ماہ مبارک رمضان کے پہلے دن قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی موجودگی میں ضیافت نور و انس با قرآن کے عنوان کے تحت ایک روحانی محفل برپا کی گئی جس میں قرآن کے ممتاز قاریوں، حافظوں اور اساتذہ نے شرکت کی۔
ماہ رمضان المبارک کا آغاز در حقیقت مسلمانوں کے لئے موسم بہاراں کی آمد ہے۔ اس مبارک مہینے کا آغاز مسلمانوں کی عید ہے جس پر انہیں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنا چاہئے اور اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی سفارش کرنا چاہئے۔ یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومنین اور وہی افراد ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کر پاتے ہیں جو اس مہمانی کے قابل ہیں۔ یہ اللہ تعالی کے دسترخوان کرم سے مختلف دسترخوان ہے۔ اللہ تعالی کا عمومی دسترخوان لطف و کرم تمام انسانوں ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے بچھا ہوا ہے اور سب کے سب اس سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ یہ (ماہ مبارک رمضان میں بچھنے والا) ضیافت الہی کا دسترخوان خاصان خدا سے مخصوص ہے۔ ماہ رمضان کے سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان ایسے بے شمار علل و اسباب میں گھرا ہوا ہے جو اسے ذکر الہی سے غافل اور راہ پروردگار سے منحرف کر دیتے ہیں۔ گوناگوں خواہشیں اور جذبات اسے پستی و تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کی آمد پر اس انسان کو ایک موقع ملتا ہے کہ اپنی روح اور پاکیزہ باطن کوجو فطری اور قدرتی طور پر کمال و تکامل کی جانب مائل ہوتا ہے، بلندیوں کی سمت لے جائے، قرب الہی حاصل کرے اور اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کر لے۔ تو ماہ مبارک رمضان انسان کے لئے خود سازی اور نفس کی تعمیر نو کا مہینہ اور پروردگار سے مانوس اور قریب ہونے کے لئے سازگار موسم بہار ہے۔ ماہ مبارک رمضان کی برکتیں ان افراد سے شروع ہوتی ہیں جو اس مبارک مہینے میں اللہ تعالی کا مہمان ہونا چاہتے ہیں۔ یہ برکتیں ان مومنین کے قلوب سے شروع ہوتی ہیں۔ اس مہینے کی برکتوں کی برسات سب سے پہلے مومنین، روزہ داروں اور اس مہینے کی مقدس فضا میں قدم رکھنے والوں پر ہوتی ہے۔ ایک طرف اس مہینے کے روزے، دوسری طرف اس با برکت مہینے میں تلاوت کلام پاک اور اس کے علاوہ اس مہینے کی مخصوص دعائيں انسان کے نفس کو پاکیزہ اور اس کے باطن کو طاہر بنا دیتی ہیں۔ ہر سال کا ماہ رمضان بہشت کے ایک ٹکڑے کی حیثیت سے ہماری مادی دنیا کے تپتے صحرا میں اتار دیا جاتا ہے اور ہم اس مبارک مہینے میں ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھ کر جنت کے موسم بہاراں سے آشنا اور لطف اندوز ہونے کا موقع پا جاتے ہیں۔ بعض افراد اس مہینے کے تیس دنوں میں جنت کی سیر کرتے ہیں اور بعض خوش نصیب تو اس ایک مہینے کی برکت سے پورے سال وادی جنت میں گھومنے پھرنے کا بندو بست کر لیتے ہیں جبکہ بعض، اس کی برکتوں سے پوری عمر جنت کا لطف اٹھاتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس کے بر عکس بعض افراد ایسے بھی ہیں جو آنکھیں بند کئے اور کانوں میں تیل ڈالے اس مہینے کے نزدیک سے گزر جاتے ہیں اور اس کی برکتوں کو ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام اور ان کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ جو شخص ماہ مبارک رمضان کی برکت سے ھوی و ہوس اور نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے میں کامیاب ہو گیا اس نے در حقیقت بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسے چاہئے کہ اس کی دل و جان سے حفاظت کرے۔ جو شخص نفسانی خواہشات اور ہوسرانی سے پریشان ہے اس مبارک مہینے میں اپنی ان خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی تمام بد بختیوں کی جڑ، نفسانی خواہشات کی پیروی اور ان کا اسیر ہو جانا ہے۔ جو بھی ظلم اور نا انصافی ہوتی ہے، جتنے فریب اور دھوکے دئے جاتے ہیں، تمام ظالمانہ جنگیں، بد عنوان حکومتیں یہ ساری کی ساری برائیاں نفسانی خواہشات کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان اپنے نفس پر غالب آ جائے تو اسے نجات حاصل ہو جائے گی اور اس کے لئے بہترین موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ بنابریں سب سے اہم مسئلہ گناہوں سے پرہیز کا ہے، ہمیں چاہئے کہ اس مہینے میں تہذیب نفس کریں اور گناہوں سے دور رہنے کی کوشش اور مشق کریں۔ اگر ہم نے خود کو گناہوں سے دور کر لیا تو عالم ملکوت میں ہماری معنوی پرواز کے لئے فضا ہموار ہو جائے گی اور انسان معنوی سفر کرتے ہوئے وہ راستہ طے کرے گا جو اس کے لئے معین کیا گیا ہے لیکن اگر اس کی پشت پر گناہوں کی سنگینی باقی رہی تو یہ چیز ممکن نہ ہوگی۔ ماہ مبارک رمضان گناہوں سے دور ہونے کا بہترین موقع ہے۔روزہ جسے الہی فریضہ کہا جاتا ہے در حقیقت ایک الہی نعمت اور تحفہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے ایک سنہری موقع ہے جو روزہ رکھنے کی توفیق حاصل کرتے ہیں۔ البتہ اس کی اپنی سختیاں اور صعوبتیں بھی ہیں۔ جتنے بھی با برکت، مفید اور اہم اعمال ہیں ان میں دشواریاں ہوتی ہیں۔ انسان دشواریوں کا سامنا کئے بغیر کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ روزہ رکھنے میں جو سختی برداشت کرنا ہوتی ہے وہ اس جزا اور ثمرے کے مقابلے میں ہیچ ہے جو روزہ رکھنے کے نتیجے میں انسان کو ملتا ہے۔ روزے کے تین مراحل ذکر کئے گئے ہیں اور یہ تینوں مراحل اپنے مخصوص فوائد اور ثمرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلا مرحلہ، روزہ کا یہی عمومی مرحلہ ہے، یعنی کھانے پینے اور دیگر مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا۔ اگر ہمارے روزے کا لب لباب انہی مبطلات روزہ سے پرہیز ہے تب بھی اس کی بڑی اہمیت و قیمت اور بڑے فوائد ہیں۔ اس سے ہمارا امتحان بھی ہو جاتا ہے اور ہمیں کچھ سبق بھی ملتا ہے۔ تو یہ روزہ درس بھی اور زندگی کے لئے امتحان بھی۔ ساتھ ہی یہ مشق اور ورزش بھی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ لیستوی بہ الغنی و الفقیر اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا کہ ان مخصوص ایام میں مخصوص اوقات کے دوران غنی و فقیر برابر ہو جائیں۔ جو افراد تہی دست اور غریب ہیں وہ ہر وہ چیز نہیں حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی خواہش ہوتی ہے لیکن غنی و دولتمند انسان کا جب جو کھانے اور پہننے کا دل کرتا ہے اس کے لئے وہ چیز فراہم رہتی ہے۔ چونکہ امیر انسان کی ہر خواہش فورا پوری ہو جاتی ہے اس لئے اسے تہی دست اور غریب کا حال نہیں معلوم ہو پاتا لیکن روزہ رکھنے کی صورت میں سب یکساں اور مساوی ہو جاتے ہیں اور سب کو اپنی خواہشیں دبانا پڑتی ہیں۔ جو شخص بھوک اور پیاس تحمل کر چکا ہوتا ہے اسے ان سختیوں کا بخوبی اندازہ رہتا ہے اور وہ ان صعوبتوں کو برداشت کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان انسان کو سختیوں اور دشواریوں سے نمٹنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لینے کی مشق کرواتا ہے۔ تو اس عمومی مرحلے میں بھی اتنے سارے فوائد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کا شکم جب خالی رہتا ہے اور وہ ایسے بہت سے کاموں سے روزے کی وجہ سے پرہیز کرتا ہے جو عام حالات میں اس کے لئے جائز ہیں تو اس کے وجود میں ایک نورانیت اور لطافت پیدا ہوتی ہے جو واقعی بہت قابل قدر ہے۔ روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے دوری اور اجتناب کا ہے۔ روزے کی وجہ سے انسان، آنکھ، کان، زبان اور دل حتی جلد جیسے جسمانی اعضاء و اجزاء کو گناہوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا درجہ پہلے مرحلے کی بنسبت زیادہ بلند ہوتا ہے۔ رمضان کا مہینہ انسان کے لئے گناہوں سے اجتناب کی مشق کا بہت مناسب موقع ہوتا ہے۔ لہذا دوسرے مرحلے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان خود کو گناہوں سے پاک و منزہ بنا لیتا ہے، آپ نوجوانوں کا فریضہ ہے کہ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ نوجوانی میں انسان کے پاس طاقت و توانائی بھی زیادہ ہوتی اور اس کا دل بھی پاک و پاکیزہ ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کو ان خصوصیات سے کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس مہینے میں آپ گناہوں سے دوری و اجتناب کی مشق کیجئے جو روزے کا دوسرا مرحلہ ہے۔ روزے کا تیسرا مرحلہ ایسی ہر چیز سے پرہیز ہے جو انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہی سے غافل کر دے۔ یہ روزے کا وہ مرحلہ ہے جس کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں روزہ، روزہ دار کے دل میں ذکر الہی کی شمع روشن کر دیتا ہے اور اس کا دل معرفت پروردگار سے منور ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کے لئے ہر وہ چیز مضر ہے جو اسے ذکر پروردگار سے غافل کر سکتی ہو۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو روزہ داری کی اس منزل پر فائز ہیں۔ ماہ رمضان، دعا و مناجات اور تقوا و پرہیزگاری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم عبادات اور اذکار کے ذریعے روحانی و معنوی قوت حاصل کرکے سنگلاخ وادیوں اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ ماہ رمضان، قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کو چاہئے کہ خود کو معنوی خزانوں تک پہنچائيں اور پھر حتی المقدور اس خزانے سے سرمایہ حاصل کریں اور آگے بڑھنے کے لئے آمادہ ہوں۔ ماہ رمضان میں روزہ، نماز، دعا و مناجات،بندگی و عبادات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اگر ہم اس پر توجہ دیں اور تلاوت کلام پاک کی خوشبو کا بھی اس میں اضافہ کر لیں، کیونکہ ماہ رمضان کو قرآن کے موسم بہار سے تعبیر کیا گيا ہے، تو خود سازی اور تہذیب نفس، سعادت و خوشبختی کی بڑی حسین منزل پر ہمارا ورود ہوگا۔ ماہ مبارک رمضان کے شب و روز میں آپ اپنے دلوں کو ذکر الہی سے منور رکھئے تاکہ شب قدر کے استقبال کے لئے آپ تیار ہو سکیں۔ لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر یہ وہ شب ہے جس میں فرشتے زمین کو آسمان سے متصل کر دیتے ہیں۔ قلوب پر نور کی بارش ہوتی ہے اور پورا ماحول لطف الہی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ رات معنوی سلامتی اور دل و جان کی جلا، اخلاقی، معنوی، مادی، سماجی اور دیگر بیماریوں سے شفا کی شب ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو بد قسمتی سے بہت سی قوموں حتی مسلم اقوام میں سرایت کر گئی ہیں۔ ان سب سے نجات اور شفا شب قدر میں ممکن ہے بس شرط یہ ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ اس رات میں داخل ہوا جائے۔ ہر سال کو اللہ تعلی کی جانب سے ایک سنہری موقع عطا کیا جاتا ہے اور وہ موقع و وقت ماہ مبارک رمضان ہے۔ اس مہینے میں دلوں میں لطافت، روح میں درخشندگی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان رحمت پروردگار کی خاص وادی میں قدم رکھنے کے لائق بن جاتا ہے۔ اس مہینے میں ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق ضیافت پروردگار سے استفادہ کرتا ہے۔ جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے تو ایک نیا دن شروع ہوتا ہے جو عید کا دن ہوتا ہے۔ یعنی وہ دن جب انسان ماہ رمضان میں حاصل ہونے والے ثمرات اور توفیقات کے ذریعے پورے سال کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کرکے کجروی سے خود کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ عید فطر کاوشوں اور زحمتوں کا ثمرہ حاصل کرنے اور رحمت الہی کے دیدار کا دن ہے۔ عید فطر کے تعلق سے بھی ایک اہم بات اس دن پورے سال کے لئے آمادگی کا سنجیدہ فیصلہ ہے۔ یہیں سے آئندہ سال کے ماہ مبارک رمضان کے خیر مقدم کی تیاری شروع ہوتی ہے، اگر کوئی چاہتا ہے کہ ماہ رمضان میں اللہ تعالی کا مہمان بنے اور شب قدر کی برکتوں سے بہرہ مند ہو تو اسے پورے گیارہ مہینے بہت محتاط رہنا ہوگا۔ عید کے دن اسے یہ عہد کرنا ہوگا کہ پورا سال اسے اس انداز سے بسر کرنا ہے کہ ماہ رمضان خود اس کا استقبال کرے اور وہ ضیافت الہی کے دسترخوان پر بیٹھنے کے لائق ہو۔ یہ ایک انسان کو ملنے والا سب سے بڑا فیض ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انسان اور اس کے تمام متعلقین نیز اسلامی معاشرے سے وابستہ تمام امور میں کامیابی و کامرانی کا بہترین وسیلہ ہے۔ اگر ہم پوری آمادگی کے ساتھ ماہ رمضان میں داخل ہوئے تو ضیافت الہی سے بھرپور استفادہ کر سکیں گے ہم ایک زینہ اوپر پہنچ جائیں گے اور ہمارا درجہ بلند ہوگا۔ پھر ہم اپنے دل و جان کی گہرائيوں میں بھی اور اپنے گرد و پیش کے حالات میں بھی وہ مناظر دیکھیں گے جن سے ہمیں حقیقی خوشی اور مسرت حاصل ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر 1 ستمبر 2008 کو بولیویا کے صدر مورالس اور ان کے ہمراہ تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں بولیویا کے حالیہ ریفرنڈم میں عوام کی جانب سے صدر مورالس کی زبردست حمایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا عوام دوستی کا جذبہ، کمزور اور مستضعف طبقات پر آپ کی توجہ اور عوام کی خدمت کی کوششیں بہت با ارزش ہیں اور یہی جذبہ قوموں کی سرافرازی کا ضامن بن سکتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں آٹھ شہریور سن تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی مطابق تیس اگست انیس سو اکاسی کو دفتر وزارت عظمی میں دہشت گردانہ دھماکہ ہوا جس میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے دو قریبی شیدائی اور انقلابی رہنما صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد با ہنر شہید ہو گئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج جعمرات اٹھائیس اگست دو ہزار آٹھ عیسوی کو ماہرین کی کونسل کے سربراہ اور دیگر اراکین سے ملاقات میں اس کونسل کو بہت اہم مقام کا حامل اور عوام اور اسلامی نظام کے لئے اطمینان خاطر کا موجب قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ماہرین کی کونسل کی ایک سب سے اہم ذمہ داری بنیادی اصولوں اور نعروں کی تقویت و تحفظ اور اسلامی نظام کو صحیح سمت میں آگے بڑھانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج منگل 26 اگست 2008 کو یونیورسٹی کے چنندہ طلبا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علم و دانش کو اقدار کا جز اور قومی سرمائے اور توانائی کے حصول کا اہم وسیلہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت ملک کا بنیادی موقف سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کا موقف ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 26 اگست 2008 کو یونیورسٹی کے ممتاز طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب میں علم و دانش کی اہمیت اور اس شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح صدر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں، محنت و مشقت، عوام کی پر خلوص خدمت اور امام خمینی اور انقلاب کے نعروں اور اصولوں کی پابندی کو موجودہ حکومت کی تین اہم ترین خصوصیات قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب اسلامی کا چوتھا عشرہ، ترقی و مساوات کا عشرہ ہے لہذا تمام منصوبہ بندیاں اور کوششیں اسی تناظر میں انجام پانی چاہئیں۔ ہفتہ حکومت کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ موجودہ حکومت کی قدردانی کی وجہ اس حکومت کی وہ برجستہ صفات ہیں جو اسلامی تعلیمات میں شرافت کے حقیقی معیار کے طور پر متعارف کرائی گئی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ تمام الہی ادیان حتی دوسرے مذاہب کے پیرؤوں نے بھی انصاف کے تشنہ انسانوں کوپوری دنیا میں عدل وانصاف قائم کرنے والے ایک نجات دہندہ کے ظھور کی تاریخی بشارت دی ہے۔
سب سے پہلے تمام مؤمن و دیندار انسانوں کی آمیدوں اور آرزوؤں کی محور اس مژدہ آفریں عید سعید کی آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں خصوصا ولایت اہلبیت (ع) پر یقین رکھنے والوں اور ظلم و ستم سے بر سر پیکار تمام حریت نواز بیدار و باخبر انسانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
نیمۂ شعبان کا دن امیدوں کا دن ہے ، یہ امید شیعیان آل محمد (ص) سے مخصوص نہیں ہے حتی امت مسلمہ سے بھی مخصوص نہیں ہے عالم بشریت کے ایک روشن و درخشاں مستقبل کی آرزو اور پوری دنیا میں انصاف قائم کرنے والے ایک عدل گستر ، منجی عالم موعود کے ظہور پر تقریبا وہ تمام ادیان اتفاق رکھتے ہیں جو آج دنیا میں پائے جاتے ہیں ، دین اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتی ہندوستان کے ادیان میں ، بودھوں اور جینیوں یہاں تک کہ ان مذہبوں نے بھی کہ جن کے نام دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں بھی نہیں ہیں اپنی تعلیمات میں ایک اس طرح کے مستقبل کی بشارت دی ہے ، یہ سب کچھ در اصل تاریخ کے طویل دور میں تمام انسانوں کے اندر امید کی شمع روشن رکھنے اور تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ایک حقیقت کے لئے امیدوار رہنے کے لئے بیان ہوا ہے ۔
اللہ کے بھیجے آسمانی ادیان نے جو زيادہ تر الہی اور آسمانی جڑوں کے حامل ہیں ، لوگوں میں بلاوجہ امیدوں کی جوت نہیں جگائی ہے ، ایک حقیقت کو انہوں نے بیان کیا ہے انسانوں کی خلقت اور بشریت کی طویل تاریخ میں ایک حقیقت موجود ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان یہ مقابلہ آرائی ایک دن حق کی کامیابی اور باطل کی ناکامی پر ختم ہوگی اور اس دن کے بعد انسان کی حقیقی دنیا اورانسان کی منظور نظر زندگی شروع ہوگی اس وقت مقابلہ آرائی کا مطلب جنگ و دشمنی نہیں بلکہ خیر و خیرات میں سبقت کا مقابلہ ہوگا ۔ یہ ایک حقیقت ہے جو تمام ادیان و مذاہب میں مشترک ہے ۔
ہم شیعوں کے عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک تخیلاتی چیز سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ جس وقت مہدی موعود کے انتظار کی بات کرتے ہیں اور اس نجات دہندہ ہاتھ کے انتظار کا ذکر کرتے ہیں تو انتظار کے وقت صرف تخیلات میں غوطہ زنی نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی جستجو کرتے ہیں جو اس وقت موجود ہے ، حجت خدا کی صورت میں لوگوں کے درمیان زندہ ہے اور موجود ہے ، لوگوں کے ساتھ زندگي گزار رہا ہے ، لوگوں کو دیکھ رہا ہے ان کے ساتھ ہے ، ان کے دردوں کو ، ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے انسانوں میں بھی جو لوگ اہل سعادت ہوں ، جن میں صلاحیت و ظرفیت پائی جاتی ہو ، بعض اوقات ناآشنا اور ناشناس کےطور پر ان کی زیارت کرتے ہیں ، وہ موجود ہے ، ایک حقیقی اور مشخص و معین انسان کے عنوان سے جو خاص نام رکھتا ہے جس کے ماں باپ معلوم ہیں ، لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے ۔یہ ہم شیعوں کے عقیدہ کی خصوصیات میں سے ہے ۔وہ لوگ بھی ، جو دوسرے مذاہب کے ہیں اور اس عقیدہ کو قبول نہیں کرتے ، آج تک کبھی کوئی ایسی عقل پسند دلیل پیش نہیں کرسکے جو اس فکر اور اس عقیدہ کو رد کرتی ہو اور خلاف حقیقت ہونا ثابت کرتی ہو بہت سی روشن و واضح ، مضبوط دلیلیں، جن کی بہت سے اہلسنت نے بھی تصدیق کی ہے ، پورے قطع و یقین کے ساتھ اس عظیم انسان ، خدا کی اس عظیم حجت اور اس تابناک و درخشاں حقیقت کے وجود پر ان ہی خصوصیات کے ساتھ جو ہم اور آپ جانتے ہیں ، دلالت و حکایت کرتی ہیں اور آپ بہت سی بنیادی کتابوں میں بھی جو شیعوں کی نہیں ہیں ، اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔
امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ و السلام کے پاک نہاد، فرزند مبارک کی تاریخ ولادت معلوم ہے ان سے مرتبط تمام تفصیلات معلوم ہیں ان کے معجزات معین و مشخص ہیں خدا نے ان کو طولانی عمر دی ہے اور دے رہا ہے اور یہی ذات دنیا کی تمام امتوں ، تمام قبیلوں ، تمام مذہبوں ، تمام نسلوں ، تمام دوروں اور زمانوں کی آرزوؤں کو مجسم کرتی ہے اور اس اہم مسئلے کے بارے میں مذہب شیعہ کی یہ ایک خصوصیت ہے ۔
مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ آپ اسلامی آثار میں شیعی کتابوں میں حضرت مہدی موعود ( عج ) کے ظہور کے انتظار کو انتظار فرج سے تعبیر کیا گيا ہے ، اس فرج کا کیا مطلب ہے ؟ فرج یعنی گرہیں کھولنے والا؛ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے ؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے ؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو ، کہیں کوئی گرہ پڑگئی ہو ، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئی ہو ، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنے ناخن تدبیر کے ذریعہ الجھی ہوئی گرہ کھول دے کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کردے ۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے ۔
انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا ،حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو ، انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو ، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے ، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہوجائے ، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑجانے کا نہیں ہے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کےلئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو اٹکی ہوئي پریشانی سے نجات دیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آج ہورہا ہے اور اس وقت پایا جاتا ہے انسانی ( ہاتھوں کا بنایا ہوا) یہ غیر منصفانہ نظام ، یہ انسانی نظام کہ جس میں بے شمار انسان مظلومیت کا شکار ہیں بے شمار دلوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے بے شمار انسانوں سے بندگی کے مواقع چھین لئے گئے ہیں اس صورت حال کے خلاف احتجاج اور اعتراض ہے جو امام زمانہ کے ظہور کا منتظر ہے ۔ انتظار فرج کا مطلب ہے اس صورت حال کو مسترد کردینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اور انسانی زندگی پر حکمران بشری اغراض و مقاصد کے زیر اثر دنیا پر مسلط کردی گئی ہے،انتظار فوج کا مفہوم یہی ہے ۔آج آپ لوگ دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں وہی چیز جو حضرت ولی عصر ( ہماری جانیں جن پر فدا ہوجائیں ) کے ظہور سے متعلق روایات میں ہیں ، آج دنیا پر حکمراں ہیں ، دنیا کا ظلم و جور سے بھرجانا، آج دنیا ظلم و ستم سے بھرگئی ہے ولی عصر ( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ) سے متعلق روایتوں ، دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا ویسے ہی جیسے ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی ، جس زمانہ میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہوگا اسی طرح خداوند عالم ان کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کردے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا ۔وہ وقت یہی ہے ، اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے آج انسانی زندگي عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے ( اور ظالموں کے قہر و غلبہ کا شکار ہے ) ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے آج عالم بشریت ظلم کے غلبہ کے سبب،انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے پناہ مشکلات میں گرفتار ہے ۔آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور دسیوں لاکھ انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے طاغوتی نظاموں میں زندگي گزار رہے ہیں ، حتی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسر پیکار ملتیں منجملہ ایرانی قوم ، جس نے ایک محدود ماحول میں ، ایک معین و مشخص دائرے میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کررکھا ہے،اس پر اور مجاہدین راہ خدا پر فشار اور دباؤ پوری دنیا پر ظلم و جور کا جال بچھا ہونے کی کھلی نشانیاں ہیں ۔ اس انتظار فرج کا مفہوم، مختلف ادوار میں انسانی زندگي کی موجودہ کیفیات بیان کرتی ہیں ۔
آج ہم کو فرج یعنی گرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب ایک عدل گستر قوی و توانا دست قدرت کے منتظر ہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو توڑدے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم و مقہور بنا رکھا ہے ، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کردے اور انسانوں کی زندگي ایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سے تازہ کردے تا کہ تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا احساس ہو یہ ایک آگاہ و باخبر زندۂ و بیدار انسان کی دائمی ضرورت ہے ہر وہ انسان جو خود اپنے وجود میں سر ڈال کر نہ بیٹھا ہوا ہو ، صرف اپنی زندگی میں مست نہ ہو ، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو ، قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی ،انتظار کا یہی مطلب ہے ۔انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبول صورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال ولی خدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنے گی ۔لہذا خود کو ایک جانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالات میں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے ۔
انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کوئی کام انجام نہ دے کسی طرح کی اصلاح کا اقدام نہ کرے صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظر ہیں ۔ یہ تو انتظار نہ ہوا ۔انتظار کس کا ہے ؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتی ہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کا خاتمہ کردے حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگي میں عدل و انصاف کو حکمراں کردے ، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنادے ، اس کام کی آمادگي ہونی چاہئے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم ہے انتظار کا مطلب یہ ہے ، انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے انتظار تیاری اور آمادگي کو کہتے ہیں اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں ، خود اپنے گرد و پیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے یہ خداوند متعال کی دی ہوئي نعمت ہے کہ ہماری عزیز و باوقار قوم اور ملت ایران نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اورحقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے ،انتظار فرج کا یہی مطلب ہے ، انتظار فرج یعنی کمرکس لینا ، تیار ہوجانا ، خود کو ہر رخ سے، وہ ہدف کہ جس کے لئے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے آمادہ و تیار کرنا ، وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہوگا وہ عدل و انصاف قائم کرنے ، انسانی زندگي کو الہی زندگي بنانے اورخدا کی بندگي رواج دینے سے عبارت ہے اور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔
آج بحمداللہ ہماری قوم مہدویت اور امام مہدی سلام اللہ علیہ کے وجود اقدس کی طرف ہمیشہ سے زیادہ متوجہ ہے روزبروز ہر انسان محسوس کرسکتا ہے جوانوں کے دل میں ،ملت کی ایک ایک فرد کے یہاں ، حضرت حجت علیہ السلام کے وجود اقدس کے سلسلے میں عشق و ارادت ، اشتیاق اور ذکر و یاد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔یہ بھی خود ان ہی بزرگوار کی برکتوں میں سے ہے ہماری اس ملت پر ان کی نگاہ لطف و رحمت کا نتیجہ ہے جس نے ان کے قلوب اس روشن و تابناک حقیقت کی طرف جھکادئے ہیں خود یہ چیز بھی امام ( ع ) کی خصوصی توجہ کی نشانی ہے اور اس کی قدر کرنی چاہئے ۔
البتہ تمام حقائق کی طرح ، جو مختلف ادوار میں مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے رہے ہیں یہ حقیقت بھی کبھی کبھی مفاد پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتی ہے یہ لوگ جو خلاف واقعہ دعوے کیا کرتے ہیں ، دیدار و ملاقات کے دعوے ، شرفیابی کے دعوے حتی بالکل واہیات شکل میں آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنےکے دعوے جو واقعا بڑے ہی شرم انگیز دعوے ہیں ، یہ سب وہی باطل طریقے اور وطیرے ہیں جو اس روشن حقیقت کو ممکن ہے پاک نہاد انسانوں کے دل و نگاہ میں مخدوش کردیں لہذا اس کی اجازت نہیں دینا چاہئے ۔
یہ تعلق اور ارتباط اور امام (ع) کی خدمت میں تشرف اور حاضری کے دعوے اور آپ سے حکم و فرمان حاصل کرنے کی باتیں ، کچھ بھی قابل تصدیق نہیں ہیں ہمارے بزرگوں ، عظیم ہستیوں اور ممتاز و باوقار انسانوں نے کہ جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ ، ہم جیسے انسانوں کی زندگي کے دنوں ، مہینوں اور برسوں کی زندگي اور پوری پوری عمر سے زیادہ قیمت رکھتا ہے اس طرح کا ادعا نہيں کیا ہے ممکن ہے کسی خوش نصیب انسان کی نگاہ اور دل میں وہ ظرفیت و صلاحیت پیدا ہوجائے کہ آپ کے جمال مبارک سے پرنور ہوجائے لیکن اس طرح کے لوگ دعوے نہیں کرتے ان سے ان سے کہتے نہیں پھرتے ، اپنی دوکان نہیں چمکاتے ، یہ لوگ جو اس وسیلے سے اپنی دوکانیں چلارہے ہیں ، ان کے لئے انسان پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور افترا سے کام لیتے ہیں ، اس روشن و درخشاں عقیدہ کو اس اعتقادی آفت سے دور و محفوظ رکھنا چاہئے ۔
آج خوش قسمتی سے ہماری اس بزم میں کچھ اہل ثقافت بھی ہیں اہل سفارت بھی ہیں اہل تعلیم و تربیت بھی تشریف رکھتے ہیں ، ادارۂ جوانان سے وابستہ کچھ ممتاز و نامور جوان بھی موجود ہیں اور کچھ مہدیت پر کام کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں چنانچہ علم و ثقافت سے وابستہ بیدار و آگاہ تمام بھائیوں اور بہنوں سے اس مناسبت کے تحت جو کچھ میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہمارے اسلامی عقائد خاص طور پر شیعی اعتقادات پاکیزہ ترین و منطقی ترین و مستحکم ترین عقائد کا حصہ ہیں وہ توحید جو ہم مجسم کرتے ہیں نبی (ص) کی شخصیت جو ہم مجسم کرتے ہیں ، امامت جو ہم مجسم کرتے ہیں ، اعتقادی مسائل اور دینی معارف جو آئین تشیع میں ہم پیش کرتے ہیں ایسی روشن و واضح منطقی تصویریں ہیں کہ کوئی بھی فعال ذہن اور تحقیق و جستجو رکھنے والا دماغ ان اعتقادات کی حقانیت ، صحت و درستی اور باریک بینی کو دیکھ اور سمجھ سکتا ہے شیعہ عقائد بہت ہی مستحکم عقائد ہیں اور تاریخ کے ہر دور میں شیعہ عقائد کے سلسلے میں یہی تصور رہا ہے دوسروں حتی مخالفین نے مقام احتجاج اور مقام استدلال میں ، کلامی بحث و گفتگو میں ، ائمہ علیہم السلام سے ماخوذ عقائد امامیہ کے استحکام کا اعتراف کیا ہے اور ائمہ علیہم السلام نے قرآن کریم کے کہنے کے مطابق ہم کو غور و فکر اور تامل و تدبر اور عقل و خرد کے استعمال کا حکم دیا ہے ، یہی وجہ ہے ان عقائد میں فکر و نظر اور تعقل و خرد اندیشی آشکار ہے جبکہ ائمہ علیہم السلام کی رہنمائیاں بھی ہدایت و آگہی سے آراستہ ہیں اور غلطیوں سے حفاظت کرتی ہیں ۔
ان عقائد کو پہلے صحیح طور پر سمجھنا چاہئے پھر دوسرے مرحلے میں غور و فکر کے ذریعہ اس میں گہرائی پیدا کرنا چاہئے اور اس کے بعد تیسرے مرحلے میں صحیح صحیح دوسروں تک منتقل کرنا چاہئے تمام ثقافتی مجموعوں کو یہی روش اپنانی چاہئے تعلیم و تربیت کے میدان میں ایک معلم کو ،تعلیمی اور تربیتی اداروں کے منتظمین کو بہترین انداز میں اس سنہرے موقع سے ، جب جوانوں کی ایک عمران کے اختیار میں ہوتی ہے ، بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے دینی اور مذہبی عقائد ، نہ صرف دینی تعلیمات کے گھنٹوں میں بلکہ تمام موضوعات کا درس دیتے وقت جہاں کہیں بھی موقع مناسب ہو عقل و ہوش اور دقت نگاہ سے کام لے کر اپنے متعلم کے دل و جان میں پوری سنجیدگي سے راسخ کردینا چاہئے تا کہ طالبعلم کو موقع مل سکے کہ وہ اپنے عقائد دل و دماغ میں پروان چڑھائے ۔
دوسری قوموں اور ملک سے باہر دوسرے ملکوں میں مشغول ثقافتی مراکز اور ان سے وابستہ اداروں کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ان حقائق کو مختلف طریقوں اور عنوانوں سے چاہنے اور جستجو رکھنے والوں کی چشم و نگاہ کے سامنے لائیں اور پیش کریں اسی قدر کافی ہے کہ وہ واقف ہوجائیں ۔اسی مہدویت کے مسئلے میں ، اہلسنت کے وہ حضرات یا حتی غیر مسلم عالموں اور دانشوروں کے درمیان کہ جنہوں نے مہدویت سے متعلق شیعہ عقائد کا مطالعہ کیا ہے اور معلومات حاصل کرنے کے بعد تصدیق و تائید کی ہے کہ تورات و انجیل اور دیگر مذاہب میں بھی جو بشارتیں ذکر ہوئی ہیں اسی مہدویت سے مطابقت رکھتی ہیں جو شیعوں کے یہاں پائي جاتی ہے، اس کا اعتراف کرتے ہیں ، وہ لوگ جو شیعہ عقائد سے ناواقف ہیں یا اس کی بگڑی ہوئي شکل ان تک پہنچی ہے اچھا، تو ٹھیک ہے وہ اس سلسلے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے ، ان تک صحیح عقیدہ پہنچانا چاہئے اس وقت آپ دیکھیں گے کہ باخبر علما اور پڑھے لکھے دانشوروں کا فیصلہ اس عقیدہ کے حق میں ہوگا اور وہ سب تائید و تصدیق کریں گے اور اس کی طرف مائل ہوں گے ۔اس بات پر ہمارے جوانوں ، ہمارے جوان و رعنا فرزانوں ، اسکول اور کالج کے بچوں ، یونیورسٹیوں اور حوزوں کے فاضل طلاب اور محققین کو بھی توجہ دینی چاہئے اور ان اداروں اور مرکزوں کو بھی پیش نظر رکھنی چاہئے جو شعبہ تعلیم و تعلم ، تبلیغ و نشر و اشاعت اور افکار و اذہان کی تربیت کے ذمہ دار ہیں کہ اپنے مخاطبین کے سامنے اس روشن حقیقت کی نشان دہی کرنا جو مذہب امامیہ کے اختیار میں ہے اور پیروان اہلبیت علیہم السلام جس پر عمل پیرا ہیں ، اسی وقت مفید ہے جب وہ مخاطب کو قبول کرنے پر آمادہ کرسکے اور مخاطب اس کی تائید و تصدیق کرسکے ۔حقیقت کو دکھانا چاہئے لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ وہ ہر قسم کی بناوٹ، تہمت و افترا ، خرافات ، جھوٹے دعووں ، کج فکریوں اور کج بیانیوں سے پاک و صاف ہو ،اس سلسلے میں علمائے دین ، ممتاز مبلغین اور روشن فکر محققین و دانشور کا کردار یقینا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ہماری قوم نے اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات اور قرآنی ہدایات پر عمل کرکے انقلاب کے دوران بھی، ( آٹھ سالہ ) دفاع مقدس کے زمانہ میں بھی اور ہمارے ملک کو در پیش طرح طرح کے حادثوں اور المیوں سے دوچار ہوتے وقت بھی ان تعلیمات کی حقانیت کو ثابت کیا ہے ۔دنیا کے بہت سے لوگ مقدس دفاع کے دوران تشیع کی حقانیت سے آشنا ہوئے اور اس کی طرف قلبی میلان کے ساتھ اس کو مانا اور قبول کیا ہے چنانچہ بہت سے عالمی مندوبین نے دفاع مقدس کے دوران اور اسلامی انقلاب کے دوران ، ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور ان کے حواریوں کے عمل اور طرز عمل کو دیکھ کر، جو یہی راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہد و سرفروش جوان تھے ، اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں بہت سی وہ ملتیں جو مسلمان تھیں لیکن اسلام کی حقیقت سے غافل تھیں، جاگی اور بیدار ہوئي ہیں ، دین و مذہب کی صحیح حقیقت کو پیش کرنا خاص طور پر عمل کے ذریعہ مذہبی حقائق کو نمایاں کرنا اسی طرح کی معجز نما خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ملت عزیز حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی پاکیزہ و مقبول دعاؤں کی مستحق قرار پائے اور انشاء اللہ آپ کے ظہور کے انتظار کے سلسلے میں اس ملت کے عشق و ارادت اور انس و اشتیاق میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے اور انشاء اللہ دلوں اور نگاہوں میں اور دنیا میں امام عصر (عج) کے عظیم و پرشکوہ الہی انقلاب کی صلاحیت و ظرفیت پیدا ہوجائے ۔
محکمۂ انٹلیجنس کے وزير اور ان کی وزارت کے اہم کارندوں نے حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای سے ملاقات کی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملاقات کے دوران اس وزارتخانے کو انقلاب کے عطا کردہ بہترین و وفادار ترین مجموعے سے تعبیر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وزارت انٹلیجنس ، اپنی طاقت فرسا زحمتوں اور کاوشوں اور در حقیقت خاموش جد وجہد کے ذریعہ دشمنوں کے مقابلے میں اسلامی انقلاب ،اقدار و معیارات اور عوام کی حفاظت میں مصروف ہے اور سبھی کو اس کی قدر کرنی چاہئے ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج وزارت خارجہ کے اعلی عہدہ داروں اور دیگر ممالک میں ایران کے سفرا اور نمایندوں سے ملاقات میں اسلام جمہوری نظام کی موجودہ عالمی پوزیشن اور مسلسل جاری ترقی و پیشرفت کے عمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ضروری اقدامات اور تدابیر پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ شب قرآن کریم کی قرئت اور حفظ کے پچیسویں عالمی مقابلے میں شرکت کرنے والے قاریوں، حافظوں اور مقابلوں کے ججوں سے ملاقات میں قرآن سے تمسک کو امت مسلمہ کی نجات اور خوشبختی کا واحد راستہ قرار دیا اور فرمایا کہ قرآن کے عالمی مقابلوں کا انعقاد امت مسلمہ کو قرآنی مفاہیم پر غور و فکر اور قرآن سے اسے مانوس کرنے کے سلسلے میں موثر اقدام ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ان مقابلوں کے مزید فوائد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح مسلمانوں کو مسلم ممالک کے افکار و نظریات اور آداب و رسومات سے آشنائی کا موقع بھی ملتا ہے۔
حسینیہ امام خمینی (رہ) میں آج ٹکنالوجی اور ایجادات کے منتخب نمونوں کی نمائش لگائی گئی۔
اس نمائش میں پیش کئے گئے بعض منصوبے اور ایجادات ایران میں پہلی بار سامنے آئی ہیں اور ان میں بعض ٹکنالوجیاں ایسی تھیں جو دنیا کے صرف ایک یا معدودے چند ملکوں کے پاس ہیں۔
نینو کلچر ٹکنالوجی کے سہارے مصنوعی جلد کی تیاری، مصنوعی جگر کی تیاری کا منصوبہ، سنگل کلچرسیلیولر انجینیئرنگ، نینو ٹکنالوجی کے سہارے کینسر کی دوائیں، جدید ترین مائیکرو اسکوپ، پانی کی صفائی کے لئے نینو فلٹریشن مشین، وہ ایجادات اور پروجیکٹ تھے جو نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں رکھے گئے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج اتوار کے روز شام کے صدر بشار اسد اور ان کے ہمراہ تہران کے دورے پر آنے والے وفد سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مستحکم و اطمینان بخش قرار دیا اور فرمایا کہ حافظ اسد مرحوم نے ایران و شام کے تعلقات کی بہت مضبوط بنیاد ڈالی جس کی وجہ سے رخنہ اندازی کی تمام تر سازشوں کے باوجود یہ تعلقات پورے استحکام کے ساتھ قائم ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عید بعثت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے کچھ سزا یافتہ افراد کی سزاؤں میں تخفیف کی درخواست منظور کر لی۔ فوجی، سول اور دیگر عدالتوں سے سزا پانے والے تین ہزار چوراسی افراد کی سزائیں معاف یا کم کرنے کی موافقت ہوئی ہے۔ عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی شاہرودی نے قائد انقلاب اسلامی کو لکھے گئے ایک خط میں ان تین ہزار چوراسی افراد کی سزاؤں کی معافی یا ان میں تخفیف کی درخواست کی تھی جن کے معافی یا تخفیف کے معاملے متعلقہ ادارے میں قانونی مراحل سے گزر چکے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پائیداری اور استقامت کو بعثت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اہم ترین پیغام قرار دیاـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج یوم بعثت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موقع پر ملک کے حکام، عوام کے مختلف طبقات اور اسلامی ملکوں کے سفیروں سے ملاقات میں تمام حالات میں پائيداری اور استقامت کو بعثت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے بڑا درس قرار دیا۔
تیس جولائي سن دو ہزار آٹھ عیسوی مطابق ستائيس رجب المرجب سن چودہ سو انتیس ہجری قمری کو عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام، مختلف عوامی طبقات کے افراد اور اسلامی ممالک کے سفیروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بعثت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے والے اہم سبق، موجودہ حالات کے تقاضوں اور ضروری اقدامات پر روشنی ڈالی۔
ہمارے ملک میں حقیقی معنی میں انتخابات انجام پاتے ہیں۔ بہت سے نام نہاد جمہوری ممالک میں انتخابات اس طرح نہیں ہوتے بلکہ وہاں انتخابات دولتمندوں اور طاقتور حلقوں کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ چیز کہ کوئي امیدوار عوام کے درمیان سے اٹھے اور کسی طاقتور حلقے کی پشت پناہی کے بغیر عوام کے سامنے اپنی بات رکھے اور ووٹ حاصل کرے بغیر اس کے کہ کسی سیاسی پارٹی کا آشیرواد یا کسی سیاسی گروہ کی حمایت اسے حاصل ہو، دنیا میں بے مثال ہے اور شاذ و نادرہی دکھائي دیتی ہے۔ دشمن یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے کہ ایران میں جمہوریت نہیں ہے جبکہ خود اسے بھی علم ہے کہ جو جمہوریت آج ایران میں ہے ملک کی پوری تاریخ میں اس کی کوئي اور مثال نہیں ملتی۔ ایران کی گزشتہ تاریخ میں یہ آزادی عوام کو کبھی نہیں ملی (جو آج انہیں حاصل ہے) اس کا ثبوت انتخابات اور تمام میدانوں میں عوام کی بھرپور موجودگی ہے۔ ہمارے ملک میں انتخابات اسلامی روش کا مظہر ہے۔ انتخابات، قوم کو اسلام سے ملنے والا تحفہ ہے۔ ہمارے امام (خمینی رہ) نے انتخابات کے ذریعے اسلامی حکومت کی تشکیل کی روش ہمیں سکھائی۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی حکومت کا مطلب تھا موروثی حکومت، جبکہ یہ اسلام اور اسلامی حکومت کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کے اعلی ترین حکام، عوام کے ذریعے منتخب ہوکر آتے ہیں، براہ راست یا پھر بالواسطہ۔ اسلامی نظام میں منصوب شدہ عہدہ دار، موروثی عہدے اور دولت کی بنیاد پر ملنے والے مقام کا کوئي تصور ہے نہ کوئي گنجائش۔ صدارتی انتخابات، پارلیمانی انتخابات، قائد انقلاب کا انتخاب کرنے والے ماہرین کی کونسل کا انتخاب، بلدیاتی انتخابات ملت ایران کے افتخارات ہیں، یہ انتخابات اسلام اور خود امام (خمینی رہ) کے افتخارات کی فہرست میں شامل ہیں۔ انتخابات، قوم کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔ اسلامی جمہوری نظام نے بڑی طاقتوں کے نظاموں پر خط بطلان کھینچ دیا جس میں عہدہ دار منصوب کئے جاتے ہیں۔ اس طرح ملک چلانے کے عمل میں عوام کو شراکت ملی۔ قوم کے ہر فرد کو انتخاب اور ملک چلانے کے عمل میں کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہوا۔ دوسری طرف یہ فریضہ بھی ہے کیونکہ انتخابات میں شرکت سے معاشرے میں ہمیشہ ذمہ داری کا احساس زندہ رہے گا اور قوم کے دشمنوں پر بھی عوام کا رخ رجحان ظاہر ہو جائے گا۔ تو انتخابات آپ کا حق بھی ہے اور عمومی فریضہ بھی۔ انتخابات، اپنی تقدیر اور مستقبل کے تعین میں عوام کی شراکت اور اس عمل میں ان کی آزادی کا مظہر ہے۔ جب آپ صدر کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام امور کی باگڈور اس شخص کے ہاتھ میں دے رہے ہیں جسے آپ نے منتخب کیا ہے اور جو آپ کے ووٹوں اور حمایت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جب آپ اراکین پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو در حقیقت آپ امور کی نگرانی اور قانون سازی کا عمل اسے سونپ رہے ہیں جس پر آپ کی نظر انتخاب ٹھہری ہے۔ بنابریں انتخاب خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہی ملک کو چلانے کے عمل میں عوام کا کردار اور ملک کے مستقبل کے تعین میں قوم کا اختیار ہے۔اسلامی جمہوریہ، حقیقی معنی میں عوامی نظام ہے اور عوام پر ہی اس کا دارو مدار ہے۔ سات کروڑ کی آبادی والا ملک اور سالانہ اوسطا ایک دفعہ انتخابات کا انعقاد، جن میں صدر سے لیکر اراکین پارلیمنٹ اور بلدیاؤں کے اراکین کے انتخابات شامل ہیں، وہ چیز ہے جسے دیکھ کر دشمن حیران ہے۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کی قوت ایمان کے سرچشمے سے باہر آیا ہے اور آج تک پوری طرح اسی سرچشے سے وابستہ ہے لہذا اس میں دو رای نہیں کہ ایسے نظام اور انتظامیہ کو عوام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ خوب جم کر پرچار کیا جائے اور لوگوں کو بیلٹ باکس تک پہنچا کر ان کے ووٹ جھپٹ لئے جائیں اور پھر انہیں ایک بار مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی جائے۔ تو انتخابات پہلا مرحلہ ہے، اس کے بعد باری آتی ہے دوسرے مرحلے یعنی جوابدہی کی۔ ہمارے آئین اور امام (خمینی رہ) کی تعلیمات اور ہدایات میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ وہ نظام حکومت جسے عوام کی پشتپناہی حاصل نہ ہو، جو عوامی خواہشات اور مرضی کے مطابق نہ چلے، ریت کی دیوار سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ عوامی آرا کے مطابق حاکم کا انتخاب ہو اور وہ عوامی خواہشات کے مطابق نظام حکومت چلائے۔
عالم بشر کو شرک و کفر اور جہل و ظلم کی تاریکیوں سے نجات دلاکر نور معرفت، عدل و انصاف اور بندگی پروردگار کی منور وادی میں پہنچانے کے لئے حضرت عیسی مسیح علیہ السلام الہی معجزے اور پیغام کے ساتھ معبوث ہوئے۔ آپ نے انسانوں کے درمیان گزرنے والا اپنا ہر لمحہ برائیوں کا خاتمہ اور نیکوکاری کی ترویج کےلئے بسر کیا۔ اس ہستی سے ملنے والے اس سبق پر مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو توجہ دینا چاہئے۔ اس دور میں انسانیت کو کسی بھی دوسرے دور سے زیادہ، ان تعلیمات اور اسباق کی ضرورت ہے۔ اسلام جو آئین مسیح کی تکمیل کے لئے آیا، خیر ونیکوکاری اور تکامل و پرہیزگاری کواپنا سرلوحہ پیغام قرار دیتا ہے۔ گمراہ افراد کا عالم یہ ہے کہ فطری صلاحیتوں کے ذریعے حاصل ہو جانے والی طاقت کا استعمال کرکے اس کے ٹھیک مخالف سمت میں قدم بڑھاتے ہیں، نتیجے میں ادیان الہی کے پیروکاروں کا کام دشوار ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسی مسیح کی تعلیمات سے بے بہرہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں عیسائيت کے لبادے میں مظلوم افراد اور قوموں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں اور ان پر کوئي بھی ظلم ڈھانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی قدر و منزلت، آپ پر سچا ایمان رکھنے والے عیسائيوں کی نظر میں جو آپ کی قدر منزلت ہے اس سے کم نہیں۔ اس پیغمبر الہی نے لوگوں کے درمیان گزرنے والی اپنی زندگی کا ہر لمحہ جد و جہد میں گزارا تاکہ ظلم و استبداد کا خاتمہ ہو جائے اور ان افراد کو، جو سیم و زر اور زور بازو کے سہارے قوموں کو اپنا غلام بنائے ہوئے تھے اور انہیں دنیا و آخرت کے جہنم کی سمت گھسیٹ رہے تھے، اس عمل سے باز رکھا جا سکے۔ اس نبی خدا کو بچپن سے ہی، کیونکہ اسی وقت سے آپ کو نبوت عطا کر دی گئي تھی، جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ سب اسی تبلیغ کا نتیجہ تھیں۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ حضرت عیسی مسیح کے پیروکار اور وہ تمام افراد جو آپ کو عظیم معنوی منزلت پر فائز سمجھتے ہیں اس راہ میں ان کے نقش قدم پر چلیں۔ اسلامی جمہوریہ میں تمام مکاتب فکر کو آزادی حاصل ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ برادرانہ اور دوستانہ ہے۔ ہمارے ذہن میں یہ رہتا ہی نہیں کہ فلاں شخص تو کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور ہمارے طرز فکر، ہمارے دین اور ہمارے اسلام کا پیروکار نہیں ہے۔ ان کے گھروں میں ہماری آمد و رفت رہتی ہے۔ ہم برسوں سے عیسوی سال کے آغاز پر عیسائي شہدا کے گھروں پرجاتے ہیں۔ ان کے گھر جاتے ہیں ان کے بال بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں، بات چیت ہوتی ہے، خاطر مدارات کا سلسلہ بھی رہتا ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی ذہن میں یہ نہیں آتا کہ ان کا تعلق کسی اور مذہب سے ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں اس کا تصور ہی نہیں ہے کہ اگر کوئي شخص کسی اور مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی مخالفت کی جائے، اس کی ہمارے یہاں گنجائش ہی نہیں ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد جب امریکی صدر نے بے ساختہ کہہ دیا کہ صلیبی جنگ شروع ہو گئی ہے اور پھر بعد میں غلطی کا احساس ہونے پر لیپا پوتی کی کوشش کی گئی تو اس وقت کسی نے اس نکتے پرتوجہ نہیں دی کہ صلیبی جنگ کیا ہے۔ صلیبی جنگ عیسائي اور مسلمان قوموں کی جنگ ہے۔ یہ لوگ ان جنگوں کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو جائیں۔ دنیا کے مسلمان اور عیسائی دونوں ہوشیار رہیں کہ کہیں ان خبیث سیاستدانوں کے جھانسے میں نہ آ جائیں۔ آج دنیائے عیسائيت اور یورپ میں صیہونی ہاتھ انہیں سازشوں میں مصروف ہیں۔ اب تو کسی کو اس بات میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوبصورت پیرائے میں پنہاں صلیبی جذبات، بیشتر یا سبھی مغربی طاقتوں پر غالب آ چکے ہیں۔ وہ اسلام کی ہر نشانی و علامت اور مسلمانوں کی سانس تک کی دشمن ہیں۔ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات پر ان کا کوئي عقیدہ نہیں ہے۔ انہیں تو بس اپنے مفادات اور ہوسرانی سے دلچسپی اور ان مفادات کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز سے بے انتہا عناد ہے۔ انہیں اس کے علاوہ دنیا کی کسی چیز سے کوئي مطلب نہیں۔ وہ کلمۃ اللہ (حضرت عیسی مسیح) جس نے انسانی اقدار سے بے توجہی اور جہالت و گمراہی کے دور میں انسانیت کی ہدایت و نجات کا پرچم بلند کیا اور ستمگر طاقتوں کو للکارا، جس نے عدل و انصاف اور توحید وعبادت کا پیغام دیا آج اس کی پیغمبری پر ایمان رکھنے والوں، عیسائيوں اور مسلمانوں، کو چاہئے کہ پیغمبروں کی تعلیمات پر پھر سے توجہ دیں اورعالم بشریت کے ان عظیم معلمین سے ملنے والے درس کے عام کریں۔ اگر حضرت عیسی مسیح علیہ السلام آج ہمارے درمیا ن ہوتے تو عالمی سامراج اور ظلم و استبداد کا کاروبار چلانے والوں کا قلع قمع کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تامل نہ کرتے۔ آپ اربوں انسانوں کی غربت و بھکمری کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کے استحصال اور جنگ و فساد کے نتیجےمیں اس انجام کو پہنچے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر، کسی بھی تہذیب و ثقافت اور کسی بھی فلسفیانہ نظرئے میں آزادی کی اس شکل کو اقدار میں شمار نہیں کیا گیا ہے کہ جس میں انسان ہر قید و شرط سے آزاد ہو، اس کے سامنے کہیں کوئي رکاوٹ نہ ہو اور جو اس کے جی میں آئے کرے۔ دنیا میں کوئي بھی ایسی آزادی کا قائل نہیں ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ کوئی یہ آزآدی حاصل کرلے۔ فرض کریں کہ کسی معاشرے میں انسانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ جو جی میں آئے کریں ان کے لئے کوئي روک ٹوک نہ ہو تو خود یہی آزادی دوسرے بہت سے افراد کی آزادی سلب کر لے گی، ان کا چین و سکون چھین لے گی۔ صحیح معنی میں آزادی جو آلائشوں، ہوی و ہوس اور مادیات کے بندھن سے روح انسانی کی نجات سے عبارت ہے، ہمیں صرف اور صرف الہی مکاتب فکر میں مل سکتی ہے۔ مغربی افکار میں تو آپ اس کی بو بھی نہیں محسوس کر پائيں گے۔ انقلاب فرانس کے دوران، اٹھارہویں صدی اور اس کے بعد مغربی دنیا میں جس آزادی پر بحث شروع ہوئي وہ تو اس آزادی کے مقابلے میں بہت محدود اور بے ارزش ہے جو انبیاء الہی اور دینی مکاتب فکر میں بیان کی گئی ہے۔ مغربی ثقافت میں آزادی کا خاکہ کھینچنے والا قانون صرف سماجی امور اور پہلؤں کو دیکھتا ہے۔ بایں معنی کہ یہ قانون کہتا ہے کہ کسی بھی انسان کی آزادی سے دوسرے کی آزآدی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور اس سے دوسروں کے مفادات خطرے میں نہیں پڑنے چاہئیں۔ اسلام میں آزادی کی حدیں کچھ اور ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ آزادی سے استفادے کے لئے اس بات کا خیال رکھنے کے ساتھ کہ دوسروں کی آزادی اور مفادات کو نقصان نہ پہنچے اس بات پر بھی توجہ رکھنی ہوگی کہ خود اپنے ذاتی مفادات بھی خطر میں نہ پڑنے پائیں۔ انسان آزادی اور اختیار کےنام پر اپنے مفادات بھی خطرے میں ڈالنے کا حق نہیں رکھتا۔ مغربی لبرلزم میں آزادی، دین اور خدا جیسی عظیم حقیقتوں سے جدا ہے۔ اسی لئے اس مکتب فکر کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ آزادی، خداداد شئ ہے۔ کوئي نہیں کہتا کہ انسان کو آزادی اللہ تعالی سے ملی ہے۔ وہ اس کا کوئي اور فلسفیانہ سرچشمہ تلاش کرتے ہیں۔ اسلام میں آزادی، خداداد شئ قراد دی جاتی ہے۔ ایک تو یہی بڑا بنیادی فرق ہے جس سے اوربہت سے فرق پیدا ہوتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے آزادی کے خلاف اقدام ایک الہی شئ کے خلاف اقدام کے مترادف ہے۔ مغربی لبرلزم میں آزادی اور فرائض میں تضاد ہے، یعنی(اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ) انسان ہر طرح کے فرائض سے آزاد ہے لیکن اسلام میں آزادی سکہ کا ایک رخ تو فرائض اس کا دوسرا رخ ہے۔ انسان آزآد ہی اس لئے ہیں کہ ان پر فرائض عائد ہیں۔ اگر ان پر فرائض نہ ہوتے تو ازادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ انسان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ متضاد خواہشات اور جذبات کا مجموعہ ہے اور اسے یہ حکم ہے کہ ان گوناگوں جذبات کے بیچ سے کمال و تکامل کا سفر طے کرے۔ اسے آزادی دی گئی ہے تکامل کی راہ طے کرنے کے لئے۔ ان اقدار پر استوار آزادی، تکامل کے لئے ہے۔ یورپ میں حجاب کے سلسلے میں برپا ہنگامے کو دیکھئے۔ آزادی کے تو بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن ایک دوسرے مکتب فکر کی اس معمولی سی نشانی اور رجحان کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ جب ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرنے والے مصنف پر اعتراض ہو تو فورا آزادی اظہار خیال اور آزادی فکر کی رٹ لگا دیتے ہیں اور جب نوبت آتی ہے کسی مسلمان خاتون یا لڑکی کی جو اپنی مذہبی روایات کے مطابق لباس پہننا چاہتی ہے تو پھر انہیں آزادی یاد نہیں رہتی، پھر تو ان کے انداز ہی بدل جاتے ہیں۔ اب غیر اخلاقی اور دوسروں کی آزادی کو نقصان پہنچانے والی اس حرکت کو قدامت پسندی کے خلاف جد و جہد کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اسلام قوموں کو آزادی عطا کرتا ہے، خود ان کی ذاتی زندگی میں انہیں مطلق العنان اور استبدادی طاقتوں، خرافات اور جہالتوں، جاہلانہ تعصب اور کدورتوں سے آزادی دلاتا ہے اسی طرح اقتصادی طاقتوں کے چنگل اور استکبار کے سیاسی دباؤ سے نجاد دلاتا ہے۔ آزادی الہی تحفہ اور انقلاب کا ثمر ہے آزآدی عوام کا حق اور ان کی فطرت کا جز ہے۔ مشرق وسطی کے پورے علاقے بلکہ دنیا میں بھی بہت کم ہی ملک ایسے ہوں گے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران جیسی آزادی ہو۔ یہ وہ نظام اور وہ ملک ہے جہاں انقلاب کی کامیابی کو ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ عوام نے حق رای دہی کا استعمال کیا اور اسلامی جمہوری نظام کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ آزادی اسے نہیں کہتے کہ کوئی اس کے بہانے استحصال شروع کردے جیسا کہ دنیا میں آج دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آزادی کے نام پر بد ترین جرائم کا ارتکاب کیا گيا ہے اور انسانی نسلوں کو شہوانیت اور اخلاقی انحطاط کی نذر کر دیا گيا ہے۔ آزادی کے نام پر مغربی مکاتب فکر اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ذہنوں سے حقیقی آزادی کا مفہوم مٹا دیا گيا ہے۔ ای آزادی! بہ نام تو چہ جنایتھا کے انجام نمی گیردہائے رے آزادی تیرے نام پر کیا کیا جرائم نہیں کئے جاتے؟! آج ہمارے دشمن اسی جملے کی عملی تفسیر پیش کر رہے ہیں۔
موجودہ دور میں عالم اسلام میں امریکہ اور سامراج کا ایک بنیادی ہدف، تفرقہ و اختلافات کی آگ بھڑکانہ ہے اور اس کا بہترین طریقہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر آج عراق کے مسائل کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟! کس طرح زہرافشانی کر رہے ہیں اور دشمنی کے بیج بو رہے ہیں؟! مغرب کی تسلط پسند اور جاہ طلب طاقتیں برسہا برس سے اس کام میں مصروف ہیں۔ بہت ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اور ہر موقع پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکہ کا مرغوب ترین مشغلہ ہے۔ مسلم اقوام اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو معمولی نہ سمجھیں۔ اپنی بیداری و ہوشیاری کی حفاظت کریں۔ یہ وقت مسلم اقوام کے اتحاد اور یکجہتی کا متقاضی ہے۔ میں اپنی قوم، ملت عراق، ملت پاکستان اور دیگر مسلم اقوام کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ شیعہ، سنی اختلاف پر قابو پائیں۔ مجھے وہ ہاتھ نظر آ رہے ہیں جو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی جنگ شروع کروانے میں لگے ہیں۔ قتل عام کے جو واقعات ہو رہے ہیں، مساجد، امام بارگاہوں، نماز جماعت اور نماز جمعہ میں جو دھماکے ہو رہے ہیں ان میں صیہونزم اور عالمی استکبار کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ یہ کام مسلمان انجام نہیں دے رہے ہیں۔ عراق، ایران، پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے ہمیں ملنے والی اطلاعات، دنیائے اسلام میں رونما ہونے والے بھیانک واقعات میں صیہونیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کا براہ راست یا بالواسطہ ہاتھ ہونے کی غمازی کرتی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ، سنی فرقے میں شامل ہو جائیں اور سنی شیعہ بن جائیں، یہ مراد نہیں ہے کہ ایک مذہب دوسرے میں ضم ہو جائے۔ ہمارا یہ کہنا نہیں ہے کہ شیعہ اور سنی حتی المقدور اپنے عقائد کے علمی استحکام کی کوشش نہ کریں۔ علمی کام تو مستحسن ہے اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ بعض افراد اتحاد بین المسلمین کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مذاہب کی نفی کی بات کرتے ہیں۔ مذاہب کی نفی سے مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ مشکلات کا حل مذاہب کو صحیح انداز سے ثابت کرکے ممکن ہوگا۔ جو بھی فرقے ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں معمول کے امور انجام دیں لیکن ایک دوسرے سے اپنے تعلقات بہتر کرنے پرخاص توجہ دیں۔ علمی کتابیں لکھیں لیکن یہ کام علمی فضا میں انجام پائے، اس کےباہر نہیں۔ اگر کوئي اپنی بات منطقی انداز میں ثابت کر دیتا ہے تو ہم اسے ایسا کرنے سے نہ روکیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے بیان، کردار یا کسی اور طریقے سے اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہے تو ہمارے خیال میں یہ تو دشمن کی خدمت ہے۔ اہل سنت کوبھی محتاط رہنا چاہئے اور شیعوں کو بھی۔ ہر شخص اپنے عقیدے اور اقدار کا احترام کرتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے لیکن یہ عمل کسی دوسرے فرقے کی اقدار کی توہین کا باعث نہ بننے پائے جس کے عقائد ہم سے الگ ہیں۔ ہم ایک اسلام، ایک کعبے، ایک پیغمبر، ایک نماز، ایک حج، ایک جہاد اور ایک ہی شریعت کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ مماثلتوں کے مقابلے میں اختلافی باتیں کئي گنا کم ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں، ایران ہی نہیں پورے عالم اسلام میں شیعہ سنی اختلاف کے شعلے دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کو شیعہ اور سنی اسی طرح دیگر فرقوں کے درمیان اختلاف کا باعث نہ بنائیے۔ امیر المومنین علیہ السلام تو نقطہ اتحاد ہیں، نہ کہ نقطہ اختلاف۔ ملک کے گوشے گوشے میں آباد ہمارے بھائی بہن اس بات پر یقین رکھیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نقطہ اتحاد ہیں۔ پورا عالم اسلام امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے عقیدت سے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ پوری تاریخ اسلام میں، وہ چاہے اموی دور ہو یا عباسی دور، کچھ گروہ امیر المومنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے، لیکن مجموعی طور پر عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، امیر المومنین علی علیہ السلام کا عقیدتمند رہا ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں اہل سنت کے ائمہ فقہ نے طبع آزمائی کی ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے معروف اشعار امام شافعی سے منسوب ہیں۔ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام ہی نہیں تمام یا پھر اکثر ائمہ اہلبیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ہم شیعوں کے نزدیک ان بزرگوار شخصیتوں کا مقام بالکل عیاں ہے۔ بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے بھی عناصر ہیں جو امریکہ اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیار ہیں اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے رے ہیں۔ میں آج واضح طو پر کچھ ہاتھ دیکھ رہا ہوں جو ہمارے بعض ہمسایہ ممالک میں، عمدا اور پوری منصوبہ بندی کےساتھ شیعہ، سنی اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، فرقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی دشمنی پر اکسا رہے ہیں تاکہ حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کر سکیں اور مسلم ممالک میں ان کے ناجائز مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ شیعوں کو اہل سنت اور اہل سنت کو شیعہ کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں وہ نہ تو شیعوں کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی اہل سنت سے انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ سرے سے اسلام ہی کے دشمن ہیں۔ رحماء بینھم یعنی مسلمان بھائي آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنیں۔ دشمن دونوں طرف سے حملے کر رہا ہے۔ ایک طرف تو غلو اور دشمنی اہلبیت کی ترویج کر رہا اور شیعوں کو اہل سنت کی نگاہ میں سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور بد قسمتی سے مذاہبی انتہا پسندی کے شکار بعض افراد اس کا یقین بھی کربیٹھے ہیں، دوسری طرف شیعہ کو اہل سنت کے عقائد کی بے حرمتی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے پر اکساتا ہے۔ دشمن کی سازش یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے ہمیشہ لڑتے مرتے رہیں۔ دشمن ایسے زاوئے سے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے آپ متوجہ نہ ہوسکیں اور اس کی جانب سے غافل رہ جائیں۔ لہذا ہوشیار رہئے اور دشمن کو ہر روپ میں پہچاننے کی کوشش کیجئے ولتعرفنھم فی لحن القول اس کی باتوں سے بھی اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ ہمارے عوام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جن علاقوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد آباد ہیں اور اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے وہاں مذہبی اور نسلی ٹکراؤ سے خاص طور پر پرہیز کرتے ہیں۔ دشمن کو یہی نہیں پسند ہے۔ شیعہ، سنی جنگ دشمن کے لئے بہت قیمتی اور اہم ہے۔ امت مسلمہ اختلافات کی شکار رہے تو اس سے معنویت و روحانیت، شادابی و تازگی، قدرت و طاقت، اور قومی شکوہ و عظمت سب کچھ مٹ جائے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے وتذھب ریحکماس سلسلے میں جو عوامل اتحاد کا مرکز قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات ہے۔ مسلم دانشوروں کو چاہئے کہ اسلام کے سلسلے میں وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس عظیم شخصیت، اس کی تعلیمات اور اس کی محبت و عقیدت کے سلسلے میں محنت کریں۔ اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو شیعہ ہوں یا سنی اسی طرح ان سے نکلنے والے دیگر فرقے، بہت سنجیدگی سے لیں۔ تمام مسلمان اتحاد پر خاص توجہ دیں۔ اتحاد بین المسلمین کا مطلب پوری طرح واضح ہے۔ یہ مسلمالوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئي نعرہ نہیں، یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ مسلم معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اتحاد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اتحاد قائم کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن مسلم اقوام کا اتحاد ان کے مکاتب فکر میں تنوع کے ساتھ ممکن ہے، ان کا طرز زندگی الگ الگ ہے ان کے آداب و رسومات مختلف ہیں، ان کی فقہ الگ الگ ہے لیکن ان میں اتحاد ہو سکتا ہے۔ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک دوسرے سےہم آہنگی بنائے رکھیں، ایک ہی سمت میں بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور قوموں کے اندرونی وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں۔
ہر نظام کے لئے اصلاح ضروری ہے۔ یہ ہر معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اصلاح یعنی یہ کہ تمام خوبیوں اور کمیوں کی فہرست تیار کی جئے اور کمیوں کو خوبیوں میں تبدیل کیا جائے۔ یہ انقلابی اصلاح ہے، یہی اسلامی اصلاح ہے۔ جہاں تک اسلامی نظام اور انقلاب کے دشمنوں کا تعلق ہے تو وہ اس نظام کے بنیادی ڈھانچے کو ہی پسند نہیں کرتے اور ان کی نظر میں اصلاح کا مطلب ہےنظام کی مکمل تبدیلی، اسلامی جمہوری نظام کی سامراجی دشمنوں کے اشارے پر چلنے والے نظام میں تبدیلی۔ اگر حقیقی اصلاح کی بات کریں تو اس کی ضرورت ملک کے ہر شعبے میں ہے۔ کوئي بھی ادارہ خود کو اصلاح اور تنقید سے بالاتر نہیں سمجھ سکتا۔ ملک کے تمام اداروں پر ناقدانہ نظر ڈالی جانی چاہئے اور سب کو نظام کے بنیادی اہداف کے تحت اور اسی کے تناظر میں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اصلاح ایک لازمی حقیقت ہے اور یہ عمل ملک میں انجام پانا چاہئے۔ ہمارے ملک میں اصلاح کے لئے اجبار کا راستہ نہیں اختیار کیا جاتا کہ کوئي حکمراں شدید مطالبات سے مجبور ہوکر یہاں، وہاں کچھ اصلاحاتی اقدام کر دے، نہیں، اصلاح ہمارے نظام کی دینی اور انقلابی ماہیت ور تشخص کا جز ہے۔ اگر بار بار اصلاح نہ کی جائے تو نظام بگڑ سکتا ہے، غلط سمت میں جا سکتا ہے۔ اصلاح تو فریضے کا درجہ رکھتی ہے۔ اصلاحات یا تو انقلابی، اسلامی اور ایمانی ہوتی ہیں جن پر ملک کے تمام حکام، تمام صاحبان فکر و نظر اور جملہ عوام متفق ہیں یا پھر اصلاحات امریکی انداز کی ہوتی ہیں جس کے خلاف تمام حکام، ہر مومن فرد اور پوری قوم ہے۔ امریکی، ایران میں جس اصلاح کے خواہاں ہیں وہ عین بد عنوانی اور اخلاقی انحطاط ہے۔ امریکیوں کی نظر میں اصلاح کا مطلب اسلامی جمہوری نظام کا خاتمہ ہے۔ بڑی طاقتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کرتی ہیں۔ اگر اصلاح پسندی کی حمایت کا نعرہ بلند کرتی ہیں تو اس میں صداقت نہیں ہوتی۔ وہ حقیقی اصلاح کی کبھی بھی حمایت نہیں کریں گی، حقیقی اصلاح کی تو وہ سب سے بڑی مخالف ہیں۔ اصلاحات کا بنیادی مقصد، غربت، تفریق اور بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اگر حقیقی معنی میں اصلاح ہے تو وہ انہی محوری نکات کے ارد گرد گھومتی نظر آئے گی۔ معاشرے کی سب سے بڑی برائی غربت اور طبقاتی فاصلہ ہے۔ کسی بھی سماج کی سب سے بڑی برائي یہ ہے کہ بعض افراد مالی بد عنوانیاں اور غبن کریں، قومی خزانے سے اپنے مفادات پوے کریں۔ بد ترین برائي یہ ہے کہ قوانین کے نفاذ میں تفریق و امتیاز کا رویہ اختیار کیا جائے اور لوگوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو نظر انداز کیا جائے۔ وہی غربت اور وہی تفریق جس کے بارے میں بارہا میں عرض کر چکا ہوں۔ اصلاح کا سب سے پہلا قدم، تہذیب نفس اور اپنی ذاتی اصلاح ہے یعنی نظام کے ان حکام اور عہدہ داران کو چاہئے کہ خود کو غیر اسلامی رفتار و کردار اور طور طریقوں سے نجات دلائيں۔ یہ ہو گیا تو تمام کام بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھیں گے۔ اگر اصلاحات، ترقی اور خلاقیت کی بنیاد، انقلابی اقدار کو قرار نہ دیا جائے تو معاشرہ ناکامی اور تنزلی کی سمت بڑھے گا۔ یہ بنیادی اصول ہے۔ اقدار کا پاس و لحاظ کریں، ان کے سلسلے میں تفریق و امتیاز سے اجتناب کریں، انہی اقدار کے تناظر میں پیشرفت و ترقی کی منزلوں کی جانب پوری سنجیدگي کے ساتھ پیش قدمی کریں۔ اصلاحات کی تعریف کیا ہے یہ واضح ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو خود ہمیں جو اصلاحات نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کے معنی و مفہوم کو پوری تفصیلات کے ساتھ سمجھنا ہوگا تاکہ بالکل واضح رہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ دوسرے مرحلے پر ہم عوام کو ان اصلاحات سے متعارف کروائیں اور بتائيں کہ اصلاحات سے ہماری مراد کیا ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق اصلاحات کی تعریف نہ کر سکے۔ اگر اصلاحات کی صحیح طور پر تعریف نہ کی جائے تو لوگ اپنی اپنی مرضی کے مطابق اس کا مفہوم پیش اور مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اصلاحات کے نفاذ اور نگرانی کا عمل با صلاحیت اور متحمل مزاج افراد پر مشتمل مرکز کے ذریعے انجام پانا چاہئے، کیونکہ بہت سے کام ہیں جو دس سال کے عرصے میں بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں اگر انہیں دو سال میں تمام کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کوشش نا قابل تلافی نقصان پر منتج ہوگی۔ (دوسرا مسئلہ) اصلاحات کے وقت آئين کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت ہے۔ آئین میں سب سے زیادہ اسلام کو اہمیت دی گئی ہے اور تمام قوانین اور ہر انتخاب کے لئے اسلام کو سرچشمہ قرار دینے پر تاکید کی گئي ہے۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا پوری توجہ کے ساتھ پاس و لحاظ کرنا ضروری ہے۔ آئين ہمارا سب سے بڑا قومی، دینی اور انقلابی میثاق ہے۔ بعض شعبوں میں اصلاحات کا عمل، پیچیدہ، دشوار اور سست رو ہوتا ہے مثلا اقتصادی شعبے میں آمدنی کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ایسا ہی ہے۔ یہ بڑا دشوار کام ہے۔ غربت کی بیخ کنی اور محروم علاقوں پر توجہ اور دفتری سسٹم میں بہتری کی کوشش انہی اصلاحات کا حصہ ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت تیرہ رجب المرجب کو حسینیہ امام خمینی (رہ) میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب فرمایا، اجتماع میں شیعہ اور سنی علما، ملک کے اعلی حکام اور عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد موجود تھے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج سولہ جولائي دوہزار آٹھ مطابق تیرہ رجب المرجب چودہ سو انتیس ہجری قمری کو حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی سالگرہ پر مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں مسلم مکاتب فکر میں حضرت علی علیہ السلام کی بے مثال شخصیت اور بلند و بالا مقام کی جانب اشارہ کیا اور مسلمانوں کے اتحاد کے لئے اہم محورکی حیثیت رکھنے والی اس ہستی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
آپ نے ایٹمی ٹکنالوجی اور مجوزہ ایران یورپ مذاکرات کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
سیاست، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سےبسمہ تعالیانسان جو سرگرمیاں اور کوششیں انجام دیتا ہے ان میں بعض کا تعلق خود اس کے ذاتی مسائل اور امور سے ہوتا ہے جو انسانی سرگرمیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مثلا معیشت، معنویت، جذبات و احساسات، لوگوں سے ذاتی تعلقات وغیرہ۔ لیکن انسان کی سرگرمیوں کا اہم حصہ وہ ہے جو وہ معاشرے کی سطح پر اجتماعی شکل میں انجام دیتا ہے، اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ اقتصادی سیاست، سماجی سیاست، فوجی سیاست، ثقافتی سیاست، عالمی سیاست یہ انسانی زندگی کی اہم اور بنیادی سرگرمیاں ہیں۔ بنیادی کیوں؟ کیونکہ یہ سیاستیں انسان کی سرگرمیوں کو خاص سمت اور رخ عطا کرتی ہیں۔ انسان کی سب سے اہم سعی و کوشش وہ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذاتی، معمولی اور چھوٹی موٹی سرگرمیوں کو بھی با ہدف بناتا اور خاص رخ دیتا ہے۔ دین کا تعلق ان دونوں شعبوں سے ہے۔ ذاتی سرگرمیوں کے شعبے سے بھی اور سیاست کے شعبے سے بھی کہ جو انسانی زندگی کا بہت وسیع شعبہ ہے۔ ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا قدم، حکومت کی تشکیل اور معاشرے کو سیاسی نظم و نسق عطا کرنا تھا۔ دوسرے بہت سے شواہد ہیں جو دین و سیاست کے گہرے رشتے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جی ہاں، دین محمدی سیاست کو دین کا ایک جز اور اٹوٹ حصہ مانتا ہے اور تمام مسلمانوں کو اس دین کی طرف سے سیاسی شعور اور سیاسی کارکردگي کی دعوت دی گئی ہے۔ دین اسلام بلکہ تمام ادیان الہی میں سیاست، علم و دانش، انسانی زندگی اور سماجی امور کو محور قرار دیا گيا ہے۔ دین تمام شعبوں منجملہ سیاسی شعبے میں انسانی زندگی کو نظم و ترتیب عطا کرتا ہے۔ سامراج کی لعنت جس نے درجنوں ممالک اور دسیوں لاکھ انسانوں کو برسہا برس تک سخت ترین حالات سے دوچار کئے رکھا در حقیقت نتیجہ ہے علم کی روحانیت سے، سیاست کی معنویت سے اور حکومت کی اخلاقیات سے جدائی اور علاحدگي کا جو یورپ میں رونما ہوئی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں، کمیونزم، خاندانی ڈھانچے کی نابودی، جنسی بد عنوانیوں کا سیلاب، سرمایہ دارانہ نظام کا استبداد، یہ سب کچھ اسی جدائي اور علاحدگی کا نتیجہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہماری سیاست عین دین اور ہمارا دین عین سیاست ہے، واقعی مدرس مرحوم نے کتنی اچھی بات کہی تھی اور امام (خمینی رہ) نے بھی اس کی تائید کی تھی، اس (نعرے) کا پیغام بہت واضح ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری سیاست، دیندارانہ اور پرہیزگارانہ ہونا چاہئے۔ ہر سیاسی فعل پسندیدہ نہیں ہے۔ بعض افراد سیاسی امور کو ایسے امور کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہدف یہ ہوتا ہے کہ اس کام کو (خالص) سیاسی انداز میں انجام دیا جائے۔ یہ درست نہیں ہے۔ سیاسی کام دیندارانہ شکل میں ہونا چاہئے۔ شریعت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے، سیاسی میدان میں بھی اس پر توجہ دی جانی چاہئے اس (شریعت کے حکم) کا احترام کیا جانا چاہئے۔ البتہ سیاست کو دو خطرے ہمیشہ لاحق رہے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ سیاست اخلاقیات سے جدا ہو جائے، روحانیت، معنویت اور فضیلت سے عاری ہو جائے یعنی سیاست پر شیطنت کا غلبہ ہو جائے، سیاست لوگوں کی نفسانی خواہشات کا کھلونا بن جائے، سیاست معاشروں کے طاقتور اوردولتمند افراد کے مفادات کے جال میں پھنس کر کبھی ادھر تو کبھی ادھر کھینچی جانے لگے۔ اگر سیاست اس مصیبت کا شکار ہوئي تو انسانی زندگی کے تمام سماجی شعبے اس آفت سے متاثر ہوں گے۔ سیاست کے لئے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ تنگ نظر، بچکانہ سوچ والے اور نا اہل افراد کا اس پر غلبہ ہو جائے اور سیاست با صلاحیت افراد کے ہاتھوں سے نکل کر بے لیاقت افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائے۔ (اقتباس)
دین، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سےبسمہ تعالیدین سب سے پہلے مرحلے میں تو ایک علم اور معرفت ہے۔ اس دنیا کی معرفت و شناخت، بشر کی شناخت، منزل و ہدف اور راستے کی شناخت، یہ ساری معرفتیں دین کے ستون ہیں۔ دین انسان کو کائنات کے محور کے طور پر دیکھتا ہے۔ انسان وہ بے نظیر ہستی ہے جو اپنی فکری کوششوں سے سربستہ راز کھول اور نئے نئے میدانوں کو سر کر سکتا ہے۔ دنیا، دین کے پیغام، کارکردگي اور فرائض کی ادائگی کا میدان ہے۔ دین اس عظیم اور گوناگوں صفات کی حامل کائنات میں آکر انسانی زندگی اور سرگرمیوں کو نظم و ترتیب اور ہدف و سمت عطا کرتا ہے، انسانوں کی ہدایت کرتا ہے۔ اس تعریف کی رو سے دین و دنیا ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور ان کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ دین کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے دنیا کے علاوہ کوئي میدان نہیں مل سکتا اور دنیا، دین کے تعمیری اور تخلیقی کردار کے بغیر ایسی جگہ بن جائے گی جہاں نہ معنویت ہوگی نہ روحانیت، نہ حقیقت ہوگی نہ محبت، نہ زندگی ہوگي نہ روح، یعنی دین کا عنصر نہ ہو تو انسانی زندگی جنگل راج کی مصداق بن کر رہ جائے گی۔ اس عظیم اور بے کراں وادی میں انسان کو احساس تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ وہ معنوی اور روحانی تکامل اور بلندی کا سفر طے کر سکے۔ ان چیزوں کی رو سے دیکھا جائے تو دنیا کو دین سے الگ کرنے کا مطلب ہوگا زندگی، سیاست اور معیشت کو روحانیت سے عاری بنا دینا، اس کا مطلب ہوگا عدل و انصاف اور روحانیت کی نابودی۔ دنیا کو اگر انسانی زندگی کے اہم ترین اور سنہری مواقع اور جا بجا بکھری نعمتوں، پر کشش اور حسین مناظر اور تلخیوں اور رنج و آلام کی حیثیت سے دیکھا جائے تو یہ انسانی کاملیت اور سربلندی کا وسیلہ ہے۔ دین کی نگاہ میں یہ ایسے وسائل ہیں جن کے سہارے انسان منزل کمال کی سمت رواں دواں رہ سکتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں کو نمایاں کر سکتا ہے جو اللہ تعالی نے اسے ودیعت کر دی ہیں۔ دنیا کو اس نظر سے دیکھا جائے تو اسے دین سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں دنیا کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ اسلام میں دنیا کو نفسانی خواہشات، خود غرضی اور ھوا و ہوس کا اسیر ہو جانے اور دوسروں کو اپنی ھوا و ہوس کا شکار بنانے کے معنی میں بھی متعارف کرایا گيا ہے۔ روایات میں منفور دنیا یہی ہے جو دین کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ ہماری نظر میں عوام ہی سب کچھ ہیں۔ اسلامی طرز فکر اور تعلیمات میں اللہ تعالی کو محور قرار دئے جانے اور عوام کو محور قرار دینے میں کوئي تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس ملک کے عوام دیندار اور مذہبی نہ ہوں وہاں دینی حکومت کا قیام نا ممکن ہے۔ وہاں دینی معاشرے کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔ بنابریں کسی ملک میں اسلامی حکومت کا وجود وہاں کے عوام کی دینداری کا ثبوت ہے، یعنی وہاں کے عوام نے ایسی حکومت کی خواہش کی تب یہ حکومت وجود میں آئی۔ دین خدا کی حکومت اور بالادستی کا ہدف مظلوموں کی مدد اور الہی احکامات و تعلیمات پر عملدرآمد ہے۔ کیونکہ سعادت و خوش بختی الہی احکامات پرعمل سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ عدل و انصاف دینی احکام پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ انسان کی حریت و آزادی دینی احکام پر عمل کرنے سے مل سکتی ہے۔ آزادی اور کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ انسانی ضرورتوں کی تکمیل تو دینی احکامات کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ بنیادی ضرورتوں کے اعتبار سے آج کے انسان اور ہزارہا سال قبل کے بشر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہی تو ہیں؛ اسے تحفظ چاہئے، آزادی چاہئے، معرفت و علم چاہئے، چین کی زندگی چاہئے، تفریق و امتیاز سے نجات چاہئے، ظلم سے چھٹکارا چاہئے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی ضرورتیں انہی ضرورتوں کی تکمیل کی صورت میں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔ جبکہ بنیادی ضرورتوں کی تکمیل دین خدا ہی کر سکتا ہے کوئي اور نہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دین لائے، آپ نے انسانی زندگی کو ہدف اور سمت عطا کی، روحانیت و معنویت پر تکیہ کیا لیکن ساتھ ہی جگہ جگہ پر امت کو مادی وسائل کی جانب بھی متوجہ کیا۔ زندگی کے امور چلانے کیلئے ضروری اطلاعات اور مہارت مہیا کرائي۔ کہیں پیچیدگي پیدا ہوئي تو لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ علم حاصل کرو، جاؤ چیزوں کا مشاہدہ کرو، نظریات قائم کرنے کی کوشش کرو۔قرون وسطی، یورپیوں کے لئے تاریکی و ظلمت کی صدیاں اور ہم مسلمانوں کے لئے آفتاب علم کی ضو فشانی کی صدیاں تھیں۔ یورپی اس حقیقت کو چھپاتے ہیں اور مغربی مورخین اسے زبان پر لانے سے کتراتے ہیں۔ ہم نے بھی انہی کی باتوں کا اعتبار کر لیا ہے۔ انیسویں صدی جو مغرب میں علمی تحقیقات کے اوج کا زمانہ ہے وہ در حقیقت دین سے علاحدگي اور انسانی زندگی سے دین کی رخصتی کا زمانہ ہے۔ اس نظرئے کا اثر ہمارے ملک پر بھی پڑا اور ہماری یونیورسٹی حقیقت میں غیر مذہبی بنیادوں پر قائم کی گئی۔ علما نے یونیورسٹیوں سے منہ پھیر لیا اور یونیورسٹی نے علما اور دینی تعلیمی مراکز سے رشتہ توڑ لیا۔ جو افراد دین کی حمایت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی امور میں دین کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے انہیں خبر نہیں ہے کہ اسلام کے اقتدار اور احیاء کے عمل کے خلاف سامراجی طاقتوں کا تشہیراتی نعرہ یہی ہے۔ البتہ دین اور سیاست میں جدائی کا موضوع صدیوں سے زیر بحث ہے۔ پہلے ان استبدادی طاقتوں نے جو معاشرے کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے تھیں اور ملک و قوم کے ساتھ ہر سلوک روا رکھتی تھیں، اس مسئلے کو اٹھایا، ظاہر ہے وہ تو یہی چاہتی تھیں کہ اسلامی احکامات کی، حکومت کے امور میں کوئي دخل اندازی نہ ہو۔ اس بنا پر سلاطین اور شہنشاہ، دین و سیاست میں جدائي کے گمراہ کن نظرئے کے سب سے پہلے مروج ہیں۔ (اقتباس)
اسلامی جمہوریہ، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے بسمہ تعالی آج جو ہم اپنے ملک میں اسلامی جمہوریہ یا دینی جمہوریت کی بات کرتے ہیں، بالکل نیا موضوع ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہم جمہوریت کی ایک نئي شاخ اور شکل متعارف کرا رہے ہیں، ہرگز نہیں کیونکہ دنیا میں رائج جمہوریت میری نظر میں عیب و نقص سے خالی نہیں۔ اس لئے کہ دنیا میں انتخابات تشہیراتی وسائل کے زیر اثر انجام پاتے ہیں جن پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ یا دینی جمہوریت کے اصول اور بنیادیں مغربی جمہوریت کے اصولوں اور بنیادوں سے مختلف ہیں۔ اسلامی جمہوریت اور دینی جمہوریت جو ہمارے انتخابات کی بنیاد ہے اور جو انسان کے دینی فرائض و حقوق کی بنیاد پر وجود میں آئي ہے، آپسی اتفاق رای سے طے پانے والا کوئي معاہدہ نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کو حق انتخاب ہے، اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار ہےلہذا حقیقی جمہوریت، دینی جمہوریت ہے جو ایمان اور دینی فرائض کے تناظر میں پیش کی جاتی ہے۔(انسانوں کا آپسی معاہدہ نہیں) اسلامی ثقافت میں بہترین انسان وہ ہیں جو عوام کے لئے زیادہ مفید واقع ہوں۔ دینی جمہوریت، ریاکاری اور فریب پر مبنی ڈیموکریسی کے برخلاف، در حقیقت پر خلوص خدمت کا نظام ہے جس میں احسان جتانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ خدمت پوری ایمانداری اور پاکدامنی کے ساتھ اور اس احساس کے تحت انجام دی جاتی ہے کہ وہ (ہمارا) فریضہ ہے۔اسلامی نظام، وحدانیت و دین کے پرچم تلے چلنے والا نظام جمہوریت کو پوری دنیا کے سامنے آشکارا اور واشگاف الفاظ میں بیان کر دیتا ہے لبرل ڈیموکریسی کا سامراجی پروپگنڈہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریسی کا دارومدار ہم پر ہے۔ ان سے یہ برداشت نہیں ہو رہا ہے کہ ایک دینی اور اسلامی نظام اپنی اعلی ایمانی قدروں کے ساتھ جمہوریت قائم کر رہا ہے۔ ہماری آئیڈیل نہ مغربی حکومتیں ہیں اور نہ مشرقی، ہمارا آئيڈیل اسلام ہے اور ہمارے عوام نے اسلام سے اپنی آشنائي کی بنیاد پر اسلامی نظام کا انتخاب کیا ہے۔
عالم اسلاماسلام کا سب سے پہلا سیاسی اور سماجی کارنامہ اسلامی امت کی تشکیل ہے جو مدینۃ الرسول سے شروع ہوئی اور پھر بڑے ہی حیرت انگیز اور افسانوی انداز سے کمال و ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔ ابھی اس کے با برکت وجود کو نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ اسلام نے اپنے پڑوس کی تینوں عظیم و قدیم تہذیبوں، مصر، روم اور ایران کے نصف سے زائد حصے کو مسخر کر لیا۔ مزید سو سال گزرتے گزرتے درخشاں اسلامی تہذیب اور طاقتور اسلامی حکومت کے ڈنکے مشرق میں دیوار چین، دوسری طرف بحر ایٹلانٹک کے ساحلوں، شمال میں سائبیریا کے میدانوں اور جنوب میں بحر ہند کے جنوب تک بجنے لگے۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری اور اس کے بعد تک اسلامی تہذیب ایسی تابناک اور درخشاں تہذیب بن چکی تھی کہ آج ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اس کی علمی اور ثقافتی برکتیں، عصر حاضر کی تہذیبوں میں نظر آتی ہیں۔ عالم اسلام دنیا کی نہایت قیمتی میراث اورمالامال ثقافت کی مالک ہے جس میں غیر معمولی شکوفائي اور درخشندگی پائي جاتی ہے۔ اس میں تنوع کے ساتھ ہی حیرت انگیز ہم آہنگی بھی ہے، جو اسلام کی ہمہ گیری اور گہری تاثیر اور پیکر امت میں سمائي ہوئی خالص توحید و وحدانیت کے نتیجے میں پیدا ہوئي ہے۔ جذبہ الفت و اخوت سے سرشار مختلف رنگ و نسل کی قومیں جو الگ الگ زبانوں میں گفتگو کرتی ہیں خود کو عظیم امت مسلمہ کا حصہ سمجھتی اور اس پر نازاں ہیں۔ یہ قومیں ہر روز ایک ہی مرکز کا رخ کرکے ایک ہی زبان میں اللہ تعالی سے مناجات کرتی ہیں۔ ایک ہی آسمانی کتاب سے درس و تعلیمات حاصل کرتی ہیں۔ یہی آسمانی کتاب ان کے لئے تمام ضرورتوں کی تکمیل کا وسیلہ اور تمام حقائق کی وضاحت و تشریح کا ذریعہ ہے۔ و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین وہ سرزمین جس پر امت مسلمہ آباد ہے، قدرتی ذخائر کے لحاظ سے اگر دنیا کا سب سے مالامال علاقہ نہیں تو ان علاقوں میں سے ایک ہے جو سب سے زیادہ مالامال کہے جاتے ہیں۔ امت مسلمہ کے وسائل کی فہرست میں، اقتصادی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، افرادی سرمائے کے سیکڑوں عناوین شامل ہیں۔ جو کوئی بھی توجہ سے دیکھے، ان ذخائر سے روشناس ہو سکتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کے دانشوروں اور سیاسی شخصیات کے دوش پر عظیم ذمہ داری ہے۔ مسلم دانشور اسلام کے حریت پسندی کے پیغام کو جتنے مناسب انداز میں لوگوں تک پہنچائيں گےمسلم اقوام کی اسلامی ماہیت اتنی ہی صحیح شکل میں سامنے آئے گی۔ انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، حقوق نسواں، بد عنوانیوں کا سد باب، نسلی تفریق و امتیاز کا خاتمہ، غربت اور علمی میدان میں پسماندگی سے نجات جیسے موضوعات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ عام تباہی کے ہتھیاروں اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے سلسلے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے فریب اور دھوکے کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ ان مذکورہ موضوعات کے تعلق سے آج مغربی دنیا کے دعوے اور نعرے عالمی رای عامہ کے نزدیک مشکوک ہو چکے ہیں۔ امت مسلمہ کے مکار دشمن، سامراجیت، تسلط پسندی اور جارحیت کے مراکز چلانے والی قوتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے غیر قانونی مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلط کے لئے بہت بڑی اڑچن تصور کرتی ہیں۔ تمام مسلم اقوام اور خاص طور پر ان کے سیاستدانوں، قومی رہنماؤں اور علما و دانشوروں کو چاہئے کہ جارح دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کا مضبوط محاذ قائم کریں۔ تمام وسائل کو بروی کار لاکر امت مسلمہ کو طاقتور بنائيں۔ علم و دانش، تدبیر و تدبر، فرض شناسی و احساس ذمہ داری، اللہ تعالی کے وعدوں پر توکل اور یقین، رضای پروردگار کے پیش نظر بے ارزش دنیاوی خواہشات سے چشم پوشی اور فرائض کی تکمیل امت مسلمہ کی تقویت کے بنیادی عناصر ہیں جن کے ذریعے اسے عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی پیشرفت حاصل ہو سکتی ہے اور مسلم ممالک میں دشمن کے تسلط پسندانہ اقدامات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورت حال کے دو بنیادی پہلو ہیں: ایک تو یہ کہ دنیا میں اسلامی تشخص اور طرز فکر، خاص توقیر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اسلام کو دنیا کی بڑی اہم اور عظیم حقیقت کے طور پر مرکز توجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں اسلام سے اپنی دشمنی کا برملا اظہار کر رہی ہیں اور امریکہ نے تو کمیونزم کے خاتمے کےبعد دنیا کے لئے جس جدید نظام کا خاکہ تیار کیا ہے اس میں ایک اہم ترین باب اسلام سے مقابلے اور اسلام کی روز افزوں ترقی و ترویج کو روکنے سے مختص کیا گيا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دو عشروں میں مسلمانوں نے عالم اسلام کے مشرق و مغرب ہی نہیں بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی بہت اہم وسیع تحریک شروع کی ہے جسے اسلام کے احیاء کی تحریک کا نام دیا جا سکتا ہے۔ علم و دانش کے زیور سے آراستہ آج کی نوجوان نسل سامراجی طاقتوں کی توقعات کے بر خلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایمانی جذبے کے ساتھ، جو انسانی علوم کی پیش رفت کے نتیجے میں اور بھی آبدار اور درخشاں ہو گیا ہے، اپنا گمشدہ خزانہ تلاش کر رہی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور روز بروز قوی تر ہو رہے اسلامی نظام کی تشکیل نوجوان نسل کی اس مضبوط تحریک کا نقطہ کمال ہے اور اسلامی بیداری کو عالمی سطح پر پھیلانے میں اس واقعے کا بڑا کردار رہا ہے۔ اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں نے جو ہمیشہ اپنے اوپر مذہبی آزادی کی حمایت کا خول چڑھائے رہتی تھیں اسلام کے خلاف اپنے تمام وسائل اور لاو لشکر کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ سامراجی طاقتیں امت مسلمہ کی بیداری کی مسلسل پھیلتی لہر کو روکنے کے لئے، جسے وہ اپنے ناجائز اہداف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں، جس حربے کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں وہ نفسیاتی جنگ ہے۔ مایوسی اور نا امیدی پھیلانا، تحقیر اور اپنی طاقت کی حد سے زیادہ نمائش اسی طرح دیگر ہزاروں نفسیاتی حربے آج استعمال ہو رہے ہیں اور آئندہ استعمال کئے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو ان کے تابناک مستقبل سے ناامید کرکے اس مستقبل کی سمت بڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جو ان طاقتوں کے شوم مقاصد کے مطابق ہو۔ سامراج کے آغاز سے اب تک نفسیاتی جنگ اور ثقافتی یلغار مسلم ممالک پر سامراج کے غلبے کا سب سے موثر ترین حربہ رہا ہے۔ آج بھی عالمی سطح کی جدید تشہیراتی مہم سامراج کا سب سے موثر حربہ ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات اور اخبارات و جرائد جن کی بنیادی سرگرمیاں اسلام دشمنی پر مرکوز ہیں بے شمار ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بکے ہوئے ماہرین گمراہ کن خبریں اور تجزئے تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ اسلامی تحریک اور عظیم اسلامی ہستیوں کی شبیہ خراب کی جا سکے۔ دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو تحریک انقلاب کے آغاز سے اب تک بلا وقفہ ان معاندانہ تشہیراتی اقدامات کا سامنا کر رہا ہے۔ انسانی معاشرے دو طرف سے نشانہ بنتے ہیں۔ ایک تو اندرونی مسائل کی یلغار ان پر ہوتی ہے جو نتیجہ ہوتے ہیں انسانی کمزوریوں، شکوک و شبہات، عقیدے کی خرابی، اغیار کے مقابلے میں احساس کمتری کا، جو نتیجہ ہوتے ہیں خود فراموشی، اللہ تعالی سے غفلت، دنیا پرستوں کے سامنے خود سپردگی، اپنے بھائیوں سے بدگمانی، ان کے بارے میں دشمنوں کی باتوں پر بھروسے اور اطمینان، مسلم امہ کے مستقبل کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کے فقدان اور امت مسلمہ کی اجتماعی اہمیت سے عدم واقفیت کا، جو نتیجہ ہوتے ہیں دیگر اسلامی ممالک کے حالات سے بے خبری، اسلام و مسلمین کے خلاف دشمن کی سازشوں سے لا علمی، فرقہ پرستی، انتہا پسندانہ قومی جذبے جس کی ترویج کے لئے عموما گمراہ علما اور بکے ہوئے قلم استعمال کئے جاتے ہیں، اور اسی طرح دیگر مہلک بیماریوں کا جو مسلمانوں کی تقدیر اور سیاسی مستقبل پر نا اہل افراد کا غلبہ ہو جانے کے نتیجے میں مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی رہی ہیں۔ یہ بیماریاں گزشتہ صدیوں میں خطے میں اغیار کی موجودگی کے باعث اور دنیا پرست اور بکے ہوئے افراد کے ہاتھوں بڑی بھیانک اور تباہ کن صورت حال اختیار کر چکی ہیں۔ دوسری طرف بیرونی دشمنوں کی یلغار ہوتی ہے جو ظلم و استبداد، تسلط پسندی و جارحیت اور دشمنی و عناد کے تحت انسانی زندگی کی فضا کو مکدر اور انسانی معاشروں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں اور ظلم و ستم، جنگ و جدل اور زور زبردستی کے ذریعے ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ اسلامی علاقے کے افراد اور قومیں بھی ہمیشہ انہیں دو خطروں سے دوچار رہی ہیں اور آج یہ خطرات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں سازش کے تحت بد عنوانیوں کی ترویج، مغربی ثقافت کا پرچار جس میں بعض بے ضمیر حکومتیں بھی مدد کر رہی ہیں اور جس کی زد پر انفرادی زندگی سے لےکر شہر کی ساخت، اخبارات اور اجتماعی طرز زندگی سب ہیں، یہ ایک طرف اور دوسری جانب لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں قتل عام فوجی، سیاسی اور اقتصادی دباؤ مسلم امہ کو لاحق ان دونوں خطرات کی واضح مثالیں ہیں۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے یہ عالم اسلام کا بلکہ شاید عالم انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ یہ ایک قوم کے رنج و غم اور مظلومیت کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ملک پر غاصبانہ قبضے کا مسئلہ ہے۔ یہ مسلم ممالک کے قلب اور عالم اسلام کے مشرقی و مغربی علاقوں کے نقلہ وصال پر سرطانی پھوڑا پیدا کئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ تسلسل سے جاری ظلم و ستم کا مسئلہ ہے جس کا پے در پے دو فلسطینی نسلوں نے سامنا کیا ہے۔ اس طرح اسرائيلی حکومت عالم اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جسے رفع کرنے کے لئے موثر طریقوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب فلسطینی قوم کی قربانیوں اور عالم اسلام کی بیداری کے نتیجےمیں ملت فلسطین کو اس کا حق ملے گا اور یہ قوم جارح اور ظالم دراندازوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے گی تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اگر مسلم قوموں اور حکومتوں کا پختہ ارادہ اور ٹھوس فیصلے بھی ساتھ ہوں تو اس عمل میں تیزی آ سکتی ہے اور رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت اور اسی طرح آپ کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھنے والی شخصیت امام خمینی (رہ) کے یوم پیدائش کی مناسبت سے منعقدہ محفل عشق و مودت میں تشریف فرما تمام بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان دوستوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے فن اور پروگراموں کے ذریعے ہمیں جام عشق اہل بیت سے سیراب کیا، کیا دلچسپ ادائگی، شعرا کی کیا خوب طبع آزمائی؟! (واقعی قابل تحسین ہے)
اہل بیت علیھم السلام کی محبت کی وادی واقعی جوہر فن کی نمائش کی بڑی مناسب وادی ہے، اس نورانی فضا میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی محبت کے جذبے اور ذوق و فن کے اظہار کا واقعی بہت موزوں اور بر محل ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا، اللہ تعالی کا پر معنی کلام ہیں۔ آپ کا وجود ایک بحر بیکراں ہے۔ با ذوق افراد، دانشور، مفکرین اور اہل فن اس وادی میں جتنا زیادہ فکری سیر کرتے ہیں، (معرفتوں کے) اتنے ہی موتی ان کی جھولی میں آ تے جاتے ہیں۔ البتہ ہماری سفارش یہ ہے کہ اس بحر مواج میں اترنے کے لئے اہل بیت اطہار کی احادیث اور فرمودات کا سہارا لیا جائے۔
جیسا کے ایک صاحب نے اپنے اشعار میں بھی اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ اس خاندان کی معرفت کا راستہ خود اسی خاندان کے پاس ہے۔ ہمیں انہی سے رہنمائی حاصل کرنی ہے۔ انہی کو اپنا رہنما اور ہادی قرار دینا ہے اور اسی تناظر میں غور و فکر کے ذریعے گہرے معنی کو سمجھنا ہے۔ ہمارے شعرا اور اہل بیت اطہار کے مداحوں کو یہ افتخار حاصل ہے کہ احادیث و روایات سے رجوع کریں، ان میں غور و فکر کریں، اہل بصیرت اور علما سے مدد لیں پھر اپنے ذوق و فن، موشگاف نظر، دلکش آواز اور گلے کو اہل بیت اطہار کی خدمت سے مشرف کریں۔ یہ بہترین اور عظیم عمل ہے۔
انوار مقدسہ کی مدحت اور اہل بیت اطہار کی قصیدہ خوانی کے بارے میں ان محفلوں میں میں نے بہت کچھ عرض کیا ہے۔ کہی ہوئي باتیں نہیں دہراؤں گا بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں لوگوں سے رابطے کے سلسلے میں فن و ہنر کا کردار زیادہ واضح ہوتا جاتا ہے۔ مخاطب افراد کے ذہن و دل سے رابطے کے موثر ترین اور کارآمد ترین وسیلے یعنی فن کا کردار۔ آج جس کے پاس عوام کے لئے کچھ پیغام ہے، خواہ وہ الہی پیغام ہو یا شیطانی پیغام (اسے لوگوں تک پہنچانے کے لئے) سب سے بہترین وسیلہ جو اختیار کیا جاتا ہے وہ فن و ہنر کا وسیلہ ہے۔ آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ فن کے استعمال سے آج بے بنیاد ترین باتیں بھیں عوام کے سامنے وحی منزل کے طور پر پیش کر دی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اگر فن کا استعمال نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن فن اور ہنر کے سہارے یہ کام انجام پا رہا ہے۔ آپ سنیما کو دیکھئے، ایک فن اور ہنر ہے۔ ٹیلی ویزن فن و ہنر کی چیز ہے۔ انواع و اقسام کے ہنر اور فن استعمال کئے جاتےہیں تاکہ غلط بات کو حقیقت کا لبادہ پہنا دیا جائے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ فن و ہنر کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں اور شیعوں کو جو ایک افتخار حاصل ہے، جو کسی اور قوم اور ملت کے پاس اس انداز میں نہیں ہے وہ ہمارے یہی اجتماعات، محفلیں اور مجلسیں ہیں جن میں ہم آمنے سامنے بیٹھتے ہیں۔ یہ چیز دنیا کے دیگر ادیان اور خطوں میں بہت کم نظر آتی ہے۔ یہ چیز ہے لیکن اس وسیع پیمانے پر اس انداز میں نہیں ہے۔ نہ تو اس کا اثر اتنا ہے اور نہ ہی اس میں اتنے اہم موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ آپ فرض کریں کہ جو افراد قرآن کی زبان سے آشنا ہیں، سامعین کے روبرو قرآن کریم کی آیات کی اچھی آواز میں تلاوت کرتے ہیں، تو اس کی تاثیر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مداحوں کی مدح سرائي اور قصیدہ خوانی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اعلی مفاہیم اور مضامین کو مخاطب کے دل کی گہرائيوں تک پہنچانے کے لئے فن و ہنر کا استعمال یہی ہے۔ یہ بہت با ارزش ذریعہ ہے کتنا موثر طریقہ ہے! یہ فن اتنا اہم ہے کہ کبھی کبھی اس کی اہمیت خود مضمون کی مانند ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو مضمون، دلوں میں نہیں اتارا جا سکتا۔ آپ(شعرا) کی قصیدہ خوانی اسی زمرے میں آتی ہے۔
فن کے جتنے جوہر دکھائے جائیں جتنی اچھی آواز اور خوش الحان گلے کا استعمال کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ہمارا موضوع اور مضمون جتنا سبق آموز ہوگا، مخاطب کے لئے اسے سمجھنا اتنا ہی آسان ہوگا۔ سبق آموز سے مراد یہ ہے کہ اس میں جتنی جدت اور جاذبیت ہوگی اس کی ارزش اور اہمیت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگي۔ البتہ یہ عمل جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تعلیمات اہل بیت پیغمبر کے تناظر میں انجام پانا چاہئے۔ مدح سرائی کو سطحی باتوں تک محدود کر دینا اس کی ظاہری شکل کو نصب العین بنا لینا یا کسی مغربی دھن کی تقلید، یہ سب ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اس پر پوری توجہ رہنی چاہئے۔ بالخصوص نوجوان جو اس وادی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ عام فہم اور سادہ زبان میں شعر پڑھا جائے لیکن اس کے معنی بلند ہونے چاہئیں۔ اب اگر اہل بیت کی مدح سرائي کرنے والے کسی شخص نے مغربی موسیقی کی تقلید شروع کردی جو لہو و لعب کا ذریعہ ہے اور جس کے ماہرین شیطانی بے خودی کا شکار ہیں، تو یہ ہرگز مناسب نہیں ہے، یہ شائستہ فعل نہیں ہے۔
ایک اور نکتہ جس کے سلسلے میں میں ہمیشہ یاددہانی کراتا رہتا ہوں، یہ ہے کہ ایسے مضامین پیش کیجئے جو آپ کے مخاطب کے لئے مفید ہوں۔ مثلا کوئی ایسی منقبت ہو جس کے معنی عوام درک کر سکتے ہوں یا اہل بیت اطہار کی فضیلت کا کوئی گوشہ ہو جس سے ایمان و عقیدے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ معصومین علیھم السلام کے زمانے میں شعرا کن باتوں پر توجہ دیتے تھے۔ دعبل کے اشعار، کمیت کے اشعار، فرزدق کے اشعار، وہ اشعار جن کی اہل بیت اطہار نے بھی تعریف کی ہے ان میں کن باتوں پر تاکید کی گئي ہے۔ آپ غور کریں گے تو نظر آئے گا کہ ان اشعار میں یا تو دلیل اور خوبصورت شعری پیرائے میں اہل بیت کی حقانیت کا استدلال نظر آئے گا جیسے کے دعبل کے اشعار یا پھر ان میں اہل بیت اطہار کے فضائل کا تذکرہ ہوگا جیسا کہ یہاں حاضر شعراء کے اشعار میں نظر آیا، یعنی ھل اتی کی جانب اشارہ، واقعہ مباھلہ کی جانب اشارہ اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کے اقوال اور احادیث کی جانب اشارہ ، یا ان عظیم ہستیوں کی زندگی سے ملنے والے سبق کی جانب اشارہ جس کا واضح اور ہمارے زمانے سے قریب کا نمونہ، تحریک انقلاب کے دوران سن انیس سو ستتر اور اٹھتر کے محرم کے مہینوں میں شعراء، قصیدہ گو حضرات اور مداحوں کی زبانوں پر نظر آيا۔ ماتمی دستے بازاروں میں اور سڑکوں پر سینہ زنی اور نوحہ خوانی کرتے تھے لیکن سننے والے اسی سے سمجھ جاتے تھے کہ انہیں آج کیا کرنا ہے۔ آج کس سمت میں حرکت کرنا ہے۔ جب آپ اپنے فن، اپنی آواز اور اپنے اشعار کو ان مضامین کے لئے استعمال کریں گے تو آپ کی یہ کاوش یا تو اہل بیت اطہار کی حقانیت کے اثبات، یا ان ذوات مقدسہ کے فضائل کے اظہار یا پھر تعلیمات اہل بیت کے افہام و بیان کے مقصد کے تحت ہوگی اور اس سے آپ کے مخاطب کے لئے راہ زندگی کے تعین میں مدد ملے گی، اس صورت میں آپ کی اس کاوش کو بلند ترین درجہ حاصل ہوگا۔
یہ صرف جذبات کو ابھارنے کا مسئلہ نہیں ہے۔ ذہنوں کی رہنمائي کا مسئلہ ہے۔ بڑی خوشی ہوتی ہے جب میں اس جلسے یا عزاداری کے پروگراموں اور دیگر مناسبتوں پر شعرا اور مداحوں کو سنتا ہوں۔ الحمد للہ حالیہ برسوں میں (مذکورہ نکات پر) توجہ دی جا رہی ہے، البتہ یہ وادی بہت وسیع ہے۔ آپ نوجوان اچھی آواز کے مالک ہیں، آپ کا بیان بہت اچھا اور آپ کے پروگرام بہت دلچسپ ہیں، آپ کو اسلامی معاشرے کی عصری ضروریات پر نظر رکھنی چاہئے۔ گوناگوں سیاسی اور ثقافتی حملوں، گمراہ کن پروپگنڈوں اور تشہیراتی مہم کے طوفان میں ہماری نوجوان نسل اور ہماری قوم کو امید بخش نظریات، مستقبل کے تعلق سے اطمینان اور نشاط خاطر اور راہ حق کی شناخت کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ یہ کام ہر کسی کو کرنا چاہئے۔ ہر شخص اپنے انداز سے ( یہ کام انجام دے)۔ اس میدان میں آپ کا بڑا کردار ہے۔ اساتذہ، اور کہنہ مشق شعرا بہت موثر تعاون کر سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ یہ کام انجام پائے گا۔
ایک اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کی موجودہ صورت حال کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں۔ اپنے بیان اور تقاریر کے ذریعے ہمیں اپنے تاثرات اور نظریات دوسروں تک منتقل کرنا چاہئے۔ دوستو! اسلامی انقلاب صرف تاریخ ایران کا ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہ عالمی تاریخ اور پورے انسانی معاشرے کا بہت اہم واقعہ ہے۔ اس نکتے پر میں خصوصی تاکید کرتا ہوں۔ یہ کوئي نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت کا حقیقت پسندانہ جائزہ ہے۔ یہ واقعہ تاریخ انسانیت کا اہم واقعہ ہے۔ جیسے جیسے زمانہ گزرے گا یہ حقیقت عیاں ہوتی جائے گی۔ اسے بس اتنی سی بات نہ سمجھئے کہ ایک ملک میں طاغوتی حکومت تھی جس کا خاتمہ ہوا اور ایک اسلامی نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ یہ تبدیلی بھی ہوئی لیکن یہی سب کـچھ نہیں تھا۔ صدیوں سے انسانی معاشرے کو زندگی، ہستی اور کائنات کے سلسلے میں مادی نقطہ نگاہ اور مادی نظرئے کی جانب کھینچا جا رہا ہے۔ آج بھی یہ کوشش جا رہی ہے۔ اس طاقتور رجحان اور موج کے سامنے، جسے پوری مادی طاقت سے آگے بڑھایا جا رہا تھا اسلامی انقلاب آن کھڑا ہوا۔ انقلاب نے اس کا راستہ روکا۔ انقلاب نے معنویت اور روحانیت کا پرچم بلند کیا۔ انقلاب نے پوری طاقت سے آگے بڑھنے والی اس موج کو کمزور کر دیا۔ نتیجتا آج آپ انہی ممالک میں جو مادیت میں ڈوبے ہوئے تھے روحانیت اور معنویت کی پو پھٹنے کا حسین منظر دیکھ رہے ہیں۔ معنویت مختلف شکلوں میں سامنے آئی ہے۔ وہاں کی نوجوان نسل میں روحانیت کی طلب، روحانیت سے عشق اور روحانیت کی جانب رجحان واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ اب اگر اس رجحان کو صحیح سمت نہ دی گئی تو ممکن ہے کہ انحراف کی صورت پیدا ہو جائے۔ لوگ معنویت کے نام پر خرافات کا شکار ہو جائیں۔ اب ان حالات میں اگر مادیت میں غرق مغربی سماج میں اسلام اور اہل بیت اطہار کی تعلیمات کو متعارف کرایا جائے تو یقینی طور پر لوگ ان پر غور کریں گے اور انہیں قبول کریں گے۔ آج یہ چیز دنیا میں بالکل واضح ہو چکی ہے۔ یہ جو اسلام کی شان میں گستاخیاں کی جا رہی ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو بقول مولانا:
مہ فشاند نور و سگ عو عو کند
ہر کسی بر طینت خود می تند
یعنی اپنی اس حرکت سے وہ در حقیقت اپنی بد طینتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ نام دنیا کا احاطہ کرتا جا رہا ہے۔ اس نام کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی جانب نوجوانوں کے دل کھنچے چلے آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سامراجی نظام چلانے والے سراسیمہ ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے مہروں کو ہر روز ایک نئے انداز سے رد عمل ظاہر کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جس سے ان کی شکست اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ تو یہ رہا معنوی اور روحانی پہلو۔
سیاسی زاوئے سے دیکھا جائے تو جب سے دنیا میں سامراجیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یعنی انیسویں صدی میں تقریبا دو سو سال قبل سے رفتہ رفتہ یہ سلسلہ شروع ہوا کہ جو ممالک دیگر ممالک کے امور میں مداخلت کرنے کی طاقت رکھتے تھے انہوں نے مداخلتیں شروع کیں۔ سامراجی نظام معرض وجود میں آیا اور دنیا تسلط پسند اور مستضعف ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ آپ کے اسلامی انقلاب نے اس عمل کا مقابلہ کیا جو دنیائے سیاست کی فطری بات کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ یہ جو آج آپ دنیا کے بہت سے ممالک میں امریکہ مردہ باد کے نعرے سنتےہیں، یہ نئی تبدیلی ہے، ملت ایران کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ یہ چیز پہلے نہیں تھی۔ آج جو اسلامی ممالک ہی نہیں یورپی ممالک تک میں امریکی سیاست کو نفرت انگیز سیاست اور امریکی حکام کو منفور ترین سیاستداں قرار دیا جانے لگا ہے، اس کا موجب ملت ایران کی تحریک ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ (اسلامی انقلاب نے) پہلے تو سامراجی طاقتوں کی ناک رگڑ دی اور پھر پورے سامراجی نظام کو للکارا کہ امریکہ یا دیگر ممالک کو کیا حق پہنچتا ہے کہ کمزور اور مستضعف ممالک سے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کریں؟ خود ہمارے ملک ایران میں طاغوتی دور کے روسیاہ حکام اس وقت تک کوئی اہم فیصلہ نہیں کرتے تھے جب تک ایران میں متعین امریکی اور برطانوی سفیر سے مشورہ نہیں کر لیتے تھے، کیوں؟ ایک قوم جو مادی و معنوی صلاحیتوں اور ثقافتی خزانوں سے سرشار ہے آخر کیوں کسی غیر کی تابع رہے؟ کیوں کا سوال سب سے پہلے اسلامی انقلاب نے اٹھایا۔ تو عالمی سطح پر اسلامی انقلاب نے سیاسی اور معنوی لحاظ سے یہ دو تبدیلیاں کیں۔ اور بھی بہت سے نمونے ہیں لیکن ان کی تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں ہے۔
یہ کار بزرگ انجام پایا اور اس کے ساتھ ہی دشمنیاں بھی شروع ہو گئیں۔ تصادم کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ دشوار ترین حالات میں امام (خمینی رہ) کی حیرت انگیز قیادت نے تحریک کی کامیابی کے ساتھ حفاظت کی اور اسے آگے بڑھایا۔ ملت ایران اور اس سرزمین کے نوجوان حقیقی معنی میں امام (خمینی رہ) کی باتوں سے سیراب ہوئے۔ ان باتوں کو دل و جان سے قبول کیا، اسے سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ لوگوں کو ورغلانے اور منحرف کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں، ان کے عقیدے اور یقین کو بدلنے کی سازشیں ہوئي لیکن اب تک سب بے سود رہیں۔ انشاء اللہ آئندہ بھی لا حاصل ہی رہیں گی۔ یہ تحریک آگے بڑھتی جا رہی ہے اور دشمنیاں بھی مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ ہماری مثال اس دوڑنے والے کی ہے جو اپنی منزل کی سمت بڑھ رہا ہےلیکن کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے اس لئے مسلسل راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں، دوڑنے والا رکاوٹیں پھلانگ جاتا ہے تو اس پر پتھر برساتے ہیں، اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔ بار بار کہتے ہیں کہ مت جاؤ، کیا تمہیں خوف نہیں آتا، اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ لیکن دوڑنے والا ہے کہ کسی کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ زخم کھاتا ہے، درد برداشت کرتا ہے لیکن دوڑ جاری ہے۔ ملت ایران نے اب تک ایسے ہی دوڑنے والے چیمپین کے انداز سے پیش قدمی کی ہے۔
تو اس صورت حال میں، اسلامی اور انقلابی امنگوں اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے عقیدتمندوں اور اس قوم اور اس مل کے ہمدردوں کا کیا فریضہ بنتا ہے؟ سب کا فریضہ ہے کہ ملت ایران کے لئے راستہ صاف کریں، سیاستداں اپنے انداز سے، حکام اپنے طور پر، علما اپنی روش کے مطابق، یونیورسٹیوں سے وابستہ دانشور اپنی سطح پر، روشن فکر افراد اپنے انداز میں اور دیگر طبقات بھی اپنے اپنے انداز میں۔ ان میں ایک موثر ترین طبقہ مذہبی مقررین، قائدین اور اہل بیت اطہار کی محبت کا پرچم بلند کرنے والے عشاق کا ہے جو اہل بیت اطہار کی خوشی میں خوش اور غم میں غمزدہ ہو جاتے ہیں۔
آج اس کی ضرورت ہے کہ تمام افراد اپنے فریضے کو سمجھیں اور بخوبی دیکھیں کہ ہم کہاں ہیں۔ بعض افراد ہیں جو غفلت کا شکار ہیں وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ ہم کتنے آگے پہنچ چکے ہیں؟! وہ نہیں سمجھتے کہ ابھی کتنا طولانی سفر باقی ہے۔ نہیں سمجھتے کہ ہمارا دشمن موجود ہے۔ جو ہماری غفلت، سستی اور اختلاف سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس سلسلے میں میرا خطاب خاص طور پر سیاسی اور ثقافتی میدان کی اہم شخصیات سے ہے۔ انہیں اپنی باتوں کے سلسلے میں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد و اتفاق رای جو تمام کامیابیوں کا راز ہے، آج ملک کو اس کی شدید ضرورت ہے۔ ملک کے حکام واقعی بڑی محنت کر رہے ہیں۔ زحمتیں برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت، حکام، مختلف اداروں کے ڈائریکٹر سب کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئي تنقید کرنا چاہتا ہے تو ایسا انداز نہ اپنائے کہ جس پر تنقید کی جا رہی ہے اس کا حوصلہ ہی ٹوٹ جائے۔ اختلافات کی جڑ نفسانی خواہشات ہیں۔ اگر کسی متنازعہ اور تفرقہ انگیز فعل کے سلسلے میں کہا کہ یہ میں نے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے انجام دیا ہے تو آپ ہرگز اس بات پر یقین نہ کیجئے۔ مومنین کے درمیان تفرقہ انگیزی کبھی بھی اللہ کی خوشنودی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ یہ تو شیطانی فعل ہے۔ مومنین کے درمیان بغض و کینہ پیدا کرنا جس سے اختلافات کی فضا وجود میں آئی شیطانی عمل ہے، اللہ کی خوشنودی کا باعث نہیں بن سکتا۔ الہی فعل تو لوگوں میں میل محبت پیدا کرتا ہے۔ اگر کوئي شخص کسی فریضے کو انجام دے رہا ہے تو دوسروں کو چاہئے کہ اس کی مدد کریں تاکہ وہ کام کو بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ اگر اس میں کہیں کوئي کمزوری ہے تو اسے متوجہ کریں، لیکن اس کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔ جس شخص نے اپنے دوش پر علم سنبھالا ہے سب کو چاہئے کہ اس کی مدد کریں، کوئي اس کا پسینہ خشک کر دے، توکوئی اسے پنکھا جھلے، اگر محسوس ہو کہ وہ پرچم کو صحیح انداز میں بلند نہیں کر پا رہا ہے تو یہ مناسب نہیں ہے کہ اس پر وار کرکے علم اور علم اٹھانے والے دونوں کو زمیں بوس کر دیا جائے۔ اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ جو کچھ کمی ہے دور ہو جائے۔ اس نکتے پر سب کو توجہ دینا چاہئے بالخصوص ان افراد کو جو سیاسی، ثقافتی، مواصلاتی یا دیگر اہم شعبوں میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں اہل بیت علیھم السلام کے دوستداروں، عقیدتمندوں اور ان کی منزلت سے آشناؤں میں قرار دے۔ ہمیں اسی ایمان و عقیدے کے ساتھ زندہ رکھ اور اسی ایمان و عقیدے کے ساتھ دنیا سےاٹھا۔ دنیا و آخرت میں ہمیں ان سے جدا نہ کرنا۔ پروردگارا! ہمارے فرائض ہمارے لئے آسان کر دے۔ جن چیزوں کے بارے میں تو ہم سے جواب طلب کرنے والا ہے ان کی انجام دہی کی ہمیں توفیق عطا فرما۔ حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اسلامی جمہوریہ ایران میں عدلیہ کے سربراہ ڈاکٹر شہید بہشتی اور ان کے بہتر ساتھیوں کی اٹھائيس جون کے دہشت گردانہ حملے میں شہادت کی برسی اور یوم عدلیہ کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے عہدہ داروں کے ایک اجتماع سے خطاب فرمایا ، جو پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے سابق سربراہ ڈاکٹر حداد عادل کو اپنا مشیر اعلی اور ڈاکٹر سعید جلیلی کو قومی سلامتی کی اعلی کونسل میں اپنا نمایندہ مقرر فرمایا۔ آپ نے ان تقرریوں کے لئے حکمنامے جاری فرمائے جو مندرجہ ڈیل ہیں:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے سابق سربراہ ڈاکٹر حداد عادل کو اپنا مشیر اعلی اور ڈاکٹر سعید جلیلی کو قومی سلامتی کی اعلی کونسل میں اپنا نمایندہ مقرر فرمایا۔ آپ نے ان تقرریوں کے لئے حکمنامے جاری فرمائے جو مندرجہ ڈیل ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم جناب ڈاکٹر حداد عادل حفظکم اللہ سیاسی اور ثقافتی میدانوں بالخصوص پارلیمان مجلس شورای اسلامی کی سربراہی کے دور میں آپ کے طویل تجربات کے پیش نظر ان تجربات اور صلاحیتوں سے استفادے کی غرض سے آپ کو قائد انقلاب اسلامی کا مشیر اعلی منصوب کرتا ہوں۔امید کہ اس ذمہ داری کے سلسلے میں بھی آپ کی با ارزش خدمات سامنے آئیں گی جس کے ہم ماضی میں بھی شاہد رہے ہیں۔ اللہ تعالی سے آپ کی توفیقات اور کامیابیوں کے لئے دعاگو ہوں۔ سید علی خامنہ ای 2008-6-28 بسم اللہ الرحمن الرحیمجناب ڈاکٹر سعید جلیلیاسلامی جمہوریہ ایران کے آئين کی دفعہ ایک سو چھہتر کی رو سے آپ کو اعلی قومی سلامتی کونسل میں تین سال کے لئے اپنا نمایندہ منصوب کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی اور خود مختاری کے سلسلے میں اس کونسل کے فیصلوں کے کلیدی کردار پیش نظر آپ اس عمل میں سرگرم شرکت اور بندے سے مسلسل صلاح و مشورے کے ذریعے عظیم اسلامی نظام کی خود مختاری اور تقویت میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ مناسب ہوگا کہ اس موقع پر جناب ڈاکٹر لاری جانی کی قیمتی خدمات کا شکریہ بھی ادا کر دوں جنہوں نے اس کونسل میں برسوں قائد انقلاب اسلامی کی نمایندگی کی۔ سید علی خامنہ ای 2008-6-28
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج بده کے روز عدلیہ کے سربراہ، عہدہ داروں، ججوں، اہلکاروں اور شہدا کے بازماندگان سے ملاقات میں فرمایا کہ مطلوبہ ہدف یہ ہے کہ عوامی سطح پر عدلیہ کو مظلوموں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ آپ نے عدل و انصاف کے قیام میں عدلیہکے بنیادی اور کلیدی کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سات سال قبلکیا جانے والا مالی بد عنوانیوں کا سختی سے خاتمہ کرنے کا مطالبہ آج بھیبرقرار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دنیا میں ایران کے اسلامی انقلاب کی معنوی اور روحانی تاثیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صدیوں سے دنیا مادی زندگی کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن ایران کا اسلامی انقلاب اس رجحان کے سامنے ڈٹ گیا اور انقلاب نے روحانیت کا پرچم لہرا کر معنوی رجحان معاشرے حتی مغربی نوجوان نسل میں پھیلایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلم ممالک کی مستقل نشست کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج تہران میں کومور کے صدر احمد عبداللہ محمد سامبی سے ملاقات میں اتحاد کو عالم اسلام کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا اور اسلامی ممالک کے بیش بہا اور اہم وسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وسیع قدرتی ذخائر، حساس اور اہم جغرافیائی محل وقوع، بہت وسیع سرزمین، بڑی آبادی اور ماہر افرادی قوت کے پیش نظر عالم اسلام ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہو سکتا ہے لیکن دنیا کی روایتی طاقتیں اس کے خلاف ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے اراکین سے ملاقات میں اسلامی جموریت کو اللہ تعالی کی ولایت اور الہی اقتدار پر استوار بتایا اور پارلیمنٹ کے دو اہم ترین فرائض یعنی قانون سازی اور نگرانی کی خوش اسلوبی سے انجام دہی پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی نے تینوں شعبوں، (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اراکین پارلیمنٹ کا عوام دوست ہونا اور عوام دوست باقی رہنا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج پیر کو عراقی وزیر اعظم نوری المالکی اور ان کے ہمراہ ایران آنے والے وفد سے ملاقات میں فرمایا کہ اس وقت عراق کی سب سے بڑی اور بنیادی مشکل قابض افواج کی موجودگی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ عراقی عوام اپنی بلند ہمتی اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ان دشوار حالات سے گزرکر اپنے شایان شان مقام تک پہنچیں گے اور عراق کے سلسلے میں امریکیوں کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں گے ـ