فطرے کے احکامواجب ہے کہ ہر شخص اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال میں سے ہر شخص کے لیے تقریبا تین کلو قوت غالب ادا کرے۔ قوت غالب کا مطلب وہ چیز ہے جسے لوگ عموما غذا کے لیے استعمال کرتے ہیں؛ جیسے گیہوں۔عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26شب عید فطرفطرہ، مہینے کے آخری دن غروب؛ یعنی شب عید فطر سے، مکلف پر واجب ہو جاتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ وہ شخص جو نماز عید فطر میں شرکت کرے گا اور نماز عید بجا لائے گا، نماز عید کی ادائیگی سے قبل فطرہ ادا کر دے۔ بنابریں آج رات آپ حساب لگا لیں کہ آپ پر کتنا فطرہ واجب ہے اور اس کی رقم کو علیحدہ رکھ دیں اور کل صبح عید کی نماز کے لیے جانے سے قبل اسے ادا کردیں تو یہ بہترین صورت ہے۔ البتہ اگر آپ نے اس موقع پر ادا نہیں کیا اور نماز عید کے بعد ادا کردیا تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26عید فطر کی با فضیلت نمازیہ بہت با فضیلت نماز ہے۔ اس نماز میں دعا،التجا، گریہ و زاری اور خدا کی جانب توجہ ہے۔ عید فطر کی نماز بڑی اچھی نماز ہے۔ تمام عبادتیں اس لیے ہیں کہ ہماری تربیت ہو اور ہم آگے بڑھیں۔6 عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26عید فطررمضان کا مہینہ اپنی تمام تر عظمتوں، کرامتوں اور رحمت کی فضاؤں کے ساتھ تمام ہوا اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس مہینے میں دنوں کے روزوں، دعا و توسل، ذکر و عبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کی برکت سے اپنے قلوب کو زیادہ منور اور خدا سے زیادہ قریب کر لیا۔عید فطر عظیم اسلامی تہوار ہے۔ عالم اسلام، عید فطر کے دن حقیقی معنی میں عید مناتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو امت مسلمہ کے لیے اسلام چاہتا ہے۔ (جعلہ اللہ لکم عیدًا و جعلکم لہ اھلًا) آج کے دن کو خداوند متعال نے امت مسلمہ کے لیے عید اور مسلمانوں کو اس عید کا اہل قرار دیا ہے۔ ہمیں اس الہی تحفے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اپنے دلوں میں معرفت اور توبہ و استغفار کے نور کو راستہ دے کر حقیقی معنی میں ذاتی فائدہ بھی اٹھانا چاہیے کہ اگر معرفت و عشق الہی کی دنیا کی ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی ہمارے دلوں پر کھل جائے اور ہمارا وجود نورانی ہو جائے تو بیرونی دنیا کی بہت سی تاریکیاں اور مشکلات اپنے آپ دور ہو جائیں گي، کیونکہ یہ انسانوں کا دل ہے جو تمام خوبیوں اور برائیوں کا سرچشمہ ہے۔مختلف شعبوں کے اہلکاروں سے خطاب سے اقتباس 2001/12/16عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے:عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے، بحمد اللہ آپ نے رمضان کا مہینہ جو صوم و صلاۃ کا مہینہ تھا، خیر و عافیت سے گزار دیا اور خداوند متعال نے دعا و مناجات اور ذکر و عبادت کے ساتھ آپ لوگوں کو روزے کی ادائیگی اور اللہ تعالی کے سامنے توسل اور خضوع و خشوع کی توفیق عطا کی۔ آج وہ دن ہے جب ان شاء اللہ خداوند متعال آپ لوگوں کو جزا عنایت کرے گا۔ شاید خداوند متعال کی ایک سب سے بڑی جزا یہ ہو کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اگلے ماہ رمضان تک رحمت الہی کے وسیلے کو اپنے لیے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ مبارک رمضان کے درس پر پورے سال کاربند رہیں، یہ ہوگی خداوند عالم کی ایک سب سے بڑی جزا کہ جس نے ہم سب کو اس طرح کی توفیق عطا کی۔ ہمیں خداوند عالم سے رحمت، رضا، (دعا اور اعمال کی) قبولیت، عفو اور عافیت کی دعا کرنی چاہیے کہ درحقیقیت یہی حقیقی عید ہوگی۔مختلف شعبوں کے اہلکاروں سے خطاب سے اقتباس 2001/12/16عید سعید فطر؛ معنوی اور بین الاقوامی تقریبشاید عید سعید فطر کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہو کہ یہ ایک معنوی اور بین الاقوامی تقریب ہے۔ اس بین الاقوامی تہوار کا بڑا ہی نمایاں اور خصوصی معنوی پہلو ہے۔ عید فطر کی نماز کے قنوت میں ہم پڑھتے ہیں کہ (اسئلک بحقّ ھذا الیوم الذی جعلتہ للمسلمین عیداً و لمحمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ ذخراً و شرفاً و کرامۃً و مزیداً) تمام مسلمانوں کی عید، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے باعث شرف، اسلام کا وقار اور پوری تاریخ میں کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ اس نظریے سے عید سعید فطر کو دیکھنا چاہیے۔ آج ہماری عظیم مسلمان قوم کو اس ذخیرے کی ضرورت ہے۔ اس ذخیرے میں سے مسلمانوں کو دو چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اول باہمی اتحاد اور قربت اور دوسرے عالم اسلام میں معنویت پر توجہ۔ عالم اسلام میں کمال اور ترقی تک پہنچانے والے ان دونوں عناصر کے سلسلے میں بے توجہی پائي جاتی ہے۔حکام کے ساتھ ملاقات میں تقریر کا ایک حصہ2000/12/27جن لوگوں نے ماہ مبارک رمضان میں عبادتیں کیں اور معنوی مواقع سے استفادہ کیا، وہ آج کے دن خداوند عالم سے اپنا انعام حاصل کریں گے۔ بااخلاص روزے، قرآن مجید کی تلاوت، راتوں کی عبادت، خدا کے حضورگریہ، دعا، صدقے اور وہ تمام نیک کام جو آپ عزیز نوجوانوں اور آپ مومن اور اسلامی حقائق سے آگاہ لوگوں نے ماہ مبارک رمضان میں انجام دیئے ہیں، آج ان سب کی جزا آپ کو معنوی طور پر عطا کی جائے گي۔حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے عید فطر کے دن لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا اور اس خطبے میں یوں بیان فرمایا۔( فقال ایھا الناس ان یومکم ھذا یوم یثاب فیہ المحسنون و یخسر فیہ المسیئون) اے لوگو! یہ وہ دن ہے جس میں نیک کام کرنے والوں کو اپنی نیکیوں کا ثواب ملے گا اور جن لوگوں نے ماہ رمضان میں برائیاں کی ہیں، وہ گھاٹا اٹھائیں گے اور محروم رہیں گے۔عید یعنی سال کا وہ دن جو خوشی اور مسرت کا باعث ہو، کون سی چیز امت مسلمہ کے لیے خوشی کا باعث ہے؟ اسلامی اہداف سے قریب ہونا۔مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد ( عید فطر کے دن) طہارت اور پاکیزگی کے میدان میں ہوتا ہےعید فطر کا دن، طہارت و پاکیزگی کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس وجہ سے ہو کہ آپ نے ایک مہینے تک روزے رکھے ہیں، کوششیں کی ہیں اور اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس وجہ سے بھی ہو کہ اس دن میدان عبادت میں حاضر ہو کر آپ نے اجتماعی عبادت میں حصہ لیا ہے، بہر حال بات یہ ہے کہ مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد ( عید فطر کے دن) طہارت اور تزکیے کے میدان میں ہوتا ہے۔عید فطر کا دن وہ دن ہے جب مسلمان، ماہ مبارک رمضان کے اہم تعمیری اور تربیتی امتحان سے گزر کر گویا پروردگار عالم کے حضور میں حساب کتاب کے لیے بیٹھتے ہیں اور اپنے ماہ رمضان (کے اعمال) کو اپنے پروردگار کے حضور پیش کرتے ہیں۔ عید فطر کی شب و روز کی دعاؤں میں اس مفہوم کی جانب اشارہ کیا گيا ہے (تقبّل منّا شھر رمضان) ماہ مبارک رمضان کو خدا کی جانب سے قبول کیے جانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔- عید فطر کی مبارکباد، ماہ مبارک رمضان کو کامیابی سے گزارنے کی تہنیت کے معنی میں ہے۔- عید سعید فطر دنیا کے ایک ارب مسلمان آبادی کے جشن و سرور کا دن ہے۔- عید فطر کے دن کو، جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی روایت میں آیا ہے، قیامت کے دن یعنی روز جزا سے تشبیہ دی گئي ہے۔عید فطر کا دن، عبادت کی عید ہے، مغفرت کی عید ہے، اس مومن مسلمان کے لیے ریاضت اور جدوجہد کے ایک مختصر وقفے کے خاتمے کی عید ہے کہ جو اپنی اس ریاضت اور جدوجہد سے، تہذیب تفس اور اپنے اندر نیک جذبات اور محرکات کی تعمیر و تقویت کے لیے استفادہ کرنا چاہتا ہے اور سال بھر اور پوری عمر اس سے فائدہ اٹھانے کا خواہشمند ہے۔حقیقی عیدآپ حضرات کے سامنے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ایک حدیث پڑھوں۔ آپ سے منقول ہے کہ (انّما ھو عید) آج حقیقی عید ہے؛ (لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ) اس شخص کے لیے جس کے روزے، نماز اور عبادت کو اللہ نے ماہ مبارک رمضان میں قبول کر لیا ہو۔ (وکل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو عید) اور ہر وہ دن جس میں خدا کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔ عزیزو! خدا کی معصیت کا ارتکاب نہ کرکے اور محرمات الہی سے اجتناب کرکے، آج کے دن کو عید بنا لیجیے، کل کے دن کو عید بنا لیجیے، سال کے ہر دن کو اپنے لیے عید بنا لیجیے۔عید فطر کا دن، خدا کی عبادت اور اس سے تقرب کا دن خداوند عالم نے اس مہینے کے آخر میں کہ جو روزے اور عبادت کا مہینہ ہے، ایک ایسا دن رکھا ہے جو عید کا دن ہو، اجتماع کا دن ہو، بہت بڑا دن ہو۔ مسلمان بھائی ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں، ماہ مبارک رمضان میں حاصل ہونے والی کامیابی اور توفیق کی قدردانی کریں، اپنے اور خدا کے (درمیان اعمال کا) احتساب کریں، جو کچھ اس مبارک مہینے میں ان کے لیے ذخیرہ ہو چکا ہے اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں۔ وہ دن، عید کا دن ہے۔عید فطر کا دن اگرچہ عید ہے لیکن عبادت، توسل، ذکر خدا اور خدا سے قریب ہونے کا بھی دن ہے۔ یہ دن نماز سے شروع ہوتا ہے اور دعا اور توسل پر ختم ہوتا ہے۔ اس دن کی قدر کیجیے، تقوے کے ذخیرے کو غنیمت جانیے اور عید فطر کی اہمیت کو سمجھیے۔- یہ دن، بہت عظیم دن ہے اور نبی اکرم حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نیز پوری تاریخ کی تمام اسلامی امتوں سے متعلق ہے۔- ہر عید فطر ایک آگاہ اور ہوشیار مسلمان انسان کے لیے ایک حقیقی عید کا دن ہو سکتی ہے۔ معنوی اور روحانی زندگی کا دوبارہ آغاز، پودوں اور درختوں کے لیے بہار کی مانند۔ایک انسان کو، جو ممکنہ طور پر پورے سال مختلف قسم کے گناہوں اور برائیوں میں مبتلا رہا ہو اور جس نے نفسانی خواہشات نیز بری خصلتوں کے سبب اپنے آپ کو رحمت الہی سے دور کرلیا ہو، پروردگار عالم کی جانب سے ہر سال ایک سنہری موقع عطا کیا جاتا ہے، اور وہ موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ ماہ رمضان میں دل نرم ہو جاتے ہیں، روحوں میں بالیدگی اور درخشندگی آتی ہے، انسان، خدا کی خصوصی رحمت کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ہر کوئي اپنی استعداد، کوشش اور جدوجہد کے مطابق ضیافت الہی سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے ختم ہوتے ہی، نئے دن کا آغاز، عید فطر کا ہے یعنی وہ دن کہ جب انسان ماہ رمضان میں حاصل کیے گئے نتیجوں سے استفادہ کرکے خدا کے سیدھے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور غلط راستوں سے بچ سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج تہران میں مصلائے امام خمینی (رہ) (عظیم الشان عیدگاہ) میں کتابوں کی اکیسویں عالمی نمائش کا معائنہ فرمایا۔ آپ نے نمائش گاہ میں تقریبا تین گھنٹے گزارے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج صوبہ فارس کے علاقے لارستان میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ خلیج فارس میں امریکیوں کی موجودگی بد امنی کا موجب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خلیج فارس میں سلامتی، علاقائي حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب ملکوں، حساس گزرگاہوں اور آبی راستوں پر سامراجی طاقتوں کے تسلط کا زمانہ گزر چکا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين و صحبه المصطفين الاخيار. اللّهمّ صلّ و سلّم على وليّك و حجّتك حجّةبنالحسن صلواتك عليه و على ابائه.
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے لارستان کے محبتی لوگوں سے اس تاریخی شہر میں ملاقات کا موقع عنایت فرمایا۔ ماضی میں صوبہ فارس کے دوروں میں میری خواہش یہ رہی کہ لارستان کے علاقے اور شہر لار کے عوام سے ملاقات ہو لیکن ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ آج آپ لوگوں کے درمیان اس مہر و محبت کی فضا میں ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ جس بندہ مسلمان اور مومن کا دل، اس طرح اسلامی تعلیمات سے آشنا ہو یقینا اس کی زندگی، اس کا ماحول، اس کا شہر اور اس کا معاشرہ اسی خوشبو اور پاکیزگي سے آراستہ ہوگا جو یہاں نظر آ رہی ہے۔ میں آپ عزیزوں کی مہر و محبت کے لئے آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور خود اپنے اندر بھی آپ کے لئے خاص الفت و انسیت کا احساس کرتا ہوں۔ اس موقع پر مناسب ہوگا کہ میں صوبہ فارس کے عوام کا بھی شکریہ ادا کروں۔ اس وسیع و عریض اور مایہ افتخار صوبے کے میرے اس سفر کا یہ آخری دن ہے۔ ان نو دنوں میں جو میں نے آپ کے صوبے میں گزارے، شہر شیراز اور دیگر شہروں کے عزیزوں سے بڑی محبت ملی، ان سب کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے۔
خوش قسمتی سے ملک کے حکام کی توجہات صوبہ فارس پر بھی مرکوز ہوئیں۔ کل شہر شیراز میں کابینہ کا اجلاس ہوا اور شہر لار و علاقہ لارستان سمیت صوبے کے عوام کے مختلف مسائل اور امور پر اہم گفتگو ہوئي اور کچھ فیصلے بھی کئے گئے۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی کی توفیقات عہد ہ داروں کے شامل حال ہوں اور وہ ان عوام سے اپنی محبت اور انسیت کا اظہار کریں جو واقعی محبت و انسیت کے مستحق ہیں۔ آپ لوگوں کی جو حقیقی معنی میں خدمت کئے جانے کے لائق ہیں، خدمت کریں اور اپنے فرائض ادا کریں۔
ایران کی عصری تاریخ میں لار علاقے کا نام آیت اللہ العظمی سید عبد الحسین لاری سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم گزشتہ سو یا ایک سو بیس سال کی لار کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر واقعے میں اس عظیم شخصیت کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔
اپنے پیشرؤوں پر افتخار پر اکتفا کرنا ہمارا مقصود نہیں بلکہ ہم اپنی تاریخ، اپنے ماضی اور اپنی عظیم تاریخی شخصیات سے آشنا ہوکر، خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے زمانہ حال کو سمجھنے اور درک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سو سال سے کچھ اور قبل کی بات ہے جب لارستان کے علاقے میں اس مرد مجاہد نے شہری اور قبائلی عوام کی حمایت سے تاریخ کی ایک بڑی اہم تحریک کو وجود بخشا۔ اگر قوموں کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کرنے کا معیار یہ ہے کہ ہم ان کی قابلیت کا اندازہ کریں، ان کے قومی عزم و ارادے کو دیکھیں، ان کی جرئت اقدام کو پرکھیں۔ اگر یہ کسی قوم اور بستی کی قدر و منزلت کے معیار ہیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ لار اور لارستان کے لائق احترام عوام ان معیاروں کی بنیاد پرہماری وسیع و عریض سر زمین میں نمایاں ترین افراد ہیں۔ جب ملک میں گاہے بگاہے حریت پسندی اور استبداد کی مخالفت کا موضوع اٹھتا تھا، اس زمانے میں اس بیدار مغز عالم دین کی برکت سے اس علاقے کے عوام میں حریت پسندی انگڑائياں لینے لگی تھی۔ جس وقت علاقے کی قوموں اور حتی خود ہماری قوم کے لئے بھی بیرونی جارح قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت تقریبا لا یعنی چیز تھی لارستان کے عوام نے اس مرد مجاہد کی قیادت میں برطانوی جارحیت کو للکارا اور برطانیہ کی زور زبردستی کے خلاف جاں بکف وارد میدان کارزار ہوئے۔ آیت اللہ سید عبد العزیز لاری نے اپنے فرزند کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا تھا کہ دباؤ بہت زیادہ ہے لیکن میں اپنے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت کروں گا۔ جب قائد کا یہ انداز ہو، جب پیشوا اس خلوص کے ساتھ سینہ سپر ہو تو فطری بات ہے کہ قوم کے حوصلے بھی بلند ہوں گے اور یہ حوصلے قوم کو صحیح سمت میں لے جائیں گے۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند آیت اللہ سید عبد المحمد مرحوم نے، جو بڑی برجستہ علمی شخصیت کے مالک تھے، مزاحمت کا پرچم بلند کیا۔
لار کے اس ماضی سے اپنی موجودہ حالت اور اپنی عزیز و توانا قوم کے مستقبل کے لئے ہمیں درس لینا چاہئے۔ اس نمونے سے ہمیں پتہ چلا کہ اگر دنیا و ما فیھا کی طمع سے آزاد ایک مخلص قائد کی رہنمائی میں کوئی قوم دشوار گزار راستوں پر بھی چل پڑے تو ضدی اور بد ترین دشمن کے مقابلے میں بھی کامیابی اس کا مقدر ہوگی۔ اس علاقے اور ملک کے دیگر مقامات کی تاریخ سے یہ درس حاصل کرنے والی ایرانی قوم نے اس کا تجربہ اسلامی انقلاب کے دوران کیا۔ پرچم اسلام کی سربلندی اور تعلیمات محمدیۖ پر عمل آوری کے نعرے کے ساتھ ایرانی قوم نے ایک ایسے دور میں قدم بڑھائے جب دنیا کی طاقتیں اس زعم میں تھیں کہ وہ دین و دینداری کو عوامی زندگی سے محو کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ ایرانی قوم نے ایک ایسے دور میں دین اور اسلام کے نام پر اپنے انقلاب کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرائي کہ جب دنیا کی بڑی سامراجی طاقتیں یہ یقین کر چکی تھیں کہ دنیا منجملہ مسلم ممالک میں دین و دینداری کی جڑیں کاٹی جا چکی ہیں۔ وہ مطمئن ہو چکی تھیں کہ اب دین کا نام کبھی سامنے نہیں آئے گا اور دینی و مذہبی علامتیں رفتہ رفتہ مٹتی جائيں گی۔ وہ اس میٹھے تصور میں کھوئي ہوئی تھیں کہ ملت ایران نے اسلام کا پرچم لہراکر پوری دنیا کی انسانی زندگی میں دین و دینداری کی مشعلیں روشن کر دیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم نے اسلام کے لئے قیام کیا، لیکن ان ممالک میں بھی جہاں کے عوام کسی اور مذہب کے پیرو ہیں ہماری ملت کے انقلاب کے اثرات نظر آئے اور وہاں بھی دین و مذہب اور روحانیت و معنویت کی جانب لوگوں کی توجہ مرکوز ہوئي۔ یہ معجزہ ایرانی قوم نے کیا اور اسلام کے نام پر، قرآن مجید کے مبارک نام پر رونما ہونے والا یہ انقلاب دنیا کی اکثر اقوام کے لئے نمونہ بن گیا۔
اگر آج آپ مسلم ممالک کا سفر کریں تو دیکھیں گے کہ تیس سال قبل یعنی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے مقابلے میں فضا بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔ ان دنوں اگر کوئی حریت پسند کی بات کرتا، قیام کرتا یا کوئي تحریک شروع کرتا تو ملحدانہ مکتب فکر اور نعروں کا سہارا لیتا تھا لیکن آج عالم اسلام میں، روشن فکر افراد، طلبا اور فرض شناس انسان جب حریت پسندی، آزادی و خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو پرچم اسلام کے سائے تلے یہ نعرے بلند کرتے ہیں یا کوئي تحریک شروع کرتے ہیں۔ یہ ملت ایران کے قیام اور اسلامی انقلاب کی برکت ہے، جس کی جڑیں عصری تاریخ سے متصل زمانے میں پیوست ہیں۔ تنباکو کی تحریک اور آئينی تحریک جو عظیم الشان علما کے ذریعے شروع ہوئی اس میں لارستان کے عوام کا قیام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی زاوئے سے ڈالتے ہیں۔ ہمارے لئے ماضی ایک وسیلہ اور آئینہ ہے۔ اس سے ہمیں درس ملتا ہے اور ہم اپنے مستقبل کا خاکہ کھینچنے میں اس سے مدد لیتے ہیں۔
آج سب سے پہلے مرحلے میں ہمارے سامنے جو چیز ہے وہ اسلام سے تمسک ہے۔ تمام خیر و برکتیں جو ایک قوم کی تمنا ہوتی ہے، اسلام کے زیر سایہ حاصل ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم آزادی چاہتے ہیں، خود مختاری چاہتے ہیں، رفاہ عامہ کے خواہاں ہیں، سائنسی ترقی کے متمنی ہیں، مختلف شعبہ ہائے حیات میں پیش قدم رہنے کے آرزومند ہیں، ایرانی قوم کی حیثیت سے اپنے لئے عزت و وقار چاہتے ہیں تو ان سب کا واحد راستہ ہے اسلام سے تمسک۔اسلام کی تعلیمات میں، اور اس دین کی گہرائیوں میں کسی بھی قوم کے لئے یہ ساری نعمتیں پنہاں ہیں۔ اسلام سے تمسک ملت ایران کے پاس سب سے اہم راستہ اور طریقہ ہے۔
دوسری چیز ہے اتحاد، جس کے بارے میں میں اس سفر میں بھی اور دیگر دوروں میں بھی اپنی تقاریر اور قوم سے خطابات میں خاص تاکید کرتا رہا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ دشمن اس قوم پر ضرب لگانے کے لئے جس سازش پر کاربند ہے وہ اس مسلمان قوم کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی تگ و دو ہے۔ عالم اسلام اور مسلم امہ کے سلسلے میں یہی پالیسی اختیار کی گئي ہے۔ انقلاب کی کامیاب کے آغاز سے ہی ہمارے مسلمان ہمسایہ ممالک منجملہ خلیج فارس کے ہمسایہ ممالک کو اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب سے ہراساں کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بد قسمتی سے بعض اوقات دشمنوں کو کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئيں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے تو تمام مسلم اقوام اور حکومتوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران تو اپنے پورے وجود سے اسلامی اتحاد و یکجہتی کا خواہاں ہے۔ وہ اتحاد جو قوموں میں میل محبت اور حکومتوں کے درمیان تعاون کا ضامن ہو۔ بحمد اللہ قوموں میں مفاہمت ہے، فرقہ وارانہ اور گروہی اختلافات قوموں کے درمیان خلیج پیدا نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ دشمن کا وسوسہ کارگر ہو جائے۔ البتہ حکومتیں سیاست کے زیر اثر کبھی کسی طرف تو کبھی کسی اور جانب مائل ہو سکتی ہیں لیکن ہم آج بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک ہمارے بھائي ہیں۔ ان ممالک کی جانب ہم نے دوستی و اخوت کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ ہم کسی چیز کے لئے بھی ان کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ اخوت کی دعوت، ضرورت کے تحت نہیں ہے۔ ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ کی ذات پر توکل اور اپنی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کے ذریعے مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہم تو عالم اسلام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اختلافات سے گریزاں ہیں اور تمام ممالک کی جانب دوستی کا ہاتھ ہم نے بڑھا رکھا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں اور امریکی و صیہونی جاسوسی کے اداروں کی کوششوں اور سازشوں کے باوجود جو بلا وقفہ فتنہ پروری میں مصروف ہیں، ان کی بد بختی ہی کہئے کہ خطے کے عرب اور غیر عرب ممالک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات پروان چڑھ رہے ہیں۔ البتہ ان تعلقات میں روز افزوں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔
ٹھیک یہی چیز ملک کے اندر بھی ذرا اور شدت کے ساتھ پیش آئی۔ اوائل انقلاب سے ہی ملک کے اندر یہ کوشش کی گئی کہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عظیم ملت ایران کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا کئے جائیں۔ ہم نے دشمن کی ان سازشوں کو ناکام تو بنا دیا لیکن اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اور ہمارے تمام بھائي بہن اس سلسلے میں ہوشیار رہیں اور پوری توجہ سے کام لیں کہ دشمن اپنے مکر و حیلے کا استعمال نہ کرنے پائے۔ شیعہ سنی، مختلف علاقوں میں بسنے والے افراد، مختلف سیاسی رجحانوں کے حامل لوگ، سب کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ایرانی قوم، اسی مذہبی، نسلی، اور فکری تنوع کے ساتھ ایک عظیم پیکر ہے۔ ایک متحد یونٹ ہے۔ اسی اتحاد و یکجہتی کے ہی سہارے خطرناک ترین دشمن کے مقابلے میں اپنے مفادات، اپنے تشخص اور اپنے وقار کی حفاظت ممکن ہوگی اور اللہ کی نصرت و مدد سے دشمن کو زیر کیا جا سکے گا۔
لارستان کے علاقے میں بعض شہروں اور حصوں میں برادران اہل سنت بھی آباد ہیں اور اس علاقے میں شیعہ سنی اخوت و مفاہمت قابل تعریف نمونہ ہے۔ میں نے یہ چیز رپورٹوں میں بھی دیکھی اور پڑھی، مجھے اس کی پہلے سے بھی اطلاع تھی اور آج اس اجتماع میں اس کی نشانیاں سامنے ہیں۔ ہم سب کو اسلام کے لئے محنت کرنی ہے۔ کلمہ توحید اور حقیقی اسلامی اقدار اور شریعت محمدیۖ کو عام کرنے کے لئے شیعہ سنی مل کر کوششیں کریں اور اپنی زندگی اور روش پر، اختلاف رای، اختلاف نظر، اختلاف ذوق، ذاتی عناد و اغراض کا غلبہ نہ ہونے دیں کہ دشمن خوش ہو سکے۔
آج دشمن کی کوشش یہ ہے کہ عظیم اسلامی تحریک کی مرکزیت اور مسلم امہ کے اس محور یعنی ملت ایران کو جو دنیائے اسلامی میں نئي روح پڑ جانے کا باعث بنی ہے، بے اثر بنا دیں۔ دشمنوں اور سامراجی طاقتوں کی خواہش یہ ہے کہ اس عملی نمونے کو دنیا کے مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیں۔ اسلامی ملک ایران ایک عملی نمونہ ہے۔ اسلامی ملک ایران نے اپنے وجود، اپنے اثر و رسوخ، اپنی ترقی و علو اور اپنے اتحاد و خلوص سے عالم اسلام کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ دشمن کی سازشوں کے سیلاب کے سامنے اور اس پر تلاطم دور میں بھی اسلامی نظام کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔ عملی میدان میں اسلامی اقتدار کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مسلمان اقوام کے سامنے اس کا کامیاب تجربہ کیا۔
دشمن کی نیت، اس کی خواہش اور مذموم آرزو یہ ہے کہ یہ مثالی نمونہ مسلم اقوام کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جائے۔ اب خواہ اس کے لئے سیاسی، فوجی اور اقتصادی یلغار کرنی پڑے یا تشہراتی مہم اور الزام تراشی کا سہارا لینا پڑے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں، عرب خطوں میں، کچھ نامہ نگاروں کے بکے ہوئے قلم ایسے گھٹیہ انداز میں ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ ملت ایران، ایک مسلمان معشرے، اور اسلامی جمہوری نظام کے خلاف ایسی ایسی باتیں لکھتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئي بے ضمیر انسان اور کوئي بکا ہوا قلم یہاں تک بھی گر سکتا ہے؟! پست ترین دنوی مفادات کے لئے قرآن و اسلام کے مقابلے پر آ سکتا ہے؟!
اس کے سد باب کا واحد راستہ، ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ بھائيو اور بہنو! راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے اتحاد و یکجہتی کو روز بروز مضبوط بنائيں، دلوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لائيں اور ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کے لئے اپنی کوششیں تیز کریں۔ آج بحمد اللہ بڑے پیمانے پر کوششیں نظر آ رہی ہیں۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسی لار اور لارستان کے علاقے میں خیر حضرات بڑے اہم کام انجام دے رہے ہیں جن کی ہمیں اطلاع ہے۔ ہمیں ان کاموں کی تفصیلات سے مطلع کیا جاتا ہے۔ عوام کی خدمت، عوام کی مدد، محروم طبقے کی دستگیری، علمی سرگرمیاں، مساجد کی تعمیر اور اسی جیسے دوسرے کام، ایسے کارہائے نمایاں ہیں جو خطے کے لوگ شوق و رغبت اور دلچسپی و تندہی سے انجام دے رہے ہیں۔ عوام کی یہ خدمت، قومی سطح پر اسلامی جمہوری حکومت اور اسلامی جمہوری نظام کے ذریعے انجام پا رہی ہے اور انشاء اللہ اس سمت میں ہم روز بروز آگے ہی بڑھتے رہیں گے اور سائنس و ٹکنالوجی، اقتصادیات و معاشیات، سماجیات و اخلاقیات کے شعبوں میں مسلسل پیش رفت کرتے رہیں گے۔ سامراجی سازشوں کے سد باب کا واحد راستہ اور طریقہ یہی ہے۔
قوم کی بلند ہمتی ہی ملک کو بے نیاز بنا سکتی ہے۔ مختلف شعبوں میں عوام کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری بہت اہم ہے۔ خصوصا پروڈکشن کے شعبے میں سرمایہ کاری قابل تعریف ہے۔ میری نظر میں جو افراد عوام کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں ان کا یہ کام بہترین عمل صالح اور کار خیر ہے انہیں چاہئے کہ پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ملک کی ترقی میں بھی اس سے مدد ملے گی ساتھ ہی ملک سے غربت کا خاتمہ ہوگا اور یہی اسلامی جمہوری نظام کی عام پالیسی ہے کہ عوام کے مالی سرمائے، فکری سرمائے اور کارآمد افرادی سرمائے کا بھرپور استعمال کیا جائے کہ یہ ملک جن کی ملکیت اور مستقبل جن کے اختیار میں ہے۔
آج علاقے کی قوموں کی نظر میں سامراجی پالیسیاں آشکارہ ہو گئی ہیں۔ قوموں کو بخوبی پتہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اس علاقے سے کیا چاہتی ہیں کس چیز کی تلاش میں یہاں آ دھمکی ہیں۔؟ خلیج فارس میں امریکیوں کی موجودگی بد امنی کا اہم سبب ہے۔ قومیں اس سے باخبر ہو چکی ہیں۔ وہ زمانہ جب دنیا کی تسلط پسند طاقتیں امن و امان قائم کرنے کے نام پر ملکوں، آبی راستوں، اور اہم گزرگاہوں پر قابض ہو جایا کرتی تھیں اب گزر چکا ہے۔ اب قومیں باخبر ہیں، عراقی عوام جانتے ہیں کہ امریکہ کو عراق کی فکر کیوں لاحق ہوئی۔ خود امریکی بھی اقرار کرنے لگے ہیں کہ ہم تو تیل کی تلاش میں آئے ہیں۔ انہوں نے عراقی عوام کو آزادی دلانے کے نام پر بے شمار مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ چو دیدم عاقبت گرگم تو بودی آج وہ بھیڑئے کی مانند عراقی عوام کی جان کو آ گئے ہیں لیکن اب بھی دعوا یہی ہے کہ ہم عراق میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی عوام کے لئے بد امنی کی سب سے بڑی وجہ قابض قوتوں کی موجودگی ہے جن کی نظر میں عراقی عوام کی جان و مال اور عزت و ناموس کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔
عراق پر قبضے کے اوائل میں میں نے نماز جمعہ کے خطبے مں قابضوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح آپ لوگ اس قوم کی تحقیر و توہین کر رہے ہیں، عراقی نوجوان کو منہ کے بل زمین پر لٹا دیتے ہیں اور آپ کا فوجی اس نوجوان کی پیٹھ پر پیر رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہے، آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ عراقی عوام اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ عراقی قوم غیور قوم ہے۔ وہ قابض افواج کے خلاف عراقی عوام کی مزاحمت کا اصلی سبب تلاش کرنے میں لگے ہیں، اس دفعہ بھی ان سے اندازے کی شدید غلطی ہوئی ہے۔ کبھی ایران پر انگلی اٹھائي جاتی ہے تو کبھی شام کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں۔ ارے خود اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے۔ قابض افواج کی موجودگی ہی عراقی عوام کو مشتعل کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ عراق کی سرحدوں کے باہر سے کوئی عراقی عوام کو اکسائے۔ دوسروں کے خلاف الزام تراشی احمقانہ حرکت ہے۔ اصلی ملزم اور مجرم خود آپ ہیں۔ مسئلہ عراق میں سب سے پہلے مرحلے میں امریکی مجرم ہیں۔ دیگر مقامات پر بھی یہی صورت حال ہے۔ خلیج فارس میں جو دنیا کا حساس ترین علاقہ ہے امریکی فوجیوں کی موجودگی کے سبب بد امنی کا شکار ہے۔ خطے کی سلامتی مقامی حکومتوں کے ہاتھوں یقینی بنائی جانی چاہئے۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلے میں امریکہ کی مداخلت سے اس کی پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔
امریکی کی مداخلت سے مسئلہ فلسطین حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکیوں کی مداخلت جتنی بڑھتی جائے گی پیچیدگیوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا۔ فلسطینی قوم ایک بیدار، حریت پسند اور روشن فکر قوم ہے۔ اس نے ایک حکومت کا انتخاب کیا ہے تو اب عوام کی حمایت سے اس حکومت کو کام کرنے دیجئے۔ وہ صیہونی حکومت کے حق میں یکطرفہ طور پر مداخلت کرتے ہیں نتیجتا جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے مسئلہ فلسطین اور بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ مسئلہ عراق بھی حل ہو جائے گآ اور مسئلہ فلسطین بھی نمٹ جائے لیکن تب امریکہ کا اعتبار، وجود اور تشخص بھی مٹ جائے گا۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس سفر میں خواہ وہ آپ کا شہر لار یا لارستان کا علاقہ ہو یا صوبہ فارس کے دیگر مقامات، مجھے اس صوبے اور یہاں کےعزیز عوام کے بارے میں جو باتیں معلوم تھیں جن کے بارے میں مجھے بتایا گيا تھا وہ میں نے خود دیکھیں۔ جہاد کے ایام میں شیراز کے افاضل اور علما و برجستہ شخصیات کے ساتھ میرا بڑا یادگار وقت گزرا ہے۔ جیسا کہ میں نے انقلاب کی تحریک کے آخری سال اور اس سے قبل والے سال میں آیت اللہ شہید سید عبد الحسین دستغیب مرحوم اور دیگر شخصیات کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا اسی طرح آیت اللہ ربانی شیرازی مرحوم بھی تھے جن کا شمار قم کے صف اول کے علما میں کیا جاتا تھا اور بڑے تجربہ کار مجاہد تھے۔ جلا وطنی کے کچھ ایام میں ان کا ساتھ رہا اور مختلف مسائل اور امور پر ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ اسی دوران آیت اللہ دستغیب کے ساتھ میری خط و کتابت ہوئی۔ اسی وقت سمجھ میں آ گیا کہ صوبہ فارس اپنے جہاد میں کس قدر دانائي اور عقلمندی سے کام لے رہا ہے آگے چل کر یہ بات ثابت بھی ہوئي۔ آج بھی جب اسلامی انقلاب کی کامیابی کو تقریبا تین عشروں کا وقت گزر چکا ہے اگر ہم اس صوبے میں پہنچتے ہیں تو تمام شہروں اور پورے صوبے میں انقلاب کی خوشبوں رچی بسی نظر آتی ہے۔ یہ آپ نوجوانوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ یہاں اس میدان میں بھی اور اسی طرح ہر اس شعبے میں جس پر دنیا والوں کی نظریں رہتی ہیں آپ نوجوانوں کی موجودگی صاف محسوس کی جاتی ہے۔
عزیز نوجوانو! ملک آپ کا ہے، آپ کی ملکیت ہے۔ مستقبل آپ کا ہے۔ آپ اپنی طولانی اور خوشبختی سے سرشار عمر کے دوران انقلاب کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے۔ جتنی ہو کسے محنت کیجئے۔ جتنا ممکن ہو کام کیجئے۔ علمی میدانوں میں آگے بڑھئے سعی و کوشش کبھی رکنے نہ پائے۔ اخلاقیات و دینداری، ذکر خدا و تلاوت کلام پاک کی اہمیت کا ادراک کیجئے۔ ان کے سہارے آپ اس مقام تک پہنچیں گے جو ملت ایران کے شایان شان ہے۔
پروردگارا ! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے دلوں کو اسلام کی جانب روز بروز زیادہ سے زیادہ راغب و مائل فرما۔ اسلام سے آشنائي میں اضافہ فرما۔ خدایا ہمارے عزیز عوام پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ خدایا ہمارے نوجوانوں کی حفاظت فرما، ان کی عاقبت سنوار دے۔ انہیں ہدایت دے۔ پروردگارا ان نوجوانوں کے مستقبل کو خود ان کے لئے بھی اور اس ملک کے لئے بھی تابناک بنا دے۔ شہدا کی ارواح طیبہ کو اپنے الیاء کے ساتھ محشور فرما ہمارے امام (خمینی رہ) کی روح مطہر کو بھی اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں بھی شہدا سے ملحق ہونے کی توفیق عطا کر اور ہمارے امام زمانہ کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد کی کابینہ کے اراکین شہر شیراز میں ایک خصوصی اجلاس کے بعد آج شام قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی خدمت مین حاضر ہوئے اور صوبہ فارس کی ترقی و پیش رفت کے عمل کو سرعت بخشنے کے لئے منظور شدہ اہم منصوبوں کی بریفنگ دی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ فارس کی انتطامیہ اور مختلف محکموں کے عہدہ دارو کے اجتماع سے خطاب میں ملت ایران منجملہ صوبہ فارس کے با ذوق اور فہیم عوام کی خدمت کے موقع کو اللہ کی خاص عنایت اور انتہائي لذت بخش قرار دیا اور فرمایا کہ حقیقی معنی میں بے وقفہ عوام کی خدمت اور ان کی عزت و توقیر کے ذریعے اللہ تعالی کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔
صوبے کے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے عزیز عہدہ داروں سے آج کی ملاقات، جو شیراز میں میرے قیام کے آخری دن انجام پا رہی ہے، آپ حضرات کے لئے میری طرف سے کچھ سفارشیں کئے جانے سے بڑھ کر، آپ کے شکرئے اور قدردانی کا موقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نمائش گاہ میں تقریبا تین گھنٹے گزارے۔ نمائش گاہ میں شیراز یونیورسٹی، شیراز میڈیکل کالج، صنعتی اور معدناتی شعبے، زراعت، بجلی، نقل و حمل، دفاعی ٹکنالوجی جیسے شعبوں کے ماہرین اور سائنسدانوں کی نئي ایجادات متعارف کرائی گئیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کل شام صوبہ فارس کے دانشوروں اور اہم شخصیات کے اجتماع سے خطاب میں ، قوم اور دانشوروں کی با ارزش ترین صلاحیتوں، بلند ہمتی، اور جوش و جذبے کو ایرانیوں کا قومی سرمایہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان عوامل کی بنیاد پر ایرانی قوم کا مستقبل بالکل واضح ہے اور اللہ تعالی کی عنایات سے عظیم ملت ایران تاریخ کے اس موڑ پر امت مسلمہ کے لئے اسلامی تہذیب کا احیاء کرے گی ۔
قائد انقالاب اسلامی نے اس سال کے خلاقیت کے نعرے کو، حقیقی نعرہ اور ملک کی ہر لمحے کی ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ خلاقیت سے مقصود، صلاحیتوں کے سامنے آنے اور افکار کے نقطہ کمال پر پہنچنے کی راہ ہموار کرنا، تیز ترقی کے لئے ماضی کے تجربات سے استفادہ اور تابناک مستقل کی تعمیر ہے اور آج یہ فریضہ پوری قوم، دانشوروں اور حکام پر عائد ہے۔
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
الحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين؛ سيّما بقيّةاللَّه فى الارضين.
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے حقیر کو اس سفر میں کازرون کے مومن اور انقلابی عوام کے اس اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ در حقیقت کازرون کے عوام کا مجھ پر یہ حق رہ گیا تھا۔ اپنی صدارت کے دوران جب میں نے صوبہ فارس کا دورہ کیا تھا تو اس وقت مجھے یہ توفیق حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے اس دفعہ توفیق دی کہ اس شہر کی زیارت کروں، جو اپنی درخشاں تاریخ اور انقلاب کی اہم ترین اور عظیم نشانیوں کے لحاظ سے صوبہ فارس بلکہ ملک کا اہم ترین شہر تصور کیا جاتا ہے، اور آپ عزیز بہن بھائیوں کی خدمت میں حاضر ہوؤں۔ یہ اجتماع بھی بحمد اللہ شوق و عشق، معنویت و روحانیت اور انقلابی جذبات و دینی عقیدے کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے آپ کے لئے خاص عنایت ہے کہ جو تاریخ میں راہ خدا میں آپ کی طویل جد و جہد کی جزا ہے۔
کازرون عصری تاریخ میں ایک نمایاں اور بہت اہم شہر رہا ہے۔ خلیج فارس پر برطانوی سامراج کی جارحیت کے وقت کازرون کے جوانوں نے استقامت کی راہ میں خود کو بلند مقام پر پہنچایا۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک اور آیت اللہ کاشانی رضوان اللہ علیہ کی حمایت میں یہاں کے عوام نے سنہری تاریخ رقم کی ہے۔ پندرہ خرداد (چار جون) کے موقع پر کازرون ان شہروں میں شامل تھا جہاں کے عوام نے بہت شجاعت مندانہ اقدام کیا۔ انقلاب کی تحریک کے آخری سال میں بھی کازرونی نوجوانوں اور اس خطے کے غیور عوام نے طاغوتی حکومت کے خلاف ایسی استقامت کا مظاہرہ کیا اور شجاعت کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس وقت جن گيارہ شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا تھا ان میں ایک کازرون بھی تھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس موقع پر بھی کازرون نے شہدا کی شکل میں نذرانہ پیش کیا تھا۔
علم و ادب کے میدان کی ممتاز شخصیات کی پرورش کے لحاظ سے بھی کازرون کی تاریخ بڑی تابناک اور درخشاں ہے۔ تاریخ اسلام کی عظیم اور زندہ جاوید شخصیت حضرت سلمان فارسی کی کازرون سے نسبت، اس خطے کے لئے مایہ افتخار ہے۔ البتہ حضرت سلمان فارسی کا تعلق تمام ایرانیوں سے ہے سارے ایرانی عوام اور سارے فارسی زبان اور فارس کے وہ سارے لوگ جن کی پیغمبر اسلام نے تعریف فرمائي ہے حضرت سلمان فارسی پر نازاں ہیں۔ حضرت سلمان کی نسبت ہمارے پورے ملک سے ہے آپ کا پوری قوم سے تعلق ہے۔ کازرون کے عوام اس علاقے کو اس جلیل القدر صحابی کی جائے ولادت قرار دیتے ہیں، اصفہان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے اصفہان میں نشو نما پائي، دونوں باتوں میں تضاد نہیں ہے۔ شہر شیراز، صوبہ اصفہان شہر کازرون، دشت ارژنہ جو حضرت سلمان فارسی کے مبارک نام کو خود سے منسوب کرتے ہیں اور ان کو اس کا حق بھی حاصل ہے اسی طرح اصفہان کے لوگ جو کہتے ہیں کہ اس الہی شخصیت نے اصفہان میں نشو نما پائی، اور انہیں ایسا کہنے کا حق بھی ہے۔ ان کے علاوہ ایران کے ہر گوشے میں آباد مسلمان حضرت سلمان فارسی کی ذات پر فخر کرتے ہیں۔
قالوا ابوالصّقر من شيبان قلت لهم
كلاّ و لكن لعمرى منه شيبانُ
یہ نہیں کہنا چاہئے کہ سلمان فارسی فارس یا ایران سے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ فارس اور ایران سلمان فارسی سے ہے۔ مقام ایمان، مقام معرفت، مقام جہاد فی سبیل اللہ اور حقیقت کے پاکیزہ سرچشمے تک رسائی کی سعی پیہم کسی انسان کو اس منزل پر پہنچا دیتی ہے کہ پیغمبر کا ارشاد ہوتا ہے کہ سلمان منا اھل البیت،آپ کو اپنے اہل بیت کا جز قرار دیا۔ حضرت ابو ذر، عمار ، مقداد اور دیگر عظیم صحابائے کرام علو درجات کے لحاظ سے حضرت سلمان فارسی کے بعد آتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ یہ ایرانی نوجوان کے لئے ایک نمونہ ہے۔ یعنی حقیقت کی جستجو میں ڈوب جانا اور اسے حاصل کرکے اس پر ثابت قدم ہو جانا وہ کیمیا ہے جس نے سلمان کو سلمان بنا دیا۔ اسی طرح استقامت، خلوص اور اس حق پر عقیدہ جو آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے، کازرون کے عوام کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے نتیجے مین کازرون کےعوام کانام اس شہر کا نام ملک کی تقدیر اور مستقبل سے لگاؤ رکھنے والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے درج ہو گيا ہے۔ یہ ہیں حقیقی فضیلتیں۔ اسلامی اقدار کے تعین میں ہم اس قسم کی اقدار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کازرونی زن و مرد، اور نوجوانوں کو اسلام میں اپنی سربلندی اور قدر و منزلت کی حفاظت کے لئے ان فضائل پر توجہ دینا ہوگی۔ اس حق بات پر استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کی انہیں شناخت ہو چکی ہے، جس سے انہیں قلبی لگاؤ اور جس کی انہوں نے پیروی کی ہے۔ یہ باعث عز و شرف ہے۔ اشراف امتی حملۃ القرآن و اصحاب اللیل لوگ دولتمندوں اور اہم منصب پر فائز افراد کا شمار امرا اور شرفا میں کرتے ہیں لیکن اسلام میں شرفا کے لئے معیار ذرا مختلف ہے۔ جو راہ خدا میں زیادہ تندہی سے جد و جہد کرتا ہے، جو الہی اصولوں سے متمسک ہے، جو اس راہ میں سچآئي اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اللہ تعالی کے نزدیک اس کا شمار شرفا میں ہوتا ہے۔
کازرون کے عزیز شہریوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ ملک کے حکام اور اس حقیر سے محبت کرتے ہیں اسی طرح ہمارے دل بھی آپ کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
میں نے کازرونی عوام کی انقلابی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا۔ صرف اسی بنیاد پر طاغوتی حکومت کے زمانے میں کازرون بلکہ ایک لحاظ سے پورا صوبہ فارس شاہی غیظ و غظب کا نشانہ تھا۔ آپ شیراز کے بارے میں پڑھئے اور اس طاغوتی حکومت کے دور میں نیا کلچر رائج کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیجئے۔ اب آپ اس کا جائزہ لیجئے کہ ایک حکومت کسی صوبے کی ترقی و پیش رفت کے لئے کیا کام انجام دیتی ہے۔ طاغوتی دور حکومت میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر کوئي توجہ ہی نہیں دی گئی تھی۔ صوبے کی سڑکیں ٹھیک نہیں تھیں۔ صوبے میں پانی کی سپلائی میں مسائل تھے، بند کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر اور صوبے میں بڑی بڑی صنعتیں لگانے سے گریز کیا گیا۔ ملک کے قلب میں واقع صوبہ جو اس عظیم تاریخ کا مالک ہے مواصلاتی لحاظ سے ملک کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہے۔ اس لئے کہ اس کی ترقی سے دلچسپی نہیں تھی۔ طاغوتی حکومت کے دور میں اس صوبے بلکہ پورے ملک کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں حکام میں دلچسپی، ہمدردی اور سنجیدگی تھی ہی نہیں۔ زاویہ نگاہ مختلف تھا، کچھ الگ ہی حساب کتاب تھا۔
آپ غور کریں کہ جب ملک میں ریل گاڑی آئی تو سب کے ذہنوں میں خیال آیا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے مرکز کو ریل پٹری کے ذریعے وسطی صوبوں یعنی فارس اور اصفہان سے گزر کر خلیج فارس سے متصل کر دیا جائے گا۔ یہ بالکل فطری بات نظر آتی تھی۔ لیکن یہ کام نہیں کیا گيا۔ برطانیہ کا وہ سیاسی مصنف جو خود ایک سیاستداں اور ملک کے ساتھ خیانت کرنے والے سامراجی نظام سے وابستہ ہے، اپنی ایک کتاب میں جس کا فارسی ترجمہ ایران و قضیہ ایران کے عنوان سے شائع ہوا ہے اعتراف کرتا ہے کہ ایران کی ریل سروس تہران سے شروع ہوکر ملک کے وسطی علاقوں صوبہ اصفہان اور صوبہ فارس سے گزرتی ہوئی خلیج فارس تک پہنچنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گيا۔ طاغوتی دور میں جب رضاخان کی حکومت تھی ریل پٹری اس ملک کی دشمن تصور کی جانے والی طاقتوں یعنی برطانیہ اور روس کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، بچھائي گئی اور اس کا نام قومی ریل پٹری رکھ دیا گیا! سراسر غلط کہاں کی قومی ریل پٹری؟ ان دنوں برطانیہ اور روس کو ایران کی دو سمتوں میں ہتھیار اور فوجی ساز و سامان منتقل کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے، ان کے لئے تیل کی دولت لوٹنے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے خلیج فارس سے وہ بھی خاصے فاصلے کے بعد سے تہران تک ایک ریل پٹری بچھائی گئي۔ وہاں سے کیسپین سی کے بعض علاقوں تک رسائي کے مسئلے پر توجہ دی گئی تاکہ برطانیہ اور روس کے درمیان رابطہ آسان رہے۔ یعنی ایک ملک کی ترقی کے پروجکٹ یعنی ریل پٹری بچھانے میں اس حد تک سامراجی طاقتوں کا اثر و رسوخ رہتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے ملک کے قلب میں واقع شیراز ریل کی پٹری سے محروم رہا۔ لیکن اللہ تعالی کی مدد سے انقلاب کے ان ابتدائي برسوں میں ہی، مواصلاتی میدان میں اس علاقے میں کافی کام ہوا ہے۔ اسی طرح اس خطے کو ملک کے دیگر علاقوں سے جوڑنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کے زمانے میں ریل کی پٹری بچھائي جائيگي۔ یہ کام انجام دیا جائےگا یہ صوبہ فارس کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔ بالخصوص ان برسوں میں تمام شعبوں میں حوصلہ افزا کام ہوئے ہیں صنعتی میدان میں بند بنانے کی ٹکنالوجی میں اسی طرح دیگر میدانوں میں دیگر صوبوں کی مانند صوبہ فارس کے بھی شایان شان اقدامات کئے جائيں یہ عوام کا حق ہے جو حکومتیں انہیں دلائيں گي اور انشاء اللہ تعالی یہ حق انہیں ملے گا۔ ملت ایران نے اس عظیم ہدف اور مقصد کےحصول کے لئے اپنا پورا وجود داؤں پر لگا دیا۔ اسلامی انقلاب کے دوران قوم کو اپنے تشخص کا احساس ہوا۔ اس قوم کے دشمن ہمیشہ یہ چاہتے تھے اور اس کوشش میں رہتے تھے کہ اس قوم کا تشخص مٹا دیں۔ کیونکہ جب ایک قوم سے اس کا تشخص چھن جائے گا تو اسے بآسانی زیر کیا جا سکے گا۔ دشمن اس کے لئے اس قوم کے ماضی اور اس کے پاس موجود بے پناہ وسائل کی نفی کرتے تھے اس کے اندر موجزن صلاحیتوں کا انکار کرتے تھے کیوں؟ تاکہ اس قوم اور اس ملک کو آسانی سے اپنا دست نگر بنا لیں۔ یہ کام ثقافتی زوال کے دور یعنی پہلوی دور اقتدار میں انجام پا رہا تھا اور روز بروز اس عمل میں شدت آتی جا رہی تھی۔
اسلامی جمہوریہ نے سمت اور رخ کو ایک سو اسی درجہ تبدیل کر دیا۔ ملت ایران کو اپنے تشخص کی فکرہونے لگی، اسے اپنے اسلامی تشخص کا احساس ہوا کہ جو اس کے ایرانی تشخص کا بھی سرچشمہ ہے۔ اسے احساس ہو گیا کہ اپنے گمشدہ یا گم کردہ ایرانی، اسلامی تشخص کو دوبارہ حاصل کرنا ہے اور اسی کی بنیاد پر اپنی منزلیں اور اہداف طے کرنا ہے، منصوبہ بندی کرنا ہے اور اسی تناظر میں سعی پیہم انجام دینا ہے۔ یہ کام ہماری قوم نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے اور کر رہی ہے۔ میں ناامیدی اور مایوسی کی باتوں میں یقین نہیں رکھتا۔ میں ایسے نظریات کا منکر ہوں۔ میں ملک کے گوناگوں مسائل اور عظیم الشان ملت ایران کی صورت حال کےپیش نظر کہتا ہوں کہ یہ قوم اور اس قوم کے نوجوان تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد انقلابی اقدار کے زیادہ گرویدہ اور اس راہ کے تجربہ کار سپاہی بن چکے ہیں، ان کے ارادوں میں زیادہ استحکام پیدا ہوا ہے۔
انقلاب کا جوش کسی شعلے کی مانند بلند ہوتا ہے، ممکن ہے آگے چل کر اس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن اگر اس کے ساتھ سلیقے سے رکھی گئی لکڑیوں میں بھی اس کی حرارت منتقل ہو رہی ہے تو یہ آگ شعلہ ور رہے گی، یہ آگ زیادہ طاقتور بنے گی، اس کی حرارت میں اضافہ ہوگا۔ وہ پہلی آگ ممکن ہے اب باقی نہ رہے لیکن اس سے وجود میں آنے والے شعلوں میں پائداری ہوگی۔ اس کا دائرہ روز بروز بڑھےگا۔
آج ملت ایران کے دشمن سراسیمگی کا شکار ہیں، ملت ایران کی مسلسل پیش قدمی سے مضطرب ہیں۔ میں کازرون میں بسنے والے تمام دوستوں اور اس اجتماع میں موجود بھائي بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوری نظام کا دشمن یعنی عالمی سامراجی نیٹ ورک، جس میں امریکہ ہی نہیں بلکہ عالمی اقتصادی نیٹ ورک کے مالکان، جو آج دنیا میں حکومتیں لاتے اور سرنگوں کرتے ہیں، خود ان ملکوں میں جہاں انہیں جمہوریت کے حامی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ خود امریکہ اور ان ممالک میں جو صیہونزم کی چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں انہیں کا سکہ چلتا ہے، وہ ہیں ملت ایران کے دشمن۔ اسی طرح اس عالمی سامراجی نیٹ ورک کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے والی حکومتیں، یہ سب اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کے سامنے اپنے مفادات کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے دشمن۔ اس دشمن نے ملت ایران کے مقابلے میں تمام وسائل اور ہر ممکن طریقے کا استعمال کیا لیکن پشیمانی کے سوا کچھ اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ ان تیس برسوں میں انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کے بس میں جو بھی تھا انہوں نے کیا۔ اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف اس لئے کہ نفع و نقصان کے حساب کتاب میں انہیں یہ لگا کہ ایسا کرنا فائدےمند نہیں ہے۔ اس میں نقصان زیادہ ہے۔ ورنہ انہوں نے اس قوم کے خلاف ہر وہ اقدام جو ان کے لئے ممکن تھا اور جس میں ان کا بڑا نقصان نہیں تھا، کیا ہے۔ انہوں نے اقتصادی محاصرہ کیا ہے، فوجی حملہ کیا ہے، فوجی بغاوت شروع کروائي ہے۔ ملک کے اندر سے اپنے لئے مہرے تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں، ایسے عناصر کو تلاش کرکے انہیں انقلاب کے خلاف پروپگنڈہ کرنے اور منفی فضا قائم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ حتی انہوں نے ملک کے کمیونسٹوں سے ساز باز کی ہے۔
امریکی سامراج جو کسی زمانے میں مارکسزم اور کمیونزم کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا، ملت ایران کے مقابلے میں اسی سامراج نے ادھر ادھر ناکارہ پڑے کمیونسٹوں کو تلاش کرکے ان سے سازباز کر لی کہ شائد ملت ایران پر کوئي کاری ضرب لگائی جا سکے لیکن ناکامی، سامراجی طاقتوں کے گلے کا طوق بن گئی، ملت ایران نے انہیں ہزیمت سے دوچار کیا۔
ہمیں اس کا علم ہونا ضروری ہے کہ اس شکست خودہ دشمن کی ہمارے خلاف کیا سازشیں ہیں۔ ہمیں پوری طرح بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ العالم بزمانہ لا تھجم علیہ اللوابس اگر آپ کو حالات کا علم ہے، دشمن کی پہچان ہے، اس کی سازشوں کی خبر ہے تو آپ کبھی بھی غافل نہیں ہوں گے۔ ایرانی قوم کو یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ بحمد اللہ ہماری قوم بیدار ہے، یونیورسٹیوں اور دینی مراکز میں بڑی تعداد روشن فکروں، دانشوروں اور آگاہ افراد کی ہے جو عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوان قابل تعریف ترقی کر چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے عوام اور ہمارے بسیجی (رضاکار) نوجوان علم و دانش، تجربہ و مہارت اور سائنس و ٹکنالوجی کے پیچیدہ مراحل میں بہت آگے پہنچ چکے ہیں۔ ہماری قوم اس طرح کی قوم ہے۔ بہرحال حالات سے با خبررہنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آج دشمن جس چیز پر سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ تقرقہ اندازی ہے۔ سیاسی نظریات میں تنوع، صوبائي اختلاف رای اور مذاہب کا تنوع اس تفرقہ انگیزی کے بہانے ہیں۔ عالم اسلام کی سطح پر بھی یہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ میں نے حال ہی میں ایک رپورٹ دیکھی ہے، ابھی کچھ ہی ہفتوں قبل برطانوی پارلیمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عالم اسلام کے ان مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد نہیں ہے اور پھر ان کو بنیاد قرار دیکر اختلافات کو ہوا دی جائے فرقوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے۔
ایک حربہ نوجوانوں کو ورغلانے کا ہے۔ میں نے کئي سال قبل بھی ملک کے نوجوانوں سے کہا ہے کہ ملک آپ کا ہے۔ آپ علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کی سمت بڑھئے۔ یونیورسٹی کے طلبا نے اس پر عمل بھی کیا۔ تجربہ کار اساتذہ نے شب و روز کی تر خلوص محنت سے علمی کارواں کو آگے بڑھایا ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ دس، پندرہ سال قبل کے مقابلے میں ملک کی سائنسی ترقی بہت نمایاں نظر آ رہی ہے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ نوجوانوں کو عبث اور بے سود کاموں اور لہوو لعب میں مصروف کر دینا اور انہیں ملت ایران کی انقلابی زندگی کے راستے سے منحرف کر دینا دشمنوں کا بہت بڑا ہدف ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی پاکدامنی اور تقوا و پرہیزگاری سے آراستہ ان کی زندگی دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
اس کے مقابلے میں ہمیں اپنا تحفظ کرنا ہوگا۔ ملت ایران اپنے اتحاد و یکجہتی، سعی و کوشش اور کاملیت کے اوج کی سمت پیش قدمی کی تحریک کے ذریعے دشمن کو زیر کیا جا سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالی ہم کو دشمن پر فتح حاصل ہوگی۔
اللہ تعالی نے ان تیس برسوں میں ہر آن ہماری مدد فرمائی ہے۔ مختلف مواقع اور مراحل پر اس قوم کے لئے غیبی امداد اور توفیق الہی کا مشاہدہ کیا گيا ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہی ہے کہ آج جو حکومت سامراج کا مظہر ہے یعنی امریکی حکومت وہ بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ امریکہ کی ناکامیاں معمولی نہیں ہیں۔ آپ گزشتہ سات، آٹھ برسوں پر ایک نظر ڈالیں، اسے فلسطین میں شکست ملی، قوموں کے اذہان سے فلسطین کا نام مٹا دینے کی کوششوں میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی، عراقی عوام کی تقدیر و مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ امریکہ، عراق میں جو پٹھو حکومت لانا چاہتا تھا وہ اقتدار میں نہیں پہنچ سکی۔ ابھی دو، تین دن قبل امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار نے اعلان کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کا حملہ مشرق وسطی کی تیل کی دولت کے لئے کیا گيا۔ اس امیدوار کے بیان سے امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں زلزلہ سا آگیا ہے۔ یہ بات تو ہم نے شروع ہی میں کہی تھی۔ جب امریکہ عراق پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھا ہم نے اسی وقت اعلانیہ کہا تھا کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ آپ کی یہ بات جھوٹ ہے کہ آپ عراقی عوام کو آزادی دلانے آئے ہیں۔ بالکل نہیں، آپ تو عراقی عوام کو اسیر بنانے کے لئے آئے ہیں۔ چو دیدم عاقب گرگرم تو بودی صدام امریکی افواج کے مقابلے میں کمزور بھیڑیا تھا۔ امریکی آئے، ہم نے کہہ دیا کہ تیل کے لئے آئے ہیں۔ عراق ہی نہیں پورے خطے کی تیل کی دولت کے لئے ان کا آنا ہوا ہے۔ اس آمد کا مقصد خلیج فارس میں سیاست نہیں بلکہ طاقت کے بل پر ایک مرکز قائم کرنا ہے۔ امریکی اس نیت کے ساتھ آئے تھے۔ اب امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار صریحی طور پر اعتراف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس ایک منصوبہ ہے جو امریکہ کو مشرق وسطی کے تیل کے ذخائر سے بے نیاز کر دےگا اور امریکہ اپنے جوانوں کو میدان جنگ میں بھیجنے کے لئے مجبور نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام اپنی حکومت کی حکمت عملی سے، جنگ عراق اور عراق پر غاصبانہ قبضے سے اس درجہ متنفر ہیں کہ صدارتی امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسی بات کو موضوع اور اشو قرار دے رہا ہے۔
تو کیا یہ امریکی حکومت کی ناکامی نہیں ہے؟ اس سے بھی بڑی شکست ہو سکتی ہے؟ فلسطین میں انہیں ہزیمت ہوئی۔ عراق میں ناکامی ہوئی۔ کمزور سے ملک افغانستان پر بھی تو وہ تسلط قائم نہیں کر پائے۔ لبنان میں ان کی سازشیں شکست سے دوچار ہوئيں۔ البتہ ان کی دریدہ دہنی جاری ہے، دھمکیاں دئے چلے جا رہے ہیں۔ بڑی طاقتیں دوسروں پر رعب جمانے کے لئے مسلسل دھمکیوں کا سہارا لیتی ہیں۔ ملت ایران کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے۔ یہ قوم امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں اور عالمی غنڈوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور نہ ہی کبھی لائے گی۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرے عزیزو! کازرون کے بلند ہمت نوجوانو! با ایمان جیالو! ملک بھر کے نوجوانو! مرعوب نہ ہونا بہت اچھی صفت ہے۔ شجاعت بہت بڑی خصوصیت ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے آشانائی اور آگاہی بہت ضروری ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ یہ سب لازمی چیزیں ہیں لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ ہم سب کو مل کو کوشش کرنا ہوگی۔ حکومت اور عوام کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ ملک اسلامی ملک کے قابل اتباع نمونے میں تبدیل ہو جانا چاہئے۔ اقتصادی اور ثقافتی پہلوؤں پر عوام ، حکام اور نوجوانوں کی پوری توجہ ہونی چاہئے۔ ہر کسی کو ذمہ داری کا پورا احساس ہونا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے صحیح معنی میں عہدہ برآ ہوں اور حکام، عوام کے تعاون سے ملک کو اس مقام تک پہنچائیں جو اسلام کے مبارک نام کے شایان شان ہے تو راستہ یہی ہے کہ عوام کے درمیان اور عوام و حکام کے مابین رابطہ براہ راست، مضبوط اور دوستانہ ہو جس طرح آج نظر رہا ہے۔ جو بھی قوم کو تفرقے کی سمت لے جائے جو بھی قوم اور حکام کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہے، جو بھی اختلافات کو ہوا دے وہ در حقیقت ملت اور قوم کے مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ وہ خواہ کوئي بھی ہو۔
باہمی اتحاد و اتفاق، ایک دوسرے کے سلسلے میں حسن ظن کی نعمت کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ لولا اذ سمعتمواہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا(سورہ نور/62) ایک دوسرے سے دل صاف رکھئے۔ شانہ بشانہ آگے بڑھئے اور یقین رکھئے کہ اللہ تعالی ایسی قوم کو، ایسے پاکیزہ قلوب کو، اس بلند ہمتی کو اپنی توفیقات اور عنایات کا سہارا دےگا۔ بحمد اللہ خدا وند عالم کے فضل و کرم سے قوم پوری طرح آمادہ ہے، ملک کے عہدہ داران آمادہ ہیں، عوام کی خدمت پر کمربستہ ہیں۔ یہ قوم اور یہ حکام تمام مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دشمن کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی عمر اتنے برس کی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ سارے کے سارے دشمن اسلامی جمہوریہ کے زوال کی تمنا اپنی قبر میں لے جائیں گے اور ملت ایران سربلندی و سرفرازی اور عزت و سرخروئی کےساتھ روز بروز ترقی کی نئی نئي منزلیں طے کرے گی۔ ممکن ہے اس دن ہم نہ رہیں لیکن یہ نوجوان طبقہ موجود ہوگا۔ آپ یاد رکھیں کہ کامیابی کا راستہ وہ ہے جس پر اسلام اور خدا نے چلنے کو کہا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ با برکت ملک اور تہذیب و ثقافت کا یہ گہوارہ اپنے اصلی مقام پر پہنچے اور دیگر ممالک کے لئے نمونہ عمل بنے تو راہ اسلام اور اس راہ سے تمسک کو کبھی فراموش نہ کیجئے۔ دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ عزیزوں کے شامل حال ہوں۔
میں آپ کی نوازشوں، اس اجتماع، اجتماعی طور پر پورے جوش وجذبے کے ساتھ پڑھے گئے ترانے پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیشہ کازرون کے عوام اور پورے صوبہ فارس پر اپنی رحمتوں، برکتوں اور عنایات کا سایہ رکھے گا اور اپنے الطاف کو آپ کے شامل حال کرے گا۔
خدایا! ان عزیز نوجوانوں، ان عزیز حاضرین اور بہن بھائيوں کے قلوب کو اپنی ہدایت سے منور فرما۔ ملت ایران کو سربلند و سرفراز کر۔ دشمنوں پر فتح سے ہمکنار کر، دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر۔ پروردگارا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔ ہمیں ان کے اعوان و انصار میں قرار دے، شہدا اور شہیدوں کے امام (امام خمینی رہ) کے درجات میں روز بروز اضافہ کر۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صوبہ فارس کے کازرون شہر میں دسیوں ہزار لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں ، ترقی و شادابی کی سمت ایرانی قوم کے بڑھتے قدم اور مضبوط بنیادوں نیز عوام خاص طور پر نوجوانوں میں انقلابی جوش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت اور قوم کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنے مستحکم و قریبی تعلقات کی حفاظت کے ساتھ ، اسے تمام پہلوؤں سے ایک اسلامی نمونہ عمل بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ جس کے لئے عوام کے ہر فرد اور تمام حکام میں ذمہ داری کا احساس ، اتحاد اور ایک دوسرے کے سلسلے میں حسن ظن ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایرانی و اسلامی شناخت کی بازیابی اور ایرانی و اسلامی شناخت کے دائرے میں معین اہداف کے تکمیل کے لئے منصوبہ بندی اور کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے تیس برسوں کے بعد ، اعلی مقاصد کی جانب ایرانی قوم خاص طور پر نوجوانوں کے بڑھتے قدموں اور ان کی ترقی میں تیزی آئی ہے اور یہی بات ایرانی قوم کے دشمنوں کی شکست کا باعث بنی ہے ۔
کسی قوم کی پسماندگی بہت بڑا دکھھ ہے اور بہت بڑی بیماری ہے۔ بلند ہمتی اور سعی پیہم سے اس بیماری کا علاج کیا جانا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم بیدار ہوں، اس بیماری کی نشاندہی کریں اور پھر اس کے علاج کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ یہ مراحل طے ہو چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صوبہ فارس کے اپنے دورے کے پانچویں دن آج اتوار کو ضلع نورآباد ممسنی کے قبائل اور عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اقتصادی سرگرمیوں کو مزید رونق بخشنے کے لئے ملک میں موجود وسائل اور افرادی قوت کے مناسب اسعتمال کے لئے صحیح منصوبہ بندی کی اہمیت پر تاکید فرمائی اور کہا کہ حکام اور عوام ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملاکر، صحیح منصوبہ بندی کے تحت محنت اور بلندی ہمتی کے ساتھ اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ملک کو اقتصادی میدان میں اس مقام پر پہنچا دیں جہاں پابندیاں اور اقتصادی محاصرہ بے اثر ہوکر رہ جائے۔
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام علي سيّدنا و نبيّنا ابي القاسم المصطفي محمّد و علی اله الأطيبين الأطهرين سيّما بقيّة الله في الأرضين.
میری خوش قسمتی ہے کہ صوبہ فارس کے دورے میں ممسنی علاقے کے مخلص باایمان انقلابی حضرات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس سے قبل کبھی یہ سعادت نصیب نہیں ہوئي۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آج میں اس شہر، اس علاقے اور اس ضلعے کے بہن بھائیوں کے اس عظیم اجتماع میں موجود ہوں۔
ممسنی علاقے کے باشندوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اسلامی بنیادوں پر شروع ہونے والے انقلاب کے دل و جان سے گرویدہ ہو گئے۔ بے شک خاندان رسالت سے اس خطے کے باشندوں کی الفت و محبت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم ایام سے ہی ایسا تھا۔ انقلاب سے قبل طاغوتی دور حکومت میں بھی آیت اللہ شہید مدنی مرحوم نے جو اوائل انقلاب کے شہید محراب ہیں۔ کچھ عرصہ اسی دیار میں جلا وطنی کی زندگی بسر کی۔خطے کے عوام نے اس عالم جلیل القدر کا خیر مقدم کیا کہ جو انقلاب کے لئے ان کے خلوص اور خاندان پیغمبر پر ان کے ایمان کی نشانی ہے۔
مسلط کردہ جنگ کے دوران خطے کے غیور قبائلی، ان افراد میں تھے جنہوں نے میدان کارزار میں شجاعت کے جوہر دکھائے اور اپنا خلوص ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی اور اپنے وجود کا نذرانہ پیش کیا۔ اسلام، انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی ایران کے دفاع کے لئے یہ جیالے جان بکف میدان میں موجود رہے۔ عظیم اہداف کے لئے یہ سچا عشق اس قوم کی قابل فخر خصوصیت ہے۔
ممسنی میں آباد عزیزوں کی ایک اور خصوصیت ہے، جس کا سرچشمہ خطے کی قبائلی آبادی کا ڈھانچہ ہے۔ اگر کوئي سماجی امور کا بنظر غائر جائزہ لے تو اسے بڑی حیرت انگیز باتیں اور نکات دکھائي دیں گے۔ ایک تو یہی قبائلی آبادی کا ڈھانچہ ہے۔ قبیلہ اور خاندان و عشیرہ، افراد کے درمیان خونی رشتے اور قریبی رشتہ داری کا مظہر ہے۔ اسلام نے اس پر تاکید کی ہے۔ اسلام میں رشتہ داری اور قرابت داری، رشتہ داروں کی احوال پرسی، مستحسن عمل ہے۔ یہ صلہ رحم ہے جس کا شمار واجبات میں ہوتا ہے جبکہ اس کی ضد قطع رحم یعنی رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لینا حرام ہے۔ صلہ رحم پر خصوصی تاکید اسی وجہ سے ہے۔ قبائلی آبادی میں رشتہ داری اور باہمی تعلقات، بڑی اہم خصوصیت ہے۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس رشتہ داری اور گھریلو رابطے کا مثبت پہلو بہت با ارزش ہے کہ جس کی جانب میں نے اشارہ کیا لیکن اس کا منفی پہلو بھی ہے یعنی وہ تعصب جو قبائل کے درمیان ٹکراؤ اور لڑائي کا باعث بنتا ہے اس کی نفی کی جانی چاہئے۔ اسلام کے نزیک یہ قابل قبول نہیں ہے۔ قبائلی تعلقات رشتہ داری اور رابطہ بہت ٹھیک ہے لیکن اس سے دوسروں کی نفی نہیں ہونی چاہئے۔ اسلامی اخوت تمام مومنین پر سایہ فگن ہے۔
انّکم من آدم و آدم من تراب ہمارے پیغمبر نے ان لوگوں سے جو قبائلی تعلقات کو متعصبانہ شکل میں اہمیت دیتے تھے اور باہر کے افراد کی نفی کرتے تھے اسی جملے سے جواب دیا۔ یعنی قبیلے کے اندرونی تعلقات اور انس و محبت قابل تعریف اور پسندیدہ چیز ہے گھریلو تعلقات اور رابطے کو اہمیت دینا مثبت بات ہے لیکن اس سے ان افراد کی نفی نہیں کی جانی چاہئے جو ہمارے اپنے خاندان یا قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے۔
میری گزارش ہے کہ قبیلے کی فضا میں آپ رشتہ داری اور باہمی تعلقات کی حفاظت و پاسداری کیجئے اس کی بڑی ارزش ہے لیکن مختلف عشائر اور قبائل ایک دوسرے کی نفی نہ کریں۔ ہم سب آپس میں بھائي ہیں۔ انّکم من آدم و آدم من تراب پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ آپ سب آدم کی اولادیں ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ تو اے اللہ کے بندو! خاکساری کو اپنا شیوہ بناؤ۔ ذرا غور کیجئے کہ ہر سطح کے افراد کے لئے یہ اسلامی تعلیم کتنی اہم ہے۔
عزیزو! بھائيو بہنو! آپ امتحان کے مرحلے سے سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔ آپ نے اسلام اور انقلاب سے اپنے والہانہ لگاؤ اور بھرپور حمایت کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے ملک میں قبائل مایہ عز و افتخار ہیں۔ میں نے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ بعض ممالک اپنی قوم کے فرقوں کے درمیان اختلافات سے فکرمند رہتے ہیں ہراساں رہتے ہیں لیکن ہم اپنے قبائل پر ناز کرتے ہیں ان کے وجود کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے قبائل جہاں بھی ہیں قوم کے پاسدار، دین کے محافظ، علما کے طرفدار، اسلامی اصولوں اور مقامی روایات کے پاسباں ہیں۔ ہمارا قومی جذبہ جو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے دین و عقیدے سے آمیختہ ہے، ہر دور میں ان روایات اور طور طریقوں کی مدد سے باقی رہا ہے جو قبائلی علاقوں میں خاص طور پر رائج ہیں۔ بالخصوص یہ قبائل جو ملک کے وسطی علاقے فارس اور اصفہان میں آباد ہیں، تاریخ میں اہل بیت اطہار اور اسلامی تشخص کے طرفدار رہے ہیں۔
لہذا جب بھی طاغوتی حکومتوں کے دور میں علما اور ظالم نظام کے درمیان ٹکراؤ ہوا قبائل علما کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو گئے ۔ اسی صوبہ فارس میں قبائل نے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی۔ قاجاریہ دور میں آيت اللہ سید عبد الحسین لاری کے قیام کے وقت ظالم بادشاہوں کا ان قبائل نے مقابلہ کیا۔ اس کےبعد رضاخان کے دور میں اور پھر علما کی تحریک کے دوران قبائل نے اپنی قبائلی غیرت اور دین پر اپنے ایمان راسخ کا ثبوت دیا۔ آپ اس چیز کی حفاظت کیجئے۔
عزیز قبائلی جوانو! یہ وہ دور ہے کہ جس میں کامیابی اسی قوم کی قسمت میں ہے جو پختہ بنیادوں پر استوار جذبہ ایمانی سے سرشار ہو۔ ایسے دور میں جب گوناگوں سامراجی پالیسیاں عوام کو بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کی جانب دھکیل رہی ہیں، وہ مومن افراد جن کا عقیدہ محکم بنیادوں پر اسوار ہے اپنے ا یمان کی برکت سے دنیا میں چلنے والی آندھیوں پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں، جس طرح ہمارے جوانوں نے ان طوفانوں پر غلبہ حاصل کر لیا جن کا نشانہ اسلامی نظام تھا۔ سب سے پہلے انقلاب کی کامیابی اور پھر مقدس دفاع میں فتح اور اس کے بعد سے آج تک ہر موقع پر قوم کی استقامت اس کا ثبوت ہے۔
عزیز نوجوانو! اپنے اس ایمان کی حفاظت کرو۔ اپنے عقیدے کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرو۔ شہری، دیہی قبائلی یا کسی بھی دیگر علاقے میں بسنے والے افراد سب کو چاہئے کہ خطے پر حکم فرما خلوص و پاکیز گي کی فضا میں اپنے عقیدے اور ایمان کی بنیادوں کو مطالعے، قبائل کے درمیان درس و تدریس، صاحب فکر افراد اور مفکرین کی مدد سے مسحکم بنائيں۔
آپ کے علاقے کی ایک ہی بات سے مجھے دکھ اور تشویش ہے اور وہ ہے مختلف میدانوں میں اس خطے کی محرومی اور پسماندگی۔ افسوس کی بات ہے کہ صلاحیتوں سے سرشار یہ علاقہ مختلف شعبوں میں محرومی کا شکار ہے۔ حکام کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں کچھ کوتاہیاں ہوئي ہیں جن کی اب جبکہ ایک محنتی حکومت بر سر اقتدار ہے تلافی کی جانی چاہئے۔اس سلسلے میں میں کابینہ کے صوبائي دوروں سے بہت خوش ہوں۔ ملک کے اعلی عہدہ داروں کا مختلف اضلاع میں جاکر لوگوں سے براہ راست ملنا اور حالات کا رپورٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ بنفس نفیس نزدیک سے مشاہدہ کرنا مستحسن اقدام ہے۔ گزشتہ برسوں میں مختلف صوبوں کے دوروں میں میرا ایک اہم ہدف، جس کی جانب میں نے اپنی تقاریر میں اشارہ بھی کیا، یہ رہا کہ حکام کو ملک کے محروم اور پسماندہ علاقوں کی جانب متوجہ کروں۔ ان علاقوں کی جانب ان کی توجہ مبذول کراؤں۔ اب یہ مقصد پورا ہو رہا ہے یعنی عوام کی خدمت گزار حکومت کی ایک اہم حکمت عملی یہ ہے کہ ملک کے تمام گوشوں پر براہ راست نظر رکھے۔ بالخصوص یہ علاقہ اور یہ صوبہ جہاں بارش کی کمی کی وجہ سے کسانوں اور ان لوگوں کے لئے بڑے مسائل پیدا ہو گئے ہیں جن کے کاروبار کا انحصار بارش پر ہے۔ مجھے اطلاع ہے، مجھے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے خشکسالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کچھ مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کی ہے اور کچھ منصوبے بنائے گئے ہیں اسی طرح اس کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ حکومت نے حتی المقدور کوشش کرکے جو منصوبے تیار کئے ہیں ان پر بہترین انداز میں عملدرآمد ہو اور عوام کو ان کا فائدہ پہنچے۔ ہمارے ہاتھ دعا کے لئے آسمان کی جانب بھی اٹھے ہوئے ہیں اور ہم خشکسالی کا شکار اس سرزمین کے عوام کے لئے اللہ تعالی سے طلب رحمت و عنایت کرتے ہیں اور امید کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ضرور نوازے گا۔
سال نو کے آغاز پر میں نے قوم اور حکام سے خطاب کرتے ہوئے جو چیز بیان کی وہ یہی اقتصادی سرگرمیوں کے دائرے کو وسعت دینے کا مسئلہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ دشمن نے اسی پہلو پر نظریں مرکوز کر دی ہیں۔ عزیزو! اسلامی انقلاب کے دشمن نے گزشتو برسوں یعنی تقریبا تیس سال کے دوران ایرانی قوم کے عزم و ارادے کو مضمحل اور کمزور کر دینے کے لئے ہر ممکن حربہ آزمایا ہے۔ سیاسی سازش، فوجی بغاوت، آٹھ سالہ جنگ اور سامراجی و صیہونی چینلوں سے اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کے خلاف مسلسل جاری منفی اور زہریلے پروپگنڈے، ہر حربے کا استعمال کر لینے کے بعد دشمن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ ایرانی قوم کو اقتصادی سازش میں پھنسا سکتا ہے۔ یہ کوئي نئي بات نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز سے اب تک اقتصادی پابندیاں اور محاصرہ مختلف شکلوں میں جاری رہا ہے دباؤ ڈالا گیا ہے لیکن ملت ایران کے پای ثبات میں لغزش نہ آئي ۔ اب بھی دشمن نے اس حربے کا استعمال جاری رکھا ہے اور قوم بھی اپنے موقف سے ہٹنے والی نہیں ہے۔ جس طرح گزشتہ تیس برسوں میں ہماری قوم اقتصادی محاصرے کی سازش کا سامنا کرتے ہوئے ہر شعبے میں ملک کو ترقی کی راہ پر لانے میں کامیاب ہوئی اسی طرح اس دفعہ بھی عالمی سامراجی طاقتوں کی بدنیتی اور سازشوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرے گی۔
مناسب حکمت عملی یہ ہے کہ عوام باہمی سعی و کوشش سے ملک کو اقتصادی طور پر خود کفیل اور ناوابستہ بنا دیں۔ انقلاب نے ہم کو سیاسی خود مختاری عطا کر دی ہے۔ اقتصادی خود مختاری کی راہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام پائے ہیں تاہم ہر طبقے کے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے جس کے سہارے ملک اقتصادی میدان میں وہ کارنامہ انجام دے کہ پھر ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور اس ملک کے اقتصادی محاصرے کی دھمکیاں بے معنی ہوکر رہ جائیں۔ میرا خطاب پوری قوم سے ہے۔ صرف ممسنی کے علاقے میں بسنے والوں سے نہیں۔ سب کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لینا ہے۔ ملک افرادی قوت کے عظیم سرمائے سے مالامال ہے ہمارے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ ضروری مقدار میں سرمایہ کاری، صحیح منصوبہ بندی اور محنت و مشقت اور سعی پیہم کے ذریعے ہم معینہ اہداف کے تحت ملک کو اس مقام پر پہنچا سکتے ہیں کہ جہاں عالمی اقتصادی میدان میں ایران کو اقتصادی پابندیوں اور اقتصادی محاصرے کا ذرہ برابر خوف و ہراس باقی نہ رہے۔ یہ قومی فریضہ ہے اسے ہم کو انجام دینا ہے۔ اس سلسلے میں ہر فرد کوئی موثر رول ادا کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس وسیع و عریض سر زمین اور بے پناہ وسائل موجود ہیں
ایرانی قوم نے گزشتہ تیس برسوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن بہرحال قومی وقار کے لئے کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ کوئی بھی ملک قربانیاں دئے بغیر، قومی وقار، خودمختاری اور مایہ افتخار تشخص جیسے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی قیمت تو ادا کرنی ہی پڑتی ہے۔ ہماری قوم نے یہ قیمت ادا کی اور آئندہ بھی بخوشی ادا کرتی رہے گی۔ میں ان بڑی طاقتوں اور ان کے مہروں سے جو اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے ہیں، کہنا چاہوں گا کہ آپ حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے لفاظی، دھونس دھمکی اور چیخ پکار شروع کر دیتے ہیں۔ میں آپ سب کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ دھمکیاں ایرانی قوم کو پسپا نہیں کر سکیں گی۔ دھمکیاں ہماری قوم کو اس راہ سے منحرف نہیں کر سکتیں جس کا اس نے انتخاب کیا ہے۔ کاملیت، عزت نفس، مکمل خو مختاری، تمام مسائل کا حل پیش کرنے والے دین اسلام کے احکامات اور تعلیمات پر عمل آوری کی راہ کا ایرانی قوم نے انتخاب کیا ہے اور اس راہ سے اسے کوئي ہٹا نہیں سکتا۔ دشمن دھمکیوں سے ہمیں ہراساں نہیں کر سکتا۔ آج کل پھر دھمکیاں سنائي دے رہی ہیں۔ امریکہ اور صیہونیوں اسی طرح ان کی پیرو بعض احمق یورپی حکومتوں نے کیا ملت ایران کو اب تک آزمایا نہیں ہے؟ کیا آپ نے اب تک اس عظیم اور شجاع قوم کو نہیں پہچانا؟ ہم اپنے راستے پر پوری ثابت قدمی سے گامزن رہیں گے اور سامراجی طاقتوں کو اس کا موقع ہرگز نہیں دیں گے وہ اس قوم کے حقوق پامال کریں۔
یہ ہمارا فریضہ، ہماری ذمہ داری اور اس عظیم قوم کا حق ہے، اپنی اپنی ذمہ داری کے مطابق ہمیں اس حق کا دفاع کرنا ہے۔ اور دشمن کو اس کا قطعا موقع نہیں دینا ہے کہ وہ گوناگوں چالوں، مختلف حیلوں اور نفسیاتی حربوں سے اس قوم کا حق پامال کرے۔ انشاء اللہ ہم ہرگز اس کا موقع نہیں دیں گے۔
عزیزو! آپ سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری قوم اور اسی طرح تمام مسلم اقوام کی مشکلات اور مسائل سے نجات کا واحد راستہ اسلام ہے۔ اسلام ہی ہم کو نجات دلا سکتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے گزشتہ تیس برسوں میں بھی جس کے دوران اسلامی جمہوری نظام عنفوان شباب کو پہنچا ہے، جب بھی ہم نے اسلام پر پوری توجہ کے ساتھ عمل کیا ہے کامیابی نے ہمارے قدم چومے ہیں۔ اگر کبھی ہم ناکام ہوئے تو صرف اس لئے کہ ہم نے اس موقع پر اپنے اسلامی فریضے پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ اگر ہم نے اپنا یہ فریضہ پورا کیا تو کامیابی ہمارا مقدر ہوگی۔ بحمد اللہ یہ قوم، شجاع و حوصلہ مند، زیرک و دانشمند اور ہر طرح سے آمادہ قوم ہے، اپنے حقوق سے باخبر اور ان کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔
خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارے حکام کو قوم کی ہر فرد بالخصوص اس (صوبہ فارس کےممسنی) علاقے اور تمام محروم علاقوں کے تعلق سے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توفیق دے۔ ضروری کاموں کی انجام دہی کے لئے وسائل و اسباب فراہم کرے اور حکام آپ عزیز عوام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ پروردگارا ! اپنے ان بندوں پر رحمتیں نازل فرما۔ خدایا عوام کے با ایمان اور پاکیزہ دلوں کو اپنی ہدایت کے نور سے منور کر دے۔ پروردگارا ! اسلامی جمہوری نظام کو روز بروز مزید استحکام و مضبوطی عطا فرما۔ ہمیں ان فرائض کے انجام دہی کی طاقت دے جو قوم کے تعلق سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال کر دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللّه الرّحمن الرّحيم
یوم استاد اور ہفتہ اساتذہ ہر سال میرے لئے اہم باتوں اور ذمہ داریوں سے بھرے ہوئے ایام ہوتے ہیں ۔ اس برس ایسا اتفاق ہوا ہے کہ اساتذہ سے شیراز میں ملاقات ہو رہی ہے اور یہ توفیق حاصل ہوئی کہ آپ فارس صوبے سے تعلق رکھنے والے شیرازی اساتذہ بھائی بہنوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ بہت اچھا موقع ہے اور در حقیقت کہنا چاہئے کہ آپ کے صوبے اور آپ کے شہر نے بہت سے مواقع پر دوسروں کے لئے استاد و معلم کا کردار ادا کیا ہے ۔ بہت کم ایسے علماء ہوں گے جو شیراز کے علماء و اساتذہ سے فیضیاب نہ ہوئے ہوں چاہے فقہ کا موضوع ہو یا فلسفے کا میدان، ادب و شعر و فن میں یا پھر دیگر موضوعات ۔
یوم اساتذہ آپ لوگوں کا دن اور ایک لحاظ سے تمام ایرانی قوم کا دن ہے کیونکہ استاد کی ذاتی شناخت کے علاہ ایک تعلیمی شناخت بھی ہوتی ہے جس کا تعلق ان تمام لوگوں سے ہوتا ہے جو اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ استاد کی سماجی شناخت بھی ہوتی ہے تاہم ایک استاد کی اہمیت اس کی اسی تعلیمی شناخت کی وجہ سے ہوتی ہے اور ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ اس سلسلے میں ہم نے کم کام کیا ہے اور عملی طور پر ہم اس ثقافت اور ماحول سے متاثر ہوگئے جس میں استاد کی اہمیت مادی پہلو _ یعنی رقم کے مقابلے میں درس _ پر منحصر ہوتی ہے ۔ مادی تہذیب کی سوچ یہ ہے ۔ کسی چیز کی قدر سمجھنے کا معیار ہر چیز کو رقم میں بدلنے کی صلاحیت ہے اور اس ثقافت میں استاد جنتی دولت بنا سکے اتنی ہی اس کی عزت ہوتی ہے ، ہم یعنی ایرانی استاتذہ کا سماج اس غلط ثقافت سے متاثر ہو ہوا ہے جبکہ اسلام کی نظر میں مسئلہ اس سے کہیں بالاتر ہے ، تعلیم و تربیت ، ایک انسان کو زندگی عطا کرنا اور اسے نیا وجود بخشنا ہے ، اسلام کا یہ نظریہ ہے آپ لوگ کوشش کریں، سعی کریں کہ زمین کے اس حصے میں جو بظاہر خشک دکھائی دیتا ہے ، کھدائی کریں تاکہ وہاں سے چشمہ جاری ہو جائے ، آپ معمولی سے دکھنے والے ایک بیج کو زرخیز زمین میں بوئيں اور اس کی آبیاری کریں تاکہ وہاں سے سر سبز پودا اگ جائے اصل بات یہ ہے ، چاہے وہ دولت میں بدل پائے یا نہ بدلے ۔
اسلام استاد اور تعلیم و تربیت کو اس نظر سے دیکھتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہيں ہے کہ میں استاتذہ کی ماضی و حال کی مادی ضروریات کو نظر انداز کر رہا ہوں نہيں ، بات یہ نہیں ہے کچھ امیدیں ہیں ، کچھ ضرورتیں ہیں جن میں سے اکثر صحیح بھی ہیں ۔ متعلقہ حکام بھی ہیں اور مجھے کہنا چاہئے کہ متعلقہ حکام کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ نئے وزیر جو ہیں اور جن کی تقریر آپ نے سنی یہ بھی جیسا کہ میں نے دیکھا اور سمجھا ایک سرگرم ، جدو جہد کرنے والے اور محنتی آدمی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ اس میدان میں بھی وہ اپنے فرائض پر عمل کریں گے لیکن میری بات اس سے آگے کی ہے اور میری مراد صرف آپ اساتذہ سے ہی نہيں ہے بلکہ میں یہ بات پوری ایرانی قوم سے کہہ رہا ہوں ، ان تمام لوگوں سے کہہ رہا ہوں جن کے لئے آپ نے تعلیم و تربیت کے دروازے کھولے ہيں تاکہ وہ لوگ اس میں وارد ہو سکیں ۔ یہ ایک ایسے کام ، ایک ایسے اقدام ایک ایسی شناخت کی قدردانی ہے جس کی اہمیت ہماری نظر میں جس طرح سے پہچانی جانی چاہئے تھی پہچانی نہیں گئ ، ماضی میں ، ہاں ماضی میں قبل اس کے کہ ہمارے ملک میں مغربی تہذیب کا عمل دخل ہو یعنی گیارہ بارہ سو برس قبل اور اسلام کے بعد سے کہ جب مختلف زمانوں میں ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت کے ابواب کھلے تھے تو اس وقت معنوی اعتبار سے استاد کی بہت اہمیت تھی ۔ اسلامی تعلیمی مراکز میں ، تعلیم و تربیت کی روش یہی تھی کہ کبھی کسی نے یہ نہيں دیکھا کہ کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے پیر پھیلا کر بیٹھے ۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب ہم تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اس وقت کے طلبہ ایسے ہی تھے ۔ شاگردوں کی نظر میں استاد کی حقیقی معنوں میں عزت ہوتی تھی جس کی کچھ علامتیں آج بھی ہمارے دینی مدارس میں باقی ہيں کیونکہ دینی مدارس ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب سے کم متاثر ہوئے ہيں ۔ اس بنا پر آج بھی دینی مدارس میں یہی روش ہے اور استاد کی ایک خاص عزت اور اس کے لئے ایک خاص قسم کا احترام پایا جاتا ہے۔ اس کی ہیبت _ جو ڈر کی وجہ سے نہيں بلکہ اس کی عظمت کی وجہ سے ہوتی ہے _ شاگردوں کے دلوں میں بیٹھی ہوتی ہے البتہ یہی شاگرد درس کے وقت اعتراض بھی کرتا ہے ۔ ہمارے دینی مدارس میں شاگرد جتنا استاد پر اعتراض کرتا ہے اتنا ہماری یونیورسٹیوں میں رائج نہیں ہے ۔ اس کے لئے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ، کہ استاد ! اجازت ہے ؟ نہیں ، استاد بول رہا ہوتا ہے، استاد پڑھانے میں مصروف ہوتا ہے اسی وقت وہاں بیٹھا ایک طالب علم اعتراض کر دیتا ہے اور استاد بھی اس کا اعتراض سنتا ہے کبھی شاگرد تندی بھی کرتا ہے یعنی شاگرد جسارت کے ساتھ کسی علمی مسئلے پر استاد سے بات کرتا ہے لیکن یہی شاگر اپنے اسی استاد کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتا ہے اس کے ہاتھ چومتا ہے ۔ اس کے سامنے پیر نہيں پھیلاتا، اسے ، تم کہہ کر مخاطب نہیں کرتا ، بارہ تیرہ سو برسوں تک ہم نے اپنے ملک میں استاد و شاگرد کے درمیان اسی قسم کا رشتہ دیکھا ہے یہاں تک کہ ہمارے ملک میں مغربی ثقافت و اقدار آئيں ۔ آپ دیکھیں اس دوران کتنے اساتذہ نے شاگردوں کے ہاتھوں سے مار کھائي ! کتنے اساتذہ کا کلاس میں شاگردوں نے مذاق اڑایا ! کتنی بری باتیں سنی ، کتنے اساتذہ اپنے شاگردوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے ! کیونکہ استاد نے کم نمبر دئے تھے ۔ یہ سارے مسائل تھے البتہ قدیم تہذیب کی وجہ سے یہ مسئلہ ہمارے ملک میں کم تھا لیکن کچھ جگہوں پر بہت زیادہ اور شدت کے ساتھ ہے ۔ ان جگہوں میں جنہيں مغربی تہذیب کا مرکز کہا جاتا ہے ۔ میری کوشش یہ ہے کہ استاد کی اہمیت وہی ہو جو اسلام نے اسے دی ہے ۔ ہمارے سماج کو استاد کی عزت کی ضرورت ہے اس کا احترام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر شاگرد کے سرپرست صحیح معنوں میں اساتذہ کا احترام کریں تو وہ شاگرد کلاس میں اور کلاس کے بعد بھی استاد کو اسی نظر سے دیکھے گا ۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے یہ آپ لوگوں کے لئے تمام مادی سہولتوں سے زيادہ اہم ہے ۔ ہمارے بزرگوار امام ، صاحب حکمت تھے امام ، قرآنی معنوں میں صاحب حکمت تھے ۔ صاحب حکمت یعنی وہ جو ایسے حقائق کا مشاہدہ کرتا ہو جو دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہوں ۔ اس کی باتیں ہو سکتا ہے بظاہر عام سی لگیں لیکن جتنا آپ غور کریں اتنی ہی تہیں اس میں موجود ملیں گی امام (خمینی رہ)اسی طرح تھے۔ آپ دیکھيں قرآن میں ، جہاں حکمت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: «ذلك ممّا اوحى اليك ربّك من الحكمة»، یہ بظاہر معمولی نصیحت ہے وہی بات جو ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں لیکن آپ جتنا غور کریں دیکھیں گے کہ اس میں بہت گہرائی ہے مثال کے طور پر ماں باپ کا احترام حکمتوں کا ایک حصہ ہے ۔ ماں باپ کے احترام کی ، اس کے فوائد و برکتوں کے لحاظ سے ، کوئي حد نہیں ہے آدمی اس پر جتنا غور کرتا ہے اتنا اسے لگتا ہے کہ اس میں گہرائی ہے حکمت یہ ہے ۔ امام جو ایک حکیم تھے انہوں نے کہا ہے کہ تعلیم دینا ، انبیاء کا کام ہے یہ بہت بڑی بات ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک حدیث بھی ہے ،ان آیتوں کے علاوہ جن میں : «يزكّيهم و يعلّمهم الكتاب و الحكمة» بار بار دہرایا گیا ہے،جس میں تعلیم کو انبیاء سے منسوب کیا گیا ہے : «انّ اللّه لم يبعثنى معنّتا و لا متعنّتا ولكن بعثنى معلّما ميسّرا»؛ خدا نے مجھے استاد کی شکل میں مبعوث کیا ہے معلم میسر یعنی آسان بنانے والا ، میں زندگی کو اپنے شاگردوں کو اپنے تعلیمات کے ذریعے آسان بناتا ہوں اور امور کو ان پر آسان کرتا ہوں ۔ یہ آسان بنانا ، آسان سمجھنے سے مختلف ہے اس کا مطلب لاپروائی نہیں ہے میں معنت و متعنت نہیں ہوں یعنی نہ خود کو زندگی کے دشوار پیچ و خم میں پھنساتا ہوں اور نہ ہی لوگوں کو ، بلکہ اپنی تعلیمات سے لوگوں کو صحیح اور سیدھے راستے یعنی صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہوں ۔ آسان بنانے کا مطلب یہ ہے ۔ کبھی آدمی کسی مقصد کا حصول چاہتا ہے لیکن اسے راستے کا علم نہيں ہوتا ۔ کنکر پتھر ، سانس پھلا دینی والی چڑھائیاں ، مسلسل اوپر جا ئے ، مسلسل نیچے آئے آخر میں معلوم نہیں پہنچتا بھی ہے یا نہیں ۔ اسے تعنت یعنی خود کو پریشانی میں ڈالنا کہتے ہیں لیکن کبھی اس سے کچھ مختلف ہوتا ہے ، کوئی باخبر آدمی اس کے ساتھ جاتا ہے اور وہ باخبر شخص اس سے کہتا ہے جناب ادھر سے جائيں ! یہ راستہ ہموار بھی ہے اور نزدیک بھی اور یقینا آپ کو مقصد تک پہنچا بھی دے گا «معلّماً ميسّرا» کا یہ مطلب ہے ، استاد کی شان یہ ہے ۔ یہ میری اصل بات ہے میں چاہتا ہوں آپ لوگوں سے جو خود استاد ہیں ، آپ لوگ اپنی منزلت اور مقام کو اچھی طرح سے پہچانیں اور اسی طرح عوام سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں بلکہ اصل میں میرے مخاطب عوام ہیں کیونکہ عام طور سے اساتذہ کو اپنی قدر و منزلت کا علم ہوتا ہے ۔ ایک آگاہ استاد ، جس کے پاس حقیقت میں علم ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو علم عطا کرتا ہے ، اسے علم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے ، ایک بند تالا ہوتا ہے جس کی ایک چابی ہوتی ہے استاد، وہ چابی شاگرد کو دیتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اس چابی کو اس طرح سے تالے میں لگاؤ ۔ اسے تعلیم کہتے ہیں ۔یہ ایک ایسا معما ہے جسے کسی بھی صورت میں حل نہیں کیا جا سکتا سوائے اس راستے سے ۔ اس لئے استاد _ اپنے مختلف مراتب کے ساتھ _ خود جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اسی لئے عام لوگوں سے خاص طور پر میں یہ بات کہہ رہا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے سماج میں تعلیم و تربیت کا وہی مقام ہو جو اسے اسلام نے عطاکیا ہے ۔ یہ جو حدیث نقل ہوئی ہے کہ : «من علّمنى حرفا فقد صيّرنى عبدا» _ البتہ مجھے نہیں معلوم کہ اس روایت کی سند کیا اور کیسی ہے اور کتنی قابل اعتماد ہے لیکن بات صحیح ہے _ حقیقت یہی ہے کہ آدمی کسی سے کچھ سیکھ کر در اصل ایک ایسے مرحلے سے گزر جاتا ہے جس کی وجہ سے مناسب ہے کہ وہ خود کو اس رہنما اور تعلیم دینے والے کا غلام سمجھے ۔ اصل بات یہ ہے ۔
یہاں پر ایک اور نکتہ ہے اور وہ بھی اہم ہے اسے بھی بیان کرتا ہوں یہ خاص طور سے آپ اساتذہ کے لئے ہے اور وہ بات یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں جس طرح سے استاد کا احترام کیا جانا چاہئے اسی طرح سے شاگردوں کی بھی عزت کی جانی چاہئے ، شاگرد کا بھی احترام کیا جانا چاہئے ، اس کی بے عزتی نہيں کی جانی چاہئے ۔ اس کا ایک نہایت گہرا تربیتی پہلو ہے ۔ اس سلسلے میں بھی ایک روایت ہے : «تواضعوا لمن تعلّمون منه و تواضعوا لمن تعلّمونه»؛ جس سے سیکھتے ہو اس کے سامنے انکساری کرو اور جو تم سے سیکھے اس کے ساتھ بھی انکساری سے پیش آؤ ، «و لا تكونوا جبابرة العلماء». جابر کی دو قسمیں ہوتی ہیں سیاسی جابر اور علمی جابر ، علمی جابر نہ بنو ۔ جبار عالم ، نہ بنیں ۔ فرعون کی طرح ۔ میں نے خود اپنے ہی ملک کی ایک یونیورسٹی میں ، کئ برس قبل شاید چالیس پینتالیس سال پہلے ایسا ایک استاد دیکھا ہے جو اپنے شاگردوں سے ایسے بات کرتا تھا اور اس طرح سے انہیں پڑھاتا تھا اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تھا جو فرعونیت سے بھرا ہوتا تھا ، اس میں باپ کی بیٹے کے لئے شفقت جیسی کوئی چیز نہيں تھی ۔ استاد ہو سکتا ہے سختی کرے لیکن سختی تحقیر سے مختلف چیز ہے ، بے عزتی کرنے سے مختلف ہے ۔ شاگردوں کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ آپ سب لوگوں کو یقینا بہت تجربہ ہوگا جن شاگردوں کا آپ نے احترام کیا ہوگا ان میں اس کے اثرات نظر آئے ہوں گے اور اس کی تربیت آسان تر ہو گئ ہوگی ۔ گالی دینا ، بے عزتی کرنا بلکہ مارنا اچھی بات نہيں ہے حالانکہ پرانے زمانے سے مشہور ہے کہ سیکھانے کے لئے مارنا چاہئے یہ عام بات تھی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نہيں ، مارنا ٹھیک نہیں ہے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ شاگرد کو موم کی طرح ہاتھ میں لیکر شکل دینی چاہئے لیکن نرمی کے ساتھ ، استاد کا فن اسی میں ہے ۔ اس مسئلے کا ایک رخ یہ بھی ہے ۔
استاد اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بہت سے مسائل ہیں میں نے بھی مختلف برسوں میں اسی مناسبت سے اساتذہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں کچھ باتیں کہی ہیں اور اب بھی اعلی ثقافتی انقلاب کونسل میں اور تعلیم و تربیت کے وزیر سے ملاقات میں بھی بہت سی باتیں کہی ہیں جو میری ذاتی رائے نہيں ہے بلکہ تقریبا ان ساری باتوں پر ماہرین نے کام کیا ہے اور تعلیم و تربیت کے میدان سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔ میں نے ان سب باتوں پر عمل کا مطالبہ کیا اور خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ وزیر صاحب نے یہ جو ابھی رپورٹ دی ہے اس میں کہا ہے کہ ان میں سے کچھ کاموں کو یا تو شروع کر دیا ہے یا پھر اس کے لئے اقدامات کر دئے ہيں ، اچھی بات ہے ۔ لیکن اسی پر اکتفا نہیں کی جا سکتی بلکہ ہمیں تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع کاموں کی ضرورت ہے ۔
میں نے گذشتہ برس ، تہران میں اساتذہ سے اسی موقع پر ملاقات میں ، تعلیم و تربیت کے میدان میں بڑی تبدیلی کی بات کی تھی ۔ بڑی تبدیلی کا کیا مطلب ہے ؟ بارہا میں نے کہا ہے کہ ہمیں مغرب والوں یا کسی بھی دوسرے سے سیکھنے میں کوئی شرم نہیں ہے ، ایسا کرنے سے انکار بھی نہیں کرتے ۔ ہم ایک ادارتی روش ، ایک تعلیمی روش ، یا کوئی تکنیک و ایجاد کو دوسرے ملکوں سے سیکھیں اس میں ہمیں عار نہيں محسوس ہوتی ، ہم اس سے پیچھے بھی نہيں ہٹتے ، اس کے لئے کوشش بھی کرتےہیں ۔ شاگرد بنتے ہیں لیکن یہاں پر دو نکات ہیں ۔ سیکھتے وقت بڑے افسوس کی بات ہے ، ثقافتی تبدیلی کے وقت _ یعنی پہلوی دور میں جو ہمارے ملک میں ثقافتی تبدیلی کا دور ہے _ ان دو نکات پر توجہ نہیں کی گئ ۔ آنکھیں بند کر لی گئيں ، ہاتھ پھیلا لئے گئے ، جو بھی آیا ، جو بھی ملا ، اسے ان لوگوں نے لے لیا ۔ ان دو نکات میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ ہم جو بھی لیں اس کا پہلے جائزہ لیں ، دیکھیں کہ ہمارے کام کی چیز ہے بھی یا نہيں ۔ اگر صد فی صد ہمارے کام کی چیز ہو تو صد فی صد اسے قبول کر لیں ، اگر صد فی صد ہمارے کام کی چیز نہ ہو بلکہ نقصان دہ ہو تو اسے صد فی صد مسترد کر دیں اور اگر ان دونوں کے بیچ کی صورت ہو تو جتنا ہمارے کام کی ہو اتنا ہی لیں اور باقی کو مسترد کر دیں یہ تو پہلا نکتہ ہے ۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو شخص ، کوئی چیز ، کوئي پھل کوئي کھانے کی چیز یا کوئي دوا دیکھتا ہے ، اس کے بارے میں جانتا ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنی مرضی سے کھاتا ہے اور اسے اٹھا کر اپنے منہ میں رکھتا ہے تو وہ شخص اس آدمی سے الگ ہوتا ہے جس کے ہاتھ پیر باندھ کر کوئی چیز زبردستی اس کے بدن میں انجیکشن کے ذریعے ڈال دی جائے ۔ ان دونوں صورتوں میں فرق ہے ۔ پہلی صورت صحیح ہے ، دوسری صورت غلط ہے ۔ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے ، ہمیں منتخب کرنا چاہئے ۔ اس نکتے کی جانب توجہ نہيں دی گئ ۔ جو کچھ بھی لائیں ، اس کے سلسلے میں ہم بے ہوش اور گہری نیند میں سوتے آدمی کی طرح نہ ہوں کہ جو چاہیں ہمارے اندر ٹھونس دیں ۔ ثقافتی تبدیلی کے زمانے میں ہم اپنے حلق میں ہر چیز ڈالنے کا انتظار کرتے تھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ شاگرد اور استاد کا قصہ قیامت تک نہ چلے ۔ جی ہاں ہم شاگرد بننے پر تیار ہیں اس کے جسے اس بات کا علم ہو جس کا ہمیں نہيں ہے لکن قیامت تک تو آدمی کو شاگرد ہی بنے نہیں رہنا چاہئے ، ہمیں خود بھی استاد بننا چاہئے ۔ ان دو نکات پر توجہ نہیں دی گئ ۔ ایک چیز جو ہم نے سیکھی تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہے ۔ تعلیم و تربیت کا ان کا طریقہ کار اچھا تھا جسے ہم نے ان سے سیکھ لیا ۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ پرائمری نظام، پہلے والے نظام سے بہتر تھا ، ہائی اسکول جیسی تقسیم اچھی تھی ہم اس کا انکار نہیں کرتے ۔ یہ فائدہ مند ہے لیکن کتنا ، کس طرح سے ، اس روش کے ساتھ ، ہم نے ان باتوں پر دھیان نہیں دیا بس سب کچھ اکٹھا ہی قبول کر لیا ، انہوں نے کہا چھے کلاس ایسی ہوں چھے کلاس ویسی ہوں ہم نے وہی نظام چلا دیا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنا طریقہ کار بدل لیا پانچ کلاس ، تین کلاس وغیرہ ۔ ہم نے بھی یہی سیکھا اس پر عمل کیا ٹھیک ہے لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے مختلف نصاب کی کتابوں کو لائيں اور ہم سے کہیں اسے پڑھائيں ۔ ہم نے اسی طرح سے تعلیم حاصل کی تعلیم و تربیت کا نظام ، ڈھانچے اور مضامین کے لحاظ سے ، پوری طرح تقلیدی ہے ۔ یہ صحیح نہيں ہے ہمیں غور کرنا چاہئے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے یہ جو روش ہے اس میں کیا خرابی ہے ، اس میں کچھ خرابیاں ہيں جن میں سے ایک سمجھنے کے بجائے رٹنے کو اہمیت دینا ہے ، ہمارا تعلیمی نظام رٹنے پر استوار ہے بچوں کو ہمیشہ رٹنا پڑتا ہے ۔ میں آپ لوگوں سے جملہ معترضہ کے طور پر کہتا ہوں کہ یاد رکھنے کے لئے رٹنا بری بات نہيں ہے ، بچوں کا رٹنا ، ان کا پڑھنا اور زیادہ پڑھنا بری بات نہیں ہے یہ تو اچھی بات ہے کیونکہ یاد کی ہوئی چیزيں باقی رہ جاتی ہیں ۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ چیزیں ان کی سمجھ میں ہی نہ آئيں ۔ جب ہم پڑھتے تھے تو ہمارا اسکول ذرا مختلف تھا ۔ وہاں کا نصاب اس وقت رائج تعلیمی نصاب سے مختلف تھا ۔ وہاں ہمیں گلستان پڑھائی جاتی تھی ۔ مجھے گلستان کے کچھ اشعار اور عبارتیں اسی زمانے سے آج تک یاد ہیں جب ہم گلستان پڑھتے تھے تو اس کے معانی ہماری سمجھ میں نہیں آتے تھے ۔ دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ ہی ان اشعار و جملوں کے معانی ہماری سمجھ میں آ گئے یہ اچھی بات ہے ۔ آدمی ممکن ہے کچھ باتوں کو صحیح طور پر نہ سمجھ پائے لیکن یاد کی ہوئی یہ چیزیں ذہنی کاوش کا ماحول بناتی ہیں ۔ حفظ کرنا اچھا ہے لیکن اس کو سب سے زيادہ اہمیت دینا برا ہے یعنی ساری کوشش رٹنے اور یاد کرنے کے لئے ہو بلکہ اہمیت سمجھے کو دی جانی چاہئے بھلے ہی اس کے ساتھ رٹ بھی لیا جائے جی تو یہ ایک بہت بڑی برائی ہے اسے دور ہونا چاہئے-
ہم نے اگر آج اس غلطی کو نہ سدھارا تو پھر کون سدھارے گا ؟ وہ ثقافتی دور ، مرحوم آل احمد غربزدگی کے بقول مغربی تمدن کی چمک دمک کے سامنے حیرت و تعجب کا زمانہ گزر گیا ، آج اس سجے ہوئے چمکتے دمکتے چہرے کی حقیقت ہمارے اور دنیا کے بہت سے لوگوں کے سامنے کھل گئ ہے ، اس کی برائیاں ، کمیاں ، بری صورت سب کچھ واضح ہو چکا ہے ۔ آج ہمیں ایسی بہت سی باتوں کا علم ہے جن کا پچاس برس قبل علم نہيں تھا ایرانی قوم کو آج اس قسم کے بہت سے حقائق کا علم ہے ۔ ہمیں آج اس کی اصلاح کرنی چاہئے ۔ یہ کام کون کرے گا ؟ اصل ذمہ دار ، تعلیم و تربیت کا ادارہ ہے ۔ لیکن مجھے کہنے دیں صحیح ہے کہ تعلیمی ادارے میں اس کے لئے ایک شعبے کی تشکیل ہوئي ہے یہ ضروری بھی ہے کے تعلیمی ادارہ اس سلسلے میں آگے بڑھے لیکن ، تعلیمی شعبوں کے ذمہ دارو! اصلی بات تو ماہرین کا نظریہ ہے ۔ آپ لوگ اعلی ثقافتی انقلاب کونسل یا دوسری جگہوں پر جو ماہرین ہیں ان کے نظریات و خیالات سے محروم نہ رہیں ، ان سے استفادہ کریں اور ایرانی قوم اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک اہم اور بڑا کام کریں تاکہ یہ ہمیشہ باقی رہنے والی اچھائی بن جائے ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو میری نظر میں بہت اہم ہے ۔
دوسری بات ، اساتذہ اور تعلیمی شعبے میں تعلیم دینے والوں کی ٹریننگ اور تربیت ہے ۔ یہ بہت اہم ہے اس سلسلے میں _ خوش قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے میں اساتذہ کی ٹریننگ کے بہت سے وسائل ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جانا چاہئے _ میرا خیال ہے کہ اس کے لئے یونیورسٹیوں کے وسائل سے بھی استفادہ کیا جانا چاہئے اور باہر والوں کے لئے دروازے بند نہیں کرنا چاہئے تمام وسائل سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری نہ ہو لیکن کسی مضمون یا کام میں اسے مہارت ہو ۔ مشہد میں کچھ ایسے اہل شعر و ادب تھے جن کے پاس یونیورسٹی بلکہ کچھ لوگوں کے پاس یونیورسٹی سے نیچے کی بھی تعلیم نہیں تھی لیکن وہ استاد تھے ، انہيں ناصر خسرو ، مسعود سعد سلمان ، سعدی ، حافظ ، صائب جیسی ہستیوں پر عبور حاصل تھا یونیورسٹیوں میں ادب کی تعلیم حاصل کئے ہوئے بہت سے اساتذہ سے کئ گنا زیادہ ! یہی صورت حال دیگر علوم میں بھی ہو سکتی ہے ان لوگوں سے محروم نہیں رہنا چاہئے ۔ اسی طرح میں دوسرے فریق سے بھی کہنا چاہتا ہوں تعلیمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ تمام سطحوں پر پڑھے لکھے لوگ سماج کو دے لیکن اگر ہم یہ سمجھيں کہ تعلیمی ادارے کے تحت چلنے والے اسکول ہر حالت میں یونیورسٹی میں جانے کا مقدمہ ہیں تو یہ غلط ہے ۔ جی نہیں ، کچھ لوگوں نے دنیا و آخرت کی کامیابی کو یونیورسٹی میں داخلے پر منحصر کر لیا ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا ۔مثلا یونیورسٹی میں داخلے کے کمپٹیشن میں فیل ہونے والے کسی طالب علم نے الٹا سیدھا قدم اٹھا لیا یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا ۔ یا ماں باپ نے اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا ؟ جی نہیں جناب یونیورسٹی علمی ترقی و تحقیق کا راستہ ہے ، ٹھیک ہے ، یہ ملک کے لئے ضروری ہے ۔ آپ لوگوں کو علم ہے کہ میں تعلیم میں توسیع و گہرائی کا قائل ہوں اور اس پر زور بھی دیتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں اچھے دکاندار کی ضرورت نہيں اچھے ڈرائیور کی ضرورت نہیں ، اچھے تاجر کی ضرورت نہيں ، اچھے ٹیکنیشئن کی ضرورت نہيں ہے ۔ پورے ملک کے تمام مرد عورتوں کا ہر حالت میں یونیورسٹی جانا ضروری نہیں ہے لیکن ابتدائی تعلیم کی ضرورت ہے اس طرح سے ابتدائی تعلیم جس کا ذمہ دار تعلیمی ادارہ ہے ، ضروری نہیں ہے کہ صرف یونیورسٹی میں جانے کا مقدمہ اور اس کی راہ ہموار کرنے والی ہو ۔ جی نہيں ، یونیورسٹی اچھی ہے ، ضروری ہے لیکن ابتدائی تعلیم کے ذمہ دار تعلیمی ادارے کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تعلیمی ادارے کے ذریعے ایسے افراد تیار کئے جائيں جنہيں ضروری حد تک علم و مہارت ہو تاکہ وہ جہاں بھی کام کریں اس حد تک علم و معلومات سے بہرہ مند ہوں ۔ اب کچھ لوگوں میں صلاحیت ہے ، اشتیاق ہے وہ یونیورسٹی چلے جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ نہيں جاتے ، یا جانے کا شوق نہیں ہوتا یا حالات نہيں ہوتے تو وہ نہيں جاتے ۔
البتہ یہ ، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بات سے مختلف ہے ۔ وہاں ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں یعنی اگر کسی کو شوق ہو ، صلاحیت بھی ہو لیکن مادی وسائل نہ ہوں تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ یونیورسٹی تک پہنچ سکے ۔ یہ انصاف ہے ۔ یعنی یہ سہولت سب کو حاصل ہونی چاہئے ۔ ایک بار میں نے تعلیم چھوڑ دینے والے ایک نوجوان سے اپنی عادت کے مطابق پوچھا : پڑھائی کیوں چھوڑ دی ، کیوں آگے کی تعلیم حاصل نہیں کی اور کام میں مصروف ہو گئے ؟ اس نے مجھے یونہی ایک جواب دے دیا میں نے تھوڑا اصرار کیا _ اس نے جو کام شروع کیا تھا وہ اچھا کام تھا _ وہ نوجوان اپنے خاص مشہدی لہجے میں کہنے لگا : یہ کام میرے خون میں ہے ۔ وہ کام اس کے خون میں تھا اس کے وجود میں ہے یہاں پر کہنا چاہئے ٹھیک ہے کوئي کام یا دکانداری اگر کسی کے خون میں ہے تو اسے جانے دیں کیا ضروری ہے کہ وہ ہر حالت میں یونیورسٹی جائے ، اس سے یہ اصرار کی کیا ضرورت ہے کہ نہيں تم ضرور یونیورسٹی جاؤ ۔ یہ اس معاملے پر صحیح نظریہ ہے ۔
دوسری بات ، تربیتی سرگرمیاں ہیں جیسا کہ میں نے کہا ، انقلاب کے بعد جو اچھے کام کئے گئے _ جس کے بانی مرحوم شہید با ھنر تھے خدا ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے _ ان میں سے ایک تربیتی ادارے کا قیام ہے ۔ اسے مختلف بہانوں سے بند کر دیا گیا میں اس معاملے پر بد ظنی کے ساتھ نظر نہيں ڈالنا چاہتا لیکن بہرحال کج فکری تھی اس لحاظ سے کہ تربیت ، مختلف اساتذہ کے ذریعے کلاس میں ہونی چاہئے اسے الگ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس مرکز کو ، جو تربیتی امور سے مخصوص تھا ، بند کر دیا گیا ۔ جی ہاں ، میرا بھی یہی خیال ہے ، میرا بھی یہی خیال ہے کہ آپ جو فزیک ، ریاضیات ، الجبرا ، ادب ، سماجیات یا جس علم کے بھی استاد ہيں ، آپ دینی امور اور اخلاقیات کے استاد اور اپنے شاگردوں میں اخلاقی اقدار کو مضبوط بنانے والے بن سکتے ہيں ۔ کبھی ایک ریاضی کا استاد ، کوئی مسئلہ حل کرتے وقت ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ جس کے اثرات شاگرد کے دل کی گہرائی پر پڑتے اور ہمیشہ باقی رہتے ہیں اسے ہر استاد کو اپنا فرض سمجھنا چاہئے اور میں آپ لوگوں سے جو یہاں پر تشریف فرما ہیں اور تمام اساتذہ سے _ وہ چاہے جو پڑھاتے ہوں _ عرض کرتا ہوں کہ اس طرف سے غافل نہ ہوں کہ تربیت بھی آپ کے کام کا حصہ ہے اور اس سے بہتر کیا ہوگا کہ آپ استاد کے مقام اور شاگردوں پر اپنی باتوں کے اثرات سے اس سلسلے میں فائدہ اٹھائيں اور اپنے شاگرد کے دل میں ایک نورانی و روشن نقطہ پیدا کر دیں ، ممکن ہے خدا کے سلسلے میں ایک بات ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں کوئي بات ، قیامت کے بارے میں کوئی بات ، معنویت و خدا کی طرف توجہ و اس سے محبت کے بارے میں کوئی بات ، ریاضیات ، ادب ، پہلی یا دوسری کلاس کے استاد کی حیثیت سے آپ کے منہ سے نکل جائے جو اس بچے ، نوجوان اور آپ کے شاگردون کی شخصیت کو مناسب شکل عطا کر دے اور اس کے اثرات دوسری شکلوں میں سو گھنٹے بولنے سے زیادہ ہوں ۔ یہ تو اپنی جگہ پر ایک فرض ہے لیکن یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ہم تعلیمی ادارے میں ایک ایسا شعبہ بھی بنائيں جو پابندی و ذمہ داری کے ساتھ تربیتی پہلو کا خیال رکھے کیونکہ ہمیں معلوم ہے تربیت کہ بغیر تعلیم کا کوئي فائدہ نہيں ہے ۔ بغیر تربیت کے تعلیم سے انسانی سماج اسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے گا جس میں آج ، سو ڈیڑھ سو یا اس سے زیادہ وقت کے بعد مغربی سماج پھنسے ہوئے اور اسے محسوس کر رہے ہیں ۔ یہ وہ امور ہیں جن کے اثرات دس بیس برس میں ظاہر نہیں ہوتے ۔ جب ہوش آئے گا تو نظر آئے گا کہ ایک نسل برباد ہو چکی ہے اور اب اس کا کچھ نہيں کیا جا سکتا ، ایک نسل مایوس کن ہے ۔ اس سلسلے میں میرے پاس بہت معلومات اور دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں _ یہاں پر ان کے ذکر کی جگہ نہيں ہے البتہ کچھ مقامات پر میں نے ان کا ذکر کیا ہے _ صریح و کھلے ہوئے اعترافات ۔ یہ نہ سوچيں کہ ہم یہاں اتنی دور بیٹھ کر یہ بات یونہی کہہ رہے ہيں جی نہیں ، یہ خود ان کی باتیں ہیں وہ انتباہ ہے جو خود وہ اپنے آپ کو دے رہے ہيں ۔ یہ واقعہ مغرب میں پیش آ چکا ہے اور یہ وہی سیلاب ہے جو گھر کو بنیاد سمیت اکھاڑ کر تباہ کر دیتا ہے ۔ بغیر تربیت کے علم ایسا ہے ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی سماج میں علمی ترقی ہوتی ہے لیکن تربیت کا انتظام نہیں ہوتا ۔ آپ مغرب کے ایٹم بم کو چھوڑیں ، مختلف قسم کی سیاسی عدم شفافیت کو چھوڑیں ، ان کے مختلف جھوٹ کو چھوڑیں ، بڑی بڑی کمپنیوں اور تنظیموں کی جانب سے فائدہ کے لئے ہاتھ پیر مارنے کو چھوڑيں ، ان کا الگ قصہ ہے تاہم وہ بھی اسی کا نتیجہ ہے ۔ اصل بات ، انسانی نسل کا ضیاع ہے ۔ اس بنا پر تربیتی امور کا معاملہ بہت اہم ہے وہ بھی ایک طاقتور و مفید ادارے اور شعبے کی شکل میں ، صرف ظاہری نہیں ۔
دوسرا ایک مسئلہ تعلیم بالغاں کا ہے اور ہمیں تعلیم سے محرومیت کی اس مصیبت کو ملک سے ختم کرنا چاہئے ۔ پہلی بات تو ملک کے کچھ علاقوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچہ ، تعلیم شروع کرنے کی عمر میں _ وہ بچے جن کی عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہو گئ ہے _ اسکول نہیں جاتے یہ بہت خطرناک ہے ۔ بہت بری بات ہے ۔ کچھ ایسا انتظام کیا جانا چاہئے کہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنا سب کے لئے ضروری ہو جائے ، کم سے کم ابتدائی تعلیم کی ڈگری سب سے کے لئے ضروری قرار دی جائے ، شناختی کارڈ کی طرح ، ڈرائوینگ لائسنس کی طرح یہ ڈگری سب کے پاس رہے ۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ جس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور ہماری یہ عدم توجہ باعث بنتی ہے کہ ملک کے کچھ علاقوں میں کچھ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھائيں ۔ بچوں کو تعلیمی ادارے کے چینل سے گزرنا چاہئے اور اس مرحلے کو پورا کرنا چاہئے اس کے بعد جو بھی کریں وہ الگ بات ہے لیکن اس حد تک ضروری ہونا چاہئے ۔ تعلیمی شعبے اور تعلیم بالغاں تحریک کے ذمہ داروں کو بیٹھ کر ایک حد کا تعین کرنا چاہئے ۔ مثال کے طور پر پچاس برس یا پچپن یا ساٹھ برس سے کم عمر کے لوگ ۔ اس کے لئے ایک مدت کا تعین کریں مثال کے طور پر پانج برس کہ اس کے دوران پورے ملک میں تمام لوگوں کو تعلیم یافتہ ہو جانا چاہئے ۔ اب جو لوگ اس عمر سے زيادہ کے ہوں ان پر کم سختی کے ساتھ دھیان دیا جائے ۔ نہ یہ کہ مکمل طور پر انہیں چھوڑ دیا جائے لیکن جو لوگ پچاس یا پچپن سے کم کے ہوں چاہے مرد ہوں یا عورت ، انہيں ہر حالت میں تعلیم یافتہ ہونا چاہئے تاکہ اس معنی میں ہمارے ملک میں کوئی ناخواندہ نہ رہے ، تو جو اہم مسائل ہمارے ذہن میں تھے ہم نے انہیں آپ کے سامنے بیان کر ديئے اور میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک کی موجودہ نئ نسل جس نے انقلاب کو دیکھا ہے ، مقدس دفاع کا مشاہدہ کیا ہے ، کسی حد تک اس وقت کے ماحول کو محسوس کیا ہے _ ان سے ہم دور نہیں ہوئے _ بہت ہی با صلاحیت ہے ۔ یہ نسل بہت سے کام کر سکتی ہے ۔ ہمیں اب بھی اپنے کاموں میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی کی تائید محسوس ہوتی ہے ، ان کا وہ مضبوط ارادہ وہ عزم راسخ ، ملکی معاملات پر مدبرانہ و خدائی نگاہ ہمیں آج بھی محسوس ہوتی ہے ۔ایک طرح سے وہ زندہ ہیں ہم نے امام کی جو بیعت کی ہے ، انقلاب کی جو بیعت کی ہے اس کی عزت کرنی چاہئے جو لوگ امام سے ، انقلاب سے اور اسلامی جہموریہ سے کیا گیا عہد توڑتے ہیں وہ خود اپنا نقصان کرتے ہیں : «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه و من اوفى بما عاهد عليه اللّه فسيؤتيه اجرا عظيما» اس عہد کو ہمیں یاد رکھنا چاہئے ، سنبھالے رہنا چاہئے اور موجودہ نسل کے اس عہد کی بدولت _ جو خوش قستی سے پر جوش نوجوانوں سے بھری ہے _ بہت بڑے بڑے کام کئے جا سکتے ہيں جس کا ایک نمونہ ایٹمی انرجی کا معاملہ ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے ، یہ صحیح ہے کہ سیاست داں اور تشہراتی مہم چلانے والے برا بھلا کہتے ہيں لیکن آپ کو جان لینا چاہئے کہ اقوام عالم آپ کی تعریف کرتی ہیں خود وہ سیاست داں بھی دل ہی دل میں ایران کی تعریف کرتے ہیں ۔ مختلف مذاکرات کی _ چاہے آئی اے ای اے میں ہوں چاہے دیگر سیاسی حلقوں میں _ جو تفصیلات ہمارے سامنے پیش ہوتی ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مزاحمت ، علم کے شوق اور اس قومی و علمی افتخار کے تحفظ پر ایرانی قوم کے اصرار کی تعریف کرتے ہیں تعجب میں پڑ جاتے ہيں ۔ ہمارے پاس یہ جو رپورٹیں ہیں ان سب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے یہ ایک نمونہ ہے ۔
اگر بیس برس قبل اس ملک میں کوئي کہتا کہ ایک دن ایرانی نوجوان ، باہر کہیں تعلیم حاصل کئے بغیر صرف ادھر ادھر کی تعلیمات اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سینٹری فیوج مشین بنانے میں کامیاب ہو جائيں گے اور یورینئم کی افزودگی شروع کر دیں گے اور یورینئم سے بجلی پیدا کریں گے تو ایک ہزار میں سے ایک آدمی بھی اس پر یقین نہ کرتا اور سب سے پہلے جو لوگ انکار کرتے وہ خود ماہرین اور پڑھے لکھے لوگ ہوتے وہ کہتے جی نہيں! یہ نہيں ہو سکتا ۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ کیا یونہی ہی ہے ؟ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ تمام میدانوں میں ایسی ہی ہے لیکن یہ معاملہ ظاہر ہو گیا ہے اور پوری دنیا کو علم ہو گیا ہے ، ایرانی قوم تمام شعبوں میں اس بات کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کا شوق بھی ہے اور ان میدانوں میں اترنے کی جرات بھی اس میں ہے ۔ اچھا یہ تو واضح ہو گیا ، اس کا انکار کرنے والے پر لعنت لیکن کچھ اور چیزیں بھی آپ کا مسلمہ حق ہیں ! ( یہاں پر حاضرین ، ایٹمی انرجی ہمارا مسلمہ حق ہے کے نعرے لگاتے ہیں )
میں نے تنوع کی جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ تنوع کی سوچ کے ساتھ ، تنوع کے راستے پر ، اپنے نوجوانوں کی خلاقیت و تنوع پسندی کے سہارے ، ہماری قوم ، فکری و ذہنی میدانوں میں سرگرم افراد کو جن میں آپ اساتذہ بھی شامل ہیں ، آگے بڑھے خدا بھی انشاء اللہ مدد کرے گا ۔
خدا وند عالم ! اس قوم کو توفیق دے اور اس کی مدد کر ! پروردگار ! ہمارے روئے ، ہمارے اعمال اور اقدامات سے امام زمانہ ارواحنا فداہ کو راضی کر ۔ پروردگار ! ایرانی قوم کی خوشیوں میں روز بروز اضافہ کر ____
والسّلام عليكم و رحمه اللّه
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ فارس کے بیس ہزار سے زائد یونیورسٹی اساتذہ اور طلبا سے خطاب میں فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کارکردگی اور ثمرات کے بارے میں صحیح تجزئے کے لئے اس کے اہداف، اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں اور اس مشکل راستے پر وسیع نظر دوڑانا ضروری ہے جو اسلامی جمہوریہ نے طے کیا ہے۔ آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ استقامت، سعی پیہم، اتحاد و یکجہتی، رکاوٹوں سے مسلسل مقابلہ، ہدف پر ہر آن توجہ سے بلا شبہ انقلاب کے تمام اہداف کی تکمیل آسان ہو جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کل شام صوبہ فارس کی رضا کار فورس (بسیج) اور پاسداران انقلاب فورس کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے بسیج کو شجرہ طیبہ اور امام خمینی (رہ) کی خلاقیت کا نتیجہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ علمی، ثقافتی، سماجی، دفاعی اور دیگر شعبوں میں اسلامی انقلاب کو بسیج اور مومن، پاکدامن اور بلند ہمت نوجوانوں کی ہمیشہ ضرورت رہے گي۔
ہمیں طالب علم کو یہ موقع دینا چاہئے کہ اپنی فکر، اپنی زبان، اپنی آزادی،اور اپنی گفتار و رفتار سے فیصلے کے مقدمات فراہم کرے۔ فیصلے کرنے کا کام اسے سونپا جائے جو جوابدہی کر سکتا اور ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔
ہمیں طالب علم کو یہ موقع دینا چاہئے کہ اپنی فکر، اپنی زبان، اپنی آزادی،اور اپنی گفتار و رفتار سے فیصلے کے مقدمات فراہم کرے۔ فیصلے کرنے کا کام اسے سونپا جائے جو جوابدہی کر سکتا اور ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ فارس میں مقدس دفاع کے شہدا کے اہل خاندان اور جانبازوں سے ملاقات میں فرمایا کہ عظیم ملت ایران اسلامی اقدار کی پابندی اور اپنے قومی اہداف و امنگوں کی تکمیل کے لئے سعی پیہم کے ساتھ عظیم المرتبت شہدا کے راستے پر گامزن رہے گی اور دنیوی و اخروی نقطہ کمال تک پہنچ کر سربلند شہدا اور ان کے خاندانوں کی حقیقی معنی میں قدر دانی کے اپنے جذبے کو ثابت کرے گی ـ
اگرچہ اسلامی انقلاب کے دوران رونما ہونے والے تعجب خیز بے نظیر واقعات کم نہیں ہیں اور ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے آغاز سے ، جو اسلامی انقلاب پر منتج ہوئی، اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک، جدوجہد اور انقلاب کے دوران رونما ہونے ہونے والے حیرت انگیز اور عدیم المثال واقعات یکے بعد دیگرے آنکھوں اور دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تاہم ان حیرت انگیز واقعات کے دوران شہید کا مسئلہ ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج شام شیراز میں صوبہ فارس کی مسلح فورسز کی مشترکہ تقریب سے خطاب میں مسلح فورسز کو قوم کی حفاظت اور سلامتی کا مضبوط قلعہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ مضبوط قلعہ تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال سے روز بروز مستحکم سے مستحکم تر بننا چاہئے۔
تقریب میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی تشریف آوری پر سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کا قومی ترانہ پیش کیا گيا اور آپ نے شہدا کے میموریل کے سامنے فاتحہ خوانی کی اور مسلح افواج کے عظیم المرتبت شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔
مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے پاسداران انقلاب فورس، فوج، پولس، اور رضاکار فورس (بسیج) کے دستوں کا معائنہ فرمایا اور مقدس دفاع میں جسمانی اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں سے ملاقات کی۔
صوبہ فارس کا دورہ کر رہے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج ہزاروں اساتذہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ معاشرے میں اسلامی نقطہ نگاہ اور اصولوں کی بنیاد پر اساتذہ اور معلمین کے مرتبے اور مقام کا احیا کیا جانا چاہئے اور قوم کی نظر میں اساتذہ کے لئے خاص عزت و وقار اور عظمت و مقام ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے یوم استاد کو پوری قوم کا دن قرار دیتے ہوئے اساتذہ کے مرتبے اور مقام کے سلسلے میں اسلام اور مغرب کے نقطہ نگاہ میں گہرے فرق کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام میں تعلیم و تربیت افراد اور معاشرے کو زندگی عطا کرنے کے معنی میں ہے لیکن مادی تہذیب میں استاد کی اہمیت کا معیار پیسہ کمانے کی اس کی صلاحیت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ نظریہ حالیہ دو صدیوں کے دوران ایران میں بھی رائج ہوا جس سے استاد کے حقیقی مقام اور ساکھ کو نقصان پہنچا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج بدھ کی شام صوبہ فارس کے ہزاروں طلبا، علمائے کرام اور ممتاز دینی و علمی شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے تقوا و خود سازی، دینی علوم اور الہی تعلیمات سے مکمل آگاہی اور ملکی و عالمی سیاسی حالات سے واقفیت کو علما کی سب سے اہم ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے معنوی و روحانی اہداف کی تکمیل کے سلسلے میں علما اور دینی طلبا کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علما کے دشوار فرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے انسانی معاشرے کو سلامتی کی اشد ضرورت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ قوموں کو حقیقی معنی میں امن عامہ کی نعمت دو عوامل قدرت اور دینی روحانیت و معنویت کے زیر سایہ ہی حاصل ہو سکتی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اہل دین کی سیاسی طاقت کا نمونہ ہونے کی حیثیت سے ان دونوں عوامل سے بہرہ مند ہونا چاہئے۔ یہ تاریخی ضرورت علما کی ذمہ داری کو بڑھا دیتی ہے۔
بہت اچھی اور دلچسپ نشست ہے ۔ ایسے فضلاء، علماء، طلاب، جوانوں اور نوجوانوں کا بڑا مجمع کہ جنہوں علم دین اور خدا کے بندوں کی مدد و نصرت کی راہ میں قدم رکھا ہے، آج یہاں موجود ہے۔ یہ صوبہ بھی علمی شخصیتوں اور علمائے دین کا مرکز رہا ہے۔ ہم اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں عظیم شخصیات کو میدان عمل میں پہنچانے میں اس صوبے کا کردار نظر آتا ہے، قدیم ایام سے، تیسری ہجری
علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے گہوارے شہر شیراز میں، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا والہانہ استقبال کیا گيا۔شہر کے مومن اور انقلابی عورت مرد، پیرو جواں، چھوٹے بڑے سب نے دل و جان سے زیادہ عزیز اپنے رہبر کی راہ میں اس انداز سے پلکیں بچھائیں کی قوم اور ولی امر مسلمین کے گہرے قلبی رشتے کا بڑا حسین منظر نظروں کے سامنے آ گیا۔
شہر کی انتظامیہ کا پروگرام یہ تھا کہ زند اسکوائر سے قائد انقلاب اسلامی کا استقبال کیا جائے گا تاہم شہر شیراز کے میہمان نواز عوام بالخصوص جوان اور نوجوان صبح سویرے سے ہی زند اسکوائر سے کئی کلومیٹر آگے آکر پروانہ وار جمع ہو گئے تھے اور بے صبری و اشتیاق کی ملی جلی کیفیت میں اپنے قائد کے منتظر تھے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن شیراز کے عزیز عوام سے ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا۔
صوبہ فارس سے تعلق رکھنے والے احباب اور شیرازی دوستوں کی ایک مدت سے شکایت تھی کہ ایک عرصے سے صوبہ فارس کا دورہ انجام نہیں پایا ہے۔ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آپ عزیزوں سے ملاقات، آپ کے دلکش شہر کے نظارے اور آپ کے مایہ فخر اور پر برکت صوبے کے دورے کا میں بھی آپ ہی کی طرح مشتاق تھا۔ یہ فرزانہ شخصیات کا گہوارہ اور علم و ادب اور ذوق و فن کاری کا شہر ہے۔ یہ تاریخی اور شہرہ آفاق چہروں کا شہر ہے۔ شہر شیراز اور صوبہ فارس کو ملک کے شہروں اور صوبوں میں خاص مقام حاصل ہے۔ مختلف شہروں کے دوروں اور مقامی عوام سے ملاقاتوں کے دوران یہ میرا وتیرہ رہا ہے کہ متعلقہ شہر کی تاریخی حیثیت اور دیگر خصوصیات کا تذکرہ کرتا ہوں اس سے میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس عظیم سر زمین کے ہر خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے سامنے اپنے علاقے کے تشخص اور تاریخ کی واضح تصویر آ جائے تاہم شہر شیراز اور صوبہ فارس کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کے شہر اور صوبے کی عظیم شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں ان کا ایسا شہرہ ہے کہ شیراز کے تعارف اور یہاں کی تاریخ کے تذکرے کی ضرورت ہی نہیں۔ البتہ میں ایک خاص نتیجے پر پہنچا ہوں، جس کے تحت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ صدیوں کے دوران تمام علمی شعبوں میں شیراز کے باسیوں نے اپنی انسانی استعداد اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اسی طرح سماجی اور دینی شعبوں اور اس اہم چیز کے سلسلے میں جس پر قوموں کی تقدیر کا انحصار ہوتا ہے یعنی قومی عزم و ارادہ، صوبہ فارس اور شہر شیراز کی بڑی تابناک تاریخ ہے۔ آپ کی تاریخ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس خطے اور یہاں کہ عوام کی عظمت کے نئے نئےپہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ دینی پہلو کا جہاں تک سوال ہے کہ جس کے بارے میں میں بعد میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا، خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے حضرت احمد بن موسی اور آپ کے بھائیوں اور دیگر امام زادوں کی قبور، اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرزندان رسول نے فارس کے علاقے اور یہاں کے عوام کو اپنا مخاطب اور اپنی منزل کے طور پر منتخب فرمایا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ بالخصوص جناب احمد بن موسی جو خاندان رسالت کی بڑی برجستہ شخصیت تھی ان کے بارے میں نقل کیا گيا ہے، و کان احمد بن موسی کریما جلیلا ورعا و کان ابوالحسن علیہ السلام یحبہ و یقدمہ، آپ کے والد گرامی اپنی اولادوں میں آپ کو خاص درجہ دیتے تھے اور آپ سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ سخی، پرہیزگار اور بڑے عظیم المرتبت انسان تھے۔ خاندان رسالت کے اس چشم و چراغ اور دیگر شخصیات کی نگاہ انتخاب شیراز پر ٹھہری وہ آئے اور عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان عظیم شخصیات کی برکتیں آج بھی ملک کے اس اہم علاقے اور اس صوبے میں جاری و ساری ہیں۔
علم و ادب کے شعبے میں دیکھا جائے تو سعدی و حافظ زبان فارسی اور فارسی ادب کی پیشانی کے دو درخشاں ستارے ہیں۔ کون ہے جو اس سے آگاہ نہ ہو۔ علم و ادب کے مختلف شعبوں میں اس خطے سے عظیم شخصیات سامنے آئي ہیں جو اپنے اپنے دور میں یکتائے زمانہ تصور کی جاتی تھیں۔ فلسفہ، فقہ، ادبیات، فن و ہنر، تفسیر و لغت، نجوم، فزکس اور طب جیسے شعبوں کی عظیم شخصیات جو مختلف علوم کے نقطہ کمال پر فائز تھیں اور زمانے کے سرکردہ شخصیات میں شمار کی جاتی تھیں ان کا فردا فردا تعارف کرانے کا اس وقت موقع نہیں ہے اس کے لئے ایک الگ قسم کی محفل اور اجتماع کی ضروت ہے۔ یہاں تو بس سرسری تذکرہ ہی کافی ہے۔
سماجی امور اور آپ عزیزوں کی غیرت دینی اور جرئت اقدام کے سنہری صفحات تاریخ میں موجود ہیں۔ ملک کی دینی علوم کی تاریخ میں جتنے مجاہد علما اس صوبے سے نکلے ہیں اس کی مثال ملک کے کسی اور صوبے میں مل پانا مشکل ہے۔ مرزا شیرازی سے سب واقف ہیں، سید علی اکبر فال اسیری مرحوم نے انگریزوں اور غیر ملکیوں کے خلاف اسی شہر سے قیام کیا اور اپنی مخالفت کا اعلان فرمایا۔ انہیں گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا لیکن ان کی تحریک کے اثرات باقی رہے۔ یہی جگہ حافظیہ جہاں اس وقت آپ حضرات تشریف فرما ہیں اس کے بارے میں لکھا گيا ہےکہ سید علی اکبر فال اسیری حافظیہ کے نزدیک زیارت عاشورا پڑھنے میں مصروف تھے کہ اچانک دبش پڑی اور آپ کو گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا۔ مرزا شیرازی اسی طرح مرزا دوم مرزا محمد تقی شیرازی کہ جو پہلی عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں برطانیہ کے حملے اور قبضے کے خلاف عراقی عوام کی جد وجہد کی روح رواں تھے۔ سید عبد الحسین لاری مرحوم بھی ایک برجستہ اور ممتاز شخصیت تھی جس نے اسی صوبہ فارس کے غیور اور شجاع قبائل کی مدد سے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی اور آئینی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے جد و جہد فرمائي۔ اس مجاہد شخصیت نےتقریبا سو سال قبل اپنی جد و جہد شروع کی۔
صوبے میں ایسے علما بڑی تعداد میں گزرے ہیں جنہیں صوبہ فارس کے قبائل اور شہروں بالخصوص شیراز سے تعلق رکھنے والے مومن و غیور عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سید نور الدین حسینی مرحوم نے اسی شہر شیراز میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کے اہلکار کو جس نے دینی مقدسات کی بے حرمتی کی تھی حد الہی جاری کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کوڑے لگائے۔ آپ نے ظالم نظام کے خلاف شجاعانہ انداز میں سیاسی اور سماجی جد و جہد کی۔ اس کے بعد بھی علما کے جہاد کے زمانے میں آیت اللہ شہید دستغیب، آیت اللہ محلاتی مرحوم اور دیگر علما نے شیراز کی جامع مسجد عتیق کو اپنی تحریک کا مرکز قرار دیا۔ شیراز کے علما کی تحریک کا شہرہ اور اس تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے آیت اللہ دستغیب مرحوم کی شعلہ تقاریر گوشے گوشے تک پہنچیں۔ میں اس وقت قم میں تھا۔ شہید دستغیب کی تقریر کی کیسٹ طلبا کے درمیان گشت کر رہی تھی۔ ہم نے اسی وقت شیراز کے مجاہد علما کے موقف سے آگاہی حاصل کی۔
عہد حاضر میں بھی خواہ وہ انقلاب کے بعد کا زمانہ ہو، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کا زمانہ ہو یا اس کے بعد سے اب تک کے ایام، آپ عزیزوں، نوجوانوں، برجستہ شخصیات اور مومنین نے خود کو ہر مرحلے پر ممتاز مقام پر رکھا ہے اور صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ اپنے عمل سے صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام کے تشخص کی پاسداری کی ہے۔ اس وقت بھی سائنس و ٹکنالوجی، تحقیق و خلاقیت اور علمی سرگرمیوں کے سلسلے میں یہ صوبہ زباں زد خاص و عام ہے۔ آپ کے صوبے سے تعلق رکھنے والے سائنسداں اور دانشور آج عالمی سطح کی شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس، الیکٹرانک انڈسٹری، پیٹرو کیمیکل انڈسٹری، سائنس کے مختلف شعبوں اور انجینئرنگ میں یہ صوبہ بہت آگے ہے۔ شیراز یونیورسٹی کئی نئے موضوعات اور اسپشلائیزیشنس میں پیش قدم رہی ہے۔ مختلف شعبوں اور میدانوں میں آپ نوجوانوں اور لوگوں کا تعاون بہت نمایاں ہے۔ اس شہر میں تعینات فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں نے مقدس دفاع کے دوران بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح ماضی میں دین و ایمان اور عقیدے کے لحاظ سے، علمی کوششوں کے زاوئے سے دفاعی سرگرمیوں کی رو سے اسلامی انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کے نقطہ نگاہ سے اور دیگر متعدد امور میں اس صوبے اور شہر نے ایسی استعداد اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ جو قابل صد ستائش ہے۔ اس نکتےپر کہ یہ انسانی صلاحیتوں کا عظیم سرچشمہ ہے حکام کے کی توجہ بھی مرکوز رہنی چاہئے اور خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں اور تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان میں سے ہر فرد میں یہ صلاحیت ہے کہ اس سرزمین اور پوے خطے کو اپنے فیض سے سیراب کرے اس وضاحت سے میرا مقصد یہی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ صوبہ فارس بالخصوص شہر شیراز کے عوام کے گہرے ایمان و عقیدے کی بابت صرف دعوا نہیں ہے بلکہ تمام پہلؤوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ مذہبی تشخص کی درخشاں تاریخ اور گزشتہ برسوں کے دوران اہم سرگرمیاں انجام دینے والے مجاہد علما کے اس شہر کے خلاف، دینی رجحان کو ختم کر دینے کے لئے دو سمتوں سے حملے ہوئے ایک تو طاغوتی حکومت کے دربار کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا کہ شہر شیراز کو صد فیصد مغرب زدہ شہر کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ اس کا سلسلہ انیس سو پچاس کے عشرے سے شروع ہوکر انقلاب کی کامیابی تک بیس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ سن ستاون اٹھاون کی بات ہے کہ ہم نے اسی شہر شیراز میں بے راہ روی کے مناظر دیکھے جس کے لئے با قاعدہ منظم طور پر کوششیں کی گئیں۔ نوجوانوں کو اخلاقی انحطاط اور دین سے بیزاری کی طرف لے جایا گيا۔ یہ سلسلہ اسی طرح سن ستر اکہتر تک جاری رہا۔ جشن ہنر شیراز اور کچھ دیگر معاملے جس کے بارے میں آپ بخوبی واقف ہیں البتہ شائد ہمارے کچھ نوجوانوں کے اس کا علم نہ ہو، یہ سب کچھ منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔
ایک اور فکری انحراف کہ جس کی شیراز میں دیگر شہروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ترویج کی جا رہی تھی الحادی مکتب فکر تھا، اس کی ترویج ایک گروہ بڑے شد و مد سے کر رہا تھا۔ خاص طور سے سید نور الدین مرحوم کے زمانے میں جو بڑے شجاع، حالات سے آگاہ اور بہت فعال و زیرک عالم دین تھے، جب یہ دیکھا گيا کہ شیراز میں علما کا خاص اثر و رسوخ ہے تو دربار اور مارکسسٹوں نے ایک قینچی کی دو بلیڈوں کی طرح عوام اور نوجوانوں کے دین و ایمان کو نابود کر دینے کی کوششیں کیں لیکن جب سن باسٹھ ترسٹھ ع میں اسلامی تحریک شروع ہوئي تو انہی علما اور نوجوانوں نے اس شہر میں بڑے اہم اور فیصلہ کن اقدامات انجام دئے یعنی قومی سطح پر قم، تہران، شیراز، تبریز اور مشہد صف اول کے شہروں میں تھے، شیراز انہیں صف اول کے شہروں میں ایک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیراز کی برجستہ علمی شخصیات کو گرفتار کرکے تہران لے جایا گيا تھا۔
عوام کو دین سے دور کرنے کی جی توڑ کوشش کی گئي لیکن عوام کا جواب دو ٹوک تھا۔ عوام نے اپنے عمل اور اپنی استقامت سے ان کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد بھی طاغوتی حکومت کے اقتدار کے آخری برسوں یعنی ستتر اٹھہتر میں شیراز کے عوام نےملک کے تمام شہروں کے لئے خود کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کیا۔
میں نے یہ جو باتیں عرض کی ہیں انہیں آپ مقدمہ سخن نہ سمجھئے یہ تکلفات کی باتیں نہیں ہیں، خوش کرنے کی کوشش نہیں ہے، یہ کسی خاص نتیجے تک پہنچنے کے لئے ہے۔ اب میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کروں گا جو انقلاب کے امور سے متعلق ہے اور جس کا ان باتوں سے تعلق ہے۔
اپنے ملک کی تاریخ میں ہم جتنا غور کرتے ہیں اور ماضی میں جتنا بھی دور تک پلٹ کر دیکھتے ہیں، اسلامی انقلاب کی کوئي نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ میں اس کی تھوڑی وضاحت کرتا ہوں، ہمارے ملک کی تاریخ میں، جنگ پسندوں کی کوششوں، لشکر کشی، کودتا یا بغاوت اور ٹکراؤ کے ذریعے اقتدار کی چھین جھپٹ ہمیشہ رہی ہے تاہم اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا، کئي خاندان اقتدار میں آئے اور گئے۔ آپ غور فرمائیں کہ اسی شہر شیراز اور صوبہ فارس میں مثال کے طور پر زندیہ بادشاہوں کی حکومت رہی پھر قاجاریہ خاندان آیا اور اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، دو فوجوں اور دو اقتدار پرستوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ دونوں فوجی طاقتیں تھیں۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں خواہ وہ اسلام سے قبل کا زمانہ ہو یا بعد کا آج تک اقتدار کی منتقلی اسی طرز پر انجام پائي۔ ماضی میں صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے جس کے بارے میں میں ابھی وضاحت کروں گا، اس کے علاوہ ہمیشہ اقتدار پر قبضہ، لشکر کشی، فوجی چڑھائی سے ہوا۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا۔ عوام میں اس کے لئے کوئي دلچسپی ہی نہیں تھی، خواہ ایک سلسلہ حکومت سے دوسرے سلسلہ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ ہو یا ایک ہی سلسلہ حکومت کے اندر کشمکش کا واقعہ ہو۔ اس سلسلے میں قاجاریہ دور اقتدار کی ایک مثال آپ کے شہر کی ہی ہے کہ فتح علی شاہ قاجار کی موت کے بعد فتح علی شاہ کے ایک بیٹے حسین علی مرزا کی شیراز میں حکومت تھی، وہ تہران کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا، فتح علی شاہ کے پوتے محمد شاہ کو بادشاہت مل گئي تھی دونوں میں اسی بات پر جنگ ہو گئی۔ اسی شہر شیراز کے دروازے کے باہر دو فوجوں کے درمیان جنگ ہوئي۔ البتہ ان جنگوں میں پستے تھے عوام انہیں بھی نقصان پہنچتا تھا، ان کی کھیتیاں برباد ہو جایا کرتی تھیں ان کی جان و مال کے لئے خطرے پیدا ہو جاتے تھے۔ تاہم ان جنگوں میں ان کا کوئي کردار نہیں ہوتا تھا۔ تاریخ میں یہی سلسلہ رہا ہے۔ صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے تاہم تاریخی لحاظ سے اس میں کچھ شکوک و شبہات ہیں اور کچھ افسانے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایک لوہار کاوہ کا ہے۔ بتاتے ہیں کہ عوام کی پشتپناہی سے اس نے ضحاک کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اس کا خاتمہ کر دیا، اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ ہے، اس کے علاوہ تاریخ میں کوئي اور مثال نہیں ہے۔ البتہ پہلوی دور کے آغاز کے بعد کی جو تاریخ یورپیوں نے مرتب کی ہے اس میں فریدون، ضحاک اور کاوہ لوہار کا کوئي تذکرہ نہیں ملتا۔انہوں نے الگ ہی نہج پر تاریخ لکھی ہے کہ جوایک الگ موضوع ہے جس پر اس وقت میں گفتگو نہیں کروں گا۔ اگر صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ تاریخ میں ہے اور بس۔
اسلامی انقلاب ہماری تاریخ میں اقتدار اور حکومت کی تبدیلی کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس نے شہنشاہی نظام کو عوامی حکومت میں تبدیل کر دیا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو عوامی قوت سے انجام پائی۔ اس واقعے میں دو حکومتوں کا ٹکراؤ اور لڑائي نہیں تھی۔ عوام باہر آئے انہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا اور عظیم الہی قوت کے ذریعے بادشاہوں، طاغوتی طاقتوں اور نفس پرست ظالموں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حکومت عوامی حکومت بن گئي ۔ جہاں تک ہم نے غور کیا اور سمجھا ہے یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ تو یہ واقعہ ایسی اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر مختلف پہلؤوں سے غور کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی صرورت ہے۔ انقلاب کو تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم اس واقعے کے بنیادی امور پر ایک نظر ڈالیں، بہت زیادہ تفصیلات میں جانے اور چھوٹے موٹے واقعات کا جائزہ لینے کا زیادہ فائدہ نہیں ہے اور اس سے کسی بات کی پوری وضاحت نہیں ہو سکتی۔ ہمیں پورے واقعے پر ایک وسیع نظر ڈالنے کی ضرورت ہے البتہ ہمارے دانشوروں اور علمی شخصیات نے اس واقعے کا اسی انداز سے جائزہ لیا ہے تاہم عوامی سطح پر بھی اس واقعے کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
دنیا کے کسی بھی واقعے کے سلسلے میں چندعناصر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ پہلا عنصر واقعے کے اتبدائي عوامل ہیں یعنی، اہداف، تاریخی حالات، جغرافیائي صورت حال اور سیاسی ماحول یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی واقعے کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ دوسرا عنصر واقعے کے علمبردار ہیں۔ ہمارے انقلاب میں پہلا عنصر یہی عوام کا ایمان، حریت پسندانہ جد و جہد اور اس تحریک کی وہ چنگاری ہے جو آئینی انقلاب، مرزا شیرازی کی طرف سے تمباکو کو حرام قرار دئے جانے کے واقعے، دیگر بہت سے واقعات اور تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کے واقعے سے پیدا ہوئی۔ اس طرح حالات بنے اور مجاہد علما اور خود امام (خمینی رہ) نے اس سے استفادہ کیا اور اس تحریک کو سمت عطا کی۔ یہ رہا پہلا عنصر۔
دوسرا عنصر یعنی واقعے کے علمبردار، ہمارے عوام تھے۔ تاریخ کے بے نظیر واقعے عظیم اسلامی انقلاب میں عوام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ آج جو نام نہاد روشن فکرانہ نظرئے میں عوام کے کردار کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس سے بے اعتنائي برتی جاتی ہے، غلط ہے۔ جب عوام کا رجحان کسی سمت بڑھتاہے اور کچھ لوگ اسے اپنے لئے نفع بخش نہیں دیکھتے تو اس کی اہمیت کو کم کرنے لگتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ عوامی ارادے اور عوامی تعاون سے ہی اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔
ملت ایران نے اپنے ایمان، اپنے جذبات، اپنی قومی حمیت، اپنی پر افتخار تاریخ و ثقافت کے ذریعے یہ عظیم تحریک شروع کی۔ ایرانی قوم کے ہدف کے بارے میں جس سے بھی سوال ہوتا تھا وہ اپنی زبان میں اس ہدف کو بیان کرتا تھا۔ اس طرح اسلام کے پرچم تلے، آزادی اور خود مختاری حاصل ہوئي۔ انقلاب کے دوران رائج نعرہ :استقلال (خود مختاری)، آزادی ، جمہوری اسلامی در حقیقت عوام کی دلی خواہش اور ان کے ما فی الضمیر کا آئينہ دار تھا۔ عوام کی یہی خواہش تھی۔ عوام دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے کہ اس عظیم مملکت کے حکام اور ذمہ دار افراد فکری طور پر غلام بنے ہوئے تھے۔ اغیار کے تابع تھے، سامراجی طاقتوں کی غلامی کا پٹہ گلے میں پہنے اس پر نازاں تھے۔ ان کے سامنے تو بھیگي بلی بنے رہتے لیکن عوام کے ساتھ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ فرعون بھی شرمندہ ہو جائے۔ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ عوام کو کسی طرح کے انتخاب کا حق نہیں تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل تک کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عوام ، شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ ووٹ ڈالیں اور کسی کا انتخاب کریں اس کا کوئي تصور ہی نہیں تھا۔ حکومت موروثی، حکام اغیار کی ہدایت پر منصوب کردہ آئينی انقلاب سے وجود میں آنے والی پارلیمان مجلس شورا غیر منتخب پارلیمان اور عوام، اس غیر ذمہ دار ادارے کے فیصلوں کی قربانی تھے۔ عوام نے خود مختاری چاہی آزادی کی للک ان میں پیدا ہوئی قومی وقار کی چاہت ان میں جاگی، مادی آسائش اور روحانی و اخروی سر بلندی کا جذبہ ان میں پیدا ہوا جس نے عوام کو میدان عمل میں پہنچایا۔ تو یہ رہا اس واقعے کا دوسرا عنصر۔
تیسرا عنصر وہ رکاوٹیں اور مخالف طاقتیں ہیں جو واقعے کو رونما نہیں ہونے دینا چاہتیں جن کی وجہ سے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی یہ عنصر ابتدا سے ہی سامنے رہا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایرانی قوم نے سعی و کوشش اور جی توڑ محنت سے خود مختاری و آزادی حاصل کی ہے۔ البتہ اس کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہے اور قوم یہ قیمت ادا کر بھی رہی ہے۔ اگر کوئي قوم یا شخص اپنے مطلوبہ ہدف اور مقصد کی تکمیل تو چاہتا ہے لیکن اس کے لئے کوئي قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تو اس کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ کوئي رسک نہ لینے اور سعی و کوشش سے کنارہ کشی کی صورت میں ہدف تک رسائي کا تصور خام خیالی ہے۔ قوموں کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ وہی قوم عزت و سربلندی حاصل کرتی ہے جو پوری شجاعت سے میدان عمل میں قدم رکھتی ہے اپنے ہدف کی جانب بڑھتی ہے اور اس کی قیمت بھی پوری آگاہی کے ساتھ ادا کرتی ہے۔ایرانی قوم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایران نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کی شکل میں قیمت ادا کی ہے۔ یہ قیمت ہے حریت پسندی اور آزادی کی۔
سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتیں اپنی پوری سیاسی و اقتصادی قوت سے اور اپنے تشہیراتی نیٹ ورک کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہیں کہ شائد ایرانی قوم کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ صرف ایٹمی حق سے نہیں، ایٹمی حق تو قوم کے حقوق کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے حق سے، آزادی و خود مختاری کے حق سے، خود ارادی کے حق سے، سائنسی ترقی کے حق سے عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں۔ ایرانی قوم جو سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دو صدیوں کی پسماندگی کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ طاقتیں سراسیمہ ہو گئی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ایرانی قوم جو دنیا کے اس اہم ترین خطے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی حیثیت سے پہنچانی جاتی ہے یہ کامیابیاں حاصل کرے۔ لہذا دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن ایرانی قوم کے بے مثال ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے۔
۔۔۔۔۔ حاضرین کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم آپ پر پاندیاں عائد کر دیں گے۔ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیں گے۔ اچھا تو آپ نے ان تیس برسوں میں ایرانی قوم کا کبھی سخت تو کبھی نرم اقتصادی محاصرہ جاری رکھا، اس سے کس کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ایرانی قوم کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ہرگز نہیں۔ ہم نے پابندیوں سے اپنی پیش رفت کے لئے زمین ہموار کی۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم آپ کے فوجی ساز و سامان کے محتاج تھے۔آپ معمولی ترین فوجی ساز و سامان ہمیں فروخت نہیں کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ صاحب آپ پر پابندیاں ہیں۔ ہم نے انہی پابندیوں سے استفادہ کیا۔ آج ایرانی قوم نے ایسی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں کہ کل ہم پر پابندیاں عائد کرنے والے آج بوکھلائے ہوئے ہیں کہ ایران تو علاقے کی سب بڑی فوجی طاقت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ تو یہ نکلا پابندیوں کا نتیجہ۔ پابندیوں نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا، ہم نے اسے سنہری موقع میں تبدیل کر دیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں مغرب کی پابندیوں کا خوف نہیں۔ ایرانی قوم ہر پابندی اور اقتصادی محاصرے کے سامنے سعی پیہم کی ایک ایسی مثال پیش کرے گی جس سے اس کی ترقی میں اور بھی چار چاند لگ جائيں گے۔
۔۔۔۔۔۔ حاضرین کے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب پر اس زاوئے سے غور و فکر، یعنی اس کے پس پردہ کارفرما جذبات، اس کے حالات، عوامل اور نظام کی تشکیل اسی طرح اس میں بنیادی کردار کے حامل عوام اور ان کے ایمان کے بارے میں غور و فکر اور ان کی قربانیوں کا جائزہ لیں تو ہم جس مقام اور جس جگہ پر بھی ہوں گے اپنے معمولی اختلافات کو نظر انداز کر دیں گے۔ ہماری نظریں انقلاب کی عظمت اور تیس برسوں میں اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے جاری انقلابی سفر اس نکتے پر مرکوز رہیں گی کہ ایرانی قوم دشمنوں کی سازشوں میں شدت کے باوجود اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئےہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کے اللہ و اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایرانی قوم کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اس قوم کے عزم و ارادے کے کمزور کرنے کے لئے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا استعمال کریں، یہاں تک کہ قدرتی آفات، زلزلے، خشکسالی، اور دنیا کے عام مسائل جیسے مہنگائی جیسے مسائل۔ اگر آپ آج غیر ملکی نشریات کے تبصرے سنیں تو دیکھیں گے کہ ہمارے دشمن اپنے پروپگنڈے میں اقتصادی مسائل کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ ملت ایران کے پختہ ارادے کو کمزور کر دیں۔ ایرانی عوام اپنے حکام سے آشنا ہیں۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مہنگائي کی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ حکام اور محکمے بے اعتنائي برت رہے ہیں، غلط ہے۔ وہ ہرگز بے اعتنائي نہیں برت رہے ہیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ آج مغربی ممالک دوسروں سے زیادہ اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔ خود انہیں کے بقول، جو اقتصادی بحران امریکہ سے اٹھا ہے رفتہ رفتہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور دوسرے بھی بہت سے ممالک اس کی زد میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک اس صورت حال کا کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔
اقوام متحدہ نے دنیا میں غذائي اشیاء کے بحران کا اعلان کیا ہے۔ ملت ایران کی مشکلات بڑے بڑے دعوے کرنے والے ان ممالک میں بہتوں سے کم ہیں۔ البتہ عوام اور حکام کی محنت اور کوشش سے ان مشکلات کو بھی دور کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے سب کو مل جل کر کوشش کرنی چاہئے۔
مجریہ، عدلیہ اور مقننہ سارے شعبوں کے حکام کی ذمہ داری ہے اسی طرح اپنی جگہ پر عوام کا بھی فریضہ ہے کہ کوشش کریں۔ میں نے آپ کے صوبے اور شہر کی انسانی صلاحیتوں کے بارے میں جو کچھ بیان کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ صلاحیتیں اور توانائیاں ملک اور انقلاب کے مستقبل کے لئے استعمال کی جائیں، لوگ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ ہم میں سے ہر شخص جس جگہ پر بھی ہو اسے ملک کی تقدیر اور مستقبل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہم موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ طالب علم، استاد، کسان، صنعت کار اور سرمایہ کار کو مختلف صنعتی اور زراعتی شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو محسوس کرنا چاہئے۔ جب سب اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں گے اور حکومتی ادارے، پارلیمان اور عدلیہ کی جانب سے صحیح رہنمائي ہوگی تو قوم، مسائل مسلط کرنے کی دشمنوں کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں سے گزر جائے گي اور اپنی صلاحیتوں اور حکیمانہ طرز فکر سے ایسا معاشرہ تشکیل دے گي جو اسلام چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے عرض کیا کہ یہ سال ہماری قوم کی لئے خلاقیت کا سال ہونا چاہئے۔ یہ خلاقیت کسی ایک شعبے سے مختص نہیں ہے۔ تجربہ گاہیں ہوں کہ تحقیقاتی مراکز، دینی تعلیمی مرکز ہوں کہ یونیورسٹیاں، ادارے ہوں کہ صنعتی کارخانے، زراعت ہو کہ باغبانی ہر جگہ اور ہر میدان میں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کو ایک ایک قدم آگے بڑھنا ہے تاکہ مجموعی طور پر ملک ایک اہم موڑ سے آگے بڑھے۔
میں نے اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اس سال کے آغاز میں بھی اور گزشتہ سال کی ابتدا میں بھی عوام اور حکام دونوں کو یاددہانی کرائي کہ دشمن کی نگاہیں حساس ترین نقطے یعنی معیشت پر مرکوز ہیں اور ملک کو اقتصادی میدان میں مسائل سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان سے جو بھی بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں اور جو ان کے بس کے باہر ہے اس کا اپنی تشہیراتی مہم میں پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ دشمن کی تشہیراتی مہم کے تحت مختلف شکلوں میں ہم پر جو وار کئے جا رہے ہیں اس کا توڑ، مالی نظم و نسق ہے، کفایات شعاری ہے، صارف کلچر کے سلسلے میں محتاط انداز اختیار کرنا ہے ۔ میں اپنے عزیز شہریوں سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اسراف کی حد تک پہنچ جانے والا صارف کلچر کسی بھی قوم کی بڑی خطرناک بیماری ہے۔ ہم کسی حد تک اس بیماری سے دوچار ہیں۔ پانی کی کمی کی مشکل کے بارے میں جس کا صوبہ فارس سمیت کئي صوبوں کو سامنا ہے، سب سے پہلے میری اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ باران رحمت نازل فرمائے ساتھ ہی میں آپ سے بھی عرض کروں گا کہ اسراف کی ایک مثال پانی کی فضول خرچی ہے۔ گھروں کے دروازوں پر پانی گرانا ہی پانی کا اسراف نہیں ہے بلکہ زراعت کی آبیاری میں بھی فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے۔ اس شعبے کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ اس نکتے پر خاص توجہ کریں۔ اسراف کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ پانی کے سلسلے میں بھی اور دیگر امور کے سلسلے میں بھی۔
قوم بڑے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اور بھاری قیمتیں ادا کرتے ہوئے، جو کہ واقعی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی اور ایرانی قوم نے شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ یہ قیمت ادا کی، آج بہت سے منزلیں طے کر چکی ہے اور دشوار گزار مراحل کو عبور کر چکی ہے اور اللہ تعالی کے فضل کرم سے آج اس مقام پر کھڑی ہے تاہم اب بھی ہم ابتدائي منزلوں میں ہیں۔
ہماری قوم اپنے عزم راسخ سے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے تہہ در تہہ جمع ان توانائيوں سے انشاء اللہ اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی۔ انشاء اللہ ان تدابیر سے کہ جن کے بارے میں میں صوبے میں مختلف اجتماعات اور جلسوں میں وضاحت کروں گا اور موقع کی مناسبت سے جن پر روشنی ڈالوں گا انشاء اللہ عوام اپنا یہ سفر سربلندی و سرفرازی کے ساتھ مکمل کریں گے۔
میں آپ با ذوق، مہربان، مخلص، مہمان نواز، خوش اخلاق اور خوش گفتار دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بے شک ایرانی قوم کی بہت سی قابل ستائش خصوصیات شیرازی شہریوں اور صوبہ فارس کے عوام میں نمایاں ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کو خاص جوش و جذبے سے نوازا ہے۔ روز بروز یہ جوش و جذبہ بڑھے اور اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی نے آٹھویں پارلیمان کے دوسرے مرحلے کے انتخابات کے لئے پولنگ کا آغاز ہوتے ہیں حسینیہ امام خمینی میں موبائل بیلٹ باکس نمبر 110 میں اپنا ووٹ ڈالا۔
اس مرحلے کے انتخابات کی اہمیت پہلے مرحلے کی ہی مانند ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے دونوں مرحلوں کے انتخابات میں کوئي فرق نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں جس احساس ذمہ داری نے ہم سب کو پولنگ مراکز تک پہنچایا وہی جذبہ اور احساس ذمہ داری اس بار بھی ہمیں پولنگ مراکز پر لایا ہے کہ ہم اپنے حق رای دہی کا استعمال کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج وزارت محنت و سماجی امور کے ممتاز عہدہ داروں اور محنت کشوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی عزت و سربلندی میں محنت کش طبقے کے اہم کردار کی جانب اشارہ کیا اور اس طبقے کے احترام کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔ آپ نے آٹھویں پارلیمان کے دوسرے مرحلے کے انتخابات اور اس کی خاص اہمیت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ جس طرح ایرانی قوم نے پہلے مرحلے کے انتخابات میں دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے دشمنوں کی تشہیراتی مہم کا جواب دیا، دوسرے مرحلے کے انتخابات میں بھی اپنی بھرپور شرکت، اور اعلی ترین صلاحیتوں کے حامل افراد کے انتخاب کے ذریعے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کر دے گی کہ اس قوم کا جوش و خروش دائمی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز بھائيو اور بہنو آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نمونہ محنت کش افراد، محنت کش طبقے کے نمائندگان اور شعبہ محنت سے وابستہ عہدہ داران! یقینا ایسے افراد کا اجتماع جن کا شعار اور نعرہ محنت کشی ہے، اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ ترین اجتماعات میں سے ایک ہے۔ قرآن اور اسلام میں محنت مزدوری کا بڑا بلند مقام ہے۔ البتہ کام اور محنت و مزدوری کارخانوں، کھیتوں اور اس طرح کے دیگر شعبوں تک محدود نہیں ہے تاہم قرآن میں جس عمل صالح پر خاص تاکید کی گئي ہے اس کے دائرے میں یہ کام بھی آتے ہیں۔ آپ جب ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، پوری تندہی اور سنجیدگی کے ساتھ، خلاقیت کے جذبے کے ساتھ، ایک خاندان کے لئے آذوقہ فراہم کرنے کی پاکیزہ نیت کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں اور کام انجام دیتے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک عمل صالح ہے۔ الا اللذین آمنو و عملوا الصالحات تو عزیزان گرامی عمل صالح اس کو کہتے ہیں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟! اس سے بہتر کیا ہے کہ انسان ایسے کام اور مشغلے میں مصروف ہے جس پر اس کے آذوقے کا دارومدار ہے۔ یہ کام عمل صالح ہے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے۔ آمنو و عملوا الصالحات محنت مزدوری اور کام کا مقام یہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے یوم مسلح افواج انتیس فروردین (سترہ اپریل) کے موقع پر فوج کے اعلی رتبہ کمانڈروں نے آج سولہ اپریل کو قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک حکمنامہ جاری فرما کر جناب سید احمد میر عمادی کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمائندہ منصوب فرمایا۔ حکمنامہ درج ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم حجت الاسلام جناب الحاج سید احمد میر عمادی دامت برکاتہ اب جب کہ حجت الاسلام جناب حسینی میانچی، خرم آباد میں گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد مقدس شہر قم واپس تشریف لے جایا چاہتے ہیں تو جناب والا کو شہر خرم آباد کا امام جمعہ اور صوبہ لرستان کے لئے اپنا نمایندہ منصوب کرتا ہوں۔ اس صوبے اور اس شہر کے عوام کی دلاوری و شجاعت، اور ایمان و استقامت زباں زد خاص و عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد اور اس سے قبل مختلف مواقع پر اس خطے کے عوام اپنی انہی صفات سے یاد کئے جاتے رہے ہیں اور جناب والا بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے زیور علم و عمل سے آراستہ اور خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے پر افتخار نسبت کے ذریعے وابستہ ہیں۔ اللہ تعالی کی توفیقات اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا فداہ کی عنایات سے انشاء اللہ آپ علاقے کے عزیز عوام بالخصوص نوجوانوں کے درمیان ایک با بصیرت و مہربان رہنما، امین و صادق مشیر اور دانا و تجربہ کار استاد کا کردار ادا کریں گے۔ اللہ تعالی سے آپ کے لئے تائید و نصرت اور لرستان کے عوام کے لئے کامرانی و سعادت کی دعا کرتا ہوں۔ سید علی خامنہ ای 27فروردین 1387(15. 4. 2008)
آپ (نوجوان افراد) ہم لوگوں سے بہت بہتر ہیں۔ آپ ہم لوگوں سے جلدی اور بہتر طریقے سے خدا کا پیغام سمجھ سکتے ہیں۔ خدا آپ سے گفتگو کرتا ہے، آپکی باتوں کا جواب دیتا ہے اور آپ اس جواب کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبا سے ملاقات کے دوران 26/7/1999 بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان صرف گناہ کی طرف مائل رہتا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ایک نوجوان جس طرح جسمانی لحاظ سے مضبوط ہے اسی طرح اس کی قوت ارادی بھی مضبوط ہے۔ صوبہ گيلان میں سپاہ پاسداران کی قدس16 بٹالین کے پریڈ گراؤنڈ میں6/5/2001 دین، نوجوانوں کی فطرت اور اسکے مزاج میں شامل ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اور آپ انہیں خدا سے آشنا کریں انکا ضمیر، انکا دل اور انکی نوارنیت انہیں خدا سے آشنا کردیتی ہے۔سپاہ پاسداران کے کمانڈروں سے ملاقات کے دوران 9/3/1999بعض لوگ سوچتے ہیں کہ گناہوں سے صرف بوڑھوں کو بچنا چاہیے حالانکہ بوڑھے افراد جس طرح جسمانی اعتبار سے کمزور ہیں اسی طرح روحانی اعتبار سے بھی کمزور ہیں۔ (جبکہ انکے مقابلے میں) نوجوان کا ارادہ، ثبات قدم اور استقامت ان سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ایک کلیدی نکتہ ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب سے اقتباس16/11/2000دین و معنویت کی راہ کہیں پر بھی ختم نہیں ہوتی۔صوبہ اردبیل کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات کے وقت26/7/2000نوجوان، حق و حقیقت کو بہت آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ نوجوان کھلے دل و دماغ سے اعتراض کرتا ہے اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ حق کو آسانی کے ساتھ قبول کرلینا، کھلے دل سے اعتراض کرنا اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم بڑھانا؛ آپ ان تین چیزوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کتنی خوبصورت حقیقت آپکی آنکھوں کے سامنے ہے جو مشکلات حل کرنے کا بڑا کارگر نسخہ ہے۔صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے خطاب سے اقتباس 3/11/2001دور حاضر کا جوان چاہتا ہے کہ اسکے لیے مذہبی تعلیمات کی وضاحت کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ دین تک عقل و استدلال کے ذریعہ پہونچے۔ یہ ایک فطری اور اچھا مطالبہ ہے۔ یہ مطالبہ خود دین نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب 16/11/2000 نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند ہوتا ہے۔ فی الحال میرے مد نظر سیاسی دنیا والی اصلاح نہیں ہے۔ نوجوان کے اصلاح پسند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور سوسایٹی میں انصاف، قانونی آزادی اور دینی افکار کا بول بالا ہو۔ اسلامی تعلیمات اس کے اندر ایک انقلاب برپا کردیتی ہیں اور وہ ان تعلیمات کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں امیرالمومنین (ع) کی جو تصویر ہے وہ اس کے اندر ایک انقلاب پیدا کرتی ہے ۔ وہ موجودہ حالات کی کمیوں کا جائزہ لیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کے سماج میں اصلاح ہو۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سےملاقات میں 3/11/2001انسان خاص طور پر نوجوان، خوبصورتی کی طرف مایل ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ خود بھی خوبصورت ہو ۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ایک فطری چیز ہے جس سے اسلام نے بھی نہیں روکا ہے۔ جس چیز سے اسلام نے روکا ہے وہ اس کا غلط استعمال ہے۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے نوجوانوں کی بزم میں27/4/1998 نوجوان ظلم کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ آپ پوری دنیا کی تاریخ میں کہیں پر بھی یہ نہیں دیکھیں گے کہ کسی ملک میں نوجوانوں کی تحریک دشمنوں کے حق میں شروع ہوئی ہو۔ ہمیشہ نوجوانوں نے اپنے ملک میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف تحریک چلائی ہے۔تہران کی یونیورسٹیوں کی طلباء یونینوں سے خطاب سے اقتباس14/1/1999 ہر نوجوان کے سامنے کچھ مسایل ہوتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا جا کستا کہ تم ان کے بارے میں نہ سوچو۔ نوجوان کو سب سے پہلے اپنی تعلیم اورمستقبل کی فکر ہے۔ وہ اپنے مستقبل کو سنوارنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا گھر بار بسانا چاہتا ہے۔ جو چیزیں جمالیات سے متعلق ہیں انکی طرف اسکا رجحان زیادہ ہے۔ جن چیزوں کا تعلق احساسات و جذبات سے ہے نوجوان کا ان سے ایک گہرا تعلق ہے۔ لیکن نوجوان صرف انہی چیزوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ اپنی سوسایٹی کی مشکلات کے بارے میں بھی فکرمند رہتا ہے۔ اگر سماج میں اونچ نیچ ہو تو وہ رنجیدہ ہوتا ہے۔ اگر سوسایٹی میں انصاف نہ ہو تو وہ غیر مطمئن رہتا ہے۔ اگر معاشرے میں برائیاں پھیلنے لگیں توجو نوجوان اپنے ملک نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ معاشرے کا درد رکھتا ہے۔ اگر کسی جگہ انقلابی فکر و عمل کی ضرورت ہو تو نوجوان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں سے ملاقات 16/11/2000 میں یہ نہیں کہتا کہ نوجوان مستحب عبادتیں زیادہ انجام دیں مثلاً بہت زیادہ دعائیں پڑھیں،بہت زیادہ تلاوت قرآن کریں یا مستحبی نمازیں پڑھیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہ جتنا اور جو کچھ بھی انجام دیں توجہ سے انجام دیں۔ نوجوانوں کے ایک پروگرام میں 3/2/1998زندگی چند پل کی ہے!نوجوانی میں انسان اس بات کو سمجھ نہیں پاتا لیکن جب وہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہے اور ایک عمر بسر کر لیتا ہے تب اسے سمجھ میں آتا ہے کہ زندگی چند پل سے زیادہ کی نہیں ہے۔ تیرہ آبان کے یادگار دن پر نوجوانوں اور دیگر طبقات سے خطاب سے اقتباس5/11/1997 دینداری کو صرف ظاہری اعمال و عبادات کے بجائے خدا سے عشق و محبت اور ایک خصوصی رابطہ سے بدل دینا چاہیے۔ آپ ابھی سے کوشش کریں کہ معنی و مفہوم سمجھ کرنماز پڑھیں۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 4/10/2001اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں ایک جملہ میں بتائوں کہ مجھے نوجوانوں سے کیا چاہئے تو کہوں گا : تعلیم، تربیت اور ورزش۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے خطاب سے اقتباس 27/4/1998جوانوں کیلیے ورزش بہت ضروری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ورزش سب کیلیے ضروری ہے۔ البتہ میری مراد پیشہ ورانہ ورزش نہیں ہے۔ پیشہ ورانہ ورزش کے لیے بھی منع نہیں کررہا ہوں لیکن یہ بھی نہیں کہوں گا کہ سارے نوجوان پیشہ ورانہ ورزش کی لاین میں چلے جائیں۔ ورزش تو درحقیقت صحت و تندرستی اور نشاط و تازکی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ طلبا اور تربیتی امور کے عہدیداروں کی اسلامی انجمنوں سے خطاب 26/2/2001آپ لوگوں (جوان افراد) کے اندر ایک خزانہ ہے۔ اس کو نکالنا چاہیے۔ اسے کون نکالے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ ہی کو یہ کام کرنا ہوگا۔ اپنی استعداد و صلاحیت کے خزانے کو سب سے پہلے خود انسان ہی باہر نکالتا ہے۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس4/10/2001 ممکن ہے کہ بعض جگہوں پر تعلیم کے مواقع نہ ہوں۔ میں نقایص اور کمیوں کی طرفداری نہیں کر رہا ہوں لیکن یہ یاد رکھیے کہ اگر مجھ سے عوام اور حکومتی عہدوں پر فایز افراد کے درمیان فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو میں ہرگز کسی عہدیدار کو خوش کرنے کیلیے لوگوں کے حق کو نظرانداز نہیں کروں گا۔ اراک کے نوجوانوں کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 16/11/2000جوان کی سب سے اہم ضرورت اس کی اپنی شخصیت ہے۔ اسے اپنے ہدف اور اپنی شخصیت کو پہچاننا چاہیے۔ اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ کون ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ دشمن یہ چاہتا ہے کہ نوجوانوں سے ان کی شخصیت چھین لے۔ ان کے اہداف و مقاصد کو ختم کردے۔ ان سے کہے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اس لیے میرے پاس آجائو تاکہ میں تمہیں زندگی دوں۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس 2/5/2001ذمہ داریاں اور حقوق ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں۔ بغیر ذمہ داری کے کسی کو کوئی بھی حق حاصل نہیں ہوتا۔ جسے بھی کچھ ملتا ہے اسے اس کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اس لیے آپ اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر صرف اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ ایک غیرعقلی وغیرمنطقی بات ہوگی۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے ملاقات میں3/11/2001 ایران کو دسیوں سال تک امریکا سے دوستی کا تلخ تجربہ رہا ہے۔ یہ ملک صیہونیوں اور امریکی سرمایہ داروں کا اڈا بن گیا تھا۔ وہ یہاں سائنس و ٹکنولوجی دینے، یہاں کی یونیورسٹیون کا معیار تعلیم اونچا کرنے یا یہاں کے نوجوانوں کو پڑھانے نہیں بلکہ برائیاں پھیلانے اور موج مستی کرنے آئے تھے۔امام خمینی(رہ) کے یوم ولادت پر طلبا اور اسکولی بچوں سے ملاقات میں 3/11/1998 میں کہتا ہوں کہ جوانوں کو بہلانے کے بجائے ان سے صاف صاف بات کی جائے۔ انکے سامنے مشکلات اور وسایل کے سلسلے میں کھل کر گفتگو کی جائے اور پھر اس کے بعد مشکلات دور اور وسایل فراہم کرنے میں مصروف ہو جایا جائے۔ ایسی صورت میں خود یہ نوجوان آپ کی مدد کریں گے اور مشکلات دور ہوں گی۔ آپسی روابط میں نوجوان کو سچائی سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس2/5/2001میرا ماننا ہے کہ نوجوانوں کے سلسلہ میں افراط و تفریط سےکام نہیں لینا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نوجوان لاابالی ہوتے ہیں۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ بعض لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں کوئی برائی ہے ہی نہیں میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں۔ نوجوانوں سے سچائی کے ساتھ دوستانہ انداز میں بات کرنی چاہیے۔ اراک میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے 4/11/2000میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس سیاسی شعور ہونا چاہیے۔ لیکن جو چیز انکی بنیادی ضرورت ہے وہ سیاست نہیں بلکہ ایمان ہے۔ 3/9/1996 بے روزگاری سے غریبوں اور امیروں کے درمیان طبقاتی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض لوگ دن بدن غریبی کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ مختلف راستے اپنا کر دولت اور امیری کی چوٹیوں پر پہونچ جاتے ہیں۔ تہران کی نماز جمعہ میں قائد انقلاب کے خطاب سے اقتباس 18/5/2001اگر ہم اپنے ملک کو سربلند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم و ٹکنولوجی کے ذریعہ آگے بڑھنا ہوگا۔ ملکی سطح پر تعلیم کے ممتازین کے درمیان 11/10/1999جو قوم اپنا دفاع نہیں کرسکتی وہ عالمی سطح پر ہونےوالی تبدیلیوں اور ترقیوں سے کچھ بھی نہیں حاصل کرسکتی۔ جو قوم اپنے دفاع کیلے دوسروں کا منہ تاک رہی ہو اور دوسروں کے آسرے پر ہو وہ وقت پڑنے پر اپنا دفاع نہیں کرسکتی۔ فوجی اکیڈمی سے تعلیم یافتہ افراد اور طلبائ کے درمیان تقریر سے اقتباس 6/10/1990ہر وہ عہدیدار کہ جس کی کچھ ثقافتی ذمہ داریاں ہیں اگر صرف کسی پارٹی کو مدنظر رکھ کر کام کرے تو یہ اس کی خیانت ہوگی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نئی نسل خراب ہوگئی ہے وہ غلطی پر ہیں اور اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ نوجوانوں کو صرف اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔(2/5/2001)مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ جہاں بھی وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے نوجوانوں کو درمیان میں لے آتے ہیں( اور انکے نام پر اپنی کوتاہیوں کا عذر پیش کرنا چاہتے ہیں )اگر ہم نوجوانوں کی حقیقت، ان کی آرزووں اور امیدوں سے بے خبر ہیں اور ان کے لیے ہمارے پاس کوئی پروگرام نہییں ہے تو انہیں بہلانا اور گمراہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ (2/5/2001)تعلیم کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ میں کچھ معلومات اور انفارمیشنس تھما دیں اور ان سے کہیں کہ اسے پڑھو! اسکے بعد ایک وقت معین کردیں کہ اس میں امتحان دو۔ اسے تعلیم نہیں کہتے۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو انسان کا ذہن کھولے، فکرکو ابھارے اورسب سے بڑھ کر اسٹوڈنٹ میں پڑھنے اور سیکھنے کا شوق پیدا کردے۔ وزارت تعلیم کے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران 17/7/2002یہ ہمارے اپنے بچے ہیں۔ یہ ہمارے ہی نوجوان ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں اس سےکچھ نہیں ہوتا ۔ ان کے اپنے الگ الگ نظریات ہیں اور اپنی ایک الگ شخصیت ہے لیکن ہمارے سامنے یہ سب ہمارے بچے اور آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ پورے ملک کے ائمہ جمعہ سے ملاقات کے وقت20/5/1998 میرے عزیزو!انسان کی جوانی ہی اسکے بڑھاپے کے خد و خال تیار کرتی ہے۔ ۲۳ رمضان کی دعوت افطار میں اسلامی انجمنوں کے طلبا کے درمیان 21/1/1998خدا تک پہنچنے کا راستہ انہی مادی اور دنیوی وادیوں سے ہو کر گزرتا ہے لیکن مادیات کے درمیان رکتا نہییں ہے۔ جس انسان نے خود کو مادیات میں غرق کر رکھا ہے اسکا گناہ یہ نہیں ہے کہ اس نے دنیا پر توجہ کی ہے بلکہ اسکا گناہ یہ ہے کہ اس نے مادی خواہشات سے آگے بڑ ھ کر کسی بلند اور عظیم ہدف تک رسائی کی کوشش نہیں کی ہے۔ صوبہ اردبیل کے جوانوں کے عظیم اجتماع سے خطاب 26/7/2000صحیح راستہ کیا ہے؟ یہی کہ نوجوان یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اپنی زمین میں اپنا ہی بیج بوئےگا، اپنی ثقافت کو اپنائے گا، خود ارادہ کرے گا، اپنی شخصیت کو اہمیت و آزادی دےگا، ذلت کے قریب بھی نہ جائے گا اور بے جا تقلید اور دوسروں کو آئیڈئیل بنانے سے پرہیز کرےگا۔ (2/5/2001)احساس ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، روزگار، کیریر، شادی اوراپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے اسی طرح ان اہداف کے بارے میں بھی سوچے جو اس کی ذات سے بڑھ کر ہیں۔ وہ اہداف کہ جو صرف اس سے متعلق نہیں بلکہ پوری قوم، تاریخ اور انسانیت سے متعلق ہیں۔صوبہ سیستان و بلوچستان کے نوجوانوں کے درمیان 25/2/2003ایک طرف کج فہمی، تنگ نظری اور دین کوسمجھنے میں غیرضروری تعصب و جہالت اور دوسری طرف دین کے سلسلے میں نام نہاد روشن فکری، دینی تعلیمات پر اعتقاد نہ ہونا اور اسلامی احکام کی رعایت نہ کرنا شہید مطہری کے بقول قیچی کی مانند نوجوان کی دینداری کو کاٹ رہے ہیں۔وزیر تعلیم و تربیت اور امور کے عہدیداروں سے رہبر انقلاب کی ملاقات 26/2/2000ہماری روایات میں یہ نکتہ بہت آیا ہے کہ خداوندعالم قیامت میں کسی بھی انسان کو چار چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنے دے گا ان میں سے ایک جوانی ہے کہ جوانی کس طرح اور کہاں بتائی؟بسیجی(رضاکار) طلباء سے خطاب سے اقتباس 16/12/1998اگر آج آپ نے دنیا پرست افراد کی راہ پر ایک قدم بھی رکھ دیا تو آیندہ بھی آپ اسی راستے پر چلتے رہیں گے۔ کفا فاؤنڈیشن کی مرکزی کمیٹی کے اراکین سے گفتگو کے دوران 15/7/2001میرے عزیزو!جوان کی ایک اہم خصوصیت اس کا پرامید ہونا ہے، کوشش کیجئے کہ یہ خصوصیت آپ کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ (7/11/2001)پیسے کی خاطر زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے۔ دولت کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ صرف پیسہ کمانا ہدف نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی گزارنے کا ایک وسیلہ ہے اس لیے یہ انسان کا مقصد نہیں بن سکتا ہے۔ (2/5/2001)
قائد انقلاب اسلامی نے شیراز کے ایک ثقافتی مرکز رہپویان وصال میں دھماکے کے واقعے کے بعد تعزیتی پیغام جاری فرمایا ہے۔اس پیغام کا متن درج ذیل ہے :بسم اللہ الرحمن الرحیمرہپویان وصال مرکز میں غم انگیز اور افسوس ناک واقعے نے کہ جو کئی وصال دوست عاشقوں کی شہیدانہ پرواز اور متعدد کے زخمی ہونے پر منتج ہوا، مجھے غم زدہ کر دیا۔اس تلخ واقعے کے سوگواروں اور متاثرین کے لیے تعزیت پیش کرتا ہوں۔ صابرین ....
میں بیماری سے ابھی ابھی اٹھا تھا اور اسپتال سے گھر پہنچ کر آرام کر رہا تھا۔ گھر ہی سے حالات کی اطلاع بھی حاصل کرتا رہتا تھا۔ شہید رجائی، شہید باہنر اور دیگر احباب تشریف لاتے تھے اور حالات سے مجھے آگاہ کر جاتے تھے تاہم میں امور میں براہ راست سرگرم عمل نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ مجھے افاقہ ہوا اور میں نے جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت شروع کر دی۔ حادثے سے قبل والی شب میں نے رجائی مرحوم کے کمرے میں ایک اجلاس میں شرکت کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس طرح میں جائے وقوعہ سے دور رہا۔ بیماری کی وجہ سے کمزوری تھی اور میں گھر میں سویا ہوا تھا، بیدار ہوا تو میرے پاس موجود احباب مجھے سراسیمہ نظر آئے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ دفتر وزیر اعظم میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ وہاں کون لوگ موجود تھے؟ جواب ملا کہ جناب رجائی اور جناب باہنر بھی حاضرین میں تھے۔ مجھے شدید تشویش لاحق ہو گئی۔ میں شدید نقاہت کے عالم میں ٹیلی فون تک گیا اور ادھر ادھر ٹیلی فون کرنا شروع کیا۔ لوگ مختلف طرح کی باتیں کر رہے تھے جس سے تشویش اور بھی بڑھ گئي۔ کوئي کہتا تھا کہ وہ بخیر و عافیت ہیں، کوئی کہتا تھا کہ بال بال بچ گئے، کوئی کہتا تھا کہ ان کی لاشیں نہیں مل سکی ہیں، کوئي کہتا تھا کہ انہیں اسپتال لے جایا گیا ہے۔ اسی عالم میں وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ مجھے تفصیلی خبر ملی۔ اس وقت میری جو حالت ہوئي اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دو عزیز ترین دوست، دو انقلابی جانباز، اسلامی جمہوریہ ایران کے صف اول کے دو عہدہ دار یکلخت جدا ہو گئے۔ مجھے شدید نقصان کا احساس ہو رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ بہت بڑا خسارہ ہو گیا۔ مجھ پر غم و غصے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ واقعے کے ذمہ داروں کے لئے شدید نفرت کا احساس ہو رہا تھا۔ اگلی صبح میں نقاہت کے عالم میں اٹھا اور تشییع جنازہ کے لئے پارلیمنٹ پہنچا۔ ڈاکٹر مجھے روک رہے تھے، کہہ رہے تھے میں دور رہوں لیکن مجھ میں برداشت اور صبر کا یارا نہ تھا۔ میں نے وہیں پارلیمنٹ میں ایک جذباتی تقریر بھی کی۔ لوگ مجھے سہارا دئے ہوئے تھے کہ کہیں گر نہ پڑوں چونکہ میری عجیب کیفیت تھی۔ بہرحال میرے لئے یہ بڑا تلخ واقعہ تھا۔ یہ کہنا شائد غلط نہ ہو کہ اس وقت تک میری زندگی کا یہ سب سے تلخ واقعہ تھا۔ سات تیر کا واقعہ بھی میرے لئے تلخ ترین واقعہ ہو سکتا تھا لیکن اس وقت میں بیہوش تھا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ بعد میں رفتہ رفتہ واقعے کی تفصیلات سے آگاہی ہوئي۔ لیکن یہ ناگہنای سانحہ تھا۔
نوروز کے معنی ہیں نیا دن، ہماری روایات بالخصوص معلی بن خنیس کی معروف روایت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ معلی بن خنیس بڑے گرانقدر راوی تھے اور ہمارے نزدیگ وہ ثقہ ( قابل اعتماد راوی ) ہیں۔ آپ ایک برجستہ شخصیت اور خاندان اہل بیت نبوت کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی زندگی فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بسر کی اور پھر جام شہادت نوش فرمایا۔ یہی عظیم شخصیت یعنی معلی ابن خنیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ نوروز کا دن تھا۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نوروز سے آگاہ ہو؟ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائي ہے کہ اس دن حضرت آدم زمین پر اترے۔ حضرت نوح کا واقعہ پیش آیا، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو ولایت کے لئے منتخب کیا گيا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس روایت سے میں کسی اور نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نے نو نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائي ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ نیا دن یا نوروز کسے کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ذریعے خلق کئے جانے والے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کون سا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو یہ خصوصیت ہو کہ اس دن کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتےہوں۔ حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم و حوا نے زمین پر قدم رکھے۔ وہ نوروز تھا۔ یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ جس دن حضرت نوح علیہ السلام نے عظیم طوفان کےبعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا۔ وہ ایک نیا دن تھا اور اس دن سے نئي تاریخ شروع ہوئی۔ جس دن پیغمبر اسلام پر قرآن مجید کا نزول ہوا وہ بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دن مولائے متقیان کو مسلمانوں کا ولی بنایا گيا وہ نیا دن تھا۔ یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں اب خواہ یہ واقعے ہجری شمسی سال کے پہلے دن اور نوروز والے دن رونما ہوئے ہوں یا کسی اور دن۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا دن نوروز اور نیا دن ہے۔ حضرت نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ سارے واقعات ہجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئي واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے۔ جس دن امام خمینی وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا۔ امریکہ، نیٹو، سویت یونین، وارسا اور نہ جانے کہاں کہاں سے کمک پانے والے فوجیوں پر ہمارے مومن اور جاں نثار جوانوں کی فتح کا ہر دن نوروز تھا۔ شہید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدہ داروں سے خطاب13 مارچ 1995