قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چوبیس مئی دو ہزار نو کو تہران میں دو یا اس سے زیادہ شہدا کا داغ اٹھانے والے خاندانوں سے ملاقات کی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے لئے شہدا کی قربانیوں اور ان کے اہل خاندان کے صبر و ضبط کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے آٹھویں اور آخری دن آج صبح سقز کے علاقے کے شجاع عوام کے پر شکوہ اجتماع سے خطاب کیا۔ کردستان کے اس علاقے کے عوام آپ کی آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ آپ نے اپنے خطاب میں صوبے کے عوام کی بیداری و ہوشیاری کی تعریف کی اور فرمایا: اس سفر کے دوران اسلام اور اسلامی نظام سے کرد عوام کی وفاداری بڑی خوبصورت حقیقت کے طور پر ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کے دوستوں اور دشمنوں سب کے سامنے نمایاں ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے دورے کے آخری دن منگل انتیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق انیس مئی دو ہزار نو کو شہر سقز کے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے دورے کے ساتویں دن آج بیجار علاقے کے پاکیزہ صفت اور باایمان عوام کے پر شکوہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد، شراکت اور آگاہی کو ملت ایران کی پیشرفت، قدرت اور ہیبت کو یقینی بنانے والے تین بنیادی عناصر قرار دیا۔ آپ نے صدارتی انتخابات میں قوم کی آگاہانہ شرکت کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایسے لوگوں کو اقتدار میں پہنچائیے جو امام (خمینی رہ) کے بتائے ہوئے راستے، آپ کی اقدار اور اصولوں کے پابند ہوں اور دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کے خلاف استقامت کو اقدار کا درجہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اٹھائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھارہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے شہر بیجار میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ کردستان کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبا اور اساتذہ کے اجتماع سے خطاب میں حقیقی ترقی کے معیار اور خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے دانشوروں، علمی شخصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کو تحقیق و مطالعے اور قومی و مقامی آئيڈیل وضع کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے فرمایا: انقلاب کے چوتھے عشرے میں ترقی و انصاف کو قومی اشو میں تبدیل ہو جانا چاہئے تاکہ منصوبہ بندی اور قومی آئيڈیل کے تعین سے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی عظیم قوم اس عشرے کے اختتام تک اس سلسلے میں فیصلہ کن اقدامات کا مشاہدہ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتوار کی شام صوبہ کردستان کے مختلف اداروں کے عہدہ داروں سے ملاقات میں اسلامی خطوں میں عوام کی خدمت کو انسانی اقدار کا جز قرار دیا اور قدرداں ملت ایران کی بے تکان خدمت کو ملک کے تمام حکام اور عہدہ داروں کا فریضہ بتایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کردستان کے عوام کی خدمت کو مختلف جہات سے ثواب کا کام قرار دیا اور فرمایا: صوبہ کردستان میں حکام کی محنت کی بہت زیادہ ضرورت اور ان دشوار حالات کی وجہ سے جو اسلامی نظام کے دشمنوں نے اپنے آلہ کار گروہوں کے ذریعے علاقے کے عوام اور ان کے خدم گزار حکام کے لئے پیدا کر دئے اس صوبے کے عوام کی خدمت کا ثواب زیادہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم ربانی حضرت آيت اللہ بہجت کے انتقال پرملال پر اپنے تعزیتی پیغام میں فقیہ بے بدل اور عارف بے نظیر کی رحلت کو نا قابل تلافی خسارہ قرار دیا اور اس مصیبت عظمی پر حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ، بزرگ علمائے کرام، مراجع تقلید، آپ کے معزز بازماندگان اور جملہ عقیدت مندوں کے لئے صبر جمیل کی دعا کی۔ تعزیتی پیام کے متن مندرجہ ذیل ہے:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے پانچویں دن آج ہفتے کی صبح مریوان علاقے کے مومن، شجاع اور محبتی عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قومی وقار کو ملت ایران کے درخشاں مستقبل کا بہت موثر عنصر قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ تابناک مستبقل نوجوانوں کا ہے جو اسلام پسندی، قومیت اور علاقائیت کے نسخے پر عمل اور اغیار کے نسخے سے اجتناب کے ذریعے یقینی بن سکتا ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مریوان کے زاگرس اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والے اجتماع سے خطاب میں، ملت ایران کی تحقیر پر کمربستہ اغیار سے مقابلے کو قومی وقار کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا: اس عظیم سرزمین کے دشمن، اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت و ترقی کو پسند نہیں کرتے، بنابریں اغیار کی جانب سے پیش کردہ ہر نسخہ قومی مفادات کے منافی اور ملک کی تعمیر و ترقی، خود مختاری و آزادی اور عزت و وقار کے خلاف ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران چھبیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق سولہ مئی دو ہزار نو کو شہر مریوان کا دورہ کیا اور شہر کے عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقامی افراد کی صفات و خصوصیات بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کی کی ترقی کے لئے منظور شدہ تجاویز اور پروگراموں پر سنجیدگی سے عملدرآمد اور صوبے کی ترقی کے عمل کو سرعت بخشنے پر تاکید کی۔ جمعہ کی شب نائب صدر، کابینہ کے اراکین، صوبہ کردستان کے گورنر، صوبے میں ولی فقیہ کے نمایندے ، پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی اور ماہرین کی کونسل میں صوبے کے نمایندوں کے ساتھ قائد انقلاب اسلامی کا ایک اجلاس ہوا جس میں آپ نے منظوری پانے والے پروگراموں اور تجاویز پر عملدرآمد کو نہایت ضروری اور اہم قرار دیا۔
صوبہ کردستان کے ادبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، معاشی، علمی اور دیگر شعبوں کی برجستہ شخصیات اور دانشوروں کے ساتھ قائد انقلاب اسلامی کی ایک نشست ہوئی جس میں صوبے کے دانشوروں اور علمی شخصیات نے مختلف مسائل کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات پیش کئے۔ آج صبح تین گھنٹے تک چلنے والی اس نشست میں دانشور طبقے نے اپنی اپنی تجاویز بھی بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے تیسرے دن جعمرات کی شام کردستان، کرمانشاہ اور مغربی آذربائیجان صوبوں کے قبائلی عمائدین اور برجستہ شخصیات سے ملاقات کی۔ آپ نے اس ملاقات میں قبائل کو اسلام، انقلاب اور ایران کے قابل فخر وفادار سپاہیوں اور شجاع، مومن و غیور محافظوں سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے عوام اور حکام کی ہوشیاری و بیداری اور اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں درخشاں مستقبل عظیم ملت ایران کا مقدر بن چکا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے چوبیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق، چودہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران صوبے کی علمی شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے اجتماع سے خطاب کیا
قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صوبہ کردستان میں مسلح فورسز کی مشترکہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سکیورٹی اور قوم کی عام زندگی میں امن و سکون کی فضا کی ضمانت کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کے وجود کا فلسفہ قرار دیا اور ملت ایران کے وقار کے بنیادی عامل کے طور پر قوم بالخصوص مسلح فورسز کی آمادگی کے تسلسل اور تقویت کی نشاندہی کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ کردستان کے علماء و دینی طلبا سے ملاقات میں افکار کی منتقلی کے ذرائع کی پیشرفت اور پیچیدگی اور ایران میں اسلامی حکومت کے وجود کو عصر حاضر کی دو اہم خصوصیات قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: علما اور دینی شخصیات کو چاہئے کہ حالات کی مکمل شناخت اور ان دونوں خصوصیات پر توجہ اور ان سے استفادے کے ذریعے حق و عدل کے قیام اور ظلم و فتنہ و فساد کے خاتمے کے اپنے نہایت سنگین فریضے پر عمل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان میں بدھ تیئيس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تیرہ مئی دو ہزار نو عیسوی کو مسلح فورسز کی ایک مشترکہ تقریب سے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام میں مسلح فورسز کے خاص کردار کی وضاحت کی اور ساتھ ہی دشمنوں کی سازشوں اور سرگرمیوں کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار اور جوابی کاروائی کے لئے تیار رہنے کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے صدر مقام سنندج میں آزادی اسکوائر پر عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب میں شہر میں اپنے شاندار استقبال پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور صوبے کے مہذب اور با ایمان عوام کی استقامت و ہوشیاری اور مجاہدت و جاں نثاری کو سراہا۔ آپ نے قومی وقار کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اہل اور با صلاحیت امیدواروں میں سے سب سے صالح ترین اور بہترین صدر کے انتخاب کے معیار بیان فرمائے۔
اسلام و انقلاب اور ایران کے مستحکم قلعے کردستان میں آج قائد انقلاب اسلامی کا شاندار اور پر جوش خیر مقدم ہوا۔ علاقے کے مومن، غیور، محبتی اور اعلی ثقافت کے مالک عوام نے اسلامی انقلاب اور قوم کے اعلی اہداف کے دفاع کے سلسلے میں با برکت شیعہ سنی اتحاد کی بڑی خوبصورت تصویر پیش کی جو کردستان کی تاریخ میں بے نظیر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج شام سنندج کے قبرستان بہشت محمدی میں کردستان کے مظلوم و دلاور شہدا کو یاد کیا اور ان کے لئے فاتخہ خوانی و ان کے درجات کی بلندی کی دعا کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج شام صوبہ کردستان کے شہدا کے بازماندگان اور جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جانبازوں سے ملاقات میں معاشرے کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو شہدا کی یاد تازہ رکھنے اور ایمانی، عقیدتی و ثقافتی حدود پر دشمن کے نرم حملوں کی جانب سے ہوشیار رہنے کی دعوت دی۔قائد انقلاب اسلامی نے شہادت کی خوشبو کو پورے ایران میں بسی شمیم بہشتی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ صوبہ کردستان کے شہدا دیگر شہیدوں سے زیادہ مظلوم ہیں، اسی طرح ان کے خاندانوں نے اپنے عزیزوں کا فراق برداشت کرنے کے ساتھ ہی انقلاب مخالف سیاسی و نفسیاتی دباؤ کا بھا مقابلہ کیا اور دشمنوں اور ان کے آلہ کاروں کو رسوا کرکے ملت ایران کے عظیم الہی امتحان میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بارہ مئی سن دو ہزار نو عیسوی کو صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران صوبے کے شہدا کے خاندانوں اور مسلط کردہ جنگ میں ملک کے دفاع کے لئے جان کی بازی لگا دینے والے ایثار پیشہ افراد سے ملاقات میں شہادت کے بلند مرتبے کو بیان کیا اور ساتھ ہی کردستان کے شہدا اور ان کے خاندانوں کو ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مظلوم اور ستم رسیدہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بارہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے دورے کے موقع پر شیعہ سنی، علما و طلبہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔
اختصار سے بیان کیا جائے تو ولایت سے مراد یہ ہے کہ اسلام، نماز، روزہ، زکات، ذاتی اعمال اور عبادات ہی کا نام نہیں ہے۔ اسلام ایک سیاسی نظام بھی رکھتا ہے جس کے تحت اسلامی قوانین کے تناظر میں حکومت کی تشکیل کا نظریہ موجود ہے۔ اسلام حکومت کو ولایت کا نام دیتا ہے اور جو شخص حکومت کا سربراہ ہے اسے والی، ولی اور مولا کہتا ہے جو لفظ ولایت کے ہی مشتقات ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں حکومت کو ولایت کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں حاکم کا عوام سے محبت آمیز، جذباتی و فکری و عقیدتی رشتہ ہوتا ہے۔ جو حکومت کودتا اور بغاوت کا نتیجہ ہو جس میں حاکم کا عقیدہ و نظریہ عوام کے نزدیک قابل قبول نہ ہو اور حاکم عوام کے احساسات و جذبات کو درخور اعتنا نہ سمجھتا ہو، جس حکومت میں حکام آج کل کے حکمرانوں کی مانند مخصوص قسم کے وسائل و اسباب سے بہرہ مند ہو اور اس کے لئے دنیوی آسائشوں سے بھری مخصوص جگہ آراستہ کی گئی ہو اور جو حکمراں کے لئے شرط کا درجہ رکھنے والی خصوصیات و کمالات کی بنا پر نہیں بلکہ وراثت کی بنیاد پر حاکم بن گیا ہو وہ نہ تو ولی ہے اور نہ اس کی حکومت ولایت کہلائے گی۔ ولایت عبارت ہے اس حکومت سے جس میں عوام اور حکام کے درمیان، فکری، عقیدتی اور جذباتی رابطہ اور محبت کا رشتہ ہو، جس میں عوام حاکم سے جڑے ہوں اس سے قلبی وابستگی رکھتے ہوں اور حاکم بھی اس سیاسی نظام اور فرائض کو الہی عطیہ اور خود کو اللہ تعالی کا بندہ سمجھتا ہو۔ ولایت میں غرور و تکبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ولایت کا اطلاق اس وقت ہوگا جب والی یا ولی کے ساتھ عوام کا نزدیکی محبت آمیز رشتہ ہو۔ یعنی والی خود عوام کے درمیان سے آئے اور ولایت و حکومت کی باگڈور سنبھالے۔ جس نظام حکومت کا تعارف اسلام نے کرایا ہے وہ آج کل رائج جمہوری نظاموں سے کہیں زیادہ عوام پسندی پر مبنی ہے۔ یہ نظام عوام کے دلوں، افکار و نظریات، احساسات و جذبات، عقائد و اقدار اور فکری احتیاجات سے جڑا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت عوام کی خادم ہوتی ہے۔ اسلام میں حاکمیت کے نظرئے کی بنیاد یہی ہے۔ ولایت یعنی اسلامی معاشرے کی سرپرستی۔ یہ طرز حکومت دیگر معاشروں کی حکومتوں سے مختلف و متفاوت ہے۔ اسلام میں معاشرے کی سرپرستی کے مسئلے کا تعلق اللہ تعالی سے ہے۔ کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے انسانوں کے امور کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے۔ یہ حق اللہ تعالی کی ذات سے مختص ہے جو تمام انسانوں کا خالق، ان کی مصلحتوں سے واقف اور ان کے جملہ امور کا مالک ہے۔ بلکہ وہ تو عالم ہستی کے ایک اک ذرے کے تمام امور کا مالک ہے۔ کوئی بھی طاقت، کوئی بھی شمشیر، کوئی بھی دولت اور کوئی بھی علمی ملکہ کسی کو بھی یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ دیگر انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرے۔ اللہ تعالی اس ولایت و حکومت کے نفاذ کے لئے اپنے خاص ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔ جب اسلامی حاکم کا انتخاب نص کے ذریعے جیسا کہ ہم حضرت امیر المومنین اور بقیہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں، انجام پایا ہو یا معین کردہ معیاروں کے مطابق عمل میں آیا ہو اور اسے عوام کے امور کا انتظام سونپ دیا جائے تو یہ ولایت، ولایت الہی کہلائے گی۔ یہ حق الہی اور خدائی اقتدار ہے جو عوام پر نافذ ہوا ہے۔ اگر کوئی ولایت الہی اور خدائی اقتدار کو تسلیم نہ کرے تو اس کی حکومت کیسی بھی ہو عوام پر حکمرانی کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ نکتہ بھی اسلامی معاشرے کی تقدیر کے سلسلے میں بڑا اہم اور حیاتی ہے۔ولایت الہی کی خصوصیات میں ، قدرت، حکمت، انصاف اور رحمت شامل ہیں۔ جو شخص اور سسٹم عوام کے امور کا نظم و نسق سنبھالتا ہے، اسے الہی قدرت و حکمت، انصاف و مساوات اور رحمت و عطوفت کا مظہر ہونا چاہئے۔یہ خصوصیت، اسلامی اور غیر اسلامی سماجوں کے درمیان خط فاصل کا درجہ رکھتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف، علم و دانش، دین و مذہب اور رحمت و عطوفت کا بول بالا ہونا چاہئے۔ یہاں کوئی خود غرض انسان حاکم نہیں بن سکتا، ھوی و ہوس کی حکمرانی نہیں ہو سکتی۔اگر مدنی معاشرے سے مراد مدینۃ النبی کا معاشرہ ہے تو ولی فقیہ اس معاشرے میں تمام امور کا مالک ہے۔ کیونکہ مدینۃ النبی میں دین کی حکومت ہے، ولایت فقیہ بھی اسی طرح کسی ایک شخص کی حکومت کا نام نہیں ہے بلکہ معینہ معیار کی حکومت ہے۔ کچھ معیار معین ہیں۔ جو بھی ان معیاروں پر پورا اترے گا وہ معاشرے میں ان فرائض کی انجام دہی کر سکتا ہے جو ولی فقیہ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔ اگر مدنی معاشرے سے مراد، جمہوری معاشرہ ہے تو وہ ایسا معاشرہ ہوگا جس میں قانون کی بالادستی ہو۔ ایسے معاشرے میں بھی ولی فقیہ کو وہی قانونی مقام حاصل رہے گا۔ یعنی یہاں عوام کے بالواسطہ انتخاب سے معیاروں پر اسے تولا جائے گا۔ جیسے ہی اس میں کوئی معیار زائل ہوا اسے معزول کر دیا جائے گا۔ پالیسی سازی کے عمل میں ولی فقیہ بنیادی کردار کا حامل ہے، تاہم اجرائی امور میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے آئین کی رو سے ولایت فقیہ کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کے ذمہ دار افراد کے اختیارات اور ذمہ داریاں سلب کر لی جائیں۔ ملک کے مختلف اداروں اور عمائدین کے فرائض ان سے کوئی بھی سلب نہیں کر سکتا۔ نظام حکومت میں ولی فقیہ کا مقام انجینئر کا ہوتا ہے جو اس کی درست پیشرفت پر نظر رکھتا ہے اور اسے دائیں بائیں کج نہیں ہونے دیتا۔ ولایت فقیہ کا یہی بنیادی مفہوم و معنی ہے۔ بنابریں ولایت فقیہ نہ تو محض علامتی عہدہ ہے چونکہ بسا اوقات اس کی جانب سے اہم سفارشات آتی ہیں، اور نہ ہی حکومتی امور میں اجرائی رول ادا کرتا ہے کیونکہ ملک میں اجرائی، عدالتی، اور قانون سازی کے امور کے لئے حکام معین کئے گئے ہیں جنہیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرنا اور جواب دہ ہونا ہے۔ اس پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے سسٹم میں ولایت فقیہ کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ گوناگوں کوششیں اور کارکردگی نظام کی پش قدمی کے عمل کو اہداف اور اقدار سے منحرف نہ کر دیں، اس میں دائیں یا بائيں کجی نہ پیدا ہو جائے۔ اعلی اہداف کی جانب نظام کی پیشرفت پر نظر رکھنا اور اس کی صیانت و حفاظت ولی فقیہ کی سب سے بنیادی اور اہم ذمہ داری ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسلام کے سیاسی باب اور دین کی تعلیمات کے اندر سے اس کردار کو اخذ کیا۔ اسی طرح تمام ادوار میں شیعہ فقہ کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ ہمارے فقہا نے یہ کردار دین کے اندر سے اخذ کیا اور وہ اس کے معترف بھی رہے۔ اسلام میں انسانوں پر صرف وہی حاکمیت اور حکمرانی قابل قبول ہے جس کا تعین اللہ تعالی نے کیا ہو۔ وہی ولایت قابل اتباع ہے جس کی توثیق صاحب شریعت کی جانب سے ہوئی ہو۔ صاحب شریعت کی جانب سے توثیق کے معنی یہ ہیں کہ ولایت کے ہر درجے کے لئے اس کی مخصوص اہلیت یعنی عدالت و تقوی ضروری ہے، نیز عوامی مقبولیت بھی لازمی ہے۔ یہ مذہبی جمہوریت کے اصول ہیں جو بڑے مستحکم اور با معنی ہیں۔ بعض افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ (اسلامی جمہوریہ ایران کے) آئین میں فقیہ کی ولایت مطلقہ کی بات کہی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ولی فقیہ مطلق العنان ہے، جو چاہے کرے۔ ولایت مطلقہ کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں۔ ولی فقیہ کو پوری باریک بینی اور توجہ سے قانون کا اتباع کرنا ہوتا ہے، ولی فقیہ کے لئے قانون کا احترام لازمی ہوتا ہے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکام اور امور مملکت کے ذمہ داران قانون پر عمل آوری کے سلسلے میں بعض اوقات مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ قوانین بھی تو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں نا! ایسے مواقع کے لئے آئين نے راہ حل تجویز کی ہے کہ امور مملکت کے ذمہ داران کو مالیاتی قانون، خارجہ پالیسی، تجارتی، صنعتی یا تعلیمی شعبے میں مشکلات در پیش ہوں اور انہیں کوئی راستہ نظر نہ آ رہا ہو تو ایسی صورت حال میں ولی فقیہ سے رجوع کیا جائے۔ ولی فقیہ، صدر جمہوریہ، وزراء اور اراکین پارلیمنٹ سب قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔ جس اسلامی معاشرے میں ولایت ہوتی ہے اس کے تمام اجزاء اور شعبے ایک دوسرے سے اور اسی طرح معاشرے کے مرکزی نقطے یعنی ولی فقیہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی وابستگی اور اتصال کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اندر سے متحد اور ایک دوسرے سے متصل ہوتا ہے۔ یہ معاشرے بیرونی دنیا میں بھی اپنے ہم خیالوں کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور دشمنوں کو زوردار ٹکر دیتا ہے۔ ولایت یعنی پارسا انسانوں کی حکومت، ایسے انسانوں کی حکمرانی جو خواہشات اور شہوت نفسانی کے مخالف ہوتے ہیں، جو نیکیاں انجام دیتے ہیں۔ اسلامی ولایت سے مراد یہ چیز ہے۔ کون سا ملک اور کون سی قوم ہے جو اس کی خواہاں نہ ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح ملک کے ہزاروں اساتذہ، نرسوں اور مزدوروں سے ملاقات میں ان تینوں طبقات کو معاشرے کے سب سے با اثر طبقات میں شمار کیا اور ملک کے مختلف انتظامی سطح کے عہدہ داروں کے انتخاب میں عوام کے بے مثال اور فیصلہ کن کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات کو غیر قابل اعتبار قرار دینے کی دشمنوں کی سازشوں کے باوجود عظیم ملت ایران صدارتی انتخابات میں پر جوش شرکت کرکے ایسا انتخابی منظر پیش کرے گی کہ دشمن خشمگیں ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نو اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق انتیس اپریل دو ہزار نو کو یوم محنت کشاں، یوم استاد اور نرس ڈے کی مناسبت سے تینوں طبقوں سے اپنی ملاقات میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کیا۔
فن و ہنرفن و ہنر خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، الہی عطیہ ہے۔ حالانکہ فن اپنے طرز اظہار میں نمایاں ہوتا ہے لیکن فن کی حقیقت یہی نہیں ہے بلکہ اظہار سے قبل بھی ایک فنکارانہ احساس و ادراک ہوتا ہے جو در حقیقت سب سے بنیادی شئ ہے۔ جب ایک حقیقت، لطافت اور خوبصورتی کا ادراک ہو جاتا ہے تب ایک فنکار اس ادراک کے سہارے ایسے ہزاروں ظریف و لطیف نکات اپنے فنکارانہ ذوق اور ہنرمندانہ احساس کے ذریعے وجود میں لاتا ہے جن میں کسی ایک نکتے کا بھی فہم و ادراک عام آدمی کے لئے ممکن نہیں۔ اسے کہتے ہیں حقیقی فن و ہنر جس کا سرچشمہ ایک ادراک ایک رد عمل اور ایک اظہار ہے۔ در حقیقت فن ایک عطیہ الہی اور بڑی با افتخار حقیقت ہے۔ فطری سی بات ہے کہ دیگر ثروتوں کی مانند جس شخص کو اللہ تعالی اس دولت سے نواز دیتا ہے اسے اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا ہوتی ہیں۔ یعنی الہی عطیہ ہمیشہ اپنے ساتھ کچھ فرائض بھی لیکر آتا ہے۔ فن ایسی دولت نہیں جسے محنت و مشقت کے ذریعے حاصل کر لیا جائے، جب تک آپ کے اندر وہ مخصوص فنکارانہ استعداد نہ ہوگی آپ کتنی ہی محنت کر لیجئے، ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ یہ استعداد آپ کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ تو خداداد شئ ہوتی ہے۔ آپ کو ساری نعمتیں اللہ تعالی عطا کرتا ہے، اب ممکن ہے کہ اس کا ذریعہ معاشرہ، ماں باپ، ماحول یا دیگر چیزیں بن جائیں۔ محنت و کد و کاوش کی توفیق اور موقع بھی اللہ تعالی ہی سے آپ کو ملا ہے جس کی بنا پر آپ اپنی فنکارانہ صلاحیت کو نکھار پانے میں کامیاب ہوئے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ فرض شناس فن کی ترکیب کے دونوں لفظ بہم متضاد ہیں۔ یعنی فن وہ چیز ہے جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ہوتی ہے جبکہ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ایک قید و بند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان دونوں چیزوں میں مطابقت کیونکر پیدا ہو سکتی ہے؟! یہ ایک نظریہ ہے جو صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک فنکار کی فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کا سوال ہے تو اس کا تعلق اس کے انسان ہونے سے ہے۔ کوئی بھی ہو فنکار ہونے سے پہلے وہ ایک ا نسان ہے اور انسان بے حس اور غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ ایک انسان کا اولیں فریضہ دیگر انسانوں کے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ یوں تو زمین و آسمان اور قدرت و جہان کے سلسلے میں بھی انسان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری دیگر انسانوں کے تعلق سے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک فنکار اپنی خصوصیات کی بنا پر کچھ اور ذمہ داریوں کا بھی احساس کرتا ہے۔ فنکار کے سامنے اپنے فن کی شکل و پیکر اور اسی طرح اس کے مضمون کے سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ہو اسے محدود نہیں رہنا چاہئے۔ یہ ایک طرح کی ذمہ داری ہے۔ آرام طلب اور کاہل فنکار، ایسا فنکار جو اپنے فن اور خلاقیت کے لئے سعی و کوشش نہ کرے در حقیقت اپنی فنکارانہ ذمہ داری و فریضے کو نظر انداز کر رہا ہے۔ فنکار میں سعی پیہم کا جذبہ ہونا چاہئے۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فنکار کبھی محنت کرکے کسی ایسی منزل پر پہنچ جائے جس کے بعد اسے محسوس ہو کہ اب اور محنت کی گنجائش ہی نہیں ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن جب تک فن کو نکھارنے اور صلاحیتوں کو بروی کار لانے کی گنجائش باقی ہے، اسے کوشش کرنا چاہئے۔ یہ ذمہ داری ہے فن اور فن پارے کے قالب و پیکر کے سلسلے میں جو بغیر جوش و ولولے اور عشق و الفت کے پیدا نہیں ہوتی۔ ویسے عشق و الفت بھی ایک ذمہ داری ہے۔ یہ بڑا قوی جذبہ ہے جو انسان کو محنت و مشقت کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اس میں سستی و آرام طلبی پیدا نہیں ہونے دیتا۔اس (قالب و پیکر) کے علاوہ (فن پارے کے) مضمون کے سلسلے میں بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہم کس چیز کی عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی با وقار اور محترم شخصیت ہوتی ہے تو اس کا ذہن و دل اور اس کی فکر و نظر بھی محترم ہوتی ہے۔ ہر مخاطب کے سامنے صرف اس بنا پر کہ وہ ہمارے روبرو بیٹھا ہماری باتیں سن رہا ہے، ہر چیز تو پیش نہیں کی جا سکتی۔ غور کرنا پڑے گا کہ اس سے کیا بات کرنی ہے۔ فن کے شعبے میں جو چیز ذمہ دار اور دلسوز افراد کے لئے باعث تشویش بن گئی ہے وہ یہ ہے کہ آزادی تخیل یا آزادی فن کے نام پر ہتک حرمت اور بد اخلاقی نہ ہو جائے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ بنابریں فرض شناس اور ذمہ دار فن کی ترکیب ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کیا ہے؟ یہ بات کہ ایک فنکار فکر و نظر کی کس منزل پر فائز ہے اور وہ حقیقت کو جزوی طور پر ہی سمجھ سکتا ہے یا کلی طور پر اس کے ادراک کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک الگ بحث ہے لیکن بہرحال فکر و نظر میں جتنی گہرائی اور بلندی ہوگی فنکارانہ تخيل میں اتنی ہی لطافت و ظرافت پیدا ہوگی۔ حافظ صرف ایک فنکار نہیں ہیں بلکہ ان کی باتوں میں بلند معرفت جلوہ گر ہے۔ یہ معرفت صرف فنکار بن جانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے فکری اور فلسفیانہ سرمایہ ضروری ہوتا ہے۔ فنکارانہ ادراک اور فنکارانہ طرز بیان کو بلند فکر و نظر کے سہارا، سرچشمہ اور تکیہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ سب کی فکری سطح یکساں نہیں ہوتی اور اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ چیز فن و ہنر کی تمام اقسام میں صادق آتی ہے۔ معماری سے لیکر مصوری، سنیما، تھئیٹر، شعرو موسیقی اور فن و ہنر کی دیگر اقسام تک ہر جگہ اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کو کوئی ایسا معمار نظر آ جائے جو بڑی اچھی فکر کا مالک ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی ملاقات ایسے معمار سے ہو جائے جس کے پاس کوئی آئیڈیا ہی نہیں۔ یہ دونوں معمار جب عمارت تعمیر کریں گے تو دونوں میں بڑا فرق رہے گا۔ اگر اس طرح کے دو آدمیوں کو ایک شہر کی تقدیر سونپ دی جائے تو شہر کا آدھا حصہ دوسرے نصف حصے سے بالکل متفاوت ہوگا۔ معلوم ہوا احساس ذمہ داری اور فرض شناسی لازمی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان بغیر جوش و جذبے کے اور گرے ہوئے مورال کے ساتھ بس یونہی فنکار بن جائے اور نام کمائے۔ فنکار کے اندر ایک مخصوص سرور ہوتا ہے جو دیگر خوشیوں سے مختلف ہوتا ہے اور عام لوگوں کے ہاں نظر بھی نہیں آتا۔ انسان کے اندر یہ سرور اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے اپنے ہدف سے پوری آگاہی ہو اور اس کی ایک ایک حرکت نپی تلی ہو تب ہی تو وہ اپنی ہنرمندی اور فنکاری سے سرور حاصل کرے گا کہ اس نے اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے دیا۔ بنابریں ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاقیات، اعلی دینی معرفت و تعلیمات پر توجہ دی جائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ سب سے پہلے تو فن کو اس کے حقیقی مقام پر رکھتے ہوئے توجہ کا مرکز بنایا جائے گا اور پھر اہل فن حضرات اپنے وجود میں پائے جانے والے اس گراں قدر ذوق اور صلاحیت پر دھیان دیں گے اور اس کا احترام کریں گے۔ اس صلاحیت کا احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا استعمال اس کے شایان شان مقام پر کریں گے۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تمہاری جان اور انسانی وجود نہایت با ارزش شئ ہے، اس جنت کے علاوہ جس کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے کوئی بھی چیز اس جان کی قیمت نہیں قرار پا سکتی۔ اسے تم اللہ تعالی کی جنت کے علاوہ کسی بھی شئ کے سپرد نہ کرنا۔ فن انسانی جان کا سب سے قیمتی اور با ارزش حصہ ہے، اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ اسے اللہ تعالی کی راہ میں استعمال کرنا چاہئے۔ دینی فن و ہنر سے مراد وہ فن ہے جو دین اسلام کی تعلیمات اور اہداف کو مجسم کر دے۔ یہ اہداف وہی چیزیں ہیں جو انسان کی خوشبختی، معنوی و روحانی حقوق، بلندی و سرفرازی، تقوی و پرہیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بناتی ہیں۔ دینی فن، دینداری کے دکھاوے اور ریاکاری کے معنی میں ہرگز نہیں ہے، یہ ضروری بھی نہیں کہ اس فن کے ساتھ دینی کا لفظ بھی ضرور لگا ہو۔ کیونکہ بہت سے فن ایسے ہیں جو صد فیصد دینی ہیں لیکن ان میں غیر دینی الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تصور درست نہیں کہ دینی فن و ہنر وہ ہے جو ہر حال میں کسی دینی و مذہبی داستان کی عکاسی کرے یا کسی مذہبی چیز مثلا علم دین وغیرہ کی بات کرے۔ دینی فن وہ ہے جو ان تعلیمات اور مفاہیم کی ترویج کرے اور انہیں نا قابل فراموش بنائے جن پر تمام الہی ادیان بالخصوص دین اسلام نے خاص توجہ دی اور ان کی ترویج کی راہ میں بڑی قیمتی جانیں قربان ہو گئیں۔ یہ تعلیمات و مفاہیم بڑے اعلی و ارفع ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانی زندگی میں شامل کر دینے کے لئے پیغمبروں نے سختیاں برداشت کیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم بیٹھے بیٹھے پیغمبروں، مصلحین اور مجاہدان راہ خدا کی کوششوں اور کاوشوں پر نکتہ چینی کریں یا انہیں نظر انداز کر جائيں۔ دینی فن انہیں تعلیمات و مفاہیم کو منظر عام پر لاتا ہے، انصاف و مساوات کو اقدار کی حیثیت سے سماج میں متعارف کراتا ہے۔ حالانکہ ممکن ہے بظاہر اس میں لفظ دین اور انصاف و مساوات کے بارے میں کسی آیت یا حدیث کو نقل نہ کیا گیا ہو۔ مثلا فلموں اور ڈراموں میں یہ ضروری نہیں کہ ایسے نام اور شکلوں کو پیش کیا جائے جو دین اور دینداری کی علامت بن چکی ہیں، تاکہ یہ ڈرامہ یا فلم دینی ہو جائے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کے بارے میں با اثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچا دیجئے تو آپ نے دینی فن کا تقاضا پورا کر دیا۔ ایک اور نکتے کی جانب بھی میں اشارہ کرنا چاہوں گا اور وہ ہے انقلاب سے متعلق فن و ہنر۔ ایک قوم آٹھ سالہ دفاع کے دوران اپنے پورے وجود کے ساتھ میدان کارزار میں اتر پڑی۔ نوجوان میدان جنگ میں گئے اور اس با ارزش راہ کے لئے جس کا انہوں نے انتخاب کیا تھا جاں نثاری و فداکاری کی۔ بیشتر افراد دین کی حفاظت کے لئے گئے، ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ افراد نے وطن اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے خیال سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہو۔ محاذ جنگ کے پیچھے ماں باپ، بیویاں اور بچے بھی جو کچھ کر رہے تھے وہ بھی عظیم کارنامہ تھا۔ آپ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے واقعات پر نظر دوڑائیے اور غور کیجئے کہ ایک معاشرے کی حالت و کیفیت پر فنکارانہ نگاہ ڈالنے کا اس سے بہتر کوئی موقع و محل ہو سکتا ہے؟! آپ دنیا کے شہرہ آفاق ڈراموں میں جب کسی انسان کی جاں نثاری کا منظر دیکھتے ہیں تو اس کی تعریف و ستائش کئے بغیر نہیں رہتے۔ جب کوئی فلم، تصویر، ترانہ یا پینٹنگ کسی انقلابی یا کسی ملک کے بہادر سپاہی کی عکاسی کرتی ہے تو آپ دل سے اس کے کارنامے کو سراہتے ہیں۔ اس فن پارے میں جو چیز پیش کی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ با ارزش اور با عظمت ہزاروں واقعات، مقدس دفاع کے آٹھ برسوں اور خود انقلاب کے دوران آپ کے گھر میں رونما ہوئے۔ کیا ان کی دلکشی اور خوبصورتی کسی سے کم ہے۔ کیا فن ان واقعات کو نظر انداز کر سکتا ہے؟ فن سے انقلاب کی بس یہی توقع ہے اور اس میں کوئی جبر و اکراہ بھی نہیں ہے۔ صرف فنکارانہ ذوق کو بروی کار لائے جانے کی توقع ہے۔ فن وہی ہے جو خوبصورتی کا ادراک کرے۔
عراق میں زائرین حسینی پر وحشیانہ حملے کی مذمت
رہبرانقلاب اسلامی نے عراق میں حالیہ ہولناک دہشت گردانہ واقعات اورزائرین حسینی کی مظلومانہ شہادت پرتعزیتی پیغام جاری کیا ہے ۔ پیغام مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عراق میں ہولناک دہشت گردانہ واقعات اور زائرین حسینی کی مظلومانہ شہادت نے ایسے دلوں کو غمزدہ اور ماتمدار بنادیا ہے جو اہل بیت پیغمبر کے عشق ومحبت میں ہی دھڑکتے اور اپنی سعادت ونجات محمد وآل محمد علیھم السلام کی پیروی میں مضمر سمجھتے ہيں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج امام حسین علیہ السلام کیڈٹ کالج کے اسٹوڈنٹس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب علم، جہاد، ایمان اور مستحکم ارادہ ایک ساتھ مجتمع ہو جائیں تو ایسے انسان معرض وجود میں آتے ہیں جن کی برکت سے مستقبل کے تئیں امید بڑھتی ہے۔ تقریب کا آغاز اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس قومی ترانے سے ہوا۔ اس تقریب میں قائد انقلاب اسلامی نے علم و دانش کو الہی عطیہ قرار دیا اور فرمایا کہ بد قسمتی سے بعض انسان اس الہی عطیے کو فساد و طغیانی اور ظلم و ستم کے لئے استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا دو حصوں ظالم و مظلوم میں تقیسم ہو گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پندرہ اپریل دو ہزار نو کو امام حسین علیہ السلام ڈیفنس یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظام میں مسلح فورسز کے کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے دشمن سے ہرگز مرعوب نہ ہونے پر تاکید کرتے ہوئے اسلامی نظام کے سپاہیوں کی روحانی ہیبت کو دشمن کے مادی رعب و دبدبے سے زیادہ موثر قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح آرمینیا کے صدرسرز سرگیسیان سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو بہت مناسب قرار دیا اور فرمایا کہ دورہ تہران کے دوران ہونے والے معاہدوں پر سنجیدگی سے عملدرآمد کیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران کی حکومت اور عوام کی جانب سے آرمینیا سے دوستانہ تعلقات کے خیر مقدم کی جانب اشارہ کیا اور مختلف مراحل میں آرمینیائی ہم وطنوں کے کردار اور رول کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے آرمینیائی ہم وطنوں نے آٹھ سالہ جنگ کے دوران اپنے مسلم بھائیوں کے شانہ بشانہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کا دفاع کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج شام ونیزوئلا کے صدر ہوگو چاوز سے ملاقات میں ان کے شجاعت پسندانہ اور منصفانہ موقف نیز ان کی عوام دوستی کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ ونیزوئلا میں آپ کی حکومت کی تشکیل پورے لاطینی امریکہ کی تاریخ میں ایک نیا باب تھا اور ونیزوئلا کی حکومت اور عوام کی دلیری و شجاعت نے علاقے کے عوام میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ترقی و مساوات کے مواقع، میدانوں اور ضرورتوں کی وضاحت اور استعمال و خرچ کے معیار میں اصلاح کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی فرمائی۔ آپ نے دسویں دور کے صدارتی انتخابات کے موضوع پر گفتگو کی اور ساتھ ہی ایران اور امریکہ کے مسئلے کا جائزہ لیا۔ آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملت ایران دستیاب مواقع اور تیاریوں کی بنا پر انقلاب کے چوتھے عشرے کو بنیادی ترین ہدف یعنی ترقی و مساوات کی سمت پیشرفت کے اہم قدم اور چھلانگ میں تبدیل کر دے گی۔
ایرانی سال تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے حسب دستور اپنا پیغام نوروز جاری فرمایا۔ اس پیغام میں آپ نے نئے ہجری شمسی سال کو معیار صرف کی اصلاح کا سال قرار دیا۔ پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے: بسماللَّهالرّحمنالرّحيميا مقلّب القلوب و الأبصار. يا مدبّر اللّيل و النّهار. يا محوّل الحول و الأحوال. حوّل حالنا الى احسن الحال.عید نوروز جس کی آمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے نزدیک ہوئی ہے اور جو اس با برکت دن کی قربت پاکر زیادہ با عظمت ہو گئی ہے، میں اس عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ملک بھر کے اپنے تمام ہم وطنوں کو اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں سکونت پذیر ایرانیوں کو نیز ان ممالک کے عوام کو جو عید نوروز مناتے اور اس مناسبت سے جشن پربا کرتے ہیں۔ میں خصوصی مبارک باد پیش کرتا ہوں عظیم شہداء کے اہل خاندان اور (مقدس دفاع میں زخمی ہو جانے والے) جانبازوں اور ( جان کی بازی لگا دینے والے) ایثار پیشہ افراد کو۔ امید کرتا ہوں کہ یہ سال ان کے لئے اچھا سال ثابت ہوگا۔ تیرہ سو ستاسی کا سال بڑے اہم واقعات والا سال تھا۔ عالمی سطح بھی اور ملک کی اندرونی سطح پر بھی۔ عالمی سطح پر متعدد بڑے اور اہم واقعات رونما ہوئے جن کے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان میں سے ایک معاشی شعبے میں رونما ہونے والا عظیم مالیاتی بحران ہے جو امریکہ سے شروع ہوکر یورپ اور دیگر ممالک منجملہ ہمارے علاقے کے ملکوں تک پھیل گیا۔ عالمی برادری کے لئے یہ مسئلہ بہت بڑا ہے۔ اس کا اثر لوگوں کی روز مرہ کی زندگی اور ان کے اقتصادی پروگراموں پر نہیں بلکہ ان کے سرمایہ دارانہ نظام کے تعلق سے ان کے طرز فکر اور زاویہ نگاہ پر بھی اس کے حیرت انگیز اثرات مرتب ہوں گے۔ خوش قسمتی سے ہمارا ملک اور ہماری قوم بڑی حد تک اس بھیانک عالمی طوفان کے نقصانات سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی۔ البتہ لازمی ہے کہ احتیاطی تدابیر بدستور جاری رہیں۔گزشتہ سال کے دوران عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والے دیگر اہم واقعات میں ایک، غزہ پر صیہونی حکومت کا حملہ تھا۔ جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی۔ بعض افراد اسلامی استقامت اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کینہ شتر رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے کو اپنے مخصوص انداز میں دیکھا۔ اس زمرے میں بنیادی طور پر مغربی ممالک کے بہت سے سیاستداں شامل ہیں۔ کچھ لوگوں نے مظلوم فلسطینی عوام اور اہل غزہ کی حمایت کے جذبے کے ساتھ اس مسئلے پر توجہ دی۔ البتہ اس بزدلانہ اور ظالمانہ حملے سے جو نتائج سامنے آئے وہ پوری دنیا کے لئے مبہوت کن تھے۔ غزہ کے بے گناہ عوام نے بائیس دنوں تک زبردست استقامت کا مظاہرہ کیا اور صیہونی حکومت نے بائیس دنوں تک ان عوام پر اپنی پوری توانائی سے حملے کئے۔ جنگ کا خاتمہ صیہونی حکومت کی شکست پر ہوا۔ ظالموں اور تسلط پسندوں کے مد مقابل قوموں کی استقامت کے امکانات کے تعلق سے دنیا والوں کے لئے یہ بہت اہم تجربہ رہا۔ اس کے علاوہ بھی علاقے اور دنیا کی سطح پر دوسرے بہت سے واقعات رونما ہوئے تاہم ان کا تذکرہ یہاں مقصود نہیں ہے۔ ملکی سطح پر بھی سال کے آغاز سے اختتام تک متعدد اہم واقعات سامنے آئے۔ تیرہ سو ستاسی کا سال ایٹمی شعبے سے متعلق بڑی اچھی خبروں سے شروع ہوا اور ملت ایران کو اطلاع ملی کہ اس کے نوجوانوں اور تبحر علمی کے مالک اور محنت و مشقت کے خو گر سائنسدانوں نے عالمی پابندیوں کے باوجود ایٹمی شعبے میں ملک کی ترقی کو جامہ عمل پہنایا اور دنیا کے سامنے اس اہم ترین شعبے میں ملت ایران کی صلاحیت کا لوہا منوا لیا۔ اس چیز سے سائنسی شعبے ہی نہیں دیگر شعبوں میں بھی دنیا والوں کی نگاہ میں ملت ایران کو نیا مقام اور نیا اعتبار حاصل ہوا۔ بحمد اللہ (اسی سال کے اندر) آٹھویں پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی تشکیل انجام پائی اور پورے سال اس پارلیمنٹ نے قابل احترام انتظامیہ کے تعاون سے بڑے اچھے کام انجام دئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ تعاون اسی طرح جاری رہے گا۔ الحمد للہ اس سال کے دوران دیگر شعبوں میں بھی بڑے اہم کام انجام پائے۔ اسی ایٹمی شعبے میں ہی اس سال کے اختتام کے قریب بوشہر ایٹمی بجلی گھر کو تجرباتی طور پر چلایا گيا، جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی اور اہم خبر ہے۔ یہ بھی ملک کے اندر ہمارے سائنسدانوں کی ترقی کا نتیجہ ہے جنہوں نے پوری دنیا سے یہ منوا لیا کہ ملت ایران کی ایٹمی شعبے کی پیشرفت کے راستے کو مسدود نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسی شعبے میں دوسرے بھی اہم کام انجام پائے جن کو بیان کرنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہے۔ میں نے ان ترقیوں کے کچھ منتخب نمونوں کا نزدیک سے مشاہدہ کیا اور ایک نمائش میں ان کو قریب سے دیکھا جو واقعی حیرت انگیز بات تھی۔ ہمارے عزیز نوجوانوں اور ہماری بلند ہمت اور محنتی قوم نے سائنس کے شعبے میں بڑی حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اس حیرت انگیز ترقی و پیشرفت نے تیس سال سے اسلامی انقلاب کے خلاف اطراف میں ہونے والے منفی پروپگنڈے کو غلط ثابت کر دیا۔سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کی ایک ترقی مصنوعے سیارے امید کا خلا میں بھیجا جانا بھی تھا۔ اس عظیم کارنامے کا یہ پہلا قدم تھا جس نے ملک کو یہ ٹکنالوجی رکھنے والے دنیا کے معدودے چند ملکوں میں شامل کر دیا اور پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور یہ ثابت کر دیا کہ ملت ایران ذاتی صلاحیتوں سے مالامال ہےاور اپنے بلبوتے پر نشو نما پا رہی ہے اور ملت ایران کی صلاحیتیں محدود نہیں ہیں۔اقتصادی امور کے سلسلے میں بھی میں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ دنیا میں مالی بحران اور اقتصادی کساد بازاری کے تباہ کن طوفان اور بھیانک گردباد کے باوجود اور ایٹمی توانائی کے مسئلے اور دیگر مسائل کے باعث ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی، ملک کے حکام اس طوفان پر غالب رہے اور انہوں نے بڑی حد تک ملک کے اندر اس گردباد کے منفی اثرات کو قابو میں رکھا۔ انہوں نے دنیا کے بہت سے ملکوں کو شدید مشکلات سے دوچار کر دینے والی اس بھیانک موج کے شر سے ہمارے عوام کو محفوظ رکھا نتیجے میں قوم اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکی۔ خدا کرے کہ اقتصادی ترقی روز بروز زیادہ بارآور ہو اور عوام کو مزید خوشیاں نصیب ہوں اور مختلف شعبوں میں گوناگوں ترقی کی راہ ہموار ہو۔مشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ خلاقیت و پیش رفت کا سال خوش قسمتی سے ابتکار عمل کے متعدد نمونوں اور متعدد ترقیوں کا سال رہا۔ اس نعرے کو مقدماتی مرحلے میں کامیابی سے عملی جامہ پہنایا گیا۔ البتہ خلاقیت و پیشرفت اسی سال سے مختص نہیں تھی بلکہ آنے والے سالوں میں بھی ہمیں انہیں خطوط پر سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور خود کو سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں اس نقطہ کمال پر پہنچانا ہے جو ملت ایران کے شایان شان ہے۔اسی لمحے سے شروع ہونے والا نیا سال بھی بڑا اہم سال ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ملت ایران ذات باری تعالی پر ایمان راسخ سے حاصل ہونے والی اپنی قدرت کے ذریعے اس سال میں ممکنہ طور پرپیش آنے والے امور اور عالمی و علاقائی و ملکی سطح کے واقعات پر غلبہ حاصل کرے گی اور انہیں اپنے حق اور مفاد میں موڑنے میں کامیاب رہے گی۔میں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے سال نو کی آمد کے موقع کی مخصوص دعا میں پڑھا کہ :یا محول الحول و الاحوال حول حالنا الی احسن الحال ہماری حالت کو بہترین حالت میں تبدیل کر دے۔ اس چیز کا تعلق یوں تو ارادہ الہی سے ہے تاہم ملت ایران اور ہم لوگوں کی کی جانب سے بھی سعی و کوشش لازمی ہے جو لطف و رحمت الہی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمیں اپنی حالت کو بہتر بنانے، اپنی زندگی، اپنے دل و دماغ اور اپنی دنیا و و آخرت کو سنوارنے کے لئے کمر ہمت کسنا ہوگی۔ یہ ملت ایران کی ہر فرد کا فریضہ ہے۔ ذہنی خیالات، معنوی اور دینی امور اور زمینی حقائق اور روز مرہ کے مسائل جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں در پیش ہوتے ہیں ان کے لئے اسی عظیم حکم الہی کے تحت بڑے وسیع مواقع موجود ہیں جسے ہم ہر سال دہراتے ہیں: حول حالنا الی احسن الحالمیں اس کی ایک مثال پیش کروں گا جو میری نظر میں ہماری حالت میں بہتری کی علامت ہو سکتی ہے:ہم ملک کے مالی ذخائر کو استعمال کرنے کے سلسلے میں جو ہماری، ہمارے دیگر ہم وطنوں اور ملک کے حکام کی زحمتوں سے حاصل ہوتے ہیں، کسی حد تک بے توجہی برت رہے ہیں۔ اس (بے توجہی) کو، خصوصی توجہ میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ ہم اسراف کا شکار ہیں۔ ہم چیزوں کے استعمال میں فضول خرچی اور لاپروائی سے دوچار ہیں۔ میں اس چیز کی تفصیلات سال نو کی اپنی تقریر میں انشاء اللہ پیش کروں گا۔ اس وقت مختصرا اتنا عرض کرنا ہے کہ ملک کے بہت سے ذخائر بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک کے ذخائر کا بڑا اہم حصہ، ذاتی مسائل میں بھی اور اجتماعی امور میں بھی، ہماری فضول خرچی کی نذر ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنے خرچ کو عاقلانہ اور مدبرانہ انداز میں کنٹرول کرنا چاہئے۔ خرچ اسلام ہی نہیں دنیا کے تمام با شعور افراد کی نظر میں بھی دانشمندی کے تحت ہونا چاہئے۔ دلی خواہشات اور نفس انسانی کے مطالبات کے غلبے کی صورت میں خرچ کو مناسب حد میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک کے ذخائر ضائع ہوتے ہیں، امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی ہے۔ کچھ افراد زندگی کی بنیادی اور ابتدائی چیزوں کی حسرت دل میں لئے رہتے ہیں اور کچھ لوگ ذخائر کو فضول خرچی کی نذر کرتے ہیں۔ ہمیں معیار صرف کی صلاح کرنا چاہئے۔ ہمیں معیار صرف کی اصلاح کی جانب قدم بڑھانا چاہئے۔ سب سے پہلے تو مقننہ، مجریہ، ملک کے دیگر حکام، عدلیہ اور دیگر شعبوں کو اور اس کے بعد مختلف سماجی مقام کے حامل افراد اور شخصیات کو اسی طرح ملک کے غنی و فقیر ہر فرد کو اس اصول پر توجہ دینا چاہئے کہ ہمیں معیار صرف کی اصلاح کرنا ہے۔ زندگی کے ضروری امور اور غیر ضروری چیزوں میں خرچ کا اگر یہ انداز ہوگا اور سوچے سمجھے بغیر فضول خرچی کی جاتی رہی تو اس سے ملک اور عوام کو نقصان پہنچے گا۔ میں عوام بالخصوص ملک کے حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس سمت میں اپنی کوششیں تیز کریں اور معیار صرف کی اصلاح کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ بنابریں میں اس سال کو معیار صرف میں اصلاح کی جانب عوام اور حکام کی پیش قدمی کا سال قرار دیتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ معیار صرف میں اصلاح کا عنوان ہم سب کے دستور العمل کا جز ہوگا اور ہم سب اس اہم، حیاتی اور بنیادی نعرے کے مطابق ملک کے لئے کام کریں گے اور ملک کے ذخائر کو مناسب ترین انداز میں استعمال کریں گے۔ میں یہاں پر بزرگوار امام(خمینی رحمت اللہ علیہ) اور عزیز شہدا کی یاد تازہ کرنا چاہوں گا اور تمام ملت ایران کی خدمت میں ایک بار پھر تہنیت و مبارک باد پیش کروں گا۔ والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کی مناسبت سے ایک پیغام جاری فرمایا اور سال نو کو انتہائی اہم سال قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ملت ایران کی قوت ایمانی اس سال بھی تمام واقعات و حوادث پر غالب رہے گی۔ آپ نے آج عید نوروز کی مناسبت سے اپنے پیغام میں فرمایا کہ ملک کے ذخائر کے دانشمندانہ اور مدبرانہ استعمال کی بنیادی و حیاتی اہمیت کے پیش نظر اس سال کو تمام امور اور شعبوں میں خرچ اور استعمال کی روش و معیار میں اصلاح کا سال قرار دیا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت کو انسانیت کی راہ کے لئے تقدیر ساز واقعہ قرار دیا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے سربراہوں، تشخیص مصلحت نطام کونسل کے صدر، اسلامی نطام کے اعلی عہدہ داروں، عالمی کانفرنس برای اتحاد اسلامی کے شرکا، مسلم ممالک کے سفرا اور عوامی وفود سے کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیروکاروں بالخصوص سیاستدانوں، علما، دانشوروں اور امت مسلمہ کی با اثر شخصیات کا سب سے اہم اور بڑا فریضہ اسلامی اتحاد کو عملی شکل دینے کے لئے جد و جہد اور تفرقہ و اختلافات کے علل و اسباب سے مقابلہ کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پچیس اسفند تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق پندرہ مارچ دو ہزار نو عیسوی کو ہفتہ اتحاد کی مناسبت سے مختلف عوامی طبقات، ملک کے اعلی حکام اور مسلم ممالک کے سفیروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات میں گوناگوں مشکلات اور چیلنجوں سے مقابلے کی ملت ایران اور اسلامی نظام کی پالیسی کے درخشاں نتیجے کو قوم کی کامیابی اور انقلاب و اسلامی نظام کی افادیت کا ثبوت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ قوم اور حکام تابناک مستقبل کے سلسلے میں یقین کامل کے ساتھ مایوسی و نا امیدی کے شیطان اور بد گمانی کے عفریت کا مقابلہ کرتے رہیں گے اور پختہ ارادے اور بلند ہمتی کے ساتھ ان کے قدم وقار و ترقی کی راہ پر بڑھتے رہیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی شب تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ملاقات میں معاشی تعاون کی تنظیم ای سی او کو بہت اہم تنظیم قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ای سی او کے رکن ممالک کے اہم اور حساس محل وقوع اور گوناگوں خصوصیات اور وسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام کمیوں کی بھرپائی کر دینے والے ان وسائل و مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تنظیم کو زیادہ فعال اور طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی شام او آئی سی کے سکریٹری جنرل احسان اوغلو سے ملاقات میں عالم اسلام کے مسائل میں فعال اور موثر کردار کو اس تنظیم کا اہم ترین فریضہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: او آئی سی مسلم ممالک کی باہمی قربت اور اتحاد و یکجہتی کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔