بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم نے بہت استفادہ کیا اور لطف اٹھایا آپ حقیقتا میرے بیٹوں کی طرح ہیں آپ عزيز نوجوانوں سے یہ باتیں سننا واقعا لذت بخش ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں یہ دیکھتا ہوں یہ خود آگاہی ملک کے نوجوانوں میں وسیع سطح پر روزبروز فروغ پارہی ہے۔یہ باتیں جو آپ نے یہاں بیان کی ہیں،ان میں سے ہر ایک _ چاہے وہ نیچرل سائنسز کے شعبے سے تعلق رکھتی ہو یا اخلاقی تعلیم و تربیت کے شعبے سے،چاہے اس کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہو یا دانشوروں اور باصلاحیت افراد کو وسائل و امکان فراہم کرنے سے _ یہ میری دیرینہ آرزوؤں میں شامل رہی ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران میں نے انہیں بیان کیا ہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کہا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ایک عوامی خواہش میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛اس قومی کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ نے جو باتیں کی ہیں ان میں سے اکثر کو قبول کرتا ہوں؛ان پر اعتقاد رکھتا ہوں اور جیسا کہ جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کیا ہے،یہ باتیں اور جو باتیں خود کانفرنس میں بیان کی گئی ہیں،نوٹ کر لی گئی ہیں۔ان میں سے ہر ایک پر توجہ دینی چاہیے اور عمل درآمد کرنا چاہیے اور ہو گا۔
ممکن ہے مختلف عوامل ان آرزوؤں تک پہنچنے میں ہمیں تھوڑی تاخیر میں ڈال دیں؛لیکن جان لیجیے اس علمی تحریک ،اس جذبے اور شکوفائی اور رشدونمو کو اب روکا نہیں جا سکتا اور یہ توفیق الہی سے آگے بڑھے گا،یہ کسی شخص پر قائم اور منحصر نہیں ہے۔یہ تحریک ملک میں شروع ہو چکی ہے؛ یہ آگاہی پیدا ہو چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اپنی منزل پر بھی پہنچے گی۔
ہماری آج کی نشست کے میری نظر میں دو اہداف و مقاصد ہیں؛ایک،قومی اور عام سطح پر علامتی ہدف و مقصد،کہ ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک میں _ ملک کی رائے عامہ کی سطح پر _ یہ خیال وجود میں آئے کہ ملک میں علمی تحریک سنجیدگی سے جاری ہے۔ملکی حکام اسے چاہتے ہیں اور سنجیدگی سے اس پر عمل کر رہے ہیں اور وہ علم،علم کے متلاشی اور علمی شخصیت کو اہمیت دیتے ہیں؛یہ آج یہاں پر ہمارے علامتی اجتماع اور علامتی اقدام کے معنی ہیں ۔
اور دوسرا مقصد ملکی حکام _ سرکاری حکام،مختلف شعبوں کے عہدیداروں _ کو ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ہے کہ وہ جان لیں اس خواہش پر عمل کرنا ہے۔بڑی پالیسیوں اور انتظامی پالیسیوں میں ملک کی علمی ترقی و پیشرفت کو قطعی اور حتمی پروگرام شمار کرنا چاہیے اور اسے مدنظر رکھنا چاہیے۔یہ دو ہدف و مقصد انشاءاللہ حاصل ہو گئے ہیں۔
میں صرف چند نکات بیان کروں گا؛بہت سی اچھی باتیں خود آپ لوگوں نے بیان کر دی ہیں۔ایک نکتہ جو نیا بھی نہیں ہے،یہ ہے کہ:ہمارے ملک کے لیے علمی تحریک ایک دوچندا ضرورت ہے؛ایک دوچندا اور حتمی ضرورت ہے۔ضرورت ہے؛کیوں؟اس لیے کہ علم ، کسی بھی قوم کی عزت و طاقت اور سلامتی کا باعث ہے _ اس کی میں مختصر وضاحت کروں گا _ دوچندا اور حتمی ہے؛ کیوں؟اس لیے کہ اس فریضہ پر بہترین زمانے کے سو سال کے دوران عمل نہیں ہوا؛قاجاری دور کے اواسط سے کہ جب دنیا کی علمی اور صنعتی تحریک نے عروج حاصل کیا اور پھلی پھولی تھی _ انیسویں صدی کے نصف دوم کے اواسط سے _ اور علم نے استعمار کی شکل میں خود کو دکھایا تھا؛مغرب علم کے وسیلے کو حاصل کر کے دنیا کو لوٹنے اور اس کے استثمار میں مشغول ہو گيا تھا۔اس دن سے لے کر _ تقریبا سو سال یا اس سے زیادہ _ کہ جو ہماری بیداری اور ہوشیاری کا دور تھا،اس عظیم فریضے،ملک کی علمی ترقی کے فریضے پر مختلف وجوہات کی بنا پر عمل درآمد رک گيا۔اس کی ایک بڑی وجہ تھی ( اور وہ یہ تھی )استبداد کی حاکمیت،طاغوتوں کی حاکمیت،کٹھ پتلی،کمزور اور ناتواں بادشاہوں کی حاکمیت، یہ پسماندگي ہمیں وراثت میں ملی ہے۔لہذا ہماری کوشش دوچند ہونی چاہیے۔پس،ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دوچندا اور حتمی ہے۔
اس بارے میں علم ضرورت ہے،آپ لوگ جانتے ہیں،لیکن مناسب ہے میں ایک بار پھر بیان کر دوں کہ حقیقتا جس ملک کا ہاتھ علم کی جانب سے تنگ ہے ،اسے عزت،آزادی و خودمختاری،تشخص،شخصیت،سلامتی اور رفاہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔انسانی زندگی کی فطرت اور زندگی کے امور اسی طرح ہیں۔علم عزت دیتا ہے۔نہج البلاغہ میں ایک جملہ ہے کہ جملہ بہت ہی بامعنی ہے۔امیرالمؤمنین فرماتے ہیں(( العلم سلطان )) علم اقتدار ہے۔سلطان یعنی اقتدار،قدرت۔(( العلم سلطان من وجدہ صال و من لم یجدہ صیل علیہ )) ؛ علم اقتدار ہے۔جو اس اقتدار کو حاصل کر لے ،وہ حکومت کر سکتا ہے؛ جو اس اقتدار کو حاصل نہ کرے (( صیل علیہ )) اس پر غلبہ ہو جائے گا؛ دوسرے اس پر تسلط اور غلبہ پا لیتے ہیں؛ اس پر حکم چلاتے ہیں۔اس حقیقت کو ایرانی قوم نے ایک طویل دور میں اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ہم پر انہوں ( اغیار) نے حکم چلایا؛زور و زبردستی سے کام لیا؛ہمارے وسائل و ذخائر کو لوٹا؛ہماری قوم کو رفاہ سے محروم کیا۔ہمارے ملک کی اس سو سالہ دور کی تلخ اور محنت بار تاریخ ہے کہ جس کے نتائج ہم اس وقت بھگت رہے ہیں؛ہم نے تحریک شروع کی؛انقلاب نے حالات کو تبدیل کر دیا؛ورق کو الٹ دیا۔آج ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے کہ جو سیاسی و بین الاقوامی (سطح پر ) عزت کے لحاظ سے دنیا میں کم نظیر ہے؛اس بات کو ہمارے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔قوم بیدار ہو گئی ہے۔بہادر ہے۔ملک تشخص اور شخصیت کا حامل ہے؛لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہم سے سو دو سو سال پہلے علم حاصل کیا اور ہم سے چند میدان آگے حرکت کی اور آگے نکل گئے اور علم کی برکتیں حاصل کر لیں،اب زور و زبردستی کی زبان بول رہے ہیں۔یہی ایٹمی توانائی،سائنسی طاقت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا مسئلہ،اس کا ایک نمونہ ہے۔(( آپ کے پاس نہیں ہونا چاہیے؛آپ پر اطمینان نہیں ہے ))؛ زور و زبردستی کی بات۔کون لوگ ہمیں کہتے ہیں:آپ پر اطمینان نہیں ہے؟ ! وہی لوگ جنہوں نے بیس سال کے دوران دو عالمی جنگیں شروع کیں اور پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں میں جلا دیا؛یورپیوں نے۔
جو ہم سے کہتے ہیں کہ آپ پر اطمینان نہیں ہے،کہ جہاں پر بھی ان کا ہاتھ پہنچا انہوں نے اپنی فوجیں داخل کر دیں۔اس کی زندہ مثال عراق ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں؛اس کا قدیمی تر اور دردناک تر نمونہ فلسطین ہے؛اس کا ایک اور نمونہ افغانستان ہے؛اس کا ایک اور نمونہ کوسوو ہے؛اس کا ایک اور نمونہ دنیا کے مختلف علاقے ہیں؛اس کا ایک نمونہ ہیروشیما ہے۔
یہ لوگ ( یورپی مغربی ممالک ) کہ صنعتی دور میں دنیا کی اہم فتنہ انگیزی ان کی طرف سے ہوئی ہے ملت ایران کو کہ اب تک ان برسوں کے دوران ایک بار بھی _ منجملہ انقلاب کے بعد کے دور میں _ اس ملک ( ایران ) کی طرف سے کسی ہمسایہ اور غیر ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا مشاہدہ نہیں کیا گيا _ ہم اسلامی جمہوریہ حکومت کی بات کر رہے ہیں؛اس سے پہلے سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ کے دور میں ہمارے ملک کی طرف سے ابتدائی طور پر گولہ بھی کسی ہمسائے پر فائر نہیں ہوا ہے؛اس بات کو سب قبول کرتے ہیں _ کہتے ہیں:ہمیں آپ پر اطمینان نہیں ہے ! یہ یعنی زور و زبردستی۔اب شمالی افریقہ کے کسی ملک کی مانند ملک ( لیبیا ) کو ایسے آنکھیں دکھاتے ہیں کہ اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،اپنے تمام وسائل اور سازوسامان اکٹھا کرتا ہے بحری جہاز پر لادتا ہے اور کہتا ہے لے جائیے !
ملت ایران ڈٹی ہے اور ڈٹی رہے گی؛نہ صرف اس معاملے میں بلکہ ہم بہت سے دیگر معاملوں میں اسی طرح ڈٹے ہیں؛اب یہ معاملہ عوامی سطح پر لے جایا گیا ہے۔اول انقلاب سے لے کر آج تک دسیوں معاملوں میں ہم نے زور و زبردستیوں،بدمعاشیوں،ہٹ دھرمیوں اور دھمکیوں کے مقابل استقامت کا مظاہرہ کیا؛وہ جان چکے ہیں کہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔لیکن یہ زور و زبردستی ہے۔یہ زور و زبردستی کس بنا پر ہے ؟ اس لیے کہ مقابل فریق علم سے مسلح ہے۔دیکھیے یہ آپ نوجوانوں کے لیے بہت عبرت انگیز ہے۔
امریکی حکومت کی مانند اخلاق سے عاری،معنویت سے عاری اور بین الاقوامی قوانین سے بے اعتنائی برتنے والی حکومت چونکہ علم کی حامل ہے اور اس نے علم کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا اور اپنی زندگي میں اس کا استعمال کیا،وہ اپنے آپ کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح زور و زبردستی کرے۔(( من وجد صال )) جس کے پاس علم ہو،دوسروں پر حکم چلا سکتا ہے _ (( و من لم یجدہ صیل علیہ )) _ آپ کے پاس نہ ہو تو آپ پر حکم چلاتے ہیں۔دیکھیے،ضرورت یہاں ہے۔
ہر انسان کا ضمیر،وہ انسان جو اپنی ذات،اپنے تشخص،اپنے خاندان،اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل،اپنی قومیت،ملک اور اپنے قومی و ملی تشخص میں دلچسپی رکھتا ہے،اس معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔میں جو برسوں سے علمی تحریک پر زور دے رہا ہوں،اصرار کر رہا ہوں اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا ہوں تو اس کی وجہ یہی ہے۔
علم، سائنسی ترقی و پیشرفت،ہمارف ملک کی اولین ضرورت ہے؛البتہ تمام علوم _ ابھی عرض کروں گا _ صرف تجربی علوم نہیں بلکہ تمام علوم کو اپنے مقام پر حاصل کرنا چاہیے اور ہمارا ملک ایسا کر سکتا ہے۔بنابریں پہلے نکتے کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ جو ملک کے دانشوروں کے عظیم ذخیرے کا ایک حصہ ہیں،قومی قوت و طاقت پیدا کرنے اور ملک کے مستقبل اور اس کی تعمیر میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارا ملک دانشوروں کی تربیت کی استعداد اور دانشوروں کا حامل ہونے کے لحاظ سے متوسط سطح سے بالاتر ہے۔حساب کتاب میں اس کا ذکر ہونا چاہیے۔میں نے ایک مرتبہ اسی مقام پر(حسینیہ میں) ملکی حکام کے اجتماع میں _ آج سے چند سال قبل _ کہا تھا ہمارے ملکی کی جغرافیائی سطح دنیا کی آباد جغرافیائی سطح کا تقریبا ایک فیصد ہے،ہمارے ملک کی آبادی بھی تقریبا سات کروڑ ہے کہ جو انسانی آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہے۔بنابریں متوسط طور پر دنیا کے زیرزمین ذخائر میں ہمارا حق ایک فیصد بنتا ہے؛لیکن ہمارے پاس اہم ترین زیرزمین ذخائر ایک فیصد سے زیادہ ہیں: دھاتیں،فولاد،تانبا،سیسہ اور بہت سی دیگر معدنیات؛یہ تمام دنیا کے کل ذخائر کا تین فیصد،دو فیصد اور چار فیصد ہمارے ملک میں ہیں۔تیل،اس کی صورت حال تو آپ کو پتہ ہی ہے اور ہمارے پاس مشرق وسطی اور خلیج فارس کے تیل سے مالامال علاقے میں تیل کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔گیس،ہمارے پاس دنیا میں گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔آپ دیکھیے ہماری قوم اور ہمارے ملک کے پاس انسانی آبادی کے فی کس سے کئی گنا زیادہ قدرتی ذخائر ہیں۔
میں اب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہی نسبت کا اضافہ افرادی قوت کے سلسلے میں بھی ہے۔یعنی ہمارے ملک کے پاس دنیا کی دانشور افرادی قوت کا ایک فیصد نہیں ہے ،ایک فیصد سے زیادہ ہے۔ہم اعداد و شمار نہیں دے سکتے؛اس لیے کہ اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔قدرتی ذخائر کے بارے میں میں نے جو کہا ہے اس کا اندازہ لگایا گیا ہے۔اس کا ہم نے اندازہ اور حساب کتاب نہیں لگایا ہے؛انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ آئندہ اس پر بھی کام ہو گا۔لیکن قرائن یہ ظاہر کرتے ہیں۔دنیا کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے جہاں دیدہ افراد سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں،سب اسی کی تائید کرتی ہیں۔میں نے بہت سے افراد سے سنا ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ایرانی دانشوروں کی تعداد کہ جہاں ایرانی ہیں دوسرے ملکوں سے دوگنا اور تین گنا زیادہ ہے۔ڈاکٹر چمران مرحوم حقا اور انصافا خود ایک سائنسدان تھے _ اب ان کا علمی پہلو ان کے فوجی پہلو،جدوجہد،فداکاری اور شہادت کے پیچھے چھپ گيا ہے _ اور انہوں نے امریکہ کی اعلی ترین اور جدید ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔وہ مجھے بتا رہے تھے اس مرکز میں دوسرے ملکوں کے دانشور بھی موجود تھے ؛لیکن یونیورسٹی کے اکثر شعبوں میں اور دوسری یونیورسٹیوں میں ایرانیوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ زیادہ ذہین اور ممتاز تھے۔۔۔۔ میں نے متعدد افراد سے یہ سنا ہے اور میرے پاس اس سلسلے میں متعدد رپورٹیں بھی موجود ہیں۔پس ہم مستقبل میں افرادی قوت کے لحاظ سے کمی کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہمارا ماضی بھی یہی ظاہر کرتا ہے ۔افسوس ہم ماضی سے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ہمارے نوجوان ہماری علمی تاریخ کو نہیں جانتے ہیں۔یہ ہماری ایک کمزوری ہے کہ البتہ تاکید کی گئی ہے اور کہا گيا ہے کہ اس شعبہ میں ایران میں علم کی تاریخ کے میدان میں _ کام کیا جائے؛اور کام ہو بھی رہا ہے اور اچھا کام بھی ہوا ہے۔کہ انشاءاللہ اس کے بعد مزید زیادہ کام ہو گا۔
ان تمام صدیوں میں ہمارے ملک میں ممتاز علمی شخصیات موجود تھیں کہ البتہ حالیہ صدیوں میں ان کی تعداد کم ہوئی ہے۔نالائق بادشاہوں اور مختلف داخلی جنگوں نے ( یہ کام) نہ ہونے دیا؛ورنہ مختلف ادوار میں اور دنیا کے رائج علوم کے مختلف میدانوں میں ہم دانشور پرور رہے ہیں۔
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں _ یعنی دسویں اور گيارہویں صدی عیسوی کہ جو یورپ کے قرون وسطی کا دور ہے؛یعنی جہالت کا تاریک دور _ ہمارے پاس ابن سینا(بوعلی سینا) تھے،محمد بن زکریا رازی تھے۔یورپ والے جب ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں،تو وہ خیال کرتے ہیں کہ تمام دنیا قرون وسطی میں تھی! تاریخ بھی انہوں نے ہی لکھی ہے!افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تاریخیں بھی ہمارے ملک میں ترجمہ ہوئی ہیں اور ان کی ترویج ہوئی ہے۔یورپ کا قرون وسطی کا دور یعنی انتہائی تاریکی،ظلمت اور بےخبری کا دور؛یہ وہ دور ہے جب ہمارے پاس فارابی تھے،ابن سینا تھے،خوارزمی تھے۔دیکھیے فاصلہ کتنا ہے!
میں نے ایک مرتبہ نوجوانوں کے اجتماع میں(( جارج سارٹن کی تاریخ علم )) یا دیگر علوم کی تاریخ سے - اس وقت اس کے مؤلف کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔یہ سب فرنگی(یورپی) ہیں؛میں ان کا نام دہرانا نہیں چاہتا - اس دور میں مسلمانوں کی ترقی و پیشرفت کی صورت حال کے بارے میں باتیں بیان کی تھیں۔
بنابریں ہم دانشور افرادی قوت کے لحاظ سے مشکل اور کمزوری سے دوچار نہیں ہیں؛نہ آج اور نہ ہی انشاءاللہ آئندہ۔روزبروز اسے بڑھنا چاہیے؛دانشوروں کو تلاش کرنا چاہیے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ: دیکھیے میرے عزیزو،ہم ملک کو علمی بنانا چاہتے ہیں؛لیکن ملک کے علمی بننے کا ہدف و مقصد یہ نہیں ہے کہ ملک کو مغربی بنائیں۔اشتباہ نہ ہو۔مغرب والے علم رکھتے ہیں۔لیکن اس علم و دانش کے ساتھ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن سے گریز کرتے ہیں۔ہم مغربی ہونا نہیں چاہتے؛ہم عالم ( دانشور) ہونا چاہتے ہیں۔آج کی دنیا کا علم کو جو عالم سمجھا جاتا ہے،انسان کے لیے ایک خطرناک علم ہے۔علم کو انہوں نے جنگ،تشدد،فحاشی و سیکس،منشیات،دوسری قوموں پر جارحیت،استعمار،اور جنگ و خونریزی کے لیے قرار دے رکھا ہے۔ایسا علم ہم نہیں چاہتے؛ہم ایسا عالم بننا نہیں چاہتے۔ہم چاہتے ہیں کہ علم انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔انصاف کی خدمت کے لیے ہو،امن و سلامتی کی خدمت کے لیے ہو۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں۔اسلام ہم کو ایسے علم کی سفارش و ہدایت کرتا ہے۔
اس دن کہ جب اسلامی ممالک خصوصا ہمارا اسلامی ایران علم کے لحاظ سے دنیا میں آگے اور سربلند تھا،اس دن ہم نے کسی ملک کو نہیں لوٹا،کسی قوم کے خلاف جارحیت نہیں کی،کسی ملت سے زور و زبردستی نہیں کی۔اسلام علم کو ایمان،کتاب و سنت،اخلاقی تہذیب اور اخلاق و معنویت کے ساتھ چاہتا ہے۔میں مناجات شعبانیہ کے اس جملے سے جو اس بچی نے اپنی تقریر میں پڑھا،کتنی محظوظ ہوا :(( الہی ھب لی قلبا یدنیہ منک شوقہ و لسانا یرفع الیک ذکرہ )) یا (( صدقہ و نظرا یقربہ منک حقہ)) ؛ خدایا مجھے ایسا دل عطا کر کہ شوق و عشق اسے تجھ سے قریب کر دے۔مسلمان عالم ( دانشور) یہ چاہتا ہے؛خدا سے قربت،معنویت،اخلاص اور پاکیزگی۔اس وقت یہ علم ،یہ عظیم ذخیرہ،یہ عظیم ہتھیار انسانیت کے دفاع کے لیے استعمال ہوتا ہے؛انسانوں کی سلامتی،انسانوں میں انصاف،انسانوں اور انسانی معاشروں میں صلح صفائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد بنائیے۔
آپ آج ان کا لب و لہجہ دیکھیے جو سیاسی کرسیوں پر براجمان ہیں کہ جن کے پائے دولت اور منحرف علم - سرمایہ داری - پر استوار ہیں۔مغربی حکومتیں اس وقت ایسی ہیں۔اب مغربی طاقتوں کی چوٹی پر امریکہ ہے۔اس کی طاقت کی کرسی کے پائے سرمایہ داروں کی کمپنیوں کے پایوں پر ہیں اور اس کا حربہ اور وسیلہ علم ہے۔علم کے ذریعہ ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں؛اطلاعات و معلومات کی جاسوسی اور چوری کے لیے علم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں؛دنیا کے مختلف علاقوں میں قیدوبند کے لیے علم کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔آپ دیکھیے کہ اس قسم کے ممالک کے سربراہوں کا کہ جن کے پاس اس قسم کا منحرف اور گمراہ کن علم ہے، ان کا لب و لہجہ کیسا ہے؟ آپ نے چند روز قبل امریکی صدر ( جارج بش) کی تقریر سنی کہ کتنی نفرت انگیز،کتنی تشدد پسندانہ اور متکبرانہ تھی۔یہی غرور و تکبر انہیں روز بروز گرداب میں پھنساتا چلا جا رہا ہے۔آج آپ یہ جان لیں - میں اب آپ سے یہ کہہ رہا ہوں۔آپ وہ دن دیکھیں گے؛اس دن ہم نہیں ہوں گے،لیکن آپ نوجوان وہ دن دیکھیں گے - کہ یہ غلط بنیادوں پر بنایا گيا تمدن،گرداب میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے؛ہر لمحہ دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور سقوط کر جائے گا؛بلاشبہ یہی غرور،یہی احمقانہ تکبر اسی سقوط کے عوامل میں سے ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے۔یہ سقوط کر جائیں گے۔آج یہ اترا رہے ہیں؛لیکن پستی کی جانب حرکت کر رہے ہیں،خود بھی متوجہ نہیں ہیں؛البتہ ان کے ہوشیار اور باخبر افراد متوجہ ہیں جو برسوں سے فریاد کر رہے ہیں؛خبردار کر رہے ہیں؛خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں !لیکن کون ہے جو ان کی بات سنے؛مست ہی مست ہیں۔نشے میں ہیں۔
سکران سکر ھوی سکر مدامہ انّا یفیق فتی بہ سکران
ان میں دو نشے ہیں؛ہوس پرستی کا نشہ،طاقت کا نشہ۔جو آدمی ایک نشے کا شکار ہو اس کے ذہن میں کوئی چیز نہیں ڈالی جا سکتی؛جب کوئی دو نشوں میں مبتلا ہو تو پھر واویلا ہے!مثلا کوئی شراب بھی پئیے اور نشے کی گولی بھی کھائے انہوں نے دونوں کام کیے ہیں! اب علم کی تلوار بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ہنر مندی سے اور عقل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے اور زمین پر گرانا چاہیے؛اور انشاءاللہ ہم ان کو چت کر کے رہیں گے۔
توجہ رکھیے کہ ہم اس علم کے پیچھے نہیں ہیں۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں جو ہمیں معنویت،انسانیت،خدا اور بہشت سے قریب کرے۔آپ نوجوانوں کے دل پاک ہیں۔میں یہ باتیں کر رہا ہوں لیکن جو دل ان باتوں سے بننے اور شکل اختیار کرنے پر آمادہ ہے وہ آپ کا دل ہے۔آپ ہیں جو اپنے جوان دلوں اور اپنے شاداب و تروتازہ جذبات کے ساتھ اس راستے کو طے کر سکتے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے:دانشوروں کے سلسلے میں ایک ذمہ داری حکومت کی ہے،ایک ذمہ داری دانشوروں کی ہے۔حکومت کی ذمہ داری وہی چیزیں ہیں جو - ہمارے عزیز صدر ( احمدی نژاد ) کے محترم نائب - جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کی ہیں۔یہ حکومت کی ذمہ داریاں ہیں،انہیں انجام دیا جانا چاہیے،میں بھی تاکید کرتا ہوں اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لوں گا انشاءاللہ۔خوش قسمتی سے حکومت کی پالیسی بھی یہی ہے کہ یہ نتیجہ خیز ہوں۔یہ جو آپ نے کہا ہے کہ دانشوروں کو دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور مختلف مراکز میں ہونا چاہیے،یقینا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔اب بھی میں کہنا چاہتا ہوں ایسا ہی ہے۔یہی افراد جو آج دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور اس علمی ادارے کا انتظام چلا رہے ہیں،ہمارے نوجوان دانشوروں میں سے ہیں۔ان کا آپ سے عمر کے لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہے اور انہی دانشوروں کا حصہ ہیں کہ جو اب سرکاری عہدوں پر آگے آئے ہیں اور صدر کے نائب،علمی ادارے اور دانشوروں کی فاؤنڈیشن کی تشکیل تک اوپر آئے ہیں اور یہ عظیم کام درحقیقت آپ نوجوان دانشور ہی ہیں جو انجام دے رہے ہیں۔بعد میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے ۔
لیکن خود دانشور۔یہ آپ سے جو یہاں موجود ہیں،عرض کر رہا ہوں؛لیکن خطاب ملک کے تمام دانشوروں سے ہے۔ہمارے دانشور صرف آپ نہیں ہیں۔صلاحیت کے لحاظ سے ہزاروں،لاکھوں،شاید کروڑوں دانشور موجود ہیں کہ البتہ ان کو تلاش کرنا چاہیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہوشیار رہیے غرور کا شکار نہ ہوئيے۔ غرور،خود کو بڑاسمجھنا اور اپنا حق جتانا یہ صحیح نہیں ہے ؛ یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے ۔آپ اس گھر کے فرزند ہیں؛اس سرزمین کے فرزند ہیں۔آپ کے ماں باپ اس ملک میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی صرف کی کہ اس عمارت کو تعمیر کریں تا کہ آپ اس عمارت میں آسائش سے زندگی گزار سکیں۔ان کے حقوق ہیں۔ہوشیار رہیے بزرگوں پر حکم نہ چلایا جائے،ان کی توہین نہ ہو،بے اعتنائي نہ ہو،ملک و قوم پ اپنا حق نہ جتایا جائے ۔البتہ میں نے کہا ہے کہ حکومت کے فرائض اور ان کے فرائض جو غیرسرکاری شعبوں میں توانائی رکھتے ہیں،معلوم ہیں؛ان کی ذمہ داری معین ہے؛لیکن آپ بھی اس طرف سے اس نکتے پر توجہ کریں۔
آپ عزیزوں کے لیے میری دوسری نصیحت:آپ اپنے لیے ایک تاریخی اور قومی کردار کی تعریف کیجیے،نہ کہ ایک ذاتی کردار کی۔جب انسان اپنے لیے ایک ذاتی کردار کی تعریف کرتا ہے - ایک بااستعداد آدمی - تو اس کا ہدف و مقصد یہ ہو جاتا ہے کہ دولت و ثروت حاصل کر لے،شہرت حاصل کر لے،سب اس کو پہچانیں،سب اس کا احترام کریں؛یہ ہو جاتا ہے ہدف و مقصد۔ان چیزوں کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے کوئی کام نہیں ہوتا،اس کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا؛لیکن جب انسان اپنے لیے ایک قومی کردار،ایک تاریخی کردار کی تعریف کرتا ہے تو پھر صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔آپ ملک کے مستقبل اور تاریخ کو پیش نظر رکھیے اور دیکھیے کہ قوم کو کہاں پہنچنا چاہیے اور آپ آج اس راستے میں کہاں پر ہیں۔آج آپ کو کون سا کردار ادا کرنا ہے تا کہ اس روز یہ قوم وہاں پر پہنچ سکے۔ایسا ہدف و مقصد اپنے لیے تعریف اور وضع کیجیے؛ہدف و مقصد کو اعلیٰ بنائیے ۔
میری تیسری نصیحت یہ ہے کہ اپنی ہمت بلند رکھیے۔میں نے نوجوانوں اور دانشوروں کے اجتماع میں کئی بار یہ بات کہی ہے۔ہمت یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کوئی خاص ٹیکنالوجی کہ جسے دوسروں نے بنایا ہے اور ہم ہمیشہ اسے خریدتے اور درآمد کرتے تھے،اب فرض کیجیے ہم خود یہاں بنا سکتے ہیں۔یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔البتہ چیز ہے،کم اہمیت نہیں ہے؛لیکن وہ چیز نہیں ہے کہ ہم جس کے پیچھے ہیں۔آپ ہدف و مقصد یہ بنائیے کہ آپ کا ملک اور قوم ایک زمانے میں پوری دنیا میں علم و ٹیکنالوجی کا مرکز ہو۔میں نے ایک بارنوجوان دانشوروں کے اجتماع میں کہا تھا :آپ ایسا کام کیجیے کہ ایک وقت میں - اب ممکن ہے یہ وقت پچاس سال بعد یا چالیس سال بعد کا ہو - اگر کوئی دانشور تازہ ترین علمی و سائنسی نتائج حاصل کرنا چاہے تو وہ مجبور ہو کہ فارسی زبان سیکھے کہ آپ نے اپنی تحقیق فارسی زبان میں لکھی ہے؛جس طرح کہ آج آپ کوئی علم حاصل کرنے کے لیے کوئی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں تا کہ آپ اصل کتاب حاصل کر کے اسے پڑھ سکیں۔آپ ایسا کام کیجیے کہ مستقبل میں آپ کے ملک کی صورت حال ایسی ہی ہو؛آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ایک دن ایسا ہی تھا؛ایرانی دانشوروں کی کتابیں وہ ( یورپی ) اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے تھے،یا اس ( فارسی ) زبان کو سیکھتے تھے تا کہ سمجھ سکیں۔یہ بھی برا نہیں ہے آپ جان لیجیے کہ طب کے موضوع پر لکھی گئی ابن سینا کی کتاب قانون کا گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران - میری صدارت کے دور میں - فارسی میں ترجمہ ہوا! میں اس کام کے پیچھے پڑا؛بعض افراد کو ذمہ داری سونپی،بعد میں میں نے سنا کہ ایک صاحب ذوق خوش قلم کرد مترجم نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا کہ آج اس کا فارسی ترجمہ موجود ہے۔اس وقت تک کتاب قانون کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا - ابن سینا نے یہ کتاب عربی میں لکھی ہے - اور اس کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا؛جب کہ کئی سو سال پہلے اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہو چکا تھا ! یعنی جن کے لیے یہ کتاب ضروری تھی وہ اسے لے گئے تھے اور اس کا ترجمہ کیا تھا۔دیکھیے،یہ ہے علمی مرجعیت؛وہ مجبور ہیں کہ آپ کی کتاب کا ترجمہ کریں یا آپ کی زبان سیکھیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد قرار دیں۔اپنی ہمت بلند رکھیے۔علم و دانش کے میدان میں ترقی اور علم کی سرحدوں کو ختم کرنے اور توڑنے کا حوصلہ پیدا کیجئے البتہ اس سلسلے میں میرے پاس اور باتیں بھی ہیں لیکن وقت ختم ہو گیا ہے اور میں مجبور ہوں کہ آخری نکتہ بیان کروں۔
ہمیں ملک کےلیے ایک جامع علمی وژن تیار کرنا چاہیے۔یہ بات میں نے گزشتہ سال بھی اس علمی مجموعہ میں کہی تھی،اس وقت بھی ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے،لیکن یہ کام زیادہ سے زیادہ سنجیدگي سے ہونا چاہیے۔ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ملک کا جامع علمی وژن کیا ہے۔اس وژن میں کس علم کا کتنا اور کہاں پر مقام ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم ایک ایسے ایکسرسائز کرنے والے کی مانند ہوں کہ جو صرف بازوؤں کی ورزش کرتا ہے اور اس کے بازو موٹے ہو جاتے ہیں،جب کہ اس کی ٹانگیں اور شانے ایک کمزور آدمی جیسے ہوں! اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ایک ورزش کرنے والا صرف چھاتی کی ورزش کرے اور اس کے بقیہ بدن کے اعضاء میں کوئی طاقت نہ ہو،اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔،کام متناسب ہونا چاہیے۔ان عزیز نوجوانوں میں سے بعض نے نچرل سائنسز کے بارے میں بات کی ہے۔ہم نیچرل سائنسز کے بعض مضامین میں دنیا سے صدیوں آگے ہیں۔ان لوگوں سے کہیں آگے ہیں جو آج اس مضمون میں دنیا میں سر فہرست ہیں۔ہم ان پر کام کیوں نہ کریں؟نیچرل سائنسز کے مختلف شعبوں میں؛ادب،فلسفہ،تاریخ اور ہنر میں ہمارا قدیم ماضی ہے۔نیچرل سائنسز کے بعض مضامین ایسے ہیں کہ جو اگرچہ مغرب سے آئے ہیں،لیکن اگر ہم صحیح غور کریں تو اس کی بنیاد اور اصل کہ جو عقلانیت اور تجربے سے عبارت ہے،ایرانی - اسلامی روح اور فکر و سوچ سے ہے۔خرافاتی یورپ ،جیالوجی،اقتصاد،مدیریت(مینجمنٹ)،نفسیات اور سوشیالوجی کو اس شکل میں مرتب نہیں کر سکتا تھا۔یہ مشرق خصوصا ایران اسلامی کی علم دوستی اور تجربہ کرنے کی سوچ کی سوغات تھی کہ جو وہاں گئی اور اس تبدیلی کا باعث بنی۔بہرحال جن چیزوں میں ہم پیچھے ہیں ان میں ہمیں خود کو آگے لے جانا چاہیے اور ہم خود ایجاد کریں؛ترجمہ نہ کریں( دوسروں کے نظریات کی کاپی نہ کریں) یہ ہمارے لیے بہت زیادہ نقصان ہے۔
بنابریں جامع علمی وژن ایک لازمی چیز ہے۔مختلف علوم،ان میں سے ہر ایک علم،طلبہ کی تعداد،طلبہ کی جنسیت _ لڑکا،لڑکی _ مختلف علاقوں کا مقام و مرتبہ واضح ہونا چاہیے؛ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔یہ کام البتہ شروع ہو چکے ہیں،لیکن ان میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیجیے اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیجیے۔
تحقیقات اور ایجادات کو کام میں لانے اور مفید بنانے کا مسئلہ - کہ اتفاقا بعض نوجوانوں نے اس کے بارے میں بات کی ہے - ان چیزوں میں سے ہے کہ جن پر میں زور دیتا ہوں۔ممکن ہے ہم تحقیقات انجام دیں،ایک تشہیراتی منصوبے میں ہمارا محقق اچھے مقام پر پہنچے؛لیکن اس کا ملک کی صورت حال، ملک کی ترقی و پیشرفت میں کوئی کردار نہ ہو؛یعنی یہ قومی دولت میں تبدیل نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے علم کو قومی دولت میں تبدیل کرنا چاہیے۔اس کے لیے کوشش ضروری ہے،منصوبہ بندی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ایک اور نکتہ بھی ہے - کہ جو اسی جامع علمی وژن کے دائرے میں آتا ہے - کہ ہمیں علم اور ٹیکنالوجی کی زنجیر کو مکمل کرنا چاہیے،کہ بعض مقامات پر یہ زنجیر ٹوٹ گئی ہے،تاکہ حقیقی پیداوار کا سلسلہ شروع ہو اور علم تمام جہات سے اپنے اہداف تک پہنچ سکے۔
ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد آپ کا شوق،آپ کی ہمت،آپ کی دلچسپی اور متعلقہ افراد کی کوشش ہے مجھے امید ہے کہ خدا مدد کرے گا۔انشاءاللہ یہ کوشش کیجیے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بحمداللہ ( کوشش ) شروع ہو گئی ہے؛یہ علمی تحریک شروع ہو گئی ہے اور انشاءاللہ نتائج تک پہنچے گی۔
میں خوش قسمت ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوئی اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات ملک اور قوم کے اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچنے میں مدد دے گی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عید کے مبارک دن کی پوری امت مسلمہ،مومن و غیور ایرانی قوم اسی طرح ملک کے اعلی عہدیداران، اسلامی ممالک کے معزز سفرا کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں بلکہ زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ میں اس عید کی مبارکباد تمام عالم انسانیت کو پیش کروں، کیونکہ ختم المرسلین کی بعثت، تمام انسانوں کے لئے ایک نیا موڑ ہے جہاں انسانی معاشروں کو سالہا سال کے رنج و الم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس نئے باب کا حصہ بننے کی دعوت قبول کی اور کامبیاب و کامران ہو گئے اور جن لوگوں نے روگردانی کی وہ خسارے میں چلے گئے۔
ہماری نظر میں آج بھی انسانیت کو ضرورت ہے پیام بعثت کی اور انبیا ئے کرام کی تعلیمات پر عمل آوری کی جو مکمل طور پر اسلام اور قرآن کی تعلیمات میں مجتمع ہیں۔ تبلیغ دین کے مشن میں تین چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں اور ان پر قرآن کریم کی آیات میں بھی خصوصی تاکید کی گئی ہے: علم بصیرت، تزکیہ نفس و اخلاق اور عدل و انصاف۔
اگر غور کریں تو آج بھی عالم انسانیت کو انہیں تین چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔آج انسان علم کے میدان میں بہت آگے پہنچ چکا ہے، لیکن یہ علمی ترقی ایک خاص پہلو تک محدود ہے اور وہ ہے مادی پہلو، یعنی وہ علم جس کا تعلق انسان کی مادی زندگی سے ہے، انسانی معاشرے نے بلاشبہ سائنس میں بے پناہ ترقی کی ہے لیکن معنویت سے تعلق رکھنے والے علوم میں یعنی ان موضوعات کے سلسلے میں، جو انسانی ذہن کو خلقت کے آغاز اور خالق کی وحدانیت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس کے دل کو اس راہ کی جانب مائل کرتے ہیں جس پر گامزن ہونے کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے، ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کرنا باقی رہ گیا ہے۔ جب اسلام حصول علم کی دعوت دیتا ہے تو یہ دعوت تمام پہلوؤں پر محیط ہوتی ہے۔ اخلاقیات، تزکیہ نفس اور معنویت اس سے بھی زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ انسانی زندگی کی مشکلات، اخلاقیات اور تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔
سب سے پہلے مرحلے میں، اہم شخصیات، سرکاری حکام اور عہدیداروں کے لئے اس کی پابندی لازمی ہے۔ اگر انسانی معاشروں کی قیادت کرنے والے طبقے میں جو سیاسی، علمی اور سماجی شخصیات پر مشتمل ہوتا ہے، روحانیت، اخلاقیات اور پاکیزگی نفس کا ماحول قائم ہو جائے تو اس کا فیض آبشار کی مانند دیگر طبقات تک یقینا پہنچے گا اور عوام بھی اخلاق حسنہ سے آراستہ ہوں گے۔ مسلم ممالک کے حکام کی ذمہ داری اس سلسلے میں سب سے زیادہ ہے۔ حب دنیا، ہوس، گمراہ کن خواہشات، مادی بنیادوں پر دوستیاں اور دشمنیاں، جنگ کی آگ جس کا مقصد تسلط پسندی اور مادی مقام و منزلت کا حصول ہو، وہ بد امنی جس کا سرچشمہ سیاسی خباثتیں اور سیاستدانوں کی سازشیں ہوں، انسانیت کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ ہر ملک کے لئے اخلاقی پاکیزگی، بہت ضروری ہے۔لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت و انسیت، ایک دوسرے کے لئے احترام کا جذبہ، اپنے منصوبوں میں دیگر افراد کے حالات کا دھیان رکھنا، لوگوں میں مروت و ہمدردی، وہ چیزیں ہیں جوانسانی زندگی کو سکون بخشتی ہیں۔ اگر آج ہم دنیا میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ بے چینی، بد امنی اور تشدد دیکھ رہے ہیں اور بد امنی انسانی معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یا کم از کم سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک ہے، لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، سماجی زندگی میں انہیں تحفظ حاصل نہیں، اپنے وطن اور اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہیں، تو یہ بد امنی اور عدم تحفظ غلط سیاست کا نتیجہ ہے اور بری سیاست تسلط پسندی کا نتیجہ ہے، تسلط پسندی اخلاقیات سے دوری کا نتیجہ ہے اور اخلاقیات سے دوری تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے ہمیں تزکیہ نفس کی دعوت دی ہے اور یہ اسلام کی گرانبہا تعلیم اور ہدایت ہے ( یتلو علیکم آیاتناو یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمۃ ) آيات الہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں تعلیم دیتے ہیں۔
عدل انصاف کا قیام تمام انبیائے کرام کی دعوت کا سب سے اہم اصول رہا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ انبیا کو بھیجنا، کتابوں کا نزول اور انبیا اور ان کے پیروکاروں کی یہ ساری زحمتیں اور کوششیں اس لئے تھیں کہ ( لیقوم الناس بالقسط) عوامی زندگی عدل و انصاف کے پیرائے میں ڈھل جائے۔
بھائیوں اور بہنو! اسلامی جد و جہد سے ہمارا مقصد و ہدف ایسے معاشرے کی تشکیل تھا کہ جو ان خصوصیات سے آراستہ ہو۔ اسلامی انقلاب کسی ایک گروہ، ایک جماعت یا افراد کی تسلط پسندی کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا۔ اسلامی انقلاب کو ایران کے مسلمان عوام نےبرپا کیا اور اس انقلاب کا مقصد ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے، ایک مسلم سماج کی یہی خصوصیات ، یہی تشخص اور یہی معیار ہیں کہ وہ علم و اخلاق اور عدل و انصاف سے آراستہ ہو۔ سب کو اس کے لئے سعی پیہم کرنا چاہئے۔وہ رہنما اصول جن کے ہم پابند ہیں یہی ہیں۔ وہ اقدار جن کے لئے اسلامی معاشرہ تشکیل پایا ہے، یہی ہیں۔ یہی چیزیں ہیں جو ہماری مادی زندگی میں سکون و اطمینان دنیا میں ہمارے وقار اور ہماری سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ سب کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ معاشرہ علم و اخلاق اور انصاف سے مالامال ہو۔ حکام کی فریضہ بھی یہی ہے۔ تمام عہدیداراں کی ذمہ داری یہی ہے۔ مختلف اداروں کے سربراہوں کا فریضہ یہی ہے۔عوام کے ہر فرد کی آرزو بھی یہی ہے۔ وہ حکام سے جس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں علم و اخلاق اور انصاف سے آراستہ معاشرہ ہے۔اسلامی انقلاب کے شروع کے ایام سے لیکر اب تک جہاں بھی ہم نے اپنے اسلامی فریضے پر عمل کیا ہے، الہی احکام کی پابندی کی ہے، اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر انجام دیا ہے، ہم نے پیش رفت کی ہے اور جہاں بھی مختلف النوع تحفظات نے ہم پر غلبہ کیا، ہم نے اسلام کے ان بنیادو اصولوں سے کنارہ کشی کی، اپنے دل وجان میں دنیاوی زندگي کی رنگینیوں کو بسایا ہے وہیں ہمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، ہم وہیں مغلوب ہو گئے ہیں اور وہیں ناکامیوں نے ہمیں گھیر لیا ہے۔
موجودہ دور کے دنیاوی مکاتب فکر، جو طاقتور ممالک میں عالمی سیاست کی ترجمانی کرتے ہیں، انسانیت کی کامیابی و کامرانی کے ضامن نہیں بن سکتے۔ اس کے علاوہ بڑی طاقتوں کے حکام اور عہدیداران جو دعوے کر رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت انسانی معاشرہ دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ ایک تو یہ کو انسان کو نجات کا جو راستہ دکھایا جا رہا ہے وہ دنیا پرستی کا راستہ ہے، دوسرے یہ کہ جو لوگ عالمی برادری کے امور کے نگراں کا رول ادا کر رہے ہیں، نیک اور بھلے لوگ نہیں ہیں۔ آپ عالمی حالات کو دیکھئے، مختلف اقوام پر جو مظالم ہو رہے ہیں، مسلم امہ پر جو ظلم ہو رہے ہیں، فلسطین میں جوظلم کا بازار گرم ہے، عراق و افغانستان میں جو بربریت پھیلی ہوئي ہے، اسلامی احکام اور اصولوں کی جو ناقدری ہو رہی ہے، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عناصر جنگ و جدال، مار کاٹ اور فتنہ و فساد کی جڑ ہیں وہی اسلام پر رجعت پرستی کا الزام لگا رہےہیں۔کچھ افراد پوری دنیا پر اپنی مطلق العنان حکومت اور تسلط کے خواہاں ہیں، آج سامراجی، شیطانی اور طاغوتی طاقت امریکہ پوری دنیا کو ہضم کر جانے کی کوشش میں ہے۔ وہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور پہلو میں اپنا تسلط دیکھنا چاہتا ہے اور دعوی یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا حامی ہے انسانی حقوق کا حامی ہے۔ بد عنوان اور گمراہ ترین افراد نے انسانیت کو راہ راست پر لانے کا پرچم بلند کیاہے۔ یہ عالم انسانیت کے لئے بہت بڑا المیہ ہے۔
ہماری مسلم امہ آج ایک بہت بڑے امتحان اور آزمائش کے سامنے کھڑی ہے۔ ہم دوسروں کو نہیں دیکھیں گے خود مسلم امہ پر توجہ دیں گے۔ مسلم امہ کے پاس قرآن کریم ہے، اسلامی احکام ہیں، قرآن نے سعادتمند اور کامیابی سے سرشار انسانی زندگی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ مسلم امہ اپنے اسلامی تشخص کی جانب واپسی کےساتھ اس تخریبی لہر کو دبا سکتی ہے جو انسانی زندگي کی بنیادوں کو مٹا دینے کے لئے اٹھی ہے بس شرط ہے یہ کہ مسلم امہ ہمت سے کام لے۔ مسلم امہ کو چاہئے کہ شجاعت سے کام لے اور اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی ممالک کے حکام کی ہے انہیں چاہئے کہ کمر ہمت باندھیں۔
اسلامی یکجہتی یعنی مسلم ممالک مسلم امہ کی قدر کو پہنچانیں ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم ایک دوسرے سے دشمنی کرکے کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم نسلی، فرقہ پرستی ، شیعہ سنی، عرب اور عجم کے اختلافات سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ مسلم امہ ایک عظیم پیکر ہے جس میں بے شمار وسائل، بے پناہ سرمایہ ہے۔ لیکن مغربی دنیا نے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ ہماری فرقہ پرستی کو مسلمانوں کی نابودی کا وسیلہ قرار دیا ہے، اور ہم نے ( مسلمانوں نے ) بھی نادانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس سازش کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہیں، اس جال میں پھنس گئے ہیں، ہمیں بیدار ہونا چاہئے۔
ہم نے موجودہ سال ( 1386 ھ ش ) کو اسلامی یکجہتی کا سال قرار دیا ہے تو یہ کوئي رسم کی ادائگي نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان بھائیوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں، رقم خرچ کی جا رہی ہے تاکہ ہماری توانائیاں آپس ہی میں ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائي میں صرف ہو جائیں اور ہم میں آگے بڑھنے کی سکت نہ رہ جائے۔ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، عالم اسلام بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہمیں آگے جانا ہےاور اس سےبھی بڑھ کر ہمیں تہذیب نفس، اور خواب غفلت سے بیداری کی سمت قدم بڑھانا ہے۔
آج مغربی ممالک ڈیموکریسی کے نام سے جو چیز پیش کر رہے ہیں، در حقیقت عوامی حکومت نہیں ہے، عوامی حکومت تو اسلام نے قائم کی۔ اسلام میں عوام اور حکام کے تعلقات ایمان کی بنیاد پر استوار ہیں، یہ رابطہ محبت و انسیت کا رابطہ ہے، پر خلوص تعاون اور خدمت کا رابطہ ہے، حقیقی خوشی اور رضامندی کا رابطہ ہے۔ یہ طرز عمل آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے جب بھی جس مقدار میں بھی اس نسخے پر عمل کیا ہے اسی مقدار میں کامیابی اور کامرانی بھی ہمیں حاصل ہوئي ہے۔ آج عالم اسلام مجروح ہے۔ فلسطینی قوم کے لئے آنکھیں گریہ کناں ہیں، عراقی قوم کے لئے دل جلتا ہے۔ افغان عوام کے رنج و غم نا قابل برداشت ہیں، یہ سب شدید دباؤ میں ہیں یہ لوگ مسلم امہ کے سب سے بڑے دشمنوں کے شدید دباؤ میں ہیں۔
آج جو لوگ مسئلہ فلسطین میں فلسطینیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں، عراق میں عراقی عوام کو کچل رہے ہیں، یہ ایسے لوگ نہیں ہیں جنہیں عراقی یا فلسطینی عوام سے کوئی خاص دشمنی ہے بلکہ یہ مسلم امہ کے دشمن ہیں۔جہاں بھی ان کے قدم پڑتے ہیں یہی رویہ سامنے آتاہے۔ ان کے لئے شیعہ، سنی، عرب اور عجم میں کوئي فرق نہیں ہے۔ یہی تسلط پسندی ہے۔ یہ ہے طاقت کا نشہ کہ جس کے نتیجے میں مادی اہداف، ہوس و خواہشات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا، عالم انسانیت کے لئے اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے، مسلم امہ کو اب بیدار ہو جانا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مقدس ذات تمام مسلم فرقوں کے لئے نقطہ اتحاد ہے۔ سب کے دل نبی اکرم کی عقیدت سے لبریز ہیں۔ مسلم امہ کا ہر فرد اللہ کے اس منتخب بندہ کامل سے والہانہ لگاؤ رکھتاہے۔ اس مقدس ذات کو ہم مسلم امہ کے اتحاد کا محور قرار دے سکتے ہیں اور مسلم اقوام کو ایک دوسرے کے نزدیک لا سکتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ خدا وند عالم ہماری ہدایت فرمائے، ہمیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق کرامت فرمائے۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی رکھے۔ درود ہو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور شہدا کی پاکیزہ ارواح پر جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اس پر گامزن ہونے میں ہماری مدد کی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
کچھ سال قبل ملک میں ایک مبارک علمی تحریک شروع ہوئي ۔سبھی اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ مبارک تحریک اساتذہ ، طلباء ، محققین ، یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے ساتھ ساتھ سبھی علمی حلقوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ اس عظیم تحریک کی قدردانی و شکریہ اداکروں جسے پورے ملک میں ہمارے اساتذہ ، محققین اور دانشوروں نے شروع کیا ہے۔ ہمارے ملک میں خوش قسمتی سے شروع ہوئی اس عظیم اور وسیع تحریک کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے میری آج یہاں آمد ، حقیقت میں ایک علامتی قدم ہے ۔ حالانکہ ابھی یہ تحریک اپنے شروعاتی دور میں ہے۔ میں نے اس جگہ کو اوّل تو رویان اور دوسرے جہاد دانشگاہی کی خاطر منتخب کیا ہے۔ سائنسی تحقیقاتی مرکز رویان ، ایک کامیاب ادارہ اور اس چیز کا ایک اہم و مکمل نمونہ تھا اور ہے جس کی انسان آرزو کرتا ہے ۔ مرحوم سعید کاظمی کی میرے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت کی وجہ یہی ہے اور آج بھی میرے دل میں اس عزیز جوان کا خاص مقام ہے۔ ان کا کام ، ان کا کام کرنے کا طریقہ ، ان کی انتظامی صلاحیتيں اور کاموں کا جائزہ لینا اور فرائض کی انجام دہی کی ان میں فکر ، یہ سب چیزیں ان میں کمال کی اس حد تک تھیں جسے آدمی پسند کرتا ہے اور اس کی آرزو کرتا ہے ۔
رویان سائنسی تحقیقاتی مرکز ان کی اور ان کے باقی ساتھیوں کی مدد سے کہ جو شروع سے ہی اس میں کام کررہے ہیں، پروان چڑھا۔ مجھے اس بات کا شروع سے اندازہ تھا ۔ میرے اور مرحوم کاظمی کے مشترک دوست نے پندرہ سولہ سال پہلے، مرحوم کاظمی کے منصوبے کو میرے سامنے پیش کیاتھا ، مجھے اس کام میں، ایک صحیح تحریک کی علامتوں کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ میں اپنے امکان بھر اس کام کا ساتھ دوں گا اور پشت پناہی کروں گا ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا کیا میرا اندازہ یقین میں بدلتا گيا، اسے ٹھیس نہیں پہنچی۔ اگر اس مثالی شخصیت کا اک جملہ میں تعارف کراؤں تو یہ کہوں گا کہ وہ علم ، ایمان اور جد وجہد کا نمونہ تھے ۔ وہ ، مذہب پر عمل کے ساتھ ساتھ سائنس کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے ۔ ایک بوجھ کی طرح نہیں بلکہ اسے وہ اسٹاف کے لئے بنیادی عنصر مانتے تھے ۔ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ تھکن کیا چیز ہے ۔ میرے خیال میں مرحوم کاظمی نے اپنی زندگی کو اسی کام کے لئے وقف کردیا تھا ، اس لئے میری نگاہ میں رویان کی بہت قدر و منزلت ہے ،اور آپ سب لوگ جو اس مرکز میں کام کررہے ہیں ، میرے لئے بہت محترم ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رویان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے ۔ میرے حوالہ سے یہ کہا گيا ہے : یہ اسٹم سل ایک علمی تحریک ہے ، حقیقت بھی یہی ہے۔ جس طرح یہ اسٹم سل تحقیق کا ایک بیکراں سمندر ہے اور آپ اس کے بارے میں جتنا تحقیق کریں گے، آگے بڑھیں گے آپ کے سامنے تحقیق کا ایک نیا دریچہ کھل جائے گا جسے آپ تحقیق کا موضوع قراردے کر آگے بڑھ کر نئے نتیجوں تک پہنچ سکتے ہیں، رویان بھی ایسا ہی ہے آپ کا یہ ادارہ جتنا بھی کام کرے اور آگے بڑھے، نئي نئي منزلیں سامنے نظر آئیں گی۔ سائنس اور مذہب پر یقین رکھنے والے ہر ایک محقق کے بارے میں چاہے وہ اس ادارہ کا ہو یا کسی اور ادارہ کا، یہی حکم ہے یعنی یہ میدا بہت وسیع ہے۔ میں نے جہاد دانشگاہی ( جہاد دانشگاہی نامی ادارہ تہران یونیورسٹی کا ایک عظیم تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں ایرانی محققین علم و سائنس کے میدان میں جہاد کرتے ہیں ) کا اس لئے انتخاب کیا کہ یہ انقلاب کا مبارک ثمرہ ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں دو مسجدوں کا موازنہ کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے : لمسجد اسّس علی التّقوی من اوّل یوم احقّ ان تقوم فیہ، فیہ رجال یحبّون ان یتطہّروا جہاد دانشگاہی بھی اسی طرح ان چنندہ اداروں میں ہے جو انقلاب کا ثمرہ ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جہاد دانشگاہی نے شروع سے جو نظریات قائم کئے اور جس طرح کام کیا سب صحیح ہے۔ نہیں ! ہم انسان کبھی صحیح سوچتے ہیں تو کبھی غلط، کبھی صحیح عمل کرتے ہیں تو کبھی غلط عمل کرتے ہیں ۔ کبھی کبھار کی غلطیوں کو کسی کی صلاحیت کے بارے میں فیصلہ سنانے کے لئے معیار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ہدف ، ہدف کی راہ میں چلنا اور بغیر کرے آگے بڑھتے رہنا معیار ہے، اگرچہ انسان سے کبھی غلطیاں اور لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں۔ میری نظر میں جہاد دانشگاہی کا اپنا خاص تشخص ہے اور الحمدللہ اس سے بڑے اہم نتایج ملے ہیں ۔ اب میں تھوڑا بہت جہاد اور پھر اس کے بعد کچھ جملے علم ، تحقیق اور ملک کے دیگر امور کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا ۔
جہاد دانشگاہی ، یہ مرکب لفظ دو الفاظ پر مبنی ہے، ایک جہاد اور دوسرے دانشگاہ یعنی وہاں جہاد ایسا ہو جو یونیورسٹی کے شایان شان ہے ، ہر طرح کے کام کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ جہد و کوشش اور جہاد کی اصل ایک ہے یعنی جہاد میں جد وجہد کا معنی موجود ہے لیکن جہاد صرف اس کو نہیں کہتے ۔ جہاد کامطلب ہے مقابلہ کرنا ، آج کی ہماری اصطلاح میں جہاد کی بھی کئي قسمیں ہیں مثلا علمی جہاد ، صحافتی اور مواصلاتی میدان میں جہاد ، سیاسی میدان میں جہاد ، فوجی و دفاعی میدان میں جہاد ، معیشتی میدان میں جہاد ، کھلا ہوا جہاد ، غیر اعلانیہ و پنہاں جہاد ، لیکن ان سب میں ایک مشترکہ عنصر ہے اور وہ ہے رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا موانع کو رفع کرنا۔ دوست سے جہاد کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ جہاد، دشمن کے مقابلے میں ہوتا ہے فرض کیجئے کہ طاغوتی حکومت میں اگر کوئی شخص ہرہفتہ پانچ کتاب پڑھتا تھا، یہ ایک اچھا کام تھا، جد و جہد تھی مگر جہاد نہيں تھا ۔ جہاد اس وقت ہوسکتا تھا جب وہ کسی ایسی کتاب کو پڑھتا جو طاغوتی حکومت کے خلاف اس کے افکار و ذہن پر اثر انداز ہوتی ، اس وقت اس کا یہ کام جہاد ہوتا ۔جہاد کی خاصیت یہی ہے ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی آپ کے جہاد کا میدان ہے، یعنی آپ یہاں توپ و بندوق (شمشیر و نیزہ ) کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ دماغ انسانی کے اندر سوچنے و غور کرنے کی صلاحیت، قلم، اور آنکھیں وغیرہ اس میدان کے ہتھیار ہیں ۔
آپ کا گروہ، ایک علمی گروہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ آپ کے ملک ، آپ کے انقلاب اور انقلاب نے جو اہداف و مقاصد معین کئے ہیں اس کے خلاف کون ضدی دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے آپ کو اس دشمن سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔اگر آپ کا کام اس راستہ پر ہوا تو جہاد کہلائے گا ۔اس لئے اگر آپ سائنس کے کسی ایسے شعبےمیں کوشش کررہے ہیں جو دشمن کو پسند ہے اور اسے کوئی تکلیف ہونے کےبجائے خوشی ہورہی ہے تو یہ جہاد نہیں ہے ۔ فرض کریں ، جہاد دانشگاہی یا اس سے مربوط کوئي ادارہ یہ کہے کہ فلاں سال ہمارے سو یا پانچ سو مقالے آئي اس آئی میں چھپے ۔ یہ معیار نہیں ہے ۔ یہ مقالہ کیا تھا ؟ کس مقصد کے لئے تھا ؟ اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوا ؟ اور جو آپ کے اہداف و مقاصد کے دشمن ہیں ان کا ان مقالوں کے بارے میں کیا موقف تھا ؟ کیا انہوں نے اس سے خطرے کا احساس کیا ؟ یا نہیں ؟ البتہ میری مراد ان کے سیاسی رہنما و شخصیتیں ہیں کیونکہ اہل علم کا طرز فکر الگ ہوتا ہے ۔ جب آپ نے کلوننگ کے اسٹم سل اور اس طرح کے کاموں کے بارے میں گفتگو کی اور میں نے یا کسی دوسرے شخص نے اس کام کو سراہا امریکی حکام نے یہ اعلان کیا کہ جینیاتی علوم (ژنتیک) کے لئے بھی ایک نگراں کمیٹی ہونی چاہئے، ان کے یہ کہنے کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟ دشمن ، آپ کے اس میدان میں آگے بڑھنے سے پریشان ہوگیا ہے ۔اس کی ہزاروں واضح مثالیں ہیں جس دن آپ ایسا رڈار بنا لیں جو ملک کی فضائي حدود سے کسی چیز کو داخل نہ ہونے دے اس وقت آپ کا دشمن آپ سے پریشان ہوجائےگا، یعنی یہ وہ تیر ہے جو سیدھے اس کے سینے پر لگے گا ، اسے جہاد کہیں گے۔ جذبہ جہاد کے ساتھ کئے جانے والے کام ، علمی جد وجہد اور تحقیق کے لئے یہ عنصر لازمی شرط ہے۔
دشمن سے ہماری مراد صرف امریکہ نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارا کھلا دشمن امریکہ اور عالمی سامراج ہے لیکن دشمنوں کی کئی قسمیں ہیں ۔ کبھی ایک کثیر القومی کمپنی اس لئے آپ سے ناراض ہوجاتی ہے کہ آپ مثلا سمنٹ کا کارخانہ لگانا چاہتے ہیں وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، آگے بڑھنے نہیں دیتی یہاں پر مجھے جو رپورٹیں دی گئی ہیں اس میں یہ موضوع بھی شامل تھا وہ سمنٹ بنانے سے مربوط ایک نگراں کمیٹی بنانا چاہتے ہیں تا کہ کسی کے پاس سمنٹ کا کارخانہ لگانے یا سمنٹ پیدا کرنے کا حق نہ رہے ۔
جہاد کے جذبہ کے ساتھ کئے جانے والے کام کا مقصد معین ہونا چاہئے۔ اسے اہداف پر مرکوز ہونا چاہئے، اسے ہوشیاری اور دانشمندی سے کیا جانا چاہئے اور دشمن کو شکست دینے والا ہونا چاہئے ۔ جہاد کا معنی وہی ہے جسے ہم روز مرہ کی اصطلاح میں جد و جہد کہتے ہیں ، جیسے میں جد وجہد کررہا ہوں ، یہ ایک جد وجہد ہے ۔ جہاد کے یہ معنی ہیں اور یہ ہوئي جہاد کی تعریف ۔
یونیورسٹی میں جو سرگرمیاں ہوں معیاری ہونا چاہئیں وہ طلباء ، اساتذہ اور فعال علمی ذہنوں سے مطابقت رکھتی ہوں اور سبھی کاموں میں اس بات کا لحاظ رکھا جانا چاہئے، سطحی اور ہلکا کام مد نظر نہیں ہونا چاہئے ۔ البتہ کچھ سرگرمیاں سائنسی ہیں جیسے یہی ( اسٹم سل کے بارے میں ) تحقیق ۔ فرض کیجئے اگر علمی سرگرمیاں علوم انسانی کے میدان میں ہوں مثلا ادب میں ہو تو اس کا معیار اتنا بلند ہو کہ وہ کسی معمولی ادیب کے بس کی بات نہ رہے۔ ۔یعنی اس کی سطح بلند ہو ۔ تاریخ ، ادب اور فلسفہ جیسے موضوعات کے بارے میں بہت سی باتیں ہیں جن میں سے کچھ تو معمول کے مطابق عام باتیں ہیں، اگر اس بارے میں جہاد دانشگاہی نہ بھی بولے تب بھی بہت سے ہیں اس بارے میں بولنے والے۔ جہاد دانشگاہی کو ایسی بات سامنے لانی چاہئے جو خصوصیت کی حامل ہو ۔ مثلا آپ علوم قرآنی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔ بہت سے ہیں جو اسی سرگرمی کو انجام دے رہے ہیں ۔ سبھی سرگرمیاں خوب ہیں ، آپ جانتے ہیں میں ان لوگوں میں ہوں جو قرآنی سرگرمیوں کے متعلق احساس ذمہ داری رکھتے ہیں اور اس کے لئے خاص اہتمام کرتے ہیں۔ ایسا میں انقلاب سے پہلے بھی کیا کرتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے ۔ اگر ایک مسجد مین دس نوجوان اکٹھا ہوکر قرآن کی تلاوت کریں ، بہت اچھا کام ہے ، مجھے پسند ہے لیکن اگر آپ قرآنی سرگرمیاں انجام دینا چاہیں تو اس کا معیار معاشرے میں جاری سطحی سرگرمی سے بلند ہونا چاہئے ۔ فرض کریں کہ آپ کسی قاری کے لحن ، آواز اور تجوید کو بقیہ لوگوں کی طرح دہرانا چاہتے ہیں ، بہت اچھا کام ہے لیکن قرآنی علوم کے میدان میں جہاد دانشگاہی کی سرگرمیوں کا معیار اس سے بلند ہونا چاہئے ، اس بات پر غور کیجئے کہ جو یونیورسٹی میں ہیں انہیں قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے ، قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔آپ کو قرآن اس طرح سے پڑھنا چاہئے کہ جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اس کے مفہوم کو اپنے دل میں محسوس کریں ، آپ کا کلاس ایسا ہو جس میں قرآن کے مفاہیم سمجھائے جارہے ہوں ۔اس کے لئے جدت پسندی کی ضرورت ہے اور یہ آپ کا کام ہے ۔
اس لئے جہاد دانشگاہی کے پاس یہ امکانات اور وسائل موجود ہیں اور مجھے بھی جہاد دانشگاہی پر پورا بھروسہ ہے۔ بہت بڑے اور اچھے کارنامے انجام دیئے گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ شروع سے اب تک میں نے جہاد دانشگاہی کو دین و تقوی کی سے منسلک پایا۔ اسے اسی حال میں باقی رکھئے ۔ کچھ منٹ پہلے یہاں کے عہدہ داروں کے ساتھ گفتگو میں میں نے کہا کہ اس بات کی کوشش کیجئے کہ جہاد (دانشگاہی ) کی شناخت بدلنے نہ پائے آپ جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب کے آغاز سے اب تک کچھ لوگوں کے افکار و خیالات ایک سو اسی درجہ تک بدل گئے ہیں یہ فطری روش نہیں ہے کہ آپ کہہ دیں کہ اس کی فطرت ہی ایسی تھی ، نہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فطری یہ ہے کہ اگر انسان منطق اور دلیل کے ذریعہ کسی راستہ کوچنے تو اس پر مرتے دم تک چلتا رہے ۔ یہ فطری بات نہیں ہے کہ ہم کسی راستہ پر بہت جوش و خروش کے ساتھ چلیں اور پھر کچھ دور جانے کے بعد رخ بدل دیں یہاں تک کہ پوری طرح روگرداں ہوجائیں ۔
کچھ لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ابتدای انقلاب کا زمانہ کچھ اور تھا اور اب کا زمانہ کچھ اور ہے ، حالات بدل گئے ہیں ، ہم بھی بدل گئے ۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ زمانہ ایسے لوگوں کو بدل دیتا ہے جو کمزور، ناپائیدار اور بے بنیاد اعتقادات کے حامل ہیں ۔ زمانہ حریص اور لالچی لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔قرآن کہہ رہا ہے : جولوگ جنگ احد سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ان میں ڈٹ جانے کی طاقت نہیں تھی، ان کی یہ لغزش ( ان کے ناپختہ افکار کا نتیجہ تھی) اس کام کے سبب تھی جسے انہوں نے پہلے انجام دیا تھا ۔جب تک ہم روح کی تربیت نہیں کریں گے اپنی شخصیت کو پختہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہر چیز سے ہم متاثر ہو جائیں گے۔ ایک بار اثر انداز ہوگي، دوسری بار ہوگی تیسری بار اثر انداز ہوگي یہاں تک کہ پوری شخصیت ہی بدل جائے گي ۔ جب صحیح منطق اور صحیح فکر پر انسان کی دینی اور انقلابی شخصیت استوار ہوتی ہے اور اس میں فولاد کی طرح استحکام آجاتا ہے تو زمانہ گذرنے سے اس کی یہ شخصیت مزید نکھرکر سامنے آتی ہے اور اس میں استحکام پیدا ہوتا جاتا ہے۔ آدمی کچھ ایسا ہی ہے اور سرشت بھی ایسی ہی ہے۔ جہاد دانشگاہی کی ماہیت بدلنے نہ پائے کہ وہ کوئی غیر دینی اور غیر انقلابی شناخت اختیار کرے ۔
میں نے کچھ سال پہلے جہاد دانشگاہی کے کارکنوں کے بیچ کچھ گفتگو کی تھی، جو مجھے یاد نہیں تھی، اس کے ریکارڈ کو میرے سامنے لایا گیا میں نے پڑھا اور مجھے یاد آگیا ۔ اس کی صحیح و دینی شناخت کی حفاظت کیجئے ۔ خوشی کی بات ہے کہ یہ پہلے کی طرح ابھی بھی باقی ہے کیونکہ جہاد دانشگاہی کا ڈھانچہ ، اس کی انتظامیہ، کارکردگی کی نوعیت پالیسی اور مقاصد اچھے رہے ہیں ۔ اس مرتبہ جو میں نے کہا تھا وہ یہ کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انقلابی ہونے یا انقلابی تحریک کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی تحریک جس میں بد نظمی اور افراتفری کا ماحول ہو۔ وہ لوگ کہتے ہیں جناب وہ ایک انقلاب آیا تھا اب ختم ہوگیا۔ یہ غلط ہے۔ انقلابی تحریک میں خلفشارو انتشار، مطلق نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے برعکس انقلابی تحریکوں میں بہترین نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔
شروع میں انقلابیوں کے اندر جو بے نظمی دکھائی دیتی ہے اس کا سبب انقلابی تحریک کا ابتدائي مراحل میں ہونا ہے۔ چونکہ ایک پرانی عمارت (نظام ) کو پوری طرح نیست و نابود کرنے کے بعد اس کی جگہ ایک نئی عمارت بنانی ہوتی ہے تو یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر صحیح ستونوں پر نئی عمارت بن جاتی ہے تو اس کی بنیاد پر نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے اور تحریک آگے بڑھنے لگتی ہے اور یہ ایک طرح کا انقلاب ہے ۔اس لئے انقلابی ہونے کو بے نظمی ، افراتفری اور قانون شکنی سے تعبیر نہ کیا جائے ۔ بہرحال جہاد دانشگاہی ان اداروں میں ہے جو ملک کے علمی و سائنسی مستقبل کو سنوارنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں ۔
علم اور تحقیق کے موضوع پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک ، علم و تحقیق کے میدان کو وسعت دیئے بنا ، ترقی نہیں کرسکتا ، اور یہ بات صرف ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے علم و تحقیق ، کنجی ہے ترقی و پیش رفت کی ۔
کسی قوم و ملت کے دانشور ہونے کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے علوم سے فائدہ اٹھائے۔ یہ کام کا مقدمہ ہے علم کا دامن بہت وسیع ہے اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی کہ ہم یہ فرض کرلیں کچھ مما لک یا قوموں کے سائنسداں ، علم کی نئي نئي منزلوں کو طے کریں ، جن میں سے کچھ سے خود فیضیاب ہوں اور جو بچ جائے اسے دوسروں کو دے دیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔اگر ایسا ہوگا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ کچھ ملک ہمیشہ پچھڑے رہیں گے ۔ملکوں کے درمیان غیر منصفانہ تعلقات ہوں گے اورترقی یافتہ ملک ، ترقی پذیر ملک ، پچھڑے ہوئے ملک اور شمال و جنوب جیسی تقسیم بندی کی باتیں سننے میں آتی رہیں گی جو آج کی سیاسی گفتگو میں عام ہیں اور پچھلی صدی میں بھی رائج تھیں ۔
سبھی انسان علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں البتہ ان کی صلاحیتوں کی سطح میں فرق ہوسکتا ہے ہر ملک کے پاس باصلاحیت افراد ہیں جو علم و سائنس کے میدان میں اپنے لئے ایک مقام بنا سکتے ہیں ۔اگر کسی ملک کی تاریخ اور اس کے تجربے سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اس کی توانائیاں صلاحیتیں اعلی سطح کی ہیں ، متوسط توانائیوں سے بالاتر ہیں اور ہمارا ملک بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے، تو ایسے ملک کو چاہئے کہ علم و سائنس کے میدان اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے اور اگر اس میں کامیاب ہوجائے تو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں اس کا پچھڑاپن اور اس کے ساتھ امتیازی رویہ اور ناانصافی ختم ہوجائے گي۔ پھر وہ بھی آج کی بڑی طاقتوں اور دوسرے ملکوں سے برابری کرنے لگے گا ۔اس وقت خود اپنا انتظام چلا سکے گا ، خود کفیل ہوسکتا ہے، ایک چیز دے سکتا ہے اور ایک چیز لے سکتا ہے، جبکہ آج کی دنیا میں ایسا نہیں ہے۔
آج دنیا پر حکمفرما تسلط پسندانہ نظام کچھ دے کر کچھ لینے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ کم سے کم دے کر زیادہ سے زیادہ لینے پر یقین رکھتا ہے ۔ قوموں کے مال و دولت اور ان کے وسائل و ذرائع کو لوٹ لیتا ہے، ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی اختیارات سلب کرلیتا ہے اور اس کے بدلے میں کچھ نہیں دیتا اور اگر دیتا ہے تو کبھی ضرررساں چیز تو کبھی بہت ہی حقیر سی چیز دیتا ہے ۔ آج دنیا کا سیاسی نظام و ڈھانچہ ایسا ہی ہے۔ تسلط پسندی اور تسلط کو تحمل کرنا۔
اس نظام کو توڑنے اور عالمی روابط میں ملکوں کو ان کی قومی صلاحیتوں کے مطابق مقام دلانے میں جو چیز سب سے زیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے وہ علم و سائنس ہے اس لئے علم و سائنس کے لئے سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری تحریک شروع ہوچکی ہے لیکن ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں ۔ سائنسی اور تحقیقی مراکز کی مدد کی جانی چاہئے اور ساتھ ہی سائنسی، تحقیقی اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی سائنس اور تحقیق کا رجحان عام ہونا چاہئے۔ یہ صرف اساتذہ اور محققین تک محدود نہ رہے بلکہ طلباء کی سطح پر اس رجحان کو عام ہونا چاہئے ۔ یعنی طلباء میں علم سیکھنے اور اس میں آگے بڑھنے کا رجحان ہونا چاہئے اور یہ کام منصوبہ بندی سے ہوگا۔ سفارش، درخواست اور حکم و غیرہ سے اسے انجام نہیں دیا جا سکتا ۔ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں کی اس سلسلہ میں ذمہ داری ہے چاہے وہ وزارت تعلیم ہو ، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ہو ، وزارت صحت ہو یا وہ ادارے ہوں جن پر ملک کی تہذیب و ثقافت کے امور کی ذمہ داری ہے ۔ وہ ایسا کام کریں جس سے یونیورسٹی کا ماحول حقیقی معنی میں علم دوستی کا ماحول بن جائے ۔ ہمارا نوجوان صحیح معنوں میں سائنسداں بنے صرف ڈگری لینے کے لئے وہاں نہ جائے ۔ اس کے لئے تحریک کی ضرورت ہے اور اسے جاری و ساری رہنا چاہئے اور اس سلسلے میں حکومت متعلقہ ذمہ دار اداروں اور با اثر لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ میری یہ تاکید ہے کہ جس وقت بھی سائنسی ترقی کے لئے کام کریں، اس بات کو نہ بھولیں کہ سائنس اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ دین سے عاری علم و سائنس ہوسکتا ہے کسی ملک کوکم مدت کے لئے کامیابیوں کی منزلوں سے ہمکنار کردے لیکن طویل مدت میں انسانیت کے لئے نقصان دہ ہے ۔جیسا کہ آپ دین سے عاری سائنس کے نقصانات کو دیکھ ہی رہے ہیں۔ دین سے خالی سائنس کا نتیجہ یہی ہوگا جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا علم ایک طرف منہ زوری ، لوٹ کھسوٹ اور نسلوں کی تباہی کا ذریعہ ہے اور ایسے ہی علم کی دین ایٹم بم ہے تو دوسری طرف ایسے علم کا نتیجہ منشیات ہے اور ایسے ہی علم کے نتیجہ میں دنیا کےاکثر ممالک میں انسانی جذبہ سے خالی سیاستدان حکومت چلاتے ہیں ۔ سائنس کو دین کے ساتھ سمجھنا چاہئے سائنس کو مرضی خدا کے لئے حاصل کرن اور راہ خدا میں استعمال کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا بنیادی اصول ہے۔
آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایسے علم کی برکتیں بھی بہت ہیں۔ یہ نہ کہا جائے کہ اگر ہم نے سائنس کو مقدس مانا ، اسے دین کے ساتھ کردیا اور اللہ و رسول (ص) کی باتیں کرنے لگے تو اس سے ترقی نہیں ہوگي۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آپ کا یہی جہاد دانشگاہی اور اس کے مؤمن کارکن کہ جن کی بدولت اتنے بڑے کام انجام پائے ہیں، اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ علم جب ایمان کے ساتھ ہوگا تو اس کی برکتیں بھی زیادہ ہوں گی ۔
کچھ چیزیں اور بھی لکھ کرلایا ہو مگر اب اسے ذکر کرنے کا وقت نہیں ہے ۔بارہ بج چکے ہیں (نماز ظہر کا وقت آگيا ہے ) مجھے امید ہے کہ ہماری یہ ملاقات ان شاء اللہ ملک کے علمی اور سائنسی حلقوں کے لئے قدردانی اور شکریہ کا پیغام ثابت ہوگي خاص طور سے جہاد دانشگاہی کے لئے اور خاص الخاص طور پر رویان انسٹیٹوٹ کے لئے، خدا ان شاء اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے ، مرحوم کاظمی کی روح کو اپنی نعمتوں سے سرشار کرے اور ان کے اہل خانہ کو جو یہاں تشریف رکھتے ہیں صبر و ضبط عطا فرمائے اور ہم روز بروز رویان انسٹیٹوٹ اور جہاد دانشگاہی کی ترقیوں کا مشاہدہ کریں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نگہبان کونسل کے ارکان اور دیگر نگراں اداروں کے ذمہ دار حضرات! آپ لوگوں نے اتنی بڑی اور اہم ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھا رکھی ہے۔ انشاء اللہ اس عظیم فریضے کی ادائگی کے نتیجے میں خوشنودی باری تعالی آپ کے شامل حال ہو ۔
ہمارے ملک کے آئين میں نگہبان کونسل کا مسئلہ ، بہت ہی اہم اور حساس ہے اور یہ ادارہ دیگر اداروں سے قدرے مختلف ہے۔ پارلیمنٹ میں منظور کئے جانے والے قوانین، آئين اور شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں اس کا تعین یقینا بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر یہ کام نہ ہوتا تو پھر نظام کی اسلامی و شرعی ماہیت محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہ رہتی اور یہ ایسا حساس ادارہ ہے جو ہمارے نظام کے اسلامی تشخص کی بقا کا ضامن ہے۔ آئين کی تشریح بہت اہم اورسنگین ہے۔ کبھی بھی کسی وجہ سے آئین کی کسی شق کے سلسلے میں اختلاف رای پیدا ہو جائے تو نگہان کونسل کا نظریہ فیصلہ کن ہوتا ہے اور نگہبان کونسل کے نظریئے کی اہمیت آئين کے جتنی ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اسی طرح انتخابات کے انعقاد اور انتخابات کے شفاف ہونے کو یقینی بنانا بھی وہ اہم ذمہ داری ہے جو آئين میں نگہبان کونسل کو سونپی گئ ہے، اگر نـگہبان کونسل کی نگرانی نہ ہو اور اگر نگہبان کونسل انتخابات کے عمل کے شفاف ہونے کی تائید نہ کرے تو خود انتخابات پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے گا اور اس کی کوئي حیثیت باقی نہيں رہے گی۔ خواہ وہ پارلیمانی انتخابات ہوں یا ماہرین کی کونسل کے انتخابات یا صدارتی انتخابات، تمام انتخابات کی نگرانی نگہبان کونسل کی ذمہ داری ہے۔ نگہبان کونسل کے دوش پر یہ ایک سے بڑھ کر ایک اہم ذمہ داریاں ہیں ۔
آئين میں نگہبان کونسل کی شق، ملکی نظام کے صحیح ادراک کی علامت ہے ہی ساتھ ہی عقلی و منطقی نظام حکومت کے لحاظ سے بھی مدبرانہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدام ہے۔ جب نگہبان کونسل کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئ، البتہ اصولی طور پر یہ ضروری بھی تھا کہ اسلامی حکومت کی کارکردگی کے دائرہ شریعت میں ہونے کی نگرانی کے لئے کوئی ادارہ ہو ، اس وقت بھی یہ تجویز معقول نظر آئی۔ چنانچہ اس وقت بھی جب جدید نظام اور عصر حاضر پر نظر ڈالی گئ تو ہم نے دیکھا کہ تقریبا تمام جگہوں پر اس قسم کا ایک ادارہ موجود ہے یعنی مستحکم اصولوں پر استوار حکومتی نظام میں شاید یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ایسا ادارہ نہ ہو جو آئین اور نظام پر عملدرآمد کی نگرانی کرے۔ البتہ ہر نظام کے لئے اپنے اصول اور اقدار ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئي نگراں ادارہ ہوتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ ملک کے مفاد میں ہے۔ اب کچھ جگہوں پر اسے آئینی عدالت کہا جاتا ہے، کچھ جگہوں پر آئین کا محافظ ادارہ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے ادارے ہوتے ہیں۔ ایران میں اسے نگہبان کونسل کہا جاتا ہے۔ البتہ اوائل انقلاب سے ہی بعض افراد کو نگہبان کونسل کے وجود پر اعتراض رہا ہے۔ ہمارے خیال میں اس قسم کا اعتراض نا انصافی تو ہے ہی، عالمی معاملات سے عدم واقفیت کی علامت بھی ہے۔ نگہبان کونسل یا ایسے کسی ادارے کے بغیر جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے، اصول و اقدار پر استوار کسی نظام کو چلانا عقل سے بعید نظر آتا ہے۔ اس بنا پر آئین میں نگہبان کونسل کی تشیکل کی شق ، نہایت اہم اور ضروری تھی۔ آج ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے ہيں، نگہبان کونسل کی اہمیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے مختلف مواقع آئے جب واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ آئین میں نگہبان کونسل کی شق کتنی ضروری اور کارآمد تھی۔ خدا نے ہم پر کتنا بڑا کرم کیا ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائي فرمائي۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اعتراضات کو مسترد فرما دیا اور نگہبان کونسل کی تشکیل کا دفاع کیا، آپ کتنا بڑا کام کررہے تھے اور آپ کی دور رس نگاہیں کن ممکنہ مسائل پر مرکوز تھیں، اس کا اندازہ بخوبی ہو چکا ہے۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ اسلامی حکومت کے دشمن، اپنے پروپگنڈوں میں جس چیز کو ہدف تنقید قرار دینا کبھی نہيں بھولتے وہ نگہبان کونسل ہے۔ وہ اس اہم اور موثر ادارے کی موجودگی سے پریشان ہیں۔ ہمیں نگہبان کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، ادارے میں شامل فقہاء کا بھی اور قانون داں حضرات کا بھی، جو بظاہر ایک چھوٹے سے ادارے میں عوام کی توقعات مد نظر رکھتے ہوئے اتنا عظیم فریضہ ادا کر رہے ہيں ۔ عوام کو یہ اطمینان ہے کہ نگہبان کونسل جو اقدام کرتی ہے وہ آئین کے دائرے میں اور عقلی و منطقی بنیادوں پر استوار ہوتاہے۔ کونسل کے اقدامات میں مکمل نظم و نسق اور ہم آہنگی ہونا چاہئے، اس کے اقدامات کا بر وقت ہونا بھی ضروری ہے، تاخیر مناسب نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس عرصے میں کسی کو اس ادارے سے شکایت کا موقع نہیں ملا۔
نگراں کمیٹیاں بھی نگہبان کونسل کی ہی ماہیت کا حامل ہیں یہ کمیٹیاں جو فیصلے کرتی ہیں وہ در حقیقت، نگہبان کونسل کے فیصلوں کی ہی ایک کڑی ہے، اس کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ یہ بھی بہت اہم کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہيں اور اس نظام پر سوال کھڑے کرتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہيں ہے۔ نظریات کا الگ الگ ہونا ایک فطری امر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر انسان پوری طرح آگاہ ہو کہ وہ کر کیا رہا ہے۔
آپ کے شانوں پر بہت حساس اور اہم ذمہ داری ہے۔ آپ ان افراد اور اداروں کی نگرانی کرتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قوم کا مستقل ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین ہوں پارلیمنٹ کے اراکین ہوں یا صدر مملکت، سب میں خاص صلاحتیوں اور کچھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے، ورنہ یونہی کسی کو قوم کے مستقبل کا ذمہ دار نہیں بنایا جا سکتا۔ ہر کسی کو تو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آئے اور قوم کے لئے قانون سازی کرے، احکام جاری کرے کہ یہ کرنا ہے وہ نہیں کرنا ہے۔ اس کے لئے کچھ صفات کا ہونا شرط ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرنے والے افراد کے لئے کچھ شرطیں لازمی ہیں، کچھ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہر کسی کو تو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرے اور چاہےتو ہٹا دے۔ یہ ماہرین کی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ اعلی صلاحیتوں کے حامل کچھ چنندہ افراد کو یہ اختیارات دئے گئے ہيں۔ یا وہ لوگ جو ملک کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور حکومت کے لئے لائحہ عمل طے کرتےہیں، حکومت کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ اسے کس پالیسی کے تحت آگے بڑھنا ہے، در اصل ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، ان اہم اور حساس عہدوں پر فائز ہونے کے لئے کچھ خصوصیات اور شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔ یا جو حکومت کی باگڈور سنبھالنے والا ہے اور جس کے اختیار میں ملک کا سارا سرمایہ اور وسائل قرار پانے والے ہیں، جو چار برسوں تک ملک چلانے والا ہے، نظم و نسق پر نظر رکھنے والا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا ہے، جو ملک کو بنانے اور سنوارنے والا ہے، مسائل کو حل کرنے کی سنگین ذمہ داری قبول کرنے والا ہے وہ ہر کوئی تو نہيں ہو سکتا۔ اس میں کچھ صلاحتیوں کا ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحتیوں کا تعین کون کرے گا ؟ کیا کسی ایسے ادارے کی ضرورت نہيں ہے جو اس بات کا تعین کرے کہ کس شخص میں یہ صلاحتیں ہیں اور کس میں نہيں ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے ادارے کی ضرورت ہے اور وہ ادارہ بلاشبہ نگہبان کونسل اور اس کے نگراں شعبے ہيں۔ دیکھیں یہ کتنا اہم کام ہے۔ جب ہماری سمجھ میں یہ آ جائے گا کہ یہ کونسل کتنی اہم ہے تو ہم یہ بھی سمجھ لیں گے کہ کیوں اسلامی نظام سے ناراض کچھ لوگ اس ادارے کے خلاف پروپگنڈے کرتے ہیں۔ غیر ملکی پروپگنڈہ مشنری کا کام بھی یہی ہے۔ ہمیشہ اور خاص طور پر انتخابات کے موقع پر نگہبان کونسل کا کردار اور کونسل کی جانب سے انتخابات کے امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لیا جانا، دشمنوں کی ہنگامہ آرائی کا موضوع قرار پاتا ہے۔
کسی کو اہل یا نا اہل قرار دینا ایک ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اسے حکومتی نظام سے ہٹا دیں تو پھر نظام میں کچھ باقی نہيں بچے گا۔ کیوں کر اس کی اجازت دی جا سکتی کہ ایک آدمی جو نظام کے اصولوں پر یقین نہیں رکھتا ، جس کا طور طریقہ درست نہیں ہے، جسے ملک اور قوم کے مسائل سے کم اور غیر ملکیوں کے مفادات سے زیادہ دلچسپیی ہے، آئے اور حکومت یا قانون ساز ادارے کا سربراہ بن جائے؟ یہ مناسب ہے ؟ انتخابات کےامور کی دیکھ بھال نگہبان کونسل کی اہم ذمہ داری ہے، یہ بہت اہم اور ضروری کام ہے۔ اس کے خلاف جو ماحول تیار کیا جاتا ہے اس پر بالکل توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔ ہاں کام صحیح ڈھنگ سے انجام دیا جانا چاہئے ۔ جتنا یہ کام اہم ہے اتنا ہی اس کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کی اہمیت ہے۔ یعنی معیاروں کو صحیح طور پر سمجھنا چاہئے اور صرف انہی معیاروں کی بنیاد پر کسی کی صلاحیت کی تائید یا تردید کرنی چاہئے۔ ان معیاروں سے آگے نہيں بڑھنا چاہئے اور نہ ہی ان پر توجہ دینے میں کوئی کوتاہی کرنا چاہئے۔
معیار کا مطلب ہے قوانین اور اصول ۔ ذاتی راے کی کوئي حیثیت نہیں ہے۔ سیاسی رجحان، جماعتی رجحان یا دھڑے بندی بالکل نہيں ہونی چاہئے، سفارش پر توجہ نہيں دی جانی چاہئے۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر معین معیاروں پر نظر رکھنا چاہئے، نگرانی کے معاملے میں بھی اور پارلیمنٹ کے قوانین کی تائید یا تردید کے معاملے میں بھی۔ صرف قانون کو معیار قرار دیا جانا چاہئے۔ قانون کا احترام ضروری ہے۔ ممکن ہے کبھی انسان یہ محسوس کرے کہ اس وقت قانون کی پابندی شائد مصلحت کے خلاف ہو، لیکن ایسے موقع پر بھی قانون کی پابندی کو مصلحت کوشی پر ترجیح دینا چاہئے۔ کیونکہ اگر یہ ہونے لگے کہ لوگوں کے خیالات و نظریات اور مصلحت پسندی کی وجہ سے معیار اور قوانین نظر انداز کر دئے جائيں تو قانون کا وجود ہی عبث ہوکر رہ جائے گا ۔ کسی دن ایک شخص کسی کام کو مصلحت کے مطابق سمجھ رہا ہے لیکن دوسرے دن دوسرے شخص کو کسی اور کام میں مصلحت نظر آنے لگے۔ یا ایک ہی دن دو لوگ الگ الگ کاموں کو مصلحت کے مطابق تصور کریں۔ ذاتی نظریات پر قوانین کو قربان کیا جانے لگا تو قانون کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائےگا ۔ اصول و قانون کو تمام مصلحتوں، آراء و نظریات پر ترجیح حاصل ہے۔ البتہ نگہبان کونسل میں قانونی و فقہی استدلال و بحث کے وقت ممکن ہے کچھ تبدیلیاں ہو جائيں اس میں کوئي مضائقہ بھی نہيں ہے ہر مجتہد و استدلال کرنے والے کی رائے میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ آج دلیلوں کی بنیاد پر وہ کسی نتیجے پر پہنچا ہے، کل ممکن ہے کہ مزید غور کرنے کے بعد اس کا خیال بدل جائے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہيں ہے۔ مختلف امور سے متعلق نگہبان کونسل کی آراء میں تبدیلی میں کوئي قباحت نہیں ہے لیکن اس تبدیلی کو بھی قوانین و اصولوں کی کسوٹی پر پورا اترنا چاہئے ۔
دوسری بات، جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں، یہ ہے کہ نگہبان کونسل میں جو چیز نظریئے اور رائے کے طور پر سامنے آتی ہے، خواہ وہ آئین کے سلسلے میں ہو، شریعت کے سلسلے میں ہو یا امیدواروں کی اہلیت کی تائید و تردید کے سلسلے میں ہو ، اس کے لئے پختہ دلیل و منطقی استدلال ضروری ہے۔ استدلال کا یہ عمل بڑی اہم قانونی شقوں اور پختہ دلیلوں پر استوار ہوتا ہے جو بعد میں قانونی اور شرعی امور سے سروکار رکھنے والے افراد کے لئے مستند مآخذ اور دستاویز قرار پا سکتا ہے۔ نگہبان کونسل میں کبھی کسی مسئلے پر بہت تفصیلی بحث ہوتی ہے۔ بڑی کارآمد باتیں اور نادر خیالات سامنے ہیں ، یہ بہت اچھی چیز ہے، یہ عمل جاری رہنا چاہئے، یہ گراں بہا فکری سرمایہ محفوظ کرکے محققین کو فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں۔
اس طرح نگہبان کونسل ہمارے لئے اللہ کی ایک نعمت ہے اس نعمت کی قدر کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اس کا وقار مجروح نہ ہونے پائے۔ اس کے وقار کا خیال رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تعریفیں کی جائیں بلکہ نگہبان کونسل کے فیصلوں اور اقدامات کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ یہ آپ دوستوں، بھائیوں اور بہنوں کی ذمہ داری ہے ۔
پروردگار عالم سے میری دعا ہے کہ آپ سب کو جزائے خیر دے۔ آپ کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور امام زمانہ (ارواحنا لہ الفداء) کو آپ سے راضی و خوشنود رکھے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چودہ تیر سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق پانچ جولائی سنہ دو ہزار سات عیسوی کو دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ذاکرین اور شعرائے اہلبیت اطہار کے سالانہ اجتماع سے خطاب کیا۔
اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کے ارکان نے انیس اردیبہشت سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق نو مئی سنہ دو ہزار سات عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کی اہمیت اور اس کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ تمام لوگ ایک ایسے نجات دہندہ گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی سعی و کوشش یہ ہے کہ کوئی غرق نہ ہو لہذا کسی کو خطا کا مرتکب نہ ہونے دیجئے، کسی کو پیچھے نہ ہونے دیجئے، کج رفتاری و ہلاکت ہی بری چیز نہیں ہے بلکہ آگے نہ بڑھنا اور قافلے سے پیچھے رہ جانا بھی بہت بری شئے ہے۔ اسلامی انجمن (اسلامک اسٹوڈنٹس یونین) کا نصب العین کچھ ایسا ہی ہونا چاہئے اور کچھ اسی طرح کا جذبہ ہونا چاہئے۔
عمدہ افکار و نظریات رکھنے والے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم و تعلم کو بہتر بنانے کے لئے موجودہ تعلیمی امور میں تبدیلی لائیں۔
جب معلم کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے تو معلم کے عام معنٰی کو مد نظر رکھا جاتا ہے جو کہ کافی عظمتوں کا حامل ہوتا ہے۔
معلم وہ ہے جو انسان کے دل میں ایک چراغ روشن کرتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر نور علم و معرفت کی طرف لاتا ہے۔
معلم ہونے کا مطلب یہی ہے۔یہ انسانی زندگی میں تصور کی جانے والی سب سے بڑی فضیلت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سترہ فروردین سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق چھے اپریل سنہ دو ہزار سات عیسوی کو یوم ولادت حضرت ختمی مرتبت اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کی مناسبت سے ملک کے حکام اور تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں رسول اسلام کے ہاتھوں امت اسلامیہ کو حاصل ہونے والے عظیم ترین تحفے کے طور پر قرآن کریم کا نام لیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کی حمد و ستائش اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام
ربنا علیک توکلنا و الیک انبنا و الیک المصیر
اس سال کی عید دوہری مبارکبادیوں کی حامل ہے۔ عید نوروز کی بھی مبارکباددینی ہے اور ماہ ربیع المولود کی بھی مبارکباددینی ہے کونکہ اس میں نیّر اعظم، نبی اکرم حضرت محمد ابن عبداللہ (ص)کی ولادت ہوئی ہے۔ خود عید نوروز بھی ہم ایرانیوں کی مبارک عیدوں میں سے ہے۔
لوگ اپنا سال ذکر خدا سے شروع کرتے ہیں اور خدا وند متعال سے اپنے حالات بہترین حالات میں بدلنے کی دعا کرتے ہیں۔اس سال ان سب کے علاوہ ماہ محرم وصفر کی معنوی یادوں اور توسلوں کا ذخیرہ بھی اس عید کی برکتوں میں شامل ہے۔ اس صحن مبارک میں موجود آپ سب حضرات جو بارگاہ حضرت علی ابن موسٰی الرضا(ع)کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں،اور زیادہ برکتوں سے مالا مال ہیں۔میرے لئے بھی یہ ایک موقع ہے کہ چند مسائل جو آغاز سال میں ہمارے لئے انشاء اللہ مفید واقع ہوں گے ،بیان کروں۔
آغاز سال، قومی عزم کی تقویت اور سال رواں میں اپنی عمر کو با برکت بنانے کا بہترین موقع ہے۔ اگر ہم ایرانی عوام کا ایک ایک فرد آغاز سال سے ہی اپنا عزم اس بات پر مرکوز کردے کہ اپنی کوشش اور اپنے عمل سے اس سال کو ایک پر ثمر سال بنانا ہے تو خداوند متعال بھی یقیناً ہماری مدد کرے گا۔ البتہ اس بڑے قومی عزم میں بنیادی روح نیت کی پاکیزگی اور رضائے الٰہی کے حصول کا فیصلہ(یعنی) صراط مستقیم پر چلنے کا فیصلہ کر لینا ہے ، اور اس وقت دنیا کے موجودہ حالات میں اپنی حیثیت،اپنی کیفیت ، اپنے مقام اور ان چیلنجوں کا جاننا کہ جن کا قوم کو سامنا ہے ۔ ان چیلنجوں سے مقابلے کے بنیادی طریقوں کا جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک زندہ قوم کی کامیابی کی اولین شرط ہے کہ اپنی پوزیشن ، اپنے مقام کو اور اپنے حالات کو صحیح طور پر جانے اور پہچانے اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے پروگرام بنائے اور اس راہ میں ایک انسان کے لئے قدرتی طور پر پیش آنے والے تمام حالات سے مقابلے کا پختہ ارادہ کر لے۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں، جتنی دیر اس وقت میں آپ کی خدمت میں ہوں اسی سلسلے میں آپ کے سامنے کچھ باتیں عرض کروں گا۔
ہم ایرانیوں کے لئے جو بنیادی بات ہے۔ اور جسے ہمیں ہمیشہ مدّ نظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ ہماری قوم اور ہم تمام ایرانی لوگوں نے اپنے لئے ایک بڑے ہدف کا نقشہ کھینچا اور انقلاب کے بعد کی دہائیوں کے دوران ہم نے اسی ہدف کو حاصل کرنا چاہا ہے۔ ہم جتنا بھی غور کرتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان دونوں اہداف تک پہونچنے کے لئے ہمارے اندر ضروری توانائی موجود ہے۔ یہ عظیم ہدف اسلامی ایران کی سربلندی اور مسلمان قوموں کے درمیان مادّی لحاظ سے بھی اور معنوی لحاظ سے بھی مثالی قرار پانے سے عبارت ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہماری قوم مادی لحاظ سے بھی اور معنوی پہلوؤں سے بھی ترقی کر ے، قومی خودمختاری کی مالک ہو، قومی وقار کی حامل ہو، قومی استعداد و صلاحیت سے آراستہ ہو، اور اپنی تمام صلاحیتوں کا بھر پور طریقے سے استعمال کرے، فلاح عامہ کی مالک ہو اور اس کی زندگی پر سماجی اور عوامی انصاف حکمفرماں ہو۔ اس وقت یہ قوم تمام مسلمان معاشروں حتی غیر مسلموں کے لئے بھی نمونہ عمل بن جائے گی۔ ایرانی قوم چاہتی ہے کہ وہ ایک آزاد ، خوشحال اور با ایمان قوم کہلائے اور وہ ایک آباد اور ترقی یافتہ ملک کی مالک ہو۔یہ ایرانی قوم کا ہدف ہے۔
اس ہدف میں کوئی اختلاف بھی نہیں پایا جاتا۔ یہاں تمام گروہی جھگڑے اور سیاسی اختلافات ختم ہو جاتے ہیں،یہ ہدف ملت ایران کی ایک ایک فرد کےلئے قابل قبول ہے۔ ہمارا ملک ایک آباد ملک ہو، ہماری قوم ایک آزاد اور سربلند قوم ہو، ہم اپنی تمام تر قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، ہم دوسروں سے آگے ہوں، سماجی انصاف کا جھنڈا ہمارے ہاتھوں میں ہو، اسلامی ایمان کا پرچم ہمارے ہاتھوں میں ہو اور تمام مسلمان اقوام میں ہم آگے آگے چلیں، یہ وہ چیز ہے کہ پوری ایرانی قوم جس کی عاشق و طلبگار ہے۔ اور ہم اس ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں؛ قومی صلاحیتوں کی شناخت بھی ہمارے اندر یہ امید جگاتی ہے اور تجربات بھی اس چیز کی تائید کرتے ہیں۔
ایرانی قوم ایک با استعداد قوم ہے، ثبات واستقامت کی مالک ہے، دینی غیرت اور قومی حمیت کی مالک ہے، اسلام پر دل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتی ہے، اپنے ملک سے محبت کرتی ہے؛ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمیں یہ امید اور اعتماد بخشتی ہیں کہ ہماری قوم اس مقصد کے حصول پر قادر ہے اور اس ہدف کو پا سکتی ہے اور وہاں تک پہونچ سکتی ہے؛ یہ اس کی دسترس سے دور نہیں ہے تجربات بھی ہم کو یہی بتارہے ہیں۔
دیکھئے؛ ہم (غیروں سے ) وابستہ بد عنوان حکومتوں کے تسلط کے زیر اثر سالہا سال سے مسلسل عالمی رقابتوں کے میدان سے باہر رہے ہیں۔ ملت ایران جو ایک زمانے میں علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے میدان میں پیش پیش تھی، جابرو جائر بادشاہوں کے تسلط اور عوام سے دور اور ان کے لئے اجنبی طاقتوں کے سبب وہ اس مقام پر پہنچ گئی کہ تقریباً ۲۰۰ سال سے دنیا میں جو سیاسی اور علمی مقابلے شروع ہوئے ہیں، (یہ قوم ) مقابلوں کے میدان سے باہر رہی ہے۔ جب ایک قوم، بین الاقوامی مقابلوں میں شامل نہ ہو تو قدرتی طور پر اسکی توانائیاں بھی ضائع ہو جاتی ہیں اور اس کی کامیابیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ آپ کھیل کی ایک ٹیم کو ہی لے لیجئے، کہ جو قوت و نشاط سے سرشار ہو، کارکردگی دکھانا چاہتی ہو اور اس کو مقابلے کے میدانوں میں اترنے کا موقع نہ دیا جائے؛ تو قدرتی طور پر اس کی توانائیاں کم اور ضائع ہو جائیں گی۔ ہماری قوم کے ساتھ یہی کام کیا گیا۔
باوجود اس کے کہ سالہا سال (غیروں سے) مسلسل وابستہ رہنے والی حکومتوں، بد عنوان طاقتوں ، ناکارہ قوتوں اور ظالم بادشاہوں نے ہماری قوم کے لئےاس طرح کی حالت پیدا کر رکھی تھی۔ جیسے ہی اسلامی انقلاب کے ذریعہ اس شاہراہ کا دروازہ ہماری قوم کے لئے کھلا اور ہماری قوم عالمی مقابلوں کے میدان میں اتری، اسے بڑی ترقیاں حاصل ہوئیں۔ ہماری قوم علمی میدانوں میں بھی اور سیاسی میدانوں میں بھی آج عالمی سطح پر ایک جانی پہچانی رہنما قوم سمجھی جاتی ہے۔ اقوام عالم کے درمیان ایران کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہے۔ علمی میدانوں میں ہم دور حاضر کی نسبت ترقی یافتہ ہیں۔ یقینا دو سو سال کی پسماندگی کی تلافی بیس، تیس سالوں میں نہیں کی جاسکتی لیکن اسی مدت میں، اس مختصر عرصے کے لحاظ سے ہم بہت ہی زیادہ تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔آج آپ دیکھئے؛ہمارے جوانوں نے جوہری توانائی کے میدان میں، بنیادی خلیوں (stem-cells)کے میدان میں، اور اسی طرح کے دوسرے دسیوں سائنسی میدانوں میں زبردست ترقی کی ہے۔ اگر ہماری قوم پوری طرح ان چیزوں سے مطلع ہوجائے تو اس کی خود اعتمادی میں زبردست اضافہ ہوگا۔
ہمارے ملک کی ممتاز علمی شخصیتوں کے نام اس وقت دنیا میں چمک رہے ہیں اور دنیا والے انہیں تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی رسہ کشی کے میدان میں بھی یہی صورت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سیاسی میدانوں میں، چاہے علاقائی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر، ان حکومتوں میں ہے جن کے موقف کو وسیع عوامی حمایت ملتی ہے۔ اس کی بات سننے والی ہوتی ہے، ہمارے ملک کے ذمہ دار حکام، عالمی تنظیموں میں بھی، دوسرے ممالک کے دوروں میں بھی جو موقف اختیار کرتے ہیں، وہ بالکل نمایاں اور ممتاز ہوتے ہیں۔ یہ حالات ان میدانوں میں قوم کی زبردست کارکردگي اور ترقی میں اس ملت کی استعداد وصلاحیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہماری قوم نے بین الاقوامی سیاسی نظام میں نئے افکار داخل کئے ہیں۔ دنیا دینی جمہوریت سے ناآشنا تھی؛ آج تمام اسلامی اقوام میں دینی جمہوریت ایک مقبول عنوان اور نعرہ بن ہے۔ دنیا تسلط پسندانہ نظام کی تعریف سے نا بلد تھی؛ ہماری قوم نے اس کی تعریف کی اور وہ بین الاقوامی سیاسی تہذیب میں شامل ہوگئی۔ ملک کی سیاست، قانون اور نظام میں دین کو محور قرار دینے کا مسئلہ؛ وہ جدید فکر ہےجو ہماری قوم نے اس نطام میں شامل کی ہے۔ لہذا ہم عالمی مقابلوں میں ۔ علمی، سیاسی، صنعتی، اقتصادی اور اسی طرح ثقافتی شعبوں میں رقابت اور مقابلے کی توانائی رکھتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں ہم کامیابی کی امید کر سکتے ہیں طولانی فہرست میں پہلےدرجے پر اپنا نام درج کرانے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہماری قوم کا مقام ہے۔
لیکن یہ راہ جس پر ایرانی قوم چلنا چاہتی ہے، آسان اور ہموار راستہ نہیں ہے۔ اس راستے میں ہمیں چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ہمارے دو بڑے دشمن ہیں۔ میں آج ان دو دشمنوں کا مختصر تعارف آپ کے سامنے کراؤں گا تاکہ میں بھی اور آپ بھی دیکھیں کہ ان دو دشمنوں کے مقابلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمن کو پہچانے اور اس کے منصوبوں سے باخبر ہو اور خود کو اس سے مقابلے کے لئے آمادہ کرے۔
ہمارے دو دشمن ہیں: ایک اندرونی دشمن ہے اور دوسرا بیرونی دشمن ہے۔ اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دشمن کیا ہے؟ اندرونی دشمن وہ تمام بری خصلتیں ہیں جو ممکن ہے ہم میں پائی جائیں۔ سستی، کام کے لئے جوش و جذبہ کا فقدان، مایوسی، حد سے زیادہ خود غرضی یا مفاد پرستی، دوسروں کے سلسلہ میں بدگمانی، مستقبل کے سلسلے میں بدگمانی، خود اعتمادی کی کمی۔ نہ اپنے آپ پراعتماد ہو، نہ اپنی قوم پر تو یہ سب بیماریاں ہیں۔اگر یہ دشمن ہمارے اندر موجود ہو تو ہمارا کام مشکل ہو جاتا ہے۔ ملت ایران کے بیرونی دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ہمارے ایرانی سماج میں ان جراثیم کی تقویت کریں: ''تم نہیں کر سکتے‘‘ ، ''تم میں اتنی توانائی نہیں ہے‘‘ ، ''تمہارا مستقبل تاریک ہے‘‘ ''تمہارا افق روشن نہیں ہے، ''تم بے بس ہو، تم بدترین صورت حال سے دوچار ہو۔ کوشش یہ رہی ہے کہ ہماری قوم کو مایوس، کاہل، اپنی طرف سے ناامیدی اور بے اعتمادی کا شکار بنا دیں ۔ اس قوم کو غیروں پر منحصر کر دیں۔ یہ سب اندرونی دشمن ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی تحریک شروع ہونے سے قبل سالہا سال تک ہماری قوم کی اصل بلا یہی چیزیں تھیں۔اگر ایک قوم میں یہ بیماریاں موجود ہوں تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔اگر کسی قوم کے لوگ کاہل ہوں، مایوسی کا شکار ہوں، اپنے آپ پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نہ رہتے ہوں،ایک دوسرے سے بدگمان ہوں،مستقبل سے مایوس ہوں تو ایسی قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ چیزیں ان دیمکوں کی طرح ہیں جو کسی عمارت کے ستون کو اندر سے کھوکھلا اور عمارت کو ویران کردیتی ہیں؛ اس کیڑے کی طرح ہیں جو کسی پھل میں گھس کر پھل کو اندر ہی اندر سے خراب کر دیتا ہے۔ ان بری عادتوں سے جنگ کرنا چاہیئے۔ہماری قوم کو پر امید ، پر اعتماد، مستقبل کے سلسلے میں خوش بین،ترقی کی دلدادہ اور معنویات پر اعتقاد اور ايمان رکھنا چاہئے کیونکہ یہ باتیں اس راہ میں اس کی معاون ثابت ہو ں گی۔ الحمد اللہ آج ہماری قوم اس طرح کا اپنے آپ پر اعتماد پایا جاتا ہے اور اس طرح کی امید موجود ہے؛ اس کی تکمیل ہونی چاہیئے۔اگر ہم ان دشمنوں کو اپنے وجود سے، اپنی زندگی سے اور اپنے سماج کے عام کلچر سے دور اور ناکارہ کر دیں تو بیرونی دشمن بھی ہمیں کوئی ضروری نقصان نہیں پہونچا سکتا ہے۔
اور اب بیرونی دشمن۔ تو ہمارے اس ہدف کا بیرونی دشمن ''بین الاقوامی سامراجی نظام‘‘ ہے۔ یعنی وہی چیز جسے ہم عالمی استکبار کہتے ہیں۔ عالمی استکبار اور سامراجی نظام،دنیا کو تسلط گروں اور تسلط پذیروں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اگر ایک قوم تسلط گروں کے خلاف اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہتی ہے تو تسلط گر اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کی مزاحمت کو توڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی قوم کا دشمن ہے جو خود کو خود مختار،عزت دار،آبرومند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے اور تسلط گروں کا تسلط پسند نہیں کرتی۔ یہ بیرونی دشمن ہے۔ آج اس دشمنی کا مظہر عالمی صیہونیت کا پھیلا ہوا جال اور ریاستھائے متحدہ امریکہ کی موجودہ حکومت ہے۔ البتہ یہ آج کی دشمنی نہیں ہے؛صرف طریقے بدل جاتے ہے،لیکن ایرانی قوم سے دشمنی کی سیاست اوائل انقلاب سے آج تک ہمیشہ ایک رہی ہے۔ جتنا ان سے ممکن ہوا ہے، ہم پر دباؤ ڈالا ہے، لیکن بے کار؛ ان کا یہ دباؤ ایرانی قوم کو آج تک کمزور نہیں کر سکا اور نہ ہی پسپائی پر مجبور کر سکا ہے؛ نہ تو ان کا اقتصادی بائیکاٹ اور نہ ہی ان کی فوجی یلغار کی دھمکیاں،نہ ان کا سیاسی دباؤ اور نہ ہی ان کی نفسیاتی جنگ۔آج ہم پندرہ سال پہلے سے ، بیس سال پہلے سے ،ستائیس سال پہلے سے بہت زیادہ قوی ہیں؛ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دشمن، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ اپنی دشمنی میں ناکام رہا ہے؛لیکن یہ دشمنی ہے۔
آج کی دنیا میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے۔ ایرانی قوم،دیگر مسلمان اقوام اور علاقائی اقوام کی نظر سے ۔ایشیائی اقوام، افریقی اقوام، جنوبی امریکہ کی اقوام ،مشرق وسطٰی کی اقوام۔ کی نظر سے ایک بہادر،حق وانصاف کا دفاع کرنے والی اور زور زبردستیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ثابت قدم قوم ہے؛ایرانی قوم کو اس طور پر پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ ملت ایران کی تحسین و تعریف کرتے ہیں۔ لیکن اسی ایرانی قوم اور اسی اسلامی جمہوری نظام پر جس کی قومیں اس قدر تعریف کرتی ہیں، سامراجی طاقتوں کی طرف سے حقوق انسانی کی پامالی کا الزام ہے۔ عالمی امن چھین لینے کا الزام ہے، دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے! یہی تناقض اور تضاد ہے۔ یہی تناقض جو قوموں کی نگاہوں اور بڑی طاقتوں کی خواہشوں کے درمیان ہے۔ یہی تضاد، عالمی سامراجی نظام کے لئے خطرہ اور چیلنج بن گیا ہے۔
روز بروز یہ لوگ اقوام عالم سے دور ہوتے جا رہے ہیں؛اس چیز نے مغرب کی لبرل ڈیمو کریسی کی عمارت کو اندر سے ہلا کر دراڑ پیدا کر دی ہے اور دن بہ دن یہ دراڑ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ سامراجی ذرائع ابلاغ بلآخر ایک مدت تک ہی حقائق کو چھپا سکتے ہیں، ہمیشہ تو حقائق کو چھپا سکتے ، قوموں میں روز بروز بیداری بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ دیکھئے ملت ایران کا صدر جمہوریہ ایشیائی ممالک، افریقی ممالک، جنوبی امریکہ کے ممالک کا دورہ کرتے ہیں، تو قومیں اس کے حق میں نعرے لگاتی ہیں، اس کے حق میں مظاہرے کرتی ہیں، اپنی حمایت کا اظہار کرتی ہیں؛ امریکی صدر جمہوریہ بھی جنوبی امریکہ کے ممالک کا ، جہاں امریکی اپنے فرصت کے اوقات گزارنے (عیاشی کے لئے) جاتے ہیں ، سفر کرتے ہیں تو قومیں امریکی جھنڈے کو ان کے آنے کے سبب نذر آتش کر تی ہیں؛ اس کا مطلب ہے کہ لبرل ڈیمو کریسی کے ستون لڑکھڑا رہے ہیں جس کی پرچمداری کا دعوی اس وقت مغرب کو ہے والے اور ان میں سب سے آگے امریکہ ہے۔ ان ملکوں کے مفادات اور قوموں کے رجحانات اور مشاہدات میں تضاد دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حکومتیں جمہوریت کا دم بھرتی ہیں، حقوق انسانی کا نعرہ لگاتی ہیں، عالمی امن کے دعوے کرتی ہیں، دہشت گردی سے مقابلے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں،لیکن ان کا شرپسند باطن ان کی جنگ افروزی کی حکایت کرتا ہے۔قوموں کے حقوق کی پامالی کی حکایت کرتا ہے، ایندھن کے عالمی ذخیروں پر تسلط کے بے پناہ میلان اور کبھی نہ سیر ہونے والی اشتہا کی حکایت کرتا ہے؛ قومیں یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ دن بہ دن لبرل ڈیمو کریسی کی آبرو اور امریکہ کی آبرو ، جو لبرل ڈیمو کریسی کا سر غنہ ہے۔ دنیا میں اور اقوام کی نظر میں کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔اسکے برعکس اسلامی ایران کی عزت وآبرو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اقوام سمجھتی جا رہی ہیں کہ امریکی(حکام ) انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے میں جھوٹ بول رہے ہیں؛ اس کا ایک نمونہ، ان لوگوں کا خود ہمارے ملک کے ساتھ رویہ ہے۔ ایران طاغوت کے زمانہ میں ، پہلوی حکومت کے زمانے میں ، پوری طرح امریکیوں کی مٹھی میں تھا، پورے ایران پر امریکیوں کا تسلط تھا ، ایران میں انہوں نے فوجی چھاؤنی بنا رکھی تھی کہ علاقے کے عرب ملکوں کے تحرک پر قابو رکھ سکیں ، چاہتے تھے کہ ان سب پر ایران کی چھاؤنی سے نگاہ رکھیں ۔ ایران،اسرائیل کامعاہدی تھا۔ بدترین ڈکٹیٹر شپ اس ملک پر حکمراں تھی؛ مجاہدین کو جیلوں میں شکنجے دئے جا رہے تھے، پورے ایران میں ۔اسی شہر مشہد میں، تہران میں اور ملک کے تمام شہروں میں، طاغوتی حکومت کے جلاد عمالوں کی سختی اور گھٹن لوگوں پر چھائی ہوئی تھی، ہمارا تیل تاراج کیا جا رہا تھا؛ عوامی اثاثے اور قومی سرمائے (شاہی) حکام اور بیگانہ حکومتوں کے مفاد میں تاراج کئے جا رہے تھے؛ ایرانی قوم پر عالمی سطح کے علمی اور صنعتی مقابلوں میں حصہ لینے کی پابندیاں تھیں تھی۔ قوم کو ذلیل کررکھا تھا۔ اس وقت کا ایران ، اس خطے میں امریکہ کا پہلے درجہ کا اتحادی تھا، اس کے حکام بھی امریکہ کے محبوب تھے، انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی خلاف ورزی کے سلسلے میں اس طاغوتی حکومت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ آج ایران ایک آزاد ملک ہے اور اتنی کھلی جمہوریت کے باوجود جب کہ ہماری جمہوریت کی دنیا میں کم بی مثال ملے گی۔ عوام اور ملک کے حکام کے درمیان ایسے مضبوط رشتے کے باوجود ، یہ ایران،امریکیوں کی نظر میں، امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں کی نظر میں ایک ناپسند ملک شمار ہوتا ہے، یہ چیز دنیا کے موجودہ حقائق کے سلسلے میں عالمی استکبار کی نگاہ اور پالسیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یقینا امریکیوں کو اس دشمنی کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔
ملت ایران دن بہ دن زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور انقلابی اقدار روز بروز زیادہ نمایاں اور تازہ ہوتے جا رہے ہیں۔
ان دونوں دشمنوں کے مقابلے میں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ پہلے دشمن کو پہچانیں پھر اس کے بعد اس کے منصوبوں کو سمجھیں ۔آج ہمارے بیرونی دشمنوں نے بھی ملت ایران کے خلاف منصوبے بنا رکھے ہیں۔ ہم نے اپنے پنج سالہ منصوبے بیان کئے ہیں۔ بیس سالہ منصوبوں کے خطوط معین و مشخص کئے ہیں؛ اس لئے کہ اپنی راہ کا تعین کر سکیں۔ہمارا دشمن بھی اسی طرح ہے،اس نے بھی ہمارے لئے منصوبے بنائے ہیں؛ اس کی بھی پالسیاں ہیں ، ہمیں اس کی پالیسی سے آگاہ ہونا چاہیئے۔
ملت ایران کے خلاف عالمی استکبار کے منصوبے کو میں صرف تین جملوں میں خلاصہ کرتا ہوں: ایک : نفسیاتی جنگ؛ دو؛ اقتصادی جنگ اور تین: علمی ترقی اور اقتدار سے مقابلہ ، ہماری قوم کے ساتھ عالمی استکبار کی دشمنیاں انہی تین اہم عنوانوں میں خلاصہ ہوتی ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں ہمارے ذرائع ابلاغ ، تشہیراتی مشینریوں، اور سیاسی شخصیتوں کافریضہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس کی مزید وضاحت کریں۔ میں صرف اجمالی طور پر فہرست وار ان مطالب کا ایک خلاصہ آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں۔
نفسیاتی جنگ کا کیا مطلب ہے؟نفسیاتی جنگ کا مقصد،خوف و دہشت ایجاد کرنا ہے۔ کسے خوف زدہ اور مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ قوم تو مرعوب ہونے سےرہی؛ لوگوں کی عظیم آبادی دہشت زدہ نہیں ہوا کرتی۔ تو پھر کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ حکام کو؟ سیاسی شخصیتوں کو؟ یا بقول معروف ہم غیر معمولی دماغوں کو؟ ایسے لوگ کہ جنہیں لالچ میں پھنسایا جا سکتا ہے، انہیں لالچ دینا چاہتے ہیں؛ عوامی عزم و ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؟ خود اپنے سماج کی حقیقتوں سے متعلق لوگوں کے فہم و خیال بدل دینا چاہتے ہیں؛ نفسیاتی جنگ کا مقصد یہی ہے۔ایک آدمی جو بیمار نہیں ہے،سوبار اس سے کہیں گے: جناب! آپ بہت سست دکھائی دے رہے ہیں، لگتا ہے مریض ہیں اور یہ شخص واقعا خود کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی حقیقتاً بیمار ہو اور سو بار اس سے کہا جائے کہ آپ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، تو مریض حود کو صحت مند محسوس کرتا ہے۔ اپنے القاآت کے ذریعہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حقائق ہماری قوم کی نظر میں بدل ڈالیں۔ ہماری قوم ایک صاحب صلاحیت ،صاحب لیاقت، اور صاحب استعداد قوم ہے جو عظیم قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے؛ ایک ایسی قوم ترقی یافتہ قوم ہو سکتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ناامید ہو؛ لیکن وہ لوگ حقیقتوں کو الٹ دینا اور حقائق بدل کر قوم کو ناامید کردینا چاہتے ہیں؛ اپنے حکام پر سے ملت کا اعتماد کمزور کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کہ عوام کا اپنی حکومت اور اس کے حکام پر اعتماد ہو ایک ملک کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔یہ لوگ اس نعمت کو ہم سے چھین لینا اور لوگوں کا اعتماد ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ خود اپنے آپ پر سے بھی اور اپنے ذمہ دار حکام پر سے بھی عوام کو افواہوں کے ذریعہ، بائیکاٹ اور سخت رویوں کے ذریعے دھمکاتے اور ڈراتے ہیں؛ اپنے پروپیکنڈوں میں مدعی اور ملزم کی جگہ بدل دیتے ہیں۔آج امریکہ ملزم ہے اور قومیں امریکہ کے خلاف مدعی ہیں۔ ہم آج امریکہ کے خلاف دعویدار ہیں، امریکہ ملزم ہے استکباری دست درازیوں کا، مستعمرہ پروری کا، جنگ افروزی کا، فوجی یلغار اور فتنے کھڑا کرنے کا۔ ہم طلبگار ہیں، ہم مدعی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مدعی کی جگہ اور ملت ایران کو ملزم کی جگہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکہ میں انسانی حقوق کی حالت افسوسناک ہے اور بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ صرف ایک سال ۲۰۰۳ ء کے دوران خود ان ہی کی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ (13000000) امریکی شہریوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے! تشدد اور آزار و اذیت کو قانونی کر دیا ہے، لوگوں کے ٹیلیفون سننے کی قانونی اجازت ہے۔ چند سال پہلے ۱۱ستمبر (۲۰۰۱ ء) کے حادثے کے بعد انہوں نے بیسیوں لاکھ افراد سے باز پرس اور تفتیش کی۔ اس طرح کا بد امن ماحول خود امریکہ کے اندر ہے؛ امریکہ کے باہر بھی، ابو غریب کے جیل خانے اور اذیت رسانیاں، گوانٹانامو جیل اور یورپ نیز دنیا کے دیگر خطوں میں ان کے خفیہ جیل خانے موجود ہیں۔ ان کو جواب دینا چاہئے، وہ لوگ ملزم ہیں، وہ لوگ انسانی حقوق پامال کررہے ہیں؛ اس کے بعد انسانی حقوق کے حامی و مدعی بھی ہیں اور ملت ایران پر جہاں کہیں بھی وہ چاہیں الزام لگا کر باز پرس کرتے ہیں کہ تم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے! دہشت گردی کی وہی لوگ ترویج کررہے ہیں۔ یہ سب نفسیاتی جنگ ہے جو وہ لوگ انجام دے رہے ہیں۔
دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک حصہ، اختلافات بھڑکانا ہے۔ یہ لوگ ہمارے ملک میں، قومی اختلافات، شیعہ و سنی۔ مذہبی اختلافات، جماعتی اختلافات، گروہی اور صنفی اختلافات اور صنفی رقابتوں کی ترویج اور پروپیگنڈے کیا کرتے ہیں۔ملک کے اندر ان لوگوں کے ایجنٹ اور زرخرید افراد بھی موجود ہیں جو یہاں مختلف شکلوں میں ان کے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں۔یہ لوگ افواہیں پھیلاتے ہیں۔عراق کے مسئلے میں،ایران کو ملزم ٹھہراتے ہیں۔یہ لوگ جنہوں نے باہر سے آکر عراق پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے، ملت عراق کو ذلیل کیا ہے، عراق کے مردوں، عورتوں اور جوانوں کی مختلف طریقوں سے توہین کی ہے اور اس وقت بھی امریکی اور برطانوی فوجی عراق میں نہایت ہی بدسلوکی سے کام لے رہے ہیں، یہی لوگ ایران پر الزام لگا رہے ہیں کہ عراق کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ جس وقت امریکی حکومت اور بہت سی مغربی حکومتیں نابود ہو جانے والے بعثی صدام کی حمایت کیا کرتی تھیں، ملت ایران نے عراقی حریت نوازوں کے لئے اپنی آغوش باز کر رکھی تھی ، عراقی حریت نواز یہاں آئے اور ہم نے صدام کے شر سے ان کی حفاظت کی ؛ آج ان ہی لوگوں نے عراق میں حکومت و اقتدار سنبھالا ہے۔ عراق میں دہشت گردی امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کی جاسوسی ایجنسیوں کی تحریک کا نتیجہ ہے ، عراق میں یہ برادر کشی شیعہ ۔ سنی جنگ کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے؛ شیعہ اور سنی عراق میں صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور آپس میں کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی ہے۔ عراق میں بہت سارے ایسے گھرانے ہیں کہ جنکے بعض افراد شیعہ ہیں اور بعض سنی؛ ایک دوسرے کے ساتھ شادیاں رچائی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں، یہ قتل وغارت گری عراق پر قابض ان لوگوں نے شروع کی ہے، یہی لوگ وہاں کی بد امنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
شیعوں کے اثر و رسوخ اور ایران اور ہلال شیعی کی طرف سے تشیع کی ترویج اور اسی طرح کی باتیں افواہیں جنم دیتی ہیں۔ ان کی نفسیاتی جنگ کا ایک شعبہ یہی ہے:پہلا کام یہ کہ ملت ایران کے درمیان اختلافات ڈالیں، اور دوسرا کام یہ کہ ملت ایران اور دوسری مسلمان اقوام کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں۔ امریکہ کی سیاست یہی رہی ہے کہ خلیج فارس میں ہمارے پڑوسی ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ڈرائے۔البتہ ان میں سے بعض نے اپنی ہوشیاری اور آگاہی سے اس سازش کو سمجھ لیا ہے لیکن ممکن ہے بعض اس سلسلے میں غلطی کر یں اور امریکہ کی سازش میں پھنس جائیں۔ ہم نے خلیج فارس کے پڑوسیوں کی طرف۔ کہ جہاں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ہمشہ دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے؛ اس وقت بھی ہم ان کے دوست ہیں اور دوستی کا ہاتھ انکی طرف پھلائے ہوئے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ خلیج فارس کے خطے کے ممالک کے درمیان ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اس اہم خطے کے دفاع کے لئے امریکہ، برطانیہ، اجنبی طاقتوں اور دیگر لالچیوں کو یہاں آنا چاہئے؛ خود ہمیں اس خطے کے امن کی حفاظت کرنی چاہیئے، محفوظ بنائے رکھنا چاہئے؛ اور یہ خلیج فارس کے ممالک کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
اسی مناسبت سے میں اپنے ملک کے اندرونی سیاسی عناصرکو بھی دوستانہ نصیحت کرتا ہوں کہ خبردار رہیں، اس طرح کی بات نہ کریں یا اس طرح کا موقف اختیار نہ کریں جو اس نفسیاتی جنگ میں دشمن کے مقاصد کی مدد کرے، دشمن کی مدد نہ کریں۔ آج جس کسی نے بھی ہمارے عوام کو ناامید کیا اور انہیں اپنے آپ سے، اپنے حکام سے اور اپنے مستقبل کی طرف سے بے اعتماد کیا اس نے دشمن کی مدد کی ہے۔ آج جو بھی اختلافات کو ہوا دے گا ۔ چاہے یہ اختلاف کسی بھی طرح کا اختلاف ہو ۔ اس نے ملت ایران کے دشمن کی مدد کی ہے۔ جو لوگ صاحب قلم ہیں، صاحب زبان ہیں، کوئی پلیٹ فارم اور کوئی مقام رکھتے ہیں، انہیں خبر دار رہنا چاہیئے؛ دشمن کو اپنے آپ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دیں۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ،ملت ایران کے ساتھ دشمن کی جنگ کا اہم ترین حصہ ہے۔
اقتصادی جنگ بھی ایک دوسری جنگ ہے۔ یہ لوگ ملت ایران کو اقتصادی مسائل کے لحاظ سے بے بس و لاچار کر دینا چاہتے ہیں۔ میں یہ بتا دوں کہ ملت ایران کے لئے اقتصادی سرگرمیوں کا میدان کھلا ہوا ہے۔ آئین کی چوالیسویں شق میں مندرج پالسیوں کے تحت سرکاری طور پرابلاغ کی جا چکی ہیں اور حکومت بھی پورے شد و مد کے ساتھ کوشاں ہے کہ اس کو عمل میں لائے اور اسے کوشش کرنا بھی چاہئے، اقتصادی امور کے لئے میدان کھلا ہوا ہے، نہ صرف ثروت مند افراد کے لئے بلکہ عوام کی حتی ایک ایک فرد کے لئے۔
۸-۲۰۰۷ء اور اس کے ایک دوسال بعد تک حکومت اور ملک کے دوسرے مستعد ارکان کی اولین توجہ اقتصادی امور پر ہوگی۔ ہم اپنے اقتصاد کو شگوہ آور کر سکتے ہیں۔ ہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ ہم بائیکاٹ کرینگے، بائیکاٹ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ کیا اب تک انہوں نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے؟ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں جوہری توانائی پر دسترس کی ہے؛ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں علمی ترقیوں کی منزلیں سر کی ہیں۔ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں ہی ملک میں اس وسیع سطح پر تعمیری کام کئے ہیں ، بائیکاٹ بعض حالات میں ممکن ہے ہمارے حق میں تمام ہو؛ اس اعتبار سے کہ یہ تلاش و کوشش کی راہ میں ہماری ہمت اور زیادہ بڑھا دے گا۔ نئے سال کے دوران کہ جس کا آج پہلا دن ہے حتی بعد کے ایک دو سال کے دوران بھی ملک کی توجہ کامرکز اقتصادی کارکردگی ہونی چاہئے۔ آئین کی چوالیسویں شق کی پالسیوں سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کی توانائی رکھتے ہیں حتی جو لوگ شراکت اور کمپنی کی صورت میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، ان کے لئے بھی راہ اس میں موجود ہے۔ ہر فرد ، کسی بھی مشغلے اور صنف کا ہو ، سرمایہ کاری میں حصہ لے سکتا ہے؛اس راہ میں سب ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہو سکتے ہیں۔ انصاف کی بر قراری کے حصص کے علاوہ جو تقریباً ایک کروڑ افراد کے شامل حال ہے اور معاشرہ کے نچلے اور غریب طبقوں کے لئے ہے، بقیہ لوگ بھی ان پالسیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؛ اس میں اس کی راہ رکھی گئی ہے۔ حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو چاہیے کہ وہ اقتصادی سرگرمیوں میں لوگوں کی مشارکت کے طریقے انہیں بتائیں۔ ان پالسیوں کا مطلب سماج میں عمومی سرمایہ کی پیداوار ہے۔ سرمایہ کی پیداوار میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرج نہیں ہے۔ سرمایہ کی پیداوار دوسروں کا سرمایہ غارت کرنے سے فرق کرتی ہے۔ کبھی آدمی بیت المال میں دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی لاقانونیت اور قانون کا کوئی لحاظ رکھے بغیر مادی ثمرات حاصل کرتا ہے؛ یہ ممنوع ہے؛ لیکن قانونی طریقوں سے سرمائے کی پیداوار شارع مقدس کی نظر میں اور اسلام کی نظر میں قابل قبول اور مستحسن عمل ہے۔ ثروت و دولت کمائیں، لیکن اس کے ساتھ اسراف نہ ہو۔ اسلام نے ہم سے کہا ہے کہ سرمایہ بنائیں، لیکن اسراف نہ کریں۔ خرچ میں افراط کا رجحان اسلام قبول نہیں کرتا۔ سرمایہ کی پیداوار کے ذریعہ جو کچھ آپ حاصل کرتے ہیں، دوبارہ اس کو ثروت کی پیداوار کے لئے وسیلہ قرار دیں۔ مال کو راکد اور منجمد نہ رکھیں جسے اسلام میں احتکار اور ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں، اور نہ ہی مال خرچ کرنے میں فضول خرچی اور بربادی سے کام لیں یعنی اسے ایسی غیر ضروری چیزوں میں خرچ کر ڈالیں جس کی زندگی میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ثروت و دولت خود اپنے لئے کمائیں اور بنائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لوگوں کا سرمایہ پورے ملک کا سرمایہ ہے؛سب لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ چوالیسویں شق کی اصل روح اور بنیادی پالسی یہی ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ عوام مخصوصاً کمزور طبقوں کی آمدنی کے ذرائع مختلف ہوں اور لوگوں میں گشادگی پیدا ہوسکے؛ یہ عوامی فلاح و بہبود کی راہ میں ایک بلند قدم ہے۔
علمی اور سائنسی ترقی کے دائرے میں بھی مقابلہ آرائی کا ایک اہم نمونہ یہی جوہری توانائی کا مسئلہ ہے۔ بیانات میں اور سیاسی مذاکرات میں بھی کہتے ہیں کہ مغربی حکومتیں، ایران میں جوہری توانائی کی صلاحیت کے حق میں نہیں ہیں؛ تو ٹھک ہے نہ ہوں۔ کیا ہم نے جوہری توانائی پر دسترسی کے لئے کسی سے اجازت چاہی ہے؟ کیا ملت ایران دوسروں کی اجازت سے اس میدان میں اتری ہے؟ کہ کہتے ہیں ہم اس کے حق میں نہیں ہیں؟ ٹھک ہے آپ موافق نہ ہوں۔ ملت ایران موافق ہے اور چاہتی ہے اس کے پاس یہ انرجی (energy) اور توانائی ہو۔ پچھلے سال بھی میں نے 21 مارچ کے اسی اجتماع میں اسی جگہ کہا تھا کہ جوہری توانائی ہمارے ملک کے لئے ایک ضرورت ہے،ایک طویل المدت احتیاج ہے۔ آج اگر ملک کے حکام جوہری توانائی پر دسترسی میں کوتاہی برتیں گے تو آئندہ نسلیں ان سے جواب طلب کریں گی۔ ملت ایران اور مملکت ایران کو اپنی زندگی کے لئے ۔نہ کہ ہتھیارکے لئے۔ جوہری توانائی اور ایٹمی انرجی کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ بیٹھ کر دشمن ہی کی باتیں دہراتے ہیں کہ:جناب!ہمیں ایسی کون سی ضرورت آگئی ہے؟ کیا ضرورت ہے؟ کیا ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کی کل کی ضرورت کو سرے سے نظر انداز کر دینے میں کوئی حرج ہی نہیں ہے؟ کیا ملک کے حکام کو آئندہ نسلوں کےساتھ خیانت کرنے کا حق حاصل ہے؟ آج ہم تیل نکال کے خرچ کریں؛ تو ایک دن یہ پورا تیل ختم ہو جائے گا،اس دن ملت ایران کو اپنی بجلی کے لئے، اپنے کارخانوں کے لئے،اپنی گرمیوں کے لئے، اپنی روشنی کے لئے،اپنی زندگی چلانے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف دست سوال پھیلانا ہوگا کہ وہ لوگ اسے انرجی فراہم کریں؟ کیا یہ ملک کے موجودہ حکام کے لئے جائز ہوگا؟ کچھ لوگ دشمن ہی کی باتوں کو دہراتے ہیں۔وہی لوگ جو ڈاکٹر مصداق اور آیت اللہ کاشانی مرحوم کے ذریعہ''تیل کے قومیانے کی آج تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ جب کہ اس کام کے مقابلے میں وہ کام ایک چھوٹا سا کام تھا، اور یہ اقدام اس سے کہیں عظیم ۔ وہی لوگ آج جوہری توانائی کے سلسلے میں وہی باتیں کررہے ہیں جو ڈاکٹر مصدق اور مرحوم کاشانی کے مخالفین اس وقت کیا کرتے تھے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہم اس راہ میں آگے بڑھے ہیں اور خود اپنی خلاقیت سے آگے بڑھے ہیں۔ ہمارے ملک کے حکام نے کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں کیا ہے۔ ہماری تمام تر سرگرمیاں بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی(iaea) کی آنکھوں کے سامنے ہے ، کوئی حرج بھی نہیں ہے؛ ہميں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہماری سرگرمیاں انکے زیر نظرہوں۔
اس مسئلے ميں جنجال کھڑا کرنا ، ملت ایران پر دباؤ ڈالنا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنے ناجائز مقاصد کے لئے استعمال کرنا ملت ایران کی مخالف طاقتوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ میں یہ کہے دیتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے سلامتی کونسل کا وسیلہ کے طور پر استعمال کیا اور ہمارے اس مسلمہ حق کو اس طریقے سے نظر انداز کرنا چاہا تو(یاد رکھیں) آج تک جو کچھ بھی ہم نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کیا ہے، اگر یہ لوگ غیر قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہیں گے تو ہم بھی غیر قانونی طریقہ کار اختیار کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ اگر یہ لوگ دھمکی، زور زبردستی اور تشدد کا رویہ اپنانا چاہیں گے تو یہ جان لیں کسی بھی شک و شبہ کے بغیر ایران کے عوام اور ایران کے حکام ان دشمنوں کے مقابلے میں جو ان کے خلاف جارحیت کرنا چاہیں گے، ان پر ضرب لگانے کے لئے اپنی پوری قوت و صلاحیت سے استفادہ کریں گے۔
میں اپنے عرائض تمام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ملت ایران کے ایک خادم کی ایرانی قوم کے نام کچھ نصیحتیں ہیں۔ میری ایک اہم نصیحت یہ ہےکہ: یہ قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا نعرہ جو ہم نے اس سال دیا ہے ، سب اس کی رعایت کریں۔ قومی اتحاد یعنی ملت ایران کی اکائی اسلامی یکجہتی یعنی اسلامی اقوام کی ایک دوسرے کے ساتھ ہمراہی ملت ایران اپنے روابط اسلامی اقوام کے ساتھ اور مضبوط کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ''قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی عملی شکل اختیار کرے تو ہمیں ان اصولوں پر تکیہ کرنا ہوگا جو ہمارے درمیان مشترک ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو فروعی مسائل میں جو اختلافی ہیں، نہیں الجھانا ا چاہیے۔
دوسری نصیحت یہ ہے کہ ہماری پر وقار قوم خصوصاً ہمارے جوان اپنی خود اعتمادی کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں۔
میرے عزیزجوانو! ملت ایران کے عزیز جوانو! تم کرسکتے ہو ؛ تم بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہو، تم اپنے ملک کو عزت و اقتدار کی بلندیوں تک پہونچا سکتے ہو۔ اپنے آپ پر اعتماد، ملک کے حکام افراد پر اعتماد، حکومت پر اعتماد، وہی چیز ہے جو دشمن چاہتے ہیں کہ پیدا نہ ہو۔ دشمن چاہتے ہیں کہ عوام کا حکومت پر سے ۔ جو ملک کے امور چلانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔اعتماد اٹھ جائے؛ دشمن کے اس منصوبے کو ناکام بنادینے کی کوشش کیجئے۔ میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ میں نے عوام کے ذریعہ منتخب تمام حکومتوں کی حمایت کی ہے، اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا؛ موجودہ حکومت کی بھی خاص طور پر حمایت کررہا ہوں۔ یہ حمایت بلا وجہ اور کسی حساب و کتاب کے بغیر نہیں کر رہا ہوں ۔پہلی بات تو یہ کہ اسلامی جمہوری نظام میں اور ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں ، حکومت ایک بہت ہی اہم مقام و منزلت رکھتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملک کی زیادہ تر ذمہ داریاں حکومت ہی کے کندھوں پر ہیں؛ اس کے علاوہ اس کے فیصلوں میں یہ دینی ترجیحات اور اسلامی و انقلابی اقدار و معیارات کی طرف جھکاؤ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ سخت جدوجہد، انتھک کوششیں عام لوگوں کے ساتھ رشتہ، ملک کے مختلف صوبوں کے سفر، انصاف کی برقراری کی فکر اور عوامی رنگ و بو، یہ سب بیش بہا چیزیں ہیں اور میں ان چیزوں کی قدر سمجھتا ہوں۔ میں ان ہی چیزوں کی وجہ سے حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ یقینا یہ حمایت، بغیر سوچے سمجھے آنکھ بند کرکے کی جانے والی حمایت نہیں ہے۔ مجھے اس کے بدلے میں حکومت سے کچھ توقعات اور انتظارات بھی ہیں۔ سب سے پہلی توقع کے طور پر میں حکومت کے ذمہ داروں سے کہتا ہوں کہ وہ تھکن اور خستگی کا احساس نہ کریں؛ خدا پر اعتماد اور توکل اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں؛ خدا پر بھروسہ رکھیں اور ان عوام پر اعتماد کریں؛ اپنے عوامی رنگ، بو کو محفوظ رکھیں؛ ظاہری آرائش اور تجملات میں کہ اکثر لوگ جن کا شکار ہوجاتے ہیں، نہ پڑیں۔ ہر وقت خبر دار اور ہوشیار رہیں؛ جماعتی اختلافات میں شامل نہ ہوں؛ اپنے اوقات سیاسی جھگڑوں میں ضائع نہ کریں۔ اپنے تمام تر وجود اور تمام تر توانائیوں کے ساتھ عوام کے لئے کام کریں؛ جو کچھ لوگوں سے وعدے کریں اسے انجام دیں اور اسکی تکمیل کی جستجو میں لگے رہیں۔
ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا چاہیئں۔ ہمیں خدا سے متوسل رہنا چاہیئے، ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہنا چاہئے ۔ملت ایران ایک عظیم ملت ہے، قدرت و توانائی رکھنے والی قوم ہے، عظیم مقاصد کی حامل ہے اور ان ہی اہداف کی طرف گامزن بھی ہے جسے وہ طے کر سکتی ہے۔ مجھے میں دعا کرتا ہوں کہ خداوند متعال اپنا الطاف و کرم آپ تمام ملت ایران پر جاری وساری رکھے؛
آپ کے سروں پر اپنا باران لطف وکرم برساتا رہے اور انشاء اللہ آج کا دن جو ہمارے ایرانی سال (1386 ھجری شمسی)کا پہلا دن (۲۱مارچ۲۰۰۷) ہے، لوگوں کے لئے ایک با برکت سال کا نقطۂ آغاز ثابت ہو۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم والحمد للہ رب العالمین و الصلٰوۃ علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ الطیبین و صحبہ الصادقین موسم حج ہر سال کی مانند معنوی بشارتوں کے ساتھ آن پہنچا ہے اور عالم اسلام کے سامنے گرانبہا موقع فراہم ہو گیا ہے۔ اگر چہ بے شمار مشتاق دلوں کو اس منزل کی جانب جانے کی تڑپ ہوتی ہے لیکن جن خوش نصیبوں کی یہ آرزو پوری ہوئی ہے ایسے بے شمار لوگوں میں بہت کم ہیں اور یہ صورت حال بجائے خود اس لازوال چشمہ سے دائمی تمسک و وابستگی کا باعث ہے۔ خانۂ محبوب میں (مسلمان ) بھائیوں کی سالانہ ملاقات دلوں کو ایک جانب قبلۂ کائنات اور دوسری طرف بچھڑے دوستوں سے ملادیتی ہے اور امت اسلامیہ کے پیکر میں معنویت کے اعتبار سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی نشاط و شادابی پیدا کردیتی ہے ۔مادی آلودگیوں سے پاک ہونا، ہر مکان و مقام پر اور تمام اعمال کی ادائیگی کے وقت ایک جیسے لباس و انداز میں رہنا، خدا کو ( نگاہ بصیرت سے ) دیکھنا کچھ ہی دنوں کے لئے سہی لیکن انسان کے لئے ایک بہت بڑی سعادت اور بڑا کارساز توشہ راہ ہے۔ حج کے تمام آداب و مناسک اس لئے ہیں کہ فریضۂ حج بجا لانے والا اس معنوی و روحانی تجربے سے گزرے اور اس خاص لذت کو روح و دل کی گہرائیوں میں محسوس کرے۔ سیاسی لحاظ سے حج کا بنیادی نکتہ، امت اسلامیہ کے متحد تشخص کا مظاہرہ کرنا ہے۔ (مسلمان ) بھائیوں کی ایک دوسرے سے دوری بدخواہوں کو موقع فراہم کرتی ہے اور اس سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پنپتا ہے۔ امت اسلامیہ مختلف قوموں، نسلوں اور مذاہب کے پیروؤں سے تشکیل پائی ہے اور روئے زمین کے حساس اور اہم علاقوں اور الگ الگ جغرافیائی خطّوں میں ان لوگوں کا آباد ہونا اور امت اسلامیہ کا یہ تنوع بھی اس عظیم پیکر کے لئے ایک مثبت اور مفید پہلو ثابت ہوسکتا ہے اور اس وسیع و عریض دنیا میں اس کی مشترکہ ثقافت، میراث اور تاریخ (امت اسلامیہ ) کو مزید فعال و کارآمد بنا سکتا ہے اور طرح طرح کی انسانی و فطری قابلیتوں اور صلاحیتوں کو مسلمانوں کے مفادات کے لئے بروئے کار لا سکتا ہے۔ مغربی سامراج نے اسلامی ملکوں میں داخل ہوتے ہی اس نکتے توجہ دی اور اس نے تفرقہ انگیز عوامل کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش شروع کر دی ۔سامراجی سیاستدانوں کو بخوبی علم تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ہوگیا تو اس پرسیاسی اور اقتصادی تسلّط جمانے کا راستہ مسدود ہوجائے گا۔ بنابریں انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی ہمہ جہتی اور طویل المیعاد کوشش شروع کردی اوراس خبیثانہ سیاست کی آڑ میں انہوں نے لوگوں کی غفلت اور سیاسی و ثقافتی زمامداروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی ملکوں پر تسلّط جمانا شروع کردیا۔گذشتہ صدی میں اسلامی ملکوں میں حریت پسندانہ تحریکوں کی سرکوبی، ان ملکوں پر تسلّط جمانے میں سامراجی طاقتوں کی پیشقدمی، ان ملکوں میں استبدادی حکومتوں کی تشکیل یا تقویت، ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ کھسوٹ، انسانی وسائل کی نابودی اور نتیجے میں مسلمان قوموں کی علم و ٹیکنالوجی کے قافلے سے عقب ماندگی یہ سب کچھ آپسی اختلافات اور دوری کی وجہ سے ہوا ہے جس کے نتیجے میں کبھی کبھی دشمنی، جنگ و جدل اور برادر کشی کے اندوہناک مناظر سامنے آئے ہیں۔ اسلامی بیداری کے آغاز سے جس کا نقطۂ عروج ایران میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام تھا مغربی سامراج کو سنگین خطرے کا سامنا ہوا ۔مشرق و مغرب کے سیاسی مکاتب کی شکست اور سامراجی طاقتوں کی اُن اقدار پر خط بطلان اور ان کی نابودی سے جنہیں وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا واحد ذریعہ گردانتی تھیں مسلمان قوموں کے درمیان اسلامی بیداری کی بنیاد مضبوط ہوئی اور اس نور الٰہی کو خاموش کرنے اور اس روشنی کو چھپانے میں استکباری طاقتوں کی پے در پے ناکامیوں نے مسلمان قوموں کے دلوں میں امید کے پودے کو مضبوط و بارور بنادیا ۔آج کے فلسطین کو دیکھئے جہاں اس وقت صیہونی قبضے سے آزادی کے جامع اصول پر کاربند حکومت بر سر اقتدار آئي ہے اور پھر ماضي میں فلسطینی قوم کی غربت، تنہائي اور ناتوانی سے اس کا موازنہ کیجئے، لبنان پر نگاہ ڈالئے جہاں کے جیالے و فداکار مسلمانوں نے اسرائیل کی مسلّح فوج کو جسے امریکہ و مغرب اور منافق عناصر کی پوری مدد حاصل تھی شکست دی اور پھر اس کا اُس دور کے لبنان سے موازنہ کیجئے کہ جب صیہونی جب چاہتے تھے اور جہاں تک چاہتے تھے کسی مزاحمت کے بغیر درآنہ گھس آتے تھے ۔عراق پر نگاہ ڈالئے کہ جس کی غیرت مند قوم نے مغرور امریکہ کی ناک رگڑ دی اور اس فوج اور ان سیاستدانوں کو جو کبر و نخوت کے عالم میں عراق پر اپنی مالکیت کا دم بھرتے تھے سیاسی، فوجی اور اقتصادی دلدل میں پھنسا دیا اور پھر اس کا اس عراق سے موازنہ کیجئے جس کے خونخوار حاکم نے امریکہ کی پشتپناہی سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ افغانستان پر نگاہ ڈالئے کہ امریکہ اور مغرب کے تمام وعدے جہاں فریب اورجھوٹ ثابت ہوئےاور جہاں مغربی اتحادیوں کی غیر معمولی اور بے تحاشا لشکرکشی نے اس ملک کی تباہی و ویرانی اورلوگوں کوغربت زدہ بنانے، ان کا قتل عام کرنے اور منشیات کے مافیا گروہوں کو روز بروز مضبوط بنانے کے سوا اور کچھ نہیں کیاہے اور سرانجام اسلامی ملکوں میں جوان معاشرے اور پروان چڑھتی نسل پر نگاہ ڈالئے جس میں اسلامی اقدار کا رجحان بڑھ رہا ہے اور امریکہ و مغرب سے اس کی نفرت میں ہرروز اضافہ ہورہا ہے۔ان تمام واقعات پر نگاہ ڈالنے سے مغربی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی بد بختی اور شکست خوردہ پالیسیوں کی حقیقی تصویر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام واقعات اس بات کی بشارت دے رہے ہیں کہ امت اسلامیہ متحد ہورہی ہے۔اس وقت امریکی حکومت، مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور مفسد صیہونی کارندے اسلامی بیداری کی زندہ حقیقت کو درک کررہے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اسلحہ و فوجی قوت اس حقیقت کے مقابلے میں کارگر نہیں ہے، اپنی تمام تر قوت و صلاحیت مکاریوں اور سیاسی شعبدہ بازیوں میں صرف کررہے ہیں۔ آج وہ دن ہے جب امت مسلمہ کو خواہ اس کے سیاسی و مذہبی رہنما ہوں یا ثقافتی شخصیات و دانشور یا پھر عوام الناس، سب کو پہلے سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ دشمن کے حیلوں کو سمجھیں اور ان کا مقابلہ کریں ایک سب سے موثر حیلہ اختلافات کی آگ بھڑکانا ہے۔ وہ لوگ (دشمن ) پیسے اور مسلسل و بلاوقفہ کوششوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اختلافات میں الجھانا چاہتے ہیں اور ایک بار پھر غفلتوں، نادانیوں، کج فہمیوں، اور تعصبات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔آج ہر وہ اقدام جو عالم اسلام میں تفرقہ کا باعث ہو، تاریخی گناہ ہے۔ وہ لوگ جو دشمنانہ طریقے سے مسلمانوں کےایک عظیم گروہ کو بے بنیاد بہانوں سے کافر قرار دے رہے ہیں، وہ لوگ جو باطل گمان و خیالات کی بنیاد پر مسلمانوں کے کچھ فرقوں کے مقدسات اور مذہبی مقامات کی اہانت کررہے ہیں، وہ لوگ جو لبنان کے جانباز جوانوں کی پیٹھ میں جو امت اسلامیہ کی سربلندی کا باعث بنے ہیں خنجر گھونپ رہے ہیں، وہ لوگ جوامریکہ اور صیہونیوں کی خوشامد کے لئے ہلال شیعی یا شیعہ بیلٹ کے نام سے موہوم خطرے کی باتیں کررہے ہیں، وہ لوگ جو عراق میں عوامی اورمسلمان حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اس ملک میں بد امنی اور برادر کشی کو ہوا دے رہے ہیں، وہ لوگ جو حماس کی حکومت پر جو ملّت فلسطین کی محبوب اور منتخب حکومت ہے ہرطرف سے دباؤ ڈال رہے ہیں خواہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ایسے مجرم شمار ہوتے ہیں کہ تاریخ اسلام اورآئندہ نسلیں ان سے نفرت کریں گی اور انہیں غدار دشمنوں کا پٹھو سمجھیں گی۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عالم اسلام کی حقارت و پسماندگی کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے یہ خیال باطل کہ مسلمان ملکوں کو ہمیشہ مغرب کے سیاسی و ثقافتی اقتدار کے پنجہ میں اسیر رہنا ہے اور انفرادی و اجتماعی افکار و گفتار وکردار میں مغرب کی ہی تقلید و پیروی کرنا ہے اب خود مغرب والوں کے ہاتھوں اور اس کے غرور و طغیان و انتہا پسندی کے نتیجے میں مسلمان قوموں کے ذہنوں سے مٹ ہوچکا ہے۔مغرب خاص طور پر امریکہ کی سرپرستی میں آنے کے بعد کھلم کھلا ظلم و ستم، غیر منطقی اقدامات اور بے حد و حساب غرور و تکبر کی وجہ سے عالم اسلام میں اقدار دشمن عنصر میں تبدیل ہوگياہے۔ فلسطینی عوام سے مغربی ملکوں کا سلوک اوراس کے مقابلے میں خونخوار صیہونی حکومت کے ساتھ ان کا رویّہ، ایٹمی ہتھیار رکھنے پرمبنی صیہونی حکومت کے اعتراف کے مقابلے میں ان کا موقف اور دوسری طرف پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی سے استفادے کے ایران کےحق کے خلاف ان کا موقف، لبنان پر فوجی حملے کے لئے ان کی حمایت اور جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے ان کی اسلحہ جاتی اورسیاسی امداد اوردوسری طرف اپنا دفاع کرنے والے لبنانی جانبازوں سے ان کی دشمنی عرب حکومتوں سے ان کی مسلسل و دائمی سودے بازی و (بلیک میلنگ) اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے ذریعے خود مغرب کا بلیک میل ہونا، اسلامی مقدسات کی اہانت کرنے والوں حتی اس دین الہی کی شان میں پوپ جیسے مغرب کے اعلی ترین عہدیداروں کی کھلی اہانت و افترا پردازی کی حمایت اور دوسری طرف ہولوکاسٹ اور صیہونیت کے بارے میں تحقیق اور شک وشبہے کو جرم شمار کیاجانا، ڈیموکریسی کے نام پرعراق و افغانستان میں قتل عام، تباہی و ویرانی اورفوجی حملہ اور دوسری طرف فلسطین و عراق و لاطینی امریکہ میں منتخب جمہوری حکومتوں یا جہاں کہیں بھی امریکہ اور صیہونیزم کے آلۂ کار اقتدار میں نہ آئے ہوں ان حکومتوں کے خلاف سازشیں کرنا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھنڈورا پیٹنا اور دوسری طرف عراق اور دوسری جگہوں کے دہشت گردوں سے خفیہ ساز باز اور حتی ان کی مدد کرنا ، ان نامعقول اور دشمنانہ حرکتوں اور اقدامات نے مسلمان قوموں پر حجت تمام کردی ہے اور اسلامی بیداری میں مدد دی ہے ۔آج خواہ وہ چاہیں یا نہ چاہيں دنیائے اسلام میں گہری اورمضبوط تحریک کا آغاز ہوچکاہے اور یہی وہ تحریک و بیداری ہے جو اپنے مناسب وقت پر امت اسلامیہ کی آزادی، سربلندی اور حیات نو پر منتج ہوگی ۔یہ ایک فیصلہ کن تاریخی مرحلہ ہے۔ اس مرحلے میں علماء، دانشوروں اور روشن خیال لوگوں کے کاندھوں پرسنگین ذمہ داری عائد ہوئی ہے۔ ان لوگوں کی طرف سے ہر طرح کی کمزوری، سست روی، کوتاہی اور خود غرضی سے ایک المیہ بپا ہوسکتاہے۔ مذہب کے نام پر اختلافات کو ہوا دئے جانے کی کوششوں کے مقابلے میں علماء دین کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے۔ روشن خیال لوگوں کو جوانوں کے اندر امید کی روح پھونکنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ سیاستدانوں اور حکام پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو میدان میں موجود رہنے کی تلقین کرتے رہیں اور عوام پر بھروسہ کریں! اسلامی حکومتیں اپنی صفوں میں اتحاد کو مضبوط بنائیں اور تسلّط پسندوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں اس حقیقی قوت سے استفادہ کریں۔ آج امریکہ اور برطانیہ کی جاسوسی تنظیمیں عراق میں، لبنان میں، شمالی افریقہ کے ملکوں میں جہاں جہاں ان کی رسائی ہوسکتی ہے، پوری قوت کے ساتھ مذہبی اختلاف کے جراثیم پھیلارہی ہیں۔ حج کے اجتماع کو ہمیں اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھنا چاہئے اور آیۂ شریفہ واطیعوا اللہ و رسولہ و لا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم و اصبروا ان اللہ مع الصابرین(اور اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرواورآپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤاور تمھاری ہوا بگڑ جاۓ اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)، کو مسلسل اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آج مشرکین سے برائت و بیزاری تمام مسلمان قوموں کی قلبی اور فطری آواز ہے۔ موسم حج وہ تنہا موقع ہے جب یہ آواز ان تمام قوموں کی جانب سے فلک شگاف نعرے کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھئے اور امت مسلمہ کے لئے دعا اور مہدی موعود سلام اللہ علیہ و عجل اللہ فرجہ کے ظہور میں تعجیل کی دعا کے ساتھ اس بحر نا پیدا کنار میں اپنے پورے وجود کو غوطہ زن کیجئے اور گناہوں کو دھو ڈالئے۔ آپ سب کے لئے کامیابی، خوشبختی اور حج کی مقبولیت کے لئے دعا گو ہوں ۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سیدعلی خامنہ ای سوم ذی الحجہ 1427 مطابق 24 دسمبر 2006
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوستو اور بھائیو! خوش آمدید!
بنیادی نکتہ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ گورنر ہر صوبے میں اپنے مقام کو صحیح طرح سے پہچانے اور حقیقی معنی میں اس مقام کی ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر محسوس کرے۔ میرے خیال میں کسی بھی صوبے میں گورنر اس صوبے کے سربراہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ گورنر کہے کہ فلاں شعبے نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا اس وجہ سے یہ کام پیچھے رہ گیا۔ جی نہیں! گورنر کو اپنی کوششوں سے اور مرکز و حکومت سے رابطے کے ذریعے ایسا کام کرنا چاہیے کہ اس صوبے میں مختلف شعبے اپنا اپنا کام انجام دے سکیں۔ گورنر کے لیے ضروری ہے کہ وہ امور پر نظر رکھے تاکہ تمام کام مکمل ہو سکیں۔ --- تو پہلی بات یہ ہے کہ گورنر کو اپنے مقام اور اس ذمہ داری کا پوری طرح سے ادراک ہونا چاہیے جسے اس نے قبول کیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس بات پر توجہ رکھیے کہ اس وقت ہمارا ملک کام کے لیے تیار ہے۔ بحمداللہ آج ہمارا ملک پوری توانائی اور ہمہ گیر آمادگی کے ساتھ اور روز افزوں امید کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ آج خوش قسمتی سے لوگ امید، مثبت نقطہ نگاہ اور ملک و حکومت کی مرکزیت سے وابستگی کے ایک احساس کے ساتھ آپ یعنی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ جب ہم ذمہ داریوں کے لحاظ سے حکومت کا تجزیہ کریں اور نچلی سطح پر آئیں تو ابتدائی مراحل میں وہ گورنروں تک پہنچتی ہے۔ لوگ آمادہ ہیں اور راہ مکمل طور پر ہموار ہے۔ حکومت کی موجودہ صورتحال، صدر مملکت کی ذاتی خصوصیات اور لوگوں کے ساتھ رفتار و گفتار کے سلسلے میں حکومت کے رویے نے بہت بہتر انداز میں راہ ہموار کردی ہے اور لوگوں میں حقیقی معنی میں امید پیدا ہو گئي ہے۔ اگر آپ لوگوں کی جانب سے رابطہ کیے جانے کی جگہوں پر جائیں تو مجھے اطلاع ہے کہ اس وقت لوگوں کی شکایتیں کم ہو گئي ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسائل ختم ہوگئے ہیں، نہیں، اگر مسائل کم بھی ہو گئے ہوں تو اتنے کم نہیں ہوئے ہیں کہ لوگوں کی شکایتیں ختم ہو جائيں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں امید پیدا ہو گئي ہے۔ امید اپنا کردار ادا کرتی ہے، لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کاموں میں پیشرفت ہو رہی ہے۔
عزیز بھائیو! جب سے انقلاب کامیاب ہوا اور یہ نظام بر سر اقتدار آیا، ہمیں اپنے ملک میں ایک متوقع چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو اب بھی ہمارے سامنے ہے اور مدتوں تک ہمارے سامنے رہے گا۔ اگر کوئي یہ سوچتا ہے کہ ہم ان معیاروں اور مقررہ حدود کے مطابق اسلامی جمہوری نظام کے مالک ہوں گے اور دنیا پر مسلط طاقتیں، جو ان معیارات کی ضد ہیں، اپنی جگہ پر بیٹھی رہیں گي اور نہ صرف یہ کہ ہمارے خلاف جارحیت نہیں کریں گی بلکہ ہماری مدد بھی کریں گی تو یہ ایک بیجا توقع ہے۔ اس کی قطعی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ہم بین الاقوامی انصاف، معنویت کی جانب رجحان، بنی نوع انسان کی تعظیم اور دین خدا، معنویت اور اخلاقیات کی جانب رجحان کے معیار کے ساتھ بر سر اقتدار آئے ہیں، ہم عالمی سطح پر تسلط پسند طاقتوں کی توسیع پسندی اور اقتدار پرستی کے آگے نہ جھکنے کے معیار کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ سب اسلامی جمہوریہ کے معیارات ہیں۔ واضح ہے کہ جب آپ کی بنیاد ہی زور زبردستی کے خلاف استقامت ہو تو دنیا کے جارحین آپ سے صلح نہیں کریں گے بلکہ مقابلہ آرائي پرتلے رہیں گے۔ یہ مقابلہ آرائی انقلاب کے آغاز سے ہی تھی، اب تک ہے اور مستقبل میں بھی تب تک باقی رہے گی جب تک وہ مایوس نہیں ہو جاتے۔ آپ اپنے آپ کو اور ملک کو ایسے مقام تک پہنچا دیجیے کہ وہ مایوس ہو جائيں۔ اس وقت بھی یہ مقابلہ آرائي ہوگي لیکن بہت کم اثرات کے ساتھ۔ بنابریں ہمیشہ اپنے آپ کو چیلنجوں اور توسیع پسندوں سے مقابلے کے میدان میں سمجھئے اور اس نظریے کے ساتھ اپنے مسائل کا جائزہ لیجئے۔
جن لوگوں کے ساتھ اسلامی نظام کی مقابلہ آرائی ہے وہ اپنا مفاد کس چیز میں سمجھتے ہیں؟ ایران میں اسلامی جمہوری نظام کے قائم رہنے سے امریکہ اپنا مفاد کس میں دیکھتا ہے؟ وہ اپنا مفاد لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور آج عوام کے درمیان جو اتحاد و یکجہتی آپ دیکھ رہے ہیں اسے ختم کرنے اور ملک کی علمی و سائنسی تحریک کو روک دینے میں سمجھتا ہے کیونکہ علم اور علمی برتری؛ کسی بھی ملک کے اقتصادی، سیاسی، فوجی شعبوں اور اقتدار میں پیشرفت کا راز ہوتی ہے۔ ہم نے یہ کام برسوں پہلے شروع کر دیا ہے اور بہت بہتر انداز میں پیشرفت کر رہے ہیں، ہماری تحریک کئی گنا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اگرچہ ان کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ یہ تحریک ختم ہوجائے کیونکہ ان کا مفاد ،لوگوں کی خدمت کرنے کی جو لہر اٹھی ہے، اسے رکوانے میں ہے۔ لوگوں کی خدمت کا نعرہ جو کئی سال قبل ملک میں پیش کیا گيا تھا آج ایک شعار بن گيا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اسی شعار کی بنیاد پر اقتدار میں آئي ہے اور اس نے اسی گفتگو کے تحت اقتدار سنبھالا ہے۔ یہ لوگ ( سامراجی طاقتیں ) چاہتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کا عمل رک جائے۔ ان کا مفاد بدامنی پیدا کرنے میں ہے اور بدامنی پیدا کرنے کے محرکات بہت زیادہ ہیں۔ آپ کے پاس بھی رپورٹیں ہیں اور ہمارے پاس بھی بہت زیادہ رپورٹیں ہیں کہ مختلف طریقوں سے بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا مفاد حکومت کو سیاسی گروہ بندی اور لفاظیوں میں الجھانے میں ہے، ان کا مفاد لوگوں کو مایوس کرنے اور ان نعروں اور اس راہ کی سچائي پر ان کے ایمان کو سلب کرنے میں ہے، لوگوں کو پژمردہ کرنے میں ہے۔ یہ سب ایسے کام ہیں جو فطری طور پر واضح ہیں۔ اگر ہمارے پاس ایک بھی رپورٹ نہ ہو تب بھی ہم جانتے ہیں کہ امریکہ، صیہونی طاقتوں اور ہمارے خلاف محاذ بنانے والوں کی مصلحت ان کاموں میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس ایسی رپورٹیں بھی ہیں جن سے ان باتوں کی تصدیق ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حقیقت میں اس طرح کے کام کرنا چاہتے ہیں۔
آپ لوگ اپنے صوبے کے سربراہ ہیں۔ ان مسائل کے سلسلے میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہی کام کا معیار ہے۔ اپنی ترجیحات اور روش کو انہیں چیزوں کے مد نظر منتخب کیجیے۔ یہ باتیں جو آپ لوگوں نے کہیں، بہت اچھی تھیں۔ وہ باتیں بھی جو محترم گورنروں نے بیان کیں اور وہ باتیں بھی جو وزیر محترم نے کہیں۔اب آپ لوگ کیا کریں گے؟ اسے عملی طور پر ظاہر کیجیے اور جو بھی کام کرنا ہو اسے معین کیجیے۔ کام کے پیچھے پڑ جائیے اور اسے بالکل ترک نہ کیجیے۔ کام کو معمولی نہ سمجھیے اور نہ اس سے اکتائیے۔ وقت بہت تیزی سے گزر جاتا ہے۔ یہی دیکھیے کہ آپ لوگوں کو اپنا عہدہ سنبھالے ہوئے چھے مہینے کا عرصہ گزر گيا۔ آپ کے کام کی مدت چار سال ہے۔ یعنی آپ کے کام کی مدت کا آٹھواں حصہ گزر چکا ہے اور صرف سات حصے بچے ہوئے ہیں اور وہ بھی بہت تیزی سے گزر جائیں گے۔ اس مدت میں، جو زیادہ نہیں ہے، بہت زیادہ کام کرنے کی کوشش کیجیے کہ اگر اگلے دورے میں خود آپ ہی گورنر رہے تو آپ اپنے ہی کام کو آسان بنائیں گے اور اگر کوئی دوسرا آپ کی جگہ پر آئے گا تو وہ آپ کے کاموں کو دیکھ کر اگر، اس نے زبان سے آپ کی تعریف نہ کی توکم از کم اپنے دل میں ضرور کہے گا کہ یہاں کتنا اچھا گورنر تھا اور اس نے کتنے اچھے کام کیے ہیں نتیجتا آج ہم ان کاموں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس طرح سے آگے بڑھنا چاہیے۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو امن عامہ کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ لوگوں کی خدمت تو اہم ہے ہی اور لوگوں کی رضامندی کو بھی بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ جناب صدر اور ان کی کابینہ کے صوبوں کے دورے بہت اچھے کاموں میں شامل ہیں۔ لوگوں کے درمیان جانا اور براہ راست ان کی بات سننا، اس شخص کو ترغیب دلانے میں بہت مؤثر ہے جسے کام کرنا ہے۔ البتہ اس کام کے ساتھ ہی دو باتوں کو ضرور انجام دیجیے۔ ایک تو یہ کہ کسی غیر سنجیدہ بات کے ذریعے اس امید کو لوگوں کے درمیان مت جگائیے جو ناممکن ہو یا جس کے عنقریب انجام پانے کا امکان نہ ہو تاکہ لوگوں کوقول اور فعل کی یکسانیت ناممکن نہ لگے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کی خدمت، کہ جو نقد کام اور سکوں بخش دوا کی مانند ہے، آپ کو بنیادی اور ضروری کاموں سے نہ روک دے۔ ہمیں دونوں کاموں کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ صرف بنیادی کاموں میں ہی مشغول ہو جائیں اور لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات کی طرف سے غافل ہو جائیں کہ جو بہت ہی خطرناک چیز ہے اور نہ ہی اس کے برخلاف ہونا چاہیے کہ ہم لوگوں کے فوری، ضروری اور امدادی کاموں میں مصروف ہو جائیں اور ان چیزوں کی طرف سے غافل رہیں جنہیں ہماری طویل مدت توجہ کی ضرورت ہے۔ ان دونوں باتوں پر ضرور توجہ دی جانی چاہیے۔
آپ کا رویہ عوام پسندانہ، منصفانہ اور منکسرانہ ہونا چاہیے۔ لوگوں سے گرمجوشی سے ملیے، ان کے ساتھ انکساری سے کام لیجیے، جہاں ضرورت پڑے لوگوں کے گھروں میں بھی جائیے۔ گورنری کا عہدہ آپ پر چھا نہ جائے، آپ پر غلبہ نہ کر لے۔ یہ بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ کوئي انہیں میں سے ہے؛ ایسی صورت میں گورنر کی شان و منزلت زیادہ باقی رہے گی۔ کبھی یہ مت سوچیے گا کہ اگر کوئی لوگوں سے الگ رہے گا تو اس کی زیادہ شان ہوگی؛ نہیں، شان و منزلت حکام کے لیے اچھی ہے یہ شان و منزلت لوگوں کو محسوس ہونی چاہیے اور یہ شان و منزلت آپ کے معنوی رویے سے حاصل ہوگی۔ جب آپ صحیح ہوں گے، اپنے ذاتی مفادات کی فکر میں نہیں رہیں گے، اپنے آرام کو لوگوں کے آرام پر قربان کر دیں گے، خدا کے لیے کام کریں گے اور خلوص کے ساتھ کام کریں گے تو خداوند متعال لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت اور ہیبت دونوں پیدا کر دے گا۔ میں نے ایسے افراد کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کر لیا، یہ سوچ کر کہ یہ کام ان کے لیے ایک شان ہے ایک الگ پہچان ہے لیکن لوگ ایسے لوگوں کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے تھے یعنی لوگوں کی نظروں میں ان کی کوئي عزت نہیں تھی، تو لوگوں کے ساتھ رہیے۔
مخلص اور ماہر افرادی قوت کی جانب سے غافل مت رہیے۔ پورے ملک میں ایسی افرادی قوت ہے جو ممکن ہے، مرکز میں رہنے والوں یعنی ہم لوگوں کے لیے جانی پہچانی نہ ہو لیکن اس میں ضروری مہارت اور اخلاص ہے۔ ایسے لوگوں کو کام کے دائرے میں شامل کیجیے اور ان کی صلاحیت سے استفادہ کیجیے۔ اسی طرح سے نظام اور حکومت کے بنیادی اہداف یعنی قومی ترقی کے پانچ سالہ منصوبے اور پنج سالہ پروگرام کو جو کہ منظور ہو چکا ہے، اپنے پروگراموں میں مدنظر رکھیے۔ آپ کے پروگراموں میں یہ ضرور دکھائی دینا چاہیے، اسی کے تناظر میں آگے بڑھیے۔
میری نظر میں ان تمام امور میں بنیادی نکتہ، اخلاص، خدا کے لیے کام کرنا، خدا سے رابطے کے لحاظ سے اپنا خیال رکھنا اور اپنے اندر معنوی پہلو کو مضبوط بنانا ہے۔ میں دیکھا رہا ہوں اور میرا خیال ہے کہ جو کوئی کام اور لوگوں کی خدمت کے لیے اہتمام کرتا ہے اگر وہ خدا سے اس رابطے کو مضبوط بناتا ہے تو خداوند عالم اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے سامنے راستے کھول دیتا ہے۔ ان شاء اللہ خدا آپ کو اس بات کی توفیق دے گا کہ آپ نے جن کاموں کی ذمہ داری قبول کی ہے، انہیں انجام دیں۔ ایسا بننے کی کوشش کیجیے کہ اگر ایک بار پھر ہم آپ سے ملے تو اس ملاقات میں جو کچھ آپ کہیں وہ یہ ہو کہ: ہم نے یہ کام کیا، یہ بڑا قدم اٹھایا اور اس قدر پیشرفت کی۔
خدمت کے لیے راہ بہت ہی ہموار ہے اور آپ لوگ خدمت گزار ہیں۔ اس میدان میں کمر ہمت مضبوطی سے باندھ لیجیے اور دشمن سے بالکل مت گھبرائیے، دشمن سے خوفزدہ ہونے کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ یہ دشمن جنہوں نے بظاہر ایک متحدہ محاذ تشکیل دیا ہے بباطن اور درحقیقت یہ لوگ انتشار کا شکار ہیں۔ یہ لوگ ان بھیڑیوں اور کتوں کی طرح ہیں جنہوں نے اسلامی امت اور اسلامی معاشرے کے خلاف ایک گلہ تیار کیا ہے لیکن در حقیقت ان کے دل و جان بھی ان کے جسم کی مانند ایک دوسرے سے الگ ہیں؛ مگر بظاہر یہ ہمارے ملک میں اسلام اور سربلند اسلامی پرچم کے خلاف ایک متحد محاذ میں ہیں، ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے ہرگز مرعوب نہ ہوئیے، یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس صراط مستقیم پر محفوظ رکھ سکیں اور استقامت کا مظاہرہ کر سکیں تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ ان کی چالیں یہی ہیں جو آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں، یہ سب ناکام چالیں ہیں۔ آپ دیکھیے کہ آج امریکی، عراق میں اپنی مصلحت اختلافات پیدا کرنے اور عوام کے ذریعے برسراقتدار آنے والی حکومت کو نااہل ظاہر کرنے میں دیکھ رہے ہیں اور اسی لیے وہ اختلاف اور قبائلی جنگ شروع کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی ایک مثال پچھلے دنوں سامرا میں رونما ہونے والا وہ المناک واقعہ ہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور اپنے مختلف سیاسی اہداف کے حصول کے لیے توہین آمیز خاکوں کی شکل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہانت کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ دونوں کام ایک ہی نوعیت کے ہیں؛ یعنی لوگوں کے مقدسات کی اہانت کے میدان میں قدم رکھنا تاکہ اس سے پیدا ہونے والے ہیجان سے پورے پروگرام کے ساتھ اپنے مدنظر اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ آج توہین آمیز خاکوں کا مسئلہ عالم اسلام میں ایک عمومی تحریک اور سامراج کے خلاف عالم اسلام میں نفرت پھیلنے پر منتج ہوا ہے جبکہ سامرا کے واقعے کے سبب دنیا کے بہت سے علاقوں میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد ہوا ہے۔ شیعہ اور سنی علماء ایک ساتھ بیٹھے انہوں نے مل کر بیان جاری کیا اور اس واقعے کی مذمت کی۔ بنابریں دشمن میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کی سازشیں جانی پہچانی اور گھسی پٹی ہیں۔ انہوں نے برسوں تک ان سازشوں پر کام کیا ہے لیکن آج عالم اسلام بیدار ہو چکا ہے اور عالم اسلام کی بیداری کے بعد وہ کوئي کام نہیں کر سکتے۔ البتہ اس بیداری کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔ شیعہ اور سنی بھائیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیے؛ امت مسلمہ کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیے۔ دشمن کے اہداف کو مسلم رائے عامہ کے سامنے بیان کرنا چاہیے کہ وہ ( دشمن ) فتنہ پھیلانا اور مذہبی اختلافات پیدا کرنا چاہتا ہے؛ چاہے وہ عراق میں ہو یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ آج عراقی حکومت کو، جو امریکہ کی شکست کی مظہر ہے، ایسے لوگوں کے درمیان سے، جو اسلام کے عاشق و شیدا ہیں، ایک عوامی جمہوریہ نہیں بنانے دیا جا رہا ہے، کیونکہ امریکی اس کام کے لیے عراق میں نہیں آئے تھے۔ وہ اس لیے آئے تھے کہ عراق میں ایک ایسی حکومت کو بر سر اقتدار لے آئيں جو ان کی پٹھو ہو اور ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے وہ یہ تو نہیں چاہتے تھے کہ ایک اسلام پسند گروہ آ جائے جو مرجع تقلید کی نگاہوں اور علمائے دین کے اشارے سے قدم آگے بڑھائے یا رک جائے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسی کوئی حکومت بر سر اقتدار آئے لیکن عراقی عوام کی یہی خواہش تھی اور یہ ہو گيا۔ اب وہ عراق میں، جو مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کی شکست کا مظہر ہے، کسی نہ کسی طرح اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ عراقی حکومت جو عوام کی رائے اور ان کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئي ہے، اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کر سکے۔ ان شاء اللہ وہ ناکام رہیں گے اور ایرانی عوام کی مانند عراقی عوام فہم و فراست سے ان کا جواب دے دیں گے ۔
ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ لوگو کی مدد اور دستگیری کرے۔ آپ لوگوں کی رہنمائی کرے کہ آپ لوگ پورے عزم و حوصلے کے ساتھ لوگوں میں نشاط اور امید پیدا کر سکیں۔ بہترین طریقے سے کام انجام دے سکیں اور یہ بات محسوس کر سکیں کہ کام میں پیشرفت ہو رہی ہے؛ یعنی جب آپ زمینی طور پر اور عملی میدان میں دیکھیں تو خود آپ کو محسوس ہو کہ کام آگے بڑھ رہا ہے۔ خداوند متعال آپ سب کو کامیاب کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
ماہ محرم اور شجاعت و ولولے سے معمور عشرہ محرم کی آمد کے طفیل میں حقیر کو یہ موقع ملا کہ آپ عزیز علما و خطبا و مقریرین و مبلغین کی زیارت کروں۔ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے زحمت کی اور تشریف لائے۔ خصوصا ان عزیزوں کا جو قم سے تشریف لائے ہیں۔ میں چند باتیں عاشور اور تبلیغ کے سلسلے میں عرض کروں گا۔
عاشور کا واقعہ ایک ثقافت اور ایک ابدی تحریک کا سرچشمہ
عاشور کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ عاشور کا واقعہ ایک خالص تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ امت اسلامیہ کے لئے ایک ثقافت اور ایک ابدی تحریک کا سرچشمہ اور ایک پائدار نمونۂ عمل ہے۔ حضرت ابوعبداللہ الحسین (ع) نے اپنی تحریک کے ذریعےجس کی اس دور میں شدید ضرورت تھی ملت اسلامیہ کے لئے ایک لائحہ عمل پیش کیا۔ یہ صرف درس شہادت ہی نہیں بلکہ بے شمار تعلیمات کا خزینہ ہے۔ حضرت امام حسین (ع) کی تحریک کے بنیادی عناصر تین ہیں منطق و عقل کا عنصر ، شجاعت و حمیت کا عنصر اور مہر و محبت کا عنصر ۔
واقعہ کربلا میں عقل و منطق کا عنصر
اس تحریک میں عقل و منطق کا عنصر امام کے بیانوں میں جلوہ گر ہے۔ تحریک کے آغاز سے قبل، مدینے سے لے کر شہادت تک کے ان نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ ایک قوی منطق کو بیان کرتا ہے اور اس منطق کا نچوڑ یہ ہے کہ جب حالات سازگار ہوں تو مسلمان کا فرض اقدام کرنا ہے۔ چاہے اس اقدام میں انتہائي خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ انسان مکمل خلوص کے ساتھ خود اپنے اعزاء و اقارب ، بیوی بچوں، بھائي بہنوں کو میدان میں لے آئے قید کے لئے تیار ہو جائے۔ یہ ایسی چیزيں ہیں کہ جن کو اس قدر زیادہ دہرایا گيا ہے کہ ہمیں معمولی نظر آتی ہیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک لفظ انقلابی تاثیر کا حامل ہے۔ بنابریں جب اقدام ناگزیر ہو تو انسان کو اقدام کرنا چاہئے، دنیا انسان کو اس سے روک نہ سکے۔ مصلحت پسندی اور بے جا احتیاط انسان کے سد راہ نہ ہو، جسمانی لذت و سکون اور آسائش و آرام انسان کے سدراہ نہ ہو ، انسان کو بڑھنا چاہئے انّ رسول اللہ (ص) قال : من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرم اللہ و لم یغیّر علیہ بفعل و لاقول کان حقّا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ منطق یہ ہے کہ جب دین خطرے میں ہو ، اگر آپ ان دگرگوں حالات کا اپنے کلام یا عمل کے ذریعے مقابلہ نہ کریں تو اللہ کا یہ حق ہے کہ بے اعتنائي برتنے اور اپنی ذمے داری ادا نہ کرنے والے شخص کو اسی سزا سے دوچار کرے جس کا سامنا دوسرے فریق یعنی مستکبر اور ظالم کو ہوگا ۔
حسین بن علی (ع) نے مکے میں ، مدینے میں ، راستے کے مختلف حصوں میں اپنے مختلف فرامین اور محمد بن حنفیہ سے اپنی وصیت میں اس فرض کو بیان فرمایا۔ حسین ابن علی اس کام کے انجام کو جانتے تھے: یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ آپ اقتدار کے حصول کے لئے اپنی آنکھیں بند کرکے انجام سے بے خبر آگے بڑھے۔ نہیں تحقیقی جائزہ ہمیں اس نتیجے تک نہیں پہنچاتا، اس اقدام کا انجام کیا ہوگا اس کا پورا علم امام حسین (ع) کو تھا، وہ علم لدنی اور خداداد فہم و فراست کے ذریعے انجام کا قبل از وقت مشاہدہ کرنے پر قادر تھے لیکن مسئلہ تھا دین کی بقا کا، اس عظیم ہدف پر فخر کائنات حسین بن علی (ع) نے اپنی جان قربان کی۔ یہ مسلمانوں کے لئے قیامت تک کے لئے درس ہے اور یہ عملی درس ہے۔ یہ ایسا درس نہیں ہے جو وقت گزرنے کےساتھ طاق نسیاں کی زینت بن جائے۔ نہیں، یہ وہ درس ہے جو تاریخ اسلام کے افق پر سورج کی مانند ضو فشاں ہے۔ آپ کی آواز استغاثہ پر آج تک انسانی ضمیر صدائے لبیک بلند کر رہا ہے۔ 1961 ع کے محرم میں امام خمینی نے اس درس سے استفادہ کیا اور پھر وہ چار جون کا عظيم واقعہ پیش آيا۔ 1968 کے محرم میں بھی امام خمینی (رہ) نے دوبارہ اسی واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا : خون کو تلوار پر فتح حاصل ہوتی ہے اور وہ بے مثال واقعہ، یعنی انقلاب اسلامی، رونما ہوا۔ یہ ہمارے اپنے زمانے کا واقعہ ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے جو ماضی میں بھی ہماری ملت کے لئے فتح و کامیابی کا ضامن رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ منطق کا یہ حصّہ عقلی ہے اور اس میں استدلال ہے۔ بنابریں امام حسین (ع) کے اقدام کی تشریح صرف جذبات پر مبنی زاویہ نگاہ کے ذریعے نہیں کی جا سکتی ہے، اس زاویہ نگاہ سے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
واقعہ کربلا کا شجاعت کا پہلو
دوسرا عنصر شجاعت و حمیت کا ہے یعنی جہاد، اسلام کی عزت و سربلندی کے لئے ہونا چاہئے۔ کیونکہ العزۃ للہ و لرسولہ و للمؤمنین ۔ مسلمان کو اس تحریک کے راستے میں اور اس جہاد کے دوران بھی اپنی اور اسلام کی عزت کا تحفظ کرنا چاہئے۔ انتہائي مظلومیت کے عالم میں بھی آپ کربلا والوں کے چہروں پر عزت و توقیر کی چمک دیکھیں گے۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے تحریک چلائی ہے جنگ بھی کی ہے لیکن اپنی عزت اور اپنے وقار کی حفاظت نہیں کر سکے۔ حسین ابن علی کا کارنامہ ایسا نہیں ہے۔ ان کا ہر قدم با وقار اور عمل پر افتخار ہے۔ جب حسین بن علی (ع) ایک رات کی مہلت حاصل کرتے ہیں تب بھی اپنے عز و شان پر کوئي آنچ نہیں آنے دیتے۔ جب آپ نے "ھل من ناصر" کہہ کر نصرت طلب کی تو بھی اپنا وقار مجروح نہیں ہونے دیا۔ جب مدینے سے کوفے تک کے سفر میں مختلف لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے باتیں کیں اور ان میں سے بعض کو مدد کے لئے کہا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ خود کو کمزور محسوس کر رہے تھے۔ یہ بھی ایک دوسرا نمایاں عنصر ہے۔ یہ عنصر عاشور کے پیروؤں کو اپنے منصوبوں میں شامل رکھنا چاہئے۔ جہاد کے تمام اقدامات، چاہے سیاسی اور تشہیراتی ہوں یا جان قربان کرنے کا مقام ہو، عزت کے ساتھ طے ہونے چاہئیں۔ عاشور کے دن مدرسہ فیضیہ میں امام خمینی کے چہرے پر نظر ڈالیں۔ ایسا عالم دین کہ جس کے پاس نہ مسلح افراد ہیں اور نہ جنگی ساز و سامان لیکن ایسے پر وقار انداز میں شعلہ بیانی کرتا ہے کہ دشمن کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ یہ مقام عزت و وقار ہے۔ تمام حالات میں امام کا طرز عمل یہی تھا ۔ آپ اکیلے تھے آپ کے پاس ساز و سامان اور ساتھی نہیں تھے لیکن آپ باوقار رہے۔ یہ ہمارے امام خمینی کی عظیم شخصیت تھی۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جس میں امام کی شکل میں کربلائی تحریک کا مجسم نمونہ سامنے آیا اور ہمیں اس کی زیارت کرنے، اس کے گہربار فرامین کو سننے اور ان پر عمل کرنے کا موقع ملا ۔
کربلا مہر و محبت کا حقیقی مظہر
تیسرا عنصر مہر و محبت کا ہے یعنی اس واقعے کے دوران اور پھر اس کے بعد کی منزلوں میں مہر و محبت کے جذبے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اسی جذبے نے عاشور کی تحریک کو ایک الگ تشخص عطا کر دیا ہے۔ واقعہ کربلا جنگ و جدل، قتل و خونریزی ہی نہیں بلکہ مہر و محبت اور عشق و مودت کے پلؤوں پر استوار ہے۔ مہر و محبت کا درجہ بہت عظیم ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں محبت حسین میں گریہ کرنے کا حکم ہے ۔زينب کبری (س) کوفہ و شام میں منطقی باتیں کرتی ہیں لیکن ساتھی ہی مصائب بھی بیان کرتی ہیں۔ مصائب بیان کرنے کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا تا کہ محبت و مودت کے جذبات ہمیشہ بیدار رہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جنہیں عطوفت اور عشق و محبت کے ماحول میں ہی سمجھا جا سکتا ہے، اس ماحول سے دور رہ کر اس کا ادراک ممکن نہیں۔ یہ تین عناصر حسین بن علی (ارواحنا فداہ ) کی عاشورائي تحریک کے بنیادی عناصر ہیں ۔ان کے بیان کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہے جبکہ یہ عاشورائے حسینی کی تعلیمات کا صرف ایک چھوٹا سا پہلو ہے ۔
حسینی تحریک سے دینی تبلیغ کا موقع ملا
ہم مبلغین! حسین بن علی (ع) کے نام پر تبلیغ کرتے ہیں اور یہ عظیم موقع اس عظيم ہستی کے تذکرے کے طفیل میں مبلغین کو میسر ہوا ہے کہ وہ مختلف سطحوں پر دین کی تبلیغ کریں۔ ہماری تبلیغ میں ان تینوں میں سے ہر عنصر کا کردار نمایاں ہونا چاہئے ۔ صرف جذباتیت کو بیان کرنا اور واقعۂ کربلا میں موجود عقلی و منطقی پہلو کو نظر انداز کرنا اس واقعے کی اہمیت کم کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح شجاعت و حمیت کے پہلو کو نظر انداز کرنا بھی اس عظیم واقعے کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس مسئلے کا ذاکروں اور خطیبوں سب کو خیال رکھنا چاہئے۔
تبلیغ کے کیا معنی ہیں؟ تبلیغ کے معنی پہنچانے کے ہیں۔ آپ کو پہنچانا ہے۔ کس تک؟ کہاں تک؟ کانوں تک نہیں بلکہ دلوں کی گہرائیوں تک۔ ہماری بعض تبلیغات حتی ٹھیک طرح سے کانوں تک بھی نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ کان ان کو قبول کرتے ہیں نہ ہی منتقل کرتے ہیں۔ کان بات حاصل کرنے کے بعد دماغ تک منتقل کرتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کو دل تک پہنچنا چاہئے اور اس کا اثر ہم اور سامع دونوں پر نظر آنا چاہئے۔ یہ ہے تبلیغ کا مقصد۔ ہم تبلیغ صرف اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ کوئی بات بس بیان کر دی جائے بلکہ تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ جو تبلیغ کا موضوع ہے وہ مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ وہ موضوع کیا ہے؟ موضوع ایسی تمام چیزیں ہیں جن کی حفاظت کے لئے حضرت امام حسین (ع) نے اپنا بھرا گھر لٹا دیا۔ تمام انبیاء و اولیاء نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا البتہ اس روش کا اوج حسین بن علی (ع) ہیں۔ میری خواہش ہے کہ دین کی مدلل تعلیمات اور اصولوں کو ایسے پیش کیا جائے کہ مخاطب کا ذہن و دل اسے قبول کرے اور یہ چیزیں اس کی شخصیت کا جز بن جائیں۔
شخصیت کی تعمیر
ان تعلیمات میں سے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل ہے۔ میں یہ عرض کر دوں کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کسی معجزے سے کم نہیں ہے لیکن حکومت تشکیل دینے کے ساتھ ہی افراد کی شخصیت کو سنوارنا بہت اہم ہے ۔ نبی اکرم نے پہلے انسانوں کی تربیت کی۔ پہلے پاکیزہ شخصیت کی بنیاد رکھی اور پھر آپ نے اس بنیاد پر دین کی عمارت کو تعمیر کیا۔ دس سال کے عرصے میں کہ جس میں سو برسوں کا کام انجام دیا گيا تھا، پیغمبر (ص) نے کبھی بھی لوگوں کی شخصیت کی تعمیر کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ معرکہ کارزار ہو، محراب عبادت ہو یا کوئي اور مقام ہر وقت اس نقطے پر آپ کی توجہ مرکوز رہی۔ پیغمبر (ص) نے خندق ، بدر اور احد جیسی خطرناک جنگوں میں بھی انسان سازی کا کام انجام دیا۔ قرآن کریم کی آیات کا مطالعہ کیجئے۔ انسان سازی اس تبلیغ کا مقصد ہے اور یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔
سیاسی مسائل کی اہمیت
ہمیں دینی تبلیغ کے وقت بھی سیاسی مسائل کو اپنی گفتگو، کوشش اور جد وجہد کے دائرے سے خارج نہیں ہونے دینا چاہئے ۔ دشمنوں نے اس سلسلے میں دسیوں سال تک کام کیا لیکن اسلامی انقلاب رونما ہو گيا اور ان کی ساری کوششوں پر پانی پھر گیا۔ انقلاب نے سیاسی گفتگو اور نظریات کو دینی سرگرمیوں کے دائرے میں داخل کر دیا۔ دوسری اہم بات مخاطب کے جذبات کی قدر کرنا اس کی شخصیت کی اہمیت کا خیال رکھنا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس کے افکار و نظریات کی تعمیر کریں اسے آباد اور سیراب کریں۔ البتہ اس کے لئے ایک باطنی سرچشمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے اندر ایک چیز موجود ہونی چاہئے تاکہ مخاطب پر اس کا اثر ہو سکے ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس باطنی سرمائے میں فکر و منطق کا عنصر ہونا چاہئے۔ ہم کو صحیح فکر و منطق سے لیس ہونا چاہئے تا کہ بات کمزور نہ ہو، جن افراد نے کہا ہے کہ مؤثرترین حملہ، کمزور اور ناقص دفاع ہے انہوں نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ اگر دین کا دفاع کمزور اور نادرست ہو تو اس کا اثر دین پر حملے سے بھی زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات سے خدا کی پناہ حاصل کرنا چاہئے۔ مبادا ہماری باتوں، تقریر اور تبلیغ میں یعنی جو چیز ہم تبلیغ کے نام پر انجام دے رہے ہیں، کوئی کمزور ، غیر منطقی اور غیر مسلّم بات ہو۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو کتابوں میں تحریر ہیں لیکن ان کی کوئی سند نہیں ہے۔ یہ دل میں اتر جانے والی حکمت اور اخلاقی مسائل پر مشتمل باتیں ہیں۔ ان کی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان کو بیان کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایسی بات ہے جو مخاطب کے ذہن میں اترنے والی نہیں ہے۔ اس کا قبول کرنا اس کے لئے مشکل ہے تو یہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے ۔کیونکہ یہ بات اس کو اصل مسئلے سے دور کر دے گی اور اس کے ذہن میں دین اور مبلغ کی ساکھ خراب ہوگی۔ وہ خیال کرے گا کہ یہ بات منطق سے خالی ہے حالانکہ ہمارے کام کی بنیاد منطق ہے۔ بنابریں منطق، ہماری تبلیغ کا اصل عنصر ہے ۔
عمل، قول کی تاثیر کی ضمانت
اس کے بعد ہمارے عمل کی نوعیت کی باری آتی ہے۔ ہم فلاں شہر یا دیہات میں تبلیغ کے لئے جاتے ہیں تو ہمارا کردار ، اٹھنا ، بیٹھنا ، ملنا جلنا ، ہماری عبادت ، دنیوی نعمتوں سے ہمارا لگاؤ یا عدم لگاؤ ، کھانا پینا اور ہمارا سونا ہماری تبلیغ میں ممد ومعاون بھی بن سکتا ہے اور ہماری تبلیغ کو بے اثر بھی بنا سکتا ہے ۔ اگر یہ کام ٹھیک ہوں تو یہی تبلیغ ہیں اگر غلط ہوں تو تبلیغ کے منافی ہیں۔ ہم سماجی ماحول اور زندگي کے میدان میں لوگوں کو اپنی گفتگو سے کیسے مطمئن کر سکتے اور کس طرح ان کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ہم دنیوی خواہشات کی مذمت میں باتیں تو کرتے ہیں لیکن ہمارا اپنا عمل خدا نخواستہ اس کے خلاف ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ ایسی باتیں مؤثر واقع ہوں؟ یا تو بالکل مؤثر واقع نہیں ہوں گي، اگر موثر ہوئیں بھی تو ان کا اثر دیر پا نہیں ہوگا۔ جب ہمارے عمل کی حقیقت سامنے آئے گي تو ان باتوں کا الٹا اثر ہوگا۔ بنابریں عمل بہت اہم ہے ۔ تیسرا عنصر فن بیان ہے۔ میں فن تقریر کا بہت قائل ہوں ۔آج کے دور میں انٹرنیٹ ، سیٹیلائٹ ، ٹیلی ویژن جیسے مواصلاتی ذرائع ہیں لیکن تاثیر میں کوئی ایک بھی تقریر کے ہم پلہ نہیں ہے ۔ تقریر یعنی لوگوں کے سامنے اور ان کے ساتھ بات کرنا ۔اس کا ایک واضح اور نمایاں اثر ہوتا ہے اور دوسرے کسی بھی مواصلاتی ذریعے میں یہ اثر نہیں پایا جاتا ہے ۔اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے ۔یہ گرانقدر چیز ہے ۔البتہ اس کو فن کے ساتھ ادا کرنا چاہئے تا کہ مؤثر واقع ہوسکے ۔
خوف الہی کی ضرورت
ایک نکتہ اسی تبلیغ کے بارے میں بیان کروں۔ صحیفۂ سجادیہ کی ایک دعا میں حضرت سجاد (ع) اپنی جانب سے خداوند تعالی سے عرض کرتے ہیں کہ تفعل ذلک یا الہی بمن خوفہ اکثر من رجائہ لا ان یکون خوفہ قنوطا میرا خوف رجاء سے زیادہ ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ میں ناامید ہوں۔ یہ ایک باضابطہ دستور العمل ہے۔ خوف کو امید کے ساتھ دلوں میں ضرور پھونکئے البتہ خوف کا پہلو غالب رہے۔ یہ کہ ہم رحمت الہی سے متعلق آیات پڑھیں کہ جن میں سے بعض آیات اور بشارتیں خاص مؤمنین کے گروہ کے ساتھ مختص ہیں اور ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں نتیجے میں بہت سے افراد واجبات اور محرمات سے غافل ہو جائیں یہ درست نہیں ہے اللہ کا خوف سب کو ہونا چاہئے قرآن میں خوشخبری مؤمنین سے مختص ہے لیکن انذار کا تعلق سب سے ہے ۔ مؤمن اور کافر سب کے لئے ہے۔ پیغمبر خدا گریہ کر رہے تھے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (ص) اللہ تعالی نے فرمایا ہے : لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک و ماتاخر ۔تو یہ گریہ کس لئے ہے آپ (ص) نے فرمایا : او لا اکون عبدا شاکرا یعنی تو کیا میں شکر بھی ادا نہ کروں، اگر اس مغفرت کا شکر ادا نہ کروں تو اس مغفرت کی بنیاد کمزور ہوجائے گی۔ ہرحالت میں انذار کو ہمارے اور ہمارے سامع کے دل پر حکمفرما ہونا چاہئے۔ راستہ بہت کٹھن ہے۔ انسان کو یہ راستہ طے کرنے اور اس کی منزل تک پہنچنے کے لئے تیار ہونا چاہئے۔ تبلیغ کا کام، بہت عظیم، حساس اور مؤثر کام ہے۔ آج ہم سابق تبلیغات کی برکات و نتائج دیکھ رہے ہیں اور آپ لوگوں کی آج کی تبلیغات کی برکات معاشرہ آئندہ دیکھے گا ان شاء اللہ ۔ تبلیغ کا اثر اچانک اور فورا نہیں ہوتا ہے بلکہ طویل مدت میں ہوتا ہے ۔ دین کا مبلغ اگردیکھے کہ ظواہر غیر دینی ہیں تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ افواہیں جو بعض لوگ پھیلا رہے ہیں کہ جوان دین سے منہ موڑ چکے ہیں ، ان سب باتوں کو آپ نفسیاتی جنگ سمجھئے یہ افواہ ہے حقیقت نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے دل دین کی طرف مائل ہیں ، وہ حقائق کے پیاسے ہیں اور ان کے دل پیاسے ہیں ۔ ہر پاک فطرت جو ان اسی طرح ہے۔ آپ کی محنتوں کانتیجہ آئندہ نسلوں کو ملے گا۔ آج پہلے کی محنتوں کے نتیجے میں ماحول سازگار ہے لوگ علوم و تعلیمات اہل بیت کے پیاسے اور آپ کی باتیں سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں آپ اپنے بیان سے انہیں بہرہ مند کیجئے
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ ہم سب کو تبلیغ دین اور اس صراط مستقیم کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے کہ جو انقلاب نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور ہمیں اس بات کی بھی توفیق دے کہ ہم سنگین فرائض کو پورا کر سکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حجّ بیت اللہ الحرام کے موقع پر حجاج کرام کے نام قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا پیغام بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قٰالَ ۔۔۔ تَعالیٰ : فَاذَا قَضَیتُم مَناسکَکُم فَاذکُرُوا اللہَ کَذ کرکُم آبائَکُم اَو اَشَدَّ ذکرا´ ۔مسلمان بھائیو اوربہنو! حج کے ایام امید و نوید کے دن ہیں ۔ ایک طرف خانۂ توحید کے مکینوں کے درمیان یکجہتی اپنی پوری شان و شوکت جلوہ نمائی کرکے ، دلوں میں امید پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف ذکر الہی کی برکت سے دل و دماغ کو ملنے والی طراوت باب رحمت کھلنے کی خوشخبری دیتی ہے۔حجاج کرام ، حج کے رمز و اسرار سے معمور مناسک اداکرنے کے بعد، جو خود ہی ذکر الہی اور خشوع و خضوع کا گہوارہ ہیں ایک بار پھر ذکر خدا کے لئے بلائے جاتے ہیں ، یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ یاد الہی افسردہ دلوں کو جلا بخشی دیتی ہے اور ان میں ایمان و امید کی کرن پیدا کرتی ہے ، اور دل جب پر امید اور باایمان ہوتا ہے تو ، آدمی کو زندگی کے پر پیچ و خم راستوں کو طے کرنے اور مادی و روحانی کمال کی چوٹیوں تک پہونچنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے ۔ حج کی معنویت و روحانیت بلاشبہ ذکر الہی میں ہے کہ جو روح کی مانند حج کے ایک ایک عمل میں رچی بسی ہے ۔ یہ مبارک سرچشمہ زمانۂ حج کے بعد بھی پھوٹتا رہے اور اس کے ثمرات جاری رہیں ۔ انسان زندگي کے مختلف امور میں غفلت کا شکار ہے ۔ جہاں بھی غفلت ہے وہاں اخلاقی تباہی ، فکری کجروی اور نفسیاتی ہزيمت بھی ہے اور یہی تباہیاں انسان کی شخصیت کے اضمحلال کے علاوہ ، قوموں کی شکست اور تہذیبوں کے بکھرنے کا باعث ہوتی ہیں ۔غفلت کو دور کرنے کے لئے اسلام کی ایک بڑي تدبیر حج ہے ۔ حج کا بین الاقوامی پہلو یہ پیغام دیتا ہے کہ امت مسلمہ اپنے اجتماعی تشخص میں بھی ، ہر مسلمان کی انفرادی ذمے داری سے ہٹ کر غفلت کو دور کرنے کی ذمے دار ہے ۔عبادتیں اور مناسک حج یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم لذت ، ہوا و ہوس اور آرام و آسائش سے اپنی وابستگي اور اسیری سے خود کو کچھ عرصے کے لئے آزاد کریں ۔ احرام طواف، نماز اور سعی و وقوف ہمیں یاد خدا سے سرشار اور حریم الہی سے قریب کرتا ہے اور ہمارے کام و دہن میں خدا سے انس کی لذت پیدا کرتا ہے ۔ دوسری جانب اس بے مثال اجتماع کارعب و جلال ، ہمیں عظیم امت مسلمہ کی حقیقت سے جو قوم ونسل اور رنگ و لسان کے تفرقوں سے بڑھ کر ہے ، آشنا کرتا ہے ۔یہ متحد و ہماہنگ اجتماع ، یہ زبانیں جو سب کی سب ایک ہی کلمے کا ورد کررہی ہیں ، یہ جسم ودل جوایک ہی قبلے کی جانب رخ کئے ہوئے ہیں ، یہ انسان جو دسیوں ملک و ملت کی نمائندگي کر رہے ہیں سب ایک ہی اکائی اور ایک عظیم مجموعے سے متعلق ہیں اور وہ امت مسلمہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ غفلت کے ایک طویل دور سے گذری ہے ، آج کی سائنسی اورعملی پسماندگی اور سیاست و صنعت اور اقتصاد کےمیدانوں میں پسماندگي ان غفلتوں کا ناگوار نتیجہ ہے اور اس وقت دنیا میں جو حیرت انگيز تبدیلی آئی ہے ، یا آرہی ہے ۔اس کے ذریعے امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنی ماضي کی غفلتوں کی تلافی کرے اور یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ موجودہ دور کے بعض مسائل اس تلافی کے لئے ایک بنیادی اقدام کے آغاز کی نوید دے رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا ، مسلمانوں کی بیداری ، اتحاد اسلامی اور علم و دانش اور سیاست و ایجادات کے میدانوں میں ہماری قوم کی پیشرفت کو اپنے عالمی غلبہ و تسلط کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ شمار کرتی ہے ، اور پوری طاقت کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہے ۔ ہم مسلمان قوموں کے سامنے استعمار اورجدید سامراج کے دور کا تجربہ ہے ۔ آج جدید سامراج کے دور میں ہمیں ماضي سے درس حاصل کرنا چاہیے اورایک بار پھر طویل عرصے تک کے لئے دشمن کواپنی تقدیر پر مسلط نہیں کرنا چاہئے ، ان تلخ و تاریک زمانوں میں مسلط مغربی طاقتوں نے مسلمان قوموں اور ملکوں کو کمزور کرنے کےلئے تمام فوجی ، سیاسی ،معاشی اور ثقافتی ہتھکنڈوں کو استعمال کیا ۔ ان پر تفرقہ و اختلاف، جہالت اور غربت کو مسلط کردیا ۔ ہماری بہت سے علمی شخصیات اور دانشوروں کی فرائض سے دوری اوربہت سی سیاسی شخصیتوں کی کمزوری ، کاہلی اورغفلت نے ان کی مدد کی ، اور اس کا نتیجہ ہماری دولت و ثروت کی لوٹ کھسوٹ ، توہین اور حتی ہمارے قومی تشخص کے انکار اورہماری خود مختاری کی تھی کی صورت میں نکلا ، مسلمان قومیں روز بروز کمزور ہوگئیں اور تسلط پسند اور لٹیرے روز بروز مزيد مضبوط ہوتے گئے ۔ اب جبکہ انقلابیوں کی فداکاری اور دنیائے اسلام کے بعض خطوں میں قائدین کی شجاعت و صداقت کے سبب اسلامی بیداری نے لہروں کو وسعت دی اور بہت سے اسلامی ملکوں میں نوجوانوں ، دانشوروں اور عوام میدان میں اتارا تو بہت سے مسلم حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سامنے تسلط پسندوں کی غداری آشکار ہوگئی ہے ،عالمی سامراج کے سرغنہ ایک بارپھر دنیائے اسلام پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اوراسے جاری رکھنے کے لئے جدید ہتھکنڈوں کی فکر میں ہیں ، جمہوریت اور انسانی حقوق کا نعرہ ان ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے ۔ آج شیطان اعظم ( امریکہ ) جو خود انسان کے خلاف برائیوں اور سنگدلی کا مظہر ہے انسانی حقوق کی حمایت کا علمبردار بنا ہوا ہےاور مشرق وسطی کی اقوام کو جمہوریت کی دعوت دے رہا ہے ۔ امریکہ کے نقطۂ نگاہ سے ان ممالک میں جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ ایسے پٹھو اورکٹھ پتلی عناصر سازش ، رشوت ، اوچھے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ظاہرا´ عوامی اور اندر سے امریکی ایما پر بر سر اقتدار آئیں جو ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے امریکہ کا آلۂ کار بن سکیں ۔ ان مقاصد میں سر فہرست اسلام پسندی کی لہروں کو ختم کرکے اعلی اسلامی اقدار کو ایک بار پھر پس منظر میں ڈالنا ہے ۔ امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں آج اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے اور ممکنہ طور پر اس کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں لہذا مسلم اقوام کو آج پوری طرح آگاہ و ہوشیار رہنا چاہئے ۔ علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں ، روشن خیال دانشوروں ، ادیبوں اور شاعروں ،فن کاروں ، نوجوانوں اور ممتاز سماجی شبہات کا فرض ہے کہ سب مل کر فہم فراست اور بر وقت اقدام کے ذریعے عالمی لٹیرے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عالم اسلام میں سامراجی تسلّط کے ایک نئے دور کا آغاز کرے ۔ ان غاصب طاقتوں کے جمہوریت کے نعرے قابل قبول نہیں ہیں جو برسوں تک ایشیا، افریقہ اور براعظم امریکہ میں آمروجابر حکومتوں کی حامی رہی ہیں ۔ ان لوگوں کی طرف سے تشدّد اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے دعوے نفرت انگیز ہیں جو خود صیہونی دہشت گردی کا پر چار کرتے ہیں اور عراق وافغانستان میں پر تشدّد اور خونریزي کررہے ہیں ۔ ان شیطانوں کی طرف سے شہری حقوق کی حمایت ایک نفرت انگیز اقدام اور فریب کے سوا کچھ نہیں جنہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام پر شیرون جیسے خون آشام دہشت گرد کے جرائم کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ گوانتانامو بے اور ابوغریب سمیت یورپ کی خفیہ جیلوں میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں ، عراقی و فلسطینی قوموں کی تحقیر کرنے والوں اور افغانستان و عراق میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خون بہانے کو جائز سمجھنے والے گروہوں کی تربیت کرنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسانی حقوق کی بات کریں ۔ امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہری حقوق کا محافظ قرار دیں ، کیوں کہ وہ ملزمین کی اذیت و آزار ، نیز سڑکوں پر ان کاخون بہانے کو جائز سمجھتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنے ہی شہریوں کی ٹیلیفون کال سننے کوبغیر کسی عدالتی حکم کے قانونی سمجھتی ہیں ۔ وہ حکومتیں جنہوں نے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار تیار اور استعمال کرکے عصر حاضر کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا ہے وہ جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کی علمبردار نہیں بن سکتیں ۔مسلمان بہنو اور بھائیو ! آج دنیا خاص طور پر عالم اسلام ایک حساس دور سے گذررہا ہے ، ایک طرف سے بیداری کی لہر نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف سے امریکہ اور دیگر مستکبروں کے مکارانہ چہروں سے فریب و ریا کے پردے اترگئے ہیں ، ادھر تشخص اور کھوتی ہوئی شان و شوکت کی بازیابی کے لئے عالم اسلام کے بعض مقامات پرتحریک اٹھ رہی ہے اورعظیم مملکت اسلامی ایران میں آزاد اور مقامی سائنس و ٹیکنالوجی کے ثمرات حاصل ہونے لگے ہیں اور جو خود اعتمادی سیاسی اور معاشرتی امور میں انقلابی دگرگونیوں کاباعث بنی تھی، سائنس اور تعمیر و ترقی کے عمل میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے ۔دوسری طرف دشمنوں کی سیاسی و عسکری صفوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا ہے آج ایک طرف سے عراق ،دوسری طرف سے فلسطین و لبنان میں طاقت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امریکہ اور صیہونیوں کی ناتوانی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے ۔ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں ابتدا ہی میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس پالیسی میں اس کی ناکامی ، اس کے نظر یہ پردازوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئي ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلم قومیں اورحکومتیں حالات کو پرکھتے ہوئے بڑا ارو مؤثر قدم اٹھاسکتی ہیں ۔ مظلوم فلسطینی قوم کی مدد ، عراق کی باشعور قوم کی حمایت اور شام و لبنان اور علاقے کے دیگر ممالک کی حفاظت ایک اجتماعی فریضہ ہے ۔ اس سلسلے میں ممتاز سیاسی ، دینی اور علمی شخصیات ، اکابرین قوم ، نوجوانوں اور دانشوروں کی ذمہ داریاں دوسرے طبقات سے زیادہ ہیں ۔ اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت و یک جہتی اور فرقہ واریت و قومی اختلافات سے پرہیز ان کا نصب العین ہونا چاہیے ۔ سائنسی پیشرفت ، سیاسی ترقی اور علمی سطح پر جد و جہد اور ان بنیادی شعبوں میں طاقت توانائی کا استعمال ان کی دعوت کی بنیاد ہونی چاہیے ، عالم اسلام کوعوامی اقتدار اور انسانی حقوق کے لئے مغرب کے بار بار پامال ہونے والے غلط نسخے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عوامی اقتدار اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور انسانی حقوق اعلی ترین اسلامی پیغام میں شامل ہیں ۔البتہ علم کو اس کے جاننے والوں سے جہاں سے اور جس سے ممکن ہو سیکھنا چاہیے ، لیکن عالم اسلام کو کمر ہمت باندھنا پڑے گی کہ وہ ہمیشہ طالب علم نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات ، سائنسی تخلیق اور انکشافات کے لئے سعی و کوشش کرے ۔ مغربی اقدار جو مغربی ملکوں میں اخلاقی گراوٹ ، نفسانی خواہشات اور تشدد کی ترویج نیز ہم جنس پرستی اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کو قانونی شکل دینے پر منتج ہوئی ہیں ، قابل تقلید اور مثالی اقدار نہیں ہیں ۔اسلام اپنی اعلی اقدار کے ساتھ ، انسانوں کی فلاح و نجات کااعلی سرچشمہ ہے اورقوموں کی بااثر شہادت پر ان اقدار کے احیا اوران کو فروغ دینے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اندھی اور وحشیانہ دہشت گردی جسے آج عراق پرقابض طاقتیں اسلام اور مسلمانوں پرحملے کاوسیلہ بنائے ہوئے ہیں اور جو اس اسلامی ملک پر فوجی قبضہ جاری رکھنے کا بہانہ ہے اسلامی تعلیمات کی رو سے قابل مذمت ہے ۔ ان ظالمانہ واقعات کے اصل مجرم امریکی فوجی اور امریکہ اور اسرائیل کے ادارے ہیں ، عراق میں حکومت کی تشکیل کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش ان کے انتہائي ناپاک منصوبوں میں سے ہے ۔مسلمان بھائیو اوربہنو !اللہ پر توکل قرآن مجید کےحتمی یقینی وعدے پر یقین اوراسلامی اتحاد میں استحکام ہی ،امت مسلمہ کے تمام بڑے مقاصد کی ضمانت ہے اور فریضۂ حج اللہ کے ذکر کے مفید اور مالامال سرمائے کے ساتھ اوراس کے مناسک میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع اس وسیع تحریک کا نقطۂ آغاز اور پہلا قدم ہوگا اور اس فریضے میں استکبار اور کفر کے سرغنوں سے گفتار اور کردار کے ذریعے بیزاری ، مثالی اور اس راہ میں پہلا قدم ہوگا۔ میں آپ حجاج کےلئے نیک خواہشات کا خواہاں اور تمام مسلمانوں کے لئے امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج ) کی دعاء کا طالب ہوں ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہسید علی خامنہ ایذی الحجّہ 1426 ہج ، مطابق 9 جنوری 2006 ع
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قٰالَ اللہ تَعالیٰ : فَاذَا قَضَیتُم مَناسکَکُم فَاذکُرُوا اللہَ کَذ کرکُم آبائَکُم اَو اَشَدَّ ذکرا´ مسلمان بھائیو اوربہنو!حج کے ایام امید و نوید کے دن ہیں ۔ ایک طرف خانۂ توحید کے مسافروں کے درمیان یکجہتی کی شان و شوکت، دلوں میں امید پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف ذکر الہی کی برکت سے دل و جان کو ملنے والی طراوت باب رحمت کھلنے کی خوشخبری دیتی ہے۔ حجاج، حج کے رمز و اسرار سے لبریز مناسک اداکرنے کے بعد جو خود ذکر الہی اور خشوع و خضوع سے پر ہیں ایک بار پھر ذکر خدا کے لئے بلائے جاتے ہیں، یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ یاد الہی افسردہ دلوں کو جلا دیتی ہے اور ان میں ایمان و امید کی روشنی پیدا کرتی ہے اور دل جب پر امید اور باایمان ہوتا ہے تو آدمی کو زندگی کے پر پیچ و خم راستوں کو طے کرنے اور مادی و روحانی کمال کی چوٹیوں تک پہونچنے کی قدرت و طاقت عطا کرتا ہے۔ حج کی معنویت و روحانیت اسی ذکر الہی میں ہے کہ جو روح کی مانند حج کے ایک ایک عمل میں رچی بسی ہے۔ یہ مبارک سرچشمہ زمانۂ حج کے بعد بھی پھوٹتا رہے اور اس کے ثمرات جاری رہیں۔ انسان زندگي کے مختلف میدانوں میں اپنی غفلت کا شکار ہے۔ جہاں بھی غفلت ہے وہاں اخلاقی انحطاط، فکری کجروی اور نفسیاتی ہزيمت بھی ہے اور یہی تباہیاں انسان کی شخصیت کے اضمحلال کے علاوہ قوموں کی شکست اور تہذیبوں کے بکھرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ غفلت کو دور کرنے کے لئے اسلام کی ایک بڑي تدبیر حج ہے۔ حج کا بین الاقوامی ہونا یہ پیغام دیتا ہے کہ امت مسلمہ اپنے اجتماعی تشخص میں بھی ہر مسلمان کی انفرادی ذمے داری سے ہٹ کر خود سے غفلت کو دور کرنے کی ذمے دار ہے۔ عبادتیں اور مناسک حج یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم لذت پسندی، ہوا و ہوس اور آرام طلبی سے اپنی غافلانہ وابستگي اور اسیری سے خود کو آزاد کریں۔ احرام، طواف، نماز اور سعی و وقوف ہمیں یاد خدا سے سرشار اور حریم الہی سے قریب کرتے ہیں اور ہمارے کام و دہن میں خدا سے انس کی لذت پیدا کرتے ہیں۔ دوسری جانب اس بے مثال اجتماع کارعب و جلال، ہمیں عظیم امت مسلمہ کی حقیقت سے جو قوم ونسل اور رنگ و لسان کے تفرقوں سے بڑھ کر ہے آشنا کرتا ہے۔ یہ متحد و ہماہنگ اجتماع، یہ زبانیں جو سب کی سب ایک ہی کلمے کا ورد کررہی ہیں، یہ جسم ودل جوایک ہی قبلے کی جانب متوجہ ہیں، یہ انسان جو دسیوں ممالک اور اقوام کی نمائندگي کر رہے ہیں، سب ایک ہی اکائی اور ایک عظیم مجموعے سے متعلق ہیں اور وہ امت مسلمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ غفلت کے ایک طویل دور سے گذری ہے۔ آج کی سائنسی اورعملی پسماندگی اور سیاست و صنعت اور اقتصاد کےمیدانوں میں پچھڑاپن ان غفلتوں کا تلخ ماحصل ہے۔ اس وقت دنیا میں جو حیرت انگيز تبدیلی آئی ہے، یا آرہی ہے اس کے ذریعے امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنی ماضي کی غفلتوں کی تلافی کرے اور خوش قسمتی سے موجودہ دور کے بعض مسائل اس تلافی کی تحریک کے آغاز کی نوید دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا، مسلمانوں کی بیداری، اتحاد اسلامی اور علم و دانش اور سیاست و ایجادات کے میدانوں میں ہماری قوم کی پیشرفت کو اپنے عالمی غلبہ و تسلط کے لئے سب سے بڑا مانع شمار کرتی ہے اور پوری طاقت کے ساتھ اس سے بر سر پیکار ہے۔ ہم مسلمان قوموں کے سامنے سامراج اورجدید سامراج کے دور کے تجربے موجود ہیں۔ آج جدید سامراج کے دور میں ہمیں تجربوں سے درس حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہئے کہ ایک بار پھر طویل عرصے کے لئے دشمن کواپنی تقدیر پر مسلط نہ کریں، ان تلخ و تاریک زمانوں میں مسلط مغربی طاقتوں نے مسلمان قوموں اور ملکوں کو کمزور کرنے کےلئے تمام فوجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ ان پر تفرقہ و اختلاف، جہالت اور غربت کو مسلط کردیا۔ ہمارے بہت سے ثقافتی دانشوروں کی فرائض سے دوری اوربہت سی سیاسی شخصیتوں کی کمزوری، کاہلی اورغفلت نے ان کی مدد کی اور اس کا نتیجہ ہماری دولت و ثروت کی لوٹ کھسوٹ، توہین اور حتی ہمارے قومی تشخص کے انکار اور ہماری خود مختاری کی نابودی کی صورت میں نکلا۔ مسلمان قومیں روز بروز کمزور ہوئیں اور تسلط پسند اور لالچی لٹیرے روز بروز مزيد مضبوط ہوتے گئے۔ اس وقت جب مجاہدین کی فداکاری اور دنیائے اسلام کے بعض حصوں میں قائدین کی شجاعت و اخلاص سےاسلامی بیداری نے اپنی لہروں کو وسعت دی اور نوجوانوں، دانشوروں اور عوام کو بہت سے اسلامی ملکوں کومیدان میں اتارا اور بہت سے مسلمان حکام اور سیاستدانوں کے سامنے تسلط پسندوں کی غدار شبیہ آشکار ہوگئی ہے، عالمی سامراج کے سرغنے ایک بارپھر دنیائے اسلام پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اوراسے جاری رکھنے کے لئے جدید ہتھکنڈوں کی فکر میں پڑ گئے ہیں، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کا نعرہ ان ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔ آج شیطان اعظم ( امریکہ ) جو خود انسانیت کے خلاف برائیوں اور سنگدلی کا مظہر ہے، انسانی حقوق کی حمایت کا علمبردار بنا ہوا ہے اور مشرق وسطی کی اقوام کو جمہوریت کی دعوت دے رہا ہے۔ امریکہ کے نقطۂ نگاہ سے ان ممالک میں جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ ایسے پٹھو اور کٹھ پتلی عناصر سازش، رشوت، اوچھے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ظاہرا´ عوامی اور دراصل امریکی انتخابات کے بل بوتے پر بر سر اقتدار آئیں جو ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے امریکہ کا آلۂ کار بن سکیں۔ ان مقاصد میں سر فہرست اسلام پسندی کی لہروں کو ختم کرنا اور ایک بار پھر اعلی اسلامی اقدار کو پس منظر میں ڈالنا ہے۔ امریکہ اور دیگر تسلط طلب طاقتیں آج اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے اور اگر ہوسکے تو اس کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ مسلم اقوام کو چاہیے کہ وہ آج پوری طرح آگاہ و ہوشیار ہو جائیں۔ علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں، روشن فکر دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں، فن کاروں، نوجوانوں اور معاشرے کے ممتاز افراد پر فرض ہے کہ سب مل کر ہوشیاری اور بر وقت اقدام کے ذریعے عالمی لٹیرے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عالم اسلام میں سامراجی تسلّط کے ایک نئے دور کا آغاز کرسکے۔ ان قابض طاقتوں کی جمہوریت پسندی کے نعرے قابل قبول نہیں ہیں جو برسوں تک ایشیا، افریقہ اور براعظم امریکہ میں آمروجابر حکومتوں کی حامی رہی ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے تشدّد اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے دعوے نفرت انگیز ہیں جو خود صیہونی دہشت گردی کا پر چار کرتے ہیں اور عراق وافغانستان میں پر تشدّد خونی واقعات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان شیطانوں کی طرف سے شہری حقوق کی حمایت ایک نفرت انگیز فریب کے سوا کچھ نہیں جنہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام پر شیرون جیسے خون آشام دہشت گرد کے جرائم کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گوانتانامو بے اور ابوغریب اسی طرح یورپ کی خفیہ جیلوں میں جرائم کے مرتکب ہونے والوں، عراقی و فلسطینی قوموں کی تحقیر کرنے والوں اور افغانستان و عراق میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خون بہانے کو جائز سمجھنے والے گروہوں کی تربیت کرنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسانی حقوق کی بات کریں۔ امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہری حقوق کی محافظ قرار دیں۔ کیوں کہ وہ ملزمین کی ایذارسانی و آزار، نیز سڑکوں پر ان کاخون بہانے کو جائز سمجھتی ہیں، یہاں تک کہ وہ بغیر کسی عدالتی حکم کے اپنے ہی شہریوں کی ٹیلیفون کال سننے کو جائز سمجھتی ہیں۔ وہ حکومتیں جنہوں نے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار تیار اور استعمال کرنے کے ذریعے عصر حاضر کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا ہے وہ جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کی علمبردار نہیں بن سکتیں۔مسلمان بہنو اور بھائیو! آج دنیا خاص طور پر عالم اسلام ایک حساس دور سے گذررہا ہے۔ ایک طرف سے بیداری کی لہر نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف سے امریکہ اور دیگر مستکبروں کے مکارانہ چہروں سے فریب و ریا کے پردے اترگئے ہیں ۔ ادھر تشخص اور کھوتی ہوئی شان و شوکت کی بازیابی کے لئے عالم اسلام کے بعض مقامات پرتحریک اٹھ رہی ہے اورعظیم مملکت اسلامی ایران میں آزاد اور مقامی سائنس و ٹیکنالوجی کے ثمرات حاصل ہونے لگے ہیں اور جو خود اعتمادی سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں انقلابی دگرگونیوں کاباعث بنی تھی، سائنس اور تعمیر و ترقی کے میدانوں میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے، تو دوسری طرف دشمنوں کی سیاسی و عسکری صفوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا ہے۔ آج ایک طرف سے عراق، دوسری طرف سے فلسطین و لبنان میں طاقت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امریکہ اور صیہونیوں کی ناتوانی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں ابتدا ہی میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس پالیسی میں اس کی ناکامی، اس کے نظر یہ پردازوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئي ہے۔ وقت ہوا ہے کہ مسلم قومیں اورحکومتیں حالات کو اپنے قابو میں لاکر ایک عظیم کارنامہ انجام دے سکیں۔ مظلوم فلسطینی قوم کی مدد، عراق کی آگاہ قوم کی حمایت اور شام و لبنان اور علاقے کے دیگر ممالک کے استحکام کی حفاظت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز سیاسی، دینی اور ثقافتی شخصیات ، اکابرین قوم، نوجوانوں اور دانشوروں کی ذمہ داریاں دوسرے طبقات سے زیادہ بھاری ہیں ۔ اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت و یکجہتی اور فرقہ وارانہ و قومی اختلافات سے پرہیز ان ممتاز افراد کا نصب العین ہونا چاہیے۔ سائنسی پیشرفت، سیاسی ترقی اور ثقافتی جد و جہد اور ان بنیادی میدانوں میں تمام قوتوں کوبروئے کار لانا ان کی دعوت کی بنیاد ہونی چاہیے۔ عالم اسلام کوعوامی اقتدار اور انسانی حقوق کے لئے مغرب کے بار بار پامال ہونے والے غلط نسخے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوامی اقتدار اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور انسانی حقوق اعلی ترین اسلامی پیغام میں شامل ہیں۔ علم کو اس کے جاننے والوں سے جہاں سے اور جس سے ممکن ہو سیکھنا چاہیے ، لیکن عالم اسلام کو ہمت کی کمر باندھنا پڑےگی کہ وہ ہمیشہ طالب علم نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات، سائنسی تخلیق اور انکشافات کے لئے سعی و کوشش کرے۔ مغربی اقدار جو مغربی ملکوں میں اخلاقی گراوٹ، نفسانی خواہشات اور تشدد کی ترویج نیز ہم جنس پرستی اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کو قانونی شکل دینے پر منتج ہوئے ہیں، قابل تقلید اور مثالی اقدار نہیں ہیں۔ اسلام اپنے اعلی اقدار کے ساتھ، انسانوں کی فلاح و نجات کا اعلی سرچشمہ ہے اور قوموں کے ممتاز لوگوں پر ان اقدار کے احیاء اوران کو فروغ دینے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اندھی اور وحشیانہ دہشت گردی جسے آج عراق پرقابض طاقتیں اسلام اور مسلمانوں پرحملے کاوسیلہ بنائے ہوئے ہیں اور جو اس اسلامی ملک پر فوجی قبضہ جاری رکھنے کا بہانہ ہے، اسلامی تعلیمات کی رو سے قابل مذمت ہے۔ ان مجرمانہ واقعات کے اصل ملزم امریکی فوجی اور امریکہ اور اسرائیل کے ادارے ہیں۔ عراق میں حکومت کی تشکیل کے عمل پر اثر انداز ہونا ان کے ان اہم ناپاک منصوبوں میں سے ایک ہے ۔مسلمان بھائیو اوربہنو !اللہ پر توکل، قرآن مجید کےحتمی یقینی وعدے پر اعتماد اوراسلامی اتحاد کے استحکام میں ہی امت مسلمہ کے تمام بڑے مقاصد کی ضمانت ہے اور فریضۂ حج ذکر اللہ کے کارساز اور مالامال سرمائے کے ساتھ اوراس کے مناسک میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع اس وسیع تحریک کا نقطۂ آغاز اور پہلا قدم ہوگا اور اس فریضے میں استکبار اور کفر کے سرغنوں سےقول و فعل کے ذریعے بیزاری اس راہ میں پہلا قدم ہوگا۔ ہم آپ حجاج کےلئے نیک خواہشات کے خواہاں اور تمام مسلمانوں کے لئے امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج ) کی دعا کے طالب ہیں ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ سید علی خامنہ ای ذی الحجّہ 1426 ہج ، مطابق 9 جنوری 2006 ع
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمارا یہ سالانہ جلسہ ایک تو آپ سب لوگوں سے ملاقات کا اچھا موقع ہے، دوسرے اس جلسے کے توسط سے میں آپ کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار اور آپ کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرسکتا ہوں۔ میں ثقافتی کونسل کے تمام کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی باتیں سننے کے لئے بھی تیار ہوں اور کچھ باتیں آپ سے کہنا بھی چاہتا ہوں۔ جو باتیں آج کرنا چاہتا ہوں وہ وہی پرانی باتیں ہیں ملک میں اس کونسل اور ثقافت کی اہمیت پر میں نے بارہا تاکید کی ہے۔ آپ نے بھی یہ کہا ہے اور دیگر دوستوں نے بھی یہ بات کہی ہے۔ لیکن یہ احساس ہورہا ہے کہ ان باتوں کی تکرار ہم سب کے لئے ، میرے کے لئے ، عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں ، آپ سب کے لئے جو کونسل کے اراکین ہیں اور ملک کے ثقافتی شعبوں میں کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہے ۔
میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں، تقریبا دوتین برس قبل ہمارے ایک بڑے اچھے دوست نے جو اس کونسل میں بھی سرگرم عمل تھے ، میرے ساتھ ملک کے عام کلچرل، تربیتی امور اور معاشرے میں پیش آنے والے بعض مسائل کے بارے میں گفتگو کی ۔ میں نے ان سے کہا کہ اس سلسلے میں جو کچھ کررہا ہوں بس وہی کرسکتا ہوں یعنی قومی ثقافتی کونسل کی تشکیل اور اس میں اہل فکر و نظر افراد کی شمولیت جو ملک کی تہذیب و تمدن کے بارے میں منصوبہ بندی کرسکیں۔ اس کے علاوہ میں اس کونسل کی قانونی مدد اور حمایت بھی کرسکتا ہوں۔ میں اتنا کام کرسکتا ہوں یہ میری ذمہ داری ہے لیکن اس کے بعد آپ کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں خدا کے سامنے آپ کی شکایت کروں گا اور خدا سے کہوں گا کہ میں نے اپنی دانست میں بہترین افراد کو اس کونسل میں اکٹھا کیا اب آپ کو بھی خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ جو کچھ کہنا ہے خدا سے کہئے اور اس کی فکر میں رہئے ۔ اب میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کونسل کی ذمہ داری علم و ثقافت کی اہمیت کے پیش نظر نہایت سنگین ہے۔ البتہ یہاں زیادہ اہمیت ثقافت کو حاصل ہے کیونکہ خود تعلیم و تربیت اور متعلقہ موثر پالیسیاں اور حکمت عملی سب کچھ معاشرے کی ثقافت کے تحت آتی ہیں ۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ انقلاب کی جڑیں اس سرزمین کے عوام کے دینی عقائد میں پیوست ہیں انہیں ہیجانات اور سطحی اور مختلف طرح کے ہتکھنڈوں سے اکھاڑا نہیں جا سکتا ۔ ہم ملک میں ایسے نواجوان طبقے کے طلوع کا نظارہ کر رہے ہیں جو باایمان اور انقلاب کے سلسلے میں حساس ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ ماہرین بھی سامنے آرہے ہیں یہ قابل انکار نہیں ہے۔ یہ طبقے ہماری یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز میں سے نکل رہے ہیں لیکن اگر سطحی بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے تو وہ بدن کی گہرائیوں میں سرایت کرجائیں گی اگر دانت کی سطح پر موجود کیڑوں کو نہ نکالا جائے تو وہ دانت کو سڑا دیں گے نتیجے میں دانت نکالنا پڑے گا ۔
ہمارے ملک میں یہ نئی صورتحال جو وجود میں آئی ہے اور حکومت اور عوام میں جو ر جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے اس سے یہ امید جاگتی ہے کہ غلط فیصلوں کےاثرات کم کرنے کے لئے ماحول مناسب ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ہر چیز کے بارے میں پہلے سے قطعی نظریات قائم کرلیں۔ نہیں یہ مناسب نہیں، بہت سے کام بتدریج انجام پاتے ہیں۔ بہرحال ماحول مناسب ہے، کیونکہ اب ایسے نعرے سننے میں آرہے ہیں جو انقلاب کے بنیادی اہداف سے ہماہنگ ہیں اور عوام نے ان نعروں کا مثبت جواب دیا ہے، میں نے یہ بات بارہا کہی ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے جو انتخابات ہوئے تھے ان میں عوام کی اکثریت نے انقلابی اقدار کو ووٹ دیا۔ لوگوں نے جناب رفسنجانی کو ووٹ دئے اور جناب احمدی نژاد کو ووٹ دئے لیکن یہ ووٹ دراصل انقلابی اقدار کو دئے گئے۔ جناب رفسنجانی بھی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں میں ایک ہیں۔ وہ ایک عالم دین ہیں۔ بہت سے لوگوں نے جو انہیں ووٹ دیا ہے در اصل انقلابی اقدار کو ووٹ دیا ہے۔ یہ تصور نہ کیا جائے کہ سترہ ملین افراد نے جناب احمدی نژاد کو ووٹ دئے ہیں اور دس ملین نے نہیں دئے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ ان انتخابات میں عوام کی اکثریت نے دین کی پابندی، انقلابی اقدار کی پائیداری اور امام خمینی (رہ) سے محبت کو ثابت کیا ہے اور اسی اساس پر نئي حکومت تشکیل پائي ہے اور یہ حکومت بھی ان ہی نعروں کو دوہرا رہی ہے اور ان پر عمل پیرا ہے۔ عوام بھی خیر مقدم کررہے ہیں اور بھرپور طرح سے ان باتوں کو تسلیم کررہے ہیں۔ یہ ایک بڑے اچھے ماحول کی علامتیں ہیں ہمیں اس ماحول سے استفادہ کرنا چاہئے۔ نئي فضا میں، اس کونسل کی دلجمعی، نشاط ،جدت پسندی اور کام کا جذبہ سب دگنا ہوجانا چاہئے۔ یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ ہماری اعلی قومی ثقافتی کونسل، جو ملک کے کلچرل مسائل کوحل کرنے کا اہم ترین اور بنیادی مرکز ہے، جمود کا شکار ہوجائے ۔میں اس بات کا تصور تک نہیں کرسکتا کیونکہ ثقافتی چیلنج ہمیشہ رہیں گے اور کوئی ملک ان سے نہیں بچ سکتا ۔
اس کونسل کا سربراہ ملک کا صدر ہے یعنی مجریہ کا سربراہ ہے، اور قانونی مدد کے لئے مقننہ یا پارلیمنٹ کے سربراہ اور پارلیمنٹ کے اراکین بھی موجود ہیں لہذا کسی چیز کی کمی نہیں ہے ایسے عالم میں اہداف کا حصول یقینی ہونا چاہئے۔ در اصل مقننہ اور مجریہ کےسربراہوں کی رکنیت کا فلسفہ یہی ہے ورنہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایک کونسل جو قومی سطح پر منصوبہ سازی کرتی ہے اس میں صدر اور اسپیکر و غیرہ زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔ ایسی کونسل میں مختلف شعبوں کو وقت دینا چاہئے اور مسائل کا جائزہ لینا چاہئے۔ بنابریں صدر، اسپیکر، پلیننگ کمیشن کے سربراہ اور دیگر اعلی حکام جو یہاں موجود ہیں ان کی اس کونسل میں رکنیت کا ہدف یہی ہے کہ اس کونسل کے فیصلے محض کاغذ کی زینت بن کرنہ رہ جائيں بلکہ ان پر عمل درآمد ہو ۔
امام خمینی (رہ) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ثقافتی کونسل کے فیصلوں پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے اور میں نے بھی ہمیشہ اس پر تاکید کی ہے۔ میں نے گزشتہ سال اسی اجلاس میں کہا تھا کہ ملک کی تہذیب و ثقافت کی ذمہ داری اس کونسل پر ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یہ کونسل تہذیب و ثقافت کا مرکزي ہیڈکوارٹر ہے جبکہ دیگر ذیل کونسلیں یا کمیٹیاں، مثلا ماہرین کی کمیٹیاں اور بہت سے دیگر ادارے آپ کے معاون ہیں، آپ کے فیصلوں پر عمل کرنے والے ادارے وزارت تعلیم، وزارت ہدایت و ارشاد اور دیگر متعلقہ ادارے ہیں۔ آپ سب نے اسی ذمہ داری کو قبول کیا ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم نے یہ باتیں کہی ہوں اور بعد میں ہمیں یہ معلوم ہوا ہو کہ آپ نے انکار کردیا ہے کہ آپ ملک کی تہذیب و ثقافت پر نگرانی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے یا یہ کہ یہ کونسل اس ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتی، ایسا نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ اجلاس کے بعد حاضرین جلسہ نے گفتگو کی، ان کے نظریات سے مجھے آگاہ کیا گيا سب نے اپنی ذمہ داریاں قبول کیں اور یہی صحیح بھی ہے۔ بہرحال اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی تہذیب و ثقافت سے متعلق منصوبے آپ کی میز پر آمادہ رہیں۔ ان پر کافی تبادلۂ خیال ہوچکا ہو۔ کام ہوچکا ہو۔ فیصلے کئے جاچکے ہوں، قومی سطح کی منصوبہ بندی عملدرآمد کے واضح طریقوں کی نشاندہی کے ساتھ آمادہ ہو صرف نیک تمناؤں اور خواہشات کے اظہار پر اکتفا نہ کر لیا گيا ہو۔
مجھے اس اجلاس سے خصوصی دلچسپی ہے کیونکہ یہ کونسل واقعا ایک کلچرل کونسل ہے آپ جانتے ہیں کہ میں نے سات آٹھ سال تک ہر ہفتے اس کونسل کے اجلاس میں شرکت کی ہے اور صدارت کی میعاد ختم ہونے کے بعد ہر سال ایک بار یا اس سے زیادہ اس اجلاس میں شرکت کی ہے۔ میں اس اجلاس میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ یہ کونسل ملک کی ثقافت و کلچر کے تعلق سے بنیادی کونسل ہے اور آپ سب ہمیں عزيز ہیں اس کونسل کے بعض اراکین پرانے ہیں جن میں کچھ لوگوں کے ہم نے نام لئے بعض لوگ جیسے ڈاکٹر فاضل اس کونسل کے بڑے بزرگ اراکین میں سے ہیں۔ جب وہ وزارت میں تھے تو ہم ان کے ساتھ کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے تھے، ان کا نام ہم نے نہیں لیا تھا کچھ اور بھی لوگ ہونگے جن کے نام ہم نے نہیں لئے ہیں کچھ لوگ کئی برسوں سے اس کونسل میں ہیں اور کچھ لوگوں کو دو یا تین برس ہوئے ہیں اور کچھ لوگ نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ اس کونسل میں شرکت کررہے ہیں اور چونکہ اس اجلاس میں مخلص افراد شامل ہیں اس لئے میں اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا جو میں نے کہہ دی۔ یہ بڑا سنگین کام ہے۔ آپ کو یہ ذمہ داری نبھانی ہے۔ یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے۔ اب ممکن ہے کسی کے پاس وقت نہ ہو، کام زیادہ ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔ بہرحال ان تجربہ کار افراد سے ذیلی کمیٹیوں اور ماہرین کی کمیٹیوں میں فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔
علم و سائنس کے تعلق سے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔ یعنی عمل درآمد شروع ہو اور کام کا مطالبہ کیا جائے۔ فرض کریں اگر آپ کو علم و سائنس کے تعلق سے یونیورسٹیوں سے کام ہے تو متعلقہ شخصیت کو ذمہ داری سونپی جائے۔ ٹائم فریم تیار کیا جائے اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ آپ نے اس مدت میں کیا کام کیا ہے اور وہ کونسل کو رپورٹ دیں۔ اگر آپ کو ان کا کام پسند نہیں آیا تو آپ کمیوں کی نشاندہی کریں، اور اگر کام پسند آیا تو پھر اگلا قدم اٹھائیں۔
ثقافتی کونسل کو ایک متحرک، فعال، حساس اور جد و جہد کے عمل میں پیش پیش ہونا چاہئے اور ملک کے تہذیبی اور ثقافتی مسائل پر اس کی گہری نظر رہنی چاہئے۔ اس بات پر میں بنیادی طور پر تاکید کرتا آیا ہوں۔ ہم نے بارہا اسے دوہرایا ہے اور بعض اوقات کچھ چیزوں کو دہرانا واجب ہوجاتا ہے جیسا کہ آپ نماز میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ صبح کی نماز میں آپ سورۂ حمد اور رکوع و سجود کے ذکر بڑھتے ہیں اور یہی چیزيں تمام نمازوں میں دہراتے ہیں۔ ظہر و عصر و مغرب و عشا میں ان کی تکرار کرتے ہیں کیونکہ ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اس کی تکرار ہونا ضروری ہے تا کہ انسان کا ذہن ان حقائق سے بخوبی آشنا ہوجائے اور انسان حرکت میں آجائے ۔
میں نے ملک کے ثقافتی مسائل ، تعلیمی امور اور خود کونسل کے مسائل کے بارے میں کچھ نکات لکھے ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا ۔
خود کونسل کے بارے میں بتایا گیا کہ متعلقہ لوگوں کو کونسل کے فیصلوں سے مطلع کیا جارہا ہے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ میرے خیال میں اطلاع رسانی مسلسل اور ہر وقت ہونی چاہئے۔ خاص طور سے یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز کی علمی شخصیتوں کو بر وقت مطلع کیا جانا چاہئے۔ آپ کو اطلاع رسانی کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ ملک کی علمی شخصیات یہ احساس کریں کہ وہ ذہنی و فکری لحاظ سے کونسل سے جڑی ہوئی ہیں، اس کام میں ان کا تعاون حاصل کریں۔ یعنی جب ملک کی علمی شخصیتوں کو خواہ یونیورسٹی کی ہوں یا دینی تعلیمی مراکز کی، یہ معلوم ہوتا رہے کہ کونسل کون سے مسائل پر کام کررہی ہے تو وہ خود ان مسائل کے بارے میں سوچیں گے اور کام بھی کریں گے۔ کونسل کے ساتھ تعاون کریں گے۔ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں کوئی بات اور نکتہ آئے جس سے کونسل کو فائدہ پہنچے۔ علمی شخصیتیں آپ کو ان مسائل سے آگاہ کریں گي، بنابریں اطلاع رسانی علمی شخصیتوں کے تعاون کا سبب بنے گی۔ اس کے علاوہ ملک کی علمی شخصیتوں کو یہ نہیں لگنا چاہئے کہ آپ لوگ ایک ادارے میں بیٹھے ہیں اور ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے بلکہ انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ بھی کونسل کے رکن ہیں۔ وہ بھی کونسل کے کاموں میں دخیل ہیں لہذا اطلاع رسانی کا مسئلہ میری نظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔
دوسرا نکتہ ملک کے پرانے نظام تعلیم میں اصلاح اور اس کی پھر سے تدوین ہے۔ اس بات کی طرف ڈاکٹر شریعتمداری نے بھی اشارہ کیا۔ البتہ ان کی تاکید دوسرے پہلو پر ہے، متعدد اجلاسوں میں جو ملک کے تعلیمی اور ثقافتی مسائل کے بارے میں یہاں منعقد ہوئے ہیں، خیرخواہ افراد نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کا قدیم نظام تعلیم بدل کر اسے دنیا کے جدید اور ماڈرن نظام تعلیم میں ڈھالنا چاہئے۔ آج دنیا میں بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کے لئے نئے نظام آچکے ہیں۔ اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کا جدید نظام لانے کے لئے ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں چھ دھائیوں سے وہی پرانا نظام تعلیم جاری ہے۔ ہمیں اس میں اصلاح و تبدیلیاں کرنا ہونگی یا اسے پوری طرح بدلنا ہوگا یا تدریجا اس میں تبدیلیاں لانی ہونگی ۔ اس سلسلے میں غور و خوض کرنے اور فیصلہ کرنے والے آپ لوگ ہیں۔ یہ آپ لوگوں کا کام ہے ۔ ایک اور مسئلہ ملک میں علمی اور سائنسی سطح پر ترقی کا ہے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی مشکلات کا حل علمی اور سائنسی ترقی کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمارے لئے کئی دھائیوں کی پسماندگي کو ختم کرنا ناگزير ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ علم و سائنس اجارہ داری قائم کر لینے والے ممالک کس طرح زور زبردستی کی بات کررہے ہیں۔ علم وسائنس ہی کے استعمال سے وہ باطل کو حق بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ آپ آج مشاہدہ کررہے ہیں کہ عدالت کی اجازت کے بغیر عوام کی ٹیلیفونی گفتگو کا سنا جانا، گوانتانامو میں قیدیوں کو جسمانی ایذائیں دینا، قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی، حکومتوں اور سکیورٹی سروس کو اعتماد میں لئے بغیر کسی بھی یورپی ملک سے لوگوں کا اغوا، دوسرے ملک پر حملے کرکے اس کےتیل کی دولت اور دیگر اثاثوں کو لوٹنا، لوگوں کا قتل عام یہ سارے کام ایک طاقت انجام دے رہی ہے اور یہ سب کچھ آشاکارہ ہو انجام پا رہا ہےدنیا چیختی چلاتی رہ جاتی ہے اور طاقتیں اپنا کام پورے سکون سے انجام دیتی رہتی ہیں۔کیوں ؟ اس لئے کہ علم و سائنس وہ مالامال ہے جنگی اور سیاسی وسائل سے لیس ہے، اگر ہم چاہیں کہ ہمارا ملک اور ہماری قوم بھی اس مقام پر پہونچ جائے کہ اپنی حق بات کو بہادری سے دنیا کے سامنے کہہ سکے تو اس کے لئے علم و سائنس درکار ہے ۔ یہ صرف ہمیں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے اسلامی ملکوں کا یہی حال ہے۔ ہمیں علم و سائنس کے میدانوں میں، اسلامی ملکوں کا پیشرو ہونا چاہئے۔ یہ ہماری ذمہ داری تھی۔ یہ ہم جو امید و ایمان کی نعمت سے مالامال ہیں۔ ہمارے پاس توانائي ہے اور اس کام کے وسائل بھی ہیں۔ ہماری قوم اور ملک با صلاحیت ہے۔ ہمارے پاس باصلاحیت افرادی قوت ہے۔ ہمیں ایک بڑا قدم اٹھانا ہوگا اور علم و سائنس کے میدانوں میں بنیادی اور ٹھوس کام انجام دینا ہوگا۔ اپنی قوم ہی نہیں تمام مسلم اقوام کو اپنے تجربات اور علمی ترقی سے فائدہ پہنچانا ہمارا نصب العین ہونا چاہئے۔
علمی میدان میں ترقی اور علم کی ترویج آپ کا بنیادی کام ہے۔ میں صدر مملکت سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ کونسل کی مالی مدد کریں تا کہ کونسل کام کرسکے۔ انشاء اللہ آپ ان کی مدد کریں، اس بارے میں سوچیں، تا کہ یہ کونسل اپنا کام کرسکے۔ یہ کام الفاظ اور آرزؤں کی حدود تک محدود ہوکر نہ رہ جائے۔ بعض اوقات کچھ عہدیدار ہمارے پاس آتے ہیں اور اپنے دائرہ اختیار کے بارے میں ہمیں بتاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں یہ کام کرنا چاہئے وہ کام کرنا چاہئے۔ میں ان سے کہتا ہوں بھائی کام اور ذمہ داری کا تعین میں کروں گا، آپ لوگ یہ بتائیں آپ کیا کررہے ہیں کیا کیا ہے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ محض یہ کہنا کہ یہ کام ہونا چاہئے کافی نہیں ہے۔ اگر ہمارے اجلاس میں صرف یہ طے کر دیا جائے کہ کونسل کو فلاں فلاں کام انجام دینے چاہیں تو یہ کوئي بڑا کارنامہ نہیں ہے ضرورت ہے عملی اقدامات کی۔
ہم اگر دنیا کے ملکوں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن ملکوں نے ترقی کی ہے ان کی ترقی ریاضیات، فزکس، کمسٹری اور بائیولوجی کی مرہون منت ہے۔ ہمیں ان علوم میں ترقی کرنی ہوگی ۔گرچہ ڈاکٹر، انجینئر اور بڑی تعداد میں قانونداں فارغ التحصیل ہورہے ہیں اور ملک کو پانی اور ہوا کی طرح ان مہارتوں کی ضرورت ہے لیکن اس بات پر توجہ رہنی چاہئے کہ معاشرے کو مستقل طور پر طبیب، انجینئر قانونداں اور اساتذہ کی ضرورت رہتی ہے لیکن ہماری ضرورتیں یہیں پر ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ اس کے علاوہ ہمیں سائنس دانوں اور محققین کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے مستقبل کی ضمانت دے سکیں۔ انجینیئر آج ہماری ضرورت پوری کر سکتا ہے اور اگر ہمارے پاس ڈاکٹر کافی تعداد میں نہ ہوں تو سابق طاغوتی حکومت کی طرح ہمیں باہر سے ماہرین کو بلانا پڑے گا یہی بات انجینیئروں کے بارے میں بھی صادق آتی ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ آج ہم نے سڑکوں، بندوں اور اہم عمارتوں کے سلسلے میں عظیم منصوبے مکمل کئے ہیں۔ خود ہمارے انجینیئروں نے منصوبوں پر کام کیا ہے اور ہمارے ملک میں بہت سے اطباء بھی ہیں جنہوں نے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں۔ ایسے کارنامے کہ ان کے بارے میں ہمارے ملک میں خواب میں بھی نہیں سوچا جاتا تھا، یہ اچھا سرمایہ ہے لیکن اسے خرچ کرنے کے بجائے ہمیں سرمایہ کاری کے پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس سرمائے سے دوسرا عظیم سرمایہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں سائنس و ٹکنالوجی پر خاص توجہ دیں۔ ہیومن سائنسز کے بارے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے دوسروں کے آگے دست نیاز دراز کر رکھا ہے۔ سماجیات ،نفسیات، تاریخ یہاں تک کہ فسلفے اور ادب کے موضوعات پر جو نئے نظریات باہر سے آرہے ہیں۔ ہمیں ان علوم کے سلسلے میں بنیادی کام کرنا ہوگا یہ کوئی نکئی بات نہیں ہے بلکہ برسوں سے کہی جا رہی ہے اب اس پر عمل ہونا چاہئے، یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ آپ ہی لوگوں پر عائد ہوتی ۔ ایک اور مسئلہ ان موضوعات میں طلبہ کا داخلہ اور فارغ التحصیل ہونا ہے ۔ طلباء کا داخلہ لیتے وقت
یہ جائیزہ لینا ضروری ہے کہ کون کس موضوع کا انتخاب کررہا ہے اور یونیورسٹیوں سے کون سے موضوعات میں طلباء فارغ التحصیل ہونے چاہئیں اور کن امور کے ماہرین کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ضرورت عارضی ضرورت بھی ہوسکتی ہے اور مستقل ضرورت بھی ہوسکتی ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے قدم اٹھایا جائے۔ ایک اور نکتہ دانشوروں کے فاونڈیشن کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ فاونڈیشن ڈاکٹر عارف کی ہمت سے قائم ہوا اس کا منشور لکھا گیا اور دیگر بہت سے کام ہوئے۔ ہمارے پاس بھی یہ ساری چیزيں بھیجی گئیں کہ ہم بھی اپنی رای دیں۔ میں نے جو باتیں ملک کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں ابتدا میں عرض کیں ان کے تناظر میں جب میں دانشوروں کے بارے میں کئے جانے والے اقدامات کا جائیزہ لینا چاہتا ہوں تو مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر سال دو تین بار ممتاز طلبہ اور عالمی علمی مقابلوں میں انعام پانے والے مجھ سے ملاقات کرتے ہیں، میں بھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے کا موقع دیتا ہوں۔ مجموعی طور پر ان لوگوں کی باتوں سے جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ دانشوروں کے لئے عملا کچھ نہیں کیا گيا ہے۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ دانشوروں کے لئے سنجیدگي سے کام کیا جائے، ایک کام یہ ہوسکتا ہے کہ دانشوروں کو زیادہ مواقع دئے جائيں۔ یہ کام اسی فاونڈیشن میں ہونا چاہئے۔ دوسرا کام دانشوروں کا پتہ لگا کر ان کے صحیح اعداد و شمار تیار کرکے ان کے امور کو منظم کرنا ہے تا کہ ملک کی ترقی کے لئے ان کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکے۔ اس وقت ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں جہاں نوجوان سائنس دان اور دانشور اچھا خاصہ کام کرسکتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ کس کو کون سی جگہ پر بٹھانا ہے۔ وہ منصوبہ جو ڈاکٹر احمدی نژاد کے ذہن میں تھا یعنی وزارتوں میں جوانوں کی خدمات حاصل کرنے کا پتہ نہیں اس میں کتنی پیشرفت ہوئي ہے البتہ یہ ایک بڑا اچھا منصوبہ ہے اور تمام شرایط کا خیال رکھتے ہوئے لاگو ہونا چاہئے۔ بہرحال جو لوگ اس منصوبے پر عمل درآمد میں مدد کرسکتے ہیں خود سائنس داں اور دانشور ہیں۔ ہمیں کوشش کرکے اپنے دانشوروں کو تلاش کرنا ہوگا اور ان کے امور منظم کرنے ہونگے۔ ہمارے لئے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ کون سا آدمی کس کام کے لئے مناسب ہے۔ یہ ان کاموں میں ہے جو دانشوروں کے فاونڈیشن میں انجام پانا چاہئے۔ اس کے بعد کا مسئلہ دانشوروں اور سائنس دانوں کو تحقیقات میں در پیش مسائل کا حل کیاجانا ہے، اس امر پر دانشوروں کے فاؤنڈیشن کے منصوبے میں بھی تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح دانشوروں کی ذاتی ضرورتیں بھی پوری کی جانی چاہئیں، اس طرح دانشوروں کی ترغیب ہوگی اور انہیں دوسرے ملکوں میں پناہ لینے سے روکا جا سکے گا۔ یہ بار بار سننے میں آتا ہے کہ ہمارے دانشور چلے گئے اور واپس نہیں آتے، یا چلے گئے اور پھر آگئے البتہ اس میں ذرا مبالغے سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ میں نے جو باتیں کہیں ہیں ان کے ذریعے ہی دانشوروں کو روکا جا سکتا ہے۔ یہاں ان کی دلچسپی کے اسباب فراہم ہونے چاہئیں۔ البتہ ان کاموں میں یونیورسٹی کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور میں نے اس سلسلے میں بات چیت کی ہے اور اب بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں خیال رکھیں ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کے ساتھ امتیازي سلوک کیا جا رہا ہے۔ خاص طور سے تکمیلی کورس، ڈاکٹریٹ اور اسکالرشپ دینے میں ہرگز امتیازی سلوک نہ ہو۔ اگر ہمارے جوان سائنس دان یہ احساس کریں کہ ملک میں ان کے علم و دانش اور ان مہارتوں کی قدر نہیں کی جا رہی ہے تو اس سے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہونگے، میں اس چیز کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔
ایک بات ذیلی کمیٹیوں کے بارے میں بھی کہنا چاہتا ہوں، مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ بعض ذیلی کمیٹیاں اچھا کام کررہی ہیں مثال کے طور پر خواتین کی کمیٹی اور بعض کم کام کررہی ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ذیلی کمیٹیوں کو بھر پور طرح سے فعال بنائیں۔ ان کمیٹیوں میں ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو زیادہ وقت کمیٹیوں کو دے سکیں۔ ان کمیٹیوں کی کارکردگی کی رپورٹ تیار کی جائے۔ ان رپورٹوں سے استفادہ کیا جائے۔ یہ رپورٹیں قومی کونسل کے لئے مفید ثابت ہوتی ہیں۔
امید کہ خداوند متعال آپ سب کو توفیق عنایت کرے گا اور اس سنگین ذمہ داری کو نبھانے میں آپ کی مدد کرے گا یہ مبارک ذمہ داری ہے ، خدا آپ کے ان کاموں میں برکت دے اور آپ بخوبی عمل کرسکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ حضرات اور آپ کے اہل خانہ، سب کا خیر مقدم کرتاہوں۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے جنگي معذور حضرات ، ان کے والدین اور ان کے بیوی بچوں سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ یہ میرے لئے بہت بڑی توفیق ہے ۔
ہمارا ایک مقصد یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں جنگی معذور حضرات کو ایک مستقل شناخت کے ساتھ باقی رکھا جائے۔ یہ معذور حضرات حقیقت میں ایسے زندہ شہید ہیں جن کو خداوند عالم نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک حصہ جہاد اور سخت آزمائش میں بسر کریں۔ جنگ میں اپنے جسمانی اعضا کا نذرانہ پیش کر دینے والے ہمارے یہ عزیز، ہمارے شہید بھائیوں کی طرح ہیں۔ ایک علاقے میں کسی محاذ پر ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بم دھماکہ ہوتا ہے یا دشمن کی طرف سے گولوں اور بموں سے حملہ ہوتا ہے۔ اس واقعہ میں ایک شخص شہید ہوتا ہے اور ایک زخمی ہوجاتا ہے۔ ان دونوں افراد کےلئے ایک ہی حکم ہے۔ دونوں ہی ایک مقصد اور ایک نیت سے راہ خدا میں جہاد کرنے گئے۔ دونوں نے ہی زندگي کو خطرے میں ڈالا ، دونوں کی آزمائش بھی ایک ہی تھی ۔اب ایک شہید ہوگیا اور اس کی جد وجہد کا سلسلہ ختم ہوگیا البتہ اس کے اجر وثواب کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی کوشش ، اور جد وجہد کا باب بند ہوا ہے۔ جبکہ دوسرا زندہ رہتا ہے اور اس کی جد وجہد اور کوششوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے ۔
اگر کوئی جنگی معذور اپنی زندگي میں الہی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے پرہیزگاری پر باقی رہے تو خدا کے نزدیک اس کا اجر بہت زیادہ ہے جسے خدا نے اجر عظیم سے تعبیر کیا ہے۔ واضح ہے کہ جسے خدا خود اجر عظیم سے تعبیر کرے وہ کتنا عظیم اجر ہوگا۔ معذوری کے بعد ہر طرح کی مشکل آپ کے لئے ایک نیکی شمار کی جائے گي۔ زندگي میں ہر طرح کا رنج وغم اور مشکلات کاایک اجر ہے۔ بعض اوقات مشکلات کے وقت ہم جو صبر کا دامن چھوڑدیتے ہیں وہ اس لئے ہے کہ ہم کو یہ نہیں معلوم کہ ان مشکلات کو برداشت کرنے میں ہمیں آخرت میں کیا ملے گا۔ ان مشکلات میں سے ہر ایک کا کوئي نہ کوئي اجر ہے ۔
روایت میں ملتا ہے کہ قیامت کے دن جب تمام مخلوقات کے سامنے دنیا میں مشکلات برداشت کرنے والوں کو اس کا اجر دیا جائے گا تو لوگ رشک کریں گے کہ خداوند عالم نے مشکلات برداشت کرنے والوں کے لئے کیسا اجر رکھا ہے۔ اس اجر کو دیکھ کر دوسرے افراد ہی نہیں بلکہ خود اجر پانے والے یہ لوگ بھی آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں وہ اپنے جسم کو مشکلات پر قربان کر دیا ہوتا اور اس کا بدلا ان کو یہاں پر ملتا۔ یہ بات ہم سے اور آپ سے اس لئے کہی گئي ہے کہ ہم اور آپ اس بات کو درک کریں کہ دنیا کی ہر مشکل کا اجر خدا کے پاس ہے۔ لہذا اپنی اس حالت اور کیفیت کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے لئے خدا کا شکر ادا کریں ۔ البتہ آپ کی خدمت کے تعلق سے دوسروں پر جو ذمہ داریاں ہیں وہ اپنی جگہ ہیں اور ان کا ثواب بھی اپنی جگہ محفوظ ہے ۔
دوسرا نکتہ جنگی معذوروں کی شریک حیات سے متعلق ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر جنگي معذور کی زندگي میں خود کو شامل کیا ہے اور مشکلات مول لی ہیں۔ اس کام کا ان کو خدا کی بارگاہ میں عظیم اجر ملے گا۔ جنگی معذوروں کی بیویوں کا اجر بہت زیادہ ہے اور حقیقت میں ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ البتہ ان کو بھی جاننا چاہئے کہ یہ معذور ان کے ہاتھوں میں خدا کی ایک نعمت ہے جوان کے لئے رضایت خدا اور اجر الہی کا ایک وسیلہ ہے ۔ رضائے الہی کوشش اور زحمت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر اچھائی کے حصول کا اصول یہی ہے۔ کوئی بھی شخص بنا کسی زحمت اور مشکل کے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ انسان معنوی یا پھر مادی لحاظ سے جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے وہ زحمتیں برداشت کرکے ہی حاصل کرتا ہے۔ علم، مال و ثروت یا نیک نامی و غیرہ سب کچھ مشکلات برداشت کرکے ہی حاصل ہوتا ہے۔ آرام اور آسائش سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ قومیں کامیابی یا عزت کو مصائب برداشت کرکے ہی حاصل کرتی ہیں۔ آخرت کے حصول کا بھی یہی قانون ہے۔ خدا کی رضامندی ، ثواب آخرت اور بہشت سب کچھ زحمتوں سے ہی ملتا ہے بغیر دشواریوں کے نہیں۔ انسان کو کوشش اور جد و جہد کرنی چاہئے۔ ان کوششوں اور زحمتوں میں سے ایک یہی ہے جو جنگي معذوروں کی شریک حیات برداشت کررہی ہیں۔
تیسرا نکتہ جنگي معذوروں کی اولاد کے بارے میں ہے۔ میں جنگ میں معذور ہوجانے والے افراد کے بچوں سے جو یہاں پر موجود ہیں ، پورے ملک کے جنگی معذوروں کے بچوں اور ان کے والدین یعنی خود معذوروں اور ان کی بیویوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ ہم ان کی اولاد ہیں جنہوں نے الہی اور اسلامی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی زندگي کو داؤ پر لگادیا ۔
ایک وقت ایسا تھا کہ جب یہ ملک ، مشکلات اور شدید ترین حملوں کی زد میں تھا۔ ایسے میں کچھ لوگ تو بھاگ گئے، میدان جنگ جانا تو دور کی بات ہے بہت سے لوگ سختیوں کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے لیکن کچھ لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے ، انہوں نے دشمنوں کو روکا۔ ملک، قوم اور ناموس عزت و حرمت کی پاسبانی کی۔ ان میں سے کچھ شہید ہوگئے جبکہ کچھ زخمی ہونے کےبعد معذور ہوگئے۔ آپ کے والد بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو یہ عظیم شرف حاصل ہوا ہے۔ جنگ میں معذور ہونے والے لوگوں کی اولاد کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے کیوں کہ یہی نقطہ نظر درست ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مفروروں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ ڈر کے مارے چوہوں کی طرح بلوں میں گھس جاتے ہیں لیکن جب مصیبت ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ شیر بن جاتے ہیں اور سینہ سپر ہوکر اپنا حق مانگتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے جنگي معذوروں، شہیدوں کے اہل خانہ، مجاہدین اور معاشرہ کے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مشکلات اور سختیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کا مظہر یہی جنگی معذور ہیں جو اس وقت زندہ ہیں یہ ملت ایران کے عظیم جہاد کا ثبوت ہے۔ مجھ کو امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو کامیاب اورکامران کرے اور ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ آپ کے بارے میں ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا کرسکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بات میں کوئي شک نہیں کہ آپ لوگوں کے اس اجتماع میں ایسے لوگ کم نہیں ہیں جو بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ایسی باتیں ہیں جو کم از کم ان کی نظر میں قابل بیان اور قابل سماعت ہیں اور ہماری آج کی نشست میں ان کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے ورنہ میں اپنے بڑھاپے اور کم حوصلگی کے باوجود آپ لوگوں کی مزید باتیں سنتا لیکن کیا کیا جائے کہ وقت میں گنجائش نہیں ہے۔
نوجوانوں کو اپنی باتوں کو نگلنے کی بھی تھوڑی بہت عادت ڈالنی چاہیے۔ یہ بھی ایک مشق ہے۔ زندگی کے بہت سے مسائل میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی کوئی بات کہنا چاہتا ہے لیکن بوجوہ اسے اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا اور اسے اپنی بات کو نگلنا پڑتا ہے۔ بعض مواقع پر یہ ایک بہت بڑی مصلحت ہوتی ہے۔ اس کی عادت ڈالنے میں بھی مضائقہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ آپ کو ایسے مواقع میسر آئیں گے جہاں آپ وہ ساری باتیں کہہ سکیں جو آپ کے خیال میں کہنی چاہیے۔
آپ لوگوں نے یہاں پر جو تجاویز دی ہیں ان سے قطع نظر، جن میں سے بہت سی قابل غور ہیں اور ہمارے دفتر میں انہیں جمع کرکے ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا، میرے خیال میں طلباء کے لیے ان کی طالب علمی کے پیش نظر جو بات اہم ہے اور اہم ہونی ہی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک مجموعی نگاہ میں ہمارا ملک ایران ،تاریخ اور جغرافیا میں کہاں واقع ہے؟ ہم یہ فرض کرنا چاہتے ہیں کہ طالب علم اپنے دل کی گہرائیوں میں اور اپنے جوان ذہن کی بلند پروازیوں میں ذاتی مسائل، روزگار وغیرہ سے عبور کر چکا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ روزگار، زندگی، شادی اور گھر نہیں چاہتا، یہ سب تو زندگی کی ضروریات ہیں، بلکہ اس معنی میں کہ وہ زندگی کے ان عارضی اور چھوٹے موٹے اسٹیشنوں پر ہی رک نہیں جاتا بلکہ اس طالب علم کا جوان ذہن ان مقامات سے پرواز کرتا ہے اور آرزؤوں اور امنگوں کی تلاش کرتا ہے۔ امنگوں کی اس نگاہ میں، جو ہونی ہی چاہیے اور اگر نہ ہو تو جوانی اور زندگی بے معنی ہے، تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی جغرافیا کے لحاظ سے ہمارا مقام کہاں ہے؟ آج اسلامی جمہوریۂ ایران کی حیثیت سے دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟
دوسرے یہ کہ اگر یہ امر عملی جامہ پہنے تو اس کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ طلباء کے ساتھ ہماری اصل بات یہی ہے اور میرے خیال میں یہی وہ اصل نظریہ ہے جس کے بارے میں طلباء کو غوروفکر کرنا چاہیے۔
پہلے سوال کا جواب کہ ہمارا مقام کیا ہے؟ ایک مختصر سے جملے میں یہ ہے کہ ہمارا مقام ان برائیوں، مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنا ہے جو دولت اور طاقت کے تسلط نیز دولت اور اقتدار کی بدعنوانی کے سبب پوری دنیا میں اور عالمی سطح پر وجود میں آئے ہیں۔ اسے کم مت سمجھیے۔ پیسے اور پیسے کی طاقت نے آج کی مادی دنیا کے سب سے ظریف، لطیف اور برجستہ حقائق کو بھی اپنی خدمت میں لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہی اداکاری جس کے بارے میں ہمارے عزیز نوجوانوں نے بات کی ہے۔ آج دنیا میں فلمی صنعت کا سب سے برجستہ اور مضبوط مرکز ہالیووڈ ہے۔ آپ دیکھیے کہ ہالیووڈ کس چیز اور کن افراد کی خدمت کر رہا ہے؟ کن افکار اور کن نظریات کی ترویج کر رہا ہے؟ اور اس نے انسانیت کے لیے کیا منصوبہ بنایا ہے؟ مجھے نہ تو فلموں کے بارے میں مہارت حاصل ہے اور نہ ہی میں ہالیووڈ کو اچھی طرح سے پہچانتا ہوں، یہ میری بات نہیں ہے بلکہ میں ان افراد کا قول نقل کر رہا ہوں جن کا کام ہی یہی ہے اور جو انہیں مناظر اور میدانوں کے نقاد ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آج سنیما کا آرٹ، جس کے لیے میں نے برجستہ ترین مظہر کی حیثیت سے ہالیووڈ کی مثال دی ورنہ دنیا میں دیگر فلمی مراکز بھی اسی طرح سے ہیں، بے راہروی کی ترویج، انسان کی شناخت مٹانے کی کوشش ، تشدد کا پرچار اور اقوام کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لے آنے کی راہ میں کام کر رہا ہے تاکہ اونچا طبقہ بغیر کسی پریشانی اور تشویش کے زندگی گزارے۔ سنیما جو بہت ہی پیشرفتہ اور ماڈرن آرٹ ہے، اس طرح کا ہے، شاعری بھی ایسی ہی ہے، قصہ بھی ایسا ہی ہے، پینٹنگ بھی ایسی ہے، فن و ہنر کے دیگر شعبے بھی ایسے ہی ہیں۔
اقتصادی طاقتیں مذہب سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں، چرچ سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ایک دو سال قبل میں نے ایک امریکی مصنف کی ایک کتاب پڑھی جس کا یہاں ترجمہ ہوا تھا اور طبع بھی ہوئي تھی۔ اس نے اس کتاب میں اہل اقتدار کی جانب سے چرچ اور اس سے متعلق مراکز سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کی تشریح کی ہے۔ میں جو چرچ کہہ رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسجدیں ایسی نہیں ہیں، جی نہیں، زور و زر مسجد اور معنویت سے بھی استفادہ کرتا ہے۔ دنیا پر پیسے کا تسلط بہت ہی عجیب چیز ہے۔ اس کا نتیجہ دنیا بھر میں بے پناہ غربت، کئی ارب لوگوں کی بھوک، انسان کی ترقی کرتی ہوئي نسلوں کی غلط اور معنویت سے عاری پرورش، اقوام پر تھوپی گئی جنگیں اور عالمی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ادارہ اقوام متحدہ سے وابستہ ہے اور ایٹمی اسلحوں کے عدم پھیلاؤ پر نظر رکھنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ آپ دیکھیے کہ ملکوں کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے، اس کا امتیازی سلوک کیسا ہے، اس میں سیاسی عناصر کی مداخلت کس طرح کی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ طاقت اور ثروت کا اس ادارے پر تسلط ہے۔ یہ سب آج کی دنیا کی برائیاں اور چیلنجز ہیں؟ کون ان سب کا مقابلہ کرے گا؟ یہ ایک انسان، ایک جماعت یا ایک گروہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ چیز جو ان قاتل اور تباہ کن امواج کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے وہ ایک عظیم اجتماعی بین الاقوامی تشخص ہے۔ آج یہ عظیم اجتماعی اور عالمی تشخص وجود میں آتا جا رہا ہے اور اس کا محور اسلامی جمہوری نظام ہے۔ ان باتوں پر غور کیجیے۔ یہ چیزیں آسان اور بغیر توجہ کے گزر جانے والی نہیں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے فولادی جسم پر پڑنے والے مسلسل تازیانوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ بھی مایوسی کے ساتھ نہیں بلکہ پورے حوصلے کے ساتھ۔ بعض افراد ڈٹے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔ البتہ اگر ضرورت پڑی تو ہم خون کا آخری قطرہ تک نثار کر دیں گے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
ہم آگے بڑھ چکے ہیں اور اس راہ پر جو اسلامی انقلاب نے ہمارے لیے معین کی ہے، بہت ہی واضح انداز میں پیشرفت کر رہے ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ دنیا کے سیاسی اقتدار کے مراکز وا شگاف الفاظ میں یہ کہیں کہ ایران ایک علاقائي طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے اور اگر ہم نے روک تھام نہیں کی تو وہ ( ایران ) ایک عالمی طاقت میں تبدیل ہو جائے گا؟ یہ کوئي معمولی بات ہے؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ سائنسی لحاظ سے اتنی پیشرفتہ اتنی زیادہ دولت و ثروت والی دنیا میں دین، معنویت اور انصاف کے نام پر اور لوگوں کی پشتپناہی سے ایک سیاسی نظام کا وجود میں آنا اور ایسا مقام اور ایسی پوزیشن حاصل کرلینا معمولی بات ہے؟ آج یہ کام ہو چکا ہے۔ وہ خیمہ جو یہاں نصب ہے اور اس خیمے کی مضبوط رسیاں اور گہرائی تک پیوست کیلیں جو اس اسلامی ملک میں ہیں، دوسرے ممالک میں ٹھونکی گئی ہیں۔ مختلف اقوام میں ہماری جڑیں گہرائی تک پیوست ہیں۔ آپ لوگ ان شاء اللہ جب بڑے میدانوں میں داخل ہوں گے، ديگر ممالک کا سفر کریں گے اور اقوام کے درمیان جائیں گے تو اس بات کو زیادہ محسوس کریں گے۔ اس وقت دنیا کے ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام کے دل میں بستا ہے۔ ہم کچھ چیزوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ جب اسلامی جمہوریۂ ایران کے سربراہان مملکت دوسرے ملکوں کا دورہ کرتے ہیں تو ان کا جو عوامی سطح پر استقبال ہوتا ہے اس کا تصور کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے اپنے ملک کے علاوہ محال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ میں بھی جب صدر تھا اور دوسرے ممالک کے دورے پر جاتا تھا تو ایسا ہی ہوتا تھا۔ میرے بعد والے صدر اور ان کے بعد والے صدر بھی جب مختلف ملکوں کے دورے پر گئے تو اقوام نے ان کے تئیں اپنی ارادت و محبت کا اظہار کیا۔ یہ صدر کا کمال نہیں ہے بلکہ اس عظیم تحریک کا کمال ہے، بیداری کی موج پیدا کرنے کا کمال ہے، آپ کے تشخص کا کمال ہے، اسلامی جہوری نظام کا تشخص۔ یہ ہماری شان ہے۔ ہم شیطانی مراکز کی اجارہ دارانہ اقتصادی طاقت کے لیے رکھی جانے والی بنیادوں کو متزلزل کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ دنیا میں جنگ شروع کراتے ہیں، غربت و افلاس پھیلاتے اور بحران پیدا کرتے ہیں۔ ایک ثروتمند شخص اچانک ہی کئی ممالک میں اقتصادی بحران پیدا کر دیتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یورپ میں رہنے والے ایک امریکی یہودی سرمایہ کار نے اپنے جانے پہچانے نام کے ساتھ ملیشیا، انڈونیشیا، فلیپائن اور تھائی لینڈ کو دیوالیہ بنا دیا تھا۔ پیسے کی طاقت کو ملاحظہ فرمائیے۔ بنابریں اقتصادی طاقتیں بحران پیدا کر سکتی ہیں۔ بحران پیدا کرنا، جنگ شروع کرانا اور اسرائیل جیسے تشدد پسند اور سنگدل نظاموں کو وجود بخشنا ان کا کام ہے۔ ان سب کو چیلنج کرنا ہوگا۔ یہ کام کون کر سکے گا؟ ایک نہ تھکنے والا بین الاقوامی اجتماعی تشخص جو قلبی اور دینی ایمان پر استوار ہو۔ یہ انسان کو تھکنے نہیں دیتا۔ دین پر راسخ ایمان کے علاوہ ہر چیز تھکنے والی ہوتی ہے۔ یہ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکتا ہے اور انہیں متوازن بننے پر مجبور کرنے کے بعد ختم کر سکتا ہے۔ ان شاء اللہ امام مہدی علیہ السلام کی سراپا عدل و انصاف حکومت میں یہ سارے کام ہوں گے البتہ اگر حوصلے، عزم، استقامت اور تدبیر سے کام لیں تو ہم بھی اس کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ ان امور کے لیے استقامت، شجاعت اور طاقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عقل و تدبیر کی بھی۔ یہ ایسے کام نہیں ہیں کہ انہیں آسانی سے اور یونہی انجام دے دیا جائے ، لیکن یہ کام ممکن ہے اور اب تک ایسا ہوتا آیا ہے ۔ اسلامی جمہوری نظام، کہ جس کا ایٹمی مسئلہ آج حل ہو چکا ہے، اور جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے، یہ صرف ایک مثال ہے، وہی نظام ہے جس کے پہلے دن سے ہی دنیا کے مستکبرین سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اگر سوچ بھی لیتے تو اس بات کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ یہ ملک سائنسی شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کرسکے گا ۔ آپ میں سے کسی نوجوان نے بتایا کہ اسلامی انقلاب کے اوائل میں یونیورسٹیوں میں پروفیسروں کی کمی تھی، ڈاکٹروں کی کمی تھی، ماہرین کی کمی تھی لیکن آج ہمارا ملک علمی اور سائنسی لحاظ سے پیشرفتہ ہے، البتہ ہمیں اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم نے جو پیشرفت کی ہے وہ اس سے بہت کم ہے جتنی ہمیں پیشرفت کرنی چاہیے تھی یا جو ہماری صلاحتیوں کے مطابق ہو۔
کچھ دنوں قبل یہاں اساتذہ کی نشست تھی اور مختلف مضامین اور شعبوں کے اساتذہ اسی بات پر زور دے رہے تھے جو میرا ہمیشہ کا عقیدہ ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوری نظام کی صلاحیت اور استعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم ہر کام کر سکتے ہیں۔ آج اگر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے خلاف اقدام کئے جارہے ہیں، سازشیں کی جا رہی ہیں اور حملے کیے جا رہے ہیں تو یہ ہمارے مقام کی وجہ سے ہے۔ یہ پہلے سوال کا جواب ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم اس مقابلے میں کس طرح کامیاب ہوں گے؟ یہ ایسی چیز ہے جس کا تعلق آپ جوانوں سے ہے۔ وہ قوت جو ہمیں مختلف میدانوں میں پیدا کرنی ہے وہ پہلے مرحلے میں علمی قوت ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹیوں کی ذمہ داری سنگین ہے۔ یہاں پر ایک صاحب نے کہا کہ آئیے ہم لوگ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کی جگہ اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی بات دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ بہت ہی اچھا اور مناسب خیال ہے، اس کا کہنا بھی بہت آسان ہے؛ لیکن ایک عالمی معاہدہ صرف کچھ لوگوں کے کہنے سے تو ہو نہیں جاتا؛ اس کی پشت پناہی کے لیے ایک طاقت اور قوت کی ضرورت ہے جو اسے ایک بین الاقوامی معاہدے کی شکل میں لے آئے۔ اُس وقت کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور سابق سوویت یونین نے بیٹھ کر اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے بارے میں ایک دوسرے سے اتفاق کیا لیکن چونکہ ان کا عمل کرنے کا ارادہ نہیں تھا اس لیے یہ بات عملی جامہ نہیں پہن سکی۔ کون ایک معاہدے کو اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی حیثیت سے پیش کر سکتا ہے اور پھر دنیا کے ممالک کو اس معاہدے پر عمل کے لیے پابند کر سکتا ہے؟ البتہ طاقت اور اسلحے کے زور پر نہیں، بلکہ سیاست کے زور پر، مضبوط تہذیب کے زور پر اور قومی تشخص اور شخصیت کے غلبے کے زور پر۔ یہ کام ایک طاقتور ملک کر سکتا ہے۔
قوت حاصل کیجیے، اگر اسلامی ایران علمی اور سائنسی میدان میں اپنی بات دنیا کی سب سے اہم باتوں کی حد تک پہنچا دے تو یہ کام ہو سکتا ہے کیونکہ علم دولت و ثروت بھی پیدا کرتا ہے، فوجی طاقت بھی پیدا کرتا ہے اور خود اعتمادی بھی پیدا کرتا ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے، ایک بار پھر کہہ رہا ہوں اور آئندہ بھی بار بار کہتا رہوں گا کہ آپ کے مستقبل کی طاقت کی بنیاد، علمی قوت میں ہے۔
یونیورسٹیوں کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ آپ طلباء کو بھی اور پروفیسروں کو بھی جاننا چاہیے کہ ہماری یونیورسٹیوں کی افادیت کو ختم کرنے کی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں۔ آپ لوگوں کو اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ تحقیقی مراکز کا بجٹ دیر میں دیا جاتا ہے، ٹھیک ہے اس کی تلافی کی جا سکتی ہے اس کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ سازشیں کر رہے ہیں کہ کلاسوں اور تحقیقی ورکشاپس کے دروازے ہی بند کر دئیے جائیں اور طالب علم کو علم کے حصول کی طرف سے بے رغبت کر دیا جائے۔ ان سازشوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ اس مقابلے کی ذمہ داری حکومت اور حکام پر بھی ہے، آپ لوگوں پر بھی ہے اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد پر بھی ہے۔
خدایا! اس ماہ مبارک میں ہمارے دلوں کو اپنے سے زیادہ آشنا اور مزید قریب کر دے۔ خدایا! تو نے ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں جو نورانیت پیدا کی ہے اور ہمارے نوجوانوں کو جس شفافیت اور معنویت سے بہرہ مند کیا ہے اسے ہمارے اسلامی ملک کے عزیز جوانوں کے لیے ہمیشہ محفوظ رکھ۔ خدایا! ہمارے نوجوانوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کر اور ان کی مرادوں کو بر لا۔ خدایا! ہمارے نوجوانوں اور دیگر ممالک کے نوجوانوں کے تعلقات میں، جو ہمارے ایک دوست کی بات تھی جس کی میں دعا کے طور پر تائید کر رہا ہوں، روز بروز اضافہ کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج کی نشست بھی ماضی میں منعقد ہونے والی اس قسم کی نشستوں کی مانند اچھی تھی۔ یونیورسٹیوں کے محترم اساتذہ، طلباء اور اہل علم کا ایک جگہ پر جمع ہونا، اپنی باتیں بیان کرنا، مجھ سمیت حکام اور پھر عوام تک اپنی باتیں پہنچانا خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایک مقرر نے کہا کہ نشست میں موجود لوگوں کو پچھلے سال کی نشست میں پیش کیے جانے والے موضوعات کے نتائج کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے۔ ایسا ہونا چاہیے۔ البتہ مجھ سے کہا گيا ہے کہ اس سلسلے میں لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں۔
آج ہونے والی نشست کے بارے میں دو تین مختصر سے نکات عرض کرنا چاہتا ہوں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ یہ نشست اور اس میں ہونے والی باتیں میرے لیے، حکومت کے لیے، عہدیداروں کے لیے اور عوام کے لیے ان شاء اللہ مفید اور گرانقدر ہوں گی۔ اول یہ کہ اس قسم کی نشستوں میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے عہدیداروں کے بجائے اساتذہ بات کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ جب عہدیدار بات کرتے ہیں یا کوئي مطالبہ کرتے ہیں تو خود انہیں کو ان باتوں کا جواب دینا چاہیے اور انہیں سے مطالبہ ہونا چاہیے۔ یہ، صرف اسی نشست سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ ایک دو نشستوں سے یونیورسٹی کے عہدیدار کچھ ایسی باتیں شکوے کے طور پر کرتے ہیں جن کا جواب درحقیقت خود انہیں کو دینا ہوتا ہے۔ ان سے اوپر والے لوگوں سے ان باتوں کا بہت زیادہ واسطہ نہیں ہوتا۔ یا یہ کہ وہ کچھ ایسی برحق باتیں کرتے ہیں جن کے مخاطب اس جگہ اور اس میٹنگ میں شامل لوگ نہیں بلکہ حکومت ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر ایسی ہی نشست ہو اور اس میں صدر مملکت یا وزیر تعلیم یا وزیر صحت موجود ہوں تو اس نشست میں اس طرح کی باتیں کرنا اچھا ہے لیکن یہاں پر ان باتوں کو پیش کرنے کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ حاضرین تو کچھ نہیں کر سکتے، حقیر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ آپ کی باتوں کو متعلقہ افراد تک منتقل کر دے۔ لیکن جب یونیورسٹی کا استاد کوئی بحث پیش کرتا ہے تو وہ انتظامیہ کی بحث نہیں ہوتی؛ وہ ایسی بحث ہوتی ہے جو علم کی پیشرفت کے لیے، یونیورسٹیوں کے منتظمین کے لیے، سرکاری حکام کے لیے اور میرے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ لہذا بہتر ہوگا کہ منتظمین سے زیادہ اساتذہ بات کریں۔
دوسری بات یہ کہ سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹی کی بحث عوامی سطح تک نہیں پہنچنی چاہیے کیونکہ یہ انتہائي بری بات ہے۔ کچھ حضرات نے غیر سرکاری یونیورسٹی کے بارے میں جو باتیں کیں تو ان کا زیادہ تر وقت گلے شکوے میں گزر گیا۔ ان بحثوں کی جگہ پارلیمنٹ کے کمیشن، سرکاری کمیشن، ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے متعلقہ کمیشن اور اسی طرح کے دوسرے کمیشن ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ مطالبے ہوں اور حق بھی ہوں، ممکن ہے کچھ تجاويز ہوں اور ان میں سے بعض صحیح بھی ہوں، لیکن ان کی جگہ یہاں نہیں ہے۔ یہاں پر اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہے کہ انسان ایک عمومی جگہ پر اپنے گلے شکوے کو دوسروں تک پہنچا دے۔ البتہ گزشتہ نشستوں میں یہ شکوے اتنے زیادہ نہیں تھے جتنے اس نشست میں دیکھے گئے لیکن میری اپیل ہے کہ عام جگہوں پر اس مسئلے کو مت اٹھائیے۔ غیر سرکاری یونیورسٹی بھی ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں کا ہی ایک حصہ ہے، اپنے خوبیوں اور عیوب نیز اصلاح کی راہوں اور مختلف تجاویز کے ساتھ۔ اس سلسلے میں عہدیداروں کو مناسب سطح پر بحث کرنی چاہیے اور مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کو جمع کرنے کے جس دفتر کی بات کی گئی وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کے اُس انسٹی ٹیوٹ سے الگ ہے جس کا خیال ہم نے پیش کیا ہے۔ اس دفتر کی تجویز بھی ہم نے ہی پیش کی ہے۔ اس وقت میں ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کا سربراہ تھا اور وہیں پر اس دفتر کی تجویز سامنے آئی تھی۔ اس وقت ہمارے سامنے جو مسئلہ تھا وہ آج ملک میں موجود نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں کافی تعداد میں ڈاکٹر نہیں تھے، یونیورسٹی کے اساتذہ نہیں تھے، اہم کام رکے ہوئے تھے۔ یہی ماہر افراد کو جمع کرنے کا مطلب تھا۔ تمام شعبوں میں ہمراے سامنے مسائل تھے، پڑھے لکھے افراد، دانشوروں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ تھا۔ خوش قسمتی سے آج وہ کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں اور ان کا نتیجہ وہ چیز ہے جسے آپ بیان کر رہے ہیں۔ بحمداللہ آج ملک کے سو فیصد علمی اور سائنسی شعبوں، تجربہ جاتی شعبوں اور دیگر شعبوں میں مختلف قسم کی پیشرفت ہو رہی ہے۔ البتہ جیسا کہ آپ لوگوں نے بارہا کہا اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارے ملک کی گنجائش اور استعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات لفاظی نہیں ہے بلکہ میں علمی اور یقینی شواہد کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کا انسٹی ٹیوٹ، جو بدقسمتی سے اب تک شروع نہیں ہو سکا ہے، اس لیے ہے کہ ملک کے تمام متعلقہ اداروں سے استفادہ کرکے غیر معمولی صلاحیت کے اور ماہر افراد کو ترغیب دلانے اور ان میں اطمینان پیدا کرنے کے احساس کے مسئلے کو برطرف کرے اور ان کی زندگی کے تمام مسائل کو حل کرے۔
باقی بچے کچھ منٹوں میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معزز اساتذہ اور یونیورسٹی سے متعلق ا فراد کو یہ جاننا چاہیے کہ ٹھوس عقیدہ اس بات پر استوار ہے کہ ملک کی پیشرفت کے تمام بنیادی کاموں میں علمی ترقی و پیشرفت کو سب سے آگے ہونا چاہیے؛ یعنی ملک کا سب سے بنیادی کام، علم و سائنس کے توسط سے انسان کی بنیادی ترقی ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو علمی غربت سے دور کرنا ہوگا، یہ ہمارا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ دو عشروں سے زیادہ کے عرصے کےتجربے نے بارہا یہ بات ہمارے سامنے ثابت کی ہے۔
دنیا کی جنگوں اور جغرافیائی نیز سیاسی اختلافات کے ہنگامے میں ایسا ہوا کہ پچھلے عرصے میں مغرب یعنی یورپ ماڈرن سائنس تک جلدی پہنچ گیا۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یورپ والوں کا دماغ اہل مشرق سے زیادہ بہتر کام کرتا ہے اسی طرح سے یہ اس بات کی بھی دلیل نہیں ہے کہ اُن اقوام اور ممالک میں ایسے وسائل موجود ہیں جو جغرافیائي اور دیگر لحاظ سے اِس طرف نہیں ہیں؛ نہیں، ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے، یہ صرف ایک اتفاق تھا جو سامنے آيا۔ ایک زمانے میں مشرق علمی لحاظ سے آگے تھا اور مغرب جہل کی تاریکیوں میں غوطہ زن تھا۔ تاریخ میں یہ مرحلہ بھی گزر چکا ہے۔ وقت کے اس زمانے میں یعنی مغرب میں انسانیت کی جدید علمی و سائنسی تحریک کے زمانے میں جو کام ہوا، اور جو ممکنہ طور پر بے نظیر ہے، یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی کہ علم و سائنس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لیں۔ انہوں نے کوشش کی کہ ترقی و پیشرفت کے اس ذریعے کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھیں اور اس سے سیاسی اور اقتصادی قوت حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔ انسانیت کی پوری تاریخ میں کہ جس میں علم و تمدن ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا رہا ہے، ہمیں اس قسم کی کوئي بات نظر نہیں آتی۔
سامراج کے ظلم کی چکی میں پسنے والے ممالک کے سلسلے میں ایک کام یہ کیا گيا کہ انہیں علمی و سائنسی لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا۔ عملی طور پر بھی انہیں پیشرفت سے روکا گیا اور معنوی طور پر بھی ان کے ترقی کے جذبات کو کمزور بنایا گیا تاکہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ان میں پیشرفت کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہماری قوم کے ساتھ یہ رویہ کافی طویل مدت تک روا رکھا گیا اور ہماری ترقی و پشرفت میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سارے کام علم کے علمبرداروں نے انجام دیئے اور ملکی طاقتوں، مطلق العنان پالیسیوں اور حکومتوں کی نااہلی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا، مسئلے کے اس پہلو کے ہم منکر نہیں ہیں لیکن اُس پہلو نے بھی سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ قاجار دور حکومت میں بڑی شخصیات کی بےتدبیری، کج فہمی، حرص و طمع اور سستی ملک کے حالات پر اثرانداز ہو رہی تھی لیکن جب اسی زمانے میں امیر کبیر جیسا کوئي شخص سامنے آتا ہے اور سیاسی شخصیات کے درمیان علم کی ترقی و پیشرفت اور اس کے اثرات کے کردار کے بارے میں بات کرتا ہے تو دوسرا عنصر، جو بیرونی عنصر ہے، اپنے آپ کو واضح طور پر سامنے لے آتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس شعلے کو خاموش کر دے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس بات کی جانب متوجہ ہیں کہ اگر کسی ملک کو سیاسی اور اقتصادی طور پر اپنے زیرنگیں رکھنا ہو تو اسے علمی پیشرفت نہیں کرنے دینا چاہیے۔ پہلوی دور حکومت میں بھی یہ بات بالکل اسی انداز میں موجود رہی۔ یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں بیان کرنا اور جن کا تجزیہ کرنا طویل المدت کاموں کا حصہ ہے۔ البتہ اس طرح کے کام ہوئے بھی ہیں، یہ صرف دعوے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ دلیل بھی موجود ہے۔
آج خوش قسمتی سے ہمارا ملک ایسے دور میں ہے جس میں دو باتوں کی مکمل آگہی ہے۔ ایک اپنی صلاحیتوں اور استعداد کی آگاہی اور دوسرے اس بات کی آگاہی کہ ہمارے ملک اور ہمارے جیسے ممالک کو اپنے تسلط میں لینے کی خواہاں طاقتیں ہمارے ملک کی علمی اور سائنسی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یعنی اپنی شناخت کے بارے میں آگاہی اور دشمن اور اس کی سازشوں کی شناخت سے آگاہی۔ ان دونوں آگہیوں کی برکت سے اس بات کی امید ہے کہ ہم عظیم علمی پیشرفت کے مدارج طے کریں گے۔
حال ہی میں میں ایرانی اخبارات و جرائد کا مطالعہ کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ امریکہ میں اعداد و شمار کے ایک اہم ادارے نے امریکہ میں مقیم ایرانیوں یا ان کے بقول ایرانی نژاد امریکیوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کی علمی اور سائنسی معلومات امریکی عوام کی اوسط معلومات سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ بات بعید نہیں ہے کہ جو لوگ ایران کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے تھے اور ہمارے ملک کی علمی تحریک کو مسائل میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ ایرانیوں کی اس عظیم استعداد اور صلاحیت سے واقف تھے اور بخوبی جانتےتھے کہ اگر ایرانی علم وسائنس کے میدان میں آ گئے تو اس میدان سے ان ( اغیار ) کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
آج اسلامی جمہوری نظام بر سر اقتدار ہے کہ جو عدل و انصاف، ظلم سے جنگ اور عظیم انسانی اقدار کے دفاع کا علمبردار ہے۔ اگر یہ نظام اپنے عوام کو علم کے اوج پر پہنچا سکا تو یقینی طور پر عالمی سامراج کے سامنے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا؛ یہ ایسی حقیقت ہے جو آج بخوبی نظر آ رہی ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں علم اور علمی و سائنسی پیشرفت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ البتہ علمی پیشرفت، کسی کی نقل سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اسے جدت عمل، سرحدوں کو توڑنے اور غیر مفتوحہ میدانوں میں جانے اور انہیں فتح کرنے سے حاصل کیا جا سکے گا۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں بعض دوستوں نے تحقیق کی اہمیت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل بجا اور صحیح ہے۔ سرکاری حکام کو بھی اس بنیادی کام یعنی تحقیق پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ سرگرم تحقیقاتی مراکز کے بغیر نہ تو علم و سائنس میں ترقی ہو سکتی ہے اور نہ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کی جا سکتی ہے۔ یونیورسٹیوں اور یونیورسٹیوں سے باہر تحقیقاتی مراکز کی حمایت کی جانی چاہیے اور ان پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
بظاہر وقت ختم ہو چکا ہے اور مجھے اپنی گفتگو ختم کرنی چاہیے۔ غروب اور افطار کا وقت ہے۔ آخر میں میں صرف چند دعائیں کرنا چاہتا ہوں جو ان شاء اللہ آپ لوگوں کے نورانی اور پاکیزہ قلوب کی برکت سے مستجاب ہوں گی۔
خدایا! جو کچھ ہمارے دل میں ہے، جو کچھ ہماری زبانوں پر ہے اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں سب کو اپنے لیے اور اپنی راہ میں قرار دے اور انہیں ہماری جانب سے قبول فرما۔ خدایا! ہمیں حقیقی معنی میں اسلام اور اسلامی اہداف کی خدمت کی توفیق عنایت کر۔ خدایا! ہماری قوم کو روزبروز مزید علمی و عملی عزت عطا کر۔ خدایا! امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی رکھ۔ خدایا! مغتنم اور اکسیر صفات ان لمحوں، ان گھنٹوں، ان دنوں اور راتوں کو ہمارے لیے، ہمارے دلوں کے لیے، ہماری بصیرتوں کے لیے، ہمارے لیے اور ہمارے عمل کے لیے مبارک قرار دے اور ہم سب کو اس مہینے میں اپنی ضیافت سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی نے صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے اراکین سےملاقات میں حکومتی اور انتظامی امور سے متعلق اہم ترین نکات بیان فرمائے اور حضرت علی علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں انتہائی اہم ہدایات دیں۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نشست مکمل ہو چکی۔ یہ نشست اسی لیے تھی کہ آپ لوگ یہاں آئیں اور آپ ہی لوگ بولیں، البتہ میرے ذہن میں بھی بہت سی باتیں ہیں؛ آپ بااستعداد لوگوں کے لیے بھی، طلباء، اساتذہ، یونیورسٹی اور دینی تعلیمی مراکز کے اہل علم حضرات کے لیے بھی اور ملک کے تمام نوجوانوں کے لیے بھی لیکن چونکہ دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے لہذا مجھے کوئی جلدی نہیں ہے کہ جو کچھ میرے ذہن میں وہ سب کا سب اسی نشست میں بیان کر دوں۔ اس کے بعد بھی موقع ملے گا اور ان شاء اللہ دیگر نوجوانوں، طلباء اور بااستعداد افراد کے ساتھ ہماری اور بھی نشستیں ہوں گی اور میں ان نشستوں میں جو کچھ ضروری ہوگا بیان کروں گا، یہاں میں کچھ مختصر سی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ہم ہر سال جو اس قسم کی نشست منعقد کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نشست ہم کرسکتے ہیں کا مظہر ہے۔ آپ لوگ اس بات پر توجہ کیجیے کہ ہمارے ملک میں دسیوں برس تک پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ ثابت کرنے کے لیے کام کیا گيا ہے کہ ایرانیوں میں استعداد نہیں ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ایرانیوں میں استعداد ہے اور وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمارے اسلامی انقلاب کا ایک اہم ہدف یہ تھا کہ دنیا کو بھی اور خود ایرانی قوم کو بھی یہ بتا دیا جائے کہ ہم میں استعداد ہے اور ہم سب کچھ کر سکتے ہیں اور میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہمارا انقلاب اس سلسلے میں کامیاب رہا ہے۔ ہمارے ملک میں خوداعتمادی پیدا ہو چکی ہے۔
آپ حضرات نے علمی پیشرفت کے سلسلے میں جو کچھ بتایا وہ ہمارے ملک میں سائنس، تحقیقات اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔اس سلسلے میں ایسی بہت سی باتیں بھی وسیع پیمانے پر بتدریج سامنے آئيں گی جو اس وقت جاری ہیں۔ یہ نشست، ہم کر سکتے ہیں کا مظہر ہے۔
ملک کے بااستعداد افراد صرف آپ لوگ نہیں ہیں بلکہ آپ ہمارے ملک کے اس ذی وقار طبقے اور جوانوں کے چنندہ افراد ہیں۔ اس سے سب کو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے افراد موجود ہیں جو عالمی مقابلوں میں اور ملک میں وسیع سطح پر ہونے والے مقابلوں میں اہم پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی لوگ درخشندہ استعداد کے حامل ہیں اور اس طرح کے افراد ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہیں۔ ان افراد کے سہارے ایرانی قوم اور وطن عزيز اپنی تعمیر کرے گا اور ترقی کی منزلیں طے کرے گا۔ انہیں کے سہارے ہمارا ملک اس گہری خلیج کو پُر کرے گا جو ہمارے اور دنیا کی علمی چوٹیوں کے درمیان حائل کر دی گئي ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کام کرنا چاہتے ہیں۔ آج جو بات آپ لوگوں نے کہی ہے، یعنی علم کو اہمیت دینے کی بات، تحقیق کو اہمیت دینے کی بات، ٹیکنالوجی کو اہمیت دینے کی بات اور اسی طرح بااستعداد افراد کو اہمیت دینے کی بات یا یہ کہ جب ہم ایک بااستعداد شخص کو خوش رکھتے ہیں تو وہ دنیا کے جس حصے میں بھی جائے گا ہمارے ملک کا ہی رہے گا اور اسی طرح کی بہت سی باتیں جو آپ لوگوں نے کہیں اور میں نے اس کا خلاصہ نوٹ کرلیا ہے، تو یہ سب میری باتیں ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو دس بارہ برسوں سے میں کہتا آ رہا ہوں۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگ اس بات کو جانے بغیر کہ یہ باتیں ملک کے عہدیداروں کی جانب سے کہی جا چکی ہیں، اس قسم کی باتیں کہہ رہے ہیں اور یہ آپ کے دل کی بات ہے تو یہ خود ایک پیشرفت ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو ہم چاہتے تھے اور دشمنوں کی خواہشوں کے برخلاف عملی جامہ پہن چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اگلا قدم اٹھائیں۔ اگلا قدم یہ ہے کہ یہ سارے کام ایک ایک کرکے عملی جامہ پہنیں۔ یہ وقت کے لحاظ سے اگلا قدم نہیں ہے بلکہ مرحلوں کے لحاظ سے اگلا قدم ہے، یعنی جب یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو اس کے فورا بعد اسے نافذ بھی کیا جانا چاہیے۔
میں نے ان سب باتوں کو نوٹ کر لیا ہے اور اپنے دفتر کے لوگوں اور یہاں موجود دوستوں سے کہتا ہوں کہ جو کچھ آپ لوگوں نے کہا ہے ان سب کو نوٹ کرکے ان کی فہرست بنا لیں۔ وزیر علم و ٹیکنالوجی کے وزیر اور کچھ دیگر حکام بھی یہاں تشریف فرما ہیں، ان دوسرے افراد تک بھی آپ کی باتیں پہنچ جائیں گی اور ان شاء اللہ اس سلسلے میں اقدام کیا جائے گا۔
تیسری بات بااستعداد افراد کے فاؤنڈیشن کے بارے میں ہے جس کی تجویز میں نے گزشتہ سال اسی نشست میں دی تھی۔ تجویز یہ تھی کہ ان مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے جنہیں آپ نے بیان کیا ہے ایک فاؤنڈیشن کی تشکیل ہونی چاہیے۔ اس فاؤنڈیشن کا دستورالعمل منظور کیا جا چکا ہے اور میرے پاس بھی بھیجا گيا تھا۔ میری نظر میں اس میں کچھ کمی ہے جسے یقینی طور پر دور کیا جانا چاہیے اور ان شاء اللہ دور ہو جائيں گی۔ صدر مملکت سے لے کر دوسر افراد تک، تمام سرکاری حکام کی جانب سے منصوبوں اور پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں جو اہتمام میں دیکھ رہا ہوں اس نے میرے دل میں یہ امید پیدا کر دی ہے کہ بااستعداد افراد کے سلسلے میں ہمارے ذہن میں پائی جانے والی تمام تشویشیں ختم ہو جائیں گی۔
البتہ یہ کام تدریجی طور پر انجام پائے گا۔ جیسا کہ آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر ایک تحقیقاتی کام پورا ہونے میں چار سال کے بجائے ساڑھے چار سال لگ جائیں تو یہ نہ کہا جائے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس قسم کے کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں بہت سے مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اسے چھوڑ نہ دیں بلکہ جاری رکھیں تاکہ یہ کام ان شاء اللہ پورا ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ جلدی یا دیر ہو جائے، لیکن ہوگا ضرور۔ یہ ملک کے حکام کی نیت ہے، یہ قومی عزم ہے جو آج ہمارے ملک میں موجود ہے۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ اور آج آپ عزیز نوجوانوں سے بھی کہہ رہا ہوں کہ ملک کا بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ اسکول میں لکھا جانے والا کوئی مضمون نہیں تھا کسی نے بیٹھ کر اسے لکھ دیا ہو؛ یہ کوئی آرزو اور خیال خام نہیں تھا، بلکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو مکمل حساب کتاب اور ہمہ جہت توجہ کے ساتھ کاغذ پر آئی ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ اگلے بیس برسوں میں ہمیں سائنس اور معیشت کے لحاظ سے علاقے میں سب سے آگے ہونا چاہیے تو یہ تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے اور تیار کیا گيا ہے اور یہ ممکن ہے۔
البتہ تمام ممکن کاموں کے لیے کوشش، ہمت، حوصلے اور اقدام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم بیٹھ کر صرف نظارہ کرتے رہیں تو کوئی کام نہیں ہوگا۔ کوششوں اور جدوجہد سے ہی کام ممکن ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ ہم کوشش کریں اور خدا کے فضل و کرم اور اس کی مدد سے یہ کام ہو جائے گا۔ البتہ شاید ہم لوگ اس وقت موجود نہ ہوں لیکن آپ لوگ دیکھیں گے، یہ آپ ہی کا کام ہے، مستقبل بھی آپ ہی کا ہے۔
میں نے طلباء کی ایک نشست میں کہا تھا کہ آپ لوگ اس بات کی کوشش کریں کہ پچاس سال بعد آپ کا ملک ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ جس کسی کو سائنسی پیشرفت کی ضرورت ہو اس کے لیے فارسی زبان سیکھنا ناگزیر ہو۔ یعنی آپ کا ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنا زیادہ کام کر چکا ہو، جیسا کہ آج امریکہ اور بعض دیگر ممالک کی ٹیکنالوجی اور سائنس میں پیشرفت کے سبب انگریزی زبان دنیا میں رائج ہوگئی ہے اسی طرح آپ بھی اپنی سائنسی ترقی کی برکت سے فارسی زبان کو دنیا میں رائج کر سکیں۔ آپ چوٹی پر پہنچ سکیں۔ یہ ممکن ہے اور اگر آپ لوگ عزم اور حوصلہ کریں تو یقینی ہے۔
البتہ اے میرے عزیزو! اے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! یہ جان لیجیئے کہ نیک اعمال کے ساتھ ایمان اس میدان میں ترقی و پیشرفت کا سب سے اہم سہارا ہے۔ پاک، نورانی، شفاف، مستدل اور منطقی ایمان، جس کا مواد اسلامی تعلیمات میں کثرت سے موجود ہے ، عمل کے ساتھ آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ صرف ایمان سے کام آگے نہیں بڑھے گا۔ ایسا ایمان جس کے ساتھ عمل بھی ہو، اخلاص بھی ہو، لاابالی پن جس سے دور ہو وہ آپ کی دنیا میں بھی مدد کرسکتا ہے اور آپ کے ملک کے لیے بھی مددگار ہو سکتا ہے، اس چیز کا خاص خیال رکھیں، جیسا کہ میں نے آپ لوگوں کی باتوں میں بھی دیکھا ہے۔
بہت اچھی نشست تھی، یہ دو گھنٹے، جب آپ لوگوں نے بات کی، میرے لیے بہت اچھا موقع تھا اور مجھے بہت خوشی ہے کہ میں نے آپ لوگوں کی باتیں سنیں۔ البتہ آپ لوگوں کی باتوں کے دوسرے فوائد بھی ہیں، میں نے شروع میں ہم کر سکتے ہیں کا مظہر والی جو بات کی تھی صرف وہی نہیں ہے۔ یہ کہ ایک ایرانی نوجوان میں اتنا حوصلہ ہو کہ وہ ایک قومی پلیٹ فارم سے ــــ یہ ایک قومی پلیٹ فارم ہی ہے کیونکہ جو کچھ آپ یہاں کہیں گے پوری ایرانی قوم اسے سنے گی ــــ اپنی تحقیقات کے نتائج بیان کرے، یا یہ کہ خود اعتمادی سے سرشار ہو، ایک بہت بڑا سرمایہ ہے جو ہمارے ملک کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ مجھے بہت سے لوگوں کی اس خود اعتمادی سے بہت خوشی ہوتی ہے۔
ہمارے دوستوں نے کہا کہ یہ باتیں یہاں پر نہیں کہی جانی چاہیے تھیں، نہیں، کوئی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ لوگ یہاں پر آئيں اور جو کچھ آپ کے ذہن میں آتا ہے اسے یہاں کھڑے ہو کر بیان کریں۔ میرے لیے یہ اہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو بات آپ کریں وہ بہت زیادہ سنجیدہ نہ ہو، جو تجویز آپ دے رہے ہوں وہ بہت نئی نہ ہو؛ کوئی بات نہیں ہے۔ جو بات ہمارے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ خود اعتمادی کے ساتھ یہاں پر آئيں اور اپنی بات ٹھوس انداز میں خود اعتمادی کے ساتھ بیان کریں اور آپ کی یہ بات پورے ملک میں نشر ہو، ہمارے لیے یہ بات اہمیت رکھتی ہے۔
خدا آپ لوگوں کو کامیاب کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع (1980 تا 1988) کے واقعات کو تحریری، تصویری اور فلمی شکل میں محفوظ اور ناظرین کے سامنے پیش کرنے والے ماہر کیمرامین، فوٹوگرافروں اور ادبا سے ملاقات میں ان کی کاوشوں اور فنی تخلیقات کو نہایت اہم قرار دیا اور اس قسم کی سرگرمیوں کے جاری رہنے پر تاکید فرمائی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس مبارک اورعظیم دن کی تمام منتظرين( مہدی عج ) تمام عاشقوں اوراہلبیت کے شیدائیوں اوربالخصوص آپ بہن بھائیوں کی خدمت میں جویہاں تشریف فرماہیں مبارکباد پیش کرتاہوں
درحقیقت اس عظيم ہستی کی ولادت ایک حقیقی عید ہے لہذا اس روزکا جشن منانا اورپرمسرت گھڑی کی یاد منانا ہرگزمہدویت کے معتقدین فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ فقط شیعہ نہيں ہیں جومہدی موعود( سلام اللہ علیہ ) بلکہ منجی اور مہدی کا انتظار سبھی مسلمانوں کے عقید ے میں ہے ۔ صرف دوسروں اورشیعوں میں فرق یہ ہے کہ شیعہ اس عظیم ہستی کواس کے نام ونشان اورمختلف خصوصیات سے جانتے ہيں لیکن دوسرے مسلمان جو منجی کے معتقد ہیں وہ منجی کونہیں پہچانتے فرق یہاں پر ہے
وگرنہ اصل مہدویت پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔دوسرے ادیان کے لوگ بھی آخرزمان میں ایک منجی کی آمد اوراس کے انتظار پر عقیدہ رکھتے ہیں ان لوگوں نے بھی کم ازکم اس سلسلے میں ایک چیزپرتویقین رکھتےہیں کہ آخرزمان میں ایک منجی یا نجات دہندہ آئے گا اوریہاں تک وہ صحیح سمجھے ہیں لیکن اصل مطلب میں جو منجی کی معرفت کا مسئلہ ہے وہاں پر انھوں نےسمجھنے میں غلطی کی ہے ۔شیعہ اپنی قطعی اور مسلّمہ روایتوں کی بدولت نجات دہندہ اورمنجی کو اس کے نام ، نشان ، خصوصیات اورتاریخ ولادت سے پہچانتے ہيں ۔
اعتقاد مہدویت کے بارے میں چند نکات کو میں یہاں پر اجمالی طورپرعرض کررہاہوں ۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت بقیہ اللہ ( ارواحنافداہ )کاوجود مقدس اول تاریخ سے اب تک نبوتوں اورالہی دعوتوں کاہی تسلسل ہے ، یعنی جیساکہ ہم دعائے ندبہ پڑھتے ہيں ( فبعض اسکنتہ جنتک ) سے کہ جس سے مراد حضرت آدم ہيں ( الی ان انتہی الامر ) تک کہ جس سے مراد خاتم الانبیاء تک پہنچناہے - اوراس کے بعد وصایت اوراہل بیت کا مسئلہ یہاں تک کہ امام زمانہ تک یہ موضوع پہنچتاہے یہ سب کچھ ایک ہی سلسلہ ہے جو تاریخ بشریت میں بہم مرتبط اورمتصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ نبوت کی وہ عظیم تحریکيں اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کا وہ سلسلہ کھبی بھی متوقف نہيں ہوا ہے انسان کو پیغمبروں اوردعوت الہی اورداعیان الہی کی ہمیشہ ضرورت ہے اوریہ احتیاج آج تک باقی ہے اورجتنابھی زمانہ گذراہے انسان انبیاء الہی کی تعلیمات سے نزدیک ہواہے
آج انسانی معاشرہ اپنی فکرمیں ترقی وپیشرفت اورتہذیبوں میں بالیدگي اورمعرفت میں پختگي کی بدولت انبیاء الہی کی بہت سی تعلیمات کوجو دسیوں صدیاں قبل انسان کے لئے قابل درک نہیں تھیں درک کررہاہے ۔ اسی انصاف کے معاملے کولے لیجئے یا آزادی اورانسانی شرافت واحترام کے موضوع کولے لیجئے اورجوباتیں آج رائج ہیں دنیامیں یہ سب تعلیمات انبیاء ہيں ۔ اس دورمیں عام لوگ اوررائے عامہ ان مفاہیم کودرک نہیں کرتی تھی ۔پیغمبروں کا یکی بعد ديگری آنا اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کی ترویج نے ان افکارکولوگوں کے ذہنوں اورعوامالناس کی فطرت اورانسانوں کے دلوں میں نسل درنسل مستحکم کیابٹھایاہے اوران داعیان الہی کاسلسہ آج تک منقطع نہیں ہواہے اورحضرت بقیہ اللہ الاعظم ارواحنافداہ کا وجود مقدس داعیان الہی کے سلسلے کی ہی کڑی ہے جیساکہ زیارت آل یاسین میں بھی پڑھتےہیں ( السلام علیک یاداعی اللہ وربّانی آیاتہ ) یعنی آپ اسی جناب ابراہیم کی دعوت یاحضرت موسی کی دعوت حضرت عیسی کی اسی دعوت اورتمام پیغمبروں ومصلحان الہی کی دعوتوں اورپیغمبرخاتم کی دعوت کوحضرت بقیہ اللہ کے وجود میں مجسم دیکھ رہے ہیں یہ عظیم ذات ان تمام نبیوں اورمصلحان الہی کی وارث ہے اوران سب کی دعوت اوران پرچم کواپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اورپوری دنیاکوانہی تعلیمات سے روشناس کرارہی جوان نبیوں نے متعارف کرایاتھا یہ ایک اہم نکتہ ہے
باب مہدویت میں دوسرانکتہ انتظارفرج ہے ۔ انتظارفرج ایک بہت ہی وسیع وعریض مفہوم ہے ۔ایک انتظار، آخری فرج کا انتظارہے ،یعنی یہ ہے کہ اگرانسان دیکھے کہ طواغیت زمانہ ظلم وستم کررہے ہيں لوٹ مارکررہے ہیں اورکھلے عام لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں تواسے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ دنیااسی کانام ہے اوراس کا انجام بھی یہی ہے اسے یہ نہیں سمجھ لیناچاہئے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہيں ہے اوراسی صورت حال پر صبر کرکے بیٹھ جاناچاہئے نہیں ایساہرگزنہیں ہے بلکہ اسے یہ جانناچاہئے کہ یہ وقتی حالات ہیں جو گذرجائیں گے (للباطل جولہ ) اورجوچیزاس دنیاسے متعلق ہے اوراس عالم طبیعت سے متلعق ہے وہ عبارت ہے عدل وانصاف کی حکومت کے قیام سے ، اوروہ آئیں گے ۔انتظارفرج اورراحت وآرام اوربالآخروہ دورجس میں ہم زندگی گذاررہے ہيں اورانسان ظلم وستم کا شکارہے وہ انتظارفرج کا ایک مصداق ہے لیکن انتظارفرج کے اوربھی مصداق ہيں ۔ جب ہم سے کہتےہیں کہ فرج کاانتظارکرو تو اس کامطلب صرف یہ نہيں ہے کہ آخری فرج کا انتظارکرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمشکل کا حل ہے اورہرمشکل کوحل کیاجاسکتاہے فرج کا مطلب یہ ہے ۔ یعنی مشکلات کے بعد راحت وآرام ۔ مسلمان درس انتظارسے فرج کوسیکھتاہے اوراس سے تعلیم لیتاہے کہ انسان کی زندگي میں کوئی بھی ایسی مشکل نہیں ہے جو قابل حل نہ ہو یا اسے حل نہ کیاجاسکتاہو ۔ جب انسان کی زندگي کے آخری دورمیں ان تمام ظالمانہ اورستمگرانہ اقدامات کامقابلہ کرنے کے لئے خورشید فرج ظہورکرے گا تو اس جاری زندگي کے دوران بھی جومصائب ومشکلات ہيں ان کے مقابلے میں اسی طرح کے ایک فرج کی توقع رکھنی چاہئے ۔یہ تمام انسانوں کے لئے درس امید ہے ، یہ تمام انسانوں کےلئے حقیق انتظارکادرس ہے اسی لئے انتظارفرج کوسب سے افضل اعمال میں قراردیاگیاہے تواس سے یہ معلوم ہواکہ انتظار ایک عمل ہے بے عملی نہيں ہے اس سلسلے میں غلطی اورغلط فہمیوں کا شکارنہیں ہوناچاہئے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ انتظارکامطلب یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہيں اوراس بات کاانتظارکریں کہ کوئی حل نکل آئے گا اورخود سے سب ٹھیک ہوجائےگا
انتظارایک عمل ہے ،خود کوآمادہ کرنے کانام ہے اوردل اپنے باطن کی تقویت کانام ہے ایک جذبے اورتحرک کانام ہے جوتمام میدانوں سے متعلق ہوتاہے ۔ یہ درحقیقت قرآن کریم کی ان آیات کریمہ کی تفسیرہے کہ (ونریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم آئمہ ونجعلھم الوارثين ) یا ( ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبہ للمتقین ) یعنی کبھی بھی امتوں اورقوموں کوفرج اورراحت سے مایوس نہیں ہوناچاہئے ۔
جس دن ملت ایران نے قیام کیااورتحریک چلائی اس نے امید حاصل کی کہ قیام کیا اورآج وہ امید پوری ہوگئی ہے اسی قیام کے نتیجے میں ۔ اوراس نے وہ عظیم نتیجہ حاصل کرلیاہے اورآج بھی مستقبل کی بابت پرامیدہے اورپوری امید اورنشاط کے حرکت کررہی ہے ۔یہ نورامید ہے جوجوانوں کوحوصلہ عطاکررہاہے اوران کے اندر تحرک ونشاط پیداکررہاہے اوران کے حوصلوں کے پست اوران پر پژمردگی طاری ہونے سے روکتاہے اورمعاشرے میں تحرک وآگے بڑھنے کا جذبہ پیداکرتاہے یہ انتظارفرج کا نتیجہ ہے ۔بنابریں ہمیں آخری فرج کا بھی منتظررہناچاہئے اورزندگي کے تمام مراحل میں بھی فرج وآسانی کی امید اوراس کامنتظررہناچاہئے خواہ وہ انسان کی انفرادی زندگی ہویاپھر اجتماعی زندگي ہو ۔ آپ اپنے اوپر ہرگزمایوسی کوطاری نہ ہونے دیں اوریہ جان لیجئے کہ یہ مشکل حل ہوکررہے گی اورآسانی آپ کومیسرہوگی البتہ اس کے شرط یہ ہے کہ آپ کا انتظارحقیقی معنوں میں انتظارہو۔یہ انتظارعمل ہو، کوشش ہو، جذبہ ہو، اورتحرک ہو۔
مسئلہ مہدویت میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ امام زمانہ (ارواحنافداہ) ہمارے اعمال ورفتارپر ناظرہیں ، ہمارے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہيں ۔یہ ہمارے مومن جوجوان جومختلف میدانوں میں خواہ وہ معنویت معرفت کامیدان ہویا کام وکوشش کا میدان ،جدوجہدکامیدان ہویاسیاست کامیدان ، یاپھرجہاد کامیدان ہو جب اس کی ضرورت ہوئی تھی جب اس طرح سے اپنے اخلاص اورشادابی کامظاہرہ کرتے ہيں تو امام زمانہ خوش ہوتے ہيں ۔ یہ جو اسلامی ملک میں مثال کے طورپرہمارے مسلمان ملک میں اس بات کی کوشش ہورہی ہے کہ ملک کے نظم ونسق پرنگرانی رکھی جائے ، ملک کی پیشرفت پر دھیان دیاجائے،
اس سلسلے میں فیصلے کئے جائیں اوراقدامات کئے جائیں اوراس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ ملک کے اندر استکباری اورسامراجی مقاصد عملی جامہ پہن سکے ان تمام باتوں سے امام زمانہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ امام زمانہ ناظرہیں اوران کی خدمت میں ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہيں
آپ کے انتخابات کوامام زمانہ نے دیکھاہے آپ کے اعتکاف کوامام زمانہ نے دیکھاہے پندرہ شعبان کے موقع پر سڑکوں اورگھروں اورديگرمقامات پر چراغانی وسجاوٹ جو آپ لوگوں اورہمارے جوانوں نے کی ہے ان سب کوامام زمانہ نے ملاحظہ فرمایاہے ۔ آپ تمام خواتین وحضرات کی مختلف میدانوں میں بھرپورموجودگی کوامام زمانہ نے دیکھاہے اوردیکھتے ہيں ،
اسی طرح ہمارے ملک کے حکام کے اعمال اوران کی کارکردگي جومختلف میدانوں میں ہوتی ہے امام زمانہ کے سامنے پیش ہوتی ہے اوران کاموں میں ہمارے عزم راسخ کی اگرجھلک ہوتی ہے اورکوئی کام ایساہوتاہے جوایک مسلمان کے شایان شان ہوتو امام زمانہ اس سے خوش ہوتےہیں اوراگرخدانخواستہ اس کے برخلاف ہم سے کوئی کام اورغلطی سرزد ہوجائے تو امام زمانہ کوہم سے تکلیف پہنچتی ہے ۔آپ ذراملاحظہ کیجئے کہ یہ سب کتنابڑاعامل ومحرک ہے ۔
ایک اورنکتہ اورآخری بات یہ ہے کہ جومعاشرہ مہدویت پریقین رکھتاہے اسے قوت قلب حاصل ہوتی ہے ۔ قوموں کے لئے یہ قوت قلب بہت ہی اہم ہے ۔ آپ یہ جان لیجئے کہ اسلامی ملکوں پر سامراجی طاقتو ں کا تسلط اسی وقت ہواجب انھوں نے ان کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے عاری کردیا اورجب ان کے اندر ضعف وکمزوری کااحساس ہونے لگا جب ان کے اندر توانائی کے فقدان کا احساس پنپنے لگا ، اس کے بعد سامراجی طاقتوں آئیں اوران پر مسلط ہوگئیں ۔اورآج بھی ایساہی ہے ۔آج ہم دنیاکے سیاسی اورسفارتی تعلقات کے میدان میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہيں کہ عالمی استکبارکا ایک سب سے بڑاہتکنڈہ یہ ہے کہ مختلف ملکوں اوراب خاص طورپراسلامی ملکوں کے حکام کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے خالی کردے اوران کے اندریہ احساس پیداکرے کہ ان کی مددکرنے والاکوئی نہيں ہے تاکہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اورکوئی چارہ نہيں ہے کہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں ۔ یہ احساس کمزوری ایک بہت بڑی مصیبت ہے قومیں حرکت نہيں کررہي ہیں کیونکہ وہ خود کوکمزورمحسوس کررہی ہيں ۔فلسطینی قوم دسیوں سال خاموش اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کمزورہے اورکچھ بھی نہيں کرسکتی اورجس دن فلسطینی قوم میں کچھ کرگذر نے کا جذبہ پید ہوگيا وہ اٹھ کھڑی ہوئی اوراس انے اپنے اس قیام سے یہ تمام کامیابیاں حاصل کیں( فلسطینی قوم ) مشکلات ومصائب برداشت کررہی ہے مگرآگے بڑھ رہی ہے ۔اس قوم میںجوحرکت نہیں کررہیہے ،طمانچے بھی کھارہی ہے لیکن رووبروزپسماندگي کا شکارہورہی ہے اوربدبخت وزیردست ہورہی ہے اوراس بات پرخوش ہے کہ اس کوطمانچے نہيں لگ رہے ہيں اوراس قوم میں فرق ہے جو اپنے راستے کی سختیاں برداشت کررہی ہے اس کے راستوں میں کانٹے ہيں اورخونی بھی ہوجاتےہيں لیکن کامیابی اورسعاد ت وخوش بختی کی راہ کی جانب گامزن ہے اوراپنی عزت وسربلندی حاصل کررہی ہے ۔ ملت فلسطین نے آج اپنے دلوں میں امید کی شمع روشن کررکھی ہے اب وہ آگے بڑھ رہی ہے اورآگے کی سمت جارہی ہے اورآگے کی جانب یہ حرکت جب تک پائی جاتی رہے گی اس بات کاباعث بنتی رہے گی کہ فرج وآسانیوں کے دروازے اس کے سامنے کھلتے جائیں اوراس کے راستے آہستہ آہستہ طے ہوتے جائیں اوریہاں تک کہ انشاءاللہ اپنے آخری مقصد کوپہنچے ۔
کسی بھی قوم کے لئے احساس کمزوری ایک بہت ہی خطرناک احساس ہے اورزہرقاتل ہے ۔
مہدویت پراعتقاد کی ایک برکت یہ ہے کہ انسان احساس اطمینان کرتاہے ،اسے قوت قلب کااحساس ہوتاہے اسے قوت وطاقت کااحساس ہوتاہے اوربحمداللہ ہماری قوم اسی طرح ہے
ہم نے محاذجنگ پر اپنے جوانوں کودیکھاہے کہ انھیں امدادغیبی اورحضرت ولی عصر کے لطف وتوجہ پراعتقاد رہتاتھا اوراسی اعتقاد اوراسی قوت قلب سے استفادہ کرتےتھے اوران کے اندردوگنی قوت کا احساس پیداہوتاتھا اوراسی کے سہارے آگے بڑھتے ۔البتہ امداد غیبی کامطلب اگریہ لیاجائے کہ انسان بیکاربیٹھارہے تمام دروازے اپنے اوپربندکرلے اوراس انتظارمیں رہے کہ غیب سے اس کی مددہوجائے گی تواسے یہ معلوم ہوناچاہئے کہ غیب سے اس کی مدد نہیں ہوگی (وجعلہ اللہ الّا بشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ ) میدان جنگ میں ، سیاسی مشکلات کے میدان میں اورقوموں کے اٹھ کھڑے ہونے کی صورت میں غیبی مدد انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اگرانسان اٹھ کھڑاہوتو اس کی غیب سے مدد ہوتی ہے ۔ آج عالمی استکبار نے اپنی توجہ قوموں کے نقاط قوت یا مضبوط پوائنٹ کونشانہ بنارکھاہے تاکہ قوموں سے ان کا یہ مضبوط پوائنٹ چھین لے البتہ وہ کہیں کہیں پر کامیاب بھی ہواہے اورکہیں کہیں پر اسے منھ کی بھی کھانی پڑی ہے اورجن جگہوں پر اللہ تعالی کی مدد ونصرت کے طفیل عالمی استکبارکوکا میابی نصیب نہيں ہوسکی ان میں اسلامی جمھوریہ ایران ہے اورملت ایران ہے ۔بحمد اللہ اقوام متحدہ کے ڈائس سے اوردنیابھر کے سربراہان مملکت کی آنکھوں کےسامنے ہمارے محترم صدرصاحب نے ایرانی عوام کے دل کی بات بیان کردی ۔ استحکام ومتانت وقوت بیان اوراپنے موقف کا ستحکام اس عالمی اسٹیج سے ایرانی عوام کی نمائندگی میں پوری دنیاکی آنکھوں کے سامنے بیان کردیاگیا اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ ملت ایران دھونس ودھمکی اورکسی کے دباؤ میں نہيں آئے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملت ایران نے گذشتہ ستائیس برس سے جب سے اسلامی انقلاب کامیاب ہواہے دباؤ برداشت کرکے نہ صرف یہ کہ کمزوری کا احساس نہيں کیاہے اوراس کے عزم وارادے متزلزل نہیں ہوئے ہيں بلکہ آج وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط وتواناہے اورمضبوط عزم وارادے کے ساتھ اپنے اہداف ومقاصد کوآگے بڑھانےکے لئے کہ جن میں ان کے قومی مفاد ات پوشیدہ ہيں بدستورمستحکم اندازمیں ڈٹی ہوئی ہے
خداوندعالم کی ذات پربھروسہ اورقوم پر حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کے لطف وشفقتوں پر اعتقاد نے ہماری زندگی اورہمارے اعمال وکردارپر یہ اثرمرتب کیاہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے اندرقوت قلب پیداہوتی ہے جو مختلف قسم کی امواج کے مقابلے میں ہمیں استقامت وپائمردی عطاہوتی ہے ۔ملت ایران کوشکست نہیں دے سکتے ۔ خداوندعالم کی تائید ونصرت کی بدولت ملک کے حکام مومن وصابر ملکی عہدیداراپنی پوری کوشش و سعی جمیل کے ذریعہ یکی بعد ديگری تمام مشکلات کوحل کرلیں گے ۔ انھیں اپنے ملک کی علمی سطح کو اتنے اوپرلے جاناہوگا کہ دشمنوں کی حریصانہ نگاہيں کلی طورپر اس قوم اوراس ملک سے دورہوجائیں ۔
خداوندعالم سے دعاکرتاہوں کہ حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کی دعائیں ایرانی عوام اوردنیا کی تمام مستضعف قوموں کے شامل حال ہوں اورآپ لوگوں کوروزبروزاپنی عزت وجلال کے صدقے میں اوراپنے اولیاء کرام کی عزت کے طفیل باعزت ومقتدر قراردے
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عظیم عید کی پوری دنیاکے مسلمانوں، اقوام عالم، حکومتوں،اپنے ملک کے سربلند عوام ملک کےحکام اور حاضرین محترم اوربالخصوص معززمہمانوں اور یہاں موجود اسلامی ملکوں کے سفارتکاروں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتاہوں ۔
عید مبعث سب کی عید ہے ، یہ فقط مسلمانوں کی ہی عید نہیں ہے ۔ ہرپیغمبر کی ولادت اورہربعثت پوری انسانیت کے لئے ایک نیادن اورعید ہے ۔پیغمبران الہی جوبھی آئے انھوں نے بشریت کے سرگرداں اورپریشان قافلے کو ترقی وکمال علم واخلاق اورعدل وانصاف کی جانب رہنمائی کی اورانھیں انسانی کمال کی منزلوں کے قریب پہنچادیا ۔
پوری تاریخ میں انسانوں نے جوبھی علمی اورعقلی ترقی کی وہ سب پیغمبروں کی تعلیمات کا ہی نتیجہ ہے ۔نظریہ توحید اورعبودیت خداکی بندگي پیغمبران الہی کے ہی دروس سے عبارت ہے انسانی اقدارواخلاق اوراس کی قوت تخلیق جو انسانوں کی حیات کے آگے بڑھنے کی توانائي اسے عطاکرتی ہے اوراسی طرح اس کے اخلاقی فضائل سب کے سب پیغمبران الہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں ۔پیغمبران خدانے انسانوں کے زندگی آمادہ کی اور پھر اس زندگي کو ترقی وتحرک اورکمال میں تبدیل کیا ، اورنبی مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ ) خاتم رسل ،آخری الہی پیغام کے پہنچانے والے اورانسانیت کے لئے لامتناہی شخصیت کے حامل ہیں ۔ہم مسلمانوں کو البتہ اس بات کی قدرسمجھناچاہئے ،ہميں واقعہ بعثت میں غوروفکرکرناچاہئے ، اس سے درس لینے کی ضرورت ہے ہميں چاہئے کہ اس شانداراورپرفروغ ماضی کواپنے آنے والے دشوارمستقبل کےلئے مشعل راہ قراردیں ۔
آج دنیامیں کچھ حقائق ایسے ہيں جوناقابل انکارہيں ۔
پہلی حقیقت اسلامی دنیامیں بیداری ہے ، اس بات میں کوئي شک نہیں کرسکتا ۔ اورپوری دنیامیں مسلمانان عالم خواہ وہ مسلمان ملکوں میں رہتے ہوں یا ایسے ملکوں میں جہاں وہ اقلیت میں ہیں اسلام کی جانب رجحان کا احساس کررہے ہيں اوران کے اندر اسلامی تشخص کی جانب دوبارہ لوٹنے کا احساس پیداہورہاہے ۔آج اسلامی دنیاکے روشن خیال افراد سوشلزم اورمغربی مکاتب فکر سے دل برداشتہ اوربیزارہوکر اسلام کی جانب مائل ہورہے ہيں اوراسلام کی جانب کی ان کارجحان بڑھتاجارہاہے اوروہ انسانیت کے درد کا علاج اسلام میں تلاش کررہے ہيں ۔امت اسلامیہ کا دل آج گذشتہ کئی صدیوں کے مقابلے میں دیکھاجائے تو انتہائی غیرمعمولی سطح پر اسلام کی جانب راغب ومائل ہے ،گذشتہ دسیوں برسوں کے بعد اسلامی ملکوں پر مغرب اورمشرق کے وسیع تر غلیظ ثقافتی اورسیاسی تسلط کے بعد آج اسلامی دنیا کے جوانوں کی نگاہیں اسلام اوراسلامی تعلیمات پرلگی ہوئی ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے ، خود مغرب اورمستکبران عالم نے بھی اس کا اعتراف کیاہے انھوں نے بارہا اس بات کودوہرایاہے کہ کسی بھی ا سلامی ملک میں اگرآزادانہ انتخابات کرائے جائیں توعوام انھیں لوگوں کومنتخب کریں گے جو اسلامی احکامات اورتعلیمات کے پابند اور مروج اسلام ہوں گے ۔ اسی لئے آج مغرب کے ڈیموکریسی کے دعوؤں میں تضاد پیداہوگیاہے ۔ مغرب ایک طرف سے تو جمہوریت اورڈیموکریسی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے اوردوسری طرف اس بات کی بھی جرات نہیں کرپارہاہے کہ ڈیموکریسی کا یہ پرچم اس کے حقیقی معنوں میں اسلامی دنیامیں لوگ بلند کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں اگرعوام کے انتخاب اوران کی آراء کا احترام کیاجائے گا اور عوام کی رائے فیصلہ کن ہوگي تواس میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں کہ اس ملک کی زمام حکومت اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں آجائے گی اورعوام کے نمائندے مسلمان نمائندے ہوں گے ۔
آج مغربی دنیا ، امریکہ ، مغربی سیاستداں ، تھنک ٹینک - صیہونی اورمغرب کے سرمایہ دارحلقے یہ بات اچھی طرح جانتے ہيں کہ فلسطین کے عوام کی یہ عظیم تحریک اسلام کی جانب ان کے رجحان کا ہی نتیجہ ہے ۔ کیونکہ فلسطینی عوام نے اپنی تحریک کا محوراسلام کوقراردے رکھاہے ان کے اندرشجاعت پیداہوگئي ہے اورانھوں نے حقیقی معنوں میں جہاد اورمجاہدت کوگلے لگایاہے ۔جہاں بھی کسی قوم کے اندریہ جذبہ پیداہوگا وہاں کوئی بھی فوجی یاسویلین طاقت ان کا مقابلہ کرنے یاانھیں کچلنے کی توانائی نہیں رکھ سکے گی ۔ اس بات کووہ اچھی طرح جانتے ہيں ۔آج اسلامی دنیاکے واقعات ان تمام حقائق کی تصدیق کرتے ہيں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج عالم اسلام میں اسلامی بیداری ، اوراسلامی تحریک ایک روشن حقیقت ہے ، کوئی بھی اس سے انکارنہیں کرسکتا ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس بیداری اوراسلام کی جانب رجحان اوراس حریت پسندی کی دشمن نمبر ایک استکباری طاقتیں ہیں ۔وجہ بھی معلوم ہے ، کیونکہ اسلام تسلط کا مخالف ہے اغیارکی طاقتوں سے قوموں کی وابستگی کا مخالف ہے ،اسلام علمی وعملی پسماندگي کا جوپچھلی کئی صدیوں سے اسلامی ملکوں پر مسلط کی گئ ہے مخالف ہے ،اسلام اس بات کا مخالف ہے کہ قومیں محض اطاعت کریں اوردوسروں کی اندھی پیروی کرتی رہیں ۔یہ ساری اسلامی تعلیمات استعماری پالیسیوں سے بالکل متضاد ہیں یہ پالیسیاں گذشتہ تقریبا دوسوبرسوں سے استکباری طاقتوں اورمغرب کی طرف سے اسلامی دنیا پرمسلط کی گئیں ۔یہ طاقتیں آج بھی اس علاقے میں اپنے ہی مفادات کوتلاش کررہی ہیں انھیں حاصل کرناچاہتی ہیں ،اسلامی بیداری استکباری طاقتوں کی ان پالیسیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسی لئے یہ طاقتیں اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلامی بیداری کی مخالف ہيں اوروہ اس کی سیاسی اورتشہیراتی مخالفت کرتی ہیں ۔
آج اسلام کے خلاف تمام تشہیراتی ہتکنڈوں کااستعمال ہورہاہے ۔آپ دیکھیں کہ مغربی حکومتیں مسلمانوں اوراسلام کے خلاف جواقدامات کررہيں ان آپ غورکیجئے ۔ ان کی یہ کاروائیاں خواہ وہ امریکہ میں ہوں یا مغرب میں آپ دیکھیں کہ کس قدرپیچیدہ ہيں ۔فن وہنرکے تمام وسائل ان کے پاس ہیں مذموم مقاصد کےلئے انھیں استعمال کیا جارہاہے ۔البتہ اس اسلامی بیداری کے مظہر وہ لوگ نہيں ہیں جوآج اسلامی دنیامیں دہشت گردی کی تصویرپیش کررہے ہیں یا جولوگ عراق میں دہشت گردی اورجرائم کاارتکاب کررہے ہیں یا جولوگ اسلامی دنیامیں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہیں یاجولوگ اپناسب سے بڑامشن مسلمانوں کے درمیان سنی وشیعہ کے نام پر اختلاف اورتفرقہ ڈالناسمجھتے ہیں یہ لوگ کسی بھی قیمت پر اسلامی بیداری کے مظہر نہیں قرارپاسکتے ، یہ بات خود استکباری طاقتیں بھی سمجھتی ہیں جولوگ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام کومغرب کے سامنے ایک دہشت گرد اورشدت پسند ورجعت پسند گروہ کی شکل میں پیش کرتےہیں وہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ حقیقت کچھ اورہے ۔ وہ اسلام ،جس کی بیداری کا عالم اسلام میں آج احساس کیاجارہاہے وہ تفکروتدبر عقل ومنطق غوروفکر خلاقیت کا دین اسلام ہے ،وہ اسلام ہے جو انسانی زندگی کی گتھیوں کوسلجھانے کے لئے راہ حل پیش کرتاہے نہ کہ سخت گیراوررجعت پسند اسلام ، یہ چشم بستہ اسلام اورہرطرح کی آزادی فکرسے عاری اسلام نہیں ہے ، اس بات کواستکباری دنیابھی سمجھتی ہے ۔
آج اسلامی جمھوریہ ایران کا نعرہ فکری آزادی، علم ومعرفت کی توسیع ،انسانی حقوق واختیارات کا احترام اور اس پر توجہ اور لوگوں کےدرمیان مہربانی اورمحبت کارواج ہے ، یہ سب اسلام کا نعرہ اورپیغام ہے دنیااس کودیکھ رہی ہے اوراس کی تلاش میں ہے ۔
ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی منطق عقل وفکرکی منطق روشن بینی پر مبنی عمل کی منطق انسانیت وانسانی اقدارکی منطق انسانی اخلاق کی منطق اوراخلاقی فضائل کی منطق تھی ، دنیااس چیزکے پیچھے بھاگ رہی ہے اس کی تلاش میں ہے ۔اسلامی بیداری کے مظہروہ لوگ نہيں ہیں جواپنا کرخت اورسپاٹ چہرہ لئے ہوئے پوری دنیاسےملتے ہیں اورحتی مومنوں اورمسلمانوں سے بھی ان کے ملنے کا یہی اندازہوتاہے یہ وہ لوگ ہیں جوکچھ لوگوں کوکافرگردانتےہیں اوران کی تکفیر کرتے ہیں ، کچھ لوگوں پر قوم پرستی کاالزام لگاکرتوکچھ لوگوں پر قبائلی نظریات کا حامل ہونے کاالزام تھوپ کراورکچھ لوگوں پر بلا جواز حملہ کرتے ہيں ۔ان عناصرکا وجود پورے طورپر مشکوک ہے کہ کیا ان کا یہی نظریہ بھی ہے ، یا پھر وہ اسرائیل امریکہ اوربرطانیہ کے خفیہ اداروں کے ایجنٹ ہيں جواس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہيں۔ان عناصر نے غفلت کے شکارچند افراد کواپناآلہ کاربنالیاہے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکارنہیں کیاجاسکتا ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیااپنی پوری قوت کے باوجود بھی اسلامی بیداری پر غلبہ نہیں پاسکی ہے ، وہ اسلامی دنیا کےمختلف علاقوں میں اسلام ، اسلامی جمھوریہ ، عظیم اسلامی مصلحین اوراسلامی احکامات اورتعلیمات کے خلاف پروپیگنڈے کررہے ہیں ، مغربی ملکوں نے اسلام کوگالیاں دینے کےلئے کرائےکے ایجنٹوں کوخریداہے وہ اپنے ان ایجنٹوں کے ذریعہ اسلامی واسلامی احکامات کوموردالزام ٹھہراتےہيں ،انھوں نے فوجی طاقت کا بھی سہارالیا ،اقتصادی حربوں کوبھی آزمایا اورذرائع ابلاغ کے ذریعہ انتہائي عجیب وغریب اورحیرت انگیزطورپروسیع پروپیگنڈہ کیا لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہيں ہوئی ۔اسلامی ملکوں میں مسلمان جوانوں کازیادہ رجحان اسلام اوراسلامی آئیڈیالوجی کی جانب ہے اورمسلمانوں کے دلوں ميں ذوق وشوق روزبروزبڑھتاجارہاہے ۔اورجوچیزان حقائق کی متقاضی ہے وہ یہ کہ اسلامی دنیاکو ان حقائق کی قدرکرنی چاہئے ۔
آج اسلامی دنیا کے پاس امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے اس کے علاوہ اورکوئي چارہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے محورپر اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرے اوریہ کہ دشمنوں اورسامراجی طاقتوں کے مفادات اور عزائم کی نفی کی جائے ۔سامراجی طاقتوں کامقصداسلامی تشخص اورقومیت کونابود کرناہے اوروہ یہ کام خاص طورپر مشرق وسطی میں کرناچاہتی ہیں اوران کے عزائم کا مقابلہ مزید آپسی اتحاد مزید ہم آہنگی اسلام سے تمسک اسلام کی ترویج اورامریکہ وسامراجی طاقتوں کی توسیع پسندیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے سے ہی ممکن ہوسکتاہے اوراس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔آج امریکہ کوپوری دنیامیں نفرت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اس کادنیاوالوں کی نظروں میں ایک کریہہ چہرہ ہے آج امریکیوں نے اپنے ہی اعمال وکردارسے اپنے ہی نعروں کوپیروں تلے روند دیاہے آج عراقی عوام پرامریکیوں کادباؤ ، عراق میں پائی جانے والی بدامنی ، قاتل صیہونیوں کےلئے ان کی ہمہ جانبہ حمایت ، افغانستان میں امریکیوں کے مظالم اور اسلامی ملکوں پرامریکیوں کاپڑنےوالادباؤ ان ساری باتوں کی وجہ سے آج پوری دنیامیں امریکہ کاچہرہ ایک منفورچہرے میں تبدیل ہوچکاہے اورپوری دنیاکے عوام اس سے نفرت کرتے ہيں ۔آج اسلامی دنیا اس توسیع پسند طاقت کے مقابلے میں کھڑی ہوسکتی ہے اوراس کوکھڑابھی ہوناچاہئے اوراس کے علاوہ کوئی اورچارہ بھی نہيں ہے ۔
اسلامی حکومتوں کو اپنے قومی مفادات کے تحفظ ،اپنی قوموں کےاعتماد کوحاصل کرنے اوراپنی تاریخی ذمہ داریوں کواداکرنے کےلئے امت اسلامیہ کے تشخص کے بنیادی نقاط پر تکیہ کرناہوگا ملت فلسطین کا کھل کردفاع کرناہوگا ،عراق کی مکمل خودمختاری اورعراق کانظم ونسق اس ملک کے عوام کوہی سپردکئے جانے کے مطالبے کی حمایت کرنا ہوگي اسلامی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ افغانستان کے عوام کا دفاع کریں یورپ افریقہ اورایشیاء میں مظلوم مسلمان قوموں کی حمایت کرنی چاہئے اسلامی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ اپنے ملکوں میں قرآنی تشخص اورقرآنی احکام کادفاع کریں ایک دوسرے کےساتھ اپنے تعلقات مضبوط اوردوستانہ بنانے کی ضرورت ہے آپس میں مخلص ہونے کی ضرورت ہے انھیں چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی مددکریں پھرکہیں جاکرامت اسلامیہ خود کواستکباراورسامراج کے چنگل سے نجات دلاسکے گی اوران دھمکیوں اورخطرات کامقابلہ کرسکتی نجات پاسکتی ہے جوعالمی سامراج کی طرف سے اسے لاحق ہے
ہماری دعاہے کہ خداوندعالم ہمیں بیداری عطاکرے ، انشاءاللہ ہمیں ہمارے فرائض سے آشناکرے اورحضرت بقیہ اللہ( ارواحنافداہ )کی دعائیں پوری امت اسلامیہ بالخصوص ایران کی عظیم قوم کے شامل حال کرے ۔
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو چوراسی ہجری شمسی مطابق تیس اگست دو ہزار پانچ عیسوی کو ہفتہ حکومت کی مناسبت سے ملاقات کے لئے آنے والے صدر، کابینہ کے ارکان اور حکومتی عہدیداروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں صدرجمہوریہ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے نعروں کی تعریف کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں اساتذہ کو خوش آمدید کہتا ہوں، ہمارا یہ اجلاس ایک لحاظ سے علامتی اجلاس ہے اور ایک لحاظ سے ہمارے فریضے کا حصہ ہے۔ علامتی اس لحاظ سے کہ ہر سال اساتذہ کے ساتھ ہمارا اجلاس اس تعظیم اور احترام کی علامت ہے جو اسلامی نظام نے معاشرے میں اساتذہ کو دیا ہے۔ فریضے کی ادائگي اس لحاظ سے کہ یہ اجلاس آپ کا ہے اس میں آپ کو گفتگو کرنا ہے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جسے ہم نے تشکیل دیا ہے۔ اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہمارے اجلاس ہوتے رہے ہیں جن میں میں نے نہیں بلکہ اجلاس میں حاضر کسی فرد نے خطاب کیا ۔ اس کا بڑا اچھا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ کیوں کہ اہل نظر افراد کی زبانی ان کے پیش نظر اہم مسائل سننے کو ملے۔ ان اجلاسوں کی تفصیلات ٹیلی ویژن سے نشر کی جاتی ہیں انہیں عوام بھی دیکھتے ہیں اور عہدیداران بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ میرے لئے بھی بہت مفید ہے۔ اب تک اساتذہ کے ساتھ اس نوعیت کا کوئي اجلاس نہیں ہوا۔ ایک دو ہفتہ قبل کسی معلم نے خط ارسال کرکے یا پیغام بھیج کر اعتراض کیا تھا کہ فلاں صاحب اساتذہ کے ساتھ اس قسم کا اجلاس کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں یہ بات مناسب محسوس ہوئی اور اچانک اس اجلاس کا موقع آ گیا۔ ہم نے پہلے یہ منصوبہ نہیں بنایا تھا کہ یہ اجلاس کرمان میں ہو بلکہ اس علاقے کا سفر پیش آ گيا اور میں ہر سال ہفتہ اساتذہ کے موقع پر اساتذہ کےساتھ جلسہ کرتا ہوں تو اس بار یہ موقع یہاں پیش آیا۔ تو یہ جلسہ آپ حضرات کا ہے۔
ابتدا میں میں چند جملے عرض کر دوں جس کے بعد، احباب اجلاس کو آگے بڑھائیں گے ۔
اساتذہ کے ساتھ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے جو کہ میرے لئے بڑا عجیب اتفاق ہےکیوں کہ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں کرمان سے میرا خاص تعلق اور رشتہ ہے۔ البتہ دیگر شعبوں میں بھی کرمان کے باسیوں سے میرے روابط رہے ہیں، طالب علمی اور جد و جہد کے زمانے میں ہمارے بہت سے کرمانی رفقا تھے مثال کے طور پر جناب ہاشمی رفسنجانی، جناب حجتی کرمانی، جناب باہنر اور اسیطرح دیگر افراد کرمان کے ہمارے وہ احباب بھی تھے جو دینی مدرسے کے طالب علم نہیں تھے ان سے میرے بڑے گہرے تعلقات رہے مثال کے طور پر جناب اسلامیت اور بعض دیگر افراد۔ البتہ کرمان سے تعلیم و تربیت کا جو میرا رشتہ اور رابطہ ہے وہ ان سب سے پرانا ہے۔ میں مشہد میں جب اسکول جاتا تھا تو اس وقت ہمارے استاد مرحوم مرزا حسین تدین کرمانی تھے۔ مشہد میں یہی ایک اسکول تھا جس میں مذہبی اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔ اس اسکول کا نام دار التعلیم دیانتی تھا اور میں نے اس مدرسے میں چھے سال جناب تدین سے تعلیم حاصل کی ۔ مرحوم تدین واقعی ایک بڑی اہم شخصیت تھی ان کے سلسلے میں میرا یہ خیال طالب علمی کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ اس وقت بھی تھا جب میں صدر تھا اور وہ مجھ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے۔ میں نے ان پر نظر ڈالی مجھے ایک بڑی با وقار اور محترم شخصیت نظر آئی۔ آپ معلم بھی تھے اور منتظم بھی۔ وہ اسکول کے صحن میں ہاتھ میں ایک چھڑی لئے جب چلتے تو ان کے چہرے پر خاص رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ ان سے لوگ محبت کرتے تھے۔ میں اور دیگر بچے بھی ان سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ جب اس اسکول میں میری تعلیم مکمل ہو گئي تو میرے ایک بھائی نے اس اسکول میں داخلہ لے لیا، تاہم بعد میں بھی ان سے میرا رابطہ رہا۔ ہر مہینے میں اپنے بھائي فیس دینے اسکول جاتا تھا تو بھی میں ان کو اسی وضع قطع میں دیکھتا تھا وہی وقار اور وہی احترام۔ ان کی خاص ہیبت تھی۔ غرضیکہ تعلیم و تربیت کے تعلق سے کرمان اور کرمانیوں سے میرا جذباتی لگاؤ اور رشتہ بہت پرانا ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے۔
البتہ اس کے بعد بھی بعض کرمانی اساتذہ سے میرا رابطہ رہا ہے۔ سن انیس سو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور ستر کے عشرے کے اوائل میں جب میں مذہبی تقاریر کے لئے کرمان آتا تھا تو بعض مذہبی اور انتہائی فعال نوجوان میرے پاس رہتے تھے ان میں سے ایک جناب محمد رضا مشارزادہ تھے جو استاد تھے۔ بہرحال اساتذہ سے میرے اچھے روابط ہیں۔
آپ حضرات جو یہاں پر موجود ہیں وہ صوبے کے اساتذہ کے طبقے کے نمائندہ ہیں ورنہ صوبے کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں ہمارے نوجوان بہت زیادہ فعال ہیں لہذا صوبے کی سطح پر قومی اور عوامی امور کو آگے بڑھانے میں آپ اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔
میں اساتذہ کے طبقے کا دل سے احترام کرتا ہوں اور آپے کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔ میری تمنا یہ ہے کہ یہ احساس و ادراک پورے معاشرے بالخصوص منصوبہ ساز اداروں اور شعبوں میں موجود رہے اور سب کو اساتذہ اور تعلیم و تربیت کی اہمیت کا صحیح اندازہ رہے۔
اجلاس میں بعض اساتذہ اور دانشوروں نے اپنے خیالات پیش کئے جس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے دوبارہ حاضرین سے خطاب فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میری نظر میں یہ اجلاس بہت اچھا رہا۔ بعض احباب نے فرمایا کہ ان باتوں کو ہم جانتے ہیں یہاں ہم آپ کے خطاب سے محظوظ ہونے آئیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ نہیں اساتذہ ان باتوں سے آگاہ ہیں اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ اساتذہ کی باتیں ہیں جو دوستوں نے بیان کی ہیں۔ یہ باتیں متعلقہ حکام تک بھی پہنچیں گی اور عوام بھی انہیں سنیں گے۔ میرے لئے بھی یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان باتوں اور تجاویز کو نئی سمت ملے اور موثر اقدامات کئے جائیں۔
اساتذہ میں سے دس افراد نے خطاب کیا ۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اجلاس میں موجود ہمارے بہت سے بھائي بہن کچھ باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے یہ باتیں بہت اہم ہوں یا بہت اہم نہ ہوں لیکن ان کے خیال میں یہ باتیں بیان کرنے والی ہیں۔ البتہ دامن وقت تنگ ہے۔ اگر ہمارے سارے دوست اجلاس میں تقریر کرنا چاہیں تو ایک یا دو گھنٹے کا وقت کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ پینتیس چھتیس گھنٹے کے ایک پروگرام کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لہذا اگر آپ کی نظر میں کچھ ضروری باتیں ہیں تو آپ تحریر شکل میں مجھے دے دیں میں متعلقہ حکام سے کہوں گا کہ ان پر غور کریں۔
جو تجاویز اساتذہ نے پیش کیں ان میں بعض ایسی ہیں جن پر عملدرآمد تدریجی ہے۔ اساتذہ کی منزلت جیسا کہ بعض احباب نے فرمایا، حکم تقرری یا کسی قانون سے پیدا نہیں ہوتی یہ منزلت ایک تدریجی عمل کے تحت وجود میں آتی ہے بشرطیکہ اس پر پورا ایقان ہو۔ یہی کام جو ہم انجام دے رہے ہیں اس غرض سے ہے کہ معاشرے میں تعلیم و تربیت اور اساتذہ کی منزلت پہچانی جائے۔ لہذا کسی حکم اور قانون سے یہ ہدف حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں آسودہ بنانے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں خود اساتذہ کی ہیں کچھ تعلیمی شعبے کے عہدیداران کی اور کچھ ذمہ داریاں ملک کے منصوبہ ساز حکام کی ہیں۔
ریٹائرڈ اساتذہ اور تنخواہوں کے سلسلے میں جو تجاویز آپ نے پیش کیں ان کا ماہرین کے ذریعے جائزہ لئے جانا چاہئے اور پھر نتائج سے حکومت کے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ ایک استاد کو قانون قاعدے کے مطابق پورا حق ملنا چاہئے۔ البتہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے اس سے اصل کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہم مجریہ کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم یہ باتیں وزارت تعلیم و تربیت کو گوش گذار کریں گے پلیننگ و مینیجمنٹ ادارے کو اس سے آگاہ کریں گے۔ خود صدر محترم سے یہ بات کہیں گے۔ متعلقہ عہدیداران سے بھی سفارش کی جائے گی۔ صوبائی عہدیداروں سے بھی اس موضوع پر بات ہوگی۔ البتہ جہاں تک انتظامی امور اور مجریہ کے کام کا تعلق ہے قائد انقلاب کا اس میں کوئي رول نہیں ہوتا۔ یہ کام حکومت کا ہے، یہ حکومت کا فریضہ ہے اور صحیح روش یہ ہے کہ یہ کام حکومت انجام دے۔
جو تجاویز پیش کی گئيں بنیادی طور پر بہت اچھی تجاویز تھیں۔ ان سے تعلیم و تربیت کے امور میں آپ کی مہارت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں یہ تجاویز اپنے شعبے کے حوالے کروں گا کہ ان پر غور کیا جائے۔ انشاء اللہ جو تجاویز قابل عمل اور ممکن ہیں ان پر عمل کیاجائے گا۔
میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تعلیم و تربیت اور اساتذہ کے سلسلے میں میرا ایک بنیادی اور اصولی نظریہ ہے انگریزی نوازوں کے بقول آئيڈیالوجیکل نظریہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ سیاست کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کی مدد کی جائے اور ان کی ضروریات کی تکیمل کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں کوئي بھی مثبت یا منفی تبدیلی اس وقت تک نہیں آتی جب تک کہ اس میں اساتذہ اور شعبہ تعلیم و تربیت کا کردار نہ ہو۔ اگر کسی معاشرے کا تعلیم و تربیت کا شعبہ فعال، خلاقی صلاحیتوں کا حامل اور ذمہ دار ہے تو قومی سطح پر بڑے بنیادی اثرات مرتب ہوں گے۔ البتہ سیاسی جماعتیں اور حلقے بھی کوتاہ مدت اہداف مثلا فلاں انتخاب اور فلاں خواہش کے تحت تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں لیکن ان چیزوں کی اہمیت بہت کم ہے۔ یہ تعلیم و تربیت اور استاد کی تحقیر ہے۔
نئي نسل کے تشخص کا معمار استاد ہوتا ہے یعنی اس کا کردار خاندان اور والدین سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ آپ کے بچے بھی اسکول جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ آپ کے بچے کے لئے استاد کی بات وحی کا مقام رکھتی ہے۔ بچہ گھر آتا ہے تو کچھ کام کرتا ہے کچھ کام نہیں کرتا۔ ورزش کرتا ہے یا آرام کرتا ہے یا کوئي اور کام کرتا ہے، کیوں، اس لئے کہ اس کے استاد نے ایسا کہا ہے۔ ماں باپ یہی باتیں بارہا کہہ چکے ہیں لیکن اس کا کوئي اثر نہیں ہے لیکن استاد کی بات کا بڑا اثر ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کے ذہن میں بسا اوقات استاد کی بات والدین کی بات سے زیادہ اہم اور قابل ترجیح ہوتی ہے ۔ تو یہ ہے معلم کا کردار۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچے کی شخصیت سنورے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ خود اعتمادی اور سماجی اقدار سے سرشار ذمہ داریوں کا احساس کرنے والی با صلاحیت اور کارہای عظیم پر قادر تخلیقی صلاحیتوں کی حامل نسل جس میں انسیت و ہمدردی کا جذبہ ہو جو منفی جذبات سے پاک ہو، ایسی نسل جو قربانیاں دینے کو تیار ہو وہ نسل جو اسراف اور فضول خرچی کو ناپسند کرتی ہو، ہمارے معاشرے میں ستاروں کی مانند جگمگائے تو اس کا راستہ تعلیم و تربیت ہی ہے۔ ایسی نسل کے لئے تعلیم و تربیت کے شعبے کو چاق و چوبند ہونا پڑے گا۔
البتہ ہمارے احباب نے تعلیم و تربیت کے شعبے کی افرادی قوت، دفتری نظام اور مینیجمنٹ پر روشنی ڈالی، یہ سب بہت اہم ہے۔ اساتذہ کی مالی ضرورتوں کی تکمیل اور ان کو روزمرہ کی زندگی کی فکروں سے آزاد کرنا بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئي شک نہیں، اس سلسلے میں تجاویز پیش کی گئي ہیں اور کام ہو رہا ہے۔ البتہ میں یہاں موجود اپنے بھائيوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک دیندار اور اپنے فرائض سے آگاہ معلم کو مادی مسائل فرائض کی ادائگي سے روک نہیں سکتے۔ میری اس بات کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ اساتذہ کی زندگي کی ضروریات کے سلسلے میں کوئی کوتاہی کی جائے، حکومت کے اختیار میں جو کچھ ہے وہ انجام دیا جانا چاہئے لیکن میری خواہش یہ ہے کہ مشکلات آپ کے پختہ ارادوں اور تعلیمی جذبے کو متاثر نہ کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کوشش کرے ساتھ ہی آپ کو بھی اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ ملک کا مستقل آپ کے ہاتھوں میں ہے اساتذہ کو چاہئے کہ حقیقی معنی میں اپنے فرايض اور منزلت کی پاسداری کریں ۔ استاد کی منزلت یہ نہیں ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور لوگ اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیں، استاد کی منزلت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کے تاریخی اور علمی عمل میں موثر کردار ادا کرے۔
اگر اساتذہ یہ کام کر سکے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ٹیچنگ کے حقیقی فریضے کو ادا کیا ہے۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ اس شعبے کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ایک مشاورتی کمیٹی کی ضرورت ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں کسی ایک شخص کے ذاتی نظریات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ ورنہ ممکن ہے کہ اس شعبے میں کوئي مغربی ممالک کی پیروی کرتے ہوئے محسوس کرے کہ نوجوانوں کو جنسیات کی تعلیم دینا چاہئے اور اچانک اس موضوع پر کوئي کتابچہ بھی شائع ہو جائے۔ لیکن سوال یہ ہےکہ اس موضوع پر کہاں تبادلہ خیال کیا گيا۔ اس سلسلے میں کہاں فیصلہ کیا گیا۔ کہاں اس کا جائزہ لیا گيا۔ ہم کب تک مغرب کی تقلید کرتے رہیں گے۔ کیاں جنسی امور میں مخصوص روش اختیار کرکے مغرب والوں کو کوئي فائدہ ہوا ہے؟ اس مسئلے میں وہ آج پریشان ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں بوڑھوں، مردوں اور عورتوں پر دینی تعلیمات کے نتیجےمیں حیا و عفت کا پاکیزہ حصار ہے۔ تو کیا ہم اس پاکیزہ پردے کے اپنے ہاتھوں سے چاک کر دیں۔ اس کو کون سی عقل سلیم قبول کرےگی۔ البتہ اس کا تعلق آپ لوگوں سے نہیں ہے، میں آپ کی خدمت میں بیٹھ کر متعلقہ افراد کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی ہوتا کہ کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ بچوں کی پہلی کلاس سے ہی انگریزی کی تعلیم دی جائے۔ کیوں؟ جب یہ بڑے ہو جائیں گے تو جس کو ضرورت کا احساس ہوگا انگریزی زبان سیکھےگا۔ امریکہ اور برطانیہ کتنے وسیع پیمانے پر پیسے خرچ کر رہے ہیں، تاکہ کسی قوم میں اپنی زبان کو آسانی سے رائج کر دیں؟ زبانی فارسی کے لئے دنیا میں ہمارے سامنے کتنی مشکلات ہیں ؟ دنیا میں ہمارے کلچر ہاؤس کام کر رہیں، ہمارے ثقافتی مرکز کے عہدیدار کو قتل کر دیا جاتا ہے ہماری ثقافتی سرگرمیوں کے لئے متعدد مسائل پیدا کئے جاتے ہیں؟ کیوں کہ ہم فارسی سکھانا چاہتے ہیں۔ اور ہم آپنے ہاتھوں سے انگریزی زبان کی ترویج کرتے ہیں جو مغربی کلچر کی ترویج کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ البتہ میں غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے حق میں ہوں ۔ ایک ہی زبان نہیں آپ دس غیر ملکی زبانیں سیکھئے اس میں کوئي قابل اعتراض بات نہیں ہے لیکن یہ کام معاشرے کی ثقافت کا حصہ نہ بن جائے۔
آج کچھ ممالک ہیں جن کی قومی زبان ، سرکاری زبان نہیں۔ آج ہندوستان اور پاکستان کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔ ان ممالک کے عدالتی امور کی زبان انگریزی ہے۔ جبکہ ان کے پاس ہندی اور اردو کے علاوہ سیکڑوں اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان میں اردو اور ہندوستان میں ہندی رائج ہے۔ لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ کس طرح ایک غیر ملکی زبان آئي اور اس نے ان کی قومی زبان پر غلبہ پالیا؟ اسی طرح یہ لوگ داخل ہوتے ہیں۔ برطانیہ نے ہندوستان میں بے تحاشا پیسے خرچ کئے اور نتیجے میں حالات موجودہ صورت اختیار کر گئے۔ بعض افریقی ممالک کی زبان، پرتگالی یا اسپینش ہے۔ وہ اپنی سرکاری زبان پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ یہ مناسب ہے؟ ایک غیر زبان کا قومی زبان پر غالب ہو جانا ٹھیک ہے؟ زبان کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم اسی کو کمزور کر دیں؟ کیوں؟ اس لئے کہ فلاں صاحب کا نظریہ یہ ہے۔ مدارس اور بچے آزمائش گاہ کے چوہے نہیں ہیں کہ ہم ان پر تجربہ کریں اور دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لوگوں کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جا سکتا اس بنا پر دانشوروں اور مفکرین کا ایک مرکز قائم کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت کے شعبے میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
میں جس بات کی پوری سنجیدگي سے حمایت کرتا ہوں وہ استاذہ کی تعلیمی سطح کو جہاں تک ممکن ہو بہتر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں بعض تجاویز بھی پیش کی گئي ہیں مثال کے طور پر اساتذہ کے درمیان تحقیق، تصنیف کی ترویج۔
ان سب سے بڑھ کر دینداری ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی اور آئندہ نسل آپ سے راضی اور خوش ہو اور آپ کو اچھے نام سے یاد کیا جائے تو آپ بچوں کو دیندار بنائیے۔ بچوں کی دیندار بنانا صرف دینی تعلیم دینے والے استاد کا کام نہیں ہے بلکہ ریاضی کا استاد، فیزکس کا استاد اور ادبیات کا استاد بھی اپنے شاگردوں کے دلوں میں دینداری کی شمعیں روشن کر سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ دینیات کے استاد سے زیادہ موثر واقع ہوتا ہے۔ جب دینیات کا استاد کلاس میں آتا ہے تو دینی امور کی تعلیم اس کا فریضہ ہے، بچے بلکہ سبھی انسان فرائض کو اپنے شانوں پر بوجھ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہ استاد بچوں کو کچھ ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہے۔ اگر وہ اس انداز بیان اور اس کی زبان میں شیرینی ہو اور بہت اچھا استاد ہو تو کسی حد تک وہ اپنی بات شاگردوں کے دلوں میں اتار سکتا ہے، اور اگر یہ خصوصیات نہ ہوئيں تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔ لیکن فزکس کا استاد، کیمسٹری کا استاد، ریاضیات کا استاد، ادبیات فارسی کا استاد، تاریخ کا استاد اپنی گفتگو کے دوران صرف ایک لفظ سے بچے اور نوجوان کے دل و دماغ کو متاثر کر سکتا ہےاور اسے دیندار بنا سکتا ہے۔ آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں بھی اور بعد کے مراحل میں بھی۔ بچوں کو دیندار بنائيے۔ بچوں کو دیندار بنانا وہ اہم ہدف ہے جس سے ملک کا مستقبل سنور سکتاہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک صنعتی اور دیگر شعبوں میں ترقی کرے علمی پیش رفت کرے اور علاقے میں پہلے نمبر پر رہے تو یہ ہدف دینداری کے جذبے کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ جب ایمان ہوتا ہے تو انسان ایمان کی سمت حرکت کرتا ہے اور تمام مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے۔
انقلاب کی جدوجہد کے دوران جب جیل میں مجھے بہت زیادہ مشکل صورت حال در پیش ہوتی تھی تو مجھے کمیونسٹوں پر رحم آتا تھا میں کہتا تھا کہ ان کا تو کوئي خدا نہیں ہے۔ جب ہم بہت زیادہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہیں دعا کرتے ہیں اور دو آنسو بہا لیتے ہیں ہمارے دلوں میں امید کی کرن موجود ہے۔ لیکن ان کمیونسٹوں کے پاس یہ نہیں ہے۔ انسان کے پاس اگر خدا ہے تو امید اور تابناک مستقل بھی ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تیس فروردین تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق انیس اپریل انیس سو پچانوے عیسوی کو فوجیوں کے ایک اجتماع سے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی خصوصیات اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے ان کے گہرے لگاؤ پر روشنی ڈالی۔ آپ نے انقلابی تحریک اور فوج کے تعاون کا جائزہ لیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سولہ فروردین تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پانچ اپریل سن انیس سو پچانوے عیسوی کو ادارہ حج و زیارات کے عہدہ داروں اور کارکنان کے اجلاس سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں حج کے اہم دینی و سماجی نکات پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں خاص ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور اس دشمنی کی وجوہات کا بھی ذکر کیا۔
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد لللہ رب العالمین والصلاۃ و والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
میں خدا وند عالم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے نئے سال کے پہلے دن یہ توفیق عطا فرمائی کہ آپ جیسے با ایمان، خدا پرست، اور اہل بیت پیغمبر سے عقیدت رکھنے والے بھائي بہنوں کے ساتھ، فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ سب سے پہلے تو میں اپنے امام ہشتم کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انشاء اللہ جذبہ شوق سے سرشار آپ کے دل بھی اس عظیم بارگاہ میں فیوض و نور الہی کے مستحق قرار پائيں گے۔
حال و مستقبل کی تعمیر قوم نے کی ہے اور کر رہی ہے
اس اجتماع میں جو شہر مشہد کے معزز عوام اور ديگر شہروں سے آنے والے زائروں سے سال نو کے موقع پر منعقد ہورہا ہے، کچھ ایسے موضوعات پر روشنی ڈالنی ہے جو ملک اور قوم و ملت کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس پیغام پر بھی روشنی ڈالنی ہے جو سال نو کی مناسبت سے ایرانی قوم کی خدمت میں پیش کیا گيا اور اسی طرح دو دیگر موضوعات پر جن میں ایک مجوزہ صدارتی انتخابات ہیں اور دوسرے دشمنوں کی سازشوں اور چالوں کو نقش بر آب کرنا ہے جو وہ ہماری قوم کے خلاف آزما رہے ہیں۔
جہاں تک پیغام کا سوال ہے تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمام شعبوں میں اور ہر اس میدان میں جو ایرانی قوم کے شایان شان ہے پیش رفت و ترقی کے لئے ہماری قوم کو یکجہتی اور عمومی تعاون و شراکت کی ضرورت ہے۔ ملک، عوام کا ہے مستقبل ایرانی قوم کی ملکیت ہے۔ حال و مستقبل کی تعمیر قوم نے کی ہے اور کر رہی ہے، لہذا اس سال کو قومی یکجہتی و عوامی مشارکت کا سال قرار دیا جانا تمام امور میں قوم کے اہم ترین مسائل کی جانب اشارہ ہے، یعنی تعاون، بھائی چارہ، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ، دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور اس سمت میں قدم بڑھانا جو قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے لازم ہے۔
حکام کے درمیان عوامی خدمت کے لئے مقابلہ آرائي ہو
ہر سال کو کسی عنوان سے منسوب کرنا اور ہر سال کے لئے کسی مخصوص نصب العین کا تعین اور اسی ساتھ نئے سال کا آغاز، محض رسم کی ادائگی نہیں ہے، البتہ ناموں کی اہمیت نہیں ہوتی اہمیت ان کے مفاہیم کی ہوتی ہے لیکن سال کو منسوب کرنے کا یہ سلسلہ ہمیں، ہماری قوم کو اور حکام کو یہ بتاتا ہے کہ ہمارے اہداف کیا ہیں ہماری ضروریات کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ علوی کردار کا سال، ایرانی قوم کے عظیم مقصد اور حکام و عہدیداران کے عظیم فرائض کی نشاندہی کرتا ہے۔ خدمت کا سال ہمیں اس عملی خاکے کی جانب متوجہ کرتا ہے جس پر ہم سب کو عمل پیرا ہونا چاہئے۔ یہ اہداف در حقیقت ہم عہدیداران سے عوام کے مطالبات ہیں۔ اگرسماجی انصاف کی بات ہوتی ہے یا نئے علوم کی تخلیق اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی عوامی تحریک کا تذکرہ ہوتا ہے یا آزاد فکر و بیان کی بات ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام اور حکام یہ احساس کریں کہ اس شعبے میں ان کے کچھ فرائض ہیں۔ ملک کو ان اہداف کی ضرورت ہے۔ البتہ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ اہداف پورے طور پر عملی جامہ نہیں پہن سکے تاہم اس سمت میں کارہای نمایاں انجام پائے۔ ہر نیا سال، گزشتہ سال کے تجربات کے سہارے قوم اور حکومت کو بلند اہداف کی جانب لے جانے میں مددگار ثابت ہونا چاہئے اور ہمارے قدموں میں مزید استحکام و ثبات کا باعث بننا چاہئے۔
ہماری قوم اور ملک کی نگاہیں مسلسل علوی کردار اور سماجی انصاف کے قیام پر مرکوز رہی ہیں، اور ہونا بھی یہی چاہئے ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ہماری قوم کو اس بات کی ضرورت ہے کہ حکام کے درمیان عوامی خدمت کے لئے مقابلہ آرائي ہو ۔ ہماری قوم کی ضرورت یہ ہے کہ حکام اسے جواب دینے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہیں۔ عوام میں سوال اٹھانے کا جذبہ بیدار رہنا چاہئے۔ اہداف محض نعرے نہیں ہیں بلکہ یہ ہم عہدیداروں کے فرائض کے مختلف پہلوؤں اور اسی طرح عوامی تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
تخریبی اقدامات، بد گمانیاں اور ناامیدی پیدا کرنے کے بجائے سعی و کوشش اور عوامی خدمت کے سلسلے میں مقابلہ ہونا چاہئے۔ بعض افراد ہیں جو عوام کے سلسلے میں اپنے فرائض کا دار و مدار قوم کی ضروریات اور اعلی اہداف کو قرار نہیں دیتے۔ ہماری عظیم، شجاع اور مومن قوم اسی وقت اپنے عظیم اہداف تک رسائي حاصل کر سکتی ہے جب اس میں نامیدی اور مایوسی پھیلانے کے بجائے نوجوانوں کے سامنے تابناک مستقبل کا خاکہ کھینچا جائے اور امید کی کرن پیدا کی جائے۔ حکام کے درمیان بد گمانی اور غلط فہمی کے بجائے، اخوت، اتحاد ، مساوات اور تعاون کو فروغ دیا جائے اور پھر حکام یہ جذبہ عوام میں پھیلائیں۔
ہماری قوم اسی صورت میں اپنے اہداف تک پہنچ سکتی ہے اور اپنے راستے کی گوناگوں مشکلات کو دور کر سکتی ہے کہ جب حکام کے درمیان ایمان و جہاد کو اقدار کا درجہ حاصل ہو جائےگا۔ اس جہاد سے مراد علمی جہاد ہے،سماجی انصاف کا جہاد ہے ، اقتصادی جہاد ہے اور انتظامی صلاحیتوں کا جہاد ہے۔ ملک کے عہدیداران اور ذمہ داران اور پھر ان کے بعد عوام جب ان اہداف پر توجہ دیں گے تو اعلی مقاصد کی جانب ملک پوری رفتار سے آگے بڑھے گا۔ اس سال خاص طور پر قومی یکجہتی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو صدارتی انتخابات کے لئے کہ جو ہمارے سامنے ہیں اور دوسرے اس لئے کہ ایرانی قوم اپنی یکجہتی اور وسیع مشارکت سے ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائے گي۔ صدارتی انتخابات میں تین مہینے سے کم کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں جو اس مدت میں عوام کے سامنے پیش کی جائيں گي۔
ملک عوام کی خواہشات اور ان کے نظریات پر استوار ہے
آج میں اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ صدارتی انتخابات میں کھلی آنکھوں کے ساتھ شرکت اور عوام کے دانشمندانہ انتخاب، ملک کے مستقبل میں عوامی مشارکت اور تعاون کے مترادف ہے۔ ہمارا ملک عوام کی خواہشات اور ان کے نظریات پر استوار ہے۔ گذشتہ چھبیس سال کے عرصے میں دشمن اور موقع پرست عناصر وطن عزیز کو نقصان اور گزند پہنچانے میں اس لئے ناکام رہے ہیں کہ مختلف میدانوں میں عوام بھرپور انداز میں موجود رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے جشن یا یوم قدس کے جلوسوں میں آپ کی وسیع شرکت اسی طرح گزشتہ برسوں کے انتخابات میں آپ کی فعالیت ملک کی سلامتی کی ضامن بن گئی۔ ملک کے مستقبل کی تعمیر میں شرکت در اصل ملک کی قیادت میں عوامی کردار کا مقام رکھتی ہے اور ساتھ ہی بڑے بڑے دشمنوں کی طولانی مدت سازشیں بھی اس سے نقش بر آب ہو جاتی ہے۔
انتخابات حق بھی اور فریضہ بھی
دوسری بات یہ کہ انتخابات قوم کا حق بھی ہے اور ایک قومی فریضہ بھی۔ اسلامی جمہوری نظام نے سامراجی طاقتوں کے مسلط کردہ نظاموں پر خط بطلان کھینچ دیا اور ملک کے نظام میں عوام کے کردار کو نمایاں کیا، تو یہ ہر فرد کا حق ہے کہ انتخاب کرے اور ملک کے سربراہ کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کرے۔ دوسری جانب یہ ایک فریضہ بھی ہے ۔ اس لئے کہ اس شراکت سے سماج میں جوش و ولولہ اور ذمہ داری کا احساس ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور دشمن مایوسی کے ساتھ عوامی جوش و خروش اور وسیع شرکت کو دیکھتے ہیں۔ لہذا انتخابات نہ تو صرف فریضہ ہے اور نہ ہی صرف حق بلکہ حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔
ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے جو رکاوٹوں کو دور کرے
ایک اور بات یہ ہے کہ اس سال کے صدارتی انتخابات دیگر صدارتی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال سے ملک کا چوتھا ترقیاتی پروگرام شروع ہو رہا ہے۔ بیس سالہ منصوبے پر عملدرآمد کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ اس وقت ہمارا ملک اللہ کے فضل و کرم سے اس پوزیشن میں پہنچ گیا ہے کہ ایران کی آئندہ بیس سالوں کی منصوبہ بندی کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ بیس سالہ منصوبہ پانچ پانچ سالوں کے چار پروگراموں پر مشتمل ہے اور پہلا پروگرام اسی سال شروع ہو رہا ہے۔ منصوبے کے آغاز کے وقت ایک با صلاحیت اور جوش و جذبے سے سرشار مینیجمنٹ کی ضرورتی ہے جو اس منصوبے کی بنیادوں کو مضبوطی عطا کرے اور پوری کامیابی کے ساتھ اس کو عملی جامہ پہنائے۔ انتخابات کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ قوم کو ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے جو منصوبے پر عملدرآمد کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو دور کر سکتا ہو۔ جیسے بلڈوزر رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے راستہ ہموار کرتا ہے۔
ایک قابل، کام سے دلچسپی رکھنے والا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے والا انسان بیس سالہ پروگرام کے تحت، جو اس سال سے شروع ہو رہا ہے، مطلوبہ اہداف کی جانب پوری خود اعتمادی اور توانائي کے ساتھ قدم بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات میں قوم جس شخص کی حمایت کرے گی وہ اس نئي مہم کا آغاز کرے گا اور ملک کو ایک نئے دور میں پہنچائےگا ملک کو ان اہداف کی سمت گامزن کرے گا جو ایرانی قوم کا نصب العین ہے۔ گزشتہ برسوں میں جنگ کے بعد ( 80 ۔ 1988 ) سے اب تک ملک میں بہت وسیع پیمانے پر کام ہوا، جو بھی اس بات کا انکار کرے در حقیقت نا انصافی سے کام لے رہا ہے۔ ملک کی بنیادی تنصیبات کی تعمیر، ترقیاتی کام، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی الغرض ہر شعبے میں اہم پیش رفت ہوئي ہے۔
آج جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس مدت میں جو عمارت تیار کی گئی ہے وہ اب عوام کی زندگی کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے اثرات دکھائے ، اس بند کے پیچھے جو عظیم آبی ذخیرہ ہے وہ عوامی زندگی کی کھیتی کو سیراب کرے۔ اور اس طولانی سعی و کوشش کے ثمرات عوامی زندگی اور ان کے دسترخوان پر نظر آئیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے اس کے لئے بہت سی رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے با صلاحیت شخص کا انتخاب عوام کا اس سال کا سب سے اہم کام ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صدر کا ہمارے نظام میں بڑا اہم مقام ہے۔ قانونی اور آئینی لحاظ سے اسے بڑے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ ملک کا پورا بجٹ صدر کے اختیار میں ہوتا ہے۔ مختلف سطح کے عہدیداران اور اداروں کے سربراہ ،صدر کی ما تحتی میں کام کرتے ہیں۔ اس بنا پر صدر کے انتخاب کے معنی ایک ایسے سربراہ کے انتخاب کے ہیں کہ جو ملک کے بجٹ وسائل اور انتظامی امور میں اہم ترین کردار کا حامل ہو اور عوامی زندگی کے ہر شعبے میں ان وسائل کو اس انداز سے تقسیم کرے کہ اس عظیم ثروت کے ذریعے عوام کی ضروریات کی تکمیل ہو۔ ہمارے ملک اور ہماری قوم کے پاس گذشتہ سالوں کی سعی پیہم کے نتیجے میں وسائل کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ آئندہ ملک چلانے والی انتظامیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس ثروت میں اضافہ کرے اور اسے صحیح طور پر بروئے کار لائے ، بد عنوانی کے خلاف حقیقی جد وجہد کرے۔ اگر ہماری قوم معاشرے میں بد عنوانی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس وقت معلوم ہوگا کہ اسلامی انقلاب نے عوام کو کیا کیا عطا کیا ہے۔ اور کس طرح عوامی ضروریات کی تکمیل پر قادر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر جن کی جانب میں نے اشارہ کیا آئندہ انتخابات بہت اہم ہیں۔
عوام کو چاہئے کہ بہت ہوشیاری اور دانشمندی کے ساتھ انتخابات میں شرکت کریں اور مختلف امیدواروں میں سے اس شخص کا انتخاب کریں جو عوام کے نزدیک ان معیاروں پر پورا اترے۔ یہ ایک بڑا کام ہے اور یہ ملک کے عوام کا کام ہے۔ عوام کو چاہئے کہ اس میدان میں کھلی آنکھوں کے ساتھ قدم رکھیں۔ انشاء اللہ عوام کو الہی مدد حاصل ہوگی اور انہیں ہدایت ملے گي جس کی بنیاد پر وہ شجاع، مخلص ، عوام دوستی کے جذبے سے سرشار، انقلابی اقدار کے پابند، عوامی قوت پر اعتماد اور عوامی حقوق کا احترام کرنے والے شخص کا انتخاب کریں گے ۔ اس سال یہ سب سے اہم عوامی تعاون اور مشارکت ہے۔ ہر شعبے میں عوامی شراکت ضروری ہے اور یہ بھی ایسا ہی ایک موقع ہے۔
ابھی سے آپ ستائیس خرداد کی تاریخ کی تیاری میں رہیں جو انتخابات کی تاریخ ہے۔ابھی سے آپ تحقیق کا کام شروع کر دیں۔ ابھی حالانکہ با ضابطہ طور پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا گيا ہے، اس کا اعلان مقررہ وقت پر ہوگا۔ ملک کے دور دراز کے کسی علاقے میں یا کہیں بھی رہنے والے ہر شخص کا یہ حق ہے کہ انتخابات میں اپنی مرضی کا اظہار کرے۔ دور دراز کے علاقے میں رہنے والے شخص کا حق دارالحکومت میں رہنے والے شخص کے حق کے برابر ہے، لہذا ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے۔ انہیں افراد کے مجموعے سے ایرانی قوم کا عزم محکم اور ٹھوس ارادہ تشکیل پائے گا اور سامنے آئے گا۔ یہ وہی چیز ہے جو ملک کی ترقی اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اہم ہے۔
دشمنوں کی دھمکیاں فرائض سے توجہ نہ ہٹانے پائیں
اب رہا دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کرنے کا سوال، تو یہ بھی عوامی شراکت اور قومی یکجہتی کی دین ہے کہ اس میں اب تک کامیابی حاصل ہوئي ہے۔ اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنا ہیں۔
دشمن کا خطرہ ایک فطری چیز ہے۔ جو قوم بھی خود مختار رہنا چاہتی ہے اور عالمی طاقتوں کا تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اسے ان طاقتوں کی دھمکیوں اور ناراضگي کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہماری قوم ان دھمکیوں کی عادی ہو چکی ہے۔ چھبیس سال سے سامراجی طاقتیں امریکی قیادت میں ایرانی قوم سے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کر رہی ہیں اور بار بار ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔ ہماری قوم کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ہماری قوم دشمن کی ان دھمکیوں کو کوئي وقعت نہ دیتے ہوئے اپنے راستے پر گامزن ہے ،آج اسلامی جمہوری نظام اور انقلاب سے تشکیل پانے والی حکومت کی توانائياں اور طاقت اس وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں جب تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ آج ہماری قوم زیادہ طاقتور ہو چکی ہے۔ سائنسی، اقتصادی اور دفاعی اسی طرح دیگر شعبوں میں ہماری صلاحیت بہت بڑھ چکی ہے۔ دشمنوں کے خطرات بھی موجود ہیں۔
ملک کے حکام کے لئے میری سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ دشمنوں کی دھمکیاں سن کر اپنی توجہ اپنے فرائض سے نہ ہٹنے دیں، اپنا کام جاری رکھیں۔ قوم اور حکومت کو چاہئے کہ ہر وقت آمادہ رہے ایک لمحے کے لئے بھی بیرونی خطرات سے غافل نہ ہو، یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دشمنوں کی دھمکیوں سے ملک کے حکام کے کام میں کوئي خلل آئے اور فرائض کی انجام دہی میں ان سے کوئي کوتاہی ہو۔
آج امریکی حکام جو شور شرابا کر رہے ہیں وہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی اسلحہ بنانے کے الزامات سے متعلق ہے۔ امریکی صدر اور دیگر حکام نے بارہا ایران میں بنائے جانے والے ایٹمی اسلحے کے خطرات کی بات کی ہے۔ خود ان کو بخوبی معلوم ہے کہ ایٹمی اسلحہ بنانے کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، ان کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ایران نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایرانی قوم کی پیش رفت کے مخالف ہیں، ورنہ انہیں بخوبی آگاہی ہے کہ ہم ایٹمی اسلحہ نہیں بنا رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس حساس علاقے میں جہاں دنیا کے تیل کے ذخائر کا سب سے بڑا حصہ موجود ہے اور جسے دنیا کے حساس ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، یعنی مشرق وسطی میں کوئي ایسا ملک ہو جو خود مختاری کے ساتھ اسلام کے پرچم تلے آگے بڑھے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہو۔ مغربی ممالک کی دلی تمنا یہی ہے کہ ایران سمیت خطے کے ممالک ہمیشہ ان کے محتاج رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ آپ کو ایٹمی بجلی گھر رکھنے سے کون روکتا ہے، ہاں یہ ہے کہ آپ ایٹمی ایندھن ہم سے حاصل کریں۔
میں نے چند سال قبل مشہد مقدس میں نوروز کے موقع پر کہا تھا کہ وہ تیل جو آج ہمارا ملک اور مشرق وسطی کا خطہ پیدا کر رہا ہے، یورپیوں اور مغربی ممالک کے پاس ہوتا اور ہمیں ان سے یہ تیل خریدنا ہوتا تو وہ یہ تیل اس قیمت سے کہیں زیادہ ہمیں فروخت کرتے جس قیمت پر وہ آج ہم سے خرید رہے ہیں، وہ ہمیں تیل دینے کو تیار نہ ہوتے۔ وہ ہر اس چیز سے تشویش میں مبتلا ہیں جو اس خطے کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دے اور خود مختار بنا دے۔ وہ چاہتے ہیں کہ افرادی قوت اور زمین دوز ذخائر سے مالامال یہ خطہ ہمیشہ ان کے سامنے دست نیاز دراز رکھے۔ اسی لئے وہ ہماری ٹیکنالوجی کے مخالف ہیں ہمارے نوجوانوں کے سائنسداں بننے کے مخالف ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہو تو وہ اس پر بھی احتجاج کریں کہ ہمارے پاس موجود تیل کے ذخائر کیوں موجود ہیں۔ وہ لوگ ایک زمانے میں خطے کے ممالک کے حکام کی نااہلی کا غلط فائدہ اٹھایا کرتے تھے، وہ تیل کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ سالوں تک ایران کے تیل کے ذخائر برطانیہ کے اختیار میں تھے۔ اس وقت مقامی حکومت کو تھوڑا بہت دے دلا کر خوش کر دیتے تھے اور سارا کا سارا تیل اٹھا لے جاتے تھے، بعد میں امریکہ اور دیگر ممالک بھی ٹوٹ پڑے اور بندر بانٹ کا سلسلہ شروع ہو گيا۔ وہ ایران سے یہی چاہتے ہیں، اس ایران سے جو ایٹمی بجلی گھر چلانے اس کا ایندھن خود تیار کرنے اور یورپی ممالک کے آگے دست نیاز دراز نہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایٹم بم کا استعمال تو امریکیوں کا وطیرہ ہے
ایٹمی توانائي ایک قیمتی ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے اور عوامی زندگي کے لئے بہت اہم بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے بجلی گھر ایٹمی توانائی سے چلتے ہیں، بجلی کی پیداوار ایٹمی ٹیکنالوجی کی ایک افادیت ہے اور یہ ٹیکنالوجی ہر ملک کے لئے بڑے فخر کی بات بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم کو یہ افتخار حاصل نہ ہو ۔سارا جھگڑا اسی بات پر ہے۔ البتہ وہ جھوٹ سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ ایران ایٹم بم بنا لے گا۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ ایٹمی اسلحہ ہمارے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ ایرانی قوم کو بھی اس کا علم ہونا چاہئے نوجوانوں کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے۔
ایٹمی توانائي کے سلسلے میں مغربی بالخصوص امریکی تشہیراتی یلغار میں جو بات کہی جا رہی ہے اس کا ہدف یہ ہے کہ ایرانی قوم کو ایک اہم ترین پیش رفت اور ترقی سے محروم کر دیا جائے۔ یہ تو ہمارا حق ہے ہم کیوں محروم رہیں؟ بےشک یہ ایرانی قوم کا مسلمہ حق ہے۔ یہ علم بھی ہے ٹیکنالوجی بھی اور ماحولیات کے حفاظت کا اقدام بھی ہے۔ اس کے طبی فوائد بھی ہیں یہ ملک کے نوجوانوں کی ترقی کی ضمانت بھی ہے۔ تو یہ طے ہے کہ ہماری قوم کبھی بھی اس سے دست بردار نہیں ہوگي۔
سراپا نفاق جھوٹے امریکی سیاستداں اپنے مذموم عزائم کو پردہ راز میں رکھنے کے لئے ایران پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ایٹمی وارہیڈ بنا رہا ہے تاکہ اسے اپنے بیلسٹک میزائلوں پر نصب کرے اور پھر اسے فائر کر دے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں فائر کر دے؟ ہم تو اپنے دشمنوں سے یہ برتاؤ نہیں کرتے، بے گناہ انسانوں کو نابود کر دینے کے لئے ایٹم بم کا استعمال تو امریکیوں کا وطیرہ ہے۔ تاریخ میں صرف ایک امریکی حکومت ہی ہے جس نے یہ انسانیت سوز جرم انجام دیا ہے۔ مغربی ممالک نے ہی کیمیاوی ہتھیار بنائے، انہیں استعمال کیا اور آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے دوران یہ ہتھیار بعثی حکومت اور صدامیوں کو دیئے گئے اور پھر ان اسلحوں کے استعمال سے جو انسانی المیہ رونما ہوا اس پر انہوں نے اپنے منہ پر تالے لگا لئے، انہوں نے صدام کی مدد کی۔ اسلام نے ہمیں اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ ہم علم کا استعمال پیش رفت کے لئے کرتے ہیں، امریکی تو صرف بہانے تراشتے رہتے ہیں۔
البتہ یہ بھی عرض کر دوں کہ ملت ایران اس بات پر توجہ رکھے کہ بعض افراد جو یہ بے سر پیر کی بات کرتے ہیں کہ ہم ایٹمی ٹکنالوجی کو لے کر کیوں بیٹھ گئے ہیں وہ در حقیقت قوم کے دشمنوں کے حق میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں بھی یہ جان لینا چاہئے کہ اس وقت ایران کے خلاف ہنگامہ آرائي کے لئے امریکہ کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی ایک بہانہ ہے۔ تسلط پسند طاقتیں اپنی شان اسی میں سمجھتی ہیں کہ دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کریں، ایسی حکومتوں کا کام دھونس دھمکی سے ہی چلتا ہے۔ دنیا کی بہت سی قومیں اور حکومتیں بسا اوقات ان دھمکیوں سے متاثر بھی ہو جاتی ہیں نتیجتا ان طاقتوں کو ان پر مزید تسلط حاصل ہو جاتاہے۔ ان کا کام دھمکیاں دینا ہے اور آج ان دھمکیوں کے لئے ان کا بہانہ ایٹمی ٹیکنالوجی ہے، اگر ایٹمی ٹیکنالوجی نہ ہو تو وہ کوئي بہانہ تلاش کر لیں گے۔
عراق ، افغانستان ، امریکہ کے اندر واقع جیلیں امریکی جرائم کے گواہ
یہ وہ حکومتیں ہیں جو دہشت گردوں کی پرورش کرتی ہیں لیکن دہشت گردی کا الزام اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلمانوں پر لگاتی ہیں۔ امریکی فوجی اور سکیورٹی اہل کار عراق کے مقبوضہ علاقوں اور ابو غریب جیل میں بد ترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا ایک نمونہ ابو غریب کے واقعات ہیں جبکہ دوسری لاتعداد مثالیں بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ انسانوں کی توہین کرتے ہیں انہیں روند ڈالتے ہیں۔ عراق ہو، افغانستان ہو، امریکہ کے اندر واقع جیلیں ہوں یا پھر گوانتانامو، سب امریکی جرائم کے گواہ ہیں۔ اور عالم یہ ہے کہ دوسروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، دنیا کی کوئی بھی حکومت امریکی حکومت کے طرح انسانی حقوق کو پامال نہیں کرتی۔ میں حالیہ چند سالوں کے اعداد و شمار اور واقعات کا تجزیہ کرکے جو ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شائد ہی دنیا میں کوئي حکومت ہوگي جس نے امریکی حکومت کے جتنا انسانی حقوق کو پامال کیا ہو۔ یہ (بش) حکومت خود امریکہ کے اندر بھی انسانی حقوق کا مذاق اڑا رہی ہے۔ آج بھی ماضی کی طرح ہی سیاہ فام امریکی ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جب امریکہ میں جارج بش سینیئر کی حکومت تھی، بعض امریکی ریاستوں میں سیاہ فام افراد کے خلاف جاری مظالم کے خلاف شورش ہوئي جسے پولس قابو میں نہیں کر سکی تو فوج کو بلایا گيا۔ اس کے بعد والے صدر کے دورے میں داؤدیان فرقے کے اسی سے زائد افراد جو امریکی حکومت کی پالیسیوں کے مخالف عیسائي تھے، ایک گھر میں جمع تھے، وہ لوگ پولس کے انتباہ پر باہر نہیں نکلے تو انہیں زندہ جلا دیا گيا۔ لیکن ان حکام کی پیشانی پر بل نہ پڑے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا یہ امریکی انداز ہے۔ موجودہ صدر(بش) کے زمانے میں شمالی افغانستان میں جب افغانستان پر قبضے کی کاروائي جاری تھی، عوام پر جو بم برسائے گئے اور شہروں میں جو مجرمانہ کاروائیاں ہوئیں ان کے علاوہ ایک جیل میں بند بڑی تعداد میں قیدیوں پر اندھا دھند گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کر دیا گيا۔ یہ خبر دنیا میں پھیلی لیکن ذرائع ابلاغ کے شعبے پر مسلط سامراجی طاقتوں نے ان خبروں کو زیادہ دیر تک عوام کے سامنے نہیں رہنے دیا، فوری طرح پر اس خبر کو دبا دیا گيا۔ لیکن یہی امریکی حکام ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ فلاں قیدی کی توہین کر دی گئي۔ مثال کے طور اگر کسی قیدی کو اچھی چپلیں نہیں دی گئيں تو کہا جائے گا کہ اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہو گئی۔ امریکہ میں جس انداز سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں امریکی جس طرح انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں اس کی کوئي اور مثال کہیں نہیں ملتی ، لیکن مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ایران کو اور ایران کےاسلامی نظام کو۔ انسانی حقوق کا پرچم ان لوگوں نے اٹھا رکھا ہے جو خود انسانی حقوق کو پامال کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کی دھمکیاں ایٹمی مسئلے تک ہی محدود نہیں ہیں ایرانی حکام اور قوم کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ دشمنوں کی دھمکیوں پر ہرگز توجہ نہ کریں اپنے راستے پر گامزن رہیں اپنا کام آگے بڑھاتے رہیں۔ البتہ متعلقہ حکام کو ہوشیار بھی رہنا چاہئے اور ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔
امتحان کی گھڑی آ جائے تو ہم لباس جہاد پہننے میں پیش پیش ہوں گے
یہ بھی عرض کر دوں کہ ہم امریکی حکام کی مانند جنگ پسند نہیں ہیں۔ وہ جنگ پسند ہیں، لیکن جب ملک اور قوم کے مفادات کی حفاظت کی بات آ جائے گي تو ہم جان پر کھیل جائیں گے۔ قربانی صرف عوام نہیں دیں گے حکام بھی اس میں شامل ہوں گے۔ جب گيارہ ستمبر کا واقعہ ہوا اور نیویارک میں جڑواں ٹاوروں کو نشانہ بنایا گيا تو دو تین دنوں تک کسی اعلی رتبہ امریکی عہدیدار کا کہیں کوئي پتہ نہیں تھا۔ ہم ایسے نہیں ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم کے لئے امتحان کی گھڑی آ جائے تو ہم لباس جہاد پہننے میں پیش پیش ہوں گے اور جان کی بازی لگا دینے کے لئے آگے آئیں گے۔
خطرات کو پے اثر بنا دینے کا ایرانی قوم کا سب سے موثر حربہ قومی یکجہتی اور اخوت ہے۔ دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایرانی قوم کو ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہے، آپ عوام کا اتحاد و یکجہتی اور ایمان و دین کی رسی سے آپ کا مضبوط رشتہ ہی ایران کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد سے گزشتہ چھبیس برسوں کے دوران ہر موقع پر مؤثر واقع ہوا ہے اور آئندہ بھی کارگر ثابت ہوتا رہے گا۔
آپ اپنے اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھئے۔ دشمن نے عوام کے اتحاد کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ دشمن نے بڑے احمقانہ انداز میں اپنے ایجنٹوں سے امید باندھ رکھی ہے۔ یہ خام خیالی اور حماقت ہے۔
آج امریکی علی الاعلان اپنے عزائم کو بیان کر رہے ہیں۔ یہ بھی استبدادی طاقتوں پر خدا کی مار پڑنے کانتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران میں ہم ان لوگوں کی جو امریکی اہداف کی تکمیل کر رہے ہیں مالی مدد کریں گے۔ ان لوگوں نے ہماری قوم کو پہچانا ہی نہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ہم پیسے خرچ کرکے ایران میں اپوزیشن اور حزب اختلاف تشکیل دیں گے۔ سب کو جان لینا چاہئے کہ جو کوئي بھی امریکی پیسے سے اور امریکی حکام کی حمایت سے امریکی اہداف کی تکمیل کی کوشش کرے گا اور خود کو اپوزیشن اور حزب اختلاف کے پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کرے گا، ایرانی قوم کی نظروں میں ذلیل وخوار ہوگا۔ پوری ایرانی قوم، بالخصوص اہم شخصیات، نوجوان طبقہ، طلبا اور وہ افراد جو اپنے اطراف کے افراد پر اپنا اثر رکھتے ہیں، انہیں آگاہ ہو جانا چاہئے کہ آج تمام مسائل اور مشکلات کا حل صرف قومی یکجہتی اور عوامی مشارکت ہے۔
دلوں کو آپس میں قریب کیجئے۔ اللہ تعالی سے مدد مانگئے اور ہماری قوم کو اللہ تعالی نے جو توانائياں اور صلاحیتیں عطا فرمائي ہیں انہیں بروئے کار لائیے۔ اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔ ایرانی قوم کا مستقبل ماضی کے مقابلے میں یقینی طور پر بہتر ہوگا۔ انشاء اللہ تعالی امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال ہوں گي۔ میں اللہ تعالی سے شہدا کی پاک ارواح اور حضرت امام خمینی (رہ) کے لئے رحمت و مغفرت و لطف و فیض کی دعا کرتا ہوں اور آپ سب کو اللہ تعالی کی پناہ میں دیتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نئے شمسی سال1384 کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا خطاب
بسم اللہ الرحمان الرحیم
یا مقلب القلوب و الابصار، یا مدبر اللیل والنھار، یا محول الحول والاحوال، حول حالنا الی احسن الحال
معزز مہمانوں، ایرانی قوم شہدا کے اہل خانہ جانبازوں اور وطن کے دفاع میں اپنے اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے جاں نثاروں کو عید نوروز اور سال نو کی آمد کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اسی طرح ان تمام اقوام کی خدمت میں عید نوروز کی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو نوروز کا جشن مناتی ہیں۔ ہم ایسے عالم میں نئے شمسی سال تیرہ سو چوراسی میں داخل ہو رہے ہیں کہ جب گذشتہ سال کو ہم نے کچھ تلخ واقعات اور کچھ شیریں واقعات کے ساتھ گذارا۔ اس سال زلزلہ، سیلاب اور آگ لگنے جیسی قدرتی آفات نہ ہوتیں تو ہماری قوم اور بھی شادمانی کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرتی۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ نئے سال کو ایرانی قوم کے لئے امن و سلامتی، مسرت وشادمانی اور کامیابی و کامرانی کا سال قرار دے۔ گذشتہ سال جوابدہی کا سال تھا، عوامی مطالبات کے سلسلے میں ہمارے حکام کی جوابدہی کا سال، بعض حکام نے بہت مناسب انداز میں اپنے فرائض انجام دئے۔ بہرحال گذشتہ سال کے لئے جوابدہی کا جو ہدف مقرر کیا گيا تھا بنیادی طور پر وہ پورا ہوا، کیونکہ سکے کے دوسرے رخ پر سوالات و مطالبات ہیں، شمسی سال تیرہ سو تراسی کو جوابدہی کا سال قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ قوم کے ذہن میں سوالات پیدا ہوں اور حکام کویہ احساس ہو کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ جوابدہی اور سوالات و مطالبات کا جذبہ اور عوامی مطالبات کے سلسلے میں ہمارے حکام کی فرض شناسی اور فرائض کی ادائگي سن تیرہ سو تراسی سے ہی مخصوص نہیں تھی، ہر سال ایسا ہی ہونا چاہئے۔ البتہ عوام کے سامنے جوابدہی کی پالیسی کے تعلق سے حکام کی کارکردگي یقینی طور پر مستقبل میں عوام کے مزاج پر اثر انداز ہوگی۔ یہ جو سال آیا ہے، بڑا اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ اس سال کے دوران ایسے انتخابات ہونے والے ہیں جو ملت ایران کے لئے ایک چار سالہ دور میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اسی طرح اس بیس سالہ منصوبے کے لحاظ سے جسے اسلامی نظام نے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے تیار کیا ہے۔ اسی سال سے بیس سالہ منصوبے کے تحت آئندہ پانچ سال کے پروگرام طے کئے جائيں گے۔ اسی کی بنیاد پر بجٹ تیار کئے جائيں گے اور حکام اسی تناظر میں اپنی کاوشیں اور کوششیں کریں گے۔ اس بنا پر یہ نیا سال انتخابات کے لحاظ سے بھی اور بیس سالہ منصوبے کے تحت پانچ سالہ پروگراموں کے تعین کے لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکام اپنے فرائض کو پور ی ذمہ داری سے محسوس کریں اور مجریہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں، بیس سالہ منصوبے کے تحت عائد ہونے والی بڑی ذمہ داریوں کو ملک کے مستقبل کے لئے ایک عظیم فریضہ تصور کریں۔ اگرچہ اس بیس سالہ منصوبے کے تحت چار سالہ یا اس سے کم مدت کے پروگرام رکھے گئے ہیں تاہم ہر مرحلے کو وطن عزیز اور ملک کے مستقبل کے سلسلے میں فیصلہ کن اہمیت کے حامل سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے خاص کر ابتدائي برسوں میں اس منصوبے کے اقدامات مضبوطی سے انجام دئے جانے چاہئیں تا کہ ان کی بنیاد پر ایک مستحکم عمارت کھڑی کی جا سکے جو ملک و قوم کے لئے پیش رفت و ترقی کا زینہ ثابت ہو۔ ہمارے عوام اور حکام دونوں کو لئے جو بات اہم ہے وہ باہمی تعاون، قومی اتحاد اور حکام کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں عوامی یکجہتی ہے۔ اس عمل کا بحسن و خوبی آگے بڑھنے کا عمل اور عوام و حکام کے درمیان تعاون ، مطلوبہ اہداف تک رسائی میں ہماری مدد کر سکتاہے ۔ اس بنا پر نئے سال میں ایرانی قوم کا نعرہ ہے قومی یکجہتی اور عوامی تعاون ۔ انتخابات اور ان تمام امور اور منصوبوں میں جو موجودہ حکومت نے طے کئے ہیں یا جسے آئندہ حکومت اپنے ایجنڈے میں جگہ دے گي عوام کی شراکت اور یکجہتی، قومی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں حکومت و عوام کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی سے ایرانی قوم کی شادمانی و کامرانی اور حکام کے لئے قوم کی خدمت کی توفیق کی دعا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ایرانی قوم کے شامل حال ہوں ۔ میں درود بھیجتا ہوں اس قوم کے عظیم امام کی روح مقدسہ پر جس نے اس عظیم نظام کی بنیاد رکھی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں نے 19 / 11 / 1383 ہجری شمسی مطابق 7 / 2 / 2005 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ یہ سالانہ ملاقات انیس بہمن تیرہ سو ستاون ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں پر فضائيہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کی بیعت کی مناسبت سے ہوتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمیا قَومَنا اَِجیبُوا داِعیَ اللہ و آِمنُوا ِبہِ یَغْفرَلکُم ِمنْ ذُُنُو ِبکُم وَ یُجرکُم ِمن َعذاب اَلیماللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آؤ تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ دے الٰہی دعوت قبول کرنے والوں لبیک کہنے اور ہرولہ کرنے والوں نے ایک بار پھر خود کو اپنے محبوب کے گھر پہنچا دیا ہے۔ حج کا موسم آپہنچا ہے اور صفا و معنویت کے دلدادہ لوگوں کے لئے شوق اور آرزؤوں کے منظر کھل گئے ہیں۔ خدا کا گھر اور دلوں کا قبلہ آپ کےسامنے ہے۔ ذکر و معرفت کے چشمے جاری کرنے کے لئے عرفات و مشعر آراستہ ہیں۔ منیٰ و صفا قرب الٰہی حاصل کرنے اور شیطان پرکنکریاں مارنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ توحید اور اتحاد و یکجہتی کے شفاف چشمے سے سیراب ہوکر اپنا کردار سدھارنےکا موقع آ پہنچا ہے۔ احرام باندھتے وقت آپ نے جو صدائے لبیک اپنی زبان پر جاری کی ہے، اسے اپنے دل میں اتارئے اور اپنے محبوب کے حریم کی طرف سفر کی آپ نے جو دعوت قبول کی ہے، اس میں حج کے معنی و مقصد پر غور کر کے اس عبادت سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیجئے۔ فریضۂ حج جب معرفت و آگاہی کے ساتھ بجا لایا جائے تو حج کرنے والے مسلمانوں اور امت مسلمہ کو فائدہ پہنچاتا ہے، حاجی کو صفا و پاکیزگی اور معنویت کی طرف لے جاتا ہے اور اُمّت کو اتحاد و یکجہتی اور عظمت و شوکت سے نزدیک کرتا ہے۔ حاجیوں کے لئے پہلا قدم خودسازی ہے۔ احرام، طواف، نماز ، مشعر، عرفات، منٰی، قربانی، رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) اور حلق (سرمنڈانا) یہ سب کے سب خدا کے روبرو انسان کی انکساری، خشوع و فروتنی اور ذکر وگریہ و زاری اور تقرب الٰہی کے جلوے ہیں۔ ان پُر معنی مناسک و اعمال کو غفلت کے ساتھ انجام نہ دیجئے۔ حج کا مسافر اِن تمام اعمال میں خود کو اپنے محبوب کے ساتھ تنہا دیکھے۔ اس سے روزانہ راز و نیاز کرے، اس سے حاجت طلب کرے اور اسی سے لو لگائے۔ شیطانی اور نفسانی خواہشات کو دل سے نکال دے اور حرص و حسد، بزدلی اور نفسانی خواہشات کو خود سے دور کر دے۔ اپنی ہدایت اور اس کی عطا کردہ نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرے۔ دل کو خدا کی راہ میں جہاد کے لئے آمادہ کرے، مؤمنوں سے پیار و محبت نیز عناد رکھنے والوں اور حق کے دشمنوں سے دشمنی کو اپنے دل میں جگہ دے۔ اپنی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی اصلاح کے لئے مصمّم عزم کرلے اور دنیا و آخرت کی آبادی کےلئے اپنے خدا سے عہد و پیمان کرے۔ حج ایک گروہی و اجتماعی کام ہے۔ حج کی الٰہی دعوت اس لئے ہے کہ مؤمنین خود کو ایک دوسرے کے نزدیک دیکھیں اور مسلمانوں کے اتحاد کا مجسم نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حج اجتماعی طور سے خدا کا قرب حاصل کرنے اور شیاطین انس و جن سے برائت و بیزاری کا اظہار کرنےکے لئے ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کے اتحاد ویکجہتی کی مشق ہے اور امتِ مسلمہ کو آج سے زیادہ اس باہمی بھائی چارے اور مشرکین سے کھلم کھلا برائت و بیزاری کی کبھی ضرورت محسوس نہيں ہوئی۔ آج عالم اسلام سائنسی، اقتصادی، تشہیراتی اور اب فوجی محاصرے میں ہے۔ قدس اورفلسطین پر قبضہ ، عراق اور افغانستان پر قبضے کی شکل میں آگے بڑھا ہے۔ صیہونزم کا آ کٹوپس اور بےشرم اور نفرت انگیز امریکی سامراج، دونوں آج پورے مشرق وسطٰی، شمالی افریقہ اور پورے عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہيں اور بیداری کی اس لہر کو جس نے امتِ مسلمہ کے جسم میں ایک نئی جان ڈال دی ہے، اپنی معاندانہ اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہيں۔ آج امریکہ سمیت مغرب کی مستکبر طاقتیں اس نتیجے پر پہنچی ہيں کہ دنیا پر قابض ہونے پر مبنی اُن کے عزائم کے خلاف بیداری اور استقامت کے مراکز، مسلم اقوام وممالک خاص طور پر مشرقِ وسطٰی میں ہیں اور اگر وہ اقتصادی، سیاسی، تشہیراتی اور بالآخر عسکری ہتھکنڈوں کے ذریعے آئندہ چند برسوں کے دوران اسلامی بیداری کی تحریک کا راستہ روک کر اس کو کچلنے میں کامیاب نہ ہوئیں تو دنیا پر حاکمیت اور تیل اور گیس کے عظیم ذخائر پر قبضے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا، جو اُن کی صنعتی مشینری کو فعّال رکھنے اور پوری انسانیت پر برتری حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس طرح بڑے بڑے مغربی اور صیہونی سرمایہ دار جن کے ہاتھوں میں پسِ پردہ سامراجی حکومتوں کی باگ ڈور ہے اپنی جابرانہ طاقت کھو دیں گے۔ استکبار اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ میدان میں آگیا ہے۔ ایک جگہ سیاسی دباؤ، ایک جگہ اقتصادی ناکہ بندی کی دھمکی، کسی اور جگہ تشہیراتی فریب اور دوسرے مقامات مثلاً عراق اور افغانستان اور اس سے پہلے فلسطین اور بیت المقدس میں بموں، میزائیلوں، ٹینکوں اور فوجوں کے ذریعے فیصلہ کن جنگ کے لئے اترا ہے۔ ان آدم خور درندوں کا سب سے اہم ہتھیار نفاق اور فریب کی نقاب ہے جسے انہوں نے اپنے چہروں پر ڈال رکھا ہے۔ یہ لوگ دہشت گرد گروہ تیار کرتے اور انہیں اسلحوں سے لیس کر کے بے گناہوں کی جان لینے کے لئے روانہ کرتے ہیں اور خود دہشت گردی سے مقابلے کا دم بھرتے ہيں۔ اس دہشت گرد اور سفّاک حکومت کی کھل کر حمایت کرتے ہيں جس نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور جاں بلب فلسطینیوں کا دفاع کرنے والوں کو دہشت گرد کہتے ہيں۔ مہلک ایٹمی ، کیمیاوی اور جراثیمی اسلحے بناتے ہيں، انہیں تقسیم اور استعمال کرتے ہيں اور ان کے ذریعے ہیروشیما، حلبچہ اور ایران عراق جنگ کے دوران ایران کے دفاعی محاذوں پر قیامت ڈھاتے ہيں۔ ساتھ ہی مہلک ہتھیاروں پر کنٹرول کا نعرہ لگاتے ہيں۔ یہ لوگ خود منشیات کے مافیا کی پشت پر ہیں اور منشیات سے مقابلے کا دم بھرتے ہیں۔ یہ لوگ علمی رجحان اور سائنس کی عالمی حیثیت کی نمائش کرتےہيں، ساتھ ہی عالمِ اسلام کی علمی و سائنسی ترقی کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر روک لگاتے اور اسلامی ممالک میں صلح آمیز ایٹمی ترقی کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہيں۔ وہ اقلیتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا دم بھرتے ہيں ساتھ ہی مسلمان لڑکیوں سے اسلامی حجاب کی پابندی کے جرم میں تعلیم کا حق چھین لیتے ہيں۔ آزادی بیان اور آزادی عقیدہ کا نعرہ تو لگاتے ہيں لیکن صیہونزم کے سلسلے میں کسی نظرئیے کے اظہار کو جرم سمجھتےہیں اور بہت سے قیمتی فکری و قلمی اسلامی نسخے نیز تہران کے امریکی سفارت خانہ (جاسوسی کے اڈے ) کی دستاويزات کو امریکہ میں شائع نہیں ہونے دیتےہيں۔ انسانی حقوق کی آواز اٹھاتےہيں، لیکن گوانتانامو اور ابو غریب جیسی دسیوں شکنجہ گاہیں قائم کرتے ہیں یا ایسے کم نظیر بھیانک واقعات پر رضامندانہ خاموشی اختیار کرتےہيں۔ یہ لوگ تمام مذاہب کے احترام کی بات تو کرتے ہيں لیکن سلمان رشدی جیسے مرتد مہدورالدم (جس کا خون بہانا جائز ہے ) کی حمایت کرتےہیں اور برطانیہ کے سرکاری ریڈیو سے اسلامی مقدسات کے خلاف کفر آمیز باتیں نشر ہوتی ہيں۔ آج امریکی اور برطانوی حکام کی گستاخی اور بے حیائی کی وجہ سے ان کے چہروں پر پڑا ہوا دھوکے اور نفاق کا پردہ چاک ہوچکا ہے اور مستکبروں کی نفرت خود ان کے اپنے ہاتھوں مسلمان قوموں اور جوانوں کے دلوں میں بھر چکی ہے۔ آج جس اسلامی ملک میں بھی آزادنہ انتخابات ہوں، قومیں امریکہ اور برطانیہ کی آرزوؤں اور تقاضوں کے خلاف ووٹ دیں گی۔ اس وقت عراق کے انتخابات ہمارے سامنے ہیں، عراقی قوم اور اس کے حقیقی رہنما غاصب طاقتوں کے خلاف ہیں۔ عراق کے رہنما اور عوام انتخابات کو عوامی حکومت اور عوامی ارادہ پر مبنی خودمختار، متحد اور آزاد عراق کے لئے چاہتے ہيں۔ ان کی نظر میں انتخابات کو امریکہ کے فوجی قبضے اور سیاسی تسلط کے خاتمہ کی شکل میں تمام ہونا چاہئے۔ ان انتخابات کو صہیونیوں کی فتنہ انگیز موجودگي، جو امریکی اسلحوں کے سایہ ميں فرات کے کنارے تک پہنچ گئے ہيں اور نیل سے فرات تک کے خواب پریشاں کی ناقص تعبیر پوری ہوتے دیکھنے لگے ہیں ان کےخاتمہ پر تمام ہونا چاہئے۔ ان انتخابات کےذریعےان کے درمیان فرقہ واریت اور نسلی کدورتوں کو دور کرکے ان میں اتحاد و اخوّت پیدا کی جائے جو زیادہ تر مشترکہ دشمن کے ہاتھوں پھیلائی گئی ہيں لیکن یہی انتخابات قابض دشمنوں کے خیال میں ایک اور ہی مقصد رکھتےہیں۔ وہ چاہتے ہيں کہ عوامی انتخابات کے نام سے اپنے ان کارندوں کو عوام پر مسلط کریں جو بعث پارٹی سے سابقہ وابستگی کی بنا پر قابض طاقتوں کے آگے ذلیل اور رام ہيں۔ وہ چاہتے ہيں کہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی کا خرچ اپنی گردن سے اتار کر ان کارندوں کے کاندھوں پر ڈال دیں اور جو کچھ خرچ ہوا ہے، عراقی قوم کے خزانے اور عراق کے تیل کے ذریعہ پورا کريں۔ وہ لوگ استعمار کو بالکل نئی شکل میں عراق میں قائم کرنا چاہتے ہيں، جدید ترین سامراجی دور میں دشمن کے کارندے ماضی کی طرح براہ راست استعماریوں کے ہاتھوں معین نہيں کئے جاتے بلکہ انتخابات کے نام پر ایسے لوگ برسر اقتدار لائے جاتے ہيں جو بظاہر جمہوریت کا دم بھرتے ہيں لیکن بباطن وہ مظلوم عوام پر اغیار اور بیرونی دشمنوں کی مطلق العنان حاکمیت کی راہ ہموار کرتے ہیں، اس وقت عراقی انتخابات کو دو خطرے در پیش ہيں۔ ایک عوامی ووٹ کو جعل اور جا بجا کرنا کہ امریکی اس کام میں ماہر ہيں۔ اگر عراق کے اہم افراد، سیاسی شخصیات اور پڑھے لکھے جوان ہمت اور شب و روز کی محنت سے کام لیں اور اس طرح کی جعل سازي کو روکيں اور ایک عوامی و منتخب حکومت بر سر کار لائیں تو اس وقت دوسرا خطرہ یہ ہوگا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے ایک اور آمر عراق پر مسلط کردیا جائے۔ یہ خطرہ بھی عراق کے غیور و مومن عوام اور اس کے حقیقی و محترم قائدین کی ہوشیاری، موقع شناسی اور شجاعت سے دفع ہوسکتا ہے۔ یہ افراد اس تاریخی اور حسّاس وقت میں جس سے ان کے مستقبل کے دسیوں سال وابستہ ہيں، ایمان، شجاعت اور قومی یکجہتی سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ وسیع پیمانہ پر شفاف اور پر جوش انتخابات منعقد کریں اور اس کے نتائج کی پوری طاقت سے حفاظت کریں۔ شیعہ سنی، عرب وکرد یا ترک کا اختلاف اسی طرح دوسری تفرقہ انگیز گروہ بندیاں صرف دشمنوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ناامنی جو ہمیشہ آمریت کے وجود میں آنے کا مقدمہ بنتی ہے دشمن کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے۔ جو لوگ ظالمانہ و سفاکانہ دہشت گردی کے ذریعے عراقی شہریوں اور علمی و سیاسی شخصیتوں کو نشانہ بناتے ہيں، وہ ہرگز ان مجاہدوں کے زمرے میں شمار نہیں ہوسکتے جو اسلام کی شان و شوکت اور خود مختاری و آزادی کی راہ میں جارح اور ظالم دشمنوں سے لڑ رہے ہيں۔ اے حج ادا کرنے والے بھائیو اور بہنو! اے مسلمان قومو اور حکومتو! آج دنیائے اسلام کو اتحاد ویکجہتی اور قرآن سے تمسّک و وابستگی کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ دوسری طرف ترقی و پیشرفت اور عظمت و سر بلندی کے لئے عالم اسلام کی توانائیاں پہلے سے زیادہ آشکار ہوچکی ہيں اور امت مسلمہ کی عظمت وبزرگی آج پورے عالم اسلام کے جوانوں اور اہل علم افراد کی خواہش و آرزو بن گئی ہے۔ مستکبروں کے منافقانہ نعرے اپنا بھرم کھو چکے ہیں اور امتِ مسلمہ کے لئے ان کے ناپاک عزائم رفتہ رفتہ آشکار ہوتے جا رہے ہيں۔ دوسری جانب یہ استکباری آدم خور جو پوری دنیا پر حاکمیت کا سودا اپنے سر میں پال رہے ہيں، امت مسلمہ کی بیداری اور اتحاد سے خوفزدہ ہیں اور اسے اپنے تباہ کن ارادوں کے آگے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں نیزاس سے آگے بڑھ جانے اور اسے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہيں۔ آج ہر میدان میں اور ہر فتنے کے مقابل عملی اقدام اور اخوّت و برادری کا دن ہے۔ حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کے لئے زمین ہموار کرنے کا دن ہے۔ ہر میدان میں دعوت الٰہی پر لبیک کہنے کا دن ہے۔ وہ دن ہے کہ ہمیں ایک بار پھر قرآنی آیتوں انّما المؤمنون اخوۃ اور لا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مؤمنا اور اشدّ اء علی الکفار رحماء بینھم کو اپنے دلوں میں دہرانا چاہئے۔ چاہے نجف، فلوجہ اور موصل پر بمباری ہو یا بحر ہند کا سمندری زلزلہ جس نے دسیوں ہزار خاندانوں کو عمزدہ کردیا، عراق و افغانستان پر دشمنوں کا فوجی قبضہ ہو یا فلسطین کے ہر روز کے خونیں سانحے، ان سب کے سلسلے ميں ہمیں فریضۂ الٰہی کو اپنے کاندھوں پر محسوس کرنا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتےہيں۔ یہ اتحاد عیسائیوں یا دیگر تمام ادیان اور قوموں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد جارح طاقتوں، تسلط جمانے اور جنگ بھڑکانے والوں کے خلاف ہے۔ یہ اتحاد اخلاق و معنویت کو فروغ دینے، اسلامی عدل وانصاف اور عقلانیت کو زندہ کرنے نیز سائنسی اور اقتصادی ترقی اور اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے ہے۔ ہم دنیا والوں کو یاد دلاتےہیں کہ جب بیت المقدس خلفائے راشدین کے زمانہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا تو عیسائی اور یہودی پورے امن و سکون کے ساتھ رہتے تھے لیکن اس وقت جبکہ بیت المقدس اور دوسرے مراکز صیہونیوں یا صلیبی صیہونیوں کے قبضہ میں ہيں مسلمانوں کا خون بہانا کیوں جائز تصور کیا جارہا ہے؟ ہم حج ادا کرنے والے محترم افراد کوخشوع، ذکر خدا، توبہ و استغفار، تدبر اور توجہ کے ساتھ قرآن کی تلاوت، نماز جماعت میں شرکت، دوسرے ملکوں کے حاجیوں کے ساتھ پیار و محبت اسی طرح تضییع وقت سے پرہیز کی دعوت دیتے ہیں۔ خدائے متعال سے آپ سب کی کامیابی، عافیت و سلامتی اور عبادات کی قبولیت کے دعاگو ہیں اور آپ سب سے ذخیرۂ الٰہی یعنی حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ اور عالمی عدل و مساوات کی حکومت قائم ہونے کے لئے التماس دعا کرتے ہيں۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، السید علی الخامنہ ایذی الحجہ سنہ 1425مطابق 14 جنوری 2005
اسلامی جمہوریہ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں انیس دی مطابق آٹھ جنوری کا دن خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن قم کے عوام نے اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کی شاہی حکومت کے خلاف مظاہرے کئے جس سے تحریک انقلاب میں بڑا اہم موڑ پیدا ہو گیا۔ ہر سال اس دن اہل قم قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے 24/8/1383 ہجری شمسی مطابق 14/11/2004 عیسوی برابر پہلی شوال سنہ 1425 ہجری قمری کو ملک کے حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف عوامی طبقات کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔