ہمیں انتظار کرنا ہے۔ بشریت کے کارواں کے سفر کے اختتام کے بارے میں ادیان الہی کی نظر آس و امید کی نظر ہے۔ واقعی امام زمانہ کا انتظار، ان سے قلبی وابستگی قائم کرنا، آپ کے آنے کا انتظار امید کا دریچہ ہے اسلامی معاشرے کے لئے۔ ہم فرج کے انتظار میں ہیں تو خود یہ انتظار ایک فرج ہے، گشائش ہے، امید کی کرن ہے، طاقت عطا کرتا ہے۔
دشمن ہماری یونیورسٹی کے لئے بنیادی طور پر دو سازشوں پر کام کر رہا ہے۔ ایک ہے علم سے دوری اور دوسرے دین سے دوری۔ یونیورسٹی علم سے دور ہو جائے۔ یونیورسٹی کو علم سے دور کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کا ایک طریقہ سائنسدانوں کا قتل ہے۔ 24 اگست 2011
غاصب صیہونی، دنیا کے لوگوں کی آنکھ کے سامنے قتل اور جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور رہائشی علاقوں پر بمباری کا ارتکاب کر رہے ہیں، بستیوں کو تباہ اور لوگوں کو بے گھر کر رہے ہیں مگر انسانی حقوق کی طرفداری کی دعویدار حکومتیں اور ادارے بہت سکون سے دیکھ رہے ہیں۔ 25 مئی 1992
ہمارے اس علاقے میں بدامنی کی جڑ صیہونی حکومت ہے جو امریکا کا پالتو کتا ہے۔ دنیا کو انھوں نے ہی بدامنی میں جھونک دیا ہے۔ 19 اپریل 2015
مقبوضہ ملک فلسطین میں قائم ہونے والی دہشت گرد صیہونی حکومت کی حمایت دہشت گردی کی سب سے بڑی حمایت ہے۔ 4 جون 1993
~امام خامنہ ای
ہم جو امام زمانہ کی آمد کے منتظر ہیں، اپنی زندگی کو اسی نہج پر آگے بڑھائیں جس نہج پر امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت قائم ہوگی۔ البتہ ہماری یہ بساط نہیں ہے کہ ہم وہ عمارت تعمیر کریں جو اولیائے خدا نے بنائی یا تعمیر کریں گے، لیکن اس سمت میں ہمیں آگے ضرور بڑھنا چاہئے۔
اللہ کے عدل و انصاف کا مظہر امام زمانہ ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ امام زمانہ کی سب سے بڑی خصوصیت جو زیارتوں اور روایتوں میں ذکر کی گئی ہے قیام عدل و انصاف ہے: «یملأ الله به الارض قسطا و عدلا»
امام زمانہ سے عوام الناس کا قلبی و روحانی رابطہ بڑی اہم چیز ہے اور اس کے بڑے اثرات و ثمرات ہیں۔ کیونکہ اس سے انسان کے دل میں امید و انتظار کا جذبہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
آخری زمانے میں دنیا کے نجات دہندہ کی آمد کے بارے میں تمام ادیان ابراہیمی میں اتفاق رائے ہے۔ یہ عقیدہ کہ کوئی آئے گا اور دنیا کو ظلم و جور کی دلدل سے نجات دلائے گا، تمام ادیان ابراہیمی کے نزدیک مسلمہ اور متفق علیہ عقیدہ ہے۔
دور ہارونی کے سخت گھٹن کے ماحول میں، جس کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ "و سیف ھارون تقطر دما" ہارون کی تلوار سے ہمیشہ خون ٹپکتا رہتا تھا۔ نوجوانی کے عالم میں امام علی رضا علیہ السلام ان حالات میں شیعہ اماموں کے جہاد کو آگے بڑھانے اور اپنے دوش پر عائد عظیم ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے سلسلے میں کیا کر سکیں گے؟ یہ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے دور امامت کی شروعات کی بات ہے۔ انیس یا بیس سال کے بعد جب حضرت کی امامت کا دور مکمل ہوا اور حضرت علی ابن موسی الرضا کو شہید کر دیا گیا، اگر آپ اس وقت کے حالات دیکھئے تو محسوس کریں گے کہ ولایت اہل بیت علیہم السلام اور خاندان رسول سے عقیدت کا سلسلہ عالم اسلام میں ایسی گیرائی و گہرائی پیدا کر چکا ہے کہ ظالم و مستبد عباسی سلطنت اس پر قابو پانے سے قاصر ہے۔ یہ کارنامہ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے انجام دیا۔
17 ستمبر 2013
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کا موقع ہے۔ اس مناسبت سے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے آیت اللہ خامنہ ای کے مورخہ 18 مئی 2001 کے خطبہ نماز جمعہ کا ایک اقتباس شائع کیا جس میں آیت اللہ خامنہ ای نے بیان فرمایا کہ کس طرح مسجد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بے مثال انکساری کا مظاہرہ کیا۔
عاشورائے حسینی کو ظالموں اور ستمگروں نے ہمیشہ کے لئے مٹا دینے کی کوشش کی تھی، لیکن زینب کبری سلام اللہ علیہا نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دو اقدامات انجام دئے۔
گزشتہ دو صدیوں میں شاہی حکومتوں کے دور میں، طاغوتی حکومتوں کے دور میں جو جنگیں ہوئیں ان میں ایران کو ہمیشہ شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ ان جنگوں میں بھی جن میں ایران نے غیر جانبداری کا اعلان کیا تھا۔
گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ نے پورے مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش لیکن امریکہ کے منصوبے پے در پے ناکام ہوئے۔ 11 ستمبر کے موقع پر آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ khamenei.ir رہبر انقلاب اسلامی کے خطابات سے کچھ اقتباسات شائع کر رہی ہے۔
11 ستمبر کے حملے کے بعد امریکہ کے ذریعے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا اور جنگ افروزی کی نئی لہر شروع کر دی گئی۔ افغانستان اور عراق جیسے اسلامی ممالک پر حملہ اور اس کے بعد اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کے واقعات گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کثرت سے نظر آئے ہیں۔
گزشتہ دنوں صیہونی حکومت کے ساتھ ایک عرب ملک کے شرمناک معاہدے کے اعلان سے امت مسلمہ اور مظلوم فلسطینی عوام کے تمام حامیوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ اسی مناسبت سے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ Khamenei.ir صیہونی حکومت کے ساتھ غدار عرب حکمرانوں کے مذاکرات کے بارے میں امام خامنہ ای کے بیانوں کے کچھ اقتباسات شائع کر رہی ہے۔
بعض عرب بادشاہ اور سربراہان اپنے معبود امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے عربی جذبات و قومیت کو بھی جس کا وہ ہمیشہ دم بھرتے ہیں، اسرائیل کے معاملے میں بھول جاتے ہیں اور اس کی جگہ امریکہ سے مدد حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ ریس کا میدان سجاتے ہیں۔
امام محمد تقی علیہ السلام معاشرے میں آزادانہ بحث و مباحثے کے بانی تھے۔ یقینا دیگر ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں بھی بحثوں کا سلسلہ تھا لیکن امام محمد تقی علیہ السلام نے پہلی بار آزادانہ بحثوں کے لئے اجتماعات کا اہتمام کیا۔
23 مئی 1981
***
ان دنوں غرب اردن کو علاقے کو اسرائیل میں ضم کر لئے جانے کی باتیں صیہونی حکام کر رہے ہیں تو اس مناسبت سے مندرجہ ذیل تحریر میں فلسطین کے تعلق سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطابات کے کچھ اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔
اگر آپ نے اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے حالات کا مطالعہ کیا ہو، انہیں باتوں کا مطالعہ جو خود مغرب والوں نے بیان کی ہیں اور جنہیں قلمبند کیا ہے، یعنی یہ ان کے دشمنوں اور مخالفین کی تحریر کردہ باتیں نہیں ہیں، تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں نے مشرقی ایشیا، ہندوستان، چین، افریقا اور امریکا میں کیا کیا گل کھلائے ہیں؟!
دینی حکمرانی تمام ادیان کا اہم ہدف ہے۔" لیقوم الناس بالقسط" (سورہ حدید آیت نمبر 25) عدل و انصاف کا قیام اور حاکمیت الہی، ادیان کا عظیم ہدف ہے۔ ہمارے ائمہ علیہم السلام نے تمام مصیبتیں اور تکلیفیں اس لئے برداشت کیں کہ حاکمیت الہی کی فکر میں تھے۔
قافلہ لوٹ کر مدینے آیا۔ مردوں میں فقط امام زین العابدین بچے تھے۔ آپ کے علاوہ وہ بیبیاں تھیں جنہوں نے اسیری برداشت کی اور غم اٹھائے۔ امام حسین ساتھ نہیں تھے۔ یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلے میں اب نہیں تھا۔ اگر یہ لوگ نہ گئے ہوتے تو سب زندہ ہوتے لیکن حقیقت فنا ہو جاتی، روحیں ختم ہو جاتیں، ضمیر مردہ ہو جاتے، پوری تاریح میں عقل و منطق مٹ جاتی اور اسلام کا نام تک باقی نہ رہتا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اتوار 5 فروری 2017 کو فقہ کے درس خارج کے آغاز میں اخلاق کے موضوع پر ایک حدیث معصوم نقل کی اور فرمایا کہ علما اور طلاب کے لئے مہنگی گاڑیوں کا استعمال حرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک مکتوب ملا ہے جس میں لکھا ہے کہ اس درس میں موجود بعض افراد دو سو ملین تومان (تقریبا انچاس ہزار ڈالر) تک کی گاڑیوں میں چلتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسراف ہر کسی کے لئے حرام ہے۔ کوئی حد درجہ مالدار ہو یا مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہو یا غریب ہو، ہر کسی کے فضول خرچی کا امکان ہے اور فضول خرچی حرام ہے۔ ان گراں قیمت گاڑیوں کا استعمال حرام ہے۔
بعض اوقات سیکورٹی کے مسائل کا ذکر کرکے مہنگی گاڑیوں کے استعمال کی توجیہ کی جاتی ہے تو رہبر انقلاب اسلامی نے اس تعلق سے فرمایا کہ عمل، ورع، جدوجہد، زہد، دنیا کے تجملات اور ظاہری آرائش سے بے رغبتی و بے اعتنائی ہمارا بنیادی فرض ہے۔
*امام حسن عسکری علیہ السلام کے فضائل کی گواہی دشمنوں نے بھی دی،
*امام نے سامرا میں محصور ہونے کے باوجود پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا،
*ڈھائی سو سالہ سرکاری دشمنی کے نشانے پر رہنے کے باوجود کیسے بچا رہا مکتب تشیع،
اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کے ایام سے وابستہ یادیں؛ ان دنوں ہماری یہ حالت تھی کہ ہم مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ اس زمانے میں ہم تو تمام سرگرمیوں میں شریک تھے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہم انقلابی کونسل کے بھی رکن تھے لہذا دائمی طور پر ہر معاملے میں موجود رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم سب پر حیرانی کی کیفیت طاری تھی۔ میں ایک بات عرض کروں، اس پر شاید آپ کو بڑی حیرت ہوگی۔ 22 بہمن (مطابق گیارہ فروری) کا دن گزر جانے کے ایک عرصے بعد تک بارہا میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اگر خواب دیکھ رہا ہوں تو کسی صورت سے بیدار ہو جاؤں۔ یعنی اگر میں نیند میں یہ سنہری خواب دیکھ رہا ہوں تو اس خواب کا سلسلہ رکے۔ تو یہ معاملہ ہمارے لئے اس درجہ باعث حیرت تھا۔ سجدہ در راہ؛ اس لمحہ جب ریڈیو سے پہلی دفعہ نشر ہوا صدائے انقلاب اسلامی یا اسی سے مشابہ کوئی فقرہ، تو اس وقت میں ایک کارخانے کا دورہ کرکے گاڑی سے امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اقامت گاہ کی جانب جا رہا تھا۔ ایک کارخانہ تھا جہاں کچھ آشوب پسند عناصر نے جمع ہوکر ہنگامہ آرائی کی تھی۔ وہ انقلاب کے اوج کا زمانہ تھا، میرے خیال میں اس وقت بختیار ملک کے اندر ہی موجود تھا۔ شاید چھے یا سات فروری تھی، ابھی مشکلات جوں کی توں باقی تھیں اور کوئی کام مکمل نہیں ہو پایا تھا، ان عناصر نے باج خواہی کی کوشش کی۔ ایک کارخانے میں جمع ہوکر اشتعال انگیزی شروع کر دی تھی۔ ہم وہاں گئے کہ گفت و شنید کے ذریعے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ واپسی میں ریڈیو سے یہ فقرہ نشر ہوا صدائے انقلاب اسلامی۔ میں نے وہیں گاڑی روکی اور نیچے اتر کر زمین پر سجدے میں گر گیا۔ یعنی یہ کامیابی ہمارے لئے اس درجہ ناقابل یقین اور ناقابل تصور تھی۔ اس وقت کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر تغیرات کا گویا ایک سمندر سموئے ہوئے تھا۔ میں اگر انقلاب کی فتح کے قبل و بعد کے بیس دنوں کی تمام یادیں بیان کرنا چاہوں تو ہرگز بیان نہیں کر پاؤں گا، ان چند دنوں کے دوران ہمارے ذہن اور ہماری زندگی میں جو کچھ گزر رہا تھا وہ قابل بیان نہیں ہے۔ امام خمینی کی آمد! امام خمینی کی آمد والے دن، آپ کی آمد کے دن ہم یونیورسٹی سے جہاں ہم نے دھرنا دیا تھا، گاڑی میں جا رہے تھے آپ سے ملنے۔ یہ پورا ماجرا میں نے ایک دفعہ خود امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے بھی بیان کیا۔ سب مسرت میں ڈوبے ہوئے تھے، شادماں تھے۔ مجھے یہ تشویش تھی کہ امام خمینی کے لئے کوئی ناگوار واقعہ نہ ہو جائے، اسی خیال سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل رہے تھے، معلوم نہیں تھا کہ امام خمینی کے ساتھ کیا واقعہ ہو سکتا ہے! کیونکہ کچھ خطرات تو تھے ہی۔ ہم ایئرپورٹ پہنچے اور پھر ان تمام مراحل کے بعد امام خمینی نے سرزمین وطن پر قدم رکھے۔ امام خمینی کے چہرے پر سکون و طمانیت دیکھ کر ساری تشویش اور سارا اضطراب ختم ہو گیا۔ امام خمینی نے اپنے اس پرسکون چہرے سے میری اور مجھ جیسے بہتوں کی ہر تشویش اور اندیشے کو دور کر دیا۔ برسوں کی طویل مدت کے بعد امام کو دیکھا تو اب تک کی ساری سختیاں اور جدوجہد کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ آپ کو دیکھ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ساری آرزوئیں اور ساری تمنائیں آپ کی صورت میں مجسم ہو گئی ہیں اور تمام آرزوئیں مقتدرانہ انداز میں پوری ہوئی ہیں۔ جب ہم ایئرپورٹ سے شہر کے اندر پہنچے اور اس درمیان جو کچھ ہوا اس کے آپ سب گواہ ہیں، بحمد اللہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں وہ سارے مناظر نقش ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ امام خمینی شام کے وقت بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) سے ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہو گئے۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ نام بھی ذکر کر دوں کہ برادر عزیز جناب ناطق نوری صاحب امام خمینی کو اغوا کرکے ایک محفوظ مقام پر لے گئے، کیونکہ عقیدتمندوں اور عشاق کا ایک بیکراں سمندر تھا جو امام خمینی کے ارد گرد متلاطم تھا۔ امام خمینی گزشتہ شب پیرس سے روانہ ہوئے تھے اور اس کے بعد پورے دن آپ نے بالکل آرام نہیں فرمایا تھا۔ لہذا ضرورت تھی کہ امام خمینی کو کچھ استراحت کا موقع ملے۔ امام خمینی مدرسہ رفاہ میں؛ ہم لوگ مدرسہ رفاہ گئے تھے جہاں ہمارے کام انجام پاتے تھے۔ امام خمینی کی تشریف آوری سے قبل ہم سب وہاں اپنے برادران گرامی کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور امام خمینی کے قیام اور آپ کی آمد کے بعد کے ضروری انتظامات کے بارے میں ہماری کچھ گفتگو بھی ہوئی تھی اور ایک پروگرام ترتیب دیا جا چکا تھا۔ ہم ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں کچھ خبریں وغیرہ شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ اسی مدرسہ رفاہ سے نکلا کرتا تھا۔ اس کے کچھ شمارے شائع ہوئے۔ البتہ ہڑتال کے زمانے میں ہم نے وہاں سے بھی ایک رسالہ نکالا اور اس کے بھی دو تین شمارے شائع ہوئے۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہم سب وہاں جمع تھے اور انتظار کا ایک ایک لمحہ گزار رہے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ امام خمینی کسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جہاں آپ تھوڑا آرام کریں گے۔ غالبا آپ نے ظہرین کی نماز نہیں پڑھی تھی اور غروب کا وقت ہونے والا تھا۔ لہذا آپ نماز وغیرہ سے فارغ ہونا چاہتے تھے۔ اندھیرا ہو گیا اور رات گزرنے لگی، میں آنے والے دن کے لئے رسالے کی خبریں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔ رات کے تقریبا دس بجے ہوں گے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ مدرسہ رفاہ کے داخلی صحن میں کہ جس کا ایک دروازہ بغل والی گلی میں کھلتا تھا، کچھ لوگوں کے بات چیت کرنے کی آواز آ رہی ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہے۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو میری نظر امام خمینی پر پڑی۔ آپ اکیلے دروازے سے اندر داخل ہوئے، آپ کے ہمراہ کوئی بھی نہیں تھا۔ محافظین، یعنی ہمارے یہی برادران عزیز جو اس وقت محافظت کے کام پر مامور تھے، انہوں نے امام خمینی کو اچانک اپنے سامنے پایا تو سب بوکھلا گئے، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ سب نے امام خمینی کا حلقہ کر لیا۔ امام خمینی نے دن بھر کی تھکن کے باوجود سب سے، بڑی خوشروئی اور خندہ پیشانی سے گفتگو کی۔ سب آپ کے ہاتھوں کے بوسے لے رہے تھے۔ کل دس پندرہ لوگ رہے ہوں گے۔ اسی عالم میں صحن سے گزر کر سب زینے کے قریب پہنچے جو پہلی منزل پر جاتا تھا۔ یہ زینے اسی کمرے کے پہلو میں تھے جس میں میں موجود تھا۔ میں کمرے سے نکل کر ہال میں آ گیا کہ امام خمینی کو قریب سے دیکھ سکوں۔ امام خمینی ہال میں داخل ہوئے، وہاں کچھ بچے بھی تھے سب امام خمینی کی طرف دوڑے انہیں گھیر لیا اور ہاتھوں کے بوسے لینے لگے۔ میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ امام خمینی کے ہاتھ چوموں لیکن میں نے سوچا آپ تھکے ہوئے ہیں، اس تھکن میں مجھے اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لئے لاکھ دل چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنے جذبات کو دبایا اور کنارے کھڑا ہو گیا۔ امام خمینی دو میٹر کے فاصلے سے میرے سامنے سے گزرے۔ میں قریب نہیں گیا، کیونکہ آپ کے ارد گرد لوگ جمع تھے اور میں اس ازدہام میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہی خیال ایئرپورٹ پر بھی میرے ذہن میں تھا۔ ایئرپورٹ پر سب امام خمینی کی طرف جھپٹ جھپٹ کر آگے بڑھ رہے تھے، دل تو میرا بھی چاہ رہا تھا کہ دوڑ پڑوں لیکن میں نے اپنے آپ کو روکا، میں نے کچھ اور لوگوں کو بھی یہی بات سمجھائی۔ امام خمینی اندر آئے اور زینوں سے اوپر تشریف لے گئے، اسی اثنا میں زینے کے نیچے چالیس پچاس لوگ جمع ہو گئے تھے۔ امام خمینی زینے طے کر چکے تھے، اچانک آپ پلٹے اور زینے پر جمع لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، ان افراد میں سے کسی صاحب نے خیر مقدم کے چند جملے کہے۔ اس کے بعد امام خمینی نے مختصر گفتگو کی اور اوپر تشریف لے گئے اس کمرے میں جو آپ کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک ایک لمحہ بڑے یادگار انداز میں گزرا۔ عشرہ فجر کی مناسبت سے ہفتہ وار میگزین کے لئے دئے گئے انٹرویو کے اقتباسات؛ 24/10/1362ہجری شمسی مطابق 14/1/1984 عیسوی
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق پیغمبر اسلامۖ کی نرمی اور سختی پیغمبر اسلام ۖ کی امانتداری پیغمبر اسلامۖ کی بردباری اچھے اخلاق کی دعوت پیغمبر اکرمۖ کی بردباری رسول اسلامۖ کی راست بازی پیغمبر اسلام ۖ کی پاکیزگی پیغمبر اسلامۖ کی عوام دوستی پیغمبر اسلامۖ کا کھانا اور لباس پیغمبر اسلامۖ کی عبادت پیغمبر اسلامۖ کا سلوک دشمنان اسلام سے پیغمبر اسلامۖ کا برتاؤ اخلاق پیغمبرۖ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلامی اخلاق اور اقدار کو معاشرے میں نافذ اور لوگوں کی روح، عقائد اور زندگی میں رائج کرنے کے لئے، زندگی کی فضا کو اسلامی اقدار سے مملو کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی نرمی اور سختی قرآن کریم پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ملائمت اور لوگوں سے نرمی سے پیش آنے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ سخت نہیں ہیں۔ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک یہی قرآن دوسری جگہ پر پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا ہے کہ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم کفار اور منافقین سے سختی سے پیش آئیں۔ وہی غلظ (سختی) کا مادہ جو پہلے والی آیت میں تھا یہاں بھی ہے لیکن یہاں قانون کے نفاذ اور معاشرے کے امور چلانے اور نظم و ضبط قائم کرنے میں ہے۔ وہاں سختی بری ہے، یہاں سختی اچھی ہے۔ وہاں سختی سے کام لینا برا ہے اور یہاں سختی سے کام لینا اچھا ہے۔ ٹاپ پیغمبر اسلام ۖ کی امانتداری آپ کا امین ہونا اور امانتداری ایسی تھی کہ دور جاہلیت میں آپ کا نام ہی امین پڑ گیا تھا اور لوگ جس امانت کو بہت قیمتی سمجھتے تھے، اسے آپ کے پاس رکھواتے تھے اور مطمئن ہوتے تھے کہ یہ امانت صحیح و سالم انہیں واپس مل جائے گی۔ حتی دعوت اسلام شروع ہونے اور قریش کی دشمنی اور عداوت میں شدت آنے کے بعد بھی ، ان حالات میں بھی، وہی دشمن اگر کوئی چیز کہیں امانت رکھوانا چاہتے تھے تو آکے رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کرتے تھے۔ لہذا جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مدینے ہجرت فرمائی تو امیر المومنین (علیہ السلام) کو مکے میں چھوڑا تاکہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس لوٹا دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں۔ مسلمانوں کی امانتیں نہیں بلکہ کفار اور ان لوگوں کی امانتیں تھیں جو آپ سے دشمنی کرتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی بردباری آپ کے اندر تحمل اور بردباری اتنی زیادہ تھی کہ جن باتوں کو سن کے دوسرے بیتاب ہوجاتے تھے، ان باتوں سے آپ کے اندر بیتابی نہیں پیدا ہوتی تھی۔ بعض اوقات مکہ میں آپ کے دشمن آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ ان میں سے ایک کے بارے میں جب جناب ابوطالب نے سنا تو اتنا غصبناک ہوئے کہ تلوار لی اور اپنے ملازم کے ساتھ وہاں گئے جہاں رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گستاخی ہوئی تھی اور پھر جتنے لوگوں نے گستاخی کی تھی ان میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی کام کیا اور کہا کہ تم میں سے جو بھی اعتراض کرے گا اس کی گردن مار دوں گا، مگر پیغمبر نے وہی گستاخی بردباری کے ساتھ برداشت کی تھی۔ ایک بار ابوجہل سے آپ کی گفتگو ہوئی اور ابوجہل نے آپ کی بڑی توہین کی مگر آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بردباری سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ کسی نے جاکے جناب حمزہ کو اطلاع دے دی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ جناب حمزہ بیتاب ہو گئے۔ آپ گئے اور کمان سے ابوجہل کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ خون نکلنے لگا اور پھر اسی واقعے کے بعد آپ نے اسلام کا اعلان کیا۔ بعض اوقات کچھ لوگ مسجد میں آتے تھے، پیر پھیلا کے رسول سے کہتے تھے کہ میرے ناخن کاٹ دیجئے، اس لئے کہ ناخن کاٹنے میں آپ کو مہارت تھی، پیغمبر بھی پوری بردباری کے ساتھ اس گستاخی اور بے ادبی کو برداشت کرتے تھے۔ ٹاپ اچھے اخلاق کی دعوت لوگوں کو ہمیشہ اچھی باتوں یعنی، عفو و درگذر، چشم پوشی، مہربانی، ایک دوسرے سے محبت، کاموں میں پائیداری، صبر، حلم، غصہ پر قابو پانے، خیانت نہ کرنے، چوری نہ کرنے، بد کلامی نہ کرنے، کسی کا برا نہ چاہنے، اور دل میں کینہ نہ رکھنے وغیرہ کی نصیحت و تلقین کریں۔ لوگوں کو ان باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کوئی ایسا زمانہ فرض نہیں کیا جا سکتا جب ان اچھی باتوں کی ضرورت نہ رہے۔ لوگوں کو ہمیشہ ان اقدار کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اقدار نہ ہوں تو ترقی کی اوج پر ہونے کے باوجود معاشرہ برا اور ناقابل قبول ہوگا۔ ٹاپ پیغمبر اکرمۖ کی بردباری زمانہ جاہلیت میں مکہ والوں کے درمیان بہت سے معاہدے تھے۔ ان کے علاوہ ایک معاہدہ، معاہدہ حلف الفضول کے نام سے بھی تھا جس میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھے۔ کوئی اجنبی مکہ آیا اور اس نے اپنا سامان بیچا۔ جس نے اس کا سامان خریدا، اس کا نام عاص بن وائل تھا جو ایک بدمعاش تھا اور مکہ کے سرمایہ داروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے جو سامان خریدا اس کا پیسہ نہیں دیا۔ وہ اجنبی جس کے پاس بھی گیا، کوئی اس کی مدد نہ کر سکا۔ آخر کار وہ کوہ ابوقیس کے اوپر گیا اور وہاں سے فریاد کی: اے فہر کے بیٹو! میرے اوپر ظلم ہوا ہے۔ یہ فریاد رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے سنی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور اس شخص کے حق کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھے اورعاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس کے پیسے دو؛ وہ ڈر گیا اور مجبور ہوکے اس کے پیسے دے دیئے۔ یہ معاہدہ ان کے درمیان باقی رہا اور اس میں طے پایا تھا کہ جو اجنبی بھی مکہ میں داخل ہو اگر اہل مکہ اس پر ظلم کریں، عام طور پر اجنبیوں اور مکہ سے باہر والوں پر ظلم کرتے تھے، تو یہ لوگ اس کا دفاع کریں گے۔ اسلام آنے کے برسوں بعد بھی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ میں اب بھی خود کو اس معاہدے کا پابند سمجھتا ہوں۔ بارہا آپ نے اپنے مغلوب دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا۔ آٹھویں ہجری میں جب پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو فرمایا الیوم یوم المرحمۃ آج عفو و درگذر سے کام لینے کا دن ہے لہذا انتقام نہ لو۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراخدلی تھی۔ ٹاپ رسول اسلامۖ کی راست بازی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے جناب خدیجہ کو آپ کا شیدائی بنایا۔ خود جناب خدیجہ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں۔ ٹاپ پیغمبر اسلام ۖ کی پاکیزگی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن سے ہی بہت نفاست پسند انسان تھے۔ مکہ اور عرب قبائل کے بچوں کے برخلاف، آپ ہمیشہ صاف ستھرے اور پاک و پاکیزہ رہتے تھے۔ نوجوانی سے پہلے کے زمانے میں بھی( نفاست کا خیال رکھتے تھے) بالوں میں کنگھا کرتے تھے اور نوجوانی میں بھی آپ کے بال کنگھا کئے ہوئے رہتے تھے۔ اسلام کے اعلان کے بعد اس دور میں جب نوجوانی کا دور گزر چکا تھا اور آپ سن رسیدہ ہو چکے تھے، پچاس سال اور ساٹھ سال کی عمر میں بھی آپ نفاست اور طہارت کا پورا خیال رکھتے تھے، آپ کی زلف مبارک ہمیشہ صاف، ریش مبارک ہمیشہ نفیس اور معطر رہتی تھی۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ بیت الشرف میں پانی کا ایک برتن تھا، جس میں آپ اپنا روئے مبارک دیکھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں آئینہ کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ کان یسوّی عمامتہ ولحیتہ اذا اراد ان یخرج الی اصاحبہ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسلمانوں، دوستوں اور اصحاب کے پاس جانا چاہتے تھے تو عمامے اور سر کے بالوں اور ریش مبارک کو بہت ہی نفاست کے ساتھ ٹھیک کرتے تھے اس کے بعد گھر سے باہر آتے تھے۔ آپ ہمیشہ عطر اور خوشبو سے خود کو معطر فرماتے تھے۔ آپ، زاہدانہ زندگی کے باوجود، میں عرض کروں گا کہ پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی بڑی زاہدانہ تھی، سفر میں کنگھی اور عطر اور سرمے دانی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اس زمانے میں مرد آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے۔ آپ دن میں کئی بار مسواک کرتے تھے۔ دوسروں کو بھی صفائی، مسواک کرنے اور خود کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ پیغمبر کا لباس پرانا اور پیوند زدہ تھا؛ لیکن آپ کا لباس، سر اور روئے انور ہمیشہ صاف رہتا تھا۔ یہ باتیں، معاشرت میں، روئے میں اور ظاہری حالت اور حفظان صحت میں بہت موثر ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں، باطن میں بہت موثر ہیں۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی عوام دوستی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ لوگوں کے درمیان ہمیشہ بشاش رہتے تھے۔ جب تنہا ہوتے تھے تو آپ کا حزن و ملال ظاہر ہوتا تھا۔ آپ اپنے حزن و ملال کو لوگوں کے سامنے اپنے روئے انور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر شادابی رہتی تھی۔ سب کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا تو چہرے پر آزردہ خاطر ہونے کے آثار ظاہر ہوتے تھے لیکن زبان پر حرف شکوہ نہیں آتا تھا۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے سامنے کسی کو گالیاں دی جائیں اور برا بھلا کہا جائے۔ بچوں سے محبت کرتے تھے، خواتین سے مہربانی سے پیش آتے تھے، کمزوروں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے، اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے تھے اور ان کے ساتھ گھوڑسواری کے مقابلے میں حصہ لیتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کا کھانا اور لباس آپ کا بستر چٹائی کا تھا، تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ آپ کا کھانا زیادہ تر جو کی روٹی اور کھجور ہوتی تھی۔ لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی تین دن تک مسلسل گیہوں کی روٹی یا رنگا رنگ کھانے نوش نہیں فرمائے۔ ام المومنین (حضرت) عائشہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ایک مہینے تک ہمارے باورچی خانے سے دھواں نہیں اٹھتا تھا۔ ( یعنی چولھا نہیں جلتا تھا) آپ کی سواری بغیر زین اور پالان کے ہوتی تھی۔ جس زمانے میں لوگ قیمتی گھوڑوں پر (بہترین) زین اور پالان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر جگہوں پر گدھے پر بیٹھ کے جاتے تھے۔ انکسار سے کام لیتے تھے۔ نعلین مبارک خود سیتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی عبادت آپ کی عبادت ایسی تھی کہ محراب عبادت میں کھڑے رہنے کے سبب پائے مبارک میں ورم آ جاتا تھا۔ رات کا بڑا حصہ، شب بیداری، عبادت، گریہ و زاری، استغفار اور دعا میں گزارتے تھے۔ خداوند عالم سے راز و نیاز اور استغفار فرماتے تھے۔ رمضان کے علاوہ شعبان اور رجب میں بھی روزہ رکھتے تھے اور بقیہ ایام میں، اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، ایک دن چھوڑ کے روزہ رکھتے تھے۔ اصحاب آپ سے کہتے تھے : یا رسول اللہ آپ سے تو کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخّر سورہ فتح میں بھی آیا ہے :لیغفرلک اللہ ما تقدم ذنبک و ما تاخّر تو اتنی دعا، عبادت اور استغفار کس لئے؟ فرماتے تھے: افلا اکون عبدا شکورا کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ رہوں جس نے مجھے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں؟ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کا سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عادل اور صاحب تدبیر تھے۔ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینے آنے کی تاریخ کا مطالعہ کرے، وہ قبائلی جنگیں، وہ حملے، وہ دشمن کو مکہ سے بیابان کے بیچ میں لانا، وہ مسلسل وار، وہ دشمن سے مقابلہ، اس تاریخ میں ایسی حکمت آمیز، ہمہ گیر اور محکم تدبیر کا مشاہدہ کرتا ہے جو حیرتناک ہے۔ آپ قانون و ضابطے کے پابند اور محافظ تھے۔ نہ خود قانون کے خلاف عمل کرتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو قانون شکنی کی اجازت دیتے تھے۔ خود بھی قوانین کی پابندی کرتے تھے۔ قرآن کی آیات بھی اس کی گواہی دیتی ہیں۔ جن قوانین کی پابندی لوگوں کے لئے ضروری ہوتی تھی، آنحضرت خود بھی سختی کے ساتھ ان پر عمل کرتے تھے اور سرمو قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ آپ کے دیگر عادات و اطوار میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ عہد کی پابندی کرتے تھے۔ کبھی عہد شکنی نہیں کی۔ قریش نے آپ کے ساتھ عہد شکنی کی مگر آپ نے نہیں کی۔ یہودیوں نے بارہا عہد شکنی کی لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کی۔ آپ اسی طرح رازدار بھی تھے۔ جب فتح مکہ کے لئے چل رہے تھے تو کوئی نہ سمجھ سکا کہ پیغمبر کہاں جانا چاہتے ہیں۔ پورے لشکر کو جمع کیا اور فرمایا باہر چلتے ہیں۔ کہا کہاں؟ فرمایا بعد میں معلوم ہوگا۔ کسی کو بھی یہ نہ سمجھنے دیا کہ مکہ کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ نے ایسی تدبیر سے کام لیا کہ آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے اور قریش کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ آ رہے ہیں۔ جب آپ مجمع میں بیٹھے ہوتے تھے تو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ پیغمبر اور اس بڑی جماعت کے کمانڈر ہیں۔ آپ کی سماجی اور فوجی انظامی صلاحیت اعلی درجے کی تھی اور ہر کام پر نظر رکھتے تھے۔ البتہ معاشرہ چھوٹا تھا، مدینہ اور اطراف مدینہ کے علاقے اس میں شامل تھے، بعد میں مکہ اور ایک دو دوسرے شہر اس میں شامل ہو گئے لیکن آپ منظم طور پر لوگوں کے امور کا خیال رکھتے تھے۔ اس ابتدائی معاشرے میں آپ نے نظم و نسق، حساب کتاب، حوصلہ افزائی اور پاداش کو لوگوں کے درمیان رائج کیا۔ ٹاپ دشمنان اسلام سے پیغمبر اسلامۖ کا برتاؤ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے دشمنوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہ آپ کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ بعض دشمن ایسے تھے جن کی دشمنی گہری تھی؛ لیکن پیغمبر دیکھتے تھے کہ ان سے زیادہ خطرہ نہیں ہے تو پیغمبر ان سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے تھے اور ان سے زیادہ سختی سے نہیں پیش آتے تھے۔ بعض دشمن ایسے تھے جن کی طرف سے خطرہ تھا، پیغمبر ان کی طرف سے ہوشیار رہتے تھے اور ان پر نظر رکھتے تھے۔ جیسے عبداللہ بن ابی، ایک درجے کا منافق تھا اور رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کرتا رہتا تھا، لیکن پیغمبر صرف اس پر نظر رکھتے تھے اور اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ وہ پیغمبر کی زندگی کے اواخر تک زندہ تھا۔ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت سے تھوڑا پہلے اس دنیا سے گیا۔ پیغمبر اس کو برداشت کرتے تھے۔ یہ ایسے دشمن تھے جن کی طرف سے اسلامی نظام، اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کو کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں تھا۔ لیکن جن دشمنوں کی جانب سے خطرہ تھا پیغمبر ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔ اسی مہربان، رحمدل، چشم پوشی اور عفو و درگذر سے کام لینے والی ہستی نے حکم دیا اور بنی قریظہ کے خیانتکاروں کو جو کئی سو تھے، ایک دن میں قتل کر دیا گیا اور بنی نضیر اور بنی قینقاع کو باہر نکال دیا گیا اور خیبر کو فتح کیا گیا۔ اس لئے کہ یہ خطرناک دشمن تھے۔ مکے میں آنے کے بعد شروع میں پیغمبر نے ان کے ساتھ بہت زیادہ مہربانی سے کام لیا لیکن انہوں نے خیانت کی، پیٹھ میں خنجر گھونپا، سازش کی اور خطرہ پیدا کیا۔ پیغمبر نے عبداللہ بن ابی کو برداشت کیا، مدینے کے یہودیوں کو برداشت کیا۔ جو قریشی آپ کی پناہ میں آ گئے یا بے ضرر تھے انہیں برداشت کیا۔ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو چونکہ اب ان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لئے حتی ابوسفیان جیسوں اور بعض ديگر لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے؛ لیکن غدار، خطرناک اور نا قال اطمینان دشمنوں کو سختی کے ساتھ کچلا۔ ٹاپ
اخلاق اور انسان اسلام نواز انسان کی بنیادی پہچان انسان کی بد نصیبی کی جڑ اقوام اور تہذیبوں کے زوال کا بنیادی سبب معاشرے کے اصلی اقدار اسلامی معاشرے اور جاہلیت کے معاشرے کی سرحد زمین پر بہشت اخلاق اور دولت کا رشتہ اخلاق اور انتظامی سسٹم علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے علم سے اخلاق کی جدائی معالج کا اخلاق اخلاق سے سیاست کی جدائی کا خطرہ اخلاق اور فن اخلاق اور فن کی یگانگت اخلاقی مشکلات اخلاق سے عاری آزادی اخلاق سے دوری اخلاقی برائیاں خاندان میں اخلاقیات کا شیرازہ بکھرنے کے عواقب اخلاق اور انسان اخلاق اور انسان اسلام نواز انسان کی بنیادی پہچان اسلامی انسان وہ انسان نہیں ہے جو صرف اسلامی اعتقاد رکھے اور اسلامی عمل کرے، بلکہ اسلامی اخلاق بھی ایک بنیادی پہچان ہے ورنہ اگر انسان محکم اسلامی عقیدہ رکھتا ہو اور نماز، روزے کا پابند بھی ہو لیکن حاسد ہو، بخیل ہو، بزدل ہو، لوگوں کا برا چاہنے والا ہو، بے حوصلہ اور بے ارادہ ہو تو یہ انسان مسلمان انسان نہیں ہے۔ مسلمان انسان کو تربیت، علم اور عمل، تینوں پہلووں سے اسلام پر کاربند ہونا چاہئے۔ ٹاپ انسان کی بد نصیبی کی جڑ انسان کی بدنصیبیوں اور پریشانیوں کی جڑ تلاش کریں تو وہ انسانوں کی نفسانی برائیوں میں پیوست ملے گی۔ کمزوری اور پریشانی یا اختلافات کی وجہ سے ہوتی ہے یا دنیا پرستی اور حرص و طمع کی وجہ سے ہوتی ہے یا انسانوں کے ایک دوسرے سے بد دل ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے یا خوف، کمزوری کے اظہار اور موت کے ڈر کی وجہ سے ہوتی ہے یا نفسانی خواہشات، شہوت پرستی اور عیاشی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ انسانی معاشروں کی مصیبتوں کی اصل وجوہات ہیں۔ ٹاپ اقوام اور تہذیبوں کے زوال کا بنیادی سبب تہذیبوں کا زوال گمراہی کا نتیجہ ہے۔ تہذیبیں اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد کمزوریوں، خلاؤں اور گمراہیوں کی وجہ سے زوال پذیر ہوتی ہیں۔ ہم اس کی علامتیں آج مغربی تہذیب میں دیکھ رہے ہیں، تمدن اخلاق سے عاری، مادیت معنویت اور دین سے خالی اور طاقت عدل و انصاف سے بے بہرہ ہے۔ اقوام کا زوال یک بیک نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ اس تدریجی عمل کو آج امریکا اور یورپ میں مغربی مفکرین کی تیزبیں نگاہیں دیکھ رہی ہیں۔ ان معاشروں میں نوجوانوں کو، بے راہ روی، بے حیائی، زیادتی او جرم و جارحیت کی تربیت دی جا رہی ہے اور نوجوان نسل اخلاقی برائیوں میں غرق ہے۔ ایسی نوجوان نسل، ہر معاشرے میں چاہے اس کے پاس کتنا ہی علم و دانش اور دولت و ثروت کیوں نہ ہو، دیمک کی طرح معاشرے اور نظام کے ستونوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ٹاپ معاشرے کے اصلی اقدار معاشروں کا حقیقی تشخص ان کا اخلاقی تشخص ہے۔ یعنی درحقیقت کسی بھی معاشرے کی اصل بنیاد اس کی اخلاقی راہ و روش ہے اور بقیہ تمام چیزیں اسی پر استوار ہوتی ہیں۔ اگر معاشرے میں اخلاق ہوگا تو سماجی انصاف بھی فراہم ہوگا، معاشرے میں ترقی آئے گی اور معاشرہ لوگوں کے لئے، اسی دنیا میں بہشت بن جائے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بنی آدم پر جو مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں، اس کی جڑ برا اخلاق اور لوگوں کے اخلاق کی برائی ہوتی ہے۔ سماجی انصاف بہت حد تک اخلاق سے وابستہ ہے۔ البتہ اس کا بڑا حصہ معاشرے کے قوانین اور اصول و ضوابط سے تعلق رکھتا ہے لیکن قوانین اور اصول و ضوابط، اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک افراد معاشرہ خدائی اور اسلامی اخلاق کے مالک نہ ہوں۔ آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی بہت زیادہ ہے، کیا ساری آمدنی انہیں اپنے ہی اوپر خرچ کرنی چاہئے؟ یہ مادی اخلاق ہے، یہ شیطانی طرز عمل ہے۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ حیوانی طریقہ ہے۔ جانور کے پاس جو کچھ ہوتا ہے، سب صرف اس کا ہوتا ہے۔ انسانی اخلاق بالخصوص اعلی اسلامی اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس کی اپنی لازمی ضرورتیں پوری ہونے اوراس کی (جائز) خواہشات کی تکمیل کے بعد، ان لوگوں پر خرچ ہونا چاہئے جو اس معاشرے میں رہتے ہیں۔ ٹاپ اسلامی معاشرے اور جاہلیت کے معاشرے کی سرحد ایک معاشرہ ایسا ہے کہ جس میں رہنے والے انسانوں کے اخلاقیات صحیح ہیں۔ افراد معاشرہ عفو و درگذر کرنے والے، صاحب فکر، عاقل، نیکیاں اور احسان کرنے والے، ایک دوسرے کی مدد کرنے والے، مشکلات میں صبر کرنے والے، مصیبتوں میں تحمل سے کام لینے والے، خوش اخلاق، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے اور جہاں ایثار و فداکاری کی ضرورت ہو وہاں ایثار و فداکاری کرنے والے ہیں۔ اس کے بالعکس بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ (افراد معاشرہ) ایسے ہوں جن کے باہمی روابط رحمدلی، مروت، انصاف اور خوش اخلاقی کے بجائے، مفاد پرستی پر استوار ہوں، ایک دوسرے کو صرف اس وقت تک قبول اور برداشت کریں جب تک ان کے مفادات کے مطابق ہو اور اگر مفاد کے مطابق نہ ہو تو ایک دوسرے کو ختم کر دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ معاشرے کی ایک قسم یہ بھی ہے۔ یہ معاشرہ جاہلیت کا معاشرہ ہوگا۔ اس میں اور اس معاشرے میں جہاں اخلاقی اصولوں کی حکمرانی ہے، جس کو اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے، فرق ہے۔ بعثت حضرت رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اہم خصوصیت آپ کا اخلاقی خوبیوں کی دعوت دینا ہے۔ بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا ایک فرق اور سرحد اخلاق کا مسئلہ ہے۔ ٹاپ زمین پر بہشت اسلام چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے تئیں مہربان ہوں، ایک دوسرے کے حالات اور مستقبل سے پوری دلچسپی رکھیں، ایک دوسرے کے ہمدرد ہوں، ایک دوسرے کی بھلائی چاہیں، ایک دوسرے کی غلطیوں اور تکالیف سے متاثر ہوں، ایک دوسرے کے لئے دعا کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔ وتواصوا بالمرحمۃ یہ دوستی، محبت کا رشتہ، یہ بھائیوں میں محبت ومہربانی، خیر خواہی، خیر اندیشی، یہ سب بہت اچھی اور ممتاز صفات ہیں۔ اپنے اندر ان صفات کی تقویت کرنی چاہئے۔ انسان کے لئے سب سے بری صفت یہ ہے کہ انسان خود کو اپنے مادی مفادات کو بنیاد قرار دے اور اپنی ذات کی تسکین اور ذاتی خواہش کی تکمیل پر بے شمار انسانوں کو موت کے خطرے سے دوچار کرنے اور مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ جس معاشرے میں حسد، بخل، تنگدلی، جرم، لالچ، بد خواہی، سازش اور ایک دوسرے کی نسبت بددلی نہ ہو وہ معاشرہ درحقیقت روئے زمین پر ایک بہشت ہے؛ ع بہشت آنجاست کآزاری نباشد ( بہشت وہاں ہے جہاں کوئی آزار و رنج نہ ہو) تزکیہ ہو تو اسلامی معاشرے کی فضا، بہشت ہے۔ ٹاپ اخلاق اور دولت کا رشتہ کچھ لوگ سادہ لوحی سے کام لیتے ہوئے دنیا کے بعض دولتمند ملکوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس دولت ہے لیکن دین اور اخلاق نہیں ہے، ہمیں بھی اسی راستے پر چلنا چاہئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دولتمندی دین اور اخلاق سے عاری ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ غلط ہے۔ ہر صاحب دولت و ثروت ملک، کچھ خاص عوامل کی وجہ سے دولتمند ہوا ہے۔ جہاں بھی محنت، سعی و کوشش اور تدبیر سے کام لیا جائے گا، وہاں اس کا نتیجہ حاصل ہوگا۔ یہ قانون الہی ہے۔ حتی جو لوگ بغیر معنویت کے صرف مادیات کے لئے کوشش کرتے ہیں، اگر صحیح تدبیر اور طریقے سے کام لیتے ہوئے کوشش اور محنت و مشقت کریں تو اس کو حاصل کر لیں گے۔ کلا نمد ھؤلاء و ھؤ لاء من عطاء ربک یہ قرآن کا بیان ہے۔ صرف مادیات کے لئے محنت اور کوشش کی جائے تو دولت و طاقت حاصل ہوتی ہے، لیکن سعادت نصیب نہیں ہوتی۔ٹاپ اخلاق اور انتظامی سسٹم جہاں تک ہو سکے، اپنے مینجمنٹ کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنائيں۔ اسلامی انتظامی توانائی کے ساتھ انسانی اخلاق ۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (جب عزم کر لیں تو پھر خدا پر بھروسہ کرکے شروع کریں) خداوند عالم اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے کہ عوام کا خیال رکھئے جنگ احد کے بعد کی بات ہے، انہوں نے شکست کھائی ہے، دکھی ہیں۔ ان سے مشورہ کیجئے، ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئیے؛ لیکن فاذا عزمت فتوکل علی اللہ جب عزم کر لیا تو خدا پر توکل کریں اور آگے بڑھیں۔ انتظامی مہارت یہ ہے: خوش اخلاقی ہو لیکن اسی کے ساتھ، استحکام، انتظامی اقتدار اور ہر حال میں خدا پر توکل، پرودگار عالم سے نیکی طلب کرنا اور اس پر اعتماد اور توکل کرنا۔ ٹاپ علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے طالب علم کے لئے ایک فطری پارسائی ضروری ہے۔ طالب علم جتنا پارسائی سے نزدیک ہوگا، علم سے اتنا ہی مانوس اور ہم آہنگ ہوگا اور علم کو اتنا ہی زیادہ پسند کرے گا، اتنا ہی زیادہ علم حاصل کرے گا، اتنی زیادہ علم کی قدر کرے گا اور علم کو اتنی ہی زیادہ اہمیت دے گا۔ علم کو اخلاق کے ساتھ اور صنعتی، سائنسی اور مادی ترقی کو اخلاقی رشد کے ساتھ ہونا چاہئے۔ خدا پر توجہ اخلاقی رشد کا بنیادی عامل شمار ہوتی ہے۔ فرض کریں کوئی معاشرہ ایسا ہے جس میں معنویت اور اخلاق ہے لیکن علم نہیں ہے تو یہی بے علمی اس کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی۔ اس لئے کہ دشمن آئے گا اور اپنے علم کے ماحصل کو، جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہوگی، حتی معنویات کی قیمت پر اس معاشرے پر مسلط کرے گا اور اس کے ہاتھ فروخت کرے گا۔ یہ معاشرہ ایک دن، دو دن، کچھ عرصے تک صبر کرے گا، علم کے ماحصل کو اپنے ملک میں نہیں لائے گا لیکن سرانجام اسے درآمد کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ یہ حالت اس وقت وجود میں آئے گی جب بنیاد تباہ و برباد ہو چکی ہو۔ اگر ملک میں، معاشرے میں اچھی یونیورسٹی ہو، لیکن معنویت اور اچھا اخلاق نہ ہو تو حالت کیا ہوگی؟ اس کی حالت اس سے بھی بدتر ہوگی۔ اس لئے کہ اس صورت میں ملک میں علم ترقی کرے گا لیکن انسانی اقدار و اہداف کے برعکس سمت میں جائے گا۔ یہ علم ظلم، استعمار، امتیاز، بے عفتی، حتی قومی اصول و اقدار سے خیانت کا وسیلہ بن جائے گا۔ ٹاپ علم سے اخلاق کی جدائی آج مغربی دنیا اور مغربی تمدن علم و دانش کی غیر معمولی پیشرفت کے باوجود جو بشریت کو نجات دلانے پر قادر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج بشریت کے لئے سازگار نہیں ہے۔ جہاں بھی علم ہو لیکن ضمیر، معنویت اور انسانی احساسات و جذبات نہ ہوں، وہاں علم و دانش سے بشریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ علم، معنویت اور اخلاق کے بغیر ایٹم بم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور بے گناہوں پر گرتا ہے، اسلحہ بن جاتا ہے اور لبنان، فلسطین اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بے گناہوں کو ہدف بناتا ہے، مہلک کیمیائی مادہ بن جاتا ہے اور حلبچہ نیز دنیا کے دیگر علاقوں میں عورتوں، مردوں، بچوں اور بوڑھوں کا بہیمانہ انداز سے قتل عام کرتا ہے۔ یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ یہ مہلک مواد، علم و دانش کے انہی مراکز سے اور انہی یورپی ملکوں سے آئے۔ انہی ملکوں نے یہ مواد تیار کیا اور اس حکومت کو دیا جس کو انتہائی بنیادی اصولوں کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں تھا۔ اسلحے اور انواع و اقسام کی سائنسی مصنوعات آج نوع انسان کو سعادت و خوش نصیبی عطا نہیں کر سکیں اور نہ ہی کر سکتی ہیں۔ یہ سائنسی مصنوعات افراد بشر، عورتوں، مردوں اور بچوں کو زندگی کی لذتوں سے آشنا نہیں کر سکتیں، اس لئے کہ ان کے ہمراہ اخلاق و معنویت نہیں ہے۔ ٹاپ معالج کا اخلاق ایک ڈاکٹر اور طبیب کو دو زاویوں سے اخلاق کے مسئلے کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ ایک لینے کے زاویئے سے اور دوسرے واپس دینے کے زاویئے سے۔ جس مرحلے میں وہ علم حاصل کرتا ہے، وہاں بھی اسلامی اخلاقیات ہیں۔ یعنی تعلیم و تربیت میں اسلامی اخلاق؛ طریقۂ تعلیم، تعلیم کا موضوع، کس سے تعلیم لی جائے، کس لئے تعلیم حاصل کی جائے، یہ سب تعلیم کے مختلف مراحل ہیں۔ رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ (یہ اصول) تعلیم میں بھی (نافذ) ہے۔ یعنی اچھی تعلیم حاصل کرنا، ہمیشہ بہترین چیزیں حاصل کرنا اور بہترین چیزیں رکھنا، اخلاقیات کا جز ہے۔ اس کے بعد جو سیکھا ہے اس کو کام میں لانے کا مرحلہ ہے۔ یہ بیماروں اور یونیورسٹی میں طلبا سے دوچار ہونے کا مرحلہ ہے۔ یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ یہاں بھی اخلاقیات کا عمل دخل ہے۔ بقراط کی وصیت میں بہت ہی اہم نکات پائے جاتے ہیں جن کا تعلق بیماروں کے ساتھ ہی سلوک اور اس بات سے ہے کہ بیماری کیسے دور کی جائے اور یہ اس میدان میں اخلاق کے دو پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ ٹاپ اخلاق سے سیاست کی جدائی کا خطرہ دنیا میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سماج میں وہ لوگ ابھر کے سامنے آتے ہیں جو خاص انفرادی اخلاق کے مالک ہوں۔ تکبر کرنا، آرام و آسائش کی زندگی گزارنا، فضول خرچی، فیشن پرستی، خود پسندی و خود سری وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں لوگوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ جو لوگ حکومت میں ہوں ان کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں۔ حتی انقلابی ملکوں میں، وہ انقلابی حضرات، جو کل تک خیموں میں زندگی گزارتے تھے، ویرانوں اور قبرستانوں میں روپوش رہتے تھے، حکومت ملتے ہی ان کی زندگی کی حالت بدل جاتی ہے، ان کی حکومت کا طریقہ بدل جاتا ہے اور وہ بھی وہی طریقہ اپنا لیتے ہیں جو دنیا کے دیگر حکام اور سلاطین کا ہوتا ہے۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس غلط فکرکو بدل دیا اور دکھا دیا کہ قوم اور مسلمین عالم کا مقبول ترین رہبر کیسی زاہدانہ زندگی گزارتا ہے، ملاقات کے لئے آنے والوں سے محلوں کے بجائے حسینیہ میں ملتا ہے اور لباس اور زبان کی سادگی کے ساتھ ہی عوام کے سلسلے میں انبیاء کے طرز عمل کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ سیاست کو دو خطرات لاحق ہوتے ہیں: ایک یہ ہے کہ سیاست اخلاق سے دور اور معنویت و فضیلت سے عاری ہو سکتی ہے۔ یعنی شیاطین، سیاست پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں اور سیاست معاشروں کے تسلط پسندوں اور دولت پرستوں کے مفاد کے تحفظ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر سیاست اس مصیبت میں مبتلا ہو گئی تو انسانی معشروں کے تمام شعبے عیوب اور مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے اور پھر کوتاہ نظر، بچکانہ خصلت کے مالک اور ضعیف النفس افراد سیاست کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور سیاست کی قیادت قوی اور باصلاحیت ہاتھوں سے نکل کے نالائق لوگوں کے پاس چلی جائے گی۔ ٹاپ اخلاق اور فن اخلاق اور فن کی یگانگت جو انسان قابل احترام اور باشرف ہو اس کا دل، ذہن اور فکر بھی باشرف اور قابل احترام ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سامنے والے کو صرف اس بنا پر کہ وہ بیٹھا فنکار کی باتیں سن رہا ہے، سب کچھ دے دیا جائے بلکہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ فنکار اس کو کیا دینا چاہتا ہے۔ بات اخلاق اور فضیلت کی ہو رہی ہے۔ میں نے، میرا خیال ہے کہ، رومین رولینڈ (معروف فرانسیسی مصنف، جس کا اصل نام ایل سن جسٹ تھا26 /1/1866 - 30 /12/1944) کے حوالے سے پڑھا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ کسی بھی فنی کام میں ایک فیصد فنکاری، ننانوے فیصد اخلاق ہونا چاہئے۔ یا احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس طرح کہیں کہ: دس فیصد فنکاری اور نوے فیصد اخلاق ہونا چاہئے۔ مجھے ایسا لگتا کہ یہ بات عین حقیقت نہیں ہے۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ سو فیصدی فنکاری اور سو فیصدی اخلاق ہونا چاہئے۔ ان میں آپس میں کوئی منافات نہیں ہے۔ کام کو سو فیصدی فنکارانہ خلاقیت کے ساتھ انجام دینا چاہئے جس میں سو فیصدی اعلی اور بافضیلت باتیں پیش کی جائیں۔ آرٹ اور فن کے شعبے میں بعض ہمدرد لوگوں کے لئے جو چیز باعث تشویش ہے، یہ ہے کہ فنکار تخیل اور آرٹ کی آزادی کے نام پر فضیلتوں کو فنا اور اخلاقیات کی بے حرمتی نہ کر دے، یہ بہت اہم ہے۔ ٹاپ اخلاقی مشکلات اخلاق سے عاری آزادی مغربی ڈیموکریسی کا فلسفہ اور بنیاد لبرلزم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان آزاد ہے اوراس آزادی کا تقاضا ہے کہ آمریت نہ رہے، جمہوریت رہے۔ اب یہ آزادی جو لبرلزم سے ماخوذ ہے، آزادی مطلق ہے۔ یعنی اگر عوام فیصلہ کر لیں کہ اس چیز کو قبول کریں جو سو فیصد ان کے نقصان میں ہے ( تو وہ یہ کام کر سکتے ہیں) فرض کریں کہ برطانیہ کے عوام، جس طرح انہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں ہم جنس بازی کو قانونی حیثیت دے دی ہے، اسی طرح، یہ فیصلہ کریں کہ ہیروئن کا استعمال اور محارم (ماں، باپ ، بھائی بہن اور بیٹی بیٹے وغیرہ) سے شادی کی بھی اجازت ہونا چاہئے تو؟ اب ان کے پاس اس کو قبول نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ ہم جنس بازی اور محارم کی شادی دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ آج اگر امریکی کانگرس یا برطانوی پارلیمنٹ محارم کی شادی کو منظوری دینے کا فیصلہ کریں تو اب مردانہ غیرت وغیرہ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یعنی اس آزادی کی حدود پر کوئی منطق حکمفرما نہیں ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ اس حد کے بعد آزادی، اخلاق کے خلاف ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ کون سا اخلاق؟ کوئی اخلاق بچا ہی نہیں ہے۔ سب آزاد ہیں۔ اس لئے کہ لبرلزم کا مطلب آزادی ہے اور اس آزادی کی کوئی حدبندی نہیں کی جا سکتی الا یہ کہ آزادی، آزادی کے خلاف اور سماجی آزادی کی بنیاد کے خلاف ہو۔ ان کی ریڈ لائن صرف یہ ہے۔ مغربی ڈیموکریسی لبرلزم کے فلسفے اور منطق سے، درحقیقت اپنے کھوکھلے پن کو ثابت کرتی ہے۔ اس صورت میں معاشرے کی تمام اخلاقی قدریں ختم ہو جائيں گی۔ وہ اس کا اعتراف کرنے پر تیار نہیں ہیں لیکن اس کا یقینی نتیجہ یہی ہے۔ ٹاپ اخلاق سے دوری مغرب والوں نے اخلاق کی بنیادیں بھی خود ہی ختم کی ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے سے ہی انہوں نے اخلاقیات کی بنیادوں کو گرانا شروع کر دیا۔ یعنی انفرادی آزادی اور اس میں لامحدود توسیع کہ ہر شخص جو چاہے انجام دے، جتنی لذت (جس طرح سے بھی) حاصل کرنا چاہے حاصل کرے، اس بات نے معاشرے کو ثقافتی لحاظ سے اندر سے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ثقافت اور شخصیت کے لحاظ سے سخت بحران کا شکار ہے۔ امریکی معاشرہ، زیادہ دولت، زندگی کے وسائل کی فراوانی اور سائنسی ترقی کے باوجود معنوی فقر اور وحشتناک اخلاقی تہی دستی کا شکار ہے کہ ایسے جرائم اور المیے وہاں تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ یہ معنویت اور دینداری سے دوری کا نتیجہ ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ماں وقتی لذت اور حقیر خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے بچوں کو قتل کر دے؟ اگر انفرادی لذت کا حصول اس بات کا باعث ہو سکتا ہے کہ انسان آزادی کے ساتھ اس کام کو انجام دے تو پھر منشیات کے استعمال پر اتنی پابندی اور دباؤ کیوں ہے؟ کوئی شخص ایسا ہے جس کا جی چاہتا ہے کہ منشیات استعمال کرے، اس کی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ کیوں بنتے ہو؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے میں اخلاقی بنیادیں گر جائیں تو اس کو کوئی بھی چیز نہیں بچا سکتی۔ آج ان کی یہی حالت ہے۔ ٹاپ اخلاقی برائیاں یہ جو بعض لوگ دنیوی زندگی کے لالچ میں پڑ کر روح کے لئے تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں اور اخلاقی برائیوں، ناپسندیدہ صفات، حرص و طمع اور بخل کے شکار ہو جاتے ہیں، یہ کائنات کے بارے میں خدائی، معنوی اور توحیدی نظرئے سے جو لوگوں کو اتحاد و یک جہتی اور پرامن بقائے باہمی کی دعوت دیتا ہے، دوری کا نتیجہ ہے۔ ایک ساتھ رہنا اور اتحاد انسان کے اندر انفرادی طور پر بھی پسندیدہ اور شیریں ہے اور معاشرے اور دنیا کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ اقوام، حکام، بڑوں اور چھوٹوں کی یہی برائیاں ہیں جو ان کے دل کے اندر خود پسندی، خود پرستی اور فرعونیت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ بعض اوقات انسان اپنے جسمانی قالب سے باہر، یعنی اپنے ظاہر میں فرعونیت کی کوئی علامت نہیں رکھتا لیکن باطن میں، دل کے اندر، فرعون ہوتا ہے۔ خود پسندی، خود پرستی، اپنے آپ کو محور قرار دینا، اپنی ذات کو بڑا بناکر پیش کرنا، اپنی خواہشات، اپنے میلانات، اپنی شہوات اور اپنے مفادات کو بہت اہم سمجھنا، یہ باتیں، زندگی کی اکثر برائیوں کی جڑ ہیں؛ لہذا تزکیہ نفس، نفس کی پاکیزگی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ ٹاپ خاندان میں اخلاقیات کا شیرازہ بکھرنے کے عواقب جہاں بھی شہوت پرستی، اخلاقی برائیوں اور بے راہ روی کا راستہ کھلا، وہاں خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جس کا آج مغربی ملکوں میں مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں بے راہ روی زیادہ ہے، وہاں یہ چیز زیادہ واضح ہے۔ ان جگہوں پر خاندان کا تصور اپنی حقیقت کھو چکا ہے۔ اگر کبھی میاں بیوی کچھ دیر کہیں بیٹھنا چاہیں تو مثال کے طور پر ایک وقت معین کریں جب سب گھر والے جمع ہوں اور کچھ دیر افراد خاندان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی لیں، یعنی پرخلوص اور محبت آمیز گھر کی فضا کا کوئی وجود نہیں رہا۔ لہذا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کریں۔ ٹاپ
اخلاق اور اسلام اخلاق بندگی اسلامی اخلاق کی بنیاد خدائی اور اسلامی حیات طیبہ اخلاق کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ انسان کے اخلاق پر نماز کے اثرات اخلاق اور ایران کا اسلامی انقلاب انسانی معاشروں میں انقلاب کا محرک اسلامی انقلاب کا اصلی ہدف امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت اخلاق اور مغربی دنیا اخلاقیات سے آزادی مغربی لبرلزم میں اخلاق یورپ میں جنگ پسندی اخلاق اور اسلام اخلاق اور اسلام اخلاق بندگی انسان اگر چاہتا ہے کہ خدا کی رحمتیں اس پر نازل ہوں تو اس کو اخلاق اسلامی اور احکام الہی کی پابندی کرنی چاہئے۔ بنی نوع انسان کی ایک ایک فرد کے خدا سے رابطے کا انحصار اس میں ہے کہ اپنے عمل، اپنے کردار اپنے قلب اور اخلاق کو خدا کی پسند اور رضائے الہی کے مطابق بنائے۔ خود پسندی، دروغگوئی، تہمت اور فریب دہی سے دور رہے اور اپنی زندگی پر نفس اور نفسانی خواہشات کی حکمرانی قائم نہ ہونے دے۔ خدا پر توجہ، خدا کا ذکر، خدا کی یاد، خدا سے حقیقی توسل، نفس کے خلاف مجاہدت اور حقیقی عبادت کی اپنے انفرادی اور ذاتی عمل میں روز بروز تقویت کرے۔ ٹاپ اسلامی اخلاق کی بنیاد اسلام دنیا اور انسان کے بارے میں بہت ہی عمیق اور خردمندانہ نقطۂ نگاہ، خالص توحید، حکمت آمیز اخلاقی اور معنوی دستورالعمل، محکم اور ہمہ گیر سماجی و سیاسی نظام اور اصول و ضوابط انفرادی اور عبادی فرائض اور اعمال کی تعلیم دیکر، تمام افراد بشر کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے باطن کو بھی برائیوں، پستیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور باطن میں نور ایمان، خلوص، آزادی، اخلاص، محبت، امید اور نشاط و شادابی کو بڑھائیں اور اپنی دنیا کو غربت، جہالت، ظلم، امتیاز، پسماندگی، جمود، زور زبردستی، تسلط، تحقیر اور فریب سے نجات دلائیں۔ ٹاپ خدائی اور اسلامی حیات طیبہ خدا اور پیغمبر انسانوں کو پاکیزہ اور طاہر زندگی کی دعوت دیتے ہیں۔ پاکیزہ زندگی صرف کھانا، پینا اور لذت اٹھانا نہیں ہے؛ اس کے لئے خدا اور رسول کی دعوت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہر انسان کا نفس اس کو دوسرے جانداروں جیسی زندگی کے گر سکھانے کے لئے کافی ہے۔ تمام حیوانات اپنی غذا حاصل کرنے اور شہوانی خواہشات کی تسکین کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرنے اور تھوڑی دیر زیادہ زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ حیات طیبہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ زندگی خدا کی راہ میں اعلی اہداف کے حصول میں بسر ہو۔ انسان کا اعلی ہدف یہ نہیں ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو پیٹ بھر لے۔ یہ کمترین چیز ہے جس کو ایک حیوان اپنا ہدف قرار دے سکتا ہے۔ انسان کے لئے اعلی ہدف حق تک پہنچنے، تقرب خدا کے حصول اور اخلاق الہی اپنانے سے عبارت ہے۔ اخلاق الہی اپنانا، کسی دوسرے کام کی تمہید نہیں ہے جبکہ دوسرے کام خدائی اخلاق اپنانے اور انسانوں کے نورانی ہونے کا مقدمہ ہیں۔ عدل انسانوں کے اخلاق الہی کے مالک اور نورانی ہونے کا مقدمہ ہے۔ اسلامی حکومت اور پیغمبروں کی حاکمیت بھی اسی لئے ہے۔ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ٹاپ اخلاق کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ اسلام میں لوگوں کے عقیدہ اور اخلاق کی نسبت لاتعلقی اور غفلت نہیں پائی جاتی۔ اسلام عدل و انصاف کی ترویج کو لوگوں کے عقائد اور اخلاق سے بھی مربوط قرار دیتا ہے۔ یعنی اگر جس شخص کی گمراہی کی روک تھام کی جاسکتی ہے، اس کی اس سلسلے میں مدد نہ کی جائے تو یہ اس کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔ اگر کسی کی اخلاقی مسائل میں ہدایت اور تربیت کی جا سکتی ہے اور انسان یہ کام نہ کرے تو اس کے ساتھ بے انصافی اور ظلم کیا ہے۔ اس آیہ شریفہ کے ذیل میں کہ من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض کانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا پیغمبر اکرم فرماتے ہیں؛ جو کسی انسان کو ہلاکت اور آگ سے نجات دلائے، اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں کہ یا انسان کی ہدایت کرے، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ذلک تاویلھا الاعظم ؛ اس آیت کی سب سے برتر اور بہترتفسیر اور معنی یہی ہے کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرے یعنی اس کی گمراہی کے اسباب فراہم کرے، یا کسی کو زندہ کرے یعنی اس کی ہدایت کے اسباب فراہم کرے؛ تو کانما احیا الناس جمیعا ایک انسان کی ہدایت پوری بشریت کی ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اس انسان اور تمام بشریت میں جوہر انسانی ایک ہے۔ جب آپ نے جوہر انسانی کی مدد اور ہدایت کی، چاہے عقیدے میں اور چاہے اخلاق میں، تو آپ نے گوہر انسانی کی مدد اور نصرت کی ہے۔ بنابریں اس کی اہمیت بھی وہی ہوگی ( یعنی پوری بشریت کی مدد کے برابر ہوگی) اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسانوں کی نجات میں مدد اور ہدایت ہر ایک کا فریضہ ہے۔ اسی طرح اس آیہ شریفہ کے ذیل میں کہ فلینظرالانسان الی طعامہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ یہ معنوی طعام ہے، یہ دینی غذا ہے، اخلاق ہے۔ طعام پر نظر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھو کیا استعمال کر رہے ہو یا دوسرے تمہارے توسط سے کیا استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے معنوی غذا کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔ ٹاپ انسان کے اخلاق پر نماز کے اثرات نماز وہ بہترین وسیلہ ہے جو مسلم معاشرے کے تمام افراد کو اخلاقی پاکیزگی اور روحانی نیز معنوی بلندی تک پہنچا سکتی ہے۔ نماز نمازی کے دل اور روح کو اطمینان اور سکون جو زندگی کے تمام میدانوں میں کامیابی کی بنیادی شرط ہے عطا کرتی ہے اور تزلزل اور اضطراب کو جو اخلاق کی تقویت کے لئے مجاہدت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے دور کرتی ہے ۔ ٹاپ اخلاق اور ایران کا اسلامی انقلاب انسانی معاشروں میں انقلاب کا محرک کسی ملک میں انقلاب اس لئے آتا ہے کہ ملک کا سماجی نظام اور لوگوں کے حالات بدل دے، حکومت کو دگرگوں کر دے اور اقتصادی و سماجی روابط میں تبدیلی لائے، یہ انقلاب کا ہدف ہوتا ہے۔ لیکن سماجی حالات دگرگوں ہونے اور تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ کہ لوگوں کا کردار بدل جائے۔ اس لئے کہ ظالم، بدعنوان اور طاغوتی نظام میں انسانوں کو برا بنا دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں انسان مادہ پرست اور معنویت و حقیقت سے عاری ہو جاتا ہے۔ انسان وفا، صداقت اور اخلاص سے عاری ہو جاتے ہیں۔ انسان رحم، مروت، دوستی، تعاون اور ہمراہی کے جذبے سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک غلط اور فاسد سماجی زندگی کے آثار ہیں۔ انقلاب معاشرے کو بدلنے کے لئے آتا ہے اور معاشرے کو بدلنے کا مقصد انسانوں کے اخلاق کو بدلنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اچھے انسان تیار ہوں۔ سماجی انصاف ایک اصول ہے، ایک اعلی اور حقیقی ہدف ہے۔ لیکن سماجی انصاف معاشرے میں اس وقت قائم ہوتا ہے جب اس معاشرے میں پلنے والے افراد ظلم نہ کریں اور ظلم برداشت نہ کریں۔ ٹاپ اسلامی انقلاب کا اصلی ہدف نفسوں کی پاکیزگی حکومت الہی، حکومت حق اور سیاست الہی کے سائے میں ہی ممکن ہے۔ خدا نے دین کو سیاست سے عاری نہیں رکھا ہے۔ وہ بنیادی مسئلہ جو ایران کے اسلامی انقلاب میں اعلی ہدف سمجھا جاتا تھا اور اب بھی شمار ہوتا ہے، وہ انسانوں کی پاکیزگی ہے۔ ہر چیز انسان کی طہارت اور پاکیزگی کے لئے ہے۔ معاشرے میں عدل و انسانی معاشروں میں اسلامی حکومت، اگرچہ ایک بڑا مقصد ہے لیکن یہ بھی انسان کے رشد اور بلندی کا مقدمہ ہے جو انسان کے تزکیہ اور پاکیزگی میں پنہاں ہے۔ اس دنیا کی زندگی بھی سعادت و کامیابی کے لئے، تزکئے کی محتاج ہے اور معنوی و اخروی درجات کا حصول بھی تزکئے پر منحصر ہے۔ انسان کی کامیابی یعنی اعلی مقصد کا حصول تزکئے پر منحصر ہے۔ ٹاپ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت آپ کے نفس کی پاکیزگی اور خدا سے آپ کے رابطے سے تعلق رکھتی ہے۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) پاکیزہ انسان تھے۔ آپ کے اندرونی اور بیرونی دشمن بھی آپ کی اس خصوصیت کو قبول کرتے تھے اور اعتراف کرتے تھے کہ آپ مومن انسان تھے۔ وہ امریکی جو چوالیس دن تک ایران میں قید تھا اور فطری طور پر ان تمام باتوں کا ذمہ دار امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کو سمجھتا تھا، انٹرویو میں کہتا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت سے خوش ہیں۔ ان کے اپنے مخصوص اخلاقی اقدار و اصول تھے اور کوئی بھی ان کی سطح کا نہیں تھا۔ ٹاپ اخلاق اور مغربی دنیا اخلاقیات سے آزادی مغرب میں جن چیزوں کا نعرہ بہت لگایا جاتا ہے، ان میں سر فہرست آزادی نسواں ہے۔ آزادی کے معنی وسیع ہیں؛ اس کا مطلب قید سے آزادی بھی ہے اور اخلاقی اصولوں سے آزادی بھی ہے۔ اس لئے کہ اخلاقی اصول بھی ایک طرح سے قید و بند ہیں۔ اس مالک کے نفوذ سے آزادی بھی ہے جو عورت سے کم مزدوری پر کام لیکر اس کا استحصال کرتا ہے اور ان قوانین سے آزادی بھی مراد ہو سکتی ہے جو عورت کو شوہر کے تئیں وفاداری کا پابند بناتے ہیں، آزادی ان معنوں میں ہو سکتی ہے۔ ٹاپ مغربی لبرلزم میں اخلاق مغربی لبرلزم میں چونکہ حقیقت اور اخلاقی اقدار کا انحصار ماننے پر ہے لہذا آزادی لامحدود ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ آپ اگر بعض اخلاقی اصولوں پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ جو ان اقدار کی خلاف ورزی کرے ، اس کی ملامت کریں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ان پر یقین نہ رکھتا ہے۔بنابریں آزادی کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؛ یعنی معنوی اور اخلاقی لحاظ سے اس کی کوئی حد نہیں ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ آزادی لامحدود ہے ۔ کیوں؟ اس لئے کہ کوئی حقیقت مستقل نہیں ہے ، کیونکہ ان کی نظر میں حقیقت اور اخلاقی اقدار کا تعلق ماننے سے ہے۔ مادہ پرست مغرب، عقائد اور اخلاقی اصولوں کے تعلق سے ایک موقف اختیار کرتا ہے اور طاقت و دولت کے بارے میں جن سے اس کے نمایاں مادی مفادات جڑے ہوتے ہیں، اس کا موقف کچھ اور ہوتا ہے۔جہاں مغرب کو احساس ہوتا ہے کہ دولت و طاقت حاصل کرنے کی جگہ ہے یا اس کا کوئی مخالف موجود ہے ، وہاں تعصب اور تشدد کے ساتھ میدان میں آتا ہے اور ذرہ برابر نرمی اور عفوودرگذر سے کام نہیں لیتا۔ لیکن عقیدے اور اخلاقی اصولوں کے بارے میں ، کم سے کم زبان سے کہنے ، دعوی کرنے اور تحریر کی حد تک ، نرمی، چشم پوشی اور لچک کا مظاہرہ کرتا ہے۔یعنی اس کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جس کا جو بھی عقیدہ ہو رکھے، جس کا جیسا بھی اخلاق و کردار ہو، ہوا کرے۔ البتہ بعض اوقات مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ثقافتی مسائل میں سخت تعصب سے کام لیتے ہیں؛ یعنی جہاں، ان کے اقتصادی یا سیاسی مفادات ، توسیع پسندی اور اقتدار پرستی کا تعلق ہوتا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ثقافتی میدان میں بھی لچـک کے بغیر، تعصب اور تشدد کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔لیکن ان کا طریقۂ کار اور روش یہ ہے کہ عقائد اور ثقافتی مسائل میں حساسیت سے کام نہ لیں اور کوئی موقف اختیار نہ کریں۔ یہ وہی لادینیت ہے۔عقیدے اور اخلاقی امور میں کوئی موقف نہ رکھنا اور غیر جانبدار رہنا۔یہاں اخلاقی اقدار آزادی میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ جیسے امریکا میں ہم جنس پرستی کی تحریک، رائج تحریکوں میں سے ایک ہے ۔ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہیں۔ جریدوں میں ان کی تصاویر شائع کرتے ہیں۔ فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ فلاں تاجر اور فلاں سیاستداں اس گروہ میں شامل ہے۔کسی کو بھی شرم نہیں آتی اور وہ اس سے انکار نہیں کرتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جو لوگ اس تحریک کی مخالفت کرتے ہیں ان پر بعض اخبارات و جرائد شدید ترین حملے کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہم جنس پرستی کی تحریک کے مخالف ہیں۔ یعنی اخلاقی اقدار آزادی کی حدود معین نہیں کرتی ہیں۔ ٹاپ یورپ میں جنگ پسندی یورپ والوں کے کردار میں ہر چیز پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا عجیب و غریب جذبہ بالکل نمایاں ہے۔ اسی بناء پر گزشتہ چند صدیوں کے دوران سخت ترین اور وحشیانہ ترین جنگیں یورپ والوں نے کی ہیں۔ یورپی ملکوں مثلا جرمنی اور فرانس میں سخت ترین اور وحشیانہ ترین جنگیں ہوئی ہیں۔ البتہ جب تک کسی غیر یورپی کا سامنا نہیں ہوا یہ آپس میں لڑتے رہے ہیں؛ لیکن غیر یورپی حریف کے سامنے آتے ہی آپسی جنگ ختم کرکے مل جاتے ہیں۔ یعنی جنگ کے دائرے ان کے اپنے اندر محدود ہیں۔ اب تک دنیا میں دو عالمی جنگیں ہوئی ہیں جو یورپ والوں نے لڑی ہیں۔ جغرافیائی تقسیم اور سرحدوں میں سب سے زیادہ تبدیلی بھی دونوں عالمی جنگوں کے بعد، خود یورپ میں بھی اور یورپ سے باہر مشرق وسطی، بلقان، افریقا اور عرب علاقوں میں بھی، یورپ والوں نے کی ہے۔ یہ پست اخلاقیات ہیں۔ ٹاپ
عظیم مجاہدت خود سازی کے معنی خود سازی کی ضرورت نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت نوجوانی میں خود سازی اخلاقی تربیت اور اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا خود سازی کی روش خود سازی کی کوئی انتہا نہیں ہے تزکیہ تزکیہ سے مراد کیا ہے؟ تزکیہ کی مشق اخلاق کی اصلاح تعلیم پر تزکیہ کا تقدم آسان اور مشکل اخلاقی سلامتی اخلاق اور خود سازی عظیم مجاہدت پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک سخت جنگ سے واپسی پر فرمایا کہ یہ جہاد اصغر تھا اور اس کے بعد جہاد اکبر کی باری ہے جہاد اکبر یعنی نفس سے جہاد۔ جہاد بالنفس کو انسان کی ذاتی حدود تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے۔ شہوت، نفسانی خواہشات، لذت کوشی، آرام طلبی، زیادہ کی خواہش اور بری عادتوں کے خلاف مجاہدت اہم اور جہاد بالنفس ہے۔ یعنی انسان کو اپنے باطن میں موجود شیطان کے خلاف مستقل مجاہدت اور اس کو مغلوب کرنا چاہئے تاکہ وہ انسان کو برے کاموں پر مجبور نہ کر سکے۔ٹاپ خود سازی کے معنی خود سازی کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی عیب ہے، ہمیں اس کو برطرف کرنا چاہئے۔ نہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسا عیب نہیں ہوتا جس کو محسوس کیا جائے۔ خودسازی کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ان عناصر کی طرف سے ہوشیار رہیں جو عیب پیدا کر دیتے ہیں۔ ہمارے وجود میں انواع و اقسام کے جراثیم داخل ہوتے ہیں اور ہمارے اندر برائیاں اور خرابیاں پیدا کردیتے ہیں۔ ٹاپ خود سازی کی ضرورت خودسازی تمہید اور بنیادی شرط ہے دوسروں کی اصلاح، دنیا کی تعمیر، تبدیلی لانے اور سخت راستے طے کرنے کے لئے۔ انسان کے وجود میں تمام برائیوں کا سرچشمہ بھی موجود ہے، جو اس کا نفس ہے، نفس کا بت اور اس کی خودپسندی تمام بتوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی طرح انسانی وجود میں تمام اچھائیوں اور کمالات کا سرچشمہ بھی موجود ہے۔ اگر انسان کوشش کرے اور خود کو نفس امارہ اور نفسانی خواہشات کے چنگل سے نجات دلا سکے تواچھائیوں کا سرچشمہ اس کے لئے کھل جائے گا۔ ٹاپ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت نوجوانوں، بچوں اور نونہالوں کی اخلاقی تربیت، واقعی تمام ملکوں اور تمام معاشروں کے لئے بے حد اہم ہے۔ جو معاشرہ اسلامی ہو اور اسلامی احکام و نظریات کی بنیاد پر قائم رہنا چاہتا ہو، لازمی طور پر اس کے سامنے دیگر معاشروں سے بلندتر مجاہدت ہوگی۔ ہر معاشرہ جدوجہد کرتا ہے، کوئی بھی معاشرہ بغیر مجاہدت کے اصلاح کا راستہ نہیں پا سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں اصلاح بغیر جدوجہد کے، بغیر سعی و کوشش کے اور بغیر مخالف قوتوں کے مقابلے میں مجاہدت کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ ہر جگہ ایسے عوامل ہیں جو مختلف ثقافتوں کے مطابق بچوں کو چوری، برائی، کاہلی اور بے راہروی سکھاتے ہیں اور بچے ان سے یہ چیزیں سیکھتے ہیں۔ ٹاپ نوجوانی میں خود سازی اگر مجھ سے کہیں کہ ایک جملے میں بتاؤ کہ نوجوانوں سے کیا چاہتے ہو؟ تو میں کہوں گا کہ تعلیم، پاکیزگی اور کھیل کود۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں میں یہ تین خصوصیات ہونی چاہئیں۔ انسان نوجوانی میں آسانی سے گناہوں سے اجتناب کر سکتا ہے۔ آسانی سے خود کو خدا سے نزدیک کر سکتا ہے۔ نوجوانی کے بعد بھی یہ تمام کام ممکن ہیں لیکن بہت مشکل ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نوجوانی گناہ کرنے کا زمانہ ہے اور بڑھاپا توبہ کرنے کا۔ یہ غلط ہے۔ توبہ کرنے کا زمانہ بھی نوجوانی کا زمانہ ہی ہے۔ دعا کا زمانہ بھی نوجوانی کا زمانہ ہی ہے۔ ہر اہم کام کا زمانہ، نوجوانی کا زمانہ ہے۔ ٹاپ اخلاقی تربیت اور اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اخلاق کے مسئلے اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ ان کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔ حالانکہ یہ مستقبل کی نسل کے تئیں غفلت اور تساہلی ہے۔ اخلاقی تربیت، اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا نہیں ہے۔ اخلاقی تعلیمات کو مسلط کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اسلام نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا ہے اور یہ نہیں چاہا ہے۔ دباؤ اور زور زبردستی سے کام لیکر اخلاقی تعلیمات مسلط کرنے سے لوگ ریاکار، مکار اور منافق ہو جاتے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن تربیت بہت اہم ہے۔ صحیح طریقے سے تربیت کے ذریعے نوجوانوں کو دیندار بنانا چاہئے۔ بنیادی ہدف یہ ہونا چاہئے کہ نوجوان دیندار، دین پر یقین رکھنے والے، اسلامی اخلاق اور ان صفات کے مالک ہوں جو اسلام کی نگاہ میں انسانوں کی پسندیدہ صفات ہیں۔ ٹاپ خود سازی کی روش امیر المومنین حضرت علی ( علیہ السلام) کے اس ارشاد گرامی سے کہ من نصب نفسہ اماما فلیبدا بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ بالکل واضح ہے کہ (اصلاح کی) ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہئے۔ ہمیں خود اپنے اور پہلے توجہ دینا چاہئے۔ خودسازی کا پہلا اور اہم ترین قدم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو، اپنے اخلاق کو اور اپنے کردار کو تنقیدی نگاہ سے دیکھے۔ اپنے عیوب کو دیکھے، ان پر غور کرے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام ہم خود ہی کر سکتے ہیں اور یہ ذمہ داری خود ہمارے کندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی حفاظت کرنا چاہئے، اپنی لغزشوں کو کم کرنا چاہئے اور اس کام میں خدا سے مدد مانگنا چاہئے۔ اپنی بداخلاقیوں اور بری صفات کا پتہ لگائیں۔ یہ مجاہدت کا دشوار حصہ ہے۔ خود پسندی و خود ستائی میں مبتلا نہ ہوں۔ اپنے عیوب کو دیکھیں اور ان کی فہرست اپنے سامنے رکھیں۔ کوشش کریں کہ اس فہرست میں مسلسل کمی آئے۔ اگر حاسد ہیں تو( اپنے اندر) حسد کو ختم کریں، اگر ضدی ہیں تو ضد کو ختم کریں، اگر کاہل اور سست ہیں تو کاہلی اور سستی کو ختم کریں، اگر دوسروں کا برا چاہتے ہیں اور بدخواہ ہیں تو بدخواہی کو دور کریں، اگر اپنے اندر وعدہ خلافی پائی جاتی ہو تو وعدہ خلافی کو دور کریں اور اگر عہد شکنی پائی جاتی ہو تو عہد شکنی اور بے وفائی کو ختم کریں۔ اس سلسلے میں مجاہدت کرنے والوں کی خداوندعالم مدد کرے گا۔ خداوند عالم کمال تک پہنچنے کے لئے جاری مجاہدت میں انسان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا ہے۔ اس مجاہدت کا فائدہ سب سے پہلے خود مجاہدت کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ نفس سے جہاد، نفس کی اصلاح اور راہ خدا میں اپنے باطن کے اندر مجاہدت کا فائدہ، جو جہاد اکبر ہے، خود اس فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کے حالات، سیاسی حالات، بین الاقوامی حالات، اقتصادی حالات، حالات زندگی ( ہرجگہ اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں) مختصر یہ کہ اس طریقے سے عوام کی دنیا و آخرت دونوں سنور جاتی ہے۔ نفس کی پاکیزگی، انہیں مختصر جملوں سے ہو سکتی ہے؛ خدا پر توجہ، خدا سے الفت، ہر اقدام سے پہلے سوچنا، دنیا کے تمام اچھے لوگوں اور خدا کے تمام مخلص بندوں سے محبت اور سب کی بھلائی چاہنا۔ ٹاپ خود سازی کی کوئی انتہا نہیں ہے اسلام اور عالم خلقت کے بارے میں خدائی نظریہ، انسانوں کو یہ سکھاتا ہے کہ راہ کمال میں کہیں رکنا نہیں چاہئے اور کسی بھی منزل پر قناعت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ (کمالات کی سمت پیش قدمی) انسانی فطرت میں شامل ہے اور اس کی سرشت میں یہ بات رکھی گئي ہے۔ اس کو ہر روز پہلے سے زیادہ ترقی اور بلندی حاصل کرنی چاہئے۔ انسان کو چاہئے کہ انفرادی مسائل میں بھی جو انسان اور خدا کے درمیان کے مسائل ہیں، روز بروز زیادہ لطیف، زیادہ بلند، زیادہ پرہیزگار، خدا کے بتائے ہوئے صفات سے زیادہ متصف ہو اور اپنے دامن کو برائیوں، بے راہروی اور گمراہی سے زیادہ پاک رکھے۔انسان ایک خام مادہ ہے، اگر اس نے اپنے اوپر کام کیا اور اس خام مادے کو برتر شکلوں میں تبدیل کر سکا تو اس نے زندگی میں اپنا لازمی کام انجام دیا اور یہی مقصد حیات ہے۔ مصیبت ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنے اوپر علم و عمل کے لحاظ سے کام نہ کریں اور جس طرح اس دنیا میں آئے ہیں، اسی طرح بلکہ بوسیدگیوں، تباہیوں، خرابیوں اور برائیوں کے ساتھ جو زندگی میں انسان کو لاحق ہوتی ہیں، اس دنیا سے جائیں۔ صاحب ایمان کو مستقل طور پر اپنے اوپر کام کرنا چاہئے۔ جو اپنا خیال رکھے، اپنے آپ پر نظر رکھے، ممنوعہ اور حرام کام نہ کرے اور پوری توجہ کے ساتھ راہ خدا پر چلے وہ کامیاب ہے۔ یہ دائمی خود سازی ہے اور اسلام کا دستورالعمل اسی مستقل خودسازی کے لئے ہے۔ یہ نماز پنجگانہ، پانچ وقت نماز پڑھنا، ذکر خدا، ایاک نعبد وایاک نستعین کی تکرار، رکوع کرنا، سجدہ کرنا، خدا کی حمد و ثنا کرنا، اس کی تسبیح و تہلیل کرنا کس لئے ہے؟ اس لئے ہے کہ انسان مستقل طور پر خودسازی کرتا رہے۔ ٹاپ تزکیہ قد افلح من تزکی یعنی جو خود کو پاکیزہ بنائے، اپنے دامن، روح اور دل کو برائیوں سے پاک کرے، وہ فلاح پا گیا۔ فلاح یعنی ہدف زندگی اور مقصد تخلیق تک پہنچنے میں کامیابی۔ انسان کو نجات یہی پاکیزگی دلاتی ہے۔ جو چیز انسان کو مصیبتوں میں مبتلا کرتی ہے وہ برائیوں میں پڑنا ہے، اخلاقی برائیوں میں، ان برائیوں میں جو نفسانی خواہشات اور غصے سے وجود میں آتی ہیں، ان برائیوں میں جو لالچ ، بخل اور دیگر برے اخلاقی صفات سے وجود میں آتی ہیں (گرفتار ہونا ہے)۔ انسانوں اور افراد بشر نے انہیں برے اخلاقی صفات سے دنیا کو سیاہ و تاریک کیا، زمین پر برائیاں پھیلائیں اور خدا کی نعمت کا کفران کیا ہے۔اگر دنیا ظلم و جور سے پر ہے، اگر سامراجی طاقتیں دنیا والوں پر زیادتی اور ظلم کر رہی ہیں ، اگر بہت سی اقوام اپنی خاموشی سے اپنے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کے اسباب فراہم کرتی ہیں، اگر بہت سی حکومتیں اپنے ہی عوام پر ظلم روا رکھتی ہیں، اگر غربت، جہالت اور بد تہذیبی ہے، اگر خانماں سوز جنگیں ہیں، اگر کیمیائی بم ہیں، اگر ستم و جارحیت، جھوٹ اور فریب ہے، تو یہ سب انسان کے پاکیزہ نہ ہونے اور اس بات کا نتیجہ ہے کہ انسانوں نے اپنا تزکیہ اور خوسازی نہیں کی۔ ٹاپ تزکیہ سے مراد کیا ہے؟ تزکیہ سے مراد لوگوں کو پاکیزہ بنانا، طاہر بنانا اور سنوارنا ہے۔ اس طبیب کی طرح جو اپنے مریض سے صرف یہ نہیں کہتا کہ یہ کام کرو اور یہ کام نہ کرو بلکہ اس کو مخصوص جگہ رکھتا ہے اور جو کچھ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے اس کو دیتا ہے، کھلاتا ہے اور جو اس کے لئے مضر ہوتا ہے اس سے پرہیز کراتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے اپنی نبوت کے تیئیس برسوں کے دوران اور خاص طور پر مدینے کی زندگی اور اسلامی حکومت کے دس برسوں میں اسی اصول اور روش پرعمل کیا ہے۔ ٹاپ تزکیہ کی مشق تمام عبادات اور شرعی فرائض جن کی انجام دہی کا ہمیں اور آپ کو حکم دیا گیا ہے، درحقیقت اسی تزکیہ اور تربیت کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک مشق ہے تاکہ ہم کامل ہو جائیں۔ جس طرح اگر ورزش نہ کی جائے تو آپ کا جسم ضعیف، کمزوراور ناتواں ہو جاتا ہے اور جسم کو خوبصورت، سڈول، توانا، طاقتور اور گوناگوں صلاحیتوں کا مالک بنانا ہو تو ورزش کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح نماز ، روزہ، خدا کی راہ میں خرچ کرنا ( خدا کی خوشنودی کے لئے ضرورتمندوں کی مدد کرنا) جھوٹ نہ بولنا اور انسانوں کی بھلائی چاہنا بھی ایک ورزش ہے۔ ان ورزشوں سے روح خوبصورت، طاقتور اور کامل ہوتی ہے۔ اگر یہ ورزشیں نہ کی جائیں تو ممکن ہے کہ بظاہر ہم بہت اچھے نظر آئیں لیکن باطن میں ہم ناقص، حقیر، کمزور اور ناتواں ہوں گے۔ ٹاپ اخلاق کی اصلاح ایک حدیث میں حضرت امام زین العابدین علیہ الصلوات والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ابن آدم لا تزال بخیر ما کان لک واعظ من نفسک اے اولاد آدم تیرا حال، تیری حالت، تیرے ایام اور تیرا راستہ اس وقت تک اچھا رہے گا جب تک تو خود اپنے نفس کو وعظ و نصیحت کرتا رہے گا۔ کوئی تیرے باطن میں تجھے نصیحت کرے، تیرا دل، تیری عقل، تیرا ضمیر، تیرا ایمان تجھے نصیحت کرے۔ دوسروں کی نصیحت مفید ہے لیکن اس سے زیادہ مفید یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو نصیحت کرے۔ ما کان لک واعظ من نفسک وما کانت المحاسبۃ من ھمک جب تک تمہارے اندر نصیحت کرنے والا ہے اور جب تک تم خود اپنا محاسبہ کرتے رہوگے ۔ انسان کا اپنا محاسبہ دوسروں کے محاسبے سے زیادہ دقیق ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ انسان خود سے کچھ چھپا نہیں سکتا۔ وماکان الخوف لک شعارا والحزن لک دثارا جب تک خوف خدا تمہارا شعار اور عذاب الہی کا خوف اور احتیاط تمہارا لباس رہے گا، اس وقت تک تم اچھے بنے رہوگے۔ یعنی خدا سے ڈرتے رہو اور عذاب و غضب الہی کو نظر میں رکھو اور خیال رکھو کہ تم سے کوئی ایسی لغزش نہ ہو جو اس بات کا باعث بنے کہ خدا تم سے غضبناک ہو۔ اگر ان چند باتوں کاخیال رکھو گے یعنی خود کو وعظ و نصیحت کرتے رہوگے ، خود اپنا محاسبہ کرتے رہوگے اور عذاب و قہر خدا سے ڈرتے رہوگے اچھائی اور نیکی میں رہوگے۔ تمہاری دنیا بھی اچھی رہے گی اور آخرت بھی اچھی رہے گی۔ تمہارا کردار بھی اچھا رہے گا اور تمہاری زندگی بھی اچھی رہے گی۔ تمہارے اندر بے چینی اور برائی نہیں رہے گی اور زندگی بہت اچھی رہے گی۔ ٹاپ تعلیم پر تزکیہ کا تقدم تعلیم، تزکیہ سے مختلف ہے۔ اگرچہ تعلیم صحیح اور درست ہو تو تزکیہ بھی لاتی ہے لیکن تزکیہ ایک الگ چیز ہے۔ یہ خیال کہ جو بھی میدان علم میں اترا اس کو کمالات، دینداری اور اخلاق کی باتوں کا خیال نہیں رکھنا چاہئے، بالکل غلط اور باہر سے آئی ہوئی فکر ہے جو عیسائی یورپ میں وجود میں آئی تھی اور اسلامی فضا اور اسلامی مفاہیم و تعلیمات کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اگر دانشور صاحب فضیلت اور بااخلاق ہو تو اس سے ہر میدان میں بشریت اور اپنے ملک کی بلندی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ایسا دانشور اہم اہداف کو اپنا مقصد قرار دےگا اور اس کے کام، انسانیت، مساوات اور فضیلت سے ہم آہنگ اور آج کی دنیا کی عجیب و غریب بے سروسامانی کے خلاف ہوں گے۔ ٹاپ آسان اور مشکل روحانی خود سازی آسان اور مشکل دونوں ہے۔ ایک لحاظ سے آسان اور ایک لحاظ سے مشکل ہے۔ آسان ہے اس لئے کہ یہ ایک وسیع وادی کی مانند ہے جس میں ہر طرف سے داخل ہوا جا سکتا ہے اور نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مشکل ہے اس لئے کہ ہر قدم پر شیطان ہیں جو انسان کے اندر وسوسہ پیدا کرتے ہیں، لہذا مزاحمت کرنا چاہئے۔ ٹاپ اخلاقی سلامتی سلامتی اور امن و امان صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی کسی کا بیگ نہ چرائے، یا کسی کی دکان میں ڈاکہ نہ ڈالے یا کسی کے گھر میں چوری نہ کرے۔ ان چیزوں کے علاوہ، اخلاقی سلامتی بھی اہم ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ اخلاقی بد امنی یہ ہے کہ لوگ معاشرے میں، سڑک اور گلی کوچوں میں اپنے اعتقادات، دین اور ایمان کے مطابق آسودہ خاطر ہوکر، بغیر کسی تشویش کے عمل نہ کر سکیں اور ایسے مناظر کا سامنا کریں کہ جن سے ان کے دینی جذبات مجروح ہوں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جب ان کے نوجوان گھر سے باہر نکلیں اور واپس آئیں اور معاشرے کے ماحول سے دوچار ہوں تو ان کے اذہان پر برے اور ناپسندیدہ اخلاقی اثرات مرتب نہ ہوں ۔ ٹاپ
امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ دین و آئین اسلام اور انسانی زندگی کے لئے اس دین کے جامع احکامات، پختہ تعلیمات اور فصیح و بلیغ معارف ہیں۔ اسلام نے کائنات اور نوع بشر کے بارے میں عقلی معیاروں سے ہم آہنگ عمیق نقطہ نگاہ پیش کرکے اور توحید کے خالص نظرئے کی تبلیغ، حکمت آمیز اخلاقی و معنوی دستور العمل کے تعارف، مستحکم و ہمہ گیر سیاسی و سماجی نظام اور اصول و ضوابط کی نشاندہی اور عبادی و شخصی فرائض و اعمال کے تعین کے ذریعے بنی نوع بشر کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنے باطن کو برائیوں، کمزوریوں، پستیوں اور آلودگیوں سے نجات دلائيں اور اسے ایمان و اخلاص، محبت و الفت اور امید و نشاط کے جذبات سے آراستہ کریں ساتھ ہی گرد و پیش کے ماحول اور دنیا کو بھی غربت و جہالت، ظلم و تفریق، پسماندگی و جمود، جبر و تسلط اور تحقیر و فریب سے آزادی دلائیں۔
پہلا باب : دینی جمہوریت ڈیموکریسی اور جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟ جمہوریت کے دو پہلو دینی جمہوریت کے معنی منطقی جمہوریت کا بانی اسلامی معاشرے میں حاکموں سے عوام کے قلبی لگاہ کی وجہ حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش اسلام میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت اسلام میں جمہوریت کی بنیاد بندگی خدا اور عوام پر خاص توجہ جمہوریت کا تقدس دوسرا باب: مغربی جمہوریت مغربی جمہوریت کی تشریح مغربی ڈیموکریسی کی حدود اربعہ مغربی جمہوریت کا ہدف مغرب میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت تیسرا باب: اسلامی جمہوریہ ایران کی جمہوریت بشری تجربات سے استفادہ مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ ) میں جمہوریت ایران میں اسلامی نظام کا پیکر حکام سے عوام کا رابطہ دینی جمہوریت اور ڈیموکریسی پہلا باب : دینی جمہوریت ڈیموکریسی اور جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟ ڈیموکریسی یعنی ملک چلانے اور حکومت کے سیاسی طریقئہ کار میں عوام کی رائے کا معیار اور بنیاد قرار پانا۔ جمہوریت کا مطلب سیاسی نظام اور اس نظام کے چلانے والوں کا عوام کی طرف سے آنا ہے۔ اس کا حقیقی مفہوم اس وقت پورا ہوتا ہے جب عوام کا فیصلہ، عوام کا ایمان، عوام کا عشق، عوام کی مصلحت اندیشی اور عوام کے احساسات وجذبات سب کے لحاظ سے یہ اتفاق پایا جائے کہ یہ سیاسی نظام قائم ہو۔ٹاپ جمہوریت کے دو پہلو جمہوریت کے بھی دو پہلو ہیں: جمہوریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ نظام کا ڈھانچہ عوام کے ارادے اور رائے کے مطابق تشکیل پائے۔ یعنی عوام نظام، حکومت، اراکین پارلیمنٹ اور اہم حکام کا براہ راست یا بالواسطہ انتخاب کریں۔ عوام کا انتخاب کا پہلو، دینی جمہوریت میں بھی پایا جاتا ہے اور اس کے دو پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ ضروری ہے کہ عوام چاہیں، پہچانیں، فیصلہ کریں اور انتخاب کریں تاکہ ان کے بارے میں شرعی فریضہ پورا ہو۔ بغیر شناخت، علم اور اشتیاق، ان کا کوئی فریضہ نہیں ہوگا۔ جمہوریت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب ملک کے حکام کا انتخاب ہو گیا تو عوام کے تئیں ان کے کچھ حقیقی اور سنجیدہ فرائض ہیں۔ ( ملک کے حکام کے بعض فرائض کے مشاہدے کے لئے حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش سے رجوع کریں) ٹاپ دینی جمہوریت کے معنی دینی جمہوریت یہ ہے کہ اس میں دین خدا کی حاکمیت، عوام کی آراء ، عوام کے عقیدے، عوام کے ایمان ، عوام کی خواہش اور عوام کے احساسات و جذبات سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک انسان جس طرح خود کو صرف خدا کا بندہ سمجھتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین اسی طرح خداوند عالم سے چاہتا ہے اور اس کو اپنا اصول قرار دیتا ہے کہ صالحین کے راستے پر چلے؛ اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم صالحین کے راستے پر چلنا، خدا کے برگزیدہ بندوں کی پیروی اور پیغمبر یا ہر اس فرد کی جو اسلامی معاشرے کی زمام سنبھالے، مومنین اور مومنات کی جانب سے بیعت ایمان سے بیعت، دین سے بیعت اور دینداری سے بیعت ہے۔ یہ کسی ایک شخص کے سامنے سجدہ ریز ہونا نہیں ہے، کسی فرد انسان کے ارادے کا پابند ہونا نہیں ہے۔ اسلام میں جس چیز کی حکمرانی ہوتی ہے، وہ مکتب ہے، وہ مکتب جو اپنے اندر ایک ایک فرد بشر کی سعادت و کامرانی کو یقینی بناتا ہے اور یہ خود انسانوں کا بھی فریضہ ہے۔ ٹاپ منطقی جمہوریت کا بانی جمہوریت کا تعلق در اصل اسلام سے ہے۔ صحیح اور منطقی شکل میں جمہوریت کا بانی اسلام ہے۔ حکومت نبوی میں مسلمانوں کی ایک ایک فرد نے آکر پیغمبر ( صل اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیعت کی۔ مرد بھی آئے اور خواتین بھی آئیں۔ اس زمانے میں انسانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ صرف جزیرۃ العرب میں اور عربوں کے درمیان ہی عورتیں پسماندہ نہیں تھیں، بلکہ ایران اور روم کی سلطنتوں میں بھی عورتوں کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ ابھر کے سامنے آئیں۔ مگر پیغمبر خدا کو خداوند عالم کا حکم ہوتا ہے کہ اذا جائک المومنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ یعنی جب مومن عورتیں آپ کی بیعت کرنے کے لئے آئیں تو اسی اصول پر بیعت کریں؛ بیعت کے لئے آنے والے مردوں کی طرح۔ عورتوں نے بھی آکے بیعت کی اور مردوں نے بھی آکے بیعت کی۔ دل ایک دوسرے سے ملے، ارادے باہم متصل ہوئے اور پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور عوام نیز مومنین کی ایک ایک فرد کے درمیان پروردگار کی ذات مقدس کی توحید جلوہ گر ہوئی۔ ہاں وہ پیغمبر سے بھی محبت کرتے تھے لیکن پیغمبر کی ذات مد نظر نہیں تھی۔ ٹاپ اسلامی معاشرے میں حاکموں سے عوام کے قلبی لگاہ کی وجہ اسلام میں فرد مد نظر نہیں ہوتا۔ کسی کو بھی کسی فرد کی دعوت نہیں دینی چاہئے۔ کوئی بھی فرد دین کی نمائندگی کے بغیر، بذات خود لوگوں کی محبت و قلبی لگاؤ کا مرکز نہیں بنتا کہ لوگ اس کے لئے قربانیاں دیں۔ شروع سے مسلمان اسی کے عادی رہے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ مسلمانوں میں، محبت، الفت، اخلاص، صادقانہ جذبات اور دیگر معنوی احساسات وغیرہ اس کے لئے ہوتے ہیں، جس کے لئے وہ سمجھتے ہیں کہ دینی و معنوی اقدار کے مرکز یعنی اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر کے سلسلے میں بھی یہی امر تھا کہ آپ سے لوگوں کو قلبی لگاؤ تھا۔ یہ عوام کی حکمرانی اورجمہوریت ہے۔ ٹاپ حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش آج وہ بہترین چیز جو ملک کے حکام کی راہ و روش اور رفتار و کردار کی اصلاح کی بنیاد اور معیار بن سکتی ہے، دینی جمہوریت ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلواۃ و السلام مالک اشتر سے فرماتے ہیں ایاک و المن علی رعیتک باحسانک او التزید فیما کان من فعلک او ان تعدھم فتتبع موعدک بخلفک فان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنور الحق والخلف یوجب المقت عند اللہ و الناس فرماتے ہیں کہ نہ لوگوں پر یہ احسان جتاؤ کہ ہم نے یہ کام تمھارے لئے کئے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی جو کام کئے ہیں ان کے بارے میں مبالغہ کرو، مثلا چھوٹا کام کرکے اس کو بڑا بتاؤ، اور نہ ہی یہ کرو کہ وعدہ کرو اور عمل نہ کرو۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر احسان جتایا تو تمھارا نیک عمل ضائع ہوجائے گا، مبالغہ نور حق کو ختم کر دے گا یعنی وہ تھوڑی سی صداقت جو پائی جاتی ہے وہ بھی لوگوں کی نگاہوں میں ختم ہو جائے گي اور اگر وعدہ خلافی کی تو یوجب المقت اللہ والناس یہ لوگوں کی نگاہ میں بھی اور اللہ کے نزدیک بھی، گناہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کبر مقتا عنداللہ ان تقولوا ما لا تفعلون اور انصف اللہ و انصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک ومن لک فیہ ھوی من رعیتک یعنی اپنے ساتھ، اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کے ساتھ ، عوام کے ساتھ اور خدا کے ساتھ انصاف کرو؛ یعنی ان کے ساتھ کسی امتیاز سے کام نہ لو۔ یعنی پارٹی بازی، کسی کے لئے خصوصی امتیاز کا قائل ہونا، کوئی کمپنی یا مالی آمدنی کا مرکز، کچھ خاص لوگوں کو اس لئے دینا کہ وہ اس حاکم کے دوست احباب اور رشتے دار ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں جو جمہوریت کے خلاف ہیں۔ و لیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق و اعمھا فی العدل و اجمعھا لرضی الرعیۃ وہ کام کرو جو افراط و تفریط سے پاک ہوں اور عوام کے تعلق سے وسیع سطح پر عدل و انصاف سے کام لو اور عام لوگوں کی خوشی اور ان کی رضامندی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر میں رہو، اس فکر میں نہ رہو کہ کچھ خاص لوگ، جن کے پاس دولت و طاقت ہے، وہ تم سے خوش ہوں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں فان سخط العامۃ یجحف برضی الخاصۃ یعنی اگر صاحبان دولت و طاقت کی خوشنودی حاصل کی اور عوام کو ناراض کیا تو عوام کی ناراضگی خواص یعنی صاحبان دولت و طاقت کی خوشنودی کو سیلاب کی طرح بہا لے جائے گی۔ و ان سخط الخاصۃ یغتفر مع رضی العامۃ صاحبان دولت و طاقت کی خوشی کا خیال نہ رکھا تو وہ تم سے ناراض ہوں گے؛ تو ان کو ناراض ہوجانے دو۔ اگر عوام تم سے راضی اور خوش ہیں اور تم نے ان کے لئے کام کیا تو انہیں (یعنی صاحبان دولت و طاقت کو) ناراض رہنے دو۔ یغتفر یہ ناراضگی بخشی ہوئی ہے۔ ٹاپ اسلام میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت دینی جمہوریت کی حقیقی صورت یہ ہے کہ نظام کو خدا کی ہدایت اور عوام کے ارادے سے چلنا چاہئے۔ اسلام میں عوام قانون کی جملہ بنیاد نہیں ہیں بلکہ اس کے جملہ ارکان میں سے ایک ہیں۔ اسلام کا سیاسی نظام عوام کی رائے اور مرضی کے علاوہ دیگر اصولوں پر بھی جن کو تقوا اور عدل کہا جاتا ہے، استوار ہوتا ہے۔ جس کو حکومت کے لئے منتخب کیا گیا اگر اس میں تقوا اور عدل پسندی نہ ہو تو خواہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہو تب بھی اس کی حکومت اسلام کے نقطۂ نگاہ سے غیر قانونی ہے۔ اکثریت تو کچھ بھی نہیں، امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں،و لامری ما الامام الا الحاکم بالقسط اسلامی معاشرے میں حاکم اور حکومت صرف وہ ہو سکتی ہے، جوعدل پر قائم ہو،عدل و انصاف پر عمل کرے۔ اگر عدل و انصاف قائم نہ کیا تو چاہے جس نے بھی اس کو منصوب کیا ہو اور چاہے جس نے بھی اس کو منتخب کیا ہو، وہ حکومت غیر قانونی رہےگی۔ ٹاپ اسلام میں جمہوریت کی بنیاد ایک مسئلہ جس پر میں نے بارہا تاکید کی ہے، یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلامی بنیاد عوامی بنیاد سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوامی بنیاد ہی اسلامی بنیاد بھی ہے۔ جب ہم اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں، تو ممکن نہیں ہے کہ عوام کو مد نظر نہ رکھا جائے۔ انتخابات میں عوام کے حق کی بنیاد اور اساس خود اسلام ہے۔ بنابریں دینی جمہوریت کی اپنی ایک بنیاد اور اس کا اپنا ایک فلسفہ ہے۔ دینی جمہوریت اور شریعت الہی میں یہ بات واضح ہے کہ عوام حاکم کو پسند کرتے ہوں، تاکہ اس کو قبول کیا جائے اور اس کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہو۔ (کسی مسلمان سے پوچھیں) تم مسلمان ہو بتاؤ کہ عوام کی رائے کیوں معتبر ہے؟ کہے گا اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں، اس لئے کہ ہم اسلام پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس لئے کہ اسلام کی منطق میں عوام کے رائے ، خدا کی نظر میں انسان کی جو خاص منزلت ہے اس کی بنیاد پر لوگوں کی رائے معتبر ہے۔ اسلام میں انسانوں پر کسی کی بھی حکومت اور ولایت قبول نہیں ہے سوائے اس کے جس کو خدا معین کرے۔ بہت سے فقہی مسائل میں حاکم، قاضی یا مومن کی ولایت کے مسئلے میں جب شک ہوتا ہے کہ اس ولایت پر شرعی جواز ہے یا نہیں، تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اصل عدم ولایت ہے (اسلامی فقہ کا ایک اصول جس کی رو سے مشکوک چیز کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے)۔ یہ اسلام کی منطق ہے۔ ولایت صرف اس وقت قبول کی جاتی ہے جب اس کے بارے میں شارع ( شریعت بنانے والے یا رسول اسلام ) کا حکم ہو اور حکم شارع اس بات پر ہوتا ہے کہ جس کو ہم ولایت دے رہے ہیں، وہ ولایت کے جس مرتبے پر بھی فائز ہو، اس کوصلاحیت اور اہلیت کا مالک یعنی صاحب تقوا و عادل اور عوام میں مقبول ہونا چاہئے۔ دینی جمہوریت کی منطق یہ ہے جو بہت گہری اور محکم ہے۔ مومن پورے اعتقاد کے ساتھ اس منطق کو قبول کرکے اس پر عمل کر سکتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ ٹاپ بندگی خدا اور عوام پر خاص توجہ دینی جمہوریت کی نئی مثال نے بشریت کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کیا ہے جس میں، انفرادی یا جماعتی استبداد اور صاحبان دولت و ثروت اور غارتگروں کے نفوذ سے قائم ہونے والے نظاموں کی برائیوں ، مادہ پرستی اور گناہوں میں غرق ہونے اور معنویت و دینداری سے دوری سے انسان کو نجات مل جاتی ہے اور خدا پرستی اور عوامی بنیاد کے درمیان تضاد عملی طور پر غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ نیا اسوہ اور نمونہ، اپنے رشد، اپنے دوام ، اپنے استحکام اور اپنے اہداف کے حصول کے ساتھ بذات خود، ان تمام نظاموں کے بطلان کی محکم دلیل ہے جنہوں نے ہیومنزم ( انسان کو محور قرار دینے والے مکتب فکر) کے نام پر لوگوں کو خدا اور دینداری سے دور کیا اورجمہوریت کے نام پر انسانوں کومختلف شکلوں میں اپنے پنجہ اقتدار میں جکڑ لیا ہے۔ اسلام کی ثقافت میں بہترین انسان وہ ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ہوں۔ دینی جمہوریت، عوام کو دھوکہ دینے والی ریا کار ڈیموکریسیوں کے برخلاف بغیر احسان جتائے، خلوص کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے والا نظام ہے۔ اس نظام میں عوام کی خدمت ایک فریضے کے عنوان سے پاکدامنی اور ایمانداری کے ساتھ انجام پاتی ہے۔ ٹاپ جمہوریت کا تقدس عوام کی آزادی، ان کی آراء پر اعتماد اور حقیقی جمہوریت ، ہمارے لئے مقدس ہے۔ کیوں؟ لبرلزم کے فلسفے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ خداوند عالم نے جو ہمارا مالک ہے، فرمایا ہے کہ النّاس کلّھم احرار تمام انسان آزاد ہیں۔ لاتکن عبد غیرک وقد جعلک اللہ حرّا خداوندعالم نے یہ فرمایا ہے۔ امیر المومنین فرماتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے۔ پیغمبر فرماتے ہیں، اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے۔ صرف الفاظ ان کے ہیں۔ خلیفہ دوم نے بھی اپنے گورنر سے، جو اسی ماحول میں تھا، کہا استعبدتم النّاس و قد خلقھم اللہ احرارا یعنی تم نے لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے جب کہ خدا نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ یہ حقیقی جمہوریت کی منطق اور بنیاد ہے۔ آزادی کا اہم ترین مصداق یہ ہے کہ انسان اپنی قسمت اور مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔ یہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ٹاپ دوسرا باب: مغربی جمہوریت مغربی جمہوریت کی تشریح مغربی جمہوریت کا فلسفہ اور بنیاد لبرلزم ہے۔ ( مغربی جمہوریت) کہتی ہے کہ چونکہ انسان آزاد ہے اس لئے اس آزادی کا تقاضا ہے کہ آمریت نہ ہو جمہوریت ہو۔ اب یہ آزادی جو لبرلزم کی بنیاد پر ملتی ہے، مطلق آزادی ہے۔ یعنی اگر عوام نے فیصلہ کیا تو اس چیز کو بھی قبول کر سکتے ہیں جو سو فیصد ان کے نقصان میں ہو۔ فرض کریں کہ برطانیہ کے لوگ جس طرح انہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں ہم جنس بازی کو منظوری دی ہے، اسی طرح، ہیروئن کے استعمال اور محرم کے ساتھ شادی کی آزادی کا فیصلہ کریں، تو ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، قبول کرنا چاہئے۔ ہم جنس بازی اور محرم کے ساتھ شادی میں فرق کیا ہے؟ یہاں ان کے پاس اس کام کی کوئی منطق اور دلیل نہیں ہے۔ اگر آج امریکی کانگرس یا برطانوی پارلیمنٹ محارم ( جن کے ساتھ شادی نہیں ہوسکتی جیسے ماں، بہن، باپ، بھائی وغیرہ) کے ساتھ شادی کی آزادی کا فیصلہ کرے تو یہاں غیرت و حمیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بنابریں اس آزادی کے اندازے اور حد کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر وہ کہیں کہ اس کے بعد آزادی خلاف اخلاق ہے تو ہم کہیں گے کون سا اخلاق؟ کوئی اخلاق نہیں ہے، آزاد ہیں' اس لئے کہ لبرلزم کا فلسفہ آزادی ہے اور کوئي بھی حد اس آزادی کو محدود نہیں کر سکتی، الا یہ کہ یہ آزادی، آزادی کی ضد اور اجتماعی آزادی کی بنیاد کے خلاف ہو۔ ان کی ریڈ لائن صرف یہ ہے۔ مغربی ڈیموکریسی لبرلزم کی منطق اور فلسفے پر استوار ہے اور درحقیقت اپنا کھوکھلا پن خود ثابت کرتی ہے۔ اس صورت میں معاشرے کی تمام اخلاقی قدریں ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جو لوگ اس کے قائل ہیں وہ اس بات کا اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے۔ ٹاپ مغربی ڈیموکریسی کی حدود اربعہ دنیا میں ڈیموکریسی اور جمہوریت کے نام سے جو چیز بھی پائی جاتی ہے اس کی حدود اربعہ ہیں۔ مغربی ڈیموکریسیوں میں حدود اربعہ، معاشرے پر حکمفرما سرمایہ داروں اور صاحبان دولت و ثروت کی خواہشات اور مفادات ہوتے ہیں۔ صرف اسی دائرے میں عوام کے ووٹ معتبر اور نافذ ہوتے ہیں۔ اگر عوام مالی و اقتصادی طاقت کے کے برخلاف کہ سیاسی اقتدار جس کا نتیجہ ہوتا ہے، مالکین اور سرمایہ داروں کے مفادات کے برخلاف کچھ چاہیں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ ڈیموکریٹک حکومتیں اور نظام عوام کے مطالبات کو تسلیم کر لیں گے۔ یہ ڈیموکریسیاں اور عوامی خواہشات، ایسے محکم اصول و ضوابط میں جکڑے ہوئے ہیں کہ جن کو توڑا نہیں جا سکتا۔ سابق سوشیلسٹ ملکوں میں بھی، جو خود کو جمہوری ممالک کا نام دیتے تھے، حکمراں جماعت کے اصول و ضوابط کی حکمرانی تھی۔ حکمراں جماعت کی پالیسیوں، نظریات اور میلانات کی حدود سے باہر عوام کی رائے کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں تھی۔ ٹاپ مغربی جمہوریت کا ہدف مغربی جمہوریت، پرانی اور ناکام ہو چکی ہے اور اس کے نقائص آشکارا ہوچکے ہیں۔ اس جمہوریت کی بنیاد اقتدار پرستی ہے۔ اس میں دو گروہ ، یا دو جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے پر آتی ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ تم کیا چاہتے ہو تو کہتے ہیں کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ حکومت اپنے ہاتھ میں لیکر کیا کرنا چاہتے ہو؟ عوام کا اخلاق و کردار بلند کرنا چاہتے ہو؟ عوام کو معنوی اور روحانی بلندی عطا کرنا چاہتے ہو؟ عوام کی زندگی حقیقی معنی میں صحیح کرنا چاہتے ہو؟ نعرے بازی اور ظاہری باتوں سے بالاتر ہونا چاہتے ہو؟ نہیں، یہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک جماعت ہے جو چاہتی ہے کہ چند سال حکومت اس کے ہاتھ میں رہے۔ یہ تو کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے۔ یہ انسانوں کا احترام تو نہیں ہے۔ یہ انسانوں کی تکریم تو نہیں ہے۔ آج دنیا میں حتی امریکا جیسے ملک میں جس کی آواز سب سے زیادہ بلند اور اونچی ہے، مغربی جمہوریت کا بھی وجود نہیں ہے۔ ٹاپ مغرب میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت مغربی ڈیموکریسی، یعنی لبرلزم پر استوار جمہوریت، اس کی اپنی الگ منطق ہے۔ اس منطق میں حکومتوں اور نظاموں کے قانونی ہونے کی بنیاد اکثریت کا ووٹ ہے۔ اس طرز فکر کی بنیاد بھی وہی لبرلزم کا نظریہ ہے؛ ہر شخص کو آزادی ہے، اس کی کوئی اخلاقی حدود نہیں ہیں الا یہ کہ دوسروں کی آزادی کو مجروح کرنے کی حد تک پہنچ جائے۔ مغربی لبرلزم کا نظریہ یہ ہے؛ تمام میدانوں اور زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی ذاتی اور مطلق آزادی جو ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل میں بھی ظاہر ہوگی ۔ چونکہ معاشرے میں اقلیت اور اکثریت پائی جاتی ہے، اس لئے اقلیت کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ اکثریت کی پیروی کرے۔ یہ مغربی ڈیموکریسی کی بنیاد ہے۔ جس نظام میں یہ بات ہو وہ لبرل ڈیموکریسی کے نقطۂ نگاہ سے قانونی ہے اور جس میں یہ چیز نہ ہو وہ غیر قانونی ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: اسلامی جمہوریہ ایران کی جمہوریت بشری تجربات سے استفادہ آج ہم اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر انسانی تجربات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اسلام میں دینی جمہوریت ہے؛ بشری تجربات نے اس کو ایک طرح سے پارلیمانوں کی شکل میں مجسم کیا ہے۔ ہم نے پارلیمان کو قبول کر لیا، ہم نے پارلیمان کو مسترد نہیں کیا ہے۔ وہ تمام چیزیں جن کا بشریت نے برسوں اور صدیوں تجربہ کیا ہے، اسلامی تفکر کشادہ روئی کے ساتھ ان کو قبول کرتا ہے لیکن محکم اسلامی اصولوں کے مطابق ان کو ڈھال لینے کے بعد۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ملک ایران میں عملی شکل اختیار کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں اسلامیت اور جمہوریت کا رابطہ اس ملک اور اس نظام میں اسلام جمہوریت کے ساتھ ہے۔ ہماری جمہوریت اسلام سے ماخوذ ہے اور ہمارا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس ملک میں جمہوریت نہ ہو۔ ہم نے جمہوریت کسی سے نہیں سیکھی ہے، اس کی تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے۔ یہ قوم اسلام سے متمسک ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ اس قوم کے ذہن اور اس نظام میں عوام اور خدا دونوں مد نظر ہیں اور خدا نے عوام کو یہ راستہ طے کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔ اس قوم، اس نظام ، ان حدود اور اس آئین نے اسلام کی بھی ضمانت دی ہے اور جمہوریت کو بھی یقینی بنایا ہے۔ ٹاپ مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ ) میں جمہوریت مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) میں جمہوریت اہم اور قابل احترام بھی ہے اور طاقتور اور کار ساز بھی ہے۔ اہم اور محترم ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اور معاشرے کے امور چلانے میں عوام کی رائے بنیادی حیثیت رکھے۔ لہذا امام خمینی ( رحمۃ اللہ علیہ ) کے مکتب میں جو اسلام پر استوار ہے، حقیقی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ عوام اپنے ووٹوں سے، اپنے ارادے سے اور اپنے ایمان سے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے حکام کو منتخب کرتے ہیں۔ دوسری طرف امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) عوام کے ووٹوں کی طاقت پر یقین رکھتے تھے اور آپ کا نظریہ تھا کہ عوام کے فولادی ارادے سے دنیا کی تمام جارح طاقتوں کے مقابلے میں استحکام اور پائیداری کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے اور آپ نے اس پائیداری کا ثبوت دیا۔ امام خمینی ( رحمۃ اللہ علیہ) کے مکتب فکر میں جمہوریت دین پراستوار ہے؛ امرھم شوری بینھم سے ماخوذ ہے؛ ھوی الذی ایدک بنصرہ وبالمؤمنین سے ماخوذ ہے۔ ٹاپ ایران میں اسلامی نظام کا پیکر میں نے بارہا تاکید کی ہے کہ ہمیں نظام کا پیکر، نظام کی روح اور نظام کے اصول اسلام سے لینے چاہیئیں، غیروں کے مکاتب سے نہیں۔ کچھ تہذیبوں نے کوشش کی ہے کہ ان کی بات، ان کی فکر اور ان کی راہ و روش دنیا میں رائج ہو، یعنی دیگر اقوام اور ملکوں کے لئے جو وہ پسند کریں، اقوام اسی کو قبول کریں۔ ہمیں اپنے بارے میں دوسروں کی بتائی ہوئی تدبیر تسلیم نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں اس چیز پر عمل کرنا چاہئے جو ہماری مصلحت، ہماری ضرورت ، ہمارے اعتقاد اور ہمارے ایمان کی رو سے صحیح ہو اور وہ اسلامی احکام، اسلامی عدل و مساوات اور اسلامی راہ ہے۔ یہ وہی چیز جس کو ہم نے اسلامی نظام کے پیکر اور دینی جمہوریت کا نام دیا ہے۔ دینی جمہوریت یعنی ہمارا نصب العین اسلامی اقدار کی تکمیل اور اسلامی احکام کا نفاذ ہے۔ اگر یہ احکام نافذ ہو گئے تو معاشرے میں حقیقی معنی میں اسلامی عدل و انصاف قائم ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوری نظام میں جمہوریت ایک دینی فریضہ ہے۔ اس خصوصیت کا تحفظ حکام کا دینی عہد ہے اور اس کے لئے وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ٹاپ حکام سے عوام کا رابطہ شاید ان اقوام میں جن کی حالت اور ان کے ملک کے حالات، نیز حکومتوں اور حکام سے ان کے روابط سے ہم واقف ہیں، ایرانی قوم جیسی کوئي قوم نہ ملے، جس کے حکام سے روابط، صرف رسمی اور دفتری نہیں ہیں، ایسے روابط نہیں ہیں جو صرف انتخابات کے دوران اور وہ بھی خاص محرک کے ساتھ، خاص شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ (ایران میں) حکام سے عوام کا رابطہ جذباتی، ایمانی اور اعتقادی رابطہ ہے جو حکام پر عوام کے یقین کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر اسلامی جمہوری نظام میں بہت ہی محکم ستونوں پر استوار جمہوریت کو ثابت کرتا ہے۔ وہ جمہوریت جس میں عوام اور ملک کے حکام اور امور مملکت چلانے والوں کے درمیان تعلق دو طرفہ ہو اور باطنی احساسات و جذبات اور قلبی ایمان و اعتقاد پر استوار ہو، عوامی حکومت اور جمہوریت کی اعلی ترین مثال ہے۔ ٹاپ
اس وقت عالم اسلام میں کوئی بھی شخص اگر مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور مقامی مسئلہ تصور کرتا ہے تو وہ در حقیقت اسی خواب غفلت کا شکار ہے جس نے قوموں کی درگت بنا ڈالی۔ غزہ کا مسئلہ صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، یہ پورے علاقے کا مسئلہ ہے۔ سر دست اس مقام پر حملہ کیا گيا ہے جو سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اگر دشمن کو اس جگہ کامیابی مل گئی تو وہ علاقے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا۔ اس علاقے کے اطراف میں واقع مسلم ممالک کی حکومتیں جو مدد کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود مدد نہیں کر رہی ہیں حالانکہ یہ ان کا فرض ہے، وہ غلطی کر رہی ہیں، بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔
عورت کے ساتھ اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے۔ یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔
دوم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز مناہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے نازک ہوتی ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر طاقت فرسا کام مسلط کر دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ البتہ اس نے (عورت کو ) روکا بھی نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں:
المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ یعنی عورت پھول کی مانند ہے قہرمان نہیں۔
قہرمان یعنی با عزت پیش کار اور خدمت گار۔ آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں گل لطیف کی مانند ہیں ان کے ساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ اور پیش کار نہیں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ دیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
مشرق وسطی میں جو شاہی حکومتیں ہیں وہ بھی امریکیوں کو پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ حکومتیں ان کے لئے درد سر ہیں۔ اس حقیقت پر اسلامی اور عرب حکومتوں کو توجہ دینا چاہئے۔ امریکا کے پاس مصر کے لئے منصوبہ ہے اور سعودی عرب کے لئے بھی اس نے منصوبہ تیار کر رکھا ہے، اردن کے لئے بھی اس کے پاس منصوبہ ہے اور خلیج فارس کے ان ممالک کے لئے بھی اس کے پاس منصوبہ ہے۔
امریکا بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔ امریکا عرب حکومتوں کو شرمناک مذاکرات کے لئے ایک میز پر جمع کرکے در حقیقت ان حکومتوں کو جو ان مذاکرات میں شریک ہوئی ہیں ان کے عوام کی نظروں میں اور بھی نفرت انگیز بنا رہا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ عرب ملکوں کے عوام اپنے حکام کو یہ اجازت دے دیں کہ وہ فلسطینی قوم کا گھر دوسروں کو بیچ دیں؟ اگر (معاہدے پر) دستخط ہوئے تو ان حکام کا ان کی قوموں سے فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے گا۔ یہ حرکت ان کی قوموں کو اور بھی خشمگیں کر دیگی۔
توحید پہلا باب ؛ توحید اور اس کا نظریۂ کائنات
توحید کے اصطلاحی معنی خدا کے وجود کی دلیل خدا شناسی میں عقل کا مقام اسلام کا بنیادی ستون اسلامی نظریہ کائنات میں توحید اسلامی توحیدی نظریئے میں مخلوقات کی حیثیت خلقت، موحد کی نگاہ میں اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان توحیدی فکرکی بقا کا راز دوسرا باب ،منکرین وحدانیت
بشریت کی تباہی کا راستہ جاہلیت کے معاشرے میں شرک اسلامی معاشرہ میں شرک مفہوم شرک کی شناخت کی ضرورت انسان کے مشرک بننے کی وجوہات خدا کے صاحب اولاد ہونے کا دعوی اور اس کی نفی مادہ پرستوں کے انکار توحید کی دلیل مادہ پرستی کی طرف جھکاؤ کا سبب شیطان کی اطاعت کیسے ہوتی ہے کیا خدا کچھ لوگوں سے زیادہ محبت کرتا ہے؟تیسرا باب، توحیدی نظریۂ کائنات کے اثرات
عبادت کے مصادیق خدا اور شیطان کی عبادت توحیدی معاشرہ اسلامی معاشرے کی علامتیں معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کے اثرات معاشرے کی اخلاقیات پر توحید کے اثرات اسلامی معاشرے کی تعمیر میں توحیدی نظریئے کے اثرات اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد توحید، حقوق میں انسانوں کی برابری شرط نجات سیاسی نظام میں توحید وسعت نظر موحد انسان کے دل سے خوف دور ہو جاتا ہے طاغوت سے موحدانہ برتاؤ زندگی میں توحیدی فرائض توحیدی تفکر کے دفاع کی آمادگی
پہلا باب ؛ توحید اور اس کا نظریۂ کائنات
توحید کے اصطلاحی معنی قرآن کی تعلیمات کے مطابق توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدائے واحد و لاشریک نے کائنات کو پیدا کیا، اسی نے انسانوں کو پیدا کیا اور تدبیر خلق، گردش قوانین عالم اور زندگی بشر میں جاری قوانین کی گردش اسی کے اختیار میں ہے۔ توحید یعنی اس بات پر یقین کہ عالم خلقت اور کائنات میں کہکشانوں، بادلوں، آسمانی گہرائیوں، بے شمار کرات اور لاکھوں شمسی منظوموں سے لیکر کسی پیکر اور جسم کے چھوٹے چھوٹے خلیوں اور باریک کیمیائی ترکیب تک میں پایا جانے والا عجیب وغریب، حیرت انگیز اور انتہائی پیچیدہ تناسب کہ جو اتنا عظیم، متنوع اور پیچیدہ ہے کہ اس سے ہزاروں قانون اور اصول نکالے گئے ہیں، اس لئے کہ اگر نظم ایسا ہو کہ جس کے برعکس ہونا ناممکن ہو تو اس سے آفرینش کے ایسے قوانین کا استنباط ہوتا ہے کہ جس کے خلاف ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ سب کسی فکر، تدبیر اور قدرت کا کرشمہ ہے اور اتفاقیہ وجود میں نہیں آیا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے کہ ہر عقل سلیم، ہر عاقل اور صاحب فکر انسان جو فکر میں جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو، فیصلہ کرنے میں تحمل کا دامن نہ چھوڑتا ہو اور معاملات میں پہلے سے ہی کوئی فیصلہ نہ کر لیتا ہو، اس کو قبول کرتا ہے۔ یہ فکر، تدبیر، تفکر ، عظیم و بیکراں اور ناقابل بیان قدرت جو یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز تناسب وجود میں لائی ہے، انسان کا بنایا ہوا کوئی بت، خدائی کا دعویدار کوئی محدود انسان یا کوئی اساطیری اور علامتی سمبل اور علامت نہیں ہو سکتی؛ بلکہ ذات واحد و یکتا و لایزال ہے جس کو ادیان خدا کہتے ہیں اور اس کو اس کے آثار سے پہچانتے ہیں۔ بنابریں یہ قدرت، یہ ارادہ اور عظیم و پیچیدہ منظومے کا ناظم اور بے نظیر اور ناقابل توصیف خالق وہ معمولی چیزیں نہیں ہوسکتیں جو انسان کے اختیار میں ہیں، یا وہ خود یا اس کے جیسا کوئی اور انہیں بناتا ہے، یا اس کے جیسی کوئی مخلوق جو ختم ہوجانے والی ہے (اس کی خالق) نہیں ہوسکتی بلکہ ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان اللہ عما یشرکون توحید یعنی خدا کے علاوہ ہر ایک اور ہر چیز کی بندگی، اطاعت اور پرستش سے رہائی، یعنی بشری نظاموں کے تسلط کی زنجیروں کا کھل جانا، یعنی مادی و شیطانی طاقتوں کے خوف کے طلسم کا ٹوٹ جانا، یعنی ان بے نہایت طاقتوں پر بھروسہ کرنا جو خداوند عالم نے انسان کے باطن میں قرار دی ہیں اور ان سے استفادے کو ایسا فریضہ قرار دیا ہے جس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ توحید یعنی ستمگروں اور مستکبرین پر مستضعفین کے قیام، مجاہدت اور استقامت کی صورت میں، ان کی کامیابی کے وعدہ الہی پر یقین، یعنی رحمت خدا پر بھروسہ کرنا اور ناکامی کے احتمال سے نہ ڈرنا، یعنی ان تمام زحمتوں اور خطرات کا سامنا کرنا جو وعدہ الہی کی تکمیل کی راہ میں انسانوں کو درپیش ہوتے ہیں، یعنی راستے کی مشکلات کو خدا پر چھوڑدینا اور حتمی اور آخری کامیابی کی امید رکھنا، یعنی مجاہدت میں اعلی ہدف پر جو ہر قسم کے ظلم و ستم، امتیاز و تفریق، جہالت اور شرک سے معاشرے کی نجات ہے، نظر رکھنا اور راستے میں ہونے والی ذاتی ناکامیوں کا اجر، خدا سے چاہنا اور مختصر یہ کہ توحید یعنی خود کو قدرت و حکمت الہی کے بحر بیکران و لایزال سے متصل پانا، اعلی ہدف کی جانب کسی تشویش کے بغیر، امید کے ساتھ آگے بڑھنا۔ وہ تمام عزت و بلندی جس کا وعدہ کیا گيا ہے، توحید کے اسی عمیق اور روشن ادراک اور ایمان کے سائے میں حاصل ہوگی۔ توحید کے صحیح فہم، اور اس کی عقیدتی اور عملی پابندی کے بغیر مسلمانوں کے بارے میں کوئی بھی وعدہ الہی عملی نہیں ہوگا۔
خدا کے وجود کی دلیل خود شناسی جو خدا کی زیادہ معرفت حاصل کرنے سے عبارت ہے اس کے بنیادی ستونوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے نفس، اپنی کمزوری، اپنے عشق اور اپنی قلبی احتیاج سے واقف ہو۔ انسان کے دل کے اندر ایک چیز ہے جو خود خدا کے وجود کی دلیل ہے۔ وہ چیز کیا ہے؟ وہ جستجوئے خدا کی جذبہ ہے، عشق خدا ہے، جاذبیت خدا ہے جو ہمارے دل کے اندر ہے۔ مادہ پرستوں کے دل میں بھی ہے مگر غافل انسان یہ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کیا ہے۔ یہ جو انسان دلی وابستگیوں، محبتوں اور کششوں کے پیچھے دوڑتا ہے، اس دوڑنے کی وجہ اور اس قلبی احساس کی جڑ وہی جذبہ الہی ہے لیکن غافل اور تاریکیوں میں ڈوبا انسان وہ ضروری قلبی روشنی نہیں رکھتا اس لئے نہ اس کو پہچانتا ہے اور نہ ہی اس کو سمجھ پاتا ہے۔
خدا شناسی میں عقل کا مقام
توحید صرف یہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ خدا ہے اور وہ بھی ایک ہے دو نہیں ہے۔ یہ توحید کی ظاہری شکل ہے۔ باطن توحید بحر بیکراں ہے جس میں اولیائے خدا غرق ہوتے ہیں۔ وادی توحید بہت عظیم ہے اور اس عظیم وادی میں مومنین، مسلمین اور موحدین سے کہا گیا ہے کہ فکر، تدبر اور تعقل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ واقعی تعقل اور تدبر ہی ہے جو انسان کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ البتہ مختلف مراحل میں عقل نور وحی، نور معرفت اور اولیائے خدا کی تعلیمات سے آراستہ ہوتی ہے؛ لیکن سرانجام جو چیز آگے بڑھتی ہے وہ عقل ہی ہے۔ عقل کے بغیر کہیں بھی نہیں پہنچا جا سکتا۔
اسلام کا بنیادی ستون
آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر جو بھی مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں وہ توحید کے زیر سایہ زندگی نہ گزارنے کا نتیجہ ہیں۔ توحید صرف ایک ذہنی چیز نہیں ہے۔ توحید ایک حقیقی امر، زندگی کا ایک دستورالعمل اورایک نظام ہے۔ توحید مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ کس طرح رہیں، سماجی نظام میں کس طرح رہیں اور کس طرح زندگی گزاریں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ توحید پر اعتقاد کا تعلق موت کے بعد سے ہے جبکہ توحید پر اعتقاد اس عالم اور زندگی کی تعمیر کرتا ہے۔ مسلمان توحید اور عبودیت کی طرف جتنا بڑھیں گے ، ان کے لئے خدا کے دشمنوں اور طاغوتوں کا شر اتنا ہی کم ہوگا۔ دوسروں کی بندگی اور غلامی کے ساتھ خدا کی بندگی نہیں ہو سکتی۔
اسلامی نظریہ کائنات میں توحید
دنیا کے بارے میں ہر مکتب کی ایک خاص آئیڈیالوجی، ایک خاص نظریہ اور ایک خاص ادراک ہوتا ہے۔ دنیا کے تعلق سے یہ خاص ادراک اور دنیا کے بارے میں یہ مخصوص نقطۂ نگاہ، نظریۂ کائنات ( آئیڈیالوجی) ہے۔ توحید بھی اسلامی نظریۂ کائنات کا حصہ ہے۔ توحید اسلام کی زندگی ساز آئیڈیالوجی کا جز بھی ہے۔ توحید تمام اسلامی ضوابط کے لئے جسم میں روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پیکر اور جسم کے تمام اعضا میں نرم و لطیف ہوا کی طرح حرکت کرتی ہے اور اسی کا نام ہے اسلام ہے۔ اس پیکر اور جسم میں صاف اور پاکیزہ خون کی طرح ہے جس کا نام دین اور اسلام ہے۔ اسلام کی تمام باریک ترین رگوں میں ( توحید موجود ہے) ، حتی کوئی بھی اسلامی حکم ایسا نہیں مل سکتا جس میں توحید کا رنگ و بو اور نشانی نہ ہو۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ اس مجموعے میں جس کا نام دنیا ہے، ہر جگہ، اوپر سے لیکر نیچے تک، ناچیز اور حقیر مخلوقات سے لیکر بڑی اور عظیم مخلوقات تک، پست ترین جاندار یا بے جان سے لیکر باشرف ترین، طاقتور ترین اور عقل و خرد کی مالک مخلوق یعنی انسان تک، اس دنیا میں ہرجگہ، سب کے سب، ایک عظیم طاقت کے بندے، اس کے غلام، اس کے پیدا کردہ اور اسی سے وابستہ ہیں۔ اس ظاہر سے ماورا جسے انسان کی نگاہیں دیکھتی ہیں، اس سے حد سے ماورا جہاں تک تجرباتی علم و دانش ( سائنس) کی تیز بیں نگاہیں پہنچ سکتی ہیں، ان تمام چیزوں سے ماورا جو قابل لمس اور قابل حس ہیں ان سب کے ماورا ایک حقیقت ہے جو تمام حقیقتوں سے بالاتر، اعلی تر، باشرف تر اور باعزت تر ہے اور تمام مخلوقات عالم اسی کے دست قدرت کے بنائے ہوئے، تیار کردہ اور اسی کے خلق کردہ ہیں۔ اس بالاتر طاقت کو ایک نام دیا گيا ہے۔ اس کا نام خدا ہے۔ اس کا نام اللہ ہے۔ بنابریں دنیا ایک حقیقت ہے جو خود سے قائم نہیں ہے۔ جو خود ہی خود کو وجود میں نہیں لائی ہے، اپنے باطن اور اندر سے ابھر کے سامنے نہیں آئی ہے بلکہ ان گوناگوں مخلوقات کو جو سائنس کی ترقی و پیشرفت کے ساتھ زیادہ نمایاں ہوکے سامنے آرہی ہیں، ایک لا متناہی طاقت نے خلق کیا ہے اور وجود بخشا ہے۔ اس کی حیات کسی سے نہیں لی گئی ہے ، اس کا علم کسی جگہ سے اخذ اور کسب نہیں کیا گیا ہے۔ پورے عالم کا اختیار اس کے پاس ہے۔ ذرات عالم اس کے سامنے کس طرح ہیں؟ کیا ذرات جب خلق کئے گئے اور بنائے گئے تو اس بچے کی طرح جو اپنی ماں سے الگ ہوتا ہے، اس سے الگ ہوئے؟ نہیں بلکہ یہ ہر لمحہ باقی رہنے کے لئے اس کے محتاج ہیں، اس کی قدرت کے محتاج ہیں اور اس کے ارادے کے محتاج ہیں۔ سب اس کے بندے ہیں۔ تمام مخلوقات اسی کے بندے، اسی کے غلام ، اسی کے پیدا کردہ اور اسی کی مخلوق ہیں۔ سب پر اس کو تصرف حاصل ہے۔ سب کو اس نے خاص نظم کے ساتھ خلق کیا ہے۔ سب کو اس نے منظم اور دقیق قوانین اور طریقوں سے وجود بخشا ہے۔ ان قوانین کا آج سائنس انکشاف کر رہی ہے۔ اسلامی نظریۂ کائنات میں توحید یعنی دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا اور بنانے والا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اس دنیا کی ایک پاک و لطیف روح ہے۔ دنیا کا کوئی خلق کرنے والا ہے اور تمام اجزائے عالم اس کے بندے، اس کے غلام اور تمام مخلوقات اس خدا اور اس خالق کے اختیار میں ہیں۔
اسلامی توحیدی نظریئے میں مخلوقات کی حیثیت
اسلام کا خالص توحیدی نظریہ کہتا ہے کہ تمام ممکنات و موجودات، ایک جگہ سے، ایک مبدا سے اور ایک دست قدرت سے خلق ہوئے ہیں، پیدا ہوئے ہیں اور بنائے گئے ہیں۔ سب اس کے بندے اور غلام ہیں۔ سب اس کی قدرت کے سامنے بے بس ہیں اور سب کو اس کا فرمانبردار ہونا چاہئے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنا سر کسی اور کے پیر پر رکھے اور اسی طرح کسی کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ اپنا پیر کسی دوسرے کے سر پر رکھے۔ جس طرح انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنا پیر کسی کے سر پر رکھے، اسی طرح اس کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ اپنا سر کسی دوسرے کے پیر پر رکھے۔ اس لئے کہ دونوں صورتوں میں حق و حقیقت کے خلاف عمل ہوگا۔ جو گھوڑے پر بیٹھا ہے اور اس کے گھوڑے کی سم کے نیچے بندگان خدا ہاتھ پیر مار رہے ہیں، اس میں اور ان بندگان خدا میں کوئی فرق نہیں ہے۔
خلقت، موحد کی نگاہ میں
جب انسان مسلمان ہو گیا تو ہر چیز اس کے لئے تمہید اور وسیلہ ہو جاتی ہے۔ ایک وسیع تر عالم تک پہنچنے کا وسیلہ، موت کے بعد کی دنیا تک پہنچنے کا وسیلہ نہیں، بلکہ انسان کے عالم فکر و بینش تک پہنچنے کا وسیلہ جو ذات خدا جتنی وسعت رکھتا ہے۔ انسان کے لئے تمام چیزیں وسیلہ ہیں اس بات کا کہ انسان رضائے خدا حاصل کر سکے۔ دنیا کی زندگی، دنیا کی دولت، دنیا کی آسائش اور دنیا کی محبتوں کی اس کے لئے کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ چیزیں اس وقت اس کے لئے اہم ہوتی ہیں کہ جب راہ خدا میں ہوں۔ لیکن اگر یہ محبت، یہ دولت، یہ مقام و مرتبہ، یہ زندگی، یہ اولاد، یہ عزت خدا کی راہ میں اور فریضے ادائیگی کی راہ میں نہ ہو تو اس کے لئے ان کی کوئی اہمیت و حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔
اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان
اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان ایسی مخلوق ہے جس میں بے پناہ صلاحیتیں نہفتہ ہیں۔ یہ انسان علم و دانش، حقائق خلقت اور رازہائے پنہاں کے انکشاف میں بے انتہا پیشرفت کر سکتا ہے۔ معنوی اور روحانی سیر و سلوک کی منزلیں طے کرنے میں بھی بے پناہ ترقی کر سکتا ہے، فرشتوں سے بھی بلند تر ہو سکتا ہے اور انواع و اقسام کی توانائیوں کے لحاظ سے طاقت و اقتدار کی بلند ترین چوٹیاں سر کر سکتا ہے۔ اگر اس سے خدا کی عبودیت کی، خدا کی اطاعت کی تو یہ راستے اس کے سامنے کھل جائیں گے اور اگر غیر خدا کی اطاعت کی تو اس کے بال و پر بندھ جائیں گے اور وہ پرواز سے محروم رہ جائے گا۔ علم و دانش کے تمام شعبوں میں انسان کی راہ میں توحید موجود ہوتی ہے اور انسان آشنا ہوتا ہے۔ صدر اسلام کا مسلمان، اگرچہ اس دور میں دنیا پر جہالت اور شرک کی حکمرانی تھی، توحید کا گرویدہ ہوا تو اس کو ایسی آزادی اور فتوحات نصیب ہوئیں کہ علم و دانش کے دروازے اس پر کھل گئے اوراس کی پیروی میں پوری بشریت وادی علم میں داخل ہوئی۔ آج دنیا اور بشریت اپنے علم و دانش کے لئے اسلام کی ممنون احسان ہے، ان مسلمانوں کی توحید کی احسانمند ہے، جنہوں نے پہلی بار علم و انش کی وادی
میں قدم رکھا۔
توحیدی فکرکی بقا کا راز
تاریخ میں، زمین پر توحید اور حکومت خدا کے دشمن بہت رہے ہیں۔ کیسے ممکن ہوا کہ پیغمبر تاریخ میں اپنے دشمنوں پر کامیاب ہوئے؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اتنے دباؤ کے باوجود جو موسی، شعیب، یوشع اور ہارون ( علیہم السلام) پر پڑے، بنی اسرائیل ایک روز پوری دنیا میں حکومت اور اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے؟ یہ کیسے ہوا کہ پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جو زمانے میں تنہا تھے، صرف آپ تھے اور آپ کی تنہائی اور پوری دنیائے جاہلیت آپ کی مخالف تھی، مدینہ تشریف لائے، حکومت تشکیل دی، اور اسی حکومت کے ذریعے پوری دنیا کو توحید کے زیر سایہ لائے اور تاریخ میں ایک نئی تحریک شروع کی؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایران کا اسلامی انقلاب جس کی مشرق اور مغرب دونوں مخالفت کر رہے تھے اور آج کی مادی دنیا میں اس کا ایک بھی حامی و طرفدار نہ تھا، صرف اقوام اس کے ساتھ تھیں، کامیاب ہوا؟ زمانے اور تاریخ میں توحیدی نظریئے کی بقا اور ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی میں ایک راز ہے اور وہ یہ ہے کہ بندگان خدا میں سے کچھ لوگ اس ہدف اور اصول کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ شہادت پسندی، اگر شہادت پسندی نہ ہوتی، اعلی ہدف کی راہ میں اگر جانیں نہ پیش کی گئی ہوتیں، تونہ ایران کا اسلامی انقلاب سامنے آتا، نہ پیغمبر اسلام کامیاب ہوتے، اور نہ ہی تاریخ میں توحید کوئی کامیابی حاصل کرپاتی۔ اس طرح خدا وند عالم نے تمام انبیائے الہی اور ادیان الہی کے لئے اس معاملے کو قرار دیا ہے ۔ ان اللہ اشتری من المومنین خدا خریدتا ہے، مومنین سے خریدتا ہے انفسہم ان کی جانوں کو واموالھم اور ان کی مادی ہستی کو ان کے اموال کو بان لھم الجنۃ اور اس کے بدلے میں انہیں بہشت عطا کرتا ہے۔ یہ اقوام کی شہادت پسندی کا جذبہ ہے جو انہیں کامیابی تک پہنچاتا ہے۔
دوسرا باب ،منکرین وحدانیت
بشریت کی تباہی کا راستہ
سب سے بڑا گناہ جس سے کوئی انسان یا معاشرہ دوچار ہوتا ہے، شرک ہے۔ خداوند عالم سبھی گناہوں کو معاف کر دیتا ہے مگر شرک کو نہیں معاف کرتا۔ ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء۔ لیکن شرک اتنا بڑا اور مہیب گناہ ہونے کے باوجود ان گناہوں میں سے ہے کہ دنیا کے لوگوں میں اس کے مرتکبین بہت زیادہ ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ گناہ بہت سے گناہوں کے برخلاف ہمیشہ ہر ایک کے لئے اور ہر شکل میں قابل شناخت نہیں ہے۔ لہذا روایات میں شرک کو، شرک آشکارا اور شرک پنہاں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شرک جاہلیت کے معاشرے میں بھی ہوتا ہے اور اسلامی معاشرے میں بھی ہوتا ہے۔
جاہلیت کے معاشرے میں شرک
جاہلیت کے معاشرے میں سب کچھ شرک ہے۔ لوگوں کے سارے کام شرک آلود ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ جاہلیت اور غیر اسلامی معاشرے میں بر سرکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کی سمت اور حرکت، شرک آمیز بنا دیتے ہیں۔ اس لئے خود وہ بھی اور وہ تمام لوگ بھی جو ان کی پیروی کرتے ہیں، درحقیقت آتش (جہنم) اور ہلاکت کی طرف جاتے ہیں۔ جب کسی شرک آلود معاشرے میں مبداء ہستی اور عالم پر مسلط قوت قاہرہ سے انسانوں کے رابطے کا مسئلہ انحراف کا شکار ہوتا ہے تو لازمی طور پر اس معاشرے کے انسان ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں۔ کوئی، ایک خدا کی طرف جاتا ہے تو دوسرا دوسرے خدا کا رخ کرتا اور تیسرا تیسرے خدا کی طرف جاتا ہے۔ جو معاشرے شرک کی بنیاد پر استوار ہو ان میں افراد اور انسانوں کے گروہوں کے درمیان ایک ناقابل نفوذ دیوار اور کبھی نہ ختم ہونے والی کھائی حائل ہوجاتی ہے۔
اسلامی معاشرہ میں شرک
اسلامی معاشرے میں خدا کے جانشین اور اس کے مامور کردہ افراد، برسراقتدار ہوتے ہیں، اس کے باوجود وہاں بھی شرک موجود ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں جو اسلامی معاشرہ بنا رہنا چاہتا ہے، شرک کا پہلا نمونہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں حکام کچھ باتوں کے لحاظ میں پڑ کر، جذبات کے ٹھنڈے پڑ جانے کی وجہ سے یا مستقبل، اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں مایوسی کا شکار ہوکر، غیر الہی احکام وضع کرنے اور پھر ان کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل شرک کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ شرک اور بہت بڑا شرک ہے۔ اس معاشرے میں جو اسلام کے نام پر اور مسلمان عوام کے ذریعے وجود میں آیا ہو، اگر اس معاشرے کے برسراقتدار کچھ لوگ بعض مصلحتوں کے پیش نظر احکام خدا پر معاملہ کرنا چاہیں تو یشترون بآیات اللہ ثمنا قلیلا یہ اس معاشرے میں شرک آلود فعل ہے۔ یہ معاشرہ اگرچہ مسلمان عوام کے ذریعے تشکیل پایا ہے لیکن ایک پنہاں شرک اس پر حکمفرما ہے۔
مفہوم شرک کی شناخت کی ضرورت
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیںان بنی امیۃ اطلبوا للناس تعلیم الایمان ولم یطلبوا تعلیم الشرک لکی اذا حملوھم علیہ لم یعرفوا یعنی بنی امیہ نے عوام کے لئے ایمان سیکھنے کا راستہ کھلا رکھا لیکن شرک کیا ہے یہ جاننے کا راستہ بند کر دیا تاکہ اگر لوگوں کو شرک کی طرف لے جائیں تو لوگ اس کو نہ پہچان سکیں۔ بنی امیہ علماء، اہل دین اور ائمہ علیہم السلام کو نماز، حج، زکات، روزہ اور عبادات کے بارے میں بولنے اور احکام الہی بیان کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ اس کا راستہ کھلا رکھتے تھے کہ توحید اور نبوت لوگوں کو سمجھائیں لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ شرک کا مفہوم، اس کے مصادیق اور معاشرے میں شرک کی علامتوں کے بارے میں لوگوں کو کچھ بتایا جائے۔ اس لئے کہ اگرشرک کے بارے میں لوگوں کو یہ باتیں سکھائی جاتیں تو وہ فورا سمجھ جاتے کہ وہ شرک میں مبتلا ہو رہے ہیں اور جان جاتے کہ بنی امیہ انہیں شرک کی طرف لے جا رہے ہیں۔ فورا سمجھ جاتے کہ بنی امیہ ایسے طاغوت ہیں جنہوں نے خدا کے مقابلے میں سر اٹھایا ہے اور اگر کوئی ان کی اطاعت کرے تو درحقیقت اس نے شرک کا راستہ اپنایا ہے۔ اس لئے وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ عوام شرک کے بارے میں کچھ جانیں۔
انسان کے مشرک بننے کی وجوہات
علامہ مجلسی بحار الانوار کی اڑتالیسویں جلد میں فرماتے ہیں کہ انّ آیات الشرک ظاھرھا فی الاصنام الظاھرۃ وباطنھا فی خلفاء الجور، الذین اشرکوا مع آئمۃ الحق ونصبوا مکانہ یعنی قرآن کریم میں شرک کی آیات بظاہر ظاہری بتوں یعنی انہی پتھر اور لکڑی کے بتوں کے بارے میں ہیں مگران کی باطنی تاویل یہ ہے کہ یہ آیات خلفائے جور (یعنی ظالم حکام) کے بارے میں ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ناحق خود کو خلیفہ (اسلامی حاکم) کہتے تھے اور اسلامی معاشرے پر حکومت کرتے تھے۔ یہ خلفائے جور ( یعنی ظالم حکام ) اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے معاشرے پر حکمرانی کے دعوے میں برحق اماموں کے شریک بن گئے اور خود کو آئمہ حق کا شریک قرار دینا خدا کا شریک قرار دینا ہے۔ کیونکہ آئمہ حق خدا کے نمائندے ہیں، خدا کی زبان بولتے ہیں اور خدا کی طرف سے بولتے ہیں۔ چونکہ خلفائے جور نے ان کی جگہ خود کو خلیفہ کہا اور ان کے امامت کے دعوے میں خود کو شریک قرار دیا اس لئے یہ بت اور طاغوت ہیں اور جو بھی ان کی اطاعت کرے وہ درحقیقت مشرک ہے۔
خدا کے صاحب اولاد ہونے کا دعوی اور اس کی نفی
قرآن کریم انسانوں کو جو عقیدہ دیتا ہے، وہ اہداف الہی کی تکمیل میں دخیل ہوتا ہے اورجس چیز کو غلط عقیدہ قرار دیکر اس کی نفی کرتا ہے، وہ چیز معاشرے کی گمراہی میں دخیل ہوتی ہے۔ غلط عقیدے کی نفی دراصل انسانی معاشر ے میں گمراہی کی جڑوں کی نفی ہے۔ قرآن کریم سورۂ رحمان کی آیت نمبر ستاسی میں فرماتا ہے وقالوا اتّخذ الرّحمن ولدا عیسائی، یہودی، مشرکین قریش، مشرکین عربستان اور دوسری جگہوں کے مشرک کہتے تھے کہ خدا رحمان صاحب اولاد ہے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ خدا کی بیٹی ہے، کچھ کہتے تھے بیٹا ہے، کچھ کہتے ہیں اس کے بیٹی اور بیٹا دونوں ہیں، بعض کہتے تھے کہ ایک اولاد ہے اور بعض کہتے تھے اس کی اولادیں لاتعداد ہیں۔ کنبے والا ہے۔ اس دعوے کا مطلب یہ تھا کہ مخلوقات عالم میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی خدا سے نسبت ، خدا سے بندے کی نسبت نہیں ہے بلکہ یہ نسبت ولدیت کی ہے۔ یہ اگرچہ مالک نہیں ہیں لیکن مالک کے بیٹے ہیں اس کے بندے کے بیٹے نہیں ہیں۔ یہودی کہتے تھے کہ عزیزبن اللہ یعنی عزیز پیغمبر خدا کے بیٹے ہیں ، وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ تمام مخلوقات عالم خدا کے بندے اور غلام ہیں لیکن وہ خدا کے بندے اور غلام نہیں ہیں، وہ خدا کے بیٹے ہیں، خدا کے نورچشم ہیں۔ عیسائی، حضرت عیسی کے بارے میں یہی کہتے تھے۔ کفار لات، منات اور عزی کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔ یونان اور روم کے مشرکین کہتے تھے کہ خدا کے لاتعداد اولادیں ہیں۔ سب کا نظریہ یہی تھا یعنی دو صفیں مد نظر رکھی گئیں ، ایک خدا کی صف اور دوسری تمام بندوں اور مخلوقات کی صف جس میں سب خدا کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ ان دو صفوں کو تین قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا، خدا کی اولادیں اور اس کے بندے۔ خدا اور انسان کے بیچ ایک درمیانی حد کا عقیدہ معاشرے میں بڑی گمراہیوں کا موجب ہے۔ یہ درحقیقت یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ بندگان خدا، خدا کے بندے ہونے کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے بندے بھی ہوں۔
مادہ پرستوں کے انکار توحید کی دلیل
خدائی انسان کہتا ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے، جو مشاہدہ کرتا ہے، اس سے ماورا ایک برتر اور عظیم تر حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت نہ ہوتی تو یہ موجودات وجود میں نہ آتے۔ مادہ پرست کہتا ہے کہ نہیں، ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، اس کے علاوہ کسی اور چیز کے معتقد اور پابند نہیں ہو سکتے۔ ہم نے لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں میں بہت جستجو کی لیکن وہ وجود ہمیں نظر نہ آیا جس کے موحدین قائل ہیں۔ اس دور کے مادہ پرست کہتے ہیں کہ اس عالم سے ماورا کوئی حقیقت وجود نہیں رکھتی۔ مادہ پرست چونکہ مکتب الہی سے فکری اور ذہنی مایوسی سے دوچار ہوا ہے اس لئے یہ باتیں کرتا ہے۔ وہ چونکہ اس بات کا قائل ہے کہ آج کی دنیا اور انسانوں کے امور کو چلانا، قیام عدل اور امتیاز کا خاتمہ مادی طرز فکر کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے اسی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر مکتب الہی سے روگرداں ہے۔ جو لوگ اس زمانے کے بعض ازموں کے گرویدہ ہیں، ان کی فکری حالت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خدا سے ان کی لڑائی ہے، یا وجود خدا پر ان کے پاس کوئی محکم دلیل نہیں ہے اس لئے وجود خدا کا انکار کرتے ہیں یا اس کو قبول نہیں کرتے۔ معاملے کے دوسرے رخ کی بھی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ خدا کی نفی میں کوئي استدلال ہے ہی نہیں، نہ اس وقت ہے اور نہ کبھی ماضی میں تھا۔ کوئی نہیں ہے جو کہے خدا کے نہ ہونے کی دلیل یہ ہے۔ دنیا کے تمام مادہ پرستوں میں پہلے دن سے آج تک کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کہے کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ اس دلیل سے خدا کی نفی ہوتی ہے۔ جو بھی اس بارے میں بولتا ہے کہتا ہے کہ میرے لئے یہ ثابت نہیں ہے کہ خدا ہے؛ میں نے نہیں سمجھا، میں نے خدا کے ہونے کے استدلال کو قبول نہیں کیا۔ قرآن کریم بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ان ھم الّا یظنّون یہ وہم و گمان کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں ورنہ دلیل سے خدا کی نفی نہیں کر سکتے۔
مادہ پرستی کی طرف جھکاؤ کا سبب
اس چیز کی طرف جس کو مادی مکتب کہا جاتا ہے، جھکاؤ کی وجہ یہ ہے کہ مادہ پرست انسان سمجھتا ہے کہ آج دنیا کو مادی مکتب بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے۔ کہتا ہے کہ مادی مکتب ، ظلم کو زیادہ اچھی طرح ختم کر سکتا ہے، امتیاز اور عدم مساوات کو بہتر طور پر مٹا سکتا ہے، ظلم و انانیت کو بہتر طور پرجڑ سے ختم کر سکتا ہے۔ مادہ پرست کہتا ہے کہ دین یہ کام نہیں کر سکتا۔ کیوں کہتا ہے کہ دین یہ کام نہیں کر سکتا؟ اس لئے کہ دین کے معنی و مفہوم سے بالکل واقف نہیں ہے۔ دین کے بارے میں اس کے علاوہ اور کـچھ نہیں جانتا جو اس نے کوچہ و بازار میں لوگوں میں مشاہدہ کیا ہے۔ مختصر یہ کہ اسے دین کی کوئی خبر نہیں ہے اور دین کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ اس سے پوچھا جائے کہ دین کیا ہے تو کچھ مذاہب کا نام گنواکر کہے گا یہ دین ہیں اور چونکہ یہ نشہ آور ہیں (افیم کی خاصیت رکھتے ہیں) ظلم اور ظالم کے مترادف ہیں اس لئے عوام کی کوئی مشکل حل نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسے غیر معقول فرد سے دوچار ہونے کے بعد ان کا بہترین اور صحیح ترین جواب یہ ہے کہ جی ہاں اگر کوئی ایسا دین تمہیں مل جائے جو ظالم کے لئے سازگار ہو، مستبد کے ساتھ تعاون کرے ، مظلوم کا ساتھ نہ دے سکے، لوگوں کی کوئی مشکل حل نہ کرسکے، لوگوں کے آج اور کل کے لئے ذرہ برابر بھی فائدہ نہ رکھتا ہو، ہم تمہیں اپنا وکیل بناتے ہیں، جب بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی ایسا دین مل جائے، اس کو مسترد کر دو۔ ایک لمحے کے لئے بھی اس دین کو قبول نہ کرو۔ اس لئے کہ جو دین خدا کی طرف سے ہے وہ ایسا نہیں ہے۔
شیطان کی اطاعت کیسے ہوتی ہے
وانّ الشّیاطین لیوحون الی اولیائھم لیجادلوکم یعنی شیاطین اور وہ جو بدی کے محور ہیں، اپنے دوستوں، اپنے محاذ والوں اور خود سے وابستہ لوگوں میں یہ وسوسہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنگ کریں۔ شیاطین بدی، برائیوں اور بربادی کے محور، اپنے کارندوں، دوستوں، اپنے محاذ والوں اور خود سے وابستہ لوگوں کے اندر یہ وسوسہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور آپ سے بحث کریں، مباحثہ کریں اور آپ کو باتوں میں الجھائیں۔ شیطان کے ان کارندوں کے مقابلے میں آپ کا فریضہ کیا ہے؟ وان اطعتموھم انکم لمشرکون اگر آپ نے ان کی اطاعت کی اور ان کی پیروی کی تو مشرک ہو گئے۔ شیطان کی اطاعت یعنی رحمان کے مقابلے میں بدی کے محور کی اطاعت۔ شیطان خدا کے مقابلے میں ہے۔ شیطان یعنی بدی کے محور کی اطاعت سے، شیطان کے دوستوں کی اطاعت سے، اس کے زرخرید کارندوں کی اطاعت سے، اس کے پٹھوؤں کی اطاعت سے، اس کے رفیقوں کی اطاعت سے اور اس کے غلاموں کی اطاعت سے انسان مشرک ہو جاتا ہے۔ ان اطعتموھم اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو انّکم بیشک تم ، لمشرکون مشرک ہوگئے۔
کیا خدا کچھ لوگوں سے زیادہ محبت کرتا ہے؟
وقالت الیھود و النصاری نحن ابناء اللہ و احباؤہ یہودیوں نے کہا ہم خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں۔ پھر خدا ان کے ایک جرم پر ان سے منہ پھیر لیتا ہے۔ (ان کے دعوے کا) جواب بھی دیتا ہے اور ان کی مذمت بھی کرتا ہے۔قل فلم تقتلون انبیاء اللہ بغیر حق اگر تم خدا کے اتنے چاہنے والے، اتنے نزدیک اور اس کے قرابتدار ہو تو اس کے پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے ہو؟ اس کے برگزیدہ بندوں کو کیوں قتل کرتے ہو؟ یہودی کہتے تھے، ہم خدا کی اولاد اور خدا کے قرابت دار ہیں، اس لئے ہم برتری رکھتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ ایک اور جگہ پر فرماتا ہے یا ایھا الذین ھادوا ان زعمتم انّکم اولیاء اللہ من دون النّاس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین اگر تم یہ کہتے ہو کہ خدا کے بڑے رفیق ہو اور اس کے قرابت دار ہو، تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو، تاکہ اس کھوکھلی زندگی سے نجات پاکے اپنے عزیز محبوب اور اس کے پاس پہنچ جاؤ جس کے قوم و قبیلے سے ہونے کے دعویدار ہو۔ اس کے بعد خداوند عالم فرماتا ہے ولا یتمنونہ ابدا محال ہے ، یہ موت کی تمنا ہرگز نہیں کریں گے، یہودی اور موت کی تمنا؟!
تیسرا باب، توحیدی نظریۂ کائنات کے اثرات
عبادت کے مصادیق
کبھی کسی کی عبادت اس صورت میں کی جاتی ہے کہ اس کو مقدس اور مافوق الفطرت قوتوں کا مالک سمجھیں۔ جیسے تاریخ میں لوگ بتوں اور مقدس شخصیات کی پرستش کرتے رہے ہیں۔ عبادت میں سب سے پہلے جو چیز نظر آتی ہے، یہی تقدس اور روحانی اور قلبی حالت ہے۔ جیسے مثال کے طور پر عیسائی جو حضرت عیسی علیہ السلام یا آپ کی والدۂ گرامی حضرت مریم صلوات اللہ علیہا کی پاکیزگی اور تقدس کے قائل ہیں، ان کے تخیلاتی مجسمے کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہیں، گریہ کرتے ہیں اوران کی پرستش کرتے ہیں۔ عبادت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کسی مقدس وجود کے سامنے، قلبی احترام کے ساتھ ، اس کو بالاتر سمجھتے ہوئے، اس کے سامنے جھکے، سجدہ کرے رکوع میں جائے، اس سے دعا مانگے، اس کی ستائش کرے اور اس کی طرف خضوع و خشوع کے ساتھ ہاتھ بلند کرے۔ بلکہ کچھ اور کام بھی ہیں جنہیں دوسرے معنی میں عبادت کہا جا سکتا ہے۔ عبادت کے دوسرے معنی کیا ہیں؟ عبادت کے دوسرے معنی کے لئے فارسی میں جو لفظ زبانوں پر رائج ہے ، وہ اطاعت ہے۔ کسی کی بھی بلاقید و شرط اطاعت اس کی عبادت ہے۔ قرآن کی زبان میں کسی بھی غیر خدا کی عبادت، اب وہ غیر خدا چاہے کوئی سیاسی طاقت ہو، مذہبی قوت ہو، کوئی باطنی عامل جیسے انسان کا نفس ہو، اس کی نفسانی و شہوانی خواہشات ہوں، انسان کے وجود سے الگ کوئی وجود ہو لیکن کوئی متمرکز سیاسی یا دینی قوت نہ ہو، کوئی عورت ہو کوئی مرد ہو جس کے لئے انسان بیجا احترام کا قائل ہے، یا کوئی دوست ہو- اس کی مطلق اطاعت کرنا اس کی عبادت کرنا ہے۔ جو بھی کسی فرد یا کسی شئے کی اطاعت کرے گویا اس نے اس کی عبادت کی ہے۔
خدا اور شیطان کی عبادت
امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیںمن اصغی الناطق فقد عبدہ عبادت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ صرف اطاعت ہی نہیں بلکہ تمام حواس کسی کے حوالے کر دینا ( یعنی پورے حواس کے ساتھ کسی کی طرف ملتفت ہونا ) بھی اس کی عبادت ہے۔ کیا انسان صحیح باتیں بھی نہ سنے؟ اس بارے میں حدیث میں آگے چل کے فرماتے ہیں و ان کان الناطق ینطق عن اللہ فقد عبد اللہ اگر وہ شخص جو بول رہا ہے اور اس نے لوگوں کے تمام حواس اپنی طرف مبذول کر رکھے ہیں، خدا کی باتیں کر رہا ہے، تو اگرچہ سننے والوں کے دل اس کی طرف مبذول ہیں، اذہان اس پر متمرکز ہیں اور فکر و روح اس کی طرف متوجہ ہے، لیکن وہ لوگ خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ وان کان الناطق ینطق عن لسان ابلیس فقد عبد ابلیس لیکن اگر بولنے والا شیطان کی باتیں کر رہا ہے، ابلیس کی زبان بول رہا ہے، فکر و فلسفہ الہی کے خلاف بحث کر رہا ہے اور لوگ اس کی باتیں سن رہے ہیں، تو ابلیس کی اطاعت اور عبادت میں مصروف ہیں۔ یعنی در اصل وہ خود شیطان ہے۔ وہ خود جو اس طرح بول رہا ہے، شیطان کا نمائندہ یا اس کا ترجمان نہیں بلکہ قرآن کے نزدیک وہ خود شیطان ہے۔
توحیدی معاشرہ
جب کسی معاشرے میں توحید آ جاتی ہے تو بندوں میں برابری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ توحیدی معاشرے میں مبدا، مالک ہستی اور سلطان عالم وجود اس ذات حی و قیوم اور قاہر مطلق کو سمجھا جاتا ہے کہ تمام اتفاقات عالم اسی کی قدرت کاملہ اور ارادے کے مرہون منت ہوتے ہیں، تو سارے انسان چاہے وہ کالے ہوں یا گورے، کسی بھی رنگ و نسل اور سماجی حالت سے تعلق رکھتے ہوں، سب ایک ہی رشتے میں بندھ جاتے ہیں چونکہ اس خدا سے مل جاتے ہیں اور ایک ہی جگہ متصل ہوتے ہیں اور اسی سے نصرت اور مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ توحید پر اعتقاد کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس نقطۂ نگاہ میں صرف انسان ہی ایک دوسرے سے مرتبط نہیں ہوتے بلکہ توحیدی نقطۂ نگاہ سے تمام اشیاء، اجزائے عالم، حیوانات، جمادات، آسمان، زمین اور تمام چیزیں ایک دوسرے سے متصل اور مرتبط ہیں اور تمام انسان ایک ہی کنبے کے ہیں۔ بنابریں جو کچھ انسان دیکھتا ہے، احساس کرتا اور سمجھتا ہے، ایک افق، ایک عالم اور ایک مجموعہ ہے کہ جو ایک صحتمند دنیا اور امن کی فضا میں قرار پاتا ہے۔
اسلامی معاشرے کی علامتیں
اسلامی معاشرے سے مراد وہ معاشرہ ہے کہ جس میں تمام افراد معاشرہ پر اطاعت خداوند عالم حکمفرما ہو، یا بہتر الفاظ میں اس معاشرے کی تمام راہ و روش فرمان خدا کے مطابق ہو اور جیسا خدا نے فرمایا ہے، اس طرح ہو۔ کسی معاشرے میں خدا کی عبودیت کی علامتیں چند چیزوں میں آشکارا طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ چند چیزیں معاشرے میں وجود میں آ جائیں تو سمجھنا چاہئے کہ وہ معاشرہ خدا کی بندگی میں ہے اور وہ نظام ، نظام الہی ہے۔ ایک یہ کہ اس معاشرے میں بندگان خدا حکومت کریں، دشمنان خدا نہیں۔ طاغوتی عناصر معاشرے پر مسلط نہ ہوں۔ جو اپنی دعوت دیتے ہیں، عوام کے لئے خدا کو نہیں بلکہ خود کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں، جو فرعون، نمرود اور تاریخ کے دیگر طاغوتوں کی طرح عوام کو اپنی خدمت میں طلب کرتے ہیں اور ان کے دل خدا سے آشنا نہیں ہیں، وہ معاشرے پر مسلط نہ ہوں بلکہ بندگان خدا کو بالادستی حاصل ہو۔ دوسرے یہ کہ احکام الہی رائج ہوں۔ عوام حکم خدا پرعمل کریں، ان احکام پر نہیں جو ہوا و ہوس یا انسان کی کمزور اور غلط تشخیص کے نتیجے میں صادر ہوتے ہیں۔ احکام کی حدود کو قرآن اور حکم خدا سے معین کیا جائے۔ تیسرے یہ کہ امتیاز نہ ہو، کالے گورے، عرب عجم، فلاں قوم ، فلاں قبیلہ فلاں کنبہ اور خاندان اور فلاں طبقہ، یہ باتیں امتیاز کا باعث نہ بنیں۔ معاشرے میں انسان بحیثیت انسان سامنے آئے اور تقوا برتری کی بنیاد قرار پائے۔ چنانچہ یہ تمام نشانیاں اور علامتیں صدر اسلام میں پائی جاتی تھیں۔ چوتھے یہ کہ معاشرے میں عوام اور انسانوں کا احترام ہو۔ انسان محترم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ انسان کو حیوانی وسیلہ سمجھا جائے۔ معاشرے میں انسان کو عالم کی برترین مخلوق اور دنیا کو چلانے والا سمجھا جائے نہ کہ ایسی مخلوق جو اپنا پیٹ بھرتی ہے اور اس پر بوجھ لادا جاتا ہے کہ اگر ذہن نہیں سمجھتا ہے تو نہ سمجھے، اعلی اہداف کا شوق نہیں ہے تو نہ ہو۔ معاشرے میں انسان مکرم ہو۔ یہ جو خدا فرماتا ہے کہ لقد کرمنا بنی آدم یہ یونہی نہیں کہا گيا ہے۔ یہ ایک بنیاد ہے، اسلامی معاشرے کی ایک اساس ہے۔ جہاں بھی اس اصول پر عمل نہ ہو وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہے۔ جہاں انسان ذلیل ہو، جہاں انسانوں پر طاقتوروں کی ہوا و ہوس کی حکمرانی ہو، جہاں انسان کو سوچنے اور فکر کرنے کا حق نہ دیا جائے، حصول علم کا حق نہ دیا جائے، اپنا راستہ خود منتخب کرنے کا حق نہ دیا جائے، یہ حق نہ دیا جائے کہ جس راستے کو اس نے پہچانا ہے اور سمجھا ہے یعنی راہ خدا اس کو تلاش کرے ، وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ پانچویں یہ کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو، جس معاشرے میں ظلم ہو وہ خدائی معاشرہ نہیں ہوسکتا۔ چھٹے یہ کہ خدائی اور اسلامی معاشرے کی ایک علامت، جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جس معاشرے میں جہاد نہ ہو، جہاد فی سبیل اللہ کی کوشش نہ ہو وہ معاشرہ بھی اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔
معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کے اثرات
توحیدی معاشرے میں سماجی سہولتیں سب کو حاصل ہونی چاہئیں۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کے پاس پیسہ برابر ہو۔ پیسہ برابر نہیں کرتے بلکہ موقع اور وسائل سب کو برابر سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کوئی فرد زیادہ تیز ہو اور دوسرا کاہل ہو۔ اگر کوئی زیادہ کام کرے گا تو زیادہ محنتانہ لے گا۔ اس کا محنتانہ لیکر دوسرے کو نہیں دیں گے کہ دونوں کا پیسہ برابر ہو جائے، بلکہ افراد معاشرہ کو پڑھنے، کام سیکھنے اور کام کرنے کا برابر سے موقع دیا جاتا ہے ؛ مواقع سب کو یکساں طور پر ملتے ہیں۔ معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کی تاثیر یہ ہے کہ معاشرے میں توازن اور اعتدال کی حالت ہو۔ برابری کی نہیں بلکہ توازن اور اعتدال کی حالت۔ وہ جملہ جو امیر المومنین (علیہ السلام ) نے آغاز خلافت میں ایک فریضے اور اس نقطے کے عنوان سے بیان فرمایا کہ جس کے لئے آپ نے خلافت قبول فرمائی، یہ تھا کہ وما اخذ اللہ علی العلماء ان لا یقارّوا علی کظّۃ ظالم ولا سغب مظلوم یعنی خداوند عالم نے علما اور دانشوروں کا فریضہ قرار دیا ہے کہ ستمگروں کے سیر ہونے اور مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کے بھوکے رہنے پر چین سے نہ بیٹھیں۔ یہ اسلامی اقتصادی نظام کا ایک اہم عنوان ہے اور ان مسائل کی اساس پر اسلامی اقتصادی نظام استوار ہوگا۔ یہ توازن اور اعتدال کی حالت خدا پر انسان کے ایمان کی دین ہے۔ اگر خدا نہ ہو، اگر اس عالم اور انسان کی فکر کا کوئی مالک نہ ہو، اگر انسان خود اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کریں اور جو بھی حاصل کریں اس کے مالک ہوں اور سب کچھ اپنا سمجھیں تو معاشرے کی حالت کچھ اور ہوگی۔ توحیدی معاشرے کے مالی امور میں توحیدی نظریہ جو توحیدی قرار داد کی ایک اہم شق ہے، قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وآتوھم من مال اللہ الذی اتاکم خدا نے جو دولت تمہیں عطا کی ہے وہ خدا کی ہے اس کو ضرورتمندوں کو ان کی ضرورت اور حاجت کے لحاظ سے دو۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے، سب خدا کا ہے۔ انسان صرف امانتدار ہیں ( دولت انہیں امانت کے طور پر دی گئی ہے) المال مال اللہ جعلھا ودایع عندالناس دولت کو خدا نے انسان کو امانت کے طور عطا کیا ہے۔ یہ توحیدی آئیڈیالوجی کا لازمہ ہے۔
معاشرے کی اخلاقیات پر توحید کے اثرات
توحیدی نظام اور معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کا انداز فکر، اپنے بھائیوں اور تمام انسانوں کے ساتھ سلوک اور اپنی ذاتی زندگی میں ان کا طرز عمل ان لوگوں سے مختلف ہوتا ہے جو مادی نظاموں میں رہتے ہیں۔ وہ خدا کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، خدا سے اپنی حاجت طلب کرتے ہیں، خدا سے محبت کرتے ہیں، خدا سے ڈرتے ہیں، خدا کی پناہ حاصل کرتے ہیں، خود کو خدا کا بندہ سمجھتے ہیں، بندگان خدا کے لئے محبت و ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں، بندگان خدا پر ظلم نہیں کرتے، ان سے حسد نہیں کرتے، ان کو لالچ کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور تمام اچھی اخلاقی صفات جن کا اخلاقیات کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے، خدا پر ایمان کا نتیجہ ہے اور اسلامی اخلاقیات کی بنیاد اور ستون ، ایمان باللہ ہے۔
اسلامی معاشرے کی تعمیر میں توحیدی نظریئے کے اثرات
اسلام کے سماجی مسائل میں ایک قابل توجہ اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر توجہ اسلام کے تمام سماجی مسائل میں انسان کی مدد کر سکتی ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی فکر اور اسلامی نیز توحیدی اعتقاد اسلامی معاشرے کے سماجی اور عمومی ڈھانچے کی تعمیر میں کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں، ان کا سماجی پیکر ان لوگوں سے کیا فرق رکھتا ہے جو خدا پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ کیا خدا پر اعتقاد صرف یہ ہے کہ لوگ دل اور زبان سے خدا کو قبول کر لیں اور انفرادی اعمال جیسے نماز، روزہ، سچ بولنے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے اور ذاتی امور میں خدا کو مد نظر رکھنے کے پابند بن جائیں ۔ اب چاہے وہ جس معاشرے میں بھی، جس شکل میں بھی اور جس نظام میں بھی زندگی گزاریں، کوئی حرج نہیں ہے یا نہیں بلکہ خدا پر اعتقاد، موحد انسانوں اور خدا پر اعتقاد رکھنے والوں کی عام زندگی میں متجلی ہونا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا پر اعتقاد صرف انسان کے دل اور ذہن میں ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ خدا پر اعتقاد کا مطلب ایسی دنیا کی تعمیر ہے جو اس اعتقاد کے مطابق ہو۔ توحید پر عقیدہ اور خدا پر اعتقاد، موحد اور مسلمان معاشرے کے نظام حکومت میں بھی، اس معاشرے کی اقتصادی راہ و روش میں بھی اور معاشرے کے ایک ایک فرد کی اخلاقیات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جس معاشرے کے لوگ خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس معاشرے میں توحیدی مکتب فکر کی حکومت ہونا چاہئے۔ یعنی مکتب اسلام، اسلامی شریعت اور اسلامی احکام و قوانین کو لوگوں کی زندگی پر حکمفرما ہونا چاہئے اور معاشرے میں ان احکام کو نافذ کرنے والے کی حیثیت سے وہ سب سے زیادہ لائق اور مناسب ہے جس میں دو بنیادی اور نمایاں صفات پائی جاتی ہوں۔ اول یہ کہ وہ ان احکام کو، شریعت اسلام کو اور فقہ اسلام کو سب سے بہتر جانتا ہو اور احکام الہی اور قوانین اسلام سے پوری طرح واقف ہو۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ تعلیمات و احکام الہی سے واقف یہ شخص اس بات پر قادر ہو کہ خود کو گناہ، عمدی خطاؤں اور عمدی انحراف سے محفوظ رکھ سکے۔ یعنی وہ چیز جس کو اسلامی ثقافت میں عدالت کی صفت کہا جاتا ہے۔
اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد
اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد توحیدی نظریہ کائنات ہے۔ اصول توحید اپنے ظریف اور دقیق معانی کی گہرائیوں کے ساتھ انسان کے آزاد ہونے کا ضامن ہے۔ یعنی جو بھی وحدانیت کا معتقد ہے اور توحید کو قبول کرتا ہے، اسے چاہئے کہ انسان کو آزادی دے۔ تمام پیغمبروں کی پہلی بات یہ تھی کہ خدا کی اطاعت کرو اور طاغوت اوران لوگوں سے جو غیر خدا ہیں اور انسان کو غلام اور اسیر بنانا چاہتے ہیں، ان سے اجتناب کرو۔ ان اعبدواللہ واجتنبو الطاغوت (یعنی اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو) بنابریں اسلامی آزادی توحید پر استوار ہے۔ روح توحید یہ ہے کہ غیر خدا کی بندگی کی نفی ہو۔ اسلام میں آزادی کی بنیاد انسان کے ذاتی شرف اور شخصیت سے عبارت ہے جو کسی بھی غیر خدا کا بندہ نہیں ہوتا اور درحقیقت انسان کی آزادی کی بنیاد توحید اور خدا کی معرفت اور شناخت ہے۔ اسلامی ثقافت میں آزاد انسان کو غیر خدا کی اطاعت کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ غیر خدا کی اطاعت کر سکتا ہے۔
توحید، حقوق میں انسانوں کی برابری
فرمان خدا کا مفہوم، مفہوم کتاب کے علاوہ ہے۔ البتہ فرمان خدا کتاب خدا میں ہے۔ فرمان خدا، وہ ابلاغ ہے جو خدا نے بندوں کو عطا کیا ہے۔ خداوند عالم نے انسانوں کی کلی زندگی کے لئے ایک دستورالعمل دیا ہے۔ یعنی خدا ایک روش کو معین کرتا ہے جس پر انسانوں کو چلنا چاہئے۔ یہ روش کیا ہے؟ یہ روش وہی چیز ہے جس کی پیغمبران خدا شروع سے آخر تک دعوت دیتے رہے ہیں، وہی چیز جو اصول اسلام سے حاصل ہوتی ہے یعنی انسان کا احترام، حقوق فطرت اور احکام وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں کی برابری۔ تاریخ میں یہی تعلیمات ہیں جو تکامل حاصل کرتی ہیں۔ لیکن ایک روش، ایک فرمان (ہے جو خدا نے بندوں کو دیا ہے) اور ایک عہد ہے جو خدا نے اپنے بندوں سے لیا ہے۔ طاغوت کیا کرتے ہیں؟ طاغوت اس روش کو تبدیل کرتے ہیں۔ خدا توحید کی دعوت دیتا ہے یعنی یہ کہ بندے ایک دوسرے کی عبادت نہ کریں، خدا کی عبادت کریں، طاغوت آکر اس روش کو تبدیل کر دیتے ہیں، ایسا کام کرتے ہیں کہ لوگ بندوں کی عبادت کریں۔ بندے ایک دوسرے کی عبادت کریں۔ مثلا خدا لوگوں کو انسانوں کی تکریم اور انسانوں کی عزت کرنے کی دعوت دیتا ہے اور الہی تعلیمات اسی بنیاد پر استوار ہیں لیکن طاغوت، انسانوں کی تحقیر، تذلیل اور انہیں ذلیل و خوار کرنے کی بنیاد پر اپنے منصوبے تیار کرتے ہیں۔ آج مغرب کی مادی ثقافت میں لوگ اپنی زندگی میں مذہب کے خلا کا شدید احساس کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی فطرت سے جس کا عہد خدا متقاضی ہے، دور ہو گئے ہیں اور انہیں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ طاغوتی اور غیراللہ کے ذریعے بنائے گئے نظام انسان کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں کہ انسان خدا کو فراموش کر دے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کا نام اور خدا کے نام کی کوئی حقیقت نہ ہو، خدا کا نام ان کی سماعتوں میں پہنچتا ہے، حتی بعض اوقات بظاہر وہ خدا کے معتقد بھی ہوتے ہیں، لیکن خدا کے حق کو فراموش کر دیتے ہیں۔ یعنی یہ نہیں جانتے کہ معاشرے میں خدا کی جگہ کیا ہے۔
شرط نجات
نجات، وہ فلاح جو پیغمبر سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا لاالہ الا اللہ کہو تاکہ فلاح یعنی نجات پا جاؤ؛ نجات غلط فکر سے، بری باتوں سے، ان وابستگیوں، پابندیوں اور زنجیروں سے جن میں انسان کے ہاتھ، پیر، گردن اور دل جکڑے ہوئے ہیں اور ان تمام چیزوں سے نجات کے بعد، ان ظالم طاقتوں سے نجات جو انسانوں پر ستم کرتی ہیں۔ یعنی اگر کسی قوم کی فکر، ذہن، دل اور عقیدہ کامل ہو جائے لیکن ظالم، ستمگر، استعماری اور استحصال کرنے والی اور کسی ظالم نظام کی استبدادی طاقت اس پر حکومت کر رہی ہو تو اس کی نجات کامل نہیں ہے۔ مکمل نجات، دل، ذہن، طور طریقوں، معاشرے، سیاست اور معنویت کی نجات ہے۔ یہ نجات، دین توحید اور لاالہ الا اللہ کا ہدف ہے۔ موحدین کی بہشت خدا کے صالح بندوں کا سونا، کھانا پینا، بولنا تجارت کرنا، تفریح، لکھنا پڑھنا، سیاسی اور سماجی امور کی انجام دہی اور ان کی زندگی کی گوناگوں سرگرمیاں سب اسی ہدف ( خدا کی طرف آگے بڑھنے ) کے لئے ہیں۔ اس ہدف کی سمت بڑھنے سے انسان کے ارد گرد ایسی بہشت وجود میں آتی ہے جو عالم وجود کی فطری راہ میں انسان کے ارادے اور جذبات و خواہشات کی برابری اور یک رنگی سے تشکیل پاتی ہے۔ اس اسلامی، توحیدی اور معنوی زندگی میں تضاد، تناقض، تصادم اور اختلاف نہیں ہوتا۔ توحیدی نظریہ خود انسان کے باطن میں بھی ایک بہشت وجود میں لاتا ہے۔
سیاسی نظام میں توحید
توحید یعنی انسان کوغیر خدا کی عبودیت نہیں کرنی چاہئے۔ غیر خدا جو بھی ہو چاہے طاغوت ہو یا خدا کے مقابلے میں کوئی اور شئے ہو۔ لہذا ملک کے سیاسی نظام اور پیکر میں، جہاں بھی کسی امر کی اطاعت، خدا کی اطاعت ہو، صحیح ہے اور جہاں بھی غیر خدا کی اطاعت ہو، غلط ہے۔ اسلامی نظام کی بنیاد یہی ہے۔ شرک آلود افکار، یا زیادہ صحیح الفاظ میں، طاغوتی اور شیطانی، طاغوت شیطان کا ہی دوسرا نام ہے، شیطان یعنی برائیاں، بدعنوانیاں اور انحراف پیدا کرنے والی طاقت؛ طاغوت یعنی سرکش، یعنی وہی شر، بدی اور انحراف؛ طاغوتی طاقتیں یعنی طاغوتی تفکر، شیطانی تفکر، ذاتی طرزعمل، دفتری اور تنظیمی روش، سماجی طور طریقوں اور سماجی نظام کی تشکیل کی کیفیت میں اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
وسعت نظر
موحد انسان میں وسعت نظر پیدا ہو جاتی ہے۔ تنگ نظری، کوتاہ بینی اور دور اندیشی سے محرومی جیسی باتوں سے موحد انسان کو نجات مل جاتی ہے ۔ موحد انسان یہ نہیں کہتا کہ مجھے اس میدان میں شکست ہوئی یا میرے محاذ کو اس میدان میں پسپائی نصیب ہوئی اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ وہ جانتا ہے کہ توحیدی نظریہ کی قلمرو، حیات انسان ہے۔ موحد انسان کی نگاہ مادی مسائل اور پست اور حقیر ضرورتوں تک محدود نہیں رہتی۔ موحد انسان جب دیکھتا ہے تو مادی ضرورتوں کے ساتھ ہی انسان کی دسیوں، سیکڑوں عظیم ترین اور باشرف ترین ضرورتیں اس کو نظر آتی ہیں۔ اس کی فکر اور اس کے حواس پست اور حقیر ضرورتوں پر نہیں رکتے۔ موحد انسان اپنے سامنے بے انتہا وسیع مستقبل دیکھتا ہے۔ موحد، دنیا کے خاتمے کا قائل نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ دنیا کو آخرت سے متصل دیکھتا ہے۔ آخرت کو دنیا کا تسلسل سمجھتا ہے، موت کو زندگی کی دیوار نہیں سمجھتا، اس راہ کا اختتام فرض نہیں کرتا، بلکہ وسیع تر دنیا کی طرف جانے کا راستہ اور گزرگاہ سمجھتا ہے۔ یہ توحید کے خواص ہیں۔ غیر موحد انسان کتنا ہی فداکار کیوں نہ ہو، باشرف انسانی نظریات کا کتنا ہی عاشق کیوں نہ ہو، اس کے لئے موت کے ساتھ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے؛ جبکہ موحد انسان کے لئے موت ایک وسیع تر زندگی اور زیادہ دلکش اور اچھی فضا کا سرآغاز ہے۔ کوئی مادہ پرست اگر بہت فداکار ہوا تو وہ خود کو وہاں پھینکنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جو اس کی نظر میں عدم اور نابودی ہے۔ لیکن موحد انسان بہت فداکار نہ ہو، یا اس کے اندر اتنی فداکاری نہ ہو، یا وہ اتنی فداکاری نہ کرنا چاہے تو بھی اس کے لئے وہاں جانا جس کو مادہ پرست نابودی سمجھتا ہے، زیادہ آسان ہے، اس لئے کہ وہ اس جگہ کو عدم اور نابودی نہیں سمجھتا ہے بلکہ اس جگہ کو ایک دوسری جگہ اور فضا سمجھتا ہے جو انسانی زندگی کے اس علاقے سے وسیع تر ہے۔
موحد انسان کے دل سے خوف دور ہو جاتا ہے
کسی انسان پر توحید کا اہم ترین اثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں، اپنے فریضے کی انجام دہی میں اور اس چیز کے راستے میں جس کو وہ اپنا ہدف قرار دیتا ہے، دشمنوں سے نہیں ڈرتا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مومنین سے کہا جاتا ہے کہ فلا تخافوھم و خافون اپنے دل سے دوسروں کا ڈر نکال دو۔ مجھ سے ڈرو اور خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو۔ جو موحد ہوتا ہے اور اپنے پرودگار پر یقین رکھتا ہے، اس کے دل سے ڈر نکل جاتا ہے ۔ یہ ڈر اور خوف ہے جو ڈر اور خوف رکھنے والے کی دنیا و آخرت دونوں چھین لیتا ہے۔ غریب ہو جانے کے ڈر سے انسان دوسروں کی مدد کرنے سے گریز کرتا ہے، پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے ڈر سے انسان جرائم اور برائیوں میں پڑتا ہے اور ذلت و رسوائی قبول کرتا ہے، بے اعتبار زندگی کے ہاتھ سے نکل جانے کے خوف سے انسان زندگیوں کا خاتمہ کرتا ہے، سماجی زندگی کو تلخ بنا دیتا ہے یا ختم کر دیتا ہے۔
طاغوت سے موحدانہ برتاؤ
لشکر اسلام کا ایک ایلچی ساسانی فرمانروا کے محل میں داخل ہوا۔ موٹے اور کھردرے لباس میں ملبوس یہ شخص ایک بڑی سیاسی طاقت کے دربار میں داخل ہوا۔ کیا وہ ڈرا؟ اس کا ذہن پریشان ہوا؟ ہرگز نہیں۔ جب کوئی معمولی اور حقیر انسان کسی عظیم الشان طاقت کے سامنے آتا ہے تو اس کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ خود کو تھوڑا سا اس عظیم طاقت سے متصل کر لے اور ذرا سا اس کے نزدیک آ جائے، چاہے اس کے لئے چرب زبانی، خوشامد اور اظہار خوف و بندگی سے ہی کیوں نہ کام لینا پڑے۔ کیا ایسا ہوا؟ ہرگز نہیں۔ جب وہ آیا تو آگے بڑھا اور تخت کے سامنے پہنچـا اور شاید یزدگرد کے تخت پر اس نے ایک پیر رکھ دیا کیونکہ اس نے دیکھا کہ یزدگرد اس سے خط لینے کے لئے آگے نہیں آیا۔ وہ پیغام لایا تھا دوسرے لوگ آگے آئے کہ اس سے وہ پیغام لیں۔ اس نے کہا تمہیں نہیں دوں گا، خود اس کو دوں گا۔ وہ اپنی جگہ سے اس عرب سے خط لینے کے لئے نہیں اٹھا تو وہ مجبور ہوکے اس کے تخت تک گیا تاکہ خط اس کو دے۔ ایران کے بادشاہ نے پوچھا کیوں آئے ہو؟ کہا لنخرج الناس من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ ومن ضیق الدنیا الی سعۃ الدنیا والآخرۃ اس نے کہا ہم اس لئے آئے ہیں کہ لوگوں کو، خدا کے بندوں کو دنیا کی تنگ اور محدود جگہ سے نکال کے وسیع تر دنیا اور آخرت میں لے جائیں۔ یعنی اے یزدگرد، ہم اس لئے آئے ہیں کہ لوگوں کو، دوسروں کو تیری، تیرے صوبیداروں، تیرے معین کردہ حاکموں اور تیرے سرداروں کی بندگی سے آزادی دلائیں۔
زندگی میں توحیدی فرائض
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر دینی فکر اور اصول پر ایمان، پوری آگاہی و بصیرت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ فہم و شعور اور علم کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اندھی تقلید نہیں ہونی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایمان عہد و پیمان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ جس چیز پر ایمان لانا ضروری ہو وہ ایسی چیز ہونی چاہئے کہ جو انسان کی زندگی میں اس کے عمل میں، چاہے وہ عمل انفرادی ہو یا اجتماعی، چاہے اس کی ذات سے تعلق رکھتا ہو چاہے معاشرے سے متعلق ہو، چاہے انسانیت سے متعلق ہو یا مستقبل کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہو، اس کے کندھوں پر کوئي ذمہ داری اور فریضہ ڈالے اور انسان اپنے دوش پر کسی ذمہ داری کا بوجھ محسوس کرے۔ توحید ایک آگاہی اور علم ہے اور اس علم کے بعد انسان پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ توحید موحد کے کندھوں پر جو ذمہ داری ڈالتی ہے، وہ اسلامی عقائد سے عائد ہونے والی تمام ذمہ داریوں اور فرائض میں سب سے زیادہ سنگین اور موثر ہے۔ پہلا عہد اور فریضہ یہ ہے کہ عبودیت اوراطاعت صرف خدا کے لئے ہے۔ دوسرا فریضہ اور عہد جو توحید کا عقیدہ موحد کے کندھوں پر ڈالتا ہے، وہ یہ ہے کہ توحیدی معاشرہ بغیر طبقے بندی کا معاشرہ ہے۔ یہ ایسا معاشرہ ہے کہ جس میں انسانی دستے حقوق میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ سب کے حقوق مساوی ہوتے ہیں۔ سب ایک ہی راستے میں ، ایک ہی طرح کے وسائل اور سہولتوں کے ساتھ اور زندگی کے ایک ہی طرح کے حقوق کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
توحیدی تفکر کے دفاع کی آمادگی
تاریخ میں حق و باطل کے درمیان ہمیشہ لڑائی اور جنگ رہی ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو آج کے دور سے مخصوص ہو۔ اچھائی اور برائی کے درمیان جنگ، حق و باطل کے درمیان جنگ کا ہی نتیجہ ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے کہ و لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع دنیا میں کچھ انسانوں کو خدا پر توکل سے حاصل ہونے والی قوت اور اس دنیا میں موجود طاقتوں سے کام لیکر، بعض دوسرے لوگوں کو جو دنیا میں برائیاں پھیلاتے ہیں، ہٹانا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر و شر کے درمیان جنگ اور لڑائی تاریخ میں ہمیشہ جاری رہی ہے۔ ادیان و افکار الہی اور دیگر ادیان میں فرق یہ ہے کہ ادیان الہی کی نگاہ میں جنگ ایسا عمل ہے جو صرف خدا کے لئے ہے۔ بغیر سوچا سمجھا عمل نہیں ہے۔ بغیر ہدف کے اور بلامقصد عمل نہیں ہے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اسی وجہ سے رسول خدا کی ، مدینے میں اپنی حکومت کے دور میں ، دس سال میں کفار اور دشمنوں سے شاید تقریبا ستر جنگیں ہوئیں۔ ان دس برسوں میں ایک لمحے کے لئے بھی رسول خدا سکون سے نہ رہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی تمدن و ثقافت تاریخ میں ایک تحریک کے عنوان سے باقی رہی۔ بالکل واضح اور فطری ہے کہ دنیا کی طاغوتی طاقتیں اس بات کی اجازت نہیں دیں گی کہ حق ایک تحریک کے عنوان سے دنیا میں باقی رہے لہذا وہ اس کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں گی۔ اگر توحید و فکر الہی کا، اس گل معطر کا کوئی محافظ نہ رہے تو گلچینوں کے ہاتھ اس تک پہنچ کے اس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے۔ جب انسان نے اس بات پر یقین کر لیا کہ راہ خدا میں مجاہدت اور جنگ کرنا ضروری اور درحقیقت دینی اور خدائی اقدار کا دفاع ہے تو اس کے لئے اس جنگ اور مجاہدت کے مقدمات فراہم کرنا بھی فریضہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات کہ مسلمانوں کو راہ خدا میں جنگ کے لئے خود کو تیار کرنا چاہئے، قرآن میں بھی ہے: واعدوا لھم ما استطعتم دشمن کے مقابلے کے لئے، جتنی تمہارے اندر توانائی ہو اتنی تیاری کرو۔ من قوۃ ومن رباط الخیل تمام ضروری قوتوں اور طاقتوں کو آمادہ اور تیار کرنا چاہئے تاکہ اس وسیلے سے ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم خدا اور اسلامی معاشرے کے دشمن کو اپنی قوتیں اور طاقتیں مجتمع کرکے ڈراؤ اور مرعوب کرو۔
ایٹم لفظ جہاں سائنسی میدان میں انسانی پیشرفت پر دلالت کرتا ہے وہیں بد قسمتی سے تاریخ کے گھناونے ترین سانحے،
پیشرفتہ سائنس اگر کسی با کمال اور اچھی قوم کے پاس ہو تو باعث خیر و برکت ہوتی ہے، جدید اسلحے اگر کسی دانشمند اور بالغ نظر قوم کے پاس ہوں تو بے خطر ہیں۔ (سائنس کی) اس طاقت سے کس نے قوموں کو نقصان پہنچائے ہیں؟ اس سے ایٹم بم بنا دئے گئے۔ جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں امریکیوں نے کیا اور جاپانیوں پر آفت ٹوٹ پڑی یا جیسا کہ سویت یونین کے ایک ایٹمی کارخانے میں رساؤ ہونے سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک اور نابود ہو گیا۔ اگر ایٹم سے کوئی المیہ رونما ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بے لگام بڑی طاقتیں ہیں۔ اگر دنیا میں امریکا کی سامراجی طاقت پر قابو پا لیا جائے تو ایٹمی خطرہ اپنے آپ قابو میں آ جائے گا۔
فن کی حقیقتفن کی قدر و قیمتفن ایک وسیلہ اور ذریعہافکار کی ترویج کا وسیلہفن کی عام خصوصیتفن، خداداد صلاحیت و استعدادفنکار کی ذمہ داریزمانے کے قدم سے قدم ملاکرفرض شناس فنانسانوں کے تعلق سے فرض شناسیفن کے تعلق سے احساس ذمہ داریمضمون کے سلسلے میں ذمہ داریفکر کے تعلق سے فرض شناسیہدف کے تعلق سے احساس ذمہ داریفن اور دیندینی فن کی تعریفدینی فن کی سمت و جہتقرآن، فنکارانہ شاہکارفن و سیاستفن کا سیاسی مقاصت کے لئے غلط استعمالفن سامراج کی خدمت میںفن اور معیشتفن اور معیشتفن کے بارے میں مادی سوچفن اور فنکار کا مقام فن کی حقیقتفن در حقیقت وہ کسی بھی قسم کا فن ہو، تحفہ الہی ہے۔ اگرچہ فن کے اظہار کی کیفیت فن کے سامنے آنے کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن یہی فن کی پوری حقیقت نہیں ہے۔ اظہار سے قبل فن کا احساس و ادراک وجود میں آتا ہے اور وہی اصلی نکتہ ہے۔ جب ایک ظرافت، ایک حقیقت اور ایک خوبصورتی کا ادراک کر لیا گيا تب فنکار بال سے بھی زیادہ باریک ان ہزاروں فنکارانہ نکات کے ذریعے کہ غیر فنکار انسان کے لئے جن میں سے ایک نکتے کا بھی ادراک ممکن نہیں ہے، اپنے فنکارانہ مزاج کے سہارے اور اپنے باطن میں جلوہ افروز شمع فن کی روشنی میں بعض ظرافتوں، باریکیوں اور حقائق کو منظر عام پر لاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں حقیقی فن کہ جو ایک ادراک، واردات قلبی، ایک انعکاس اور ایک اظہار ہے۔ ٹاپ فن کی قدر و قیمتفن کی قدر و منزلت پر سب سے پہلے اہل فن حضرات کی توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ اپنے وجود میں سمائے ہوئے اس بیش بہا خزینے کی قدر و قیمت پر توجہ دیں اور اس کا احترام کریں۔ احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسے صحیح اور شایان شان جگہ پر استعمال کریں۔ امام زین العابدین علیہ السلام ایک حدیث میں (انسانوں کو مخاطب کرکے) فرماتے ہیں کہ تمہارا انسانی وجود بیش بہا ترین چیز ہے۔ اس جنت کے سوا جس کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے کچھ اور تمہاری زندگی کا مناسب اجر اور بدلہ نہیں ہو سکتا۔ اسے بہشت پروردگار کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے نہ دو۔ فن اسی انسانی زندگی اور روح کا با ارزش ترین اور قابل فخر ترین پہلو ہے۔ اس کی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے اور اسے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے بروئے کار لانا چاہئے۔ اللہ کے لئے بروئے کار لانے کی بات سن کر ذہن ریاکاری کی جانب نہیں جانا چاہئے۔ ٹاپ فن ایک وسیلہ اور ذریعہآج دنیا میں جن لوگوں کے پاس اپنا کوئی پیغام ہے، خواہ وہ رحمانی پیغام ہو یا شیطانی پیغام، وہ (اپنے اس پیغام کو عام کرنے کے لئے) سب سے موثر ذریعہ جو اپناتے ہیں وہ فن کا ذریعہ اور راستہ ہے۔ دیگر فکری وسائل کے استعمال کی طرح فن کے استعمال میں بھی جو چیز سب سے اہم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ موقف اور رخ بالکل واضح، صحیح اور باریک بینی پر مبنی ہو، سمت و جہت کے تعین میں کوئی غلطی نہ ہونے پائے۔ آج دنیا میں فن کی مدد سے ناحق ترین باتوں کو عوام الناس کے ایک بڑے طبقے کے اذہان میں حق بات بنا کر اتار دیا جاتا ہے جو فن کے بغیر ممکن نہیں ہوتا، لیکن فن کی مدد سے اور فنکارانہ وسائل کے استعمال سے یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔ یہی سنیما ایک فنکارانہ ذریعہ ہے، یہ ٹیلی ویژن ایک فنکارانہ ذریعہ ہے۔ ایک باطل اور ناحق پیغام کو لوگوں کے ذہنوں میں حق بات کی حیثیت سے اتارنے کے لئے فن و ہنر کی گوناگوں روشوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ تو معلوم یہ ہوا کہ فن ایک ذریعہ ہے ایک بڑا با ارزش ذریعہ۔ یہ ہے تو ذریعہ اور وسیلہ لیکن بسا اوقات اس کی اہمیت ان چیزوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے جن کی منتقلی کا یہ ذریعہ ہے کیونکہ اس کے بغیر منتقلی کا یہ عمل انجام نہیں پا سکتا۔ ٹاپ افکار کی ترویج کا وسیلہفن کی زبان میں وہ تاثیر ہے جو کسی اور زبان میں ممکن نہیں ہے۔ نہ علم کی زبان میں، نہ معمولی زبان میں اور نہ وعظ و نصیحت کی زبان میں۔ کسی میں بھی فن کی زبان والی تاثیر نہیں ہے۔ فن کو خاص اہمیت دینا چاہئے، اسے روز بروز ارتقائی منزلوں پر پہنچانا چاہئے اور فن کی سب سے قابل فخر شکل کا انتخاب کرنا چاہئے۔ فن کا استعمال نہ کیا جائے تو کسی کے بھی ذہن میں آپ کی معمولی سی بات بھی اپنا مقام حاصل نہیں کر پائے گی۔ اس میں جذابیت اور کشش پیدا ہونا اور اس کا دائمی اور پائیدار ہو جانا تو خیر دور کی بات ہے۔ کسی بھی درست یا غلط نظرئے کی ترویج کا بہت اہم ذریعہ فن ہے۔ فن بہت اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے، بے حد اہم۔ فن اور اس کے ارتقاء کی بابت کبھی بھی کوئی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ فن کو گناہ اور انحراف اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کے مترادف نہیں سمجھنا چاہئے۔ فن تو خالق کی نمایاں ترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ یہ پروردگار کی بیش بہا صناعی کا ایک نمونہ ہے جس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام کاموں میں، حتی معمولی سی تبلیغ میں بھی آپ کو فن کا استعمال کرنا چاہئے۔ ٹاپ فن کی عام خصوصیتفن کی ایک عام خصوصیت یہ ہے کہ اس کا سہارا لینے والا شخص بہت سی چیزوں کی جانب ممکن ہے متوجہ نہ ہو اور مخاطب شخص بھی ہو سکتا ہے کہ بہت سے امور سے غافل ہو لیکن فن اس کے باوجود اپنا اثر مرتب کر دیتا ہے۔ شعر، مصوری، خوش الحانی اور فن کی دیگر اقسام مخاطب کے ذہن پر لا شعوری طور پر اثر ڈالتی ہیں، یعنی مخاطب شخص کو احساس بھی نہیں ہو پاتا اور فن اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ یہ بہترین تاثیر اور اثر انداز ہونے کا بہترین طریقہ ہے۔ اللہ تعالی نے اعلی و ارفع ترین مفاہیم کو بیان کرنا چاہا تو فصیح ترین طرز بیان یعنی قرآن کا انتخاب فرمایا۔ یہ ممکن تھا کہ اللہ تعالی دوسری معمولی باتوں کی طرح اسلامی تعلیمات کو بھی عام طرز بیان کے ذریعے پیش کر دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اللہ تعالی نے فصیح ترین اور پرکشش ترین پیرائے میں اسے قرار دیا۔ خود قرآن کہتا ہے کہ تم اس کے الفاظ جیسے الفاظ اور اس کی فنکارانہ ترکیب جیسی ترکیب نہیں لا سکتے اور اس کے مفاہیم کا تو خیر کہنا ہی کیا۔ٹاپ فن، خداداد صلاحیت و استعدادفن کوئی ایسی دولت نہیں ہے جو مشقتوں کے ذریعے اور پسینہ بہا کر حاصل کر لی جائے۔ اگر انسان کے اندر فنکارانہ استعداد نہ ہو تو وہ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے اس وادی میں ابتدائی چند قدم سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ یہ فنکارانہ استعداد فنکار کی محنت و مشقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خداداد شئے ہے۔ اللہ تعالی تمام نعمتیں انسانوں کو عطا کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا وسیلہ معاشرہ، ماں باپ، ماحول یا دیگر چیزیں ہوں۔ فنکار محنت کرتا ہے تاہم اس محنت اور بلند حوصلے کی نعمت بھی اسے اللہ تعالی سے ہی ملتی ہے۔ فنکار کو چاہئے کہ اپنے وجود کے اندر فن کے ارتقائی عمل کو جاری رکھے۔ ہر فنکار اپنے اندر ایک دنیا چھپائے ہوتا ہے اور یہ اس فن کی خصوصیت ہے جو اس کے وجود میں بسا ہوا ہے۔ اگر انسان کو فنکاروں کے دلوں کے اندر جھانکنے کا موقع ملے تو انہیں بڑی حیرت انگیز اور پر کشش وادی وہاں نظر آئے گی، غموں اور خوشیوں کا امتزاج اور تمناؤں، تشویشوں اور امنگوں کا آمیزہ۔ فن بڑا قیمتی گوہر ہے اور اس کی قیمت و ارزش کی وجہ یہ نہیں کہ دلوں اور نگاہوں کو جذب کر لیتا ہے کیونکہ بہت سی چیزیں ہیں جن کا فن سے تعلق نہیں ہے لیکن ان میں بھی نگاہوں اور دلوں کو جذب کر لینے کی خصوصیت ہوتی ہے، اس کی وجہ ہے فن کا عطیہ پروردگار اور موہبت الہی ہونا۔ ٹاپ فنکار کی ذمہ داریفن ایک بڑی قابل افتخار حقیقت کا نام ہے تو ظاہر ہے کہ اگر کسی کو دیگر ثروتوں کی مانند یہ دولت اللہ تعالی کی جانب سے عطا کر دی جائے تو اسے اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کا بھی احساس ہونا چاہئے۔ اللہ کی عطیات کے ہمراہ کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں ضروری نہیں کہ سب کی سب دینی اور شرعی باتیں ہوں، ان میں ایسی ذمہ داریاں بھی ہیں جن کا سرچشمہ خود انسان کا دل ہوتا ہے۔ انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں اور یہ ایسی نعمت ہے جو بعض افراد کو نہیں ملی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آنکھیں جہاں انسان کے لئے لذتیں اور آسانیاں فراہم کرتی ہیں وہیں انسان کے دوش پر کچھ فرائض بھی عائد کر دیتی ہیں۔ چو می بینی کہ نابینا و چاہ است یہ فریضہ ان آنکھوں کی وجہ سے ہے جو انسان کو دی گئی ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دین انسان کو حکم دے اور اس کے بارے میں لازمی طور پر قرآن کی کوئی آیت نازل ہو۔ اس چیز کا ادراک قلب انسانی خود ہی کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہوگا جو ایسے دولتمند انسان کی ملامت نہ کرے جو حاجتمندوں کی مدد نہ کرتا ہو بلکہ ان کا مذاق اڑاتا ہو۔ ممکن ہے کہ وہ دولت مند انسان یہ کہے کہ میں نے اپنی محنت سے یہ دولت کمائی ہے اور اس پر میرا حق ہے لیکن اس کی یہ بات قبول نہیں کی جاتی۔ یعنی جب بھی دولت، عطیہ اور کوئی الہی انعام ملتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ فرائض بھی عائد ہو جاتے ہیںـ ٹاپ زمانے کے قدم سے قدم ملاکرمجھے فلموں اور ڈراموں کے بارے میں معلومات نہیں ہے لیکن جہاں تک شعر اور ناول کا سوال ہے تو میں اس سے بے بہرہ نہیں ہوں۔ جو تصنیفات موجود ہیں ان میں سے میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ اگر آپ سویت یونین کے دور کے ادب پر نظر ڈالیں تو آپ کو اچانک محسوس ہوگا کہ بیچ میں ایک پردہ ہے، ایک حصار موجود ہے اور اس حصار کے دونوں طرف بڑے عظیم شاہکار موجود ہیں جن کا تعلق دونوں اطراف سے ہے۔ لیکن جب آپ شولوخف یا الیکسی ٹولسٹائے کی تصنیفات کو دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کا مذاق کچھ اور ہے۔ الیکسی ٹولسٹائے بہت بڑے قلمکار ہیں جنہوں نے بڑے اچھے ناول تخلیق کئے ہیں۔ وہ سویت یونین کے انقلاب کے مصنفین میں سے ہیں اور ان کی تصنیفات میں نئے دور کی جھلکیاں آپ کو ملیں گی۔ جبکہ لیو ٹالسٹائے کی کتاب میں آپ کو روسی قوم پرستی نظر آئے گی تاہم گزشتہ ساٹھ سالہ دور کی چیزیں آپ کو کہیں نظر نہیں آئيں گی۔ وہ کوئی الگ ہی دور ہے اور بنیادی طور پر اس کا تعلق کسی اور جگہ سے ہے۔ روس کی موجودہ ماہیت کو جو چیز منعکس کر سکے وہ کیا ہے؟ شولوخف اور الیکسی ٹولسٹائے جیسے مصنفین کی تصنیفات ہی میں آپ یہ چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ بنابریں ہر دور کا فنکار وہی ہے جس کا تعلق اس دور سے ہو اور جو اسی دور میں پلا بڑھا ہوا، اسی دور کا نتیجہ و ثمرہ ہو۔ جو افراد قدیم اور گزشتہ ادوار کی یاد میں قلم فرسائی کرتے ہیں ظاہر ہے ان کا تعلق ان ادوار سے تو نہیں ہے۔ میں اس سلسلے میں ایک مکمل نمونہ پیش کرنے کے لئے بہتر ہوگا کہ کسی ایک ناول کا نام بھی لوں۔ میں نے دل سگ نام کا ایک ناول پڑھا جو روسی مصنف کی تخلیق تھی۔ یہ ناول ایک تخیلی اور سائنسی داستان پر مبنی ہے لیکن یہ عصر حاضر کا فن نہیں ہے۔ یہ گزشتہ دور کی نقل ہے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ناولوں کی کاپی نہیں ہے لیکن بہرحال اکتوبر کے انقلاب سے پہلے کے دور کی نقل ضرور ہے۔ یہ موجودہ دور کا فن نہیں ہے۔ یہ بڑا چھوٹا سا ناول ہے لیکن بہت ماہرانہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ ایران میں بھی اس کا ترجمہ ہوا اور اشاعت بھی ہو چکی ہے ۔ دل سگ ناول انقلاب مخالف ناول ہے جو انیس سو پچیس یا انیس سو چھبیس میں یعنی روس میں آنے والے انقلاب کے اوائل میں لکھا گيا اور ناول نگار نے انقلاب اور کچھ کاموں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا ہے۔ مثلا یہی کام جن کی مثالیں ہم نے یہاں بھی دیکھی تھیں۔ یہ ناول روسی ادب کا جز ہرگز نہیں ہے۔ یہ ناول عالمی سطح پر شہرت پا سکتا تھا، یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سخت پہرا تھا اور اسٹالن کا دور تھا، ایسا بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ عالمی سطح پر نہیں آ سکا۔ کیوں عالمی سطح پر ایک شاہکار کی حیثیت سے اس کی پہچان قائم نہیں ہو سکی۔ جبکہ (میخائل شولوخف کے ناول) دن آرام کو دنیا میں بہت نمایاں مقام حاصل ہوا۔ صرف روس کی بات نہیں ہے، اس کا ترجمہ دنیا کی اہم زبانوں میں کیا گيا ہے، یہ (روس کے) انقلاب سے متعلق ادبی شاہکار ہے۔ ٹاپ فرض شناس فنانسانوں کے تعلق سے فرض شناسیبعض لوگ کہتے ہیں کہ فرض شناس فن کی ترکیب کے دونوں الفاظ میں باہم تضاد پایا جاتا ہے۔ فن یعنی وہ چیز جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ہو جبکہ فرض شناسی یعنی زنجیر۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہیں؟ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کے مسئلے کا تعلق فنکار سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس کے انسان ہونے سے ہے جو وہ فنکار بننے سے پہلے بھی تھا۔ کوئي بھی فنکار بہرحال ایک فنکار بننے سے قبل انسان ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان کی کوئي ذمہ داری سرے سے ہو ہی نہ۔ انسان کی سب سے پہلے دوسرے انسانوں کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جبکہ بعد کے مراحل میں زمین و آسمان اور قدرت کے سلسلے میں بھی اس کے فرائض ہوتے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری انسانوں کے تعلق سے ہوتی ہے۔ ٹاپفن کے تعلق سے احساس ذمہ داریفن کے پیرائے اور قالب کے سلسلے میں بھی اور اس کے مضمون کے سلسلے میں بھی فنکار کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ہے اسے نچلی سطح پر کبھی بھی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ فرض شناسی کا تقاضا ہے۔ محنت سے بھاگنے والا سست فنکار وہ فنکار جو اپنے فن کے ارتقاء کے لئے اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے سعی و کوشش نہیں کرتا وہ در حقیقت اپنے فن کے قالب و پیرائے کے سلسلے میں اپنی فنکارانہ ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ فنکار کو ہمیشہ محنت کرنی چاہئے۔ البتہ ممکن ہے کہ انسان اس مقام پر پہنچ جائے کہ اب اور آگے جانے کی گنجائش ہی باقی نہ ہو، اگر ایسی صورت ہو تو پھر کوئی بات نہیں ہے لیکن جب تک اگے بڑھنا ممکن ہے اسے چاہئے کہ اپنے فن کے پیرائے کے ارتقاء کے لئے محنت کرے۔ فن کے پیرائے کے سلسلے میں یہ فرض شناسی جوش و جذبے اور احساس ذمہ داری کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ ویسے یہ جوش و جذبہ بھی ایک طرح کی ذمہ داری ہی ہے، یہ ایک قوی عامل ہے جو انسان کو محنت کے لئے آمادہ کرتا ہے، اس کے اندر سستی اور راحت طلبی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ ٹاپمضمون کے سلسلے میں ذمہ داریاگر انسان محترم اور معزز ہے تو اس کا دل و ذہن اور فکر و نظر بھی معزز اور محترم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مخاطب کے سامنے کوئی بھی چیز پیش کر دی جائے صرف اس وجہ سے کہ وہ شخص سامنے بیٹھا فن کار کی باتیں سن رہا ہے۔ اس بات پر توجہ ہونا ضروری ہے کہ فنکار اپنے مخاطب کو کیا دینے جا رہا ہے۔ بر محل کلام، اخلاق اور فضائل کا جز ہے۔ میں نے غالبا رومن رولینڈ (فرانسیسی مصنف 26 جنوری 1866- 30 دسمبر 1944) کا یہ جملہ پڑھا ہے کہ فنکارانہ تخلیق میں ایک فیصد فن اور ننانوے فیصد اخلاق ہوتا ہے یا احتیاط کے طور پر یہ کہنا چاہئے کہ اس میں دس فیصدی فن اور نوے فیصدی اخلاق ہوتا ہے۔ مجھے لگا کہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ سو فیصدی فن اور سو فیصدی اخلاق۔ ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ فنکارانہ شاہکار کو سو فیصدی فنکارانہ خلاقیت کے ذریعے انجام دینا چاہئے اور اسے سو فیصدی اعلی، با فضیلت اور مایہ پیشرفت مضمون سے پر کر دینا چاہئے۔ فن کے میدان میں ہمدرد انسانوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ فکر اور تشویش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فنکار فن اور تخیل کی آزادی کے بہانے اخلاقیات کی حدود کو نظر انداز نہ کر دے۔ یہ بے حد اہم چیز ہے۔ بنابریں فرض شناس فن کی ترکیب بالکل درست اور صحیح ہے۔ ٹاپ فکر کے تعلق سے فرض شناسیفنکار کو چاہئے کہ خود کو ایک حقیقت کا پابند سمجھے۔ یہ بات کہ فنکار فکر و نظر کی کس سطح پر ہے اور وہ حقیقت کو کامل طور پر یا محدود سطح پر سمجھ سکتا ہے، ایک الگ بات ہے، البتہ ادراک اور فہم و فراست کی سطح جتنی اونچی ہوگی فنکار اپنے فنکارانہ ادراک کی ظرافت میں اتنی ہی کشش پیدا کر سکتا ہے۔ حافظ ( ساتویں صدی ہجری کے عدیم المثال ایرانی شاعر) صرف ایک فنکار نہیں تھے۔ ان کی باتوں میں بڑی اعلی تعلیمات اور معارف بھی موجود ہیں۔ یہی نہیں ان کے پاس ایک بڑا فلسفیانہ اور فکری ذخیرہ موجود ہے۔ فنکارانہ ادراک اور پھر اس کے انعکاس کے عمل کے پیچھے اعلی افکار کا سرچشمہ اور ذخیرہ ہونا چاہئے۔ البتہ سارے لوگ اس سلسلے میں ایک جیسے نہیں ہیں، اور اس کی توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ چیز فن کے تمام شعبوں پر صادق آتی ہے۔ آپ معماری سے لیکر مصوری، ڈیزائننگ، مجسمہ سازی، فلم، ڈرامے، شعر، موسیقی اور فن کے دیگر میدانوں تک دیکھئے یہی صورت حال ہر جگہ نظر آئے گی۔ آپ کو ایسا بھی معمار نظر آ جائے گا جس کے پاس اپنی ایک فکر ہے جبکہ ایسا معمار بھی ہو سکتا ہے جو فکر و نظر کے لحاظ سے ممکن ہے کہ خالی الذہن ہو اس پاس کوئی فکری سرمایہ نہ ہو۔ یہ دونوں اگر تعمیراتی کام کرنا چاہیں تو دو طرح کی ڈیزائنیں بنیں گی۔ اگر اس طرح کے دو لوگوں کو ایک شہر آباد کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جائے تو اس کا ایک نصف حصہ دوسرے نصف حصے سے مکمل طور پر الگ ہوگا۔ ٹاپ ہدف کے تعلق سے احساس ذمہ داریفرض شناس اور اصولوں کا پابند فن ایک حقیقت ہے جس کا اقرار کرنا چاہئے۔ تو ہر روز بدلنے والی ذہنیت، پست اور غلط سوچ کے ساتھ یا غفلت کے عالم میں فن کی جانب نہیں بڑھا جا سکتا اور اس میدان میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ جو مسرت و نشاط فن کار کے اندر ہونی چاہئے وہ اسی صورت میں حقیقی معنی میں پیدا ہوگی جب فنکار کو بخوبی علم و ادراک ہو جائے کہ وہ کس سمت میں بڑھ رہا ہے ، کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ہی اس میں اپنے فن کے تعلق سے خاص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے اور وہ فنکارانہ کام انجام دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فنکار کے اندر مخصوص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے جس کا عام خوشیوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اور یہ چیز غیر فنکار شخص میں ہرگز پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اخلاقیات، دینی معارف اور فضائل پر پوری توجہ دی جائے۔ ٹاپفن اور دیندینی فن کی تعریفدینی فن سے مراد وہ فن ہے جو دینی تعلیمات کو مجسم کر دے اور بلا شبہ ادیان الہی میں دین اسلام اعلی ترین تعلیمات اور معارف کا حامل دین ہے۔ یہ تعلیمات وہی چیزیں ہیں جو انسان کی سعادت و خوشبختی، انسان کے معنوی و روحانی حقوق، انسان کی سربلندی، بندے کے تقوا و پرہیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و مساوات کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ دینی فن کو رجعت پسندانہ فن نہیں سمجھنا چاہئے۔ دینی فن سے مراد، ریاکاری اور دکھاوا ہرگز نہیں ہے اور یہ فن ضروری نہیں ہے کہ دینی الفاظ پر ہی مبنی ہو۔ عین ممکن ہے کہ ایک فن سو فیصدی دینی فن ہو لیکن اس میں عرف عام میں رائج اور دینی الفاظ سے ہٹ کر کلمات کا استعمال کیا گيا ہو۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ دینی فن لازمی طور پر وہی ہے جس میں کوئی دینی داستان منعکس کی گئی ہو یا علماء اور دینی طلبا جیسے کسی دینی موضوع پر بات کی گئی ہو۔ دینی فن وہ ہے جو ان تعلیمات کی ترویج میں، جنہیں تمام ادیان بالخصوص دین اسلام نے انسانوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کی ہے اور جن کی ترویج کی راہ میں بڑی پاکیزہ جانیں قربان کی گئی ہیں، مددگار بنے، انہیں دوام بخشے اور لوگوں کے ذہنوں میں اتار دے۔ یہ تعلیمات اعلی دینی تعلیمات ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانی زندگی میں عام کرنے کے لئے اللہ تعالی کے پیغمبروں نے بڑی مشقتیں کی ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم یہاں بیٹھ کر دنیا کے منتخب انسانوں یعنی پیغمبروں اور مجاہدین راہ خدا کی مساعی اور جانفشانی پر سوالیہ نشان لگائیں اور ان کے سلسلے میں لا تعلق بن جائیں۔ دینی فن ان تعلیمات کو عام کرتا ہے، دینی فن عدل و انصاف کو معاشرے میں اقدار کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ خواہ آپ نے اپنے اس فن میں کہیں بھی دین کا نام بھی نہ لیا ہو اور عدل و انصاف کے سلسلے میں کوئی حدیث اور کوئی آیت نقل نہ کی ہو۔ ضروری نہیں ہے کہ فلم یا ڈرامے کے ڈائيلاگ میں دین یا دین کے مظہر کا درجہ رکھنے والی چیزوں کا نام لیا جائے تبھی اس میں دینی رنگ پیدا ہوگا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، آپ ممکن ہے کہ اداکاری کے ذریعے عدل و انصاف کی بات موثر ترین انداز میں پیش کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو در حقیقت دینی فن پر آپ نے توجہ دی ہے۔ ٹاپ دینی فن کی سمت و جہتبعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ فن سے مراد ہے بے دینی اور لاابالی پن، یہ غلط ہے۔ دینی فن میں جس چیز پر پوری گہرائی کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن شہوت پرستی، تشدد اور انسان اور معاشرے کے تشخص کی تباہی پر منتج نہ ہو۔ فن انسان کے اندر خالق یکتا کی صناعی کا ایک پر کشش جلوہ ہے۔ فن کے سلسلے میں قابل اعتراض بات جس پر ہمیشہ اہل بصیرت نے روک لگائی ہے، اس کا غلط سمت میں جانا ہے۔ فن کو اگر انسانوں کو بہکانے اور غیر اخلاقی حرکتوں میں مبتلا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو بری بات ہے۔ ورنہ اگر فن دینی جذبے کے ساتھ اور دینی سمت میں آگے بڑھے تو یہ وجود انسانی کی نمایاں ترین خوبیوں اور خصوصیتوں میں قرار پائے گاـ ٹاپ قرآن، فنکارانہ شاہکارپیغمبر اسلام نے اپنے پیغام کو پیش کرنے کے لئے تمام وسائل حتی فن کو استعمال کیا۔ وہ بھی اس کے بلند ترین اور افتخار آمیز پیرائے یعنی قرآن کی شکل میں۔ قرآن کی کامیابی کا ایک بڑا راز اس کا فنکارانہ انداز ہے۔ قرآن فن کی بلند ترین منزل پر فائز ہے، بالکل غیر معمولی درجے پر۔ واقعی قرآن میں بڑا عجیب فن موجود ہے جو انسان کے لئے قابل تصور نہیں ہے۔ اگر انسان قرآن کو شروع سے آخر تک اور اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کو بغور دیکھے تو محسوس کرے گا کہ اس میں شرک و بت و شیطان کی دشمنی اور وحدانیت موجزن ہے۔ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھتے اور فن کی زبان استعمال نہ کرتے تو ممکن تھا کہ کچھ لوگ آپ کے گرویدہ بن جاتے لیکن وہ بجلی اور وہ طوفان ہرگز وجود میں نہ آ پاتا۔ یہ کام فن نے کیا۔ فنکارانہ تخلیقات ایسی ہوتی ہیں۔ ٹاپ فن و سیاستفن کا سیاسی مقاصت کے لئے غلط استعمالآج کے دور میں سیاست فن کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ایسا نہیں ہے تو بلا شبہ ہم حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں۔ آج ہی استعمال نہیں کر رہی ہے، سیاست ماضی میں بھی اسے استعمال کرتی آئی ہے۔ اس سے قبل اٹھائیس مرداد (سن تیرہ سو بتیس ہجری شمسی مطابق انیس اگست انیس سو ترپن عیسوی میں ایران کی ڈاکٹر مصدق کی منتخب قانونی حکومت کے خلاف) ہونے والی بغاوت کے سلسلے میں امریکا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کی جانے والی دستاویزات کا ترجمہ کرکے مجھے دیا گيا۔ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو میری عمر بہت کم تھی، چودہ پندرہ سال کا تھا میں اور بہت کم ہی باتیں مجھے یاد ہیں لیکن لوگوں سے میں نے بہت سنا اور تحریروں میں پڑھا تھا تاہم اتنی تفصیل کہیں اور نہیں دیکھنے کو ملی تھی۔ یہ دستاویز خود ان افراد نے جو اس واقعے میں ملوث تھے تیار کی اور امریکی وزارت خارجہ اور سی آئی اے کو بھیجی تھی۔ یہ دستاویزات امریکیوں کی تھیں۔ ویسے پورا آپریشن امریکا اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر انجام دیا جسے اس رپورٹ میں مکمل طور پر بیان بھی کیا گیا ہے۔ اس کی جو بات میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیم روزولٹ کہتا ہے کہ جب ہم تہران آئے تو ہمارے پاس مقالوں کا ایک صندوق تھا۔ ان مقالوں کو ترجمہ کرکے اخبارات میں شائع کروانا تھا۔ ہم اپنے ساتھ کارٹون بھی لائے تھے۔ آپ ذرا غور تو کیجئے کہ امریکی (خفیہ ایجنسی) سی آئی اے نے اس حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے، جو امریکیوں کو پسند نہیں تھی اور جو ان کے مفادات کی تکمیل کے لئے آمادہ نہیں تھی، ایسی حکومت تھی جو عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اور پہلوی دور کی دیگر حکومتوں کے بر خلاف یہ حکومت قوم پرست تھی جو عوام کے ووٹوں سے قانونی طور پر تشکیل پائی تھی، ( سی آئی اے) نے اس بہانے کہ کہیں یہ حکومت سویت یونین کی گود میں نہ چلی جائے اس کے خلاف تمام حربوں منجملہ فن کا استعمال کیا۔ البتہ اس زمانے میں ایسے کارٹونسٹ نہیں تھے جن سے ان کا کام نکلتا اور جن پر وہ (امریکی) اعتماد کر سکتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ کارٹون بھی لیکر آئے تھے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے سی آئی اے کے شعبہ فن سے ان چیزوں کو تیار کرنے کی درخواست کی۔ اطالویوں نے بھی چند سال قبل ایک کتاب شائع کی جس کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔ اس میں بھی سی آئی اے کے شعبہ فن اور اس کی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا گيا ہے۔ سیاست اس طرح فن سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ٹاپ فن سامراج کی خدمت میںافسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے دشمن، ایران کے دشمن ، ہمارے عز و شرف کے دشمن فن کا غلط استعمال کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ شعر، مصوری، افسانے، فلم، ڈرامے اور فن کی دیگر قسموں کو حقائق کو مٹانے، فضائل کو نابود کرنے، روحانی و اسلامی صفات کو ختم کرنے، مادہ پرستی اور مادی عیش و عشرت کی جانب دھکیلنے کے لئے استعمال کیا گيا۔ فلم ایک بیحد پیشرفتہ اور ماڈرن فن ہے۔ آج دنیا کے سب سے نمایاں اور با استعداد فنکار ہالیوڈ میں موجود ہیں۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ ہالیوڈ کس چیز کی خدمت کر رہا ہے، کس انسان کی خدمت کر رہا ہے، کس فکر و نظر کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ فحاشی کی ترویج، بے ہدف زندگی کی ترویج، شناخت اور تشخص سے دوری کی ترویج، تشدد کی ترویج اور قوموں کو ایک دوسرے سے الجھانے کے لئے اس کا استعمال ہو رہا ہے تاکہ متمول طبقہ بے فکری کی زندگی بسر کر سکے۔ یہ عظیم فلمی صنعت، جس میں درجنوں فلم ساز کمپنیاں، فنکار، ہدایت کار، اداکار، افسانہ نگار، فلمی دنیا کے قلم کار اور سرمایہ کار جمع ہیں، کچھ مخصوص اہداف کی خدمت کی سمت بڑھ رہی ہے۔ وہ ہدف ہے سامراجی سیاست کا ہدف۔ یہی سیاست امریکی حکومت کو چلا رہی ہے۔ یہ چھوٹی باتیں نہیں ہیں۔ کہتے تو بہت ہیں کہ فن کو سیاست اور سیاسی موقف سے آزاد رکھا جانا چاہئے لیکن خود ان کا عمل اور کردار اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا کی سامراجی طاقتوں نے، فن، فلم، شعر، تصنیف، دماغی صلاحیت، استدلال اور فلسفے کو سامراجی اہداف کی تکمیل اور لوٹ مار کے لئے مختص کر دیا ہے۔ یہی چیز جو آج دنیا میں سرمایہ داری کا مظہر ہے اس کی فوجی طاقت امریکا ہے، اس کی اقتصادی طاقت امریکی حکومت کی پشت پر کھڑی کمپنیاں ہیں۔ وہ لوگوں کے سامنے آئیڈیل رکھنے کے لئے تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہیں جبکہ قومیں خالی ہاتھ ہیں ان کے پاس اپنے آئیڈیل نہیں ہیں جنہیں وہ مقابلے پر لا سکیں اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ ٹاپ فن اور معیشتفن اور معیشتمعیار زندگی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو خود فنکاروں کی زندگی کوئی بہت اچھی نہیں ہے جبکہ بہت سے مواقع پر ان کی زندگی اطمینان بخش حالت میں بھی نہیں ہے۔ جو لوگ شعبہ فن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اگر وہ بعض چیزوں کے پابند ہوں تو مالی منفعت حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد کی مدد کرنا ضروری ہے۔ اگر ان کی مدد نہ کی گئي تو وہ ہر اس چیز کا رخ کریں گے جس سے کمائی کی جا سکتی ہو جو ان کے اخراجات پورے کرے۔ یہ چیز ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ فلمی دنیا میں شہوت پرستی، جنسیات اور ان جیسی دیگر باتوں کے آ جانے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ فنکار کو نوجوانوں کے دلوں اور ذہنوں میں ایسی چیز نہیں اتارنی چاہئے جو اسے گناہ اور بد عنوانی کی سمت لے جائے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کسی موضوع میں فکر و نظر کو انتخاب کے لئے آزاد چھوڑ دینا کہا جاتا ہے۔ جذباتی مسائل میں کسی کو انتخاب کا موقع کہاں ملتا ہے۔ ان میں تو انسان انتخاب کی طاقت ہاتھ سے دیکر کسی ایک سمت میں کھنچا چلا جاتا ہے۔ حالات ایسے ہونے چاہئے کہ فنکار بغیر کسی اجبار و اکراہ کے خریدار تلاش کرنے کی مجبوری کے بغیر اپنے فن کو پیش کرے تاکہ فن اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔ ٹاپ فن کے بارے میں مادی سوچدنیا میں معنوی و روحانی دولت اور سرمائے کے سلسلے میں مادی سوچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روحانی و معنوی دولت کو اس معیار پر تولا جاتا ہے کہ اس سے کتنی رقم حاصل ہوگی۔ یہ فن اور یہ علم کس حد تک پیسے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسلام میں یہ معیار نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ علم و فن اور دیگر معنوی ثروتوں سے پیسہ کمانے میں کوئی مضائقہ ہو۔ نہیں، علم تو زندگی میں رفاہ لانے کا ذریعہ ہے، اس میں کوئي حرج نیں ہے لیکن اس سے قطع نظر خود یہ معنوی دولت بھی اسلام کے نقطہ نگا سے اپنے آپ میں بہت قیمتی شئے ہے۔ یعنی یہ فنکار خواہ اس کے فن کو کوئی نہ پہچانتا ہو اور اس کے فن سے کسی کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہے لیکن پھر بھی اس فن کا موجود ہونا ہی اپنے آپ میں اسلامی اور روحانی نقطہ نگاہ سے بہت با ارزش بات ہے۔ ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں وسائل کی کمی اور تجربے کے فقدان کی وجہ سے علم، تحقیق، فن یا اسی جیسے دیگر معنوی سرمائے کی مادی قیمت نہ دی جا سکے، خود ہمارے معاشرے میں یقینا یہ صورت حال ہے اور دنیا کے بہت سے علاقوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے لیکن یہ اس بات کا باعث نہ بننے پائے کہ علم و فن کے ابلتے چشمے رک جائيں۔ ٹاپ
نوجوانی کی اہمیتنوجوانی کے دور پر خاص توجہاسلام میں نوجوانوں کی محوریتقوموں کی ترقی کا سرمایہنوجوانوں کی قابل تحسین خصوصیاتنوجوان اور اعلی عہدہ داروں کی ذمہ دارینوجوانوں کی سماجی ذمہ داریاں ہمہ جہتی خود سازیآگاہانہ احساس ذمہ داریمعاشرے کے سلسلے میں نوجوانوں کی حساسیتتدبر اور غور و فکر کی عادتنوجوان نسل کی راہ کے چیلنج اور مشکلاتنوجوان کی شخصی و ذاتی فکریںروحانیت و معنویت کی فکرتشخص اور استعداد کا انکشافنوجوان سے مدلل گفتگوجنسیاتی پہلوثقافتی یلغارسستی اور آرام طلبیخود فراموشیمسلمان نوجوانوں کی مصیبتگناہ و معصیت سے دورینوجوانوں کی ترقی کا رازبیکراں ذخیرہتوکل بر خداجذبہ خود اعتمادی کی تقویتعلمی مساعیوقت کا بھرپور استعمالنوجوانوں کے گوناگوں سوالات اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے جواباتنوجوانی کے ایام میں آپ کے آئیڈیل کون لوگ تھے؟آپ نے اپنا نوجوانی کا دور کیسے گزارا؟نوجوانی کے ایام میں آپ کی تفریحی سرگرمیاں کیا تھیں؟آپ کی نظر میں ایک مسلم نوجوان کی خصوصیات کیا ہیں؟ ایک نوجوان کس طرح زندگی کے سفر کو پورا کرکے اپنے اہداف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟نوجوان اپنے ہیجانی جذبے کو کیسے تسکین دے اور کیسے اس سے استفادہ کرے؟نوجوانوں سے مل کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے اور آپ ان سے سب سے پہلی بات جو کہنا چاہتے ہیں وہ کیا ہے؟گوناگوں سماجی اور سیاسی امور میں موقف کی نوعیت سلسلے میں نوجوانوں کے لئے آپ کی سفارش کیا ہے؟ ایران اور پیشرفتہ ممالک کے درمیان موجود فاصلے کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ نوجوان اور نوجوانی نوجوانی کی اہمیتنوجوانی کے دور پر خاص توجہنوجوانی ہر انسان کی زندگی کی ایک درخشاں حقیقت اور بے بدل اور عدیم المثال باب ہے۔ جس ملک میں بھی نوجوانوں کے مسائل پر کما حقہ توجہ دی جائے گی وہ ملک ترقی کی راہ میں بڑی کامیابیاں حاصل کرے گا۔ یہ نوجوانی، یہ ضوفشاں دور وہ دور ہے کہ جو اپنی کم طوالت کے باوجود انسان کی پوری زندگی پر طویل المیعاد اور دائمی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس طرح نوجوانوں کے جسم انرجی اور شادابی کی آماجگاہ ہوتے ہیں ان کی روح بھی اسی طرح شاداب ہوتی ہے۔ اس متنفس کو اس کی فکری توانائی، اس کی عقلی صلاحیت، اس کی جسمانی طاقت، اس کی اعصابی قوت اور اس کے ناشناختہ پہلوؤں کے ساتھ اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے تاکہ وہ ان قدرتی نعمتوں اور اس مادی دنیا کو وسیلے کے طور پر استعمال کرے اور خود کو قرب الہی کے بلند مقامات پر پہنچائے۔ ٹاپ اسلام میں نوجوانوں کی محوریتپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوجوانوں کے بارے میں بڑی سفارشات کی ہیں۔ آپ نوجوانوں کے ساتھ بہت مانوس تھے اور آپ نے کارہائے بزرگ کی انجام دہی میں نوجوانوں کی طاقت سے استفادہ کیا۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکے میں اپنی نوجوانی کے ایام میں فداکار، با ہوش فعال اور پیش قدم نوجوان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ پر خطر میدانوں میں سینہ سپر ہو جاتے تھے اور دشوار ترین کام اپنے ذمے لے لیتے تھے۔ آپ نے اپنی فداکاری و جاں نثاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ ہجرت کی راہ ہموار کی، اس کے بعد آپ مدینہ منورہ میں بھی فوج کے سپہ سالار، فعال دستوں کے قائد، عالم، دانشمند، سخی اور شجاع انسان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ میدان جنگ میں آپ پیش قدم سردار لشکر اور جانباز سپاہی تھے، حکومتی اور انتظامی امور میں آپ ایک مدبر انسان تھے، سماجی امور میں آپ ہر لحاظ سے پیش پیش رہنے والے شخص تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دس سال اور چند مہینوں کی حکومت میں صرف علی علیہ السلام کی با عظمت ذات سے ہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر نوجوانوں سے بھرپور استفادہ کیا۔ٹاپ قوموں کی ترقی کا سرمایہایران میں نوجوانوں کی تعداد اور ملک میں ان کی آبادی کا تناسب بڑا حیرت انگیز ہے۔ اس وقت ایران کی نصف سے زیادہ آبادی تیس سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایک بے مثال حقیقت یہ ہے کہ جو ملک دنیا کے نوجوان ترین ممالک میں ہے وہ دنیا کے عظیم ترین، جوان ترین انقلاب اور خود مختار ترین سیاسی نظام کا حامل ہے۔ یہ توارد حیرت انگیز توارد ہے۔ یہ عظیم نوجوان آبادی کسی ایسے ملک میں زندگی بسر نہیں کر رہی ہے کہ جس کا سیاسی نظام امریکا یا دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں یا کثیر القومی کمپنیوں یا کسی غیر ملک کی سیاست کا تابع ہو، وہ ایسے ملک میں سانس لے رہی ہے کہ جس کا سیاسی نظام نوجوانوں پر خاص توجہ دیتا ہے۔ نوجوان کو خود مختاری سے رغبت ہوتی ہے، نوجوان کی فطرت یہ ہے کہ سر اٹھا کے چلنا چاہتا ہے، کسی کا اسیر اور تابع نہیں رہنا چاہتا۔ آج ملک ایران کا سیاسی نظام ایسا نظام ہے جو سر اٹھا کے کھڑا ہے، اس نے کسی کے بھی سامنے سر جھکایا نہیں ہے اور ان کئی برسوں کے عرصے میں کبھی بھی اس نے امریکا کی توپوں اور ٹینکوں نیز گوناگوں خطرات سے اپنے اندر خوف و ہراس اور پس و پیش کی کیفیت کو راہ نہیں دی ہے۔ ایران کے پاس ایک نیا اور جواں سال انقلاب ہے لہذا وہ درست منصوبہ بندی کے تحت برق رفتاری سے خود سازی اور پیشرفت کرنا چاہتا ہے تاکہ دشمنوں کی زبانوں پر تالے لگا دے اور علمی و عملی دونوں لحاظ سے ہر میدان میں اپنی موجودگی اور اہمیت کا لوہا سب سے منوا لے۔ جس ملک کی آبادی کا نصف حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہو اور نوجوانوں کے نئے قافلے یکے بعد دیگر مسلسل وارد میدان ہو رہے ہوں وہاں یہ چیز عین ممکن ہے۔ اس سلسلے میں مستقبل بالکل واضح اور عیاں ہے۔ٹاپ نوجوانوں کی قابل تحسین خصوصیاتنوجوان حق بات کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے، یہ بہت اہم ہے۔ نوجوان پوری صداقت کے ساتھ واضح الفاظ میں اپنا اعتراض بیان کرتا ہے اور بغیر کسی اندرونی جھجک اور پس و پیش کے بے فکری کے ساتھ اقدام کرتا ہے۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے۔ آسانی سے بات کا قبول کرنا، سچائی کے ساتھ اپنا اعتراض بیان کر دینا اور بے فکری کے ساتھ عمل کرنا۔ اگر آپ ان تینوں خصوصیات کو ایک ساتھ رکھئے اور غور کیجئے تو آپ کو بڑی خوبصورت اور دلکش حقیقت نظر آئے گی، آپ کو معلوم ہوگا کہ مسائل کے حل کی کتنی اہم کنجی آپ کو مل گئی ہے۔ نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند ہوتا ہے۔ فطری طور پر عدل و انصاف کا خواہاں ہوتا ہے، قانونی آزادی اور اسلامی امنگوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اسلامی اہداف اور مقاصد اس کے اندر ہیجانی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں، اس کے اندر جوش و جذبہ پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کے ذہن میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جو تصویر ہے وہ اسے ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مقائسے اور موازنے کے ذریعے چیزوں کی خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی اور بالکل نمایاں خصوصیت ہے۔ نوجوانی کے قابل تعریف خصائص میں، توانائی، قدرت، جدت عمل اور جوش و جذبہ ہے۔ کیا نوجوان کی یہ خصوصیات اکتسابی ہیں یعنی کیا اس نے یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں؟ نہیں، انصاف پسندی، جوش و جذبہ، بلند ہمتی یہ خصوصیات جو نوجوان میں پائی جاتی ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ اس نے ان کے لئے خاص محنت کی ہو۔ یہ تو اس کی زندگی اور اس کی عمر کے اس مرحلے کا فطری تقاضا ہے۔ بنابریں یہ عطیات ہیں، تو ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں کچھ فرائض بھی ہوں گے جنہیں پورا کیا جانا چاہئے۔ ٹاپ نوجوان اور اعلی عہدہ داروں کی ذمہ دارییہ صرف ماں باپ ہی نہیں ہیں جو جوانوں کے ذمہ دار ہیں۔ تعلیمی عہدہ داروں، سیاسی حکام، معاشی منصوبہ سازوں، سب کو ان افراد میں شمار کیا جاتا ہے جو ملک کے نوجوانوں کے ذمہ دار کہلاتے ہیں۔ ملک کے نوجوان، حکام کی اولادوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر حکام اور نوجوان طبقے پر پدرانہ اور فرزندانہ جذبہ محیط ہو جائے جو نوجوانوں کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض مشکلات ایسی ہوں جو قلیل مدت میں حل نہ کی سکیں لیکن نوجوان نسل اور نوجوان طبقے کی اطلاعات میں اضافہ کرنا اور ان سے مدد حاصل کرنا وہ طریقے ہیں جن سے اس صورت حال کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ ملک کی عظیم نوجوان نسل ایک فیاض اور متلاطم دریا کی مانند ہے۔ یہ دریا مسلسل بہہ رہا ہے اور برسوں بعد بھی اسی طرح بہتا رہے گا۔ اس دریا کے سلسلے میں دو طرح کا طرز عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک کے حکام، دانشمندانہ، عاقلانہ اور عالمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے اس دریا کی اہمیت و افادیت کو پہچانیں، دوسرے مرحلے میں ان جگہوں اور مراکز کی نشاندہی کریں جنہیں اس دریا کے پانی کی ضرورت ہے، تیسرے مرحلے میں منصوبہ بندی اور پانی کی سپلائي کا نیٹ ورک تیار کریں اور پھر پانی کو جہاں جہاں ضرورت ہے، پہنچائیں۔ یہ کر لیا گيا تو ہزاروں باغ اور لالہ زار چمن اس لا محدود نعمت الہی سے بہرہ مند ہوں گے اور بے آب و گياہ خطوں میں شادابی دوڑ جائے گی۔ اس دریائے متلاطم کے پانی کو انرجی پیدا کرنے والے ڈیم تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے اور اس طرح انرجی کا ایک عظیم سرچشمہ تیار کیا جا سکتا ہے اور پورے ملک کو فعالیت اور سعی و کوشش کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے تو یہ نعمت ثمر بخش اور بارآور بن جائے گی جس پر اگر معاشرے کا ہر ایک فرد روزانہ سیکڑوں بار سجدہ شکر بجا لائے تو بھی کم ہے۔ اس طرح کے طرز عمل کا لازمہ ہے منصوبہ بندی کرنا، رہنمائی کرنا، راستوں اور میدانوں کو کھولنا، احتیاجات کو متعین کرنا اور اس گراں بہا پونجی اور اس ہدیہ الہی کو ضرورت کی جگہ پر رکھنا ہے۔ جس کا نتیجہ شادابی، تازگي، تعمیر و ترقی، جوش و جذبے اور برکت و رحمت کی شکل میں نکلے گا۔ دوسرا طرز عمل یہ ہے کہ حکام اس موجزن اور فیض رساں دریا کو اس کی حالت پر چھوڑ دیں، اس کے بارے میں کوئی فکر کرنے کی زحمت نہ کریں، اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ کریں اور اس کی قدر و قیمت نہ سمجھیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف کھیتیاں سوکھ جائیں گی اور باغ اجڑ جائیں گے بلکہ خود یہ پانی بھی ضائع ہوگا۔ اس صورت حال میں اس پانی کا بہتر انجام یہی ہو سکتا ہے کہ وہ سمندر کے کھارے پانی میں مل کر ضائع ہو جائے، یا پھر دلدل یا ایسے مرکز میں تبدیل ہو جائے جو انواع و اقسام کی آفات و بلیات کی جڑ شمار کئے جاتے ہیں، بد ترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک سیلاب کا روپ اختیار کرکے قوم کی ساری جمع پونجی کو مٹا دے۔ اگر منصوبہ بندی نہ ہوئی اور محنت سے کام نہ کیا گيا تو یہی نتائج نکلیں گے۔ ٹاپ نوجوانوں کی سماجی ذمہ داریاںہمہ جہتی خود سازیعلمی، اخلاقی اور جسمانی خود سازی وہ توقعات ہیں جو نوجوانوں سے کی جا سکتی ہیں اور خود نوجوانوں کو بھی اس خود سازی کی احتیاج ہے۔ نوجوان کو چاہئے کہ خود فیصلہ کرے اور اپنی زمین پر اپنی پسند کا بیج بوئے، اپنی ثقافتی دولت اور جمع پونجی سے استفادہ کرے، اپنے ارادے کو بروئے کار لائے، اپنی شخصیت اور اپنی خود مختاری کو اہمیت دے۔ دوسروں کی تقلید اور اغیار کے آئیڈیل کی نقل نہ کرے۔ نوجوانوں کو تقلید کا اسیر نہیں ہونا چاہئے۔ جس روش اور جس راہ پر چل کر ان کا ذہن، ان کا ارادہ اور جذبہ ایمانی تقویت پاتا ہو اور جس پر چل کر وہ اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہو سکتے ہوں اسی راستے کے بارے میں انہیں فکر کرنا چاہئے۔ ایسی صورت میں نوجوان اس ستون میں تبدیل ہو جائے گا جس پر ملک کی تمدنی زندگی اور اس قوم کی حقیقی تہذیب کا تکیہ ہے۔ٹاپ آگاہانہ احساس ذمہ دارینوجوانوں کے لئے جو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ان میں ایک آگاہانہ احساس ذمہ داری ہے۔ نوجوان میں توانائی اور انرجی بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ حساس بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ احساس ذمہ داری سے مراد یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، معیشت، روزگار، شادی بیاہ اور اپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کی فکر میں رہتا ہے، ان اہداف و مقاصد کے لئے بھی فکرمند رہے جو اس کی ذاتی زندگی سے بالاتر ہیں، وہ اہداف جو صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک گروہ ، ایک قوم ، تاریخ اور تمام انسانیت سے متعلق ہیں۔ انسان کے اندر ان اہداف کے تعلق سے بھی احساس ذمہ داری، فرض شناسی اور پابندی ہونا چاہئے۔ کوئي بھی انسان اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک سعادت و خوشبختی کی بلند چوٹیوں پر نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کے اندر یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی پیدا نہ ہو جائے۔ یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی آگاہانہ انداز میں ہونی چاہئے، انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کس ہدف و مقصد کی جانب بڑھ رہا ہے اور راستے میں کون سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ اسی کو آگاہانہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کہتے ہیں۔ /br> ٹاپ معاشرے کے سلسلے میں نوجوانوں کی حساسیتنوجوان اپنے معاشرے کے امور کے سلسلے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ معاشرے یعنی اس فضا میں جس میں نوجوان سانسیں لے رہا ہے اگر تفریق و امتیاز ہو تو وہ آزردہ خاطر اور رنجیدہ ہوتا ہے، اگر گھر کے اندر تفریق نظر آئے تو نوجوان کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے، اگر اسکول اور کلاس کے اندر اسے تفریق و امتیاز دکھائی دیتا ہے تو اس دلی تکلیف پہنچتی ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو ان سماجی برائیوں اور آفتوں کے سلسلے میں بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں یا اپنی ذاتی زندگی اور امور میں مستغرق ہیں، یا پھر دیکھتے دیکھتے اسی کے عادی ہو گئے ہیں۔ نوجوان ایسا نہیں ہوتا۔ نوجوان جذباتی ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں انصاف و مساوات نہ ہو تفریق و امتیاز ہو تو نوجوان کو دکھ ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں بد عنوانیاں پھیل جائيں تو وہ نوجوان جو اپنے ملک کے وقار کا متمنی ہے یقینا آزردہ خاطر ہوگا۔ اگر کہیں قومی جوش و جذبے کا معاملہ ہو تو وہاں نوجوانوں کی فرض شناسی قابل دید ہوتی ہے۔ مسلط شدہ جنگ کے دوران امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایک اشارے پر اور محاذوں میں سے کسی محاذ کی ایک درخواست پر نوجوان جوق در جوق محاذوں کی سمت دوڑ پڑتے تھے، حالانکہ ان کو یہ یقین ہوتا تھا کہ سامنے خطرات موجود ہیں۔ ہر معاشرے میں نوجوانوں کی یہ مشترکہ خصوصیت ہے، تاہم جن معاشروں میں ایمان و روحانی اقدار ہیں وہاں یہ خصوصیت زیادہ نظر آتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب ملک کے دفاع کا مسئلہ، قومی حمیت کا معاملہ اور ملک کے عز و وقار اور آزادی و خود مختاری کی حفاظت کی بات آ جاتی ہے تو نوجوان بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور اقدام کرتے ہیں، انہیں اپنی زندگی اور اپنے چین و سکون کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی، وہ پر خطر وادی میں اتر جاتے ہیں۔ٹاپ تدبر اور غور و فکر کی عادتایک مجاہد نوجوان کے لئے جو چیزیں لازمی ہیں ان میں تعلیم کا حصول، سستی و کاہلی کا مقابلہ، گومگو کی کیفیت سے چھٹکارا اور غور و فکر کی عادت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ مختلف امور میں غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔ ہر انسان بالخصوص نوجوان نسل کے لئے بہت بڑے خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ واقعات و حادثات اور معاشرے کی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے لا تعلق بنا رہے۔ نوجوانوں کے افکار و نظریات کو صحیح سمت و رخ عطا کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے اور بعض افراد ہیں جن کے دوش پر یہ فریضہ ہے تاہم اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ مختلف امور کے سلسلے میں غور و فکر کریں اور سوچ سمجھ کر اپنی راہ پر آگے بڑھیں۔ چھوٹے بڑے ہر واقعے کے سلسلے میں تدبر اور غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، مطالعہ کریں، جائزہ لیں۔ اگر کسی نے غور و فکر اور تدبر کی اپنی عادت ڈال لی اور اہل فکر و نظر میں شامل ہو گیا تو دوسروں کے مشوروں سے بھی استفادہ کرے گا۔ جو چیزیں غور و فکر سے انسان کو روک دیتی ہیں ان میں بد عنوانی اور مایوسی کے دام میں پھنس جانا ہے۔ بنابریں نوجوانوں کا ایک بڑا جہاد مایوسی اور بد عنوانی کے علل و اسباب کا ازالہ کرنا ہے۔ٹاپنوجوان نسل کی راہ کے چیلنج اور مشکلاتنوجوان کی شخصی و ذاتی فکریںنوجوان سب سے پہلے مرحلے میں تعلیم، نوکری، روزگار اور مستقبل کی فکر میں رہتا ہے۔ مستقبل کو روشن اور یقینی بنانا اس کے نزدیک بہت اہم ہوتا ہے۔ اپنا گھر بسانا اور ہمت و حوصلے کے مطابق علمی سرگرمیاں انجام دینا بھی اس کے لئے بہت اہم ہوتا ہے، شادمانی و ہیجانی کیفیت کا بھی وہ دلدادہ ہوتا ہے۔ انسان کے اندر پائي جانے والی جمالیاتی حس نوجوان میں زیادہ قوی ہوتی ہے، انسانی جذبات و احساسات بھی نوجوان کے اندر زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان کے شخصی اور ذاتی مسائل و امور ہیں لیکن نوجوان کی فکرمندی یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ٹاپروحانیت و معنویت کی فکرنوجوان کو جو فکریں لاحق رہتی ہیں ان میں روحانیت و معنویت کی بھی فکر ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر منصوبہ سازوں اور ذمہ دار افراد کی پوری توجہ ہونا چاہئے۔ نوجوانی کے دور میں ایک عمومی مذہبی و عرفانی جذبہ غالب رہتا ہے۔ نوجوانوں کی قلبی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالی، روحانیت کے اس مرکز اور حقیقت کے اس محور سے رابطہ و رشتہ قائم کریں چنانچہ مذہبی پروگراموں میں نوجوان بڑی دلچسپی و رغبت سے شرکت کرتے ہیں۔ جہاں بھی مذہبیت کا رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے وہاں نوجوان آپ کو حاضر ملیں گے۔ البتہ بہت سے مذاہب میں، دنیا کے بہت سے ممالک میں مذہبی روحانیت و معنویت کے جلوے نظر نہیں آتے تو نوجوان ان مذاہب سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس پر توجہ نہیں دیتے لیکن جس معاشرے میں مذہب کی قدر و قیمت پہچانی جاتی ہے، جہاں مذہب میں جان ہے اور خاص پیغام ہے معرفت و عرفان ہے اور مذہب نوجوان کو روحانیت و معنویت و جوش و جذبہ عطا کرتا ہے وہاں نوجوان مذہب کی جانب راغب نظر آتے ہیں۔ عبادت انسانوں کے دلوں اور روحوں کی تطہیر کا عمل ہے۔ عبادت انسان کا گوہر بیش بہا ہے۔ جن لوگوں کے سر سجدہ حق سے محروم ہیں وہ روحانیت و معنویت کی لذت سے بھی نابلد ہیں۔ خدا کی ذات سے انسیت، اللہ تعالی سے راز و نیاز، خدائے وحدہ لا شریک لہ سے طلب حاجت، اس کی بارگاہ میں اپنے غموں اور دکھوں کا شکوہ، غنی مطلق خدا سے اپنی خواہشات کا اظہار، اعلی اہداف کے حصول کے لئے اللہ تعالی سے طلب نصرت و مدد، یہ چیزیں انسان کو عبادت سے ملتی ہیں۔ بہترین عبادت گزاروں کا تعلق نوجوانوں کے طبقے سے ہوتا ہے۔ نوجوان کی عبادت میں زیادہ انہماک و ارتکاز، جوش و جذبہ اور روحانیت ہوتی ہے اور اس کی دعائيں زیادہ مستجاب ہوتی ہیں۔ٹاپ تشخص اور استعداد کا انکشافنوجوان کے اندر نوجوانی کے ایام بالخصوص اس دور کی ابتدا میں بہت سی خواہشات ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ چونکہ اس کی نئی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے لہذا وہ مائل ہوتا ہے کہ اس کی اس نئی شخصیت کو با قاعدہ تسلیم کیا جائے جبکہ اکثر و بیشتر یہ ہو نہیں پاتا اور والدین نوجوان کی نئي شخصیت اور شناخت کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ نوجوان کے اندر اپنے الگ قسم کے احساسات و جذبات ہوتے ہیں۔ اس کا روحانی و جسمانی نشو نما ہو رہا ہوتا ہے اور اس کے قدم ایک نئی وادی میں پڑ رہے ہوتے ہیں، اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ ارد گرد کے لوگ، خاندان کے افراد اور معاشرے کے لوگ اس نئی وادی اور نئي زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں یا پھر اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ ایسے میں نوجوان میں احساس تنہائی اور اجنبیت پیدا ہونے لگتا ہے۔ بڑے بوڑھوں کو چاہئے کہ اپنے نوجوانی کے ایام کی یاد کو تازہ کریں۔ اوائل بلوغ کا مرحلہ ہو یا بعد کا نوجوان کو نوجوانی کے دور میں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا ہوتا ہے جو ان کے لئے نا آشنا اور نامعلوم ہوتی ہیں۔ اس کے سامنے متعدد نئے سوال آتے ہیں جو جواب طلب ہوتے ہیں۔ اس کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور وہ ان سوالات اور شکوک و شبہات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ اسے تشفی بخش اور مناسب جواب نہیں دیا جاتا نتیجے میں نوجوان کو خلا اور ابہام کا احساس ہوتا ہے۔ نوجوان کے اندر یہ بھی نیا احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کے اندر توانائیاں اور انرجی بھری ہوئی ہے، وہ اپنے اندر جسمانی اور فکری و ذہنی دونوں طرح کی توانائیاں پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو توانائی اور انرجی نوجوان کے اندر بھری ہوتی ہے وہ اس کے ذریعے سے کرشماتی کام انجام دے سکتا ہے، اس میں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دینے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن نوجوان دیکھتا ہے کہ اس کی اس توانائی اور انرجی سے استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے نتیجے میں اسے لگتا ہے کہ وہ عبث اور بے کار گھوم رہا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانی میں انسان کو پہلی بار ایک بڑی دنیا کا سامنا ہوتا ہے جس کا سامنا اس نے پہلے نہیں کیا ہوتا ہے، اسے اس دنیا کی بہت سی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوتا ہے۔ اسے زندگی کے بہت سے ایسے واقعات اور تبدیلیوں کا سامنا ہوتا ہے جن کے بارے میں اسے نہیں معلوم کہ کیا کرنا چاہئے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اسے کسی رہنمائی کرنے والے اور راستہ بتانے والے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ماں باپ کی چونکہ مصروفیات زیادہ ہیں تو وہ نوجوان پر توجہ نہیں دے پاتے اور اس کی فکری مدد کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو ذمہ دار مراکز ہیں وہ اکثر و بیشتر وہاں جہاں انہیں کام کرنا چاہئے موجود نہیں ہوتے نتیجے میں نوجوان کو مدد نہیں مل پاتی اور نوجوان کو کسمپرسی کا احساس ستانے لگتا ہے۔ ٹاپ نوجوان سے مدلل گفتگونوجوان چاہتا ہے کہ مذہبی اور دینی باتیں اسے بتائی اور سمجھائی جائیں۔ آج کا نوجوان چاہتا ہے کہ اپنے دین کو عقل و منطق اور دلیل و استدلال کی روشنی میں سمجھے، یہ بالکل بجا خواہش ہے۔ اس خواہش اور مطالبہ کی تعلیم تو خود دین نے لوگوں کو دی ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے سلسلے میں فکر و نظر اور فہم و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ متعلقہ ذمہ دار افراد اگر نوجوانوں میں یہ فکری عمل رائج کرنے میں کامیاب ہو جائيں تو وہ دیکھیں گے کہ نوجوان دینی احکامات و تعلیمات پر عمل آوری سے بہت مانوس ہو گیا ہے۔ ٹاپجنسیاتی پہلونوجوانوں کے اندر جنسیاتی پہلو ایک تشویشناک چیز ہے اور بر وقت شادی کرنے اور گھر بسانے سے اس تشویش کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کی شادی کے سلسلے میں میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر اس رسم و رواج اور اسراف و زیادہ روی سے پرہیز کیا جائے جو بد قسمتی سے ہمارے درمیان پھیلتی جا رہی ہے تو نوجوان اس موقع پر جب انہیں ضرورت ہے شادی کر سکتے ہیں۔ نوجوانی کی عمر شادی کے لئے بہت مناسب عمر ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی ثقافت کی اندھی اور کورانہ تقلید کے نتیجے میں بہت پہلے سے خاندانوں کے اندر یہ غلط رواج آ گيا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی تاخیر سے ہونا چاہئے، جبکہ اسلام میں یہ نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں تو شادی، آغاز نوجوانی کے بعد جتنی جلدی کر دی جائے بہتر ہے۔ ٹاپ ثقافتی یلغارعصر حاضر میں جدید ٹکنالوجی کا سہارا مل جانے کے بعد ثقافتی یلغار اور بھی خطرناک ہو چکی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن و دل اور فکر و نظر تک رسائی کے سیکڑوں اطلاعاتی راستے اور وسائل موجود ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور کمپیوٹر سے متعلق انواع و اقسام کی روشوں کا استعمال کیا جانے لگا ہے اور نوجوانوں میں گوناگوں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپیوں نے اندلس کو مسلمانوں سے واپس لینے کا ارادہ کیا تو دراز مدت پالیسی تیار کی۔ ان دنوں صیہونی نہیں ہوا کرتے تھے لیکن دشمنان اسلام اور سیاسی مراکز اسلام کے خلاف تب بھی سرگرم عمل تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ کام وہ دینی اور سیاسی عوامل کے تحت انجام دے رہے تھے۔ ایک کام یہ کیا گيا کہ انہوں نے کچھ مخصوص مقامات معین کر دئے جہاں نوجوانوں کو مفت شراب پلائی جاتی تھی! نوجوانوں کو (فاحشہ) لڑکیوں اور عورتوں کے جال میں پھنسایا گيا تاکہ وہ شہوت پرستی میں مبتلا ہو جائيں۔ زمانہ گزر جانے کے بعد بھی کسی قوم کو آباد یا برباد کرنے والے اصلی طریقے بدلتے نہیں ہیں۔ آج بھی وہ یہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ ٹاپ سستی اور آرام طلبیانسان کا ایک بد ترین دشمن جو خود اس کے اندر جنم لیتا ہے، سستی، کاہلی، کام چوری اور کام میں دل کا نہ لگنا ہے۔ اس دشمن سے سختی کے ساتھ نمٹنا چاہئے۔ اگر نوجوان اس دشمن کا مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے میں کامیاب ہو گيا تو باہری دشمن کی ملک پر یلغار کی صورت میں بھی دشمن پر غالب آ جائے گا۔ اس اندرونی دشمن پر قابو پا لیا تو اس باہری دشمن کو بھی مغلوب کر لے جائے گا جو ایک ملت کے وسائل اور ذخائر کو لوٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر کہیں انسان اپنی کاہلی پر قابو نہ پا سکا، بلکہ الٹے کاہلی ہی اس پر غالب آ گئی تو جب بھی فرائض اسے کسی میدان میں اترنے پر آمادہ کریں گے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہی رہے گا۔ جو شخص درس، کام، عبادت اور گوناگوں خاندانی، سماجی اور دیگر فرائض کی انجام دہی کے لئے تیار نہیں ہوتا اور سستی و آرام طلبی میں پڑا رہتا ہے اسے یہ دعوی کرنے کا حق نہیں کہ اگر باہری دشمن نے اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو وہ دشمن کے مقابلے میں فتحیاب ہوگا۔ ٹاپ خود فراموشیایران نے بہت اہم شعبوں میں بڑی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ انقلاب اور انقلابی جذبہ ہے اور یہ خود اعتمادی جو انقلاب نے اس قوم کو دی، یہ کھلی فضا ہے جو انقلاب سے ملت ایران کو ملنے والی چیزوں نے ملت ایران کو آزادانہ فکر کرنے اور پرامید رہنے کی نعمت عطا کی۔ اگر ہم بیٹھ کر منفی پہلو تراشتے رہیں اور یہ رٹ لگائے رہیں کہ صاحب! یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، ہمیں کرنے ہی نہیں دیں گے، محنت کرکے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ہے، تو آپ اس چیز کو سم مہلک سے کم نہ سمجھئے۔ ایک زمانے میں یہی ہوا، لوگ آئے اور انہوں نے ملت ایران کی ثقافتی فضا میں یہ زہر گھول دیا۔ یکبارگی آکر اعلان کر دیا گيا کہ ہم تو کچھ کر ہی نہیں سکتے میری نوجوانی کے ایام کی بات ہے، کہتے تھے کہ ایرانی تو لولہنگ بھی نہیں بنا سکتے۔ لولہنگ کہتے تھے لوٹے کو، وہ بھی مٹی سے بنے ہوئے لوٹے کو۔ یہ نظریہ اور خیال تھا اس زمانے کے سیاستدانوں کا اور یونیورسٹیاں چلانے والے عہدہ داروں کا۔ ان کے نام بھی معلوم ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ایرانیوں کے بس کا کچھ نہیں ہے! جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے، ایرانی کچھ بھی کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایرانی علمی سرحدوں کو جو بے حد وسیع ہو چکی ہیں توڑ کے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ آگے بڑھ کر نئی سرحدیں قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ٹاپ مسلمان نوجوانوں کی مصیبتسامراج نوجوان نسل کے لڑکے لڑکیوں کو جو عزم و ارادے اور طہارت و پاکدامنی کے ساتھ دین و روحانیت اور عالم اسلام کی صف اول میں سرگرم عمل ہوں، ہرگز پسند نہیں کرتا۔ وہ گمراہ اور بے راہرو نوجوان نسل دیکھنا چاہتے ہیں، اسے یہ پسند ہے۔ دشمن کی خواہشات کے بر خلاف مسلم نوجوان کو چاہئے کہ ثابت قدمی کا مظاہر کرے۔ اسلامی ممالک کے حکام کو چاہئے کہ سب سے پہلے کمر ہمت کسیں، حکام کسی شخص اور کسی چیز سے خوفزدہ نہ ہوں، دشمن کی ہنگامہ خیزی سے مرعوب نہ ہوں۔ یہ عظیم قومی محاذ ان کے اختیار میں ہے، انہیں چاہئے کہ اس سے بھرپور استفادہ کریں۔ قوم کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی قدر و منزلت کو سمجھیں اور خود سازی پر توجہ دیں۔ ٹاپ گناہ و معصیت سے دوریصحتمند انسانی و الہی فطرت ایک خدائی دولت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اس فطرت سے بھرپور استفادہ کریں اور گناہوں کے مقابلے میں مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کریں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسان گناہوں کے سلسلے میں اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ محال ہو۔ ہاں اس کے لئے مشق ضروری ہے۔ نوجوانی کے ایام میں جو نوجوان فیصلہ کر لیتے تھے کہ اپنی قوت ارادی کو مضبوط کریں گے وہ اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ اسلام میں روزہ جو واجب قرار دیا گیا ہے، در حقیقت اسی راہ میں کی جانے والی مشق ہے۔ انسان کبھی کبھی کسی گناہ کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب انسان اس گناہ کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے تو کیا وہ واقعی بے اختیار ہو جاتا ہے؟ گناہ کی غلاظت میں ڈوب جانے کے علاوہ کیا واقعی کوئي راستہ اس کے پاس نہیں ہوتا؟ اکثر و بیشتر تو یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن نفسانی خواہشات اور وسوسے اسے فیصلہ نہیں کرنے دیتے۔ اگر انسان نے اپنی عمر ان وسوسوں کی رو میں بہتے ہوئے گزار دی تو پھر بڑھاپے میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا، یہ اس کے لئے بے حد دشوار اور سخت ہوگا لیکن نوجوان میں اس کی ضروری طاقت و قوت موجود ہوتی ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ گناہ و معصیت سے دوری تو بڑھاپے کا کام ہے، جبکہ بوڑھوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ان کے جسمانی اعضاء کمزور اور مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں اسی طرح ان کی روحانی طاقت بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ نوجوان میں فیصلہ کرنے اور ثابت قدم رہنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ٹاپ نوجوانوں کی ترقی کا رازبیکراں ذخیرہجو نوجوان قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے تا حیات فکری اور ذہنی ذخیرہ تیار کر لیا ہے۔ یہ بے حد قیمتی چیز ہے۔ ممکن ہے کہ نوجوانی کے ایام میں آيات قرآنی سے گہرے مفاہیم اور تعلیمات کا استنباط نہ ہو سکے اور نوجوان صحیح طور پر اس کا ادراک نہ کر پائے، ممکن ہے کہ نوجوان کو قرآنی تعلیمات کی بہت سطحی باتیں ہی سمجھ میں آ سکیں لیکن جیسے جیسے وہ علمی پیشرفت کرے گا اور اس کی معلومات میں اضافہ ہوگا وہ اپنے حافظے اور ذہن میں موجود آیات قرآنی سے اور زیادہ استفادہ کرنے کے لائق ہوگا۔ ذہن انسانی میں قرآن کا نقش ہو جانا بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک شخص ہے جو کسی موضوع پر کوئی آيت تلاش کرنے کے لئے بارہا قرآن کی فہرست اور آیات کو متلاشی نظروں سے دیکھتا ہے اور دوسرا شخص ہے کہ آيات قرآنی اس کے ذہن و دل اور آنکھوں کے بالکل سامنے ہیں اور وہ انہیں با قاعدہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے ہر شعبے میں ضرورت کے مطابق وہ قرآن سے استنباط اور استدلال کرتا ہے، ان پر غور و فکر کرتا ہے اور ان سے استفادہ کرتا ہے، دونوں میں بہت فرق ہے۔ بچپنے اور لڑکپن سے لیکر نوجوانی تک قرآن سے انس بہت بڑی نعمت ہے۔ ٹاپتوکل بر خدانوجوانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالی پر توکل کریں، اس سے طلب نصرت و مدد کریں، اپنے قلوب میں ایمان کو مضبوط کریں، یہ کامیابیاں بہت اہم ہیں، خود اس نوجوان کی شخصی کامیابی کے لحاظ سے بھی اور قومی کامیابی کی نظر سے بھی، انہیں چاہئے کہ ایمان کو کمزور کرنے والے عوامل و اسباب کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ دیمک کی مانند ایمان کی جڑوں کو چاٹ جائیں۔ اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور توجہ اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے نفس اور اپنے دل کو مستحکم اور قوی بنا سکیں۔ واقعی اگر ہمارے اندر ہماری اندرونی ساخت محکم بنی رہی تو کوئی بھی بیرونی مشکل ہمیں مغلوب نہیں کر سکے گی۔ اپنے باطن اور اپنے دل کو اس طرح محکم بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام ظاہری جسمانی اور ارد گرد کی خامیوں، کمیوں اور کمزوریوں پر قابو پایا جا سکے۔ یہ چیز توکل علی اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ٹاپ جذبہ خود اعتمادی کی تقویتنوجوانو کو چاہئے کہ اپنے طبقے کے اندر تلاش و جستجو، امید و بلند ہمتی، خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں تقویت پہنچائیں۔ عربوں کے یہاں ایک کہاوت ہے ادل دلیل علی امکان شیء وقوعہ اس بات کی محکم ترین دلیل کہ ایک چیز دائرہ امکان میں ہے، یہ ہے کہ وہ چیز واقع ہو جائے۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل کہ ایرانی نوجوان نسل سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں نئی ایجادات کر سکتی ہے، علوم کی سرحدوں سے گزر سکتی اور اس کے آگے جا سکتی ہے، یہ ہے کہ ایرانی نوجوان نسل عملی طور پر ایسا کرکے دکھائے۔ٹاپ علمی مساعینوجوانوں کو چاہئے کہ حصول علم کی راہ میں اور اپنی علمی توانائیاں بڑھانے کے سلسلے میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ کریں۔ جو کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں اس پر قناعت نہ کریں بلکہ اسے پہلا قدم ہی مانیں۔ نوجوان کوہ پیما کی مانند ہوتا ہے جسے چوٹی پر پہنچ جانے تک آگے بڑھنا ہی رہتا ہے۔ راستے کے شروعاتی پیچ و خم میں بسا اوقات آدمی کو پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ ابتدائی کامیابیوں پر قانع نہیں ہونا چاہئے۔ نظریں چوٹی پر ٹکی ہونی چاہئے۔ محنت و مشقت کرنی چاہئے، دشواریوں اور سختیوں کو برداشت کرنا چاہئے تاکہ چوٹی کو فتح کیا جا سکے۔ ٹاپ وقت کا بھرپور استعمالنوجوانوں کو چاہئے کہ وقت کا بہترین استعمال کریں۔ البتہ یہ چیز وقت کو منظم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہیں چاہئے کہ بیٹھ کر اپنی سمجھ سے اپنا نظام الاوقات تیار کریں۔ نظام الاوقات کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عمومی نمونہ نہیں ہے کہ میں کہوں کہ سارے لوگ اسی ایک نظام الاوقات کے مطابق کام کریں۔ ہر انسان اپنی عمر کے لحاظ سے، اپنی گھریلو زندگی کی مصروفیات کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے، اس شہر کے لحاظ سے جہاں وہ زندگی گزار رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک مخصوص نظام الاوقات تیار کرے۔ نظام الاوقات ہر ایک کو تیار کرنا چاہئے اور اس کے ذریعے اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہئے۔ ٹاپ نوجوانوں کے گوناگوں سوالات اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے جواباتمندرجہ ذیل متن قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ سے نوجوانوں کے سوالات اور آپ کے جوابات پر مشتمل ہے؛نوجوانی کے ایام میں آپ کے آئیڈیل کون لوگ تھے؟میری نوجوانی کے دور میں مجھے متاثر کرنے والوں میں سب سے پہلی شخصیت تھی نواب صفوی کی۔ (نواب صفوی، شاہی حکومت کے مظالم کے خلاف شجاعانہ جد و جہد کرنے والے مجاہد تھے) جب وہ مشہد آئے، میں تقریبا پندرہ سال کا تھا۔ میں ان کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ وہ مشہد سے گئے اور کچھ ہی مہینوں کے بعد انہیں بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس واقعے سے ہم پر ان کا اثر اور گہرا ہو گیا۔ اس کے بعد میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے متاثر ہوا۔ قم جانے اور جد و جہد شروع ہونے سے قبل بھی میں نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا نام سن رکھا تھا، آپ کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا لیکن آپ کی ذات سے مجھے عقیدت و انسیت ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قم کے دینی تعلیمی مرکز میں نوجوان طلبہ کو آپ کے درس سے خاص رغبت تھی۔ آپ کا درس نوجوانوں کو بہت پسند آتا تھا۔ میں بھی جب قم گیا تو بلا تامل آپ کی کلاس میں شرکت کرنے لگا۔ میں نے شروع سے آپ کے درس میں شرکت کی اور آخر تک آپ کے ایک درس میں تواتر کے ساتھ شریک ہوتا رہا۔ مجھے اس شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ ویسے میرے والد کا بھی مجھ پر اثر پڑا، میری والدہ کا بھی گہرا اثر رہا۔ جن شخصیتوں کا مجھ پر بہت گہر اثر پڑا ان میں ایک میری والدہ تھیں؛ یہ بڑی موثر خاتون تھیں۔ٹاپآپ نے اپنا نوجوانی کا دور کیسے گزارا؟وہ زمانہ آج کے جیسا نہیں تھا۔ واقعی صورت حال بہت دگرگوں تھی۔ نوجوانوں کا ماحول کوئی اچھا ماحول نہیں تھا۔ میرے لئے ہی نہیں جو اس وقت طالب علم تھا بلکہ تمام نوجوانوں کے لئے بھی، میں تو خیر پرائمری سے ہی دینی طالب علم بن گیا۔ نوجوانوں کے اندر بڑی صلاحیتیں مرجھا کر ختم ہو جاتی تھیں۔ یہ چیزیں تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ میں نے خود دینی طلباء کے ماحول میں بھی یہ چیزیں دیکھیں۔ بعد میں دینی تعلیمی مرکز سے باہر، یونیورسٹی اور طلبا کے ماحول میں جب پہنچا تو ان کے اندر بھی یہی حالت مجھے نظر آئی، ویسے یونیورسٹی طلبا سے میرا رابطہ برسوں پر محیط ہے۔ اتنی درخشاں صلاحیتیں تھیں! بہت سے طلبا ایسے تھے جو کوئی ایک موضوع پڑھ رہے تھے جس کے بارے میں ان کی صلاحیت بہت اچھی تو نہیں تھی لیکن یہ عین ممکن تھا کہ ان کے اندر دیگر صلاحیتیں پنہاں ہوں جس سے کوئی واقف نہیں تھا اور کسی کو بھی اس کے بارے میں کوئي اطلاع نہیں تھی۔ انقلاب سے قبل میری پوری نوجوانی، نوجوانوں کے ساتھ گزری ہے۔ انقلاب کامیاب ہوا تو اس وقت میری عمر تقریبا انتیس سال تھی۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر سے لیکر اس وقت تک کا پورا عرصہ میں نے نوجوانوں کے ساتھ گزارا، دینی تعلیمی مرکز سے وابستہ نوجوانوں کے ساتھ بھی اور اس صنف سے باہر کے نوجوانوں کے ساتھ بھی۔ مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ محمد رضا پہلوی کی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے نوجوان بے راہروی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اخلاقی بے راہروی ہی نہیں بلکہ تشخص اور شناخت کی بے راہروی کی جانب۔ ( یعنی اپنے اصلی تشخص سے دور ہوتے جا رہے تھے) البتہ میں یہ تو دعوی نہیں کر سکتا کہ خود حکومت نے ملک کے نوجوانوں کو بے راہروی میں مبتلا کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی تھی اور سازش رچی تھی، ممکن ہے اس نے ایسا کیا ہو اور ممکن ہے کہ اس نے ایسا نہ کیا ہو، لیکن اتنا تو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے کچھ پروگرام ایسے تیار کئے تھے اور ملک کو اس انداز سے چلا رہے تھے کہ جس کا حتمی و یقینی نتیجہ یہی تھا۔ یعنی لوگ سیاسی امور سے دور اور زندگی کے معاملات سے بے اعتناء ہوگئے۔ اس وقت نوجوان نسل سمیت تمام طبقات کا عالم یہ تھا کہ سیاسی امور سے بالکل غافل تھے۔ نوجوان زیادہ تر روزمرہ کی سرگرمیوں میں لگے رہتے تھے۔ کچھ کو دو وقت کی روٹی کی ہی فکر تھی تو کچھ طاقت فرسا کاموں اور محنت مزدوری میں لگے ہوئے تھے کہ نان شبینہ کا بندوبست ہو جائے۔ ان کی اس کمائی کی بھی کچھ مقدار خورد و خوراک نہیں بلکہ الٹے سیدھے کاموں میں صرف ہوتی تھی۔ اگر آپ نے میری نوجوانی کے ایام میں لاطینی امریکا اور افریقا کے سلسلے میں لکھی گئی کتابیں پڑھی ہوں، جیسے فرانٹس فانن یا انہی جیسے ديگر مصنفین کی کتابیں جو اس زمانے میں کتابیں لکھتے تھے اور آج بھی ان کی کتابیں موجود ہیں، تو یقینا آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس قت کے حالات ایسے ہی تھے۔ ایران کے سلسلے میں کسی کو کچھ لکھنے کی جرائت نہیں ہوتی تھی، لیکن افریقا یا چلی یا میکسکو کے سلسلے میں آسانی سے اور بے روک ٹوک کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ یہ کتابیں پڑھ کر مجھے تو صاف محسوس ہوتا تھا کہ خود ہمارے حالات بھی وہی ہیں۔ یعنی نوجوان مزدور پسینہ بہاتا تھا، طاقت فرسائی کرتا تھا اور اس کے عوض اسے جو دو پیسہ مل جاتا تھا اس کا نصف حصہ تو وہ عیاشی اور غیر اخلاقی حرکتوں پر خرچ کر دیتا تھا۔ یہ بعینہ وہی باتیں تھیں جو میں ان کتابوں میں پڑھتا تھا، مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ایران کے معاشرے کے حقائق بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ واقعی بہت برے حالات تھے، نوجوانوں کا ماحول بالکل اچھا ماحول نہیں تھا۔ البتہ نوجوانوں کی دلی کیفیات اور قلبی واردات تو کچھ الگ تھیں کیونکہ نوجوان بنیادی طور پر جوش و جذبے والا اور امید و بلند ہمتی والا ہوتا ہے۔ میں خود بھی بہت جوشیلا نوجوان تھا۔ انقلاب کے آغاز سے قبل بھی ادبی، فن کارانہ اور اس جیسی دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے میری زندگی میں ایک تحرک اور ہیجان تھا۔ بعد میں سن تیرہ سو اکتالیس ہجری شمسی مطابق انیس سو باسٹھ عیسوی میں جب تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت میں تیئیس سال کا تھا۔ پھر تو ہم ملک کی بنیادی تحریک کے مرکز میں پہنچ گئے۔ انیس سو ترسٹھ میں میں دو بار جیل گیا۔ گرفتاری، جیل، پوچھ گچھ۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ چیزیں انسان میں ہیجان برپا کر دیتی ہیں۔ انسان بعد میں جب جیل سے آزاد ہوکر باہر آتا تھا اور انسانوں کے بیکراں سمندر کو ان اقدار کا گرویدہ پاتا اور امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ جیسے عظیم قائد کو عوام الناس کی ہدایت و رہنمائی میں مصروف دیکھتا تو اس کا ہیجان اور جوش و ولولہ اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھ جیسے افراد کے لئے جو زندگی کے ان امور کے بارے میں دلچسپی رکھتے تھے زندگی بہت ہیجانی تھی۔ البتہ سارے لوگ ایسے نہیں تھے۔ ان دنوں میں اور مجھ جیسے دیگر افراد جو جد و جہد کے بارے میں سنجیدگی اور پوری گہرائی سے سوچنے لگے تھے، سب نے اپنا نصب العین یہ بنایا کہ جیسے بھی ممکن ہو نوجوانوں کو حکومت کے ثقافتی شکنجے سے باہر نکالیں۔ میں خود مسجد جاتا اور تفسیر قرآن کا درس دیتا تھا، نماز کے بعد تقریر کرتا تھا، مختلف صوبوں میں جاکر تقریریں کرتا تھا۔ میرا بھی سارا ہم و غم یہ تھا کہ نوجوانوں کو شاہ کی ثقافتی کمند سے نجات دلائی جائے۔ ان دنوں میں اس کے لئے نا مرئی جال کی اصطلاح استعمال کرتا تھا۔ میں کہتا تھا کہ یہ ایک نامرئی جال ہے جو لوگوں کو اپنا اسیر بنا رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس نامرئی جال کو جہاں تک ممکن ہو پارہ پارہ کر دوں اور جہاں تک ممکن ہو نوجوانوں کو اس نا مرئی جال سے باہر نکالوں۔ اس جال سے نکلنے والے ہر شخص کے اندر پہلی تبدیلی یہ پیدا ہوتی تھی کہ وہ دین کی جانب راغب ہو جاتا تھا اور دوسرے مرحلے مین امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار کا گرویدہ ہو جاتا تھا، اس طرح اسے ایک تحفظ مل جاتا تھا۔ ان دنوں کے حالات کچھ ایسے تھے۔ وہی نسل آگے چل کر انقلاب کے بنیادی ستون میں تبدیل ہو گئی۔ ٹاپ نوجوانی کے ایام میں آپ کی تفریحی سرگرمیاں کیا تھیں؟بد قسمتی سے میری تفریحی سرگرمیاں بے حد کم تھیں۔ اس وقت تفریح کے زیادہ وسائل تھے ہی نہیں۔ پارک تھے لیکن بہت کم۔ مثال کے طور پر مشہد میں شہر کے اندر صرف ایک پارک تھا جس کا ماحول بہت خراب تھا۔ میں چونکہ دیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لہذا ان جگہوں پر جانے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ مجھ جیسے لوگوں کے لئے نوجوانی کے ایام میں ان تفریحی مقامات سے استفادہ کرنے کا امکان سرے سے تھا ہی نہیں۔ کیونکہ یہ مقامات مناسب مقامات نہیں تھے، یہ آلودہ مقامات تھے۔ اس وقت حکومت کی پالیسی بھی کچھ ایسی تھی کہ عمومی مقامات میں جنسی بد عنوانیاں پھیلائی جائیں۔ یہ کام عمدا اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ اس وقت مجھے اس کا اندازہ ہوتا تھا لیکن آگے چل کر جب میں نے زیادہ اطلاعات حاصل کیں اور شواہد پر غور کیا تو یقین ہو گیا کہ یہ حقیقت ہے۔ یعنی منصوبہ بندی کے ساتھ عمومی مقامات کو خراب کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے میں نہیں جا سکتا تھا، اس وقت ہماری تفریح کے وسائل آج جیسے نہیں تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں میری تفریح طلبہ کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔ ہم اپنے مدرسے جاتے تھے، ہمارے مدرسے کا نام تھا مدرسہ نواب۔ طلبا کا ماحول میرے لئے بہت پرکشش تھا۔ طلبہ ایک ساتھ جمع ہوتے تھے، بات چیت، گفتگو اور معلومات کا تبادلہ کرتے تھے۔ مدرسے کا ماحول طلبہ کے لئے کھیل کے میدان جیسا تھا۔ فرصت کے وقت میں وہیں جمع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ مشہد میں مسجد گوہر شاد میں لوگ اکٹھا ہوتے تھے۔ وہاں دیندار افراد، طلبہ اور علما آتے تھے، بیٹھتے تھے اور آپس میں علمی گفتگو کرتے تھے۔ بعض لوگ دوستانہ باتیں کرتے تھے۔ میری تفریح یہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس زمانے میں ورزش بھی کرتا تھا، آج بھی کرتا ہوں۔ افسوس کی بات ہے کہ نوجوان ورزش کے سلسلے میں کاہلی کرتے ہیں، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس زمانے میں میں کوہ پیمائی کرتا تھا، کافی دور دور تک پیدل چلتا تھا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کئی بار مشہد کے اطراف کے پہاڑوں میں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کئی کئی دن پیدل چلتا تھا۔ ٹاپ آپ کی نظر میں ایک مسلم نوجوان کی خصوصیات کیا ہیں؟ ایک نوجوان کس طرح زندگی کے سفر کو پورا کرکے اپنے اہداف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟اگر انسان کوئی با ارزش چیز حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ محنت و سخت کوشی کی عادت ڈال لے، یہ لازمی اور ضروری ہے۔ البتہ بنیادی طور پر میں نوجوانوں کی اہم ترین خصوصیتوں میں سے تین خصوصیتوں کو بہت نمایاں پاتا ہوں۔ اگر ان تینوں خصوصیات کی نشاندہی کر دی جائے اور ان کو صحیح سمت میں رکھا جائے تو میری نظر میں آپ کے اس سوال کا جواب مل سکتا ہے۔ یہ تینوں خصوصیات ہیں انرجی، امید اور جدت عمل۔ یہ نوجوان کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔ قرآن میں ایک بے حد حیاتی نکتہ بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے تقوے پر توجہ۔ جب لوگ تقوا کا نام سنتے ہیں تو ان کے ذہن و خیال میں جو تصویر ابھر کر آتی ہے وہ نماز، روزے، عبادات، اذکار اور دعا و مناجات کی تصویر ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں تقوا میں شامل ضرور ہیں اور تقوا کا جز ہیں لیکن ان میں کوئی بھی تقوا کا ہم معنی لفظ نہیں ہے۔ تقوا یعنی اپنے اعمال و رفتار پر محتاطانہ نظر رکھنا۔ تقوا یعنی یہ کہ انسان کو بخوبی علم ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے، یعنی یہ کہ اپنا ہر عمل غور و فکر اور ارادے اور نیت کے ساتھ منتخب کرے، اس انسان کی مانند جو گھوڑے پر سوار ہے اور باگ اس کے ہاتھ میں ہے اور جانتا ہے کہ اس کی منزل کہاں ہے۔ جس انسان میں تقوا نہ ہو اس کے اعمال و رفتار، اس کے فیصلے اور اس کا مستقبل اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ نہج البلاغہ کے خطبے کے مطابق اس کی مثال ایسے انسان کی ہے جسے سرکش گھوڑے پر ڈال دیا گیا ہو، وہ خود سوار نہ ہوا ہو اور اگر خود سے سوار بھی ہوا ہے تو اسے گھڑ سواری نہ آتی ہو۔ لگام اس کے ہاتھ میں تو ہے لیکن اسے نہیں معلوم کی گھڑ سواری کیسے کی جاتی ہے، اسے نہیں پتہ کہ کہاں جانا ہے۔ گھوڑا جہاں بھی اسے لے جائے گا وہ مجبورا چلا جائے گا، ظاہر ہے کہ اسے نجات کی توقع نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ گھوڑا سرکش ہے۔ ٹاپ نوجوان اپنے ہیجانی جذبے کو کیسے تسکین دے اور کیسے اس سے استفادہ کرے؟ہیجان خاص مواقع پر پیدا ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ہیں جن میں ہیجان بالکل نمایاں اور واضح ہوتا ہے۔ جیسے کھیل کود، مثال کے طور پر فٹبال ایک ہیجانی چیز ہے۔ فٹبال کے کھیل کا انداز ہی یہی ہے اور والیبال اور ٹینس سے یہ مختلف اور الگ ہے۔ کیونکہ اس کھیل کا ڈھانچہ ہی کچھ اس انداز کا ہے کہ اس میں مقابلہ آرائی، ہیجان اور اس جیسی دیگر چیزیں زیادہ ہیں۔ ویسے کھیل کوئی بھی ہو مجموعی طور پر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ فنکارانہ کاموں میں بھی ہیجان ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کا ہیجان ظاہر نہیں ہوتا۔ ہیجان صرف انہیں چیزوں تک محدود نہیں ہے۔ اگر انسان کو اپنی دلچسپی کا میدان اور شعبہ مل جائے خواہ وہ کوئی بھی میدان ہو تو وہ آسانی سے اپنے جوش و ولولے اور ہیجانی جذبے کی تسکین کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں جب نوجوان تھا اور دینی طلبہ کا لباس پہنتا تھا تو اس لباس اور ماحول کی وجہ سے کچھ محدودیتیں تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی میرے اندر ہیجان بھی تھا اور اس ہیجان کی تسکین بھی ہوتی تھی۔ وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ مجھے شاعری سے دلچسپی تھی۔ شاید آپ کے لئے اس بات کا یقین کر پانا بہت مشکل ہو۔ چار پانچ افراد کی، جنہیں اشعار سے دلچپسی تھی دو گھنٹے تین گھنٹے کی نشست جمتی تھی، شعر و شاعری کے موضوع پر بات ہوتی تھی اور اشعار سنائے جاتے تھے۔ جو شخص اس فن سے دلچسپی رکھتا ہو اس کے لئے یہ نشست اسی طرح اس کے ہیجانی جذبے کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہے جس طرح فٹبالسٹ کو فٹبال کے میدان میں یا فٹبال میچ دیکھنے والے کو اسٹیڈیم کے اندر بیٹھ کر فٹبال دیکھنے میں مزہ آتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہیجان کے میدان اور شعبے کم نہیں ہیں۔ ایک اور مثال سنئے! انسان جب درس کا نام زبان پر لاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درس میں کوئی ہیجان اور جوش و خروش ہے ہی نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کلاس میں کوئی ہیجان اور جوش و خروش نہیں ہوتا لیکن فرض کیجئے کہ یونیورسٹی کے اندر یا باہر کلاس میں تمام وسائل سے آراستہ ایک ورکشاپ ہو، جس طرح آج کل ہو رہا ہے کہ انجینئرنگ کے طلبہ جاتے ہیں اور کارخانوں سے رابطہ کرتے ہیں، نوجوان کو اگر یہ محسوس ہو کہ اس ورکشاپ میں وہ وسائل ہیں جن سے اپنی دلچسپی کی چیز ایجاد کر سکتا ہے اور اس کے ذہن میں جو آئیڈیا ہے اس جگہ پر وہ اسے عملی جامہ پہنا سکتا ہے، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کا ہیجان اور جوش و خروش کم ہوگا؟ اس میں بڑا جوش و خروش پیدا ہو جائے گا۔ تحقیق کا کام شوق اور دلچسپی سے انجام دیاجانا چاہئے۔ وہ تحقیقاتی کام جس کے لئے انسان کو مجبور کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ تحقیق لامحالہ پوری کرنا ہے تو اس کام میں کوئی جوش و خروش اور کوئی ہیجان نہیں ہوگا، اس کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلے گا۔ٹاپ نوجوانوں سے مل کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے اور آپ ان سے سب سے پہلی بات جو کہنا چاہتے ہیں وہ کیا ہے؟جب میں نوجوانوں کے ساتھ ہوتا ہوں، ان کے درمیان پہنچ جاتا ہوں تو میری بالکل وہی حالت ہوتی جو نسیم صبح میں سانس لینے والے انسان کی ہوتی ہے۔ میں تازگی اور شادابی کا احساس کرتا ہوں۔ نوجوانوں سے مل کر سب سے پہلی چیز جو میرے ذہن میں آتی ہے اور جس کے بارے میں میں نے بارہا غور کیا ہے، یہ ہے کہ کیا خود ان لوگوں کو اندازہ ہے کہ ان کی پیشانی پر کیسا ستارہ جگمگا رہا ہے؟ میں اس ستارے کو دیکھ رہا ہوں لیکن کیا یہ لوگ خود بھی اس کا مشاہدہ کر پا رہے ہیں؟ نوجوانی کا ستارہ بڑا درخشاں اور مقدر والا ستارہ ہے۔ اگر نوجوان اس بیش بہا اور قیمتی گوہر کو جو ان کے وجود میں پنہاں ہے دیکھ لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ اس سے بنحو احسن استفادہ بھی کریں گے۔ ٹاپگوناگوں سماجی اور سیاسی امور میں موقف کی نوعیت سلسلے میں نوجوانوں کے لئے آپ کی سفارش کیا ہے؟ اختلاف نظر سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ نظریات کا اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے اور اس میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے کہ دو سیاسی نظریات ہوں۔ ایک نوجوان کسی ایک نظرئے کا حامی ہے او ر دوسرا دوسرے نظرئے کا طرفدار۔ جو چیز نقصان دہ ہے وہ ہے بے سوچے سمجھے اور بغیر مطالعے اور تحقیق کے اقدام کر دینا، عجلت پسندانہ فیصلہ اور بغیر معلومات کے عمل کرنا۔ میں نوجوانوں کو اس چیز سے دور رہنے کی ہدایت کرنا چاہوں گا۔ نوجوانی کا لازمی تقاضا عجلت پسندانہ فیصلہ کرنا نہیں ہے۔ نوجوانی کے معنی بیباکانہ اقدام کرنا ضرور ہے لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ انسان نشیب و فراز اور پیچ و خم کے وہم میں نہ پڑے۔ اس سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غور و فکر کے اقدام کر دیا جائے۔ نوجوان سوچ سمجھ کر نپا تلا قدم بھی اٹھا سکتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے بھی کام کر سکتا ہے۔ یعنی فکری صلاحیتوں کو بخوبی بروئے کار لاکر اقدام کرے۔ اگر اس میں غور و فکر کرنے، مطالعہ و تحقیق اور تدبر کی عادت پیدا ہو جائے، در حقیقت یہ ایسی خصوصیات ہیں کہ نوجوان میں پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض خصوصیات تو حق پسندی کی مانند نوجوان کی سرشت میں شامل ہوتی ہیں، تو نظریاتی اختلاف میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس سے گمراہی پیدا نہیں ہوگی، یا کم از کم یہ ہوگا کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ دوسروں کی نفی کر دینے کی عادت، یہ کہ کوئی انسان سماجی امور میں ایک موقف اپنائے اور اعلان کر دے کہ بس یہی صحیح موقف ہے اس کے علاوہ کوئی اور موقف صحیح ہو ہی نہیں سکتا تو یہ درست نہیں ہے، یہ اچھی عادت نہیں ہے۔ اصول دین کے سلسلے میں تو یہ ہے کہ انسان فکر و مطالعے کے ساتھ اس کی جانب بڑھے اور ایک مستحکم نقطے پر پہنچ جانے کے بعد دو ٹوک انداز میں کہہ دے کہ حقیقت یہی ہے، اس کے علاوہ نہیں۔ اس مقام پر یہ کہنا کہ بس یہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں برا نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے لیکن سماجی مسائل میں، سیاسی امور میں اور سماجی اختلافات کی صورت میں یہ کہنا کہ بس یہی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ٹھیک نہیں ہے۔ میری نظر میں انسان کو چاہئے کہ دوسرے فریق کے نظرئے کو بھی تحمل کرے۔ جب وہ اپنے نظرئے کے مطابق کوئی عمل انجام دینا چاہے تو بہت سوچ سمجھ کر کام کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا ہو تو میری نظر میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ٹاپ ایران اور پیشرفتہ ممالک کے درمیان موجود فاصلے کو ختم کیا جا سکتا ہے؟میرا تو خیال یہی ہے کہ ہاں، بالکل ختم کیا جا سکتا ہے۔ میں نے ملک کے دانشوروں اور مفکرین سے بارہا کہا ہے کہ مغرب ہم سے بہت آگے ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ اگر کوئی ملک اسی راستے چل کر جس پر مغرب گیا ہے، خود کو اس مقام پر پہنچانا چاہتا جہاں مغرب آج ہے تو عمریں اور صدیاں لگ جائیں گی لیکن وہ پھر بھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ ان ملکوں کو شارٹ کٹ راستوں کی ضرورت ہے۔ یہ تمام موجودہ ایجادات شارٹ کٹ راستے ہیں۔ دنیا میں شارٹ کٹ راستے جتنے چاہئے آپ کو مل جائیں گے۔ اللہ کی اس خلقت کے تمام رموز سے ہم آج بھی بخوبی آشنا نہیں ہو سکے ہیں۔ ہزاروں راستے موجود ہیں۔ ایک راستہ تو یہی ہے جس پر موجودہ صنعتی تمدن گیا ہے اور ہر قدم کے بعد ایک نیا قدم بڑھایا گيا ہے۔ ہم کیوں نہ یہ امید رکھیں کہ کوئی نیا دریچہ کھلے اور دنیا میں کوئی نیا انکشاف ہو؟ ایک زمانہ ایسا تھا جب بجلی کا انکشاف نہیں کیا گيا تھا۔ یعنی دنیا میں اس کا وجود تھا لیکن اسے پہچانا نہیں جا سکا تھا۔ اچانک اس کی پہچان ہوئی، اس کی دریافت ہوئی اور اسے حاصل کر لیا گيا۔ اسی طرح بھاپ کی توانائی دریافت ہوئی۔ پہلے لوگ آگ سے بھی واقف نہیں تھے، بعد میں اس کا انکشاف ہوا۔ تو ہم کیوں نہ یہ امید رکھیں کہ اس دنیا میں اور بھی سربستہ رازوں کا انکشاف کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ اس وقت آئے دن کسی نئی چیز کا انکشاف کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اس پہلو پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں خود کو ایسی راہ پر پہنچانے کی ضرورت ہے جو ہمیں تیز رفتار سائنسی ترقی کی نعمت سے مالامال کر دے۔ اس کا طریقہ بس یہی ہے کہ نوجوان، بالخصوص تعلیم و تحقیق اور مطالعے سے شغف رکھنے والے نوجوان سخت کوشی اور دلجمعی سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ آپ جو کام بھی کرنا چاہتے ہیں وہ نوجوانی کے ایام میں آپ کر لے جائيں گے۔ تعلیمی شعبے میں، تہذیب نفس کے شعبے میں اور کھیل کود کے شعبے میں تینوں ہی شعبوں میں آپ کو نوجوانی کے ایام میں محنت کرنا چاہئے۔ٹاپ
عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کھ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟
عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟