قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج قوم کے نام اپنے اہم ترین پیغام میں بارہ جون کے اہم ترین موقع پر عظیم و با ہنر ایرانی قوم کے پر وقار، مستحکم، سکون بخش اور تاریخ ساز تعاون اور شراکت کو خدائے حکیم کے لطف و کرم کا آئینہ اور بے مثال و مبہوت کن کارنامہ قرار دیا اور پر جوش انتخابات میں ملت ایران کے سیاسی شعور، انقلابی عزم اور شہری صلاحیتوں کے مظاہرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات میں اسی فیصد سے زائد رائے دہندگان کی شرکت اور منتخب صدر کو دو کروڑ چالیس لاکھ ووٹ ملنا ایک حقیقی جشن سے عبارت ہے کہ دشمن بدخواہوں کو اکسا کر جس کی جاذبیت اور شیرینی سے ملت ایران کو محروم کر دینا چاہتے ہیں بنابریں عوام بالخصوص نوجوان طبقہ پوری طرح ہوشیار رہے۔ منتخب امیدوار اور دیگر محترم امیدواروں کے حامی اشتعال انگیز اور ایک دوسرے کے سلسلے میں بد گمانی پر مبنی باتوں اور عمل سے پرہیز کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج دسویں صدارتی انتخابات اسی طرح ماہرین کی کونسل کے وسط مدتی انتخابات کے لئے پولنگ کا صبح آٹھ بجے آغاز ہوتے ہی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ آپ نے حسینیہ امام خمینی میں موبائل بیلٹ باکس نمبر ایک سو دس میں اپنا ووٹ ڈالا۔ آپ نے اس موقع پر فرمایا کہ انتخابات ملک کے سیاسی میدان میں عوام کی پر جوش اور فعال موجودگی و شراکت اور اہم قومی آزمائش کا مظہر ہے۔
بارہ جون دو ہزار نو کو ملک میں ہونے والے دسویں صدارتی انتخابات کے بعد جب دارالحکومت تہران میں انتخابی نتائج کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور مغربی سیاسی و تشہیراتی حلقوں نے اپنی منصوبہ بند چالیں تیز کر دیں تو غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہونے لگی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کی بیسویں برسی پر مختلف عوامی طبقات کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اسلام کے احیاء اور ایران و ایرانی تشخص کو پروقار بنا دینے کو امام خمینی کی تاریخی تحریک کے دو اہم پہلو قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کی ترقی و سربلندی کے عمل کو مختل کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تمام عوام اور نظام، اسلام اور ملت ایران کی قوت و استحکام سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بارہ جون کے انتخابات میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چودہ خرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق چار جون دو ہزار نو عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سامراج کی مخالفت کے قومی دن یعنی تیرہ آبان مطابق چار جون سے ایک روز قبل بارہ آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تین جون دو ہزار نو کو شہدا کے خاندانوں اور طلبا کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بیسویں برسی کے پروگراموں کی منتظمہ کمیٹی کے اراکین سے ملاقات میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو اسلام کا مظہر اور قومی خود مختاری و عزت و یکجہتی کا راز قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ امام خمینی کی اس عظیم میراث کی پوری توانائی سے حفاظت و پاسداری کرنا چاہئے اور الہی عطئیے کا درجہ رکھنے والے ان کے ذکر کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہر زاہدان کے دہشت گردانہ سانحے پر اپنے تعزیتی پیغام میں مسلمانوں کے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے اور بردر کشی کا بازار گرم کرنے کوششوں کے لئے بعض مداخلت پسند طاقتوں کے سیاسی منصوبہ سازوں اور ان کے خفیہ اداروں کو ملوث قرار دیا اور عوام اور حکام کو قومی و اسلامی اتحاد کی حفاظت کے ساتھ دشمنوں کی سازشوں کی جانب سے ہوشیار رہنے اور ان پر پوری توجہ رکھنے کی ہدایت کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام کے وقار اور پیش رفت کو شہدا کے خون کی برکت قرار دیا۔قائد انقلاب اسلامی نے آج صبح انقلاب اور اسلام کی راہ میں دو یا اس سے بیشتر شہیدوں کی قربانی پیش کرنے والے خاندانوں کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا: ملت ایران ہمیشہ شہدا کے خون اور ان کے خاندانوں کی مرہون منت رہے گی۔ آپ نے عراق کی بعثی حکومت کے قبضے سے خرم شہر کی آزادی کی تاریخ تین خرداد مطابق چوبیس مئی کو یادگار تاریخ قرار دیا اور اس عظیم کامیابی کو ایمان اور اسلام پر عمل آوری کا نتیجہ بتایا۔ آپ نے فرمایا: اسلامی نظام کی بقا و پائیداری کا بنیادی عامل اسلام ہے اور یہ نظام جس طرح اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اسی کی معیت میں زندہ و پائندہ رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتوار کی شام پاکستان اور افغانستان کے صدور سے ملاقات میں ایران پاکستان اور افغانستان کے سہ فریقی سربراہی اجلاس کو تینوں ملکوں کی اہم ترین ضرورت قرار دیا اور فرمایا: میں سہ فریقی اتفاق رای کی بھرپور حمایت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تینوں ملکوں کے صدور کی صداقت اور کوششوں سے معاہدے ثمر بخش ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چوبیس مئی دو ہزار نو کو تہران میں دو یا اس سے زیادہ شہدا کا داغ اٹھانے والے خاندانوں سے ملاقات کی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے لئے شہدا کی قربانیوں اور ان کے اہل خاندان کے صبر و ضبط کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے آٹھویں اور آخری دن آج صبح سقز کے علاقے کے شجاع عوام کے پر شکوہ اجتماع سے خطاب کیا۔ کردستان کے اس علاقے کے عوام آپ کی آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ آپ نے اپنے خطاب میں صوبے کے عوام کی بیداری و ہوشیاری کی تعریف کی اور فرمایا: اس سفر کے دوران اسلام اور اسلامی نظام سے کرد عوام کی وفاداری بڑی خوبصورت حقیقت کے طور پر ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کے دوستوں اور دشمنوں سب کے سامنے نمایاں ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے دورے کے آخری دن منگل انتیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق انیس مئی دو ہزار نو کو شہر سقز کے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے دورے کے ساتویں دن آج بیجار علاقے کے پاکیزہ صفت اور باایمان عوام کے پر شکوہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد، شراکت اور آگاہی کو ملت ایران کی پیشرفت، قدرت اور ہیبت کو یقینی بنانے والے تین بنیادی عناصر قرار دیا۔ آپ نے صدارتی انتخابات میں قوم کی آگاہانہ شرکت کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایسے لوگوں کو اقتدار میں پہنچائیے جو امام (خمینی رہ) کے بتائے ہوئے راستے، آپ کی اقدار اور اصولوں کے پابند ہوں اور دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کے خلاف استقامت کو اقدار کا درجہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اٹھائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھارہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے شہر بیجار میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ کردستان کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبا اور اساتذہ کے اجتماع سے خطاب میں حقیقی ترقی کے معیار اور خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے دانشوروں، علمی شخصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کو تحقیق و مطالعے اور قومی و مقامی آئيڈیل وضع کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے فرمایا: انقلاب کے چوتھے عشرے میں ترقی و انصاف کو قومی اشو میں تبدیل ہو جانا چاہئے تاکہ منصوبہ بندی اور قومی آئيڈیل کے تعین سے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی عظیم قوم اس عشرے کے اختتام تک اس سلسلے میں فیصلہ کن اقدامات کا مشاہدہ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتوار کی شام صوبہ کردستان کے مختلف اداروں کے عہدہ داروں سے ملاقات میں اسلامی خطوں میں عوام کی خدمت کو انسانی اقدار کا جز قرار دیا اور قدرداں ملت ایران کی بے تکان خدمت کو ملک کے تمام حکام اور عہدہ داروں کا فریضہ بتایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کردستان کے عوام کی خدمت کو مختلف جہات سے ثواب کا کام قرار دیا اور فرمایا: صوبہ کردستان میں حکام کی محنت کی بہت زیادہ ضرورت اور ان دشوار حالات کی وجہ سے جو اسلامی نظام کے دشمنوں نے اپنے آلہ کار گروہوں کے ذریعے علاقے کے عوام اور ان کے خدم گزار حکام کے لئے پیدا کر دئے اس صوبے کے عوام کی خدمت کا ثواب زیادہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم ربانی حضرت آيت اللہ بہجت کے انتقال پرملال پر اپنے تعزیتی پیغام میں فقیہ بے بدل اور عارف بے نظیر کی رحلت کو نا قابل تلافی خسارہ قرار دیا اور اس مصیبت عظمی پر حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ، بزرگ علمائے کرام، مراجع تقلید، آپ کے معزز بازماندگان اور جملہ عقیدت مندوں کے لئے صبر جمیل کی دعا کی۔ تعزیتی پیام کے متن مندرجہ ذیل ہے:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے پانچویں دن آج ہفتے کی صبح مریوان علاقے کے مومن، شجاع اور محبتی عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قومی وقار کو ملت ایران کے درخشاں مستقبل کا بہت موثر عنصر قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ تابناک مستبقل نوجوانوں کا ہے جو اسلام پسندی، قومیت اور علاقائیت کے نسخے پر عمل اور اغیار کے نسخے سے اجتناب کے ذریعے یقینی بن سکتا ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مریوان کے زاگرس اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والے اجتماع سے خطاب میں، ملت ایران کی تحقیر پر کمربستہ اغیار سے مقابلے کو قومی وقار کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا: اس عظیم سرزمین کے دشمن، اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت و ترقی کو پسند نہیں کرتے، بنابریں اغیار کی جانب سے پیش کردہ ہر نسخہ قومی مفادات کے منافی اور ملک کی تعمیر و ترقی، خود مختاری و آزادی اور عزت و وقار کے خلاف ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران چھبیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق سولہ مئی دو ہزار نو کو شہر مریوان کا دورہ کیا اور شہر کے عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقامی افراد کی صفات و خصوصیات بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کی کی ترقی کے لئے منظور شدہ تجاویز اور پروگراموں پر سنجیدگی سے عملدرآمد اور صوبے کی ترقی کے عمل کو سرعت بخشنے پر تاکید کی۔ جمعہ کی شب نائب صدر، کابینہ کے اراکین، صوبہ کردستان کے گورنر، صوبے میں ولی فقیہ کے نمایندے ، پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی اور ماہرین کی کونسل میں صوبے کے نمایندوں کے ساتھ قائد انقلاب اسلامی کا ایک اجلاس ہوا جس میں آپ نے منظوری پانے والے پروگراموں اور تجاویز پر عملدرآمد کو نہایت ضروری اور اہم قرار دیا۔
صوبہ کردستان کے ادبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، معاشی، علمی اور دیگر شعبوں کی برجستہ شخصیات اور دانشوروں کے ساتھ قائد انقلاب اسلامی کی ایک نشست ہوئی جس میں صوبے کے دانشوروں اور علمی شخصیات نے مختلف مسائل کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات پیش کئے۔ آج صبح تین گھنٹے تک چلنے والی اس نشست میں دانشور طبقے نے اپنی اپنی تجاویز بھی بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے تیسرے دن جعمرات کی شام کردستان، کرمانشاہ اور مغربی آذربائیجان صوبوں کے قبائلی عمائدین اور برجستہ شخصیات سے ملاقات کی۔ آپ نے اس ملاقات میں قبائل کو اسلام، انقلاب اور ایران کے قابل فخر وفادار سپاہیوں اور شجاع، مومن و غیور محافظوں سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے عوام اور حکام کی ہوشیاری و بیداری اور اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں درخشاں مستقبل عظیم ملت ایران کا مقدر بن چکا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے چوبیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق، چودہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران صوبے کی علمی شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے اجتماع سے خطاب کیا
قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صوبہ کردستان میں مسلح فورسز کی مشترکہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سکیورٹی اور قوم کی عام زندگی میں امن و سکون کی فضا کی ضمانت کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کے وجود کا فلسفہ قرار دیا اور ملت ایران کے وقار کے بنیادی عامل کے طور پر قوم بالخصوص مسلح فورسز کی آمادگی کے تسلسل اور تقویت کی نشاندہی کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ کردستان کے علماء و دینی طلبا سے ملاقات میں افکار کی منتقلی کے ذرائع کی پیشرفت اور پیچیدگی اور ایران میں اسلامی حکومت کے وجود کو عصر حاضر کی دو اہم خصوصیات قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: علما اور دینی شخصیات کو چاہئے کہ حالات کی مکمل شناخت اور ان دونوں خصوصیات پر توجہ اور ان سے استفادے کے ذریعے حق و عدل کے قیام اور ظلم و فتنہ و فساد کے خاتمے کے اپنے نہایت سنگین فریضے پر عمل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان میں بدھ تیئيس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تیرہ مئی دو ہزار نو عیسوی کو مسلح فورسز کی ایک مشترکہ تقریب سے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام میں مسلح فورسز کے خاص کردار کی وضاحت کی اور ساتھ ہی دشمنوں کی سازشوں اور سرگرمیوں کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار اور جوابی کاروائی کے لئے تیار رہنے کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے صدر مقام سنندج میں آزادی اسکوائر پر عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب میں شہر میں اپنے شاندار استقبال پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور صوبے کے مہذب اور با ایمان عوام کی استقامت و ہوشیاری اور مجاہدت و جاں نثاری کو سراہا۔ آپ نے قومی وقار کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اہل اور با صلاحیت امیدواروں میں سے سب سے صالح ترین اور بہترین صدر کے انتخاب کے معیار بیان فرمائے۔
اسلام و انقلاب اور ایران کے مستحکم قلعے کردستان میں آج قائد انقلاب اسلامی کا شاندار اور پر جوش خیر مقدم ہوا۔ علاقے کے مومن، غیور، محبتی اور اعلی ثقافت کے مالک عوام نے اسلامی انقلاب اور قوم کے اعلی اہداف کے دفاع کے سلسلے میں با برکت شیعہ سنی اتحاد کی بڑی خوبصورت تصویر پیش کی جو کردستان کی تاریخ میں بے نظیر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج شام سنندج کے قبرستان بہشت محمدی میں کردستان کے مظلوم و دلاور شہدا کو یاد کیا اور ان کے لئے فاتخہ خوانی و ان کے درجات کی بلندی کی دعا کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج شام صوبہ کردستان کے شہدا کے بازماندگان اور جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جانبازوں سے ملاقات میں معاشرے کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو شہدا کی یاد تازہ رکھنے اور ایمانی، عقیدتی و ثقافتی حدود پر دشمن کے نرم حملوں کی جانب سے ہوشیار رہنے کی دعوت دی۔قائد انقلاب اسلامی نے شہادت کی خوشبو کو پورے ایران میں بسی شمیم بہشتی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ صوبہ کردستان کے شہدا دیگر شہیدوں سے زیادہ مظلوم ہیں، اسی طرح ان کے خاندانوں نے اپنے عزیزوں کا فراق برداشت کرنے کے ساتھ ہی انقلاب مخالف سیاسی و نفسیاتی دباؤ کا بھا مقابلہ کیا اور دشمنوں اور ان کے آلہ کاروں کو رسوا کرکے ملت ایران کے عظیم الہی امتحان میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بارہ مئی سن دو ہزار نو عیسوی کو صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران صوبے کے شہدا کے خاندانوں اور مسلط کردہ جنگ میں ملک کے دفاع کے لئے جان کی بازی لگا دینے والے ایثار پیشہ افراد سے ملاقات میں شہادت کے بلند مرتبے کو بیان کیا اور ساتھ ہی کردستان کے شہدا اور ان کے خاندانوں کو ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مظلوم اور ستم رسیدہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بارہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے دورے کے موقع پر شیعہ سنی، علما و طلبہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔
اختصار سے بیان کیا جائے تو ولایت سے مراد یہ ہے کہ اسلام، نماز، روزہ، زکات، ذاتی اعمال اور عبادات ہی کا نام نہیں ہے۔ اسلام ایک سیاسی نظام بھی رکھتا ہے جس کے تحت اسلامی قوانین کے تناظر میں حکومت کی تشکیل کا نظریہ موجود ہے۔ اسلام حکومت کو ولایت کا نام دیتا ہے اور جو شخص حکومت کا سربراہ ہے اسے والی، ولی اور مولا کہتا ہے جو لفظ ولایت کے ہی مشتقات ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں حکومت کو ولایت کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں حاکم کا عوام سے محبت آمیز، جذباتی و فکری و عقیدتی رشتہ ہوتا ہے۔ جو حکومت کودتا اور بغاوت کا نتیجہ ہو جس میں حاکم کا عقیدہ و نظریہ عوام کے نزدیک قابل قبول نہ ہو اور حاکم عوام کے احساسات و جذبات کو درخور اعتنا نہ سمجھتا ہو، جس حکومت میں حکام آج کل کے حکمرانوں کی مانند مخصوص قسم کے وسائل و اسباب سے بہرہ مند ہو اور اس کے لئے دنیوی آسائشوں سے بھری مخصوص جگہ آراستہ کی گئی ہو اور جو حکمراں کے لئے شرط کا درجہ رکھنے والی خصوصیات و کمالات کی بنا پر نہیں بلکہ وراثت کی بنیاد پر حاکم بن گیا ہو وہ نہ تو ولی ہے اور نہ اس کی حکومت ولایت کہلائے گی۔ ولایت عبارت ہے اس حکومت سے جس میں عوام اور حکام کے درمیان، فکری، عقیدتی اور جذباتی رابطہ اور محبت کا رشتہ ہو، جس میں عوام حاکم سے جڑے ہوں اس سے قلبی وابستگی رکھتے ہوں اور حاکم بھی اس سیاسی نظام اور فرائض کو الہی عطیہ اور خود کو اللہ تعالی کا بندہ سمجھتا ہو۔ ولایت میں غرور و تکبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ولایت کا اطلاق اس وقت ہوگا جب والی یا ولی کے ساتھ عوام کا نزدیکی محبت آمیز رشتہ ہو۔ یعنی والی خود عوام کے درمیان سے آئے اور ولایت و حکومت کی باگڈور سنبھالے۔ جس نظام حکومت کا تعارف اسلام نے کرایا ہے وہ آج کل رائج جمہوری نظاموں سے کہیں زیادہ عوام پسندی پر مبنی ہے۔ یہ نظام عوام کے دلوں، افکار و نظریات، احساسات و جذبات، عقائد و اقدار اور فکری احتیاجات سے جڑا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت عوام کی خادم ہوتی ہے۔ اسلام میں حاکمیت کے نظرئے کی بنیاد یہی ہے۔ ولایت یعنی اسلامی معاشرے کی سرپرستی۔ یہ طرز حکومت دیگر معاشروں کی حکومتوں سے مختلف و متفاوت ہے۔ اسلام میں معاشرے کی سرپرستی کے مسئلے کا تعلق اللہ تعالی سے ہے۔ کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے انسانوں کے امور کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے۔ یہ حق اللہ تعالی کی ذات سے مختص ہے جو تمام انسانوں کا خالق، ان کی مصلحتوں سے واقف اور ان کے جملہ امور کا مالک ہے۔ بلکہ وہ تو عالم ہستی کے ایک اک ذرے کے تمام امور کا مالک ہے۔ کوئی بھی طاقت، کوئی بھی شمشیر، کوئی بھی دولت اور کوئی بھی علمی ملکہ کسی کو بھی یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ دیگر انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرے۔ اللہ تعالی اس ولایت و حکومت کے نفاذ کے لئے اپنے خاص ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔ جب اسلامی حاکم کا انتخاب نص کے ذریعے جیسا کہ ہم حضرت امیر المومنین اور بقیہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں، انجام پایا ہو یا معین کردہ معیاروں کے مطابق عمل میں آیا ہو اور اسے عوام کے امور کا انتظام سونپ دیا جائے تو یہ ولایت، ولایت الہی کہلائے گی۔ یہ حق الہی اور خدائی اقتدار ہے جو عوام پر نافذ ہوا ہے۔ اگر کوئی ولایت الہی اور خدائی اقتدار کو تسلیم نہ کرے تو اس کی حکومت کیسی بھی ہو عوام پر حکمرانی کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ نکتہ بھی اسلامی معاشرے کی تقدیر کے سلسلے میں بڑا اہم اور حیاتی ہے۔ولایت الہی کی خصوصیات میں ، قدرت، حکمت، انصاف اور رحمت شامل ہیں۔ جو شخص اور سسٹم عوام کے امور کا نظم و نسق سنبھالتا ہے، اسے الہی قدرت و حکمت، انصاف و مساوات اور رحمت و عطوفت کا مظہر ہونا چاہئے۔یہ خصوصیت، اسلامی اور غیر اسلامی سماجوں کے درمیان خط فاصل کا درجہ رکھتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف، علم و دانش، دین و مذہب اور رحمت و عطوفت کا بول بالا ہونا چاہئے۔ یہاں کوئی خود غرض انسان حاکم نہیں بن سکتا، ھوی و ہوس کی حکمرانی نہیں ہو سکتی۔اگر مدنی معاشرے سے مراد مدینۃ النبی کا معاشرہ ہے تو ولی فقیہ اس معاشرے میں تمام امور کا مالک ہے۔ کیونکہ مدینۃ النبی میں دین کی حکومت ہے، ولایت فقیہ بھی اسی طرح کسی ایک شخص کی حکومت کا نام نہیں ہے بلکہ معینہ معیار کی حکومت ہے۔ کچھ معیار معین ہیں۔ جو بھی ان معیاروں پر پورا اترے گا وہ معاشرے میں ان فرائض کی انجام دہی کر سکتا ہے جو ولی فقیہ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔ اگر مدنی معاشرے سے مراد، جمہوری معاشرہ ہے تو وہ ایسا معاشرہ ہوگا جس میں قانون کی بالادستی ہو۔ ایسے معاشرے میں بھی ولی فقیہ کو وہی قانونی مقام حاصل رہے گا۔ یعنی یہاں عوام کے بالواسطہ انتخاب سے معیاروں پر اسے تولا جائے گا۔ جیسے ہی اس میں کوئی معیار زائل ہوا اسے معزول کر دیا جائے گا۔ پالیسی سازی کے عمل میں ولی فقیہ بنیادی کردار کا حامل ہے، تاہم اجرائی امور میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے آئین کی رو سے ولایت فقیہ کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کے ذمہ دار افراد کے اختیارات اور ذمہ داریاں سلب کر لی جائیں۔ ملک کے مختلف اداروں اور عمائدین کے فرائض ان سے کوئی بھی سلب نہیں کر سکتا۔ نظام حکومت میں ولی فقیہ کا مقام انجینئر کا ہوتا ہے جو اس کی درست پیشرفت پر نظر رکھتا ہے اور اسے دائیں بائیں کج نہیں ہونے دیتا۔ ولایت فقیہ کا یہی بنیادی مفہوم و معنی ہے۔ بنابریں ولایت فقیہ نہ تو محض علامتی عہدہ ہے چونکہ بسا اوقات اس کی جانب سے اہم سفارشات آتی ہیں، اور نہ ہی حکومتی امور میں اجرائی رول ادا کرتا ہے کیونکہ ملک میں اجرائی، عدالتی، اور قانون سازی کے امور کے لئے حکام معین کئے گئے ہیں جنہیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرنا اور جواب دہ ہونا ہے۔ اس پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے سسٹم میں ولایت فقیہ کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ گوناگوں کوششیں اور کارکردگی نظام کی پش قدمی کے عمل کو اہداف اور اقدار سے منحرف نہ کر دیں، اس میں دائیں یا بائيں کجی نہ پیدا ہو جائے۔ اعلی اہداف کی جانب نظام کی پیشرفت پر نظر رکھنا اور اس کی صیانت و حفاظت ولی فقیہ کی سب سے بنیادی اور اہم ذمہ داری ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسلام کے سیاسی باب اور دین کی تعلیمات کے اندر سے اس کردار کو اخذ کیا۔ اسی طرح تمام ادوار میں شیعہ فقہ کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ ہمارے فقہا نے یہ کردار دین کے اندر سے اخذ کیا اور وہ اس کے معترف بھی رہے۔ اسلام میں انسانوں پر صرف وہی حاکمیت اور حکمرانی قابل قبول ہے جس کا تعین اللہ تعالی نے کیا ہو۔ وہی ولایت قابل اتباع ہے جس کی توثیق صاحب شریعت کی جانب سے ہوئی ہو۔ صاحب شریعت کی جانب سے توثیق کے معنی یہ ہیں کہ ولایت کے ہر درجے کے لئے اس کی مخصوص اہلیت یعنی عدالت و تقوی ضروری ہے، نیز عوامی مقبولیت بھی لازمی ہے۔ یہ مذہبی جمہوریت کے اصول ہیں جو بڑے مستحکم اور با معنی ہیں۔ بعض افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ (اسلامی جمہوریہ ایران کے) آئین میں فقیہ کی ولایت مطلقہ کی بات کہی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ولی فقیہ مطلق العنان ہے، جو چاہے کرے۔ ولایت مطلقہ کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں۔ ولی فقیہ کو پوری باریک بینی اور توجہ سے قانون کا اتباع کرنا ہوتا ہے، ولی فقیہ کے لئے قانون کا احترام لازمی ہوتا ہے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکام اور امور مملکت کے ذمہ داران قانون پر عمل آوری کے سلسلے میں بعض اوقات مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ قوانین بھی تو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں نا! ایسے مواقع کے لئے آئين نے راہ حل تجویز کی ہے کہ امور مملکت کے ذمہ داران کو مالیاتی قانون، خارجہ پالیسی، تجارتی، صنعتی یا تعلیمی شعبے میں مشکلات در پیش ہوں اور انہیں کوئی راستہ نظر نہ آ رہا ہو تو ایسی صورت حال میں ولی فقیہ سے رجوع کیا جائے۔ ولی فقیہ، صدر جمہوریہ، وزراء اور اراکین پارلیمنٹ سب قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔ جس اسلامی معاشرے میں ولایت ہوتی ہے اس کے تمام اجزاء اور شعبے ایک دوسرے سے اور اسی طرح معاشرے کے مرکزی نقطے یعنی ولی فقیہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی وابستگی اور اتصال کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اندر سے متحد اور ایک دوسرے سے متصل ہوتا ہے۔ یہ معاشرے بیرونی دنیا میں بھی اپنے ہم خیالوں کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور دشمنوں کو زوردار ٹکر دیتا ہے۔ ولایت یعنی پارسا انسانوں کی حکومت، ایسے انسانوں کی حکمرانی جو خواہشات اور شہوت نفسانی کے مخالف ہوتے ہیں، جو نیکیاں انجام دیتے ہیں۔ اسلامی ولایت سے مراد یہ چیز ہے۔ کون سا ملک اور کون سی قوم ہے جو اس کی خواہاں نہ ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح ملک کے ہزاروں اساتذہ، نرسوں اور مزدوروں سے ملاقات میں ان تینوں طبقات کو معاشرے کے سب سے با اثر طبقات میں شمار کیا اور ملک کے مختلف انتظامی سطح کے عہدہ داروں کے انتخاب میں عوام کے بے مثال اور فیصلہ کن کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات کو غیر قابل اعتبار قرار دینے کی دشمنوں کی سازشوں کے باوجود عظیم ملت ایران صدارتی انتخابات میں پر جوش شرکت کرکے ایسا انتخابی منظر پیش کرے گی کہ دشمن خشمگیں ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نو اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق انتیس اپریل دو ہزار نو کو یوم محنت کشاں، یوم استاد اور نرس ڈے کی مناسبت سے تینوں طبقوں سے اپنی ملاقات میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کیا۔
فن و ہنرفن و ہنر خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، الہی عطیہ ہے۔ حالانکہ فن اپنے طرز اظہار میں نمایاں ہوتا ہے لیکن فن کی حقیقت یہی نہیں ہے بلکہ اظہار سے قبل بھی ایک فنکارانہ احساس و ادراک ہوتا ہے جو در حقیقت سب سے بنیادی شئ ہے۔ جب ایک حقیقت، لطافت اور خوبصورتی کا ادراک ہو جاتا ہے تب ایک فنکار اس ادراک کے سہارے ایسے ہزاروں ظریف و لطیف نکات اپنے فنکارانہ ذوق اور ہنرمندانہ احساس کے ذریعے وجود میں لاتا ہے جن میں کسی ایک نکتے کا بھی فہم و ادراک عام آدمی کے لئے ممکن نہیں۔ اسے کہتے ہیں حقیقی فن و ہنر جس کا سرچشمہ ایک ادراک ایک رد عمل اور ایک اظہار ہے۔ در حقیقت فن ایک عطیہ الہی اور بڑی با افتخار حقیقت ہے۔ فطری سی بات ہے کہ دیگر ثروتوں کی مانند جس شخص کو اللہ تعالی اس دولت سے نواز دیتا ہے اسے اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا ہوتی ہیں۔ یعنی الہی عطیہ ہمیشہ اپنے ساتھ کچھ فرائض بھی لیکر آتا ہے۔ فن ایسی دولت نہیں جسے محنت و مشقت کے ذریعے حاصل کر لیا جائے، جب تک آپ کے اندر وہ مخصوص فنکارانہ استعداد نہ ہوگی آپ کتنی ہی محنت کر لیجئے، ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ یہ استعداد آپ کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ تو خداداد شئ ہوتی ہے۔ آپ کو ساری نعمتیں اللہ تعالی عطا کرتا ہے، اب ممکن ہے کہ اس کا ذریعہ معاشرہ، ماں باپ، ماحول یا دیگر چیزیں بن جائیں۔ محنت و کد و کاوش کی توفیق اور موقع بھی اللہ تعالی ہی سے آپ کو ملا ہے جس کی بنا پر آپ اپنی فنکارانہ صلاحیت کو نکھار پانے میں کامیاب ہوئے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ فرض شناس فن کی ترکیب کے دونوں لفظ بہم متضاد ہیں۔ یعنی فن وہ چیز ہے جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ہوتی ہے جبکہ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ایک قید و بند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان دونوں چیزوں میں مطابقت کیونکر پیدا ہو سکتی ہے؟! یہ ایک نظریہ ہے جو صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک فنکار کی فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کا سوال ہے تو اس کا تعلق اس کے انسان ہونے سے ہے۔ کوئی بھی ہو فنکار ہونے سے پہلے وہ ایک ا نسان ہے اور انسان بے حس اور غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ ایک انسان کا اولیں فریضہ دیگر انسانوں کے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ یوں تو زمین و آسمان اور قدرت و جہان کے سلسلے میں بھی انسان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری دیگر انسانوں کے تعلق سے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک فنکار اپنی خصوصیات کی بنا پر کچھ اور ذمہ داریوں کا بھی احساس کرتا ہے۔ فنکار کے سامنے اپنے فن کی شکل و پیکر اور اسی طرح اس کے مضمون کے سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ہو اسے محدود نہیں رہنا چاہئے۔ یہ ایک طرح کی ذمہ داری ہے۔ آرام طلب اور کاہل فنکار، ایسا فنکار جو اپنے فن اور خلاقیت کے لئے سعی و کوشش نہ کرے در حقیقت اپنی فنکارانہ ذمہ داری و فریضے کو نظر انداز کر رہا ہے۔ فنکار میں سعی پیہم کا جذبہ ہونا چاہئے۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فنکار کبھی محنت کرکے کسی ایسی منزل پر پہنچ جائے جس کے بعد اسے محسوس ہو کہ اب اور محنت کی گنجائش ہی نہیں ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن جب تک فن کو نکھارنے اور صلاحیتوں کو بروی کار لانے کی گنجائش باقی ہے، اسے کوشش کرنا چاہئے۔ یہ ذمہ داری ہے فن اور فن پارے کے قالب و پیکر کے سلسلے میں جو بغیر جوش و ولولے اور عشق و الفت کے پیدا نہیں ہوتی۔ ویسے عشق و الفت بھی ایک ذمہ داری ہے۔ یہ بڑا قوی جذبہ ہے جو انسان کو محنت و مشقت کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اس میں سستی و آرام طلبی پیدا نہیں ہونے دیتا۔اس (قالب و پیکر) کے علاوہ (فن پارے کے) مضمون کے سلسلے میں بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہم کس چیز کی عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی با وقار اور محترم شخصیت ہوتی ہے تو اس کا ذہن و دل اور اس کی فکر و نظر بھی محترم ہوتی ہے۔ ہر مخاطب کے سامنے صرف اس بنا پر کہ وہ ہمارے روبرو بیٹھا ہماری باتیں سن رہا ہے، ہر چیز تو پیش نہیں کی جا سکتی۔ غور کرنا پڑے گا کہ اس سے کیا بات کرنی ہے۔ فن کے شعبے میں جو چیز ذمہ دار اور دلسوز افراد کے لئے باعث تشویش بن گئی ہے وہ یہ ہے کہ آزادی تخیل یا آزادی فن کے نام پر ہتک حرمت اور بد اخلاقی نہ ہو جائے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ بنابریں فرض شناس اور ذمہ دار فن کی ترکیب ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کیا ہے؟ یہ بات کہ ایک فنکار فکر و نظر کی کس منزل پر فائز ہے اور وہ حقیقت کو جزوی طور پر ہی سمجھ سکتا ہے یا کلی طور پر اس کے ادراک کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک الگ بحث ہے لیکن بہرحال فکر و نظر میں جتنی گہرائی اور بلندی ہوگی فنکارانہ تخيل میں اتنی ہی لطافت و ظرافت پیدا ہوگی۔ حافظ صرف ایک فنکار نہیں ہیں بلکہ ان کی باتوں میں بلند معرفت جلوہ گر ہے۔ یہ معرفت صرف فنکار بن جانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے فکری اور فلسفیانہ سرمایہ ضروری ہوتا ہے۔ فنکارانہ ادراک اور فنکارانہ طرز بیان کو بلند فکر و نظر کے سہارا، سرچشمہ اور تکیہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ سب کی فکری سطح یکساں نہیں ہوتی اور اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ چیز فن و ہنر کی تمام اقسام میں صادق آتی ہے۔ معماری سے لیکر مصوری، سنیما، تھئیٹر، شعرو موسیقی اور فن و ہنر کی دیگر اقسام تک ہر جگہ اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کو کوئی ایسا معمار نظر آ جائے جو بڑی اچھی فکر کا مالک ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی ملاقات ایسے معمار سے ہو جائے جس کے پاس کوئی آئیڈیا ہی نہیں۔ یہ دونوں معمار جب عمارت تعمیر کریں گے تو دونوں میں بڑا فرق رہے گا۔ اگر اس طرح کے دو آدمیوں کو ایک شہر کی تقدیر سونپ دی جائے تو شہر کا آدھا حصہ دوسرے نصف حصے سے بالکل متفاوت ہوگا۔ معلوم ہوا احساس ذمہ داری اور فرض شناسی لازمی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان بغیر جوش و جذبے کے اور گرے ہوئے مورال کے ساتھ بس یونہی فنکار بن جائے اور نام کمائے۔ فنکار کے اندر ایک مخصوص سرور ہوتا ہے جو دیگر خوشیوں سے مختلف ہوتا ہے اور عام لوگوں کے ہاں نظر بھی نہیں آتا۔ انسان کے اندر یہ سرور اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے اپنے ہدف سے پوری آگاہی ہو اور اس کی ایک ایک حرکت نپی تلی ہو تب ہی تو وہ اپنی ہنرمندی اور فنکاری سے سرور حاصل کرے گا کہ اس نے اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے دیا۔ بنابریں ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاقیات، اعلی دینی معرفت و تعلیمات پر توجہ دی جائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ سب سے پہلے تو فن کو اس کے حقیقی مقام پر رکھتے ہوئے توجہ کا مرکز بنایا جائے گا اور پھر اہل فن حضرات اپنے وجود میں پائے جانے والے اس گراں قدر ذوق اور صلاحیت پر دھیان دیں گے اور اس کا احترام کریں گے۔ اس صلاحیت کا احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا استعمال اس کے شایان شان مقام پر کریں گے۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تمہاری جان اور انسانی وجود نہایت با ارزش شئ ہے، اس جنت کے علاوہ جس کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے کوئی بھی چیز اس جان کی قیمت نہیں قرار پا سکتی۔ اسے تم اللہ تعالی کی جنت کے علاوہ کسی بھی شئ کے سپرد نہ کرنا۔ فن انسانی جان کا سب سے قیمتی اور با ارزش حصہ ہے، اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ اسے اللہ تعالی کی راہ میں استعمال کرنا چاہئے۔ دینی فن و ہنر سے مراد وہ فن ہے جو دین اسلام کی تعلیمات اور اہداف کو مجسم کر دے۔ یہ اہداف وہی چیزیں ہیں جو انسان کی خوشبختی، معنوی و روحانی حقوق، بلندی و سرفرازی، تقوی و پرہیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بناتی ہیں۔ دینی فن، دینداری کے دکھاوے اور ریاکاری کے معنی میں ہرگز نہیں ہے، یہ ضروری بھی نہیں کہ اس فن کے ساتھ دینی کا لفظ بھی ضرور لگا ہو۔ کیونکہ بہت سے فن ایسے ہیں جو صد فیصد دینی ہیں لیکن ان میں غیر دینی الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تصور درست نہیں کہ دینی فن و ہنر وہ ہے جو ہر حال میں کسی دینی و مذہبی داستان کی عکاسی کرے یا کسی مذہبی چیز مثلا علم دین وغیرہ کی بات کرے۔ دینی فن وہ ہے جو ان تعلیمات اور مفاہیم کی ترویج کرے اور انہیں نا قابل فراموش بنائے جن پر تمام الہی ادیان بالخصوص دین اسلام نے خاص توجہ دی اور ان کی ترویج کی راہ میں بڑی قیمتی جانیں قربان ہو گئیں۔ یہ تعلیمات و مفاہیم بڑے اعلی و ارفع ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانی زندگی میں شامل کر دینے کے لئے پیغمبروں نے سختیاں برداشت کیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم بیٹھے بیٹھے پیغمبروں، مصلحین اور مجاہدان راہ خدا کی کوششوں اور کاوشوں پر نکتہ چینی کریں یا انہیں نظر انداز کر جائيں۔ دینی فن انہیں تعلیمات و مفاہیم کو منظر عام پر لاتا ہے، انصاف و مساوات کو اقدار کی حیثیت سے سماج میں متعارف کراتا ہے۔ حالانکہ ممکن ہے بظاہر اس میں لفظ دین اور انصاف و مساوات کے بارے میں کسی آیت یا حدیث کو نقل نہ کیا گیا ہو۔ مثلا فلموں اور ڈراموں میں یہ ضروری نہیں کہ ایسے نام اور شکلوں کو پیش کیا جائے جو دین اور دینداری کی علامت بن چکی ہیں، تاکہ یہ ڈرامہ یا فلم دینی ہو جائے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کے بارے میں با اثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچا دیجئے تو آپ نے دینی فن کا تقاضا پورا کر دیا۔ ایک اور نکتے کی جانب بھی میں اشارہ کرنا چاہوں گا اور وہ ہے انقلاب سے متعلق فن و ہنر۔ ایک قوم آٹھ سالہ دفاع کے دوران اپنے پورے وجود کے ساتھ میدان کارزار میں اتر پڑی۔ نوجوان میدان جنگ میں گئے اور اس با ارزش راہ کے لئے جس کا انہوں نے انتخاب کیا تھا جاں نثاری و فداکاری کی۔ بیشتر افراد دین کی حفاظت کے لئے گئے، ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ افراد نے وطن اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے خیال سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہو۔ محاذ جنگ کے پیچھے ماں باپ، بیویاں اور بچے بھی جو کچھ کر رہے تھے وہ بھی عظیم کارنامہ تھا۔ آپ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے واقعات پر نظر دوڑائیے اور غور کیجئے کہ ایک معاشرے کی حالت و کیفیت پر فنکارانہ نگاہ ڈالنے کا اس سے بہتر کوئی موقع و محل ہو سکتا ہے؟! آپ دنیا کے شہرہ آفاق ڈراموں میں جب کسی انسان کی جاں نثاری کا منظر دیکھتے ہیں تو اس کی تعریف و ستائش کئے بغیر نہیں رہتے۔ جب کوئی فلم، تصویر، ترانہ یا پینٹنگ کسی انقلابی یا کسی ملک کے بہادر سپاہی کی عکاسی کرتی ہے تو آپ دل سے اس کے کارنامے کو سراہتے ہیں۔ اس فن پارے میں جو چیز پیش کی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ با ارزش اور با عظمت ہزاروں واقعات، مقدس دفاع کے آٹھ برسوں اور خود انقلاب کے دوران آپ کے گھر میں رونما ہوئے۔ کیا ان کی دلکشی اور خوبصورتی کسی سے کم ہے۔ کیا فن ان واقعات کو نظر انداز کر سکتا ہے؟ فن سے انقلاب کی بس یہی توقع ہے اور اس میں کوئی جبر و اکراہ بھی نہیں ہے۔ صرف فنکارانہ ذوق کو بروی کار لائے جانے کی توقع ہے۔ فن وہی ہے جو خوبصورتی کا ادراک کرے۔
عراق میں زائرین حسینی پر وحشیانہ حملے کی مذمت
رہبرانقلاب اسلامی نے عراق میں حالیہ ہولناک دہشت گردانہ واقعات اورزائرین حسینی کی مظلومانہ شہادت پرتعزیتی پیغام جاری کیا ہے ۔ پیغام مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عراق میں ہولناک دہشت گردانہ واقعات اور زائرین حسینی کی مظلومانہ شہادت نے ایسے دلوں کو غمزدہ اور ماتمدار بنادیا ہے جو اہل بیت پیغمبر کے عشق ومحبت میں ہی دھڑکتے اور اپنی سعادت ونجات محمد وآل محمد علیھم السلام کی پیروی میں مضمر سمجھتے ہيں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج امام حسین علیہ السلام کیڈٹ کالج کے اسٹوڈنٹس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب علم، جہاد، ایمان اور مستحکم ارادہ ایک ساتھ مجتمع ہو جائیں تو ایسے انسان معرض وجود میں آتے ہیں جن کی برکت سے مستقبل کے تئیں امید بڑھتی ہے۔ تقریب کا آغاز اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس قومی ترانے سے ہوا۔ اس تقریب میں قائد انقلاب اسلامی نے علم و دانش کو الہی عطیہ قرار دیا اور فرمایا کہ بد قسمتی سے بعض انسان اس الہی عطیے کو فساد و طغیانی اور ظلم و ستم کے لئے استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا دو حصوں ظالم و مظلوم میں تقیسم ہو گئی ہے۔