قائد انقلاب اسلامی نے آج صبح ملک بھر سے تہران آنے والے ہزاروں افراد سے خطاب میں، جمعے کے روز منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی عزت و سربلندی کے لئے عظیم قومی امتحان قرار دیا اور فرمایا کہ ہوشیار اور مضبوط قوت ارادی کی مالک ایرانی قوم اس دینی و سیاسی فریضے کو ادا کرکے ایک بار پھر عالمی سامراج اور بالخصوص امریکا کو مایوس کر دے گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں تمام بھائي بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو قرب و جوار اور دور دراز سے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں اس محفل کو رونق بخشی ہے۔
میں ماہ ربیع الاول کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور عالم انسانیت کے لئے اہم ترین تاریخی موڑ کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کے پہلے دن، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت فرمائي، مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے، اسی دن سے مسلم معاشرے میں ہجری سال کا آغاز ہوا۔ اس طرح اس مہینے میں ولادت اور ہجرت کی دو بہاریں ہیں۔
پیش نظر اقوال مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہربار احادیث اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات کا وہ انتخاب ہے جو قائد انقلاب اسلامی نے احادیث کی معتبر کتب سے فقہ کے دروس میں حسن آغاز کے عنوان سے مختصر شرح و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ایران میں ہفتہ احسان و نیکو کاری چل رہا ہے۔
اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ضرورتمندوں کی مدد فرمائی۔
آپ نے غریبوں اور ضرورتمندوں کو تقریبا دس لاکھ روپئے کی امداد دی۔
یہ رقم نیشنل بینک میں امام خمینی(رہ) امدادی کمیٹی کے اکاونٹ نمبر3333 میں جمع کرائي گئي۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیتوں اور سامراجی حلقوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک پیغام جاری فرمایا جو مندرجہ ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عظیم مسلم امہ، عزیز ملت ایران!
ان دنوں غزہ میں بڑی بھیانک اور دردناک وارداتیں ہو رہی ہیں، ان پر اپنے غم و اندوہ کو زبان و قلم سے بیان کر پانا ممکن نہیں۔ بےگناہ بچے، عورتیں اور مرد، مہینوں محاصرے کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد اب اپنے گھروں میں صیہونی بربریت اور درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیوں کے طلبا نے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں قائد انقلاب اسلامی کی اقتدا میں نماز مغرب و عشا ادا کی جس کے بعد مجلس و ماتم برپا ہوا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سنگال کے صدر عبد اللہ واد سے ملاقات میں، امریکہ اور بڑی طاقتوں کی زبان کو دھونس اور دھمکی کی زبان قرار دیا اور فرمایا کہ اگر مسلم ممالک متحد ہو جائيں تو یہ زبان بے اثر ہو جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی نظام کے بنیادی اصولوں اور معیاروں پر عوام اور حکام کی پابندی، ان کے بر ملا اور بے جھجک اظہار و بیان اور میدان عمل میں آگاہانہ موجودگی اور استقامت، جوہری توانائي اور دیگر شعبوں میں ملک کی ترقی اور نظام کی سربلندی کا باعث ہے۔
مقدمہتقلیدطہارتوضوغسلتیمماحکام میتقبلہنماز کے اوقاتنمازی کا لباسنمازی کی جگہمسجد کے احکامواجبات نمازنماز جماعتنماز جمعہمسافر کی نمازنماز قضا روزہروزہ کو باطل کر دینے والی چیزیںاعتکافخمساحکام حجکچھ سوالات کے جوابات
مقدمہ
انسان کے اعمال کا صحیح یا غلط ہونا اس بات سے وابستہ ہے کہ وہ دینی مسائل کو کتنا جانتا اور اس کی بنیاد پر کتنا عمل کرتا ہے۔ اور دینی مسائل سے آشنائی کا ایک راستہ یہ ہے کہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید اور پیروی کی جائے۔مرجع تقلید کے فتوے معلوم کرنے کے لئے اس کے رسالہ کو دیکھا جاسکتا ہے جس میں مرجع تقلید کے فقہی نظریات بیان کئے گئے ہوں اور جس کے صحیح ہونے کے بارے میں ہمیں اطمینان ہو۔آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی طاب ثراہ کی رحلت کے بعد چونکہ بہت سے مومنین نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کی تقلید اختیارکی ہے، اور آپ کا رسالہ عملیہ چونکہ زیرترتیب اور ابھی شایع نہیں ہو سکا ہے نیز یہ کہ اجوبۃ الاستفتاآت کے عنوان سے ابتک جو کچھ منظر عام پر آیا ہے اس میں تمام ضروری اور روزمرہ کے مسائل موجود نہیں ہیں لہذا ہم نے ضروری سمجھا کہ مذکورہ کتاب اور معظم لہ سے کئے گئے دیگر سوالات اور ان کے جوابات کو مد نطر رکھ کر جو موصوف نے دیئے ہیں،حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور رہبرمعظم کے فتووں میں موجود اختلاف کو ایک مجموعہ کی صورت میں ترتیب دےدیں تاکہ آپ کے وہ تمام مقلدین جو پہلے امام خمینی(رح)کے مقلد رہ چکے ہیں،دونوں کے فرق کو سمجھ کر آپ کے فتووں تک رسائی حاصل کر سکیں۔
یاد دہانی
*-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ کے مقلدین،زیر نظر مجموعہ میں ذکر شدہ اختلاف فتاویٰ کی روشنی میں اپنے شرعی فریضہ پر عمل کرسکتے ہیں۔ اور اگر ذکر شدہ امور کے علاوہ ان کے سامنے کچھ اور مسائل ہوں تو ان کے بارے میں استفتاء کرسکتے ہیں۔
*-اس مجموعہ میں بیان شدہ بعض امور میں فتووں کا، اختلاف نہیں ہے بلکہ احکام سے متعلق کسی حکم کے بارے میں الگ سے کوئی توضیح یا اضافہ مقصود ہے۔
*-آیۃ اللہ العظمیٰ حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آپ کی تحریر الوسیلہ،کی توضیح المسائل یا عروۃ الوثقٰی کے حواشی سے اخذ کئے گئے ہیں۔
*-اختصار کی خاطر فتووں کے حوالے ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔ضرورت کی صورت میں اصل کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے جونشر معروف قمنے شایع کی ہیں۔
*-اس سائٹ پر جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے داہنی طرف کے ستون میں فہرست وار اور اسی سلسلے میں آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کے فتوے سامنے والے ستون میں نقل کئے گئے ہیں۔
تقلید
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے
۱۔ اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے جو مرد، بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو۔ نیز احتیاط واجب کے تحت اس مجتہد کی تقلید کریں جو دنیا کا حریص نہ ہو اور اپنے زمانے کے مجتہدین سے اعلم ہو۔
۱۔ اگر ایک ہی وقت میں کئی جامع الشرائط، فقہا موجود ہوں اور ان کے فتووں میں اختلاف ہو تو احتیاط واجب کے تحت مقلد اس مجتہد کی تقلید کرے جو ان میں اعلم ہو لیکن اگر اعلم کے فتوے احتیاط کے منافی اور غیر اعلم کے فتوے احتیاط کے موافق ہونا ثابت ہوجائے تو اس صورت میں اعلم کی تقلید واجب نہیں ہے۔
۲۔ اعلم وہ ہے جو کسی مسئلہ کے قواعد اور الٰہی احکام کے سر چشموں کو بہتر طور پر جانتا ہو۔ اور اسی مسئلہ کی طرح دیگر مسائل اور روایات کے سلسلہ میں بھی زیادہ معلومات رکھتا ہو اسی طرح روایات کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ مختصر یہ کہ جو شخص احکام شرعی کے استنباط میں زیادہ ماہر ہو۔
۲۔ اعلم وہ ہے جو دلیلوں کے ذریعہ حکم خدا کی شناخت اور الہی فرائض کے استنباط میں دوسرے مجتہدین سے زیادہ قوی ہو اور اپنے زمانے کے حالات کی شناخت بھی مجتھد کے اجتہاد میں اس حد تک دخیل ہے کہ جتنی احکام شرعی کے موضوعات کی تشخیص اور احکام شرعی کے بیان کے لئے فقہی رائے کا مالک ہونا دخیل ہے۔
۳۔ ابتداءاً تقلید میت جائز نہیں ہے۔
۳۔ کسی مرحوم مجتہد کی تقلید، ابتدائی تقلید کی صورت میں احتیاط واجب کی بنیاد پر جائز نہیں ہے۔سوال: وہ نوجوان جو نئے نئے بالغ ہوئے ہیں اور انھوں نے آپ کی تقلید اختیار کی ہے چونکہ تقلید کی ابتدا کر رہے ہیں اور ان کے لئے شرعی مسائل سے آشنائی ضروری ہے، تو کیا وہ امام خمینی (قدس سرہ) کے رسالے سے استفادہ کرسکتے ہیں؟جواب: عمومی مسائل میں،جن کی ہمارے عزیز جوانوں کو ضرورت ہے حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے رسالے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر اپنے کسی مسئلہ کا جواب اس میں نہ ملے تو استفتاء کرسکتے ہیں۔
طہارت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ آب کر کلو گرام کے مروجہ وزن کے اعتبار سے تقریباً ۴۱۹/ ۳۷۷ کلو گرام ہے۱۔ تقریبا ۳۸۴ لیٹر ہے
۲۔ سوال: طہارت کے لحاظ سے اہل کتاب کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے؟جواب: غیر مسلم کسی بھی دین یا مذہب سے کیوں نہ ہو نجاست کا حکم رکھتا ہے۔
۲۔ سوال: (اہل کتاب) طہارت کے حکم میں ہیں یا نجاست کے؟جواب: اہل کتاب کی ذاتی نجاست، ثابت نہیں ہے، ہماری نظر میں وہ ذاتی طہارت رکھتے ہیں۔اہل کتاب میں یہودی، عیسائی، زرتشتی،اور صابئی شمار ہوتے ہیں۔
۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ یا بیٹ نجس ہے۔
۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ نجس نہیں ہے۔
۴۔ جو خون انڈوں میں ہوتا ہے وہ نجس نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اور اگر خون کو انڈے کی زردی میں اس طرح ملادیں کہ اس کا وجود ختم ہوجائے تو زردی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۴۔ انڈوں میں پایا جانے والا خون پاک ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے۔
۵۔ سوال: وہ چمڑا جو بیرونی ممالک سے آتا ہے اور جس سے جوتے وغیرہ بنتے ہیں وہ پاک ہے یا نجسَ۔جواب: جو چمڑا اسلامی ممالک سے آّتا ہے وہ طہارت کا حکم رکھتا ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ غیر شرعی طریقے سے ذبح ہوا ہے۔ اسی طرح غیر اسلامی ممالک سے آنے والا چمڑا نجس ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا آپ اس بات کا احتمال دیں کہ ملک میں درآمد کرنے والا مسلمان ہے جس نے حیوان کے تزکیہ کے بعد چمڑا مسلمانوں کے اختیار میں دیا ہے۔
۵۔ سوال: اس گوشت، چمڑے اور حیوانی اعضاء کے سلسلہ میں اپنی مبارک نظر تحریر فرمائیں جو غیر اسلامی ممالک سے فراہم کیا گیا ہےَ۔جواب: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ حیوان کو اسلامی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے تو پاک ہے اور اگر یقین ہو کہ اسلامی طریقہ سے ذبح نہیں ہوا ہے تو نجس ہے۔۶۔ شراب اور ہر وہ چیز جو انسان کو مست کردیتی ہے اگر قدرتی طور پر بہنے والی (سیال) ہے تو نجس ہے۔۶۔ مست کردینے والے مشروبات احتیاط کی بنیاد پر نجس ہیں۔۷۔ جو چیز کسی نجس چیز میں مل کر نجس ہوگئی ہو اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو اس کو بھی نجس کردیتی ہے اور اسی طرح تین مرحلوں تک نجاست کا یہ سلسلہ رہے گا لیکن اس کے بعد نجاست نہیں پھیلے گی۔۷۔ جو چیز عین نجس سے لگنے کی وجہ سے نجس ہوچکی ہے وہ اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے اور اِن دونوں میں کوئی ایک چیز تر ہو تو وہ پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ اور اگر یہ چیز جو نجس چیز سے مل کر نجس ہوئی ہے یعنی (متنجس) پھر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو بنا بر احتیاط اس پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ لیکن یہ آخر میں نجس ہونے والی چیز (متنجس سوم) کسی اور چیز میں لگے تو اس چیز کو نجس نہیں کرے گی۔۸۔ اگر کسی مسلمان کا لباس یا اس کا بدن یا اس کی کوئی اور چیز مثلا برتن یا بستر وغیرہ (جو اس کے استعمال میں ہو) نجس ہوجائے اور پھر یہ مسلمان غائب ہوجائے تو اگر یہ احتمال ہو کہ غائب ہونے والے نے اس چیز کو پاک کر دیا ہوگا یا وہ چیز اس کے ذریعہ مثلا آب جاری میں گرنے سے پاک ہوگئی ہے، تو اس چیز کے استعمال سے پرہیز ضروری نہیں ہے۔۸۔ اگر یقین کہ کسی مسلمان کا بدن، لباس یا اس کی کوئی اور ذاتی چیز نجس ہوگئی ہے اور ایک مدت تک وہ مسلمان دکھائی نہ دے اور پھر جب دکھائی دے تو وہ مسلمان اس چیز سے پاک چیزوں کی طرح کام لے رہا ہو تو وہ چیز طہارت کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن شرط ہے کہ اس چیز کا مالک اس کی پہلی نجاست سے اور طہارت و نجاست کے احکام سے واقف ہو۔۹۔ پیشاب کا مقام پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک نہیں ہوتا اور اگر مرد پیشاب کے بعد ایک بار دھولیں تو کافی ہے لیکن عورتیں اور اسی طرح وہ لوگ جن کا پیشاب غیر فطری مقام سے خارج ہوتا ہے ان کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ دو بار دھوئیں۔۹۔ سوال: رفع حاجت کے بعد پیشاب کا مقام کتنی بار دھونے سے پاک ہو تا ہے؟جواب: پیشاب کا مقام احتیاط واجب کی بنا پر دو بار دھونے سے پاک ہوجاتا ہے۔۱۰۔ پخانے کے مقام کا پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک ہونا محل تامل ہے لیکن (نجاست کے صاف ہو جانے کے بعد،پانی سے پاک کرنے سے پہلے) نماز پڑھی جاسکتی ہے۔۱۰۔ پخانے کے مقام کو دو طرح سے پاک کیا جا سکتا ہے: ایک تو یہ کہ پانی سے دھوئیں یہاں تک کہ نجاست زائل ہوجائے،اس کے بعد(طہارت کے لئے) پانی ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ تین پاک پتھروں یا کپڑوں یا اسی طرح کی کسی اور چیز سے نجاست کو صاف کریں اور اگر تین ٹکڑوں سے نجاست پورے طور پر صاف نہ ہو تو اور ٹکرے استعمال کرکے پوری طرح صاف کریں۔ چنانچہ تین ٹکڑوں کے بجائے ایک ہی پتھر یا کپڑے کے تین الگ الگ حصوں سے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔
وضو
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ (وضو میں) سر کے مسح کے بعد ہاتھوں میں بچی ہوئی وضو کے پانی کی اس تری سے پیروں کا مسح کسی ایک انگلی کے سرے سے پیروں کے ابھار تک کریں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے جوڑ تک مسح کریں۔۱۔ پیروں کے مسح میں پاؤں کے جوڑ تک (ہاتھوں کی انگلی)کھینچنا چاہیئے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوئیں اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔ اور ہاتھوں کو بھی کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیئے۔۲۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور تیسری مرتبہ (یا اس سے زیادہ) حرام ہے۔ اور اگر ایک چلو پانی سے پورے عضو کو دھولے اور وضو کی نیت سے ہی پانی ڈالے تو ایک مرتبہ حساب ہو جائے گا چاہے ایک بار کا قصد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور اس کے بعد غیر شرعی ہے۔ پہلی باردوسری بار یا اس سے زیادہ کا تعین وضو کرنے والے کی نیت پر ہے یعنی پہلی بار کی نیت سے ایک شخص کئی بار چہرے پر پانی ڈال سکتا ہے۔۴۔ دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ سر کے اگلے حصہ کا مسح کرے اور ضروری نہیں ہے کہ مسح داہنے ہاتھ سے ہی ہو یا اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔۴۔ سر اور پیر کا مسح ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ کرنا چاہئے۔ اور احتیاط یہ ہے کہ سر کا مسح داہنے ہاتھ سے کیا جائے لیکن مسح کے لئے اوپر سے نیچے کی طرف ہی ہاتھ لے جانا ضروری نہیں ہے۔۵۔ اگر چہرے یا ہاتھ پر کوئی زخم،پھوڑاپھنسی یاچوٹ ہو اور پٹی یا پھانبا وغیرہ ہٹا کر اس کو کھولا جا سکتا ہو تو اگر اس پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو لیکن گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو واجب ہے کہ گیلا ہاتھ اس پر پھیرے۔۵۔ اگر وضو کے اعضاء پر کوئی زخم یا چوٹ ہو اور وہ کھلا ہوا ہو اور پانی ڈالنا اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو اسے دھونا چاہئے لیکن اگر دھونا نقصان دہ ہے تو اس کے اطراف کو دھوئے اور احتیاط یہ ہے کہ اگر اس پر گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو گیلا ہاتھ پھیر لینا چاہیئے۔۶۔ اگر زخم یا پھوڑا یا چوٹ سر کے اگلے حصہ میں یا پاؤں کے اوپر ہے اور وہ کھلا ہوا ہے تو اگر سر یا پیر کا مسح نہ کرسکتا ہو تو مسح کی جگہ ایک پاک کپڑا رکھے اور ہاتھ میں وضو کی بچی ہوئی تری سے ہی اس کپڑے کے اوپر سے مسح کرلے، اور احتیاط مستحب کے تحت تیمم بھی کرے۔ اور اگر کپڑا رکھنا ممکن نہ ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے اور بہتر ہے کہ بغیر مسح کا ایک وضو بھی کرے۔۶۔ اگر مسح کی جگہ پر زخم ہے اور اس پر گیلا ہاتھ نہ پھیرسکتا ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے لیکن اگر زخم کے اوپر کوئی کپڑا رکھ کر ہاتھ پھیر سکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ تیمم کے علاوہ اس طرح کے مسح کے ساتھ وضو بھی کرے۔
غسل
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ غسل ترتیبی میں،غسل کی نیت کے ساتھ پہلے سر وگردن، پھر بدن کا داہنا حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں حصہ دھوئے۔۱۔ غسل ترتیبی میں بدن کے آدھے داہنے حصہ کو بائیں حصہ سے پہلے دھونا احتیاط پر مبنی ہے [یعنی احتیاط واجب کے تحت پہلے بدن کے آدھے داہنے حصہ کو دھوئے اور پھر بائیں حصہ کو دھوئے]۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں،قرآن کے ان سوروں کا پڑھنا بھی ہے جن میں سجدہ واجب ہے، یعنی ۳۲واں سورہ (الم تنزیل)، ۴۱واں سورہ (حم سجدہ)، ۵۳واں سورہ (والنجم) اور ۹۶واں سورہ (اقرأ) اور اگر ان چاروں سوروں کا ایک حرف بھی پڑھے تو بھی حرام ہے۔۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں سے، واجب سجدے والی آیتوں کا پڑھنا بھی ہے [لہذا ان سوروں کی دوسری آیتوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے]۳۔ اگر زندہ جسم سے کوئی ہڈی والا حصہ جدا ہو جائے اور اس جدا شدہ حصہ کو غسل دینے سے پہلے،کوئی انسان چھودے تو اسے چاہئے کہ غسل مس میت کرے۔ لیکن اگر جدا شدہ حصہ ہڈی سے عاری ہو تو اس کے چھونے سے غسل مس میت واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر کسی میت کو غسل دینے سے پہلے جسم سے کوئی ایسی چیز جدا کی جائے جو اگر جسم سے متصل ہوتی تو اس کے چھونے سے غسل واجب ہوجاتا تو مردہ کے بدن سے اس کے جدا کر لینے کے بعد بھی اگر اس چیز کو چھوئیں گے تو غسل واجب ہو جائے گا۔۳۔ مردے کا بدن ٹھنڈا ہونے کے بعد اور اس کو غسل دینے سے پہلے میت سے جدا شدہ کسی حصہ کا چھونا جسم مردہ کو چھونے کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اس حصہ کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا جو انسان کے مرنے سے پہلے ہی اس کے جسم سے جدا کردیا گیا ہو۔
تیمم
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں: اول: نیت۔ دوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کی ایسی چیز پر مارنا کہ جس پر تیمم صحیح ہے۔سوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر، سر کے بالوں کی جڑوں سے ابرؤوں تک اور ناک کے اوپر اور احتیاط واجب کے تحت ہتھیلیوں کو ابرؤوں پر بھی پھیرا جائے۔چہارم: بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا پھر اسی طرح دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا۔٭ غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق نہیں ہے۔۱۔ سوال: تیمم کا طریقہ کیا ہے؟ کیا غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق ہے؟جواب: تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ: پہلے نیت کریں پھر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایسی چیز پر ماریں کہ جس پر تیمم صحیح ہے اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ، پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے ابرؤں تک اور ناک کے اوپر کھینچیں اور آخر میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیریں۔اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بعد دوبارہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے۔ یہ طریقہ غسل اور وضو دونوں کے بدلے میں کئے گئے تیمم میں یکساں ہے۔۲۔ سیاہ سنگ مرمر،چونے کے پتھر(gypsum) نیز دیگر تمام قسم کے پتھروں پر تیمم صحیح ہے لیکن جواہرات مثلا عقیق اور فیروزہ کے پتھر پر تیمم باطل ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خاک یا ایسی دوسری چیزوں کے ہوتے ہوئے کہ جن پر تیمم صحیح ہے،چونے اور آہک پر بھی تیمم نہ کریں۔۲۔ سوال: چونے کے پتھر(gypsum)،پختہ چونے یا آہک کے پتھر(lime.stone)،اور اینٹ پر تیمم کرنا کیسا ہے؟جواب: تیمم ہر اس چیز پر صحیح ہے جو زمین کا حصہ کہلائے مثلا چونے کے پتھر اور آہک کے پتھر پر تیمم صحیح ہے بلکہ چونے،پختہ آہک،اینٹ اور اس کے مثل چیزوں پر بھی صحیح ہونا بعید نہیں ہے [یعنی ان پر تیمم کیا جاسکتا ہے]سوال: کیا سیمینٹ اور ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کیا جا سکتا ہے؟جواب: ان دونوں چیزوں پر سجدہ اور تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ ان پر تیمم سے پرہیز کیاجائے۔۳۔ تیمم کے لئے پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ان کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اور اگر ہتھیلی نجس ہو اور اسے پاک نہ کیا جا سکتا ہو تو اسی نجس ہتھیلی سے تیمم کریں گے۔۳۔ سوال: آپ کی نظر میں جس چیز پر تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا ضروری ہے تو کیا اعضائے تیمم (پیشانی اور ہاتھ کی پشت) کا پاک ہونا بھی ضروری ہےَ۔جواب: احتیاط یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پاک ہو اور اگر محل تیمم کا پاک کرنا ممکن نہ ہو تو بغیر پاک کئے ہی تیمم کرے۔ اگرچہ طہارت کی شرط نہ ہونا دونوں صورتوں میں بعید نہیں ہے۔۴۔ اگر غسل کے بدلے میں تیمم کرے اور پھر وضو کو توڑنے والا کوئی حدث سرزد ہوجائے تو اگر بعد کی نمازوں کے لئے بھی غسل نہ کرسکتا ہو وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو وضو کے بدلے میں تیمم کرے۔۴۔ جس نے غسل کے بدلے میں تیمم کیا ہو اگر اس سے حدث اصغر صادر ہوجائے مثلا پیشاب کرلے تو بعد کی نمازوں کے لئے اگر اب بھی غسل نہ کرسکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنیاد پر غسل کے بدلے دوبارہ تیمم کرے اور وضو بھی کرے۔۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو نماز ساقط ہے۔ لیکن احتیاط مستحب ہے کہ بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کی قضا بھی بجا لائے۔۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنیاد پر نماز وقت کے اندر وضو اور تیمم کے بغیر پڑھ لے اور پھر وضو یا تیمم کے ساتھ اس کی قضا بجا لائے۔۶۔ اگر ضرر کے یقین یا ضرر کے خوف کی وجہ سے تیمم کرے اور نماز سے پہلے پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر نماز کے بعد پتہ چلے تو نماز صحیح ہے۔۶۔ اگر کوئی یہ سمجھ کر تیمم کرے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ ہے اور اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے کہ نقصان دہ نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلے پانی ضرر نہیں کرتا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر وضو کرے یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔
احکام میت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ جو مسلمان عالم احتضار یعنی جانکنی کی حالت میں ہو اسے اس طرح چت لٹانا چاہئے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم سب کے لئے ہے چاہے مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا کوئی فرق نہیں ہے۔۱۔ مناسب ہے کہ مسلمان کو احتضار کی حالت میں پیٹھ کے بل (چت) قبلہ کی طرف اس طرح لٹائیں کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ بہت سے فقہاء نے اس کام کو خود مرنے والے پر (اگر وہ قادر ہو) یا پھر دوسرے لوگوں پر واجب سمجھا ہے۔ اور اس میں احتیاط ترک نہیں ہونا چاہئے۔۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور عاقل ہونا ضروری ہے، نیز مسائل غسل کو بھی جانتا ہو اور احتیاط واجب کی بنا پر وہ بالغ بھی ہو۔۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور بالغ و عاقل ہونا ضروری ہے، نیز غسل کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔
قبلہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاگر قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہ ہو یا یہ کہ کوشش کرنے کے بعد بھی کسی سمت کی طرف گمان (غالب) پیدا نہ ہو سکے تو اب اگر نماز کے وقت میں وسعت ہو تو چاروں طرف چار مرتبہ نماز پڑھے اور اگر چار مرتبہ نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جس قدر وقت میں گنجائش ہو اتنی سمت میں نمازیں پڑھے ...جس کے پاس قبلہ معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہ ہو اور اس کا گمان بھی کسی سمت کی طرف نہ جارہا ہو تو احتیاط کی بنیاد پر چاروں طرف نماز پڑھے اور اگر چار نماز پڑھنے کا وقت نہ تو جس قدر وقت ہو اتنی سمت نماز پڑھے۔
نماز کا وقت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: چاندنی راتوں کی فجر صادق کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر مبارک یہ ہے کہ کچھ دیر انتظار کیا جائے یہاں تک کہ فجر کی سفیدی چاندنی پر غالب آجائے تو کیا حضرت عالی کا فتویٰ اب بھی اسی طرح ہے؟ اگر جواب مثبت ہو تو یہ انتظار کتنے منٹ تک ہونا چاہیئے اور ماہ قمری میں یہ چاندنی راتیں کتنی راتیں ہیں؟جواب: اس کا معیار وہ راتیں ہیں جن میں چاندنی طلوع فجر پر غالب رہتی ہے اس میں نماز کے لئے اتنا انتظار کرنا چاہئے کہ طلوع فجر کی روشنی نمایاں ہوجائے۔۱۔ سوال: چاندی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ ۱۵سے بیس منٹ تک انتطار کیا جائے جبکہ گھڑی کے اعتبار سے نماز کا وقت ہوچکا ہو اور اس ذریعہ سے طلوع فجر کے سلسلہ میں یقین کا حاصل کرنا بھی ممکن ہو؟جواب: طلوع فجر، نماز صبح کے اول وقت اور اسی طرح وقت سحری کے اختتام اور روزہ کا وقت شروع ہونے کا تعین کرنے کے سلسلہ میں چاندی راتوں اور اندھیری راتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط اچھی ہے۔سوال: سلام و تحیات کے ساتھ! ماہ رمضان المبارک کی آمد اور اسی طرح شہروں کی توسیع اور طلوع فجر کی دقیق تشخیص نہ ہوسکنے کے پیش نظر جناب عالی سے گزارش ہے کہ روزہ کے لئے ترک سحر اور اقامہ نماز صبح کے اوقات کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک کو بیان فرمائیں۔جواب: مناسب ہے کہ مومنین محترم ایدھم اللہ تعالی احتیاط کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے روزے کے لئے ترک سحر اور نماز صبح کے سلسلہ میں(اسلامی جمہوریہ ایران کے)ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی اذان کے شروع ہونے کے ساتھ ہی سحری کھانا ترک کردیں اور اذان سے پانچ چھ منٹ بعد نماز صبح ادا کریں۔۲۔ نماز عصر کا مخصوص وقت وہ ہے جب وقت مغرب میں صرف اتنا وقت باقی رہ جائے کہ اس میں صرف نماز عصر پڑھی جاسکتی ہو۔۲۔ سوال: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟جواب: نماز عصر کا آخری وقت، غروب آفتاب تک ہے۔۳۔ انسان اس وقت نماز شروع کرسکتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے یا یہ کہ دو مرد عادل وقت نماز ہو جانے کی خبر دیں۔ لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر(اول وقت کے تعین کے لئے)مؤزن کی اذان کافی نہیں ہے اگرچہ مؤذن عادل اور موثق ہی کیوں نہ ہو۔۳۔ نماز شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کا انسان یقین پیدا کرلے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے یا دو عادل مرد خبر دیں کہ وقت ہوچکا ہے یا یہ کہ کوئی موثق اور وقتِ نماز پہچاننے والا موذن اذان دے۔۴۔ اگر بھولے سے نماز ظہر پڑھنے سے پہلے ہی نماز عصر شروع کردے اور درمیان نماز یاد آجائے کہ نیت میں غلطی ہو گئی ہے تو اگر یہ وقت،ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دینا چاہیئے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ میں نے اب تک پڑھا ہے اور جس نماز میں مشغول ہوں اور جو کچھ ابھی پڑھوں گا وہ سب نماز ظہر ہوگی اور نماز ختم کرنے کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ وقت ظہر کا مخصوص وقت ہو تو نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹادے اور نماز کو ختم کرے اور پھر نماز عصر پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ نماز (ظہر و) عصر کو بھی اس کے بعد پڑھے اور یہ احتیاط بہت اچھی چیز ہے۔۴۔ اگر یہ سمجھ کر نماز عصر شروع کی ہے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور درمیان نماز یاد آ جائے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے تو اگر یہ وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو فورا نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا اور نماز کو ختم کرے گا اور اس کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ اتفاق نماز ظہر کے مخصوص وقت میں پیش آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا لیکن نماز کو ختم کرنے کے بعد دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کو ترتیب کے ساتھ بجا لائے گا۔ اور نماز مغرب و عشاء میں بھی یہی شرعی فریضہ ہے۔
۱۔ نماز ظہر کا مخصوص وقت،وقت ظہر شروع ہونے کے بعد اتنی مدت تک رہتا ہے کہ جس میں غیر مسافر چار رکعت اور مسافر دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہو۔
نمازی کا لباس
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ مرد کے لئے سونے کے زیورات مثلا گلے میں سونے کی زنجیر یا سونے کی انگوٹھی پہننا یا سونے کی گھڑی باندھنا حرام ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔۱۔ سونے کی زنجیر پہننا، سونے کی انگوٹھی پہننا اور سونے کی گھڑی باندھنا مردوں کے لئے حرام ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ان کے ساتھ نماز باطل ہے۔۲۔ سوال: توضیح المسائل میں مسئلہ نمبر ۸۳۱ سے ۸۸۳ تک مردوں کے لئے یہ توضیح دی گئی ہے کہ نمازی مرد کا لباس زردوزی کا نہیں ہونا چاہئے۔ تو آیا یہاں زرد سونا مراد ہے یا سرخ اور سفید سونا بھی اس میں شامل ہے؟ (کیونکہ جناب عالی نے پلیٹینیم پہننے کی اجازت دی ہے) لہذا فرمائیں کہ سونے کا رنگ شرط ہے یا سونے کی حقیقت؟جواب: سفید سونے (پلیٹینیم) میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہی عام سونا ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ اس کا رنگ بدل گیا ہو۔۲۔ سوال: حضرت عالی کی نگاہ میں کیا سفید سونے کا استعمال میں مردوں کے لئے کوئی حرج ہے؟جواب: اگر سونا ہے اور کسی دوسرے مادہ کو ملادینے کی وجہ سے اس کا رنگ سفید ہو گیا ہے تو حرام ہے لیکن اگر پلیٹینیم ہے یا سونے کا مادہ اس میں اتنا کم ہو کہ بول چال میں اسے سونا نہ کہا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔۳۔ نمازی مرد کا لباس خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے اور نماز کے علاوہ بھی اس کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔ اور جو چیزیں نماز میں اکیلے پہننے سے نماز نہیں ہوتی جیسے ازاربند اور رومال وغیرہ، احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ بھی خالص ریشم کی نہ ہوں۔۳۔ نمازی مرد کا لباس،حتی رومال، جراب اور لباس کا استر بھی خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے۔ اور نماز کے علاوہ بھی ریشم کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔۴۔ تین صورتوں میں جن کی تفصیل بعد میں آئے گی اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے:اول: یہ کہ جسم کے زخم یا چوٹ یا پھوڑے کی وجہ سے کسی کا لباس یا بدن خون آلود ہو جائے۔دوم: یہ کہ بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم جگہ پر تقریبا ایک اشرفی کے برابر،خون لگا ہو۔سوم: ...۴۔ اگر نمازی کا بدن یا لباس،زخم، چوٹ یا پھوڑے پھنسی کے علاوہ کسی اور وجہ سے خون آلود ہو جائے اور خون کی مقدار انگشت شہادت کی پور سے کم جگہ پر ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ جگہ پر ہو تو صحیح نہیں ہے۔۵۔ اگر حیض یا نفاس کا خون،سوئی کی نوک کے برابر بھی نمازی کے لباس یا بدن پر ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنیاد پر خون استحاضہ بھی نمازی کے بدن یا لباس پر نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر دوسرا خون مثلا انسان کے بدن کا خون یا کسی حلال گوشت جانور کا خون یا کتے، سور، کافر، مردار یا کسی حرام گوشت جانور کا خون، اگرچہ نمازی کے بدن یا لباس پر کئی جگہ موجود ہو لیکن ان سب کو جمع کرنے سے خون ایک درہم سے کم جگہ میں ہو (جو تقریبا ایک اشرفی کے برابر ہوتی ہے) سے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر بھی احتیاط یہ ہے کہ کتے، کافر، مردار اور حرام گوشت جانور کے خون سے بچا جائے۔۵۔ ماقبل مسئلہ کے حکم سے خون حیض مستثنی ہے کیونکہ اس کا اگر معمولی سا خون بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگ جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر خون نفاس و استحاضہ نیز نجس العین اور حرام گوشت اور مردار کے خون کا بھی یہی حکم ہے بلکہ یہ حکم نفاس اور استحاضہ کے علاوہ، قوت سے خالی نہیں ہے۔
نمازی کی جگہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ (نمازی کی جگہ کے لئے) پانچویں شرط یہ ہے کہ نمازی کی پیشانی اس کے زانو کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ اور احتیاط واجب یہ ہے کہ (پیشانی) پیروں کی انگلیوں کے سروں سے بھی اس سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔۱۔ ضروری ہے کہ نمازی کی پیشانی کی جگہ اس کے زانوؤں اور پیروں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔۲۔ احتیاط مستحب کی بنا پر(نماز میں)عورت کو مرد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیئے اور اس کے سجدہ کی جگہ مرد کے کھڑے ہونے کی جگہ سے کچھ پیچھے ہونا چاہیئے۔۲۔ ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں عورت اور مرد کے درمیان کم از کم ایک بالشت کا فاصلہ ہو اور اس صورت سے اگر مرد و عورت ایک دوسرے کے برابر میں کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے بھی کھڑی ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے، یہ حکم احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے۔۳۔ خانہ کعبہ کے اندر(حجرے میں)یا اس کی چھت پر واجب نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔۳۔ خانہ کعبہ کے اندر نماز واجب کا پڑھنا مکروہ ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی چھت پر نماز نہ پڑھے۔۴۔ انسان کو چاہئے کی ادب کی رعایت کرے اور پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر سے آگے نماز نہ پڑھے چنانچہ اگر نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو نماز پڑھنا حرام ہے لیکن نماز باطل نہیں ہے۔۴۔ نمازی کو نماز پڑھتے وقت پیغبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر کے آگے کھڑا نہیں ہونا چاہئے لیکن برابر میں کھڑے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسجد کے احکام
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر مسجد کو غصب کرلیں اور اس کی جگہ گھر وغیرہ بنالیں اس طرح کہ اس کو اب مسجد نہ کہا جاتا ہو تو بھی اس جگہ کا نجس کرنا حرام اور اس کو پاک کرنا واجب ہے۔۱۔ جو مسجد غصب، منہدم اور متروک ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی اور عمارت بنادی جائے یا متروک رہنے کے سبب اس کے مسجد ہونے کے آثار مٹ چکے ہوں اور اس کی تعمیر نو کی امید بھی نہ ہو اس طور پر کہ وہاں کے باشندے وہاں سے کوچ کرچکے ہوں تو اس جگہ کا نجس کرنا حرام ہو معلوم نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نجس نہ کریں۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے سے نہ سجائیں اور اسی طرح انسان یا حیوان کی مانند ان چیزوں کی تصویر وغیرہ بھی مسجد میں نہ بنائیں کہ جن میں جان ہوتی ہے لیکن پھول پتی کی مانند بے جان چیزوں کی تصویر کشی مکروہ ہے۔۲۔ مسجد کو سونے سے سجانا اگر فضول خرچی میں شمار ہو تو حرام ہے اور بصورت دیگر بھی مکروہ ہے۔
واجبات نماز
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ کسی انسان کے لئے اگر یہ احتمال ہو کہ آخر وقت میں شاید کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے تب بھی اول وقت نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نماز میں تاخیر کرے۔۱۔ جس شخص کے لئے یہ احتمال ہو کہ شاید آخر وقت میں کھڑے ہوکر اپنی نماز پڑھ سکے اسے احتیاط کی بنا پر اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے لیکن اگر کسی عذر کے تحت اس نے اول وقت اپنی نماز بیٹھ کر پڑھ لی اور پھر آخر وقت تک اس کا عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور اعادہ ضروری نہیں ہے۔ اور اگر اول وقت کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں تھا اور اسے یقین تھا کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے متعلق اس کی عاجزی اور ناتوانی آخر وقت تک باقی رہے گی لیکن آخر وقت گزرنے سے پہلے،وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قابل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ کھڑے ہوکر نماز کا اعادہ کرے۔۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ نماز کے لئے دائیں کروٹ اس طرح لیٹ جائے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹ جائے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ لیٹ کر نماز پڑھے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اگر ممکن ہو تو دائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کا چہرہ اور بدن قبلہ کی طرف ہو، ورنہ بائیں کروٹ لیٹے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ حمد اور اس کے بعد کوئی ایک مکمل سورہ پڑھنا چاہیئے۔۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو چاہئے کہ پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اس کے بعد احتیاط واجب کی بنیاد پر ایک مکمل سورہ پڑھے۔۴۔ اگر(نماز میں)غلطی سے ایسا سورہ شروع کردے کہ جس میں سجدہ واجب ہے تو اگر آیت سجدہ پر پہنچنے سے پہلے یاد آجائے تو اس سورہ کو چھوڑ کر کوئی اور سورہ پڑھے۔ اور اگر سجدہ والی آیت کو پڑھنے کے بعد یاد آئے تو نماز کے درمیان اشارہ کے ذریعہ سجدہ بجا لائے اور پھر اسی سورہ کے پڑھنے پر اکتفا کرے۔۴۔ نماز واجب میں سجدہ والے سوروں کا پڑھنا جائز نہیں ہے اور اگر عمدا یا سہوا ان میں سے کسی سورے کو پڑھے اور سجدہ والی آیت پر پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر(بیٹھ کر)آیت سجدہ کی تلاوت کے سجدہ کو انجام دے اور پھر کھڑے ہو کر اگر سورہ مکمل نہ ہوا ہو تو مکمل کرے اور پوری نماز اور پھر نماز کا اعادہ بھی کرے۔ اور اگر سجدہ والی آیت پر پہنچنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس سورے کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا سورہ پڑھے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد پھر سے نماز کا اعادہ کرے۔۵۔ نماز میں جب کوئی سورہ پڑھنے کے لئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے تو کہ پہلے سے سورہ کو معین کرلے اور’’بسم اللہ....‘‘ اسی سورہ کی نیت کے ساتھ پڑھے اور اگر سورہ کو معین کرنے کے بعد اس سورہ کو چھوڑدے تو دوسرے سورہ کو پڑھنے کے لئے اس سورہ کی نیت سے دوبارہ’’بسم اللہ...‘‘ پڑھے۔۵۔ سوال: جو انسان پہلے سے ہی سورہ حمد اور سورہ توحید پڑھنے کی نیت رکھتا ہو یا اس کی عادت ہمیشہ یہی ہو اور کسی مخصوص سورہ کا تعین کئے بغیر بلا ارادہبسم اللہ الرحمن الرحیمکھ دے تو کیا اس کے اوپر واجب ہے کہ سورہ کو معین کرنے کے بعد پھر سے’’بسم اللہ...‘‘پڑھے؟جواب: ’’بسم اللہ...‘‘کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ اسی ’’بسم اللہ...‘‘پر اکتفا کرسکتا ہے اور حسب خواہش کوئی بھی سورہ ’’بسم اللہ...‘‘دہرائے بغیر پڑھ سکتا ہے۔۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ،عورت بلند آواز سے اور آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ عورت بلند آواز سے یا آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو بہتر ہے آہستہ پڑھے۔۷۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ الحمد پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی بسم اللہ کو بھی آہستہ پڑھے۔۷۔ مرد اور عورت پر واجب ہے کہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ یا سورہ حمد کو آہستہ پڑھیں لیکن اگر سورہ حمد پڑھیں تو فرادیٰ نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بلند آواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہی ہے کہ’’بسم اللہ...‘‘آہستہ کہیں اور نماز جماعت میں یہ احتیاط، واجب ہے۔`۸۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت کے رکوع میں یا رکوع میں جاتے وقت شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔۸۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے رکوع میں شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔ لیکن اگر رکوع میں جاتے وقت جبکہ رکوع کی حد تک نہ پہنچا ہو شک کرے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر واپس پلٹے اور حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھ کر(رکوع میں جائے)۔۹۔ اگر شک ہو کہ کوئی آیت یا لفظ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں تو اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول نہ ہوا ہو تو پھر سے اس آیت یا لفظ کو صحیح طور سے ادا کرنا چاہیئے۔ اور اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول ہوچکا ہو اور وہ بعد کی چیز رکن ہو مثلا رکوع میں شک کرے کہ سورہ کے فلاں لفظ کو صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اس شک کی طرف دھیان نہ دے، اور اگر وہ(بعد کی)چیز رکن نہ ہو مثلا اگر اللہ الصمد کہتے وقت شک کرے کہ قل ہو اللہ احد صحیح طور پر پڑھا ہے یا نہیں تو بھی یہ کرسکتا ہے کہ اپنے شک کی طرف دھیان نہ دے لیکن اگر احتیاط کے طور پر اس لفظ کو(دوبارہ)صحیح طور سے ادا کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کئی بار شک ہو تو کئی بار دھرا سکتا ہے لیکن اگر(شک) وسواس کی حد تک پہنچ جائے اور بار بار وہ لفظ ادا بھی کیا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔۹۔ اگر کسی آیت کو تمام کرنے کے بعد شک کرے کہ صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیئے،اور یہی صورت ہے اگر آیت کا ایک جملہ پورا کرنے کے بعد اس کے صحیح پڑھنے کے بارے میں شک ہو مثلاایاک نعبدکہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں۔البتہ ان تمام صورتوں میں جس چیز کے صحیح ادا ہونے کے بارے میں شک ہے اگر اسے احتیاطا دوبارہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ اگر رکوع کی حد تک جھکے لیکن ہاتھوں کو گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ احتیاط یہ ہے کہ رکوع میں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے۔۱۱۔ انسان رکوع میں جو بھی ذکر پڑھے وہ کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم وبحمدہ سے کم نہ ہو۔۱۱۔ رکوع میں ایک بار سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبر وغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔۱۲۔ سجدہ میں جو بھی ذکر پڑھے کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی وبحمدہ سے کم نہ ہو۔۱۲۔ سجدہ میں ایک بار سبحان ربی الاعلی و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبروغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کے برابر انسان کا بدن ساکن ہونا چاہئے۔ اور مستحب ذکر میں بھی،اگر اس ذکر کی نیت سے ہو کہ جس کا حکم سجدہ کے لئے دیا گیا ہے،بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے۔۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کہتے وقت بدن ساکن ہونا چاہئے حتی جس وقت کوئی ذکر استحباب کی نیت سے سجدہ میں کہہ رہا ہو مثلا سبحان ربی الاعلی و بحمدہ یا کسی اور ذکر کی تکرار کر رہا ہو تب بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ بدن میں حرکت نہ ہو۔۱۴۔ اگر پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر کھڑا ہوجائے اور رکوع بجا لائے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد دوبارہ نماز پڑھے۔۱۴۔ اگر پہلے سجدہ میں یا اس کے بعد،دوسرے سجدہ میں داخل ہونے سے پہلے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اٹھ کر کھڑا ہو اور رکوع انجام دے اور پھر دونوں سجدے اور نماز تمام کرنے کے بعد سجدہ اضافہ کے لئے احتیاطا دو سجدہ سہو کرے۔
۲۔ اگرچہ(تحریر الوسیلہ میں)صفحہ ۱۵۵ پر مرقوم ۸ویں مسئلہ کی اصل تحریر مطابق اس مسئلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) اور آیۃ اللہ خامنہ ای (مد ظلہ) کے درمیان کوئی اختلاف نظر نہیں ہے۔
نماز جماعت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےامام جماعت کو بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہونا چاہئے وہ،جو نماز کو صحیح طریقہ سے پڑھ سکتا ہو نیز اگر ماموم مرد ہیں تو امام کو بھی مرد ہونا چاہئے... اور احتیاط واجب یہ ہے کہ عورت کا امام بھی مرد ہو۔سوال: کس صورت میں عورت امام جماعت ہوسکتی ہے؟جواب: اگر مامومین میں صرف عورتیں ہوں تو امام جماعت، عورت ہوسکتی ہے۔
نماز جمعہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے اس طرح پڑھنا کہ خطبہ تمام ہوتے ہوئے ظہر کا وقت ہوجائے جائز ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خطبے زوال کے بعد دئے جائیں۔۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے دیئے جا سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ وقت ظہر کے اندر ہو اور احوط یہ ہے کہ پورے خطبے وقت ظہر داخل ہونے کے بعد دئے جائیں۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز جمعہ میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ وہ وقت جسے عرف میں اول ظہر کہتے ہیں گزر جائے اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے تو نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر پڑھے۔۲۔ نماز جمعہ کا وقت اول ظہر سے ہے اور احوط یہ ہے کہ اس کو عرف میں رائج نماز ظہر کے اوائل وقت(تقریبا ایک دو گھنٹہ)سے زیادہ پیچھے نہ لے جائیں۔
مسافر کی نماز
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ مسافر کو آٹھ شرطوں کے ساتھ ظہر،عصر اور عشاء کی نماز قصر کرنا یعنی دو رکعت پڑھنا چاہیئے:ساتویں شرط: مسافر کا پیشہ مسافرت نہ ہو۔ لہذا شتربان، ڈرائیور،چوپان،ملاح اور ان کے جیسے دوسرے افراد خواہ وہ اپنے گھر کا سامان لے جانے کے لئے ہی سفر میں ہوں پہلے سفر کے علاوہ انہیں نماز پوری پڑھنا چاہئے لیکن پہلے سفر میں اگرچہ سفر لمبا ہو جائے ان کی نماز قصر ہے۔۱۔ سوال: کن حالات میں مسافر پر چار رکعتی نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے؟جواب: آٹھ شرطوں کے ساتھ...ساتویں شرط: یہ کہ اس کا پیشہ سفر نہ ہو مثلا چوپان، ڈرائیور، ملاح وغیرہ نہ ہو اور وہ لوگ بھی ان ہی سے ملحق ہوں گے جن کا کام کاج سفر میں ہے۔۲۔ سوال: ایک شخص کسی کمپنی میں مارکٹ آفیسر ہے اور کئی سالوں سے روزانہ صبح کو اپنے وطن سے کام پر جاتا ہے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ ہے اور پھر شام کو پلٹتا ہے اور کبھی کبھی خود ڈرائیونگ کرتا ہے آیا یہ شخص مسافر ہے یا دائم السفر؟جواب: اپنی ملازمت کی جگہ اور راستہ میں یہ شخص مسافر کا حکم رکھتا ہے۔توضیح:امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق اپنے پیشہ ورانہ سفر کے دوران صرف ان لوگوں کا نماز پوری پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ہے کہ جن کا پیشہ ہی مسافرت ہے یعنی ان کے کام کی بنیاد ہی سفر پر قائم ہو اور ان کا کام سفر کے بغیر کسی مستقل جگہ انجام نہ پا سکتا ہو مثلا اپنے شہر سے باہر ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیور، پائلٹ اور ملاح وغیرہ۔ لیکن جن کا پیشہ مسافرت نہیں ہے اگرچہ روزانہ اپنے کام کے لئے سفر کریں ان کی نماز سفر میں قصر ہے اس معلم کی طرح جو روزانہ یا ہر ہفتہ تدریس کے لئے سفر کرتا ہے۔ایک مسئلہ اور ایک استفتاء ملاحظہ کریں:مسئلہ: وہ جس کا پیشہ سافرت نہیں ہے اگر مثال کے طور پر کسی شہر یا گاؤں میں کوئی مال ہے جس کو ڈھونے کے لئے وہ پے در پے سفر کرتا ہے تو اسے اپنی نماز قصر پڑھنا چاہئے۔سوال: فوج نے دیہاتوں میں خدمت کے لئے کچھ لوگوں کو ملازم رکھا ہے اور خود سپاہ کا مرکز بھی ان لوگوں کے کا وطن میں نہیں ہے اور روزانہ یا ہر تیسرے دن انھیں اطراف شہر میں مجبورا سفر کرنا پڑتا ہے تو ان کی نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ مختصر یہ کہ ان کے کام کا لازمہ سفرہے۔جواب: وطن کے علاوہ جہاں بھی ہوں ایک جگہ دس روزہ قیام کی نیت کے بغیر نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے۔۲۔ سوال: جس کا کام کاج سفر میں ہے اس کی نماز اور روزہ کا کیاحکم ہے مثلا وہ ملازم جو اپنی ملازمت پر سفر کرتا ہے یا وہ مزدور جو اپنے کام کی جگہ سفر کرتا ہے اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر ہر دس دن کے اندر کم از کم ایک بار اپنے کام کے لئے اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جاتا ہے تو اس کا حکم اس شخص کی طرح ہے جس کا پیشہ ہی سفر ہو اس کا روزہ صحیح ہے اور نماز پوری پڑھے گا۔توضیح:رہبر معظم انقلاب (مد ظلہ) کے فتوہ کے مطابق جن لوگوں کا کاروبار سفر میں ہے یا اپنے کام کے لئے کم از کم دس دن کے اندر اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جانا پڑتا ہے تو یہ لوگ بھی ان کی طرح ہیں جن کا پیشہ ہی مسافرت ہو یعنی اپنی نمازیں اس طرح کے سفر میں پوری پڑھیں اور ان کا روزہ بھی صحیح ہے، مثلا وہ معلم حضرات جو تدریس کے لئے یا وہ ملازمین جو اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے یا وہ مزدور جو اپنے کام کاج کے لئے ہر ہفتہ کم از کم ایک بار اپنے کام پر ضرور جاتے ہیں اور پلٹ آتے ہیں سفر کے دوران کام پر ان کی نمازیں پوری ہیں۔ لیکن تحصیل علم کے لئے کیا جانے والا سفر،آپ کی نظر میںپیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا الا یہ کہ خود تحصیل کام اور مشغلہ کے طور پر ہو مثلا جو لوگ فوج یا پولیس وغیرہ کی ٹرینیگ کے دوران میں تحصیل علم پر مامور ہوں۔ذرا دو استفتاآت ملاحظہ کریں:سوال: ایک طالبعلم جو ہر ہفتہ تعلیم کے لئے اسکول جاتا آتا ہو اور اس کا اسکول وطن سے چار فرسخ(۱۲میل)یا اس سے زیادہ دوری پر ہو،اپنی نماز اسکول میں پوری پڑھے کا یا قصر ہو گی؟جواب: تعلیم کے لئے سفر پیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا بلکہ جو طالبعلم پڑھنے کے لئے کہیں سفر کرتا ہے وہ عام مسافر کے حکم میں ہے(یعنی اسکول میں نمازیں قصر پڑھے گا)۔سوال: میں شہر رفسنجان میں ملازم ہوں اور تعلیم میں بھی مشغول ہوں۔ وزارت تعلیم و تربیت کے زیر نظر مرکز عالی میں داخلہ مل جانے کے پیش نظر اپنی عام ڈیوٹی کے ساتھ مجھے آفس کی طرف سے ہفتہ کے ابتدا کے تین دنوں میں تحصیل علم کے لئے شہر کرمان جانا پڑتا ہے بقیہ ایام میں خود اپنے وطن میں رہ کر ڈیوٹی انجام دیتا ہوں حضرت عالی کی نظر میں میری نماز روزے کے سلسلہ میں کیا حکم ہے آیا طالب علم ہونے کا حکم میرے اوپر جاری ہوگا یا نہیں؟جواب: اگر تحصیل علم آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ۳۔ جو شخص سفر پر جارہا ہے وہ اس وقت نماز قصر پڑھے گا کہ جب کم از کم اپنے شہر سے اتنا دور نکل چکا ہو کہ شہر کی دیواریں دکھائی نہ دیتی ہوں اور وہاں کی اذان سنائی نہ دیتی ہو ورنہ اگر اس قدر دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو پوری نماز پڑھے گا۔٭ سفر پر جانے والا اگر ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اذان کی آواز نہ سنائی دے لیکن شہر کی دیواریں دکھائی دے رہی ہوں یا (اس کے برعکس) اذان کی آواز سنائی دے لیکن دیواریں نہ دکھائی دیں تو اگر وہاں نماز پڑھنا چاہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر نماز قصر بھی پڑھے گا اور پوری بھی۔۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی رعایت کرے لیکن صرف اذان کی آواز نہ سنے جانے پر اکتفا کرنا بعید نہیں ہے۔ [یعنی اگر شہر سے اتنا دور ہو جائے کہ وہاں کی اذان کی آواز نہ سن سکے لیکن دیواریں دکھائی دے رہی ہوں اور وہاں نماز پڑھنا چاہے تو قصر نماز پڑھنا چاہئے، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پوری بھی یا یہ کہ اتنی دور جانے کے بعد نماز پڑھے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں۔ اور اگر روزہ سے ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ روزہ کو نہ توڑے بلکہ رکا رہے یہاں تک کہ اتنی دور ہوجائے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں]۔۴۔ سوال: ’’بلاد کبیرہ‘‘یعنی بڑے شہروں کے سلسلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) کا فتوہ تفصیل سے بیان فرمائیں۔جواب: غیر معمولی طور پر بڑے شہروں کے سلسلے میں جس کا تعین عرف کے ذریعہ ہوتا ہے،مسافرت کے لئے سفر کے شروع اور اختتام کی منزل خود گھر کو قرار دیتے ہیںس اور دس دن کے قیام کے سلسلہ میں اس کے ایک مخصوص محلہ میں قیام کی نیت کرنا چاہئے [اس وقت ایران میں شہر تہران غیر معمولی بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے]۴۔ سوال: بڑے شہروں کو وطن بنانے اور ان میں دس دن قیام کے سلسلہ میں حضرت عالی کی نظر کیا ہے؟جواب: مسافر کے احکام، وطن بنانے اور دس روز قیام کی نیت سے ٹھہرنے کے سلسلے میں بڑے شہروں اور عام شہروں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ کسی مخصوص محلہ کا تعین کئے بغیر کسی بڑے شہر میں سکونت کی نیت اور ایک مدت تک قیام سے ہی وہ شہر وطن کے حکم میں ہوگا،چنانچہ اگر کسی خاص محلہ کا تعین کئے بغیر پورے شہر میں دس دن کے قیام کی نیت ہو تو روزہ صحیح ہے اور نماز پوری ہوگی۔۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہے اگر شروع سے ہی یہ نیت کر لے کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر میں جائے گا تو اطراف شہر میں وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہے اگر شہر کے دائرے اور اس کی دیوار سے باہر نہ ہو یا اس شہر کے اطراف کے کھیتوں اور باغوں کے درمیان ایسی جگہ ہو کہ وہاں جانا اس شہر میں اقامت کے منافی نہ کیا جائے (یعنی عرف میں یہی کہیں کہ وہ ایک ہی شہر میں دس دن رہا ہے) ایسی صورت میں وہ نماز پوری پڑھے گا۔ لیکن اگر (حد ترخص سے گزر کر) چار فرسخ (یعنی ۱۲میل) کے اندر ہی جانا چاہے تو اگر اس کی نیت میں پہلے سے یہ رہا ہو کہ دس روز میں صرف ایک بار وہاں جائے گا اور آنے جانے میں دو گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگائے تو تمام دس دنوں میں اپنی نماز پوری پڑھے گا۔۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر شروع سے ہی یہ نیت رکھتا ہو کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر (چار فرسخ(۱۲میل)سے کم کی دوری میں) صرف اتنی دور جائے گا،کہ عرف میں یہی کہیں کہ دس دن تک ایک ہی جگہ قیام کیا ہے مثلا اگر ارادہ رکھتا ہے کہ دس دنوں میں کسی ایک دن یا ایک رات کچھ گھنٹوں کے لئے یا اس سے کچھ زیادہ ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات تک کے لئے،صرف ایک بار یا کئی بار شہر کے اطراف میں جائے گا لیکن ان کی مجموعی مدت ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات سے زیادہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نماز پوری رہے گی۔ لیکن اگر دس دن کے قیام کا ارادہ کرتے وقت اس کی نیت میں ہو کہ اس مدت سے زیادہ محل اقامت کے باہر رہے گا تو قیام کی نیت محقق نہیں ہوگی اور وہاں نماز قصر رہےگی۔۶۔مکہ اور مدینہ میں نماز قصر کرنے اور پوری پڑھنے کے درمیان اختیار صرف مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص ہے،یہ حکم پورے مکہ اور پورے مدینہ کے لئے نہیں ہے۔ ہاں یہ اختیار اصل مسجد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مسجد کی موجودہ توسیع شدہ عمارت میں ہر جگہ جاری ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اصل مسجد تک ہی اکتفاء کیا جائے۔ لہذا موجودہ مسجد کے تمام حصوں میں ایک مسافر پوری نماز بھی پڑھ سکتا ہے اور قصر بھی پڑھ سکتا ہے۔۶۔ مکہ اور مدینہ میں ہر جگہ ایک مسافر پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ حکم مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص نہیں ہے۔
قضا نماز
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےباپ کی چھوٹی ہوئی نمازیں اور روزے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہیں کہ وہ ان نمازوں اور روزوں کی قضا بجا لائے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کی قضا نمازوں اور روزوں کو بھی بجا لائے۔ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔
روزہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر کوئی نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے لیکن ظہر سے پہلے ہی متوجہ ہو جائے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اسے چاہئے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا بھی ادا کرے۔۱۔ جس نے رمضان میں بھول کر یا لاعلمی کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور دن میں کسی وقت متوجہ ہو جائے تو اگر اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو، تو اس دن کا روزہ باطل ہے لیکن اس کے بعد بھی غروب تک روزہ کو باطل کرنے والے کاموں سے پرہیز کرے۔ لیکن اگر (ماہ رمضان کی طرف) متوجہ ہونے کے وقت تک کسی ایسے کام کا مرتکب نہ ہوا ہو کہ جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر ظہر سے پہلے متوجہ ہو گیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر روزہ کی نیت کرلے اور روزہ رکھے اور بعد میں اس روزہ کی قضا بھی کرے۔۲۔ جو شخص کسی مرنے والے کے روزے کی ادائیگی کے لئے اجرت لے چکا ہو وہ اگر اپنے مستحبی روزے رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس کے اوپر اپنے روزہ کی قضا یا اور کسی طرح کے واجبی روزے ہوں وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر ظہر سے پہلے اسے یاد آجائے، اس کا مستحبی روزہ باطل ہوجائے گا اور وہ اپنی نیت کو واجب روزہ کی نیت میں پلٹ سکتا ہے، اور اگر ظہر کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ باطل ہے۔ اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اشکال سے خالی نہیں ہے۔۲۔ جس کے ذمہ ماہ رمضان کا قضا روزہ واجب ہے وہ مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا چنانچہ بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر روزہ کے درمیان یاد آجائے اس کا مستحبی روزہ باطل ہو جائے گا اب اگر ظہر سے پہلے یاد آیا ہے تو اس روزہ کی نیت کو ماہ رمضان کی قضا کی نیت میں تبدیل کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔۳۔ اگر مریض ماہ رمضان کی ظہر سے پہلے ٹھیک ہوجائے اور اذان صبح سے اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر کے بعد ٹھیک ہوا ہے تو اس دن کا روزہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔۳۔ اگر مریض، ماہ رمضان میں دن کے وقت ٹھیک ہوجائے تو واجب نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کرے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر سے پہلے ٹھیک ہو گیا ہے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہیں دیا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نیت کر لے اور روزہ رکھے لیکن ماہ رمضان کے بعد اس دن کی قضا بھی کرنا چاہیئے۔۴۔ اگر کسی معینہ واجبی روزہ مثلا ماہ رمضان کے روزہ میں روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کی نیت کرے لیکن اسے انجام نہ دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔۴۔ ماہ رمضان کے روزہ میں اگر دن میں کسی وقت روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے اس طرح کہ روزہ کو جاری رکھنے کا ارادہ باقی نہ رہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور دوبارہ روزہ جاری رکھنے کی نیت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر روزہ رکھنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو یعنی ابھی فیصلہ نہ کیا ہو یا روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ ہو لیکن اسے انجام نہ دیا ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس کے روزہ کی صحت محل اشکال ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ کو مکمل کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی کرے۔دوسرے تمام معینہ واجبی روزوں مثلا معینہ نذر کے روزے وغیرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مبطلات روزہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار اس انجکشن سے پرہیز کرے جو غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے لیکن ایسے انجکشن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جس سے کسی عضو کو بے حس کیا جاتا ہے یا جو دوا کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار طاقت کے یا غذا کے ہر اس انجکشن سے پرہیز کرے جو عضوات میں یا رگوں میں لگائے جاتے ہیں اسی طرح گلوکوز وغیرہ چڑھانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے۔ لیکن بے حس کرنے والے انجکشن کا استعمال نیز زخموں اور چوٹوں پر دوا لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سیگرٹ، تنباکو اور ان جیسی روسری چیزوں کا دھواں حلق میں نہ لے جائے، لیکن گاڑھی بھاپ روزہ کو باطل نہیں کرتی الا یہ کہ وہ منھ میں جاکر پانی ہوجائے اور اسے حلق سے نیچے اتارلے۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار ہر طرح کی دھویں والی چیزوں کے پینے سے پرہیز کرے اسی طرح ایسے منشیات کے استعمال سے بھی پرہیز کرے جو ناک کے ذریعے یا زبان کے نیچے رکھ کر استعمال کئے جاتے ہیں۔۳۔ اگر روزہ دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارہ سے یا ان جیسے کسی اور طریقہ سے خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف عمدا جھوٹی نسبت دے تو اگرچہ فورا یہ کہہ دے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے یا توبہ کرلے پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط واجب کہ تحت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نیز دیگر انبیا اور ان کے جانشین علیہم السلام کے لئے بھی اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔۳۔ احتیاط کی بنیاد پر خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصومین علیہم السلام پر جھوٹ باندھنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اگرچہ بعد میں توبہ کرلے اور کہے کہ میں نے جھوٹ باندھا ہے۔۴۔ اگر ایسی روایت اور قول معصوم نقل کرنا چاہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہ ہو کہ صحیح ہے یا جھوٹی ہے تواحتیاط واجب کی بنیاد پر اس شخص یا کتاب کے حوالے سے اسے نقل کرے کہ جس نے اسے نقل کیا یا لکھا ہو لیکن اگر خود بھی نقل کر دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔۴۔ ان روایات کے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو کتابوں میں آئی ہیں اور انسان نہیں جانتا کہ جھوٹی ہیں، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ ان کو کتاب کے حوالہ کے ساتھ نقل کرے۔۵۔ گردوغبار کو منھ میں داخل کرنا روزہ کو باطل کردیتا ہے چاہے کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حلال ہے جیسے آٹا یا کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حرام ہے۔۵۔ روزہ دار کو چاہئے کہ احتیاط واجب کی بنیاد پر گردوغبار مثلا جھاڑو دینے کی وجہ سے اٹھنے والے غبار کو حلق سے نیچے نہ اتارے، اسی طرح احتیاط واجب کی بنیاد پر سگرٹ بیڑی وغیرہ کا دھواں بھی روزہ کو باطل کردیتا ہے۔۶۔ رمضان کی شب میں اگر مجنب سوجائے اور پھر بیدار ہو اور یہ احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوئے گا تو غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا تو پھر سو سکتا ہے۔جو رمضان کی شب میں مجنب ہے اور جانتا ہے یا احتمال ہے کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا تو اگر ارادہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سوجائے اور اذان صبح تک سوتا رہ جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔۶۔ جو شخص جاگنے میں مجنب ہوا ہو یا سونے میں مجنب ہو اور بیدار ہوجائے اور جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار نہیں ہو سکے گا، اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ غسل کرنے سے پہلے سوئے اور اگر سوجائے اور اذان سے پہلے غسل نہیں کیا تو اس کا روزہ باطل ہے، لیکن اگر احتمال ہو کہ اذان صبح سے پہلے غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا اور غسل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو لیکن بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس روزہ کی قضا رکھنا چاہئے۔ ۷۔ اگر مجنب رمضان کی رات میں سوجائے اور آنکھ کھلنے کے بعد جانتا ہو یا خیال کرے کہ اگر دوبارہ سو گیا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور ارادہ بھی رکھتا ہو کہ اٹھنے کے بعد غسل کر لے گا اس صورت میں اگر دوبارہ سوجائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے یہی حکم ہے،اگر دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ سو کر جاگے اور پھر سے سوجائے، کفارہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔۷۔ جو شخص رمضان کی شب میں مجنب ہو اور حالت جنابت میں اس خیال کے ساتھ سوجائے کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہو کر غسل کرلے گا اور اذان کے وقت تک بیدار نہ ہوسکے تو اس دن کے روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ کفارہ بھی دیا جائے۔۸۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کے سبب کوئی ایسا کام انجام دے جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر مسئلہ معلوم کر سکتا تھا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے اوپر کفارہ ثابت ہے، اور اگر مسئلہ معلوم کرنے پر قادر نہیں تھا یا مسئلہ کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا یا یقین تھا کہ اس کام سے روزہ باطل نہیں ہوتا تو کفارہ اس پر واجب نہیں ہے۔۸۔ اگر شرعی مسئلہ سے لاعلمی کے سبب ایسا کام انجام دے جو روزہ کو باطل کردیتا ہے مثلا وہ نہ جانتا ہو کہ سر کو پانی میں ڈبونا روزہ کو باطل کردیتا ہے اور سر کو پانی میں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس روزہ کی قضا کرنا چاہئے لیکن اس کے اوپر کفارہ واجب نہیں ہے۔اوراگر ایسا کام انجام دیا ہے جس کے بارے میں جانتا ہے کہ حرام ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس سے روزہ بھی باطل ہو جاتا ہے تو روزہ کی قضا کےعلاوہ احتیاط واجب کی بنیاد پر کفارہ بھی دینا چاہیئے۔
اعتکاف
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاعتکاف صرف مسجد میں ہی صحیح ہے لہذا جو شخص اپنے گھر،امام باڑے یا امام بارگاہ یا روضوں میں اعتکاف کرے اس کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ اور مسجدوں میں بھی صرف ان ہی مسجدوں میں اعتکاف صحیح ہے: مسجد الحرام، مسجد النبی، کوفہ کی جامع مسجد، مسجد بصرہ۔ اور ہر شہر کی جامع مسجد میں قصد رجا کے ساتھ اعتکاف کیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔سوال: عرض ہے کہ مسجدوں (جامع مسجد اور عام مساجد) کے اندر اعتکاف کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک بیان فرمائیں۔جواب: جامع مسجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور دیگر مسجدوں میں قصد رجا کی نیت سے کوئی حرج نہیں ہے۔
۳۔ قصد رجاء، یعنی خدا کا مطلوب ہونے کی نیت سے اور ثواب و انعام کی امید پر کوئی عمل انجام دینا۔
خمس
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے گھر کو بیچے اور دوسرا گھر خریدے یا بنائے تو کیا بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت پر خمس واجب ہے اگرچہ اس رقم پر ایک سال پورا نہ گزرا ہو؟جواب: اگر بیچا جانے والا گھر کاروبار کے منافع،تنخواہ یا کسی اور آمدنی کے ذریعہ، حاصل خمس نہ دئے ہوئے مال سے لیا گیا تھا تو اس کی قیمت سے فورا خمس نکالنا واجب ہے۔۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے رہائشی گھر کو بیچ دے تاکہ دوسرا گھر خرید سکے یا بنائے تو بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت میں خمس ہے یا نہیں؟جواب: اگر سال پورا ہونے کے بعد بیچا ہے اور گھر کے(مؤونہ)خرچ میں شمار ہونے کی وجہ سے خمس میں حساب نہ کیا گیا ہو تو گھر کی ملی قیمت میں خمس نہیں ہے چاہے سال کے آخر تک رقم باقی رہے۔۲۔ جو رقم حج کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اور اسی سال اس کا نام قرعہ میں نکل آئے تو ادا شدہ رقم میں خمس نہیں ہے اور اگر بعد کے برسوں میں نام نکلے تو اس کا حساب کرنا ہوگا مگر یہ کہ پہلے استطاعت رکھتا تھا اور اب اس رقم کو شامل کئے بغیر حج کے لئے نہ جاسکتا ہو۔ ۲۔ جو رقم حج یا عمرہ کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اگر سفر کے خرچ کے عنوان سے ایک شخص اور ’’ادارہ حج و زیارت‘‘ کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے مطابق ادا کی گئی ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اس رقم کو واپس لے لیں۔۳۔ سوال: اگر کوئی رقم کسی کے پاس امانت کے طور پر یا کرایہ مکان کے لئے مالک مکان کے پاس رہن کے طور پر رکھوائے تو کیا اس بات کے پیش نظر سے کہ اس رقم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے،وجوہات شرعیہ ادا کرنا ہوں گی؟جواب: جی ہاں! اس رقم پر خمس ہے اور جب بھی اس کی وصولی کا امکان ہو ملنے کے بعد خمس ادا کرنا چاہیئے۔۳۔ سوال: عام طور سے مکان کرایہ پر لینے کے لئے ایک رقم پیشگی مالک مکان کو دیتے ہیں اگر یہ رقم کاروبار کی منفعت سے ہو اور کئی سالوں تک مالک مکان کے پاس پڑی رہے تو کیا واپس ملتے ہی اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے یا یہ کہ اس رقم پر سال کے خرچہ میں شمار ہونے کے سبب خمس نہیں ہے اور اگر اسی رقم سے کسی اور جگہ کرایہ پر مکان لینا چاہے تو کیا حکم ہے؟جواب: جب تک کرایہ کے مکان کے لئے اس رقم کی ضرورت رہے اس وقت تک اس پر خمس نہیں ہے۔۴۔ ... اگر مکان خریدنے کے لئے ایک رقم اپنے پاس کئی سال تک رکھے رہے تو یہ رقم سال کے خرچہ میں شمار نہیں ہوگی اور اس پر خمس دینا ضروری ہے۔سوال: اس رقم پر خمس ہے یا نہیں جو کوئی شخص شادی یا تعلیم کے لئے الگ کر دیتا ہے؟جواب: اگر محنت کی آمدنی سے ہو اور ایک سال کے اندر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس ہے۔۴۔ سوال: جس شخص کو کسی گھریلو سامان مثلا فرج کی ضرورت ہو اور یک مشت خریدنے کی قوت نہ ہو اور ہر ماہ اس کے لئے کچھ رقم جمع کر رہا ہو تاکہ جب اس کی قیمت کے برابر رقم جمع ہوجائے تو اسے خریدلے یا شادی کے لئے رقم جمع کر رہا ہے تو کیا خمس کی سالانہ تاریخ آ جانے پر اس طرح کی جمع شدہ رقم میں خمس ہوگا یا نہیں؟جواب: محنت کی آمدنی سے جمع کی ہوئی رقم اگر مستقبل قریب میں (مثلا خمس کی تاریخ سے دو تین ماہ کے بعد ہی ضروریات زندگی سے کسی چیز کی فراہمی) کے لئے ہو اور اس کا خمس نکالنے کے بعد ضرورت کا سامان خریدا نہ جا سکتا ہو تو اس میں خمس واجب نہیں ہے۔
۱۔ زندگی کی ضروریات سے مراد: مکان، کپڑے اور گھر کی ضروریات کے سامان ہیں۔
احکام حجاستطاعت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ استطاعت کے لئے واپسی پر خود کفیل باقی رہنا شرط ہے۔ یعنی حج سے واپسی پر تجارت، کھیتی باڑی، کاروبار یا آمدنی کا کوئی اور ذریعہ جائداد، باغ یا دوکان کی صورت میں باقی ہو اس طرح کہ زندگی گزارنے کے لئے پریشانی اور مشکل سے دوچار نہ ہو اور اگر اپنی شان کے مطابق کمائی پر قادر ہو تو یہی کافی ہے اور اگر واپسی پر رقوم شرعی مثلا زکات و خمس کا ضرورتمند ہو جائے تو(استطاعت کے لئے) کافی نہیں ہے لہذا ان طلاب اور اہل علم پر حج واجب نہیں ہے جو حج سے واپسی پر حوزہ علمیہ کے ماہانہ وظیفہ(شہریہ) کے محتاج ہوں ۔۱۔ اگر(حج سے) واپسی کے بعد ماہانہ وظیفہ (شہریہ) کے ذریعہ ان کی زندگی چل سکتی ہو تو کافی ہے اور(استطاعت کے بعد) ان پر حج واجب ہوگا۔۲۔ جس نے حج نیابتی کے لئے اجرت لی ہو اور بعد میں اسی سال مالی استطاعت پیدا ہوجائے تو اب اگر اسی سال کے لئے حج نیابتی کی اجرت لی ہو تو اسے حج نیابتی انجام دینا چاہیئے اور اگر اس کی استطاعت باقی رہی تو اگلے سال اپنے حج کو انجام دے گا۔۲۔ اگر حج نیابتی (کی رقم ہاتھ آنے) کی وجہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق عمل کرے گا لیکن اگر کسی اور طریقہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو اس کے اجارہ (نیابتی حج) کا باطل ہونا معلوم ہوجائے گا اور اسے اپنا حج ادا کرنا چاہیئے۔۳۔ جس کے لئے شادی کرنا ضروری ہو اور اس کے لئے پیسے کی ضرورت ہو اسی صورت میں مستطیع ہوگا کہ جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کا خرچ بھی موجود ہو۔۳۔ اگر شادی نہ کرنے کی وجہ سے کسی مشکل، بیماری یا حرام میں پڑنے کا اندیشہ ہو یا شادی نہ کرنا توہین و خفت کا سبب ہو تو (استطاعت کے لئے) حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کے مخارج بھی ہونا ضروری ہے۔۴۔ جو شخص مالی اعتبار سے مستطیع ہے لیکن بدن کی صحت یا راہ کھلنے کے لحاظ سے مستطیع نہیں ہے اپنا مال کسی کام میں لگا کر اپنے آپ کو استطاعت سے خارج کرسکتا ہے لیکن اگر ان زاویوں سے بھی مستطیع ہے اور صرف جانے کے وسائل آمادہ نہیں ہیں یا حج کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے تو وہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کیا تو حج اس کے ذمہ واجب ہوجائے گا اور اسے ہر صورت میں حج کرنا ہوگا۔۴۔ حج کی انجام دہی کے لئے لازم وقت کے پہنچ جانے کے بعد ایک مستطیع شخص اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور وہ وقت کے آ جانے سے پہلے بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہ کرے۔
نیابت
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: ایک شخص نے مالی استطاعت کے بعد حج کے لئے اپنا نام رجسٹر کرایا اور دو سال بعد قرعہ میں اس کا نام نکل آیا لیکن سفر سے چند مہینہ پہلے اس کا انتقال ہوگیا اور مرنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹے کو حج بجالانے کے لئے اپنا نائب بنا دیا اب اگر اس کا بیٹا خود مالی اعتبار سے مستطیع تھا لیکن اس نے نام رجسٹر کرانے کے سلسلہ میں کوتاہی کی تھی اور نام نہیں لکھوایا تھا چنانچہ اگر وہ نام لکھواتا تو شاید پہلے سال ہی یا بعد کے برسوں میں اس کا نام قرعہ میں آجاتا اب یہ لڑکا باپ کی طرف سے حج بدل کے لئے مدینہ آیا ہوا ہے مگر ابھی محرم نہیں ہوا ہے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟جواب: مذکورہ صورت میں نیابت(کا حج)صحیح نہیں ہے، اسے چاہئے کہ اپنا حج ادا کرے۔۱۔ اگر وصیت کے ٹوکن کے ذریعہ بیٹے کے لئے حج پر جانے کا راستہ نکل آئے یا یہ کہ میت کے ورثہ کسی بیٹے کو حج کا ٹوکن دے دیں کہ وہ باپ کی طرف سے جاکر حج کو انجام دے تو اسے چاہئے کہ باپ کی طرف سے حج انجام دے لیکن اگر وصیت نہ ہو یا ورثہ کی طرف سے مطالبہ نہ کیا گیا ہو کہ حج نیابتی وہ خود انجام دے تو اسے چاہئے کہ حج اپنی طرف سے انجام دے اور باپ کے لئے کسی اور کو نائب بنائے۔۲۔ سوال: جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو اور عقد اجارہ کے بعد عمل حج کی ادائیگی کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو اور اس نے کسی بھی عذر کے تحت ایک معذور کے فریضہ کے مطابق حج انجام دیا ہو تو کیا اس کا حج نیابتی منوب عنہ کی طرف سے کافی ہے؟ اور آیا عذر کی کیفیت کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟جواب: محل اشکال ہے۔۲۔ جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو لیکن عقد اجارہ کے بعد عمل کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو تو اس حالت میں اگر اس کا عذر حج کے بعض اعمال میں نقص پیدا ہونے کا سبب نہ بنے، نیابت صحیح ہے مثلا اگر وہ بعض ایسے کام جو حج کے دوران متروک ہیں ترک کرنے سے معذور ہو لیکن اس کا یہ عذر حج کے اعمال میں نقص کا سبب بنے تو اجارہ کا باطل ہو جانا اس صورت میں بعید نہیں ہے اور اجرت کے سلسلہ میں نائب اور منوب عنہ کے درمیان مصالحت ہو جانا اور منوب عنہ کی طرف سے عمرہ اور حج کا اعادہ احوط ہے۔
احرام
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر تلبیہ بقدر واجب بھی نہ جانتا ہو اور سیکھ بھی نہ سکتا ہو یا سیکھنے کا وقت نہ ہو اور کسی کے کہلوانے سے بھی دہرا نہ کرسکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جیسے بھی کہہ سکتا ہے کہے اور اس کا ترجمہ بھی دہرائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے علاوہ تلبیہ کے لئے نائب بھی لے لے۔۱۔ جیسے بھی کہہ سکتا ہو ادا کرے اور احتیاط کی بنا پر کسی کو نائب بھی بنائے۔۲۔ احرام کے دو کپڑوں کو پہننے کے لئے کوئی خاص ترتیب ضروری نہیں ہے بلکہ جس ترتیب سے بھی پہن لے کوئی حرج نہیں ہے، صرف خیال رہے کہ ایک کو لنگی کی صورت میں جیسے بھی چاہے پہنے اور دوسرے کو چادر قرار دے جیسے بھی چاہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ چادر سے دونوں شانوں کو ڈھانکے۔۲۔ اگر رائج طریقہ کے مطابق ہو تو کافی ہے۔ چادر اتنی بڑی ہونا چاہئے کہ دونوں شانوں کو چھپا سکے۔۳۔ اگر حائضہ پاک ہونے تک انتظار نہ کرسکتی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ مسجد (شجرہ) کے پاس محرم ہوجائے اور جحفہ یا اس کے کسی موازی مقام سے احرام کی تجدید کرے۔۳۔ جو عورتیں عذر رکھتی ہیں اور بھیڑ وغیرہ کے سبب مسجد سے گزرنے کی حالت میں محرم نہیں ہوسکتیں ان پر واجب ہے کہ جحفہ یا اس کے موازی کسی مقام سے محرم ہوں چنانچہ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ نذر شرعی کے ساتھ مدینہ میں اپنی قیامگاہ سے ہی محرم ہو جائیں۔۴۔ مستطیع شخص اگر میقات سے احرام باندھنا علم کے باوجود جان بوجھ کر موخر کردے اور کسی عذر کی وجہ سے میقات واپس بھی نہ جاسکتا ہو اور آگے بھی کوئی میقات نہ ہو تو اس کا حج باطل ہے اور اسے چاہئے کہ دوسرے سال حج کرے۔۴۔ اگر ممکن ہو تو میقات واپس جائے اور اگر تنگی وقت یا کسی اور عذر کے سبب واپس نہ جاسکتا ہو تو حرم کے(دائرے سے) باہر جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو حرم کے اندر ہی محرم ہوجائے اور اس کا حج صحیح ہے۔۵۔ جو شخص بھول کر یا مسئلے سے لاعلمی یا کسی اور عذر کے سبب احرام کے بغیر ہی میقات سے گزر جائے تو اگر میقات تک واپس جا سکتا ہو اور پھر وہاں سے واپس آکے عمرہ کے اعمال میں بھی پہنچ سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ واپس جائے اور میقات سے احرام باندھ کر آئے چاہے حرم میں داخل ہو چکا ہو یا نہ ہوا ہو، اور اگر مذکورہ طریقہ سے واپس آنا ممکن نہ ہو تو اب اگر حرم میں داخل نہ ہوا ہو تو جہاں ہے وہیں سے احرام باندھے گا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس ہو اور وہاں محرم ہو۔ کہ(حرم میں داخل ہو)۵۔ احتیاط واجب کی بنا پر جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس جائے اور(وہاں محرم ہو)۔۶۔ سوال: جو شخص عمرہ مفردہ انجام دے چکا ہو کیا ایک ماہ سے کم مدت میں بغیر احرام کے میقات سے باہر جاسکتا ہے؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ رجائے مطلوب کی نیت کے ساتھ دوسرے عمرہ مفردہ کے لئے محرم ہو اور بغیر احرام کے باہر نہ جائے۔۶۔ پچھلے احرام کو ایک ماہ گزرنے سے پہلے بغیر احرام کے میقات سے گزر سکتا ہے۔۷۔ سوال: زوجہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نذر کرتی ہے اور نذر کے تحت محرم ہوجاتی ہے تو کیا اس کا احرام صحیح ہے؟ اور اب اگر اسی احرام کے ساتھ اعمال بھی بجالائی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر میقات سے پہلے محرم ہوئی ہے تو اس کا احرام صحیح نہیں ہے، اگرچہ اس صورت حال سے، حج ختم ہونے کے بعد اگر متوجہ ہو تو اس کا عمل صحیح ہے، لیکن اگر عمرہ کے بعد متوجہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں عمل صحیح ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور اگر تلافی ہوسکتی ہو تو میقات واپس جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر میقات نہ جاسکتی ہو تو حرم کے باہر سے احرام باندھے۔۷۔ شوہر کی عدم موجودگی میں زوجہ کی جانب سے میقات سے پہلے احرام باندھنے کی نذر شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن شوہر ساتھ ہونے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نذر نہ کرے اور اگر بغیر اجازت کے نذر کرے تو نذر منعقد نہیں ہوگی۔
محرمات احرام
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ خوشبو والے پھول اور سبزوں کے استعمال سے پرہیز کرے سوائے کچھ قسموں کے جو جنگلی ہیں جیسے بومادرون، درمنہ اور خزامی جن کے لئے کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ خشبودار پھول ہے۔۱۔ سوائے عطر کے کہ جس کا استعمال احرام کی حالت میں حرام ہے احتیاط واجب کے تحت کسی بھی قسم کی ایسی خوشبودار چیز نہیں سونگھنا چاہیئے کہ جس کو عطر نہیں کہا جاتا۔۲۔ سیب یا بہی کی مانند خوشبودار پھلوں سے پرہیز ضروری نہیں ہے اور ان کے کھانے اور سونگھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔۳۔ احتیاط واجب کی بنا پر خوشبو کے استعمال کا کفارہ، ایک بھیڑ ہے۔۳۔ خوشبو کے استعمال پر کفارہ کا واجب ہونا ثابت نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک بھیڑ کفارہ دے۔۴۔ احتیاط یہ ہے کہ آئینہ نہ دیکھے اگرچہ زینت کے لئے نہ ہو۔۴۔ زینت کے قصد کے بغیر آئینہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۵۔ (احرام کے محرمات میں) تیرہواں عمل، زینت کے لئے انگوٹھی پہننا (ہے) اور اگر استحباب کے لئے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔۵۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر محرم کو انگوٹھی پہننے اور مہندی لگانے سے اگر ان کا زینت میں شمار ہو پرہیز کرنا چاہیئے ولو زینت کا قصد نہ رکھتا ہو بلکہ ہر اس کام سے پرہیز کرے جو زینت سمجھا جاتا ہے۔۶۔ اگر سر دھوئے تو اس کو تولیہ یا رومال سے خشک نہیں کرنا چاہئے اور سر کے بعض حصہ کا بھی وہی حکم ہے جو پورے سر کا حکم ہے۔۶۔ تولیہ سے سر خشک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ تولیہ پورے سر پر ڈال کر سر کو اس سے خشک کرے۔۷۔ رات کو سفر میں مکانوں کے درمیان گزرتے وقت چھت کے نیچے بیٹھنا احتیاط کے خلاف ہے اگرچہ اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے لہذا رات میں پرواز کرنے والے ہوائی جہاز میں محرم کے بیٹھنے کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔۷۔ لیکن بارش کی راتوں اور(جاڑے کی)ٹھندی راتوں میں سائے میں نہ بیٹھنے کی احتیاط ترک نہ ہو مگر یہ کہ اس احتیاط پر عمل کسی مشکل اور پریشانی کا باعث بنے۔۸۔ سوال: محرم کے لئے پانی کی وہ مشک اٹھا کر چلنے کا کیا حکم ہے جو سلی ہوئی ہو؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ اس کو کاندھوں پر نہ اٹھائیں ہاتھ میں لیکر چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۸۔ ہمیان(کمر میں باندھی جانے والی چمڑے وغیرہ کی تھیلی) ازار بند(بلٹ وغیرہ)یا(رومال کی مانند)ایسے چھوٹے کپڑے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن کو لباس میں شمار نہیں کیا جاتا۔۹۔ سوال: کیا محرم عورت اپنے چہرا تولیہ سے پوجھ سکتی ہے یا اس کا بھی حکم مرد کے سر کی طرح ہے کہ جس کو ڈھکا نہیں جا سکتا؟جواب: احتیاط کی رعایت ضروری ہے۔۹۔ اگر (کوئی عورت) تولیہ پورے چہرے پر ڈال لے تو صحیح نہیں ہے ورنہ کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ سوال: شہر مکہ میں کچھ ٹیونل بنے ہوئے ہیں جن کی لمبائی ۱۵۰۰ قدم سے زیادہ ہے تو کیا حج کا احرام باندھنے کے بعد موٹر کار یا بس وغیرہ کے ذریعہ ان سے گزرا جاسکتا ہے؟ جبکہ معلوم ہے کہ ان پر چھت پڑی ہوئی ہے؟جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اگر خود اس راستہ کو اپنائے اور اس چھت کے نیچے سے گزرے تو صحیح نہیں ہے۔۱۰۔ کوئی حرج نہیں ہے۔۱۱۔ سوال: کیا حالت احرام میں وہ دانت اکھاڑا جاسکتا ہے جس میں شدید درد ہو اور ڈاکٹر بھی اس کے اکھاڑنے کے لئے کہے؟ اگرچہ خونریزی کا باعث ہی کیوں نہ ہو؟جواب: اگر ضروری ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن احوط ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے۔۱۱۔ کفارہ دینا احتیاط مستحب ہے۔
۵۔ سایہ میں اور چھت کے نیچے چلنا۔
طواف
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ طواف کی شرطوں میں پانچویں شرط یہ ہے کہ طواف ہر طرف سے خانہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔۱۔ طواف کی جگہ کے لئے کوئی حد نہیں ہے،مسجد الحرام میں جہاں تک بھی طواف کرنا کعبہ کا طواف کرنا قرار پائے طواف صحیح اور مجزی ہے ہاں اگر اضطرار اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو تو مستحب ہے طواف کہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔۲۔ سوال: اگر طواف کے درمیان نماز جماعت قائم ہوجائے اور آدمی طواف جاری رکھنے سے معذور ہو تو اس کا فریضہ کیا ہے اور اگر سعی کے درمیان ہو تو کیا فریضہ ہے؟جواب: اگر طواف یا سعی کے چوتھے شوط (چکر) کے بعد سلسلہ ٹوٹے تو جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے (باقی ماندہ) طواف یا سعی آخر تک انجام دے گا اور اگر طواف کے چوتھے شوط سے پہلے چھوڑا ہو اور فاصلہ طویل ہوجائے تو طواف دوبارہ شروع سے انجام دے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ بقیہ طواف مکمل کرے اور اس کی نماز طواف پڑھنے کے بعد طواف کا اعادہ کرے اور دوسری نماز طواف پڑھے اور سعی میں بھی بقیہ سعی مکمل کرنے کے بعد پھر سے سعی کا اعادہ کرنے میں احتیاط ہے۔۲۔ اگر طواف کا سلسلہ توڑدے جبکہ آدھا طواف یعنی ساڑھے تین شوط (چکر) انجام دے چکا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے آگے بڑھا کر طواف پورا کرے اگرچہ ایک مکمل طواف ’’تمام و اتمام کسی بھی نیت سے بجا لائے اور اگر ساڑھے تین شوط سے کم انجام دیا ہو تو ازسرنو طواف انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۶۔
۶۔ یعنی نیت کرے کہ اگر پہلا طواف صحیح تھا تو اس طواف کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوجائے اور اگر پہلا طواف صحیح نہ رہا ہو تو یہ طواف اس کا طواف شمار ہو۔
نماز طواف
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاگر کوئی شخص قرائت یا واجب اذکار صحیح طور پر نہ سیکھ سکے تو نماز جیسے بھی اس سے ہوسکتا ہے خود انجام دے اور یہی کافی ہوگی اور اگر ممکن ہو تو کسی کو ساتھ لے لے کہ وہ قرائت اور اذکار کو پڑھتا رہے اور یہ دہراتا رہے اور احتیاط یہ ہے کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس کسی عادل شخص کی اقتدا کرے لیکن نماز جماعت پر اکتفا نہ کرے جیسا کہ نائب بنانا بھی کافی نہیں ہے۔نماز طواف میں جماعت کا شرعی جواز ثابت نہیں ہے لہذا جیسے بھی ہوسکے خود پڑھے اور احتیاطا نائب بھی بنائے۔
دو عمرہ کا فاصلہ
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ حج کی طرح عمرہ کی تکرار بھی مستحب ہے اور دو عمرہ کے درمیان کے فاصلہ کے سلسلہ میں علما نے اختلاف کیا ہے اور احوط یہ ہے کہ ایک مہینہ سے کم میں قصد رجاء کے ساتھ انجام دیا جائے۔۱۔ دو عمرہ کے درمیان کسی معین فاصلہ کا ہونا شرط نہیں ہے لیکن احتیاط کی بنا پر ایک مہینہ میں صرف ایک عمرہ اپنے لئے انجام دے سکتا ہے لیکن غیر کے لئے ہر ایک کی طرف سے ایک عمرہ انجام دینا جائز ہے۔۲۔ عمرہ تمتع کے بعد اور حج تمتع سے پہلے عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے اور اگر انجام دے دے تو عمرہ مفردہ کی صحت محل اشکال ہے لیکن عمرہ تمتع اور حج تمتع میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے۔
احرام حج
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاحتیاط واجب یہ ہے کہ جو شخص عمرہ تمتع سے فارغ ہوجائے اور محل بن جائے وہ کسی ضرورت کے بغیر مکہ سے باہر نہ جائے اور اگر باہر جانے کی کوئی ضرورت پڑجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ حج کے احرام کے لئے محرم ہو اور پھر باہر جائے اور اسی احرام کے ساتھ اعمال حج کے لئے پلٹے۔عمرہ تمتع کے بعد اگر حج کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہو تو مکہ کے باہر قریب کے علاقوں کی طرف نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قربانی
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ قربانی کے شرائط میں سے یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا نہ ہو۔۱۔ قربانی کا بوڑھا نہ ہونا شرط نہیں ہے۔۲۔ قربانی کی ساتویں شرط یہ ہے کہ اس کے بیضہ کچلے ہوئے نہ ہوں، احتیاط واجب کی بنیاد پر۔۲۔ بیضہ کا کچلا ہوا نہ ہونا شرط نہیں ہے مگر یہ کہ خصی ہونے کی حد تک پہنچ جائے۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مومن ہو، بلکہ یہ قوت سے خالی نہیں ہے اور یہی کفارے کے حیوان کے ذبح کرنے والے کے سلسلہ میں بھی ہے۔۳۔ اگر ذبح کرنے والے کو قربانی کرنے میں اپنا نائب بنایا ہو تو [احتیاط واجب کی بنیاد پر مومن ہونا چاہئے] لیکن اگر اس سے صرف ذبح کرنے کا مطالبہ کرے تو ذبح کرنے والے کا مومن ہونا ضروری نہیں ہے اور خود قربانی اور قربت کی نیت کرے گا۔۴۔ سوال: اسٹیل کے چاقو سے ذبح کرنا کیسا ہے جس کے بارے میں پتہ نہیں ہے کہ لوہا ہے یا نہیں؟جواب: صحیح نہیں ہے۔۴۔ ذبح کرنے کے آلے کو لوہا ہونا چاہئے اور اسٹیل (یعنی لوہا اور زنگ سے حفاظت کا مادہ) در حقیقت لوہا ہی ہے اور اس سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حلق یا تقصیر
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ احتیاط واجب کی بنا پر منی میں پہلے رمی جمرہ کرے اس کے بعد ذبح کرے پھر تقصیر یا حلق۔۱۔ اگر قربانی منی میں ہو تو مذکورہ ترتیب واجب ہے اور اگر منی میں نہ ہو تو اس کی رعایت احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے اور دونوں صورت میں اگر رعایت نہ کرے تو گنہگار ہے لیکن اس کا عمل صحیح ہے۔۲۔ ایام تشریق کے آخر تک حلق کو موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ عمدا ہی کیوں نہ ہو اور رات میں بھی حلق صحیح ہے اور کافی ہے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر حلق یا تقصیر عید کے دن ہونا چاہئے اور اگر اس میں تاخیر کی تو شب یازدہم یا اس کے بعد اس کا انجام دینا کافی ہے۔
منی میں رات گزارنا
امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےحاجی کے اوپر واجب ہے کہ شب یازدہم اور شب دوازدہم کو منی میں بیتوتہ کرے یعنی غروب آفتاب سے آدھی رات تک وہاں رہے۔رات کے شروع سے آدھی رات کے بعد تک یا آدھی رات کے پہلے سے طلوع فجر تک وہاں رہ سکتا ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) سے چند استفتاآت
۱۔ براہ کرم غنا اور موسیقی نیز اس کے آلات کے مسئلہ کو سادہ اور قابل فہم طریقہ سے میرے لئے بیان فرمائیں۔
جواب: غنا مرکب ہے لہو و لعب اور عیاشی کی محفلوں سے مناسبت رکھنے والے اور ان محفلوں کے مخصوص گانے سے۔ یہ گانا حرام ہے، گانا بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ موسیقی کے ساز اور آلات بھی اگر اس طرح استعمال کئے جائیں جس طرح عام طور سے مذکورہ محفلوں میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کا استعمال بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ لہذا موسیقی اگر غنا ہو (یعنی مذکورہ محفلوں کے مخصوس انداز کےگانے) یا آلات موسیقی کی آواز ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس طرح کی نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔
۲۔ عورت کا عورتوں کے درمیان اسی طرح مرد کا مردوں کے درمیان یا محرموں کے درمیان شادیوں میں ناچنا کیسا ہے؟
جواب: ناچنا اگر شہوت کے بھڑکنے یا کسی برائی کے پیدا ہونے یا کسی حرام کے مرتکب ہونے کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے بجز خلوت میں شوہر کے لئے زوجہ کے رقص کے، اسی طرح اس کے برعکس۔
۳۔ ارواح کے احضار کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر کیا ہے؟
جواب: ارواح کا حاضر کرنا اپنی جگہ کوئی ممانعت نہیں رکھتا مگر یہ کہ کسی حرام کام کے ساتھ ہو یا کسی حرام کام کے انجام دینے کے ارادہ سے ہو۔
۴۔ ہپناٹزم کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے؟
جواب: عقلائی غرض کے لئے مقابل کی رضایت کی صورت میں فی نفسہ حلال ہے اور کوئی حرج نہیں ہے۔
۵۔ نامحرم کو دیکھنا کا کیا حکم ہے؟
جواب: نامحرم کے چہرے اور گٹے تک ہاتھوں کو احساس شہوت کے بغیر دیکھنا حرام نہیں ہے۔
۶۔ اگر ایک اجنبی انسان کے نطفہ کو کسی عورت کے رحم میں ڈالیں تو شرعی اعتبار سے صحیح ہے یانہیں؟
جواب: مذکورہ عمل اپنی جگہ پر شرعی اعتبار سے ممنوع نہیں ہے لیکن حرام نگاہ اور ہاتھ لگانے سے پرہیز کیا جائے۔
۷۔ اگر زن و شوہر کے ذریعہ بنے ہوئے جنین کو کسی نامحرم عورت کے رحم میں ڈالا جائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ براہ مہربانی مسئلہ کے وضعی احکام بھی بیان فرمائیں۔
جواب: اس کام میں فی نفسہ اشکال نہیں ہے اگرچہ ہاتھ لگانے اور نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا ہوگا اور بچہ صاحب نطفہ مرد و زن سے ملحق ہوگا اور ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے لئے محرمیت ثابت ہوگی اور صاحب رحم عورت کے سلسلہ میں بھی احتیاط کی جائے۔
۸۔ عورتوں اور مرودں کی وقتی یا دائمی نس بندی کا کیا حکم ہے؟ اگر نس بندی بانجھ ہونے کا سبب ہو تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر نس بندی عقلائی غرض سے، بڑے نقصان کے بغیر اور زوجہ میں شوہر کی اجازت سے ہو تو اس میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے لئے وقتی یا دائمی اسی طرح بانجھ ہونے یا نہ ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
۹۔ میں نے ایک سالہ بچی کو فرزندی میں قبول کیا ہے اب کسی راہ حل کی تلاش میں ہوں جس سے وہ محرم ہوسکے۔
جواب: اس بچی کو مصلحت کی صورت میں اور حاکم شرعی کی اجازت سے اپنے والد کے عقد موقت میں لاسکتے ہیں۔
۱۰۔ کیا قسامہ میں ایک آدمی پچاس قسم کھا سکتا ہے؟
جواب: قسامہ میں جہاں قسم کھانے والوں کی تعداد (مدعی کی طرف) پچاس افراد سے کم ہو وہاں اس قسامہ کی بنیاد پر حکم کرنے میں واقعی اشکال ہے۔
۱۱۔ قتل عمد میں اگر مقتول کے سارے کے سارے اولیاء، صغیر یا مجنون ہوں وہاں کیا ولی قہری (باپ یا پدری جد) یا عدالت کی طرف سے معین ہونے والے قیم، قصاص یا دیہ کا مطالبہ کرسکتا ہے؟
جواب: اولیائے صغیر و مجنون کے ادلہ ولایت سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ شارع کی طرف سے ان کی ولایت کا جعل کرنا مولی علیہ کی مصلحت کی حفاظت کے لئے ہے۔ لہذا پیش نظر مسئلہ میں کیونکہ اولیائے دم، صغیر و مجنون ہیں لہذا ان کے شرعی ولی کو چاہئے کہ ان کی مصلحت اور فائدے کے پیش نظر مناسب اقدام کرے اور قصاص یا دیہ یا بامعاوضہ معافی یا بلا معاوضہ معافی کے سلسلہ میں اس کی تشخیص نافذ ہوگی۔ ظاہر ہے کہ صغیر و مجنون کی مصلحت کی تشخیص تمام پہلؤوں کو منجملہ اس کے سن بلوغ سے قریب یا نزدیک ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام پائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج انتیس بہمن کے یادگار دن کی مناسبت سے صوبہ مشرقی آذربائیجان کے مختلف عوامی طبقات کے افراد سے خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عوام کی بیداری اور سچا ایمان، انقلاب اور امام خمینی (رہ) کے اہداف و مقاصد پرثابت قدمی اور قومی توانائیوں و صلاحیتوں کا استعمال، اسلامی انقلاب کے ثبات و استحکام اور روز افزوں ترقی کے بنیادی اسباب ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سےپہلے تو میں شکریہ ادا کروں گا اپنے بھائیوں اور بہنوں کا جو دور دراز سے طویل راستہ طے کرکے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں، دوستانہ فضا میں یہ اجتماع ہو۔ آپ کا خیر مقدم ہے، میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
آذربائيجان کے عوام کے حریت پسندانہ اور دانشمندانہ کارنامے ملت ایران کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہیں یادگار کارناموں میں ایک انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ( اٹھارہ فروری انیس سو ستتر) کا واقعہ ہے۔ آپ کی تاریخ کے مختلف ادوار، خواہ وہ انقلاب سے قبل کا دور ہو، تحریک انقلاب کا دور ہو، مسلط کردہ جنگ اور دفاع مقدس کا دور ہو یا اس کے بعد سے اب تک کا دور ہو، آپ کے ایسے ہی کارناموں سے پر ہیں۔ البتہ آذربائيجان کے عوام نے بعض مواقع پر اپنی جد و جہد کو نقطہ کمال تک پہنچایا ہے، انتیس بہمن کا شمار ایسے ہی مواقع میں کیا جاتا ہے۔
ہم اپنے نوجوانوں کو، جو اس وقت موجود نہیں تھے، اس عظیم واقعے سے اگر روشناس کرانا چاہیں تو مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ، شاہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف ملک کے ایک گوشے یعنی قم سے آواز بلند ہوئي، امریکا کے رحم و کرم پر منحصر، غدار شاہی حکومت نے اس کو بے رحمی سے کچل دیا۔ لوگ سمجھے کہ مخالفت کی آواز نابود ہو گئي لیکن جس واقعے نے اس آواز کو ختم ہونے سے بچا لیا اور اس واقعے کو ایک تحریک کی شکل دے دی وہ آذربائیجان اور تبریز کے عوام کا کارنامہ تھا۔ تبریز کے عوام نے اس آواز کو قم میں ہی دفن ہو جانے سے بچا لیا۔ اگر ہم صدر اسلام سے اس کی مثال پیش کرنا چاہیں تو فرزند رسول حضرت امام زین العابدین اور زینب کبری سلام اللہ علیھما کے کارنامے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کو سر زمین کربلا میں دفن ہو جانے اور محو ہو جانے سے بچایا۔ آپ نے قم کی تحریک کا پرچم بلند کیا اور یہ پرچم اس تحریک کی پہچان بن گيا، اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انتیس بہمن کے واقعے کی اہمیت کیا ہے۔
اس واقعے کی روشنی میں آذربائیجان کے عوام کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جا سکتا ہے کہ آذربائیجان کے عوام میں جوش و خروش ہے، اعلی سطح کا شعور اور ہوشیاری ہے، انہیں علم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ شجاعت و حمیت سے سرشار یہ عوام ہر خطرے سے ٹکرا جانے کے لئے آمادہ ہیں۔ یہ بیداری کا پیکر و سرچشمہ ہیں۔ میں بیداری کے آپ کے نعرے کی تائید کرتا ہوں میں برسوں سے کہتا آیا ہوں کہ آپ کے نعرے کی صداقت کی تائيد میں میں کہوں گا آذربائیجان اوباخسان، انقلابا دایاخسان ( آذربائیجان تو بیدار ہے، انقلاب کا پشت پناہ ہے)
یہ پورا واقعہ ہی، بیداری و ہوشیاری، ادراک و موقع شناسی، شجاعانہ و بر وقت کاروائي سے عبارت ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک زمانے تک حکومت کے ظلم و استبداد اور فتنہ و فساد کے باعث ایک قوم، پسماندگي کا شکار ہو جاتی ہے، اسے حالات کی خبر نہیں رہ جاتی، علم و دانش سے محروم ہو جاتی ہے۔ پھر سامراجی طاقتیں وارد میدان ہوتی ہیں۔ پیچیدہ، گوناگوں اور پر اسرار حربوں سے اس قوم کو اسی صورت حال میں قید رکھنے کی کوششیں کرتی ہیں، ان کے قدرتی ذخائر، تاریخی و ثقافتی اقدار کو نابود کر دیتی ہیں۔ اس قوم کی باگڈور اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں۔ اب یہ قوم چاہتی ہے کہ اس کی تقدیر بدل جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ظالم سامراجی طاقتوں سے درخواست کی جائے کہ آپ سامراجیت کی بساط سمیٹ لیں، اپنے مفادات کو نظر انداز کر دیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس کا کوئي نتیجہ نکلے گا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ درخواست کرنا بے فائدہ ہے، مذاکرات کئے جائيں۔ تو کیا مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ منطقی و مدلل گفتگو اور درخواست سے آیا بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کرانا ممکن ہے؟
ایسے مواقع پر قوموں کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اپنی طاقت کو منظم کریں اور اپنی توانائيوں کو بروی کار لائيں تاکہ دشمن ان کی کمزوریوں کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ واحد راستہ ہے اس کے علاوہ قوموں کے پاس کوئي چارہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس کے لئے بیدار ہونا ضروری ہے، آکاہ رہنا ضروری ہے، ہر قسم کی کوتاہی سے بچنا ضروری ہے، بے وقعت مادی آسائش اور خواہشات کے دام میں نہ آنا ضروری ہے، بلند اہداف و حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں اتر جانا ضروری ہے۔ ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایرانی قوم نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
بائيس بہمن اس شجاعانہ اقدام کا نقطہ اوج تھا۔ عوام کو بیدار کرنے کے لئے برسوں جس شخصیت نے جد و جہد کی وہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت تھی۔ اس عظیم کام میں تمام مخلص دانشوروں، اور علما کا تعاون ملا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بتدریج اس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ پھر کیا تھا ہماری قوم جس نے دور قاجاریہ کے ظلم و استبداد برداشت کئے تھے اور جسے پہلوی دور حکومت میں کچل کر رکھ دیا گيا تھا، ایک زندہ و بیدار قوم بن گئي۔ یہ قوم میدان عمل میں اتر آئی اور دنیا نے اس کی بے مثال قوت کا مشاہدہ کیا۔ یہ قومی طاقت تھی یہ قوم کے ایک ایک فرد کی طاقت تھی، اس قوت کا سامنا کرنے کی کون جرئت کر سکتا ہے؟ قومیں اس کا تجربہ تو کریں، البتہ یہ تجربہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے ایثار و قربانی کی ضرورت ہے۔ صحیح قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ شرطیں پوری ہو جائيں تو دنیا میں کوئي بھی قوم ظلم کے پنجے میں قید نہیں رہ سکتی۔ غربت کا شکار نہیں رہ سکتی۔ ہمارے ملک میں یہ شرطیں پوری کی گئيں۔
اس بیداری میں سچے ایمان کا کردار بھی کلیدی رہا۔ ایمان نے کسی طاقتور انجن کی طرح لوگوں کے پیکر میں توانائياں بھر دیں۔ اگر ایمان نہ ہوتا تو موت کو بازیچہ اطفال میں تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ ایمان ہی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے کی جرئت پیدا کرتا ہے۔ موت کی کوئي وقعت نہیں رہ جاتی۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ایمان، موت کو ایسی معمولی شیء بنا دیتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ موت سے وحشت کیسی میں تو اس سے خاص انسیت رکھتا ہوں۔ ( آنس للموت من الطفل بثدی امہ) مجھے تو موت سے محبت ہے، اس سے ڈرنا کیسا میں تو اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ ایمان کا اثر ہے۔ اگر ایمان ہے تو موت کو زندگي کا خاتمہ تصور نہیں کیا جاتا۔
وقت مردن آمد و جستن ز جو کل شیء ھالک الی وجہہ
مومن انسان موت کی جانب جھپٹ کر آگے بڑھتا ہے۔ موت دنیا و آخرت کے درمیان ایک لکیر ہے۔کچھ لوگوں کو، کشاں کشاں اس طرف سے اس طرف لے جانا پڑتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی میں غرق ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں جو چھلانگ مار کر اس لکیر سے گذر جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ لکیر کے دوسری طرف کیا ہے۔ وہ وعدہ الھی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عزیز شہدا، جن کے نام آپ کے ذہنوں میں ہیں، آپ بہتوں سے آشنا ہیں، آپ ان کے ہمراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت گذار چکے ہیں۔ یہ شہدا موت سے نہیں ڈرتے تھے۔ انہیں اپنی زندگي سے پیار تھا۔ ان کے وصیتنامے پڑھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ کسی قوم کا مثالی راستہ یہ ہے اور ہماری قوم نے اس راستے کے خد و خال واضح کئے ہیں۔
اس قوم اور اس قوم کے انقلاب کا دنیا کی دیگر اقوام اور انقلابوں کے مقابلے میں طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس قوم نے خود کو بڑی مضبوط پناہ گاہ سے وابستہ کر لیا۔ ( قد استمسک بالعروۃ الوثقی) عروہ وثقی کو آپ یوں سمجھئے کہ بالفرض آپ کو کسی گہری کھائي سے گذرنا ہے، اگر آپ کسی مضبوط رسی کو پکڑے ہوئے ہیں تو آپ مطمئن ہیں کہ گریں گے نہیں۔ عروہ وثقی اسی کو کہتے ہیں۔ ( فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی) ، طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان کی خصوصیات سے ہماری قوم آراستہ تھی۔ نتیجتا یہ قوم کھائي سے عبور کر گئي۔ اس پر خوف و دشہت طاری نہیں ہوئي اور یہی وجہ ہےکہ یہ عظیم تحریک آج بھی باقی ہے۔
ہمارے نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں، اہل معرفت اس پر غور فرمائيں۔ انقلاب ایک طویل تحریک ہے، یہ یکبارگي رونما ہوکر ختم ہو جانے والا کوئي واقعہ نہیں ہے۔ البتہ یہ تحریک دنیا کے بہت سے خطوں میں بیچ راہ میں ہی رک گئي۔ آپ گوناگوں انقلابوں کی تاریخ پڑھئے۔ یہ انقلاب بیچ راہ میں ٹھہر گئے۔ انقلاب آئے، کچھ لوگوں کو زبردست فائدہ ہوا اور وہ مست ہوکر رہ گئے، رفتہ رفتہ عوام نے میدان سے کنارہ کشی کر لی، پھر سب کچھ ختم ہو گيا۔
فرانس کا انقلاب جو اٹھارہویں صدی کے آواخر میں شروع ہو، انیسویں صدی کے اوائل میں ختم ہو گیا اس کا کوئي نام ونشان باقی نہ رہا۔ ایک مطلق العنان سلطنت کے خلاف بغاوت کی گئي اور سلطنت کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن تقریبا پندرہ سال گذرے تھے کہ نیپولین نامی ایک دوسرے آمر نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ کئي دہائيوں تک عوام مسائل سے دوچار رہے پھر رفتہ رفتہ کسی طرح بعض مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انقلاب ادھورے رہ جاتے ہیں، بیچ ہی میں مٹ جاتے ہیں، اس لئے کہ ایمان کے عنصر سے خالی ہیں۔ چونکہ عروہ وثقی سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارا انقلاب عوام کے درمیان ہے اور روز بروز اس پر مزید نکھار آتا جا رہا ہے۔ اس کی افادیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ غور کیجئے، اس سال انقلاب کو انتیس سال پورے ہو گئے۔ اس سال بھی جیسا کہ احباب نے بتایا اور میں نے خود بھی تہران سمیت ملک کے مختلف علاقوں کی صورت حال کا جائزہ لیا، جو لوگ صاحب نظر ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس سال جشن انقلاب کے مظاہروں میں عوام کی شرکت گذشتہ برسوں سے زیادہ تھی۔ کیوں؟ کیونکہ یہ قوم بیدار ہے اور یہ انقلاب زندہ ہے۔
جو افراد گذشتہ برسوں کے دوران کبھی کبھی ہیجان زدہ ہوکر کہنے لگے کہ انقلاب کی کہانی ختم ہو چکی ہے، انقلاب طاق نسیاں کی زینت بن گیا ہے۔ ان سے اندازے کی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انقلاب پر اور بھی نکھار آیا ہے۔ انقلابی اقدار کو جلا ملی ہے۔
آج عالم یہ ہے کہ جو شخص عوام کے درمیان جاکر انقلاب سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتا ہے، عوام اس کی حمایت کرتے ہیں، اس کا انتخاب کرتے ہیں، کیوں کہ انقلاب کے اثرات و ثمرات ان کے سامنے ہیں۔ انقلاب نے ملک کی جو خدمت کی ہے، قوم کو دنیا میں جو مقام دلایا ہے، نوجوانوں میں جو خود اعتمادی، نئي روح پھونک دی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لئے سیکڑوں سال جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انقلاب نے یہ کارنامے کئے ہیں، مسائل کو اس طرح حل کیا ہے۔
اندرونی صلاحیتیں، توانائیاں، رفتہ رفتہ انگڑائياں لےکر باہر آ رہی ہیں، ادھوری شخصیتوں کے مالک انسان، قابل رشک شخصیت کے مالک بن رہے ہیں۔ انتظامی صلاحیتیں، خلاقیت، پیداواری توانائیاں، عالمی مقابلوں کے لئے ضروری مہارتیں سب یکجا ہوکر قوم کو آگے لے جا رہی ہیں۔ یہ سب انقلاب ہی کے ثمرات ہیں، انقلابی اقدار ہی کا نتیجہ ہے۔
ان قدروں کو استحکام و دوام حاصل ہونا چاہئے۔ اب تک یہ قدریں محفوظ رہی ہیں، زندہ رہی ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان، انیس سو اسی کی نوجوان نسل کے مقابلے میں میدان کارزار کے لئے اگر زیادہ صلاحیت مند اور آمادہ نہیں ہے تو اس نسل سے کم بھی نہیں۔ مستقبل کے لئے ہمارا راستہ طے ہے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے طولانی مدت منصوبوں میں انقلابی تشخص کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے آئندہ پروگرام پوری طرح واضح ہیں۔
ایرانی قوم کے پاس ملک کے اندر عوام کی صلاحیتوں میں اور تاریخ کی گہرائیوں میں بڑے بیش بہا خزینے ہیں۔ ہم ان خزانوں کو بروی کار لانا چاہتے ہیں۔ اگر ان خزانوں کا استعمال شروع ہو گیا تو یہ قوم دولتمند ہو جائے گی۔ علم کے کارواں کا پرچم اس کے ہاتھوں میں ہوگا۔ علم و دانش، تہذیب و ثقافت اور قوت و طاقت کے میدان میں اسے ممتاز عالمی مقام حاصل ہوگا۔ پھر یہ قوم دنیا کی دیگر اقوام کے لئے مثالی نمونہ ہوگی۔ البتہ اس وقت بھی یہ قوم، ایک نمونہ قوم ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل تک فلسطینی قوم کو ہر موقع پر شکست ہوئي، اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ مسلم قوموں میں کچھ نوجوان ایسے تھے جن میں جوش و جذبہ تھا لیکن وہ بھی سیاسی تغیرات کے نتیجے میں دب کر رہ گئے۔ اسلامی انقلاب نے ان قوموں میں نئی روح ڈال دی۔ ان میں بیداری پیدا کر دی۔ ہم اپنے اطراف اور عالم اسلام کے حالات کا سرسری جائزہ لیں تو اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی قوم اب تک بھی نمونہ عمل رہی ہے، لیکن جس دن آپ نوجوانوں نے ملک کے ذرے ذرے سے چھلکتی صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروی کار لانے میں کامیابی حاصل کر لی اس دن پوری دنیا ایرانی قوم کا اتباع شروع کر دے گی اور ایران ان ممالک کے لئے بہترین نمونہ عمل بن جائے گا جو ظلم و جور کا شکار ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر اور دیگر اقوام کی تقدیر کی کنجی ہمارے نوجوانوں کے پاس ہے۔ البتہ دشمن بھی اس سے آگاہ ہے اور وہ مسلسل اسی کوشش میں مصروف ہے کہ اس قوم کا رخ بدل دے۔
سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی کوششیں، مختلف زاویوں سے شدید دباؤ، پابندیاں، قراردادیں، سب کا ایک ہی ہدف ہے، ایرانی قوم کو اس راستے سے ہٹانا جس پر وہ گامزن ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ یہ قوم کسی اور راستے پر چلے۔ انہیں اندازہ ہے کہ یہ قوم اسی راستے پر اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو ظلم و استبداد، سامراج و استکبار اور قتل و غارت گری کا جو بازار عالم اسلام میں گرم ہے وہ باقی نہ رہے گا۔ امت مسلمہ کا جز شمار ہونے والے ممالک میں سامراجی طاقتوں کے مفادات نابود ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن اپنی سازشوں میں مصروف ہے۔
آپ غور فرمائیں، ابھی چند ہی روز قبل امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایران پر دباؤ بڑھائیں گے تاکہ ایران کے عوام اس نتیجے پر پہنچ جائيں کہ ایٹمی توانائی حاصل کرنا بے فائدہ ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایرانی قوم نے سائنس و ٹکنالوجی کے اوج تک، جس کا ایک مظہر آج ایٹمی توانائی ہے، رسائی حاصل کر لی تو دیگر اقوام کے بھی حوصلے بلند ہوں گے۔ مسلم قومیں جاگ جائیں گی، انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کا علم ہو جائے گا اور پھر ان قوموں پر اغیار کا تسلط باقی نہیں رہ پائےگا۔ اس کے لئے وہ بڑی عیاری کے ساتھ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ایٹم بم کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک آگاہ ہیں کہ ایٹم بم کا الزام بے بنیاد ہے۔ ان کی تشویش کی وجہ ایٹم بم نہیں ہے۔ انہیں علم ہے کہ ایرانی قوم ایٹم بم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہی ان کی ناراضگی کی وجہ ہے۔ کوئی قوم ان کی مرضی اور مدد کے بغیر ان کی جانب دست نیاز دراز کئے بغیر صرف اپنی صلاحیتوں کے سہارے اس طرح ترقی کی منزلیں طے کر لے کہ ثریا اس کے قدم چومے تو یہ طاقتیں اسے کیسے برداشت کر سکتی ہیں۔ ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے۔ ان کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم فلاں گروہ اور فلاں جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لئےکہ اس گروہ نے کہا ہے کہ وہ ترقی کے اس سفر سے متفق نہیں ہے، استقامت سے متفق نہیں ہے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ کی خدمت میں بصد احترام یہ عرض کرے کہ آپ کی مرضی ہوئی تو ہم آگے بڑھیں گے ورنہ نہیں۔
بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کروانے کے لئے مذاکرات بے اثر ثابت ہوں گے۔ اس کے لئے طاقت کا استعمال ضروری ہوگا۔
مہتری گر بہ کام شیر در است رو خطر کن ز کام شیر بجوی
ہمارے ملک میں بسا اوقات اس نصیحت پر عمل ہوا ہے اور بسا اوقات اسے نظر انداز کیا گيا ہے، لیکن آج ایرانی قوم پوری استقامت کے ساتھ اس نصیحت پر عمل کر رہی ہے۔
امریکہ اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہمارا سارا تنازعہ اسی بات کا ہے۔ سامراجی طاقتیں کہتی ہیں کہ آپ اپنا وجود، صلاحتیں اور توانائیاں منظر عام پر نہ لائیں تاکہ ہماری طاقت، ہمارے اسلحوں اور ہماری تشہیراتی مہم کا کوئی جواب نہ ہو، میدان ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے۔ ان طاقتوں کے لئے ہماری قوم کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ہم اپنے حقوق کا دفاع کریں گے ، ہم آپ کی جارحیتوں کا راستہ بند کر دیں گے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اللہ تعالی کے سامنے ہم جوابدہ ہوں گے۔
ملت ایران نے بالکل صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ میدان عمل میں ہمیشہ موجود رہنا، اب تک کے ثمرات اور کامیابیوں کا بھرپور تحفظ، یہ بالکل صحیح راستہ ہے۔ ضمنی باتوں اور چھوٹے موٹے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جماعتوں اور افراد میں نظریات کا اختلاف کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ انقلاب کے ورثا کو چاہئے کہ اس عظیم وراثت کی حفاظت کریں۔ میں نے اس سال (1386 ہجری شمسی ) کے اوائل میں عرض کیا تھا کہ قومی اتحاد کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا قومی کنبہ، انقلاب کا کنبہ اپنے اتحاد، باہمی انس و محبت اور لگاؤ کی حفاظت کرے۔ ایک دوسرے سے غفلت کا ماحول نہ بننے دیجئے۔ ہماری قوم اس سلسلے میں بیدار ہے اور ہماری نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بھی اسی عظیم فکری ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ ہم نے قوم کے سامنے یہ باتیں پیش کیں اور قوم نے انہیں سچ کر دکھایا۔
انتخابات کی دستک سنائي دینے لگی ہے۔ انتخابات میں شرکت بھی اسی ماہیت کا فعل ہے۔ میں نے تمام انتخابات میں عوامی شرکت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حق رای دہی کے لئے باہر نکلنا چاہئے دشمن کو مزید مایوس کرنا ضروری ہے۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ا؛ران میں انتخابات نہ ہوں، انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر مظاہرے نہ ہوں۔ یوم قدس کے موقع پر مظاہرے نہ کئے جائيں۔ دینی پروگراموں میں عوام کی پر جوش شرکت کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ دینی جذبات کی گرمی ختم ہو جائے۔ ہمارے نوجوان، لا پرواہ، مایوس اور بے حس ہو کر منشیات اور نفسانی خواہشات میں غرق ہو جائیں۔ دشمن کی دلی خواہش یہ ہے۔ دشمن کے لئے یہ سازگار ہے اس لئے اس کا خوب پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کبھی نظریات اور آئیڈیالوجی، کبھی سیاسی دھمکی، کبھی فوجی دھونس، کبھی منشیات کی اسمگلنگ کے گروہوں اور کبھی غیر اخلاقی فلموں کے ذریعے دشمن میدان میں آتا ہے اور اپنی سازشوں کو علمی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے راستے سے ہٹانے کے لئے جی توڑ کوشش کرتا ہے۔ جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو اشارے کنائے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ عوام انتخابات میں شرکت نہ کریں۔ سادہ لوح افراد کو استعمال کیا جاتا ہے، بکے ہوئے ضمیروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ عوام اس عظیم اور اہم ترین پروگرام میں شرکت نہ کریں۔
عوام کو میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ انتخابات میں شرکت کریں۔ ووٹنگ کے عمل کو پر رونق بنائیں۔ صفوں میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم زیادہ کھڑے رہنا ممکن ہے تکلیف دہ ہو لیکن یہ جہاد ہے۔ اس کا اللہ تعالی کے نزدیک اجر ہے۔ تو لوگ ضرور جائیں اور حق رای دہی کا استعمال کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دیں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلاب کے نعرے اور اہداف کو متعلقہ حکام بنیادی معیار کے طور پر پیش کریں۔ یہی سب سے اہم معیار ہے۔ ناموں اور گروہ بندی کی کوئي اہمیت نہیں ہے۔ اس قوم کے مسائل کا حل اور اس کے درد کی دوا انقلاب کے اہداف اور امنگیں ہیں۔ ان چیزوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ ان نعروں اور اہداف کے مخالف ہیں انہیں کبھی بھی پالیسی ساز اداروں میں داخل ہونے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ ایسے لوگ عوام میں شامل ہیں تو کوئي بات نہیں ہے، معاشرے میں ہر طرز فکر اور خیال کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن جس شخص کی آرزو یہ ہے کہ یہ گاڑی آگے نہ بڑھے اسے اسٹیئرنگ پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ ایسے شخص کو اگر اسٹیئرنگ پر بٹھا دیا گیا تو گاڑی آگے بڑھنے والی نہیں ہے۔ ایسے شخص کا انتخاب کیا جانا چاہئے جو آگے بڑھنے میں یقین رکھتا ہو۔ اس راستے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو، انقلاب کے اہداف سے قلبی وابستگی رکھتا ہو، قومی صلاحیتوں سے آشنا ہو۔ اسلام کا دلدادہ ہو۔ انقلاب کا پیرو ہو۔ معیاروں کو تسلیم کرتا ہو۔ یہ ہوئي دوسری بات۔
بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دو چہرے والوں، ظاہر و باطن میں اختلاف والے افراد اور دوہری شخصیت کے مالک لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ایسے افراد سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں کئی روایتیں منقول ہیں۔ اس نکتے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم بیدار قوم ہے اسے کوئي تسلیم کرے یا نہ کرے، گذشتہ انتیس برسوں کے تجربے سے ہمارے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ یہی عماد مغنیہ اور دیگر شہدا جو چند روز قبل صیہونیوں کے ذریعے شہید کر دئے گئے خود کو امام خمینی (رہ) کا پیروکار مانتے تھے اور اس پر افتخار کیا کرتے تھے۔ عماد مغنیہ امام خمینی (رہ) سے قربت اور لگاؤ کے سلسلے میں خود کو کسی بھی ایرانی نوجوان سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ کیوں؟ کیوں کہ امام خمینی(رہ) نے انہیں نئي زندگي دی تھی۔ ان کے پیکر میں نئي روح ڈال دی تھی۔ یہی جوان، لبنان فلسطین، غزہ اور دیگر علاقوں میں پہلے بھی موجود رہے ہیں لیکن وہ اتنے بڑے کارنامے نہیں کر پاتے تھے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ لبنانی جوان معمولی اسحلوں کے سہارے اسرائیل کی کیل کانٹوں سے لیس فوج کو اتنی شرمناک شکست سے دوچار کر دیں گے۔ جب تینتیس روزہ جنگ ختم ہوئي تو شروع کے ایام میں صیہونی حکام کہتےتھے کہ ہمیں شکست نہیں ہوئي ہے۔ لیکن اب وینوگراڈ کمیٹی کی رپورٹ نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ اس کمیٹی نے بھی بڑی رفوگری کی ہے تاکہ بہت زیادہ بے عزتی نہ ہو جائے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ جدید اسلحوں سے مسلح فوج جسے امریکہ کی بھی حمایت حاصل تھی شکست کھا گئي۔ آپ یہ یاد رکھئے کہ اس جنگ میں امریکہ اسرائيل کی حمایت بھی کر رہا تھا اور براہ راست بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اسرائيل کو شکست ہو گئي۔ کس سے؟ ایسے مٹھی بھر جوانوں سے جن کا اسلحہ تھا خود اعتمادی، توکل بر خدا، موت سے بے باکی اور میدان میں استقامت۔ طاقتوں کے نا قابل تسخیر ہونے کے افسانے اس طرح قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
ہم انقلاب کی عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی شکل میں ملنے والی نعمت پر ہم اللہ تعالی کے شکر گذار ہیں۔ ایرانی قوم کی اس عظمت پر جس کا وہ مظاہر کر رہی ہے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ جو کامیابیاں ہماری قوم کو ملی ہیں اس پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمارا ایک ایک نوجوان ایک بڑی نعمت ہپے۔ اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ( وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصواھا) بھلا اللہ کی نعمتوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔ ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ حکام کو ہونا چاہئےاور انہیں ان نعمتوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ نعمتیں ہمیشہ ہمیں ملتی رہیں۔ عوام کو بھی ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ اس قوم کا آنے والا کل، آج کی بہ نسبت زیادہ تابناک اور دلکش ہے۔ ان شاء اللہ آپ نوجوان اس دل آویز منظر کا مشاہدہ کریں گے۔ آپ دنیا کو سعادت و خوش بختی سے آراستہ کر يں گے۔
اے پروردگار، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود فرما۔ ہمیں ان کے سپاہیوں میں قرار دے۔ ہمیں ان کی محبت کے ساتھ زندہ رکھ۔ پروردگارا امام خمینی(رہ) کی روح طیبہ کو ہم سے راضی رکھ اور انہیں اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد رضا توسلی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجت الاسلام و المسلمین الحاج شیخ محمد رضا توسلی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی افسوسناک خبر ملی۔ یہ محترم عالم ربانی، امام خمینی (رہ) کے شاگرد اور آپ کی تحریک میں شامل سر فہرست افراد میں تھے۔ انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک آپ ان کی خدمت میں رہے، انشاء اللہ آخرت کے دن بھی آپ امام خمینی (رہ) کے ساتھ ہی محشور کئے جائیں گے۔ میں اس محترم عالم دین کے انتقال پر ان کے بیوی بچوں اور دیگر ورثا نیز دوست و احباب کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور مرحوم کے لئے رحمت و مغفرت اور ان کے خاندان کے لئے صبر واجر کی دعا کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
27/11/86
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے نام ایک پیغام میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حزب اللہ کے مخلص اور فداکار مجاہد الحاج عماد مغنیہ کی شہادت پر، تنظیم کے سربراہ، جانبازوں اور لبنانی عوام کو تہنیت و تعزیت پیش کی۔
امیرالمومنین (ع)ایسے مقدس اور نورانی صفات وخصوصیات کےحامل انسان ہیں کہ ہم انھیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں آپ کی علمی منزلت آپ کا نورانی مرتبہ آپ کی عصمت و طہارت وہ حقائق ہیں جو آپ کی ذات پاک اورآپ کے قلب منور میں موجزن تھے اور علم وحکمت کی شکل میں آپ کی زبان مبارک پر جاری رہتے تھے، وہ تقرب الہی اور وہ ذکر الہی جو ہمیشہ اور ہر حال میں آپ کے کردارسے نمایاں اور زبان پر جاری رہتا تھا ایسی چیزیں ہیں جو آپ کی نورانی فطرت کی مانند ہمارے فہم و ادراک سے باہر ہیں ۔لیکن ہم ان پر یقین و عقیدہ رکھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ،چونکہ انھیں سچے انسانوں سے سنا ہے ۔لیکن امیر المومنین (ع) کی دوسری خصوصیات وہ ہیں جوآپ کی ذات مقدس کوہر دورکے تمام انسانوں کیلۓ معیار اور نمونہ عمل بناتی ہیں اور وہ اتباع اور پیروی کرنے کیلۓ ہیں۔ معیاراورنمونہ عمل ان کاموں کو مطابقت دینےکیلۓ ایک میزان اور وسیلہ ہوتا ہے جو انسان انجام دینا چاہتاہے ۔ یہ نمونہ عمل کسی خاص گروہ وطبقے سے مخصوص نہیں ہے ، حتی صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے ۔ ہم جو یہ دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت اتنی پرکشش ہے اس کی وجہ یہی خصوصیات ہیں۔لہذا جو لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں یا آپ کی امامت کی بھی تصدیق نہیں کی ہے وہ بھی ان خصوصیات کی عظمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہيں اور نہ چاہتے ہوۓ بھی مدح وستائش کرنے لگتے ہیں۔بنابرایں یہ خصوصیات سب کیلۓ نمونہ عمل اور مثالی ہیں۔ اور ہم جو آج ایک اسلامی حکومت کے حامل ہیں اور علوی حکومت کادعوی کرتے ہیں ہمارے لیۓ یہ نمونہ عمل سب سے زیادہ ضروری فوری اور ناقابل چشم پوشی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف زبان سے آپ کو امیرالمومنین (ع) کہاجاۓ اور آپ سے اظہار محبت و الفت کی جاۓ لیکن عمل سے آپ کی سیرت اور اس درس کی مخالفت کی جاۓ جو آپ نے اپنے عمل اور کردارکے ذریعے ہمیں دیا ہے۔ میری اور مجھ جیسے لوگوں کی ذمیداریاں سنگین ہیں جو حکومت کے اہلکارہیں ۔چونکہ ہمیں عمل کرنا چاہۓاور اس راستے پر چلنا چاہۓ جس پر وہ چلیں ہیں۔ممکن ہے بعض افراد کہیں کہ تم کہاں اور امیر المومنین (ع) کہاں؟ان کی طاقت ان کی توانائی ان کا ایمان ان کاصبران کی معنوی اور روحانی طاقت کہاں اور تم کہاں؟البتہ یہ بات بالکل درست ہے ہم میں کسی کا ان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بہتر ہیں وہ بلندہیں اور ہم پست؛نہیں ،بنیادی طورپر یہ موازنہ ہی غلط ہے۔وہ آسمان کی بلندیوں پرہیں آپ امیرالمومنین(ع) کی شخصیت کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالیں گے دیکھیں گے کہ اس میں عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔یہ مبالغہ نہیں ہے۔ یہ عجزانسانی کاردعمل ہے کہ انسان نے برسوں امیرالمومنین علیہ الصلواۃ و السلام کی زندگی پر تحقیق کی اوراس نتیجے پر پہنچااوراپنےاندر یہ محسوس کیا کہ علی علیہ السلام کی عظیم شخصیت کو اس معمولی فہم کے ذریعے؛یعنی اس معمولی ذہن عقل حافظہ اور ادراک کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا۔ آپ کی شخصیت کے ہر پہلو میں عجائبات ہیں ۔البتہ امیرالمومنین (ع) پیغمبراکرم (ص) کی دوسری تصویر ہیں اورآنحضرت (ص)کے شاگردوں میں ہیں البتہ ہمارے سامنےموجود یہ عظيم شخصیت جواگرچہ خود کوپیغمبر(ص) کے سامنے چھوٹااور معمولی سمجھتی ہے اور خود آنحضرت (ص) کی شاگرد ہےجب ہم اسے انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک مافوق البشر شخصیت نظر آتی ہے میں امیرالمومنین (ع) کی زندگی کے بارے ميں ایک نکتہ عرض کروں اور وہ آپ کی وہ خصوصیت ہے جسے میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت میں توازن سے تعبیرکرتاہوں۔آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز توازن پایا چاتاہے یعنی امیرالمومنین (ع) کے وجود میں بظاہر متضاداور ایک دوسرے سےمختلف صفات اتنی خوبصورتی سے جمع ہیں کہ خود ایک طرح کا حسن پیدا کر رہے ہيں۔ انسان کو کسی کے اندر بھی یہ صفات یکجا نہیں ملیں گے۔امیرالمومنین (ع) کے اندر اس قسم کے بےشمار صفات موجود ہیں ایک دو نہیں بہت زیادہ ہیں۔اس وقت میں ان میں سے کچھ متضاد صفات جو امیرالمومنین (ع) کے اندرموجودہیں بیان کررہا ہوں ؛مثلا رحم و نرم دلی صلابت وسختی کے ساتھ سازگار نہیں ہوتی،لیکن امیرالمومنین (ع) کے اندر محبت و مہربانی اور رحمدلی اتنے اعلی پیمانے پر ہے کہ عام انسانوں کے اندربہت کم نظر نہیں آتی ہے۔ رحمدلی اور مروت کا عالم یہ ہے کہ آپ نہ صرف یتیم بچوں کے گھرجاتے ہيں ، نہ صرف یہ کہ ان کاتنور جلاتے ہیں ان کے لۓ روٹی پکاتے ہیں اوروہ کھانا جو ان کیلۓ لے گۓ ہیں اپنے ہاتھوں سےان بچوں کو کھلاتے ہیں بلکہ غمگین اور رنجیدہ بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ لانےکیلۓ ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں۔ان کے سامنے جھک جاتے ہیں اور انہیں اپنےکندھوں پر بٹھاکرگھماتے ہیں اور ان کے معمولی سے گھر میں انھیں کھیل کود میں مشغول کرتے ہیں تاکہ یتیم بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ آسکے۔ امیرالمومنین کی محبت اور رحمدلی کا عالم یہ ہے کہ اس دور کے ایک بزرگ نے کہاکہ میں نے امیرالمومنین(ع) کو غریب اور یتیم بچوں کے منہ میں اپنی مبارک انگلیوں سے شہد کھلاتے ہوئے اتنا زیادہ دیکھاہے کہ اپنے دل میں سوچا کاش میں بھی یتیم ہوتاکہ علی (ع) مجھ پر بھی اس طرح لطف وکرم کرتے۔( بحار الانوار کی اکتالیسویں جلد کے انتیسویں صفحے پر یہ روایت موجود ہے ) ۔ یہی امیر المومنین نہروان کے واقعے میں جہاں کچھ کج فکر اور متعصب افراد نے بے بنیاد بہانوں سے حکومت گرانے کی کوشش کی تھی جب ان کا سامنا ہوتا ہے تو انھیں نصیجت کرتے ہیں ،کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،اعتراض کرتے ہیں ،کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،ثالث بھیجتے ہیں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،مالی مدد کرتے ہیں اور ساتھ دینےکا وعدہ کرتے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا توآخر میں صف بندی کرتے ہیں پھر بھی نصیحت کرتے ہیں اور جب اس کا بھی کوئ نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔یہ وہی علی ہیں۔ جب آپ کے مد مقابل بد طینت اور بد ذات لوگ ہوتے ہیں اور بچھو کی مانند عمل کر رہے ہیں،پھر آّپ سختی سے کام لیتے ہيں۔خوارج کا صحیح ترجمہ نہیں کیا جاتا ، افسوس کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ بات چیت اشعار تقاریراور فیلم وغیرہ ہرچیز میں خوارج کو خشک مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ غلط ہے خشک مقدس کیاہے ؟امیرالمومنین (ع) کے زمانے میں بہت سے ایسے تھے جنھیں صرف اپنی فکر تھی،اگر آپ خوارج کوپہچاننا چاہتے ہيں تو میں اس کا نمونہ اپنے دورمیں آپ کو دکھاتاہوں، منافقین تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔۔۔۔ خوارج کو بخوبی پہچان لیجۓ؛ایسے لوگ جو بظاہر دین کو مانتے تھے ،آیات قرآن کا سہارا لیتے تھے قرآن کانام لیتے تھے نہج البلاغہ کا نام لیتے تھے... بظاہر دین کی بعض باتوں پر عقیدہ رکھتے تھےلیکن دین کے اساسی اور بنیادی اصولوں کی مخالفت کرتے تھے اور اس سلسلےمیں متعصب بھی تھے اللہ کا دم بھرتے تھے لیکن شیطان کی پیروی کرتے تھے۔آپ نے دیکھا کہ منافقین ایک زمانےمیں بڑے بڑے دعوے کرتے تھے اور بعد میں جب ضرورت پڑی تو انفلاب ،امام ،اور اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ کرنےکیلۓ امریکہ صدام صیہونیوں اور ہر کسی سے ہاتھ ملانے کیلۓ تیار ہوگۓ اور ان کی غلامی کرنے کیلۓآمادہ ہوگۓ،خوارج بھی ایسے ہی تھے۔ پھراس وقت امیرالمومنین(ع) سختی سے پیش آۓ۔ یہ وہی علی ہیں جن کیلۓ سورہ فتح کی انتیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے،اشداء علی الکفار و رحماء بینھم،دیکھیں یہ دونوں خصوصیات نے امیرالمومنین میں کتنی خوبصورتی پیدا کردی ہے۔اتنے رحم دل انسان ہیں کہ آپ کو یہ برداشت نہیں کہ کوئ یتیم بچہ رنجیدہ رہے ،فرماتے ہیں کہ جب تک میں اسے ہنسا نہں لوں گایہاں سے جاؤں گا نہیں لیکن وہاں ان کج فکر اورکج عمل انسانوں کے سامنے جو بچھو کی مانند ہربیگناہ کوڈنک مارتے ہیں،ڈٹ جاتے ہیں یہ آپ کی حکومت اور تقوے کا ایک اور نمونہ ہے۔بڑی عجیب چیز ہے ورع کے معنی کیا ہیں؟ورع یعنی انسان ہر اس مشکوک چیز سے اجتناب کرے جس سے دین کی مخالفت کی بو آتی ہو۔تو پھر حکومت کا کیا ہوگا کیا ،کیا حکومت میں انسان اس قسم کا زہد و ورع اختیار کرسکتاہے ؟ہم اس وقت میدان عمل میں ہیں جانتےہیں کہ اگر کسی میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو مسئلہ کتنا اہم ہوجاۓ گا ۔حکومت میں انسان کو کلی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جس قانون پر عمل کرتاہے اسے ہزار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن ممکن ہے اس قانون میں کہیں کسی پر ظلم ہومامور انسان ممکن ہے دنیاکے کسی حصےمیں اس ملک کےکسی گوشےمیں کوئی خلاف ورزی کرے ،انسان اس قدرلامحدود تفصیلات کے ہوتے ہوۓ زہدو ورع کی کیسے پابندی کرسکتاہے؟ لہذ ا حکومت بظاہر زہد و ورع کے ساتھ سازگار نہيں ہے لیکن امیرالمومنین(ع) نےمظبوط ترین حکومتوں کے ساتھ میں بھی زہد و ورع کو اکٹھا کردیا ،اور یہ بہت عجیب بات ہے ۔اور وہ اس سلسلے میں کسی سے کوئ مروت نہیں کرتے تھے اگر ان کی نظر مبارک میں کوئی حاکم کمزور ہوتااوراس کام کے لۓ مناسب نہ ہوتاتو اسے معزول کردیتے تھے۔محمد ابن ابی بکر آپ کے بیٹے کی مانند تھے اور آپ انھیں بیٹے کی ہی طرح سمجھتے تھے اور وہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو باپ کی نظر سے دیکھتے تھے وہ ابو بکر کے چھوٹے بیٹےاور امیرالمومنین کے مخلص شاگرد تھے اور آپ کی آغوش میں پروان چڑھے تھے امیرالمومنین نے محمد ابن ابی بکر کو مصر بھیجا ،اور پھر خط لکھا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ تم -ہماری لفظوں میں بیٹا تم مصر کیلۓ کافی نہیں ہو ؛تمیھیں برطرف کررہا ہوں مالک اشتر کو منصوب کر رہا ہوں ۔محمد ابن ابی بکر کو برا لگا اور رنجیدہ ہوگۓ ؛آخر انسان ہیں ۔چاہے جتنے بھی اعلی مرتبے پر کیوں نہ ہوں انھیں برالگا۔ لیکن امیرالمومنین (ع) نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اورکوئ اہمیت نہیں دی ۔محمد ابن ابی بکر جیسی عظیم شخصیت جو بیعت کے وقت اور جنگ جمل میں امیرالمومنین(ع) کے بہت کام آئے تھے؛ابو بکر کے بیٹےاور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے، حضرت علی (ع) کے لیۓ اس قدر اہمیت کی حامل تھی ، لیکن آپ(ع) نے محمد ابن ابی بکر کی رنجیدگی کو کوئی اہمیت نہیں دی، یہ زہد و ورع ،ایسا زہد جوحکومت میں ایک انسان اور ایک حکمراں کے کام آتا،ایسااعلی درجےکا زہد امیرالمومنین کے اندرموجود ہے۔دوسرانمونہ آپ کی طاقت و مظلومیت ہے۔ آپ کے زمانے میں کوئ آپ کی مانند طاقتور نہیں تھا۔ وہ عجیب و غریب شجاعت حیدری کس کے اندر تھی -آپ کی عمر کے آخری حصے تک کسی نے بھی آپ کی شجاعت کا مقابلہ کرنے کا دعوی نہیں کیا۔یہی انسان جو اپنے زمانے کا سب سے زيادہ مظلوم انسان تھا بلکہ جیسا کہ کہا گیاہے اور صحیح بھی ہے، شائد تاریخ انسانیت کا سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے اس کی طاقت و مظلومیت کے دوعنصر ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں ،معمولا جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ مظلوم نہیں ہوتے لیکن امیرالمومنین(ع) مظلوم واقع ہوۓ ہیں ۔ دوسرانمونہ زہد ہے امیرالمومنین(ع) کے زہد اور دنیا سے عدم دلچسپی کی مثال دی جاتی ہے شائد نہج البلاغہ کا ایک اہم باب زہد نہج البلاغہ ہے امیرالمومنین (ع) جو پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد سے حکومت حاصل ہونے تک اپنی ذاتی دولت سے آبادکاری کے کام کرتے رہے، باغات لگاتے رہے ،کنوئیں کھودتے رہے نہریں جاری کرتے رہے مزرعہ تیار کرتے رہے ، عجیب یہ ہے کہ سب کچہ راہ خدا میں دے دیتے تھے۔یہاں یہ جان لیجۓ کہ امیرالمومنین (ع) اپنے دور کے زیادہ آمدنی والے افراد میں سےتھے،آپ کے حوالے سے نقل کیا گيا ہے کہوصدقتی الیوم لو قسمت علی بنی ہاشم لوسعہم، میں اپنے مال سےجو صدقہ دیتاہوں اگر تمام بنی ہاشم میں تقسیم کروں تو ان کیلۓ کافی ہو جاۓ گا۔عدل علی ابن ابی طالب(ع) ایک اور نمونہ ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں عدالت علی ابن ابی طالب (ع) کی ذات میں موجودہے تو ہر آدمی ابتدائی طور پر اس سے جو سمجھتاہے وہ یہ کہ وہ سماج میں عدل قائم کرتے تھے۔یہ ہے عدل۔لیکن عدل کی اعلی مثال توازن ہے ۔بالعدل قامت السموات والارض،زمین و آسمان عدل کی بنیاد پر قائم ہیں ،یعنی خلقت میں توازن ،حق بھی یہی ہے۔عدل و حق نتیجے میں ایک ہی چیزہے اور ایک ہی معنی اورایک ہی حقیقت کے حامل ہیں ۔امیرالمومنین کی زندگی عدل و توازن کی خصوصیات کی مظہر ہےجہاں ہر چیز اپنے مقام اور مرتبے پر ہے اور منزل کمال پر فائزہے امیرالمومنین(ع) کی ایک اور خصوصیت آپ کا استغفار ہےامیرالمومنین(ع) کی دعا توبہ اور استغفار بہت اہم ہے ایسی شخصیت جو جنگ اور جد و جدوجہد کرتی ہے ، میدان جنگ میں فاتح اور میدان سیاست مدبر ہو اور اس دور کے بڑے ملکوں پر تقریبا پانچ سال حکمرانی کی ہو اگر آپ امیرالمومنین کے زیرحکومت علاقے کا آج اندازہ لگا نا چاہیں تو وہ تقریباآج کے دس ملکوں پر مشتمل ہوگا اتنے وسیع قلمرومیں اس قدر کام اورجدو جہد کے ساتھ ساتھ آپ ایک عظیم اور مکمل سیاست داں بھی ہیں۔اور دنیا کا نظم و نسق چلا رہے ہیں۔آپ کا وہ میدان جنگ آپ کا میدان سیاست آپ کا سماجی امورسنبھالناعوام کے مابین آپ کے فیصلے اور معاشرے میں عوام کے حقوق کا تحفظ ۔یہ سب بہت عظیم کام ہیں اس کیلۓ بہت کام اور انتظام و اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کو ہر وقت کا کرتے رہنا پڑتا ہے ۔اس قسم کے مواقع پر ایک پہلو شخصیت کے حامل افراد کہتے ہیں کہ ہماری دعا و عبادت یہی ہے ہم تو راہ خدا میں کام کر ہی رہے ہیں، اور ہمارا کام تو خدا ہی کیلۓ ہےلیکن امیرالمومنین یہ نہیں کہتے ،آپ وہ کام بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی کرتے ہیں.12 -11- 1375 ( 1 فروری 1997) خطبات نماز جمعہامیرالمومنین (ع) کا طرز حکومت اور سیرتامیرالمومنین(ع) کے معیارحکومت میں سب سے پہلے دین خدا کی مکمل پابندی اور دین الہی کے قیام پر تاکید ہے۔ یہ سب سے پہلا معیار ہے ۔جس حکومت کے کام کی بنیاد دین خدا کا قیام نہ ہو وہ علوی نہیں ہے ،جو لوگ آٹھ سالہ دفاع مقدس میں پیش پیش رہے ہو جانتے ہیں کہ میں کیا کہ رہا ہوں، عین جنگ کے دوران اس وقت جب جنگ اپنےعروج پر تھی جب ہر سپاہی کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کس طرح حملہ کرے اور کس طرح اپنا دفاع کرے ، ایک شخص امیرالمومنین کی خدمت میں آتا ہے اور توحید کے بارے میں سوال کرتا ہے ، کہتا ہے کہ قل ھو اللہ احد میں احد کے کیا معنی ہیں؟یہ کوئی بنیادی مسئلہ بھی نہيں ہے،اس نے اصل وجود خدا کے بارے میں بھی سوال نہیں کیا ہے'ایک جزئی سوال کیا ہے ،آپ کے اطراف کے لوگ کہنے لگے کہ بندۂ خدا یہ اس قسم کا سوال کرنے کا وقت ہے ؟امیرالمومنین نے فرمایا کہ ،نہیں مجھے جواب دینے دو، ہم اسی لۓ تو جنگ کر رہے ہيں۔یعنی امیرالمومنین کی جنگ ، امیرالمومنین کی سیاست ،امیرالمومنین کی محاذآرائی ،امیرالمومنین کاصبر،اور تمام بنیادی اصول جو آپ دوران حکومت اپناتے ہيں ،اس لیۓ ہیں کہ دین خداقائم ۔ یہ ایک معیار ہے ۔اگر اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ میں جو خود کو حکومت علوی کے عنوان سے پہچنواتی ہے ،اگر مقصد دین خدا کا قائم کرنا نہ ہو،عوام دین خدا پر عمل کریں یا نہ کریں دین پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں حقوق اللہ ادا ہوں یا نہ ہوں اور ہم یہ کہیں کہ ہم سے کیا مطلب ہے ، تو اگر ایساہو توپھر حکومت علوی نہیں ہے ۔دین الہی کا قیام پہلا معیار ہے اور یہ امیرالمومنین کی حکومت اور زندگی کی تمام دوسری خصوصیات کی جڑ ہے۔آپ کی عدالت کا سرچشمہ بھی یہی ہے ،امیرالمومنین (ع) کی زندگی میں عوام کے حقوق کی پابندی اور جمہوریت کی بنیاد بھی یہی ہے ۔امیرالمومنین(ع) کی حکومت کی دوسری خصوصیت اور معیار عدالت ہے ،عدالت مطلق۔یعنی آپ عدالت پر کسی بھی ذاتی مصلحت اور سیاست کو ترجیح نہیں دیتے ۔تحف العقول کے صفحہ نمبر ایک پچاسی میں آپ کا یہ ارشاد موجود ہے ۔اتامرونی ان اطلبالنصر بالجور لا وللہ یعنی میں ظلم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کیلۓ تیار نہیں ہوں۔آپ دیکھیں کہ یہ معیار کس قدرروشن و درخشاں ہے ،کتنا بلند پرچم ہے۔آپ سے کہتے ہیں کہ ممکن ہے اس میدان سیاست ، اس علمی مقابلے ،اس انتخابی میدان ،اوراس میدان جنگ میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ظلم انجام دیں۔آپ کس چيز کا انتخاب کریں گے ؟امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ مجھے یہ کامیابی نہیں چاہۓ،میں ناکام ہوجاؤں کوئی بات نہیں ہے لیکن ظلم نہیں کروں گا ۔ آّپ نے امیرالمومنین کی عدال وانصاف کے بارے میں جو کچھ بھی سنا ہے ان سب کا محور ومرکز امیرالمومنین (ع) کی مطلق عدالت محوری ہے۔ انصاف سب کیلۓ اور ہر شعبے میں،یعنی معاشی انصاف ۔سیاسی انصاف سماجی انصاف،اخلاقی انصاف۔ یہ امیرالمومنین(ع) کی حکومت کا دوسرامعیارہے۔آپ ظلم براداشت نہیں کرتے،اور خود بھی ظلم کے سامنے نہیں جھکتے ۔چاہے مصلحت کا تقاضہ کیوں نہ ہو۔ ایک بڑاظلم امتیازی سلوک ہے ،چاہے وہ حکم پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہو یاقانون پر عمل درآمد کے سلسلےمیں ہو۔یہ سب کسی صورت میں بھی امیرالمومنین کوبرداشت نہیں ہے ۔۔۔۔امیرامومنین کی حکومت کی ایک اور خصوصیت اور معیارتقوی ہے۔آپ دیکھیں ؛کہ ان میں سے ہرایک ،ایک پرچم ہے ،ان میں سے ہر ایک ،یک علامت ہے ، تقوی کے معنی کیا ہیں ؟تقوی یعنی انسان اپنے ذاتی کاموں میں بھی حق سے ذرہ برابر منحرف نہ ہو؛ یہ ہیں تقوی کےمعنی ،یعنی پوری طرح خود پر نظر رکھے ،پیسوں کے سلسلےمیں ہوشیار رہے ،لوگوں کی عزت وآبرو کے تئیں ہوشیار رہے،کسی چيز کو انتخاب کرنے میں ہوشیاررہے،کسی کو الگ کرنے کےسلسلےمیں ہوشیار رہے ،بات کرنےمیں ہوشیار ہے برخلاف حق کوئی بات نہ کرے، یعنی بھرپور کنٹرول رکھے۔آپ نہج البلاغہ دیکھیں ،ان باتوں سے بھری ہوئی ہے،آّپ شروع سے آخر تک نہج البلاغہ دیکھ ڈالیں ،اول وآخر تقوی کی تشویق و ترغیب دلائي گئي ہے ،تقوی و پرہیز گاری کی دعوت دی گئی ہے۔جب تک انسان پرہیز گار نہيں ہوگا اس وقت تک دین نہیں قائم کرسکتا ،دامن کی آلودگی بہت بری بلا ہے ،اگر انسان کا دل گناہوں سے آلودہ ہوگا تو انسان حقائق کو سمجھ نہیں سکے گا۔حقیقت کی پیروی کرنا تو بہت بڑی بات ہے ، تقوی جو امیرالمومنین (ع) کی حکومت کی ایک خصوصیت ہے اس کا سرچشمہ عوام کا ارادہ اور خواہش ہے ۔تغلب ،یعنی غلبہ اورطاقت کےذریعے عوام پر حکومت کرنا، یہ امیرالمومنین (ع) کی منطق نہیں ہے ۔باوجود اس کے کہ خود کو برحق سمجھتے تھے لیکن الگ ہٹ گۓ ،یہاں تک کہ عوام نے آکراصرارکیا،التماس کی ،روۓ گڑگڑاۓ اوردرخواست کی مولاآپ ہم پر حکومت کیجۓاور زمام حکومت سنبھالۓ۔اس وقت آپ نے حکومت سنبھالی،آّ نے خود فرمایا ہے کہ اگر لوگ نہ آۓ ہوتے،اگرعوام نے اصرار نہ کیا ہوتا ،اگر یہ عوام کا سنجیدہ مطالبہ نہ ہوتا تو مجھے اس کا م میں کوئي دلچسپی نہیں تھی۔امیرالمومنین کیلۓ حکومت و اقتدارمیں کوئی کشش نہیں ہے ۔حکومت ان لوگوں کیلۓ پرکشش ہوتی ہے جو اپنی ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ امیرالمومنین کیلۓ،وہ شرعی ذمیداری پوری کرنا چآہتے ہيں ؛عدل قائم کرنا چاہتے ہیں؛ عوام نے حکومت آپ کےسپرد کی،چنانچہ آپ نے اقتدار ہاتھ میں لے کر حکومت قائم کی ۔امیرالمومنین حضرت علی (ع) کے یوم ولادت کے موقع پر خطاب 30 / 6 / 1381امیرالمومنین (ع)کے سامنے تین گروہوں کی صف آرائی امیرالمومنین کی مظلومیت کے ساتھ حکومت کے دور میں تین گروہ آپ کے مد مقابل آۓ ،جس کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی حکومت کے دور میں - امیرالمومنین(ع) کی پانچ سال سے کم عرصے کی حکومت میں تین گروہوں نے آپ کے سامنے صف آرائی کی :قاسطین و ناکثیں و مارقین ۔اس روایت کو شیعوں اور سنیوں دونوں نے امیرالمومنین سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:امرت ان اقاتل الناکثین والقاسطین والمارقین۔(دعام الاسلام ،جلد 1 صفحہ388)یہ نام خود آپ نے رکھا ہے ،قاسطین یعنی ظالمین ۔ اس کا مادّہ قسط جب مجرد کی شکل میں استعمال ہوتا ہے تو،قسّط یقسط یعنی جار یجور ظلم یظلم - یعنی ظلم کرنے کے معنی دیتا ہے اور جب یہ ثلاثی مزید باب افعال میں لایا جاتا ہے تو- اقسط یقسط - یعنی عدل و انصاف کے معنی دیتا ہے بنا برایں اگر قسط باب افعال میں استعمال کیا جاۓ تو عدل کے معنی دے گا، لیکن جب قسط یقسط کہا جاۓ تو اس کے برخلاف ہے۔ یعنی ظلم و جور کے معنی دیتا ہے۔ قاسطین اسی مادّہ سے ہے ۔ قسطین یعنی ستمگر امیرالمومنین (ع) نے ان کا نام قاسطین رکھا ۔یہ کون لوگ تھے ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلام کو مصلحت کے تحت اور دکھانے کیلۓ قبول کیا تھا اورحکومت علوی کو بنیادی طور پر قبول ہی نہیں کرتے تھے۔امیرالمومنین جو بھی کرتے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ لہذا یہ وہ لوگ تھے جو بنیادی طور پر امیرالمومنین کی حکومت کو قبول ہی نہیں کرتا اور چاہتے تھے حکومت دوسری طرح کی ہو، اور ان کے ہاتھوں میں ہو ،اور بعد میں یہ ظاہر بھی ہوگيا اور عالم اسلام نے ان کی حکومت کا مزہ بھی چکھا ،یعنی وہی معاویہ جو امیرالمومنین سے رقابت کے زمانے میں بعض اصحاب سے محبت وخوش روئی سے پیش آتا تھا بعد میں اپنی حکومت کے دور میں سخت اور تند رویہ اختیار کر لیا۔ یہاں تک کہ یزید کا دور آیا اور واقعہ کربلا رونما ہوا ۔ اور پھر مروان عبد الملک ،حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی کا دور آیا جو اسی حکومت کا ایک ثمرہ ہے ۔ یعنی وہ حکومتیں، تاریخ جن کے مظالم کے ذکر سے بھی لرزجاتی ہے - جیسے حجاج کی حکومت - یہ وہی حکومتیں ہیں جن کی بنیاد معاویہ نے رکھی ہے اور جس کیلۓ اس نے امیر المومنین سے جنگ کی ۔ پہلے ہی سے معلوم تھا کہ یہ لوگ کیاچاہتے ہیں اور کیا حاصل کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یعنی ایک خالص دنیاوی حکومت جس کی بنیاد خود خواہی اور خودپسندی ہو وہی چیزیں جن کا بنی امیہ کے دور میں سب نے مشاہدہ کیا ۔البتہ میں یہاں کوئی کلامی یا عقائدی بحث نہیں کرناچاہتا ۔یہ جو عرض کر رہا ہوں تاریخی حقیقت ہے ۔شیعوں کی تاریخ نہیں ہے ؛یہ ابن اثير اور تاریخ ابن قتیبہ وغیرہ ہے جس کے متون میرے پاس موجود ہیں، اور نوٹس کے ساتھ محفوظ ہيں ۔یہ وہ باتیں ہیں جو مسلمہ حقائق کا حصہ ہیں۔شیعوں اورسنیوں کے نظریاتی اختلافات کی بحث نہيں ہے ۔دوسرا محاذ جو امیرالمومنین (ع) کے ساتھ لڑا وہ ناکثین کا محاذ تھا۔ ناکثين یعنی توڑنے والے اور یہاں اس سے مراد بیعت توڑنے والے ہیں۔ ان لوگوں نے پہلے امیرالمومنین(ع) کے ہاتھوں پر بیعت کی اور پھر بعد میں بیعت توڑ دی ۔یہ مسلمان تھے اور پہلے گروہ کے برخلاف خود غرض تھے یعنی امیرالمومنین(ع) کی حکومت کو اسی حد تک مانتے تھے جہاں تک ان کے لۓ حکومت میں قابل قبول حصہ موجود ہو ۔ ان سے مشورہ کیا جاۓ ، انھیں ذمہ داریاں دی جائيں،انھیں حکومت دی جاۓ،ان کے پاس موجود دولت وثروت کونہ چھیڑاجاۓ ان سے اس سلسلےميں باز پرس نہ کی جاۓ، یہ نہ پوچھا جاۓ کہ کہاں سے لاۓ ہو۔۔۔ سعد ابن ابی وقاص نے شروع سے ہی بیعت نہیں کی،بعض دوسرے لوگوں نے ابتداء سے ہی بیعت نہیں کی؛ لیکن طلحہ و زبیر اور دوسرے بزرگ صحابہ وغیرہ نے امیرالمومنین (ع) کی بیعت کی ، تسلیم کیا اور قبول کیا ؛ لیکن جب چار پانچ مہینے گذر گۓ اور دیکھا کہ نہیں ، اس حکومت حکومت کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ہے،کیونکہ یہ وہ حکومت ہے جو دوست احباب کو نہیں پہچانتی،اپنے لیۓ کسی حق کی قائل نہیں ہے اپنے گھر والوں کے لئے کسی حق کی قائل نہیں ہے اگر چہ اسلام لانے میں پہلا کرنے والوں کے لئے حق کی قائل نہیں خود سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔احکام اسلام پر عمل درآمد کرانے میں کسی چوں چرا سے کام نہیں لیتے ۔ انہوں نے دیکہا نہیں اس آدمی (علی ع ) کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ۔لہذا الگ ہو گۓ اور چلے گۓ اورجنگ جمل شروع ہو گئی جو واقعاایک فتنہ تھی ۔ام المومنین عائشہ کو بھی اپنے ساتھ کر لیا ۔اس جنگ میں کتنے لوگ مارے گۓ۔ البتہ امیرالمومنین کامیاب ہوۓ قضیہ ختم کردیا۔ یہ دوسرا محاذ تھا جس نے آپ کو ایک مدت تک مصروف رکھا۔ تیسرامحاذ مارقین کا محاذتھا۔ مارق یعنی گریزاں ،اس کی وجہ تسمیہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ اس طرح دین سے نکل گۓ تھےجس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے ، آپ جب ایک تیر کمان میں لگاکر پھینکتے ہیں تو وہ کس طرح نکلتا ہے اور دور ہوجاتا ہے ؛ یہ اسی طرح دین سے دور ہو گۓ تھے البتہ یہ دین سے بظاہر متمسک بھی تھےاور دین کا نام بھی لیتے تھے۔یہ وہی خوارج تھے وہ گروہ جس نے اپنے کاموں کی بنیاد اپنی کج فکری پر رکھی تھی جو ایک خطرناک چیز ہے بنا برایں تیسرا گروہ جس کا امیرالمومنین کو سامنا کرنا پڑا البتہ اس پر بھی آپ غلبہ پالیا وہ مارقین کا گروہ تھا۔جنگ نہروان میں آپ نے ان پر کاری ضرب لگائی،لیکن یہ لوگ معاشرے میں موجود تھے جن کی موجودگي آخرکار آپ کی شہادت پر منتج ہوئی ۔۔۔بعض لوگ خوارج کو خشک مقدس سے شبیہ دیتے ہیں ،نہیں ، بحث خشک مقدس اور مقدس مآب کی بحث نہيں ہے ۔مقدس مآب تو ایک طرف بیٹھ کر اپنی نماز دعا میں مشغول رہتا ہے ، خوارج کے یہ معنی نہیں ہیں۔ خوارج وہ عناصر ہیں جو شورش بپا کرتے ہیں، بجران ایجاد کرتا ہے ،میدان میں آتا ہے ، علی سے لڑنے کی بات کرتا ہے ، علی سے جنگ کرتا ہے ؛ لیکن اس کے کام کی بنیاد غلط ہے ۔جنگ غلط ہے، آلہ کار غلط ہے، ھدف و مقصد باطل ہے ، یہ وہ تین گروہ تھےجن سے امیرالمومنین (ع) کا سامنا تھا ۔ صفوں کا مشخص اور واضح نہ ہونا ، امیرالمومنین کے دور حکومت اور پیغیمبر اسلام کی حیات طیبہ اور دور حکومت کا واضح فرق یہ تھا کہ پیغمبراکرم کے زمانے میں صفیں واضح تھی ،ایمان وکفر کی صف ،منافقین پھنس جاتے تھے کیونکہ قرآن کی آیتیں معاشرے میں موجود منافقین کے چہرے بےنقاب کیا کرتی تھیں۔،اور ان کی طرف اشارہ کرتی رہتی تھیں،مومنین کو ان کے مقابلے میں مضبوط کرتی رہتی تھیں، اور منافقین کے حوصلے پست کرتی رہتی تھیں۔یعنی پیغمبر (ص) کے زمانے میں نظام اسلامی میں ہر چیز واضح اور کھلی ہوئی تھی۔ ایک دوسرے کے سامنے صفیں واضح تھیں۔ ایک شخص کفر و طاغوت وجاہلیت کا حامی تھا ، اور ایک شخص ایمان اسلام توحید اور معنویت کاطرفدار تھا۔البتہ وہاں بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔اس زمانے میں بھی ہرطرح کے لوگ تھے۔ اس زمانے میں بھی گوناں گوں افراد تھے لیکن صفیں واضح تھیں۔امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مسئلہ یہ تھا کہ صفیں واضح نہیں تھیں، اس وجہ سے کہ دوسرا گروہ یعنی ناکثين جواز پیداکرنے والی شخصیتیں تھیں ہرشخص طلحہ اور زبیر جیسی شخصیتوں کے سامنے شک و شبہ کا شکار ہوجاتا تھا یہ زبیر وہی تھے جو پیغمبر (ص) کے زمانے میں اہم افراد اور شخصیتوں میں شامل تھے پیغمبو کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور آنحضرت (ص) کے قریبی افراد میں سے تھے ۔اور پیغمبر(ص) کے بعد بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کی حمایت میں ثقیفہ پر اعتراض کیا تھا۔جی ہاں ۔ ؟؟؟؟؟؟خدا ہم سب کا انجام بخیر کرے ،بعض اوقات جب دنیا ، گوناں گوں حالات اور دنیا کی چمک دمک ایسے اثرات مرتب کرتی ہے ،بعض شخصیتوں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے کہ انسان کو خاص افراد کے بارے میں بھی شک ہونے لگتا ہے ۔ عام لوگوں کی تو بت ہی جدا ہے ۔بنا بریں وہ زمانہ واقعا سخت تھا ،وہ لوگ جو امیرالمومنین کے ساتھ رہے آپ کے ساتھ جمے رہے اور جنگ کی ۔،بہت بصیرت سے کام لیا۔میں نے بارہا امیرالمومومنین (ع) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ،لا یحمل ھذ العلم الااھل البصر و الصبر ۔ (بحارالانوار جلد 34 صفحہ 249) پہلے مرحلے میں بصیرت ضروری ہے ، واضح ہے کہ اس قسم کی الجھنوں میں امیرالمومنین کی مشکلات کیسی رہی ہوں گي ۔ وہ کج فکر جو اسلام کا نام لے کر امیرالمومنین (ع) سے جنگ کررہے تھے اور غلط الزامات لگارہے تھے۔ صدر اسلام میں غلط باتیں بہت سنی جاتی تھی لیکن آیت قرآن نازل ہوتی تھی اور واضح طور پر ان افکار کو مسترد کردیتی تھی ۔چاہے مکہ کا زمانہ ہو یا مدینہ کا دور ہو ،آپ دیکھیں کہ سورہ بقرہ جو ایک مدنی سورہ ہے ، جب انسان دیکھتا ہے ، تو اسے یہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں اور منافقین کے ساتھ پیغمبر(ص) کی کشمکش اور جھڑپوں کی تفصیلات موجود ہے اور اس کی تفصیلات بھی بیان کی گئ ہیں۔حتی مدینہ کے یہودی پیغمبر(ص) کو اذیت دینے کیلۓ جو طریقہ استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن میں موجود ہے لا تقولو راعنا (بقرہ 104) اور اس جیسی باتیں ،اور پھر سورہ مبارکہ اعراف -کہ جو مکی سوروں میں ہے -فصل مشبعی کا ذکر کرتے ہیں اور خرافات کے ساتھ نبرد آزما ہیں ۔ گوشت کو حلا ل و حرام کرنے کے مسئلے میں اور مختلف قسم کے گوشت کے بارےميں واقعی محرمات کو جھوٹ اور معمولی کہتے تھے ؛قل انماحرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن(اعراف 33)یہ حرام ہیں ، نہ وہ کہ جو تم نے سائبہ و بحیرہ وغیرہ وغیرہ کو اپنے لئے حرام کرلیاہے ۔قرآن اس قسم کے افکار کے خلاف کھل کرجنگ کرتا تھا؛لیکن امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مخالفین بھی قرآن کو استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن سے استفادہ کرتے تھے ،لہذا امیرالمومنین (ع) کا کام نسبتا ایک لحاظ سے مشکل تھا، امیرالمومنین (ع) کی حکومت کا مختصر دور ان مشکلات میں گذرا ہے ۔ان مشکلات کے مقابلے ميں خود امیرالمومنین (ع) کا محاذ ہے ،در حقیقت ایک مضبوط محاذ ، جس میں عمار ، مالک اشتر ، عبداللہ ابن عباس ،محمد ابن ابی بکر ،میثم تمار ،حجر ابن عدی،جیسی مومن با بصیرت اور با خبر شخصیتیں تھیں جنھوں نے عوام کی ہدایت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے امیرالمومنین کے دور حکومت کا ایک حسین پہلو-البتہ ان بزرگوں کے ہنرمنداہ جد و جہد کے لحاظ سے حسین؛ لیکن ساتھ ہی ان کو در پیش مشکلات تکلیفوں اور پریشانیوں کے لحاظ سے تلخ؛ یہ ان کا کوفہ اور بصرہ کی جانب روانہ ہونے کا منظر ہے، طلحہ اور زبیر اور ان جیسے افراد نے جب صف بندی کی اور بصرہ پر قبضہ کرلیااور کوفہ کی طرف روانہ ہوۓ تو ، حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن اور بعض اصحاب کو بھیجا،انھوں نے عوام سے جو گفتگو کی ہے ،مسجد میں جو باتیں کی ہیں ، جو دلیلیں پیش کی ہیں وہ صدر اسلام کی تاریخ کا فکرانگیز حسین اور ولولہ انگیز حصہ ہے ۔لہذا آپ دیکھیں کہ امیرالمومنین(ع) کے دشمنوں کی زیادہ تر یلغار بھی انھیں پر تھی ۔مالک اشتر(رض) کے خلاف سب سے زيادہ سازشیں کی گئيں،عمار یاسر(رض) بہت سی سازشو ں کا نشانہ تھے۔، محمد ابن ابی بکر(رض) کے خلاف سازشیں تھیں ، تمام وہ لوگ جو امیرالمومنین(ع) کے معاملے میں ابتداء سے ہی امتحان دے چکے تھے اور ثابت کر چکے تھے کہ ان کا ایمان کتنا مستحکم مضبوط اور پائدار ہے ۔اور ان کی بصیرت کتنی زیادہ ہے ،دوسری طرف دشمن طرح طرح کے الزام لگا رہے تھے اور ان پر قاتلانہ حملے کۓ جاتے تھے ،لہذا اکثر اصحاب شہید ہوگۓ ،عمار (رض) جنگ میں شہید ہوۓ لیکن محمد ابن ابی بکر(رض) شامیوں کی سازشوں کے نتیجے میں شہید ہوۓ ۔مالک اشتر(رض) شامیوں کی عیاری سے شہید ہوۓ ، بعض دوسرے بچے،لیکن بعد میں وہ بھی سخت طریقے سے شہید کۓ گۓ۔ یہ امیرالمومنین (ع) کی زندگی اور حکومت ۔ اگر سب کو یکجاکرلیا جائے تو یوں عرض کرنا چاہۓ کہ آپ کی حکومت کا زمانہ ،ایک مضبوط اور اس کے ساتھ ہی مظلوم و کامیاب حکومت کا دور تھا۔یعنی خود اپنے زمانے میں دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اپنی مظلوما نہ شہادت کے بعد بھی، آپ ہمیشہ فراز تاریخ میں مشعل کی مانند رہے ۔ لیکن اس دوران امیر المومنین کے دل کو پہنچنے والی اذیت و تکلیف تاریخ کے سخت ترین واقعات و حالات کا جزء ہے۔امیرالمومنین (ع) کی وصیتیں اور ہدایاتامیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کا آغاز واختتام تقوی کی وصیت پر مبنی ہے ۔ آپ فرماتے ہيں ؛ میرے بچو: اللہ کی راہ میں الہی معیارات پر قائم و دائم رہو۔ ہوشیار رہو؛تقوی اللہ یعنی یعنی یہ ۔ اللہ سے ڈرنےکی بحث نہيں ہے ،جو بعض لوگ تقوی کے معنی اللہ سے ڈرنے کے کرتے ہيں ۔ خشیت اللہ اور خوف اللہ کی بھی اپنی قدرو منزلت ہے ۔ لیکن یہ تقوی ہے۔ ۔تقوی یعنی ہوشیار اور متوجہ رہوکہ جو بھی عمل آپ سے سرزد ہووہ اس مصلحت کے مطابق ہو جو اللہ تعالی نے آپ کیلۓ مد نظر رکھی ہے تقوی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی ایک لمحے کیلۓ چھوڑ دے۔اگر رہا کر دیا تو جان لو کہ راستہ پھسلنے والا ہے ، کھائياں گہری ہیں ،پھسل جائيں گے اور گر جائيں گے۔ یہاں تک کہ ہمیں کوئی سہاراملے کوئی پتھر ، درخت اور کوئي جڑ ہمارے ہاتھ لگے، اور ہم خود کو اوپر اٹھا سکیں۔ ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون۔(اعراف آیت ( 201) جو لوگ متقی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے توخدا کو یاد کرتے ہیں اور حقائق کو یاد کرتے ہیں ۔شیطان تو ہمارا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے لہذا پہلی وصیت تقوی ہے ۔تقوی کیلۓ کی ضروری ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ بھاگا جاۓ ۔ تقوی اور ہی چیز ہے ؛ وان لا تبغیا الدنیا و ان بغتکمادنیا کے پیچھے نہ بھاگو اگر چہ دنیا تمھارے پیچھے پیچھے لگی ہو ۔ یہ دوسرا نکتہ ہے ۔یہ بھی تقوی کےلوازمات ہیں ۔ البتہ تمام نیک کام تقوی کے لوازمات میں ہیں۔ان میں سے ایک بلاشبہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑنا ہے ،یہ نہیں کہا ہے کہ ترک دنیا کرلو ۔ ارشاد ہوا ہے ، لا تبغیا ۔دنیا کے پیچھے پیچھے نہ چلو ۔ طلب دنیا میں نہ رہو،ہماری فارسی تعبیر میں یہ معنی ہوتے ہیں کہ دنیاکے پیچھے نہ دوڑو۔ دنیا طلبی کا مطلب ، روۓ زمین کو آباد کرنا ،اور الہی ذخائرو ثروت کوزندہ کرنا نہیں ہے دنیا طلبی کا مطلب یہ نہیں ہے، اس کیلۓ نہیں روکا گیا ہے ۔ دنیا یعنی جو آپ اپنے لیۓ اپنی خواہشات نفس کیلۓ اپنی ہوا و ہوس کیلۓ چاہتے ہیں ۔ اسے دنیا کہتے ہیں ۔ورنہ روۓ زمین کو نیک مقصد کے تحت اور انسانیت کی فلاح کیلۓ آباد کیا جائے تو یہ عین آخرت ہے ، یہ بلاشبہ اچھی دنیا ہے ۔جس دنیا کی مذمت کی گئ ہے اور جس سے روکا گيا ہے وہ ، وہ دنیا ہے جو ہماری توانائیوں کو، ہماری کوششوں کو، ہماری ہمت کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اور ہمیں راستے سے بھٹکا دیتی ہے ۔ہماری خود پسندی ،ہماری خود پرستی ، دولت کو صرف اپنے لیۓ چاہنا اور اپنے لیۓ لذتوں کا حصول ایسی دنیا قابل مذمت ہے ۔البتہ اس دنیا میں کچھ چیزیں حرام ہیں اور کچہ چیزیں حلال ہیں ایسا نہیں ہےکہ ہر چیز کی اپنے لیۓ طلب حرام ہے ۔ نہیں: حلال بھی ہیں ۔لیکن تمام حلال چیزوں کی طرف جانے سے بھی روکا گيا ہے۔ اگر دنیا کے معنی یہ ہیں تو حلال بھی بہتر نہیں ہے۔ مادی زندگی کے مظاہر کو اللہ کیلۓ قرار دو ، اسی میں نفع اور فائدہ ہے ۔اور یہی آخرت کے معنی ہیں۔تجارت بھی اگر عوام کی زندگی کو بہتر بنانےکیلۓ ہو ،اپنےلیۓدولت و ثروت اکٹھاکرنےکیلۓ نہ ہو،تو عین آخرت ہے ۔ دنیا کے دوسر تمام کام بھی اسی طرح ہیں ۔ چنانچہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑواور طلب دنیا میں ہی نہ پڑے رہوامیرالمومنین نے اس وصیت میں جو فرمایا ہے وہ اس کیلۓآینۂ تمام نما ہے ۔آپ اگر حضرت علی علیہ السلام کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں گے تو وہ انھیں جملوں کا خلاصہ ہے جو آپ کی مختصر سے وصیت میں آيا ہے ۔ولاتاسف شيءمنہا زوی عنکمااگراس دنیاء مذموم سے تمھیں کچہ نہ ملا ہو اور تم سے دریغ کیا گیا ہو،تو افسوس نہ کرو۔ اگرکوئی عہدہ ، کوئی دولت ،کوئی اسباب فلاح تمھیں حاصل نہ ہوا ہو تو افسوس نہ کرو،یہ تیسرا جملہ۔اور اس کے بعد کا جملہ ہے ،قولا بالحق یا اصلی نسخے کے مطابق وقول الحق کوئی فرق نہیں پڑتا ،معنی یہ ہیں کہ حق کہو ، حق کہو اور اسے نہ چھپاؤ،اگر آپ کی نظرمیں کوئی چیز آپ کی نظرمیں حق ہے تو اسے جہاں بیان کرنا چاہۓ بیان کیجۓ، حق کو چھپاۓ نہ رہۓ،اس وقت جب زبانیں حق کو چھپائیں اور باطل کو آشکار کریں ، یا حق کی جگہ باطل کو قرار دیں،اگر حق دیکھنےوالے یا حق جاننے والے حق بولیں ، تو حق مظلوم نہیں رہے گا ،حق اکیلا نہیں پڑے گا ۔اوراہل باطل حق کو مٹانے کی ہمت نہیں کریں گے۔اور بعد کا جملہ ہے و اعملا للآجر جزا کیلۓ - یعنی الہی وحقیقی جزا و پاداش۔ کام کیجۓ۔اے انسان عبس اور بیہودہ کام نہ کر ،یہ تیرا کا م یہ تیری عمر یہ تیرا سانس لینا ، صرف تیرا سرمایہ ہے ۔ اسے بلاسبب برباد نہ ہونے دے۔اگر عمر بسر کر رہے ہو ، اگر کوئی کام کر رہے ہو ، اگر سانس لے رہے ہو، اوراگر طاقت و توانائی خرچ کر رہے ہو ،تو یہ سب جزاء کیلۓ کرو ،جزاء و پاداش کیا ہے ؟کیا چند تومان انسان کے وجود کی جزاء وپاداش ہے؟کیا یہ اس زندگی کی پاداش ہے جو ہم خرچ کر رہے ہیں ؟ ہمارا کسی کو اچھا لگنا ،ایک انسان کی جزاء و پاداش ہے ؟جی نہیں ؛فلیس لانفسکم ثمن الاالجنہ علی فلا تبیعوھا بھ غیرھا ( نہج البلاغہ 456حکمت )یہ ،امام علی (ع) کا جملہ ہے جو آپ فرماتے ہیں کہ الا حر یدع ھذاہ اللماظۂ لاھلھا؟ انھ لیس لانفسکم الا الجنہ فلا تبیعوھا الا بھا کونا لظآلم خصما وللمظلوم عوناامام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وکونا لظالم خصماوللمظلوم عوناظالم کے خصم رہو ۔ خصم اور دشمن میں فرق ہے کبھی کوئي ظالم کا دشمن ہوتا ہے یعنی ظالم اسے برا لگتا ہے اور اس کا دشمن ہے ، یہ کافی نہیں ہے ۔اس کے خصم رہو یعنی اس کے مد عی رہوخصم یعنی ایسا دشمن جو مدعی ودعویدار ہے ایسا دشمن جو ظالم کے گریبان کا پکڑے ہوۓ ہے اور اسے چھوڑ نہیں رہا ہے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد سے آج تک انسانیت ظالموں کا گریبان نہ پکڑنے کی وجہ سے ، بدنصیب اور روسیاہ ہے۔ اگر ایماندار اور مومن افراد ظالموں اور ستمگاروں کا گریبان پکڑے ہوتے تو دنیا میں ظلم اس قدر آگے نہ بڑھتا، بلکہ وہ جڑ سے ختم ہوجاتا۔ امیرالمومنین(ع) یہ چاہتے ہیں ۔ کونا للظالم خشماظالم کے خشم میں رہودنیا میں چاہے جہاں بھی ظلم و ظالم ہو آپ یہیں سے اس کے دشمن رہیں اور خود کو اس کا دشمن سمجھیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی اٹھ کھڑے ہو اور دنیا کے اس کنارے سے اس کنارے تک جاؤ اور ظالم کا گریبان پکڑ لو میں کہتا ہوں اپنی دشمنی و خصومت کا ضرور اظہار کردو۔جہاں بھی جس وقت بھی موقع ملے اس کے دشمن رہو اور اس کا گریبان پکڑ لو ، ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب انسان ظالم کے پاس جاکر اظہا ر دشمنی بھی نہیں کر پاتا لہذا دور سے ہی اظہار دشمنی کرتا ہے آپ دیکھیں کہ آج امیرالمومنین علیہ السلام کی وصیت کے اسی ایک جملے پر عمل نہ کرپانے کی وجہ سے دنیا میں کس قدر مسائل پیدا ہوگۓ ہیں اور انسانیت کتنی بد نصیبی و تباہی کا شکار ہے۔ آپ دیکھیں قومیں بالخصوص مسلمان کتنا مظلوم ہے ،اگر امیرالمومنین (ع) کی اسی ایک وصیت پر عمل ہوا ہوتا تو ظلم کے نتیجے میں پیداہونے والی بہت سی مصیبتیں اورظلم کا وجود نہ ہوتا ، وللمظلوم عونا جہاں کہیں بھی مظلوم ہے اس کی مدد کرو ۔ یہ نہیں فرماتے کہ اس کے حامی بنو نہيں اس کی مددکرنی چاہۓ ،جتنی بھی اور جس طرح سے بھی مدد ہوسکتی ہے ۔ یہاں تک امیرالمومنین(ع) کی وصیت میں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام )کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ البتہ یہ باتیں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام) سے مخصوص نہیں ہیں ۔ انھیں مخاطب قرار دیا گیا ہے ۔لیکن سب کیلۓ ہے ۔امیرالمومنین علیہ الصلوت والسلام بعد کے جملوں میں عمومی وصیت فرماتے ہیں ۔ اوصیکما و جمیع ولدی تم دونوں بیٹو اور اپنے تمام بچوں کو وصیت کرتاہوں واھلی اور تمام اہل و عیال کو ومن بلغھ کتابی اور ہر اس شخص کو جس تک میرا یہ خط پہنـچے۔ اس لحاظ سے آپ حضرات جو یہاں بیٹھے ہیں اور میں جو یہ وصیت آپ لوگوں کیلۓ پڑھ رہا ہوں ، ہم سب سےامیرالمومنین (علیہ السلام )کا خطاب ہے ۔ فرماتے ہیں تم سب کو وصیت کرتا ہوں کس چیز کی ؟ پھر بتقوی اللہ ایک بار پھر تقوی امیرالمومنین علیہ الصلات و السلام کا پہلا اور آخری کلمہ تقوی ہے ۔ونظم امرکم یعنی زندگی میں جتنے بھی کام کرتے ہو اس ميں منظم رہو ، یعنی کیا؟یعنی زندگي میں جتنے بھی کام کرتے ہو، اس کو منظم طریقے سے کرو۔اس کے معنی یہ ہیں ؟ ممکن ہے یہی معنی ہوں۔ یہ نہیں فرمایا کہ نظم امورکم اپنے کاموں کو منظم کرو۔ فرمایا ہے نظم امرکم وہ چیز جسے منظم ہونا چاہۓ ایک چیز ہے نظم امور نہیں فرمایا ہے فرمایا ہے ونظم امرکم انسان سمجھتاہے کہ یہ نظم کام ، تمام افراد کے درمیان ایک مشترکہ امر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظم امرکم سے مراد اسلامی ولایت وحکومت اورنظام ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت ونظام کے امور میں نظم و ضبط سے کام لو،۔۔۔۔۔وصیت کے دوسرے حصے کی بنیاد عوام کے درمیان خلوص و یکجہتی پراستوار ہے ۔ فرماتے ہیں صلاح ذات بین یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہو ۔ دل ایک دوسرے سے صاف ہوں ، سب کے درمیان یکجہتی ہو اور تمھارے درمیان اختلاف و جدائی نہ ہو ۔آپ یہ جملہ جو ارشاد فرما رہے ہیں اس کےلۓ قول پیغمبر(ص) سےایک دلیل بھی لا رہے ہیں ۔ واضح ہے کہ اس پر بہت بھروسہ کرتےہیں اور اس سلسلے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صلاح ذات بین کی اہمیت نظم امر سے زیادہ ہے ؛ چونکہ صلاح ذات بین زیادہ نازک معاملہ ہے اس لۓ یہ عبارت پیغمبر (ص ) کی جانب سے بیان کرتے ہیں فانی سمعت جدکما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، یقول ؛تمھارے نانا کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ صلاح ذات البین افضل من عامۂالصلاۂ والصیام عوام کے درمیان صلح اور میل جول کرانا تمام نماز و روزہ سے بہتر ہے ؛ فرماتے ہيں ہر نماز وروزہ سے بہتر ہے ؛ آپ نماز و روزہ کی فکر میں ہيں لیکن ایسا بھی کام ہے جو ان دونوں سے بھی بہتر ہے ، اس کی فضیلت زیادہ ہے ۔ وہ کیا ہے ؟وہ اصلاح ذات البین ہے اگر آپ نے دیکھا کہ امت مسلمہ میں کہیں اختلاف و تفرقہ ہے تو جايۓ اور جاکر اسے حل کیجۓ ،اس کی فضیلت نمازو روزہ سے زیادہ ہے ۔یتیموں کی خبرگیری : یہ جملہ ارشاد فرمانےکےبعد مختصر فکرانگیز دلسوزجملے ارشاد فرما رہے ہیں وا للہ اللہ فی الایتامیعنی اے میرے مخاطبین : اللہ اللہ یتیموں کے بارے میں اللہ اللہ کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا ہمارے پاس فارسی زبان میں اس کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں ،اگر اس کا ترجمہ کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ تمھاری قسم اور خدا کی قسم یتیموں کے بارے میں یعنی یتیموں کیلۓ جو کچھ بھی کر سکتے ہو کروکہیں ایسا نہ ہوکہ انھیں فراموش کر دو،بہت اہم ہے ۔آپ دیکھیں کہ یہ ہمدرد ماہرنفسیات خداشناس انسان شناس ،کس قدر باریک نکا ت کی طرف اشارہ کر رہا ہے ؛ جی ہاں ؛ یتیموں کا خیال رکھنا صرف ایک ذاتی رحم و کرم اور معمولی جذبہ نہیں ہے ۔ ایسا بچہ جس کا باپ مر چکا ہے ایسا انسان ہے جس کی ایک بنیادی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہے ، اور اسے باپ کی ضرورت ہے ،اس کی کسی نہ کسی طرح تلافی کیجۓ ۔ اگر چہ اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی ،لیکن ہوشیار رہنا چاہۓ کہ یتیم جوان نوجوان یا بچہ کہیں تباہ نہ ہو جاۓ۔ واللہ اللہ فی الایتام ۔ فلا تغبو افواھھم کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھوکے رہ جائيں ؛ ایسا نہ ہوکہ کبھی انھیں کچھ مل جاۓ اور کبھی خالی ہاتھ رہ جائيں، لاتغبو کے معنی یہ ہیں۔ ضروریات زندگی کے لحاظ سے ان کا خیال رکھۓ۔ ولا یضیعو بحضرتکم کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ تنہا رہ جائيں اور تمھارے ہوتے ہوۓ ان پر کوئی توجہ نہ دی جاۓ، اگر موجود نہی ہو ، تو بے خبر ہو؛ لیکن ایسا نہ ہو کہ تم موجود ہو اورایک یتیم - کوئی بھی یتیم - بے توجہی و لاپرواہی کاشکار ہو جاۓ ۔ایسا نہ ہو کہ ہر شخص صرف اپنے کام میں لگ جاۓ اور یتیم بچہ تنہا رہ جاۓ۔پڑوسیوں کے حقوق کاخیال اللہ اللہ فی جیرانکم اللہ اللہ تمھارے پڑوسی ؛پڑوسی کے مسئلے کو معمولی نہ سمجھۓ۔بہت اہم معاملہ ہے ۔ ایک عظیم سماجی رابطہ ہے جس پر اسلام نے توجہ دی ہے اور انسانی فطرت کے مطابق ہے ۔لیکن فطرت انسانی سے دور تہذیبوں کے پیچ و خم میں یہ قدریں گم ہوکر رہ گئي ہیں ۔ آپ کو اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہۓ ، نہ صرف مالی و معاشی لحاظ سے، البتہ وہ بھی اہم ہے -بلکہ تمام انسانی پہلؤوں سے ۔اس وقت آپ دیکھیں گے کہ سماج میں کیسی الفت و محبت پیدا ہوتی ہے ، اور کس طرح لاینحل مسائل حل ہوتے ہیں، فانھم وصیھ نبیکم یہ پیغمبر(ص) کی وصیت ہے کہ مازال یوصی بہم حتی ظنا انھ سیورثھم پیغمبر نے پڑوسیوں کیلۓ اتنی زيادہ تاکید کی کہ ہم نے سمجھا کہ ان کیلۓ میراث معین ہوجاۓ گی ۔اللہ اللہ فی القرآن اللہ اللہ قرآن میں ۔ لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکمایسا نہ ہو کہ جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے قرآن پر عمل کرکے آگے بڑہ جائيں اور تم جو ایمان رکھتے ہو عمل نہ کرو اور پیچھے رہ جاؤ۔ یعنی یہی جو ہوا ہے ،وہ لوگ جو دنیا میں آگے بڑھے اور ترقی کی ، وہ مسلسل کام کرکے ، پے درپے کاموں میں مصروف رہ کرکے ، اچھی طرح سے کام انجام دے کر کے ، ان صفات کو اختیار کرکے جو خدا پسند کرتاہے آگے بڑھے ہیں ، اپنی برائيوں سے نہیں ،اپنی شراب خوری سے نہیں یا اپنے مظالم کے ذریعے نہيں۔۔۔۔مسجد کے خالی نہ رہنےکے بارے میں ۔ واللہ اللہ فی بیت ربکم لاتخلوہ مابقیتم مسجد ویران نہ رہنے پاۓ فانہ ان ترک لم تناظروا اگر مسجد چھوٹے گی تو تمھیں مہلت نہیں دی جاۓ گی ( یا زندگی کا امکان نہیں ملے گا) اس عبارت کے مختلف معنی کۓ گۓ ہیں۔جہاد فی سبیل اللہ کو نہ چھوڑنا ۔ و اللہ اللہ فی الجہاد باموالکم و انفسکم والسنتکم فی سبیل اللہ یعنی اللہ جہاد کے بارے میں ۔ ایسا نہ ہوکہ تم راہ خدا میں جان مال اور زبان سے جہاد ترک کردو۔یہ جہاد وہی جہاد ہے جو جب تک امت مسلمہ میں موجود تھا وہ دنیا کی مثالی قوم تھی اور جب اسے چھوڑ دیا ، ذلیل و خوار ہوگئي۔۔۔۔جہاد اپنی اسی اسلامی شکل میں - کہ جس کے کـچھ حدود و شرائط ہیں - ظلم نہیں ہے ۔ جہاد میں انسانوں کے حقوق کوپامال نہیں کیا جاسکتا جہاد بہانہ بازی اور اسے اُسے قتل کرنا نہيں ہے ۔ جہاد میں کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جو مسلمان نہ ہو اسے ختم کردو ۔جہاد ایک الہی حکم ہے جس کی بہت عظمت ہے ۔ اگر جہاد ہوگا تو قومیں سربلند ہوں گی ۔اس کےبعد ارشاد فرماتے ہیں و علیکم التواصل والتباذل ایک دوسرے سے رابطہ رکھو ۔ ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ عطا بخشش کرو ۔ وایاکم بالتدابر والتقاطع ایک دوسرے کا ساتھ دینا نہ چھوڑو۔ قطع رحم نہ کرو ۔ لا تترکوا الا مر بالمعروف والنھی عن المنکر امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہرگز ترک نہ کرو کیونکہ اگر ترک کردوگے فیولی علیکم شرارکم جہاں نیکیوں کی طرف بلانےوالا اور برائیوں سے روکنے والا نہیں ہوتا وہاں اشرار اور برے افراد برسر اقتدار آجاتے ہيں اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ۔ ثم تدعون پھر تم نیک لوگ دعا کروگے کہ خدایا ، ہمیں ان برے لوگوں سے نجات دے ، فلا یستجاب لکم پھر خدا تمھاری دعا پوری نہیں کرے گا۔۔۔۔۔حکومت امیرالمومنین ( ع) کو سمجھنے کے تئيں ہماری ذمہ داریصرف خداکیلۓ ذمہ داریوں کو قبول کرنا ایسی چیز ہے جس کا درس ہمیں امیرالمومنین سے لینا چاہۓ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو اس منزل پر پہنچا دیں - کیونکہ کوئي بھی خود کو اس منزل تک نہيں پہنچا سکتا - بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں جو شخص جہاں بھی کام کر رہا ہو اسے یہ مشق کرتے رہنا چاہۓ ،اور یہ نہیں بھولنا چاہۓ اور یہ کوشش کرنی چاہۓ کہ جو بھی کام کر ے خدا کیلۓ کرے ، جو ذمہ داری بھی قبول کرے خدا کیلۓ خدا کیلۓ قبول کرے ،اور جو قدم بھی اٹھاۓ خدا کیلۓ اٹھاۓ۔ اگر انسان جو ذمہ داری قبو ل کرتا ہے ، جو گفتگو کرتا ہے ،اور جو عمل کرتا ہے وہ خدا کیلۓ ہو توانسان کیلۓ وہ کام بھی آسان ہوجاۓ گا۔کیونکہ خدا کیلۓ ہے اس میں انسان کے نفس کا کوئي دخل اور اثر نہیں ہے ۔ نفسانی خواہشات اس میدان میں موجود نہیں ہے ۔ لہذا ذمہ داریوں کو قبول کرنا آسان ہے ،ذمہ داریوں سے دست بردار ہونا آسان ہے ۔ قدم اٹھانا آسان ہے، جو وہ کہنا چاہتا وہ کہنا آسان ہے، جو نہیں کہنا چاہۓ اس کا نہ کہنا آسان ہے ، فیصلہ کرنا آسان ہے ، زہر کا پیالہ پینا آسان ہے،پوری دنیا سے مقابلہ کرنا آسان ہے۔ بڑی طاقتوں کے مد مقابل آنا آسان ہے، مسائل کو جو چیز مشکل بناتی ہے وہ ہمارا نفس ہے ، ہماری خواہشات ہیں ، ہماری ہوا و ہوس ہے ، ہمارے مادی حساب کتاب ہیں ، اگر ایسے رہیں تو کیا ہوگا؟ کیا نقصان پہنچے گا؟ کیا چیز ہمیں نہیں مل پاۓ گی ؟ جب من بیچ میں نہیں ہوتا، جب خود درمیان میں نہیں ہوتا ،شخص بیچ میں نہیں ہوتا ، نفسانی ھوا و ھوس بیچ میں نہیں ہوتی ، اور سب کچھ خدا کیلۓ ہوتاہے ، تو تمام بڑے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ اس کا واضح اور درخشاں نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو امیرالمومنین (ع) کی زندگی کو دیکھۓ۔ جب چھوڑدینا چاہۓ تھا اور کھجور کے بیج کی مانند منہ سے باہر پھینک دینا چاہۓ تھا ، تو آپ نے وہ کیا ۔ اور جب ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت تھی - فرض کی ادائگي کیلۓ، کسی اور چیز کیلۓ نہیں - تو اس وقت آپ نے اسے قبول کیا۔ احساس ذمہ داری کیا ۔ دین کی حفاظت کیلۓ ۔ دشمنان دین کا مقابلہ کرنے کیلۓ اپنا پورا دور خلافت تقریبا جنگ میں گذارا۔اگر نفسانی ھوا و ھوس اور خواہشات کا مسئلہ ہوتا تو دوسری طرح عمل کرتے ۔ نفس کی پیروی کا معاملہ نہیں تھا۔ اور جب اس مقصد کیلۓ جان قربان کرنے کا وقت آیا تو آسانی سے جان بھی فدا کردی۔عید غدیر کی مناسبت سے حکام سے ملاقات کے موقع پر فرمایاحکومت امیرالمومنین ہر لحاظ سے چاہے وہ عدل قائم کرنے کامعاملہ ہو ، چاہے ظالم کے مقابلے اور مظلوم کی مدد اورحق کی حمایت کی بات ہو، ہر مرحلہ میں اور ہر حال میں نمونہ عمل ہے جس کی پیروی کرنی چاہۓ۔ فرسودہ ہونے والی چیز بھی نہیں ہے ،اور یہ دنیا کے تمام سماجی اور سائنسی ماحول اورمختلف حالات میں انسانوں کی سعادت و خوشبختی کیلۓ نمونہ عمل ہو سکتی ہے۔ ہم اس دور کے دفتری طور طریقہ کی تقلید نہیں کرنا چاہتے اور کہیں کہ یہ سب بھی زمانہ کی تبدیلیوں میں شامل ہے، اور مثلا روز بروز نئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہم اس حکومت کے موقف کی پیروی کرنا چاہتے ہیں جو تا ابد زندہ رہے گا۔ مظلوم کی حمایت ہمیشہ کیلۓ ایک درخشاں اورروشن نقطہ ہے ۔ ظالم سے ساز باز نہ کرنا ، طاقتور اور دولت مند سے رشوت نہ لینا ،اور حقیقت پر اصرار ،وہ اقدار ہیں کہ جو دنیا میں کبھی بھی کہنہ اور پرانےہونے والے نہیں ہيں۔ گوناں گوں حالات اور مختلف زمانوں میں یہ خصوصیات ہمیشہ گرانقدر ہیں ۔ ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہۓ ، یہی اصول ہیں ۔ ہم جو کہتے ہیں اصول پسند حکومت ، یعنی ان پائداراقدار کی اتباع اورپیروی جو ہرگز کہنہ اور پرانے ہونے والے نہیں ہیں۔ اور اتفاق یہ ہے کہ دنیا کی جابر اور استکباری طاقتیں بھی ہماری اسی پایداری سے ناراض ہيں۔وہ اسی سے غصہ میں ہیں ۔خفا ہیں کہ ایران کی اسلامی حکومت فلسطین کے مظلوموں یا ملت افغانستان کی حامی وطرفدار ہے یا دنیا کی فلاں ظالم واستکباری حکومت سے ساز باز نہیں کرتی ۔آپ جو یہ دیکھتے ہیں کہ بنیاد پرستی یا اصول پسندی ہماری قوم کے دشمنوں کےہاتھوں اور زبان پر ایک گالی کی مانند رہتی ہے ، اسی وجہ سے ہے۔ یہ اصول وہی چیز ہے جس سے دنیا کی جابر طاقتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ اس کے خلاف ہیں ۔ اس دور میں امیرالمومنین (ع) سے بھی انھیں چیزوں کی وجہ سے جنگ کی ۔حکومت کی حیثیت سے ہماری کوشش یہ ہونی چاہۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے خود کو اس دور کے سب سے غریب انسان کی حیثیت سے پیش کیااورفرمایا کہ :میں جو تمھارا امام ہوں، اس طرح زندگی گذار رہا ہوں ۔ عثمان بن حنیف سے ارشاد فرمایا کہ تم میری طرح زندگی نہیں گذار سکتے ، یعنی یہ توقع بھی نہیں ہے ؛ولکن اعینونی بورع والاجتہادلیکن گناہ سے پرہیز کرو اور خود کواس منزل سے قریب کرنے کی کوشش کرو؛یہ وہی بات ہے جو امیرالمومنین (ع) ہم لوگوں سے بھی کہ رہے ہيں کہ جو بھی گناہ اور ناجائز ہےاس سے اجتناب کرواور خود کو قریب کرنے کی کوشش بھی کرو، جتنا قریب پہنچ سکو ، اور جتنا کوشش کر سکو۔۔۔امیرالمومنین کیلۓ حق و انصاف کا قیام اور مظلوم کا دفاع اور ظالم کے ساتھ سختی ایک اہم مسئلہ تھا- چاہے وہ جو بھی ہو ؛ یعنی ظالم چاہے جو بھی ہو ، اورمظلوم چاہے جو ہو - امیرالمومنین نے مظلوم کی حمایت کے سلسلےمیں اس کے مسلمان ہونےکی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔اسلام کے پابند ،سب سے بڑے مومن، اسلامی فتوحات کے سب سے بڑے سردار امیرالمومنین نے مظلوم کادفاع کرنے کیلۓ مسلمان ہونے کی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔۔جب ہم امیرالمومنین کے نام کا احترام کرتے تو یہ ہمارے عمل کرنےکیلۓ ہونا چاہۓ ۔ ہم ہمیشہ عوام سے نہیں کہہ سکتے کہ آپ امیرالمومنین (ع) کی طرح عمل کیجئے ۔ ہم جو آج اسلامی جمہوری نظام میں عہدیدار ہیں ،ہماری ذمہ داریاں سب سے زيادہ ہيں ۔اور سب سے زیادہ فرائض ہمارے کاندھوں پر ہیں ۔ ہمیں امید ہےکہ اسلامی جمہوریہ کے حکام کو امیرالمومنین(ع) کی مانند یہ توفیق حاصل ہوگي اور وہ آپ کے بتاۓ ہوۓ راستے پر گامزن رہیں گے۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نے اس راہ میں بہت مصائب ومشکلات برداشت کۓ ہیں ۔۔۔۔۔ امیرالمومنین(ع) نے معروف دعا ، دعاءکمیل میں جو آپ ہی کی تعلیم کردہ ہے- اللہ کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ فرماتے ہیں الہی وسیدی و مولائی وما لک رقی من جملہ یہ خطاب بھی میرے کانوں اور ذہن پر بہت اثر انداز ہوا کہ یا من الیہ شکوت و احوالی مفاتیح الجنان ، دعاء کمیل اے وہ کہ میں جس سے اپنے شکوے بیان کرتا ہوں : آپ خدا سے شکوے کرتے تھے: آپ کا دل درد سے بھرا ہوا تھا۔ امیرالمومنین کی تشویش عوام اور معاشرے کیلۓ بھی تھی اور اس دور میں نو تشکیل اسلامی نظام میں دین کی صورتحال اور مذہب کی صحیح سمت میں حرکت اور خود آپ کا شدید احساس ذمہ داری بھی اس میں شامل تھا ۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نےیہ ذمہ داری پوری کرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی ۔
فاطمہ زہرا (س) انسانیت کی معراجمیں اسلام کے نام سے اپنی بات کا آغاز کرتاہوں اور اسلام کے پیغام کو عظیم پیغام مانتا ہوں۔ آپ جیسی خواتین پر مجھے فخر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئي دعوی عمل کے مرحلے کے نزدیک پہنچ جاتا ہے تب اسے اس کی حقیقی اہمیت حاصل ہوتی ہے ہم ایک طرف تو خواتین کے مسئلے میں اور دوسری طرف علم و سائنس کے مسئلے میں جبکہ دوسرے پہلو سے انسانیت کی خدمت کےمسئلے میں خاص نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر اسلام کے تناظر میں ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اچھے انسانی معاشرے میں عورتیں اس بات کی صلاحیت رکھتی ہیں اور انہیں اس کا موقع بھی ملنا چاہئے کہ، اپنے طور علمی، سماجی، تعمیری اور انتظامی شعبوں میں اپنی کوشش اور بھرپور تعاون کریں۔ اس زاوئے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر انسان کی تخلیق کا مقصد پوری انسانیت کی تخلیق کا مقصد ہے، یعنی انسانی کمال تک رسائي ایسی خصوصیات اور صفات سے خود کو آراستہ کرنا جن سے ایک انسان آراستہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ اس کی سب سے واضح علامت پہلے مرحلے میں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات با صفات ہے اور اس کے بعد انسانی تاریخ کی دیگر عظیم خواتین کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا آسمان انسانیت آفتاب کی مانند ضو فشاں ہیں کوئی بھی ان سے بلند و برتر نہیں ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے ایک مسلمان خاتون کی حیثیت سے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کی کہ خود کو انسانیت کی اوج پر پہنچا دیں۔ لہذا مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جب اچھے اور برے انسانوں کی مثال دی ہے تو عورت اور مرد دونوں سے متعلق مثال پیش کی ہے۔ ایک جگہ فرعون کی بیوی کا تذکرہ فرمایا ہے تو دوسرے مقام پر حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کا ذکر فرمایا ہے '' و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرءۃ فرعون اس کے مقابلے میں برے انسانوں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کی مثال دی ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ تاریخ میں عورت کے سلسلے میں جو غلط تصور قائم رہا اس کی اصلاح کرے۔ مجھے حیرت ہے کہ معدودے چند مثالوں کے علاوہ ایسا کیوں ہے ؟ کیوں انسان نے مرد اور عورت کے مسئلے میں ہمیشہ غلط طرز فکر اختیار کیا اور اس پر وہ مصر رہا۔ آپ انبیا کی تعلیمات سے ہٹ کر دیکھیں تو عورتوں کے سلسلے میں جو بھی نظریات قائم کئے گئے ہیں ان میں مرد اور عورت کا مقام حقیقت سے دور ہے اور مرد و عورت کے درمیان جو نسبت بیان کی گئي ہے وہ بھی غلط ہے۔ حتی بہت قدیمی تہذیبوں میں بھی جیسے کہ روم یا ایران کی تہذیبیں ہیں، عورت کے سلسلے میں جو تصور اور نظریہ ہے درست نہیں ہے۔ میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، آپ خود ہی اس سے واقف ہیں اور خود جائزہ لے سکتے ہیں۔ آج بھی دنیا کی وہی حالت ہے۔ آج بھی عورتوں کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے اور اس کی ذات کے انسانی پہلو پر تاکید کے نعروں کے باوجود عورتوں کے سلسلے میں جو نظریہ ہے وہ غلط ہے۔ چونکہ یورپی ممالک، مسلم ممالک کی مقابلے میں ذرا تاخیر سے اس بحث میں شامل ہوئے ہیں اس لئے خواتین کے مسئلے میں ذرا دیر سے جاگے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے تک یورپ میں کہیں بھی کسی بھی خاتون کو اظہار رائے کا حق نہیں ہوتا تھا جہاں جمہوریت تھی حتی وہاں بھی عورت کو اپنا مال خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا تھا۔ بیسوی صدی کے دوسرے عشرے سے یعنی سن انیس سو سولہ یا اٹھارہ سے رفتہ رفتہ یورپی ممالک میں فیصلہ کیا گيا کہ عورتوں کو بھی اپنے سرمائے کے سلسلے میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا جائے اور وہ سماجی امور میں مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرے۔ اس بنا پر یورپ بہت تاخیر کے ساتھ خواب غفلت سے جاگا اور بڑی دیر میں وہ اس مسئلے کو سمجھا۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کھوکھلے دعوؤں کا سہارا لیکر اپنے اس پسماندگی کی تلافی کرنا چاہتا ہے ۔ یورپی کی تاریخ میں کچھ ملکہ اور شہزادیاں گذری ہیں لیکن کسی ایک خاتون، ایک گھرانے، خاندان یا قبیلے کی عورتوں کا مسئلہ عورتوں کے عام مسئلے سے الگ ہے۔ تفریق ہمیشہ رہی ہے۔ کچھ عورتیں ایسی بھی تھیں جو اعلی مقام تک پہنچیں کسی ملک کی حاکم بن گئیں اور انہیں حکومت وراثت میں مل گئی، لیکن معاشرے کی سطح پر عورتوں کو یہ مقام نہیں ملا اور ادیان الہی کی تعلیمات کے برخلاف کہ جن میں اسلام کی تعلیمات سب سے زیادہ معتبر ہیں عورت ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھی گئی۔ آپ آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ مغرب کی مہذب دنیا، عورتوں کے سلسلے میں اپنی شرمناک پسماندگي کی تلافی کرنے کے در پے ہے اور اس کے لئے ایک نیا طریقہ اختیار کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ عورتوں کے انسانی پہلو کو سیاسی، اقتصادی اور تشہیراتی مسائل کی نذر کر دیتے ہیں۔ یورپ میں روز اول سے ہی یہ صورت حال رہی۔ اسی وقت سے جب خواتین کو ان کے حقوق دینے کے مسئلہ اٹھا، انہیں غلط معیاروں کا انتخاب کیا گیا۔ جب ہم دنیا کے فکری اور نظریاتی نظام پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اسلام کی تعلیمات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ انسانی معاشرہ اسی صورت میں خواتین کے مسئلے میں اور مرد اور عورت کے رابطے کے تعلق سے مطلوبہ منزل تک پہنچ سکتا ہے، جب اسلامی تعلیمات کو من و عن قبول کرے اور بغیر کسی کمی بیشی کے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ دنیا میں عورت کے تعلق سے ہمارا یہ خیال ہے۔ آج کی دنیا پرست تہذیبوں میں عورتوں کے سلسلے میں جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ہم اس سے ہم متفق نہیں ہیں اسے ہم عورتوں کے لئے سودمند اور معاشرے کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ اسلام چاہتا ہے کہ، خواتین، فکری، علمی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر روحانی اور اخلاقی کمال کو پہنچیں۔ ان کا وجود معاشرے اور انسانی برادری کے لئے بھرپور انداز میں ثمر بخش ہو۔حجاب سمیت اسلامی تعلیمات کی بنیاد یہی ہے۔ حجاب، خواتین کو الگ تھلگ کر دینے کے لئے نہیں ہے۔ اگر کوئی حجاب کے سلسلے میں ایسا نظریہ رکھتا ہے تو یہ بالکل غلط اور گمراہ کن نظریہ ہے۔ حجاب در حقیقت معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی جنسی بے راہ روی کو روکنےکے لئے ہے کیونکہ یہ صورت حال دونوں بالخصوص عورتوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔ حجاب کسی بھی طرح سیاسی، سماجی اور علمی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں ڈالتا اس کی زندہ مثال خود آپ لوگ ہیں۔ شائد کچھ لوگ حیرت میں رہے ہوں یا آج بھی حیرت زدہ ہوں کہ کسی بلند علمی مقام پر فائز کوئي خاتون اسلامی تعلیمات بالخصوص حجاب کی پابند ہو۔ یہ بات کچھ لوگوں کے لئے نا قابل یقین تھی اور وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ شاہ کی طاغوتی حکومت کے زمانے میں پردے کا مذاق اڑانے والوں کے ناروا سلوک کا تذکرہ تو چھوڑیں ۔اس زمانے میں یونیورسٹی میں بہت کم خواتین اور لڑکیاں با حجاب تھیں کہ جنہیں تمسخر اور استہزا کا شانہ بنایا جاتا تھا ۔۔۔ ہمارے اسلامی انقلاب کی جد وجہد میں عورتوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور ان غلط نظریات پر خط بطلان کھیچ دیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح خواتین نے انقلاب کے لئے بنیادی کردار ادا کیا اس میں میں کوئي مبالغہ آرائي نہیں کر رہا ہوں ۔ ہم نے انقلاب کے دوران دیکھا کہ ہمارے ملک میں خواتین نے ہراول دستے کی ذمہ داری سنبھالی۔ اگر خواتین نے اس انقلاب کو قبول نہ کیا ہوتا اور اس سے انہیں عقیدت نہ ہوتی تو یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر خواتین نہ ہوتیں تو انقلابیوں کی تعداد خود بخود نصف ہو جاتی دوسری بات یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی کہ ان کے فرزندوں بھائیوں اور شوہروں پر بھی اثر پڑتا گھر کے ماحول پر اثر پڑتا کیوں کہ خواتین گھر میں اپنا خاص انداز رکھتی ہیں۔ خواتین کا بھرپور تعاون تھا جس کے نتیجے میں دشمن کی کمر ٹوٹ گئي اور ہماری تحریک آگے بڑھی۔ سیاسی شعبے میں بھی ہم نے خواتین کو دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں، وہ مسایل کے حل میں خاص صلاحتیوں سے آراستہ ہیں اور اسلامی نظام میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے پر قادر۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہنا چاہئے۔ علمی میدان میں بھی، خواتین کی پیش رفت کا مصداق آپ خود ہیں اسی طرح آپ کی بہنیں ہیں جو دیگر شعبوں میں مشغول ہیں۔ ہمارے معاشرے میں علم کے مختلف موضوعات کی تعلیم جو معاشرے کی تعمیر کے لئے لازمی ہے ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ آج تحصیل علم سماجی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ہی شرعی فریضہ بھی ہے۔ تحصیل علم صرف ذاتی خصوصیت نہیں ہے کہ جس کے سہارے کوئی شخص کسی خاص مقام پر پہنچ جائےاور اسے اچھی آمدنی ہونے لگے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو افراد تحصیل علم پر قادر ہیں ان کے لئے تحصیل علم واجب ہے اسپشلائزیشن واجب ہے۔ بقیہ موضوعات کی مانند میڈیکل سائنس کی تعلیم مردوں کی لئے واجب ہے تو عورتوں کے لئے اس سے بڑھ کر واجب ہے۔ کیوں کہ معاشرے میں خواتین کے مقابلے میں کام کے مواقع محدود ہیں۔ ہمارے پاس خاتون ڈاکٹروں کی کمی ہے اس بنا پر اسلام کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ حل شدہ ہے اور ہمارے معاشرے کے لئے ترقی ضروری ہے۔ آپ اپنا عملی پیغام دنیا کو دیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ خواتین کے پاس دنیا کے لئے پیغام ہے۔ اس پیغام کو منظم شکل دیں اور دنیا کے سامنے پیش کریں۔ پیغام صرف تحریری اور زبانی نہیں ہے، بلکہ عملی پیغام ہے۔ ایرانی خواتین بالخصوص وہ خواتین جنہوں نے اسلام کے تناظر میں اور اسلامی احکامات پر عمل آوری خاص کر حجاب کی پابندی کے ساتھ، مختلف علمی میدانوں میں پیش رفت کی ہے، دنیا کی طالبات کو عملی پیغام دیں کہ علم اور سائنس کا مطلب بے راہ روی نہیں ہے سائنس کا مطلب مرد اورعورت کے درمیان رابطے میں اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان اصولوں پر عمل آوری کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے اور اعلی علمی مدارج پر پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ کا وجود اسلامی کے عالمی پیغام کا مظہر اور مصداق ثابت ہو سکتا ہے۔ میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ دنیا ادیان کا پیغام سننے کے لئے بیتاب ہے۔ آسمانی ادیان میں جو دین و دنیا کو معاشرے کو سنوار دینے کی صلاحیت رکھنے کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام ہے۔ عیسائیت اور دیگر ادیان اس وقت یہ دعوی نہیں کر رہے ہیں لیکن اسلام اس کا دعویدار ہے کہ اس کے پاس ایک آئیڈیل معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں اور ضروری عناصر موجود ہیں وہ ان بنیادوں اور ستونوں کے سہارے ایک مثالی سماجی نظام اور معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تمام شعبوں میں بالخصوص علم و دانش کے شعبے میں اور خواتین کے تعلق سے یہ ثابت کریں کہ اسلام میں اس کی صلاحیت ہے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نمایاں اور ممتاز شخصیت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں ۔وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت کے موقع ہر قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2007-6-6ارادہ الہی اور شرعی ذمہ داریوں میں محوامام کی شخصیت بڑی حد تک ان کے عظیم اہداف اور مقاصد سے وابستہ ہے۔ آپ اپنی بلند ہمتی کےباعث اعلیٰ اہداف کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے ایسے اہداف کا تصور بھی دشوار تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اعلیٰ اہداف ناقابل حصول ہیں۔ لیکن آپ کی بلند ہمتی، ایمان و توکل،جہد مسلسل اور اس عظیم انسان کی ذات میں پوشیدہ بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں کارفرما تھیں اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کی سمت بڑھتے چلے جاتے اور اچانک سب دیکھتے کہ وہ اعلیٰ اہداف حاصل ہوگئے ہیں۔آپ کے کام کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آپ حکم الہی اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں کھو جا یا کرتے تھے ۔ آپ کے سامنے ذمہ داریوں کی ادائگی کے سوا اور کچھ نہی ہوتا تھا۔ آپ حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کے مصداق تھے۔ آپ کا ایمان پہاڑ کی مانند مستحکم تھا اور عمل صالح کی انجام دہی میں آپ کھبی نہ تھکنے والی حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ (نیک) کاموں کی انجام دہی میں آپ انتہائی قوی اور باہمت شخصیت کے مالک تھے جو سبھی کے لئے حیران کن تھی۔وزیر اعظم اور کابینہ سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1988-6-6جامع صفات کی حامل عظیم شخصیتہمارے عظیم اور ہردلعزیز رہبر کبیر کی شخصیت کا در حقیقت انبیائے الہی اور آئمہ معصومین کے بعد کسی بھی اور شخصیت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے لئے عطیہ الہی، حجت خدا اور عظمت الہی کی نشانی تھے۔ جب انسان انہیں دیکتھا تو بزرگان دین کی عظمت کا اندازہ کر لیتا۔ ہم رسول خدا، امیرالمومینین ، سید الشہداء امام جعفرصادق اور دیگر اولیاء علیہھم السلام کی عظمت کا صحیح تصور تک بھی نہی کرسکتے ۔ ہمارے ذہن اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ ان عظیم ہستیوں کی عظمت ذاتی کا احاطہ کر سکیں یا اسے دائرہ تصور میں لاسکیں ۔ لیکن جب کوئی شخص ہمارے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کودیکھتا ہے، قوت ایمانی، عقل سلیم، حکمت و دانا ئی، صبر و بردباری، سچائی و پاکیزگی ، تجملات دنیا سے بے اعتنائی،، زھدو تقویٰ و پرھزگاری، خوف خدا، اور اللہ تعلی کا پر خلوص عبادت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس عظیم انسان اور آسمان ولایت کے خورشید تابناک کے سامنے سر تعظیم خم کر دیتا ہے اور خود کو انکے سامنے ذرے سے بھی کمتر سمجھتا ہے ، انسان کو کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء معصومین کی ذات کس قدر عظیم ہے۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7فاتح فتح الفتوحآ پ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7نماز شب کا گریہامام خمینی (رہ) ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیااور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔وہ ملت ایران کے لئے رہبر ، باپ ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے ، نیمہ شب میں پیش پروردگارگریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور قران کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھےا نہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے ۔ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8بے مثال شخصیتامام( رح) کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ( امام خمینی کا) دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا۔اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8حکیم و دانا اور دور اندیش انسانامام (رح) انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ امام (خمینی رح ) ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے ۔اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8نفس اور خواہشات پر مسلط انسانحقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان ، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے ۔امام ( رہ) مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔افق انسانی کا سورج میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا۔فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8مخلص اور عبادت گزاراصل بات یہ ہے کہ اگر امام خمینی (رہ) کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا امام(رہ) دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے۔تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10خلوص کا پیکرہمارے عظیم رہبرو رہنما اور امام (رہ) خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں۔نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11خلوص اور خدا سے رابطہ کامیابی کا رازمیرے خیال میں انکی ( امام خمینی رہ) کی کامیابی کا سب سے بڑا راز خلوص اور خدا سے رابطہ تھا ۔ آپ ایاک نعبد و ایاک نستعین کے معنی پر عمل کرنےاور خدا کی لازوال طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہونے میں کامیاب رہے۔ جب کوئی ناچیز، کمزور اور محدود ظرفیت رکھنے والا انسان کسی بحر بے کراں سے متصل ہوجائے تو پھر کوئی مشکل اسکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی ۔ کوئی بھی انسان یہ کام کرےگا تو ایسا ہی ہوگا، البتہ ہر انسان کے لیے ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہی ہے لیکن آپ( امام خمینی رہ) نے ایسا کر دکھایا۔ ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش کرنا چاہیے ۔ بزرگ ہستیاں چوٹیوں پر کھڑی ہیں ، ہمیں بھی پہاڑیوں کے دامن سے اوپر چڑھنا چاہیے اور ان کی طرف جانا چاہیے ، اگر ہم چوٹیوں تک نہ بھی پہنچ پائیں تب بھی عمل کرنا ہم سب کا فریضہ اور ذمہ داری ہے۔نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-11امام خمینی کے مشن کی خصوصیاتامام خمینی اپنے مشن کے اہداف گنواتے ہوئے فرماتے تھے عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد ، نہ مشرق نہ مغرب کے نعرے کے ضمن میں پوری قوت کے ساتھ اعتدال کو برقرار رکھنا ، قوموں کی ہمہ گیر اورحقیقی خودمختاری، حقیقی معنوں میں خود کفالت، دینی اصول و شریعت وفقہ اسلامی کے تحفظ پر مسلسل اصرار اور عزم راسخ، اتحاد ویکجہتی کی برقراری، دنیا کی مسلمان اور مظلوم قوموں پر توجہ، اسلام اور مسلمان اقوام کے وقار کی بحالی، عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مرعوب نہ ہونا ، اسلامی معاشروں میں عدل وانصاف کا قیام ، معاشرے کے مستضعف و پسماندہ اورمحروم لوگوں کی بے دریغ حمایت اوران کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش، ہم سب اس بات کے شاہد رہے ہيں کہ امام نے ہمیشہ ان خطوط پر بھرپورطریقے سے عمل کیا ہے اورکسی بھی طرح کے پس وپیش کے بغیر ان خطوط اور مشن کو آگے بڑھایاہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے راستے، اعمال صالح اوران کے کردار و رفتار کی پیروی کریں۔وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت یاتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیان سے اقتباس 1989-6-7امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد نو کی خصوصیتیںامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے عظیم امام کی خصوصیات نے نئے دورکا آغازکردیاہے اورآج جب ہمارے دل اورہماری جانیں امت اسلامیہ کی اس بے مثال ہستی کے فراق میں غمزدہ ہیں تو ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ان عصری خصوصیات کوکہ جن کا آغازامام خمینی نے کیاتھا اورپوری قوم اور دنیا کو جن سے متعارف کرایا پہچانیں اوران کو برقرار رکھیں ۔حقیقی سوگواری یہ ہے کہ ہم فریضوں پرعمل کریں وہ عصر وہ دورجس کاآغازامام خمینی نے کیا اسے جاری رکھیں اس نئے دور کی اپنی خصوصیات اورپہچان ہے ان خصوصیات میں قوم کے اندر خود مختاری و آزادی کے جذبے کی بیداری اور خود اعتمادی و خود کفالت ہیں وہ خصوصیات جنہیں قوموں سے چھین لینے کی منظم سازش کی گئي۔ اس دورکی ایک اورپہچان وخصوصیت امام خمینی جس کے موجد وبانی تھے انسانی اقدارکااحترام اوراس کی جانب رجحان ، عدل وانصاف اورانسانوں کے لئے حریت وآزادی اورلوگوں کےنظریات اوران کی رای کا احترام ہے ۔ یہی عظیم شخصیت جسے پوری دنیاکے لوگ آج احترام سے یاد کرتے ہيں اورجس کی عظمت وبزرگي کے صدق دل سے معترف ہيں کہتی تھی کہ مجھے رہبر کےبجائے خادم کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ یہ بات بڑی سنجیدگی سے فرماتے تھے اوراس میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے تھے وہ اس قدر عوام کااحترام کرتے تھے کہ خود کو ان کا خدمت گزارکہتے تھے ہم اس طرح کی پوری دنیامیں کوئی نظیرومثال نہیں رکھتے اورتاريخ میں اس جیسی شخصیت کی مثال نہيں ملتی ۔فوجی کمانڈروں اورولی فقیہ کے نمائندوں کی طرف سے بیعت وتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1989-6-11امام خمینی کے مشن اور راستے کا تعینامام خمینی کا مشن ان کا راستہ جس پر ایرانی قوم رواں دواں ہے اسلام اورمسلمانوں کی عظمت و سربلندی، محروموں اور مستضعفوں کے کے دفاع کا راستہ ہے جس نے ایرانی قوم کو پوری دنیا میں ایک زندہ اور سرافراز و آزاد قوم میں تبدیل کر دیاہے۔ یہ قوم آج دنیاکی سب سے بیدار اور فعال قوم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے، اب یہ قوم دوسروں پر منحصر اور نہیں رہ گئی ہے۔ یہ وہ خط ہے کہ جس نے اسلام کے تئیں لوگو ں کے دلوں میں عشق و محبت کا جذبہ جگایا ہے اورانھیں اس راستے میں بے مثال فداکاریوں اورقربانیوں کا حوصلہ دیا ہے یہ راستہ، ہماری زندگی ہے یہی ہمارا وجود اورہمارا انقلابی اور قومی تشخص ہے ۔ پرودگار عالم کے فضل وکرم سے ہم اس راستہ ہر پوری پائداری و ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہیں جس کی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری تحریک کے دوران ہمیں تعلیم دی ہے۔ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ اوران کے مشن، ان کے انقلاب ان کی کوششو ں اور ایثار کو اپنی حیثیت اور سکت کے مطابق جاری رکھنے کے لئے آمادہ ہیں ۔ ہمارا لہو اور ہماری زندگي اس راہ پر قربان ہے ۔ ہماری سعادت خوشبختی اسی میں ہے کہ اپنی زندگی اسی راہ میں گذاريں اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔صدرکی تقرری اورتوثیق کی تقریب میں رہبرانقلاب کا خطاب 1989-8-3حقیقی رہنماامام خمینی کے بعد گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران ہم نے ہدایت کا جو راستا طے کیاہے وہ کوئی معمولی اورعام راستہ نہیں ہے اس مشکل ترین راستے کو طے کرنے کے لئے تائيد غیبی اور توفیق الہی ناگزیر ہے۔ ہم عجیب وغریب پیچ وخم سے گذرے ہيں ۔ امام خمینی کی قیادت ورہبری کی برکت کی وجہ سے عجیب وغریب نشیب وفرازکو ہم نے عبورکیاہے اس راستے کو طے کرنے میں تائيد الہی ہمارے شامل حال رہی ہے ،خود امام خمینی کابھی اسپر ایقان و ایمان تھا میں نے خود ان کی زبانی سناتھا۔ وہ فرمایاکرتے تھے کہ میں انقلاب کے آغازسے ہی اس بات کا احساس کررہاہوں کہ ہر مقام پر راہ راست دکھانے اور ہدایت کرنے والا غیبی ہاتھ ہماری مدد کررہاہے اوریہ ہاتھ ہمارے آگے آگے چل رہاہے نتیجتا راستے ہمارے لئے آسان ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ واقعی ایک حقیقت تھی کہ خداوند عالم نے ہماری سعی و کوشش اور خلوص و رغبت کے عوض ہماری مدد فرمائی تھی۔ یہ ہدایت و تائيد الہی غافل انسان کو میسرنہیں ہوتی۔ اسی مناجات شعبانیہ میں ارشادہوتاہے کہ دل کی آنکھ کو منورکرنا اور بیدار دل کے لئے حقائق کو روشن کرنا اور مومن کو چشم بصیرت عطاہونا یہ سب مفت اوربلاسبب انجام نہیں پاتا۔ بغیرجدوجہد اور سعی وکوشش کے خدا سے ارتباط ممکن نہیں ہوپاتا ۔امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد سے ملاقات میں خطاب 1990-3-1امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دس سالہ دورایک انقلابی معاشرے کا نمونہامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کایہ دس سالہ دور ایک انقلابی معاشرے کا بہترین نمونہ ہے ۔ امام خمینی کی حیات مبارک کے آخری دس سال ہمارے انقلابی معاشرے کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے اورانقلاب کا اصلی راستہ وہي ہے جو امام خمینی نے ہمیں دکھایا۔ خام خیالی میں مبتلا ہمارےاندھے دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ امام خمینی کی رحلت کے بعد وہ انقلابی راستہ بھی معاشرے سے رخصت ہو جائے گا جس کے بانی امام خمینی تھے۔ امام خمینی ہمیشہ زندہ رہنےوالی حقیقت کانام ہے ۔ ان کا نام اس انقلاب کاپرچم، اور ان کی راہ اس انقلاب کی راہ ، اور ان کے اہداف اس انقلاب کے اہداف ہيں۔ امام خمینی کی امت اور ان کے شاگرد جو اس ملکوتی وجود کے سرچشمہ سے سیراب ہوئے ہیں اورجنھوں نے اپنا اسلامی عز و شرف اسی ذات سے حاصل کیا ہے اس وقت اس بات کامشاہدہ کررہے ہيں کہ دوسری مسلمان اور غیر مسلم قوميں بھی اس عظيم قائد و رہنما کی انقلابی تعلیم کے نسخے کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں اور انھوں نے اپنی آزادی و سربلندی اسی راہ میں پائی ہے۔ آج اس دور کی اس بے مثال تحریک کی برکت سے پوری دنیاکے مسلمان بیدار ہو چکے ہيں اور ظالمانہ تسلط کے شاہی محل کھنڈرات میں تبدیل ہورہے ہیں۔ قوموں نے قومی تحریک کی اہمیت کو درک کرلیاہے اور انھوں نے شمشیر پر خون کے غلبے کا تجربہ کرلیاہے دنیا والوں کی نظریں ایران کی شجاع قوم پو ٹکی ہوئي ہیں۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پہلی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام کا اقتباس 1990-5-31اسلامی جمھوریہ کی تشکیل کے بنیادی عناصر اسلامی جمھوری نظام کی تشکیل کا ایک بنیادی عنصر اسلام پسندی اور مستحکم اسلامی اور قرآنی بنیادوں پر تکیہ ہے- امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام پرتکیہ کیا اور اسلام کے نام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بات پر ان کا اصرارتھا کہ ملک کے تمام سرکاری محکموں اورسماج کے اندر اسلامی قوانین اوراصولوں کو حقیقی معنای میں نافذ کیا جائے البتہ یہ ایک طویل المیعاد کام تھا۔ امام بھی اس کو جانتے تھے کہ مختصر سے عرصے میں یہ مقصود حاصل نہيں کیا جاسکتا ، امام نے راستہ کھلا رکھا اوراپنی تحریک شروع کردی اور سمت کی بھی نشاندہی فرمادی اور سب یہ سمجھ گئے کہ تمام معنی میں اسلامی تعلیم اور اسلامی احکامات کی جانب ہی رخ کرنا ہے اور معاشرے و نظام کو اسلامی معاشرہ اورنظام بناناہے تاکہ انصاف قائم کیا جاسکے غربت کا خاتمہ ہو بدعنوانیوں کوجڑسے اکھاڑ پھینکا جائے اور قوم کوجو مسائل اور مشکلات در پیش ہیں ان کا ازالہ ہو۔دوسراعنصر جس پر امام خمینی بہت زیادہ توجہ فرماتے تھے وہ عوامی عنصرتھا - امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے عوامی نظام پر یقین رکھتے تھے جو صحیح معنوں میں اسلامی ہو اورجس کا بنیادی عنصر عوام ہوں۔ وہ عوام کو تمام موقعوں اور مرحلوں پر خاص توجہ کا مرکزقراردیتے تھے پہلاموقع نظام کی تشکیل کا تھا اس موقعے پر آپ نے فرمایا کہ نظام ایسا ہونا چاہئے جسے عوام پسند کرتے ہوں اور جس سے وہ راضی ہوں۔ دوسرا مرحلہ عوام کے سلسلے میں حکام کی ذمہ داریوں کا تھا - تیسرا مرحلہ ملک کی ترقی وپیشرفت میں عوام کے افکارونظریات اور تعاون سے استفادے کا تھا یعنی یعنی عوام کی صلاحیتوں کا نکھارا جائے اور پھر اس سے استفادہ کیا جائے۔ اسی طرح عوا م کوہمیشہ تمام امور سے آگاہ اور باخبر رکھا جائے -تیسراعنصر جوامام کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا وہ نظم ونسق کا عنصر تھا یہی وجہ تھی کہ انقلاب کی کا میابی سے قبل ہی امام نے حکومت کا تعین کردیاتھا -چوتھا بنیادی عنصرجسے امام نے اسلامی جمھوری نظام کی بنیاد قراردیا اوربحمد اللہ جس کی وجہ سے یہ نظام باقی ہے وہ دشمن کے مقابلے میں استقامت اورتسلط کوقبول نہ کرناہے۔ امام نے ایک لمحے کے لئے بھی دشمن کے مکروحیلے سے خود کوغافل نہیں رکھا اورنہ حکام کو غافل ہونے دیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقدکے زائرین سے خطاب سے اقتباس 2001-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا بے مثال فنامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ اور ہنر قوم کی مدد سے اپنی تحریک کے ذریعے اس سیاسی نظام کاخاتمہ کرنا تھا جو ایک بے ضمیر اور پٹھو شاہی نظام تھا وہ ایک ایسا نظام تھا جس کے حکام اورعہدیداروں کو نہ تو قوم کے جوانوں کے مستقبل کی کوئي فکر تھی نہ ہی ملک کی خود مختاری سے کوئي دلچسپی۔ رفاہ عامہ کے امور تو ان کے نزدیک درخور اعتنا ہی نہیں تھے۔ ملک کا نظم و نسق ایسا تھا کہ اسے نظم و نسق کا نام دینا مناسب نہیں جبکہ یہ وہ نظم و نسق تھا جس کی تھئوری دوسرے ملکوں سے درآمد کی گئي تھی یہ ایک خالص ڈکٹیٹرشپ اورآمرانہ نظام تھا ۔ ایسا نظام جومختلف عناوین اورگوناگوں روشوں سے کہ جن میں سے کوئی بھی روش عوا م کے عزم وارادے کی آئینہ دارنہ تھی اورکوئی بھی روش ملک کے مفاد میں بھی نہ تھی ،چلایاجارہاتھا ۔ انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا ۔امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگردامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دوسری اہم بات جسے میں آج آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں اورمختصرا عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ اس طرح کی عظيم تحریک عام طورپر رجعت پسندی یا پسپائی جیسے مسائل سے دوچارہوجاتی ہیں۔ اس طرح کے عظيم کارناموں کے سامنے رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔ رجعت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ کوئي شخص اسلام کےاصولوں اورفقہ اسلامی کے تناظر میں معاشرے کی تشکیل کرے لیکن وہ ظواہر پر ہی اکتفا کرلے اور اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی چاشنی اور معنوی کشش سے نا بلد رہے اور اس کا تشکیل کردہ نظام کسی قوم کسی ملک کے مسائل کے حل پر قادر نہ ہو۔ دیکھئے اسلامی تعلیمات کی ہر انسان کو ہر آن ضرورت رہتی ہے اب اگر اسلامی نظام کو تشکیل دینے والا شخص ان اصولوں، احکام اور تعلیمات سے بے خبر ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اگرایک ایسے سیاسی نظام کے سربراہوں کی حالت جواپنے نظام کواسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کے دعوے کرتے ہیں ایسی ہوگي تویقینی طور پر اسلام بدنام ہوجائے گا اور اسلامی احکام و معارف کا لازوال سرچشمہ معاشرے کو سیراب نہیں کر سکے گا ۔ امام نےخود کواس آفت سے مبراکرلیاتھا ۔دوسری آفت وبلا جواس طرح کے مواقع پر حکام اورعہدیداروں کو خطرات سے دوچارکرتی ہے وہ موقف سے پسپائی ہے یہ ایک خطرہ ہے یہ ایک بڑاخطرہ ہے جو صاحبان فکر و نظر کو لاحق رہتا ہے۔ امام خمینی(رہ) اس آفت کے مقابلے میں پہاڑ کی مانند ڈٹے رہے اورکوہسارکی مانند ثابت قدم رہے (کالجبل لاتحرکہ العواصف ) امام اس نظام کی تشکیل اور چھوٹے بڑے تمام امور میں ہمیشہ ثابت قدم رہے۔امام خمینی کی برسی میں شریک زائرین سے رہبرانقلاب اسلامی خطاب 1997-6-4محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کے سپاہی محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کا لشکر ہیں اور یہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کا شاخصانہ تھا۔ دو چیزیں اس انقلاب کا گرانقدر سرمایہ تھیں اورہيں۔ ایک یہ ہے کہ انقلاب کا نصب العین اسلام اور دوسرے انقلاب کے سپاہی اوراس انقلاب کا لشکرمستضعف، ومحروم طبقہ اورجوان نسل ہے ۔ انقلاب کو مستضعف اورغریب طبقے نے کامیابی سے ہمکنارکیاہے اور آٹھ سالہ طویل جنگ کو اس مملکت کے جوانوں نے فتح مبیں میں تبدیل کر دیا اورآج بھی ہمارے جوان اللہ اوراس کے دین کی راہ میں قدم بڑھارہے ۔آج بھی اگر انقلاب کوکوئی خطرہ لاحق ہوگا توسب سے پہلے میدان میں جولوگ اتریں گے وہ ہمارے نوجوان ہوں گے ۔دینی تعلیمی مراکز کے نوجوان یونیورسٹیوں کے نوجوان پورے ملک کے نوجوان اورمختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالے نوجوان اورافراد ہوں گے جواس انقلاب کی حفاظت کے لئے میدان میں قدم رکھیں گے ۔امام خمینی اپنے پورے وجود کےساتھ اسلام کے شیدائی تھے اور آج سب لوگ پورے وجود کےساتھ امام کوچاہتے ہيں۔ امام کی باتیں بہت ہی صاف وشفاف ہیں ان کے کلمات واضح کلمات ہيں ان کے کلمات قرآنی جھلک ہے ۔ امام کے خطابات اوران کی باتیں آج بھی فضا میں گونج رہی ہیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ اپنے امام کے ساتھ امت کا دائمی میثاق ہے۔ سب کوچاہئے کہ ان کی ان باتوں کوصحیح طریقے سے درک کریں اوران میں غور و فکر کریں تاکہ امام کی راہ کو صحیح طور پر پہچان سکیں اوراس میں کوئي غلطی نہ کریں ۔جولوگ امام سے محبت کادم بھرتے ہيں لیکن امام کے افکار ان کی راہ و تعلیمات سے دور ہیں ہو امام خمینی(رہ) کے شیدائي نہیں کہے جا سکتے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نويں برسی میں شریک سوگواروں کے عظیم الشان اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کےخطاب سے اقتباس 1998-6-4سماجی انصاف اورعوام پراعتماد میں چند اہم باتیں جنہیں ہم امام کی راہ و روش سے تعبیرکرتے ہيں یہاں پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ باتیں ہمیشہ امام کے پیش نظر رہتی تھیں، ان میں پہلے مرحلے میں تو اسلام ہے۔ امام اسلام سے بڑھ کرکسی بھی چیزکواہمیت نہيں دیتے تھے ۔ امام کی تحریک اورانقلاب اسی اسلام کی حاکمیت کے لئے ہی تھا اورعوام نے بھی کہ جنھوں نے اس نظام کوقبول کیا انقلاب برپا کیا اورامام کو( رہبر ) تسلیم کیاتھا وہ سب اسلامی جذبے کے تحت تھا - سب سےپہلی چیزجوامام کی نظرمیں اوران کے مشن میں سب سے اہم تھی وہ اسلام کے احکامات پر عمل آوری اورایمان وعمل کے میدان میں اسلام کی حاکمیت تھی ۔دوسری بات عوام پر تکیہ اوراعتماد ہے ۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ۔ کسی کو بھی اسلامی نظام میں عوام ،عوام کی رائے اورعوام کی خواہشات کونظراندازنہیں کرناچاہئے ۔ کچھ لوگ اب عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد قراردیتے ہيں کم ازکم عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد تومانتے ہيں ۔عوام کی رائے کے بغیر،عوام کی مشارکت کے بغیر اورعوامی خواہشات کا احترام کئے بغیر اسلامی نظام کا خیمہ اوراس کا ستون ٹھہرنہیں سکے گا اوراس کی بنیاد مضبوط نہیں ہوسکے گی ۔ البتہ عوام ، مسلمان ہيں اورعوام کا یہ ارادہ اوران کی خواہشات بھی اسلامی احکامات وقوانین کے دائرے میں ہی ہیں۔ امام کے مشن کی تیسری خصوصیت سماجی انصاف کاقیام اورمحروم ومستضعف افراد کی مدد کرناہے کہ امام انہی لوگوں کواس انقلاب کا وارث اوراس ملک کا مالک سمجھتے تھے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ غریب طبقے کواس انقلاب کی کامیابی کا سب سے اہم عنصر سمجھتے تھے - ایک اورعنصر دشمن کوپہچاننا اوردشمن کے فریب میں نہ آناہے دشمن کا پہلاکام یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کرتاہے کہ کوئی بھی دشمن نہيں ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی نظام کاکوئی دشمن نہیں ہے ؟ اس اسلامی نظام نےعالمی لٹیروں کوجوسالہاسال اس ملک کی دولت کولوٹتے رہے اس سنہری موقع سے محروم کردیاہے۔ ظاہرہے کہ وہ دشمن تو ہوں گے ہی ۔ اورہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ ہم سے دشمنی کررہے ہيں ۔ پروپیگنڈوں میں ، اقتصادی پابندیوں میں اورجہاں جہاں بھی ان سے ممکن ہوتاہے ہمارے نظام کے خلاف دشمنی کرتےہيں اوریہ بات وہ کھل کرکہتےبھی ہیں ۔نمازجمعہ کے خطبہ سے اقتباس 1999-6-4تمام اصولوں کا محور اسلام اورعوام ہيں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کے تمام اصول وقواعد کامحور دو چیزیں تھیں ۔ایک اسلام اوردوسرے عوام ۔ عوام پراعتماد کانظریہ بھی امام نے اسلام سے حاصل کیا ۔ یہ اسلام ہے جو قوموں کے حقوق ، ان کی آراء ، اور عوامی جہاد کے اثر اور اس کی اہمیت پر تاکید کرتاہے۔ اسی لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشن کا محوراسلام اورعوام کوقراردیاتھا ۔ یعنی اسلام کی عظمت عوام کی عظمت ، اسلام کااقتدارعوام کااقتدار، اسلام کا ناقابل تسخیررہناعوام کا ناقابل تسخیررہناہے ۔اسلامی جمھوریہ ایران کے بانی کی چوتھی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2003-6-4امام کے سیاسی مکتب فکر کی شناخت میں امام کے سیاسی مکتب فکر پر تکیہ کرناچاہتاہوں ۔امام کا سیاسی مکتب فکر ان کی پرکشش شخصیت سے جدانہیں ہوسکتا ۔امام کی کامیابی کارازاس مکتب فکر میں پنہاں ہے جسے انھوں نے متعارف کرایاہے اورجسے انھوں نےایک نظام کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ البتہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب عوام کے ہاتھوں کامیاب ہوا اورایرانی عوام نے اپنی بے پناہ توانائیوں اورصلاحیتوں کا مظاہرہ کیا لیکن امت امام کے بغیر اوران کے سیاسی مکتب فکر کے بغیر اس عظیم کام کوانجام دینے پر قادرنہیں تھی ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ایک ایسا باب وا کرتا ہے کہ جس کا دائرہ اسلامی نظام کی تشکیل سے بھی کافی وسیع ہے ۔ وہ سیاسی مکتب فکر کہ جسے امام نے پیش کیا اورجس کے لئے جدوجہد کی اس میں دنیاوالوں کے لئے ایک نئی بات ہے اوراس کے ذریعہ انھوں نے دنیاوالوں کے سامنے ایک نئی بات رکھی اور نئي راہوں کی نشاندہی کی۔ اس مکتب فکر میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں کہ انسانیت جسے حاصل کرنے کے لئے بے قرار ہے اسی لئے یہ باتیں کبھی بھی پرانی نہيں ہوں گی ۔ جو لوگ کوشش کررہے ہيں کہ امام کوایک ایسی شخصیت کے طور پرپیش کریں جوتاریخ کاحصہ بن چکی ہو اورجو ماضي کی بات بن چکی ہے وہ اپنی اس کوشش میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے ۔امام اپنے سیاسی مکتب فکر کی شکل میں زندہ ہيں اورجب تک یہ سیاسی مکتب فکر زندہ ہے اس وقت تک امام کا وجود، امت اسلامیہ کے درمیان بلکہ بشریت کے درمیان باعث برکت اورجاوداں رہے گا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا سیاسی مکتب فکر بہت سی غیرمعمولی خصوصیات کا حامل ہے ۔میں یہاں پر ان میں سے چند کی جانب اشارہ کرناچاہوں گا ۔ان میں سے ایک خصوصیات یہ ہے کہ امام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت اورسیاست باہم آمیختہ ہيں اورامام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت سیاست سے جدانہیں ہے ، سیاست وعرفان سیاست واخلاق ۔ امام جواپنے سیاسی مکتب فکر کے مجسم نمونہ تھے ان کے اندرسیاست اورمعنویت ایک ساتھ جمع تھی امام کے تمام اعمال وافعال اوران کے تمام اصول خدا اور معنویت کے محورکے گرد گھومتے تھے ۔امام کے اندرسیاست اورمعنویت باہم تھی اور آپ اسی پرعمل کرتے تھے حتی اپنی سیاسی جدوجہد میں بھی وہ اپنامحورمعنویت کوہی قراردیتے تھے ۔ امام کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے دنیا کی احسن تقویم کے معیار پر تخلیق فرمائی ہے اور وہ اس دنیا کو چلانے والا اور اس کا مالک ہے ۔ آپ کا کہنا تھا کہ جو اللہ کی شریعت کی ترویج کے راستے میں قدم بڑھاتاہے الہی سنت اورقوانین الہی اس کی مددکرتے ہيں ۔امام کا یہ یقین تھا کہ (وللہ جنودالسماوات والارض وکان اللہ عزیزاحکیما) امام قوانین شریعت کوہی اپنے اقدام وتحریک کی بنیاد سمجھتے تھے اورقوانین الہی کوہی اپنی تحریک کی علامت سمجھتے تھے ۔امام کا ہر اقدام اور تحریک ملک وقوم کی فلاح وسعادت کے لئے تھے جو اسلامی اورشرعی تعلیمات کی بنیادپرشروع کئے گئے۔ اسی لئے الہی فریضہ ہی امام کی نظرمیں سعادت وبھلائی کی کنجی تھی۔ یہی چیزامام کوبڑے بڑے اہداف تک پہنچانے میں مدد دیتی تھی ۔دوسری خصوصیات عوام کے کردارپر پختہ اورسچایقین ۔ اوراسی طرح انسان کی شرافت اورانسان کے ارادے کے فیصلہ کن ہونے کے بارے میں یقین بھی امام کے مکتب فکر کی ایک اہم خصوصیات ہیں۔ امام کے سیاسی مکتب فکر میں انسانی تشخص گرانقدرہے اور انسان عزت و اکرام کے لائق ہے اوراسی طرح انسانی تشخص طاقتوربھی ہے اورکارسازبھی۔ انسانی تشخص کوگرانقدراورباشرف سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی معاشرے کا نظم ونسق چلانے میں عوام کی آراء بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہیں ۔ ہمارے عظیم امام کے سیاسی مکتب فکر میں عوام کی رائے کا احترام یا جمھوریت، اسلامی تعلیمات سے اخذ کی گئی تھی اوریہی حقیقی جمھوریت ہے ، امریکی یا وہ جمھوریت نہيں ہے جس میں عوام کونعروں کے ذریعے محض فریب دیاجاتاہے اورلوگوں کےذہنوں کواغواکیاجاتاہے ۔امام کے سیاسی مکتب فکر کی تیسری خصوصیت ، اس مکتب فکر کا عالمی اوربین الاقوامی زاویہ نگاہ ہے۔ امام کےکلام میں مخاطب انسانیت ہے نہ فقط ملت ایران ۔ ایران کی قوم نے امام کے اس پیغام کودل کی گہرائیوں سے سنا، قبول کیا اوراس پرعمل کیا اس کے لئے جدوجہدکی اور وہ اسی کے سایہ میں عزت وخودمختاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ پیام تمام بشریت کے لئے ہے ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ، پوری امت اسلامیہ اورپوری انسانیت کے لئے فلاح و بہبود اور عزت و خود مختاری کا ضامن ہے، یہ ایک مسلمان انسان کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے اور ساتھ ہی اس کے کاندھے پر بڑی ذمہ داری بھی ، البتہ امام میں اوران لوگوں میں جواپنے آپ ہی اپنے لئے عالمی ذمہ داری کے قائل ہیں یہ فرق ہے کہ امام کا سیاسی مکتب توپ ٹینک اسلحہ اورشکنجہ کے ذریعہ کسی قوم کواپنا پیرونہیں بناناچاہتا ۔ امریکی کہتےہيں کہ ہماری ذمہ داری عالمی سطح کی ہے اور ہم دنیامیں جمھوریت اورانسانی حقوق کا قیام و فروغ چاہتے ۔ کیا ڈیموکریسی کو پھیلانے کا طریقہ یہی ہے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم گرایاجائے؟ اسی طرح لاطینی امریکہ اورافریقہ میں حکومتوں کے خلاف بغاوت اورجنگ کی آگ بھڑکائی جائے؟ آج بھی مشرق وسطی میں فریب کاری، سازش اور ظلم و ستم کابازارگرم ہے۔ وہ اس طرح سے انسانی حقوق اوراپنی عالمی ذمہ داری کوپوراکرناچاہتے ہيں ۔جبکہ اسلام کاسیاسی مکتب فکر ذہن انسانی کو اعلی افکار و نظریات سے معمور اور نسیم بہاری کی مانند فضا کو معطر کر دیتا ہے۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی مکتب فکر کی ایک اوراہم خصوصیت، اقدار کی پاسداری و حفاظت ہے کہ جسے امام نے ولایت فقیہ کے مسائل بیان کرتے وقت واضح کردیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے آغاز اور اسلامی انقلاب کی کامیابی واسلامی نظام کی تشکیل کے بعد سے ہی بہت زیادہ کوشش ہوئی کہ ولایت فقیہ کے مسئلہ کو گمراہ کن انداز میں اورحقیقت کے برخلاف پیش کیا جائے۔ اسلام کے سیاسی نظام سے مختلف اور امام کے سیاسی نظريئے کے بالکل منافی مطالبات اور توقعات جو آپ دشمن سے مرعوب عناصر کی زبانی سنتے ہیں یہ کوئی نئي بات نہیں ہے شروع سے ہی یہ لوگ دوسروں کے کہنےمیں آکر اس طرح کی باتیں کرتے آئے ہیں ۔امام کے سیاسی مکتب فکر کی پہچان کے عنوان سے آخری بات جو میں یہاں بیان کرناچاہتاہوں وہ سماجی انصاف ہے۔ سماجی انصاف امام کے سیاسی مکتب فکر کا ایک بہت ہی اہم عنصر اورخصوصیت ہے ۔ حکومت کے تمام پروگراموں، قانون سازی اوراس پر عمل درامد، عدالتی امورغرضیکہ ہرجگہ آپ نے سماجی انصاف و مساوات کومد نظر رکھا اورآپ اس سلسلے میں سماجی اورطبقاتی شگاف کوپر کرنے پر بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ امام کے سیاسی مکتب فکر کا یہ خاصہ تھا .امام خمینی (رہ) کی رحلت کی پندرہويں برسی پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2004-6-4ایرانی عوام کی فلاح وسعادت کی راہ ہماری راہ ہے جیسا کہ اس عظیم مردمجاہد نے ہمیں بتایاہے یہ راستہ استقامت اوراسلامی نظام کے اہداف کے حصول کاراستہ ہے ۔ امام کے دروس اور ان کی وصیت کے مطابق قوم کاراستہ یہی ہے ۔ پورے ایران میں ہمارے بھائي بہنیں توجہ دیں کہ ایرانی عوام کی سعادت کی راہ اسلامی و الہی احکام سے تمسک ہے۔ ایرانی قوم کی سعادت کا راستہ اپنے صلاحیتوں پر بھروسہ اوراپنی توانائیوں اوراستعداد پریقین ہے قوم کی فلاح کاراستہ عالمی تسلط پسندطاقتوں سے قطع امید کا راستہ ہے اورساتھ ہی ان سے بے خوفی کا درس دیتا ہے ۔ نہ تو ان سے ذرہ برابر خوف کھائيے اورنہ ہی ان سے ذرہ برابرامید رکھئے ۔ عزیزان گرامی ، اس اسلامی انقلاب نے جو سب سے بڑا ہدیہ قوم کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے بد عنوان پٹھو حکومتوں کے شر سے ملک و قوم کو نجات دلائی جو برسہا برس تک ظلم و ستم کے نشانے پر تھے اور اپنے قدرتی ذخائر کو غیروں کو ہاتھوں لٹتا دیکھ رہے تھے۔ آج خداوندعالم کے فضل وکرم سے ملک ( کا انتظام ) چلانے والے خود اسی ملک کے لوگ ہيں آج ہماری قوم کی ہمت و شجاعت اور فہم و فراست سے ملک میں عوام کی منتخب کردہ حکومت بہترین شکل میں ملک کا نظم نسق چلا رہی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پانچویں برسی ميں رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1994-6-4ایرانی عوام کے کارناموں کے عظیم ثمرات اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ عزت وشرف کی راہ کو جاری رکھے تو کامیابی اس کا مقدر ہوگی جیسا کہ بحمداللہ ان چند برسوں میں اسلامی جمھوری نظام کے پرتو میں خدمت گزار حکام کی کوششوں سے مختلف میدانوں میں پیش رفت ہو رہی ہے اورترقی وپیشرفت کےثمرات دیکھے جارہے ہيں ۔ اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ یہ ترقی وپیشرفت اسی طرح سے جاری رہے اور قوم رفاہ وآسائش میں زندگی گزارے اورکسی بلند مقام پر پہنچے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمنوں اور استکباری طاقتوں کے مقابلے میں استقامت اور پائمردی دکھاتی رہے۔ ایرانی عوام نے گزشتہ چند برسوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ہيں اوراس کے ثمرات بھی حاصل کئے ہيں اسی لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان ثمرات کاتحفظ کرے۔ ایرانی قوم اوربالخصوص حکام کوچاہئے اوران کی ذمہ داری ہے کہ اپنی تدبیر، دانشمندی، اور فہم و فراست سے ایرانی عوام کے ان گرانقدرثمرات کو ضائع ہونے سے بچائے خواہ وہ کامیابیاں جو براہ راست انقلاب کے ذریعہ قوم کو ملی ہیں، جیسے عوامی حکومت، عوامی صدر، عوامی نمائندے وغیرہ یا وہ ثمرات جوانقلاب سے متعلق ہيں مگربالواسطہ طورپراس قوم کو دئے گئے ہيں جیسے ملک کی تعمیر و ترقی کہ یہ سب انقلاب کی برکت کانتیجہ ہے اورانقلابی عناصر نے ان کارناموں کو انجام دیا ہے اور جو سارے بنیادی کام مختلف شعبوں اورمیدانوں میں انجام پائے ہيں اس طرح کے ثمرات کو ایرانی عوام اورحکام کو چاہئے کہ محفوظ رکھیں اور دل وجان سے ان کی حفاظت کریں، یہ بات ظاہر ہے کہ ان ثمرات کی حفاظت اور مزید ثمرات اورکامیابیوں کے حصول کاراستہ یہ ہے کہ ملت ایران اور ایران کے حکام اس راہ کو جس کی نشاندہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عمل کے ذریعہ کی ہے یعنی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت اورپائمردی کا راستہ اور ملک کے باہر جو لوگ دریدہ دہنی کررہے ہيں ان کی دریدہ دہنی کے مقابلے میں ثابت قدمی کا راستہ، اس سے کبھی بھی منحرف نہ ہوں۔ یہ جو بار بار کہا جا رہا ہے کہ (امام کی راہ) سےکیامراد ہے ؟ اگرہم کہیں کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب ہے تو یہ ایک کلی بات ہے یہ بات تو ا ظہرمن الشمس ہے کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب کا ہے اورکوئی بھی شخص اسلام وانقلاب کامخالف نہیں ہے ۔وہ عامل جو امام بزرگوار کے مقصود کو جو انقلاب کے معمار اور بانی ہيں صحیح طور پر پیش کرتا ہے استقامت ہے جسے انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا تھا اورجس کا انھوں نے مظاہرہ کیاتھا وہ دشمن کے مقابلے میں سرموبھی پیچھے نہيں ہٹے، دشمن سے ذرابھی نہيں ڈرے اور دشمنوں کی دھمکیاں ان کے ارادوں میں معمولی سا بھی خلل ایجاد نہ کرسکیں ۔امام خمینی (رہ) کے مرقد مطہرپر زائرین کے اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1996-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر اور انقلاب کے ثمرات و برکات آپ وہ روح اللہ تھے کہ جنھوں نے موسوی عصا اور یدبیضاء اورمصطفوی بیان وفرقان سے مظلوموں کی نجات کی راہ ہموار کی، انھوں نے وقت کے فرعونوں کے تخت وتاج کولرزہ براندام کردیا اورکمزوروں کے دلوں کو نورامید سے روشن ومنور فرمایا، انھوں نے لوگوں کو وقار اور مومنوں کو عز و شرف عطا کیا اور مسلمانوں کو قوت و شوکت اور مادی وبے روح دنیا کو روحانیت و معنویت عطا کی اور عالم اسلام کو بیداری اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو شجاعت ودلیری اور درس شہادت دیا۔ انھوں نے طاغوتی بتوں کو پاش پاش کردیا اور شرک آلود اعتقادات کو کاری ضرب لگائي، آپ نے پوری دنیا کو یہ سمجھا دیا کہ انسان کامل ہونا حضرت علی کے نقش قدم پر چلنا اور عصمت کی سرحدوں کے قریب تک پہنچ جانا کوئی افسانہ نہیں ہے۔ انھوں نے قوموں کو بھی یہ باور کرا دیا کہ خود اعتمادی کے ساتھ تسلط پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ممکن ہے ۔ قرب حق کی چمک صاحبان بصیرت نے ان کے چہرہ منور پر دیکھی ہے اور ان کی حیات و ممات کے دوران ان پر نازل ہونے والی الہی نعمات و برکات سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں آپ کہتے تھے ( الہی لم یزل برّک علیّ ایام حیاتی ، فلاتقطع برّک عنی فی مماتی ) ۔امام خمینی کے چہلم کی مناسبت سے عوام کے نام پیغام2007-7-14 امام خمینی (رہ) کے دس عظیم کارنامے امام خمینی (رہ) کاپہلاعظیم کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلام کو حیات نو عطا کی۔ گزشتہ دوسو برسوں سے سامراجی مشینریوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کوفراموش کردیاجائے۔ برطانیہ کے ایک وزیر اعظم نے دنیاکے سامراجی سیاستدانوں کے اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ اسلام کو اسلامی ملکوں میں گوشہ نشین کردیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد اس کام کے لئے بےپناہ پیسے خرچ کئے گئے تاکہ اسلام پہلے مرحلے میں لوگوں کی زندگی سے ختم ہوجائے اوردوسرے مرحلے میں لوگوں کے دل و دماغ و ذہن سے نکل جائے کیونکہ سامراجی طاقتوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ دین بڑی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے امام نے اسلام کودوبارہ زندہ کیا اسلام کوانھوں نے لوگوں کے ذہنوں اورعمل میں اوراسی طرح دنیاکے سیاسی میدان میں اتارا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کے وقار کو بحال کرنا تھا امام خمینی کی تحریک کے نتیجے میں پوری دنیاکے مسلمانوں نے عزت وسربلندی کااحساس کیا اور اسلام محدود بحثوں سے نکل کر باقاعدہ سماجی اور سیاسی میدان میں وارد ہوا۔ ایک بڑے ملک کے ایک مسلمان شخص نے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مجھ سے کہاکہ اسلامی انقلاب سے پہلے میں خود کو کبھی بھی دوسروں کے سامنے مسلمان ظاہر نہيں کرتا تھا ۔ اس ملک کے رسم و رواج کے مطابق سبھی لوگ وہاں کے مقامی نام رکھتے ۔ اگرچہ گھرکے اندرمسلمان اپنے بچوں کے نام اسلامی رکھتے لیکن گھرکے باہر وہاں کا مقامی نام پکاراجاتا اور اسلامی نام کوگھرکے باہرظاہرکرنے کی جرات نہ ہوتی تھی اوراس کو بتانے سے گریز کیا جاتا تھا ہم خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے احساس شرمندگی کرتے ، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے یہاں کے لوگ بڑے فخر کے ساتھ اپنا اسلامی نام ظاہر کرتے ہيں اور اگر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کون ہیں تو فخر کے ساتھ پہلے اسلامی نام بتاتے ہیں۔ بنابريں امام نے جوبڑاکارنامہ انجام دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت کا احساس ہونے لگا اوروہ اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی کی پیروی کرنے پر فخر کرنے لگے۔امام خمینی کاتیسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے مسلمانوں میں امت واحدہ کے جز ہونے کا احساس دلایا۔ اس سے قبل مسلمان جہاں بھی تھا اس کے لئے امت اسلامیہ کی کوئي اہمیت نہیں تھی آج تمام مسلمان پورے ایشیاء میں پورے افریقہ میں ، مشرق وسطی سے لے کریورپ تک اوریورپ سے لے کرامریکہ ولاطینی امریکہ تک اس بات کا احساس کررہے ہيں کہ وہ امت اسلامیہ کے نام کے ایک بڑے عالمی معاشرے کا حصہ ہيں ۔ امام خمینی نے امت اسلامیہ کےتئیں شعور کا احساس جگایا جو عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے دفاع کے لئے سب سے بڑا وسیلہ ہے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا چوتھا بڑاکارنامہ ، علاقے اوردنیاکی ایک بد عنوان ترین حکومت کاخاتمہ تھا یعنی ایران میں شاہی حکومت کاخاتمہ۔ شاہی حکومت کا خاتمہ ان چند بڑے کاموں میں سے ایک ہے جو بالکل سامنے ہیں۔ ایران علاقے اورمشرق وسطی میں استکبار کا سب سے بڑا اورمضبوط قلعہ بن چکا تھا یہ مضبوط قلعہ ہمارے امام کے دست توانا سے ڈھہ گیا ۔امام خمینی(رہ )کاپانچواں بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت قائم کی یہ وہ چیز ہے جو غیر مسلم تو غیرمسلم مسلمانوں کے ذہن میں بھی نہيں سماتی تھی اوریہ ایک خوش نماخواب تھا جس کی تعبیر کے بارے میں سادہ لوح مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ امام نے معجزاتی طورپر اس افسانہ کوحقیقت کا لبادہ پہنایا ۔امام کاچھٹا اہم کام، پوری دنیا میں اسلامی تحریک کا قیام تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل بہت سے ملکوں منجملہ اسلامی ملکوں میں مختلف گروہ، جوان، ناراض عناصر، حریت پسند اور ديگر گروہ بائيں محاذ کی آئیڈیالوجی کے سہارے میدان عمل میں اترتے تھے، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تحریکوں اورحریت پسندانہ قیام کی بنیاد اسلام بن گیا آج عالم اسلام کے وسیع وعريض علاقے میں جہاں کہیں بھی کوئی گروہ حریت پسند تحریک چلاتا ہے اور استکبار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کا مبنا اسلام ہی ہوتا ہے اور وہ اسلامی اصولوں کوہی اپنے کام کی بنیاد بناتا ہے اور اس کی فکر اسلامی فکر ہوتی ہے ۔امام کاساتواں اہم کام، فقہ شیعہ ميں ایک جدید سوچ کو رائج کرنا اور شیعہ فقہ میں نیا نظریہ پیش کرنا تھا۔ ہماری فقہ کی بنیاد بہت ہی محکم تھی اورآج بھی ہے فقہ شیعہ ایک محکم ترین فقہ اوربہت ہی مستحکم اصول وقواعد پر استوارہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مستحکم فقہ کو مزید وسیع دائرے ميں اورایک نئے اندازمیں جو آفاقی اورحکومتی ہے پیش کیا اورفقہ کے متعدد پہلوؤں کوہمارے سامنے واضح و عیاں کیا جو اس سے پہلے عیاں نہیں تھے ۔امام کا آٹھواں اہم کام ایسےغلط عقائد کو باطل قرار دینا جو انفرادی امور میں رائج تھے ۔ دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ جو لوگ سماج کے اعلی منصب پر فائز ہوتے ہيں ان کا مخصوص طور طریقہ ہوتاہے۔ کچھ غرور وتکبر بھی ہوتا ہے عیش و عشرت کی زندگي ہوتی ہے اور اسی طرح ان کا اپناخاص ٹھاٹھ باٹ ہوتاہے اور ان کا اپنا خاص انداز ہوتا ہے۔ اس دورمیں اعلی حکام کے لئے پروٹوکول ہوتاہے اور وہ اپنے لئے اس کو اپنی سرکاری زندگی کا لازمہ سمجھتے ہیں اوریہ سب ایسی باتیں ہیں جن کو دنیا نے آج تسلیم بھی کر لیا ہے کہ جو لوگ اعلی منصب پر فائز ہيں ان کا گویا یہ سب حق ہوتا ہے حتی ان ملکوں میں جہاں انقلاب آیا ہے وہاں کے انقلابی رہنما بھی جو کل تک خیموں اور قناتوں میں زندگی گزارتے تھے اور قید خانوں اورمخفی گاہوں میں روپوش رہتے تھے وہ جیسے ہی حکومت میں آتے ہيں ان کا رہن سہن تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کے حکومتی انداز بدل جاتے ہیں اوروہی سب کچھ انداز ان کا بھی ہو جاتا ہے جو ان سے پہلے کے حکمرانوں کا تھا اور جس طرح سے دنیا کے دیگر سلاطین اور بادشاہوں کا ہوا کرتا ہے۔ ہم نے تو قریب سے یہ ساری چیزیں دیکھي ہيں ہمارے عوام کے لئے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور تعجب کی بات بھی نہيں ہے ۔ امام نے اس طرح کے نظریات وعقائد کوغلط قرار دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ کسی قوم اور مسلمانوں کے محبوب قائد زاہدانہ زندگی کے مالک ہو سکتے ہيں اور سادہ زندگی گزار سکتے ہيں عالیشان محلوں کےبجائے ایک امام بارگاہ میں اپنے ملنے والوں سے ملاقات کرسکتے ہيں انبیاء کی زبان و اخلاق و لباس میں لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ اگر حکام اور حکومتی عہدیداروں کے دل نور معرفت وحقیقت سے روشن ہوتے ہيں تو ظاہری چمک دمک، ٹھاٹ باٹ ، اسراف، عیش وعشرت کی زندگی، خودنمائی، تکبر و غرور ، اکڑ اور اس جیسی ديگرتمام باتیں ان کی زمام داری کا جزء نہيں سمجھی جائيں گي ۔ امام خمینی کےمعجزات میں سے ایک یہ تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگي میں بھی اور جب آپ ملک اورقوم کے اعلی ترین رہبر تھے اس وقت بھی نور معرفت وحقیقت ان کے پورے وجود میں جلوہ نما تھا ۔امام کا نواں اہم کام ملت ایران کے اندر خود اعتمادی اور عزت نفس کا احیا تھا ۔ برادران گرامی ، فرد واحد کی مطلق العنان اور استبدادی حکومتوں نے سالہا سال ہماری قوم کو ایک کمزور قوم میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا وہ بھی ایک ایسی قوم جس کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور صدر اسلام کے بعد سے پوری تاریخ میں اس کا شاندار علمی اورسیاسی ماضی تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے کافی عرصے تک جن میں کبھی انگریزوں تو کبھی روسیوں نے اور اسی طرح یورپی حکومتوں نے اور پھر اس کے بعد امریکیوں نے ہماری قوم کی تحقیر کی ہمااری قوم کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکھتی۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کچھ بھی کرنے کی توانائی نہیں رکھتی ، کچھ نیاکرنے اورخلاقیت کے لئے اس کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ دوسرے ہی آئیں اور ان کے لئے کام کریں ان پرحکومت کریں ان سے سخت لہجے میں باتیں کریں اور اس طرح ہماری قوم سے ان کا قومی وقار چھین لیا گيا تھا اور اس کی عزت نفس کا خون کر دیا گياتھا لیکن ہمارے امام نے ایران کے عوام میں قومی افتخار اور عزت نفس کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ ہماری قوم کے اندر فرقہ پرستی اور غرور تکبر نہیں ہے لیکن اس کے اندر عزت و طاقت کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ۔ آج ہماری قوم مشرق و مغرب کی مشترکہ سازشوں اور اپنے خلاف کسی بھی طرح کی دھونس و دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتی اور کمزوری کا احساس نہیں کرتی۔ ہمارے جوان اس بات کا احساس کررہے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اب اپنی اس طاقت و توانائی کا احساس ہے کہ وہ مغرب و مشرق کی دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں،عزت نفس کا یہ احساس اور یہ خود اعتمادی وحقیقی قومی افتخار امام خمینی نے قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہے۔ امام خمینی کادسواں بڑاکارنامہ، اس بات کوثابت کرناتھا مشرق اور مغرب کے بلاکوں سے فاصلہ بر قرار رکھنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔ دنیا والے یہ سمجھ رہے تھے کہ یا تو مشرقی بلا ک سے وابستہ ہونا پڑےگا یاپھر مغربی بلاک سے شامل ہونا پڑے گا۔ یا تو اس طاقت کی روٹی کھانی پڑے گی یاپھر ان کی چاپلوسی اورتعریف کرنی پڑے گی یاپھر اس طاقت کا گن گانا پڑے گا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا پڑے گی ۔ لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کوئی قوم کیسے مشرق سے بھی خود کو الگ رکھے اور مغرب سے بھی خود کوالگ رکھے اور دونوں سے بیزاری کا اظہار کرے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی بھی رہ جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی بلاک سے وابستہ نہ ہو اور کسی کے بھی پرچم تلے نہ جائے اور اس دنیامیں اپنانام روشن کرے ؟ مگرامام خمینی نے اس کارنامہ کر دکھایا اور اس نکتہ کو ثابت کر دیا کہ مشرق و مغرب کی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔نمازجمعہ کےخطبہ سے اقتباس 2007-7-14بسیجی (رضاکار) ہونا ایک افتخارامام خمینی بسیجی ہونے پرفخرکرتےتھے، جی ہاں امام (رہ) بسیجی ہونے پرفخرکرتے تھے رہبر کبیر انقلاب اسلامی خود کو بسیجی کہتے اور سمجھتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ انھوں نےپوری دنیا کو عالمی استکباری طاقتوں اور ظالموں کے مقابلے میں لا کھڑا کیاتھا اور لوگوں بسیجی یا رضاکاربننے کا شوق پیدا کر دیا تھا۔ یعنی سبھی رضاکارانہ طورپر اس فکرکے حامل ہورہے تھے کہ عالمی استکبار اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں۔ امام خمینی نے اپنے اس اقدام سے جابر طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور قوموں کے دلوں میں نور امید کو جو تمام کامیابیوں کی کنجی ہے روشن و منور کر دیا تھا۔ بلا شبہ تمام تر استکباری مشینریاں مل کر اس آبشار کو روک نہیں سکتی جو آپ نے جاری کر دیا اگرچہ وہ پوری قوت وقساوت کے ساتھ امام کے عظیم جہاد کے ثمرات کوختم کرنے میں لگی ہوئی ہيں ۔رضاکارفورس بسیج کے کمانڈروں کے اجلاس سے رہبرانقلاب کے خطاب کا اقتباس 2007-11-23 انقلاب کی صورت میں امام خمینی کی حیات ابدی جی ہاں ہمارے عظیم قائد امام خمینی (رہ) اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان نہيں ہیں جس طرح سے ہمارے شہداء ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن امام بھی اورشہداء بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں اورہماری زندگي وہمارے انقلاب میں زندہ و پایندہ ہیں اور سرگرم و فعال ہيں۔ اس عظیم انسان اور ان کےشہید ساتھیوں کے وجود کااثرفقط ان کے زمانۂ حیات سےہی مختص نہیں تھا اور آپ کے وجود کااثر صرف ایران تک ہی محدود نہيں تھا ۔ آج ان کے وجود اور ان کی مبارک عمر اور اسی طرح سے ان کے شہید ساتھیوں کے وجود مبارک کی بدولت اسلام روز بروز تابندہ و درخشاں ہوتا جا رہا ہے اور تحریفوں، جہالتوں ، اورفتنوں کاابرغلیظ ہر روز چھٹتاچلاجارہاہے۔ جوانقلاب امام خمینی نے برپا کیا اورشہیدوں نے اپنے خون سے جسے لالہ زار بنا دیا اور اسے بوئے گل عطا کی اس وقت پوری دنیامیں مظلوم قوموں کی بیداری، مسلم معاشروں کی حیات نو، معنویت کی بنیادوں کو استحکام بخشنے ، اور دنیا پرستی کاشیرازہ بکھیرنے الغرض حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی میں اس نے خود کوپوری دنیا سے منوایا ہے ۔ انسان کے بام معنویت پر عروج کا پرچم جو آج دنیا کے گوشہ و کنار میں بلند ہے در اصل وہ ہمارے امام اور ان کے شہید ساتھیوں کا پرچم ہے وہ لوگ زندہ ہيں اورہر روز پہلے سے بھی موثر انداز میں اپنے معنی وجود اور زندگی کو پیش کر رہے ہیں ۔شہداء جانبازوں اور عراق میں قید غازیان اسلام کوخراج عقیدت پیش کرنے کےلئے رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام سے اقتباس2008-2-8امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا منفرد فنامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ خود اعتمادی کے معمار انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں ۔وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3 امام خمینی حالات کے ماہر نباض تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ امام خمینی (رہ) کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں ۔وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10نمازجمعہ کاقیام امام خمینی (رہ) کا دوراندیشانہ اقدام آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے ۔ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کی قوت وعزت آج چند باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جنھيں میں یہاں پر عرض کرناچاہتاہوں اوراس کے بعد ایک نتیجہ اخذ کروں گا جوملت ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اہم ہے ۔پہلی حقیقت جس کاکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا اور ہر منصف انسان جس کا معترف ہے یہ ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی ۔ دشمنان اسلام، اسلام کو کمزورکرنا چاہتے تھے ان کی یہ کوشش تھی کہ اسلام کومیدان عمل سے بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں سے دور کر دیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمن اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہيں ۔ اس گندی سیاست میں استکباری طاقتوں سے وابستہ فاسد حکومتوں نے بھی دشمنان اسلام کا ساتھ دیا ہے اوران سے تعاون کیا ہے ۔ امام نے اپنے اس انقلاب سے مسلمانوں کوجوش وولولہ عطاکیا انھیں ہمت وجرات دی اوراسلام کوزندہ کیا۔ آج بہت سے ملکوں میں اسلام، نوجوانوں کی آرزو اور مطمح نظر میں تبدیل ہوچکاہے اوربہت سےروشن فکر افراد اسلام کوگلے لگانےکے لئے بے تاب نظر آ رہے ہيں۔ اس کی ایک مثال فلسطین ہے، برسوں فلسطین کے موضوع پرباتیں ہوتی رہیں اور جدوجہد ہوتی رہی لیکن کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ مگرآج ملت فلسطین ، اسلام کےنام پر جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی طرف سے اسلام کےنام پر جد و جہد کی جا رہی ہے اسی لئے اب یہ جدوجہد تنظیموں، گروہوں، شخصیتوں اورحکام کے دائرے سے نکل کرعوام تک پہنچ چکی ہے اور اس طرح کا جہاد اورجدوجہد کبھی بھی ناکام نہیں ہوگی۔ عوامی جدوجہد اگر جاری رہتی ہے تو بلاشبہ اسے ایک دن ہرحال میں کامیابی نصیب ہوگی یہ اس اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے جسے امام نے دوبارہ زندہ کیا اور جسے آپ نے مسلمانوں کے قلوب میں سنوارا۔ آج شمالی افریقہ کے اسلامی ملکوں میں کچھ گروہ اسلام کے نام پر اورایک اسلامی حکومت کے قیام کے مقصدسے جدوجہدکررہے ہيں ،اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں آگے بھی بڑھے ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے قبل کس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی ؟ مشرق سے لے کرمغرب تک آج مسلمان بیدار ہو چکے ہيں۔ یورپی اورغیریورپی ملکوں میں جہاں کفر و الحاد کی حکومتیں ہیں مسلمان اپنی اہمیت کا احساس کررہے ہيں مسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص اور شناخت پیدا ہو چکی ہے یہ سب کچھ امام اور ان کی اسی عظيم تحریک کی برکت ہے ۔دور اندیشی، صبر و استقامت امام خمینی (رہ) اور قوم کی کامیابی کا رازدوسری حقیقت یہ ہے کہ جس چیز نے ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ہماری بہادر قوم کو اس عظيم تحریک میں کامیابی سے ہمکنار کیا وہ دوراندیشی و صبر و استقامت تھی۔ ایک ایسی استقامت جس میں بصیرت بھی ساتھ تھی جیسا کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا ۔ علم کی سنگینی کو صرف صاحبان بصیرت و استقامت ہی اٹھاسکتے ہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ آج مقابلہ خالص کفر اور خالص نفاق سے نہیں ہے کہ افکار و نظریات واضح ہوں اور ایک دوسرے کے سامنے محاذ آرائی اور صف بندی بھی آشکارہ ہو، بلکہ آج مقابلہ نفاق ، کھوکھلے دعووں ، مکر و فریب اور جھوٹ سے ہے جسے سامراج نے پورے عالم میں پھیلا رکھا ہے۔ بہت سے لوگ انسانی حقوق کی طرفداری کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ، بہت سے لوگ اسلام کا دم بھرنے کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ان کا اسلام ، سامراج کی مرضی و منشا کا تابع ہے۔ بہت سے لوگ انسانوں کے بیچ مساوات قائم کرنے کا دعوی کرتے تھے اور کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے تھے اور بولتے ہیں۔ اس لئے آج کل مقابلہ دشوار ہے ، نہ صرف سامراج کی دولت اور طاقت کے سبب بلکہ اس کے تشہیراتی وسائل کے سبب۔ کیونکہ سامراجی طاقتیں اپنے غلط کاموں کا جواز پیش کرنے کےلئے ، پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں۔ بے بصیرت لوگ جلدی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ فریب میں ہیں۔ اپنی اور دشمن کی صف میں تمیز نہیں کرپاتے ۔ ایران میں ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایرانی قوم کی بصیرت سے کہ جس میں صبر اور پائداری بھی ساتھ تھی اس راستہ کو طے کیا اور وہ کامیابی تک پہنچے ۔خود انہوں نے لوگوں میں بصیرت پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جہاں بھی دنیا میں کوئی تحریک چل رہی ہے اور کوئی نیک انسان لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش میں لگا ہے اسے یہ جان لینا چاہئے کہ یہ راستہ صرف اور صرف ہوشیاری اور بصیرت نیز صبر و پائداری سے طے ہوسکتا ہے ۔مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک کا سرچشمہ اسلامی جمہوریہ ایرانتیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پوری دنیا کے مسلمانوں کی عظیم تحریک کامرکز ہے ۔نہ صرف مسلمان اور محروم و ستم رسیدہ لوگ بلکہ سامراج بھی اس بات کو سمجھ گيا ہے کہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی اہداف کے لئے تحریک چل رہی ہے اس کا مرکز اسلامی جمہوریۂ ایران ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ساری دنیا میں دشمنی کا رخ ہماری طرف ہے۔ ہم میٹھی باتوں کی آڑ میں چھپی ہوئي دشمنی و کینہ کو پہچانتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سامراج کواسلامی جمہوریۂ ایران ،ایرانی قوم اور ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی دشمنی ہے۔دشمن چونکہ ان کےافکار و نظریات کو زندہ دیکھ رہا ہے اس لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس کی دشمنی میں سرمو فرق نہیں آیا ہے۔ اگر سامراج اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری یہ سوچتے کہ وہ انتقال کرگئے اور ان کا زمانہ ختم ہوچکا ہے توکبھی بھی ان سے اور اس کے نام سے اتنی دشمنی نہ کرتے جیسا کہ آج کررہے ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاایران ، انقلاب ایران ،اسلامی جمہوریۂ ایران ، مسلمانوں کی عالمی تحریک کا مرکز ہے اور اس لئے سب کی دشمنی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس چیز سے ہم غمگین ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں، ڈرنے کے بجائے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم طاقتور ہیں اور سامراج ، چوروں و لٹیروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ سامراج کی دشمنی سے ہمیں مزيد اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے انقلاب کو آگے بڑھانے اور ملک و سماج کی تعمیر کے لئے جس راستہ کو چنا ہے وہ صحیح اور کامیابی کا راستہ ہے ۔ اگر ہم نے انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور انقلاب و ملک کی مصلحتوں کی سمت میں غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا، تو دشمن، ہم سے اتنی دشمنی نہیں کرتا۔ پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ ہمیں صراحت کے ساتھ برا بھلا نہ کہیں ، لیکن یہ ان کی دوستی کی علامت نہیں ہے ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے صراحتا ہمیں برا بھلا کہا تو پوری دنیا کی اقوام کے دل ہماری طرف اور مائل ہو جائیں گے ۔ اس لئے وہ سیدھے طور پر برا کہنے کے بجائے ہم پر الزام لگاتے ہیں خود کو ہم سے نزدیک دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں، یہ سب ان کے ہتھکنڈے اور خباثتیں ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس 1991-6-4آزادی و خود مختاری، اخلاقیات و روحانیت کے ہمراہ ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاکمال یہ تھا کہ انہوں نے اس انقلاب کے لئے ایک محکم لائحہ عمل اور اصول و ضوابط بنائے اور انہوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ انقلاب بڑی طاقتوں کے زير اثر آجائے اور مسلط کردہ سیاسی دھاروں میں بہہ جائے ۔نہ شرقی، نہ غربی، جمہوری اسلامی یا خود مختاری، آزادی، جمہوری اسلامی جیسے نعروں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات اور ان کی راہ کو عوام کے لئے واضح کیا اور ان نعروں کے معنی یہ تھے کہ یہ انقلاب ٹھوس اصولوں پر استوار ہے۔ یہ نہ تو مشرقی سوشلسٹ بلاک کے اصولوں سے وابستہ ہے اور نہ ہی مغرب کے لیبرل سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں سے ۔ مشرق اور مغرب کی انقلاب سے دشمنی کا سبب بھی یہی ہے ۔ انقلاب کی بنیاد ٹھوس اصولوں پر ہے، اس میں عدل و انصاف کے نفاذ، ملک کی آزادی و خودمختاری اور معنویت و اخلاق جیسی عوام کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی قدروں پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ انقلاب، انصاف، حریت، عوام کی حاکمیت، روحانیت اور اخلاق پر مشتمل ہے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چودھویں برسی کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس2002-6-4فراموش شدہ اسلامی اقدار کا احیاء امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے طاق نسیاں کی زینت بن جانے والی اسلامی اقدار کو معاشرے کی عملی زندگی میں شامل کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے اہم جو کام انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے سیاسی اورسماجی پہلوؤں کو زندہ کیا۔جب سے سامراج نے اسلامی ملکوں میں قدم رکھا اس کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ اسلام کو سیاست، سماجی مساوات ،حریت پسندی اور خود مختاری کے پہلو سے عاری دکھائے ۔ سامراج و تسلط پسند طاقتوں کو قوموں کو دبانے اور اسلامی ملکوں کے ذخائر پر اپنا تسلط بڑھانے کے لئے، اسلام کے سیاسی پہلوؤں کو اسلام سے الگ کرنے کے سوا اور کوئي چارہ کار سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور سامراج اسلام کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا کرتا تھا کہ اسلام حادثات اور واقعات کے سامنے تسلیم ہونے اور جارح قوتوں کے سامنے جھک جانے نیز ظالم و طاقتور دشمن کے سامنے سر جھکانے کا نام ہے ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کے فراموش شدہ حقائق کو زندہ کیا۔ اسلام کی انصاف پسندی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات کو آشکار کیا کہ اسلام امتیازی سلوک سماجی تفریق اور غلامی کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دن سے زندگي کے آخری لمحہ تک ، غریب ، مستضعف اور محروم طبقوں کی حمایت کی اور ان پر اتکا کیا۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے آغاز سے اور دس سال تک اس نظام کی قیادت کے دوران تمام حکام اور ہم سب سے زور دے کر کہتے تھے کہ غریبوں کا خیال رکھیں کیونکہ آپ کو جو یہ مقام ملا وہ اسی غریب طبقہ کی جد و جہد کا ثمرہ ہے ۔اے ایران کی عظيم قوم ہم نے امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی اس نصیحت پر منصوبہ بندی، قانون سازی، لوگوں کو منصبوں پر فائز کرنے اور انہیں معزول کرنے کے سلسلے میں جہاں جہاں عمل کیا، ہمیں کامیابی ملی عوام کے سلسلے میں امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت کے مفہوم کو مغربی معنی و مفہوم سے یکسر الگ کردیا ۔ مغربی منصوبہ ساز اور ان کے پٹھوؤں کی کوشش یہ تھی کہ اس بات کو عام کردیں کہ جمہوریت دین کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دعوے پر خط بطلان کھینچ دیا اور دینی بنیادوں پر جمہوریت یعنی اسی اسلامی جمہوریہ کو نمونہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے صرف علمی دلیل کی حد تک نہیں بلکہ عملا اسے انجام دے کر دکھا دیا ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کارنامے کے تئیں ہمارے فرائضانقلاب کے ہاتھوں زخم کھائے اور گھات لگائے ہوئے دشمن برسوں اس موقع کی تلاش میں تھے اور آج بھی وہ سورج کے غروب کا انتظار کرنے والی چمگادڑوں کی طرح اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایرانی قوم کے جذبات کی گرمی ایسی ہے کہ دوستوں کو اس سے راحت ملتی ہے اور دشمنوں کے پر جل جاتے ہیں، پھر وہ شیطانی پرواز کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ہمارے رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم ورثاء جمہوری اسلامی نظام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔ ہر مشکوک اقدام کے سلسلے میں ہم سب کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سامراج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک ، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی ترک نہیں کیا ہے اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے ہر ممکن کاروائي کر رہا ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ کے حکام اور ایرانی قوم، قومی وقار، خود مختاری اور اپنے اسلامی اصولوں کے پابند رہیں گے وہ ناقابل تسخیر بنے رہیں گے۔ اب تک خدا کے فضل و کرم سے، ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے سامنے عالمی سامراج کی سازش بے نتیجہ رہی ہے اور اس کے مکر و فریب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لئے میں قوم کےایک ایک فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں آمادہ و ہوشیاری کو انقلابی فریضہ سمجھیں اور دشمن کے مذموم سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی عزائم کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ آمادہ و ہوشیار رہنے سے دشمن کی سازش ناکام ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے عزیز رہبر کبیر ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) باربار اس بات پر زوردیتے تھے اور اپنے وصیتنامہ میں بھی آپ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ ہمارے بیچ اتحاد ہی، انقلاب کی کامیابی کا راز تھا اور یہی اس کی بقا کی کنجی ہے۔ قوم کا ایک دوسرے کے مخالف گروہوں میں بٹ جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اڑجانا، ہماری پوری قوم یا کم سے کم اس کی اکثریت سے وابستہ اہم اصولوں کو فراموش کردینا، دشمن کو بھلا دینا اور اس کو بھلا دینے سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرنا ، ایسی قوم کے لئے ایک المیہ ہے جو اپنے پائمال شدہ حقوق کی بازیابی اور دوسروں پر انحصار سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔قائد انقلاب اسلامی کا ایران قوم سے خطاب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدح سرائی کا اقتباس2007-6-8 امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مشن سے وفاداری ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور کوئی بھی اس بارے میں شک نہیں کرسکتا کہ ایرانی قوم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے سچی محبت کرتی ہے چنانچہ ہمیں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ان کے ہدف کو انقلاب کا نصب العین سمجھیں اور اس کی سمت بڑھیں۔ اپنی طرف سے کوئی نیا ہدف نہ بنا لیں۔ امام کے بتائے ہوئے اہداف و مقاصد واضح ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے بہت غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ کاتب تقدیر کا فیصلہ یہی تھا کہ اس کا نیک بندہ آگے بڑھتے بڑھتے یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپ کر ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے اور اس کے جوار میں پناہ لے لے تو ہم اس ذمہ داری کو یونہی نہیں چھوڑدیں گے۔ قوم کا ایک ایک فرد اور ہر سطح کے عہدہ دار و حکام اس نکتے کو ذہن نشین کرلیں اور یہ عہد کریں کہ امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور ان کے اہداف و مقاصد کے لئے کام کریں گے اسی صورت میں ہم امام خمینی سے اپنی سچی محبت کا ثبوت پیش کر سکیں گے اور اگر اس کے برعکس ہم ان کی جدائی میں روئیں، سروسینہ پیٹیں، لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلیں، تو ان سے ہماری محبت و عقیدت سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے راستے پر چلیں، اس سے منحرف نہ ہوں ۔انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8امام خمینی کا خلوصبرادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے۔انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہدہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5 ایرانی قوم کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت : خدا سے لولگائیں، اسلام کے پابند رہیں اور اپنی صفوں میں انتشار نہ پیدا ہونے دیںہمارے عزیز قائد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت میں ایک بات ایسی ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا : جس چیز نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا وہی اس کی بقا کی ضامن ہے۔ یعنی خدا پر توکل، اسلام پر ایمان، اسلامی احکام کی بجا آوری اور اتحاد، انقلاب کی کامیابی اور اس کی بقا کی کنجی ہے۔ یہ ایک ایسی نصیحت ہے جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آج ہمارے ملک پر اتحاد اور خلوص کا سایہ ہے۔ یہ سب کچھ عظیم انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پاکیزہ وجود کا ثمرہ ہے۔ اس عظیم مرد الہی کی رحلت کے بعد بھی آپ کا خلوص سرچشمہ برکات بنا ہوا ہے۔ اس خلوص نے دلوں کو باہمی محبت کے رشتہ سے جوڑ دیا اور رشتوں کو مستحکم بنایا ہے۔ آپ کا اتحاد و یکجہتی اور حکومت سے آپ کا تعاون اور گہرا رشتہ ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز ہے۔ دشمن اسے دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگیا ہے، 1978 میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے انقلابی تحریک میں نئي جان آگئی اور یہ تحریک آگے بڑھنے لگی۔ اس کے نتایج حاصل ہونے لگے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خدا کا یہ لطف تھا کہ ان کے وجود میں اس نے یہ ساری برکتیں ودیعت کی تھیں اور ان کی وفات اور ملکوت اعلی کی طرف پرواز کے وقت بھی خدا کی خاص نعمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال تھیں جو اس بات کا سبب بنیں کہ ان کی رحلت کے بعد بھی انقلاب اسلامی، کامیابی کے ابتدائی دنوں کی طرح ہی آگے بھی ترقی کرتا رہے اور دنیا میں اس کی عظمت قائم ہو جائے۔ اس انقلاب نے دشمن کو مایوس کردیا۔ آج ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وجود کی برکت سے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔ کوئی یہ خیال بھی نہ لائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اندر کسی طرح کسی کمزوری کا احساس کررہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اپنے معاملوں کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اپنے اصولوں، اپنے دین اور مسلمان بھائيوں کے مفادات کے مطابق دیگر ملکوں سے بھی اپنے تعلقات کومستحکم کریں گے۔ اس بات کو یاد رکھئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا تاکید کی ہے کہ اتحاد و بیداری سبھی کامیابیوں کا راز ہے۔ اگر لوگوں میں اتحاد و بیداری نہ ہو تو ایرانی قوم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا پائے گي لیکن اگر لوگوں نے اس راز کو سمجھ لیا اور اس کا خیال رکھا تو خدا بھی ان کی مدد کرے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد رب العزت ہے: جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم اپنے راستوں کی طرف ان کی ہدایت کریں گے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے خدا اس کے ساتھ ہے اور خدا کا وعدہ سچا ہے۔ الحمدللہ خداایرانی قوم کے ساتھ ہے اور اس عظیم و بے نظیر مرد الہی کا وجود ہمارے لئے ایک حقیقی نعمت تھی۔ آج بھی آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے بہترین نعمت ہے کیوں کہ ان کے کلام کا سرچشمہ خدا و انبیاء کا کلام ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔خوزستان کے علماء ، حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-12امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر اور انہیں ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورتآج ایرانی قوم کا کہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے ۔( زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي ۔( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحتل کی دوسری برسی پر ، قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-3امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے وابستہ کچھ یادیںخدا جانتا ہے کہ ان دس سالوں کے دوران، اس دن کے خیال سے دل ہمیشہ لرز اٹھتا تھا۔ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بنا دنیا کا رنگ کیا ہوگا۔ اسی لئے ہم نے کئی بار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا: ہماری خدا سے اہم دعا یہی تھی کہ مجھے آپ سے پہلے اس دنیا سے اٹھالے۔ جب امام خمینی کی طبیعت بگڑ رہی تھی میں نے آئین پر نظر ثانی کرنے والی کاؤنسل کے کچھ اراکین کو بلایا اور کہا کہ امام کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں نظر ثانی کے کام میں تھوڑی تیزی لانی چاہئے اور اس کے مکمل ہونے کی خوش خبری امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اسپتال میں دینی چاہئے تا کہ انہیں اطمینان حاصل ہوجائے۔ واقعا اس ممکنہ لمحے کے تصور سے میرا دل لرزتا تھا۔ شاید اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد یہ خبر پہنچی کہ یہ نعمت الہی اور گوہر نایاب ہم سے چھن گيا ہے ۔فوج کے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-6-7قوم کے روح رواں امام خمینی کی رحلت اور قوم سے آپ کی جدائي کےبارے میں کچھ کہنا بڑا سخت اور دشوار کام ہےـ ہم تو یتیم ہو گئے۔ دس سال قبل جب آپ کو دل کا دورہ پڑا آّپ کے چاہنے والے افراد جن میں سے بڑی تعداد جام شہادت نوش کرنے کے بعد اس وقت ملکوت اعلی کی زینت بنی ہوئي ہے، پروانہ وار قم پہنچے۔ آپ کو تہران لایا گیا اور دل کے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ایک ایک پل بڑی مشکل سے گزرتا تھا، ایک انجانا خوف ہر آن ستاتا۔ بارگاہ پروردگار میں ہم سب کی ایک ہی دعا اور التجا تھی کہ خدایا بشریت کی رگوں میں زندگی بھر دینے والے اس پاکیزہ دل کو شفا بخش دے۔ ہماری قوم کی دعا سن لے۔ اپنے عزیز قائد کی جدائي کا تصور ہمارے لئے جان لیوا تھا ہمیں ایسا لگتا تھا کہ گویا دنیا اندھیری ہو جائے گي۔ آج ہمارے سامنے یہی دشوار پل ہے ہم پر مصیبت عظمی ٹوٹ پڑی ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی کوئي مصییبت ہو سکتی ہے ـ کمانڈروں اور اسلامی انقلاب کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے بیعت کے موقع پر خطاب سے اقتباس 1989-6-8آپ سب نے دیکھا کہ آپ کے امام (رہ) وصیت نامے کے آخر میں ایسے معاملات کی جانب اشارہ کیا گیا جن پر امام اس سے قبل خاموش تھے ۔ بنی صدر کے زمانے میں جب میں امام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ فرماتے تھے کہ وہ میرے حوالے سے جو کچھ کہتا ہے وہ غلط ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ لہذا جو بات بھی ہوتی آپ اس پر فورا مشتعل اور آشفتہ نہیں ہوتے اور اس کا فوری جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ متانت، بردباری، حلم، نفس پر قابو اور وسیع القلبی کی اعلی مثال ہے۔ جس میں بھی یہ صفات ہونگی وہ عظیم انسان ہوگا۔ ساتھ ہی اگر امام (خمینی رح) میں روحانیت ، خدا سے رابطہ، رضائے الہی کے لیے اقدام، تقویٰ، ذمہ داریوں کی ادائیگی جیسی اہم صفات نہ ہوتیں تو انقلاب کامیاب ہوتا اور نہ ہی آپ لوگ اس طرح ان کے گرویدہ ہوتے، وہ نہ تو دنیا میں ایسی ہلچل مچا سکتے تھے اور نہ ہی دشمن کے رعب و دبدے اور دھمکیوں کے سامنے پہاڑ کی مانند سینہ سپر ہوسکتے تھے ۔اسی حوالے سے ایک واقعہ میرے ذہن میں محفوظ ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ سن 1986 کے اختتام سے چند دن قبل امام(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ کے فرزند رشید جناب احمد خمینی بھی تشریف فرما تھے کسی امام معصوم کا یوم ولادت نزدیک تھا ہم نے امام سے درخواست کی کہ حسینیہ جماران میں لوگوں سے ملاقات فرمائیں۔ امام(خمینی رہ) نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ میں ملاقات نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد میرا مشہد جانا ہوگیا، اچانک امام(خمینی رہ) کو دل کی کوئي تکلیف پیدا ہوئی جناب اخمد خمینی نے جن کا قوم پر بڑا احسان ہے اور جنہوں نے امام خمینی رہ کی بڑی خدمت کی ہے، فوری طور پر ضروری طبی وسائل مہیا کئے۔ جب ھسپتال میں امام(رہ) کی خدمت میں حاضرہوا تو عرض کی، کتنا اچھا ہو ا جو آپ نے اس رات عوام سے ملاقات پر ہمارے اصرار کو قبول نہیں فرمایا ورنہ اگر لوگوں کےساتھ ملاقات کی خبر جار ی ہوجاتی اور لوگ آپ سے ملاقات کے لیے آجاتے اور اس وقت آپ اس حالت میں لوگوں سے ملاقات نہ کر پاتے تو اس کا دنیا میں منفی انداز میں پرو پیگنڈا کیا جاتا۔ آپ نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ۔ انہوں نے میری بات کے جواب میں فرمایا: جہاں تک میں سمجھا ہوں ، ایسا لگتا ہے کہ انقلاب کےآغاز سے اب تک ایک غیبی ہاتھ ہے جو تمام کاموں میں ہماری رہنمائی اور پشتپناہی کررہا ہے۔عوام اور شہداء کے خاندانوں کے جذبات اور محاذ جنگ پر مجاہدین کا خلوص امام(رہ) کی حالت دگرگوں کئے دیتا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ امام(رہ) کو ، مجالس اور ذکر مصائب سید الشہدا کے علاوہ، روتے دیکھا ہے ۔ جب بھی عوام کے ایثار و قربانی کی بات امام(رہ) کے سامنے ہوتی آپ کی حالت منقلب ہوجاتی۔ مثال کے طور پر جب تہران کی نماز جمعہ کے دوران ، محاذ جنگ کی امداد کے لیے بچوں کی دی ہوئی غلقوں کو توڑا گیا تھا اور پیسوں کا ڈھیر لگ گیا، امام خمینی (رہ) اسپتال میں تھے آپ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، میں ان کے پاس تھا، مجھ سے فرمایا : تم نے دیکھا ان بچوں نے کیا کردکھایا! اور میں نے دیکھا کہ اس لمحے آپ آبدیدہ ہوگئے اور رونے لگے۔انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8آپ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ذکرخدا اور نمازو دعا میں مصروف رہے۔ حضرت امام خمینی(رہ) کے فرزند الحاج احمد خمینی کہا کرتے تھے: امام( خمینی رہ) اپنی حیات کے آخر دن دوپہر تک بستر پر لیٹے مسلسل نماز پڑھ رہے تھے۔ کافی دیر گزر گئی تو آپ نے پوچھا نمازظھر کا وقت ہوگیا ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ تب آپ نے ظہر اور عصر کی نماز،نوافل کے ساتھ پڑھنا شروع کی۔ نماز ختم کرنے کے بعد آپ تعقیبات میں مشغول ہوگئے اور کوما کی حالت میں جانے تک مسلسل سبحان اللہ والحمد للٌہ ولا الہ الا اللہ اللہ اکبر کہتے رہے ۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے ۔ ہم اگر اپنے رہبر سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں ان کے کاموں اور کردار پر توجہ دینا چاہیے اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8انہوں نے ہمیشہ عوام اور قوموں پر ھی بھروسہ کیا۔ بیرون ملک دورے سے قبل امام (خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت ایک ایسا معاملہ درپیش تھا جس پر میں نے آپ سے کہا کہ اس معاملے پر دنیا میں ہمارے خلاف بڑا پروپیگنڈا ہورہاہے البتہ میں یہ بات ان کے علم میں لانا چاہتا تھا ورنہ مجھے بھی عالمی ہنگامہ آرائی کا کوئی خوف تھا اور نہ ہی کوئی ڈر، میں نے سارا ماجرا سنایا۔ آپ ساری دنیا کی خبروں کا بڑے قریب سے ناقدانہ جائزہ لیا کرتے تھے اور شاید عالمی خبریں دوسروں سے پہلے امام(خمینی رہ) تک پہنچ جایا کرتی تھیں ۔ امام (خمینی رہ) نے میرے جواب میں تائیدی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن قومیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اور وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ اس دورے میں ہمارے ساتھ قوموں کی حمایت ایسی کھل کر سامنے آئی کہ سب حیران رہ گئے۔ بنا بر ایں آپ اپنے دوستوں کو بھی بخوبی پہچانتے تھے اور دشمنوں کو بھی، دوستوں پر اعتماد اور بھروسہ کیا کرتے تھے۔ آپ جیسے وفادار عوام ہی امام(خمینی رہ) کے سب سے بڑے دوست تھے اور امام(خمینی رہ) بھی آپ(ایرانی قوم) کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس 1989-7-15انقلاب اسلامی کے آغاز سے آج تک مسلسل ذمہ داریاں نبھانے کے دوران، امیرالمومنین (علیہ الصّلاةوالسّلام) کا وہ جملہ ہمیشہ میرے مد نظر رہا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں اذا اشتدّ بنا الحراق التجينا برسولاللّہ جب جنگوں میں ہمیں دشوار ترین حالات کا سامنا ہوتا تھا تو ہم دامن رسول خدا(ص) میں پناہ لیتے تھے۔ جب امیرالمومنین (صلوات اللہ علیہ) کا یہ جملہ مجھے یاد آتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ یہ ہم پر بھی صادق آتا ہے ۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ مختلف مسائل اور مشکلات کے بارے میں دیگر عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے اور پھر مسئلے کو امام خمینی (رہ) کی خدمت میں لے جاتے اور وہ اپنی باریک بینی، قوت ایمانی کے ذریعے مشکل کو حل کر دیا کرتے ۔ خدا گواہ ہے ،میں نے اپنی پوری زندگی میں خدا پر اس حدتک بھروسہ اور اس سے امید رکھنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ہے ۔ وہ مشکلات اور گتھیاں بآسانی سلجھا دیتے تھے۔ آج وہ ہمارا سرپرست، مضبوط آسرا اور ہماری ڈھارس جو مشکلات میں ہماری پناہ گاہ تھا، ہمارے درمیان نہیں ہے ۔صدر کی تقرری کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-8-3ایک(جنگی)قیدی کی ماں نے، نہیں معلوم تبریز میں یا کہیں اور، مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا اسیر تھا ، آج خبر آئی ہے کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ آپ امام (خمینی رہ) کی خدمت میں جائیں تو ان سے کہہ دیں کہ (میرابیٹا) آپ پر قربان، میں پریشان نہیں ہوں۔ وہ خاتون عجیب حال میں تھی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجمع کو ہٹاتی ہوئی آگے آ رہی ہے۔ لوگ آنے نہیں دے رہے تھے، میں نے کہا اسے آنے دیجئے، دیکھیں یہ خاتون کیا کہنا چاہتی ہے ۔ وہ آئی اور اس نے یہ بات مجھ سے کہی ۔ اس کی اس بات سے میں بہت متاثر ہوا ۔ امام(خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، پہلے تو بتانا بھول گیا، باہر آیا تو یاد آیا ، وہاں جو صاحب موجود تھے میں نے ان سے کہا کہ امام(خمینی رہ) سے کہیں کہ ایک بات رہ گئ ہے ۔ آپ (امام خمینی رہ) صحن کے دروازے پر تشریف لائے ، میں بھی وہاں گیا اور جب اس خاتون کی بات ان کو بتائی تو امام کا چہرا متغیر ہوگیا، آپ پرایسی رقت طاری ہوئي کہ مجھے پچھتاوا ہونے لگا کہ میں نے کیوں ان سے یہ بات ذکر کی۔امام خمینی کی پہلی برسی کی مہتمم کمیٹی کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 22-5-1990وہ اپنی ذات کےلیے کسی چیز کے خواہشمند نہیں تھے۔ الحاج احمد خمینی مرحوم جو امام(خمینی رہ) کو بہت عزیز تھے اور بارہا ہم نے امام(خمینی رہ) سے سنا کہ یہ(احمدخمینی) مجھے بہت عزیز ہیں۔ وہ امام خمینی (رہ) کی اس دس سالہ قیادت اور رہبری کے دوران ایک گھر بھی نہیں خرید سکے۔ ہم بارہا گئے اور ہم نے دیکھا ہے کہ امام(خمینی رہ) کے فرزند عزیز جناب احمد خمینی، حسینیہ (جماران میں) جہاں امام (خمینی رہ) مقیم تھے، پچھلے حصے میں واقع باغیچے کےدو تین کمروں میں رہتے تھے۔ وہ عظیم انسان اپنے لیے، دنیاوی مال ومتاع کے طالب نہیں تھے، جو تحفے تحائف انکے لیے لائے جاتے تھے وہ انہں بھی راہ خدا میں دے دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ ان کے پاس ہوتا اور جس کا بیت المال سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا وہ بھی بیت المال کی مد میں دے دیا کرتے تھے۔ یہ انسان کے زہد و تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے عزیز ترین فرزند کو دو چار لاکھ روپئے کا گھر بھی دلانے کو تیار نہیں تھے جبکہ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے پاس سے کروڑں تومان ، مختلف علاقوں کی ترقی، غریبوں اور سیلاب زدگان کی مدد میں خرچ کردیاکرتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے معاملات میں امام(خمینی رہ) کا ذاتی سرمایہ لوگوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ یہ سرمایہ وہ تحائف تھے جو امام(خمینی رہ) کے عقیدتمند اور چاہنے والے امام(خمینی رہ) کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ وہ انسان جس کا عزم و ارادہ قوم کےدشمنوں کو لرزہ براندام کر دیتا تھا، جو دیوار کی طرح مستحکم اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھا، جب بھی کوئي انسانی اور جذباتی مسئلہ درپیش ہوتا تو انتہائی رحمدل، مہربان انسان کامل دکھائی دیتا تھا۔ میں یہ بات پہلے بھی نقل کر چکا ہوں کہ میرے ایک سفر کے دوران ، ایک خاتوں نے مجھ سے آکر کہا تھا کہ میری جانب سے امام(خمینی رہ) سے کہہ دیجئے گا کہ میرا بیٹا جنگ میں اسیر ہوگیا تھا اور اب خبر آئی ہے کی وہ شہید ہوگیاہے۔ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے لیکن مجھے کوئی غم نہیں، میرے لئے آپ کی سلامتی زیادہ اہم ہے۔ مجھ سے یہ بات اس خاتون نے انتہائی جذباتی انداز میں کہی تھی۔ میں جب امام(خمینی رہ) کی خدمت حاضر ہوا، امام (خمینی رہ) کھڑے تھے میں نے یہ بات ان سےکہہ دی، میں نے دیکھاکہ استقامت و وقار کا وہی کوہ گراں، اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیسے کوئي تناور درخت توفان کے باعث ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کی روح اس خاتون کی اس بات سے شدید طور پر متاثر ہوئی تھی۔ نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس1999-6-4ایک رات، خصوصی میٹنگ کے دوران، الحاج احمد خمینی مرحوم اور دیگر دو تین افراد کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا۔ امام بھی تشریف فرما تھے۔ ہم میں سے کسی نے کہا: امام آپ روحانی مقام پر ہیں، منزل عرفان پر فائز ہیں ، ہمیں کچھ نصیحت کیجئے اور رہنمائی فرمائیے۔ اس عظیم انسان نے جو روحانیت و معنویت کی اس عظیم منزل پر فائز تھے، ایک شاگرد کے اس مختصر سے تعریفی جملے پر (البتہ ہم سب امام کے شاگرد اور ان کے بیٹوں کی مانند تھے اور وہ بھی ہمارے ساتھ باپ جیسا سلوک کیا کرتے تھے) شرمندگی اور انکساری میں ایسے ڈوب گئے کہ ہم سب کو بڑی تعجب ہوا۔ در حقیقت یہ بات کہہ کر ہم خود ہی شرمندہ ہوگئے۔ نماز جمعہ کے خطبے سے اقتباس 1999-6-4
اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ اور عشرہ فجر کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار ہزار آٹھ سو ترانوے قیدیوں کی معافی اور سزاؤں میں کمی کی موافقت فرمائي۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے جوانوں اور کمانڈروں سے ملاقات میں، گذشتہ اٹھائیس برسوں کے دوران ایرانی قوم کی مستقل پیش قدمی اور استقامت کو اسلامی نظام کی عزت و وقار کا سرچشمہ قرار دیا، ۔۔۔۔
جو واقعہ انیس بہمن تیرہ سو ستاون کو رونما ہوا بلا شبہ ایک اہم ترین موڑ تھا۔ فضائیہ کے جوانوں اور عہدیداروں نے ایک سچے باطنی جذبے کے تحت جو ان جوانوں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا آئينہ دار تھا ایسا کارنامہ انجام دیا جو طاغوتی شاہی حکومت کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ انتہائي شجاعانہ اورساتھ ہی دانشمندانہ اقدام تھا۔
عشرہ فجر اور امام خمینی (رہ) کی وطن تاریخی واپسی کی سالگرہ کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے آج صبح حضرت امام خمینی ( رہ) کی مرقد پر پہنچ کر، اسلامی جمہوری نظام کے بانی سے اظہار عقیدت کیا۔
شب عاشور امام خمینی (رہ) امام بارگاہ میں قائد انقالاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی امامت میں مغربین کے نماز کے بعد سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے با وفا ساتھیوں کی مجلس غم برپا کی گئي۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علامہ ڈاکٹر جعفر شہیدی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر، ان کے خاندان،ورثا، عقیدتمند شاگردوں اور ملک کے علمی و ادبی حلقوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ آپ بے مثال ادیب، وسیع النظر مورخ، عظیم انسان اور عصر حاضر کی قابل افتخار علمی شخصیت تھے۔ آپ نے بڑی قیمتی تحریریں چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالی اس سچے مومن انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور انہیں اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ محشور فرمائے۔
سید علی خامنہ ای25/10/86
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی سے ملاقات میں اس بات پر تاکید کی کہ آئي اے ای اے کو ایک خود مختار ادارے کی اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج تہران میں قم علما اور عوام کے ایک اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ ایرانی قوم کو سوچ سمجھ کر آٹھویں پارلیمانی انتخابات میں بھرپور شرکت کرنی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ یزد کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور انتظامیہ کے عہدہ داروں سے خطاب کرتے ہوئے استبداد و ظلم پر خاموشی کی بیماری سے ملک کو ملنے والی نجات کو اسلامی انقلاب کا ایک اہم ترین ثمرہ قرار دیا۔
صوبہ یزد کے دینی، قرآنی، سائنسی، ثقافتی، صنعتی، فنی، اقتصادی، زرعی اور دیگر شعبوں کے منتخب افراد کی بڑی تعداد نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی اور صوبے کی بعض منتخب شخصیات نے اپنے خیالات اور تجاویز پیش کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صوبہ یزد کے دورے کے چوتھے دن آج صبح ابرکوہ علاقے کے عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب میں، عوام کے سلسلے میں حکام اور عہدہ داران کے احساس ذمہ داری اور قومی خود اعتمادی و قوت ارادی کو ملک کی پیش رفت و ترقی کے تسلسل کے دو بنیادی عناصر قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی اور تمام مسلح فورسز کے سربراہ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ یزد میں تعینات مسلح فورسز کے مشترکہ پروگرام میں، آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران مسلح افواج کی افتخار آمیز جاں نثاری کو ایرانی قوم کے لئے بیش بہا خزانہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم اپنی طاقت کی حفاظت اور بھرپور آمادگی کے ساتھ امن و سلامتی کی فضا میں پیش رفت کا عمل جاری رکھے گی۔
بسم الله الرّحمن الرّحیم الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی سیّدنا محمد المصطفی وعلی آله الطیبین و صحبه المنتجبین سلام ہو خانۂ خدا کے زائروں، سرائے دوست کے میہمانوں اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والوں پر۔ مخصوص درود و سلام ہو ذکر خدا سے منور اور الطاف و عنایات الہی سے معمور دلوں پر جن کے استقبال کے لئے رحمت کے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ حج کےشب و روز اور روح بخش لمحوں میں بہت سے لوگوں نے موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے خود کو دریائے روحانیت و معنویت سے سیراب کر لیا۔ توبہ و استغفار کے ذریعے دل وجان کو نورانیت بخشی اور رحمت الہی کی امواج میں جو اس وادی مقدس میں پے در پے اٹھ رہی ہیں خود کو گناہ و شرک کے زنگ سے صاف کرلیا ہے۔ اللہ کا سلام ہو پاکیزہ دلوں، نیک سرشت افراد اور صاحبان دل پر۔ تمام بہن بھائیوں کے لئے بہتر ہے کہ ان ثمرات کے بارے میں غور و فکر کریں اور ان عظيم لمحات کی قدر کریں۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس مقدس وادی میں بھی مادی زندگي کے جھمیلے جس میں ہمیشہ ہم پھنسے رہتے ہیں ہمارے دلوں کو مشغول رکھیں بلکہ ذکر خدا، توبہ و استغفار، گریہ و زاری، صداقت و پاکیزگي، حسن کردار اور فکر صالح کے لئے عزم راسخ اور خداوند عالم کی بارگاہ میں نصرت و مدد کی التجا کے ذریعے اپنے دل بیتاب و مشتاق کو الوہیت و وحدانیت و معنویت سے معطر فضا میں پرواز کے قابل بنا لیں۔ خدا کی راہ میں استقامت اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے لئے ضروری اسباب و وسائل حاصل کر لیں۔ یہ حقیقی وحدانیت کا مرکز ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پارۂ جگر کو قربان گاہ میں لاکر یکتا پرستی کا بے مثال نمونہ، جو در اصل نفس پر غلبےاور حکم الہی کے سامنےسراپا تسلیم ہو جانے سے عبارت ہے، پیش کیا اور پوری تاریخ عالم میں تمام یکتا پرستوں کے لئے یادگار بنادیا، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمانے کی بڑی طاقتوں اور زور و زر کے خداؤں کے سامنے توحید و وحدانیت کا پرچم لہرایا اور اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی طاغوت سے نفرت و بیزاری کو نجات و سعادت کی شرط بنا دیا۔فمن یکفر بالطاغوت و یومن با الله فقد استمسک بالعروه الوثقی ( اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے ) حج انہی عظيم تعلیمات کے اعادے اور انہیں یاد کرنے کے معنی میں ہے، مشرکین سے برائت و بیزاری، بتوں اور بت سازوں سے نفرت کا اعلان، وہ جذبہ ہے جو مؤمنین اور صاحبان ایمان کے مناسک حج پر حکم فرما رہتا ہے۔ اعمال حج کا ہر مقام اور اس کا ہر لمحہ اللہ تعالی کے سامنے خود سپردگی، اس کی راہ میں سعی و کوشش، شیطان سے دوری و بیزاری اس کو کنکریاں مارنے اور خود سے دور کرنے اور خود کو اس کے مد مقابل کھڑا کرنے کا حقیقی مظہر ہے۔ حج کا ہر مرحلہ، قبلے کے محور پر اجتماع، اتحاد و یکجہتی، نسلی و لسانی تفریق کے انکار اور مسلمانوں کی حقیقی اخوت و دوستی کا نمونہ ہے۔ یہ وہ دروس و تعلیمات ہیں جو ہم سبھی مسلمانوں کے لئے خواہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ہمارا تعلق ہو، واجب العمل ہیں۔ ہمیں انہی کی بنیاد پر اپنی زندگي اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ قرآن نے دشمنوں کے مقابلے میں قوت و اقتدار کے ساتھ محاذ آرائی، مؤمنین کے درمیان مہر و محبت اور خداوند عالم کے حضور خضوع و خشوع کو اسلامی معاشرے کی تین نشانیاں اور علامتیں قرار دیا ہے۔محمد رسول الله و الذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم تراحم رکعا سجدا یبتغوه فضلا من الله و رضوانا ...(حضرت محمّد (ص) اللہ کے رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں کے خلاف سخت آپس میں رحم دل ہیں آپ انہیں دیکھیں گے کہ رکوع اور سجدہ کررہے ہیں اللہ کے فضل و کرم اور رضا و خوشنودی کی کوشش میں رہتے ہیں ) امت اسلامیہ کے باشکوہ اور پر وقار پیکر و پرچم کے یہ تین بنیادی ستون ہیں۔ تمام مسلمان اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر عالم اسلام کے موجودہ مسائل و مشکلات کو صحیح طریقے سے پہچان سکتے ہیں۔ آج امت اسلامیہ کے سب سے بڑے دشمن وہ استکباری عناصر اور توسیع پسند اور جارح طاقتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے ناجائز مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلّط کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔ تمام مسلمانوں اور خاصوصا سیاستدانوں، علماء و دانشوروں، روشن فکر افراد اور مختلف ملکوں کے سربراہوں کا فریضہ ہے کہ اس جارح دشمن کے خلاف زیادہ سے زیادہ قوت و استحکام کے ساتھ ایک متحد اسلامی محاذ تشکیل دیں۔ اپنی اندرونی توانائیوں کو منظم کریں اور امت اسلامیہ کو حقیقی معنی میں طاقتور اور با اثر بنائیں۔ علم و معرفت، دانشمندی و ہوشیاری، احساس ذمہ داری، سچی دینداری، الہی وعدوں پرایقان وایمان، فریضے کی ادائیگي اور رضائے خدا کے حصول کے لئے حقیر و ناچیز خواہشات سے چشم پوشی یہ سب امت مسلمہ کی قوت و اقتدار کی بنیادی شرطیں ہیں جو اس کو عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی ترقی سے ہم کنار کر سکتی ہیں، دشمن کو اسلامی ملکوں میں دست درازی توسیع پسندی اور ریشہ دوانیوں میں ناکام بناسکتی ہیں ۔ مؤمنین کے درمیان صلح و آشتی، امت مسلمہ کی ایک اور پسندیدہ صفت ہے۔ امت مسلمہ کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے مابین اختلاف و تفرقہ، خطرناک بیماری ہے جس کا پوری توانائي کے ساتھ فوری علاج کرنا چاہئے۔ ہمارے دشمنوں نے اس میدان میں بھی عرصہ دراز سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور آج جب اسلامی بیداری نے ان کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے تو انہوں نے اپنی کوششیں اور تیز کردی ہیں۔ تمام ہمدردوں کا کہنا یہ ہے کہ تفاوت و فرق کو کینہ توزی و دشمنی کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے، رنگ و نسل کا تنوع جنگ و جدل پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔ اس سال کو ملت ایران نے قومی اتحاد و اسلامی یکجہتی کے سال کا نام دیا ہے۔ مسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والی سازشوں کی شدت کا ادراک کرتے ہوئے اس سال کو اس نام سے موسوم کیا گیا۔ فلسطین، لبنان، عراق، پاکستان اور افغانستان میں دشمنوں کی یہ سازشیں کامیاب ہوئیں اور ایک ہی مسلمان ملک کے کچھ لوگ اسی ملک کے کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف قتل و غارت کےلئے کمربستہ ہو گئے۔ ایک دوسرے کا خون بہایا۔ ان تمام تلخ اور افسوسناک واقعات میں دشمنوں کی سازشیں بالکل عیاں تھیں اور باریک بیں نگاہوں نے ( ان حادثات میں ) دشمن کا ہاتھ دیکھا ہے۔ قرآن کریم میں رحماء بینہم کا حکم اسی طرح کی جنگوں اور لڑائیوں کی بیخ کنی کے لئے ہے۔ آپ ان پرشکوہ ایّام اور حج کے گوناگوں مناسک میں دنیا کے مختلف مقامات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو ایک گھر کا طواف کررہے ہیں، ایک ہی کعبے کی جانب رخ کرکے نماز ادا کررہے ہیں۔ شیطان رجیم کی علامت (جمرات) کو ایک ساتھ ملکر پتھر ماررہے ہیں اور نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی قربانی کی علامت کے طور پر یکساں عمل انجام دے رہے ہیں اور عرفات و مشعر میں ٹھہرنے کے دوران ایک ساتھ مل کر ( خدا کے حضور ) گریہ و زاری کر رہے ہیں۔ اسلامی فرقے اپنے بنیادی عقائد اور بیش تر اعمال و احکام میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ان میں یکسانیت ہے۔ ان تمام مشترکات کے ہوتے ہوئے بھی تعصب اور تنگ نظری ان کے درمیان اختلاف کی آگ کیوں کر بھڑکاتی ہے اور خائن و غدار دشمن کو اس خطرناک آگ کو ہوا دینے کا موقع کیسے مل جاتا ہے؟ آج جو لوگ تنگ نظری و نادانی کی وجہ سے بے بنیاد مسائل کے بہانے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت و فرقے کو مشرک گردانتے ہیں اور حتی ان کا خون بہانے کو روا جانتے ہیں، یہ لوگ در حقیقت، دانستہ یا ندانستہ طور پر شرک و کفر اور سامراج کی خدمت کررہے ہیں۔ کیا معلوم کہ جن لوگوں نے پیغمبر اعظم (ص) اولیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کی زیارت و تکریم کو جو دینداری کا مظہر ہے شرک و کفر قراردیا کہیں وہ خود کافروں اور ظالموں کے دربار کی تکریم میں مصروف تو نہیں ہیں، کہیں وہ ان کے ناپاک عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں ممد و معاون تو ثابت نہیں ہورہے ہیں؟! سچے علماء، دینی جذبے سے روشن دماغوں اور مخلص حکمرانوں کو چاہئے کہ اس طرح کی خطرناک لعنتوں اور اقدامات کا مقابلہ کریں۔ آج اسلامی اتحاد و یکجہتی ایک لازمی ہدف ہے جو دانشمندوں اور قومی ہمدردی کے جذبے سے سرشار افراد کے محنت و مشقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس عظیم مقصد کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ عزت و سربلندی کے یہ دونوں ستون، یعنی ایک طرف استکبار کے مقابلے میں مضبوط صف آرائي اور مستحکم محاذ کی تشکیل اور دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت و مہربانی جب تیسرے ستون یعنی پروردگار کے حضور خشوع و تعبّد و بندگي کے ساتھ مل جائیں گے توامت اسلامیہ دوبارہ اسی راستے پر چل پڑےگی جس پر چل کر صدر اسلام کے مسلمانوں کو عزت و عظمت ملی تھی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان قومیں اس ذلت آمیز پسماندگی سے جو حالیہ صدیوں کے دوران ان پر مسلّط کر دی گئی ہے نجات و چھٹکارہ حاصل کرلیں گی۔ اس عظیم تحرک کا آغاز ہوچکا ہے اور پورے عالم اسلام میں بیداری کی لہریں ہر جگہ ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔ دشمنوں کے ذرائع ابلاغ، ان کی پروپیگنڈہ مہم اور ان کے ایجنٹوں کی کوشش ہے کہ عالم اسلام کے کسی بھی گوشہ میں عدل و انصاف کے مطالبے اور حریت پسندی کی جو بھی تحریک اٹھے اسے ایران یا پھر شیعیت سے منسوب کردیں اور اسلامی ملک ایران کو جو اسلامی بیداری کا کامیاب علمبردار ہے ان کاری ضربوں کا ذمہ دار قرار دیں جو میدان سیاست و ثقافت میں مسلمان ملکوں کے غیور عوام کی جانب سے ان پر لگائی جاتی ہیں۔ وہ تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ کے بے مثال کارناموں، عراقی عوام کی مدبرانہ استقامت کو جو غاصبوں کی مرضی کے برخلاف پارلیمنٹ اور (عوامی ) حکومت کی تشکیل پر منتج ہوئي، فلسطین کی قانونی حکومت اور وہاں کے جاں نثار عوام کی حیران کن مزاحمت و پائمردی، مسلمان ملکوں میں مذہبی بیداری اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی دیگر بہت سی علامتوں اورنشانیوں کو ایرانیت اور شیعیت کے دائرے میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس بیداری کے لئے عالم اسلام کی ہمہ گير حمایت کو معمولی اور غیر اہم ظاہر کر سکیں، لیکن یہ ہتھکنڈہ سنت الہی کے مقابلے میں جو مجاہدین فی سبیل اللہ اور دین خدا کی مدد کرنے والوں کی کامیابی ہے نہیں ٹھہر سکے گا۔ آنے والا دور امت اسلامیہ کا دور ہوگا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی طاقت و توانائي، صلاحیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے اس نئے دور کی جانب پیش قدمی کے عمل کو سرعت بخش سکتا ہے۔ حج کے مناسک آپ جیسے خوش قسمت حاجیوں کے لئے ایک بڑا اور بہترین موقع ہے کہ خود کو پہلے سے زیادہ اپنے اوپر عائد اس فریضے کی ادائیگي کے لئے آمادہ کریں۔ امید ہے کہ توفیق الہی اور حضرت مہدی موعود عجل اللہ لہ الفرج کی دعا اس عظیم مقصد تک پہنچنے میں آپ کی مدد کرے گی ۔و السلام علیکم و رحمه الله و برکاته السید علی الحسینی الخامنه ای 4 ذی الحجه 1428 هجری قمری12 دسمبر 2007
بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحيم
اسلامي ممالک سے تشريف لانے والے اپنے تما م مہمانوں کو آپ کے اپنے وطن ''ايران‘‘ميں خوش آمديد کہتا ہوں۔آج آپ اپنے گھر ميں اور اپنے بھائيوں کے درميان موجود ہيں۔ بين الاقوامي سطح پر اسلامي ممالک کي عدليہ کے سربراہوں کا اپني نوعيت کا حساس اور اہم ترين اجلاس ہماري نظر ميں ايک سنہری موقع ہے جس سے ہميں زيادہ سے زيادہ استفادہ کرنا چاہئے۔اِس قسم کے اجلاسوں اور ملاقاتوں سے ہم اپنے مسلم بھائیوں سے متعارف ہوتے ہیں جو کہ بڑی اہم چیز ہے۔
مسلمان ہوتے ہوئے بھی ايک دوسرے سے نا آشنا اور اجنبي!
اُمت ِ مسلمہ کے دشمن عرصہ دراز سے ہم مسلمانوں کي غفلت سے بہت فائد ہ اُٹھاتے رہے ہیں اوراُنہوں نے مختلف حربوں کوبروئے کارلاتے ہوئے ہميں ايک دوسرے سے دور اور جدا کر ديا ہے، ہمارے درميان جدائي اور فاصلے ڈال کر ہميں ايک دوسرے سے بے گانہ بنا ديا ہے اور ہميں ايک دوسرے کي بابت بدگمانی و غلطفہمی ميں مبتلا کرديا ہے۔ ہم وہ بھائي ہيں جو آپس میں غیروں اور بےگانوں کی طرح ملتے ہیں۔ امت ِ مسلمہ کے اندے ہماری اس حالت کا، دشمن پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ ہميں ہر حالت ميں اس کاسد باب کرنا چاہئے اور اِس قسم کے يہ اجلاس اِس راستے ميں سنگ ِميل ثابت ہوں گے۔
مسلمانوں کا اتحاد اُن کے مشترکہ اہداف تک رسائي کيلئے نا گزير ہے
امت ِ مسلمہ ايک بڑے اور زندہ پیکر کي مانند ہے، اِس کے اپنے اہداف، آرزوئيں اورامنگیں ہیں۔ يہ اہداف اور يہ آرزوئيں کسي ايک قوم یا کسي ايک اسلامي ملک سے مختص نہيں ہيں؛ بلکہ يہ پوري دنيائے اسلام کي مشترکہ آرزوئيں ہيں۔ اِن آرزوؤں کو پورا کرنے کيلئے ضروري ہے کہ ہم ايک دوسرے سے نزديک ہوں۔ اسلامي حکومتوں کي قربت اُن کي اقوام کي دوستی کا سبب بنے گي اور جب يہ اقوام ايک دوسرے کے نزديک ہو جائيں گي تو اُ س وقت اپنے تجربات، ہمت وحوصلے اور اپني اچھي اور پسنديدہ صفات کا ايک دوسرے سے تبادلہ کريں گي، نتيجتا امت ِمسلمہ کو جو چيزملے گي وہ بہت قيمتي ہو گي۔
اگرمسلمان فقہا کے مرتب کردہ قوانين ہمارا نقطہ اتحاد ہو تے!
آج ہم دنيائے اسلام کے پيکر واحد پر استعماري طاقتوں کي جانب سے مسلسل ضربوں کا مشاہدہ کر رہے ہيں؛ يہ حملے کسي ايک ملک يا قوم پر نہيں بلکہ پوري امت ِ مسلمہ پر ہو رہے ہيں۔ ايک حملہ اسلامي قوانین اور اسلامي عدالتی نظام پر ہو رہاہے۔ اسلام بہترين اورترقی یافتہ ترين عدالتی قوانين کا حامل ہے اور اِسي طرح اسلام ميں بيا ن کيے گئے (حشرات وحيوانات کي سطح سے لے کر انسانوں اور اُس سے بھي بڑھ کے تمام موجودات کی سطح تک) تمام حقوق و قوانین، دنيا کے ترقی یافتہ اور عالي ترين قوانین سے بالا و برتر ہیں۔ اِس با ت کو سب اچھي طرح ديکھ سکتے ہيں۔ آپ تاريخ کے اوراق ميں اسلامي ممالک کے عدالتی اور قانونی مسائل، حدود وتعزيرات اور ديت وغيرہ کے مسائل اورعدليہ کے قوانين کو مرتب و مدوّن کرنے کے سلسلے ميں مسلمان فقہا و علما کی کوششوں کا جائزہ ليجئے۔ جب ہم اِن قوانين پر نگاہ ڈالتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ يہ بہت ہي قيمتي قوانين ہيں۔ اگر ہم مسلمان، تاريخ ميں مرتب کيے جانے والے اِ ن قوانين پر اپني توجہ مرکوز کرتے اوراِنہي کواپنا نقطہ اتحاد قرار ديتے تو ہم آج حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ دنيائے اسلام ميں يہ کا م انجام نہ پا سکا۔ استعماري طاقتوں نے جس طرح امت ِ مسلمہ کي'' سياست اور اقتصاد‘‘ پرغلبہ پايا اُسي طرح اسلامي ممالک کے عدالتی نظام کو بھی اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ ہماري عدليہ بغیر کسی وجہ کے مغربی عدلیہ میں تبدیل ہو گئی۔ يہ ہيں امت ِ مسلمہ کے درد اور مشکلات۔!
آج امت ِ مسلمہ کوخود اعتمادی اور خدا ئے وحدہ لا شریک لہ کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنے کي اشد ضرورت ہے؛ ہميں اپنی خوداعتمادی دوبارہ حاصل کرنا چاہئے۔جب ايک انسان دنيائے اسلام پر نگاہ ڈالتا ہے تو وہ ديکھتا ہے کہ ايک فقيہ فتويٰ دينے ميں خود اعتمادی کی کمی سے دوچار ہے، قاضي عدالت ميں آزادانہ فيصلے کرنے ميں ہچکچاتا ہے وہ مغرب کی تشہیراتی مہم سے گھبراتا ہے۔ آج پوري دنيائے اسلام کوخود اعتمادی کي ضرورت ہے۔ سیاسی میدان ہو ثقافتی میدان ہو اقتصادی میدان ہو یا عدالتی نظام ہر مرحلے پر خود اعتمادی کی ضرورت ہے ۔
قرآن و سنت کي حقيقي تعليمات سے عصر حاضر کے مسائل کا تصفیہ
ہم کبھي اِس چيز کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ ايک فقیہ ايک اسلامي حکم کو صراحت کے ساتھ بيان نہيں کرتا ہے یا اُس کا انکار کر تا ہے کيونکہ مغرب کے سياستدان اُسے پسند نہيں کرتے ہيں، يہ بہت ہي بري با ت ہے۔ ہر( چيز کے اچھے اوربر ے ہونے) کا ہمارے پا س ''معيار‘‘ موجود ہے اور وہ ''قرآن و سنت‘‘ ہے۔ يہ وہ معيار ہيں کہ جو آج اکيسويں صدي ميں بھی انساني زندگي کی صحيح سمت ميں راہنمائي کيلئے بہت مفيد اور کا رآمد ہيں۔ايسا نہيں ہے کہ ہم قرآن و سنت کے چودہ سو سال قبل بيا ن کيے جانے والے معياروں پر عمل پيرا ہونے کي وجہ سے دنيا سے پيچھے رہ گئے ہيں، اگر ہم اسلامي احکا مات کي جانب صحيح طور پر رجوع کريں اور اُنہيں نا فذ کريں تو ہم عصر حاضر کے انسان کي تمام ضرورتوں کو مغربي ثقافت سے زيادہ بہتر انداز سے پورا کر سکتے ہيں۔
دنيا پر مغربي ثقافت کے تسلط وغلبے کے نتائج!
آپ دنيا ميں مغربی ثقافت کے غلبے اور تسلط کا نتيجہ خود اپني آنکھوں سے دیکھ رہے ہيں؛ آج دنيا ميں عدل و انصاف عنقا ہے، امن و امان کا دور دور تک کو ئي نا م ونشان نہيں ہے، انسانوں کے درمیان سے اخوت و برادري اُٹھ گئي ہے اور اِس کے بر عکس ايک دو سرے سے دشمني، کينہ اورمنافقت کا بول بالا ہے، بے مہار استعماري طاقتوں کا تسلط اور قبضہ آپکو جگہ جگہ نظر آرہا ہے۔ دوستو! يہ سب مغربي ثقافت اور دنيا پر اُس کے تسلط و قبضے کے نتا ئج ہيں۔
غير مسلم اقليتوں سے اسلام کاسلوک!
آپ آزادي قلم وصحافت کادعويٰ کرنے والے ممالک ميں مسلمان اقليتوں سے اُن کے رويے اور سلوک کا جائزہ لیں اور اُ ن کے اِس رويے اور سلوک کا تاريخ کے مختلف حصوں ميں اسلامي ممالک ميں موجودغير مسلم اقليتوں سے اسلام کے برتاؤ سے موازنہ کريں۔ خلفائے راشدين کے زمانے ميں ہو نے والي فتوحات کے بعد مسلمان جس علاقے ميں بھي گئے ، اختمام جنگ کےبعد اُن کي حکومت و اقتدار کے زمانے ميں غير مسلموں سے اُن کا رويہ اور سلوک مہرباني اور رحمدلي سے لبریز تھا۔ مشرقي روم کے اِسي علاقے کو ہی لے ليجئے جہاں بہت سے يہودي زندگي بسر کرتے تھے۔اِن تمام واقعات کو تاريخ نے ذکر کيا ہے کہ جب مسلمان وہاں گئے تو يہوديوں نے قسم کھائي؛'' وَالتَّورَاۃِ لِعَدلِکُم اَحَبُّ اِلَينَا مِمَّا مَضيٰ عَلَينَا ‘‘؛''توریت کي قسم ، آپ مسلمانوں کا عدل و انصاف ہميں اپنے ماضي کے مقابلے میں بہت پسند ہے‘‘ وہ تقريباً اِسي قسم کے الفاظ سے مسلمانوں کے عدل وانصاف کوسراہتے تھے۔
ايران ميں غير مسلم اقليتوں کي آزادي!
آج آپ اسلامي جمہوریہ ایران پرنظر ڈاليے، ہمارے ملک میں يہودي، عيسائي اور آتش پرست آزادانہ زندگي بسر کر رہے ہيں، يہ اقليتيں انتخابات ميں آزادانہ طور پرحصہ لے کر اپنے نمائندے پارليمنٹ ميں بھيجتي ہيں اوراپنے مذہب پر بغير کسي روک ٹوک کے آزادانہ طور پر عمل کرتي ہيں۔ دوسرے اسلامي ممالک ميں بھي يہي صورتحال ہے ، يہ ہے اسلام ! آپ اِن اقليتوں سے اسلام کے سلوک کا آج کي مہذب اور بظاہر انساني حقوق کي طرفدار حکومتوں کے اس برتاؤ سے موازنہ کريں جو وہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےساتھ روا رکھتی ہیں۔
اسلام ہي عالمي سطح پر عدل وانصاف اور امن و امان کا ضامن بن سکتا ہے
آج دنيا عدل وانصاف کي پیاسی ہے، وہ امن و امان کي طالب ہے اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکا ر ہے؛ يہ اسلام ہي ہے جو اِن تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ مغربي تہذیب و ثقافت نے يہ بات ثابت کر دي ہے کہ وہ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے عاجز کو قاصر ہے۔ آپ آج دنيا کي موجودہ حا لت پر ايک سرسری نگاہ ڈاليے، فلسطين کو ديکھئے، صہيوني صاحبان اقتدار کھلے عام اِس بات کا اظہار کر رہے ہيں کہ''اگر ہم صہيونيوں اور فلسطينيوں کے درميان غصب شدہ فلسطيني سرزمين برابر برابر تقسيم ہو جائے تو جو کچھ جنوبي افريقہ ميں وقوع پذير ہوا تھا وہي چيز ہميں بھي حاصل ہو جائے گي! يعني وہ اِس با ت کا اقرار کر رہے ہيں کہ وہ نسل پرستي کي ترويج و حمايت کر رہے ہيں گويا وہ طبقاتي نظام اور نسل پر ستي کا اعتراف کر رہے ہيں۔ دنيا اِن تمام واقعات کا اپني آنکھوں سے مشاہدہ کر رہي ہے، مغربي تہذیب و ثقافت کے پنجوں ميں جکڑي ہوئي دنيا يہ سب ديکھ رہي ہے ليکن اُس نے اپنی زبان پر تالے لگا ليے ہيں اور وہ اپنےفرائض کي انجام دہي سے گریز کر رہی ہے۔
يہ ہمارے لئے خطرے کي گھنٹي ہے اور ہم مسلمانوں انتباہ ہے کہ ہميں خود اعتمادی پيدا کر نا ہوگی، ہميں خدا وندعالم کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے اوراِس با ت کو اچھي طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ہم اپنے عقيدے، طرزفکر، تدبير، منصونہ بندي اوراتحاد کے ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے تو خدا وندعالم بھي ہماري مدد فرما ئے گا اور ہميں کاميابي سے ہمکنار کرے گا۔ ہميں اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہئے، خدا وند عالم قرآن کريم ميں ايسے لوگوں کي مذمت کرتا ہے جو اُس کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہيں:''وَيُعَذِّبُ المُنَا فِقِينَ وَالمُنَافِقَاتِ وَالمُشرِکِينَ وَالمُشرِکَاتِ الظَّانِّينَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السّوئِ عَلَيھِم دَائِرَۃُ السُّوئِ وَغَضبَ اللّٰہُ عَلَيھِم وَلَعَنَھُم وَاَعَدَّلَھُم جَھَنَّمَ وَسَا ئت مَصِيراً‘‘ اللہ تعالي منافق مردوں عورتوں اورمشر ک مردوں و عورتوں کو عذاب دے تا ہےجو اللہ تعالي کے بارے ميں بدگمانی کا شکار ہیں، اِن پر خدا نےاپنا غضب نا زل کيا ہے اوراِن پر لعنت کي ہے اور اِن کيلئے جھنم تيا رکيا ہے۔لہذا ہميں خدا کي ذات پر بھروسہ و توکل رکھناچاہئے۔ ہم نے کب اور کہاں کوئي عمل انجام ديا اور کوئي اقدام کيا کہ جس میں خدا وند عالم نے ہماري مدد نہ کي ہو؟ ہميں وہیں مشکلات کا سامنا ہوا اور ہم وہیں کمزوري اور شکست سے دوچار ہوئے جہاں ہم نے عمل انجام نہيں ديا تھا اور اپني ذمہ داريوں اور فرائض سے کنا رہ کشي اختيار کي، ليکن جہاں بھي ہم نے اپني ذمہ داريوں کو پورا کيا خدا وند عالم نے وہاں ہماري مدد فرمائي اور يہ خدا کا وعدہ ہے؛''وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ لَيَستَخلِفَنَّھُم فِي الاَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِينَ مِن قَبلھِم‘‘؛ اور اِس طرح دوسری آيات میں بھی یہی بات کہی کئي ہے۔
مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے عدالتی نظام اور عدلیہ کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے
آج کے اِ س بين الاقوامي اجلاس میں جو با ت کہي جا سکتي ہے وہ يہ ہے کہ ہم اسلامي عدليہ کے قوانين ميں اپني آرا و نظريات کی آزادی، خود اعتمادی اور قرآن ميں بيان کي گئي اسلامي تعليمات کي طرف واپس آئیں۔ اِس قسم کے اجلاس اور نشستيں اِس راہ ميں ہماري مدد کر سکتي ہيں۔ بہت خوشي کي با ت ہے کہ اسلامي ممالک نے اِس سلسلے ميں بہت اچھے تجربا ت حاصل کئے ہيں اور ہمارے پاس بھي اچھے تجربا ت موجود ہيں۔ اسلامي انقلاب کي کا ميابي کے بعد گزرنے والي اِن تين دہا ئيوں ميں ہمیں مفید تجربات حاصل ہوئے ہيں ليکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بھائيوں کے قيمتي تجربا ت سے بھي استفادہ کريں گے اور وہ ہمارے تجربا ت سے مستفيد ہوسکتے ہیں۔ ہم ايک دوسرے کي مدد کريں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تا کہ اسلامي عدالتی نظام اورعدليہ کو جو ايک عظيم الشان عمارت کي مانند ہے ، حقيقي معنيٰ ميں رفعت و بلندي حاصل ہو سکے۔
اِس اجلاس ميں شرکت کرنے والے مہمانوں اور ميزبا نوں کي جا نب سے بہت اچھي آرا وتجاويز سامنے آئي ہيں، ميں نے سب کو سنا ہے، يہ بہت اچھي تجاويز ہيں اور ہم اِن تجاويز کو عملي جامہ پہنانے کيلئے ايک بين الاقوامي کميٹي یا کميشن تشکيل دينے کي حمايت کرتے ہيں۔ ہميں ايک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ايک دوسرے کي مدد کرني چاہئے تا کہ موجودہ زمانے ميں اسلامي ممالک ترقي کر سکيں۔ اِس با ت کي طرف توجہ رہے کہ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے اور باہمی قربت سے بہت سی طاقتيں ناخوش ہيں اور وہ اِس با ت کو ہر گز پسند نہيں کريں گي۔ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے پر ہمارے مخالفين خاموش نہيں بيٹھے رہيں گے؛اِس کي طر ف بھي متوجہ رہيں۔ مل جل کر فيصلہ کريں اور اللہ تعالی کی مدد سے باہمی تعاون کےساتھ اپنے امور انجام دیں۔ اپنے اِس کا م کيلئے اللہ تعالی سے توفيق کی دعا کيجئے، اُ س سے مدد طلب کیجئے۔ اِ ن شائ اللہ اُميد رکھيں کہ خدا وند عالم ہماري مدد و اعانت فر مائے گا۔
مجھے اُميد ہے کہ تہران اور دوسرے مقامات پر آپ کا سفر اچھا گزرےگا اور آپ ايران سے اچھي ياديں اپنے ہمراہ لے کر جائيں۔
والسّلام عليکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ سب عزیز نوجوانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ ان فارغ التحصیل طلبہ کوبھی جو آج سے پولیس کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور ملک کی عملی خدمت کے میدان میں داخل ہوں گے ؛ اور ان عزیز نوجوانوں کو بھی جو آج باضابطہ طور پر اس علمی اور تربیتی مرکز کے طالب علم بن جائیں گے ۔
اگر انسان تعلیم اور زندگي کے راستے کے انتخاب کے لیے اہم مقاصد میں سے کسی مقصد کو چننا چاہے تو بلا شبہ جو مقصد آپ نے چنا ہے وہ ایک بہترین اور برترین مقصد ہوگا۔ آپ کو اس توفیق کی قدر کرنی چاہیے، خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور خود پر فخر کرنا چاہیے؛ کیونکہ امن و سلامتی ایک انتہائی اہم امر ہے ۔آپ دیکھیے کہ خداوند متعال قرآن کریم میں ، وآمنھم من خوف ، امن و سلامتی کو ایک بڑی نعمت شمار کرتا ہے ۔
امن و سلامتی تمام کامیابیوں اور ترقیوں کی پہلی منزل ہے۔ اس کے علاوہ اگر معاشرے میں امن و امان نہ ہو اور عوام کو بدامنی کا دھڑکا لگا رہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا ایک بڑا حق پامال ہوا ہے۔ آپ نے اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیا ہے؛ اس فریضے کو نبھانے کا عہد کیا ہے۔
مختلف زمانوں میں انسانی معاشروں کے تمام طبقوں میں ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جو قانون شکنی اور دوسروں کی خواہشات پر اپنی ناجائز خواہشات کو ترجیح دے کر معاشرے میں بدامنی کے اسباب فراہم کرتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی لگام کون کسے؟ جس ادارے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اعلی انسانی خصوصیات میں سے دو اہم خصوصیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایک تو لوگوں سے اس کی ہمدردی ہے کہ وہ ان کا دفاع کرنا چاہتا ہے، ان کے امن و امان کو تحفظ دینا چاہتا ہے؛ دوسرے وہ ان لوگوں کے خلاف طاقت اور زور بازو کا استعمال کرتا ہے؛ جو معاشرے میں قانون اور نظم و ضبط کو اپنا بازیچہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون کے احترام کے بجائے جو سب لوگوں کے لیے لازمی ہے، سینہ زوری پر اتر آتے ہیں۔ یہ ادارہ ایک طرف تو لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا برتاؤ کرتا ہے اور دوسری طرف، ان لوگوں کے سلسلے میں طاقت کا استعمال اور سختی کرتا ہے جنہوں نے دوسروں کے حقوق کو پامال کیا۔ ان دونوں خصوصیتوں پیدا ہونا ضروری ہے۔آپ کو اس بات پر فخر اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کو ایسی ذمہ داری ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فریضے کی اہمیت کے بارے میں بھی سوچیں اور خود کو حقیقی معنی میں آمادہ کریں۔
ہماری پولیس شاہی حکومت کے گذشتہ طاغوتی دور بہ نسبت بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے؛ آپ لوگ اس وقت پیدا نہیں ہوئےہوں گے۔ زمین آسمان کا فرق پیدا ہوا ہے۔ ایک دن وہ تھا جب اس ملک میں پولیس حکام لوگوں کو ڈرانے دھمکانے ان میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے تھے؛ آج پولیس کے افراد، عوام کے اپنے لوگ ہیں، ان کے ہمراہ ہیں، عوام کی پشت پناہی کر رہے ہیں؛ لوگوں کا ان پر اعتماد ہے۔ آپ جب میدان عمل میں ہیں اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں، ان امور کو جنہیں لوگ معاشرے میں امن و امان اور نظم ونسق کے لحاظ سے اپنے مسائل کے عنوان سے پیش کرتے ہیں، آپ انہیں ڈھارس دیتے ہیں۔ لوگوں کا آپ پر اعتماد بڑھتاہے؛ وہ تحفظ کا احساس کرتے ہیں؛ آپ سے محبت کرتے ہیں؛ آپ پر فخر کرتے ہیں۔
گذشتہ عرصے کے دوران عوام کے نفسیاتی چین وسکون اور سماجی امن و سلامتی میں خلل ڈالنے والے افراد اور شر پسند عناصر کی پولس نے نکیل کسی نتیجتا عوام نے ہر جگہ آپ کی کامیابی اخلاقی و سماجی صورتحال میں بہتری کا مشاہدہ کیا، انہیں ایسا لگا کہ یہ ان کی اپنی کامیابی ہے، انہیں آپ پر فخر کرے کا موقع ملا۔
میں یہ دعوی تو نہیں کر سکتا کہ آج پولیس ہر جہت سے اسلامی معاشرے کی توقعات پر پوری اتری ہے لیکن میں یہ دعوی ضرور کر سکتا ہوں کہ جو راستہ طے کر کے آج آپ اس منزل پر پہنچے ہیں وہ راستہ انتہائی طویل، پر نشیب و فراز تھا۔ اس پر آگے بڑھنا قابل تحسین ہے، اس پیش قدمی کو ضرور جاری رکھیے۔
فرائض کی ادائگي کے لئے آپ کا سب سے بڑا سرمایہ، آپ کا وہ دل ہے جو فرض شناسی، ذمہ داری کے احساس اور عوام کی محبت سے سرشار ہے، جو اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف اقدام کی قوت عطا کرتا ہے جو معاشرے کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کا کام بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ ظریف اور پیچیدہ بھی ہے۔عزیز نوجوانو! جتنا ہو سکے خود کو آمادہ کرو۔
اللہ تعالی کی عنایت اور اسلامی انقلاب کی برکت سے ہمیں علمی، سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت ملی، قومی عزت و افتخار حاصل ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تحفظ کے احساس کی ضرورت ہے۔جس طرح کسی شخص کی کامیابی سے دوسرے افراد حسد کرتے ہیں ایک ملت کو بھی کامیابی کی مزلیں طے کرتا دیکھ کر حاسد جلنے لگتے ہیں لہذا جب کسی شخص کو کوئی کامیابی حاصل ہو تو اسے خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حاسدوں کی نگاہوں سے بھی بچنا چاہئے۔ قوم بھی اسی طرح ہے۔ایسے لوگ ہیں جو صرف برا چاہتے ہیں حسد کرتے ہیں وہ ایرانی قوم کی ترقی و پیشرفت سے سخت ناراض ہیں؛ اس لیے کہ انہوں ( بیرونی طاقتوں ) نے اس علاقے میں اپنے لیے جو مفادات مدنظر رکھے ہیں ان کا حصول، قوموں کی علمی سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت کی صورت میں ممکن نہ ہوگا۔ اس قسم کے عناصر، یہ دشمن، یہ حاسد اور یہ بدخواہ باقی نہیں رہیں گے۔ ہر ملک اور قوم کے لیے انتہائي حساس مسائل میں ایک، امن و سلامتی کا مسئلہ ہے؛ آپ کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے۔راستے بحمداللہ ہموار کر دیے گئے ہیں؛ آپ بہ آسانی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اس تربیتی مرکز کا ماحول دینی ہے، روحانی ہے، انتہائی اچھا ہے؛ اس ماحول کو برقرار رکھیے اسے اور اچھا بنائیے۔ آپ طلبا جو اس یونیورسٹی میں داخل ہوئے ہیں اور اسی طرح جو طلبا یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر عملی میدان میں داخل ہوں گے، آپ سب اس بات پر توجہ دیں کہ اس جذبے کو ہمیشہ باقی رکھیں؛اس بات کی اجازت نہ دیں کہ مختلف قسم کے عوامل آپ کے اس جذبے کو نقصان پہنچائیں اور آپ کے جوش و ولولے میں کمی واقع ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امن و سلامتی قائم اور تمام لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے عمل میں کسی سیاسی رجحان ھڑے بندی، مذہبی اختلافات اور نسلی و قومی تعصب وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ پر امن ماحول میں سانس لینا، معاشرے کی ہر فرد کا حق ہے۔امن و امان سے محروم صرف وہ شخص رہے جو لوگوں کا امن و امان تہہ و بالا اور درہم برہم کر دیناچاہتا ہے۔ ایسے ہی عناصر پر آپ کا خوف طاری رہنا چاہئے؛ ورنہ قوم کے تمام طبقے چاہے وہ کسی بھی مذہب،کسی بھی دین،کسی بھی سیاسی رجحان اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، سب یکساں اور برابر ہیں ان میں کوئي فرق نہیں ہے، اس عظیم فریضے کے تعلق سے جو آپ کے کاندھوں پر ہے یعنی امن کا قیام۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ خدمت کا پرافتخار دور گزار سکیں، خدا کی بارگاہ میں اور شہداء کی پاکیزہ ارواح کے سامنے سربلند و سرفراز ہوں اور قوم آپ کی اس خدمت گذاری کے نتیجے میں روزبروز زیادہ تحفظ کا احساس کرے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حج کے امور کی انجام دہی میں مصروف منظمین، متعلقہ عہدہ داروں خاص طور سے جناب ری شہری اور جناب خکسار کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بڑی خوشی کا مقام ہے کہ مناسک حج کے لئے تمام انتظامات اور اقدامات خوش اسلوبی سے انجام دئے گئے ہیں۔
دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ افواج جہاں فوجی ساز و سامان اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں وہیں اعلی اخلاقی قدریں اور معنوی و روحانی پہلو بھی ان میں نمایاں ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر اسلامی جمہوری نظام میں خاص طور پر قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے خاص تاکید کی جاتی ہے۔ کیڈٹ کالج کے فارغ التحصیل اور نووارد اسٹوڈنٹس کی مشترکہ تقریب سے رھبر معظم انقلاب حضرت آیت اللھ العظمی خامنھ ای نے اپنے خطاب میں ایسے ہی چند نکات کی جانب اشارہ فرمایا، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پوری اسلامی امہ، ایران کی مؤمن اورسر بلند قوم اور اس محفل میں شریک اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف حکومتی شعبوں کے اعلی' حکام، اسلامی ممالک کے محترم سفیروں، اور آپ تمام حاضرین کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ایک نظر میں عیدالفطر کو اسلامی امہ کےاتحاد اور مسلم اقوام کی یکجہتی کا جشن قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں دل نورانی اورلطیف ہو جاتے ہیں جبکہ انسان کے وجود میں اختلافات کے شیطانی جذبات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عیدالفطر درحقیقت فطرت انسانی کی طرف رجوع ہے۔ ؛خداوندعالم، توحید اور ایک اعلی مرکز کی طرف رجحان، انسانی فطرت کاتقاضہ ہے۔ تمام محرکات اور انسانی جذبات و احساسات یکجا ہو سکتے ہیں اور ان میں ہم آہنگي پیدا ہو سکتی ہے۔
عیدالفطر کی نماز بھی جہان اسلام کے ہر مقام پر اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ لہذا اس دعا میں جو ہم قنوت میں پڑھتے ہیں( الذی جعلتہ للمسلمین عیدا ولمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ ذخرا و شرفا و کرامتا و مزیدا ) یہ عید نبی اکرم کی مقدس ذات کا ایک ذخیرہ ہے، شرف کا ایک وسیلہ ہے، اس مقدس ذات کی کرامت اور اعلی و بلند مقام میں اضافے کا وسیلہ ہے۔کب یہ خصوصیات پیدا ہوتی ہیں؟ اس وقت کہ جب یہ عید مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے۔ قومی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے اور اسلامی امہ کی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔قومی سطح پر جیسا کہ ہماری غیور قوم نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں آج تک اس کا مظاہرہ کیا ہے، اتحاد اور وحدت کلمہ اس کی عزت وسربلندی کا باعث ہے، اس کی طاقت و توانائي کاسرچشمہ ہے۔
ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے جہاں ہماری غیور اور متحد قوم مختلف فرقوں اور مذاہب مشتمل ہے۔ ہمارے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ نسلی تعصب، مذہبی اختلافات، فرقہ واریت کو ایرانی قوم کے سیاسی عمل اور وحدت کلمہ کے عام جذبے او نظرئے پر مسلط کردیں لیکن آج تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے؛ ایران میں بسنے والی مختلف اقوام ایک دوسرے کی ہمدرد ہیں، مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔انہوں ( دشمن )نے بڑی سازشیں کی ہیں۔
انقلاب کی تحریک کے دوران جب فتح و کامرانی کا پرچم بابصیرت انسانوں کو دور سے نظر آنے لگا تھا تو شاہ کی طاغوتی حکومت کے آلہ کار اور ایجنٹ کہتے تھے کہ ایران تقسیم ہو جائے گا۔ وہ اس پر پورا یقین رکھتے تھے۔
ہمارے انقلاب کے اوائل میں ایرانی اقوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے اور مذاہب کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کے لئے بہت زیادہ پیسہ خرج کیا گیا ۔انقلاب ان ساری سازشوں پر غالب آیا۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ہماری غیور قوم کے عظیم الشان مظاہروں میں اس عظیم سرزمین کے سبھی علاقوں سے ہر طبقے اور ہر قوم اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ شریک ہوئے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی ہدف و مقصد کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
دو بھائی اکٹھا زندگی گذار رہے ہیں، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر چل رہے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ بعض مسائل کے سلسلے مین ان کے نظریات مختلف ہوں۔ یہ اختلاف نظر لڑائي جھگڑے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ انقلاب نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے۔ یہ بات ہم نے انقلاب کی برکت سے سیکھی ہے اور اس پر عمل کیا ہے؛ لہذا آج ہماری قوم متحد ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران دشمنوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ جب ہماری قوم میں نسلی و قومی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، مذہبی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، لسانی اختلافات نہیں ڈالے جا سکےتو سیاسی اختلافات پیدا کئے جائيں۔ البتہ ایک چھوٹا سا گروہ دھوکہ بھی کھا گيا اور غلطی کر بیٹھا تاہم قوم کے باشعور اور پڑھے لکھے افراد اس سازش کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں اتحاد کا محور و مرکز، اسلامی جمہوری نظام، اسلام اور قرآن کریم ہے کہ جس پر سب کا یقین اور اعتقاد ہے۔ نماز کے خطبے میں آج صبح میں نے عرض کیا کہ ماہ رمضان کے ایام، ماہ رمضان کی راتیں وطن عزیز کے نوجوانوں کا اعتقاد و ایمان اور ان کی معنوی لطافت، تقرب الہی اور خضوع و خشوع کا مظہر تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔
آج ہماری قوم کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، بہت کم قوموں میں اتنے نوجوان ہیں جو خلوص دل سے ذکر پروردگار کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں، خدا سے رازونیاز کرتے ہیں، پاکیزہ دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، یہ سب اسلام کی برکتیں ہیں۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔ عیدالفطر وہ دن ہے کہ جب ہمیں اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اگر ہمارے دلوں میں کینہ و دشمنی، نفاق اور عناد ہے تو حتی المقدور ہمیں خود کو اس سے نجات دلانا چاہئے۔اپنے دلوں سے ان برے احساسات کو محوکردینا چاہیے۔ ہمارے سامنے ایک طویل راستہ ہے۔ یہ درست ہے کہ انقلاب نے ہمیں اور ہماری تحریک کو سرعت بخشی، ہم نے بہت زیادہ ترقی کی۔ ہم دنیا کی تیسرے درجے کی قوم سے ایک پر وقار قوم میں تبدیل ہو گئے اور ایک ایسی قوم بن گئے جو مسلم اقوام کی مطمح نظر ہے۔ خود اندرونی طور پر بھی ہم نے بہت زیادہ ترقی و پیشرفت کی ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے،لیکن یہ بھی آغاز ہے۔ ابتدائي مرحلہ ہے۔
اسلام میں ترقی کے لئے بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اسلام نے ہمارے سامنے جو چوٹیاں رکھی ہیں وہ بہت بلند ہیں۔ ہمیں ان چوٹیوں کے راستے کو طے کر کے ان کو سر کرنا چاہیے۔ اسلام نے ایک ایسی عرب قوم کو کہ جس نے تہذیب و تمدن کی بو بھی نہیں سونگھی تھی اور انسانی علم و دانش سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا، عالمی سطح پر علم و دانش کی ایسی چوٹی پر پہنچا دیا کہ پوری دنیا کے انسانوں نے اس کے علم و دانش، اس کی معرفت، اس قوم کی تحریروں اور ان کے افکارونظریات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ اسلام کا ہنر ہے۔ ہم مسلمانوں نے خود کو اس چوٹی سے نیچے گرا لیا؛ غلطی ہماری اپنی ہے، ہم نے پستی اور ذلتوں کو قبول کر لیا۔ اس لیے آج عالم اسلام پسماندہ ہے۔ ہم دوبارہ اسی راستے پر چل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمھا علی' قوم حتی' یغیروا ما بانفسھم ہم نے اپنے آپ میں جتنی تبدیلی کی اتنا ہی ہم آگے بڑھے؛ اللہ تعالی ہمیں آگے لے گيا۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ملک کے اندرونی مسائل سے مربوط ہے۔ امتحان بھی زیادہ ہیں۔
اس سال کے آخر میں (2008 اوایل میں ) انتخابات آ رہے ہیں۔ انتخابات ہمارے اتحاد ، ہماری بصیرت و تدبر اور ہمارے قومی شعور کے اظہار اور مظاہرے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انتخابات، انتخابی سرگرمیاں اور انتخابی ماحول اختلاف کا باعث ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد کا باعث ہو سکتا ہے، مثبت اور شفاف مقابلہ آرائي سے پیشرفت کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ ہر پارٹی قوم کی خدمت کے لیے وہ حصہ حاصل کرے جس کے لائق وہ خود کو سمجھتی ہے؛ اس میں کوئی برائي نہیں ہے۔ یہ مثبت رقابت اور مقابلہ معاشرے کو نشاط و شادمانی بخشتا ہے، ہمیں زندہ دل بناتا ہے، ہمارے معاشرے میں جوش و جذبہ بھر دیتا ہے۔ ان انتخابات میں اگر ہم برا طرزعمل اختیار کریں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں، ایک دوسرے سے کینہ رکھیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کریں، اصول و آداب کے برخلاف عمل کریں تو یہ تنزلی، کمزوری اور انحطاط کا سبب بن سکتا ہے، یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، یہ ایک الہی آزمایش ہے ۔
آج عیدالفطر کا دن ہے، جو الہی نعمتوں اور معنوی برکتوں سے سرشار اور بابرکت تیس دن کے ماہ رمضان کے بعد جلوہ افروز ہوا ہے۔ مبارک ہو آپ کو۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ماہ رمضان گزارا ہے، آج عید آئي ہے۔ اسے اعلی' انسانی منزل کی سمت روانگی و سفر کا نقطہ آغاز قرار دیجیے۔ یہ ملک کے داخلی امور سے مربوط ہے۔
اسلامی امہ کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ آپ دیکھیے کہ بین الاقوامی توسیع پسند طاقتیں عالم اسلام کے تمام مسائل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی سینیٹ بل پاس کرتی ہے کہ عراق تقسیم ہوجانا چاہیے۔ آخر آپ ہوتے کون ہیں جو یہ فیصلہ سنا رہے ہیں؟ تو عراقی قوم کس لیے ہے؟ یہ غلط ہے کہ ایک ملک کی قانون ساز اسمبلی دوسرے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرے ۔ ایک اہم اسلامی ملک (عراق ) کو تقسیم کرنا، اس تین حصوں میں بانٹ دینا تاکہ اس پر آسانی سے تسلط قائم کیا جا سکے، اسے اپنا بازیچہ قرار دینا یہ عالم اسلام اورعراقی قوم کے ساتھ سب سے بڑی خیانت اور غداری ہے۔ عراقی حکام نے اس کی مخالفت کی ہے اور وہ حق بجانب ہیں ۔اسے دیکھیے یہ استعمار کی سامراجی اور خودسرانہ مداخلت کی ایک مثال ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟
مسئلہ فلسطین اس کی دوسری مثال ہے۔ اب چونکہ صیہونیوں کو مسلمان عرب نوجوانوں سے منہ توڑ جواب ملا ہے، اس لیے اب وہ صیہونیوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور کسی طرح اس شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ امن کانفرنس تشکیل دیتے ہیں۔ یہ امن کانفرنس ہے؟ امن کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے تمام حقوق سے محروم کردیا جائے، اور دوسروں کے کام میں بے جا مداخلت کرنے والے ایک بے سروپا اور غاصب گروہ کو ملت فلسطین پر مسلط کرکے اس قوم کو اس کے گھربار، حق زندگی، زمین اور وطن سے محروم کردیا جائے، اس کے بعد اسی قوم کے خلاف قانون پاس کیا جائے اقدامات کئے جائيں ! آپ کو اس کا کوئی حق نہیں ہے! امن کانفرنس اس لیے ہے؟ فلسطینی عوام کو گذشتہ کانفرنسوں سے کیا ملا ہے؟ بتائیے، آج غزہ میں عوامی حکومت منتخب ہوئی ہے۔ یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اس میں کوئی شک ہے؟ عوام نے اس حکومت کو منتخب کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اگر یہ ایسی حکومت ہے جسے فلسطینی قوم نے منتخب کیا ہے تو پھر امریکہ اور اس کے پٹھو کسی ملک کو کیا حق ہے کہ وہ اس قوم کے مسائل میں مداخلت کریں اور اپنی مرضی چلائیں ۔ یہ اس قوم کا حق ہے! فلسطینیوں نے کہا ہے کہ ہم مخالف ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ یہ فلسطینیوں کے خلاف سازش ہے۔ علاقے کی بعض حکومتیں ماضی میں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہیں ہیں- اس وقت کہ جب ان سازشی کانفرنسوں کو بعض ملکوں نے فلسطینی عوام کے نام پر قبول کر لیا تھا۔ (اس وقت کہا گیا ) کہ فلسطینیوں نے قبول کیا ہے۔ آپ فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہ بنیں اب کیا ہوا؟ اب توخود فلسطینی کہتے ہیں کہ ہمیں یہ امن کانفرنس قبول نہیں ہے، اب کیوں اسے مکروفریب قرار دیتے ہیں۔ کیوں بعض ممالک اس سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں حالانکہ یہ فلسطینی قوم کی خواہش کے برخلاف ہے، عالم اسلام کی خواہش کے برخلاف ہے، خود علاقے کی حکومتوں کی خواہش کے برخلاف ہے، کیوں یہ مداخلتیں کی جاتی ہیں؟ کیونکہ ہم آپس میں متحد نہیں ہیں، کیونکہ ہماری طاقت ایک دوسرے کی تقویت کا باعث نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔اگر عالم اسلام کے کسی بھی علاقے میں مسلمان ممالک کسی بھی زبان اور آبادی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں اور ایک ہی بات کریں تو پھر امریکہ یا کسی اور طاقت کو اسلامی امہ کے خلاف بات کرنے اور اقدام کرنے کی جرئت نہیں ہو گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران نہیں کہتا کہ دوسری حکومتیں وہی کہیں جو ہم کہتے ہیں۔ آئیں مل بیٹھ کر مسئلہ فلسطین کے بارے میں کسی بھی توسیع پسند اور مداخلت پسند بڑی طاقت کی خواہش کو پیش نظر رکھے بغیر فیصلہ کریں، اسی فیصلے کا اعلان کریں، فیصلے کو قبول کرنا یا نہ کرنا خود فلسطینی قوم کا حق ہے ۔ کیوں دنیا کے دوسرے کونے سے اٹھ کر کوئی آئے اور ان کی پوری کوشش یہ ہو کہ ، اس علاقے میں سامراج اور استعمار کی اس ناجائز اولاد اسرائیل کے لیے امن و سلامتی فراہم کریں۔ چاہے قومیں تباہ و برباد ہو جائيں؛ جو ہوتا ہے ہو جائے۔ یہ ہماری کمزوری کا نتیجہ ہے۔
آبادی بتخانہ ز ویرانی ما ست جمعیت کفر از پریشانی ما ست
ہم مسلم قوموں کو اکٹھا ہونا چاہیے، ہم مسلمان حکومتوں کو اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ ہماری طاقت کا لوہا مانا جائے۔ آپ خود کو پیش کر سکیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا کہنا ہے۔ ہم یہ بات کہتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔ سامراج بھی ہم سے دشمنی رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال آپ ایٹمی توانائی کے مسئلے اور دوسرے امور میں دیکھ رہے ہیں۔ الحمد للہ سامراج کی دشمنیوں کا بھی ہماری قوم پر نہ تو اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔
خدا ہمیں ہدایت دے۔ خدا ہمیں اس امر کی ہدایت دے جو اسلامی امہ کے حق میں ہے اور یہ حساس تاریخی لمحہ، جس کا متقاضی ہے اور خدا ہمیں اس کی توفیق دے اور ہماری مدد کرے۔
پروردگارا ! شہداء عزيز راہ اسلام ،خصوصا اسلامی جمہوریہ کے مظلوم شہداء اور فلسطین،عراق اور دیگر مسلمان قوموں کے شہیدوں کی ارواح طیبہ پر اپنی رحمت نازل فرما اور امام خمینی بزرگوار (رہ) کی پاک روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما اور امام زمانہ( ارواحنا فداہ ) کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خطبہ اول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمہ للہ الذی خلق السموات والارض و جعل الظلمات والنور ثم الذین کفروا بربھم یعدلون ۔نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی' حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرہ و مبلغ رسالاتہ بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی' آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و علی' صحبہ المنتجبین۔
عید سعید فطر کی پورے عالم اسلام کے تمام روزہ دار مؤمنوں اور مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ خاص طور پر ایران کی مؤمن اور غیور قوم اور آپ نماز گزار بہنوں اور بھائیوں کو۔
عید الفطر درحقیقت عید شکر ہے، ضیافت الہی کا ایک مہینہ کامیابی سے گزارنے کا شکر، روزہ داری کا شکر، عبادت، ذکر، خشوع اور بارگاہ کبریائی سے توسل کی توفیق کا شکر، حقیقت میں اس شکر کے لیے بھی مؤمن انسان کو عید منانی چاہیے۔ میرے پاس جو ٹھوس اور باوثوق معلومات ہیں ان کے مطابق ایران کی عزیز قوم نے اس مہینے (رمضان ) سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ہماری قوم نے حقیقتا رمضان المبارک کے مہینے سے فائدہ اٹھایا ہے، معاشرے کے تمام طبقے، مختلف رجحانات رکھنے والے لوگ اور وہ لوگ کہ جن کی روزمرہ کی زندگی، ان کے طرزعمل،لباس اور طور طریقوں میں ایک دوسرے کے ساتھ قدرے فرق پایا جاتا ہے، سب آئے۔ خدا کا اس عظیم نعمت پر کہ جو مسلمان قوم کے ایمان اور اس کے دین اور دینی و اسلامی حقائق پر قلبی ایمان کی نعمت ہے، بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قوم کی ایک اہم نمایاں خصوصیت ہے۔ جو کچھ ذرائع ابلاغ مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں لوگوں کی دینداری کے بارے میں بتایا جاتا ہے، بلاشبہ وہ لوگوں کے خلوص اور خضوع و خشوع کا ایک گوشہ ہے۔ وطن عزيز میں، ان تمام شہروں میں، ان تمام دیہاتوں میں، ہزاروں مساجد، امام بارگاہوں اور مختلف مراکز میں اس مہینے کی شبہائے قدر اور دیگر راتوں میں یہ لوگ، یہ نوجوان، یہ بچے اور بچیاں جمع ہوئے، توسل کے لیے ہاتھ بلند کیے، خدا سے حاجت طلب کی، خدا سے ہم کلام ہوئے اور رازونیاز کیا؛ یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
اس مہینے میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں؛ اس قسم کے سبق نہیں جو انسان استاد یا کتاب سے سیکھتا ہے، بلکہ اس قسم کے درس جو انسان ایک عملی مشق میں، ایک عظیم اجتماعی کام کے دوران سیکھتا ہے۔ پہلا سبق خدا سے تعلق اور ذات احدیت اور حضرت حق کے ساتھ قلبی رشتہ قائم رکھنے کا سبق ہے۔ اس سبق کی لذت آپ نے چکھی ہے کہ کس طرح آسانی کے ساتھ خدا سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے (( و ان الراحل الیک قریب المسافۃ و انک لا تحتجب عن خلقک الا ان یحجبھم الاعمال دونک ))خدا کی راہ نزدیک ہے۔ اس کا مشاہدہ آپ نے شب قدر میں کیا؛ توسل، زیارت اور دعا کے موقع پر دیکھا؛ آپ نے رازونیاز کیا؛ اپنا دل خدا کے لیے تحفے میں لے کر گئے اور خدا سے اپنی محبت کو مضبوط کیا اور اسے استحکام بخشا۔ اس یہ سرور اپنے وجود میں برقرار رکھئے۔اس رابطے اور تعلق کو منقطع نہ ہونے دیجیے، یہ ہے پہلا سبق۔
ایک اور سبق مختلف طور طریقوں کے باوجود قوم کا دین اور توحید کے محور پر اکٹھا ہو جانا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں قومی اتحاد، یہ جو ہم کہتے ہیں ایرانی قوم میں یکجہتی ہے، یہ اتحاد و یکجہتی بلا سبب نہیں ہے، صرف ایک نصیحت، ایک حکم اور فرمان کی بنا پر نہیں ہے؛ اس اتحاد کی بنیاد مذہب و ایمان ہے، دین اور اعتقاد ہے جو ہم سب کو ایک مرکز کی طرف لے جاتا ہے؛ وہ مرکز باری تعالی کی ذات اقدس ہے۔ یہ ہماری قومی یکجہتی کا باعث ہے؛ دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے، عطر آگیں کرتا ہے۔ نماز جماعت میں، نماز جمعہ میں، شبہائے قدر میں عبادت، قرآن سر پر رکھنے، دعا اور گریہ و زاری کرنے میں آپ اایک دوسرے کے ہمراہ ہوتے ہیں خواہ وہ کوئي بھی ہو، کسی بھی طرزفکر اور معاشرے کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو، کیسے ہی حلیے کا ہو، آپ کا بھائی ہے؛ آپ کے ہمراہ ہے، پروردگار عالم کی بارگاہ میں آپ کا ہمراز ہے۔ اس قلبی رابطے کو قائم رکھیے؛ یہ بھی ایک درس ہے۔
ایک اور درس خود پر جبر اور سختی کرنا اور دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔ یہ بھوک اور پیاس برداشت کرنا، اذان صبح سے لے کر اذان مغرب تک روزہ رکھنا، یہ خود پر جبر اور سختی کرنا ہے۔ہمارے بہت سے لوگوں نے روزہ رکھ کر خود پر جبر اور سختی کی ہے اور دوسروں پر انواع و اقسام کا انفاق کیا ہے۔انسان کتنی لذت محسوس کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ نیمہ ماہ رمضان کو امام حسن مجتبی (علیہ الصلواۃ والسلام) کی شب ولادت میں ایک تنور کے سامنے بورڈ لگا ہوتا ہے کہ آج رات امام حسن کے عشق میں اس تنور پر روٹی صلواتی(مفت)ہے؛جو چاہتا ہے روٹی لے جائے۔ اس قسم کے انفاق، اپنا نام ظاہر کیے بغیر افطار کا انتظام اور مساجد میں افطار کا بند و بست، یہ عمل ہمارے عوام نے انجام دیا ہے۔یہ ایک اور سبق ہے۔ایک اور مشق ہے۔اپنے اوپر سختی اور جبر کریں اور دوسروں پر انفاق کریں۔ میں اس نکتے پر تھوڑی روشنی ڈالوں گا؛ کیونکہ یہ ہمارے ملک اور معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
ہم اسراف(فضول خرچی) کرنے والے لوگ ہیں؛ ہم اسراف کرتے ہیں؛ پانی میں اسراف، روٹی میں اسراف، مختلف وسائل اور خشک میوے میں اسراف، پٹرول میں اسراف، تیل پیدا کرنے والا ایک ملک پٹرولیم مصنوعات یعنی پٹرول درآمد کرتا ہے! یہ باعث تعجب نہیں ہے؟ ہرسال اربوں خرچ کرکے پٹرول درآمد کریں یا دوسری چیزیں درآمد کریں اس لیے کہ ہمارے ملک اور قوم کے کچھ لوگ فضول خرچی کرنا چاہتے ہیں! کیا یہ درست ہے؟ اسے قومی سطح پر عیب و نقص کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اسراف بری چیز ہے؛ حتی راہ خدا میں انفاق کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔خداوند متعال قرآن میں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے (لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط)خدا کے لیے انفاق میں بھی اسی طرح عمل کرو۔افراط و تفریط نہ کرو۔میانہ روی؛ خرچ کرنے میں میانہ روی لازمی ہے ہمیں قومی سطح پر میانہ روی کو ایک کلچر میں تبدیل کر دینا چاہیے۔قرآن فرماتا ہے(والذین اذا انفقوا) اور وہ لوگ کہ جو، جب انفاق کرتے ہیں،(لم یسرفوا ولم یقتروا)نہ اسراف یعنی زیادہ روی کرتے ہیں، نہ کنجوسی کرتے ہیں۔ خود کو مصیبتوں سے دوچار کر لینا مناسب نہیں اسلام یہ نہیں کہتا۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ لوگ ضرور ریاضت اور زہد کے ساتھ اس طرح کی زندگي گزاریں؛ نہیں، معمولی زندگی گزاریں، متوسط زندگی گزاریں۔یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے لوگ مسلسل کئی برسوں سے ہماری قوم کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے۔ کئی بار بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے لیے امید کی کرن ہماری یہی بری عادت ہے۔ ہمارا شمار اسراف اور فضول خرچی کرنے والے لوگوں میں ہو تو ممکن ہے کہ یہ بائیکاٹ، اسراف اور فضول خرچی کرنے والے کے لیے بھاری اور سخت ہو؛ لیکن اس قوم کے لیے نہیں جو اپنا حساب کتاب رکھتی ہو، جو اپنی آمدنی اور خرچ کا حساب رکھتی ہو،جو اپنے فائدہ و نقصان کا حساب رکھتی ہو،جو زیادہ روی اور افراط نہیں کرتی، اسراف نہیں کرتی۔ اچھا، بائیکاٹ کر دیں۔ان خصوصیات کی حامل قوم کو بائیکاٹ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ماہ رمضان سے اس نکتے کو سیکھیں اور انشاءاللہ اس پر عمل کریں۔
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والعصر ۔ ان الاانسان لفی خسر ۔ الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر
خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما علی امیرالمؤمنین والصدیقۃ الطاہرۃ والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی باقر علم النبیین و جعفر بن محمد الصادق موسی بن جعفر الکاظم وعلی بن موسی الرضا و محمد بن علی الجواد و علی بن محمد الھادی والحسن بن علی الزکی العسکری والخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صل علی ائمۃ المسلمین حماۃ لمستضعفین ھداۃ المؤمنین ۔اوصیکم عباداللہ بتقوی اللہ۔
دوسرے خطبے میں سب سے پہلے یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت پر ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرناچاہوں گا۔ دل سے یہی آواز نکلتی ہے: سلام ہو ایرانی قوم پر! آپ نے دنیا کو اپنی عظمت، اپنا اسلامی تشخص پر رقار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ان جلوسوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔استعماری طاقتوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ فلسطین کے نام و نشان کو مٹا دیں اس مسئلے کو طاق نسیان کی زینت بنا دیں؛ دنیا کے لوگ اور بعد کی نسلیں بھول جائیں کہ کبھی دنیا میں فلسطین نام کی کوئی سرزمین اور ملک بھی تھا؛ ان کا مقصد یہ تھا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اور فلسطینی قوم کی عظیم تحریک نے، چاہے وہ انتفاضہ اول ہو یا انتفاضہ مسجد الاقصی، ایک بار پھر دنیا میں مسئلے کو زندہ کر دیا۔ قوموں، عوام اور دنیا کے انصاف پسندوں حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، انہوں نے اس کا علاج یہ ڈھونڈا کہ وہ اس سرزمین میں واقع عرب فلسطین کو ایک زندان بنا دیں؛ محصور کر دیں۔شاد و آباد اور نعمتوں سے مالامال ملک فلسطین اور اس اسٹراٹیجک اہمیت کے حامل خطے کو مکمل طور پر صیہونیوں کے حوالے کر دیں۔ اس کو صیہونی علاقہ بنا دیں۔ عربوں کو غزہ اور مغربی ساحل کی طرف دھکیل دیں۔
آج بھی آپ صیہونیوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جس قدر ہو سکے فلسطینی عوام میں استقامت و پائیداری کے جذبات کو ختم کر دیں؛ ان کے تمام کام اسی سیاست کے تحت انجام پا رہے ہیں کہ استقامت کا جذبہ ختم کر دیا جائے۔ لیکن فلسطینی عوام ڈٹے ہوئے ہیں۔اول تو یہ کہ انہوں نے جدوجہد ترک نہیں کی، دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنے ووٹوں سے ایک حکومت منتخب کی ہے کہ جس کا نعرہ قابضوں کے خلاف جدوجہد اور استقامت و پائیداری ہے۔ تمام تر دباؤ کے باوجود جو گذ شتہ ایک دو برسوں کے دوران حماس حکومت اور اس علاقے کے عوام پر ڈالا گيا ہے، یہ لوگ مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں؛ مزاحمت کر رہے ہیں لیکن ایک گوشے میں الگ تھلگ محصور قوم کے پاس جس کا دنیا بھر سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے، خدا سے امید کے علاوہ کوئی اور روشنی کی کرن ہونی چاہیے۔ فلسطینیوں کے حق میں مسلمان قوموں کا یہ عظیم نعرہ انہیں جذبہ عطا کرتا ہے؛ ان کے دلوں کو استقامت و پائیداری کے لیے مزید آمادہ کرتا ہے،اس کے علاوہ عالمی رائے عامہ کو فلسطینی کاز کی حقانیت سے آشنا کرتا ہے۔
ایرانی قوم نے ان ( یوم قدس کے) جلوسوں سے اسلامی جمہوریہ کو عزت و آبرو بخشی ہے؛ ایران اور ہر ایرانی کو سربلند کر دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بدستور فلسطین اور فلسطینی قوم کے ساتھ ہیں۔ اسلامی امہ کے دفاع کے لئے صف اول میں موجود ہیں۔یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
فلسطین کےمسائل کے سلسلے میں آج یہ سازش ہو رہی ہے کہ ایک بار پھر امن کے نام پر فلسطینی عوام پر کچھ اور مسلط کر دیا جائے۔اب تک امن کے نام پر جو اجلاس منعقد ہوئے ہیں، ان کا نتیجہ فلسطینی عوام کے خلاف اور ان کے نقصان میں رہا ہے۔ پھر امریکیوں نے ایک اور کانفرنس کی تجویز پیش کی، جسے فلسطینی قوم ٹھکرا چکی ہے۔ اس کانفرنس کو جس کا نام انہوں نے خزاں کانفرنس رکھا، فلسطینیوں نے مسترد کر دیا۔ جب فلسطینی اپنے تعلق سے کوئی کام، کوئی اقدام کرتے ہیں تو دوسری حکومتیں اس کو مسترد کر دیتی ہیں، پھر کس طرح فلسطینی اس کانفرنس کو قبول کر سکتے ہیں۔ جب وہ ( فلسطینی ) اس کانفرنس کو نیرنگ و فریب سمجھتے ہیں تو دوسرے بھی فریب سمجھیں۔ یہ اقدامات درحقیقت صیہونیوں کو نجات دلانے کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے اقدامات ہیں۔ وہ صیہونی کہ جن کی حکومت اور فوج نے گذشتہ سال لبنان کی بہادر اور فداکار تنظیم حزب اللہ سے شکست کا تلخ مزہ چکھا اور اسی طرح فلسطین کی حکومت _ حماس کی حکومت _ کی انکار کی بلند دیوار کا انہیں سامنا ہوا ہے۔ وہ اس ذلت و رسوائی داغ اپنی پیشانی سے صاف کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت وہ فلسطینی کے مقابلے میں فلسطینی کو کھڑا کررہے ہیں۔ میں اگر فلسطینی بھائیوں کو پیغام دینا چاہوں تو ایک جملہ کہوں گا :بھائیو! ایک دوسرے کے مقابل نہ آؤ۔ دشمن آپ کے گھر میں ہے۔ دشمن آپ کے درمیان فتنہ انگيزی کر رہا ہے۔ فلسطینی عوام کو فلسطین بچانا ہوگا، اسلامی امہ کو بھی ان کی حمایت کرنا ہوگي۔ فلسطینی عوام، فلسطینی قوم کومتحد ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین ایک مسئلہ ہے۔ مسئلہ عراق عالم اسلام کا ایک اور مسئلہ ہے۔ ہمارا دل عراق کے لیے خون کے آنسو روتا ہے۔ عراقی قوم کے دشمنوں کی طرف سے تائید و حمایت یافتہ اس اندھی دہشت گردی نے عراقی قوم کی حالت تباہ کر کے رکھ دی ہے۔یہاں بھی پہلی غلطی غاصبوں کی ہے۔ وہ خود امن و امان قائم نہیں کرتے؛ یا نہیں کر سکتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔ عراقی عوامی حکومت کو بھی یہ موقع نہیں دیتے کہ سکیورٹی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لے اور وہ خود کام کرے۔ وہ (غاصب) قصوروار ہیں۔آج عراق میں جو بھی المیہ رونما ہوتا ہے _ انسانی المیہ،سماجی المیہ،سیاسی المیہ _ اس کے پہلے قصوروار اور ذمہ دار غاصبین ہیں؛ یعنی پہلے درجے میں امریکہ اور اس کے بعد اس کے وہ اتحادی ذمہ دار ہیں جو عراق پر فوجی قبضے میں شریک ہیں۔
پروردگارا ! اسلامی امہ کو دشمنوں کے شر سے نجات دے۔ پروردگارا ! اسلامی قوموں اور حکومتوں کو بیدار کر، انہیں طاقت و توانائي عطا فرما۔پروردگارا ! ہمیں اس چیز کی ہدایت و رہنمائی فرما جس میں تیری رضا ہے؛ ہمیں اسے انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! شہدائے اسلام، اسلامی جمہوریہ اور مسلط کردہ جنگ کے شہدا اور امام خمینی(رہ) کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا ! ہمارے حق میں حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ)کی دعا مستجاب فرما اور اس عید کے دن ہمارا سلام اس بزرگوار ( امام زمانہ ع ) کی خدمت میں پہنچا-
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا اعطیناک الکوثر۔فصل لربک وانحر۔ان شانئک ھو الابتر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ حضرات نے جو خیالات پیش کئے، اس پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں؛ ان افراد نے بھی جنہوں نے تنظیموں کی نمایندگی کی ہے اور اسی طرح ان لوگوں نے بھی جنہوں نے اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کیا ہے، بڑی کارآمد باتیں ہم تک پہنچائی ہی، ان میں بعض نکات بہت اہم ہیں۔ انشاءاللہ یہ نظریات اور خیالات عملی اقدامات کی بنیاد قرار پائیں گے۔ البتہ یہ بات بھی اپنے آپ میں بہت اہم دلچسپ ہے بات ہے کہ ہمارے نوجوان، ہمارے طلبہ اہم اور بنیادی مسائل کے بارے میں، چاہے ان کا تعلق یونیورسٹی سے ہو یا سیاسی و سماجی میدان سے، اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں،اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں، مدعا بیان کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے اہم اور دلچسپ ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اس دن سے ڈریے کہ جب یونیورسٹی میں ہمارے طلبہ اور نوجوانوں میں مسائل پر تبصرہ کرنے، سوال اٹھانے اور مطالبات سامنے رکھنے کا جذبہ اور حوصلہ نہ رہے۔ ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم، مختلف میدانوں اور شعبوں کے تعلق سے مطالبات پیش کرنے اور نظریات بیان کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ ہمارے ملک کے نوجوان اور خاص طور پر علم دوست افراد میں جرئت تنقید ضروری ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ بہت سے مطالبات پورے نہ کئے جا سکیں، کیونکہ قلیل مدت میں مطالبات کی تکمیل ظاہر ہے کہ مشکل کام ہے۔ لیکن انہیں مطالبات کے آئینے میں ایک روشن مستقبل کا نظارہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں کو اپنے مطالبات پیش کرنا چاہئے اور ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی احساس رہنا چاہئے کہ مطالبہ کتنا سودمند اور ثمربخش ثابت ہو سکتا ہے، ایسے مطالبات پیش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ مطالبہ کرنے والے کی بھی ذمہ داری ہے کہ صرف اسے پیش کر کے خاموش نہ بیٹھ جائے، نوجوان کی ذمہ داری صرف نعرہ لگانا اور آواز بلند کر دینا نہیں ہے بلکہ اسے چاہئے کہ ہدف تک رسائی کے لئے کوشش جاری رکھے۔ متعلقہ افراد سے رابطہ کرے اور ضرورت پڑے تو خود میدان عمل میں وارد ہو جائے۔یہ ہمارے نوجوانوں کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو مطالبات کےساتھ ہی ان ذمہ داریوں کا بھی پورا پورا احساس اور ادراک ہونا چاہئے۔
ایک بہت اہم مسئلہ، جس کی جانب ایک نوجوان نے اشارہ کیا، وہ قیاس آرائیاں ہیں جو عوام اور قائد انقلاب کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں۔
نشست میں کہی گئی اس بات کو معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سلسلے میں جو قیاس آرائیاں کی گئي ہیں اور جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں، درست نہیں ہیں۔میرا موقف وہی ہے جو منظر عام پر بیان کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بات کا منظر عام پر آنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے تو میں اسے برملا ذکر کرنے سے گریز کروں گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا ہے حقیقت اور سچائی کے خلاف کوئی بات کہوں۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ عوامی سطح پر ایک بات کہی جائے اور پھر خصوصی ملاقاتوں میں اس کی اصلاح کی جائے۔ ایسے بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں جنہیں منظر عام پر لانا حرام ہے۔ایسے مسائل کو موضوع بحث نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر ہم وہ ساری باتیں اور سارے مسائل منظر عام پر لائيں جو ہمارے علم میں ہیں تو ان مسائل سے آپ کو آگاہی تو ہو جائے گي لیکن ہمارے دشمن بھی ان سے باخبر ہو جائیں گے، لہذا ضروی ہے کہ بہت سے حساس مسائل کو پردہ راز میں ہی رہنے دیا جائے لیکن یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ حقیقت کے خلاف بات کی جائے۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ ہمارا موقف وہی ہے جو آپ ہماری زبان سے سن رہے ہیں، چاہے وہ نماز جمعہ میں ہو یا عمومی ملاقاتوں میں، موقف میں کوئي تبدیلی نہیں ہے ۔
ایک اور درخواست کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ منتخب طلبہ کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں انہوں نے اپنے بیان میں بڑے اچھے اور اہم نکات پر گفتگو کی۔ البتہ بعض نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنی بات پیش کی۔ میں تمام نکات نوٹ نہیں کر سکا۔میری آپ سے درخواست ہے کہ جو تجاویز آپ کے پیش نظر ہیں، واضح طور پر ایک کاغذ پر لکھیے، اس طرح آپ کے ذہن میں بھی ان کا صحیح خاکہ تیار ہو جائے گا اور میں بھی ان کا بغور جائزہ لے سکوں گا اور پھر ان تجاویز پر عملدرآمد کی کوشش کی جائے گی۔
طلبہ کے لیے میری نصیحت یہی ہے جو میں نے عرض کی یعنی خواہ سیاسی و سماجی مسائل ہوں، علمی مسائل یا یونیورسٹی کے امور ہوں، ان کے سلسلے میں اپنی تجاویز اور مطالبات ضرور پیش کیجیئے۔ ہاں ان تجاویز کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھ ضرور لیجئے۔ انقلاب کے اوائل سے اب تک، میرا یہی خیال رہا ہے کہ طالب علم کو افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے؛ میں کسی بھی جہت اور سمت میں افراط اور انتہا پسندی کا قائل نہیں ہوں۔ اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عقلی و منطقی نقطہ نظر سے مسائل کا جائزہ لیجئے اور یاد رکھیے کہ آپ کی خواہش اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بے اثر نہیں ہے۔ یہ خیال ذہن میں ہرگز نہ آئے کہ کیا فائدہ ہے ؟ نہیں بالکل فائدہ ہے۔ ابھی ایک عہدہ دار نے انصاف پسندی کا ذکر کیا، اگر ایسا ہوتا کہ انصاف پسندی کا نعرہ لگایا جاتا اور اس کا کوئی اثر نہ ہوتا، معاشرے میں کوئی بھی اسے لائق توجہ نہ سمجھتا تو آپ یقین رکھئے کہ ایک انصاف پسند حکومت اور انصاف پسندی کی ہمہ گير تحریک وجود میں نہ آ پاتی۔ لیکن وجود میں آئي آپ نے کر دکھایا؛ یہ آپ نوجوانوں کا کارنامہ تھا؛ انصاف پسندی کی تحریک کی حیثیت سے،انصاف پسندی کے مسئلے کو پیش کرنے کی حیثیت سے آپ کا موقف قابل ستائش ہے۔ میں اس وقت کسی خاص تنظیم کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوں ، اسے یونیورسٹی کے مؤمن نوجوانوں نے، فرض شناس نوجوانوں نے، ذمہ دار نوجوانوں نے پیش کیا، اس کے بارے میں بات کی اور جب اس کو بار بار دہرایا گيا تو پھر یہ مسئلہ زباں زد خاص و عام ہو گيا۔ نتیجتا اس تحریک کے اثرات، عوامی رجحان،عوامی افکار و نظریات، نعروں اور انتخابات میں صاف طور پر نظر آئے۔ بنا بریں آپ ایک قدم آگے آئے۔
البتہ یونیورسٹی کے طلبہ دریا کے بہاؤ کی مانند ہیں یعنی آج آپ طالب علم ہیں، پانچ سال بعد آپ میں سے اکثر طالب علم نہیں ہوں گے۔ کہیں اور پہنچ چکے ہوں گے، جبکہ آپ کی پہلی جگہ پر نئے چہرے نظر آئیں گے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو دو انداز اور شکلوں میں ہمیشہ برقرار رہ سکتا ہے: ایک خود آپ کی شکل میں، یعنی جب آپ یونیورسٹی کے ماحول سے باہر نکلے تو یہ فراموش نہ کریں کہ طلبہ کی تنظیم میں،طلبہ کے ماحول میں،کلاس روم میں اور میٹنگوں میں آپ کن نظریات کے حامل تھے آپ کیا کہتے تھے، کیا چاہتے تھے آپ کے اہداف اور مقاصد کیا تھے؛ ان کو فراموش نہ کیجیے؛ ان کو محفوظ رکھیے۔ ہماری ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ لوگ چند دن ایک ماحول میں رہتے ہیں، اس کا رنگ اختیار کرتے ہیں لیکن اس ماحول سے جب دور ہوتے ہیں تو اس لوہے کی مانند ہو جاتے ہیں جسے بھٹی سے باہر لایا گيا ہو؛ جب تک وہ بھٹی میں تھا اس کا رنگ سرخ تھا جب باہر لایا گيا تو آہستہ آہستہ اس کا رنگ سیاہ ہونا شروع ہو گيا؛اس طرح نہیں ہونا چاہئے، اندر سے کندن بنیے۔ان افکار کو اپنے دل میں جگہ دیجیے۔
البتہ ضمنی پیرائے میں یہ کام کیجئے ۔اس کا راستہ بھی یہی ہے کہ اسے ایمان اور عقائد سے جوڑیں۔آپ اس فریضہ الہی سے کبھی بھی خود کو الگ نہ سمجھئے۔ جو لوگ جدوجہد کرنے میں کامیاب رہے، جو ڈٹے رہے، جو مشکلات کے مقابل سینہ سپر رہے، انہوں نے اس دستورالعمل، اس نسخے سے فائدہ اٹھایا ہے ورنہ آج آپ طالب علم ہیں، یونیورسٹی کا ماحول ہے، نوجوانی کا زمانہ ہے جوش و جذبہ ہے، انصاف پسندی اور اعتدال پسندی کی باتیں ہیں، امنگیں ہیں، آرزوؤں ہیں۔ ایک وقت وہ آئے گا کہ آپ اس ماحول سے نکل جائیں گے پھر یا تو یہ سب کچھ آپ یکسر فراموش کر دیں گے یا وہ بتدریج آپے کے صفحہ ذہن سے محو ہوتی جائیں گي تو یہ درست نہیں ہے۔یہ تسلسل ٹوٹنا نہیں چاہئے۔
اس تسلسل کے جاری رہنے کی دوسری شکل، یونیورسٹی کی داخلی فضا ہے۔ آج آپ طالب علم ہیں اورآپ کے جذبات و محرکات ہیں؛ یہ بہت اچھی بات ہے، کل پانچ سال بعد،چھ سال بعد تو آپ یہاں نہیں ہوں گے، نئےافراد آ چکے ہوں گے۔ وہ کس کے وارث ہیں؟ دوسرے الفاظ میں، انہیں کس فضا میں سانس لینا ہے اور کس ماحول کو برقرار رکھنا ہے؟ یقینی طور پر اسی ماحول کو بر قرار رکھنا ہے جس کی ذمہ داری آج آپ کے کاندھوں پر ہے، ایک چیز جو میں نے یہاں نوٹ کی ہے جو میں آپ دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں،یہ ہے کہ ہم نے علمی میدان میں دانشورں کی تربیت کی بات کی ہے،میں اب سیاسی دانشوروں کی تربیت پر بھی تاکید کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور تشہیراتی مہم میں سیاسی اور سماجی دانشوروں کو سامنے لایا جائے، لیکن دانشوروں کی تربیت کا ایک حصہ آپ سے بھی تعلق رکھتا ہے؛ یعنی طلبہ تنظیموں کے ماحول میں سیاسی دانشور تربیت پائیں؛ فضا تیار کیجئے۔یہ کام تو یونیورسٹی سے باہر کا نہیں ہے؛ خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ فکروشعور سے کام لیتے ہوئے آپ اپنے بعد آنے والے طلبہ کے لیے بحث و استدلال اور ذہنی رشد کے لئے ماحول کو سازگار بنائیے۔ امید اور حوصلے بڑھائیے، سیاسی شعور کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے منصوبہ بندی کیجیے۔ آپ اطمینان رکھئے کہ آئندہ آنے والے طلبہ آپ کی ہی مانند بلند مقاصد کی سمت قدم بڑھائیں گے۔البتہ بعض باتوں سے ہوشیار بھی رہنا چاہیے؛ گمراہی کو دیکھنا اور پہچاننا چاہیے۔
ایک اور نکتہ جو طلبہ کے مطالبے کے ذیل میں عرض کرنا چاہوں گا، یہ ہے کہ مطالبہ کرنا دشمنی پر اتر آنے سے مختلف ہے۔ میں نے کہا ہے کہ حکام سے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ ہو اور میں اب بھی اس پر تاکید کرتا ہوں؛ تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تنقید نہ کی جائے، مطالبہ نہ کیا جائے؛ قیادت کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ہمارا عزیز بھائی کہتا ہے کہ ضد ولایت فقیہ(ولایت فقیہ کے مخالف) کی وضاحت کیجئے۔تو ٹھیک ہے، آپ کو معلوم ہے کہ ضد کے معنی کیا ہیں۔ضدیت یعنی پنجہ لڑانا، دشمنی کرنا؛ اس کے معنی اعتقاد نہ ہونا نہیں ہے۔اگر میرا آپ پر عقیدہ نہ ہو تو میں آپ کا مخالف (ضد) نہیں ہوں؛ ممکن ہے کوئی کسی پر اعتقاد نہ رکھتا ہو۔البتہ یہ ضد ولایت فقیہ کا جملہ ،آسمان سے اتری ہوئی آیت نہیں ہے کہ ہم کہیں باریکی کے ساتھ اس لفظ کی حدود معین کی جانی چاہییں؛ بہرحال معاشرے میں رائج ایک بات ہے۔دو افراد ہیں، ایک دوسرے کے مخلص ہیں،ایک ہی کلاس میں ہیں، آپس میں مباحثہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتوں کو رد یا قبول کرتے ہیں؛ یہ اس کی بات کو رد کرتا ہے،وہ اس کی بات کو رد کرتا ہے۔بات کو مسترد کرنا،مخالفت دشمنی کے معنی میں نہیں ہے؛ ان مفاہیم کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہیے۔ بنا بریں ہم کسی بھی طرح تنقید کو مخالفت اور دشمنی نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم چونکہ ملکی حکام اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو اس حمایت اور طرفداری کا مطلب یہ ہے کہ تنقید نہیں کرنی چاہیے، یا میں خود تنقید نہیں کروں گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، ممکن ہے بعض مواقع پر میں بھی تنقید کروں۔لیکن ایک ایسی حکومت کی جو واقعا عوام کی خدمت گذار ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے ؛ انصاف کی بات تو یہی ہے کہ جو کام ہو رہے ہیں وہ آپ دیکھ رہے ہیں؛ نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ان کاموں کو نظر انداز کرنا نا انصافی ہوگی۔
بہرحال مجھے طلبہ کے ماحول کے سلسلے میں آپ سے جو امید ہے وہ یہ ہے۔ واقعا ایسا ہی ہو گا ۔آپ اطمینان رکھیے۔ اس لیے کہ انسان کچھ چیزوں کا صحیح اندازہ کرنے پر قادر ہے کیونکہ جہاں ایمان ہو گا اس کے ساتھ جدوجہد بھی ہو گی اور اس کانتیجہ بھی واضح ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کامیابی ملنے والی ہے۔
جس چیز کی ہمیں طلبہ سے توقع ہے، وہ طلبہ کے ماحول میں علمی ترقی و پیشرفت،سیاسی شعور میں اضافہ، دینی نظریات اور ایمان کی گہرائی، معرفت میں اضافہ، روشن خیالی، علم کے میدان میں بھی،سیاست کے میدان میں بھی اور دینی معرفت کے میدان میں بھی نئی منزلیں طے کرنا ہے۔ البتہ یہ کام ہر شعبے کے استاد اور رہنما کی مدد سے ہونا چاہئے۔ ہر علمی کام کے لیے آپ کا ایک استاد ہونا چاہیے۔ دینی معرفت کے کام کے لیے بھی آپ کا کوئی استاد ہونا چاہیے، سیاسی شعور کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ کام آپ کریں گے؛ استاد رہنمائی کرے گا۔ تمام شعبوں اور میدانوں کے سلسلے میں ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے طلبہ کے ماحول کو حقیقی اور قابل ذکر ترقی و پیشرفت کی ضرورت ہے اور یہ ترقی و پیشرفت انشاءاللہ ہوگی۔
پروردگارا ! میں ان نوجوانوں کو اپنے ان فرزندوں کو، تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پروردگارا ! ان سب کو اپنی مدد، ہدایت اور لطف و کرم کے سائے میں رکھ ۔ پروردگارا ! ہماری نوجوان نسل کو اس ملک کے مستقبل کا معمار قرار دے۔ پروردگارا ! ان سب کو،ان کے اقدامات کو اور ان کی پالیسیوں کو اپنی رضا کے مطابق بنا دے۔ پروردگارا ! ہمارے نوجوانوں کو ایسا علم اور مفید علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما کے ہمراہ عمل بھی ہو۔ پروردگارا ! ولی عصر(ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما؛ ہمارے عزیز شہداء کی ارواح طیبہ اور امام(خمینی) کی روح مطہر کو ہم سے راضی و خوشنود فرما ؛ ایران اور اسلامی جمہوریہ کو سربلند و سرافراز فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جو دوست یہاں تشریف لائے اور مختلف موضوعات پر انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا،ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جناب ڈاکٹر لاریجانی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس نشست کو اچھے طریقے سے چلایا۔
اگرچہ میں نے بار بار اس نشست میں گذ شتہ برسوں میں اور اس سے ملتی جلتی نشستوں میں کہا ہے کہ ہماری اس سالانہ نشست میں ایک علامتی پہلو ہے؛ یعنی ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملاقات ملک کے اساتذہ، یونیورسٹی سے منسلک افراد کے حکومتی احترام کا مظہر ہو؛لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ نشست نمائشی پہلو کی حامل ہے بلکہ اس کے برعکس توقع اور امید یہ ہے کہ اس نشست میں اٹھائے جانے والے موضوعات، حکومت کے پالیسی سازوں، وزرا،مختلف حکام اور خود ہماری کہ جو یہاں پر موجود ہیں،اس چیز کی طرف رہنمائی کریں گے جو اس سلسلے میں ترقی و پیشرفت اور علمی کام کے شایان شان ہے۔یہ جو میں نے عرض کیا کہ میں صرف آپ کی گفتگو سنوں گا ،اس جہت سے ہے۔فرض یہ ہے کہ جو قابل قدر اساتذہ یہاں بات کرنا چاہتے ہیں،انہوں نے لیا ہے اور ملک میں علم اور یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی اہم تجویز آئی ہے وہ اسے یہاں بیان کریں؛ہمیں اس نشست سے یہ توقع ہے۔البتہ اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔
ہم کیوں یونیورسٹی اور علم و تحقیق سے متعلق مسائل کے بارے میں یہ اہتمام کر رہے ہیں؟کیونکہ ہم پیچھے ہیں؛ہم کو پیچھے رکھا گيا ہے اور ہماری عزت اور ہمارا قومی و اسلامی تشخص اس سے وابستہ ہے کہ ہم اس شعبے میں ٹھوس کام کریں۔یہ اس کی وجہ ہے۔ہم مختلف ہیں فلاں ملک سے کہ فرض کیجیے جو ایک قلیل مدت تمدن کا حامل ہے۔ بعض ملک ہیں جو ایک سو سال بھی نہیں ہوا کہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے وجود میں آئے ہیں؛اس جغرافیائی تشخص کا گزشتہ سو سال میں اس معنی میں اور اس نام کے ساتھ کوئی وجود نہیں تھا اور ہمارے ہی علاقے میں بعض قومیں ایسی بھی ہیں کہ جن کا تاریخ میں کوئی قابل ذکر ماضی نہیں ہے۔دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ہیں؛لاطینی امریکہ میں یورپ میں اور دیگر مختلف جگہوں پر ایسے ممالک موجود ہیں۔لیکن ہماری قوم اور ہمارا ملک ایک قدیم ملک ہے؛ہماری قدیم تاریخ ہے؛ہمارا ماضی ہے؛ہم تازہ وجود میں نہیں آئے ہیں؛ہم اپنے ماضی سے بھی رہنمائی اور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں رہنمائی اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے تھا۔آپ اسلام کے بعد پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی ہجری تک ملک کی علمی ترقی کے عمل پر نظر ڈالیے،اگر ہم اسی رفتار سے ترقی کرتے اور آگے بڑھتے تو آج چوٹی پر پہنچے ہوتے۔ہم نے اس رفتار سے ترقی نہیں کی ہے؛کیوں نہیں کی ہے؟اس کا جائزہ لینے اور تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے؛ (شاہی) حکومتیں نالائق اور نااہل تھیں،ہمت کم تھی،اس کے بعد گزشتہ دو تین سو سال کے عرصے کے دوران غیر ملکی عوامل بھی دخیل رہے ہیں اور بالآخر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس رفتار سے حرکت اور ترقی نہیں کی ہے؛بلکہ پستی کی طرف ہی گئے ہیں۔
اب ہم ازالہ اور تلافی کرنا چاہتے ہیں،اب حکومت، ایک لائق اور اہل حکومت ہے؛قوم ایک بیدار قوم ہے؛دانشور ایسے ہیں جو مرد میدان ہیں؛اب ہم ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک باعث افتخار سند کے طور پر جیب میں ڈالتے ہیں اور کبھی اس کے بارے میں صرف باتیں کرتے ہیں،ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک دستورالعمل کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے ہر جزء پر عمل درآمد کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔اگر ہم دوسروں کے لیے نمونہ عمل بننا چاہتے ہیں تو ہمیں علاقے میں علمی مرکز اور محور بننا ہوگا،اس کا ایک راستہ ہے۔اس کا راستہ مستقبل کے وژن میں ہمیں معین نہیں کرنا چاہیے،عمل درآمد کے شعبے کے ذمہ داروں اور حکام کو اسے واضح اور مشخص کرنا چاہیے؛ہمارا اصرار یہ ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام علم و تحقیق کے میدان میں صحیح،اچھے اور کامل طریقے سے انجام پائے۔اس اہتمام و انصرام کی وجہ یہ ہے۔
اس سلسلے میں البتہ بہت سی باتیں اور نصیحتیں ہیں کہ جنہیں ہم عام طور پر ان نشستوں میں عرض کرتے ہیں،آج بھی میں چند باتیں عرض کروں گا:
ایک بات جامع علمی منصوبے کے بارے میں ہے۔میں نے یہاں نوٹ کیا تھا کہ اسے ذکر کروں،خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ تین چار افراد نے اپنی تقریروں میں جامع علمی منصوبے کی طرف اشارہ کیا ہے، جناب ڈاکٹر لاریجانی نے بھی اس سلسلے میں بات کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جامع علمی منصوبہ تیار کر کے پیش کیا جائے اور یہ علمی منصوبہ بندی کے لیے ایک دستورالعمل قرار پائے۔یہ ایک اچھی خوش خبری ہے؛لیکن مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع نہیں تھی ۔میں یہ جانتا ہوں کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے؛یعنی کچھ کمیٹیوں میں اس مسئلے پر کام ہو رہا ہے؛لیکن جس کام کی توقع ہے اور جو ہماری نظر میں انجام پانا چاہیے،وہ یہ نہیں ہے کہ اس کام میں تاخیر ہو اور زیادہ عرصہ لگے؛ایک دو سال ہم بیٹھیں اور بالآخر ایک جامع علمی منصوبہ پیش کریں؛نہیں،ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کی مدد سے دانشور،محققین اور اہم افراد بیٹھیں اور اسے پورا کریں اور ایک ایسی پختہ اور کامل چیز پیش کریں کہ جس کی بنیاد پر یونیورسٹیوں اور ملک کے مستقبل کے لیے علمی منصوبہ بندی کی جا سکے۔میں یہیں پر محترم وزراء اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے محترم عہدیداروں کو کہ جو یہاں تشریف فرما ہیں،ہدایت کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔ہم اگر چاہتے ہیں کہ مستقبل کے وژن پر عمل درآمد ہو اور وہ علمی مقام و مرتبہ جو ملک کے لیے پیش نظر رکھا گيا ہے،وجود میں آئے تو ان کاموں کو انجام دینا ناگزیر ہے کہ جن میں سے اہم ترین ایک جامع علمی منصوبہ تیار کرنا ہے۔ یعنی ان اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ایک اہم قدم اور باب ہے کہ جن کا ذکر کیا گيا اور بحمداللہ علمی ماحول میں یہ ہر ایک کی زبان پر ہے۔
دوسری بات جو محترم اساتذہ سے متعلق ہے،یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک کام یہ ہونا چاہیے کو شاگردوں کی تربیت کریں۔ استاد کی قدروقیمت اور استاد کا اعتبار اس کے شاگردوں سے ہے۔ہمارے اعلی دینی مراکز(حوزہ ہائے علمیہ)میں بھی ایسا ہی ہے۔اس استاد،اس فقیہ یا اصولی یا حکیم کی لوگوں میں زیادہ قدر ہے کہ جس کے وجودی آثار اس کے ممتاز شاگردوں میں نمایاں ہوں۔شاگردوں کی تربیت کیجیے۔یہ افراد جو آپ کی کلاسوں میں آتے ہیں _ چاہے وہ گریجویشن کی کلاسیں ہوں یا اس کے بعد اعلی تعلیم کی _ وہ آپ کے سامنے بیٹھتے ہیں اور آپ استاد کی حیثیت سے ان کے سامنے آتے ہیں،انہیں صرف ایک تقریر سننے والا نہیں سمجھنا چاہیے؛نہیں،آپ جیسا انہیں چاہتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائیے،ان کے ساتھ میل جول رکھیے۔البتہ استعداد اور صلاحیت برابر نہیں ہے،جوش و ولولہ ایک جیسا نہیں ہے،مختلف قسم کی فضا اور ماحول یکساں نہیں ہے؛لیکن اساتذہ کے لیے یہ ہدف و مقصد میری نظر میں ایک سنجیدہ ہدف ہونا چاہیے،دیکھیے کہ آپ نے کتنے شاگردوں کی تربیت کی ہے۔شاگرد صرف وہی نہیں ہے کہ جو آپ کی کلاس میں حاضر ہوتا ہے؛وہ بھی ہے جسے آپ بناتے ہیں اور اسے ایک کارآمد اور علمی فرد کی حیثیت سے علمی دنیا کے حوالے کرتے ہیں۔
یہیں پر میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی حاضری اور موجودگي کے مسئلے کی طرف اشارہ کروں،جو یونیورسٹی کے قوانین کا حصہ بن گيا ہے،کہ اساتذہ کو ہفتے میں معین گھنٹوں میں حتما یونیورسٹی میں موجود ہونا چاہیے۔یہ بہت اہم چیز ہے؛اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ایک بات جو میں نے گزشتہ تین چار برسوں کے دوران بار بار کہی ہے اور اتنا زیادہ دہرایا ہے کہ اسے دوبارہ کہنا نہیں چاہتا تھا،طلبہ کے ساتھ استاد کی ہمراہی ہے؛سوال کا جواب دینا۔یعنی استاد اور شاگرد کا تعلق اور رابطہ صرف کلاس تک ہی نہیں ہونا چاہیے،طالب علم کے پاس موقع ہونا چاہیے کہ وہ استاد سے رجوع کرے اور اس سے معلوم کرے ،اس سے تشریح پوچھے،اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرے؛بلکہ بعض مواقع پر استاد شاگرد کو اپنے کمرے میں بلائے اور ایک اضافی اور تکمیلی بات اسے سمجھائے یا اس کے ذمہ کوئی کام لگائے۔اسے کوئی علمی اور تحقیقی کام دے۔یہ سب کچھ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی موجودگي پر منحصر ہے۔ایک دن میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس اساتذہ کم ہیں،آج بحمداللہ اساتذہ کی ایک اچھی اور قابل ذکر تعداد موجود ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اسے اہمیت دینی چاہیے۔کلاس روم میں طالب علم کی تربیت _ جو میری نظر میں شاگرد اور دانشور کی تربیت ہے _ اس کا ایک حصہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی انہی چند گھنٹوں _ قوانین میں چالیس گھنٹے ہیں کی موجودگي پر منحصر ہے یعنی اساتذہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اسے اہمیت دینی چاہیے۔
ایک اور مسئلہ کہ البتہ یہ مسئلہ تکراری ہے جو میں عرض کر رہا ہوں، لیکن اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ دوبارہ عرض کر رہا ہوں _ تحقیق کا مسئلہ ہے۔ہم نے کابینہ کے اجلاس میں بھی سرکاری عہدیداروں کو ہدایت کی ہے اور کہا ہے، خود صدر جیسے حکام کے ساتھ خصوصی اجلاسوں میں بھی کہا ہے؛لیکن مسئلے کا ایک حصہ خود یونیورسٹیوں سے متعلق ہے کہ تحقیق کے بجٹ کو صحیح طریقے سے استعمال کریں؛خود اس کے مقام پر صرف کریں؛کیونکہ تحقیق تعلیم حاصل کرنے کا مآخذ و منبع ہے۔ہم اگر تحقیق کو سنجیدگي سے نہ لیں،تو ہمیں پھر برسوں غیرملکی ذرائع کی طرف دیکھنا پڑے گا اور انتظار کرنا پڑے گا کہ دنیا کے کسی گوشے میں کوئی تحقیق کرے اور ہم اس کی تحقیق سے یا اس کی کتابوں سے استفادہ کریں اور یہاں تعلیم دیں۔یہ نہیں ہو گا؛یہ وابستگي ہے؛یہ وہی ترجمہ کا کام اور کسی ملک اور یونیورسٹیوں کے لیے علمی شخصیت کا آزاد و خودمختار نہ ہونا ہے۔کسی ملک کی یونیورسٹی،کسی ملک کا علمی ماحول دنیا کے ساتھ اپنے علمی تعلقات قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے علم حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم ( کسی اور کا ) شاگرد بننے سے شرم محسوس نہیں کرتے؛استاد مل جائے،ہم اس کی شاگردی اختیار کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہر مقام پر شاگرد ہی رہیں؛یہ نہیں ہو گا۔ایک علمی حلقے کے لیے یہ کمی اور نقصان کا باعث ہے کہ وہ تحقیق میں کہ جو علمی رشدوترقی کا مآخذ اور ذریعہ ہے،کمزور ہو؛اسے علمی لحاظ سے خود پر بھروسہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔البتہ دوسروں سے بھی استفادہ کرے،دنیا سے بھی تبادلہ کرے،اس وقت اور اس صورت میں دنیا میں علمی تبادلوں میں اپنا مناسب مقام پیدا کرے گا؛جب وہ اپنے علمی کام اور علم و دانش پر بھروسہ کرتا ہے۔یہ دنیا اور علمی تبادلوں میں اپنا اثر رکھتی ہے۔یہ ہے تحقیق کے بارے میں ہماری بار بار کی تاکید۔۔۔
وہ افراد جو یونیورسٹیوں میں علمائے دین کی حیثیت سے اور(میرے) نمائندہ ادارے کے دفتر کے عنوان کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں،انہیں خود کو یونیورسٹی میں دینی ارتقاء کا اصل ذمہ دار سمجھنا چاہیے ہم نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو ہمیشہ ہدایت کی ہے کہ ان کے کاندھوں پر یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے ماحول کو دینی کرنے کے سلسلے میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛یہ اپنی جگہ پر محفوظ،لیکن اگر تمام ضروری ابتدائی کام اور اقدامات انجام پائیں لیکن وہ عالم دین جو یونیورسٹی میں ( بحیثیت ہمارے نمائندے کے ) تعینات ہے، طلبہ کی نظر میں ایک گہری،بااستدلال،لائق تحسین اور دوسروں کو قائل کرنے والی دینی فکروسوچ کا منشا،منبع اور مرکز نہ ہو تو وہ تمام کام اور اقدامات بے فائدہ ہوں گے۔آپ کو یونیورسٹی کے ماحول میں مسلسل نئی اور مستدل دینی فکر پیش کرنی چاہیے اور طلبہ کی دینی سوچ کو بلند کرنا چاہیے۔ صرف متدین مذہبی اور حزب اللہی طلبہ کو ہی اپنے مخاطبین نہ سمجھیے؛البتہ وہ تو ہیں ہی۔آپ کے مخاطبین پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے تمام طلبہ ہیں؛حتی کہ وہ بھی جو دل میں دین کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں،وہ بھی آپ کے مخاطب ہیں؛ان کو بھی اپنی طرف کھینچیے اور قوی منطق،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا جا سکتا ہے،عناد و دشمنی کو حتی کم کیا جا سکتا ہے یا بہت سے مقامات پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہی موضوع جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، کولمبیا یونیورسٹی کا واقعہ ،ایک اچھی مثال ہے۔انصافا اس قوی منطق،نفس پر تسلط یعنی اچھے جذبے،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد نے اپنا کام کر دکھایا۔البتہ ظاہر ہے کہ ابتدائی کام کیے گئے تھے؛اس تقریب کو براہ راست نشر کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کے بیس سے زائد ٹی وی چینلوں کو بلایا گيا تھا،جو کام انجام دیا گیا اور اس یونیورسٹی کے پروفیسر نے جو افسوسناک رویہ اختیار کیا کہ حقا اور انصافا نامناسب رویہ تھا اور یونیورسٹی کی ایک شخصیت کا رویہ نہیں تھا؛بلکہ ایک نفیس انسان کا رویہ نہیں تھا۔بنا برایں واضح تھا کہ انہوں نے ایسے کام انجام دیے تھے تاکہ مقابل (صدر احمدی نژاد ) کو غصہ دلایاجائے یا شرمندہ کیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے ایک ثبوت اور دستاویز کے طور پر سیاسی و تشہیراتی شوروغل میں اپنے ہاتھ میں رکھیں؛لیکن خداوند متعال نے اس کے برخلاف کیا اور جیسا وہ چاہتے تھے بحمداللہ اس کے بالکل برعکس ہوا اور آپ نے دیکھا کہ انہوں نے تائید و تصدیق بھی کی۔میرا اعتقاد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ماحول میں یہ مسئلہ اتنی جلدی ختم نہیں ہو گا،ایک سوال کے طور پر،ایک مسئلے کے عنوان سے اور ایک بات کی حیثیت سے کہ مسئلہ کیا تھا،جاری رہے گا۔
اسلامی جمہوریہ کی منطق وہاں بیان کی گئی؛دین کی منطق بیان کی گئی؛علم،علم کے نور ہونے اور علم کے نورافگن کے ، خدا کے ہاتھ میں ہونے کے بارے میں اسلام اور دین کی نظر کے موضوع پر بات کی گئی۔ کہ یہ اچھی بحثیں ہیں _ اچھی بحث کی گئی۔وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ فرنگی(یورپی،امریکی) ماحول میں جب وہ جاتے ہیں تو وہ خود انہی کی باتوں کو جو گزشتہ سو دو سو سال سے کی جا رہی ہیں،تکرار کریں اور اپنے آپ سے کہیں کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی اسلام کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے۔
آج حقا اور انصافا فکروسوچ کی دنیا میں _ جو لوگ فکروسوچ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہمیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے _ ایک خلا اور ایک سوال مغربی دنیا میں موجود ہے؛اس خلا کو لبرل ڈیموکریسی کے نظریات پُر نہیں کر سکتے،جس طرح سوشلزم پر نہیں کر سکتا۔اس خلا کو ایک انسانی اور معنوی منطق پر کر سکتی ہے اور یہ اسلام کے پاس ہے۔ڈاکٹر زریاب مرحوم سے _ جنہوں نے یونیورسٹی کی اعلی تعلیم بھی حاصل کی تھی،اورایک اچھے دینی طالب علم بھی تھے انہوں نے بہترین دینی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی علوم سے آشنا تھے اور امام(خمینی) کے شاگرد تھے _ میرے ایک دوست نقل کر رہے تھے _ میں نے خود ان سے نہیں سنا _ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ ایک مطالعاتی دورے پر یورپ گئے تھے،جب وہ واپس پلٹے تو انہوں نے کہا کہ آج جو چیز میں نے یورپ کی یونیورسٹیوں کے علمی ماحول میں مشاہدہ کی ہے،اس کو ملا صدرا اور شیخ انصاری کی ضرورت ہے۔شیخ انصاری کا کام قانون اور فقہ کے موضوع پر ہے اور ملا صدرا نے حکمت الہی میں کام کیا ہے۔وہ(ڈاکٹر زریاب)کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ملا صدرا اور شیخ انصاری کی تعلیمات کے پیاسے ہیں۔یہ خیال ایک مغرب شناس اور کئی یورپی زبانیں جاننے والے استاد کا ہے کہ جس نے برسوں وہاں زندگي گزاری اور علم حاصل کیا تھا اور اسلامی علوم سے بھی آشنا تھا۔یہ ان کا خیال ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔
ہمیں خود اپنے اندر اور اپنی یونیورسٹیوں میں اس قوی منطق کی ضرورت ہے۔یونیورسٹی کی زبان اور طلبہ کی زبان کے ساتھ اس منطق کو فروغ پانا چاہیے۔یہاں بعض اساتذہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہمارے عزیز اساتذہ کو بھی ان کی ضرورت ہے۔اساتذہ بھی خود کو دینی تعلیمات و معارف سے آشنائی سے بے نیاز نہ سمجھیں۔
اسلامی موضوعات پر کتابیں لکھنے والے ایک محقق کہ جن کی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتی ہیں اور یورپ اور دیگر علاقوں میں ان کی کتابیں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ہمیں اس کی اطلاع ہے _ میں ان کا نام لینا نہیں چاہتا _ مجھے بتا رہے تھے کہ جب میں خلیج فارس کے ممالک سمیت عرب ملکوں میں جاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دانشور اور یونیورسٹی کے اساتذہ ہمارے دانشوروں اور اساتذہ کے مقابلے میں قرآن و حدیث سے زیادہ آشنا ہیں۔انہوں نے یہ بات تقریبا دس سال قبل مجھ سے کہی تھی۔البتہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی زبان ان کی زبان ہے؛یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے ذہن میں سعدی ، فردوسی یا حافظ (شیرازی) کی ضرب المثل ہے؛ اس لیے کہ آپ نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں اور آپ کی زبان بھی وہی ہے،آپ کے ذہن میں باقی رہ گئی،اب آپ دیکھتے ہیں کہ جو مقررین حضرات آتے ہیں ان میں سے بعض شعر و ادب سے شروع کرتے ہیں۔ان کی زبان اور قرآن کی زبان چونکہ ایک ہے _ ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن کی زبان خود ان کی زبان ہے _ اس زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں؛اس لیے وہ قرآنی تعلیمات و معارف سے آشنا ہیں۔ان کے سیاستدانوں کو بھی ہم نے دیکھا ہے،ایسے ہی ہیں؛ ان کے سیاستدان بھی آتے ہیں_ تو اب اگرچہ وہ فاسق و فاجر اور معنویات سے دور افراد قرآن کی بعض آیات اور دین اور دینی کتابوں کے بارے میں بعض باتیں جانتے ہیں اور ان کے ذہن میں ہیں۔یہ کمی ہے،ہمیں اس کو دور اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔اب اس کے بنیادی اور اصولی ازالہ کے لیے البتہ منصوبہ بندی ضروری ہے؛لیکن جو مقدار اساتذہ کے لیے فوری طور پر ضروری ہے _ کہ جنہوں نے ایک عمر گزاری ہے اور زحمتیں کی ہیں _ یہ ہے کہ وہ خود کو اسلامی مسائل اور اسلامی تعلیمات و معارف سے آشنا کریں۔واقعا اس کام کے لیے منصوبہ بندی کریں؛خود اساتذہ بھی اور یونیورسٹی سے منسلک افراد بھی منصوبہ بندی کریں۔لیکن اصل مخاطب آپ طالب علم ہیں۔
بہرحال یونیورسٹیوں میں دینی فکر و سوچ کے ارتقاء کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگي سے لینا چاہیے اور ہوشیار رہیے کہ ہمارے طلبہ اور یونیورسٹی کے روشن خیال افراد کے لیے فکری خلا پیدا نہ ہو۔ ہمارے پاس کہنے اور قائل کرنے والی بہت سی باتیں ہیں۔روشن خیالی کے معیارات سے مطابقت رکھنے والی نئی اور قوی باتوں سے تبلیغ کو وسیع کرنا چاہیے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس دینی روشن خیالی ہے یا نہیں ہے؛میں ان بحثوں سے بیگانہ اور بیزار ہوں۔دینی مسائل اور اسلامی نظریاتی مسائل پر نئی اور تخلیقی نگاہ، بلاشبہ روشن خیالی کی نگاہ ہے اور اس کا مطلب بدعت کھڑی کرنا نہیں ہے۔انہی بنیادی تعلیمات اور اصولوں کو نئے زادیوں سے کہ، انسان وقت گزرنے کی برکت سے ان زاویوں کو پہچانتا ہے،سمجھنا اور بیان کرنا ہے اس سے ہمیں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
بہرحال امید ہے کہ خداوند متعال آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو کامیاب کرے گا اور آپ کی مدد کرے گا۔آج کی نشست بھی اچھی نشست تھی؛میرے لیے بھی مفید تھی۔بعض خصوصی باتوں کو میں نے نوٹ کیا ہے اور جو تفصیلات آپ نے بیان کی ہیں،انشاءاللہ اس کام کے ذمہ دار اداروں؛خود ہمارے دفتر میں اور ہمارے دفتر سے باہر ان کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سلسلے میں جو اقدام ہم سے مربوط ہے انشاءاللہ انجام دیا جائے گا،جو حکومتی عہدیداروں سے مربوط ہے _ وزرائے محترم خود یہاں تشریف فرما ہیں _ ان سے کہا جائے گا اور انشاءاللہ اس پر عمل درآمد ہو گا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ