عالم بشر کو شرک و کفر اور جہل و ظلم کی تاریکیوں سے نجات دلاکر نور معرفت، عدل و انصاف اور بندگی پروردگار کی منور وادی میں پہنچانے کے لئے حضرت عیسی مسیح علیہ السلام الہی معجزے اور پیغام کے ساتھ معبوث ہوئے۔ آپ نے انسانوں کے درمیان گزرنے والا اپنا ہر لمحہ برائیوں کا خاتمہ اور نیکوکاری کی ترویج کےلئے بسر کیا۔ اس ہستی سے ملنے والے اس سبق پر مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو توجہ دینا چاہئے۔ اس دور میں انسانیت کو کسی بھی دوسرے دور سے زیادہ، ان تعلیمات اور اسباق کی ضرورت ہے۔ اسلام جو آئین مسیح کی تکمیل کے لئے آیا، خیر ونیکوکاری اور تکامل و پرہیزگاری کواپنا سرلوحہ پیغام قرار دیتا ہے۔ گمراہ افراد کا عالم یہ ہے کہ فطری صلاحیتوں کے ذریعے حاصل ہو جانے والی طاقت کا استعمال کرکے اس کے ٹھیک مخالف سمت میں قدم بڑھاتے ہیں، نتیجے میں ادیان الہی کے پیروکاروں کا کام دشوار ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسی مسیح کی تعلیمات سے بے بہرہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں عیسائيت کے لبادے میں مظلوم افراد اور قوموں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں اور ان پر کوئي بھی ظلم ڈھانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی قدر و منزلت، آپ پر سچا ایمان رکھنے والے عیسائيوں کی نظر میں جو آپ کی قدر منزلت ہے اس سے کم نہیں۔ اس پیغمبر الہی نے لوگوں کے درمیان گزرنے والی اپنی زندگی کا ہر لمحہ جد و جہد میں گزارا تاکہ ظلم و استبداد کا خاتمہ ہو جائے اور ان افراد کو، جو سیم و زر اور زور بازو کے سہارے قوموں کو اپنا غلام بنائے ہوئے تھے اور انہیں دنیا و آخرت کے جہنم کی سمت گھسیٹ رہے تھے، اس عمل سے باز رکھا جا سکے۔ اس نبی خدا کو بچپن سے ہی، کیونکہ اسی وقت سے آپ کو نبوت عطا کر دی گئي تھی، جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ سب اسی تبلیغ کا نتیجہ تھیں۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ حضرت عیسی مسیح کے پیروکار اور وہ تمام افراد جو آپ کو عظیم معنوی منزلت پر فائز سمجھتے ہیں اس راہ میں ان کے نقش قدم پر چلیں۔ اسلامی جمہوریہ میں تمام مکاتب فکر کو آزادی حاصل ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ برادرانہ اور دوستانہ ہے۔ ہمارے ذہن میں یہ رہتا ہی نہیں کہ فلاں شخص تو کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور ہمارے طرز فکر، ہمارے دین اور ہمارے اسلام کا پیروکار نہیں ہے۔ ان کے گھروں میں ہماری آمد و رفت رہتی ہے۔ ہم برسوں سے عیسوی سال کے آغاز پر عیسائي شہدا کے گھروں پرجاتے ہیں۔ ان کے گھر جاتے ہیں ان کے بال بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں، بات چیت ہوتی ہے، خاطر مدارات کا سلسلہ بھی رہتا ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی ذہن میں یہ نہیں آتا کہ ان کا تعلق کسی اور مذہب سے ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں اس کا تصور ہی نہیں ہے کہ اگر کوئي شخص کسی اور مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی مخالفت کی جائے، اس کی ہمارے یہاں گنجائش ہی نہیں ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد جب امریکی صدر نے بے ساختہ کہہ دیا کہ صلیبی جنگ شروع ہو گئی ہے اور پھر بعد میں غلطی کا احساس ہونے پر لیپا پوتی کی کوشش کی گئی تو اس وقت کسی نے اس نکتے پرتوجہ نہیں دی کہ صلیبی جنگ کیا ہے۔ صلیبی جنگ عیسائي اور مسلمان قوموں کی جنگ ہے۔ یہ لوگ ان جنگوں کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو جائیں۔ دنیا کے مسلمان اور عیسائی دونوں ہوشیار رہیں کہ کہیں ان خبیث سیاستدانوں کے جھانسے میں نہ آ جائیں۔ آج دنیائے عیسائيت اور یورپ میں صیہونی ہاتھ انہیں سازشوں میں مصروف ہیں۔ اب تو کسی کو اس بات میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوبصورت پیرائے میں پنہاں صلیبی جذبات، بیشتر یا سبھی مغربی طاقتوں پر غالب آ چکے ہیں۔ وہ اسلام کی ہر نشانی و علامت اور مسلمانوں کی سانس تک کی دشمن ہیں۔ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات پر ان کا کوئي عقیدہ نہیں ہے۔ انہیں تو بس اپنے مفادات اور ہوسرانی سے دلچسپی اور ان مفادات کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز سے بے انتہا عناد ہے۔ انہیں اس کے علاوہ دنیا کی کسی چیز سے کوئي مطلب نہیں۔ وہ کلمۃ اللہ (حضرت عیسی مسیح) جس نے انسانی اقدار سے بے توجہی اور جہالت و گمراہی کے دور میں انسانیت کی ہدایت و نجات کا پرچم بلند کیا اور ستمگر طاقتوں کو للکارا، جس نے عدل و انصاف اور توحید وعبادت کا پیغام دیا آج اس کی پیغمبری پر ایمان رکھنے والوں، عیسائيوں اور مسلمانوں، کو چاہئے کہ پیغمبروں کی تعلیمات پر پھر سے توجہ دیں اورعالم بشریت کے ان عظیم معلمین سے ملنے والے درس کے عام کریں۔ اگر حضرت عیسی مسیح علیہ السلام آج ہمارے درمیا ن ہوتے تو عالمی سامراج اور ظلم و استبداد کا کاروبار چلانے والوں کا قلع قمع کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تامل نہ کرتے۔ آپ اربوں انسانوں کی غربت و بھکمری کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کے استحصال اور جنگ و فساد کے نتیجےمیں اس انجام کو پہنچے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر، کسی بھی تہذیب و ثقافت اور کسی بھی فلسفیانہ نظرئے میں آزادی کی اس شکل کو اقدار میں شمار نہیں کیا گیا ہے کہ جس میں انسان ہر قید و شرط سے آزاد ہو، اس کے سامنے کہیں کوئي رکاوٹ نہ ہو اور جو اس کے جی میں آئے کرے۔ دنیا میں کوئي بھی ایسی آزادی کا قائل نہیں ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ کوئی یہ آزآدی حاصل کرلے۔ فرض کریں کہ کسی معاشرے میں انسانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ جو جی میں آئے کریں ان کے لئے کوئي روک ٹوک نہ ہو تو خود یہی آزادی دوسرے بہت سے افراد کی آزادی سلب کر لے گی، ان کا چین و سکون چھین لے گی۔ صحیح معنی میں آزادی جو آلائشوں، ہوی و ہوس اور مادیات کے بندھن سے روح انسانی کی نجات سے عبارت ہے، ہمیں صرف اور صرف الہی مکاتب فکر میں مل سکتی ہے۔ مغربی افکار میں تو آپ اس کی بو بھی نہیں محسوس کر پائيں گے۔ انقلاب فرانس کے دوران، اٹھارہویں صدی اور اس کے بعد مغربی دنیا میں جس آزادی پر بحث شروع ہوئي وہ تو اس آزادی کے مقابلے میں بہت محدود اور بے ارزش ہے جو انبیاء الہی اور دینی مکاتب فکر میں بیان کی گئی ہے۔ مغربی ثقافت میں آزادی کا خاکہ کھینچنے والا قانون صرف سماجی امور اور پہلؤں کو دیکھتا ہے۔ بایں معنی کہ یہ قانون کہتا ہے کہ کسی بھی انسان کی آزادی سے دوسرے کی آزآدی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور اس سے دوسروں کے مفادات خطرے میں نہیں پڑنے چاہئیں۔ اسلام میں آزادی کی حدیں کچھ اور ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ آزادی سے استفادے کے لئے اس بات کا خیال رکھنے کے ساتھ کہ دوسروں کی آزادی اور مفادات کو نقصان نہ پہنچے اس بات پر بھی توجہ رکھنی ہوگی کہ خود اپنے ذاتی مفادات بھی خطر میں نہ پڑنے پائیں۔ انسان آزادی اور اختیار کےنام پر اپنے مفادات بھی خطرے میں ڈالنے کا حق نہیں رکھتا۔ مغربی لبرلزم میں آزادی، دین اور خدا جیسی عظیم حقیقتوں سے جدا ہے۔ اسی لئے اس مکتب فکر کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ آزادی، خداداد شئ ہے۔ کوئي نہیں کہتا کہ انسان کو آزادی اللہ تعالی سے ملی ہے۔ وہ اس کا کوئي اور فلسفیانہ سرچشمہ تلاش کرتے ہیں۔ اسلام میں آزادی، خداداد شئ قراد دی جاتی ہے۔ ایک تو یہی بڑا بنیادی فرق ہے جس سے اوربہت سے فرق پیدا ہوتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے آزادی کے خلاف اقدام ایک الہی شئ کے خلاف اقدام کے مترادف ہے۔ مغربی لبرلزم میں آزادی اور فرائض میں تضاد ہے، یعنی(اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ) انسان ہر طرح کے فرائض سے آزاد ہے لیکن اسلام میں آزادی سکہ کا ایک رخ تو فرائض اس کا دوسرا رخ ہے۔ انسان آزآد ہی اس لئے ہیں کہ ان پر فرائض عائد ہیں۔ اگر ان پر فرائض نہ ہوتے تو ازادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ انسان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ متضاد خواہشات اور جذبات کا مجموعہ ہے اور اسے یہ حکم ہے کہ ان گوناگوں جذبات کے بیچ سے کمال و تکامل کا سفر طے کرے۔ اسے آزادی دی گئی ہے تکامل کی راہ طے کرنے کے لئے۔ ان اقدار پر استوار آزادی، تکامل کے لئے ہے۔ یورپ میں حجاب کے سلسلے میں برپا ہنگامے کو دیکھئے۔ آزادی کے تو بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن ایک دوسرے مکتب فکر کی اس معمولی سی نشانی اور رجحان کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ جب ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرنے والے مصنف پر اعتراض ہو تو فورا آزادی اظہار خیال اور آزادی فکر کی رٹ لگا دیتے ہیں اور جب نوبت آتی ہے کسی مسلمان خاتون یا لڑکی کی جو اپنی مذہبی روایات کے مطابق لباس پہننا چاہتی ہے تو پھر انہیں آزادی یاد نہیں رہتی، پھر تو ان کے انداز ہی بدل جاتے ہیں۔ اب غیر اخلاقی اور دوسروں کی آزادی کو نقصان پہنچانے والی اس حرکت کو قدامت پسندی کے خلاف جد و جہد کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اسلام قوموں کو آزادی عطا کرتا ہے، خود ان کی ذاتی زندگی میں انہیں مطلق العنان اور استبدادی طاقتوں، خرافات اور جہالتوں، جاہلانہ تعصب اور کدورتوں سے آزادی دلاتا ہے اسی طرح اقتصادی طاقتوں کے چنگل اور استکبار کے سیاسی دباؤ سے نجاد دلاتا ہے۔ آزادی الہی تحفہ اور انقلاب کا ثمر ہے آزآدی عوام کا حق اور ان کی فطرت کا جز ہے۔ مشرق وسطی کے پورے علاقے بلکہ دنیا میں بھی بہت کم ہی ملک ایسے ہوں گے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران جیسی آزادی ہو۔ یہ وہ نظام اور وہ ملک ہے جہاں انقلاب کی کامیابی کو ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ عوام نے حق رای دہی کا استعمال کیا اور اسلامی جمہوری نظام کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ آزادی اسے نہیں کہتے کہ کوئی اس کے بہانے استحصال شروع کردے جیسا کہ دنیا میں آج دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آزادی کے نام پر بد ترین جرائم کا ارتکاب کیا گيا ہے اور انسانی نسلوں کو شہوانیت اور اخلاقی انحطاط کی نذر کر دیا گيا ہے۔ آزادی کے نام پر مغربی مکاتب فکر اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ذہنوں سے حقیقی آزادی کا مفہوم مٹا دیا گيا ہے۔ ای آزادی! بہ نام تو چہ جنایتھا کے انجام نمی گیردہائے رے آزادی تیرے نام پر کیا کیا جرائم نہیں کئے جاتے؟! آج ہمارے دشمن اسی جملے کی عملی تفسیر پیش کر رہے ہیں۔
موجودہ دور میں عالم اسلام میں امریکہ اور سامراج کا ایک بنیادی ہدف، تفرقہ و اختلافات کی آگ بھڑکانہ ہے اور اس کا بہترین طریقہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر آج عراق کے مسائل کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟! کس طرح زہرافشانی کر رہے ہیں اور دشمنی کے بیج بو رہے ہیں؟! مغرب کی تسلط پسند اور جاہ طلب طاقتیں برسہا برس سے اس کام میں مصروف ہیں۔ بہت ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اور ہر موقع پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکہ کا مرغوب ترین مشغلہ ہے۔ مسلم اقوام اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو معمولی نہ سمجھیں۔ اپنی بیداری و ہوشیاری کی حفاظت کریں۔ یہ وقت مسلم اقوام کے اتحاد اور یکجہتی کا متقاضی ہے۔ میں اپنی قوم، ملت عراق، ملت پاکستان اور دیگر مسلم اقوام کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ شیعہ، سنی اختلاف پر قابو پائیں۔ مجھے وہ ہاتھ نظر آ رہے ہیں جو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی جنگ شروع کروانے میں لگے ہیں۔ قتل عام کے جو واقعات ہو رہے ہیں، مساجد، امام بارگاہوں، نماز جماعت اور نماز جمعہ میں جو دھماکے ہو رہے ہیں ان میں صیہونزم اور عالمی استکبار کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ یہ کام مسلمان انجام نہیں دے رہے ہیں۔ عراق، ایران، پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے ہمیں ملنے والی اطلاعات، دنیائے اسلام میں رونما ہونے والے بھیانک واقعات میں صیہونیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کا براہ راست یا بالواسطہ ہاتھ ہونے کی غمازی کرتی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ، سنی فرقے میں شامل ہو جائیں اور سنی شیعہ بن جائیں، یہ مراد نہیں ہے کہ ایک مذہب دوسرے میں ضم ہو جائے۔ ہمارا یہ کہنا نہیں ہے کہ شیعہ اور سنی حتی المقدور اپنے عقائد کے علمی استحکام کی کوشش نہ کریں۔ علمی کام تو مستحسن ہے اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ بعض افراد اتحاد بین المسلمین کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مذاہب کی نفی کی بات کرتے ہیں۔ مذاہب کی نفی سے مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ مشکلات کا حل مذاہب کو صحیح انداز سے ثابت کرکے ممکن ہوگا۔ جو بھی فرقے ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں معمول کے امور انجام دیں لیکن ایک دوسرے سے اپنے تعلقات بہتر کرنے پرخاص توجہ دیں۔ علمی کتابیں لکھیں لیکن یہ کام علمی فضا میں انجام پائے، اس کےباہر نہیں۔ اگر کوئي اپنی بات منطقی انداز میں ثابت کر دیتا ہے تو ہم اسے ایسا کرنے سے نہ روکیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے بیان، کردار یا کسی اور طریقے سے اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہے تو ہمارے خیال میں یہ تو دشمن کی خدمت ہے۔ اہل سنت کوبھی محتاط رہنا چاہئے اور شیعوں کو بھی۔ ہر شخص اپنے عقیدے اور اقدار کا احترام کرتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے لیکن یہ عمل کسی دوسرے فرقے کی اقدار کی توہین کا باعث نہ بننے پائے جس کے عقائد ہم سے الگ ہیں۔ ہم ایک اسلام، ایک کعبے، ایک پیغمبر، ایک نماز، ایک حج، ایک جہاد اور ایک ہی شریعت کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ مماثلتوں کے مقابلے میں اختلافی باتیں کئي گنا کم ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں، ایران ہی نہیں پورے عالم اسلام میں شیعہ سنی اختلاف کے شعلے دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کو شیعہ اور سنی اسی طرح دیگر فرقوں کے درمیان اختلاف کا باعث نہ بنائیے۔ امیر المومنین علیہ السلام تو نقطہ اتحاد ہیں، نہ کہ نقطہ اختلاف۔ ملک کے گوشے گوشے میں آباد ہمارے بھائی بہن اس بات پر یقین رکھیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نقطہ اتحاد ہیں۔ پورا عالم اسلام امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے عقیدت سے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ پوری تاریخ اسلام میں، وہ چاہے اموی دور ہو یا عباسی دور، کچھ گروہ امیر المومنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے، لیکن مجموعی طور پر عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، امیر المومنین علی علیہ السلام کا عقیدتمند رہا ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں اہل سنت کے ائمہ فقہ نے طبع آزمائی کی ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے معروف اشعار امام شافعی سے منسوب ہیں۔ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام ہی نہیں تمام یا پھر اکثر ائمہ اہلبیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ہم شیعوں کے نزدیک ان بزرگوار شخصیتوں کا مقام بالکل عیاں ہے۔ بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے بھی عناصر ہیں جو امریکہ اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیار ہیں اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے رے ہیں۔ میں آج واضح طو پر کچھ ہاتھ دیکھ رہا ہوں جو ہمارے بعض ہمسایہ ممالک میں، عمدا اور پوری منصوبہ بندی کےساتھ شیعہ، سنی اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، فرقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی دشمنی پر اکسا رہے ہیں تاکہ حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کر سکیں اور مسلم ممالک میں ان کے ناجائز مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ شیعوں کو اہل سنت اور اہل سنت کو شیعہ کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں وہ نہ تو شیعوں کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی اہل سنت سے انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ سرے سے اسلام ہی کے دشمن ہیں۔ رحماء بینھم یعنی مسلمان بھائي آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنیں۔ دشمن دونوں طرف سے حملے کر رہا ہے۔ ایک طرف تو غلو اور دشمنی اہلبیت کی ترویج کر رہا اور شیعوں کو اہل سنت کی نگاہ میں سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور بد قسمتی سے مذاہبی انتہا پسندی کے شکار بعض افراد اس کا یقین بھی کربیٹھے ہیں، دوسری طرف شیعہ کو اہل سنت کے عقائد کی بے حرمتی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے پر اکساتا ہے۔ دشمن کی سازش یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے ہمیشہ لڑتے مرتے رہیں۔ دشمن ایسے زاوئے سے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے آپ متوجہ نہ ہوسکیں اور اس کی جانب سے غافل رہ جائیں۔ لہذا ہوشیار رہئے اور دشمن کو ہر روپ میں پہچاننے کی کوشش کیجئے ولتعرفنھم فی لحن القول اس کی باتوں سے بھی اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ ہمارے عوام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جن علاقوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد آباد ہیں اور اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے وہاں مذہبی اور نسلی ٹکراؤ سے خاص طور پر پرہیز کرتے ہیں۔ دشمن کو یہی نہیں پسند ہے۔ شیعہ، سنی جنگ دشمن کے لئے بہت قیمتی اور اہم ہے۔ امت مسلمہ اختلافات کی شکار رہے تو اس سے معنویت و روحانیت، شادابی و تازگی، قدرت و طاقت، اور قومی شکوہ و عظمت سب کچھ مٹ جائے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے وتذھب ریحکماس سلسلے میں جو عوامل اتحاد کا مرکز قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات ہے۔ مسلم دانشوروں کو چاہئے کہ اسلام کے سلسلے میں وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس عظیم شخصیت، اس کی تعلیمات اور اس کی محبت و عقیدت کے سلسلے میں محنت کریں۔ اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو شیعہ ہوں یا سنی اسی طرح ان سے نکلنے والے دیگر فرقے، بہت سنجیدگی سے لیں۔ تمام مسلمان اتحاد پر خاص توجہ دیں۔ اتحاد بین المسلمین کا مطلب پوری طرح واضح ہے۔ یہ مسلمالوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئي نعرہ نہیں، یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ مسلم معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اتحاد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اتحاد قائم کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن مسلم اقوام کا اتحاد ان کے مکاتب فکر میں تنوع کے ساتھ ممکن ہے، ان کا طرز زندگی الگ الگ ہے ان کے آداب و رسومات مختلف ہیں، ان کی فقہ الگ الگ ہے لیکن ان میں اتحاد ہو سکتا ہے۔ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک دوسرے سےہم آہنگی بنائے رکھیں، ایک ہی سمت میں بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور قوموں کے اندرونی وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں۔
ہر نظام کے لئے اصلاح ضروری ہے۔ یہ ہر معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اصلاح یعنی یہ کہ تمام خوبیوں اور کمیوں کی فہرست تیار کی جئے اور کمیوں کو خوبیوں میں تبدیل کیا جائے۔ یہ انقلابی اصلاح ہے، یہی اسلامی اصلاح ہے۔ جہاں تک اسلامی نظام اور انقلاب کے دشمنوں کا تعلق ہے تو وہ اس نظام کے بنیادی ڈھانچے کو ہی پسند نہیں کرتے اور ان کی نظر میں اصلاح کا مطلب ہےنظام کی مکمل تبدیلی، اسلامی جمہوری نظام کی سامراجی دشمنوں کے اشارے پر چلنے والے نظام میں تبدیلی۔ اگر حقیقی اصلاح کی بات کریں تو اس کی ضرورت ملک کے ہر شعبے میں ہے۔ کوئي بھی ادارہ خود کو اصلاح اور تنقید سے بالاتر نہیں سمجھ سکتا۔ ملک کے تمام اداروں پر ناقدانہ نظر ڈالی جانی چاہئے اور سب کو نظام کے بنیادی اہداف کے تحت اور اسی کے تناظر میں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اصلاح ایک لازمی حقیقت ہے اور یہ عمل ملک میں انجام پانا چاہئے۔ ہمارے ملک میں اصلاح کے لئے اجبار کا راستہ نہیں اختیار کیا جاتا کہ کوئي حکمراں شدید مطالبات سے مجبور ہوکر یہاں، وہاں کچھ اصلاحاتی اقدام کر دے، نہیں، اصلاح ہمارے نظام کی دینی اور انقلابی ماہیت ور تشخص کا جز ہے۔ اگر بار بار اصلاح نہ کی جائے تو نظام بگڑ سکتا ہے، غلط سمت میں جا سکتا ہے۔ اصلاح تو فریضے کا درجہ رکھتی ہے۔ اصلاحات یا تو انقلابی، اسلامی اور ایمانی ہوتی ہیں جن پر ملک کے تمام حکام، تمام صاحبان فکر و نظر اور جملہ عوام متفق ہیں یا پھر اصلاحات امریکی انداز کی ہوتی ہیں جس کے خلاف تمام حکام، ہر مومن فرد اور پوری قوم ہے۔ امریکی، ایران میں جس اصلاح کے خواہاں ہیں وہ عین بد عنوانی اور اخلاقی انحطاط ہے۔ امریکیوں کی نظر میں اصلاح کا مطلب اسلامی جمہوری نظام کا خاتمہ ہے۔ بڑی طاقتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کرتی ہیں۔ اگر اصلاح پسندی کی حمایت کا نعرہ بلند کرتی ہیں تو اس میں صداقت نہیں ہوتی۔ وہ حقیقی اصلاح کی کبھی بھی حمایت نہیں کریں گی، حقیقی اصلاح کی تو وہ سب سے بڑی مخالف ہیں۔ اصلاحات کا بنیادی مقصد، غربت، تفریق اور بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اگر حقیقی معنی میں اصلاح ہے تو وہ انہی محوری نکات کے ارد گرد گھومتی نظر آئے گی۔ معاشرے کی سب سے بڑی برائی غربت اور طبقاتی فاصلہ ہے۔ کسی بھی سماج کی سب سے بڑی برائي یہ ہے کہ بعض افراد مالی بد عنوانیاں اور غبن کریں، قومی خزانے سے اپنے مفادات پوے کریں۔ بد ترین برائي یہ ہے کہ قوانین کے نفاذ میں تفریق و امتیاز کا رویہ اختیار کیا جائے اور لوگوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو نظر انداز کیا جائے۔ وہی غربت اور وہی تفریق جس کے بارے میں بارہا میں عرض کر چکا ہوں۔ اصلاح کا سب سے پہلا قدم، تہذیب نفس اور اپنی ذاتی اصلاح ہے یعنی نظام کے ان حکام اور عہدہ داران کو چاہئے کہ خود کو غیر اسلامی رفتار و کردار اور طور طریقوں سے نجات دلائيں۔ یہ ہو گیا تو تمام کام بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھیں گے۔ اگر اصلاحات، ترقی اور خلاقیت کی بنیاد، انقلابی اقدار کو قرار نہ دیا جائے تو معاشرہ ناکامی اور تنزلی کی سمت بڑھے گا۔ یہ بنیادی اصول ہے۔ اقدار کا پاس و لحاظ کریں، ان کے سلسلے میں تفریق و امتیاز سے اجتناب کریں، انہی اقدار کے تناظر میں پیشرفت و ترقی کی منزلوں کی جانب پوری سنجیدگي کے ساتھ پیش قدمی کریں۔ اصلاحات کی تعریف کیا ہے یہ واضح ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو خود ہمیں جو اصلاحات نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کے معنی و مفہوم کو پوری تفصیلات کے ساتھ سمجھنا ہوگا تاکہ بالکل واضح رہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ دوسرے مرحلے پر ہم عوام کو ان اصلاحات سے متعارف کروائیں اور بتائيں کہ اصلاحات سے ہماری مراد کیا ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق اصلاحات کی تعریف نہ کر سکے۔ اگر اصلاحات کی صحیح طور پر تعریف نہ کی جائے تو لوگ اپنی اپنی مرضی کے مطابق اس کا مفہوم پیش اور مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اصلاحات کے نفاذ اور نگرانی کا عمل با صلاحیت اور متحمل مزاج افراد پر مشتمل مرکز کے ذریعے انجام پانا چاہئے، کیونکہ بہت سے کام ہیں جو دس سال کے عرصے میں بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں اگر انہیں دو سال میں تمام کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کوشش نا قابل تلافی نقصان پر منتج ہوگی۔ (دوسرا مسئلہ) اصلاحات کے وقت آئين کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت ہے۔ آئین میں سب سے زیادہ اسلام کو اہمیت دی گئی ہے اور تمام قوانین اور ہر انتخاب کے لئے اسلام کو سرچشمہ قرار دینے پر تاکید کی گئي ہے۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا پوری توجہ کے ساتھ پاس و لحاظ کرنا ضروری ہے۔ آئين ہمارا سب سے بڑا قومی، دینی اور انقلابی میثاق ہے۔ بعض شعبوں میں اصلاحات کا عمل، پیچیدہ، دشوار اور سست رو ہوتا ہے مثلا اقتصادی شعبے میں آمدنی کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ایسا ہی ہے۔ یہ بڑا دشوار کام ہے۔ غربت کی بیخ کنی اور محروم علاقوں پر توجہ اور دفتری سسٹم میں بہتری کی کوشش انہی اصلاحات کا حصہ ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت تیرہ رجب المرجب کو حسینیہ امام خمینی (رہ) میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب فرمایا، اجتماع میں شیعہ اور سنی علما، ملک کے اعلی حکام اور عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد موجود تھے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج سولہ جولائي دوہزار آٹھ مطابق تیرہ رجب المرجب چودہ سو انتیس ہجری قمری کو حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی سالگرہ پر مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں مسلم مکاتب فکر میں حضرت علی علیہ السلام کی بے مثال شخصیت اور بلند و بالا مقام کی جانب اشارہ کیا اور مسلمانوں کے اتحاد کے لئے اہم محورکی حیثیت رکھنے والی اس ہستی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
آپ نے ایٹمی ٹکنالوجی اور مجوزہ ایران یورپ مذاکرات کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
سیاست، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سےبسمہ تعالیانسان جو سرگرمیاں اور کوششیں انجام دیتا ہے ان میں بعض کا تعلق خود اس کے ذاتی مسائل اور امور سے ہوتا ہے جو انسانی سرگرمیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مثلا معیشت، معنویت، جذبات و احساسات، لوگوں سے ذاتی تعلقات وغیرہ۔ لیکن انسان کی سرگرمیوں کا اہم حصہ وہ ہے جو وہ معاشرے کی سطح پر اجتماعی شکل میں انجام دیتا ہے، اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ اقتصادی سیاست، سماجی سیاست، فوجی سیاست، ثقافتی سیاست، عالمی سیاست یہ انسانی زندگی کی اہم اور بنیادی سرگرمیاں ہیں۔ بنیادی کیوں؟ کیونکہ یہ سیاستیں انسان کی سرگرمیوں کو خاص سمت اور رخ عطا کرتی ہیں۔ انسان کی سب سے اہم سعی و کوشش وہ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذاتی، معمولی اور چھوٹی موٹی سرگرمیوں کو بھی با ہدف بناتا اور خاص رخ دیتا ہے۔ دین کا تعلق ان دونوں شعبوں سے ہے۔ ذاتی سرگرمیوں کے شعبے سے بھی اور سیاست کے شعبے سے بھی کہ جو انسانی زندگی کا بہت وسیع شعبہ ہے۔ ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا قدم، حکومت کی تشکیل اور معاشرے کو سیاسی نظم و نسق عطا کرنا تھا۔ دوسرے بہت سے شواہد ہیں جو دین و سیاست کے گہرے رشتے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جی ہاں، دین محمدی سیاست کو دین کا ایک جز اور اٹوٹ حصہ مانتا ہے اور تمام مسلمانوں کو اس دین کی طرف سے سیاسی شعور اور سیاسی کارکردگي کی دعوت دی گئی ہے۔ دین اسلام بلکہ تمام ادیان الہی میں سیاست، علم و دانش، انسانی زندگی اور سماجی امور کو محور قرار دیا گيا ہے۔ دین تمام شعبوں منجملہ سیاسی شعبے میں انسانی زندگی کو نظم و ترتیب عطا کرتا ہے۔ سامراج کی لعنت جس نے درجنوں ممالک اور دسیوں لاکھ انسانوں کو برسہا برس تک سخت ترین حالات سے دوچار کئے رکھا در حقیقت نتیجہ ہے علم کی روحانیت سے، سیاست کی معنویت سے اور حکومت کی اخلاقیات سے جدائی اور علاحدگي کا جو یورپ میں رونما ہوئی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں، کمیونزم، خاندانی ڈھانچے کی نابودی، جنسی بد عنوانیوں کا سیلاب، سرمایہ دارانہ نظام کا استبداد، یہ سب کچھ اسی جدائي اور علاحدگی کا نتیجہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہماری سیاست عین دین اور ہمارا دین عین سیاست ہے، واقعی مدرس مرحوم نے کتنی اچھی بات کہی تھی اور امام (خمینی رہ) نے بھی اس کی تائید کی تھی، اس (نعرے) کا پیغام بہت واضح ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری سیاست، دیندارانہ اور پرہیزگارانہ ہونا چاہئے۔ ہر سیاسی فعل پسندیدہ نہیں ہے۔ بعض افراد سیاسی امور کو ایسے امور کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہدف یہ ہوتا ہے کہ اس کام کو (خالص) سیاسی انداز میں انجام دیا جائے۔ یہ درست نہیں ہے۔ سیاسی کام دیندارانہ شکل میں ہونا چاہئے۔ شریعت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے، سیاسی میدان میں بھی اس پر توجہ دی جانی چاہئے اس (شریعت کے حکم) کا احترام کیا جانا چاہئے۔ البتہ سیاست کو دو خطرے ہمیشہ لاحق رہے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ سیاست اخلاقیات سے جدا ہو جائے، روحانیت، معنویت اور فضیلت سے عاری ہو جائے یعنی سیاست پر شیطنت کا غلبہ ہو جائے، سیاست لوگوں کی نفسانی خواہشات کا کھلونا بن جائے، سیاست معاشروں کے طاقتور اوردولتمند افراد کے مفادات کے جال میں پھنس کر کبھی ادھر تو کبھی ادھر کھینچی جانے لگے۔ اگر سیاست اس مصیبت کا شکار ہوئي تو انسانی زندگی کے تمام سماجی شعبے اس آفت سے متاثر ہوں گے۔ سیاست کے لئے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ تنگ نظر، بچکانہ سوچ والے اور نا اہل افراد کا اس پر غلبہ ہو جائے اور سیاست با صلاحیت افراد کے ہاتھوں سے نکل کر بے لیاقت افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائے۔ (اقتباس)
دین، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سےبسمہ تعالیدین سب سے پہلے مرحلے میں تو ایک علم اور معرفت ہے۔ اس دنیا کی معرفت و شناخت، بشر کی شناخت، منزل و ہدف اور راستے کی شناخت، یہ ساری معرفتیں دین کے ستون ہیں۔ دین انسان کو کائنات کے محور کے طور پر دیکھتا ہے۔ انسان وہ بے نظیر ہستی ہے جو اپنی فکری کوششوں سے سربستہ راز کھول اور نئے نئے میدانوں کو سر کر سکتا ہے۔ دنیا، دین کے پیغام، کارکردگي اور فرائض کی ادائگی کا میدان ہے۔ دین اس عظیم اور گوناگوں صفات کی حامل کائنات میں آکر انسانی زندگی اور سرگرمیوں کو نظم و ترتیب اور ہدف و سمت عطا کرتا ہے، انسانوں کی ہدایت کرتا ہے۔ اس تعریف کی رو سے دین و دنیا ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور ان کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ دین کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے دنیا کے علاوہ کوئي میدان نہیں مل سکتا اور دنیا، دین کے تعمیری اور تخلیقی کردار کے بغیر ایسی جگہ بن جائے گی جہاں نہ معنویت ہوگی نہ روحانیت، نہ حقیقت ہوگی نہ محبت، نہ زندگی ہوگي نہ روح، یعنی دین کا عنصر نہ ہو تو انسانی زندگی جنگل راج کی مصداق بن کر رہ جائے گی۔ اس عظیم اور بے کراں وادی میں انسان کو احساس تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ وہ معنوی اور روحانی تکامل اور بلندی کا سفر طے کر سکے۔ ان چیزوں کی رو سے دیکھا جائے تو دنیا کو دین سے الگ کرنے کا مطلب ہوگا زندگی، سیاست اور معیشت کو روحانیت سے عاری بنا دینا، اس کا مطلب ہوگا عدل و انصاف اور روحانیت کی نابودی۔ دنیا کو اگر انسانی زندگی کے اہم ترین اور سنہری مواقع اور جا بجا بکھری نعمتوں، پر کشش اور حسین مناظر اور تلخیوں اور رنج و آلام کی حیثیت سے دیکھا جائے تو یہ انسانی کاملیت اور سربلندی کا وسیلہ ہے۔ دین کی نگاہ میں یہ ایسے وسائل ہیں جن کے سہارے انسان منزل کمال کی سمت رواں دواں رہ سکتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں کو نمایاں کر سکتا ہے جو اللہ تعالی نے اسے ودیعت کر دی ہیں۔ دنیا کو اس نظر سے دیکھا جائے تو اسے دین سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں دنیا کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ اسلام میں دنیا کو نفسانی خواہشات، خود غرضی اور ھوا و ہوس کا اسیر ہو جانے اور دوسروں کو اپنی ھوا و ہوس کا شکار بنانے کے معنی میں بھی متعارف کرایا گيا ہے۔ روایات میں منفور دنیا یہی ہے جو دین کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ ہماری نظر میں عوام ہی سب کچھ ہیں۔ اسلامی طرز فکر اور تعلیمات میں اللہ تعالی کو محور قرار دئے جانے اور عوام کو محور قرار دینے میں کوئي تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس ملک کے عوام دیندار اور مذہبی نہ ہوں وہاں دینی حکومت کا قیام نا ممکن ہے۔ وہاں دینی معاشرے کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔ بنابریں کسی ملک میں اسلامی حکومت کا وجود وہاں کے عوام کی دینداری کا ثبوت ہے، یعنی وہاں کے عوام نے ایسی حکومت کی خواہش کی تب یہ حکومت وجود میں آئی۔ دین خدا کی حکومت اور بالادستی کا ہدف مظلوموں کی مدد اور الہی احکامات و تعلیمات پر عملدرآمد ہے۔ کیونکہ سعادت و خوش بختی الہی احکامات پرعمل سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ عدل و انصاف دینی احکام پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ انسان کی حریت و آزادی دینی احکام پر عمل کرنے سے مل سکتی ہے۔ آزادی اور کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ انسانی ضرورتوں کی تکمیل تو دینی احکامات کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ بنیادی ضرورتوں کے اعتبار سے آج کے انسان اور ہزارہا سال قبل کے بشر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہی تو ہیں؛ اسے تحفظ چاہئے، آزادی چاہئے، معرفت و علم چاہئے، چین کی زندگی چاہئے، تفریق و امتیاز سے نجات چاہئے، ظلم سے چھٹکارا چاہئے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی ضرورتیں انہی ضرورتوں کی تکمیل کی صورت میں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔ جبکہ بنیادی ضرورتوں کی تکمیل دین خدا ہی کر سکتا ہے کوئي اور نہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دین لائے، آپ نے انسانی زندگی کو ہدف اور سمت عطا کی، روحانیت و معنویت پر تکیہ کیا لیکن ساتھ ہی جگہ جگہ پر امت کو مادی وسائل کی جانب بھی متوجہ کیا۔ زندگی کے امور چلانے کیلئے ضروری اطلاعات اور مہارت مہیا کرائي۔ کہیں پیچیدگي پیدا ہوئي تو لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ علم حاصل کرو، جاؤ چیزوں کا مشاہدہ کرو، نظریات قائم کرنے کی کوشش کرو۔قرون وسطی، یورپیوں کے لئے تاریکی و ظلمت کی صدیاں اور ہم مسلمانوں کے لئے آفتاب علم کی ضو فشانی کی صدیاں تھیں۔ یورپی اس حقیقت کو چھپاتے ہیں اور مغربی مورخین اسے زبان پر لانے سے کتراتے ہیں۔ ہم نے بھی انہی کی باتوں کا اعتبار کر لیا ہے۔ انیسویں صدی جو مغرب میں علمی تحقیقات کے اوج کا زمانہ ہے وہ در حقیقت دین سے علاحدگي اور انسانی زندگی سے دین کی رخصتی کا زمانہ ہے۔ اس نظرئے کا اثر ہمارے ملک پر بھی پڑا اور ہماری یونیورسٹی حقیقت میں غیر مذہبی بنیادوں پر قائم کی گئی۔ علما نے یونیورسٹیوں سے منہ پھیر لیا اور یونیورسٹی نے علما اور دینی تعلیمی مراکز سے رشتہ توڑ لیا۔ جو افراد دین کی حمایت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی امور میں دین کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے انہیں خبر نہیں ہے کہ اسلام کے اقتدار اور احیاء کے عمل کے خلاف سامراجی طاقتوں کا تشہیراتی نعرہ یہی ہے۔ البتہ دین اور سیاست میں جدائی کا موضوع صدیوں سے زیر بحث ہے۔ پہلے ان استبدادی طاقتوں نے جو معاشرے کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے تھیں اور ملک و قوم کے ساتھ ہر سلوک روا رکھتی تھیں، اس مسئلے کو اٹھایا، ظاہر ہے وہ تو یہی چاہتی تھیں کہ اسلامی احکامات کی، حکومت کے امور میں کوئي دخل اندازی نہ ہو۔ اس بنا پر سلاطین اور شہنشاہ، دین و سیاست میں جدائي کے گمراہ کن نظرئے کے سب سے پہلے مروج ہیں۔ (اقتباس)
اسلامی جمہوریہ، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے بسمہ تعالی آج جو ہم اپنے ملک میں اسلامی جمہوریہ یا دینی جمہوریت کی بات کرتے ہیں، بالکل نیا موضوع ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہم جمہوریت کی ایک نئي شاخ اور شکل متعارف کرا رہے ہیں، ہرگز نہیں کیونکہ دنیا میں رائج جمہوریت میری نظر میں عیب و نقص سے خالی نہیں۔ اس لئے کہ دنیا میں انتخابات تشہیراتی وسائل کے زیر اثر انجام پاتے ہیں جن پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ یا دینی جمہوریت کے اصول اور بنیادیں مغربی جمہوریت کے اصولوں اور بنیادوں سے مختلف ہیں۔ اسلامی جمہوریت اور دینی جمہوریت جو ہمارے انتخابات کی بنیاد ہے اور جو انسان کے دینی فرائض و حقوق کی بنیاد پر وجود میں آئي ہے، آپسی اتفاق رای سے طے پانے والا کوئي معاہدہ نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کو حق انتخاب ہے، اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار ہےلہذا حقیقی جمہوریت، دینی جمہوریت ہے جو ایمان اور دینی فرائض کے تناظر میں پیش کی جاتی ہے۔(انسانوں کا آپسی معاہدہ نہیں) اسلامی ثقافت میں بہترین انسان وہ ہیں جو عوام کے لئے زیادہ مفید واقع ہوں۔ دینی جمہوریت، ریاکاری اور فریب پر مبنی ڈیموکریسی کے برخلاف، در حقیقت پر خلوص خدمت کا نظام ہے جس میں احسان جتانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ خدمت پوری ایمانداری اور پاکدامنی کے ساتھ اور اس احساس کے تحت انجام دی جاتی ہے کہ وہ (ہمارا) فریضہ ہے۔اسلامی نظام، وحدانیت و دین کے پرچم تلے چلنے والا نظام جمہوریت کو پوری دنیا کے سامنے آشکارا اور واشگاف الفاظ میں بیان کر دیتا ہے لبرل ڈیموکریسی کا سامراجی پروپگنڈہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریسی کا دارومدار ہم پر ہے۔ ان سے یہ برداشت نہیں ہو رہا ہے کہ ایک دینی اور اسلامی نظام اپنی اعلی ایمانی قدروں کے ساتھ جمہوریت قائم کر رہا ہے۔ ہماری آئیڈیل نہ مغربی حکومتیں ہیں اور نہ مشرقی، ہمارا آئيڈیل اسلام ہے اور ہمارے عوام نے اسلام سے اپنی آشنائي کی بنیاد پر اسلامی نظام کا انتخاب کیا ہے۔
عالم اسلاماسلام کا سب سے پہلا سیاسی اور سماجی کارنامہ اسلامی امت کی تشکیل ہے جو مدینۃ الرسول سے شروع ہوئی اور پھر بڑے ہی حیرت انگیز اور افسانوی انداز سے کمال و ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔ ابھی اس کے با برکت وجود کو نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ اسلام نے اپنے پڑوس کی تینوں عظیم و قدیم تہذیبوں، مصر، روم اور ایران کے نصف سے زائد حصے کو مسخر کر لیا۔ مزید سو سال گزرتے گزرتے درخشاں اسلامی تہذیب اور طاقتور اسلامی حکومت کے ڈنکے مشرق میں دیوار چین، دوسری طرف بحر ایٹلانٹک کے ساحلوں، شمال میں سائبیریا کے میدانوں اور جنوب میں بحر ہند کے جنوب تک بجنے لگے۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری اور اس کے بعد تک اسلامی تہذیب ایسی تابناک اور درخشاں تہذیب بن چکی تھی کہ آج ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اس کی علمی اور ثقافتی برکتیں، عصر حاضر کی تہذیبوں میں نظر آتی ہیں۔ عالم اسلام دنیا کی نہایت قیمتی میراث اورمالامال ثقافت کی مالک ہے جس میں غیر معمولی شکوفائي اور درخشندگی پائي جاتی ہے۔ اس میں تنوع کے ساتھ ہی حیرت انگیز ہم آہنگی بھی ہے، جو اسلام کی ہمہ گیری اور گہری تاثیر اور پیکر امت میں سمائي ہوئی خالص توحید و وحدانیت کے نتیجے میں پیدا ہوئي ہے۔ جذبہ الفت و اخوت سے سرشار مختلف رنگ و نسل کی قومیں جو الگ الگ زبانوں میں گفتگو کرتی ہیں خود کو عظیم امت مسلمہ کا حصہ سمجھتی اور اس پر نازاں ہیں۔ یہ قومیں ہر روز ایک ہی مرکز کا رخ کرکے ایک ہی زبان میں اللہ تعالی سے مناجات کرتی ہیں۔ ایک ہی آسمانی کتاب سے درس و تعلیمات حاصل کرتی ہیں۔ یہی آسمانی کتاب ان کے لئے تمام ضرورتوں کی تکمیل کا وسیلہ اور تمام حقائق کی وضاحت و تشریح کا ذریعہ ہے۔ و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین وہ سرزمین جس پر امت مسلمہ آباد ہے، قدرتی ذخائر کے لحاظ سے اگر دنیا کا سب سے مالامال علاقہ نہیں تو ان علاقوں میں سے ایک ہے جو سب سے زیادہ مالامال کہے جاتے ہیں۔ امت مسلمہ کے وسائل کی فہرست میں، اقتصادی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، افرادی سرمائے کے سیکڑوں عناوین شامل ہیں۔ جو کوئی بھی توجہ سے دیکھے، ان ذخائر سے روشناس ہو سکتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کے دانشوروں اور سیاسی شخصیات کے دوش پر عظیم ذمہ داری ہے۔ مسلم دانشور اسلام کے حریت پسندی کے پیغام کو جتنے مناسب انداز میں لوگوں تک پہنچائيں گےمسلم اقوام کی اسلامی ماہیت اتنی ہی صحیح شکل میں سامنے آئے گی۔ انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، حقوق نسواں، بد عنوانیوں کا سد باب، نسلی تفریق و امتیاز کا خاتمہ، غربت اور علمی میدان میں پسماندگی سے نجات جیسے موضوعات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ عام تباہی کے ہتھیاروں اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے سلسلے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے فریب اور دھوکے کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ ان مذکورہ موضوعات کے تعلق سے آج مغربی دنیا کے دعوے اور نعرے عالمی رای عامہ کے نزدیک مشکوک ہو چکے ہیں۔ امت مسلمہ کے مکار دشمن، سامراجیت، تسلط پسندی اور جارحیت کے مراکز چلانے والی قوتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے غیر قانونی مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلط کے لئے بہت بڑی اڑچن تصور کرتی ہیں۔ تمام مسلم اقوام اور خاص طور پر ان کے سیاستدانوں، قومی رہنماؤں اور علما و دانشوروں کو چاہئے کہ جارح دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کا مضبوط محاذ قائم کریں۔ تمام وسائل کو بروی کار لاکر امت مسلمہ کو طاقتور بنائيں۔ علم و دانش، تدبیر و تدبر، فرض شناسی و احساس ذمہ داری، اللہ تعالی کے وعدوں پر توکل اور یقین، رضای پروردگار کے پیش نظر بے ارزش دنیاوی خواہشات سے چشم پوشی اور فرائض کی تکمیل امت مسلمہ کی تقویت کے بنیادی عناصر ہیں جن کے ذریعے اسے عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی پیشرفت حاصل ہو سکتی ہے اور مسلم ممالک میں دشمن کے تسلط پسندانہ اقدامات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورت حال کے دو بنیادی پہلو ہیں: ایک تو یہ کہ دنیا میں اسلامی تشخص اور طرز فکر، خاص توقیر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اسلام کو دنیا کی بڑی اہم اور عظیم حقیقت کے طور پر مرکز توجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں اسلام سے اپنی دشمنی کا برملا اظہار کر رہی ہیں اور امریکہ نے تو کمیونزم کے خاتمے کےبعد دنیا کے لئے جس جدید نظام کا خاکہ تیار کیا ہے اس میں ایک اہم ترین باب اسلام سے مقابلے اور اسلام کی روز افزوں ترقی و ترویج کو روکنے سے مختص کیا گيا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دو عشروں میں مسلمانوں نے عالم اسلام کے مشرق و مغرب ہی نہیں بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی بہت اہم وسیع تحریک شروع کی ہے جسے اسلام کے احیاء کی تحریک کا نام دیا جا سکتا ہے۔ علم و دانش کے زیور سے آراستہ آج کی نوجوان نسل سامراجی طاقتوں کی توقعات کے بر خلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایمانی جذبے کے ساتھ، جو انسانی علوم کی پیش رفت کے نتیجے میں اور بھی آبدار اور درخشاں ہو گیا ہے، اپنا گمشدہ خزانہ تلاش کر رہی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور روز بروز قوی تر ہو رہے اسلامی نظام کی تشکیل نوجوان نسل کی اس مضبوط تحریک کا نقطہ کمال ہے اور اسلامی بیداری کو عالمی سطح پر پھیلانے میں اس واقعے کا بڑا کردار رہا ہے۔ اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں نے جو ہمیشہ اپنے اوپر مذہبی آزادی کی حمایت کا خول چڑھائے رہتی تھیں اسلام کے خلاف اپنے تمام وسائل اور لاو لشکر کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ سامراجی طاقتیں امت مسلمہ کی بیداری کی مسلسل پھیلتی لہر کو روکنے کے لئے، جسے وہ اپنے ناجائز اہداف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں، جس حربے کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں وہ نفسیاتی جنگ ہے۔ مایوسی اور نا امیدی پھیلانا، تحقیر اور اپنی طاقت کی حد سے زیادہ نمائش اسی طرح دیگر ہزاروں نفسیاتی حربے آج استعمال ہو رہے ہیں اور آئندہ استعمال کئے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو ان کے تابناک مستقبل سے ناامید کرکے اس مستقبل کی سمت بڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جو ان طاقتوں کے شوم مقاصد کے مطابق ہو۔ سامراج کے آغاز سے اب تک نفسیاتی جنگ اور ثقافتی یلغار مسلم ممالک پر سامراج کے غلبے کا سب سے موثر ترین حربہ رہا ہے۔ آج بھی عالمی سطح کی جدید تشہیراتی مہم سامراج کا سب سے موثر حربہ ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات اور اخبارات و جرائد جن کی بنیادی سرگرمیاں اسلام دشمنی پر مرکوز ہیں بے شمار ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بکے ہوئے ماہرین گمراہ کن خبریں اور تجزئے تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ اسلامی تحریک اور عظیم اسلامی ہستیوں کی شبیہ خراب کی جا سکے۔ دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو تحریک انقلاب کے آغاز سے اب تک بلا وقفہ ان معاندانہ تشہیراتی اقدامات کا سامنا کر رہا ہے۔ انسانی معاشرے دو طرف سے نشانہ بنتے ہیں۔ ایک تو اندرونی مسائل کی یلغار ان پر ہوتی ہے جو نتیجہ ہوتے ہیں انسانی کمزوریوں، شکوک و شبہات، عقیدے کی خرابی، اغیار کے مقابلے میں احساس کمتری کا، جو نتیجہ ہوتے ہیں خود فراموشی، اللہ تعالی سے غفلت، دنیا پرستوں کے سامنے خود سپردگی، اپنے بھائیوں سے بدگمانی، ان کے بارے میں دشمنوں کی باتوں پر بھروسے اور اطمینان، مسلم امہ کے مستقبل کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کے فقدان اور امت مسلمہ کی اجتماعی اہمیت سے عدم واقفیت کا، جو نتیجہ ہوتے ہیں دیگر اسلامی ممالک کے حالات سے بے خبری، اسلام و مسلمین کے خلاف دشمن کی سازشوں سے لا علمی، فرقہ پرستی، انتہا پسندانہ قومی جذبے جس کی ترویج کے لئے عموما گمراہ علما اور بکے ہوئے قلم استعمال کئے جاتے ہیں، اور اسی طرح دیگر مہلک بیماریوں کا جو مسلمانوں کی تقدیر اور سیاسی مستقبل پر نا اہل افراد کا غلبہ ہو جانے کے نتیجے میں مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی رہی ہیں۔ یہ بیماریاں گزشتہ صدیوں میں خطے میں اغیار کی موجودگی کے باعث اور دنیا پرست اور بکے ہوئے افراد کے ہاتھوں بڑی بھیانک اور تباہ کن صورت حال اختیار کر چکی ہیں۔ دوسری طرف بیرونی دشمنوں کی یلغار ہوتی ہے جو ظلم و استبداد، تسلط پسندی و جارحیت اور دشمنی و عناد کے تحت انسانی زندگی کی فضا کو مکدر اور انسانی معاشروں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں اور ظلم و ستم، جنگ و جدل اور زور زبردستی کے ذریعے ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ اسلامی علاقے کے افراد اور قومیں بھی ہمیشہ انہیں دو خطروں سے دوچار رہی ہیں اور آج یہ خطرات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں سازش کے تحت بد عنوانیوں کی ترویج، مغربی ثقافت کا پرچار جس میں بعض بے ضمیر حکومتیں بھی مدد کر رہی ہیں اور جس کی زد پر انفرادی زندگی سے لےکر شہر کی ساخت، اخبارات اور اجتماعی طرز زندگی سب ہیں، یہ ایک طرف اور دوسری جانب لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں قتل عام فوجی، سیاسی اور اقتصادی دباؤ مسلم امہ کو لاحق ان دونوں خطرات کی واضح مثالیں ہیں۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے یہ عالم اسلام کا بلکہ شاید عالم انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ یہ ایک قوم کے رنج و غم اور مظلومیت کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ملک پر غاصبانہ قبضے کا مسئلہ ہے۔ یہ مسلم ممالک کے قلب اور عالم اسلام کے مشرقی و مغربی علاقوں کے نقلہ وصال پر سرطانی پھوڑا پیدا کئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ تسلسل سے جاری ظلم و ستم کا مسئلہ ہے جس کا پے در پے دو فلسطینی نسلوں نے سامنا کیا ہے۔ اس طرح اسرائيلی حکومت عالم اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جسے رفع کرنے کے لئے موثر طریقوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب فلسطینی قوم کی قربانیوں اور عالم اسلام کی بیداری کے نتیجےمیں ملت فلسطین کو اس کا حق ملے گا اور یہ قوم جارح اور ظالم دراندازوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے گی تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اگر مسلم قوموں اور حکومتوں کا پختہ ارادہ اور ٹھوس فیصلے بھی ساتھ ہوں تو اس عمل میں تیزی آ سکتی ہے اور رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت اور اسی طرح آپ کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھنے والی شخصیت امام خمینی (رہ) کے یوم پیدائش کی مناسبت سے منعقدہ محفل عشق و مودت میں تشریف فرما تمام بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان دوستوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے فن اور پروگراموں کے ذریعے ہمیں جام عشق اہل بیت سے سیراب کیا، کیا دلچسپ ادائگی، شعرا کی کیا خوب طبع آزمائی؟! (واقعی قابل تحسین ہے)
اہل بیت علیھم السلام کی محبت کی وادی واقعی جوہر فن کی نمائش کی بڑی مناسب وادی ہے، اس نورانی فضا میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی محبت کے جذبے اور ذوق و فن کے اظہار کا واقعی بہت موزوں اور بر محل ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا، اللہ تعالی کا پر معنی کلام ہیں۔ آپ کا وجود ایک بحر بیکراں ہے۔ با ذوق افراد، دانشور، مفکرین اور اہل فن اس وادی میں جتنا زیادہ فکری سیر کرتے ہیں، (معرفتوں کے) اتنے ہی موتی ان کی جھولی میں آ تے جاتے ہیں۔ البتہ ہماری سفارش یہ ہے کہ اس بحر مواج میں اترنے کے لئے اہل بیت اطہار کی احادیث اور فرمودات کا سہارا لیا جائے۔
جیسا کے ایک صاحب نے اپنے اشعار میں بھی اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ اس خاندان کی معرفت کا راستہ خود اسی خاندان کے پاس ہے۔ ہمیں انہی سے رہنمائی حاصل کرنی ہے۔ انہی کو اپنا رہنما اور ہادی قرار دینا ہے اور اسی تناظر میں غور و فکر کے ذریعے گہرے معنی کو سمجھنا ہے۔ ہمارے شعرا اور اہل بیت اطہار کے مداحوں کو یہ افتخار حاصل ہے کہ احادیث و روایات سے رجوع کریں، ان میں غور و فکر کریں، اہل بصیرت اور علما سے مدد لیں پھر اپنے ذوق و فن، موشگاف نظر، دلکش آواز اور گلے کو اہل بیت اطہار کی خدمت سے مشرف کریں۔ یہ بہترین اور عظیم عمل ہے۔
انوار مقدسہ کی مدحت اور اہل بیت اطہار کی قصیدہ خوانی کے بارے میں ان محفلوں میں میں نے بہت کچھ عرض کیا ہے۔ کہی ہوئي باتیں نہیں دہراؤں گا بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں لوگوں سے رابطے کے سلسلے میں فن و ہنر کا کردار زیادہ واضح ہوتا جاتا ہے۔ مخاطب افراد کے ذہن و دل سے رابطے کے موثر ترین اور کارآمد ترین وسیلے یعنی فن کا کردار۔ آج جس کے پاس عوام کے لئے کچھ پیغام ہے، خواہ وہ الہی پیغام ہو یا شیطانی پیغام (اسے لوگوں تک پہنچانے کے لئے) سب سے بہترین وسیلہ جو اختیار کیا جاتا ہے وہ فن و ہنر کا وسیلہ ہے۔ آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ فن کے استعمال سے آج بے بنیاد ترین باتیں بھیں عوام کے سامنے وحی منزل کے طور پر پیش کر دی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اگر فن کا استعمال نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن فن اور ہنر کے سہارے یہ کام انجام پا رہا ہے۔ آپ سنیما کو دیکھئے، ایک فن اور ہنر ہے۔ ٹیلی ویزن فن و ہنر کی چیز ہے۔ انواع و اقسام کے ہنر اور فن استعمال کئے جاتےہیں تاکہ غلط بات کو حقیقت کا لبادہ پہنا دیا جائے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ فن و ہنر کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں اور شیعوں کو جو ایک افتخار حاصل ہے، جو کسی اور قوم اور ملت کے پاس اس انداز میں نہیں ہے وہ ہمارے یہی اجتماعات، محفلیں اور مجلسیں ہیں جن میں ہم آمنے سامنے بیٹھتے ہیں۔ یہ چیز دنیا کے دیگر ادیان اور خطوں میں بہت کم نظر آتی ہے۔ یہ چیز ہے لیکن اس وسیع پیمانے پر اس انداز میں نہیں ہے۔ نہ تو اس کا اثر اتنا ہے اور نہ ہی اس میں اتنے اہم موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ آپ فرض کریں کہ جو افراد قرآن کی زبان سے آشنا ہیں، سامعین کے روبرو قرآن کریم کی آیات کی اچھی آواز میں تلاوت کرتے ہیں، تو اس کی تاثیر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مداحوں کی مدح سرائي اور قصیدہ خوانی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اعلی مفاہیم اور مضامین کو مخاطب کے دل کی گہرائيوں تک پہنچانے کے لئے فن و ہنر کا استعمال یہی ہے۔ یہ بہت با ارزش ذریعہ ہے کتنا موثر طریقہ ہے! یہ فن اتنا اہم ہے کہ کبھی کبھی اس کی اہمیت خود مضمون کی مانند ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو مضمون، دلوں میں نہیں اتارا جا سکتا۔ آپ(شعرا) کی قصیدہ خوانی اسی زمرے میں آتی ہے۔
فن کے جتنے جوہر دکھائے جائیں جتنی اچھی آواز اور خوش الحان گلے کا استعمال کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ہمارا موضوع اور مضمون جتنا سبق آموز ہوگا، مخاطب کے لئے اسے سمجھنا اتنا ہی آسان ہوگا۔ سبق آموز سے مراد یہ ہے کہ اس میں جتنی جدت اور جاذبیت ہوگی اس کی ارزش اور اہمیت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگي۔ البتہ یہ عمل جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تعلیمات اہل بیت پیغمبر کے تناظر میں انجام پانا چاہئے۔ مدح سرائی کو سطحی باتوں تک محدود کر دینا اس کی ظاہری شکل کو نصب العین بنا لینا یا کسی مغربی دھن کی تقلید، یہ سب ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اس پر پوری توجہ رہنی چاہئے۔ بالخصوص نوجوان جو اس وادی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ عام فہم اور سادہ زبان میں شعر پڑھا جائے لیکن اس کے معنی بلند ہونے چاہئیں۔ اب اگر اہل بیت کی مدح سرائي کرنے والے کسی شخص نے مغربی موسیقی کی تقلید شروع کردی جو لہو و لعب کا ذریعہ ہے اور جس کے ماہرین شیطانی بے خودی کا شکار ہیں، تو یہ ہرگز مناسب نہیں ہے، یہ شائستہ فعل نہیں ہے۔
ایک اور نکتہ جس کے سلسلے میں میں ہمیشہ یاددہانی کراتا رہتا ہوں، یہ ہے کہ ایسے مضامین پیش کیجئے جو آپ کے مخاطب کے لئے مفید ہوں۔ مثلا کوئی ایسی منقبت ہو جس کے معنی عوام درک کر سکتے ہوں یا اہل بیت اطہار کی فضیلت کا کوئی گوشہ ہو جس سے ایمان و عقیدے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ معصومین علیھم السلام کے زمانے میں شعرا کن باتوں پر توجہ دیتے تھے۔ دعبل کے اشعار، کمیت کے اشعار، فرزدق کے اشعار، وہ اشعار جن کی اہل بیت اطہار نے بھی تعریف کی ہے ان میں کن باتوں پر تاکید کی گئي ہے۔ آپ غور کریں گے تو نظر آئے گا کہ ان اشعار میں یا تو دلیل اور خوبصورت شعری پیرائے میں اہل بیت کی حقانیت کا استدلال نظر آئے گا جیسے کے دعبل کے اشعار یا پھر ان میں اہل بیت اطہار کے فضائل کا تذکرہ ہوگا جیسا کہ یہاں حاضر شعراء کے اشعار میں نظر آیا، یعنی ھل اتی کی جانب اشارہ، واقعہ مباھلہ کی جانب اشارہ اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کے اقوال اور احادیث کی جانب اشارہ ، یا ان عظیم ہستیوں کی زندگی سے ملنے والے سبق کی جانب اشارہ جس کا واضح اور ہمارے زمانے سے قریب کا نمونہ، تحریک انقلاب کے دوران سن انیس سو ستتر اور اٹھتر کے محرم کے مہینوں میں شعراء، قصیدہ گو حضرات اور مداحوں کی زبانوں پر نظر آيا۔ ماتمی دستے بازاروں میں اور سڑکوں پر سینہ زنی اور نوحہ خوانی کرتے تھے لیکن سننے والے اسی سے سمجھ جاتے تھے کہ انہیں آج کیا کرنا ہے۔ آج کس سمت میں حرکت کرنا ہے۔ جب آپ اپنے فن، اپنی آواز اور اپنے اشعار کو ان مضامین کے لئے استعمال کریں گے تو آپ کی یہ کاوش یا تو اہل بیت اطہار کی حقانیت کے اثبات، یا ان ذوات مقدسہ کے فضائل کے اظہار یا پھر تعلیمات اہل بیت کے افہام و بیان کے مقصد کے تحت ہوگی اور اس سے آپ کے مخاطب کے لئے راہ زندگی کے تعین میں مدد ملے گی، اس صورت میں آپ کی اس کاوش کو بلند ترین درجہ حاصل ہوگا۔
یہ صرف جذبات کو ابھارنے کا مسئلہ نہیں ہے۔ ذہنوں کی رہنمائي کا مسئلہ ہے۔ بڑی خوشی ہوتی ہے جب میں اس جلسے یا عزاداری کے پروگراموں اور دیگر مناسبتوں پر شعرا اور مداحوں کو سنتا ہوں۔ الحمد للہ حالیہ برسوں میں (مذکورہ نکات پر) توجہ دی جا رہی ہے، البتہ یہ وادی بہت وسیع ہے۔ آپ نوجوان اچھی آواز کے مالک ہیں، آپ کا بیان بہت اچھا اور آپ کے پروگرام بہت دلچسپ ہیں، آپ کو اسلامی معاشرے کی عصری ضروریات پر نظر رکھنی چاہئے۔ گوناگوں سیاسی اور ثقافتی حملوں، گمراہ کن پروپگنڈوں اور تشہیراتی مہم کے طوفان میں ہماری نوجوان نسل اور ہماری قوم کو امید بخش نظریات، مستقبل کے تعلق سے اطمینان اور نشاط خاطر اور راہ حق کی شناخت کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ یہ کام ہر کسی کو کرنا چاہئے۔ ہر شخص اپنے انداز سے ( یہ کام انجام دے)۔ اس میدان میں آپ کا بڑا کردار ہے۔ اساتذہ، اور کہنہ مشق شعرا بہت موثر تعاون کر سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ یہ کام انجام پائے گا۔
ایک اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کی موجودہ صورت حال کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں۔ اپنے بیان اور تقاریر کے ذریعے ہمیں اپنے تاثرات اور نظریات دوسروں تک منتقل کرنا چاہئے۔ دوستو! اسلامی انقلاب صرف تاریخ ایران کا ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہ عالمی تاریخ اور پورے انسانی معاشرے کا بہت اہم واقعہ ہے۔ اس نکتے پر میں خصوصی تاکید کرتا ہوں۔ یہ کوئي نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت کا حقیقت پسندانہ جائزہ ہے۔ یہ واقعہ تاریخ انسانیت کا اہم واقعہ ہے۔ جیسے جیسے زمانہ گزرے گا یہ حقیقت عیاں ہوتی جائے گی۔ اسے بس اتنی سی بات نہ سمجھئے کہ ایک ملک میں طاغوتی حکومت تھی جس کا خاتمہ ہوا اور ایک اسلامی نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ یہ تبدیلی بھی ہوئی لیکن یہی سب کـچھ نہیں تھا۔ صدیوں سے انسانی معاشرے کو زندگی، ہستی اور کائنات کے سلسلے میں مادی نقطہ نگاہ اور مادی نظرئے کی جانب کھینچا جا رہا ہے۔ آج بھی یہ کوشش جا رہی ہے۔ اس طاقتور رجحان اور موج کے سامنے، جسے پوری مادی طاقت سے آگے بڑھایا جا رہا تھا اسلامی انقلاب آن کھڑا ہوا۔ انقلاب نے اس کا راستہ روکا۔ انقلاب نے معنویت اور روحانیت کا پرچم بلند کیا۔ انقلاب نے پوری طاقت سے آگے بڑھنے والی اس موج کو کمزور کر دیا۔ نتیجتا آج آپ انہی ممالک میں جو مادیت میں ڈوبے ہوئے تھے روحانیت اور معنویت کی پو پھٹنے کا حسین منظر دیکھ رہے ہیں۔ معنویت مختلف شکلوں میں سامنے آئی ہے۔ وہاں کی نوجوان نسل میں روحانیت کی طلب، روحانیت سے عشق اور روحانیت کی جانب رجحان واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ اب اگر اس رجحان کو صحیح سمت نہ دی گئی تو ممکن ہے کہ انحراف کی صورت پیدا ہو جائے۔ لوگ معنویت کے نام پر خرافات کا شکار ہو جائیں۔ اب ان حالات میں اگر مادیت میں غرق مغربی سماج میں اسلام اور اہل بیت اطہار کی تعلیمات کو متعارف کرایا جائے تو یقینی طور پر لوگ ان پر غور کریں گے اور انہیں قبول کریں گے۔ آج یہ چیز دنیا میں بالکل واضح ہو چکی ہے۔ یہ جو اسلام کی شان میں گستاخیاں کی جا رہی ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو بقول مولانا:
مہ فشاند نور و سگ عو عو کند
ہر کسی بر طینت خود می تند
یعنی اپنی اس حرکت سے وہ در حقیقت اپنی بد طینتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ نام دنیا کا احاطہ کرتا جا رہا ہے۔ اس نام کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی جانب نوجوانوں کے دل کھنچے چلے آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سامراجی نظام چلانے والے سراسیمہ ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے مہروں کو ہر روز ایک نئے انداز سے رد عمل ظاہر کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جس سے ان کی شکست اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ تو یہ رہا معنوی اور روحانی پہلو۔
سیاسی زاوئے سے دیکھا جائے تو جب سے دنیا میں سامراجیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یعنی انیسویں صدی میں تقریبا دو سو سال قبل سے رفتہ رفتہ یہ سلسلہ شروع ہوا کہ جو ممالک دیگر ممالک کے امور میں مداخلت کرنے کی طاقت رکھتے تھے انہوں نے مداخلتیں شروع کیں۔ سامراجی نظام معرض وجود میں آیا اور دنیا تسلط پسند اور مستضعف ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ آپ کے اسلامی انقلاب نے اس عمل کا مقابلہ کیا جو دنیائے سیاست کی فطری بات کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ یہ جو آج آپ دنیا کے بہت سے ممالک میں امریکہ مردہ باد کے نعرے سنتےہیں، یہ نئی تبدیلی ہے، ملت ایران کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ یہ چیز پہلے نہیں تھی۔ آج جو اسلامی ممالک ہی نہیں یورپی ممالک تک میں امریکی سیاست کو نفرت انگیز سیاست اور امریکی حکام کو منفور ترین سیاستداں قرار دیا جانے لگا ہے، اس کا موجب ملت ایران کی تحریک ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ (اسلامی انقلاب نے) پہلے تو سامراجی طاقتوں کی ناک رگڑ دی اور پھر پورے سامراجی نظام کو للکارا کہ امریکہ یا دیگر ممالک کو کیا حق پہنچتا ہے کہ کمزور اور مستضعف ممالک سے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کریں؟ خود ہمارے ملک ایران میں طاغوتی دور کے روسیاہ حکام اس وقت تک کوئی اہم فیصلہ نہیں کرتے تھے جب تک ایران میں متعین امریکی اور برطانوی سفیر سے مشورہ نہیں کر لیتے تھے، کیوں؟ ایک قوم جو مادی و معنوی صلاحیتوں اور ثقافتی خزانوں سے سرشار ہے آخر کیوں کسی غیر کی تابع رہے؟ کیوں کا سوال سب سے پہلے اسلامی انقلاب نے اٹھایا۔ تو عالمی سطح پر اسلامی انقلاب نے سیاسی اور معنوی لحاظ سے یہ دو تبدیلیاں کیں۔ اور بھی بہت سے نمونے ہیں لیکن ان کی تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں ہے۔
یہ کار بزرگ انجام پایا اور اس کے ساتھ ہی دشمنیاں بھی شروع ہو گئیں۔ تصادم کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ دشوار ترین حالات میں امام (خمینی رہ) کی حیرت انگیز قیادت نے تحریک کی کامیابی کے ساتھ حفاظت کی اور اسے آگے بڑھایا۔ ملت ایران اور اس سرزمین کے نوجوان حقیقی معنی میں امام (خمینی رہ) کی باتوں سے سیراب ہوئے۔ ان باتوں کو دل و جان سے قبول کیا، اسے سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ لوگوں کو ورغلانے اور منحرف کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں، ان کے عقیدے اور یقین کو بدلنے کی سازشیں ہوئي لیکن اب تک سب بے سود رہیں۔ انشاء اللہ آئندہ بھی لا حاصل ہی رہیں گی۔ یہ تحریک آگے بڑھتی جا رہی ہے اور دشمنیاں بھی مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ ہماری مثال اس دوڑنے والے کی ہے جو اپنی منزل کی سمت بڑھ رہا ہےلیکن کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے اس لئے مسلسل راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں، دوڑنے والا رکاوٹیں پھلانگ جاتا ہے تو اس پر پتھر برساتے ہیں، اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔ بار بار کہتے ہیں کہ مت جاؤ، کیا تمہیں خوف نہیں آتا، اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ لیکن دوڑنے والا ہے کہ کسی کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ زخم کھاتا ہے، درد برداشت کرتا ہے لیکن دوڑ جاری ہے۔ ملت ایران نے اب تک ایسے ہی دوڑنے والے چیمپین کے انداز سے پیش قدمی کی ہے۔
تو اس صورت حال میں، اسلامی اور انقلابی امنگوں اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے عقیدتمندوں اور اس قوم اور اس مل کے ہمدردوں کا کیا فریضہ بنتا ہے؟ سب کا فریضہ ہے کہ ملت ایران کے لئے راستہ صاف کریں، سیاستداں اپنے انداز سے، حکام اپنے طور پر، علما اپنی روش کے مطابق، یونیورسٹیوں سے وابستہ دانشور اپنی سطح پر، روشن فکر افراد اپنے انداز میں اور دیگر طبقات بھی اپنے اپنے انداز میں۔ ان میں ایک موثر ترین طبقہ مذہبی مقررین، قائدین اور اہل بیت اطہار کی محبت کا پرچم بلند کرنے والے عشاق کا ہے جو اہل بیت اطہار کی خوشی میں خوش اور غم میں غمزدہ ہو جاتے ہیں۔
آج اس کی ضرورت ہے کہ تمام افراد اپنے فریضے کو سمجھیں اور بخوبی دیکھیں کہ ہم کہاں ہیں۔ بعض افراد ہیں جو غفلت کا شکار ہیں وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ ہم کتنے آگے پہنچ چکے ہیں؟! وہ نہیں سمجھتے کہ ابھی کتنا طولانی سفر باقی ہے۔ نہیں سمجھتے کہ ہمارا دشمن موجود ہے۔ جو ہماری غفلت، سستی اور اختلاف سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس سلسلے میں میرا خطاب خاص طور پر سیاسی اور ثقافتی میدان کی اہم شخصیات سے ہے۔ انہیں اپنی باتوں کے سلسلے میں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد و اتفاق رای جو تمام کامیابیوں کا راز ہے، آج ملک کو اس کی شدید ضرورت ہے۔ ملک کے حکام واقعی بڑی محنت کر رہے ہیں۔ زحمتیں برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت، حکام، مختلف اداروں کے ڈائریکٹر سب کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئي تنقید کرنا چاہتا ہے تو ایسا انداز نہ اپنائے کہ جس پر تنقید کی جا رہی ہے اس کا حوصلہ ہی ٹوٹ جائے۔ اختلافات کی جڑ نفسانی خواہشات ہیں۔ اگر کسی متنازعہ اور تفرقہ انگیز فعل کے سلسلے میں کہا کہ یہ میں نے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے انجام دیا ہے تو آپ ہرگز اس بات پر یقین نہ کیجئے۔ مومنین کے درمیان تفرقہ انگیزی کبھی بھی اللہ کی خوشنودی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ یہ تو شیطانی فعل ہے۔ مومنین کے درمیان بغض و کینہ پیدا کرنا جس سے اختلافات کی فضا وجود میں آئی شیطانی عمل ہے، اللہ کی خوشنودی کا باعث نہیں بن سکتا۔ الہی فعل تو لوگوں میں میل محبت پیدا کرتا ہے۔ اگر کوئي شخص کسی فریضے کو انجام دے رہا ہے تو دوسروں کو چاہئے کہ اس کی مدد کریں تاکہ وہ کام کو بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ اگر اس میں کہیں کوئي کمزوری ہے تو اسے متوجہ کریں، لیکن اس کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔ جس شخص نے اپنے دوش پر علم سنبھالا ہے سب کو چاہئے کہ اس کی مدد کریں، کوئي اس کا پسینہ خشک کر دے، توکوئی اسے پنکھا جھلے، اگر محسوس ہو کہ وہ پرچم کو صحیح انداز میں بلند نہیں کر پا رہا ہے تو یہ مناسب نہیں ہے کہ اس پر وار کرکے علم اور علم اٹھانے والے دونوں کو زمیں بوس کر دیا جائے۔ اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ جو کچھ کمی ہے دور ہو جائے۔ اس نکتے پر سب کو توجہ دینا چاہئے بالخصوص ان افراد کو جو سیاسی، ثقافتی، مواصلاتی یا دیگر اہم شعبوں میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں اہل بیت علیھم السلام کے دوستداروں، عقیدتمندوں اور ان کی منزلت سے آشناؤں میں قرار دے۔ ہمیں اسی ایمان و عقیدے کے ساتھ زندہ رکھ اور اسی ایمان و عقیدے کے ساتھ دنیا سےاٹھا۔ دنیا و آخرت میں ہمیں ان سے جدا نہ کرنا۔ پروردگارا! ہمارے فرائض ہمارے لئے آسان کر دے۔ جن چیزوں کے بارے میں تو ہم سے جواب طلب کرنے والا ہے ان کی انجام دہی کی ہمیں توفیق عطا فرما۔ حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اسلامی جمہوریہ ایران میں عدلیہ کے سربراہ ڈاکٹر شہید بہشتی اور ان کے بہتر ساتھیوں کی اٹھائيس جون کے دہشت گردانہ حملے میں شہادت کی برسی اور یوم عدلیہ کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے عہدہ داروں کے ایک اجتماع سے خطاب فرمایا ، جو پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے سابق سربراہ ڈاکٹر حداد عادل کو اپنا مشیر اعلی اور ڈاکٹر سعید جلیلی کو قومی سلامتی کی اعلی کونسل میں اپنا نمایندہ مقرر فرمایا۔ آپ نے ان تقرریوں کے لئے حکمنامے جاری فرمائے جو مندرجہ ڈیل ہیں:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے سابق سربراہ ڈاکٹر حداد عادل کو اپنا مشیر اعلی اور ڈاکٹر سعید جلیلی کو قومی سلامتی کی اعلی کونسل میں اپنا نمایندہ مقرر فرمایا۔ آپ نے ان تقرریوں کے لئے حکمنامے جاری فرمائے جو مندرجہ ڈیل ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم جناب ڈاکٹر حداد عادل حفظکم اللہ سیاسی اور ثقافتی میدانوں بالخصوص پارلیمان مجلس شورای اسلامی کی سربراہی کے دور میں آپ کے طویل تجربات کے پیش نظر ان تجربات اور صلاحیتوں سے استفادے کی غرض سے آپ کو قائد انقلاب اسلامی کا مشیر اعلی منصوب کرتا ہوں۔امید کہ اس ذمہ داری کے سلسلے میں بھی آپ کی با ارزش خدمات سامنے آئیں گی جس کے ہم ماضی میں بھی شاہد رہے ہیں۔ اللہ تعالی سے آپ کی توفیقات اور کامیابیوں کے لئے دعاگو ہوں۔ سید علی خامنہ ای 2008-6-28 بسم اللہ الرحمن الرحیمجناب ڈاکٹر سعید جلیلیاسلامی جمہوریہ ایران کے آئين کی دفعہ ایک سو چھہتر کی رو سے آپ کو اعلی قومی سلامتی کونسل میں تین سال کے لئے اپنا نمایندہ منصوب کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی اور خود مختاری کے سلسلے میں اس کونسل کے فیصلوں کے کلیدی کردار پیش نظر آپ اس عمل میں سرگرم شرکت اور بندے سے مسلسل صلاح و مشورے کے ذریعے عظیم اسلامی نظام کی خود مختاری اور تقویت میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ مناسب ہوگا کہ اس موقع پر جناب ڈاکٹر لاری جانی کی قیمتی خدمات کا شکریہ بھی ادا کر دوں جنہوں نے اس کونسل میں برسوں قائد انقلاب اسلامی کی نمایندگی کی۔ سید علی خامنہ ای 2008-6-28
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج بده کے روز عدلیہ کے سربراہ، عہدہ داروں، ججوں، اہلکاروں اور شہدا کے بازماندگان سے ملاقات میں فرمایا کہ مطلوبہ ہدف یہ ہے کہ عوامی سطح پر عدلیہ کو مظلوموں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ آپ نے عدل و انصاف کے قیام میں عدلیہکے بنیادی اور کلیدی کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سات سال قبلکیا جانے والا مالی بد عنوانیوں کا سختی سے خاتمہ کرنے کا مطالبہ آج بھیبرقرار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دنیا میں ایران کے اسلامی انقلاب کی معنوی اور روحانی تاثیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صدیوں سے دنیا مادی زندگی کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن ایران کا اسلامی انقلاب اس رجحان کے سامنے ڈٹ گیا اور انقلاب نے روحانیت کا پرچم لہرا کر معنوی رجحان معاشرے حتی مغربی نوجوان نسل میں پھیلایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلم ممالک کی مستقل نشست کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج تہران میں کومور کے صدر احمد عبداللہ محمد سامبی سے ملاقات میں اتحاد کو عالم اسلام کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا اور اسلامی ممالک کے بیش بہا اور اہم وسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وسیع قدرتی ذخائر، حساس اور اہم جغرافیائی محل وقوع، بہت وسیع سرزمین، بڑی آبادی اور ماہر افرادی قوت کے پیش نظر عالم اسلام ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہو سکتا ہے لیکن دنیا کی روایتی طاقتیں اس کے خلاف ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے اراکین سے ملاقات میں اسلامی جموریت کو اللہ تعالی کی ولایت اور الہی اقتدار پر استوار بتایا اور پارلیمنٹ کے دو اہم ترین فرائض یعنی قانون سازی اور نگرانی کی خوش اسلوبی سے انجام دہی پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی نے تینوں شعبوں، (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اراکین پارلیمنٹ کا عوام دوست ہونا اور عوام دوست باقی رہنا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج پیر کو عراقی وزیر اعظم نوری المالکی اور ان کے ہمراہ ایران آنے والے وفد سے ملاقات میں فرمایا کہ اس وقت عراق کی سب سے بڑی اور بنیادی مشکل قابض افواج کی موجودگی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ عراقی عوام اپنی بلند ہمتی اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ان دشوار حالات سے گزرکر اپنے شایان شان مقام تک پہنچیں گے اور عراق کے سلسلے میں امریکیوں کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں گے ـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایٹمی توانائي کا حصول ایرانی قوم خواہش اور تمام قوموں کا مسلمہ حق ہے۔ بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی (رہ) کی انیسویں برسی کے موقع پر جنوبی تہران میں واقع امام خمینی کے مزار پر آج بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایٹمی مسئلے میں عالمی سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی جانب سے ایران کی مخالفت کا سبب ان ممالک سے علمی اور سائنسی میدان میں بے نیازی اور خود مختاری کی ایران کی کوشش ہے۔
چودہ خرداد سن 1387 مطابق تین جون 2008 کو امام خمینی (رہ) کی انیسویں برسی کے موقع پر امام خمینی کي آرام گاہ پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے لاکھوں کی تعداد میں جمع امام خمینی کے شیدائیوں، غیر ملکی مہمانوں اور سیکڑوں صحافیوں سے ایک اہم ترین خطاب فرمایا،
مسئلہ فلسطین فلسطین کی تاریخ اور اس پر تسلط حاصل کرنے کے طریقہ کار کا اصل ماجرا کیا ہے؟ اس مسئلہ کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہودیوں کے ایک گروہ کو یہ سوجھی کہ یہودیوں کےلئے ایک الگ ملک کا وجود ضروری ہے۔ ان کی اس فکر سے برطانیہ نے استفادہ کیا اور اسے اپنے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہودیوں کی خواہش تھی کہ وہ یوگانڈا کی طرف جائیں اور اسے اپنا وطن قرار دیں اسی طرح کچھ عرصہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کو بھی انہوں نے اپنا خیالی ملک بنائے رکھا۔ اس کےلئے وہ اٹلی گئے اور وہاں کے عہدہ داروں سے بھی مذاکرات کئے کیونکہ طرابلس اس وقت اٹلی کے زیر تسلط تھا لیکن اٹلی نے انہیں مثبت جواب نہ دیا۔ سرانجام وہ برطانیہ سے رشتہ جوڑنے میں کامیاب ہوئے۔ مشرق وسطی میں اس وقت برطانوی حکمرانوں کے کئی استعماری مقاصد تھے انہوں نے دیکھا کہ کیا ہی اچھا ہے کہ یہ لوگ اس خطہ میں آجائیں لیکن ان کے آنے کا کا طریقہ کار یہ ہو کہ پہلے اقلیت کی حیثیت سے داخل ہوں پھر دھیرے دھیرے انکا دائرہ اختیار وسیع ہو جائے اور وہ اس علاقہ کے حساس مقامات پر قابض ہو جائیں کیونکہ فلسطین دنیا کے حساس نقطہ پر واقع ہے۔ پھر وہ یہاں پر حکومت بنا کر برطانیہ کے اتحادی بن جائیں اور دنیائے اسلام بالخصوص دنیائے عرب کو اس خطہ میں متحد ہونے سے روک رکھیں۔ یہ بات اپنے مقام پر صحیح ہےکہ اگر اس خطہ کے لوگ بیدار ہوتے تو دشمن کے ارادوں کو بھانپ کر آپس میں متحد ہو جاتے لیکن دشمن نے بیرونی امداد، جاسوسی اور دوسرے مختلف ذرائع سے اختلاف ایجاد کیا۔ کسی کو اپنا قرب دیا تو کسی کو نشانہ بنایا،کسی کو پسپا کیا تو کسی پر شدت پسندانہ حملہ۔ برطانیہ کی مدد اور تعاون اور دوسرے ممالک کی بے دریغ حمایت پہلے مرحلہ پر تھی اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے برطانیہ سے علیحدہ ہو کر امریکہ سے جاملے اور امریکہ نے آج تک انہیں اپنے سائے میں لے رکھا ہے۔ یوں وہ ایک ملک کو معرض وجود میں لائے اور فلسطین پر قابض ہوگئے ان کے قبضہ کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے مرحلہ میں انہوں نے جنگ و جدال نہیں کیا بلکہ مکاری کے ذریعہ داخل ہوئے اور فلسطینی کسانوں سے زمین کا بہت بڑا رقبہ اس کی اصلی قیمت سے کئی گنا زیادہ داموں پر خریدا۔ وہ سرسبز وشاداب کھیت جن پر عرب کسان زراعت کرتے تھے ان کے اصلی مالکوں سے جو یورپ اور امریکہ میں مقیم تھے مہنگے داموں خرید لئے گئے۔ مالکان زمین بھی یہی چاہتے تھے کہ ان زمینوں کو فروخت کریں البتہ یہاں دلالوں اور ایجنٹوں کے کردار کی بھی خاص اہمیت ہے جن میں سے ایک ایجنٹ سید ضیا تھا جو سابقہ شاہ ایران رضا شاہ کا 1920 کی فوجی حکومت کا ساتھی تھا وہ ایران سے فلسطین گیا اور وہاں پر یہودیوں اور اسرائیلیوں کےلئے مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کا دلال بن گیا۔ یہودیوں نے زمینیں خرید لیں اور جب وہ زمین پر قابض ہوگئے تو پھر مختلف حیلوں، بہانوں سے مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے لگے اور کسانوں کو بتدریج ان زمینوں سے نکالنا شروع کر دیا۔ جہاں بھی جاتے قتل وغارت گری کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور فریب کے ذریعہ دنیا کی ہمدردی بھی حاصل کرتے تھے۔ فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے تین بنیادی پہلو ہیں۔(۱) عربوں سے بدسلوکی سنگدلی اور بے رحمی، زمین کے اصلی مالکوں سے ناروا سلوک اور شدت پسندانہ رویّہ اختیار کرنا اور کسی قسم کی لچک نہ دکھانا۔(2) جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا۔ یہ عجیب چیز تھی کہ صیہونیوں نے میڈیا کے ذریعہ وہ جھوٹ بکے کہ جنکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے، انہوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کئی دوسرے یہودی سرمایہ داروں کو اپنا گرویدہ کر لیا اور بہت سے یہودی ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ حتی کہ فرانس کے ایک ماہر سماجیات مصنف ''جان پال سارٹر‘‘ کو بھی جن کا نوجوانی کے ایام میں میں بھی مداح رہ چکا ہوں، انہوں نے فریب دیا۔ میں نے ''جان پال سارٹر‘‘کی کتاب کا تیس سال پہلے مطالعہ کیا جس کا عنوان یہ تھا ''سرزمین کےبغیر افراد، بغیر افراد کی سرزمین‘‘ یعنی یہودی وہ لوگ تھے جن کے پاس کوئی سرزمین نہ تھی اور وہ فلسطین آئے جو ایسی سرزمین تھی جہاں لوگ نہیں تھے۔ لوگ نہ تھے کا کیا مطلب؟ ایک ملت وہاں پر آباد تھی جس کے بے شمار تاریخی ثبوت موجود ہیں۔ ایک غیر ملکی مصنف لکھتا ہے کہ فلسطین کا پورا علاقہ تا حد نگاہ گندم وغیرہ کے کھیتوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے دنیا پر یوں ظاہر کیا کہ فلسطین وہ علاقہ تھا جو غیر آباد اور بے آب وگیاہ تھا اور ہم نے آکر اسے آباد کیا۔ یہ جھوٹ کا پلندہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی مظلوم نمائی کرتے رہے، آج بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ امریکی جرائد ''ٹائم،اور نیوز ویک‘‘(Newsweektime)کا بھی کبھی کبھار مطالعہ کرتا ہوں تو اس میں یہ چیز واضح ہے کہ جب بھی کسی یہودی خاندان کے لئے کوئي سانحہ پیش آتا ہے اور اس میں کسی کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس کی تصاویر، مقتول کا سن وسال اور اس کے بچوں کی مظلومیت کو بے حد بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ ہزاروں فلسطینی نوجوان، خاندان، بچے اور فلسطینی عورتیں ان کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ واقعات کبھی مقبوضہ فلسطین اور کبھی لبنان میں پیش آتے ہیں لیکن ان کی طرف یہ جرائد اشارہ تک نہیں کرتے۔(۳) اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا،مذاکرات کا ڈھونگ رچانا اپنی''لابی‘‘بنانا۔ کبھی کسی سے بات چیت کر لی تو کبھی کسی شخصیت کےساتھ بیٹھ گئے کبھی سیاستداں تو کبھی کسی روشن فکر مصنف کو پکڑ لیا ان کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی۔ ان کی پالیسیوں کی یہ تین شکلیں ہیں اور اسی فریب ومکاری کے ذریعہ انہوں نے فلسطین کو ہتھیا لیا ہے۔ تسلط کے وقت بیرونی طاقتوں نے ان کا کھل کر ساتھ دیا جن میں برطانیہ سرفہرست ہے۔ اقوام متحدہ اور اس سے پہلے لیگ آف نیشنس جو جنگ کے بعد صلح کے نام پر معرض وجود میں آئیں ان سب نے سوائے چند مواقع کے ہمیشہ انہی کی حمایت کی ہے۔ ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو بلاوجہ تقسیم کر دیا اور کہا گیا کہ فلسطینی سرزمین کا ۵۷ فیصد حصہ یہودیوں سے متعلق ہے جبکہ اس سے پہلے فلسطینی سرزمین میں ان کا حصہ ۵ فیصد تھا۔ اس کے بعد یہودیوں نے حکومت بنائی اور پھر مختلف قسم کے واقعات رونما ہوئے جن میں دیہاتوں اور شہروں پر وحشیانہ حملے اور بے گناہ لوگوں پر ظلم وستم کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر عرب حکومتوں نے بھی غلطیاں کیں،کئی جنگیں ہوئیں، ۱۹۶۷کی جنگ میں اسرائیل نے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کی مدد سے اردن، مصر اور شام کی کچھ زمینوں پر قبضہ کر لیا اور پھر ۱۹۷۳کی جنگ میں جسے انہوں نے خود ہی شروع کیا تھا پھر بیرونی طاقتوں کی مدد سے کچھ اور زمینوں پر قبضہ کر کے جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں کرلیا۔ نماز جمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 1999-12-31مسئلہ فلسطین کی اہمیتآج کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو زیر بحث لانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ مسئلہ تو ختم ہو چکا ہے۔ میں عرض کروں گا کہ مسئلہ فلسطین ختم نہیں ہوا۔ آپ اگر یہ سوچتے ہیں کہ ہمیشہ فلسطینی سرزمین کے مالک اور ان کی نسلیں اپنی سرزمین سے باہر رہیں اور اگر فلسطین میں رہیں تو ایک اقلیت کی حیثیت سے رہ سکیں گی جبکہ باہر سے آئے ہوئے غاصب افراد یہاں آباد رہیں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ ھرگز ایسا نہیں ہوگا۔ وہ ممالک جو سوسال تک کسی طاقت کے زیر تسلط رہے جیسے آج کا قزاقستان، جارجیا اور یہ تازہ آزاد ہونے والی ریاستیں جن میں سے بعض سوویت یونین کے زیر تسلط تھیں اور بعض اس سے پہلے روس کے قبضہ میں تھیں جب سوویت یونین تشکیل ہی نہ پایا تھا، یہ دوبارہ آزاد ہوگئیں اور وہاں پر مقامی لوگوں کی حکومت بنی۔ لہذا کوئی غیر ممکن بات نہیں کہ یہی صورتحال فلسطین میں پیش آئے اور انشاءاللہ یقیناً پیش آئے گی کہ فلسطین،فلسطینی عوام کا ہو جائےگا۔ مسئلہ فلسطین ختم نہیں ہوا اور ایسا کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔ البتہ آج صیہونیوں اور ان کے آقاوں بالخصوص امریکی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ صلح کے خوبصورت لفظ سے استفادہ کریں اور صلح کا نعرہ بلند کرکے جھانسا دیں۔جی ہاں! ہم بھی کہتے ہیں صلح و آشتی بہت ہی اچھی چیز ہے لیکن کس جگہ کی صلح اور کس سے صلح؟ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس جائے، آپ کا دروازہ توڑ دے، آپ کو مارے پیٹے، آپ کی ناموس کی توہین کرے اور آپ کے تین کمروں میں سے ڈھائی پر قابض ہوجائے اور پھر آپ سے کہے کہ بلاوجہ ادھر ادھر شکایت کیوں کر رہے ہو؟ ہم سے جھگڑا کاہے کا ہے آؤ آپس میں صلح کر لیتے ہیں تو کیا اسی کو صلح کہا جائے گا؟ صلح تو یہ ہے کہ تم گھر سے نکل جاؤ۔ اگر ہم آپس میں جنگ کرتے تو ایسی صورت میں صلح کی بات معقول تھی لیکن تم تو ہمارے گھروں میں بیٹھے ہو،یہاں تم نے ہر خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور آج بھی ہر قسم کی دھشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہو۔ آج بھی اسرائیل تقریباً ہرروز جنوبی لبنان پر حملے کر رہا ہے اور اس کے یہ حملے لبنانی مجاہدین پر نہیں بلکہ جنوبی لبنان کی دیہی آبادی پر اور اسکولوں پر ہو رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے ایک اسکول پر حملہ کیا اور فلسطینی نونہالوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا۔ ان بچوں نے تو کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ ان کے ہاتھ میں تو اسلحہ نہ تھا۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونیوں کی طبیعت میں وحشیانہ پن اور بربریت ہے ۔ اس دن جب یہ صیہونیی لبنان میں داخل ہوئے تو ''دیریاسین‘‘ اور دوسرے علاقوں میں انہوں نے کس طرح قتل عام کیا حالانکہ کسی نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ کم از کم ان لوگوں نے تو ان کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ البتہ اتنا ضرور تہا کہ وہاں کچھ غیرتمند عرب جوان ان کے خلاف لڑ رہے تھے اور ان یہودیوں سے ان کا ایک ہی سوال تھا کہ تم کیوں ہمارے گھروں میں داخل ہوئے ہو اور ایسا کیوں کر رہے ہو؟وہ لوگ جو انکے ظلم وستم کا نشانہ بنتے، جنہیں ان کے دیہاتوں اور انکی زمینوں سے قتل عام کے ذریعہ جدا کیا جاتا تھا ان کا کیا قصور تھا۔ انھوں نے تو کچھ نہیں کیا تہا لہذا ان صیہونیوں کے مزاج میں تجاوز، جارحیت اور وحشیانہ پن موجود ہے۔ اسرائیل کی بنیاد ہی شدت پسندی اور دہشگردی پر رکھی گئی ہے اور اسی انداز میں وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس پیش رفت کا کوئي اور راستا نہیں ہے۔ اب اگر کہا جائے کہ اس حکومت سے صلح کرو تو کیسے صلح کریں؟ اگر وہ اپنے حق پر قناعت کریں تو کوئی اس سے جنگ نہیں کرے گا۔ یعنی وہ فلسطین کو اس کے اصلی شہریوں کو لوٹا دیں یا فلسطینی حکومت سے معلوم کریں کہ ان کے کچھ لوگ یا سب لوگ اسی ملک میں رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ جنگ تو اس بات پر ہے کہ انہوں نے آکر دوسرے کے گھروں پر زبردستی غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے اور گھر والوں کو گھر سے نکال دیا ہے اور پھر ان پر ظلم وستم بھی کر رہے ہیں۔ ان کے اس ظلم کا دائرہ دوسرے ہمسایہ ممالک تک بھی پہنچ چکا ہے لہذا وہ صلح کے نام پر اگلی جارحیت کی فضا ہموار کرنا چاہتے ہیں اگر صلح برقرار بھی ہو جائے تو مزید ظلم وستم کا پیش خیمہ قرار پائے گینماز جمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 1999-12-31جھوٹ اور فریب پر مبنی صلح، مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ فلسطین کی واحد راہ حل یہ ہے کہ سر زمین کے فلسطین کے اصلی اور حقیقی باشندے، نہ یہ کہ باہر سے آکر غاصبانہ اندانہ میں آباد ہوجانے والےمہاجرین، خواہ وہ اس وقت فلسطین میں مقیم ہوں یا فلسطین سے باہر وہ خود اپنے ملک کا حکومتی ڈھانچہ بنائیں اور اگر جمہوریت کے دعوے داروں کا یہ دعوا سچ ہے کہ وہ ہر ملت کی رائے کا احترام کرتے ہیں تو پھر ملت فلسطین بھی ایک ملت ہے اسے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ اسرائیل کے نام پر جو غاصب حکومت تشکیل دی گئی ہے اسے اس سرزمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جھوٹ، فریب اور ظالم طاقتوں کے بل بوتے پر معرض وجود میں آئی تھی لہذا فلسطینی عوام سے اسے تسلیم کرنے کا مطالبہ بالکل غلط ہوگا۔ اگر عالم اسلام میں کوئی بھی اس غلطی کا ارتکاب کرے اور اس ظالم اور قابض حکومت کو تسلیم کر لے تو ایک تو اس نے اپنے لیے ننگ وعار مول لیا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کو اپنے اس قدم کا کوئي فائدہ بھی نہیں ملنے والا ہے کیونکہ اس غاصب حکومت کو دوام نہیں ہے۔ صیہونیوں کا خیال ہے کہ وہ فلسطین پر قابض اور مسلّط ہیں اور ہمیشہ کےلئے فلسطین ان کے اختیار میں رہے گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہوگا۔ فلسطین ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کرے گا کیونکہ ملت فلسطین نے اس راہ میں قربانیاں دی ہیں۔ مسلمان اقوام اور اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ فلسطین کی آزادی کی راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے جدو جہد کریں تاکہ ملت فلسطین جلد از جلد اپنی آرزو تک پہنچ سکے۔امام خمینی(رہ)کے مرقد پر عظیم عوامی اجتماع سے خطاب سے ماخوذ 2002-6-4اس مسئلے کا منطقی اور معقول حل موجود ہے۔ منطقی حل وہ ہوتا ہے جسے دنیا کا بیدار اور باشعور طبقہ اور وہ تمام لوگ جو آج کی دنیا میں رائج اصولوں کو مانتے ہوں اس حل کو قبول کریں۔ مسئلے کا منطقی حل وہی ہے جو ہم نے ڈیڑھ سال پہلے پیش کیا تھا اور ہماری اسلامی حکومت کے ذمہ دار افراد نے عالمی اداروں میں بھی جسے بارہا بیان کیا ہے اور جس پر ان کا مسلسل اصرار بھی ہے کہ فیصلیہ خود فلسطینی عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک ریفرنڈم کرایا جائے۔ ان تمام فلسطینیوں کو کہ جو اپنے وطن لوٹ کر آنا چاہتے ہیں ان سب سے رائے لی جائے۔ وہ فلسطینی جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں ان سب کو فلسطین واپسی کا موقع دیا جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی کو زبردستی واپس لایا جائے۔ اسرائیل کی جعلی اور غیر قانونی حکومت بننے سے پہلے یعنی ۱۹۴۸ سے قبل فلسطین میں جو لوگ بھی آباد تھے خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی، ان سب کی مرضی معلوم کی جائے اور ریفرنڈم کے ذریعہ فلسطین کا حکومتی نظام تشکیل دیا جائے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جمہوریت ساری دنیا کےلئے تو اچھی لیکن فلسطینی عوام کے لئے اچھی نہیں ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟! یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام دنیا کے عوام کو تو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں لیکن فلسطینی عوام اس حق سے محروم رہیں۔ کسی کو بھی اس بات میں شک و شبہ نہیں ہے کہ فلسطین پر آج جو حکومت قابض ہے، وہ طاقت اور فریب کے بل بوتے پر بنائی گئی ہے۔ وہ زبردستی مسلط کر دی جانے والی حکومت ہے۔ لہذا فلسطینی عوام جمع ہو کر ریفرنڈم کے ذریعہ حکومتی دھانچے کا انتخاب کریں۔ وہ خود کس طرح کا نظام حکومت چاہتے ہیں، اپنے ووٹوں سے ظاہر کریں۔ جب حکومت بن جائے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جو ۱۹۴۸ کے بعد فلسطین میں داخل ہوئے ہیں۔ جو بھی فیصلہ ہو اسے عملی جامہ پہنایا جائے اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو وہ رہیں اور اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو وہ واپس جائیں۔ یہ ہے عوام کی رائے کا احترام، یہ ہے جمہوریت اور یہ ہے انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا جو موجودہ دنیا کے رائج قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہ ہے راہ حل اور اسی راہ حل کا نفاذ ہونا چاہئے۔ غاصب حکومت تو اس راہ حل کو بخوشی قبول کرنے والی ہے نہیں لہذا تمام عرب ممالک، اسلامی ممالک، دنیا کی مسلمان اقوام، بالخصوص ملت فلسطین اور عالمی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جد و جہد کریں۔ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ راہ حل خواب و خیال خام پر مبنی ہے اور اسے جامہ عمل پہنانا ممکن نہیں۔ نہیں، ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ممالک جو ۴۰ سال تک سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہے وہ آج آزاد ہو گئے اور قفقاز کے بعض ممالک تو سوویت یونین کی تشکیل سے تقریباً ۱۰۰ سال پہلے سے روس کے زیر تسلط تھے لیکن آزاد ہوگئے، آج قزاقستان،آذربائیجان،جارجیا وغیرہ سب آزاد ہوگئے ہیں۔ تو ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی ناممکن کام ہو۔ البتہ اس کے لئے عزم وارادے،جرأت و دلیری اور شجاعت و پامردی کی ضرورت ہے۔ اب یہ بہادری کا جوہر کون دکھائے؟ اقوام یا حکومتیں؟ اقوام تو بہادر ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری کو مختلف مواقع پر ثابت بھی کیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ وہ آمادہ و تیار ہیں۔نمازجمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 2002-4-5
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فلسطینی تنظیم تحریک حماس کے رہنما خالد مشعل سے ملاقات میں صیہونی حکومت، تسلط پسند طاقتوں اور ان کے حامیوں کے جرائم اور شدید دباؤ کے مقابلے میں فلسطینی قوم، مزاحمتی تنظیموں اور حکومت حماس کی زوردار مزاحمت کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ آج اللہ تعالی کے لطف و کرم سے صیہونی دشمن جو بظاہر نا قابل تسخیر تھا نہایت کمزور پوزیشن میں پہنچ گیا ہے اور بے سہارا اور یک و تنہا لیکن ساتھ ہی صابر اور مضبوط ارادوں کی مالک فلسطینی قوم کا مقابلہ کرنے میں ناتواں ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اب جب کہ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کا آٹھواں دور شروع ہو رہا ہے اور قادر مطلق کی نصرت و اعانت سے، اسلامی جمہوریت کے مظہر اس مضبوط سلسلے کی نئی کڑی وجود میں آ رہی ہے، بارگاہ احدیت میں سجدہ شکر بجا لاتا ہوں اور قدردانی و امید کے جذبات سے سرشار دل سے ملت ایران پر درود بھیجتا ہوں۔ یہ ایک افتخار ہے جسے اسلام پر ایمان اور ایران سے عقیدت رکھنے والوں کو چاہئے کہ اپنے لئے الہی عطیہ تصور کریں اور قدرشناسی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی حفاظت کریں۔
(پیغمبر ختمی المرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اور جامع شخصیت ہے کہ اس کے تمام پہلؤں کا احاطہ نا ممکن ہے، ہر شخص اور محقق اپنی استعداد کے مطابق اس بحر مواج میں غوطہ زن ہوکر معرفت کے گوہر حاصل کرتا ہے، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، تقاریر کے متعلقہ اقتباسات پیش نظر ہیں)الف :امت اسلامیہ کی یکجہتی کا محور:پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے۔ خواہ کمالات کے وہ پہلو ہوں جو انسان کےلئے قابل فہم ہیں جیسے انسانی عظمت کے معیار کے طور پر عقل، بصیرت، فہم، سخاوت، رحمت اور درگذر وغیرہ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں خواہ وہ پہلو ہوں جو انسانی ذہن کی پرواز سے ما ورا ہیں یعنی وہ پہلو جو پیغمبر اسلام (ص) کو اللہ تعالی کے اسم اعظم کے مظہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں یا تقرب الہی کے آپ کے درجات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، کہ ہم ان پہلوؤں کو کمالات کا نام دیتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ کمالات ہیں لیکن انکی حقیقت سے اللہ تعالٰی اور اس کے خاص اولیا ہی آگاہ ہیں۔یہ انکی شخصیت تھی اور دوسری طرف انکا لایا ہوا پیغام انسانی سعادت کے لئے سب سے عظیم اور بہترین پیغام ہے جو توحید، انسان کی عظمت و سربلندی اور انسانی وجود کے کمال و ارتقا کا حامل ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ انسانیت آج تک اس پیغام کے تمام پہلوؤں کو بطور کامل اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر سکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسانی ترقی اور کمال ایک نہ ایک دن اپنے مطلوبہ مقام تک ضرور رسائی حاصل کرےگا اور یہی انسانیت کا نقطہ عروج و کمال ہوگا۔ البتہ اس مفروضہ کی بنیاد پر کہ انسانی سوچ اور فکر اور اسکا علم وادراک روزبروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور یہ مسلمہ ہے کہ اسلام کا پیغام زندہ وجاوید ہے کوئی وجہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ پیغام انسان کی معاشرتی زندگی میں اپنا مقام حاصل نہ کر لے۔ نبی اکرم(ص)کے پیغام توحید کی حقانیت،اسلام کا درس زندگی اور انسانی سعادت اور ترقی کے لئے اسلام کے بیان کردہ زریں اصول انسان کو اس مقام پر پہنچا دیں گے کہ وہ اپنی گمشدہ منزل تلاش کر لے اور پھر اس راہ پر گامزن ہو کر ترقی اور کمال کی منازل طے کرے۔ وہ چیز جو ہم مسلمانوں کے لئے اہم ہے وہ یہ کہ اسلام اور پیغمبر(ص)کی زیادہ سے زیادہ شناخت و معرفت حاصل کریں، آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا درد فرقہ واریت ہے۔ عالم اسلام کی یکجہتی اور اتحاد کا محور پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود کو قرار دیا سکتا ہے جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے اور جو تمام انسانوں کے احساسات کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود سے بڑھ کر کوئی ایسا جامع اور واضح نقطہ اتحاد نہیں ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد بھی ہو اور جن (ص) کے وجود سے سب مسلمانوں کا اندرونی اور قلبی رشتہ بھی ہو اور یہی نقطہ اتحاد کا بہترین مرکز و محور ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے جو ہم ادھر چند سالوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قرون وسطی کی طرح مستشرقین نے آنحضرت (ص) کے وجود مقدس پر اہانت آمیز تنقید و تبصرے کرنا شروع کر دیا ہے۔ قرون وسطی میں بھی عیسائی پادریوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور نام نہاد آرٹ کے فن پاروں میں جب مستشرقین کی تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا، پیغمبر(ص)کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ گذشتہ صدی میں بھی ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ مغرب کے غیر مسلم مستشرقین نے جس چیز کو شک و شبہے اور جسارت و اہانت کا نشانہ بنایا تھا وہ پیغمبراسلام(ص)کی مقدس شخصیت تھی۔ اب کئی سال گذرنے کے بعد ان حالیہ سالوں میں ہم پھر دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا اور نام نہاد ثقافتی لٹریچر کے ذریعہ دنیا کے مختلف مقامات پر آپ(ص)کی شخصیت پر ایک بار پھر حملے کرنے کی جسارت کی گئي ہے۔یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ مسلمان اسی مقدس شخصیت کے وجود پر جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ ان سے تمام مسلمانوں کو عشق اور والہانہ محبت ہے لہذا انہوں نے اسی مرکز کو حملے کا نشانہ بنایا۔ آج علمائے اسلام اور مسلمان دانشوروں، مصنفین، شعرا اور اہل فن حضرات سب کی ذمہ داری ہے کہ ان سے جتنا بھی ممکن ہو پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت کے عظوم پہلوؤں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے بیان کریں ان افراد کا یہ کام امت اسلامیہ کے اتحاد میں اور ان مسلم نوجوانوں کی رہنمائی میں جو اسلام کی طرف بڑی شدت سے راغب نظر آرہے ہیں، بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔۱۷ربیع الاول کی مناسبت سے حکومتی عہدہ داروں سے خطاب کا اقتباس(۳۱۔۳۔۷۹) امام خمینی(رہ) کی با بصیرت نظر کی بدولت اسلامی انقلاب کا ایک فیض یہ ہے کہ میلاد النبی(ص)کے ایام کو ہفتہ اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس لحاظ سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کئی گنابڑھ گئی کہ بہت سے لوگوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ اسلامی اتحاد کے لیے کام کیا جائے۔بعض لوگ تو صرف بات کی حد تک کوئی نظریہ دیتے ہیں لیکن بعض لوگوں کی واقعی دیرینہ خواہش تھی بہرحال اس آرزو اور خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام ضروری تھا کیونکہ کوئی خواہش بغیر عملی جدوجہد کے پوری نہیں ہو سکتی۔ جب ہم نے اس سمت میں عملی اقدامات اور مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کی راہ کے بارے میں سوچا تو اس محور کے طور پر جو بہترین اور عظیم ترین شخصیت ہمارے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ وہ فخر کائنات حضرت محمد مصطفٰی(ص) کی ذات تھی کہ جنکی مرکزی حیثیت دنیا تمام مسلمانوں کے عقائد وافکار کا سرچشمہ ہے۔ اسلامی دنیا میں وہ نقطہ جس پر سب متفق ہوں اور سےکے عقائد اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی ہو جائے شاید میسر نہ آ سکے یا ہو تو شاذ و نادر ہی ہو کیونکہ جذبات کا انسانی زندگی میں خاص کردار ہے اور یقینا بعض وہ اقلیتیں جو مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئی ہیں ان کے درمیان کچھ جذبات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اور عشق و محبت یا توسل اور وسیلے کی منکر ہیں پھر بھی عام مسلمانوں کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے محبت اور عشق و عقیدت دین کا ایک لازمی عنصر ہے لہذا آپ کا وجود مبارک وحدت کا بہترین محور بن سکتا ہے۔مسلمانوں اور مسلم دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت، آپ کی تعلیمات اور آپ سے عشق ومحبت کے موضوع کے سلسلے میں وسیع النظری سے کام لیں۔ ان عوامل میں جو اتحاد و یکجہتی کےلیے محور قرار پا سکتے ہیں اور تمام مسلمان جن پر متفق ہو سکتے ہیں اہلبیت پیغمبر(ع) کی اطاعت اور پیروی بھی ہے۔پیغمبر اکرم (ص) کے اہلبیت(ع) کی عظمت کو تمام مسلمان قبول کرتے ہیں البتہ شیعہ ان کی امامت کے بھی قائل ہیں اور غیر شیعہ ان کو شیعی نقطہ نگاہ کی طرح امام منصوص نہیں مانتے پھر بھی انہیں پیغمبراسلام(ص)کے عظیم خاندان سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام سے کما حقہ آشنا اسلام کی عظیم شخصیات میں سمجھتے ہیں لہذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اہلبیت پیغمبر(ع) کے فرامین پر عمل کے دائرے میں متفق ہو جائیں۔ یہ وحدت و یکجہتی کا بہترین وسیلہ ہے۔پیغمبراسلام (ص) کی میلاد کے ایام ہر مسلمان کے لئے تاریخ کے سنہری مواقع ہیں۔ اسی ولادت کی برکت سے تاریخ بشریت نے ایک نیا رخ اختیار کیا،کائنات کی ہر فضیلت کا سرچشمہ آپ(ص)کی بعثت اور مکارم اخلاق ہیں ہر مسلمان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ دنیائے اسلام کی محبتوں کا مرکز اور مسلمانوں کے مختلف مذاہب ومکاتب کا محور حضرت محمد مصطفٰی(ص)کا مقدس وجود ہے چونکہ تمام مسلمانوں کو آپ سے عشق ہے لہذا آپ تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے لئے نقطہ اتحاد رہے ہیں۔ اسی لیے آپ کے ایام ولادت مبارک بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اسلامی یکجہتی عالمی کانفرنس کے شرکا اور عمائدین مملکت سے خطاب سے اقتباس (۲۴۔۵۔۷۴)مسلمانوں کے اتحاد کا مرکزی نقطہ پیغمبر اسلام(ص)ہیں اور آپ کی عظیم شخصیت،آپ کا اسم مبارک، محبت، کرامت اور عظمت امت اسلامی کی فکری یکجہتی کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا وجود ذی جود امت اسلامیہ کی ہر فرد کے لئے پوری تاریخ اسلام میں وحدت کا محور رہا ہے۔دین اسلام کا کوئی ایسا عنوان نہیں ہے جو آپ(ص)کے مقدس وجود کی طرح ہر لحاظ سے عقل کی راہ ہو یا عشق و محبت کی، روحانی اور معنوی پہلو ہو یا اخلاقی،تمام اسلامی مکاتب کے لئے قابل قبول ہو۔یہی وہ مرکزی محور اور نقطہ ہے جو ہمہ گیر ہے ورنہ قرآن وکعبہ اور واجبات وعقائد سب مشترک ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک انسانی شخصیت کے ایک پہلو مثلا عقائد، محبت، روحانی میلان، کردار وغیرہ سے متعلق ہیں اور مذکورہ مفاہیم مسلمانوں کے مابین مختلف تشریحات اور تفاسیر کے حامل ہیں لیکن وہ چیز جو تمام مسلمانوں میں فکری واعتقادی بالخصوص جذبات و احساسات کے حوالے سے اتحاد و یکجہتی کا محور بن سکتی ہے، خود پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی (ص) کا مبارک وجود ہے۔اسکی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اور اس محبت میں روز بروز آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور آپ کے مقدس وجود کی طرف معنوی اور روحانی رجحان کو مسلمانوں اور اقوام عالم کی ہر فرد کے ذہن میں اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دشمن کی اسلامی تہذیب کے خلاف سازشوں کے دھارے کا سب سے بڑا نشانہ پیغمبر اسلام(ص)کا نورانی وجود ہے (مرتد رشدی کی) شیطانی آیات نامی کتاب میں بھی جس حساس نقطہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، حضرت محمد مصطفٰی (ص)کی ذات اور صفات ہیں اور دشمن کی اس گندی سازش سے معلوم ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے عقائد اور احساسات کے کس محور پر نظر گڑائے ہوئے ہے۔بعثت بیغمبر اسلام(ص)کی مناسبت سے چالیس ممالک سے آئے ہئے قاریوں اور حافظوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس (۴۔۱۲۔۶۸)
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے اسلامی انقلاب کے دشمنوں کے پاس مہیا وسیع تشہیراتی، مالی، افرادی اور اطلاعاتی وسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عدم توازن کے باوجود جب بھی بڑی طاقتوں اور اسلامی انقلاب کے درمیان مقابلے کی صورت پیدا ہوئی ہے، کامیابی اسلامی جمہوریہ ایران کا مقدر بنی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ تیس برسوں سے جاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج دوپہر ایریٹریا کے صدر ایسائیاس آفیرکی سے ملاقات میں عالمی حالات میں آنے والی تبدیلیوں، سامراجی پالیسیوں کی شکست اور سامراجی طاقتوں کی پسپائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ عالمی حالات بیس سال قبل کے مقابلے میں بہت حد تک بدل چکے ہیں اور قوموں اور بعض سربراہان مملکت کی بیداری و خود اعتمادی کے نتیجے میں امریکہ سمیت سامراجی ممالک پسپائي احتیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
آیۃ اللہ سید محمد باقرالصدر کے اہل خانہ سے ملاقات سب سے پہلے تو میں آپ اور ديگر خواتین خصوصا آپ کے محترم صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی خدمت میں خوش آمدید عرض کرتے ہوں۔ ہم، شہید آیۃ اللہ سید محمد باقر الصدر مرحوم کے وجود پر ان کی علمی، جہادی اور فکری شخصیت کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور آپ پر بھی فخر کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ نے گزشتہ دو عشروں سے زیادہ کے عرصے میں بہت زیادہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا ہے، بہت زیادہ سختیاں اٹھائی ہیں لیکن صبر سے کام لیا ہے۔ آپ کا تعلق عظیم خاندان سے ہے، صبر، کرم اور عظمت آپ کے خاندان کی خصوصی صفات ہیں۔ آیۃ اللہ صدر کی شہادت کے بعد آپ نے ان کٹھن حالات میں نجف میں زندگی گزاری؛ اس کے بعد آپ کی ان بچیوں کے شوہر شہید ہوئے اور آپ میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوا؛ لیکن آپ لوگوں نے ان سب کو برداشت کیا۔ حقیقت میں آپ کا صبر ہم لوگوں کے لیے بہت زیادہ قابل قدر ہے۔ آپ کو بتاؤں کہ میں ہمیشہ دور سے آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں نے کیا مشکلات اور سختیاں برداشت کی ہیں۔ خداوند متعال اس عزیز شہید یعنی شہید سید محمد باقرالصدر مرحوم ، آپ کے دامادوں اور شہید صدر کے بیٹوں رضوان اللہ تعالی علیھم کے درجات کو بلند فرمائے۔ ان خواتین نے بھی اس خوف اور گھٹن کے ماحول میں صبر کیا اور ان کی جوانی کے ایام میں ان کے شوہروں کو شہید کر دیا گیا اور ان کے بچے باقی رہ گئے، خدا کے نزدیک ان کی بہت قدر و منزلت ہے۔ آپ نے جو صبر کیا ہے وہ خدا کے نزدیک بہت گرانقدر ہے۔ ان شاء اللہ خداوند متعال اپنے اجر سے دنیا اور آخرت میں آپ کو نوازے گا۔... میں سنہ 1957 میں عراق گیا اور وہیں میں نے جناب سید محمد باقر الصدر کو دیکھا۔ اس وقت وہ کافی جوان تھے، تقریبا پچیس سال کے تھے۔ اس وقت بھی وہ اپنے فضل و کرم کے لیے مشہور تھے۔ اس وقت میں نوجوان تھا اور میری عمر تقریبا اٹھارہ سال تھی۔ الحمد للہ آپ کے خاندان کے تمام افراد بہت زیادہ استعداد اور صلاحیت کے مالک تھے؛ جیسے مرحوم جناب رضا، جناب موسی۔... اسلامی انقلاب کے اوائل میں جب آیۃ اللہ صدر کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی تو بڑا صدمہ ہوا۔ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لیے شہید صدر حقیقت میں ایک فکری ستون تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہی ہم ان کی کتابوں اور بڑی ہی گرانقدر سرگرمیوں سے واقف تھے۔ پھر جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو انہوں نے بہت اچھے پیغامات بھیجے۔ شہید صدر سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ خدا لعنت کرے صدام پر، الحمد للہ کے ان لوگوں(صدام اور اس کے گرگوں) کی بیخ کنی ہو گئي۔شہید صدر حقیقی معنی میں نابغۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی اور فکری مسائل، فقہ و اصول اور دیگر علوم میں ماہرین کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن نابغۂ روزگار شخصیات بہت کم ہیں۔ شہید صدر ان افراد میں سے تھے جو حقیقت میں نابغۂ روزگار ہیں۔ ان کا ذہن اور ان کے افکار، دوسروں کی فکری رسائي سے بہت آگے تھے۔ بحمد اللہ انہوں نے بہت اچھے تلامذہ کی تربیت بھی کی۔آیۃ اللہ سید محمد باقرالصدر کے اہل خانہ سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کی تقریر سے اقتباس( 2004/5/29)
آخرکار حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور آپ کے زمانے کے خلفاء کے درمیان ہونے والی جنگ میں جو ظاہری اور باطنی طور پر فتح سے ہمکنار ہوا، وہ امام علی نقی علیہ السلام تھے؛ یہ بات ہماری تمام تقریروں اور بیانوں میں ملحوظ خاطر رہنی چاہیے۔
فطرے کے احکامواجب ہے کہ ہر شخص اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال میں سے ہر شخص کے لیے تقریبا تین کلو قوت غالب ادا کرے۔ قوت غالب کا مطلب وہ چیز ہے جسے لوگ عموما غذا کے لیے استعمال کرتے ہیں؛ جیسے گیہوں۔عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26شب عید فطرفطرہ، مہینے کے آخری دن غروب؛ یعنی شب عید فطر سے، مکلف پر واجب ہو جاتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ وہ شخص جو نماز عید فطر میں شرکت کرے گا اور نماز عید بجا لائے گا، نماز عید کی ادائیگی سے قبل فطرہ ادا کر دے۔ بنابریں آج رات آپ حساب لگا لیں کہ آپ پر کتنا فطرہ واجب ہے اور اس کی رقم کو علیحدہ رکھ دیں اور کل صبح عید کی نماز کے لیے جانے سے قبل اسے ادا کردیں تو یہ بہترین صورت ہے۔ البتہ اگر آپ نے اس موقع پر ادا نہیں کیا اور نماز عید کے بعد ادا کردیا تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26عید فطر کی با فضیلت نمازیہ بہت با فضیلت نماز ہے۔ اس نماز میں دعا،التجا، گریہ و زاری اور خدا کی جانب توجہ ہے۔ عید فطر کی نماز بڑی اچھی نماز ہے۔ تمام عبادتیں اس لیے ہیں کہ ہماری تربیت ہو اور ہم آگے بڑھیں۔6 عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26عید فطررمضان کا مہینہ اپنی تمام تر عظمتوں، کرامتوں اور رحمت کی فضاؤں کے ساتھ تمام ہوا اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس مہینے میں دنوں کے روزوں، دعا و توسل، ذکر و عبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کی برکت سے اپنے قلوب کو زیادہ منور اور خدا سے زیادہ قریب کر لیا۔عید فطر عظیم اسلامی تہوار ہے۔ عالم اسلام، عید فطر کے دن حقیقی معنی میں عید مناتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو امت مسلمہ کے لیے اسلام چاہتا ہے۔ (جعلہ اللہ لکم عیدًا و جعلکم لہ اھلًا) آج کے دن کو خداوند متعال نے امت مسلمہ کے لیے عید اور مسلمانوں کو اس عید کا اہل قرار دیا ہے۔ ہمیں اس الہی تحفے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اپنے دلوں میں معرفت اور توبہ و استغفار کے نور کو راستہ دے کر حقیقی معنی میں ذاتی فائدہ بھی اٹھانا چاہیے کہ اگر معرفت و عشق الہی کی دنیا کی ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی ہمارے دلوں پر کھل جائے اور ہمارا وجود نورانی ہو جائے تو بیرونی دنیا کی بہت سی تاریکیاں اور مشکلات اپنے آپ دور ہو جائیں گي، کیونکہ یہ انسانوں کا دل ہے جو تمام خوبیوں اور برائیوں کا سرچشمہ ہے۔مختلف شعبوں کے اہلکاروں سے خطاب سے اقتباس 2001/12/16عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے:عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے، بحمد اللہ آپ نے رمضان کا مہینہ جو صوم و صلاۃ کا مہینہ تھا، خیر و عافیت سے گزار دیا اور خداوند متعال نے دعا و مناجات اور ذکر و عبادت کے ساتھ آپ لوگوں کو روزے کی ادائیگی اور اللہ تعالی کے سامنے توسل اور خضوع و خشوع کی توفیق عطا کی۔ آج وہ دن ہے جب ان شاء اللہ خداوند متعال آپ لوگوں کو جزا عنایت کرے گا۔ شاید خداوند متعال کی ایک سب سے بڑی جزا یہ ہو کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اگلے ماہ رمضان تک رحمت الہی کے وسیلے کو اپنے لیے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ مبارک رمضان کے درس پر پورے سال کاربند رہیں، یہ ہوگی خداوند عالم کی ایک سب سے بڑی جزا کہ جس نے ہم سب کو اس طرح کی توفیق عطا کی۔ ہمیں خداوند عالم سے رحمت، رضا، (دعا اور اعمال کی) قبولیت، عفو اور عافیت کی دعا کرنی چاہیے کہ درحقیقیت یہی حقیقی عید ہوگی۔مختلف شعبوں کے اہلکاروں سے خطاب سے اقتباس 2001/12/16عید سعید فطر؛ معنوی اور بین الاقوامی تقریبشاید عید سعید فطر کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہو کہ یہ ایک معنوی اور بین الاقوامی تقریب ہے۔ اس بین الاقوامی تہوار کا بڑا ہی نمایاں اور خصوصی معنوی پہلو ہے۔ عید فطر کی نماز کے قنوت میں ہم پڑھتے ہیں کہ (اسئلک بحقّ ھذا الیوم الذی جعلتہ للمسلمین عیداً و لمحمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ ذخراً و شرفاً و کرامۃً و مزیداً) تمام مسلمانوں کی عید، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے باعث شرف، اسلام کا وقار اور پوری تاریخ میں کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ اس نظریے سے عید سعید فطر کو دیکھنا چاہیے۔ آج ہماری عظیم مسلمان قوم کو اس ذخیرے کی ضرورت ہے۔ اس ذخیرے میں سے مسلمانوں کو دو چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اول باہمی اتحاد اور قربت اور دوسرے عالم اسلام میں معنویت پر توجہ۔ عالم اسلام میں کمال اور ترقی تک پہنچانے والے ان دونوں عناصر کے سلسلے میں بے توجہی پائي جاتی ہے۔حکام کے ساتھ ملاقات میں تقریر کا ایک حصہ2000/12/27جن لوگوں نے ماہ مبارک رمضان میں عبادتیں کیں اور معنوی مواقع سے استفادہ کیا، وہ آج کے دن خداوند عالم سے اپنا انعام حاصل کریں گے۔ بااخلاص روزے، قرآن مجید کی تلاوت، راتوں کی عبادت، خدا کے حضورگریہ، دعا، صدقے اور وہ تمام نیک کام جو آپ عزیز نوجوانوں اور آپ مومن اور اسلامی حقائق سے آگاہ لوگوں نے ماہ مبارک رمضان میں انجام دیئے ہیں، آج ان سب کی جزا آپ کو معنوی طور پر عطا کی جائے گي۔حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے عید فطر کے دن لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا اور اس خطبے میں یوں بیان فرمایا۔( فقال ایھا الناس ان یومکم ھذا یوم یثاب فیہ المحسنون و یخسر فیہ المسیئون) اے لوگو! یہ وہ دن ہے جس میں نیک کام کرنے والوں کو اپنی نیکیوں کا ثواب ملے گا اور جن لوگوں نے ماہ رمضان میں برائیاں کی ہیں، وہ گھاٹا اٹھائیں گے اور محروم رہیں گے۔عید یعنی سال کا وہ دن جو خوشی اور مسرت کا باعث ہو، کون سی چیز امت مسلمہ کے لیے خوشی کا باعث ہے؟ اسلامی اہداف سے قریب ہونا۔مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد ( عید فطر کے دن) طہارت اور پاکیزگی کے میدان میں ہوتا ہےعید فطر کا دن، طہارت و پاکیزگی کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس وجہ سے ہو کہ آپ نے ایک مہینے تک روزے رکھے ہیں، کوششیں کی ہیں اور اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس وجہ سے بھی ہو کہ اس دن میدان عبادت میں حاضر ہو کر آپ نے اجتماعی عبادت میں حصہ لیا ہے، بہر حال بات یہ ہے کہ مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد ( عید فطر کے دن) طہارت اور تزکیے کے میدان میں ہوتا ہے۔عید فطر کا دن وہ دن ہے جب مسلمان، ماہ مبارک رمضان کے اہم تعمیری اور تربیتی امتحان سے گزر کر گویا پروردگار عالم کے حضور میں حساب کتاب کے لیے بیٹھتے ہیں اور اپنے ماہ رمضان (کے اعمال) کو اپنے پروردگار کے حضور پیش کرتے ہیں۔ عید فطر کی شب و روز کی دعاؤں میں اس مفہوم کی جانب اشارہ کیا گيا ہے (تقبّل منّا شھر رمضان) ماہ مبارک رمضان کو خدا کی جانب سے قبول کیے جانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔- عید فطر کی مبارکباد، ماہ مبارک رمضان کو کامیابی سے گزارنے کی تہنیت کے معنی میں ہے۔- عید سعید فطر دنیا کے ایک ارب مسلمان آبادی کے جشن و سرور کا دن ہے۔- عید فطر کے دن کو، جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی روایت میں آیا ہے، قیامت کے دن یعنی روز جزا سے تشبیہ دی گئي ہے۔عید فطر کا دن، عبادت کی عید ہے، مغفرت کی عید ہے، اس مومن مسلمان کے لیے ریاضت اور جدوجہد کے ایک مختصر وقفے کے خاتمے کی عید ہے کہ جو اپنی اس ریاضت اور جدوجہد سے، تہذیب تفس اور اپنے اندر نیک جذبات اور محرکات کی تعمیر و تقویت کے لیے استفادہ کرنا چاہتا ہے اور سال بھر اور پوری عمر اس سے فائدہ اٹھانے کا خواہشمند ہے۔حقیقی عیدآپ حضرات کے سامنے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ایک حدیث پڑھوں۔ آپ سے منقول ہے کہ (انّما ھو عید) آج حقیقی عید ہے؛ (لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ) اس شخص کے لیے جس کے روزے، نماز اور عبادت کو اللہ نے ماہ مبارک رمضان میں قبول کر لیا ہو۔ (وکل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو عید) اور ہر وہ دن جس میں خدا کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔ عزیزو! خدا کی معصیت کا ارتکاب نہ کرکے اور محرمات الہی سے اجتناب کرکے، آج کے دن کو عید بنا لیجیے، کل کے دن کو عید بنا لیجیے، سال کے ہر دن کو اپنے لیے عید بنا لیجیے۔عید فطر کا دن، خدا کی عبادت اور اس سے تقرب کا دن خداوند عالم نے اس مہینے کے آخر میں کہ جو روزے اور عبادت کا مہینہ ہے، ایک ایسا دن رکھا ہے جو عید کا دن ہو، اجتماع کا دن ہو، بہت بڑا دن ہو۔ مسلمان بھائی ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں، ماہ مبارک رمضان میں حاصل ہونے والی کامیابی اور توفیق کی قدردانی کریں، اپنے اور خدا کے (درمیان اعمال کا) احتساب کریں، جو کچھ اس مبارک مہینے میں ان کے لیے ذخیرہ ہو چکا ہے اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں۔ وہ دن، عید کا دن ہے۔عید فطر کا دن اگرچہ عید ہے لیکن عبادت، توسل، ذکر خدا اور خدا سے قریب ہونے کا بھی دن ہے۔ یہ دن نماز سے شروع ہوتا ہے اور دعا اور توسل پر ختم ہوتا ہے۔ اس دن کی قدر کیجیے، تقوے کے ذخیرے کو غنیمت جانیے اور عید فطر کی اہمیت کو سمجھیے۔- یہ دن، بہت عظیم دن ہے اور نبی اکرم حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نیز پوری تاریخ کی تمام اسلامی امتوں سے متعلق ہے۔- ہر عید فطر ایک آگاہ اور ہوشیار مسلمان انسان کے لیے ایک حقیقی عید کا دن ہو سکتی ہے۔ معنوی اور روحانی زندگی کا دوبارہ آغاز، پودوں اور درختوں کے لیے بہار کی مانند۔ایک انسان کو، جو ممکنہ طور پر پورے سال مختلف قسم کے گناہوں اور برائیوں میں مبتلا رہا ہو اور جس نے نفسانی خواہشات نیز بری خصلتوں کے سبب اپنے آپ کو رحمت الہی سے دور کرلیا ہو، پروردگار عالم کی جانب سے ہر سال ایک سنہری موقع عطا کیا جاتا ہے، اور وہ موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ ماہ رمضان میں دل نرم ہو جاتے ہیں، روحوں میں بالیدگی اور درخشندگی آتی ہے، انسان، خدا کی خصوصی رحمت کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ہر کوئي اپنی استعداد، کوشش اور جدوجہد کے مطابق ضیافت الہی سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے ختم ہوتے ہی، نئے دن کا آغاز، عید فطر کا ہے یعنی وہ دن کہ جب انسان ماہ رمضان میں حاصل کیے گئے نتیجوں سے استفادہ کرکے خدا کے سیدھے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور غلط راستوں سے بچ سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج تہران میں مصلائے امام خمینی (رہ) (عظیم الشان عیدگاہ) میں کتابوں کی اکیسویں عالمی نمائش کا معائنہ فرمایا۔ آپ نے نمائش گاہ میں تقریبا تین گھنٹے گزارے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج صوبہ فارس کے علاقے لارستان میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ خلیج فارس میں امریکیوں کی موجودگی بد امنی کا موجب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خلیج فارس میں سلامتی، علاقائي حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب ملکوں، حساس گزرگاہوں اور آبی راستوں پر سامراجی طاقتوں کے تسلط کا زمانہ گزر چکا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين و صحبه المصطفين الاخيار. اللّهمّ صلّ و سلّم على وليّك و حجّتك حجّةبنالحسن صلواتك عليه و على ابائه.
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے لارستان کے محبتی لوگوں سے اس تاریخی شہر میں ملاقات کا موقع عنایت فرمایا۔ ماضی میں صوبہ فارس کے دوروں میں میری خواہش یہ رہی کہ لارستان کے علاقے اور شہر لار کے عوام سے ملاقات ہو لیکن ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ آج آپ لوگوں کے درمیان اس مہر و محبت کی فضا میں ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ جس بندہ مسلمان اور مومن کا دل، اس طرح اسلامی تعلیمات سے آشنا ہو یقینا اس کی زندگی، اس کا ماحول، اس کا شہر اور اس کا معاشرہ اسی خوشبو اور پاکیزگي سے آراستہ ہوگا جو یہاں نظر آ رہی ہے۔ میں آپ عزیزوں کی مہر و محبت کے لئے آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور خود اپنے اندر بھی آپ کے لئے خاص الفت و انسیت کا احساس کرتا ہوں۔ اس موقع پر مناسب ہوگا کہ میں صوبہ فارس کے عوام کا بھی شکریہ ادا کروں۔ اس وسیع و عریض اور مایہ افتخار صوبے کے میرے اس سفر کا یہ آخری دن ہے۔ ان نو دنوں میں جو میں نے آپ کے صوبے میں گزارے، شہر شیراز اور دیگر شہروں کے عزیزوں سے بڑی محبت ملی، ان سب کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے۔
خوش قسمتی سے ملک کے حکام کی توجہات صوبہ فارس پر بھی مرکوز ہوئیں۔ کل شہر شیراز میں کابینہ کا اجلاس ہوا اور شہر لار و علاقہ لارستان سمیت صوبے کے عوام کے مختلف مسائل اور امور پر اہم گفتگو ہوئي اور کچھ فیصلے بھی کئے گئے۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی کی توفیقات عہد ہ داروں کے شامل حال ہوں اور وہ ان عوام سے اپنی محبت اور انسیت کا اظہار کریں جو واقعی محبت و انسیت کے مستحق ہیں۔ آپ لوگوں کی جو حقیقی معنی میں خدمت کئے جانے کے لائق ہیں، خدمت کریں اور اپنے فرائض ادا کریں۔
ایران کی عصری تاریخ میں لار علاقے کا نام آیت اللہ العظمی سید عبد الحسین لاری سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم گزشتہ سو یا ایک سو بیس سال کی لار کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر واقعے میں اس عظیم شخصیت کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔
اپنے پیشرؤوں پر افتخار پر اکتفا کرنا ہمارا مقصود نہیں بلکہ ہم اپنی تاریخ، اپنے ماضی اور اپنی عظیم تاریخی شخصیات سے آشنا ہوکر، خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے زمانہ حال کو سمجھنے اور درک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سو سال سے کچھ اور قبل کی بات ہے جب لارستان کے علاقے میں اس مرد مجاہد نے شہری اور قبائلی عوام کی حمایت سے تاریخ کی ایک بڑی اہم تحریک کو وجود بخشا۔ اگر قوموں کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کرنے کا معیار یہ ہے کہ ہم ان کی قابلیت کا اندازہ کریں، ان کے قومی عزم و ارادے کو دیکھیں، ان کی جرئت اقدام کو پرکھیں۔ اگر یہ کسی قوم اور بستی کی قدر و منزلت کے معیار ہیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ لار اور لارستان کے لائق احترام عوام ان معیاروں کی بنیاد پرہماری وسیع و عریض سر زمین میں نمایاں ترین افراد ہیں۔ جب ملک میں گاہے بگاہے حریت پسندی اور استبداد کی مخالفت کا موضوع اٹھتا تھا، اس زمانے میں اس بیدار مغز عالم دین کی برکت سے اس علاقے کے عوام میں حریت پسندی انگڑائياں لینے لگی تھی۔ جس وقت علاقے کی قوموں اور حتی خود ہماری قوم کے لئے بھی بیرونی جارح قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت تقریبا لا یعنی چیز تھی لارستان کے عوام نے اس مرد مجاہد کی قیادت میں برطانوی جارحیت کو للکارا اور برطانیہ کی زور زبردستی کے خلاف جاں بکف وارد میدان کارزار ہوئے۔ آیت اللہ سید عبد العزیز لاری نے اپنے فرزند کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا تھا کہ دباؤ بہت زیادہ ہے لیکن میں اپنے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت کروں گا۔ جب قائد کا یہ انداز ہو، جب پیشوا اس خلوص کے ساتھ سینہ سپر ہو تو فطری بات ہے کہ قوم کے حوصلے بھی بلند ہوں گے اور یہ حوصلے قوم کو صحیح سمت میں لے جائیں گے۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند آیت اللہ سید عبد المحمد مرحوم نے، جو بڑی برجستہ علمی شخصیت کے مالک تھے، مزاحمت کا پرچم بلند کیا۔
لار کے اس ماضی سے اپنی موجودہ حالت اور اپنی عزیز و توانا قوم کے مستقبل کے لئے ہمیں درس لینا چاہئے۔ اس نمونے سے ہمیں پتہ چلا کہ اگر دنیا و ما فیھا کی طمع سے آزاد ایک مخلص قائد کی رہنمائی میں کوئی قوم دشوار گزار راستوں پر بھی چل پڑے تو ضدی اور بد ترین دشمن کے مقابلے میں بھی کامیابی اس کا مقدر ہوگی۔ اس علاقے اور ملک کے دیگر مقامات کی تاریخ سے یہ درس حاصل کرنے والی ایرانی قوم نے اس کا تجربہ اسلامی انقلاب کے دوران کیا۔ پرچم اسلام کی سربلندی اور تعلیمات محمدیۖ پر عمل آوری کے نعرے کے ساتھ ایرانی قوم نے ایک ایسے دور میں قدم بڑھائے جب دنیا کی طاقتیں اس زعم میں تھیں کہ وہ دین و دینداری کو عوامی زندگی سے محو کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ ایرانی قوم نے ایک ایسے دور میں دین اور اسلام کے نام پر اپنے انقلاب کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرائي کہ جب دنیا کی بڑی سامراجی طاقتیں یہ یقین کر چکی تھیں کہ دنیا منجملہ مسلم ممالک میں دین و دینداری کی جڑیں کاٹی جا چکی ہیں۔ وہ مطمئن ہو چکی تھیں کہ اب دین کا نام کبھی سامنے نہیں آئے گا اور دینی و مذہبی علامتیں رفتہ رفتہ مٹتی جائيں گی۔ وہ اس میٹھے تصور میں کھوئي ہوئی تھیں کہ ملت ایران نے اسلام کا پرچم لہراکر پوری دنیا کی انسانی زندگی میں دین و دینداری کی مشعلیں روشن کر دیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم نے اسلام کے لئے قیام کیا، لیکن ان ممالک میں بھی جہاں کے عوام کسی اور مذہب کے پیرو ہیں ہماری ملت کے انقلاب کے اثرات نظر آئے اور وہاں بھی دین و مذہب اور روحانیت و معنویت کی جانب لوگوں کی توجہ مرکوز ہوئي۔ یہ معجزہ ایرانی قوم نے کیا اور اسلام کے نام پر، قرآن مجید کے مبارک نام پر رونما ہونے والا یہ انقلاب دنیا کی اکثر اقوام کے لئے نمونہ بن گیا۔
اگر آج آپ مسلم ممالک کا سفر کریں تو دیکھیں گے کہ تیس سال قبل یعنی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے مقابلے میں فضا بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔ ان دنوں اگر کوئی حریت پسند کی بات کرتا، قیام کرتا یا کوئي تحریک شروع کرتا تو ملحدانہ مکتب فکر اور نعروں کا سہارا لیتا تھا لیکن آج عالم اسلام میں، روشن فکر افراد، طلبا اور فرض شناس انسان جب حریت پسندی، آزادی و خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو پرچم اسلام کے سائے تلے یہ نعرے بلند کرتے ہیں یا کوئي تحریک شروع کرتے ہیں۔ یہ ملت ایران کے قیام اور اسلامی انقلاب کی برکت ہے، جس کی جڑیں عصری تاریخ سے متصل زمانے میں پیوست ہیں۔ تنباکو کی تحریک اور آئينی تحریک جو عظیم الشان علما کے ذریعے شروع ہوئی اس میں لارستان کے عوام کا قیام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی زاوئے سے ڈالتے ہیں۔ ہمارے لئے ماضی ایک وسیلہ اور آئینہ ہے۔ اس سے ہمیں درس ملتا ہے اور ہم اپنے مستقبل کا خاکہ کھینچنے میں اس سے مدد لیتے ہیں۔
آج سب سے پہلے مرحلے میں ہمارے سامنے جو چیز ہے وہ اسلام سے تمسک ہے۔ تمام خیر و برکتیں جو ایک قوم کی تمنا ہوتی ہے، اسلام کے زیر سایہ حاصل ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم آزادی چاہتے ہیں، خود مختاری چاہتے ہیں، رفاہ عامہ کے خواہاں ہیں، سائنسی ترقی کے متمنی ہیں، مختلف شعبہ ہائے حیات میں پیش قدم رہنے کے آرزومند ہیں، ایرانی قوم کی حیثیت سے اپنے لئے عزت و وقار چاہتے ہیں تو ان سب کا واحد راستہ ہے اسلام سے تمسک۔اسلام کی تعلیمات میں، اور اس دین کی گہرائیوں میں کسی بھی قوم کے لئے یہ ساری نعمتیں پنہاں ہیں۔ اسلام سے تمسک ملت ایران کے پاس سب سے اہم راستہ اور طریقہ ہے۔
دوسری چیز ہے اتحاد، جس کے بارے میں میں اس سفر میں بھی اور دیگر دوروں میں بھی اپنی تقاریر اور قوم سے خطابات میں خاص تاکید کرتا رہا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ دشمن اس قوم پر ضرب لگانے کے لئے جس سازش پر کاربند ہے وہ اس مسلمان قوم کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی تگ و دو ہے۔ عالم اسلام اور مسلم امہ کے سلسلے میں یہی پالیسی اختیار کی گئي ہے۔ انقلاب کی کامیاب کے آغاز سے ہی ہمارے مسلمان ہمسایہ ممالک منجملہ خلیج فارس کے ہمسایہ ممالک کو اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب سے ہراساں کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بد قسمتی سے بعض اوقات دشمنوں کو کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئيں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے تو تمام مسلم اقوام اور حکومتوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران تو اپنے پورے وجود سے اسلامی اتحاد و یکجہتی کا خواہاں ہے۔ وہ اتحاد جو قوموں میں میل محبت اور حکومتوں کے درمیان تعاون کا ضامن ہو۔ بحمد اللہ قوموں میں مفاہمت ہے، فرقہ وارانہ اور گروہی اختلافات قوموں کے درمیان خلیج پیدا نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ دشمن کا وسوسہ کارگر ہو جائے۔ البتہ حکومتیں سیاست کے زیر اثر کبھی کسی طرف تو کبھی کسی اور جانب مائل ہو سکتی ہیں لیکن ہم آج بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک ہمارے بھائي ہیں۔ ان ممالک کی جانب ہم نے دوستی و اخوت کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ ہم کسی چیز کے لئے بھی ان کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ اخوت کی دعوت، ضرورت کے تحت نہیں ہے۔ ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ کی ذات پر توکل اور اپنی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کے ذریعے مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہم تو عالم اسلام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اختلافات سے گریزاں ہیں اور تمام ممالک کی جانب دوستی کا ہاتھ ہم نے بڑھا رکھا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں اور امریکی و صیہونی جاسوسی کے اداروں کی کوششوں اور سازشوں کے باوجود جو بلا وقفہ فتنہ پروری میں مصروف ہیں، ان کی بد بختی ہی کہئے کہ خطے کے عرب اور غیر عرب ممالک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات پروان چڑھ رہے ہیں۔ البتہ ان تعلقات میں روز افزوں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔
ٹھیک یہی چیز ملک کے اندر بھی ذرا اور شدت کے ساتھ پیش آئی۔ اوائل انقلاب سے ہی ملک کے اندر یہ کوشش کی گئی کہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عظیم ملت ایران کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا کئے جائیں۔ ہم نے دشمن کی ان سازشوں کو ناکام تو بنا دیا لیکن اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اور ہمارے تمام بھائي بہن اس سلسلے میں ہوشیار رہیں اور پوری توجہ سے کام لیں کہ دشمن اپنے مکر و حیلے کا استعمال نہ کرنے پائے۔ شیعہ سنی، مختلف علاقوں میں بسنے والے افراد، مختلف سیاسی رجحانوں کے حامل لوگ، سب کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ایرانی قوم، اسی مذہبی، نسلی، اور فکری تنوع کے ساتھ ایک عظیم پیکر ہے۔ ایک متحد یونٹ ہے۔ اسی اتحاد و یکجہتی کے ہی سہارے خطرناک ترین دشمن کے مقابلے میں اپنے مفادات، اپنے تشخص اور اپنے وقار کی حفاظت ممکن ہوگی اور اللہ کی نصرت و مدد سے دشمن کو زیر کیا جا سکے گا۔
لارستان کے علاقے میں بعض شہروں اور حصوں میں برادران اہل سنت بھی آباد ہیں اور اس علاقے میں شیعہ سنی اخوت و مفاہمت قابل تعریف نمونہ ہے۔ میں نے یہ چیز رپورٹوں میں بھی دیکھی اور پڑھی، مجھے اس کی پہلے سے بھی اطلاع تھی اور آج اس اجتماع میں اس کی نشانیاں سامنے ہیں۔ ہم سب کو اسلام کے لئے محنت کرنی ہے۔ کلمہ توحید اور حقیقی اسلامی اقدار اور شریعت محمدیۖ کو عام کرنے کے لئے شیعہ سنی مل کر کوششیں کریں اور اپنی زندگی اور روش پر، اختلاف رای، اختلاف نظر، اختلاف ذوق، ذاتی عناد و اغراض کا غلبہ نہ ہونے دیں کہ دشمن خوش ہو سکے۔
آج دشمن کی کوشش یہ ہے کہ عظیم اسلامی تحریک کی مرکزیت اور مسلم امہ کے اس محور یعنی ملت ایران کو جو دنیائے اسلامی میں نئي روح پڑ جانے کا باعث بنی ہے، بے اثر بنا دیں۔ دشمنوں اور سامراجی طاقتوں کی خواہش یہ ہے کہ اس عملی نمونے کو دنیا کے مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیں۔ اسلامی ملک ایران ایک عملی نمونہ ہے۔ اسلامی ملک ایران نے اپنے وجود، اپنے اثر و رسوخ، اپنی ترقی و علو اور اپنے اتحاد و خلوص سے عالم اسلام کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ دشمن کی سازشوں کے سیلاب کے سامنے اور اس پر تلاطم دور میں بھی اسلامی نظام کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔ عملی میدان میں اسلامی اقتدار کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مسلمان اقوام کے سامنے اس کا کامیاب تجربہ کیا۔
دشمن کی نیت، اس کی خواہش اور مذموم آرزو یہ ہے کہ یہ مثالی نمونہ مسلم اقوام کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جائے۔ اب خواہ اس کے لئے سیاسی، فوجی اور اقتصادی یلغار کرنی پڑے یا تشہراتی مہم اور الزام تراشی کا سہارا لینا پڑے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں، عرب خطوں میں، کچھ نامہ نگاروں کے بکے ہوئے قلم ایسے گھٹیہ انداز میں ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ ملت ایران، ایک مسلمان معشرے، اور اسلامی جمہوری نظام کے خلاف ایسی ایسی باتیں لکھتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئي بے ضمیر انسان اور کوئي بکا ہوا قلم یہاں تک بھی گر سکتا ہے؟! پست ترین دنوی مفادات کے لئے قرآن و اسلام کے مقابلے پر آ سکتا ہے؟!
اس کے سد باب کا واحد راستہ، ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ بھائيو اور بہنو! راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے اتحاد و یکجہتی کو روز بروز مضبوط بنائيں، دلوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لائيں اور ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کے لئے اپنی کوششیں تیز کریں۔ آج بحمد اللہ بڑے پیمانے پر کوششیں نظر آ رہی ہیں۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسی لار اور لارستان کے علاقے میں خیر حضرات بڑے اہم کام انجام دے رہے ہیں جن کی ہمیں اطلاع ہے۔ ہمیں ان کاموں کی تفصیلات سے مطلع کیا جاتا ہے۔ عوام کی خدمت، عوام کی مدد، محروم طبقے کی دستگیری، علمی سرگرمیاں، مساجد کی تعمیر اور اسی جیسے دوسرے کام، ایسے کارہائے نمایاں ہیں جو خطے کے لوگ شوق و رغبت اور دلچسپی و تندہی سے انجام دے رہے ہیں۔ عوام کی یہ خدمت، قومی سطح پر اسلامی جمہوری حکومت اور اسلامی جمہوری نظام کے ذریعے انجام پا رہی ہے اور انشاء اللہ اس سمت میں ہم روز بروز آگے ہی بڑھتے رہیں گے اور سائنس و ٹکنالوجی، اقتصادیات و معاشیات، سماجیات و اخلاقیات کے شعبوں میں مسلسل پیش رفت کرتے رہیں گے۔ سامراجی سازشوں کے سد باب کا واحد راستہ اور طریقہ یہی ہے۔
قوم کی بلند ہمتی ہی ملک کو بے نیاز بنا سکتی ہے۔ مختلف شعبوں میں عوام کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری بہت اہم ہے۔ خصوصا پروڈکشن کے شعبے میں سرمایہ کاری قابل تعریف ہے۔ میری نظر میں جو افراد عوام کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں ان کا یہ کام بہترین عمل صالح اور کار خیر ہے انہیں چاہئے کہ پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ملک کی ترقی میں بھی اس سے مدد ملے گی ساتھ ہی ملک سے غربت کا خاتمہ ہوگا اور یہی اسلامی جمہوری نظام کی عام پالیسی ہے کہ عوام کے مالی سرمائے، فکری سرمائے اور کارآمد افرادی سرمائے کا بھرپور استعمال کیا جائے کہ یہ ملک جن کی ملکیت اور مستقبل جن کے اختیار میں ہے۔
آج علاقے کی قوموں کی نظر میں سامراجی پالیسیاں آشکارہ ہو گئی ہیں۔ قوموں کو بخوبی پتہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اس علاقے سے کیا چاہتی ہیں کس چیز کی تلاش میں یہاں آ دھمکی ہیں۔؟ خلیج فارس میں امریکیوں کی موجودگی بد امنی کا اہم سبب ہے۔ قومیں اس سے باخبر ہو چکی ہیں۔ وہ زمانہ جب دنیا کی تسلط پسند طاقتیں امن و امان قائم کرنے کے نام پر ملکوں، آبی راستوں، اور اہم گزرگاہوں پر قابض ہو جایا کرتی تھیں اب گزر چکا ہے۔ اب قومیں باخبر ہیں، عراقی عوام جانتے ہیں کہ امریکہ کو عراق کی فکر کیوں لاحق ہوئی۔ خود امریکی بھی اقرار کرنے لگے ہیں کہ ہم تو تیل کی تلاش میں آئے ہیں۔ انہوں نے عراقی عوام کو آزادی دلانے کے نام پر بے شمار مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ چو دیدم عاقبت گرگم تو بودی آج وہ بھیڑئے کی مانند عراقی عوام کی جان کو آ گئے ہیں لیکن اب بھی دعوا یہی ہے کہ ہم عراق میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی عوام کے لئے بد امنی کی سب سے بڑی وجہ قابض قوتوں کی موجودگی ہے جن کی نظر میں عراقی عوام کی جان و مال اور عزت و ناموس کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔
عراق پر قبضے کے اوائل میں میں نے نماز جمعہ کے خطبے مں قابضوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح آپ لوگ اس قوم کی تحقیر و توہین کر رہے ہیں، عراقی نوجوان کو منہ کے بل زمین پر لٹا دیتے ہیں اور آپ کا فوجی اس نوجوان کی پیٹھ پر پیر رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہے، آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ عراقی عوام اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ عراقی قوم غیور قوم ہے۔ وہ قابض افواج کے خلاف عراقی عوام کی مزاحمت کا اصلی سبب تلاش کرنے میں لگے ہیں، اس دفعہ بھی ان سے اندازے کی شدید غلطی ہوئی ہے۔ کبھی ایران پر انگلی اٹھائي جاتی ہے تو کبھی شام کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں۔ ارے خود اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے۔ قابض افواج کی موجودگی ہی عراقی عوام کو مشتعل کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ عراق کی سرحدوں کے باہر سے کوئی عراقی عوام کو اکسائے۔ دوسروں کے خلاف الزام تراشی احمقانہ حرکت ہے۔ اصلی ملزم اور مجرم خود آپ ہیں۔ مسئلہ عراق میں سب سے پہلے مرحلے میں امریکی مجرم ہیں۔ دیگر مقامات پر بھی یہی صورت حال ہے۔ خلیج فارس میں جو دنیا کا حساس ترین علاقہ ہے امریکی فوجیوں کی موجودگی کے سبب بد امنی کا شکار ہے۔ خطے کی سلامتی مقامی حکومتوں کے ہاتھوں یقینی بنائی جانی چاہئے۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلے میں امریکہ کی مداخلت سے اس کی پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔
امریکی کی مداخلت سے مسئلہ فلسطین حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکیوں کی مداخلت جتنی بڑھتی جائے گی پیچیدگیوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا۔ فلسطینی قوم ایک بیدار، حریت پسند اور روشن فکر قوم ہے۔ اس نے ایک حکومت کا انتخاب کیا ہے تو اب عوام کی حمایت سے اس حکومت کو کام کرنے دیجئے۔ وہ صیہونی حکومت کے حق میں یکطرفہ طور پر مداخلت کرتے ہیں نتیجتا جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے مسئلہ فلسطین اور بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ مسئلہ عراق بھی حل ہو جائے گآ اور مسئلہ فلسطین بھی نمٹ جائے لیکن تب امریکہ کا اعتبار، وجود اور تشخص بھی مٹ جائے گا۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس سفر میں خواہ وہ آپ کا شہر لار یا لارستان کا علاقہ ہو یا صوبہ فارس کے دیگر مقامات، مجھے اس صوبے اور یہاں کےعزیز عوام کے بارے میں جو باتیں معلوم تھیں جن کے بارے میں مجھے بتایا گيا تھا وہ میں نے خود دیکھیں۔ جہاد کے ایام میں شیراز کے افاضل اور علما و برجستہ شخصیات کے ساتھ میرا بڑا یادگار وقت گزرا ہے۔ جیسا کہ میں نے انقلاب کی تحریک کے آخری سال اور اس سے قبل والے سال میں آیت اللہ شہید سید عبد الحسین دستغیب مرحوم اور دیگر شخصیات کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا اسی طرح آیت اللہ ربانی شیرازی مرحوم بھی تھے جن کا شمار قم کے صف اول کے علما میں کیا جاتا تھا اور بڑے تجربہ کار مجاہد تھے۔ جلا وطنی کے کچھ ایام میں ان کا ساتھ رہا اور مختلف مسائل اور امور پر ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ اسی دوران آیت اللہ دستغیب کے ساتھ میری خط و کتابت ہوئی۔ اسی وقت سمجھ میں آ گیا کہ صوبہ فارس اپنے جہاد میں کس قدر دانائي اور عقلمندی سے کام لے رہا ہے آگے چل کر یہ بات ثابت بھی ہوئي۔ آج بھی جب اسلامی انقلاب کی کامیابی کو تقریبا تین عشروں کا وقت گزر چکا ہے اگر ہم اس صوبے میں پہنچتے ہیں تو تمام شہروں اور پورے صوبے میں انقلاب کی خوشبوں رچی بسی نظر آتی ہے۔ یہ آپ نوجوانوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ یہاں اس میدان میں بھی اور اسی طرح ہر اس شعبے میں جس پر دنیا والوں کی نظریں رہتی ہیں آپ نوجوانوں کی موجودگی صاف محسوس کی جاتی ہے۔
عزیز نوجوانو! ملک آپ کا ہے، آپ کی ملکیت ہے۔ مستقبل آپ کا ہے۔ آپ اپنی طولانی اور خوشبختی سے سرشار عمر کے دوران انقلاب کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے۔ جتنی ہو کسے محنت کیجئے۔ جتنا ممکن ہو کام کیجئے۔ علمی میدانوں میں آگے بڑھئے سعی و کوشش کبھی رکنے نہ پائے۔ اخلاقیات و دینداری، ذکر خدا و تلاوت کلام پاک کی اہمیت کا ادراک کیجئے۔ ان کے سہارے آپ اس مقام تک پہنچیں گے جو ملت ایران کے شایان شان ہے۔
پروردگارا ! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے دلوں کو اسلام کی جانب روز بروز زیادہ سے زیادہ راغب و مائل فرما۔ اسلام سے آشنائي میں اضافہ فرما۔ خدایا ہمارے عزیز عوام پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ خدایا ہمارے نوجوانوں کی حفاظت فرما، ان کی عاقبت سنوار دے۔ انہیں ہدایت دے۔ پروردگارا ان نوجوانوں کے مستقبل کو خود ان کے لئے بھی اور اس ملک کے لئے بھی تابناک بنا دے۔ شہدا کی ارواح طیبہ کو اپنے الیاء کے ساتھ محشور فرما ہمارے امام (خمینی رہ) کی روح مطہر کو بھی اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں بھی شہدا سے ملحق ہونے کی توفیق عطا کر اور ہمارے امام زمانہ کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد کی کابینہ کے اراکین شہر شیراز میں ایک خصوصی اجلاس کے بعد آج شام قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی خدمت مین حاضر ہوئے اور صوبہ فارس کی ترقی و پیش رفت کے عمل کو سرعت بخشنے کے لئے منظور شدہ اہم منصوبوں کی بریفنگ دی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ فارس کی انتطامیہ اور مختلف محکموں کے عہدہ دارو کے اجتماع سے خطاب میں ملت ایران منجملہ صوبہ فارس کے با ذوق اور فہیم عوام کی خدمت کے موقع کو اللہ کی خاص عنایت اور انتہائي لذت بخش قرار دیا اور فرمایا کہ حقیقی معنی میں بے وقفہ عوام کی خدمت اور ان کی عزت و توقیر کے ذریعے اللہ تعالی کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔
صوبے کے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے عزیز عہدہ داروں سے آج کی ملاقات، جو شیراز میں میرے قیام کے آخری دن انجام پا رہی ہے، آپ حضرات کے لئے میری طرف سے کچھ سفارشیں کئے جانے سے بڑھ کر، آپ کے شکرئے اور قدردانی کا موقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نمائش گاہ میں تقریبا تین گھنٹے گزارے۔ نمائش گاہ میں شیراز یونیورسٹی، شیراز میڈیکل کالج، صنعتی اور معدناتی شعبے، زراعت، بجلی، نقل و حمل، دفاعی ٹکنالوجی جیسے شعبوں کے ماہرین اور سائنسدانوں کی نئي ایجادات متعارف کرائی گئیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کل شام صوبہ فارس کے دانشوروں اور اہم شخصیات کے اجتماع سے خطاب میں ، قوم اور دانشوروں کی با ارزش ترین صلاحیتوں، بلند ہمتی، اور جوش و جذبے کو ایرانیوں کا قومی سرمایہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان عوامل کی بنیاد پر ایرانی قوم کا مستقبل بالکل واضح ہے اور اللہ تعالی کی عنایات سے عظیم ملت ایران تاریخ کے اس موڑ پر امت مسلمہ کے لئے اسلامی تہذیب کا احیاء کرے گی ۔
قائد انقالاب اسلامی نے اس سال کے خلاقیت کے نعرے کو، حقیقی نعرہ اور ملک کی ہر لمحے کی ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ خلاقیت سے مقصود، صلاحیتوں کے سامنے آنے اور افکار کے نقطہ کمال پر پہنچنے کی راہ ہموار کرنا، تیز ترقی کے لئے ماضی کے تجربات سے استفادہ اور تابناک مستقل کی تعمیر ہے اور آج یہ فریضہ پوری قوم، دانشوروں اور حکام پر عائد ہے۔
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
الحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين؛ سيّما بقيّةاللَّه فى الارضين.
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے حقیر کو اس سفر میں کازرون کے مومن اور انقلابی عوام کے اس اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ در حقیقت کازرون کے عوام کا مجھ پر یہ حق رہ گیا تھا۔ اپنی صدارت کے دوران جب میں نے صوبہ فارس کا دورہ کیا تھا تو اس وقت مجھے یہ توفیق حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے اس دفعہ توفیق دی کہ اس شہر کی زیارت کروں، جو اپنی درخشاں تاریخ اور انقلاب کی اہم ترین اور عظیم نشانیوں کے لحاظ سے صوبہ فارس بلکہ ملک کا اہم ترین شہر تصور کیا جاتا ہے، اور آپ عزیز بہن بھائیوں کی خدمت میں حاضر ہوؤں۔ یہ اجتماع بھی بحمد اللہ شوق و عشق، معنویت و روحانیت اور انقلابی جذبات و دینی عقیدے کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے آپ کے لئے خاص عنایت ہے کہ جو تاریخ میں راہ خدا میں آپ کی طویل جد و جہد کی جزا ہے۔
کازرون عصری تاریخ میں ایک نمایاں اور بہت اہم شہر رہا ہے۔ خلیج فارس پر برطانوی سامراج کی جارحیت کے وقت کازرون کے جوانوں نے استقامت کی راہ میں خود کو بلند مقام پر پہنچایا۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک اور آیت اللہ کاشانی رضوان اللہ علیہ کی حمایت میں یہاں کے عوام نے سنہری تاریخ رقم کی ہے۔ پندرہ خرداد (چار جون) کے موقع پر کازرون ان شہروں میں شامل تھا جہاں کے عوام نے بہت شجاعت مندانہ اقدام کیا۔ انقلاب کی تحریک کے آخری سال میں بھی کازرونی نوجوانوں اور اس خطے کے غیور عوام نے طاغوتی حکومت کے خلاف ایسی استقامت کا مظاہرہ کیا اور شجاعت کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس وقت جن گيارہ شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا تھا ان میں ایک کازرون بھی تھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس موقع پر بھی کازرون نے شہدا کی شکل میں نذرانہ پیش کیا تھا۔
علم و ادب کے میدان کی ممتاز شخصیات کی پرورش کے لحاظ سے بھی کازرون کی تاریخ بڑی تابناک اور درخشاں ہے۔ تاریخ اسلام کی عظیم اور زندہ جاوید شخصیت حضرت سلمان فارسی کی کازرون سے نسبت، اس خطے کے لئے مایہ افتخار ہے۔ البتہ حضرت سلمان فارسی کا تعلق تمام ایرانیوں سے ہے سارے ایرانی عوام اور سارے فارسی زبان اور فارس کے وہ سارے لوگ جن کی پیغمبر اسلام نے تعریف فرمائي ہے حضرت سلمان فارسی پر نازاں ہیں۔ حضرت سلمان کی نسبت ہمارے پورے ملک سے ہے آپ کا پوری قوم سے تعلق ہے۔ کازرون کے عوام اس علاقے کو اس جلیل القدر صحابی کی جائے ولادت قرار دیتے ہیں، اصفہان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے اصفہان میں نشو نما پائي، دونوں باتوں میں تضاد نہیں ہے۔ شہر شیراز، صوبہ اصفہان شہر کازرون، دشت ارژنہ جو حضرت سلمان فارسی کے مبارک نام کو خود سے منسوب کرتے ہیں اور ان کو اس کا حق بھی حاصل ہے اسی طرح اصفہان کے لوگ جو کہتے ہیں کہ اس الہی شخصیت نے اصفہان میں نشو نما پائی، اور انہیں ایسا کہنے کا حق بھی ہے۔ ان کے علاوہ ایران کے ہر گوشے میں آباد مسلمان حضرت سلمان فارسی کی ذات پر فخر کرتے ہیں۔
قالوا ابوالصّقر من شيبان قلت لهم
كلاّ و لكن لعمرى منه شيبانُ
یہ نہیں کہنا چاہئے کہ سلمان فارسی فارس یا ایران سے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ فارس اور ایران سلمان فارسی سے ہے۔ مقام ایمان، مقام معرفت، مقام جہاد فی سبیل اللہ اور حقیقت کے پاکیزہ سرچشمے تک رسائی کی سعی پیہم کسی انسان کو اس منزل پر پہنچا دیتی ہے کہ پیغمبر کا ارشاد ہوتا ہے کہ سلمان منا اھل البیت،آپ کو اپنے اہل بیت کا جز قرار دیا۔ حضرت ابو ذر، عمار ، مقداد اور دیگر عظیم صحابائے کرام علو درجات کے لحاظ سے حضرت سلمان فارسی کے بعد آتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ یہ ایرانی نوجوان کے لئے ایک نمونہ ہے۔ یعنی حقیقت کی جستجو میں ڈوب جانا اور اسے حاصل کرکے اس پر ثابت قدم ہو جانا وہ کیمیا ہے جس نے سلمان کو سلمان بنا دیا۔ اسی طرح استقامت، خلوص اور اس حق پر عقیدہ جو آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے، کازرون کے عوام کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے نتیجے مین کازرون کےعوام کانام اس شہر کا نام ملک کی تقدیر اور مستقبل سے لگاؤ رکھنے والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے درج ہو گيا ہے۔ یہ ہیں حقیقی فضیلتیں۔ اسلامی اقدار کے تعین میں ہم اس قسم کی اقدار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کازرونی زن و مرد، اور نوجوانوں کو اسلام میں اپنی سربلندی اور قدر و منزلت کی حفاظت کے لئے ان فضائل پر توجہ دینا ہوگی۔ اس حق بات پر استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کی انہیں شناخت ہو چکی ہے، جس سے انہیں قلبی لگاؤ اور جس کی انہوں نے پیروی کی ہے۔ یہ باعث عز و شرف ہے۔ اشراف امتی حملۃ القرآن و اصحاب اللیل لوگ دولتمندوں اور اہم منصب پر فائز افراد کا شمار امرا اور شرفا میں کرتے ہیں لیکن اسلام میں شرفا کے لئے معیار ذرا مختلف ہے۔ جو راہ خدا میں زیادہ تندہی سے جد و جہد کرتا ہے، جو الہی اصولوں سے متمسک ہے، جو اس راہ میں سچآئي اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اللہ تعالی کے نزدیک اس کا شمار شرفا میں ہوتا ہے۔
کازرون کے عزیز شہریوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ ملک کے حکام اور اس حقیر سے محبت کرتے ہیں اسی طرح ہمارے دل بھی آپ کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
میں نے کازرونی عوام کی انقلابی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا۔ صرف اسی بنیاد پر طاغوتی حکومت کے زمانے میں کازرون بلکہ ایک لحاظ سے پورا صوبہ فارس شاہی غیظ و غظب کا نشانہ تھا۔ آپ شیراز کے بارے میں پڑھئے اور اس طاغوتی حکومت کے دور میں نیا کلچر رائج کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیجئے۔ اب آپ اس کا جائزہ لیجئے کہ ایک حکومت کسی صوبے کی ترقی و پیش رفت کے لئے کیا کام انجام دیتی ہے۔ طاغوتی دور حکومت میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر کوئي توجہ ہی نہیں دی گئی تھی۔ صوبے کی سڑکیں ٹھیک نہیں تھیں۔ صوبے میں پانی کی سپلائی میں مسائل تھے، بند کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر اور صوبے میں بڑی بڑی صنعتیں لگانے سے گریز کیا گیا۔ ملک کے قلب میں واقع صوبہ جو اس عظیم تاریخ کا مالک ہے مواصلاتی لحاظ سے ملک کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہے۔ اس لئے کہ اس کی ترقی سے دلچسپی نہیں تھی۔ طاغوتی حکومت کے دور میں اس صوبے بلکہ پورے ملک کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں حکام میں دلچسپی، ہمدردی اور سنجیدگی تھی ہی نہیں۔ زاویہ نگاہ مختلف تھا، کچھ الگ ہی حساب کتاب تھا۔
آپ غور کریں کہ جب ملک میں ریل گاڑی آئی تو سب کے ذہنوں میں خیال آیا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے مرکز کو ریل پٹری کے ذریعے وسطی صوبوں یعنی فارس اور اصفہان سے گزر کر خلیج فارس سے متصل کر دیا جائے گا۔ یہ بالکل فطری بات نظر آتی تھی۔ لیکن یہ کام نہیں کیا گيا۔ برطانیہ کا وہ سیاسی مصنف جو خود ایک سیاستداں اور ملک کے ساتھ خیانت کرنے والے سامراجی نظام سے وابستہ ہے، اپنی ایک کتاب میں جس کا فارسی ترجمہ ایران و قضیہ ایران کے عنوان سے شائع ہوا ہے اعتراف کرتا ہے کہ ایران کی ریل سروس تہران سے شروع ہوکر ملک کے وسطی علاقوں صوبہ اصفہان اور صوبہ فارس سے گزرتی ہوئی خلیج فارس تک پہنچنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گيا۔ طاغوتی دور میں جب رضاخان کی حکومت تھی ریل پٹری اس ملک کی دشمن تصور کی جانے والی طاقتوں یعنی برطانیہ اور روس کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، بچھائي گئی اور اس کا نام قومی ریل پٹری رکھ دیا گیا! سراسر غلط کہاں کی قومی ریل پٹری؟ ان دنوں برطانیہ اور روس کو ایران کی دو سمتوں میں ہتھیار اور فوجی ساز و سامان منتقل کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے، ان کے لئے تیل کی دولت لوٹنے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے خلیج فارس سے وہ بھی خاصے فاصلے کے بعد سے تہران تک ایک ریل پٹری بچھائی گئي۔ وہاں سے کیسپین سی کے بعض علاقوں تک رسائي کے مسئلے پر توجہ دی گئی تاکہ برطانیہ اور روس کے درمیان رابطہ آسان رہے۔ یعنی ایک ملک کی ترقی کے پروجکٹ یعنی ریل پٹری بچھانے میں اس حد تک سامراجی طاقتوں کا اثر و رسوخ رہتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے ملک کے قلب میں واقع شیراز ریل کی پٹری سے محروم رہا۔ لیکن اللہ تعالی کی مدد سے انقلاب کے ان ابتدائي برسوں میں ہی، مواصلاتی میدان میں اس علاقے میں کافی کام ہوا ہے۔ اسی طرح اس خطے کو ملک کے دیگر علاقوں سے جوڑنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کے زمانے میں ریل کی پٹری بچھائي جائيگي۔ یہ کام انجام دیا جائےگا یہ صوبہ فارس کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔ بالخصوص ان برسوں میں تمام شعبوں میں حوصلہ افزا کام ہوئے ہیں صنعتی میدان میں بند بنانے کی ٹکنالوجی میں اسی طرح دیگر میدانوں میں دیگر صوبوں کی مانند صوبہ فارس کے بھی شایان شان اقدامات کئے جائيں یہ عوام کا حق ہے جو حکومتیں انہیں دلائيں گي اور انشاء اللہ تعالی یہ حق انہیں ملے گا۔ ملت ایران نے اس عظیم ہدف اور مقصد کےحصول کے لئے اپنا پورا وجود داؤں پر لگا دیا۔ اسلامی انقلاب کے دوران قوم کو اپنے تشخص کا احساس ہوا۔ اس قوم کے دشمن ہمیشہ یہ چاہتے تھے اور اس کوشش میں رہتے تھے کہ اس قوم کا تشخص مٹا دیں۔ کیونکہ جب ایک قوم سے اس کا تشخص چھن جائے گا تو اسے بآسانی زیر کیا جا سکے گا۔ دشمن اس کے لئے اس قوم کے ماضی اور اس کے پاس موجود بے پناہ وسائل کی نفی کرتے تھے اس کے اندر موجزن صلاحیتوں کا انکار کرتے تھے کیوں؟ تاکہ اس قوم اور اس ملک کو آسانی سے اپنا دست نگر بنا لیں۔ یہ کام ثقافتی زوال کے دور یعنی پہلوی دور اقتدار میں انجام پا رہا تھا اور روز بروز اس عمل میں شدت آتی جا رہی تھی۔
اسلامی جمہوریہ نے سمت اور رخ کو ایک سو اسی درجہ تبدیل کر دیا۔ ملت ایران کو اپنے تشخص کی فکرہونے لگی، اسے اپنے اسلامی تشخص کا احساس ہوا کہ جو اس کے ایرانی تشخص کا بھی سرچشمہ ہے۔ اسے احساس ہو گیا کہ اپنے گمشدہ یا گم کردہ ایرانی، اسلامی تشخص کو دوبارہ حاصل کرنا ہے اور اسی کی بنیاد پر اپنی منزلیں اور اہداف طے کرنا ہے، منصوبہ بندی کرنا ہے اور اسی تناظر میں سعی پیہم انجام دینا ہے۔ یہ کام ہماری قوم نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے اور کر رہی ہے۔ میں ناامیدی اور مایوسی کی باتوں میں یقین نہیں رکھتا۔ میں ایسے نظریات کا منکر ہوں۔ میں ملک کے گوناگوں مسائل اور عظیم الشان ملت ایران کی صورت حال کےپیش نظر کہتا ہوں کہ یہ قوم اور اس قوم کے نوجوان تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد انقلابی اقدار کے زیادہ گرویدہ اور اس راہ کے تجربہ کار سپاہی بن چکے ہیں، ان کے ارادوں میں زیادہ استحکام پیدا ہوا ہے۔
انقلاب کا جوش کسی شعلے کی مانند بلند ہوتا ہے، ممکن ہے آگے چل کر اس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن اگر اس کے ساتھ سلیقے سے رکھی گئی لکڑیوں میں بھی اس کی حرارت منتقل ہو رہی ہے تو یہ آگ شعلہ ور رہے گی، یہ آگ زیادہ طاقتور بنے گی، اس کی حرارت میں اضافہ ہوگا۔ وہ پہلی آگ ممکن ہے اب باقی نہ رہے لیکن اس سے وجود میں آنے والے شعلوں میں پائداری ہوگی۔ اس کا دائرہ روز بروز بڑھےگا۔
آج ملت ایران کے دشمن سراسیمگی کا شکار ہیں، ملت ایران کی مسلسل پیش قدمی سے مضطرب ہیں۔ میں کازرون میں بسنے والے تمام دوستوں اور اس اجتماع میں موجود بھائي بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوری نظام کا دشمن یعنی عالمی سامراجی نیٹ ورک، جس میں امریکہ ہی نہیں بلکہ عالمی اقتصادی نیٹ ورک کے مالکان، جو آج دنیا میں حکومتیں لاتے اور سرنگوں کرتے ہیں، خود ان ملکوں میں جہاں انہیں جمہوریت کے حامی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ خود امریکہ اور ان ممالک میں جو صیہونزم کی چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں انہیں کا سکہ چلتا ہے، وہ ہیں ملت ایران کے دشمن۔ اسی طرح اس عالمی سامراجی نیٹ ورک کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے والی حکومتیں، یہ سب اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کے سامنے اپنے مفادات کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے دشمن۔ اس دشمن نے ملت ایران کے مقابلے میں تمام وسائل اور ہر ممکن طریقے کا استعمال کیا لیکن پشیمانی کے سوا کچھ اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ ان تیس برسوں میں انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کے بس میں جو بھی تھا انہوں نے کیا۔ اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف اس لئے کہ نفع و نقصان کے حساب کتاب میں انہیں یہ لگا کہ ایسا کرنا فائدےمند نہیں ہے۔ اس میں نقصان زیادہ ہے۔ ورنہ انہوں نے اس قوم کے خلاف ہر وہ اقدام جو ان کے لئے ممکن تھا اور جس میں ان کا بڑا نقصان نہیں تھا، کیا ہے۔ انہوں نے اقتصادی محاصرہ کیا ہے، فوجی حملہ کیا ہے، فوجی بغاوت شروع کروائي ہے۔ ملک کے اندر سے اپنے لئے مہرے تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں، ایسے عناصر کو تلاش کرکے انہیں انقلاب کے خلاف پروپگنڈہ کرنے اور منفی فضا قائم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ حتی انہوں نے ملک کے کمیونسٹوں سے ساز باز کی ہے۔
امریکی سامراج جو کسی زمانے میں مارکسزم اور کمیونزم کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا، ملت ایران کے مقابلے میں اسی سامراج نے ادھر ادھر ناکارہ پڑے کمیونسٹوں کو تلاش کرکے ان سے سازباز کر لی کہ شائد ملت ایران پر کوئي کاری ضرب لگائی جا سکے لیکن ناکامی، سامراجی طاقتوں کے گلے کا طوق بن گئی، ملت ایران نے انہیں ہزیمت سے دوچار کیا۔
ہمیں اس کا علم ہونا ضروری ہے کہ اس شکست خودہ دشمن کی ہمارے خلاف کیا سازشیں ہیں۔ ہمیں پوری طرح بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ العالم بزمانہ لا تھجم علیہ اللوابس اگر آپ کو حالات کا علم ہے، دشمن کی پہچان ہے، اس کی سازشوں کی خبر ہے تو آپ کبھی بھی غافل نہیں ہوں گے۔ ایرانی قوم کو یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ بحمد اللہ ہماری قوم بیدار ہے، یونیورسٹیوں اور دینی مراکز میں بڑی تعداد روشن فکروں، دانشوروں اور آگاہ افراد کی ہے جو عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوان قابل تعریف ترقی کر چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے عوام اور ہمارے بسیجی (رضاکار) نوجوان علم و دانش، تجربہ و مہارت اور سائنس و ٹکنالوجی کے پیچیدہ مراحل میں بہت آگے پہنچ چکے ہیں۔ ہماری قوم اس طرح کی قوم ہے۔ بہرحال حالات سے با خبررہنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آج دشمن جس چیز پر سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ تقرقہ اندازی ہے۔ سیاسی نظریات میں تنوع، صوبائي اختلاف رای اور مذاہب کا تنوع اس تفرقہ انگیزی کے بہانے ہیں۔ عالم اسلام کی سطح پر بھی یہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ میں نے حال ہی میں ایک رپورٹ دیکھی ہے، ابھی کچھ ہی ہفتوں قبل برطانوی پارلیمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عالم اسلام کے ان مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد نہیں ہے اور پھر ان کو بنیاد قرار دیکر اختلافات کو ہوا دی جائے فرقوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے۔
ایک حربہ نوجوانوں کو ورغلانے کا ہے۔ میں نے کئي سال قبل بھی ملک کے نوجوانوں سے کہا ہے کہ ملک آپ کا ہے۔ آپ علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کی سمت بڑھئے۔ یونیورسٹی کے طلبا نے اس پر عمل بھی کیا۔ تجربہ کار اساتذہ نے شب و روز کی تر خلوص محنت سے علمی کارواں کو آگے بڑھایا ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ دس، پندرہ سال قبل کے مقابلے میں ملک کی سائنسی ترقی بہت نمایاں نظر آ رہی ہے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ نوجوانوں کو عبث اور بے سود کاموں اور لہوو لعب میں مصروف کر دینا اور انہیں ملت ایران کی انقلابی زندگی کے راستے سے منحرف کر دینا دشمنوں کا بہت بڑا ہدف ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی پاکدامنی اور تقوا و پرہیزگاری سے آراستہ ان کی زندگی دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
اس کے مقابلے میں ہمیں اپنا تحفظ کرنا ہوگا۔ ملت ایران اپنے اتحاد و یکجہتی، سعی و کوشش اور کاملیت کے اوج کی سمت پیش قدمی کی تحریک کے ذریعے دشمن کو زیر کیا جا سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالی ہم کو دشمن پر فتح حاصل ہوگی۔
اللہ تعالی نے ان تیس برسوں میں ہر آن ہماری مدد فرمائی ہے۔ مختلف مواقع اور مراحل پر اس قوم کے لئے غیبی امداد اور توفیق الہی کا مشاہدہ کیا گيا ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہی ہے کہ آج جو حکومت سامراج کا مظہر ہے یعنی امریکی حکومت وہ بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ امریکہ کی ناکامیاں معمولی نہیں ہیں۔ آپ گزشتہ سات، آٹھ برسوں پر ایک نظر ڈالیں، اسے فلسطین میں شکست ملی، قوموں کے اذہان سے فلسطین کا نام مٹا دینے کی کوششوں میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی، عراقی عوام کی تقدیر و مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ امریکہ، عراق میں جو پٹھو حکومت لانا چاہتا تھا وہ اقتدار میں نہیں پہنچ سکی۔ ابھی دو، تین دن قبل امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار نے اعلان کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کا حملہ مشرق وسطی کی تیل کی دولت کے لئے کیا گيا۔ اس امیدوار کے بیان سے امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں زلزلہ سا آگیا ہے۔ یہ بات تو ہم نے شروع ہی میں کہی تھی۔ جب امریکہ عراق پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھا ہم نے اسی وقت اعلانیہ کہا تھا کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ آپ کی یہ بات جھوٹ ہے کہ آپ عراقی عوام کو آزادی دلانے آئے ہیں۔ بالکل نہیں، آپ تو عراقی عوام کو اسیر بنانے کے لئے آئے ہیں۔ چو دیدم عاقب گرگرم تو بودی صدام امریکی افواج کے مقابلے میں کمزور بھیڑیا تھا۔ امریکی آئے، ہم نے کہہ دیا کہ تیل کے لئے آئے ہیں۔ عراق ہی نہیں پورے خطے کی تیل کی دولت کے لئے ان کا آنا ہوا ہے۔ اس آمد کا مقصد خلیج فارس میں سیاست نہیں بلکہ طاقت کے بل پر ایک مرکز قائم کرنا ہے۔ امریکی اس نیت کے ساتھ آئے تھے۔ اب امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار صریحی طور پر اعتراف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس ایک منصوبہ ہے جو امریکہ کو مشرق وسطی کے تیل کے ذخائر سے بے نیاز کر دےگا اور امریکہ اپنے جوانوں کو میدان جنگ میں بھیجنے کے لئے مجبور نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام اپنی حکومت کی حکمت عملی سے، جنگ عراق اور عراق پر غاصبانہ قبضے سے اس درجہ متنفر ہیں کہ صدارتی امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسی بات کو موضوع اور اشو قرار دے رہا ہے۔
تو کیا یہ امریکی حکومت کی ناکامی نہیں ہے؟ اس سے بھی بڑی شکست ہو سکتی ہے؟ فلسطین میں انہیں ہزیمت ہوئی۔ عراق میں ناکامی ہوئی۔ کمزور سے ملک افغانستان پر بھی تو وہ تسلط قائم نہیں کر پائے۔ لبنان میں ان کی سازشیں شکست سے دوچار ہوئيں۔ البتہ ان کی دریدہ دہنی جاری ہے، دھمکیاں دئے چلے جا رہے ہیں۔ بڑی طاقتیں دوسروں پر رعب جمانے کے لئے مسلسل دھمکیوں کا سہارا لیتی ہیں۔ ملت ایران کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے۔ یہ قوم امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں اور عالمی غنڈوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور نہ ہی کبھی لائے گی۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرے عزیزو! کازرون کے بلند ہمت نوجوانو! با ایمان جیالو! ملک بھر کے نوجوانو! مرعوب نہ ہونا بہت اچھی صفت ہے۔ شجاعت بہت بڑی خصوصیت ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے آشانائی اور آگاہی بہت ضروری ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ یہ سب لازمی چیزیں ہیں لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ ہم سب کو مل کو کوشش کرنا ہوگی۔ حکومت اور عوام کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ ملک اسلامی ملک کے قابل اتباع نمونے میں تبدیل ہو جانا چاہئے۔ اقتصادی اور ثقافتی پہلوؤں پر عوام ، حکام اور نوجوانوں کی پوری توجہ ہونی چاہئے۔ ہر کسی کو ذمہ داری کا پورا احساس ہونا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے صحیح معنی میں عہدہ برآ ہوں اور حکام، عوام کے تعاون سے ملک کو اس مقام تک پہنچائیں جو اسلام کے مبارک نام کے شایان شان ہے تو راستہ یہی ہے کہ عوام کے درمیان اور عوام و حکام کے مابین رابطہ براہ راست، مضبوط اور دوستانہ ہو جس طرح آج نظر رہا ہے۔ جو بھی قوم کو تفرقے کی سمت لے جائے جو بھی قوم اور حکام کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہے، جو بھی اختلافات کو ہوا دے وہ در حقیقت ملت اور قوم کے مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ وہ خواہ کوئي بھی ہو۔
باہمی اتحاد و اتفاق، ایک دوسرے کے سلسلے میں حسن ظن کی نعمت کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ لولا اذ سمعتمواہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا(سورہ نور/62) ایک دوسرے سے دل صاف رکھئے۔ شانہ بشانہ آگے بڑھئے اور یقین رکھئے کہ اللہ تعالی ایسی قوم کو، ایسے پاکیزہ قلوب کو، اس بلند ہمتی کو اپنی توفیقات اور عنایات کا سہارا دےگا۔ بحمد اللہ خدا وند عالم کے فضل و کرم سے قوم پوری طرح آمادہ ہے، ملک کے عہدہ داران آمادہ ہیں، عوام کی خدمت پر کمربستہ ہیں۔ یہ قوم اور یہ حکام تمام مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دشمن کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی عمر اتنے برس کی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ سارے کے سارے دشمن اسلامی جمہوریہ کے زوال کی تمنا اپنی قبر میں لے جائیں گے اور ملت ایران سربلندی و سرفرازی اور عزت و سرخروئی کےساتھ روز بروز ترقی کی نئی نئي منزلیں طے کرے گی۔ ممکن ہے اس دن ہم نہ رہیں لیکن یہ نوجوان طبقہ موجود ہوگا۔ آپ یاد رکھیں کہ کامیابی کا راستہ وہ ہے جس پر اسلام اور خدا نے چلنے کو کہا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ با برکت ملک اور تہذیب و ثقافت کا یہ گہوارہ اپنے اصلی مقام پر پہنچے اور دیگر ممالک کے لئے نمونہ عمل بنے تو راہ اسلام اور اس راہ سے تمسک کو کبھی فراموش نہ کیجئے۔ دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ عزیزوں کے شامل حال ہوں۔
میں آپ کی نوازشوں، اس اجتماع، اجتماعی طور پر پورے جوش وجذبے کے ساتھ پڑھے گئے ترانے پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیشہ کازرون کے عوام اور پورے صوبہ فارس پر اپنی رحمتوں، برکتوں اور عنایات کا سایہ رکھے گا اور اپنے الطاف کو آپ کے شامل حال کرے گا۔
خدایا! ان عزیز نوجوانوں، ان عزیز حاضرین اور بہن بھائيوں کے قلوب کو اپنی ہدایت سے منور فرما۔ ملت ایران کو سربلند و سرفراز کر۔ دشمنوں پر فتح سے ہمکنار کر، دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر۔ پروردگارا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔ ہمیں ان کے اعوان و انصار میں قرار دے، شہدا اور شہیدوں کے امام (امام خمینی رہ) کے درجات میں روز بروز اضافہ کر۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صوبہ فارس کے کازرون شہر میں دسیوں ہزار لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں ، ترقی و شادابی کی سمت ایرانی قوم کے بڑھتے قدم اور مضبوط بنیادوں نیز عوام خاص طور پر نوجوانوں میں انقلابی جوش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت اور قوم کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنے مستحکم و قریبی تعلقات کی حفاظت کے ساتھ ، اسے تمام پہلوؤں سے ایک اسلامی نمونہ عمل بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ جس کے لئے عوام کے ہر فرد اور تمام حکام میں ذمہ داری کا احساس ، اتحاد اور ایک دوسرے کے سلسلے میں حسن ظن ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایرانی و اسلامی شناخت کی بازیابی اور ایرانی و اسلامی شناخت کے دائرے میں معین اہداف کے تکمیل کے لئے منصوبہ بندی اور کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے تیس برسوں کے بعد ، اعلی مقاصد کی جانب ایرانی قوم خاص طور پر نوجوانوں کے بڑھتے قدموں اور ان کی ترقی میں تیزی آئی ہے اور یہی بات ایرانی قوم کے دشمنوں کی شکست کا باعث بنی ہے ۔