، زمین اور تمام چیزیں ایک دوسرے سے متصل اور مرتبط ہیں اور تمام انسان ایک ہی کنبے کے ہیں۔ بنابریں جو کچھ انسان دیکھتا ہے، احساس کرتا اور سمجھتا ہے، ایک افق، ایک عالم اور ایک مجموعہ ہے کہ جو ایک صحتمند دنیا اور امن کی فضا میں قرار پاتا ہے۔
اسلامی معاشرے کی علامتیں
اسلامی معاشرے سے مراد وہ معاشرہ ہے کہ جس میں تمام افراد معاشرہ پر اطاعت خداوند عالم حکمفرما ہو، یا بہتر الفاظ میں اس معاشرے کی تمام راہ و روش فرمان خدا کے مطابق ہو اور جیسا خدا نے فرمایا ہے، اس طرح ہو۔ کسی معاشرے میں خدا کی عبودیت کی علامتیں چند چیزوں میں آشکارا طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ چند چیزیں معاشرے میں وجود میں آ جائیں تو سمجھنا چاہئے کہ وہ معاشرہ خدا کی بندگی میں ہے اور وہ نظام ، نظام الہی ہے۔ ایک یہ کہ اس معاشرے میں بندگان خدا حکومت کریں، دشمنان خدا نہیں۔ طاغوتی عناصر معاشرے پر مسلط نہ ہوں۔ جو اپنی دعوت دیتے ہیں، عوام کے لئے خدا کو نہیں بلکہ خود کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں، جو فرعون، نمرود اور تاریخ کے دیگر طاغوتوں کی طرح عوام کو اپنی خدمت میں طلب کرتے ہیں اور ان کے دل خدا سے آشنا نہیں ہیں، وہ معاشرے پر مسلط نہ ہوں بلکہ بندگان خدا کو بالادستی حاصل ہو۔ دوسرے یہ کہ احکام الہی رائج ہوں۔ عوام حکم خدا پرعمل کریں، ان احکام پر نہیں جو ہوا و ہوس یا انسان کی کمزور اور غلط تشخیص کے نتیجے میں صادر ہوتے ہیں۔ احکام کی حدود کو قرآن اور حکم خدا سے معین کیا جائے۔ تیسرے یہ کہ امتیاز نہ ہو، کالے گورے، عرب عجم، فلاں قوم ، فلاں قبیلہ فلاں کنبہ اور خاندان اور فلاں طبقہ، یہ باتیں امتیاز کا باعث نہ بنیں۔ معاشرے میں انسان بحیثیت انسان سامنے آئے اور تقوا برتری کی بنیاد قرار پائے۔ چنانچہ یہ تمام نشانیاں اور علامتیں صدر اسلام میں پائی جاتی تھیں۔ چوتھے یہ کہ معاشرے میں عوام اور انسانوں کا احترام ہو۔ انسان محترم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ انسان کو حیوانی وسیلہ سمجھا جائے۔ معاشرے میں انسان کو عالم کی برترین مخلوق اور دنیا کو چلانے والا سمجھا جائے نہ کہ ایسی مخلوق جو اپنا پیٹ بھرتی ہے اور اس پر بوجھ لادا جاتا ہے کہ اگر ذہن نہیں سمجھتا ہے تو نہ سمجھے، اعلی اہداف کا شوق نہیں ہے تو نہ ہو۔ معاشرے میں انسان مکرم ہو۔ یہ جو خدا فرماتا ہے کہ لقد کرمنا بنی آدم یہ یونہی نہیں کہا گيا ہے۔ یہ ایک بنیاد ہے، اسلامی معاشرے کی ایک اساس ہے۔ جہاں بھی اس اصول پر عمل نہ ہو وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہے۔ جہاں انسان ذلیل ہو، جہاں انسانوں پر طاقتوروں کی ہوا و ہوس کی حکمرانی ہو، جہاں انسان کو سوچنے اور فکر کرنے کا حق نہ دیا جائے، حصول علم کا حق نہ دیا جائے، اپنا راستہ خود منتخب کرنے کا حق نہ دیا جائے، یہ حق نہ دیا جائے کہ جس راستے کو اس نے پہچانا ہے اور سمجھا ہے یعنی راہ خدا اس کو تلاش کرے ، وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ پانچویں یہ کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو، جس معاشرے میں ظلم ہو وہ خدائی معاشرہ نہیں ہوسکتا۔ چھٹے یہ کہ خدائی اور اسلامی معاشرے کی ایک علامت، جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جس معاشرے میں جہاد نہ ہو، جہاد فی سبیل اللہ کی کوشش نہ ہو وہ معاشرہ بھی اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔
معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کے اثرات
توحیدی معاشرے میں سماجی سہولتیں سب کو حاصل ہونی چاہئیں۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کے پاس پیسہ برابر ہو۔ پیسہ برابر نہیں کرتے بلکہ موقع اور وسائل سب کو برابر سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کوئی فرد زیادہ تیز ہو اور دوسرا کاہل ہو۔ اگر کوئی زیادہ کام کرے گا تو زیادہ محنتانہ لے گا۔ اس کا محنتانہ لیکر دوسرے کو نہیں دیں گے کہ دونوں کا پیسہ برابر ہو جائے، بلکہ افراد معاشرہ کو پڑھنے، کام سیکھنے اور کام کرنے کا برابر سے موقع دیا جاتا ہے ؛ مواقع سب کو یکساں طور پر ملتے ہیں۔ معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کی تاثیر یہ ہے کہ معاشرے میں توازن اور اعتدال کی حالت ہو۔ برابری کی نہیں بلکہ توازن اور اعتدال کی حالت۔ وہ جملہ جو امیر المومنین (علیہ السلام ) نے آغاز خلافت میں ایک فریضے اور اس نقطے کے عنوان سے بیان فرمایا کہ جس کے لئے آپ نے خلافت قبول فرمائی، یہ تھا کہ وما اخذ اللہ علی العلماء ان لا یقارّوا علی کظّۃ ظالم ولا سغب مظلوم یعنی خداوند عالم نے علما اور دانشوروں کا فریضہ قرار دیا ہے کہ ستمگروں کے سیر ہونے اور مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کے بھوکے رہنے پر چین سے نہ بیٹھیں۔ یہ اسلامی اقتصادی نظام کا ایک اہم عنوان ہے اور ان مسائل کی اساس پر اسلامی اقتصادی نظام استوار ہوگا۔ یہ توازن اور اعتدال کی حالت خدا پر انسان کے ایمان کی دین ہے۔ اگر خدا نہ ہو، اگر اس عالم اور انسان کی فکر کا کوئی مالک نہ ہو، اگر انسان خود اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کریں اور جو بھی حاصل کریں اس کے مالک ہوں اور سب کچھ اپنا سمجھیں تو معاشرے کی حالت کچھ اور ہوگی۔ توحیدی معاشرے کے مالی امور میں توحیدی نظریہ جو توحیدی قرار داد کی ایک اہم شق ہے، قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وآتوھم من مال اللہ الذی اتاکم خدا نے جو دولت تمہیں عطا کی ہے وہ خدا کی ہے اس کو ضرورتمندوں کو ان کی ضرورت اور حاجت کے لحاظ سے دو۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے، سب خدا کا ہے۔ انسان صرف امانتدار ہیں ( دولت انہیں امانت کے طور پر دی گئی ہے) المال مال اللہ جعلھا ودایع عندالناس دولت کو خدا نے انسان کو امانت کے طور عطا کیا ہے۔ یہ توحیدی آئیڈیالوجی کا لازمہ ہے۔
معاشرے کی اخلاقیات پر توحید کے اثرات
توحیدی نظام اور معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کا انداز فکر، اپنے بھائیوں اور تمام انسانوں کے ساتھ سلوک اور اپنی ذاتی زندگی میں ان کا طرز عمل ان لوگوں سے مختلف ہوتا ہے جو مادی نظاموں میں رہتے ہیں۔ وہ خدا کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، خدا سے اپنی حاجت طلب کرتے ہیں، خدا سے محبت کرتے ہیں، خدا سے ڈرتے ہیں، خدا کی پناہ حاصل کرتے ہیں، خود کو خدا کا بندہ سمجھتے ہیں، بندگان خدا کے لئے محبت و ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں، بندگان خدا پر ظلم نہیں کرتے، ان سے حسد نہیں کرتے، ان کو لالچ کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور تمام اچھی اخلاقی صفات جن کا اخلاقیات کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے، خدا پر ایمان کا نتیجہ ہے اور اسلامی اخلاقیات کی بنیاد اور ستون ، ایمان باللہ ہے۔
اسلامی معاشرے کی تعمیر میں توحیدی نظریئے کے اثرات
اسلام کے سماجی مسائل میں ایک قابل توجہ اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر توجہ اسلام کے تمام سماجی مسائل میں انسان کی مدد کر سکتی ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی فکر اور اسلامی نیز توحیدی اعتقاد اسلامی معاشرے کے سماجی اور عمومی ڈھانچے کی تعمیر میں کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں، ان کا سماجی پیکر ان لوگوں سے کیا فرق رکھتا ہے جو خدا پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ کیا خدا پر اعتقاد صرف یہ ہے کہ لوگ دل اور زبان سے خدا کو قبول کر لیں اور انفرادی اعمال جیسے نماز، روزہ، سچ بولنے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے اور ذاتی امور میں خدا کو مد نظر رکھنے کے پابند بن جائیں ۔ اب چاہے وہ جس معاشرے میں بھی، جس شکل میں بھی اور جس نظام میں بھی زندگی گزاریں، کوئی حرج نہیں ہے یا نہیں بلکہ خدا پر اعتقاد، موحد انسانوں اور خدا پر اعتقاد رکھنے والوں کی عام زندگی میں متجلی ہونا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا پر اعتقاد صرف انسان کے دل اور ذہن میں ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ خدا پر اعتقاد کا مطلب ایسی دنیا کی تعمیر ہے جو اس اعتقاد کے مطابق ہو۔ توحید پر عقیدہ اور خدا پر اعتقاد، موحد اور مسلمان معاشرے کے نظام حکومت میں بھی، اس معاشرے کی اقتصادی راہ و روش میں بھی اور معاشرے کے ایک ایک فرد کی اخلاقیات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جس معاشرے کے لوگ خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس معاشرے میں توحیدی مکتب فکر کی حکومت ہونا چاہئے۔ یعنی مکتب اسلام، اسلامی شریعت اور اسلامی احکام و قوانین کو لوگوں کی زندگی پر حکمفرما ہونا چاہئے اور معاشرے میں ان احکام کو نافذ کرنے والے کی حیثیت سے وہ سب سے زیادہ لائق اور مناسب ہے جس میں دو بنیادی اور نمایاں صفات پائی جاتی ہوں۔ اول یہ کہ وہ ان احکام کو، شریعت اسلام کو اور فقہ اسلام کو سب سے بہتر جانتا ہو اور احکام الہی اور قوانین اسلام سے پوری طرح واقف ہو۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ تعلیمات و احکام الہی سے واقف یہ شخص اس بات پر قادر ہو کہ خود کو گناہ، عمدی خطاؤں اور عمدی انحراف سے محفوظ رکھ سکے۔ یعنی وہ چیز جس کو اسلامی ثقافت میں عدالت کی صفت کہا جاتا ہے۔
اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد
اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد توحیدی نظریہ کائنات ہے۔ اصول توحید اپنے ظریف اور دقیق معانی کی گہرائیوں کے ساتھ انسان کے آزاد ہونے کا ضامن ہے۔ یعنی جو بھی وحدانیت کا معتقد ہے اور توحید کو قبول کرتا ہے، اسے چاہئے کہ انسان کو آزادی دے۔ تمام پیغمبروں کی پہلی بات یہ تھی کہ خدا کی اطاعت کرو اور طاغوت اوران لوگوں سے جو غیر خدا ہیں اور انسان کو غلام اور اسیر بنانا چاہتے ہیں، ان سے اجتناب کرو۔ ان اعبدواللہ واجتنبو الطاغوت (یعنی اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو) بنابریں اسلامی آزادی توحید پر استوار ہے۔ روح توحید یہ ہے کہ غیر خدا کی بندگی کی نفی ہو۔ اسلام میں آزادی کی بنیاد انسان کے ذاتی شرف اور شخصیت سے عبارت ہے جو کسی بھی غیر خدا کا بندہ نہیں ہوتا اور درحقیقت انسان کی آزادی کی بنیاد توحید اور خدا کی معرفت اور شناخت ہے۔ اسلامی ثقافت میں آزاد انسان کو غیر خدا کی اطاعت کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ غیر خدا کی اطاعت کر سکتا ہے۔
توحید، حقوق میں انسانوں کی برابری
فرمان خدا کا مفہوم، مفہوم کتاب کے علاوہ ہے۔ البتہ فرمان خدا کتاب خدا میں ہے۔ فرمان خدا، وہ ابلاغ ہے جو خدا نے بندوں کو عطا کیا ہے۔ خداوند عالم نے انسانوں کی کلی زندگی کے لئے ایک دستورالعمل دیا ہے۔ یعنی خدا ایک روش کو معین کرتا ہے جس پر انسانوں کو چلنا چاہئے۔ یہ روش کیا ہے؟ یہ روش وہی چیز ہے جس کی پیغمبران خدا شروع سے آخر تک دعوت دیتے رہے ہیں، وہی چیز جو اصول اسلام سے حاصل ہوتی ہے یعنی انسان کا احترام، حقوق فطرت اور احکام وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں کی برابری۔ تاریخ میں یہی تعلیمات ہیں جو تکامل حاصل کرتی ہیں۔ لیکن ایک روش، ایک فرمان (ہے جو خدا نے بندوں کو دیا ہے) اور ایک عہد ہے جو خدا نے اپنے بندوں سے لیا ہے۔ طاغوت کیا کرتے ہیں؟ طاغوت اس روش کو تبدیل کرتے ہیں۔ خدا توحید کی دعوت دیتا ہے یعنی یہ کہ بندے ایک دوسرے کی عبادت نہ کریں، خدا کی عبادت کریں، طاغوت آکر اس روش کو تبدیل کر دیتے ہیں، ایسا کام کرتے ہیں کہ لوگ بندوں کی عبادت کریں۔ بندے ایک دوسرے کی عبادت کریں۔ مثلا خدا لوگوں کو انسانوں کی تکریم اور انسانوں کی عزت کرنے کی دعوت دیتا ہے اور الہی تعلیمات اسی بنیاد پر استوار ہیں لیکن طاغوت، انسانوں کی تحقیر، تذلیل اور انہیں ذلیل و خوار کرنے کی بنیاد پر اپنے منصوبے تیار کرتے ہیں۔ آج مغرب کی مادی ثقافت میں لوگ اپنی زندگی میں مذہب کے خلا کا شدید احساس کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی فطرت سے جس کا عہد خدا متقاضی ہے، دور ہو گئے ہیں اور انہیں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ طاغوتی اور غیراللہ کے ذریعے بنائے گئے نظام انسان کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں کہ انسان خدا کو فراموش کر دے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کا نام اور خدا کے نام کی کوئی حقیقت نہ ہو، خدا کا نام ان کی سماعتوں میں پہنچتا ہے، حتی بعض اوقات بظاہر وہ خدا کے معتقد بھی ہوتے ہیں، لیکن خدا کے حق کو فراموش کر دیتے ہیں۔ یعنی یہ نہیں جانتے کہ معاشرے میں خدا کی جگہ کیا ہے۔
شرط نجات
نجات، وہ فلاح جو پیغمبر سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا لاالہ الا اللہ کہو تاکہ فلاح یعنی نجات پا جاؤ؛ نجات غلط فکر سے، بری باتوں سے، ان وابستگیوں، پابندیوں اور زنجیروں سے جن میں انسان کے ہاتھ، پیر، گردن اور دل جکڑے ہوئے ہیں اور ان تمام چیزوں سے نجات کے بعد، ان ظالم طاقتوں سے نجات جو انسانوں پر ستم کرتی ہیں۔ یعنی اگر کسی قوم کی فکر، ذہن، دل اور عقیدہ کامل ہو جائے لیکن ظالم، ستمگر، استعماری اور استحصال کرنے والی اور کسی ظالم نظام کی استبدادی طاقت اس پر حکومت کر رہی ہو تو اس کی نجات کامل نہیں ہے۔ مکمل نجات، دل، ذہن، طور طریقوں، معاشرے، سیاست اور معنویت کی نجات ہے۔ یہ نجات، دین توحید اور لاالہ الا اللہ کا ہدف ہے۔ موحدین کی بہشت خدا کے صالح بندوں کا سونا، کھانا پینا، بولنا تجارت کرنا، تفریح، لکھنا پڑھنا، سیاسی اور سماجی امور کی انجام دہی اور ان کی زندگی کی گوناگوں سرگرمیاں سب اسی ہدف ( خدا کی طرف آگے بڑھنے ) کے لئے ہیں۔ اس ہدف کی سمت بڑھنے سے انسان کے ارد گرد ایسی بہشت وجود میں آتی ہے جو عالم وجود کی فطری راہ میں انسان کے ارادے اور جذبات و خواہشات کی برابری اور یک رنگی سے تشکیل پاتی ہے۔ اس اسلامی، توحیدی اور معنوی زندگی میں تضاد، تناقض، تصادم اور اختلاف نہیں ہوتا۔ توحیدی نظریہ خود انسان کے باطن میں بھی ایک بہشت وجود میں لاتا ہے۔
سیاسی نظام میں توحید
توحید یعنی انسان کوغیر خدا کی عبودیت نہیں کرنی چاہئے۔ غیر خدا جو بھی ہو چاہے طاغوت ہو یا خدا کے مقابلے میں کوئی اور شئے ہو۔ لہذا ملک کے سیاسی نظام اور پیکر میں، جہاں بھی کسی امر کی اطاعت، خدا کی اطاعت ہو، صحیح ہے اور جہاں بھی غیر خدا کی اطاعت ہو، غلط ہے۔ اسلامی نظام کی بنیاد یہی ہے۔ شرک آلود افکار، یا زیادہ صحیح الفاظ میں، طاغوتی اور شیطانی، طاغوت شیطان کا ہی دوسرا نام ہے، شیطان یعنی برائیاں، بدعنوانیاں اور انحراف پیدا کرنے والی طاقت؛ طاغوت یعنی سرکش، یعنی وہی شر، بدی اور انحراف؛ طاغوتی طاقتیں یعنی طاغوتی تفکر، شیطانی تفکر، ذاتی طرزعمل، دفتری اور تنظیمی روش، سماجی طور طریقوں اور سماجی نظام کی تشکیل کی کیفیت میں اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
وسعت نظر
موحد انسان میں وسعت نظر پیدا ہو جاتی ہے۔ تنگ نظری، کوتاہ بینی اور دور اندیشی سے محرومی جیسی باتوں سے موحد انسان کو نجات مل جاتی ہے ۔ موحد انسان یہ نہیں کہتا کہ مجھے اس میدان میں شکست ہوئی یا میرے محاذ کو اس میدان میں پسپائی نصیب ہوئی اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ وہ جانتا ہے کہ توحیدی نظریہ کی قلمرو، حیات انسان ہے۔ موحد انسان کی نگاہ مادی مسائل اور پست اور حقیر ضرورتوں تک محدود نہیں رہتی۔ موحد انسان جب دیکھتا ہے تو مادی ضرورتوں کے ساتھ ہی انسان کی دسیوں، سیکڑوں عظیم ترین اور باشرف ترین ضرورتیں اس کو نظر آتی ہیں۔ اس کی فکر اور اس کے حواس پست اور حقیر ضرورتوں پر نہیں رکتے۔ موحد انسان اپنے سامنے بے انتہا وسیع مستقبل دیکھتا ہے۔ موحد، دنیا کے خاتمے کا قائل نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ دنیا کو آخرت سے متصل دیکھتا ہے۔ آخرت کو دنیا کا تسلسل سمجھتا ہے، موت کو زندگی کی دیوار نہیں سمجھتا، اس راہ کا اختتام فرض نہیں کرتا، بلکہ وسیع تر دنیا کی طرف جانے کا راستہ اور گزرگاہ سمجھتا ہے۔ یہ توحید کے خواص ہیں۔ غیر موحد انسان کتنا ہی فداکار کیوں نہ ہو، باشرف انسانی نظریات کا کتنا ہی عاشق کیوں نہ ہو، اس کے لئے موت کے ساتھ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے؛ جبکہ موحد انسان کے لئے موت ایک وسیع تر زندگی اور زیادہ دلکش اور اچھی فضا کا سرآغاز ہے۔ کوئی مادہ پرست اگر بہت فداکار ہوا تو وہ خود کو وہاں پھینکنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جو اس کی نظر میں عدم اور نابودی ہے۔ لیکن موحد انسان بہت فداکار نہ ہو، یا اس کے اندر اتنی فداکاری نہ ہو، یا وہ اتنی فداکاری نہ کرنا چاہے تو بھی اس کے لئے وہاں جانا جس کو مادہ پرست نابودی سمجھتا ہے، زیادہ آسان ہے، اس لئے کہ وہ اس جگہ کو عدم اور نابودی نہیں سمجھتا ہے بلکہ اس جگہ کو ایک دوسری جگہ اور فضا سمجھتا ہے جو انسانی زندگی کے اس علاقے سے وسیع تر ہے۔
موحد انسان کے دل سے خوف دور ہو جاتا ہے
کسی انسان پر توحید کا اہم ترین اثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں، اپنے فریضے کی انجام دہی میں اور اس چیز کے راستے میں جس کو وہ اپنا ہدف قرار دیتا ہے، دشمنوں سے نہیں ڈرتا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مومنین سے کہا جاتا ہے کہ فلا تخافوھم و خافون اپنے دل سے دوسروں کا ڈر نکال دو۔ مجھ سے ڈرو اور خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو۔ جو موحد ہوتا ہے اور اپنے پرودگار پر یقین رکھتا ہے، اس کے دل سے ڈر نکل جاتا ہے ۔ یہ ڈر اور خوف ہے جو ڈر اور خوف رکھنے والے کی دنیا و آخرت دونوں چھین لیتا ہے۔ غریب ہو جانے کے ڈر سے انسان دوسروں کی مدد کرنے سے گریز کرتا ہے، پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے ڈر سے انسان جرائم اور برائیوں میں پڑتا ہے اور ذلت و رسوائی قبول کرتا ہے، بے اعتبار زندگی کے ہاتھ سے نکل جانے کے خوف سے انسان زندگیوں کا خاتمہ کرتا ہے، سماجی زندگی کو تلخ بنا دیتا ہے یا ختم کر دیتا ہے۔
طاغوت سے موحدانہ برتاؤ
لشکر اسلام کا ایک ایلچی ساسانی فرمانروا کے محل میں داخل ہوا۔ موٹے اور کھردرے لباس میں ملبوس یہ شخص ایک بڑی سیاسی طاقت کے دربار میں داخل ہوا۔ کیا وہ ڈرا؟ اس کا ذہن پریشان ہوا؟ ہرگز نہیں۔ جب کوئی معمولی اور حقیر انسان کسی عظیم الشان طاقت کے سامنے آتا ہے تو اس کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ خود کو تھوڑا سا اس عظیم طاقت سے متصل کر لے اور ذرا سا اس کے نزدیک آ جائے، چاہے اس کے لئے چرب زبانی، خوشامد اور اظہار خوف و بندگی سے ہی کیوں نہ کام لینا پڑے۔ کیا ایسا ہوا؟ ہرگز نہیں۔ جب وہ آیا تو آگے بڑھا اور تخت کے سامنے پہنچـا اور شاید یزدگرد کے تخت پر اس نے ایک پیر رکھ دیا کیونکہ اس نے دیکھا کہ یزدگرد اس سے خط لینے کے لئے آگے نہیں آیا۔ وہ پیغام لایا تھا دوسرے لوگ آگے آئے کہ اس سے وہ پیغام لیں۔ اس نے کہا تمہیں نہیں دوں گا، خود اس کو دوں گا۔ وہ اپنی جگہ سے اس عرب سے خط لینے کے لئے نہیں اٹھا تو وہ مجبور ہوکے اس کے تخت تک گیا تاکہ خط اس کو دے۔ ایران کے بادشاہ نے پوچھا کیوں آئے ہو؟ کہا لنخرج الناس من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ ومن ضیق الدنیا الی سعۃ الدنیا والآخرۃ اس نے کہا ہم اس لئے آئے ہیں کہ لوگوں کو، خدا کے بندوں کو دنیا کی تنگ اور محدود جگہ سے نکال کے وسیع تر دنیا اور آخرت میں لے جائیں۔ یعنی اے یزدگرد، ہم اس لئے آئے ہیں کہ لوگوں کو، دوسروں کو تیری، تیرے صوبیداروں، تیرے معین کردہ حاکموں اور تیرے سرداروں کی بندگی سے آزادی دلائیں۔
زندگی میں توحیدی فرائض
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر دینی فکر اور اصول پر ایمان، پوری آگاہی و بصیرت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ فہم و شعور اور علم کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اندھی تقلید نہیں ہونی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایمان عہد و پیمان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ جس چیز پر ایمان لانا ضروری ہو وہ ایسی چیز ہونی چاہئے کہ جو انسان کی زندگی میں اس کے عمل میں، چاہے وہ عمل انفرادی ہو یا اجتماعی، چاہے اس کی ذات سے تعلق رکھتا ہو چاہے معاشرے سے متعلق ہو، چاہے انسانیت سے متعلق ہو یا مستقبل کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہو، اس کے کندھوں پر کوئي ذمہ داری اور فریضہ ڈالے اور انسان اپنے دوش پر کسی ذمہ داری کا بوجھ محسوس کرے۔ توحید ایک آگاہی اور علم ہے اور اس علم کے بعد انسان پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ توحید موحد کے کندھوں پر جو ذمہ داری ڈالتی ہے، وہ اسلامی عقائد سے عائد ہونے والی تمام ذمہ داریوں اور فرائض میں سب سے زیادہ سنگین اور موثر ہے۔ پہلا عہد اور فریضہ یہ ہے کہ عبودیت اوراطاعت صرف خدا کے لئے ہے۔ دوسرا فریضہ اور عہد جو توحید کا عقیدہ موحد کے کندھوں پر ڈالتا ہے، وہ یہ ہے کہ توحیدی معاشرہ بغیر طبقے بندی کا معاشرہ ہے۔ یہ ایسا معاشرہ ہے کہ جس میں انسانی دستے حقوق میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ سب کے حقوق مساوی ہوتے ہیں۔ سب ایک ہی راستے میں ، ایک ہی طرح کے وسائل اور سہولتوں کے ساتھ اور زندگی کے ایک ہی طرح کے حقوق کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
توحیدی تفکر کے دفاع کی آمادگی
تاریخ میں حق و باطل کے درمیان ہمیشہ لڑائی اور جنگ رہی ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو آج کے دور سے مخصوص ہو۔ اچھائی اور برائی کے درمیان جنگ، حق و باطل کے درمیان جنگ کا ہی نتیجہ ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے کہ و لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع دنیا میں کچھ انسانوں کو خدا پر توکل سے حاصل ہونے والی قوت اور اس دنیا میں موجود طاقتوں سے کام لیکر، بعض دوسرے لوگوں کو جو دنیا میں برائیاں پھیلاتے ہیں، ہٹانا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر و شر کے درمیان جنگ اور لڑائی تاریخ میں ہمیشہ جاری رہی ہے۔ ادیان و افکار الہی اور دیگر ادیان میں فرق یہ ہے کہ ادیان الہی کی نگاہ میں جنگ ایسا عمل ہے جو صرف خدا کے لئے ہے۔ بغیر سوچا سمجھا عمل نہیں ہے۔ بغیر ہدف کے اور بلامقصد عمل نہیں ہے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اسی وجہ سے رسول خدا کی ، مدینے میں اپنی حکومت کے دور میں ، دس سال میں کفار اور دشمنوں سے شاید تقریبا ستر جنگیں ہوئیں۔ ان دس برسوں میں ایک لمحے کے لئے بھی رسول خدا سکون سے نہ رہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی تمدن و ثقافت تاریخ میں ایک تحریک کے عنوان سے باقی رہی۔ بالکل واضح اور فطری ہے کہ دنیا کی طاغوتی طاقتیں اس بات کی اجازت نہیں دیں گی کہ حق ایک تحریک کے عنوان سے دنیا میں باقی رہے لہذا وہ اس کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں گی۔ اگر توحید و فکر الہی کا، اس گل معطر کا کوئی محافظ نہ رہے تو گلچینوں کے ہاتھ اس تک پہنچ کے اس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے۔ جب انسان نے اس بات پر یقین کر لیا کہ راہ خدا میں مجاہدت اور جنگ کرنا ضروری اور درحقیقت دینی اور خدائی اقدار کا دفاع ہے تو اس کے لئے اس جنگ اور مجاہدت کے مقدمات فراہم کرنا بھی فریضہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات کہ مسلمانوں کو راہ خدا میں جنگ کے لئے خود کو تیار کرنا چاہئے، قرآن میں بھی ہے: واعدوا لھم ما استطعتم دشمن کے مقابلے کے لئے، جتنی تمہارے اندر توانائی ہو اتنی تیاری کرو۔ من قوۃ ومن رباط الخیل تمام ضروری قوتوں اور طاقتوں کو آمادہ اور تیار کرنا چاہئے تاکہ اس وسیلے سے ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم خدا اور اسلامی معاشرے کے دشمن کو اپنی قوتیں اور طاقتیں مجتمع کرکے ڈراؤ اور مرعوب کرو۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ادارہ حج و زیارات کے عہدہ داروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں اس سال حج کے مناسک کی بحسن و خوبی انجام دہی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سابقہ افراد کی زحمتوں کی قدر کرتے ہوئے اس سال موسم حج میں کئے جانے والے مفید و موثر اقدامات اور انتظامات کو دائمی بنایا جانا چاہئے۔
پہلے اسٹریٹیجک افکار اجلاس میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور دیگر دسیوں مفکرین، دانشوروں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور دینی علوم کے مرکز سے وابستہ صاحب رائے افراد نے شرکت کی۔ بدھ کی رات منعقد ہونے والے اس اجلاس میں پیشرفت کے اسلامی-ایرانی نمونے کی خصوصیات، پہلوؤں اور بنیادوں کا جائزہ لیا گيا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دس آذر سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق پہلی دسمبر سن دو ہزار دس عیسوی کو ملک کے دانشوروں اور اہم ترین علمی شخصیات کے ساتھ ایک اجلاس میں ترقی کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین کے اہم ترین موضوع پر گفتگو کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے آج لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے اپنے وفد کے ساتھ ملاقات کی۔ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے لبنان کو ایک اہم اور اسرائل کے مقابلے میں پہلی صف میں کھڑا ہوا ملک قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، لبنان کو نمایاں، پیشرفتہ، خوش بخت اور پوری طرح آباد دیکھنا چاہتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی اور ایران کی مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے کمانڈر اور دیگر عہدہ داروں سے ملاقات میں افرادی قوت میں اضافے، صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے جذبے اور جدت عمل کو بحریہ کے مستقبل کے لئے بہت ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ یہ بڑا مشن مضبوط ارادوں، اچھی منصوبہ بندی اور پائيدار اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ انتظامی اقدامات کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے۔
عید غدیر اور ہفتہ بسیج کی مناسبت سے قائد انقلاب کا خطاب
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عید غدیر خم کے مبارک و مسعود موقعے اور رضاکار تنظیم (بسیج) کی تشکیل کی تاریخ چھبیس نومبر کی مناسبت سے ایک لاکھ دس ہزار رضاکاروں کے اجتماع میں غدیر کے عظیم واقعے کا حقیقی مضمون طول تاریخ میں انسانی معاشروں کے لئے سعادت بخش اور عادلانہ رہبری و امامت کی جلوہ افروزی قرار دیا
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار آذر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق پچیس نومبر سن دو ہزار دس عیسوی کو عید غدیر خم کے مبارک و مسعود موقعے اور رضاکار تنظیم (بسیج) کی تشکیل کی تاریخ چھبیس نومبر کی مناسبت سے ایک لاکھ دس ہزار رضاکاروں کے اجتماع میں غدیر کے عظیم واقعے کا حقیقی مضمون طول تاریخ میں انسانی معاشروں کے لئے سعادت بخش اور عادلانہ رہبری و امامت کی جلوہ افروزی قرار دیا
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز عید الاضحی کی مناسبت سے ملاقات کے لئے آنے والے ہزاروں لوگوں سے خطاب میں ایمان اور اقدار الہی کی پابندی کو ایرانی قوم کی کامیابی کا راز بتایا اور فرمایا کہ اس مبارک پابندی کے استحکام کے سائے میں ملت ایران تمام میدانوں میں کامیاب اور سب سے آگے رہے گی اور دشمن بدستور ناکام اور نا امید رہے گا۔
ج تیس سال پہلے کے برخلاف ، صیہونی حکومت کوئي ناقابل شکست ہیولی نہیں رہ گئی ہے۔ دو دہائی پہلے کے برخلاف امریکہ اور مغرب، مشرق وسطی کے سلسلے میں بے چون و چرا فیصلے کرنے والی قوتیں نہیں ہیں، دس سال پہلے کے برخلاف ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوسری پیچیدہ قسم کی ٹیکنالوجیاں علاقے کی مسلمان ملتوں کے لئے ان کی دسترس سے دور کوئی افسانوی چیز شمار نہیں ہوتیں؛ آج ملت فلسطین استقامت کی چیمپئن ہے ، ملت لبنان، اکیلے ہی صیہونی حکومت کی کھوکلی ہیبت کو چکنا چور کردینے والی تینتیس روزہ جنگ کی فاتح ہے اور ملت ایران بلند و بالا چوٹیوں کی طرف گامزن علمدار و خط شکن ہے ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے پیغام میں بیت اللہ الحرام کی بعض خصوصیات اور اہم صفات کا تذکرہ کیا، آپ نے مسلمانوں میں خود شناسی کی اہمیت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری کی لہر کے نتائج و ثمرات کی بات کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں صیہونی حکومت اور سامراجی محاذ کے اندر پیدا ہونے والی کمزوری کی نشاندہی کی اور ساتھ ہی امت اسلامیہ کو اس حساس دور میں اس کے اہم فرائض کی جانب متوجہ کرایا۔ پیغام کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛بسم اللہ الرحمن الرحیموالحمدللہ رب العالمین و صلی اللہ علی سیدنا محمد المصطفی و آلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو بڑا مہربان و رحیم ہے اور تمام حمد و ستائش اس اللہ سے مخصوص ہے جو تمام عالمین کا پروردگار ہے اور اللہ کی جانب سے صلوات و سلام ہو ہمارے سید وسردار حضرت محمد مصطفی اور ان کی پاکیزہ آل پر اور ان کے منتخب اصحاب پر ۔کعبہ اتحاد و عزت کا راز، توحید و معنویت کی نشانی ، حج کے موسم میں امید و اشتیاق سے معمور دلوں کا میزبان ہے جو رب جلیل کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے گوشے گوشے سے اسلام کی جائے پیدائش کی سمت دوڑ پڑے ہیں۔ امت اسلامیہ اس وقت اپنی وسعت، تنوع اور دین حنیف کے پیرؤوں کے دلوں پر حکم فرما قوت ایمانی کا خلاصہ اپنے بھیجے ہوئے افراد کی نگاہوں سے، جو دنیا کے چاروں گوشوں سے یہاں اکٹھا ہوئے ہیں، دیکھ سکتی ہے اور اس عظیم و بے نظیر سرمائے کو صحیح طور پر پہچان سکتی ہے۔یہ خود شناسی مدد کرتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو آج کل کی دنیا میں اپنے شایان شان مقام کا علم ہوسکے اور ہم اس سمت میں قدم بڑھا سکیں۔آج کی دنیا میں اسلامی بیداری کی بڑھتی ہوئی لہر وہ حقیقت ہے جو امت اسلامیہ کو ایک اچھے کل کی نوید سنا رہی ہے۔ تین دہائی قبل سے جب اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے ساتھ یہ قوی و طاقتور موج شروع ہوئی ہے ہماری یہ عظیم امت کسی توقف کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن ہے اس نے اپنی راہ سے تمام رکاوٹیں برطرف کرکے کئي مورچوں کو فتح کر لیا ہے۔ بڑی طاقتوں کی دشمنیوں اور سازشوں کی گہرائی اور بھاری اخراجات کے ساتھ اسلام کے خلاف ان کی تشہیراتی مہم کی وجہ یہی ترقیاں ہیں۔ اسلامو فوبیا کو ہوا دینے کے لئے دشمن کے وسیع پروپیگنڈے، اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ تعصبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے عجلت پسندانہ اقدامات، اہلسنت کے لئے شیعوں سے اور شیعوں کے لئے اہلسنت سے جھوٹی دشمن تراشیاں، مسلمان حکومتوں کے درمیان تفرقہ اندازی اور اختلافات کو بڑھا وا دیکر اسے دشمنیوں میں تبدیل کرنے اور ناقابل حل تنازعہ بنا دینے کی کوششیں اور نوجوانوں کے درمیان برائی اور بد تہذیبی پھیلانے کے لئے مواصلاتی وسائل اور خفیہ کارکردگی کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے استفادہ یہ تمام کے تمام سراسیمگی اور بد حواسی کے عالم میں سامنے آنے والے ردعمل ، امت مسلمہ کی بیداری اور عزت و آبرو اور آزادی و خود انحصاری کی طرف امت اسلامیہ کی متین و سنجیدہ حرکت اور محکم و استوار اقدامات سے مقابلے کے سبب ہیں۔آج تیس سال پہلے کے برخلاف ، صیہونی حکومت کوئي ناقابل شکست طاقت نہیں رہ گئی ہے۔ دو دہائی پہلے کے برخلاف امریکہ اور مغرب حکومتیں، اب مشرق وسطی کے سلسلے میں بے چون و چرا فیصلے کرنے والی قوتیں نہیں رہ گئی ہیں، دس سال پہلے کے برخلاف ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوسری پیچیدہ قسم کی ٹیکنالوجیاں علاقے کی مسلمان ملتوں کے لئے دسترسی سے دور کوئی افسانوی چیز شمار نہیں ہوتیں؛ آج ملت فلسطین استقامت کا مظہر ہے۔ ملت لبنان اکیلے ہی صیہونی حکومت کی کھوکلی ہیبت کو چکنا چور کر دینے والی تینتیس روزہ جنگ کی فاتح ہے اور ملت ایران بلند و بالا چوٹیوں کی طرف گامزن و صف شکن قوم ہے۔آج سامراجی طاقت امریکا! خود کو اسلامی علاقے کا کمانڈر سمجھنے والا، صیہونی حکومت کا اصل پشتپناہ اپنے آپ کو اس دلدل میں گرفتار پارہا ہے جسے اس نے خود افغانستان میں تیار کیا ہے۔ امریکا عراق میں ان تمام جرائم کے باعث جو اس نے اس ملک کے لوگوں کے خلاف انجام دئے ہیں، یک و تنہا ہوکر رہ گيا ہے۔ مسائل کے شکار پاکستان میں اسے ہمیشہ سے زيادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ آج اسلام مخالف مورچہ جو دو صدیوں تک اسلامی ملتوں اور حکومتوں پر ظالمانہ انداز میں حکم چلاتا آ رہا تھا اور ان کے ذخیروں کو لوٹ کھسوٹ رہا تھا اپنے اثر و رسوخ کے زوال کے ساتھ اپنے خلاف مسلمان ملتوں کی دلیرانہ مزاحمت واستقامت کا شاہد اور نظارہ گر ہے۔اس کے بالمقابل اسلامی بیداری کی تحریک روز بروز زیادہ گہری ہوتی اور پھیلتی جارہی ہے۔ ان امید افزا اور نوید بخش حالات میں مسلمان ملتوں کو چاہئے کہ ایک طرف تو ہمیشہ سے زيادہ مطمئن ہوکر اپنے مطلوبہ مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں اور دوسری طرف اپنی عبرتوں اور تجربات کی بنا پر ہمیشہ ہوشیار و خبردار رہیں ؛ یہ عمومی خطاب بلاشبہ دوسروں سے زيادہ علمائے کرام، سیاسی لیڈران، روشن فکر حضرات اور نوجوانوں کو فرض شناسی کی دعوت دیتا ہے اور ان سے مجاہدت اور پیش قدمی کا تقاضہ کرتا ہے ۔قرآن کریم آج بھی بالکل واضح الفاظ میں ہم سے مخاطب ہے : کنتم خیر امّۃ اخرجت للنّاس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ ( آل عمران/ 110)(تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے نمایاں کیا گیا ہے، تم لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو )اس عزت آفریں خطاب میں امت اسلامیہ کو پوری بشریت کے لئے (سودمند) ایک حقیقت قرار دیا گيا ہے اور اس امت کے معرض وجود میں آنے کا مقصد، انسان کی نجات اور انسانیت کی بھلائي ہے۔ ان کا ایک بڑا فریضہ بھی اچھائی کا حکم دینا برائی سے روکنا اور خدا پر پکا ایمان رکھنا ہے۔ بڑی شیطانی طاقتوں کے چنگلوں سے ملتوں کو نجات دلانے سے بڑھ کرکوئی حسنہ نہیں ہے اور بڑی طاقتوں کی غلامی اور ان پر انحصار سے بدتر کوئی برائی نہیں ہے۔ آج فلسطینی قوم اور غزہ میں محصور کر دئے جانے والوں کی امداد، افغانستان، پاکستان، عراق، اور کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی، امریکہ اور صیہونی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف مجاہدت اور استقامت، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کی پاسبانی اور اس اتحاد کو چوٹ پہنچانے والی بکی ہوئي زبانوں اور کثیف و آلودہ ہاتھوں سے پیکار اور تمام اسلامی حلقوں میں مسلمان نوجوانوں کے درمیان احساس ذمہ داری اور دینداری و بیداری کی ترویج و فروغ، بہت بڑے فرائض ہیں جو قوم کے ذمہ دار افراد کے دوش پر ہیں۔حج کا پرشکوہ منظر، ان فرائض کی انجام دہی کے لئے زمین ہموار ہونے کی نشان دہی کرتا اور ہم کو دوہرے عزم اور دوہری سعی و کوشش کی دعوت دیتا ہے۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ سید علی حسینی خامنہ ای یکم ذی الحجۃ الحرام 1431 ہجری 17/8/1389(8 / 11 / 2010)
عوام سے قلبی وابستگی اور الہی ہدف، ایرانی فوج کی اہم خصوصیتیں ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ سے متعلق شہید ستاری یونیورسٹی میں ملک کی کیڈٹ یونیورسٹیوں کے طلبہ کی حلف برداری کی چوتھی تقریب قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔ مسلح فورسز کے کمانڈر انچیف آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تقریب کے آغاز میں سب سے پہلے یونیورسٹی کیمپس میں موجود شہیدوں کی یادگار کا معائنہ کیا اور شہدا کے لئے فاتحہ خوانی اور ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس آبان تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق دس نومبر دو ہزار دس عیسوی کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ سے متعلق شہید ستاری ڈیفنس یونیورسٹی میں ملک کی کیڈٹ یونیورسٹیوں کے طلبہ کی حلف برداری کی چوتھی تقریب سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح ہزاروں طلبہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کو امریکا کی طمع اور توسیع پسندی، شاہ کی طاغوتی حکومت کے غیروں پر انحصار، بصیرت پر مبنی جذبہ ایمانی کی مضبوطی، میدان عمل میں نوجوان نسل کی پیش قدمی اور انقلابی نوجوان نسل کی شجاعت و ہمت کا آئینہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت ملت ایران ماضی کے ہر دور سے زیادہ پرعزم ہوکر اور پوری مضبوطی کے ساتھ اعلی اہداف اور سعادت بخش بلندیوں کی جانب رواں رواں اور اس عظیم تحریک میں نوجوان نسل پیش پیش ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق2010 میں سفر قم کے دوران تاریخی جمکران مسجد کے خدام سے ملاقات میں اس مسجد کے بارے میں اور وہاں خدمت گزاری کی اہمیت کے تعلق سے کچھ نکات بیان کئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس مقدس مسجد کے تعلق سے انقلاب سے پہلے کے اپنے تاثرات اور اس مسجد پر اولیائے الہی اور عرفاء کی خاص توجہ کے بارے میں بتایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ قم کے مختلف شعبوں کے حکام اور عہدہ داروں کے اجلاس سے خطاب میں عوام کی خدمت کو ایک توفیق قرار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ خدمت قم کے عوام کی مانند باایمان، مجاہد، سماجی اقدامات کے لئے جوش و جذبے سے سرشار اور امتحانوں میں پورے اترنے والے لوگوں کے لئے ہو تو یقینا اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 5 آبان سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق 27 اکتوبر سنہ 2010 عیسوی کو صوبہ قم کے مختلف شعبوں کے حکام اور عہدہ داروں کے اجلاس سے خطاب میں عوام کی خدمت کو ایک توفیق قرار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ خدمت قم کے عوام کی مانند باایمان، مجاہد، سماجی اقدامات کے لئے جوش و جذبے سے سرشار اور امتحانوں میں پورے اترنے والے لوگوں کے لئے ہو تو یقینا اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شہر قم میں صوبے کے نوجوانوں، طلبہ اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں یکتا پرستی کی آئيڈیالوجی اور رونما ہونے والے واقعات دونوں کی سطح پر بصیرت کو قومی قوت و توانائی کے تسلسل کے لئے دراز مدتی منصوبوں کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے بصیرت کے مفہوم کے انتہائی ظریفانہ نکات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے بیدار، پرجوش اور بابصیرت نوجوان اسلامی مملکت ایران کی سربلندی کی راہ میں اپنی بابرکت کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے عظیم دین اسلام، وطن عزیز، اس عظیم سرزمین کی تاریخ اور با اعظمت قوم کے لئے عزت و افتخار کے ابواب رقم کریں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 4 آبان سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق 26 اکتوبر سنہ 2010 عیسوی کو شہر قم میں صوبے کے نوجوانوں، طلبہ اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں یکتا پرستی کی آئيڈیالوجی اور رونما ہونے والے واقعات دونوں کی سطح پر بصیرت کو قومی قوت و توانائی کے تسلسل کے لئے دراز مدتی منصوبوں کی بنیاد قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کی شب قم کے دینی علوم کے مرکز کی اعلی کونسل کے ارکان سے ملاقات میں مرکز کے لئے جامع تعلیمی، تحقیقی اور تبلیغی نظام کی تدوین کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ دینی علوم کے مرکز کی ایک اہم ضرورت اسٹریٹیجک پروگرام اور منصوبہ تیار کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کی شب قم کے دینی علوم کے مرکز سے تعلق رکھنے والے ممتاز طلبہ اور اساتذہ و علمائے کرام کے اجتماع میں علم کو دینی مدارس کی حقیقی ماہیت و شناخت قرار دیا اور اس علمی ڈھانچے کی عملی پابندی کے لوازمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوالات و اشکالات کی خندہ پیشانی سے پذیرائی، رجعت پسندی سے دوری اور روشن خیالی، علمی خود اعتمادی، مخالف نظریات کے جواب میں منطقی اور دانشمندانہ طرز عمل، دینی مدارس کے لئے متعدد موضوعات، اخلاقیاتی نظام نیز دشمن کی شناخت کی ضرورت سے متعلق انتہائی اہم نکات بیان کئے۔