قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز علمی جہاد-دفاعی استحکام کے زیر عنوان منعقدہ نمائش میں مسلح فورسز کی سائنسی و تکنیکی مصنوعات کا معائنہ کیا۔قائد انقلاب اسلامی نے نمائش میں پہنچنے پر سب سے پہلے شہدا کی یادگار کے قریب جاکر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے مذہبی اشعار کی وادی کو وہبی اور خداداد صلاحیتوں کی انتہائی سازگار جولان گاہ قرار دیا اور فرمایا کہ شعرا کے پاس اس وہبی نعمت کے شکر کا طریقہ ایسے اشعار کی تخلیق ہے جو بہترین مضمون اور اقدار کے حامل ہوں اور در حقیقت الہی حقائق و معرفت کے حزانے اور پیکر کا درجہ رکھتے ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے روز سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں کسی بھی قوم کے روحانی خد و خال اور شناخت کی حیثیت رکھنے والے ثقافت کے موضوع کی خاص اہمیت اور شخصی و سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کے گہرے اور وسیع اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کی ذمہ داریوں کو بہت حساس اور اہم قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں مجھے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ قیادت، تقوا، فقہ و اجتہاد کے میدانوں میں ہمارے سامنے یہ ایک عظیم ہستی ہے۔ ایسی ہستی جو پائيدار فکری بنیادوں پر استوار ہمہ گیر، عمیق اور متین نظریات رکھتی ہے، جسے مشکلات اور احتیاجات کی پوری خبر ہے، جسے امکانات کا بھرپور ادراک ہے، جو اصولوں اور بنیادوں کے مطابق مناسب راہ حل سے واقف ہے۔
ائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے روضے پر ملک کے گوشے گوشے اور دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کے عظیم الشان نورانی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پیشین گوئی کے عملی جامہ پہننے کی مثال کے طور پر اقوام کی اسلامی بیداری اور اس بیداری کی خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے راستے اور مکتب فکر کی پذیرائی اور بھرپور پابندی کو عظیم الشان امام خمینی سے ملت ایران کی حقیقی عقیدت و الفت کی علامت قرار دیا اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے منظم کثیر الجوانب مکتب فکر کی اہم ترین خصوصیات کے طور پر روحانیت، معقولیت اور انصاف کا نام لیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے 14 خرداد سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق چار جون سنہ دو ہزار گیارہ عیسوی کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے روضے پر بائیسویں برسی کے پروگراموں میں شرکت کے لئے ملک کے گوشے گوشے اور دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کے عظیم الشان نورانی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پیشین گوئی کے عملی جامہ پہننے کی مثال کے طور پر اقوام کی اسلامی بیداری اور اس بیداری کی خصوصیات کا ذکر کیا۔
اسلامی بیداری ایسی رزمیہ تبدیلی ہے جس کی توقع امام (رضوان اللہ علیہ) کو تھی اور آپ اس کی پیشین گوئی بھی فرماتے تھے۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) مسلمان قوموں کے اندر بیداری کی لہر کی پیش گوئی کرتے تھے، جیسا کہ آپ نے سویت یونین کے سقوط کی پیشین گوئی فرمائی تھی اور عملا یہی ہوا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 خرداد سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 31 مئی سنہ 2011 عیسوی کو امام حسین علیہ السلام ڈیفنس یونیورسٹی میں پاسداران انقلاب فورس کے جوانوں کی تقریب سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل کے وقت کے حالات پر روشنی ڈالی اور اس عمل میں بنیادی کردار ادا کرنے والوں کی خصوصیات بیان کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ مشرق وسطی کے انتہائی حساس علاقے میں شیطان بزرگ امریکہ کی پالیسیوں کی شکست اور علاقے کی اٹھ کھڑی ہونے والی قوموں کے اندر اسلامی نعروں کا نوید بخش احیاء ملت ایران کے لئے بعض الہی وعدوں کے ایفاء کی علامت ہے اور اس راستے پر ثابت قدمی سے نصرت الہی کا وعدہ مکمل طور پر پورا ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات میں ایران کی معیشت کو کمزور کرنے، حکام کے درمیان اختلاف بھڑکانے اور اسلامی عقائد و جذبات کو کمزور کرنے کے لئے تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے جاری سازشوں کا تجزیہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان مدارات اور باہمی تعاون اور قانون کو قول فیصل کا درجہ دئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ خرداد سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی مطابق 29 مئی سنہ دو ہزار گیارہ عیسوی کو پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات میں مقننہ کی اہمیت اور اس کے فرائض پر روشنی ڈالی۔
خاتون دو عالم، بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت نیز بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی موجودگی میں ایک محفل میلاد کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب میں شعرا اور مقررین نے اپنا اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
خاتون دو عالم، بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت نیز بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی موجودگی میں ایک محفل میلاد کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب میں شعرا اور مقررین نے اپنا اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق پیغمبر اسلامۖ کی نرمی اور سختی پیغمبر اسلام ۖ کی امانتداری پیغمبر اسلامۖ کی بردباری اچھے اخلاق کی دعوت پیغمبر اکرمۖ کی بردباری رسول اسلامۖ کی راست بازی پیغمبر اسلام ۖ کی پاکیزگی پیغمبر اسلامۖ کی عوام دوستی پیغمبر اسلامۖ کا کھانا اور لباس پیغمبر اسلامۖ کی عبادت پیغمبر اسلامۖ کا سلوک دشمنان اسلام سے پیغمبر اسلامۖ کا برتاؤ اخلاق پیغمبرۖ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلامی اخلاق اور اقدار کو معاشرے میں نافذ اور لوگوں کی روح، عقائد اور زندگی میں رائج کرنے کے لئے، زندگی کی فضا کو اسلامی اقدار سے مملو کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی نرمی اور سختی قرآن کریم پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ملائمت اور لوگوں سے نرمی سے پیش آنے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ سخت نہیں ہیں۔ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک یہی قرآن دوسری جگہ پر پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا ہے کہ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم کفار اور منافقین سے سختی سے پیش آئیں۔ وہی غلظ (سختی) کا مادہ جو پہلے والی آیت میں تھا یہاں بھی ہے لیکن یہاں قانون کے نفاذ اور معاشرے کے امور چلانے اور نظم و ضبط قائم کرنے میں ہے۔ وہاں سختی بری ہے، یہاں سختی اچھی ہے۔ وہاں سختی سے کام لینا برا ہے اور یہاں سختی سے کام لینا اچھا ہے۔ ٹاپ پیغمبر اسلام ۖ کی امانتداری آپ کا امین ہونا اور امانتداری ایسی تھی کہ دور جاہلیت میں آپ کا نام ہی امین پڑ گیا تھا اور لوگ جس امانت کو بہت قیمتی سمجھتے تھے، اسے آپ کے پاس رکھواتے تھے اور مطمئن ہوتے تھے کہ یہ امانت صحیح و سالم انہیں واپس مل جائے گی۔ حتی دعوت اسلام شروع ہونے اور قریش کی دشمنی اور عداوت میں شدت آنے کے بعد بھی ، ان حالات میں بھی، وہی دشمن اگر کوئی چیز کہیں امانت رکھوانا چاہتے تھے تو آکے رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کرتے تھے۔ لہذا جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مدینے ہجرت فرمائی تو امیر المومنین (علیہ السلام) کو مکے میں چھوڑا تاکہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس لوٹا دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں۔ مسلمانوں کی امانتیں نہیں بلکہ کفار اور ان لوگوں کی امانتیں تھیں جو آپ سے دشمنی کرتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی بردباری آپ کے اندر تحمل اور بردباری اتنی زیادہ تھی کہ جن باتوں کو سن کے دوسرے بیتاب ہوجاتے تھے، ان باتوں سے آپ کے اندر بیتابی نہیں پیدا ہوتی تھی۔ بعض اوقات مکہ میں آپ کے دشمن آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ ان میں سے ایک کے بارے میں جب جناب ابوطالب نے سنا تو اتنا غصبناک ہوئے کہ تلوار لی اور اپنے ملازم کے ساتھ وہاں گئے جہاں رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گستاخی ہوئی تھی اور پھر جتنے لوگوں نے گستاخی کی تھی ان میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی کام کیا اور کہا کہ تم میں سے جو بھی اعتراض کرے گا اس کی گردن مار دوں گا، مگر پیغمبر نے وہی گستاخی بردباری کے ساتھ برداشت کی تھی۔ ایک بار ابوجہل سے آپ کی گفتگو ہوئی اور ابوجہل نے آپ کی بڑی توہین کی مگر آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بردباری سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ کسی نے جاکے جناب حمزہ کو اطلاع دے دی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ جناب حمزہ بیتاب ہو گئے۔ آپ گئے اور کمان سے ابوجہل کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ خون نکلنے لگا اور پھر اسی واقعے کے بعد آپ نے اسلام کا اعلان کیا۔ بعض اوقات کچھ لوگ مسجد میں آتے تھے، پیر پھیلا کے رسول سے کہتے تھے کہ میرے ناخن کاٹ دیجئے، اس لئے کہ ناخن کاٹنے میں آپ کو مہارت تھی، پیغمبر بھی پوری بردباری کے ساتھ اس گستاخی اور بے ادبی کو برداشت کرتے تھے۔ ٹاپ اچھے اخلاق کی دعوت لوگوں کو ہمیشہ اچھی باتوں یعنی، عفو و درگذر، چشم پوشی، مہربانی، ایک دوسرے سے محبت، کاموں میں پائیداری، صبر، حلم، غصہ پر قابو پانے، خیانت نہ کرنے، چوری نہ کرنے، بد کلامی نہ کرنے، کسی کا برا نہ چاہنے، اور دل میں کینہ نہ رکھنے وغیرہ کی نصیحت و تلقین کریں۔ لوگوں کو ان باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کوئی ایسا زمانہ فرض نہیں کیا جا سکتا جب ان اچھی باتوں کی ضرورت نہ رہے۔ لوگوں کو ہمیشہ ان اقدار کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اقدار نہ ہوں تو ترقی کی اوج پر ہونے کے باوجود معاشرہ برا اور ناقابل قبول ہوگا۔ ٹاپ پیغمبر اکرمۖ کی بردباری زمانہ جاہلیت میں مکہ والوں کے درمیان بہت سے معاہدے تھے۔ ان کے علاوہ ایک معاہدہ، معاہدہ حلف الفضول کے نام سے بھی تھا جس میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھے۔ کوئی اجنبی مکہ آیا اور اس نے اپنا سامان بیچا۔ جس نے اس کا سامان خریدا، اس کا نام عاص بن وائل تھا جو ایک بدمعاش تھا اور مکہ کے سرمایہ داروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے جو سامان خریدا اس کا پیسہ نہیں دیا۔ وہ اجنبی جس کے پاس بھی گیا، کوئی اس کی مدد نہ کر سکا۔ آخر کار وہ کوہ ابوقیس کے اوپر گیا اور وہاں سے فریاد کی: اے فہر کے بیٹو! میرے اوپر ظلم ہوا ہے۔ یہ فریاد رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے سنی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور اس شخص کے حق کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھے اورعاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس کے پیسے دو؛ وہ ڈر گیا اور مجبور ہوکے اس کے پیسے دے دیئے۔ یہ معاہدہ ان کے درمیان باقی رہا اور اس میں طے پایا تھا کہ جو اجنبی بھی مکہ میں داخل ہو اگر اہل مکہ اس پر ظلم کریں، عام طور پر اجنبیوں اور مکہ سے باہر والوں پر ظلم کرتے تھے، تو یہ لوگ اس کا دفاع کریں گے۔ اسلام آنے کے برسوں بعد بھی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ میں اب بھی خود کو اس معاہدے کا پابند سمجھتا ہوں۔ بارہا آپ نے اپنے مغلوب دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا۔ آٹھویں ہجری میں جب پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو فرمایا الیوم یوم المرحمۃ آج عفو و درگذر سے کام لینے کا دن ہے لہذا انتقام نہ لو۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراخدلی تھی۔ ٹاپ رسول اسلامۖ کی راست بازی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے جناب خدیجہ کو آپ کا شیدائی بنایا۔ خود جناب خدیجہ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں۔ ٹاپ پیغمبر اسلام ۖ کی پاکیزگی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن سے ہی بہت نفاست پسند انسان تھے۔ مکہ اور عرب قبائل کے بچوں کے برخلاف، آپ ہمیشہ صاف ستھرے اور پاک و پاکیزہ رہتے تھے۔ نوجوانی سے پہلے کے زمانے میں بھی( نفاست کا خیال رکھتے تھے) بالوں میں کنگھا کرتے تھے اور نوجوانی میں بھی آپ کے بال کنگھا کئے ہوئے رہتے تھے۔ اسلام کے اعلان کے بعد اس دور میں جب نوجوانی کا دور گزر چکا تھا اور آپ سن رسیدہ ہو چکے تھے، پچاس سال اور ساٹھ سال کی عمر میں بھی آپ نفاست اور طہارت کا پورا خیال رکھتے تھے، آپ کی زلف مبارک ہمیشہ صاف، ریش مبارک ہمیشہ نفیس اور معطر رہتی تھی۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ بیت الشرف میں پانی کا ایک برتن تھا، جس میں آپ اپنا روئے مبارک دیکھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں آئینہ کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ کان یسوّی عمامتہ ولحیتہ اذا اراد ان یخرج الی اصاحبہ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسلمانوں، دوستوں اور اصحاب کے پاس جانا چاہتے تھے تو عمامے اور سر کے بالوں اور ریش مبارک کو بہت ہی نفاست کے ساتھ ٹھیک کرتے تھے اس کے بعد گھر سے باہر آتے تھے۔ آپ ہمیشہ عطر اور خوشبو سے خود کو معطر فرماتے تھے۔ آپ، زاہدانہ زندگی کے باوجود، میں عرض کروں گا کہ پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی بڑی زاہدانہ تھی، سفر میں کنگھی اور عطر اور سرمے دانی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اس زمانے میں مرد آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے۔ آپ دن میں کئی بار مسواک کرتے تھے۔ دوسروں کو بھی صفائی، مسواک کرنے اور خود کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ پیغمبر کا لباس پرانا اور پیوند زدہ تھا؛ لیکن آپ کا لباس، سر اور روئے انور ہمیشہ صاف رہتا تھا۔ یہ باتیں، معاشرت میں، روئے میں اور ظاہری حالت اور حفظان صحت میں بہت موثر ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں، باطن میں بہت موثر ہیں۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی عوام دوستی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ لوگوں کے درمیان ہمیشہ بشاش رہتے تھے۔ جب تنہا ہوتے تھے تو آپ کا حزن و ملال ظاہر ہوتا تھا۔ آپ اپنے حزن و ملال کو لوگوں کے سامنے اپنے روئے انور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر شادابی رہتی تھی۔ سب کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا تو چہرے پر آزردہ خاطر ہونے کے آثار ظاہر ہوتے تھے لیکن زبان پر حرف شکوہ نہیں آتا تھا۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے سامنے کسی کو گالیاں دی جائیں اور برا بھلا کہا جائے۔ بچوں سے محبت کرتے تھے، خواتین سے مہربانی سے پیش آتے تھے، کمزوروں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے، اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے تھے اور ان کے ساتھ گھوڑسواری کے مقابلے میں حصہ لیتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کا کھانا اور لباس آپ کا بستر چٹائی کا تھا، تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ آپ کا کھانا زیادہ تر جو کی روٹی اور کھجور ہوتی تھی۔ لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی تین دن تک مسلسل گیہوں کی روٹی یا رنگا رنگ کھانے نوش نہیں فرمائے۔ ام المومنین (حضرت) عائشہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ایک مہینے تک ہمارے باورچی خانے سے دھواں نہیں اٹھتا تھا۔ ( یعنی چولھا نہیں جلتا تھا) آپ کی سواری بغیر زین اور پالان کے ہوتی تھی۔ جس زمانے میں لوگ قیمتی گھوڑوں پر (بہترین) زین اور پالان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر جگہوں پر گدھے پر بیٹھ کے جاتے تھے۔ انکسار سے کام لیتے تھے۔ نعلین مبارک خود سیتے تھے۔ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کی عبادت آپ کی عبادت ایسی تھی کہ محراب عبادت میں کھڑے رہنے کے سبب پائے مبارک میں ورم آ جاتا تھا۔ رات کا بڑا حصہ، شب بیداری، عبادت، گریہ و زاری، استغفار اور دعا میں گزارتے تھے۔ خداوند عالم سے راز و نیاز اور استغفار فرماتے تھے۔ رمضان کے علاوہ شعبان اور رجب میں بھی روزہ رکھتے تھے اور بقیہ ایام میں، اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، ایک دن چھوڑ کے روزہ رکھتے تھے۔ اصحاب آپ سے کہتے تھے : یا رسول اللہ آپ سے تو کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخّر سورہ فتح میں بھی آیا ہے :لیغفرلک اللہ ما تقدم ذنبک و ما تاخّر تو اتنی دعا، عبادت اور استغفار کس لئے؟ فرماتے تھے: افلا اکون عبدا شکورا کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ رہوں جس نے مجھے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں؟ ٹاپ پیغمبر اسلامۖ کا سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عادل اور صاحب تدبیر تھے۔ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینے آنے کی تاریخ کا مطالعہ کرے، وہ قبائلی جنگیں، وہ حملے، وہ دشمن کو مکہ سے بیابان کے بیچ میں لانا، وہ مسلسل وار، وہ دشمن سے مقابلہ، اس تاریخ میں ایسی حکمت آمیز، ہمہ گیر اور محکم تدبیر کا مشاہدہ کرتا ہے جو حیرتناک ہے۔ آپ قانون و ضابطے کے پابند اور محافظ تھے۔ نہ خود قانون کے خلاف عمل کرتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو قانون شکنی کی اجازت دیتے تھے۔ خود بھی قوانین کی پابندی کرتے تھے۔ قرآن کی آیات بھی اس کی گواہی دیتی ہیں۔ جن قوانین کی پابندی لوگوں کے لئے ضروری ہوتی تھی، آنحضرت خود بھی سختی کے ساتھ ان پر عمل کرتے تھے اور سرمو قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ آپ کے دیگر عادات و اطوار میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ عہد کی پابندی کرتے تھے۔ کبھی عہد شکنی نہیں کی۔ قریش نے آپ کے ساتھ عہد شکنی کی مگر آپ نے نہیں کی۔ یہودیوں نے بارہا عہد شکنی کی لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کی۔ آپ اسی طرح رازدار بھی تھے۔ جب فتح مکہ کے لئے چل رہے تھے تو کوئی نہ سمجھ سکا کہ پیغمبر کہاں جانا چاہتے ہیں۔ پورے لشکر کو جمع کیا اور فرمایا باہر چلتے ہیں۔ کہا کہاں؟ فرمایا بعد میں معلوم ہوگا۔ کسی کو بھی یہ نہ سمجھنے دیا کہ مکہ کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ نے ایسی تدبیر سے کام لیا کہ آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے اور قریش کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ آ رہے ہیں۔ جب آپ مجمع میں بیٹھے ہوتے تھے تو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ پیغمبر اور اس بڑی جماعت کے کمانڈر ہیں۔ آپ کی سماجی اور فوجی انظامی صلاحیت اعلی درجے کی تھی اور ہر کام پر نظر رکھتے تھے۔ البتہ معاشرہ چھوٹا تھا، مدینہ اور اطراف مدینہ کے علاقے اس میں شامل تھے، بعد میں مکہ اور ایک دو دوسرے شہر اس میں شامل ہو گئے لیکن آپ منظم طور پر لوگوں کے امور کا خیال رکھتے تھے۔ اس ابتدائی معاشرے میں آپ نے نظم و نسق، حساب کتاب، حوصلہ افزائی اور پاداش کو لوگوں کے درمیان رائج کیا۔ ٹاپ دشمنان اسلام سے پیغمبر اسلامۖ کا برتاؤ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے دشمنوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہ آپ کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ بعض دشمن ایسے تھے جن کی دشمنی گہری تھی؛ لیکن پیغمبر دیکھتے تھے کہ ان سے زیادہ خطرہ نہیں ہے تو پیغمبر ان سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے تھے اور ان سے زیادہ سختی سے نہیں پیش آتے تھے۔ بعض دشمن ایسے تھے جن کی طرف سے خطرہ تھا، پیغمبر ان کی طرف سے ہوشیار رہتے تھے اور ان پر نظر رکھتے تھے۔ جیسے عبداللہ بن ابی، ایک درجے کا منافق تھا اور رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کرتا رہتا تھا، لیکن پیغمبر صرف اس پر نظر رکھتے تھے اور اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ وہ پیغمبر کی زندگی کے اواخر تک زندہ تھا۔ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت سے تھوڑا پہلے اس دنیا سے گیا۔ پیغمبر اس کو برداشت کرتے تھے۔ یہ ایسے دشمن تھے جن کی طرف سے اسلامی نظام، اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کو کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں تھا۔ لیکن جن دشمنوں کی جانب سے خطرہ تھا پیغمبر ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔ اسی مہربان، رحمدل، چشم پوشی اور عفو و درگذر سے کام لینے والی ہستی نے حکم دیا اور بنی قریظہ کے خیانتکاروں کو جو کئی سو تھے، ایک دن میں قتل کر دیا گیا اور بنی نضیر اور بنی قینقاع کو باہر نکال دیا گیا اور خیبر کو فتح کیا گیا۔ اس لئے کہ یہ خطرناک دشمن تھے۔ مکے میں آنے کے بعد شروع میں پیغمبر نے ان کے ساتھ بہت زیادہ مہربانی سے کام لیا لیکن انہوں نے خیانت کی، پیٹھ میں خنجر گھونپا، سازش کی اور خطرہ پیدا کیا۔ پیغمبر نے عبداللہ بن ابی کو برداشت کیا، مدینے کے یہودیوں کو برداشت کیا۔ جو قریشی آپ کی پناہ میں آ گئے یا بے ضرر تھے انہیں برداشت کیا۔ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو چونکہ اب ان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لئے حتی ابوسفیان جیسوں اور بعض ديگر لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے؛ لیکن غدار، خطرناک اور نا قال اطمینان دشمنوں کو سختی کے ساتھ کچلا۔ ٹاپ
اخلاق اور انسان اسلام نواز انسان کی بنیادی پہچان انسان کی بد نصیبی کی جڑ اقوام اور تہذیبوں کے زوال کا بنیادی سبب معاشرے کے اصلی اقدار اسلامی معاشرے اور جاہلیت کے معاشرے کی سرحد زمین پر بہشت اخلاق اور دولت کا رشتہ اخلاق اور انتظامی سسٹم علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے علم سے اخلاق کی جدائی معالج کا اخلاق اخلاق سے سیاست کی جدائی کا خطرہ اخلاق اور فن اخلاق اور فن کی یگانگت اخلاقی مشکلات اخلاق سے عاری آزادی اخلاق سے دوری اخلاقی برائیاں خاندان میں اخلاقیات کا شیرازہ بکھرنے کے عواقب اخلاق اور انسان اخلاق اور انسان اسلام نواز انسان کی بنیادی پہچان اسلامی انسان وہ انسان نہیں ہے جو صرف اسلامی اعتقاد رکھے اور اسلامی عمل کرے، بلکہ اسلامی اخلاق بھی ایک بنیادی پہچان ہے ورنہ اگر انسان محکم اسلامی عقیدہ رکھتا ہو اور نماز، روزے کا پابند بھی ہو لیکن حاسد ہو، بخیل ہو، بزدل ہو، لوگوں کا برا چاہنے والا ہو، بے حوصلہ اور بے ارادہ ہو تو یہ انسان مسلمان انسان نہیں ہے۔ مسلمان انسان کو تربیت، علم اور عمل، تینوں پہلووں سے اسلام پر کاربند ہونا چاہئے۔ ٹاپ انسان کی بد نصیبی کی جڑ انسان کی بدنصیبیوں اور پریشانیوں کی جڑ تلاش کریں تو وہ انسانوں کی نفسانی برائیوں میں پیوست ملے گی۔ کمزوری اور پریشانی یا اختلافات کی وجہ سے ہوتی ہے یا دنیا پرستی اور حرص و طمع کی وجہ سے ہوتی ہے یا انسانوں کے ایک دوسرے سے بد دل ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے یا خوف، کمزوری کے اظہار اور موت کے ڈر کی وجہ سے ہوتی ہے یا نفسانی خواہشات، شہوت پرستی اور عیاشی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ انسانی معاشروں کی مصیبتوں کی اصل وجوہات ہیں۔ ٹاپ اقوام اور تہذیبوں کے زوال کا بنیادی سبب تہذیبوں کا زوال گمراہی کا نتیجہ ہے۔ تہذیبیں اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد کمزوریوں، خلاؤں اور گمراہیوں کی وجہ سے زوال پذیر ہوتی ہیں۔ ہم اس کی علامتیں آج مغربی تہذیب میں دیکھ رہے ہیں، تمدن اخلاق سے عاری، مادیت معنویت اور دین سے خالی اور طاقت عدل و انصاف سے بے بہرہ ہے۔ اقوام کا زوال یک بیک نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ اس تدریجی عمل کو آج امریکا اور یورپ میں مغربی مفکرین کی تیزبیں نگاہیں دیکھ رہی ہیں۔ ان معاشروں میں نوجوانوں کو، بے راہ روی، بے حیائی، زیادتی او جرم و جارحیت کی تربیت دی جا رہی ہے اور نوجوان نسل اخلاقی برائیوں میں غرق ہے۔ ایسی نوجوان نسل، ہر معاشرے میں چاہے اس کے پاس کتنا ہی علم و دانش اور دولت و ثروت کیوں نہ ہو، دیمک کی طرح معاشرے اور نظام کے ستونوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ٹاپ معاشرے کے اصلی اقدار معاشروں کا حقیقی تشخص ان کا اخلاقی تشخص ہے۔ یعنی درحقیقت کسی بھی معاشرے کی اصل بنیاد اس کی اخلاقی راہ و روش ہے اور بقیہ تمام چیزیں اسی پر استوار ہوتی ہیں۔ اگر معاشرے میں اخلاق ہوگا تو سماجی انصاف بھی فراہم ہوگا، معاشرے میں ترقی آئے گی اور معاشرہ لوگوں کے لئے، اسی دنیا میں بہشت بن جائے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بنی آدم پر جو مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں، اس کی جڑ برا اخلاق اور لوگوں کے اخلاق کی برائی ہوتی ہے۔ سماجی انصاف بہت حد تک اخلاق سے وابستہ ہے۔ البتہ اس کا بڑا حصہ معاشرے کے قوانین اور اصول و ضوابط سے تعلق رکھتا ہے لیکن قوانین اور اصول و ضوابط، اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک افراد معاشرہ خدائی اور اسلامی اخلاق کے مالک نہ ہوں۔ آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی بہت زیادہ ہے، کیا ساری آمدنی انہیں اپنے ہی اوپر خرچ کرنی چاہئے؟ یہ مادی اخلاق ہے، یہ شیطانی طرز عمل ہے۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ حیوانی طریقہ ہے۔ جانور کے پاس جو کچھ ہوتا ہے، سب صرف اس کا ہوتا ہے۔ انسانی اخلاق بالخصوص اعلی اسلامی اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس کی اپنی لازمی ضرورتیں پوری ہونے اوراس کی (جائز) خواہشات کی تکمیل کے بعد، ان لوگوں پر خرچ ہونا چاہئے جو اس معاشرے میں رہتے ہیں۔ ٹاپ اسلامی معاشرے اور جاہلیت کے معاشرے کی سرحد ایک معاشرہ ایسا ہے کہ جس میں رہنے والے انسانوں کے اخلاقیات صحیح ہیں۔ افراد معاشرہ عفو و درگذر کرنے والے، صاحب فکر، عاقل، نیکیاں اور احسان کرنے والے، ایک دوسرے کی مدد کرنے والے، مشکلات میں صبر کرنے والے، مصیبتوں میں تحمل سے کام لینے والے، خوش اخلاق، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے اور جہاں ایثار و فداکاری کی ضرورت ہو وہاں ایثار و فداکاری کرنے والے ہیں۔ اس کے بالعکس بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ (افراد معاشرہ) ایسے ہوں جن کے باہمی روابط رحمدلی، مروت، انصاف اور خوش اخلاقی کے بجائے، مفاد پرستی پر استوار ہوں، ایک دوسرے کو صرف اس وقت تک قبول اور برداشت کریں جب تک ان کے مفادات کے مطابق ہو اور اگر مفاد کے مطابق نہ ہو تو ایک دوسرے کو ختم کر دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ معاشرے کی ایک قسم یہ بھی ہے۔ یہ معاشرہ جاہلیت کا معاشرہ ہوگا۔ اس میں اور اس معاشرے میں جہاں اخلاقی اصولوں کی حکمرانی ہے، جس کو اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے، فرق ہے۔ بعثت حضرت رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اہم خصوصیت آپ کا اخلاقی خوبیوں کی دعوت دینا ہے۔ بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا ایک فرق اور سرحد اخلاق کا مسئلہ ہے۔ ٹاپ زمین پر بہشت اسلام چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے تئیں مہربان ہوں، ایک دوسرے کے حالات اور مستقبل سے پوری دلچسپی رکھیں، ایک دوسرے کے ہمدرد ہوں، ایک دوسرے کی بھلائی چاہیں، ایک دوسرے کی غلطیوں اور تکالیف سے متاثر ہوں، ایک دوسرے کے لئے دعا کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔ وتواصوا بالمرحمۃ یہ دوستی، محبت کا رشتہ، یہ بھائیوں میں محبت ومہربانی، خیر خواہی، خیر اندیشی، یہ سب بہت اچھی اور ممتاز صفات ہیں۔ اپنے اندر ان صفات کی تقویت کرنی چاہئے۔ انسان کے لئے سب سے بری صفت یہ ہے کہ انسان خود کو اپنے مادی مفادات کو بنیاد قرار دے اور اپنی ذات کی تسکین اور ذاتی خواہش کی تکمیل پر بے شمار انسانوں کو موت کے خطرے سے دوچار کرنے اور مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ جس معاشرے میں حسد، بخل، تنگدلی، جرم، لالچ، بد خواہی، سازش اور ایک دوسرے کی نسبت بددلی نہ ہو وہ معاشرہ درحقیقت روئے زمین پر ایک بہشت ہے؛ ع بہشت آنجاست کآزاری نباشد ( بہشت وہاں ہے جہاں کوئی آزار و رنج نہ ہو) تزکیہ ہو تو اسلامی معاشرے کی فضا، بہشت ہے۔ ٹاپ اخلاق اور دولت کا رشتہ کچھ لوگ سادہ لوحی سے کام لیتے ہوئے دنیا کے بعض دولتمند ملکوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس دولت ہے لیکن دین اور اخلاق نہیں ہے، ہمیں بھی اسی راستے پر چلنا چاہئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دولتمندی دین اور اخلاق سے عاری ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ غلط ہے۔ ہر صاحب دولت و ثروت ملک، کچھ خاص عوامل کی وجہ سے دولتمند ہوا ہے۔ جہاں بھی محنت، سعی و کوشش اور تدبیر سے کام لیا جائے گا، وہاں اس کا نتیجہ حاصل ہوگا۔ یہ قانون الہی ہے۔ حتی جو لوگ بغیر معنویت کے صرف مادیات کے لئے کوشش کرتے ہیں، اگر صحیح تدبیر اور طریقے سے کام لیتے ہوئے کوشش اور محنت و مشقت کریں تو اس کو حاصل کر لیں گے۔ کلا نمد ھؤلاء و ھؤ لاء من عطاء ربک یہ قرآن کا بیان ہے۔ صرف مادیات کے لئے محنت اور کوشش کی جائے تو دولت و طاقت حاصل ہوتی ہے، لیکن سعادت نصیب نہیں ہوتی۔ٹاپ اخلاق اور انتظامی سسٹم جہاں تک ہو سکے، اپنے مینجمنٹ کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنائيں۔ اسلامی انتظامی توانائی کے ساتھ انسانی اخلاق ۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (جب عزم کر لیں تو پھر خدا پر بھروسہ کرکے شروع کریں) خداوند عالم اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے کہ عوام کا خیال رکھئے جنگ احد کے بعد کی بات ہے، انہوں نے شکست کھائی ہے، دکھی ہیں۔ ان سے مشورہ کیجئے، ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئیے؛ لیکن فاذا عزمت فتوکل علی اللہ جب عزم کر لیا تو خدا پر توکل کریں اور آگے بڑھیں۔ انتظامی مہارت یہ ہے: خوش اخلاقی ہو لیکن اسی کے ساتھ، استحکام، انتظامی اقتدار اور ہر حال میں خدا پر توکل، پرودگار عالم سے نیکی طلب کرنا اور اس پر اعتماد اور توکل کرنا۔ ٹاپ علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے طالب علم کے لئے ایک فطری پارسائی ضروری ہے۔ طالب علم جتنا پارسائی سے نزدیک ہوگا، علم سے اتنا ہی مانوس اور ہم آہنگ ہوگا اور علم کو اتنا ہی زیادہ پسند کرے گا، اتنا ہی زیادہ علم حاصل کرے گا، اتنی زیادہ علم کی قدر کرے گا اور علم کو اتنی ہی زیادہ اہمیت دے گا۔ علم کو اخلاق کے ساتھ اور صنعتی، سائنسی اور مادی ترقی کو اخلاقی رشد کے ساتھ ہونا چاہئے۔ خدا پر توجہ اخلاقی رشد کا بنیادی عامل شمار ہوتی ہے۔ فرض کریں کوئی معاشرہ ایسا ہے جس میں معنویت اور اخلاق ہے لیکن علم نہیں ہے تو یہی بے علمی اس کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی۔ اس لئے کہ دشمن آئے گا اور اپنے علم کے ماحصل کو، جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہوگی، حتی معنویات کی قیمت پر اس معاشرے پر مسلط کرے گا اور اس کے ہاتھ فروخت کرے گا۔ یہ معاشرہ ایک دن، دو دن، کچھ عرصے تک صبر کرے گا، علم کے ماحصل کو اپنے ملک میں نہیں لائے گا لیکن سرانجام اسے درآمد کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ یہ حالت اس وقت وجود میں آئے گی جب بنیاد تباہ و برباد ہو چکی ہو۔ اگر ملک میں، معاشرے میں اچھی یونیورسٹی ہو، لیکن معنویت اور اچھا اخلاق نہ ہو تو حالت کیا ہوگی؟ اس کی حالت اس سے بھی بدتر ہوگی۔ اس لئے کہ اس صورت میں ملک میں علم ترقی کرے گا لیکن انسانی اقدار و اہداف کے برعکس سمت میں جائے گا۔ یہ علم ظلم، استعمار، امتیاز، بے عفتی، حتی قومی اصول و اقدار سے خیانت کا وسیلہ بن جائے گا۔ ٹاپ علم سے اخلاق کی جدائی آج مغربی دنیا اور مغربی تمدن علم و دانش کی غیر معمولی پیشرفت کے باوجود جو بشریت کو نجات دلانے پر قادر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج بشریت کے لئے سازگار نہیں ہے۔ جہاں بھی علم ہو لیکن ضمیر، معنویت اور انسانی احساسات و جذبات نہ ہوں، وہاں علم و دانش سے بشریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ علم، معنویت اور اخلاق کے بغیر ایٹم بم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور بے گناہوں پر گرتا ہے، اسلحہ بن جاتا ہے اور لبنان، فلسطین اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بے گناہوں کو ہدف بناتا ہے، مہلک کیمیائی مادہ بن جاتا ہے اور حلبچہ نیز دنیا کے دیگر علاقوں میں عورتوں، مردوں، بچوں اور بوڑھوں کا بہیمانہ انداز سے قتل عام کرتا ہے۔ یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ یہ مہلک مواد، علم و دانش کے انہی مراکز سے اور انہی یورپی ملکوں سے آئے۔ انہی ملکوں نے یہ مواد تیار کیا اور اس حکومت کو دیا جس کو انتہائی بنیادی اصولوں کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں تھا۔ اسلحے اور انواع و اقسام کی سائنسی مصنوعات آج نوع انسان کو سعادت و خوش نصیبی عطا نہیں کر سکیں اور نہ ہی کر سکتی ہیں۔ یہ سائنسی مصنوعات افراد بشر، عورتوں، مردوں اور بچوں کو زندگی کی لذتوں سے آشنا نہیں کر سکتیں، اس لئے کہ ان کے ہمراہ اخلاق و معنویت نہیں ہے۔ ٹاپ معالج کا اخلاق ایک ڈاکٹر اور طبیب کو دو زاویوں سے اخلاق کے مسئلے کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ ایک لینے کے زاویئے سے اور دوسرے واپس دینے کے زاویئے سے۔ جس مرحلے میں وہ علم حاصل کرتا ہے، وہاں بھی اسلامی اخلاقیات ہیں۔ یعنی تعلیم و تربیت میں اسلامی اخلاق؛ طریقۂ تعلیم، تعلیم کا موضوع، کس سے تعلیم لی جائے، کس لئے تعلیم حاصل کی جائے، یہ سب تعلیم کے مختلف مراحل ہیں۔ رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ (یہ اصول) تعلیم میں بھی (نافذ) ہے۔ یعنی اچھی تعلیم حاصل کرنا، ہمیشہ بہترین چیزیں حاصل کرنا اور بہترین چیزیں رکھنا، اخلاقیات کا جز ہے۔ اس کے بعد جو سیکھا ہے اس کو کام میں لانے کا مرحلہ ہے۔ یہ بیماروں اور یونیورسٹی میں طلبا سے دوچار ہونے کا مرحلہ ہے۔ یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ یہاں بھی اخلاقیات کا عمل دخل ہے۔ بقراط کی وصیت میں بہت ہی اہم نکات پائے جاتے ہیں جن کا تعلق بیماروں کے ساتھ ہی سلوک اور اس بات سے ہے کہ بیماری کیسے دور کی جائے اور یہ اس میدان میں اخلاق کے دو پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ ٹاپ اخلاق سے سیاست کی جدائی کا خطرہ دنیا میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سماج میں وہ لوگ ابھر کے سامنے آتے ہیں جو خاص انفرادی اخلاق کے مالک ہوں۔ تکبر کرنا، آرام و آسائش کی زندگی گزارنا، فضول خرچی، فیشن پرستی، خود پسندی و خود سری وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں لوگوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ جو لوگ حکومت میں ہوں ان کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں۔ حتی انقلابی ملکوں میں، وہ انقلابی حضرات، جو کل تک خیموں میں زندگی گزارتے تھے، ویرانوں اور قبرستانوں میں روپوش رہتے تھے، حکومت ملتے ہی ان کی زندگی کی حالت بدل جاتی ہے، ان کی حکومت کا طریقہ بدل جاتا ہے اور وہ بھی وہی طریقہ اپنا لیتے ہیں جو دنیا کے دیگر حکام اور سلاطین کا ہوتا ہے۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس غلط فکرکو بدل دیا اور دکھا دیا کہ قوم اور مسلمین عالم کا مقبول ترین رہبر کیسی زاہدانہ زندگی گزارتا ہے، ملاقات کے لئے آنے والوں سے محلوں کے بجائے حسینیہ میں ملتا ہے اور لباس اور زبان کی سادگی کے ساتھ ہی عوام کے سلسلے میں انبیاء کے طرز عمل کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ سیاست کو دو خطرات لاحق ہوتے ہیں: ایک یہ ہے کہ سیاست اخلاق سے دور اور معنویت و فضیلت سے عاری ہو سکتی ہے۔ یعنی شیاطین، سیاست پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں اور سیاست معاشروں کے تسلط پسندوں اور دولت پرستوں کے مفاد کے تحفظ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر سیاست اس مصیبت میں مبتلا ہو گئی تو انسانی معشروں کے تمام شعبے عیوب اور مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے اور پھر کوتاہ نظر، بچکانہ خصلت کے مالک اور ضعیف النفس افراد سیاست کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور سیاست کی قیادت قوی اور باصلاحیت ہاتھوں سے نکل کے نالائق لوگوں کے پاس چلی جائے گی۔ ٹاپ اخلاق اور فن اخلاق اور فن کی یگانگت جو انسان قابل احترام اور باشرف ہو اس کا دل، ذہن اور فکر بھی باشرف اور قابل احترام ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سامنے والے کو صرف اس بنا پر کہ وہ بیٹھا فنکار کی باتیں سن رہا ہے، سب کچھ دے دیا جائے بلکہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ فنکار اس کو کیا دینا چاہتا ہے۔ بات اخلاق اور فضیلت کی ہو رہی ہے۔ میں نے، میرا خیال ہے کہ، رومین رولینڈ (معروف فرانسیسی مصنف، جس کا اصل نام ایل سن جسٹ تھا26 /1/1866 - 30 /12/1944) کے حوالے سے پڑھا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ کسی بھی فنی کام میں ایک فیصد فنکاری، ننانوے فیصد اخلاق ہونا چاہئے۔ یا احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس طرح کہیں کہ: دس فیصد فنکاری اور نوے فیصد اخلاق ہونا چاہئے۔ مجھے ایسا لگتا کہ یہ بات عین حقیقت نہیں ہے۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ سو فیصدی فنکاری اور سو فیصدی اخلاق ہونا چاہئے۔ ان میں آپس میں کوئی منافات نہیں ہے۔ کام کو سو فیصدی فنکارانہ خلاقیت کے ساتھ انجام دینا چاہئے جس میں سو فیصدی اعلی اور بافضیلت باتیں پیش کی جائیں۔ آرٹ اور فن کے شعبے میں بعض ہمدرد لوگوں کے لئے جو چیز باعث تشویش ہے، یہ ہے کہ فنکار تخیل اور آرٹ کی آزادی کے نام پر فضیلتوں کو فنا اور اخلاقیات کی بے حرمتی نہ کر دے، یہ بہت اہم ہے۔ ٹاپ اخلاقی مشکلات اخلاق سے عاری آزادی مغربی ڈیموکریسی کا فلسفہ اور بنیاد لبرلزم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان آزاد ہے اوراس آزادی کا تقاضا ہے کہ آمریت نہ رہے، جمہوریت رہے۔ اب یہ آزادی جو لبرلزم سے ماخوذ ہے، آزادی مطلق ہے۔ یعنی اگر عوام فیصلہ کر لیں کہ اس چیز کو قبول کریں جو سو فیصد ان کے نقصان میں ہے ( تو وہ یہ کام کر سکتے ہیں) فرض کریں کہ برطانیہ کے عوام، جس طرح انہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں ہم جنس بازی کو قانونی حیثیت دے دی ہے، اسی طرح، یہ فیصلہ کریں کہ ہیروئن کا استعمال اور محارم (ماں، باپ ، بھائی بہن اور بیٹی بیٹے وغیرہ) سے شادی کی بھی اجازت ہونا چاہئے تو؟ اب ان کے پاس اس کو قبول نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ ہم جنس بازی اور محارم کی شادی دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ آج اگر امریکی کانگرس یا برطانوی پارلیمنٹ محارم کی شادی کو منظوری دینے کا فیصلہ کریں تو اب مردانہ غیرت وغیرہ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یعنی اس آزادی کی حدود پر کوئی منطق حکمفرما نہیں ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ اس حد کے بعد آزادی، اخلاق کے خلاف ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ کون سا اخلاق؟ کوئی اخلاق بچا ہی نہیں ہے۔ سب آزاد ہیں۔ اس لئے کہ لبرلزم کا مطلب آزادی ہے اور اس آزادی کی کوئی حدبندی نہیں کی جا سکتی الا یہ کہ آزادی، آزادی کے خلاف اور سماجی آزادی کی بنیاد کے خلاف ہو۔ ان کی ریڈ لائن صرف یہ ہے۔ مغربی ڈیموکریسی لبرلزم کے فلسفے اور منطق سے، درحقیقت اپنے کھوکھلے پن کو ثابت کرتی ہے۔ اس صورت میں معاشرے کی تمام اخلاقی قدریں ختم ہو جائيں گی۔ وہ اس کا اعتراف کرنے پر تیار نہیں ہیں لیکن اس کا یقینی نتیجہ یہی ہے۔ ٹاپ اخلاق سے دوری مغرب والوں نے اخلاق کی بنیادیں بھی خود ہی ختم کی ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے سے ہی انہوں نے اخلاقیات کی بنیادوں کو گرانا شروع کر دیا۔ یعنی انفرادی آزادی اور اس میں لامحدود توسیع کہ ہر شخص جو چاہے انجام دے، جتنی لذت (جس طرح سے بھی) حاصل کرنا چاہے حاصل کرے، اس بات نے معاشرے کو ثقافتی لحاظ سے اندر سے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ثقافت اور شخصیت کے لحاظ سے سخت بحران کا شکار ہے۔ امریکی معاشرہ، زیادہ دولت، زندگی کے وسائل کی فراوانی اور سائنسی ترقی کے باوجود معنوی فقر اور وحشتناک اخلاقی تہی دستی کا شکار ہے کہ ایسے جرائم اور المیے وہاں تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ یہ معنویت اور دینداری سے دوری کا نتیجہ ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ماں وقتی لذت اور حقیر خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے بچوں کو قتل کر دے؟ اگر انفرادی لذت کا حصول اس بات کا باعث ہو سکتا ہے کہ انسان آزادی کے ساتھ اس کام کو انجام دے تو پھر منشیات کے استعمال پر اتنی پابندی اور دباؤ کیوں ہے؟ کوئی شخص ایسا ہے جس کا جی چاہتا ہے کہ منشیات استعمال کرے، اس کی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ کیوں بنتے ہو؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے میں اخلاقی بنیادیں گر جائیں تو اس کو کوئی بھی چیز نہیں بچا سکتی۔ آج ان کی یہی حالت ہے۔ ٹاپ اخلاقی برائیاں یہ جو بعض لوگ دنیوی زندگی کے لالچ میں پڑ کر روح کے لئے تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں اور اخلاقی برائیوں، ناپسندیدہ صفات، حرص و طمع اور بخل کے شکار ہو جاتے ہیں، یہ کائنات کے بارے میں خدائی، معنوی اور توحیدی نظرئے سے جو لوگوں کو اتحاد و یک جہتی اور پرامن بقائے باہمی کی دعوت دیتا ہے، دوری کا نتیجہ ہے۔ ایک ساتھ رہنا اور اتحاد انسان کے اندر انفرادی طور پر بھی پسندیدہ اور شیریں ہے اور معاشرے اور دنیا کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ اقوام، حکام، بڑوں اور چھوٹوں کی یہی برائیاں ہیں جو ان کے دل کے اندر خود پسندی، خود پرستی اور فرعونیت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ بعض اوقات انسان اپنے جسمانی قالب سے باہر، یعنی اپنے ظاہر میں فرعونیت کی کوئی علامت نہیں رکھتا لیکن باطن میں، دل کے اندر، فرعون ہوتا ہے۔ خود پسندی، خود پرستی، اپنے آپ کو محور قرار دینا، اپنی ذات کو بڑا بناکر پیش کرنا، اپنی خواہشات، اپنے میلانات، اپنی شہوات اور اپنے مفادات کو بہت اہم سمجھنا، یہ باتیں، زندگی کی اکثر برائیوں کی جڑ ہیں؛ لہذا تزکیہ نفس، نفس کی پاکیزگی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ ٹاپ خاندان میں اخلاقیات کا شیرازہ بکھرنے کے عواقب جہاں بھی شہوت پرستی، اخلاقی برائیوں اور بے راہ روی کا راستہ کھلا، وہاں خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جس کا آج مغربی ملکوں میں مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں بے راہ روی زیادہ ہے، وہاں یہ چیز زیادہ واضح ہے۔ ان جگہوں پر خاندان کا تصور اپنی حقیقت کھو چکا ہے۔ اگر کبھی میاں بیوی کچھ دیر کہیں بیٹھنا چاہیں تو مثال کے طور پر ایک وقت معین کریں جب سب گھر والے جمع ہوں اور کچھ دیر افراد خاندان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی لیں، یعنی پرخلوص اور محبت آمیز گھر کی فضا کا کوئی وجود نہیں رہا۔ لہذا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کریں۔ ٹاپ
اخلاق اور اسلام اخلاق بندگی اسلامی اخلاق کی بنیاد خدائی اور اسلامی حیات طیبہ اخلاق کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ انسان کے اخلاق پر نماز کے اثرات اخلاق اور ایران کا اسلامی انقلاب انسانی معاشروں میں انقلاب کا محرک اسلامی انقلاب کا اصلی ہدف امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت اخلاق اور مغربی دنیا اخلاقیات سے آزادی مغربی لبرلزم میں اخلاق یورپ میں جنگ پسندی اخلاق اور اسلام اخلاق اور اسلام اخلاق بندگی انسان اگر چاہتا ہے کہ خدا کی رحمتیں اس پر نازل ہوں تو اس کو اخلاق اسلامی اور احکام الہی کی پابندی کرنی چاہئے۔ بنی نوع انسان کی ایک ایک فرد کے خدا سے رابطے کا انحصار اس میں ہے کہ اپنے عمل، اپنے کردار اپنے قلب اور اخلاق کو خدا کی پسند اور رضائے الہی کے مطابق بنائے۔ خود پسندی، دروغگوئی، تہمت اور فریب دہی سے دور رہے اور اپنی زندگی پر نفس اور نفسانی خواہشات کی حکمرانی قائم نہ ہونے دے۔ خدا پر توجہ، خدا کا ذکر، خدا کی یاد، خدا سے حقیقی توسل، نفس کے خلاف مجاہدت اور حقیقی عبادت کی اپنے انفرادی اور ذاتی عمل میں روز بروز تقویت کرے۔ ٹاپ اسلامی اخلاق کی بنیاد اسلام دنیا اور انسان کے بارے میں بہت ہی عمیق اور خردمندانہ نقطۂ نگاہ، خالص توحید، حکمت آمیز اخلاقی اور معنوی دستورالعمل، محکم اور ہمہ گیر سماجی و سیاسی نظام اور اصول و ضوابط انفرادی اور عبادی فرائض اور اعمال کی تعلیم دیکر، تمام افراد بشر کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے باطن کو بھی برائیوں، پستیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور باطن میں نور ایمان، خلوص، آزادی، اخلاص، محبت، امید اور نشاط و شادابی کو بڑھائیں اور اپنی دنیا کو غربت، جہالت، ظلم، امتیاز، پسماندگی، جمود، زور زبردستی، تسلط، تحقیر اور فریب سے نجات دلائیں۔ ٹاپ خدائی اور اسلامی حیات طیبہ خدا اور پیغمبر انسانوں کو پاکیزہ اور طاہر زندگی کی دعوت دیتے ہیں۔ پاکیزہ زندگی صرف کھانا، پینا اور لذت اٹھانا نہیں ہے؛ اس کے لئے خدا اور رسول کی دعوت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہر انسان کا نفس اس کو دوسرے جانداروں جیسی زندگی کے گر سکھانے کے لئے کافی ہے۔ تمام حیوانات اپنی غذا حاصل کرنے اور شہوانی خواہشات کی تسکین کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرنے اور تھوڑی دیر زیادہ زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ حیات طیبہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ زندگی خدا کی راہ میں اعلی اہداف کے حصول میں بسر ہو۔ انسان کا اعلی ہدف یہ نہیں ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو پیٹ بھر لے۔ یہ کمترین چیز ہے جس کو ایک حیوان اپنا ہدف قرار دے سکتا ہے۔ انسان کے لئے اعلی ہدف حق تک پہنچنے، تقرب خدا کے حصول اور اخلاق الہی اپنانے سے عبارت ہے۔ اخلاق الہی اپنانا، کسی دوسرے کام کی تمہید نہیں ہے جبکہ دوسرے کام خدائی اخلاق اپنانے اور انسانوں کے نورانی ہونے کا مقدمہ ہیں۔ عدل انسانوں کے اخلاق الہی کے مالک اور نورانی ہونے کا مقدمہ ہے۔ اسلامی حکومت اور پیغمبروں کی حاکمیت بھی اسی لئے ہے۔ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ٹاپ اخلاق کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ اسلام میں لوگوں کے عقیدہ اور اخلاق کی نسبت لاتعلقی اور غفلت نہیں پائی جاتی۔ اسلام عدل و انصاف کی ترویج کو لوگوں کے عقائد اور اخلاق سے بھی مربوط قرار دیتا ہے۔ یعنی اگر جس شخص کی گمراہی کی روک تھام کی جاسکتی ہے، اس کی اس سلسلے میں مدد نہ کی جائے تو یہ اس کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔ اگر کسی کی اخلاقی مسائل میں ہدایت اور تربیت کی جا سکتی ہے اور انسان یہ کام نہ کرے تو اس کے ساتھ بے انصافی اور ظلم کیا ہے۔ اس آیہ شریفہ کے ذیل میں کہ من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض کانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا پیغمبر اکرم فرماتے ہیں؛ جو کسی انسان کو ہلاکت اور آگ سے نجات دلائے، اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں کہ یا انسان کی ہدایت کرے، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ذلک تاویلھا الاعظم ؛ اس آیت کی سب سے برتر اور بہترتفسیر اور معنی یہی ہے کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرے یعنی اس کی گمراہی کے اسباب فراہم کرے، یا کسی کو زندہ کرے یعنی اس کی ہدایت کے اسباب فراہم کرے؛ تو کانما احیا الناس جمیعا ایک انسان کی ہدایت پوری بشریت کی ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اس انسان اور تمام بشریت میں جوہر انسانی ایک ہے۔ جب آپ نے جوہر انسانی کی مدد اور ہدایت کی، چاہے عقیدے میں اور چاہے اخلاق میں، تو آپ نے گوہر انسانی کی مدد اور نصرت کی ہے۔ بنابریں اس کی اہمیت بھی وہی ہوگی ( یعنی پوری بشریت کی مدد کے برابر ہوگی) اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسانوں کی نجات میں مدد اور ہدایت ہر ایک کا فریضہ ہے۔ اسی طرح اس آیہ شریفہ کے ذیل میں کہ فلینظرالانسان الی طعامہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ یہ معنوی طعام ہے، یہ دینی غذا ہے، اخلاق ہے۔ طعام پر نظر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھو کیا استعمال کر رہے ہو یا دوسرے تمہارے توسط سے کیا استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے معنوی غذا کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔ ٹاپ انسان کے اخلاق پر نماز کے اثرات نماز وہ بہترین وسیلہ ہے جو مسلم معاشرے کے تمام افراد کو اخلاقی پاکیزگی اور روحانی نیز معنوی بلندی تک پہنچا سکتی ہے۔ نماز نمازی کے دل اور روح کو اطمینان اور سکون جو زندگی کے تمام میدانوں میں کامیابی کی بنیادی شرط ہے عطا کرتی ہے اور تزلزل اور اضطراب کو جو اخلاق کی تقویت کے لئے مجاہدت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے دور کرتی ہے ۔ ٹاپ اخلاق اور ایران کا اسلامی انقلاب انسانی معاشروں میں انقلاب کا محرک کسی ملک میں انقلاب اس لئے آتا ہے کہ ملک کا سماجی نظام اور لوگوں کے حالات بدل دے، حکومت کو دگرگوں کر دے اور اقتصادی و سماجی روابط میں تبدیلی لائے، یہ انقلاب کا ہدف ہوتا ہے۔ لیکن سماجی حالات دگرگوں ہونے اور تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ کہ لوگوں کا کردار بدل جائے۔ اس لئے کہ ظالم، بدعنوان اور طاغوتی نظام میں انسانوں کو برا بنا دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں انسان مادہ پرست اور معنویت و حقیقت سے عاری ہو جاتا ہے۔ انسان وفا، صداقت اور اخلاص سے عاری ہو جاتے ہیں۔ انسان رحم، مروت، دوستی، تعاون اور ہمراہی کے جذبے سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک غلط اور فاسد سماجی زندگی کے آثار ہیں۔ انقلاب معاشرے کو بدلنے کے لئے آتا ہے اور معاشرے کو بدلنے کا مقصد انسانوں کے اخلاق کو بدلنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اچھے انسان تیار ہوں۔ سماجی انصاف ایک اصول ہے، ایک اعلی اور حقیقی ہدف ہے۔ لیکن سماجی انصاف معاشرے میں اس وقت قائم ہوتا ہے جب اس معاشرے میں پلنے والے افراد ظلم نہ کریں اور ظلم برداشت نہ کریں۔ ٹاپ اسلامی انقلاب کا اصلی ہدف نفسوں کی پاکیزگی حکومت الہی، حکومت حق اور سیاست الہی کے سائے میں ہی ممکن ہے۔ خدا نے دین کو سیاست سے عاری نہیں رکھا ہے۔ وہ بنیادی مسئلہ جو ایران کے اسلامی انقلاب میں اعلی ہدف سمجھا جاتا تھا اور اب بھی شمار ہوتا ہے، وہ انسانوں کی پاکیزگی ہے۔ ہر چیز انسان کی طہارت اور پاکیزگی کے لئے ہے۔ معاشرے میں عدل و انسانی معاشروں میں اسلامی حکومت، اگرچہ ایک بڑا مقصد ہے لیکن یہ بھی انسان کے رشد اور بلندی کا مقدمہ ہے جو انسان کے تزکیہ اور پاکیزگی میں پنہاں ہے۔ اس دنیا کی زندگی بھی سعادت و کامیابی کے لئے، تزکئے کی محتاج ہے اور معنوی و اخروی درجات کا حصول بھی تزکئے پر منحصر ہے۔ انسان کی کامیابی یعنی اعلی مقصد کا حصول تزکئے پر منحصر ہے۔ ٹاپ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت آپ کے نفس کی پاکیزگی اور خدا سے آپ کے رابطے سے تعلق رکھتی ہے۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) پاکیزہ انسان تھے۔ آپ کے اندرونی اور بیرونی دشمن بھی آپ کی اس خصوصیت کو قبول کرتے تھے اور اعتراف کرتے تھے کہ آپ مومن انسان تھے۔ وہ امریکی جو چوالیس دن تک ایران میں قید تھا اور فطری طور پر ان تمام باتوں کا ذمہ دار امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کو سمجھتا تھا، انٹرویو میں کہتا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت سے خوش ہیں۔ ان کے اپنے مخصوص اخلاقی اقدار و اصول تھے اور کوئی بھی ان کی سطح کا نہیں تھا۔ ٹاپ اخلاق اور مغربی دنیا اخلاقیات سے آزادی مغرب میں جن چیزوں کا نعرہ بہت لگایا جاتا ہے، ان میں سر فہرست آزادی نسواں ہے۔ آزادی کے معنی وسیع ہیں؛ اس کا مطلب قید سے آزادی بھی ہے اور اخلاقی اصولوں سے آزادی بھی ہے۔ اس لئے کہ اخلاقی اصول بھی ایک طرح سے قید و بند ہیں۔ اس مالک کے نفوذ سے آزادی بھی ہے جو عورت سے کم مزدوری پر کام لیکر اس کا استحصال کرتا ہے اور ان قوانین سے آزادی بھی مراد ہو سکتی ہے جو عورت کو شوہر کے تئیں وفاداری کا پابند بناتے ہیں، آزادی ان معنوں میں ہو سکتی ہے۔ ٹاپ مغربی لبرلزم میں اخلاق مغربی لبرلزم میں چونکہ حقیقت اور اخلاقی اقدار کا انحصار ماننے پر ہے لہذا آزادی لامحدود ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ آپ اگر بعض اخلاقی اصولوں پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ جو ان اقدار کی خلاف ورزی کرے ، اس کی ملامت کریں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ان پر یقین نہ رکھتا ہے۔بنابریں آزادی کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؛ یعنی معنوی اور اخلاقی لحاظ سے اس کی کوئی حد نہیں ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ آزادی لامحدود ہے ۔ کیوں؟ اس لئے کہ کوئی حقیقت مستقل نہیں ہے ، کیونکہ ان کی نظر میں حقیقت اور اخلاقی اقدار کا تعلق ماننے سے ہے۔ مادہ پرست مغرب، عقائد اور اخلاقی اصولوں کے تعلق سے ایک موقف اختیار کرتا ہے اور طاقت و دولت کے بارے میں جن سے اس کے نمایاں مادی مفادات جڑے ہوتے ہیں، اس کا موقف کچھ اور ہوتا ہے۔جہاں مغرب کو احساس ہوتا ہے کہ دولت و طاقت حاصل کرنے کی جگہ ہے یا اس کا کوئی مخالف موجود ہے ، وہاں تعصب اور تشدد کے ساتھ میدان میں آتا ہے اور ذرہ برابر نرمی اور عفوودرگذر سے کام نہیں لیتا۔ لیکن عقیدے اور اخلاقی اصولوں کے بارے میں ، کم سے کم زبان سے کہنے ، دعوی کرنے اور تحریر کی حد تک ، نرمی، چشم پوشی اور لچک کا مظاہرہ کرتا ہے۔یعنی اس کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جس کا جو بھی عقیدہ ہو رکھے، جس کا جیسا بھی اخلاق و کردار ہو، ہوا کرے۔ البتہ بعض اوقات مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ثقافتی مسائل میں سخت تعصب سے کام لیتے ہیں؛ یعنی جہاں، ان کے اقتصادی یا سیاسی مفادات ، توسیع پسندی اور اقتدار پرستی کا تعلق ہوتا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ثقافتی میدان میں بھی لچـک کے بغیر، تعصب اور تشدد کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔لیکن ان کا طریقۂ کار اور روش یہ ہے کہ عقائد اور ثقافتی مسائل میں حساسیت سے کام نہ لیں اور کوئی موقف اختیار نہ کریں۔ یہ وہی لادینیت ہے۔عقیدے اور اخلاقی امور میں کوئی موقف نہ رکھنا اور غیر جانبدار رہنا۔یہاں اخلاقی اقدار آزادی میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ جیسے امریکا میں ہم جنس پرستی کی تحریک، رائج تحریکوں میں سے ایک ہے ۔ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہیں۔ جریدوں میں ان کی تصاویر شائع کرتے ہیں۔ فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ فلاں تاجر اور فلاں سیاستداں اس گروہ میں شامل ہے۔کسی کو بھی شرم نہیں آتی اور وہ اس سے انکار نہیں کرتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جو لوگ اس تحریک کی مخالفت کرتے ہیں ان پر بعض اخبارات و جرائد شدید ترین حملے کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہم جنس پرستی کی تحریک کے مخالف ہیں۔ یعنی اخلاقی اقدار آزادی کی حدود معین نہیں کرتی ہیں۔ ٹاپ یورپ میں جنگ پسندی یورپ والوں کے کردار میں ہر چیز پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا عجیب و غریب جذبہ بالکل نمایاں ہے۔ اسی بناء پر گزشتہ چند صدیوں کے دوران سخت ترین اور وحشیانہ ترین جنگیں یورپ والوں نے کی ہیں۔ یورپی ملکوں مثلا جرمنی اور فرانس میں سخت ترین اور وحشیانہ ترین جنگیں ہوئی ہیں۔ البتہ جب تک کسی غیر یورپی کا سامنا نہیں ہوا یہ آپس میں لڑتے رہے ہیں؛ لیکن غیر یورپی حریف کے سامنے آتے ہی آپسی جنگ ختم کرکے مل جاتے ہیں۔ یعنی جنگ کے دائرے ان کے اپنے اندر محدود ہیں۔ اب تک دنیا میں دو عالمی جنگیں ہوئی ہیں جو یورپ والوں نے لڑی ہیں۔ جغرافیائی تقسیم اور سرحدوں میں سب سے زیادہ تبدیلی بھی دونوں عالمی جنگوں کے بعد، خود یورپ میں بھی اور یورپ سے باہر مشرق وسطی، بلقان، افریقا اور عرب علاقوں میں بھی، یورپ والوں نے کی ہے۔ یہ پست اخلاقیات ہیں۔ ٹاپ
عظیم مجاہدت خود سازی کے معنی خود سازی کی ضرورت نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت نوجوانی میں خود سازی اخلاقی تربیت اور اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا خود سازی کی روش خود سازی کی کوئی انتہا نہیں ہے تزکیہ تزکیہ سے مراد کیا ہے؟ تزکیہ کی مشق اخلاق کی اصلاح تعلیم پر تزکیہ کا تقدم آسان اور مشکل اخلاقی سلامتی اخلاق اور خود سازی عظیم مجاہدت پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک سخت جنگ سے واپسی پر فرمایا کہ یہ جہاد اصغر تھا اور اس کے بعد جہاد اکبر کی باری ہے جہاد اکبر یعنی نفس سے جہاد۔ جہاد بالنفس کو انسان کی ذاتی حدود تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے۔ شہوت، نفسانی خواہشات، لذت کوشی، آرام طلبی، زیادہ کی خواہش اور بری عادتوں کے خلاف مجاہدت اہم اور جہاد بالنفس ہے۔ یعنی انسان کو اپنے باطن میں موجود شیطان کے خلاف مستقل مجاہدت اور اس کو مغلوب کرنا چاہئے تاکہ وہ انسان کو برے کاموں پر مجبور نہ کر سکے۔ٹاپ خود سازی کے معنی خود سازی کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی عیب ہے، ہمیں اس کو برطرف کرنا چاہئے۔ نہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسا عیب نہیں ہوتا جس کو محسوس کیا جائے۔ خودسازی کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ان عناصر کی طرف سے ہوشیار رہیں جو عیب پیدا کر دیتے ہیں۔ ہمارے وجود میں انواع و اقسام کے جراثیم داخل ہوتے ہیں اور ہمارے اندر برائیاں اور خرابیاں پیدا کردیتے ہیں۔ ٹاپ خود سازی کی ضرورت خودسازی تمہید اور بنیادی شرط ہے دوسروں کی اصلاح، دنیا کی تعمیر، تبدیلی لانے اور سخت راستے طے کرنے کے لئے۔ انسان کے وجود میں تمام برائیوں کا سرچشمہ بھی موجود ہے، جو اس کا نفس ہے، نفس کا بت اور اس کی خودپسندی تمام بتوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی طرح انسانی وجود میں تمام اچھائیوں اور کمالات کا سرچشمہ بھی موجود ہے۔ اگر انسان کوشش کرے اور خود کو نفس امارہ اور نفسانی خواہشات کے چنگل سے نجات دلا سکے تواچھائیوں کا سرچشمہ اس کے لئے کھل جائے گا۔ ٹاپ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت نوجوانوں، بچوں اور نونہالوں کی اخلاقی تربیت، واقعی تمام ملکوں اور تمام معاشروں کے لئے بے حد اہم ہے۔ جو معاشرہ اسلامی ہو اور اسلامی احکام و نظریات کی بنیاد پر قائم رہنا چاہتا ہو، لازمی طور پر اس کے سامنے دیگر معاشروں سے بلندتر مجاہدت ہوگی۔ ہر معاشرہ جدوجہد کرتا ہے، کوئی بھی معاشرہ بغیر مجاہدت کے اصلاح کا راستہ نہیں پا سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں اصلاح بغیر جدوجہد کے، بغیر سعی و کوشش کے اور بغیر مخالف قوتوں کے مقابلے میں مجاہدت کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ ہر جگہ ایسے عوامل ہیں جو مختلف ثقافتوں کے مطابق بچوں کو چوری، برائی، کاہلی اور بے راہروی سکھاتے ہیں اور بچے ان سے یہ چیزیں سیکھتے ہیں۔ ٹاپ نوجوانی میں خود سازی اگر مجھ سے کہیں کہ ایک جملے میں بتاؤ کہ نوجوانوں سے کیا چاہتے ہو؟ تو میں کہوں گا کہ تعلیم، پاکیزگی اور کھیل کود۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں میں یہ تین خصوصیات ہونی چاہئیں۔ انسان نوجوانی میں آسانی سے گناہوں سے اجتناب کر سکتا ہے۔ آسانی سے خود کو خدا سے نزدیک کر سکتا ہے۔ نوجوانی کے بعد بھی یہ تمام کام ممکن ہیں لیکن بہت مشکل ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نوجوانی گناہ کرنے کا زمانہ ہے اور بڑھاپا توبہ کرنے کا۔ یہ غلط ہے۔ توبہ کرنے کا زمانہ بھی نوجوانی کا زمانہ ہی ہے۔ دعا کا زمانہ بھی نوجوانی کا زمانہ ہی ہے۔ ہر اہم کام کا زمانہ، نوجوانی کا زمانہ ہے۔ ٹاپ اخلاقی تربیت اور اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اخلاق کے مسئلے اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ ان کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔ حالانکہ یہ مستقبل کی نسل کے تئیں غفلت اور تساہلی ہے۔ اخلاقی تربیت، اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا نہیں ہے۔ اخلاقی تعلیمات کو مسلط کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اسلام نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا ہے اور یہ نہیں چاہا ہے۔ دباؤ اور زور زبردستی سے کام لیکر اخلاقی تعلیمات مسلط کرنے سے لوگ ریاکار، مکار اور منافق ہو جاتے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن تربیت بہت اہم ہے۔ صحیح طریقے سے تربیت کے ذریعے نوجوانوں کو دیندار بنانا چاہئے۔ بنیادی ہدف یہ ہونا چاہئے کہ نوجوان دیندار، دین پر یقین رکھنے والے، اسلامی اخلاق اور ان صفات کے مالک ہوں جو اسلام کی نگاہ میں انسانوں کی پسندیدہ صفات ہیں۔ ٹاپ خود سازی کی روش امیر المومنین حضرت علی ( علیہ السلام) کے اس ارشاد گرامی سے کہ من نصب نفسہ اماما فلیبدا بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ بالکل واضح ہے کہ (اصلاح کی) ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہئے۔ ہمیں خود اپنے اور پہلے توجہ دینا چاہئے۔ خودسازی کا پہلا اور اہم ترین قدم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو، اپنے اخلاق کو اور اپنے کردار کو تنقیدی نگاہ سے دیکھے۔ اپنے عیوب کو دیکھے، ان پر غور کرے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام ہم خود ہی کر سکتے ہیں اور یہ ذمہ داری خود ہمارے کندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی حفاظت کرنا چاہئے، اپنی لغزشوں کو کم کرنا چاہئے اور اس کام میں خدا سے مدد مانگنا چاہئے۔ اپنی بداخلاقیوں اور بری صفات کا پتہ لگائیں۔ یہ مجاہدت کا دشوار حصہ ہے۔ خود پسندی و خود ستائی میں مبتلا نہ ہوں۔ اپنے عیوب کو دیکھیں اور ان کی فہرست اپنے سامنے رکھیں۔ کوشش کریں کہ اس فہرست میں مسلسل کمی آئے۔ اگر حاسد ہیں تو( اپنے اندر) حسد کو ختم کریں، اگر ضدی ہیں تو ضد کو ختم کریں، اگر کاہل اور سست ہیں تو کاہلی اور سستی کو ختم کریں، اگر دوسروں کا برا چاہتے ہیں اور بدخواہ ہیں تو بدخواہی کو دور کریں، اگر اپنے اندر وعدہ خلافی پائی جاتی ہو تو وعدہ خلافی کو دور کریں اور اگر عہد شکنی پائی جاتی ہو تو عہد شکنی اور بے وفائی کو ختم کریں۔ اس سلسلے میں مجاہدت کرنے والوں کی خداوندعالم مدد کرے گا۔ خداوند عالم کمال تک پہنچنے کے لئے جاری مجاہدت میں انسان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا ہے۔ اس مجاہدت کا فائدہ سب سے پہلے خود مجاہدت کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ نفس سے جہاد، نفس کی اصلاح اور راہ خدا میں اپنے باطن کے اندر مجاہدت کا فائدہ، جو جہاد اکبر ہے، خود اس فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کے حالات، سیاسی حالات، بین الاقوامی حالات، اقتصادی حالات، حالات زندگی ( ہرجگہ اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں) مختصر یہ کہ اس طریقے سے عوام کی دنیا و آخرت دونوں سنور جاتی ہے۔ نفس کی پاکیزگی، انہیں مختصر جملوں سے ہو سکتی ہے؛ خدا پر توجہ، خدا سے الفت، ہر اقدام سے پہلے سوچنا، دنیا کے تمام اچھے لوگوں اور خدا کے تمام مخلص بندوں سے محبت اور سب کی بھلائی چاہنا۔ ٹاپ خود سازی کی کوئی انتہا نہیں ہے اسلام اور عالم خلقت کے بارے میں خدائی نظریہ، انسانوں کو یہ سکھاتا ہے کہ راہ کمال میں کہیں رکنا نہیں چاہئے اور کسی بھی منزل پر قناعت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ (کمالات کی سمت پیش قدمی) انسانی فطرت میں شامل ہے اور اس کی سرشت میں یہ بات رکھی گئي ہے۔ اس کو ہر روز پہلے سے زیادہ ترقی اور بلندی حاصل کرنی چاہئے۔ انسان کو چاہئے کہ انفرادی مسائل میں بھی جو انسان اور خدا کے درمیان کے مسائل ہیں، روز بروز زیادہ لطیف، زیادہ بلند، زیادہ پرہیزگار، خدا کے بتائے ہوئے صفات سے زیادہ متصف ہو اور اپنے دامن کو برائیوں، بے راہروی اور گمراہی سے زیادہ پاک رکھے۔انسان ایک خام مادہ ہے، اگر اس نے اپنے اوپر کام کیا اور اس خام مادے کو برتر شکلوں میں تبدیل کر سکا تو اس نے زندگی میں اپنا لازمی کام انجام دیا اور یہی مقصد حیات ہے۔ مصیبت ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنے اوپر علم و عمل کے لحاظ سے کام نہ کریں اور جس طرح اس دنیا میں آئے ہیں، اسی طرح بلکہ بوسیدگیوں، تباہیوں، خرابیوں اور برائیوں کے ساتھ جو زندگی میں انسان کو لاحق ہوتی ہیں، اس دنیا سے جائیں۔ صاحب ایمان کو مستقل طور پر اپنے اوپر کام کرنا چاہئے۔ جو اپنا خیال رکھے، اپنے آپ پر نظر رکھے، ممنوعہ اور حرام کام نہ کرے اور پوری توجہ کے ساتھ راہ خدا پر چلے وہ کامیاب ہے۔ یہ دائمی خود سازی ہے اور اسلام کا دستورالعمل اسی مستقل خودسازی کے لئے ہے۔ یہ نماز پنجگانہ، پانچ وقت نماز پڑھنا، ذکر خدا، ایاک نعبد وایاک نستعین کی تکرار، رکوع کرنا، سجدہ کرنا، خدا کی حمد و ثنا کرنا، اس کی تسبیح و تہلیل کرنا کس لئے ہے؟ اس لئے ہے کہ انسان مستقل طور پر خودسازی کرتا رہے۔ ٹاپ تزکیہ قد افلح من تزکی یعنی جو خود کو پاکیزہ بنائے، اپنے دامن، روح اور دل کو برائیوں سے پاک کرے، وہ فلاح پا گیا۔ فلاح یعنی ہدف زندگی اور مقصد تخلیق تک پہنچنے میں کامیابی۔ انسان کو نجات یہی پاکیزگی دلاتی ہے۔ جو چیز انسان کو مصیبتوں میں مبتلا کرتی ہے وہ برائیوں میں پڑنا ہے، اخلاقی برائیوں میں، ان برائیوں میں جو نفسانی خواہشات اور غصے سے وجود میں آتی ہیں، ان برائیوں میں جو لالچ ، بخل اور دیگر برے اخلاقی صفات سے وجود میں آتی ہیں (گرفتار ہونا ہے)۔ انسانوں اور افراد بشر نے انہیں برے اخلاقی صفات سے دنیا کو سیاہ و تاریک کیا، زمین پر برائیاں پھیلائیں اور خدا کی نعمت کا کفران کیا ہے۔اگر دنیا ظلم و جور سے پر ہے، اگر سامراجی طاقتیں دنیا والوں پر زیادتی اور ظلم کر رہی ہیں ، اگر بہت سی اقوام اپنی خاموشی سے اپنے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کے اسباب فراہم کرتی ہیں، اگر بہت سی حکومتیں اپنے ہی عوام پر ظلم روا رکھتی ہیں، اگر غربت، جہالت اور بد تہذیبی ہے، اگر خانماں سوز جنگیں ہیں، اگر کیمیائی بم ہیں، اگر ستم و جارحیت، جھوٹ اور فریب ہے، تو یہ سب انسان کے پاکیزہ نہ ہونے اور اس بات کا نتیجہ ہے کہ انسانوں نے اپنا تزکیہ اور خوسازی نہیں کی۔ ٹاپ تزکیہ سے مراد کیا ہے؟ تزکیہ سے مراد لوگوں کو پاکیزہ بنانا، طاہر بنانا اور سنوارنا ہے۔ اس طبیب کی طرح جو اپنے مریض سے صرف یہ نہیں کہتا کہ یہ کام کرو اور یہ کام نہ کرو بلکہ اس کو مخصوص جگہ رکھتا ہے اور جو کچھ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے اس کو دیتا ہے، کھلاتا ہے اور جو اس کے لئے مضر ہوتا ہے اس سے پرہیز کراتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے اپنی نبوت کے تیئیس برسوں کے دوران اور خاص طور پر مدینے کی زندگی اور اسلامی حکومت کے دس برسوں میں اسی اصول اور روش پرعمل کیا ہے۔ ٹاپ تزکیہ کی مشق تمام عبادات اور شرعی فرائض جن کی انجام دہی کا ہمیں اور آپ کو حکم دیا گیا ہے، درحقیقت اسی تزکیہ اور تربیت کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک مشق ہے تاکہ ہم کامل ہو جائیں۔ جس طرح اگر ورزش نہ کی جائے تو آپ کا جسم ضعیف، کمزوراور ناتواں ہو جاتا ہے اور جسم کو خوبصورت، سڈول، توانا، طاقتور اور گوناگوں صلاحیتوں کا مالک بنانا ہو تو ورزش کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح نماز ، روزہ، خدا کی راہ میں خرچ کرنا ( خدا کی خوشنودی کے لئے ضرورتمندوں کی مدد کرنا) جھوٹ نہ بولنا اور انسانوں کی بھلائی چاہنا بھی ایک ورزش ہے۔ ان ورزشوں سے روح خوبصورت، طاقتور اور کامل ہوتی ہے۔ اگر یہ ورزشیں نہ کی جائیں تو ممکن ہے کہ بظاہر ہم بہت اچھے نظر آئیں لیکن باطن میں ہم ناقص، حقیر، کمزور اور ناتواں ہوں گے۔ ٹاپ اخلاق کی اصلاح ایک حدیث میں حضرت امام زین العابدین علیہ الصلوات والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ابن آدم لا تزال بخیر ما کان لک واعظ من نفسک اے اولاد آدم تیرا حال، تیری حالت، تیرے ایام اور تیرا راستہ اس وقت تک اچھا رہے گا جب تک تو خود اپنے نفس کو وعظ و نصیحت کرتا رہے گا۔ کوئی تیرے باطن میں تجھے نصیحت کرے، تیرا دل، تیری عقل، تیرا ضمیر، تیرا ایمان تجھے نصیحت کرے۔ دوسروں کی نصیحت مفید ہے لیکن اس سے زیادہ مفید یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو نصیحت کرے۔ ما کان لک واعظ من نفسک وما کانت المحاسبۃ من ھمک جب تک تمہارے اندر نصیحت کرنے والا ہے اور جب تک تم خود اپنا محاسبہ کرتے رہوگے ۔ انسان کا اپنا محاسبہ دوسروں کے محاسبے سے زیادہ دقیق ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ انسان خود سے کچھ چھپا نہیں سکتا۔ وماکان الخوف لک شعارا والحزن لک دثارا جب تک خوف خدا تمہارا شعار اور عذاب الہی کا خوف اور احتیاط تمہارا لباس رہے گا، اس وقت تک تم اچھے بنے رہوگے۔ یعنی خدا سے ڈرتے رہو اور عذاب و غضب الہی کو نظر میں رکھو اور خیال رکھو کہ تم سے کوئی ایسی لغزش نہ ہو جو اس بات کا باعث بنے کہ خدا تم سے غضبناک ہو۔ اگر ان چند باتوں کاخیال رکھو گے یعنی خود کو وعظ و نصیحت کرتے رہوگے ، خود اپنا محاسبہ کرتے رہوگے اور عذاب و قہر خدا سے ڈرتے رہوگے اچھائی اور نیکی میں رہوگے۔ تمہاری دنیا بھی اچھی رہے گی اور آخرت بھی اچھی رہے گی۔ تمہارا کردار بھی اچھا رہے گا اور تمہاری زندگی بھی اچھی رہے گی۔ تمہارے اندر بے چینی اور برائی نہیں رہے گی اور زندگی بہت اچھی رہے گی۔ ٹاپ تعلیم پر تزکیہ کا تقدم تعلیم، تزکیہ سے مختلف ہے۔ اگرچہ تعلیم صحیح اور درست ہو تو تزکیہ بھی لاتی ہے لیکن تزکیہ ایک الگ چیز ہے۔ یہ خیال کہ جو بھی میدان علم میں اترا اس کو کمالات، دینداری اور اخلاق کی باتوں کا خیال نہیں رکھنا چاہئے، بالکل غلط اور باہر سے آئی ہوئی فکر ہے جو عیسائی یورپ میں وجود میں آئی تھی اور اسلامی فضا اور اسلامی مفاہیم و تعلیمات کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اگر دانشور صاحب فضیلت اور بااخلاق ہو تو اس سے ہر میدان میں بشریت اور اپنے ملک کی بلندی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ایسا دانشور اہم اہداف کو اپنا مقصد قرار دےگا اور اس کے کام، انسانیت، مساوات اور فضیلت سے ہم آہنگ اور آج کی دنیا کی عجیب و غریب بے سروسامانی کے خلاف ہوں گے۔ ٹاپ آسان اور مشکل روحانی خود سازی آسان اور مشکل دونوں ہے۔ ایک لحاظ سے آسان اور ایک لحاظ سے مشکل ہے۔ آسان ہے اس لئے کہ یہ ایک وسیع وادی کی مانند ہے جس میں ہر طرف سے داخل ہوا جا سکتا ہے اور نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مشکل ہے اس لئے کہ ہر قدم پر شیطان ہیں جو انسان کے اندر وسوسہ پیدا کرتے ہیں، لہذا مزاحمت کرنا چاہئے۔ ٹاپ اخلاقی سلامتی سلامتی اور امن و امان صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی کسی کا بیگ نہ چرائے، یا کسی کی دکان میں ڈاکہ نہ ڈالے یا کسی کے گھر میں چوری نہ کرے۔ ان چیزوں کے علاوہ، اخلاقی سلامتی بھی اہم ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ اخلاقی بد امنی یہ ہے کہ لوگ معاشرے میں، سڑک اور گلی کوچوں میں اپنے اعتقادات، دین اور ایمان کے مطابق آسودہ خاطر ہوکر، بغیر کسی تشویش کے عمل نہ کر سکیں اور ایسے مناظر کا سامنا کریں کہ جن سے ان کے دینی جذبات مجروح ہوں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جب ان کے نوجوان گھر سے باہر نکلیں اور واپس آئیں اور معاشرے کے ماحول سے دوچار ہوں تو ان کے اذہان پر برے اور ناپسندیدہ اخلاقی اثرات مرتب نہ ہوں ۔ ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت گھر کی اہم ہستی اور کنبے کا مہکتا پھول ہے۔ آپ نے مغربی معاشروں میں عورتوں کو در پیش بحرانی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام میں عورت کے حقوق کی بازیابی کے لئے بہت سے اہم اقدامات کئے گئے ہیں تاہم خاندانوں میں عورتوں سے ہونے والے سلوک کے سلسلے میں کچھ مسائل ہنوز موجود ہیں جنہیں قانونی بنیادیں تیار کرکے اور پھر ان پر عملدرآمد کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت گھر کی اہم ہستی اور کنبے کا مہکتا پھول ہے۔ آپ نے مغربی معاشروں میں عورتوں کو در پیش بحرانی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام میں عورت کے حقوق کی بازیابی کے لئے بہت سے اہم اقدامات کئے گئے ہیں تاہم خاندانوں میں عورتوں سے ہونے والے سلوک کے سلسلے میں کچھ مسائل ہنوز موجود ہیں جنہیں قانونی بنیادیں تیار کرکے اور پھر ان پر عملدرآمد کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔
اسٹریٹیجک نظریات کا اجلاس، انصاف کے موضوع پر علمی بحثاسلامی جمہوریہ ایران میں دوسرے اسٹریٹیجک نظریات سے موسوم اجلاس کا آج صبح انعقاد ہوا جس میں انصاف اور مساوات کے موضوع پر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مرکز کے مفکرین، دانشوروں، اساتذہ اور محققین نے تبادلہ خیال کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں 27 اردیبہشت سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 17 مئی سنہ 2011 کو دوسری اسٹریٹیجک نظریاتی نشست کا انعقاد ہوا۔ ان علمی نشست میں انصاف اور مساوات کے موضوع پر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مرکز کے مفکرین، دانشوروں، اساتذہ اور محققین نے تبادلہ خیال کیا۔
امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ دین و آئین اسلام اور انسانی زندگی کے لئے اس دین کے جامع احکامات، پختہ تعلیمات اور فصیح و بلیغ معارف ہیں۔ اسلام نے کائنات اور نوع بشر کے بارے میں عقلی معیاروں سے ہم آہنگ عمیق نقطہ نگاہ پیش کرکے اور توحید کے خالص نظرئے کی تبلیغ، حکمت آمیز اخلاقی و معنوی دستور العمل کے تعارف، مستحکم و ہمہ گیر سیاسی و سماجی نظام اور اصول و ضوابط کی نشاندہی اور عبادی و شخصی فرائض و اعمال کے تعین کے ذریعے بنی نوع بشر کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنے باطن کو برائیوں، کمزوریوں، پستیوں اور آلودگیوں سے نجات دلائيں اور اسے ایمان و اخلاص، محبت و الفت اور امید و نشاط کے جذبات سے آراستہ کریں ساتھ ہی گرد و پیش کے ماحول اور دنیا کو بھی غربت و جہالت، ظلم و تفریق، پسماندگی و جمود، جبر و تسلط اور تحقیر و فریب سے آزادی دلائیں۔
پہلا باب : دینی جمہوریت ڈیموکریسی اور جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟ جمہوریت کے دو پہلو دینی جمہوریت کے معنی منطقی جمہوریت کا بانی اسلامی معاشرے میں حاکموں سے عوام کے قلبی لگاہ کی وجہ حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش اسلام میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت اسلام میں جمہوریت کی بنیاد بندگی خدا اور عوام پر خاص توجہ جمہوریت کا تقدس دوسرا باب: مغربی جمہوریت مغربی جمہوریت کی تشریح مغربی ڈیموکریسی کی حدود اربعہ مغربی جمہوریت کا ہدف مغرب میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت تیسرا باب: اسلامی جمہوریہ ایران کی جمہوریت بشری تجربات سے استفادہ مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ ) میں جمہوریت ایران میں اسلامی نظام کا پیکر حکام سے عوام کا رابطہ دینی جمہوریت اور ڈیموکریسی پہلا باب : دینی جمہوریت ڈیموکریسی اور جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟ ڈیموکریسی یعنی ملک چلانے اور حکومت کے سیاسی طریقئہ کار میں عوام کی رائے کا معیار اور بنیاد قرار پانا۔ جمہوریت کا مطلب سیاسی نظام اور اس نظام کے چلانے والوں کا عوام کی طرف سے آنا ہے۔ اس کا حقیقی مفہوم اس وقت پورا ہوتا ہے جب عوام کا فیصلہ، عوام کا ایمان، عوام کا عشق، عوام کی مصلحت اندیشی اور عوام کے احساسات وجذبات سب کے لحاظ سے یہ اتفاق پایا جائے کہ یہ سیاسی نظام قائم ہو۔ٹاپ جمہوریت کے دو پہلو جمہوریت کے بھی دو پہلو ہیں: جمہوریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ نظام کا ڈھانچہ عوام کے ارادے اور رائے کے مطابق تشکیل پائے۔ یعنی عوام نظام، حکومت، اراکین پارلیمنٹ اور اہم حکام کا براہ راست یا بالواسطہ انتخاب کریں۔ عوام کا انتخاب کا پہلو، دینی جمہوریت میں بھی پایا جاتا ہے اور اس کے دو پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ ضروری ہے کہ عوام چاہیں، پہچانیں، فیصلہ کریں اور انتخاب کریں تاکہ ان کے بارے میں شرعی فریضہ پورا ہو۔ بغیر شناخت، علم اور اشتیاق، ان کا کوئی فریضہ نہیں ہوگا۔ جمہوریت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب ملک کے حکام کا انتخاب ہو گیا تو عوام کے تئیں ان کے کچھ حقیقی اور سنجیدہ فرائض ہیں۔ ( ملک کے حکام کے بعض فرائض کے مشاہدے کے لئے حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش سے رجوع کریں) ٹاپ دینی جمہوریت کے معنی دینی جمہوریت یہ ہے کہ اس میں دین خدا کی حاکمیت، عوام کی آراء ، عوام کے عقیدے، عوام کے ایمان ، عوام کی خواہش اور عوام کے احساسات و جذبات سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک انسان جس طرح خود کو صرف خدا کا بندہ سمجھتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین اسی طرح خداوند عالم سے چاہتا ہے اور اس کو اپنا اصول قرار دیتا ہے کہ صالحین کے راستے پر چلے؛ اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم صالحین کے راستے پر چلنا، خدا کے برگزیدہ بندوں کی پیروی اور پیغمبر یا ہر اس فرد کی جو اسلامی معاشرے کی زمام سنبھالے، مومنین اور مومنات کی جانب سے بیعت ایمان سے بیعت، دین سے بیعت اور دینداری سے بیعت ہے۔ یہ کسی ایک شخص کے سامنے سجدہ ریز ہونا نہیں ہے، کسی فرد انسان کے ارادے کا پابند ہونا نہیں ہے۔ اسلام میں جس چیز کی حکمرانی ہوتی ہے، وہ مکتب ہے، وہ مکتب جو اپنے اندر ایک ایک فرد بشر کی سعادت و کامرانی کو یقینی بناتا ہے اور یہ خود انسانوں کا بھی فریضہ ہے۔ ٹاپ منطقی جمہوریت کا بانی جمہوریت کا تعلق در اصل اسلام سے ہے۔ صحیح اور منطقی شکل میں جمہوریت کا بانی اسلام ہے۔ حکومت نبوی میں مسلمانوں کی ایک ایک فرد نے آکر پیغمبر ( صل اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیعت کی۔ مرد بھی آئے اور خواتین بھی آئیں۔ اس زمانے میں انسانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ صرف جزیرۃ العرب میں اور عربوں کے درمیان ہی عورتیں پسماندہ نہیں تھیں، بلکہ ایران اور روم کی سلطنتوں میں بھی عورتوں کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ ابھر کے سامنے آئیں۔ مگر پیغمبر خدا کو خداوند عالم کا حکم ہوتا ہے کہ اذا جائک المومنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ یعنی جب مومن عورتیں آپ کی بیعت کرنے کے لئے آئیں تو اسی اصول پر بیعت کریں؛ بیعت کے لئے آنے والے مردوں کی طرح۔ عورتوں نے بھی آکے بیعت کی اور مردوں نے بھی آکے بیعت کی۔ دل ایک دوسرے سے ملے، ارادے باہم متصل ہوئے اور پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور عوام نیز مومنین کی ایک ایک فرد کے درمیان پروردگار کی ذات مقدس کی توحید جلوہ گر ہوئی۔ ہاں وہ پیغمبر سے بھی محبت کرتے تھے لیکن پیغمبر کی ذات مد نظر نہیں تھی۔ ٹاپ اسلامی معاشرے میں حاکموں سے عوام کے قلبی لگاہ کی وجہ اسلام میں فرد مد نظر نہیں ہوتا۔ کسی کو بھی کسی فرد کی دعوت نہیں دینی چاہئے۔ کوئی بھی فرد دین کی نمائندگی کے بغیر، بذات خود لوگوں کی محبت و قلبی لگاؤ کا مرکز نہیں بنتا کہ لوگ اس کے لئے قربانیاں دیں۔ شروع سے مسلمان اسی کے عادی رہے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ مسلمانوں میں، محبت، الفت، اخلاص، صادقانہ جذبات اور دیگر معنوی احساسات وغیرہ اس کے لئے ہوتے ہیں، جس کے لئے وہ سمجھتے ہیں کہ دینی و معنوی اقدار کے مرکز یعنی اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر کے سلسلے میں بھی یہی امر تھا کہ آپ سے لوگوں کو قلبی لگاؤ تھا۔ یہ عوام کی حکمرانی اورجمہوریت ہے۔ ٹاپ حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش آج وہ بہترین چیز جو ملک کے حکام کی راہ و روش اور رفتار و کردار کی اصلاح کی بنیاد اور معیار بن سکتی ہے، دینی جمہوریت ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلواۃ و السلام مالک اشتر سے فرماتے ہیں ایاک و المن علی رعیتک باحسانک او التزید فیما کان من فعلک او ان تعدھم فتتبع موعدک بخلفک فان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنور الحق والخلف یوجب المقت عند اللہ و الناس فرماتے ہیں کہ نہ لوگوں پر یہ احسان جتاؤ کہ ہم نے یہ کام تمھارے لئے کئے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی جو کام کئے ہیں ان کے بارے میں مبالغہ کرو، مثلا چھوٹا کام کرکے اس کو بڑا بتاؤ، اور نہ ہی یہ کرو کہ وعدہ کرو اور عمل نہ کرو۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر احسان جتایا تو تمھارا نیک عمل ضائع ہوجائے گا، مبالغہ نور حق کو ختم کر دے گا یعنی وہ تھوڑی سی صداقت جو پائی جاتی ہے وہ بھی لوگوں کی نگاہوں میں ختم ہو جائے گي اور اگر وعدہ خلافی کی تو یوجب المقت اللہ والناس یہ لوگوں کی نگاہ میں بھی اور اللہ کے نزدیک بھی، گناہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کبر مقتا عنداللہ ان تقولوا ما لا تفعلون اور انصف اللہ و انصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک ومن لک فیہ ھوی من رعیتک یعنی اپنے ساتھ، اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کے ساتھ ، عوام کے ساتھ اور خدا کے ساتھ انصاف کرو؛ یعنی ان کے ساتھ کسی امتیاز سے کام نہ لو۔ یعنی پارٹی بازی، کسی کے لئے خصوصی امتیاز کا قائل ہونا، کوئی کمپنی یا مالی آمدنی کا مرکز، کچھ خاص لوگوں کو اس لئے دینا کہ وہ اس حاکم کے دوست احباب اور رشتے دار ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں جو جمہوریت کے خلاف ہیں۔ و لیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق و اعمھا فی العدل و اجمعھا لرضی الرعیۃ وہ کام کرو جو افراط و تفریط سے پاک ہوں اور عوام کے تعلق سے وسیع سطح پر عدل و انصاف سے کام لو اور عام لوگوں کی خوشی اور ان کی رضامندی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر میں رہو، اس فکر میں نہ رہو کہ کچھ خاص لوگ، جن کے پاس دولت و طاقت ہے، وہ تم سے خوش ہوں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں فان سخط العامۃ یجحف برضی الخاصۃ یعنی اگر صاحبان دولت و طاقت کی خوشنودی حاصل کی اور عوام کو ناراض کیا تو عوام کی ناراضگی خواص یعنی صاحبان دولت و طاقت کی خوشنودی کو سیلاب کی طرح بہا لے جائے گی۔ و ان سخط الخاصۃ یغتفر مع رضی العامۃ صاحبان دولت و طاقت کی خوشی کا خیال نہ رکھا تو وہ تم سے ناراض ہوں گے؛ تو ان کو ناراض ہوجانے دو۔ اگر عوام تم سے راضی اور خوش ہیں اور تم نے ان کے لئے کام کیا تو انہیں (یعنی صاحبان دولت و طاقت کو) ناراض رہنے دو۔ یغتفر یہ ناراضگی بخشی ہوئی ہے۔ ٹاپ اسلام میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت دینی جمہوریت کی حقیقی صورت یہ ہے کہ نظام کو خدا کی ہدایت اور عوام کے ارادے سے چلنا چاہئے۔ اسلام میں عوام قانون کی جملہ بنیاد نہیں ہیں بلکہ اس کے جملہ ارکان میں سے ایک ہیں۔ اسلام کا سیاسی نظام عوام کی رائے اور مرضی کے علاوہ دیگر اصولوں پر بھی جن کو تقوا اور عدل کہا جاتا ہے، استوار ہوتا ہے۔ جس کو حکومت کے لئے منتخب کیا گیا اگر اس میں تقوا اور عدل پسندی نہ ہو تو خواہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہو تب بھی اس کی حکومت اسلام کے نقطۂ نگاہ سے غیر قانونی ہے۔ اکثریت تو کچھ بھی نہیں، امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں،و لامری ما الامام الا الحاکم بالقسط اسلامی معاشرے میں حاکم اور حکومت صرف وہ ہو سکتی ہے، جوعدل پر قائم ہو،عدل و انصاف پر عمل کرے۔ اگر عدل و انصاف قائم نہ کیا تو چاہے جس نے بھی اس کو منصوب کیا ہو اور چاہے جس نے بھی اس کو منتخب کیا ہو، وہ حکومت غیر قانونی رہےگی۔ ٹاپ اسلام میں جمہوریت کی بنیاد ایک مسئلہ جس پر میں نے بارہا تاکید کی ہے، یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلامی بنیاد عوامی بنیاد سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوامی بنیاد ہی اسلامی بنیاد بھی ہے۔ جب ہم اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں، تو ممکن نہیں ہے کہ عوام کو مد نظر نہ رکھا جائے۔ انتخابات میں عوام کے حق کی بنیاد اور اساس خود اسلام ہے۔ بنابریں دینی جمہوریت کی اپنی ایک بنیاد اور اس کا اپنا ایک فلسفہ ہے۔ دینی جمہوریت اور شریعت الہی میں یہ بات واضح ہے کہ عوام حاکم کو پسند کرتے ہوں، تاکہ اس کو قبول کیا جائے اور اس کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہو۔ (کسی مسلمان سے پوچھیں) تم مسلمان ہو بتاؤ کہ عوام کی رائے کیوں معتبر ہے؟ کہے گا اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں، اس لئے کہ ہم اسلام پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس لئے کہ اسلام کی منطق میں عوام کے رائے ، خدا کی نظر میں انسان کی جو خاص منزلت ہے اس کی بنیاد پر لوگوں کی رائے معتبر ہے۔ اسلام میں انسانوں پر کسی کی بھی حکومت اور ولایت قبول نہیں ہے سوائے اس کے جس کو خدا معین کرے۔ بہت سے فقہی مسائل میں حاکم، قاضی یا مومن کی ولایت کے مسئلے میں جب شک ہوتا ہے کہ اس ولایت پر شرعی جواز ہے یا نہیں، تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اصل عدم ولایت ہے (اسلامی فقہ کا ایک اصول جس کی رو سے مشکوک چیز کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے)۔ یہ اسلام کی منطق ہے۔ ولایت صرف اس وقت قبول کی جاتی ہے جب اس کے بارے میں شارع ( شریعت بنانے والے یا رسول اسلام ) کا حکم ہو اور حکم شارع اس بات پر ہوتا ہے کہ جس کو ہم ولایت دے رہے ہیں، وہ ولایت کے جس مرتبے پر بھی فائز ہو، اس کوصلاحیت اور اہلیت کا مالک یعنی صاحب تقوا و عادل اور عوام میں مقبول ہونا چاہئے۔ دینی جمہوریت کی منطق یہ ہے جو بہت گہری اور محکم ہے۔ مومن پورے اعتقاد کے ساتھ اس منطق کو قبول کرکے اس پر عمل کر سکتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ ٹاپ بندگی خدا اور عوام پر خاص توجہ دینی جمہوریت کی نئی مثال نے بشریت کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کیا ہے جس میں، انفرادی یا جماعتی استبداد اور صاحبان دولت و ثروت اور غارتگروں کے نفوذ سے قائم ہونے والے نظاموں کی برائیوں ، مادہ پرستی اور گناہوں میں غرق ہونے اور معنویت و دینداری سے دوری سے انسان کو نجات مل جاتی ہے اور خدا پرستی اور عوامی بنیاد کے درمیان تضاد عملی طور پر غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ نیا اسوہ اور نمونہ، اپنے رشد، اپنے دوام ، اپنے استحکام اور اپنے اہداف کے حصول کے ساتھ بذات خود، ان تمام نظاموں کے بطلان کی محکم دلیل ہے جنہوں نے ہیومنزم ( انسان کو محور قرار دینے والے مکتب فکر) کے نام پر لوگوں کو خدا اور دینداری سے دور کیا اورجمہوریت کے نام پر انسانوں کومختلف شکلوں میں اپنے پنجہ اقتدار میں جکڑ لیا ہے۔ اسلام کی ثقافت میں بہترین انسان وہ ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ہوں۔ دینی جمہوریت، عوام کو دھوکہ دینے والی ریا کار ڈیموکریسیوں کے برخلاف بغیر احسان جتائے، خلوص کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے والا نظام ہے۔ اس نظام میں عوام کی خدمت ایک فریضے کے عنوان سے پاکدامنی اور ایمانداری کے ساتھ انجام پاتی ہے۔ ٹاپ جمہوریت کا تقدس عوام کی آزادی، ان کی آراء پر اعتماد اور حقیقی جمہوریت ، ہمارے لئے مقدس ہے۔ کیوں؟ لبرلزم کے فلسفے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ خداوند عالم نے جو ہمارا مالک ہے، فرمایا ہے کہ النّاس کلّھم احرار تمام انسان آزاد ہیں۔ لاتکن عبد غیرک وقد جعلک اللہ حرّا خداوندعالم نے یہ فرمایا ہے۔ امیر المومنین فرماتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے۔ پیغمبر فرماتے ہیں، اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے۔ صرف الفاظ ان کے ہیں۔ خلیفہ دوم نے بھی اپنے گورنر سے، جو اسی ماحول میں تھا، کہا استعبدتم النّاس و قد خلقھم اللہ احرارا یعنی تم نے لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے جب کہ خدا نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ یہ حقیقی جمہوریت کی منطق اور بنیاد ہے۔ آزادی کا اہم ترین مصداق یہ ہے کہ انسان اپنی قسمت اور مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔ یہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ٹاپ دوسرا باب: مغربی جمہوریت مغربی جمہوریت کی تشریح مغربی جمہوریت کا فلسفہ اور بنیاد لبرلزم ہے۔ ( مغربی جمہوریت) کہتی ہے کہ چونکہ انسان آزاد ہے اس لئے اس آزادی کا تقاضا ہے کہ آمریت نہ ہو جمہوریت ہو۔ اب یہ آزادی جو لبرلزم کی بنیاد پر ملتی ہے، مطلق آزادی ہے۔ یعنی اگر عوام نے فیصلہ کیا تو اس چیز کو بھی قبول کر سکتے ہیں جو سو فیصد ان کے نقصان میں ہو۔ فرض کریں کہ برطانیہ کے لوگ جس طرح انہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں ہم جنس بازی کو منظوری دی ہے، اسی طرح، ہیروئن کے استعمال اور محرم کے ساتھ شادی کی آزادی کا فیصلہ کریں، تو ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، قبول کرنا چاہئے۔ ہم جنس بازی اور محرم کے ساتھ شادی میں فرق کیا ہے؟ یہاں ان کے پاس اس کام کی کوئی منطق اور دلیل نہیں ہے۔ اگر آج امریکی کانگرس یا برطانوی پارلیمنٹ محارم ( جن کے ساتھ شادی نہیں ہوسکتی جیسے ماں، بہن، باپ، بھائی وغیرہ) کے ساتھ شادی کی آزادی کا فیصلہ کرے تو یہاں غیرت و حمیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بنابریں اس آزادی کے اندازے اور حد کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر وہ کہیں کہ اس کے بعد آزادی خلاف اخلاق ہے تو ہم کہیں گے کون سا اخلاق؟ کوئی اخلاق نہیں ہے، آزاد ہیں' اس لئے کہ لبرلزم کا فلسفہ آزادی ہے اور کوئي بھی حد اس آزادی کو محدود نہیں کر سکتی، الا یہ کہ یہ آزادی، آزادی کی ضد اور اجتماعی آزادی کی بنیاد کے خلاف ہو۔ ان کی ریڈ لائن صرف یہ ہے۔ مغربی ڈیموکریسی لبرلزم کی منطق اور فلسفے پر استوار ہے اور درحقیقت اپنا کھوکھلا پن خود ثابت کرتی ہے۔ اس صورت میں معاشرے کی تمام اخلاقی قدریں ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جو لوگ اس کے قائل ہیں وہ اس بات کا اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے۔ ٹاپ مغربی ڈیموکریسی کی حدود اربعہ دنیا میں ڈیموکریسی اور جمہوریت کے نام سے جو چیز بھی پائی جاتی ہے اس کی حدود اربعہ ہیں۔ مغربی ڈیموکریسیوں میں حدود اربعہ، معاشرے پر حکمفرما سرمایہ داروں اور صاحبان دولت و ثروت کی خواہشات اور مفادات ہوتے ہیں۔ صرف اسی دائرے میں عوام کے ووٹ معتبر اور نافذ ہوتے ہیں۔ اگر عوام مالی و اقتصادی طاقت کے کے برخلاف کہ سیاسی اقتدار جس کا نتیجہ ہوتا ہے، مالکین اور سرمایہ داروں کے مفادات کے برخلاف کچھ چاہیں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ ڈیموکریٹک حکومتیں اور نظام عوام کے مطالبات کو تسلیم کر لیں گے۔ یہ ڈیموکریسیاں اور عوامی خواہشات، ایسے محکم اصول و ضوابط میں جکڑے ہوئے ہیں کہ جن کو توڑا نہیں جا سکتا۔ سابق سوشیلسٹ ملکوں میں بھی، جو خود کو جمہوری ممالک کا نام دیتے تھے، حکمراں جماعت کے اصول و ضوابط کی حکمرانی تھی۔ حکمراں جماعت کی پالیسیوں، نظریات اور میلانات کی حدود سے باہر عوام کی رائے کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں تھی۔ ٹاپ مغربی جمہوریت کا ہدف مغربی جمہوریت، پرانی اور ناکام ہو چکی ہے اور اس کے نقائص آشکارا ہوچکے ہیں۔ اس جمہوریت کی بنیاد اقتدار پرستی ہے۔ اس میں دو گروہ ، یا دو جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے پر آتی ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ تم کیا چاہتے ہو تو کہتے ہیں کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ حکومت اپنے ہاتھ میں لیکر کیا کرنا چاہتے ہو؟ عوام کا اخلاق و کردار بلند کرنا چاہتے ہو؟ عوام کو معنوی اور روحانی بلندی عطا کرنا چاہتے ہو؟ عوام کی زندگی حقیقی معنی میں صحیح کرنا چاہتے ہو؟ نعرے بازی اور ظاہری باتوں سے بالاتر ہونا چاہتے ہو؟ نہیں، یہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک جماعت ہے جو چاہتی ہے کہ چند سال حکومت اس کے ہاتھ میں رہے۔ یہ تو کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے۔ یہ انسانوں کا احترام تو نہیں ہے۔ یہ انسانوں کی تکریم تو نہیں ہے۔ آج دنیا میں حتی امریکا جیسے ملک میں جس کی آواز سب سے زیادہ بلند اور اونچی ہے، مغربی جمہوریت کا بھی وجود نہیں ہے۔ ٹاپ مغرب میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت مغربی ڈیموکریسی، یعنی لبرلزم پر استوار جمہوریت، اس کی اپنی الگ منطق ہے۔ اس منطق میں حکومتوں اور نظاموں کے قانونی ہونے کی بنیاد اکثریت کا ووٹ ہے۔ اس طرز فکر کی بنیاد بھی وہی لبرلزم کا نظریہ ہے؛ ہر شخص کو آزادی ہے، اس کی کوئی اخلاقی حدود نہیں ہیں الا یہ کہ دوسروں کی آزادی کو مجروح کرنے کی حد تک پہنچ جائے۔ مغربی لبرلزم کا نظریہ یہ ہے؛ تمام میدانوں اور زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی ذاتی اور مطلق آزادی جو ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل میں بھی ظاہر ہوگی ۔ چونکہ معاشرے میں اقلیت اور اکثریت پائی جاتی ہے، اس لئے اقلیت کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ اکثریت کی پیروی کرے۔ یہ مغربی ڈیموکریسی کی بنیاد ہے۔ جس نظام میں یہ بات ہو وہ لبرل ڈیموکریسی کے نقطۂ نگاہ سے قانونی ہے اور جس میں یہ چیز نہ ہو وہ غیر قانونی ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: اسلامی جمہوریہ ایران کی جمہوریت بشری تجربات سے استفادہ آج ہم اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر انسانی تجربات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اسلام میں دینی جمہوریت ہے؛ بشری تجربات نے اس کو ایک طرح سے پارلیمانوں کی شکل میں مجسم کیا ہے۔ ہم نے پارلیمان کو قبول کر لیا، ہم نے پارلیمان کو مسترد نہیں کیا ہے۔ وہ تمام چیزیں جن کا بشریت نے برسوں اور صدیوں تجربہ کیا ہے، اسلامی تفکر کشادہ روئی کے ساتھ ان کو قبول کرتا ہے لیکن محکم اسلامی اصولوں کے مطابق ان کو ڈھال لینے کے بعد۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ملک ایران میں عملی شکل اختیار کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں اسلامیت اور جمہوریت کا رابطہ اس ملک اور اس نظام میں اسلام جمہوریت کے ساتھ ہے۔ ہماری جمہوریت اسلام سے ماخوذ ہے اور ہمارا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس ملک میں جمہوریت نہ ہو۔ ہم نے جمہوریت کسی سے نہیں سیکھی ہے، اس کی تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے۔ یہ قوم اسلام سے متمسک ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ اس قوم کے ذہن اور اس نظام میں عوام اور خدا دونوں مد نظر ہیں اور خدا نے عوام کو یہ راستہ طے کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔ اس قوم، اس نظام ، ان حدود اور اس آئین نے اسلام کی بھی ضمانت دی ہے اور جمہوریت کو بھی یقینی بنایا ہے۔ ٹاپ مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ ) میں جمہوریت مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) میں جمہوریت اہم اور قابل احترام بھی ہے اور طاقتور اور کار ساز بھی ہے۔ اہم اور محترم ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اور معاشرے کے امور چلانے میں عوام کی رائے بنیادی حیثیت رکھے۔ لہذا امام خمینی ( رحمۃ اللہ علیہ ) کے مکتب میں جو اسلام پر استوار ہے، حقیقی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ عوام اپنے ووٹوں سے، اپنے ارادے سے اور اپنے ایمان سے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے حکام کو منتخب کرتے ہیں۔ دوسری طرف امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) عوام کے ووٹوں کی طاقت پر یقین رکھتے تھے اور آپ کا نظریہ تھا کہ عوام کے فولادی ارادے سے دنیا کی تمام جارح طاقتوں کے مقابلے میں استحکام اور پائیداری کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے اور آپ نے اس پائیداری کا ثبوت دیا۔ امام خمینی ( رحمۃ اللہ علیہ) کے مکتب فکر میں جمہوریت دین پراستوار ہے؛ امرھم شوری بینھم سے ماخوذ ہے؛ ھوی الذی ایدک بنصرہ وبالمؤمنین سے ماخوذ ہے۔ ٹاپ ایران میں اسلامی نظام کا پیکر میں نے بارہا تاکید کی ہے کہ ہمیں نظام کا پیکر، نظام کی روح اور نظام کے اصول اسلام سے لینے چاہیئیں، غیروں کے مکاتب سے نہیں۔ کچھ تہذیبوں نے کوشش کی ہے کہ ان کی بات، ان کی فکر اور ان کی راہ و روش دنیا میں رائج ہو، یعنی دیگر اقوام اور ملکوں کے لئے جو وہ پسند کریں، اقوام اسی کو قبول کریں۔ ہمیں اپنے بارے میں دوسروں کی بتائی ہوئی تدبیر تسلیم نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں اس چیز پر عمل کرنا چاہئے جو ہماری مصلحت، ہماری ضرورت ، ہمارے اعتقاد اور ہمارے ایمان کی رو سے صحیح ہو اور وہ اسلامی احکام، اسلامی عدل و مساوات اور اسلامی راہ ہے۔ یہ وہی چیز جس کو ہم نے اسلامی نظام کے پیکر اور دینی جمہوریت کا نام دیا ہے۔ دینی جمہوریت یعنی ہمارا نصب العین اسلامی اقدار کی تکمیل اور اسلامی احکام کا نفاذ ہے۔ اگر یہ احکام نافذ ہو گئے تو معاشرے میں حقیقی معنی میں اسلامی عدل و انصاف قائم ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوری نظام میں جمہوریت ایک دینی فریضہ ہے۔ اس خصوصیت کا تحفظ حکام کا دینی عہد ہے اور اس کے لئے وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ٹاپ حکام سے عوام کا رابطہ شاید ان اقوام میں جن کی حالت اور ان کے ملک کے حالات، نیز حکومتوں اور حکام سے ان کے روابط سے ہم واقف ہیں، ایرانی قوم جیسی کوئي قوم نہ ملے، جس کے حکام سے روابط، صرف رسمی اور دفتری نہیں ہیں، ایسے روابط نہیں ہیں جو صرف انتخابات کے دوران اور وہ بھی خاص محرک کے ساتھ، خاص شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ (ایران میں) حکام سے عوام کا رابطہ جذباتی، ایمانی اور اعتقادی رابطہ ہے جو حکام پر عوام کے یقین کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر اسلامی جمہوری نظام میں بہت ہی محکم ستونوں پر استوار جمہوریت کو ثابت کرتا ہے۔ وہ جمہوریت جس میں عوام اور ملک کے حکام اور امور مملکت چلانے والوں کے درمیان تعلق دو طرفہ ہو اور باطنی احساسات و جذبات اور قلبی ایمان و اعتقاد پر استوار ہو، عوامی حکومت اور جمہوریت کی اعلی ترین مثال ہے۔ ٹاپ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ دشمن بھی علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت، وقار اور اہم پوزیشن کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چودہ اردیبہشت سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی مطابق چار مئی سنہ دو ہزار گيارہ عیسوی کو یوم استاد کی مناسبت سے پورے ملک سے تہران آنے والے ہزاروں اساتذہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں اٹھنے والی بیداری کی لہر ملت ایران کی عظیم تحریک کا تسلسل ہے اور بیداری کی یہ لہر بلا شبہ قلب یورپ تک جائے گی اور یورپی قومیں بھی اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کریں گی جنہوں نے ان قوموں کو امریکہ اور صیہونیوں کی ثقافتی و اقتصادی پالیسیوں کا اسیر بنا رکھا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ دنیا کی طاقتوں اور استبدادی عناصر نے اسلامی و انسانی اقدار کے خلاف اپنے وسائل اور پوری طاقت جھونک دی ہے اور ان حالات میں ملت ایران نے ان اقدار کے احیاء کے لئے اکیلے قیام کیا اور تنہا اس راستے کو طے کیا تاہم اب اسے عظیم کامیابیاں مل رہی ہیں۔
اس وقت عالم اسلام میں کوئی بھی شخص اگر مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور مقامی مسئلہ تصور کرتا ہے تو وہ در حقیقت اسی خواب غفلت کا شکار ہے جس نے قوموں کی درگت بنا ڈالی۔ غزہ کا مسئلہ صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، یہ پورے علاقے کا مسئلہ ہے۔ سر دست اس مقام پر حملہ کیا گيا ہے جو سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اگر دشمن کو اس جگہ کامیابی مل گئی تو وہ علاقے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا۔ اس علاقے کے اطراف میں واقع مسلم ممالک کی حکومتیں جو مدد کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود مدد نہیں کر رہی ہیں حالانکہ یہ ان کا فرض ہے، وہ غلطی کر رہی ہیں، بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج صوبوں کی سپریم کونسل کے صدر اور ارکان اور صوبوں کے مرکزی شہروں کے میئروں سے ملاقات میں شہری و دیہی اسلامی کونسلوں کو اسلامی جمہوری نظام کی قابل افتخار کامیابیوں میں شمار کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر طرز عمل کا نتیجہ باہمی تعاون، ہمدلی اور یکجہتی ہو یقینا عنایات الہی میں روز افزوں اضافہ ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ قوموں کی بلند ہمتی اور اسلام کی راہ میں ان کی پیش قدمی کی برکتوں سے علاقے کا مستقبل اس کے حال سے بدرجہا بہتر ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیشرفت و ارتقاء کو ملت ایران کا یقینی مستقبل قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سات اردیبہشت سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی مطابق ستائیس اپریل سنہ دو ہزار گیارہ عیسوی کو یوم محنت کشاں کی مناسبت سے پورے ملک سے تہران آنے والے محنت کش طبقے کے افراد کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا ہے کہ قوموں کی بلند ہمتی اور اسلام کی راہ میں ان کی پیش قدمی کی برکتوں سے علاقے کا مستقبل اس کے حال سے بدرجہا بہتر ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای نے معاشرے کے ذہنی سکون اور اخلاقی تحفظ کو پولیس کی اہم ترین ذمہ داری قرار دیا اور عوام کے ذہنی چین و سکون کے لئے ذرائع ابلاغ، اخبارات و جرائد، تنظیموں اور بااثر افراد کی سنگین ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے موجودہ حالات بہت پرسکون و سازگار اور عوام کے جذبات بہت مستحکم ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے علاقے اور دنیا کے موجودہ حساس حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے، اسلامی بیداری کے پیش نظر ملک کے عوام اور حکام کے اتحاد و یکجہتی، مربوط مساعی اور اسلامی نظام کے دشمنوں کو کوئی موقع نہ دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 3 اردیبہشت سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 23 اپریل سنہ 2011کو صوبہ فارس کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آرمی ڈے کی مناسبت سے فوج کے کمانڈروں سے ملاقات میں فوج کی مربوط مساعی کی قدردانی کی اور فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام کے تحت اللہ تعالی نے خدمت کا جو موقع فراہم کیا ہے اس سے استفادے کے لئے تمام فکری و عملی صلاحیتوں اور توانائيوں کو بروئے کار لایا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 فروردین سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 12 اپریل سنہ 2011 عیسوی کو سیاسی و علمی شخصیات کی ایک نشست سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج فوج اور پولیس کے کمانڈروں اور عہدہ داروں سے ملاقات میں علاقائی اور عالمی امور منجملہ مسئلہ فلسطین پر اسلامی انقلاب سے مرتب ہونے والے گہرے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علاقے کی تحریکیں رفتہ رفتہ جمع ہونے والے جذبات، افکار و نظریات اور فیصلوں کا نتیجہ ہیں جو اب سامنے آیا ہے اور اس کا سرچشمہ ملت ایران کی پائیداری اور ثبات قدم ہے اور یہ اسلامی مملکت ایران کی پیشرفت کی علامتیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے 6 دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اکیس محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس درس خارج سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مومنین کے درمیان کیسی اپنائیت اور خلوص کا رشتہ ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پانچ دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق بیس محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس درس خارج سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں مومنین کے حقوق کے پاس و لحاظ پر تاکید کی گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تیس آذر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق پندرہ محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس درس خارج سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔