تہذیب و ثقافتتہذیب و ثقافت یعنی وہ رسم و رواج اور طور طریقے جو ہماری اور آپ کی زندگی پر حکم فرما ہیں۔ تہذیب و ثقافت یعنی ہمارا ایمان و عقیدہ اور وہ تمام عقائد و نظریات جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں شامل ہیں۔ ہم تہذیب و ثقافت کو انسانی زندگی کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔ تہذیب وثقافت قوموں کے تشخص کا اصلی سرچشمہ ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکیں گی اور وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔ ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو ظاہر و آشکار ہیں اور نگاہیں انہیں دیکھ سکتی ہیں۔ ان امور کا قوم کے مستقبل اور تقدیر میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ البتہ اس کے اثرات دراز مدت میں سامنے آتے ہیں۔ یہ امور قوم کی اہم منصوبہ بندیوں میں موثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس کیسا ہو، کیسے پہنا جائے اور بدن ڈھانکنے کا کون سا انداز نمونہ عمل قرار دیا جائے؟ یہ چیزیں تہذیب کے ظاہر و آشکار امور میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقے میں معماری کا انداز کیا ہے؟ گھر کس طرح بنائے جاتے ہیں، رہن سہن کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب معاشرے کی ظاہری ثقافت کا آئینہ ہے۔ عوامی ثقافت کا دوسرا حصہ جو پہلے حصے کی ہی مانند ایک قوم کی تقدیر طے کرنے میں موثر ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فورا ظاہر ہو جاتے ہیں اور انہیں بآسانی محسوس بھی کیا جاتا ہے یعنی یہ ثقافتی امور خود تو نمایاں اور واضح نہیں ہیں لیکن ان کے اثرات معاشرے کی ترقی اور اس کی تقدیر کے تعین میں بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اخلاقیات ہیں، یعنی معاشرے کے افراد کی ذاتی اور سماجی زندگی کا طور طریقہ کیسا ہے؟ عوامی ثقافت میں انسان دوستی، مرد میداں ہونا، خود غرضی اور آرام طلبی سے دور ہونا، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینا وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ بنابریں ثقافت معاشرے کے پیکر میں روح اور جان کا درجہ رکھتی ہے۔ قوموں پر تسلط اور غلبے کے لئے اغیار اپنی تہذیب و ثقافت کی ترویج کی کوشش کرتے ہیں جو کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ بہت پہلے سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے۔ البتہ پچھلے سو دو سو برسوں سے مغربی ممالک نے جدید وسائل کے استعمال سے اپنے تمام اقدامات کو بہت زیادہ منظم کر لیا ہے۔ اب وہ یہی کام پوری منصوبہ بندی سے کر رہے ہیں اور وہ ان مقامات اور پہلوؤں کی نشاندہی کر چکے ہیں جہاں انہیں زیادہ کام کرنا ہے۔ دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اپنی ثقافت کو بیگانہ ثقافتوں کی یلغار کا نشانہ بننے اور تباہ و برباد ہونے دیا تو نابودی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ غلبہ اسی قوم کو حاصل ہوا جس کی ثقافت غالب رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت کا غلبہ بہت ممکن ہے کہ سیاسی، اقتصادی، اور فوجی غلبے کی مانند ہمہ گیر برتری کا پیش خیمہ ہو۔ ثقافتی تسلط، اقتصادی تسلط اور سیاسی تسلط سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر ایک قوم نے دوسری قوم پر ثقافتی اور تہذیبی غلبہ حاصل کر لیا تو قومی تشخص پر سوالیہ نشان لگ جانے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ، اس کے ماضی، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کے تشخص، اس کے علمی، مذہبی، قومی، سیاسی اور ثقافتی افتخارات سے جدا کر دیا جائے، ان افتخارات کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے، اس کی زبان کو زوال کی جانب دھکیل دیا جائے، اس کا رسم الخط ختم کر دیا جائے تو وہ قوم اغیار کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ اب یہ قوم زندگی سے محروم ہو چکی ہے۔ اب اس کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ کوئی عظیم شخصیت پیدا ہو جو اسے اس صورت حال سے باہر نکالے۔ ثقافتی یلغار یہ ہے کہ کوئی گروہ یا سسٹم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کسی قوم کو اسیر بنا لے۔ اس کی ثقافتی بنیادوں کو نشانہ بنائے۔ یہ سسٹم اس قوم میں کچھ نئی چیزیں اور افکار متعارف کراتا ہے۔ پھر انہی افکار و نظریات اور طرز عمل کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی کو ثقافتی یلغار کہتے ہیں۔ ثقافتی تعاون اور لین دین کا مقصد موجودہ ثقافت کو مستحکم اور کامل بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ ثقافتی یلغار میں ایک ثقافت کو نشانہ بناکر مٹا دیا جاتا ہے۔ ثقافتی لین دین میں جو قوم کسی دوسری قوم سے کچھ حاصل کرتی اور لیتی ہے، وہ دوسری قوم کی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتی ہے، اس کی خوبیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور پھر انہی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے مثال کے طور پر علم و دانش وغیرہ۔ ثقافتی لین دین میں انتخاب کا اختیار ہمارے پاس ہوتا ہے جبکہ ثقافتی یلغار میں انتخاب دشمن کرتا ہے۔ ثقافتی لین دین اس لئے ہوتا ہے کہ خود کو کامل بنایا جائے یعنی اپنی قومی ثقافت کو کامل بنایا جائے جبکہ ثقافتی یلغار اس لئے ہوتی ہے کہ ایک ملک کی ثقافت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ثقافتی لین دین اور تعاون اچھی چیز ہے لیکن ثقافتی یلغار بہت مذموم شیء ہے۔ ثقافتی تعاون، دو مضبوط ثقافتوں میں انجام پا سکتا ہے لیکن ثقافتی یلغار ایک طاقتور قوم کمزور قوم پر کرتی ہے۔ مغربی ثقافت اچھائیوں اور برائيوں کا مجموعہ ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مغربی ثقافت میں صرف برائياں ہی برائياں ہیں۔ جی نہیں، مغربی ثقافت بھی مشرقی ثقافتوں کی مانند خوبیوں اور عیوب کا مجموعہ ہے۔ ایک دانشمند اور علم دوست قوم اور صاحبان عقل و خرد دوسروں کی خوبیاں اپنی ثقافت میں شامل کر لیتے ہیں لیکن ان کی برائیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اسلامی ثقافت ایک معیاری ثقافت ہے، جو ایک معاشرے کے لئے اور انسانوں کے کسی بھی گروہ اور جماعت کے لئے اعلی ترین اقدار و معیارات کی حامل ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کو سربلند و سرفراز اور عزیز و با وقار بنا کر ترقی و کامرانی کی راہ پر لگا سکتی ہے۔ امت مسلمہ مختلف قوموں، نسلوں اور مکاتب فکر سے تشکیل پائی ہے۔ قدیمی ترین تہذیبیں اور وسیع ثقافتیں انہی علاقوں میں پھلی پھولی اور فروغ پائی ہیں جہاں آج مسلمان آباد ہیں۔ یہ تنوع، یہ رنگا رنگ انداز، کرہ زمین کے حساس علاقوں کی مالکیت امت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں۔ تاریخ و ثقافت کی مشترکہ میراث اس امت کی طاقت میں اور بھی اضافہ کر سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہفتے کی صبح تہران میں علم و صنعت یونیورسٹی کے ہزاروں طلبا کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے طلبا کی تحریک کی خصوصیات اور کارکردگی پر روشنی ڈالی اور یونیورسٹی کو علم و تحقیق اور امنگوں پر توجہ جیسی دو حیاتی تحریکوں کا دائمی سرچشمہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر عوام اور حکام اسلامی نظام کے تشخص کے بنیادی معیاروں کی حفاظت کریں تو کوئی بھی دشمن، ملک کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے چوبیس آذر تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق چودہ دسمبر دو ہزار آٹھ کو تہران کی معروف علم و صنعت یونیورسٹی کے طلبا و اساتذہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں ملک کے لئے علم و صنعت یونیورسٹی اور طلبا کی اہم خدمات اور ان کے اہم فرائض پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اکواڈور کے صدر رافائیل کورےیا سے ملاقات میں فرمایا کہ مسلمہ حقوق کے حصول کے سلسلے میں قوموں کی استقامت، پیشرفت کا واحد راستہ ہے۔
میدان عرفات اللہ اکبر اور امریکہ مردہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا.سرزمین عرفات پر آج اس وقت حجاج کرام کے اللہ اکبر امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے نعرے گونج اٹھے جب حجاج کرام نے سنت ابراہیمی کے مطابق برائت از مشرکین کا روح پرور اجتماع منعقد کیا ۔اس موقع پر ایرانی حج مشن کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محمدی ری شہری نے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام بڑھ کر سنایا ۔
قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے کمانڈروں اور عہدہ داروں سے ملاقات میں بڑی طاقتوں کی خواہشات و مطالبات کو در خور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے رہنے کے ملک کی بحریہ کے تجربات کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ یہ ملک اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور میدان عمل میں اپنے تمام تر وسائل کے استعمال کے ذریعے علاقے کی بڑی طاقت بن چکا ہے اور آج دشمن بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج لبنان کے صدر مشل سلیمان اور ان کے ہمراہ تہران آنے والے اعلی سطحی وفد سے ملاقات میں مختلف لبنانی جماعتوں اور گروہوں کے درمیان اتحاد کو ملک کی پیشرفت و ترقی کا واحد راستہ قرار دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا خیال ہے کہ لبنان کی تمام جماعتوں اور گروہوں کی توانائیاں صیہونی حکومت کے خطرات کے مقابلے میں لبنان کے قومی اقتدار اعلی اور اتحاد کی مضبوطی کے لئے استعمال کی جانیچاہئے۔
امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے اہداف
تبلیغ حقیقت کے مقام میں، امام حسین علیہ السلام کی تحریک حق و انصاف کی برقراری کے لئے تھی: «انّما خرجت لطلب الاصلاح فى امّة جدّى اريد ان امر بالمعروف وانهى عن المنكر ...» زیارت اربعین میں جو بہترین زیارتوں میں سے ہے ہم پڑھتے ہیں : «و منحالنّصح و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك من الجهالة و حيرةالضّلاله» آپ راستے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی معروف حدیث بیان کرتے ہیں «ايهاالنّاس انّ رسولاللَّه صلّىاللَّه عليه و اله و سلّم قال: من رأى سلطانا جائرا مستحلّا لحرم اللَّه ناكثا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و اله و سلم يعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان فلم يغيّر عليه بفعل و لاقول كان حقّا علىاللَّه ان يدخله مدخله».
آپ کے تمام اقوال اور افعال نیز آپ کے بارے میں معصومین سے منقول تمام اقوال ثابت کرتے ہیں کہ مقصد، حق و انصاف کا قیام و دین خدا کی تبلیغ اور شریعت کی حکمرانی اور ظلم و جور و سرکشی کی بیخ کنی تھا۔ مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر انبیاء کے راستے کو نمایاں رکھنا تھا۔ يا وارث ادم صفوةاللَّه يا وارث نوح نبىّاللَّه ...» اور یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کو کس لئے بھیجا گیا تھا : «ليقومالنّاس بالقسط». یعنی عدل و انصاف کے قیام اور اسلامی حکومت و نظام کی تشکیل کے لئے۔
جس چیز نے ہماری تحریک کو سمت عطا کی وہ وہی چیز ہے جس کی راہ میں حسین بن علی علیھما السلام نے قیام کیا تھا۔ آج ہم اپنے ان شہدا کا جو مختلف محاذوں پر اس نظام کی راہ میں اور اس کے تحفظ کے لئے شہید ہوتے ہيں، سوگ مناتے ہیں۔ جو شہید مسلط کردہ جنگ یا پھر انواع و اقسام کے دشمنوں، مناففوں اور کفار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہے اس کے سلسلے میں ہمارے عوام میں کسی طرح کا شبہہ نہيں پایا جاتا کہ وہ شہید اسی نظام کی راہ میں شہید ہوا اور اسی نظام اور انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے کے لئے شہید ہوا ہے۔ حالانکہ آج کی شہادت کی کیفیت، کربلا کے ان شہدا سے مختلف ہے جنہوں تنہائی اور بے کسی کے عالم میں قیام کیا اور کسی نے بھی انہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب نہيں دی تھی بلکہ تمام لوگ اور اسلام کی بڑی شخصیتیں انہیں منع کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ایمان و ایقان اتنا زیادہ تھا کہ وہ گئے اور مظلومیت کے عالم میں شہید ہو گئے۔ شہدائے کربلا کی حالت، ان شہدا سے مختلف ہے جنہیں تمام تشہیراتی وسائل اور سماج کے اہم لوگ ترغیب دلاتے ہیں کہ جاؤ آگے بڑھو اور وہ چلے جاتے ہیں اور پھر شہید ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ شہید بھی عظیم مرتبہ رکھتا ہے لیکن ان شہداء (کربلا) کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں اور آپ سب لوگوں کو، خاص طور پر شہدا کے گھر والوں اور ان جوانوں اور نوجوانوں کو جو ہمارے ملک کے سب سے زیادہ محبوب و اور جاں نثاری کے پیکر جانبازوں کی یادگار ہیں اور اسی طرح جنگ میں زخمی ہونے والوں اور ان کےگھر والوں کو اور ان تمام لوگوں کو جو ملکی امور میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں ۔
اس نشست میں موجود تقریبا سب یا آپ میں سے اکثر ، پر جوش نوجوان اور ملک و انقلاب کے حال و مستقبل کی امیدیں ہیں۔ آپ ملک کے حال و مستقبل میں اہم کردار کے حامل اور جوش و ولولے سے سرشار ہیں۔ آپ لوگوں کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ملک و قوم کے لئے عزت و سربلندی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس نشست میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور ان کی قربانیوں کا ذکر ہواور ہم ان سے درس حاصل کریں خاص طور پر اس لئے بھی کہ یہ ایام، ماہ صفر کے آخری ایام ہیں اور یہ دو مہینے جن کے دوران عاشور کے واقعے کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ختم ہو رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں، جو چہلم کے دن پڑھی جاتی ہے ایک بہت ہی پر معنی جملہ ہے اور وہ یہ ہے : «و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك منالجهالة». حسین ابن علی علیھما السلام کی قربانی کا فلسفہ اس جملے میں پوشیدہ ہے ۔ زائر خداوند عالم سے عرض کرتا ہے تیرے اس بندے(حسین) نےاپنا خون قربان کر دیا تاکہ لوگ جہالت سے نجات پا جائيں۔ «وحيرةالضّلالة» لوگوں کوگمراہی کی پریشانی و سرگردانی سے نجات دلا دیں۔ غور کریں یہ جملہ کتنا پر معنی و پر مغز ہے اور اس میں کتنے جدید معانی و مفاہیم ہیں
جنگ سے متاثرین، اساتذہ اور کھلاڑیوں کے ایک مجمع سے خطاب سے اقتباس 1990-9-12
میں امام حسین علیہ السلام کے اقوال او خطبوں میں، کہ جو اہم نکات سے لبریز ہیں اور میرا مشورہ ہے کہ لوگوں سے رسا و واضح زبان میں بات کرنے کے لئے آپ امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور خطبوں سے زيادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس جملے کو اس نشست کے لئے مناسب سمجھتا ہوں جس میں آپ نے فرمایا ہے : «اللّهم انّك تعلم انّ الّذى كان منا لم يكن منافسة فى سلطان ولاالتماس شىء من فضول الحطام»؛ پروردگارا! یہ جو ہم نے اقدام کیا ہے، یہ جو ہم نے قیام کیا ہے، یہ جو ہم نے فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں تجھے معلوم ہے کہ وہ اقتدار کے لئے نہیں ہے۔ اقتدار کسی انسان کا ہدف نہيں ہو سکتا۔ ہم عنان حکومت ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے، دنیوی جاہ و مقام کے لئے بھی ہمارا قیام نہیں ہے کہ ہم پر تعیش زندگی گزاریں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھائيں، مال و دولت جمع کریں ۔ ان سب چیزوں کے لئے نہيں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کس لئے ہے ؟ آپ نے کچھ جملے فرمائے ہیں جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں ہر دور کے لئے یہ ایک درس اور رہنمائی ہے ۔ «ولكن لنرى المعالم من دينك» دین کے پرچم لوگوں کے لئے لہرائيں اور (یہ پرچم) اس(دین) کی نشانیاں ان(لوگوں) کی نظروں کے سامنے لے آئيں۔
نشانیاں اہم ہیں۔ شیطان ہمیشہ اہل دین کے درمیان تحریف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غلط راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا بس چلے تو لوگوں کو دین سے علاحدگی پر اکساتا ہے تاکہ زہریلے پروپیگنڈوں اور نفسانی خواہشات کی آگ بھڑکا کر لوگوں سے ان کا دین و ایمان چھین لے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو یہ کرتا ہے کہ دین کی علامتوں اور مظاہر کو غلط جگہوں پر نصب کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ جب کسی سڑک پر چل رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ علامت کسی ایک سمت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ اب اگر کسی بدعنوان شخص نے اس علامت کوبدل دے اور اسے دوسری سمت میں موڑ دے۔ (تو اس کا نتیجہ راہرو کی گمراہی کی صورت میں نکلے گا۔) امام حسین علیہ السلام اپنا اولین ہدف یہ قرار دیتے ہیں : «لنرى المعالم من دينك و نظهر الاصلاح فى بلادك»؛اسلامی ممالک سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ دیں اور اصلاح کریں۔ اصلاح یعنی کیا ؟ یعنی بدعنوانی کا خاتمہ۔ بد عنوان یعنی کیا ؟ بدعنوان کی بہت سی قسمیں ہیں: چوری بدعنوانی ہے، غداری بدعنوانی ہے، دھونس و دھاندلی بدعنوانی ہے، اخلاقی انحطاط بدعنوانی ہے، غبن بدعنوانی ہے، اپنوں سے دشمنی بد عنوانی ہے، دین کے دشمنوں کی طرف جھکاؤ بد عنوانی ہے، دین مخالف چیزوں میں دلچسپی کا مظاہرہ بدعنوانی ہے۔ سب کچھ دین کے سائے میں وجود پاتا ہے۔ اس کے بعد کے جملوں میں آپ فرماتے ہيں: «و يأمن المظلومون من عبادك»؛ تاکہ تیرے مظلوم بندے محفوظ رہیں، اس سے مراد سماج کے مظلوم لوگ ہیں، نہ کہ ظالم، نہ ظالمانہ روش رکھنے والے، نہ ظلم کی تعریف کرنے والے، نہ ظالموں کے ہرکارے ! مظلوم وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس کچھ نہ ہو، کوئی چارہ نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ سماج کے ستائے ہوئے لوگ اور کمزور افراد چاہے جس سطح پر اور چاہے جہاں ہوں انہیں تحفظ حاصل ہو۔ عزت آبرو سلامت رہے، مال و دولت سلامت رہے، انصاف کے تقاضے پورے ہوں، یہ وہ چیزیں ہیں جو آج دنیا میں نہيں ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اس صورت حال کے بالکل مخالف سمت میں جانا چاہ رہے تھے جو اس ظالمانہ دور پر محیط تھی۔ آج بھی اگر آپ دنیا کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ پھر وہی حالات ہیں۔ دین کے پرچم کو ہٹایا جا رہا ہے، خدا کے مظلوم بندوں پر مزید ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور ظالم کے ہاتھ مظلوموں کے خون میں سنتے جا رہے ہیں۔
دیکھیں دنیا مں کیا ہو رہا ہے؟! دیکھیں کوسوو کے مسلمانوں کےساتھ کیا ہوا؟! پانچ لاکھ بلکہ اس سے بھی زيادہ، انسانوں، بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں اور بیماروں کے ساتھ کیا کیا گیا؟! صحراؤں میں، سرحدوں پر، وہ بھی پر امن سرحدوں پر نہيں، دشمن کے سامنے وہ بھی ایسے دشمن کے سامنے جو ان کے راستے پر بارودی سرنگ بچھاتے ہيں ، اور پیچھے سے گولیاں برساتے ہيں، مقصد ان سب کو ختم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، بس یہ عرض کر دوں کہ منصوبہ یہ ہے کہ بلقان میں مسلمانوں کو تباہ اور بکھیر دیا جائے۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت، ایک اسلامی گروہ کی تشکیل کو روک دیا جائے۔ خواہ وہ جیسی اسلامی حکومت ہو۔ چاہے ایسا اسلامی گروہ ہو جس کے کانوں تک سو برسوں سے صحیح اسلامی تعلیمات نہ پہنچی ہوں۔ کیونکہ وہ بھی ان کے لئے خطرناک ہے! انہیں معلوم ہے کہ اگر بلقان کے مسلمانوں کی آج کی نسل مثال کے طور پر اسلام سے آشنا نہ بھی ہو تب بھی ان کی کل کی نسل اسلام سے آشنا ہو جائے گی۔ ان کے اندر اسلامی شناخت اور اسلامی بیداری خطرناک ہے۔ ان کے کچھ لوگوں نے اپنے بیانوں میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں لیکن اس ٹکراؤ اور لڑائی میں جس چیز پر توجہ نہیں ہے اور جس چیز کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور بس زبانی طور پر کچھ باتیں کہی جاتی ہيں وہ مظلوم مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ «يأمن المظلومون من عبادك». ہر قیام ، ہر انقلاب، ہر اسلام پسندانہ اقدام بلکہ دین خدا کے اقتدار کا مقصد، مظلوموں کی حالت پر توجہ اور الہی فرائض و احکام پر عمل در آمد ہے۔ امام حسین علیہ السلام آخر میں فرماتے ہیں : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك». آپ کا مقصد یہ چیزیں ہیں ۔ اب مثال کے طور پر کوئی صاحب کہیں سے آتے ہیں اور اسلامی علوم اور امام حسین علیہ السلام کے بیانات سے معمولی سی آشنائی اورعربی زبان کے ایک لفظ سے بھی واقفیت کے بغیر، قیام حسینی کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہيں کہ امام حسین علیہ السلام نے فلاں ہدف کے لئے قیام کیا تھا ! (تو سوال اٹھتا ہے کہ) آپ یہ کہاں سے کہ رہے ہیں؟ یہ امام حسین علیہ السلام کا کلام ہے : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك»؛ یعنی امام حسین علیہ السلام اپنی اور اس دور کے پاکیزہ ترین انسانوں کی جانیں قربان کرتے ہیں تاکہ لوگ الہی احکام پر عمل کریں۔ کیوں؟ کیونکہ سعادت الہی احکام پر عمل میں ہے ۔ کیونکہ انصاف، دینی احکام پر عمل میں ہے کیونکہ انسان کی آزادی و حریت، دینی احکام پر عمل میں ہے۔ وہ آزادی کہاں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ دینی احکام کے زیر سايہ ہی انسانوں کی آرزوئيں پوری ہوتی ہیں ۔
آج کا انسان ، ایک ہزار سال قبل یا دس ہزار سال قبل کے انسان سے، بنیادی ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف نہيں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہ ہیں: وہ امن و تحفظ چاہتا ہے، آزادی چاہتا ہے، شناخت چاہتا ہے، پر سکون زندگی چاہتا ہے۔ امتیازی سلوک سے دوری چاہتا ہے۔ ظلم سے بچنا چاہتا ہے۔ ہر زمانے کی ضرورتوں کی تکمیل، ایسی چیز ہے جو ان ضرورتوں کے دائرے اور سائے میں ممکن ہے۔ یہ بنیادی ضرورتيں صرف دین خدا کے سائے میں ہی پوری ہو سکتی ہیں اور بس۔ یہ دنیا کے تمام ازم اور یہ انسانی مکاتب فکر اپنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ، انسانوں کو نجات دینے پر قادر نہيں ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مادیات، یعنی دولت، وہ بھی دولت کی ہر قسم کچھ لوگوں کے لئے اچھی زندگی کا باعث بنتی ہیں لیکن کیا یہ انسان کی ضرورت ہے؟ آج کے انسان کی ضرورت یہ ہے کہ فلاں ملک میں قومی پیداوار اتنے ارب تک پہنچ گئ ہے جبکہ یہ پیداوار اسی سماج کے بہت سے لوگوں کا پیٹ بھرنے پر قادر نہيں ہے؟ کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہيں؟
اس کا کیا فائدہ کہ ملک مالدار رہے لیکن اس میں بہت سے لوگ بھوکے رہیں۔ پیداوار زیادہ ہو لیکن سماج میں امتیازی سلوک اور لوگوں میں تفریق ہو۔ کچھ لوگ ایسے ہوں جو ملک کی بے پناہ دولت کے سہارے عوام کے ایک بڑے حصے پر ظلم کرنے پر قادر ہوں۔ اپنی مرضی چلائيں اور طاقت کا غلط استعمال کریں ! کیا اس کے لئے انسان کا کام کرنا مناسب ہے؟ کیا اس چیز کے لئے انسان کی جانب سے قربانی پیش کرنا مناسب ہے؟ قربانی، عدل و انصاف و آزادی و خوشحالی و قلبی سکون کے لئے دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ دین سے حاصل ہوتا ہے۔ قربانی اس لئے ہوتی ہے تاکہ انسان اچھے سلوک اور اچھی صفات سے آراستہ ہو جائيں۔ انسانوں میں باہمی محبت کا جذبہ ہو۔ اس چیز کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس کی تشہیر کریں اس چیز کو رائج کریں ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں، میں نے ایک حدیث دیکھی ہے اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لئے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک «رفيق فيما يأمر و رفيق فيما ينهى» ہے جہاں نرمی مناسب ہو وہاں نرمی کرے ویسے اکثر اوقات نرمی کا ہی مقام ہوتا ہے۔ تاکہ محبت کے توسط سے ان حقائق کو لوگوں کے دل و دماغ میں اتارا جا سکے۔ تبلیغ اسی لئے ہوتی ہے۔ تبلیغ الہی و اسلامی احکام کو حیات نو بخشنے کے لئے ہوتی ہے ۔
آج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں یہ موقع حاصل ہے اور مالداروں کے دل میں دین کا درد ہے ہاں غیر ملکی پروپگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کے حکام اور اہم لوگ یا ان میں سے کچھ لوگوں کو دینی امور میں دلچسپی نہيں ہے۔ جی نہيں ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کی تو سمجھ میں نہيں آتا اور کچھ دوسرے لوگ عمدا چشم پوشی کرتے ہيں وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح سے پروپیگنڈہ کریں وہ لوگوں کو بد گمان کرنا چاہتے ہيں۔ آج ہمارے ملک میں، صف اول کے حکام کے دل میں دین کا درد ہے۔ دین کے بارے میں انہيں جتنا علم ہے اس پر سماج میں عمل در آمد چاہتے ہیں۔ حالات سازگار ہیں۔ البتہ یہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں لیکن آپ لوگوں کو مسجد و امام بارگاہوں اور عزاداری کے دوران تبلیغ کا جو موقع حاصل ہوا ہے اسے غنیمت سمجھیں، اس کی قدر کریں یہ بہت زیادہ موثر اور بابرکت ہے۔
لوگوں کی رہنمائی کریں ، لوگوں کے ذہنوں میں روشنی بھریں، لوگوں کو دین کے بارے میں معلومات بڑھانے کی جانب راغب کریں۔ انہیں صحیح دین کی تعلیم دیں۔ انہيں اخلاقی فضائل سے آشنا کریں۔ عمل اور زبان کے ذریعے اخلافی خوبیاں ان میں پیدا کریں، لوگوں کو نصحت کریں۔ خدا کے عذاب، خدا کے قہر و غضب اور آتش دوزخ سے انہیں ڈرائيں۔ انہيں ڈرائيں، ڈرانے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اسے نہ بھولیں، انہيں خدا کی رحمت کی خوشخبری دیں۔ مومنین، صالحین، مخلصین اور با عمل لوگوں کو بشارت دیں۔ انہيں عالم اسلام کے بنیادی مسائل اور ملک کے بنیادی معاملات سے آگاہ کریں۔ تب اسے وہ روشن مشعل کہا جائے گا جسے آپ میں سے جو بھی جہاں بھی جلائے گا وہاں لوگوں کے دل روشن ہو جائيں گے۔ آگاہی پیدا ہوگی، سرگرمی پیدا ہوگی، ایمان میں استحکام پیدا ہوگا۔ اس ثقافتی یلغار اور دشمن کے حملے کا مقابلہ کرنے کا سب سے اہم حربہ یہی ہے۔ مجھے بڑی تشویش ہے۔ وہ نہيں چاہتے کہ نوجوان، مومن، بہادر، آگاہ، اچھی فکر والے علماء، مختلف مقامات پر، یونیورسٹیوں میں، بازار میں، گاؤں میں، شہر میں اور کارخانے میں اپنا کام کریں۔ ان کی سازشوں سے مقابلے کے لئے آپ کا وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جسے اخلاص کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے «لم يكن منافسة فى سلطان ولا التماس شىء من فضول الحطام».
محرم کے موقع پر علماء و مبلغین سے ایک خطاب سے اقتباس 1999-4-12
انسان نے طول تاریخ میں سب سے زيادہ غلطیاں گناہ اور لاپروائی ، حکومتی شعبے میں انجام دی ہں جو گناہ حاکموں، بادشاہوں اور لوگوں پر مسلط تاناشاہوں نے کئے ہیں ان کا موازنہ عام لوگوں کے بڑے بڑے گناہوں سے نہيں کیا جا سکتا۔ اس شعبے میں انسان نے عقل و خرد و اخلاقیات و حکمت کا کم ہی استعمال کیا ہے۔ اس شعبے میں عقل و منطق، دیگرشعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں کم ہی استعمال ہوئی ہے اور جن لوگوں نے اس بے عقلی و بد عنوانی و گناہوں کی سزا بھگتی ہے وہ عام لوگ رہے ہيں کبھی ایک ہی سماج کے عام لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں اور کبھی کئی سماجوں کے افراد۔ یہ حکومتیں شروع میں تو کسی ایک فرد کی آمریت کی شکل میں رہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی انسانی سماجوں میں تبدیلیوں کی وجہ سے ایک منظم آمریت میں بدل گئيں۔ اس لئے انبیاء کی سب سے اہم ذمہ داری ظالم بادشاہوں اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو ضائع کیا ہے «و اذا تولّى سعى فى الأرض ليفسد فيها و يهلك الحرث و النسل»؛ قرآن کی آیتوں میں ان بد عنوان حکومتوں کو ان دہلا دینے والے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی کوشش تھی کہ ظلم و جور کو عالمگیر بنا دیں۔ «ألم ترى الى الّذين بدّلوا نعمة اللَّه كفراً و احلّوا قومهم دارالبوار جهنّم يصلونها و بئس القرار» ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کا، انسانوں کو حاصل نعمتوں اور قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کیا اور ان انسانوں کو، جنہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا تھا، ان کے کفران نعمت سے بنائی گئ جہنم میں جلا ڈالا۔ انبیاء نے ان کا مقابلہ کیا۔ اگر انبیاء دنیا کے ظالم و آمروں کے سامنے ڈٹ نہ جاتے تو جنگ و جدال کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ جو قرآن میں کہا گیا ہے کہ «و كأيّن من نبىّ قاتل معه ربيّون كثير» بہت سے پیغمبروں نے مومنوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تو اس سے مراد کون سے لوگوں کے خلاف جنگ ہے؟ انبیاء کی جنگ میں مد مقابل یہی بدعنوان حکومتیں، تباہ کن طاقتیں اور تاریخ کے آمر تھے جو بشریت کو تباہ کر رہے تھے۔ انبیاء در اصل انسانوں کے نجات دہندہ ہيں اسی لئے قرآن مجید میں انبیاء اور رسولوں کا ایک بڑا مقصد مساوات کی ترویج قرار دیا گیا ہے۔ «لقد ارسلنا رسلنا بالبيّنات و أنزلنا معهم الكتاب و الميزان ليقوم النّاس بالقسط» در اصل کتب آسمانی اور انبیاء کی آمد کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ سماج میں عدل و انصاف قائم کریں یعنی ظلم و بدعنوانی کے مظہر کو مٹا دیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایسی ہی تھی۔ آپ نے فرمایا : «انّما خرجت لطلب الأصلاح فى امّة جدّى».، اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا «من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرام الله او تاركا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسولاللَّه فعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثمّ لم يغيّر عليه بقول و لا فعل كان حقا على اللَّه أن يدخله مدخله»؛ یعنی اگر کسی کو ظلم و بدعنوانی کا مرکز نظر آئے اور وہ خاموش بیٹھا رہے، تو خدا اسے اس کے ہی ساتھ محشور کرے گا۔ آپ نے کہا کہ میں جبر و استبداد اور حکمرانی کے لئے نہيں نکلا ہوں۔ عراقی عوام نے امام حسین علیہ السلام کو حکومت کی دعوت دی تھی اور آپ نے ان کے اسی بلاوے کو قبول کیا۔
امام حسین علیہ السلام کو علم تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو ان کی خاموشی اور ان کے سکوت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ جب کوئی طاقت تمام سماجی وسائل کے ساتھ کسی سماج پر غالب ہو اور ظلم و جور کا راستہ اختیار کرے اور آگے بڑھے تو اگر حق کے علمبردار اس کے سامنے نہ کھڑے ہوں اور اس کے راستے کو نہ روکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تائید کرتے ہيں۔ یعنی اس صورت میں غیر ارادی طور پر اہل حق بھی ظلم و جور کے حامیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ گناہ تھا جس کے اس دور میں بڑے بڑے سردار اور بنی ہاشم کے بزرگان مرتکب ہوئے تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے ایسا نہيں کیا اور اسی لئے انہوں نے قیام کیا۔
منقول ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد مدینہ لوٹے تو ایک شخص نے آپ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا : اے فرزند رسول ! دیکھا آپ گئے تو کیا ہوا؟ وہ سچ کہہ رہا تھا یہ کاروان جب گیا تھا تو اس کی قیادت اہل بیت کے خورشید درخشاں، فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کر رہے تھے۔ بنت علی عزت و سرافرازی کے ساتھ گئی تھیں۔ علی کے بیٹے حضرت عباس، امام حسین علیہ السلام کے بیٹے، امام حسن علیہ السلام کے بیٹے، بنی ہاشم کے بہادر جوان سب لوگ اس قافلے میں موجود تھے لیکن جب یہ قافلہ واپس آیا تو اس میں صرف ایک مرد تھا، امام زين العابدین علیہ السلام۔ عورتوں کو اسیر کیا گیا۔ بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ امام حسین نہیں رہے، علی اکبر چلے گئے، یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلہ کے ساتھ واپس نہ آیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس شخص کو جواب دیا : سوچو اگر ہم نہ جاتے تو کیا ہوتا۔ جی ہاں اگر وہ لوگ نہ جاتے تو جسم تو زندہ رہتے لیکن روح کا وجود نہ رہتا، ضمیر مرجاتے۔ تاریخ میں عقل و منطق کو شکست ہوتی اور اسلام کا نام بھی باقی نہ رہتا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات میں ایک تقریر سے اقتباس 2002-3-18
حسینی وقار و افتخار
حسینی وقار و افتخار ہے؟ یہ کیسا افتخار ہے؟ جو امام حسین علیہ السلام کی تحریک سے آشنا ہے اسے علم ہے کہ یہ کیسا وقار ہے۔ تین نظریات کے تحت تین زاویوں سے تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جانے والی حسینی تحریک پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ تینوں پہلوؤں میں جو چیز سب سے زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے وہ عزت و سربلندی کا جذبہ ہے۔ ایک پہلو، طاقتور باطل کے مقابلے میں حق کی جد و جہد ہے جو امام حسین علیہ السلام نے اپنی تحریک کے ذریعے کی۔ ایک دوسرا پہلو امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں معنویت و اخلاقیت کا تجسم ہے۔ اس تحریک کے دامن میں ایک ایسی جد و جہد پنہاں ہے جو حق و باطل کی جنگ کے سماجی و سیاسی و انقلابی و اصلاحی تحریک کے پہلوؤں سے مختلف ہے اور وہ ہے انسانوں کا نفس اور باطن۔ جہاں انسان کے وجود کے اندر چھپے لالچ، کمزوریاں، محرومیاں، خواہشات نفسانی اسے بڑے قدم اٹھانے سے روکتی ہیں وہ جگہ ہے میدان جنگ۔ نہایت دشوار جنگ کا میدان، جہاں مومن مرد عورتیں امام حسین علیہ السلام کے پیچھے چل پڑتے ہیں، دنیا و ما فیہا، دنیوی لذتیں اور رنگینیاں، ان کی فرض شناسی کے سامنے ہیچ ہو جاتی ہے۔ ایسے انسان، جن کے باطن میں مجسم معنویت کی چمک غالب ہو جاتی ہے اور وہ ایک اعلی و نمونہ عمل انسان کی شکل میں تاریخ کے صفحات پر جاویداں ہو جاتے ہیں۔ تیسرا پہلو جو عام لوگوں کے درمیان زيادہ معروف ہے وہ عاشور کی مصیبتيں ، غم و اندوہ اور مصائب و آلام ہیں لیکن اس تیسرے پہلو میں بھی عزت و افتخار پوشیدہ ہے۔ غور و فکر کرنے والوں کو تینوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔
اول الذکر پہلو بھی جس میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایک عظیم انقلاب کی شکل میں ہویدا ہے، عزت و افتخار کا مظہر ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کون کھڑا تھا۔ وہ ظالم و بدعنوان حکومت تھی جو معاشرے کو ظلم کی چکی میں پیس رہی تھی۔ وہ اپنے زیر تسلط سماج پر ظلم و جور روا رکھتی تھی اور خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم و غرور و تکبر کا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔ یہ اس حکومت کی واضح خصوصیت تھی۔ اس کے نزدیک جس چیز کی بالکل اہمیت نہيں تھی وہ معنویت اور انسانوں کے حقوق تھے۔ اسلامی حکومت کو، اسلام سے قبل اور مختلف زمانوں میں موجود ظالم و جابر حکومت میں، بدل دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں کہ جب اسلامی نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومت کا نصب العین ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو دین اسلام کو مطلوب ہے تو حکومت کی نوعیت اور حاکم کا رویہ خاص اہمیت رکھتا ہے ۔
اس زمانے کے بزرگوں کے بقول امامت کو سلطنت میں بدل دیا گیا تھا۔ امامت سے مراد ہے دینی و دنیوی امور میں معاشرے کی قافلہ سالاری۔ ایک ایسے قافلے کی رہنمائی جس میں شامل تمام مسافر ایک ہی سمت میں ایک اعلی مقصد کی طرف گامزن ہوں اور امام، لوگوں کی رہنمائی کرے۔ اگر کوئی گم ہو جائے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راستے پر واپس لائے ۔ اگر کوئی تھک جائے تو اسے آگے چلنے کے لئے ہمت و حوصلہ دے۔ اگر کسی کا پیر زخمی ہو جائے تو اس کے پیر پر پٹی باندھے اور اس کی ہر طرح سے مدد کرے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں امام کہا جاتا ہے۔ سلطنت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موروثی بادشاہت، سلطنت کی ایک شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے سلطان ہیں جنہيں سلطان نہيں کہا جاتا لیکن ان کا باطن، دیگر انسانوں پر تسلط و ظلم و جور کے جذبے سے بھرا ہوتا ہے۔ کوئی بھی، چاہے جس دور میں ہو، اس کا جو بھی نام ہو، جب کسی ایک قوم یا کئ اقوام پر ظلم کرتا ہے تو اس کی حکومت کو، سلطنت کہا جاتا ہے۔ تمام زمانوں میں استعماری حکومتیں رہی ہيں اور آج اس کا مظہر امریکا ہے۔ یعنی کسی حکومت کا صدر، بڑی آسانی سے اور بغیر کسی اخلافی علمی و قانونی جواز کے، اپنے اور اپنی حامی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کو، کروڑوں انسانوں کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے اور اقوام عالم کے لئے احکامات صادر کرتا ہے تو اس کی حکومت کو استعمار کہتے ہیں۔ چاہے اس کے سربراہ کو سلطان کہا جائے یا نہ !
امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں، اسلامی امامت کو ایسا ہی بنا دیا گیا تھا اور امام حسین علیہ السلام نے اسی صورت حال کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی جد و جہد کا مقصد حقائق کو واضح کرنا، ذہنوں کو روشن کرنا، سماج کی ہدایت اور یزید اور اس سے پہلے کے دور میں حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنا تھا۔ بس یزید کے زمانے میں جو کچھ ہوا یہ تھا کہ ظلم و جور و گمراہی کے اس رہنما کو یہ توقع تھی کہ ہادی امام اس کی حکومت کی تائید کر دیں گے۔ بیعت کے یہی معنی ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ لوگوں کی ہدایت اور اس کی حکومت کی کجروی و گمراہی کو واضح کرنے کے بجائے اس ظالم حکومت کی تائید کریں! امام حسین علیہ السلام کا قیام یہیں سے شروع ہوا۔ اگر یزیدی حکومت کی جانب سے اس قسم کا احمقانہ و غلط مطالبہ نہ کیا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام دور اس انداز سے پرچم ہدایت اٹھاتے جس انداز سے بعد کے ادوار میں ائمہ معصومین نے بلند کئے۔ اسی انداز میں لوگوں کی ہدایت کرتے اور حقائق بیان فرماتے ۔ لیکن یزيد نے جہالت و تکبر اور انسانیت و انسانی خصائص سے دوری کی وجہ سے جسارت کی اور یہ توقع کر بیٹھا کہ امام حسین علیہ السلام ، اسلامی امامت کو سلطنت میں تبدیل کرنے کے اس کے سیاہ کارنامے کی تائید کریں یعنی بیعت کریں۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «مثلى لا يبايع مثله»؛ حسین یہ کام نہيں کر سکتے۔ امام حسین علیہ السلام کو ہمیشہ کےلئے حق کے علمبردار کی شکل میں باقی رہنا تھا۔ پرچم حق، باطل کی صفوں میں نہیں رہ سکتا اور نہ ہی باطل کی عار کو قبول کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا «هيهات منّا الذّلّة». امام حسین علیہ السلام کی تحریک ، عزت و وقار کی تحریک تھی ۔ یعنی حق کی آبرو، دین کی آبرو، امامت کی آبرو اور اس راہ کی آبرو بچانے کی تحریک تھی جس کی جانب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راہنمائی کی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام اسی آبرو کے مظہر تھے اور چونکہ جد و جہد کی اس لئے قابل فخر و مباہات بھی تھے۔ اسے حسینی عزت و افتخار کہتے ہيں۔ اگر کبھی کوئی شخص اپنی کوئی بات کہے اور اپنا عندیہ بیان کر دے لیکن اپنی بات پر ڈٹا نہ رہے بلکہ پیچھے ہٹ جائے تو اس صورت میں اس پر فخر نہيں کیا جا سکتا ۔ فخر اس شخص ، قوم و جماعت کو کرنا چاہئے جو اپنی بات پر ڈٹی رہے اور جو پرچم اٹھائے اسے طوفانوں کی زد سے بچائے رکھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اس کے لئے اپنے پیاروں کی قربانی و اسیری بھی قبول کی ۔ کسی انقلابی تحریک میں یہ فخر کا پہلوہوتا ہے۔ معنویت کے پہلو میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے کئ بار بیان کیا ہے کہ بہت سے لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور اس قیام پر ان کی ملامت کی وہ لوگ برے یا چھوٹے نہيں تھے کچھ تو بزرگان اسلام میں سے تھے لیکن باشعور نہيں تھے اور انسانی کمزوریاں ان پر غالب آ چکی تھیں اسی لئے وہ چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کو بھی اسی کمزوری میں مبتلا کر دیں۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے صبر کیا اور جھکے نہيں۔ جو لوگ بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ باطن کی اس معنوی جنگ میں فاتح قرار پائے۔ وہ ماں جس نے اپنے نوجوان بیٹے کو ہنستے ہوئے میدان جنگ میں بھیجا، وہ نوجوان جس نے زندگی کی ظاہری لذتوں سے منہ پھیر لیا اور خدا کی راہ میں قابل ستائش جہاد کیا۔ حبیب ابن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ جیسے بوڑھے ساتھی جو بڑی آسانی سے بڑھاپے کی آرام طلبی و اپنے گھر کے نرم بستروں کو بھول گئے اور عمدا سختیوں سے روبرو ہوئے، وہ بہادر سردار جس کا دشمن کی فوج میں ایک مقام تھا ، حر بن یزید ریاحی ، جنہوں نے اس مقام سے منہ پھیر لیا اور امام حسین علیہ السلام سے جڑ گئے یہ سب کے سب ، اس معنوی جنگ میں فاتح رہے ۔
اس دن جو لوگ اخلاقی اچھائیوں و برائيوں کی جنگ میں فاتح ہوئے اور عقل و جہل کے درمیان صف آرائی میں ، جن کی عقلیں جہل پر چیرہ دست ہوئيں ان کی تعداد مٹھی بھر سے زيادہ نہيں تھی لیکن شرف و عزت کی جنگ میں ان کی پائیداری و جواں مردی کی وجہ سے طول تاریخ میں آج کروڑوں انسانوں نے ان سے درس حاصل کیا اور انہيں کا راستہ اختیار کیا ۔ اگر ان کے وجود کی فضیلتوں کو ضلالتوں کے مقابل فتح نصیب نہ ہوتی تو تاریخ میں فضیلت کا درخت خشک ہو جاتا لیکن انہوں نے اس درخت کی آبیاری کی اور آپ نے اپنے زمانے میں بھی بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے باطن میں فضیلتوں کو فتح عطا کی اور اور نفسانی خواہشات پرقابو پاکر صحیح دینی نظریات پر عمل کیا ۔ یہی دو کوہہ نامی فوجی چھاونی اور ديگر چھاونیاں اور ملک کے مختلف میدان جنگ و محاذوں نے ایسے ہزاروں لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ آج دوسرے آپ سے سبق لے رہے ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ایسے لوگوں کی کمی نہيں ہے جو اپنے باطن میں، حق و حقیقت کو فاتح دیکھنا چاہتے ہيں۔ آپ کی پائیداری نے ، چاہے مقدس دفاع کے دوران ہو یا ديگر بڑے امتحانات کے موقع پر، ان فضیلتوں کو ہمارے زمانے میں پائیدار کیا ہے ۔ ہمارا زمانہ، مواصلاتی نظام کی ترقی کا زمانہ ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ قریبی رابطہ ہمیشہ شیطان اور شیطانی قوتوں کے مفادات میں نہيں ہوتا معونیت کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ دنیا والوں نے آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ فلسطین میں جو ایک ماں اپنے نوجوان بیٹے کو چومتی ہے اور میدان جنگ میں بھیج دیتی ہے اس کی ایک مثال ہے۔ فلسطین میں سالہا سال سے مرد و عورت ، بوڑھے و جوان لوگ تھے لیکن کمزوریوں اور جہل و غفلت پر غلبہ حاصل کرنے کی عدم توانائی کی وجہ سے فلسطین ذلت و رسوائی سے دوچار ہوا اور اس کی یہ حالت ہو گئ اور اس پر دشمنوں کا غلبہ ہو گیا۔ لیکن آج فلسطین کی صورت حال بدل چکی ہے۔ آج فلسطین اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ آج فلسطینی قوم ، اپنے باطن میں جاری جنگ میں معنویت کو فتح عطا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے اور اب فتح اسی قوم کی ہوگی ۔
تیسرے پہلوں میں بھی جو عاشورا کے مصائب کا پہلو ہے سر بلندی و فخر کے کارناموں کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ مصائب و شہادتیں ہیں۔ حالانکہ، بنی ہاشم کے ہر نوجوان کی شہادت، امام حسین علیہ السلام کے اطراف موجود بچوں اوربوڑھے اصحاب کی شہادت بہت غم ناک اور دردناک ہے لیکن ہر ایک میں عزت و افتخار و کرامت کے گوہر چھپے ہيں۔ یہاں پر آپ لوگوں میں سے اکثر نوجوان ہیں ۔ اس دو کوہہ فوجی چھاونی ميں بھی سیکڑوں نوجوان آئے اور چلے گئے۔ کربلا ميں ایثار کی حقیقی مثال پیش کرنے والے نوجوان کا مظہر کون ہے؟ امام حسین علیہ السلام کے بیٹے حضرت علی اکبر ۔ جو جوانان بنی ہاشم میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ جو ظاہری و باطنی خوبصورتی سے مالا مال تھے۔ جن میں امام حسین علیہ السلام کی امامت و ولایت کی معرفت اور شجاعت و قربانی اور دشمن کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور جنہوں نے اپنی جوانی کی امنگیں اور ولولے، اپنے اعلی مقصد پر قربان کر ديئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ غیر معمولی نوجوان میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے اور اپنے لئے پریشان عورتوں کی نظروں کے سامنے لڑتا ہے اور پھر خون میں ڈوبا اس کا جنازہ خیمے میں واپس آتا ہے۔ یہ معمولی غم نہيں ہے لیکن ان کا میدان جنگ میں جانا اور جنگ کی تیاری ، ایک مسلمان کے لئے عزت و فخر و مباہات کا عملی نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم فرماتا ہے «و للَّه العزّة و لرسوله و للمؤمنين».امام حسین علیہ السلام نے بھی ایسے نوجوان کو میدان جنگ میں بھیج کر ، معنوی کرامت کا مظاہرہ کیا ۔ یعنی اسلامی وقار و حکومت کا پرچم ، جو اسلامی امامت اور ظالم سلطنت کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے ، اسے مضبوطی سے تھامے رہے اور اپنے عزیز ترین فرزند کی جا کی قربانی پیش کر دی۔
آپ نے سنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب میدان جنگ میں جانے اور لڑنے کے لئے آپ سے اجازت مانگتے تھے اور امام فورا ہی اجازت نہيں دے دیتے تھے۔ کسی کو منع کر دیتے اور کسی سے کہتے تھے کہ وہ کربلا سے ہی چلا جائے، بنی ہاشم کے نوجوانوں اور اپنے اصحاب کے میں ان کی یہ روش تھی۔ لیکن علی اکبر جو ان کے بڑے ہی عزیز بیٹے تھے ، جب لڑنے کی اجازت مانگتے ہيں تو آپ اجازت دے دیتے ہيں یہاں پر بیٹے کی معرفت اور باپ کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
جب تک اصحاب تھے کہتے تھے ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں گی اور وہ بنی ہاشم کے کسی جوان یعنی امام حسن و امام حسین علیھم السلام کے بیٹوں کو میدان جنگ میں نہيں جانے دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے پہلے ہم جائيں گے اور مارے جائيں گے، ہمارے مرنے کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو وہ لوگ میدان جنگ میں جائيں اور جب بنی ہاشم کی شہادت کی باری آئی تو سب سے پہلے جس نے لڑنے کی اجازت طلب کی یہی فرض شناس نوجوان تھا ۔ وہ علی اکبر تھے، مولا کے بیٹے امام کے فرزند اور سب سے زيادہ ان کے محبوب۔ اسی لئے قربان ہونے کے لئے وہی سب سے زيادہ مناسب تھے۔ یہ بھی اسلامی امامت کا ایک مظہر ہے۔ یہ وہ جگہ نہيں تھی جہاں دنیوی لذات، مادی مفادات، مالی اہداف اور نفسانی خواہشات کی چیزیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ یہ تو جد و جہد و سختیوں کی منزل ہے۔ جو سب سے پہلے آگے بڑھتا ہے وہ علی ابن حسین ہيں۔ اس سے اس نوجوان کی معرفت کا پتہ چلتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام بھی اپنی روحانی عظمت کا مظاہرہ کرتے ہيں اور اپنے عزيز بیٹے کو میدان جنگ میں جانے کی اجازت دے دیتے ہيں ۔
یہ سب ہمارے لئے درس ہیں ، تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے درس ۔ وہی درس جس کی آج اور کل بھی بشریت کو ضرورت پڑے گی۔ جب انسان پر خود غرضی غالب رہتی ہے تو اس کی طاقت جتنی زيادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔ اگر انسان پر نفسانی خواہشات کا غلبہ رہتاہے، اگر انسان سب کچھ صرف اپنے لئے چاہتا ہے تو اس کی طاقت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی خطرناک اور خونخوار ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ دنیا میں دیکھتے ہيں۔ اسلام کا کمال یہی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو طاقت کی سیڑھیوں سے اوپر تک چڑھنے دیتا ہے تاکہ اس کے کچھ مرحلوں پر ان کا امتحان لیا جا سکے اور شاید وہ کامیاب ہو جائيں لیکن پھر اہم عہدے عطا کرنے سے قبل اسلام جو شرط پیش کرتا ہے وہ ان برائیوں سے نجات حاصل کرنے کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہم عہدہ داروں کو سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ سب سے زيادہ، اپنے ہاتھوں، زبانوں، افکار و اعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔ تقوی سب سے زيادہ ہمارے لئے ضروری ہے ۔ اگر کوئی بے تقوی شخص لوگوں پر حاکم ہو جاتا ہے،اگر ایٹم بم کا بٹن ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کے لئے انسانوں اور قوموں کی جانوں کی کوئی وقعت نہيں ہوتی اور نہ ہی نفسانی خواہشات سے دوری اس کے لئے کوئی حيثیت رکھتی ہے تو یہ انسانیت کے لئے خطرناک ہے۔ آج دنیا میں جو لوگ ایٹم بم اور تباہ کن اسلحے کے مالک ہیں انہیں اپنے نفس اور جذبات پر قابو رکھنا چاہئے لیکن افسوس کہ ایسا نہيں ہے۔ اسلام ان اقدار کو رائج کرنا چاہتا ہے اور دنیوی طاقتوں کی اسلام دشمنی کی وجہ بھی یہی ہے۔
دوکوہہ فوجی چھاونی میں ایک تقریر سے اقتباس
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج ستہرویں نماز کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں نماز کی صحیح ادائیگی کے ساتھ ہی اس کے پیرائے اور روح پر بھرپور توجہ کو انفرادی اور سماجی اصلاح کا کلیدی ترین عنصر قرار دیا۔ آپ نے تاکید فرمائی کہ اسلامی علامتیں بالخصوص نماز اسلامی معاشرے کے مختلف شعبوں میں عیاں اور نمایاں رہنی چاہئے اور تمام امور میں اس کا لحاظ کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بدھ انیس نومبر سن دو ہزار آٹھ کو تہران میں نماز کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں نماز کی اہمیت پر تاکید فرمائی آپ نے نماز کو صحیح طور پر ادا کرنے اور اس کے قالب و روح پر توجہ دینے کی ہدایت کی اور معاشرے میں نماز جیسی دینی علامتوں کے نمایاں رہنے کو ضرور قرار دیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج ادارہ حج کے انتظامی اور ثقافتی عہدہ داروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں فریضہ حج کو حجاج کرام، عظیم امت مسلمہ اور اسلامی جمہوری نظام کے لئے بہت اہم موقع فرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ حج مسلمانوں کے درمیان فطری اور غیر فطری جدائی کو دور کرکے قلوب کو ایک دوسرے کے نزدیک کرنے اور عالم اسلام میں نیتوں اور ارادوں کو پاکیزہ بنانے کا بہترین موقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ پانچ نومبر دو ہزار آٹھ کو ادارہ حج کے عہدہ داروں اور ملازمین سے ملاقات میں فریضہ حج کے مختلف سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معنوی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور حاجیوں کے لئے ضروری سہولیات بہم پہنچائے جانے کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکہ ملت ایران کو خود مختاری، سربلندی اور اسلامی تشخص کی راہ سے ہٹا نہیں سکتا اور علم و دانش، قوت و طاقت اور آسائش و عزت کی بلندیاں ملت ایران کا مقدر بن چکی ہیں۔ ایران میں چار نومبر کو منائے جانے والے نیشنل اسٹوڈنس ڈے اور سامراج کی مخالفت کے قومی دن سے قبل طلبا سے ملاقات میں آپ نے فرمایا کہ ایران اور امریکہ کا تنازعہ، سیاسی اختلاف نظر سے کہیں زیادہ گہرا اور بڑا ہے۔
ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلام پسندی عوام پسندی سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوام پسندی اسلام کی جڑوں میں پیوست ہے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں عوام کو نظر انداز کیا جائے۔ اس انتخاب میں عوام کے حق کی بنیاد و اساس خود اسلام ہے۔ لہذا ہماری جمہوریت جسے ہم دینی جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں ایک مستقل فلسفہ اور اساس رکھتی ہے۔ دینی جمہوریت کی بنیاد مغربی جمہوریت کی بنیاد سے مختلف ہے۔ مذہبی جمہوریت، جو ہمارا انتخاب ہے، اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ انسانی فرائض و حقوق پر استوار ہے۔ یہ کوئی آپس میں طے کر لیا جانے والا معاہدہ نہیں ہے۔ حقیقی جمہوریت وہی دینی جمہوریت ہے جو دینی فرائض اور ایمان کے تناظر میں پیش کی گئی ہے۔ ان حالات میں آپ چاہتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظریہ اور اسلامی جمہوری نظام یا دینی جمہوریت سے دنیا کو روشناس کرائیں تو یوں کہئے کہ جمہوری یعنی عوامی حکومت اور اسلامی یعنی دینی اصولوں اور تعلیمات پر استوار حکومت۔ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم نے دینی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا ہے یہ کوئی بالکل انوکھا نظریہ ہے۔ جی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ یعنی دینی جمہوریت۔ دینی جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ الہی رہنمائی اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق کوئی نظام پروان چڑھے۔ دنیا کے نظاموں کی مشکل یہ ہے کہ وہ یا تو الہی رہنمائی اور تعلیمات سے عاری ہیں جیسے مغرب کی نام نہاد جہموری حکومتیں، جوعلی الظاہر عوام کی منتخب کردہ ہیں لیکن وہ الہی رہنمائی سے بے بہرہ ہیں، یا اگر الہی رہنمائی کی حامل ہیں یا حامل ہونے کی دعویدار ہیں تو عوامی حمایت اور انتخاب سے عاری ہیں۔ بعض ان دونوں ہی چیزوں سے محروم ہیں۔ جیسا کہ بہت سے ملکوں میں نظر آتا ہے۔ یعنی نہ تو عوام ملک کے امور میں دخیل ہیں اور نہ ہی وہاں الہی تعلیمات کی پابندی کی جاتی ہے۔ اسلامی ثقافت میں ان افراد کو بہترین انسان قرار دیا گیا ہے جو عوام کے لئے زیادہ مفید و کارآدم ہوں۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کی پرخلوص اور بے لوث خدمت پر استوار ہے۔ یہ ان جمہوری نظاموں کے بالکل بر خلاف ہے جو عوام فریبانہ اور ریاکارانہ ہتھکنڈوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام میں فریضے کی ادائگی کی حیثیت سے پوری پاکدامنی کے ساتھ خدمت کی جاتی ہے۔ اسلامی نظام میں جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی دینی اصولوں سے ہم آہنگ حکومت یعنی اس نظام میں سب کچھ اسلامی معیاروں کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ چند افراد کے درمیان طے پا جانے والا کوئی آپسی معادہ نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوری نظام میں جہاں بھی ضرورت ہو وہاں عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہاں اسلامی عہد و پیمان ضروری ہوتا ہے۔ یہ مغربی ملکوں کے جمہوری نظام کی مانند نہیں ہے جو آپس میں طے کر لئے جانے چند اصولوں پر استوار ہوتا ہے اور جسے جب جی چاہے آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جمہوریت ایک مذہبی فریضہ ہے۔ حکام اس خصوصیت کی حفاظت کے لئے دینی طور پر عہد کرتے ہیں اور خدا کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی عظیم اصول ہے جو ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیان کردہ اصولوں میں سے ہے۔ مغربی جمہوریت کا مطلب ہے معاشرے پر حکومت کرنے والے دولتمندوں اور سرمایہ داروں کے مفادات اور خواہشات کی تکمیل۔ یہ نظام اسی دائرے میں محدود ہے۔ اس میں عوام کے انتخاب کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔ اگر عوام سرمایہ داروں کے مفادات کے بر خلاف کچھ چاہیں، اگر وہ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف کوئی مطالبہ کریں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسے در خور اعتنا سمجھا جائے گا۔ ایک مضبوط و مستحکم فصیل ان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے گرد موجود ہے جسے کسی بھی صورت میں توڑا نہیں جاتا۔ ماضی کے سوشیلسٹ ملکوں میں جو خود کو جمہوری ملک کہتے تھے یہ فصیل پارٹی کے ارد گرد ہوتی تھی۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے طور طریقے اور برتاؤ کی اصلاح کریں اور ملک کے حکام اگر اپنے لئے حقیقی معیار و میزان کے خواہاں ہیں تو دینی جمہوریت اکسیر ثابت ہو سکتی ہے۔ دینی جمہوریت کا ایک رخ یہ ہے کہ یہ نظام عوام کے فیصلے اور انتخاب کے تحت تشکیل پایا ہے یعنی خود عوام نے اس نظام کا انتخاب کیا ہے اور بنیادی ذمہ داریوں کے حامل حکمراں بالواسطہ یا بلا واسطہ خود عوام کے منتخب کردہ ہیں۔ دینی جمہوریت کا دوسرا رخ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اب جب مجھے اور آپ کو عوام نے منتخب کیا ہے تو ہم ان کے تئیں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ حقیقی معنی میں محسوس کریں۔ جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان انتخابی مہم کے تحت شور شرابا مچائے اور اس طرح لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کی کوشش کرے۔ جب لوگوں سے ووٹ مل جائيں تو پھر انہیں رخصت کر دے اور اس کے بعد ان کی طرف مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ جی نہیں جمہوریت کا پہلا مرحلہ تشکیل حکومت کی شکل میں جب پورا ہو جائے تو خدمت اور جوابدہی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ جمہوریت کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ آپ ایسے کام کی فکر میں رہیں جو اعتدال پسند افراد کی مرضی کے مطابق وسیع سطح پر عدل و مساوات کی برقراری میں مددگار ثابت ہوں۔ عام لوگوں سے رابطہ اور ان کے مفادات کا پاس و لحاظ جتنی وسیع سطح پر ہوگا وہ اتنا ہی عوام کی خوشنودی کا باعث بنے گا۔ وہ اسلامی نظام جو دین و پرچم توحید کے سائے میں چل رہا ہو بالکل واضح اور صریحی الفاظ میں اور حقیقی شکل و پیرائے میں جمہوریت کی مثال پیش کر سکتا ہے۔ یہ نظام نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کے استکباری پروپگنڈوں کے بالکل بر خلاف ہے۔ وہ (مغرب والے) دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت ان کی جاگیر ہے۔ یہ ان کے لئے نا قابل برداشت ہے کہ ایک دینی و اسلامی نظام اپنے ایمانی اقدار و معیارات کی پابندی کرتے ہوئے جمہوریت کا آئینہ دار بن جائے۔ ہم نے نہ تو مشرقی حکومتوں کو اپنا نمونہ عمل بنایا ہے اور نہ مغربی حکومتوں کو۔ ہم نے اسلام کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے اور ہمارے عوام نے اسلام سے پوری واقفیت کی بنا پر اسلامی نظام کا انتخاب کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک جلیل القدر عالمہ فاضلہ، معروف مترجم قرآن، شاعرہ اور مصنفہ محترمہ طاہرہ صفار زادہ کے انتقال پر ملال پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک تعزیتی پیغام جاری فرمایا جو مندرجہ ذیل ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیمعقل و فرزانگی شخصیت کی مالک، خلاقی صلاحیتوں سے سرشار شخصیت مصنفہ اور شاعرہ محترمہ طاہرہ صفار زادہ کے انتقال پر ان کے بازماندگان اور ملک کے حلقہ شعر و ادب کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اس با ایمان خاتون کی خدمات بالخصوص ان کے ہاتھوں انجام پانے والا ترجمہ قرآن کریم بارگاہ حق میں ان کی نیکیوں کے پلڑے کی گرانی کو یقینا بڑھا دے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت ان کے شامل حال ہو۔ سید علی خامنہ ای2008-10-26
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی میں تین شہدائے گمنام کے جنازوں کی تشییع و تدفین کی مناسبت سے ایک پیغام جاری فرمایا۔ تشییع جنازہ یونیورسٹی کے سامنے انجام پائی اور پھر جنازوں کو یونیورسٹی کی مسجد کے سامنے سپرد خاک کر دیا گیا۔ پیغام کا متن پیش نظر ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم شہدا کا احترام در حقیقت ایثار خلوص کی قدردانی ہے، ملکوتی قلوب اور پاکیزگی و نورانیت سے سرشار روحوں کا احترام ہے۔ شہدائے عزیز کی روحوں پر اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں۔ سید علی خامنہ ای2008-10-23
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی طلبہ کی اس یونین کے تینتالیسویں اجلاس کے نام ایک پیغام جاری کیا۔ پیغام کا متن پیش نظر ہے۔ بسم اللہ الرحمن ا لرحیم عزیز طلبہ ! علم و دانش کے حصول کے لئے آپ کی ہر کوشش، آپ کے ملک و ملت کے معنوی و مادی اقتدار کی بحالی کی راہ میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے جو ایک زمانے میں دنیا میں خلاقیت اور علم و دانش کی علمبردار تھی۔ اسلامی انقلاب سے وابستہ نسل (دوسروں پر) انحصار اور (دوسروں کی) پیروی کے زمانے کی پسماندگی سے نکل سکتی ہے۔ یہ ایک تاریخی فریضہ ہے۔ موضوع کے انتخاب، تعلیم و تعلم اور غور و فکر کے لئے آپ جو جد و جہد کرتے ہیں اس کے لئے ملک کی ضرورتوں کو اساس قرار دیجئے۔ پروردگار علیم و قدیر سے ہدایت و رہنمائی کی دعا کیجئے اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک اپنے پاکیزہ قلوب کو اس کی ہدایت و الطاف کا آئینہ بنائیے۔ یقین رکھئے کہ مستقبل اسی قوم کا (سنورتا) ہے جس کے نوجوان محنتی، امید سے سرشار اور فکر و نظر والے ہوں۔ میں آپ تمام عزیزوں کو اللہ تعالی کی پناہ میں دیتا ہوں۔ سید علی خامنہ ای 2008-10-23
اٹھائيس جون سن انیس سو اکیاسی کو تہران میں ایران کے اسلامی نظام کی تاریخ کا بڑا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ یہ ایرانی ہجری شمی سال کے چوتھے مہینے تیر کی سات تاریخ تھی۔ اس دن دہشت گرد گروہ ایم کے او نے ایک دہشت گردانہ حملے میں ایران کی عدلیہ کے سربراہ شہید بہشتی سمیت انتہائی اہم افراد کو شہید کر دیا۔ اس دہشت گردانہ واقعے کو ایران میں سانحہ ہفتم تیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر سال اسی مناسبت سے عدلیہ کے اعلی عہدہ دار اور شہدائے سانحہ ہفتم تیر کے بازمانگان کی قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات ہوتی۔ ان ملاقاتوں میں قائد انقلاب اسلامی نے سانحہ ہفتم تیر کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ ہم مختلف برسوں کی آپ کی تقاریر کے بعض اقتبسات یہاں پیش کر رہے ہیں۔ سانحہ ہفتم تیر اسلامی نظام کے استحکام کا ثبوتسانحہ ہفتم تیر ( اٹھائيس جون 1981) او اس کے عزیز شہیدوں بالخصوص شہید بہشتی ( رضوان اللہ تعالی )کی معروف شخصیت کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا: یہ سانحہ ایک لحاظ سے ایرانی قوم او اسلامی جمہوریہ ایران کی مظلومیت کا ثبوت تھا اور دوسرے لحاظ سے نظام کی طاقت اور استحکام کی سند ۔ سانحہ ہفتم تیر مظلومیت کی سند اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی مظلومیت کا مظہر ہے؛ کیونکہ وہ لوگ جو بظاہر دہشت گردی کے ساتھ جنگ کے دعویدار ہیں لیکن اصل میں کشور گشائی، دوسروں پر تسلط اور اپنے مادی اور سیاسی عزائم کے حصول کے درپے ہیں، ان ظالم دہشت گردوں کے ساتھ جو سانحہ ہفتم تیر کے مجرم ہیں، دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، ان کا ساتھ دیتے ہیں، ان کے ساتھ ملکر سازشیں تیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تئيں جذبہ ہمدردی رکھتے ہیں، درحالیکہ ان دہشت گردوں نے خود اقرار کیا ہے بلکہ فخریہ کہا اور کہتےہیں کہ ہفتم تیر کا دہشت گردانہ حملہ انہوں نے انجام دیا ہے۔ یہ ہے ایران کی مظلومیت کی سند اورملک کا مظلومانہ تشخص۔ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کا سانحہ نظام کے اقتدار اور استحکام کی علامتہفتم تیر کا سانحہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اور استحکام کی علامت بھی ہے۔ کیونکہ جو لوگ شہید بہشتی کی شخصیت کو جانتے تھے اور اس بڑی شخصیت کی فکری توانائيوں، تخلیقی صلاحیتوں اور قوت ارادی سے آگاہ تھے وہ لوگ خوب سمجھ سکتے تھے کہ ملک کے چلانے والوں میں ایسی مقبول اور اہم شخصیت کے فقدان کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ در حقیقت شہید بہشتی کی شخصیت اس مرکزی کردار کی طرح تھی جو تمام امور سے جڑی ہوئي تھی اور جس سے دوسروں کو حوصلہ ملتا تھا، آپ مسائل کی گتھیوں کے سلجھانے میں ماہر تھے۔ جب ایسی شخصیت کو جو انتظامی امور، عملی اقدامات، منصوبہ بندی، دینی امور اور فلسفیانہ نظریات، تجربات، روشن فکری اور وسعت نظر کے سلسلے میں بلند مقام اور مرتبے کی حامل تھی ایک نوخیز حکومت کے ڈھانچے سے الگ کر دیا جائے اور اسے ختم کر دیا جاۓ تو اس حکومت کا لڑکھڑا کر گر جانا فطری اور یقینی سمجھا جاتا ہے، لیکن حکومت، شہید بہشتی اور ان کے ساتھ یا ان سے پہلے اور ان کے بعد دوسری بڑی شخصیتوں کی شہادت سے نہ صرف یہ کہ متزلزل نہیں ہوئی اور ختم نہیں ہوئی بلکہ ان میں سے ہر شخصیت کی شہادت حکومت کے پودے کیلۓ تازہ پانی اور نظام کے نوخیز وجود کیلۓ لہو کی بوند ثابت ہوئی اور حکومت کو پہلے سے زیادہ شاداب اور تر و تازہ بنا گئی اور یہی استحکام اور توانائی آج تک حکومت میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے عوام شہداء کی شہادت کے وقت دیگر افراد کی مانند ایک دوسرے کو تعزیت و تسلی نہیں دیتے بلکہ مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ جب بہشتی شہید ہوۓ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ یعنی غم کے ساتھ ساتھ سرخروئي کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جو ہماری حکومت اور انقلاب کی پہچان ہے۔آج بھی ہفتم تیر کے واقعے کی یادہ تازہ ہے، شہید بہشتی بھی زندہ ہیں۔ شہید بہشتی یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے نۓ معمار اور بانی۔سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 27-6-2004.قوم کا ایمان، صبر اور بیداری، انقلاب کا قیمتی ذخیرہ سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون) کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں گا۔ ایک اہم چیز جس نے اس واقعے میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی یہ تھی کہ پیکر انقلاب پر دشمن کی ضرب جتنی کاری ہوتی جاۓ گی لوگوں میں ایمان صبر اور استقامت کاجذبہ بھی اتنی ہی بڑھتا جاۓ گا۔ دشمن نے حکومت کے ستر بڑے عہدہ دار جن میں شہید بہشتی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں ایک ساتھ اسلامی حکومت سے چھین لۓ اور وہ بھی بڑے المناک اور بھیانک طریقے سے، لیکن آپ اس قوم کا رد عمل دیکھیں! لوگوں نے اور شہداء کے قابل قدر اہل خانہ نے اپنی استقامت و پائيداری، صبر و تحمل اورایمان و ایقامن سے دشمن کو ایسا جواب جو دشمن کی عقل و فہم سے بالاتر تھا۔ قوم نے انقلاب کی سینہ سپر ہوکر حفاظت کی اور دشمن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اس طرح ایران کا نام روشن ہوا۔ ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہے گا۔ جب تک لوگوں کا صبر و ایمان اور جذبہ استقامت انقلاب اور حکومت کے لئے سائباں بنا رہے گا، دشمن کو انقلاب پر وار کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوششو سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انقلاب روز بروز پروان جڑھتا جاۓ گا۔ ہمارے بزرگوار شہید آیت اللہ بہشتی اسلامی حکومت میں ایک مثالی اور نمایاں شخصیت تھے جو اس ( دہشت گردی کے ) واقعے میں ہم سے چھن گۓ؛ لیکن ان کی یاد زندہ رہی، ان کے اور ان کے دوستوں کے خون سے انقلاب کی آبیاری ہوئی اور یہ پودھا مزید مستحکم ہوا۔ یہ ایک بڑا سبق ہے.سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون1981) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2000-6-27 شہدائے سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981 ) اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس اور اسلامی اقدار کی حاکمیت کی راہ کے شہید ہیںیہ بھی ایک اہم اتفاق ہے کہ عدلیہ کا ہفتہ، شہادت کا ہفتہ ہے اور عدلیہ کا نام ایک بڑے اور ناقابل فراموش شہید سے جڑا ہوا ہے۔ عدلیہ کے کام کی حساسیت اور ان عہدہ داروں کی عظمت کو جنہوں نے یہ عظیم ذمہ داری کندھوں پر اٹھائی ہے یہیں سے سمجھا جاسکتا ہے، جو لوگوں ہمارے ملک کے واقعات اور تبدیلیوں سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ چیز جس کے ساتھ اسلام اور اسلامی حکومت کے دشمنوں نے اسلامی حکومت کی تشکیل کی ابتدا ہی سے مخالفت کی بلاشبہ عدلیہ اور اسلامی عدالتی نظام تھا۔ ہمارے ملک کی عدلیہ کی سربراہی ایک فاضل، روشنفکر، آگاہ، مدبر اور اسلامی احکام پر دل و جان سےایمان رکھنے والے شخص کے ہاتھ میں تھی اور اسی وجہ سے اس زمانے میں عدلیہ اور شہید بہشتی کی بہت زیادہ مخالفت سامنے آئی۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بھی فرمایا کہ شہید بہشتی مظلوم تھے۔ ہمیں بھی یاد ہے کہ وہ کتنے مظلوم تھے، لیکن یہ مظلومیت کن لوگوں کی طرف سے ان پر مسلط کی گئ تھی؟ وہ افراد جو شہید بہشتی کی مظلومیت کے ذمہ دار ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران کے معاشرے میں اسلامی عدلیہ وجود برداشت کرنے کیلۓ تیار نہیں تھے۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران کی عدلیہ مغرب کے اسی فرسودہ، ناکارہ اور ناقص نظام کے نقش قدم پر چلتی رہے۔ ان تمام عیوب اور برائیوں کے ساتھ جو انقلاب سے پہلے عدلیہ میں داخل ہوگئی تھیں جن کی مثال دنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ان کیلۓ یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ ایک توانا، بہادر اور باعزم معمار کے ہاتھوں اسلامی عدلیہ کی بنیادیں رکھی جائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ الزام تراشی اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے اسلامی عدلیہ کے عہدیداروں کو میدان سے نکال باہر کریں۔ جن لوگوں کو اس زمانے کے حالات یاد ہیں وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔سانحہ ہفتم تیر کے شہداء اسلامی جمہوری حکومت کی اساس اور اقدار کے شہداء ہیں اس سانحے کے عزیز شہیدوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد اور قاتل کسی شخص یا گروہ اور پارٹی کے مخالف نہیں تھے۔ وہ ایران کی خود مختاری و آزادی اور اسلامی جمہوری نظام کے مخالف تھے۔ نام زیادہ اہم نہیں ہیں ۔ حقائق کو مد نظر رکھنا چاہیے . شہید بہشتی اور سانحہ ہفتم تیر میں شہادت پانے والی ان جیسی شخصیتوں کی مخالفت در حقیقت اسلامی اقدار، قوانین اور اسلامی اقتدار اعلی کی مخالفت تھی۔ شہید بہشتی اور اس المناک واقعے میں شہادت پانے والے دوسرے شہدا، ہماری تاریخ میں بڑے بلند مقام کے حامل ہیں۔ . سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2000-6-28لوگوں کے ایمان اور میدان عمل میں مستقل موجودگی، اندوہناک واقعات کے وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم رہنے کا رازسانحہ ہفتم تیر ( اٹھائيس جون) کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں کہ شاید اس سانحے کے متعدد جہات میں یہ جہت سب سے دلچسپ ہو کہ اس طرح کے ہولناک حملے اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم قلعے میں جو لوگوں کے ایمان اور ان کے اعتماد پر استوار تھا، دراڑیں نہیں ڈال سکے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ایسا واقعہ اگر دنیاکے کسی بھی کونے میں رونما ہوجاۓ تو ایک حکومت کا تختہ الٹنے کیلۓ کافی ہوتا ہے۔ اتنی زیادہ با اثر، اہم انقلابی شخصیات اور عظیم مفکر چشم زدن میں ختم ہو جائے اور حکومت میں تزلزل پیدا نہ ہو بلکہ نظام اس سانحے کے نتیجے میں اور زیادہ مستحکم بن جائے! یہ حیران کن بات تھی۔ یہ سب کچھ لوگوں کے ایمان اور ایقان، شعور و بیداری اور اسلامی حکومت کے اندرونی استحکام کی برکت اور خدا کے فضل و کرم یک نتیجہ تھا جو ہمیشہ ہمارے سروں پر سایہ فگن رہے گا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ مرضی پروردگار کو بنیاد قرار دے آپ ملاحظہ فرمائیں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو ایک سخت امتحان میں ڈالا۔ ایسا امتحان جس میں سب سے زیادہ رسول خدا کی اپنی آبرو و عزت خطرے میں تھی۔ میرا مطلب وہ حادثہ ہے جو سورہ احزاب میں بیان کیا گیا ہے . واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ و انعمت علیہ امسک علیک زوجک و اتق اللہ و تخفی فی نفسک مااللہ مبدیہ اس واقعے میں ممکن تھا کہ رای عامہ اور لوگوں کے جذبات رسول خدا کے خلاف بھڑک جائیں کیونکہ مسئلہ الزام کا تھا۔ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ خداوند عالم اپنے حبیب سے فرماتا ہے: تمہیں لوگوں کی باتوں کا ڈر ہے حالانکہ تمہیں خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ رسول خدا نے اس واقعے میں خداوند منان کی پروا کی اور اس بڑی اور دشوار آزمایش میں سرخرو ہوۓ اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ ولا یخشون احدا الااللہ خدا وند تعالی کی راہ میں تبلیغ کا لازمہ یہی ہے بعض لوگوں کو غلط فہمی اور غفلت مں ڈال کر خاص اہداف کے لئے انسان کے مد مقابل کھڑا کر دیا جاتا ہے ایسی صورت حال میں انسان کو چاہئے کہ صرف اور صرف اللہ تعای، اس کی مرضی اور اس کے حساب کتاب کو مد نظر رکھے، لہذا اسی سورے کے آخر میں ارشاد ہوتا : وکفی باللہ حسیبا ، خداوندعالم محاسبہ کرنے والا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ ہم نے اس راستے میں صحیح قدم اٹھایا ہے یا نہیں ۔ اس کی راہ میں قدم رکھنے کے تعلق سے ایک خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالی اس انسان کے سلسلے میں لوگوں کے خیال کی اصلاح فرماتا ہے اور لوگوں سے متعلق اس کے امور کو بحسن و خوبی نمٹا دیتا ہے۔ ( من اصلح مابینہ و بین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس ) یہ ذمہ داری بھی اللہ تعالی نے قبول کی ہے؛ جیسا کہ رسول اکرم کے واقعے میں آپ نے مشاہدہ کیا کہ خدا نے خود یہ ذمہ داری نبھائی اور حقیقت کو روشن کردیا۔ ہمارے گرانقدر شہید بہشتی کی بھی سب سے بڑی آزمائش یہ تھی کہ اس تھوڑے سے عرصے میں خداوند متعال نے اس بزرگوار سید کو خدمت کا عظیم موقع دیا۔ دشمن نے ان کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ انقلاب اسلامی کی کسی اور شخصیت کے خلاف شائد ہی اتنا پروپیگنڈہ ہوا ہو۔اور شائد ہی کسی کی شان میں اتنی گستاخیاں ہوئی ہوں. دشمنوں نے کہا کہ وہ مغرور ہیں، جاہ طلب ہیں، استبدادی مزاج کے ہیں، اقتدار کے خواہاں ہیں اور ان کے مزاج میں مطلق العنانیت شامل ہے، لیکن شہید بہشتی پوری تندہی سے خدمت میں مصروف رہے اور اپنا کام جاری رکھا اور اسی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہوں نے در حقیقت اس راستے میں پائیداری کے ذریعے اپنی شخصیت اپنی روح اور اپنی شناخت کو عرش اعلی تک پہنچایا . ان واقعات میں ہمارے لئے درس عبرت ہے .سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2003-6-28 . شہدائے ہفتم تیر کا ملک و قوم پر احسان ہےہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک ، انقلاب اور ہماری تاریخ پر ان کوششوں اور اس خون کا بڑا احسان ہے اور یہ کہ ہماری قوم اور ملک بالخصوص اس عظیم تحریک (اسلامی انقلاب) سے وابستہ فعال شخصیات کو کتنے خونخوار اور بے رحم دشمنوں کا سامنا تھا اور آج بھی ہے۔ وہی دشمن جنہوں نے شہید بہشتی کو ہم سے چھینا، آج بھی موجود ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے دشمنوں کی پشت پناہی کی آج بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بعض کج فکریوں اور سادہ لوحی کی بنا پر ہم یہ سمجھنے لگیں کہ ہمارے دشمن اور ان کی دشمنیاں اب باقی نہیں ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بھول ہوگی۔ جس انسان کو دشمن کا سامنا ہو اس کیلۓ سب سے خطرناک بات دشمن کو فراموش کرنا اور اس سے غافل ہوجانا ہے۔ شہادت ، شہید بہشتی اور ان کے دوستوں کے لئے خداوند عالم کا انعامبہرحال ان کو اپنا انعام ملا.یقینا مرحوم شہید بہشتی جیسی بڑی شخصیت کو جو اتنی بلند ہمت، غیور اور جفا کش تھی بستر کی موت زیب نہیں دیتی۔ بہشتی کو شہید ہونا ہی تھا۔ شہادت ایک بڑی جزا ہے جو ان کواور ان کے ساتھیوں کو ملی۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس وقت الہی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ان کے درجات میں روز بروز اضافہ ہو اور ہم بھی اسی راہ پر چلتےہوئے اور اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے انہی سے ملحق ہو جائیں۔سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1998-6-28دشمنوں کا ادھورا خوابیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارےدشمن اس حساس دور میں چاہتے تھے کہ اس مذموم سازش کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ انقلاب سے شہید بہشتی جیسی عظیم شخصیت کا چھننا کوئی مذاق نہیں ہے۔ کسی انقلاب کی آغوش سے یکبارگی کلیدی اور برجستہ شخصیتوں، ا راکین پارلیمنٹ،عدلیہ کے عہدہ داروں اور مخلص، پاک اور فعال و انقلابی افراد کا چھن جانا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی بھی حکومت کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا تو اسے ناقابل تلافی دھچکا لگتا اور شاید اس حکومت کا تختہ ہی الٹ جاتا لیکن ایران میں ایسا نہیں ہوا۔اس عظیم قوم کی عدیم المثال روحانی قیادت، انقلابی جذبے،اسلامی موقف اور انقلاب سے پہلے اور بعد کے عرصے میں لوگوں میں موجود شعور نے انقلاب اور حکومت کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ یہ کاری ضرب بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ البتہ یہ ایک بہت بڑا نقصان ضرور تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ کسی بھی ملک اور قوم میں شہید بہشتی اور ان پاک و مخلص اور انقلابی افراد جیسی شخصیات کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لحاظ سے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا لیکن حکومت سنبھل گئی۔ آج اس سانحے کو دس سال کا عرصہ گذر رہا ہے اور آپ نے دیکھا کہ اس عرصے میں وہ تباہ کن جنگ ختم ہوگئی اور ہماری قوم کو فتح نصیب ہوئی۔ اس عرصے میں دنیا اور خطے میں بڑے بڑے طوفان آئے لیکن ہماری قوم کسی پہاڑ کی مانند پائیدار رہی۔خداوند عالم بغیر کسی حساب کتاب کے کسی قوم کی پشت پناہی نہیں کرتا اور ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ اب چونکہ اللہ تعالی ہماری مدد کر رہا ہے اور ہمیں تائيد الہی حاصل ہو گئی ہے تو ہماری اپنی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور ہم بے فکری کے ساتھ اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں۔ نہیں، دست قدرت پروردگار آپ لوگوں کے ایثار، شہداء کے خون، عوام کے ایمان اور اس صبر کی برکت سے ہمارے سر پر تھا جس کا ہماری قوم نے مختلف مواقع پر مظاہرہ کیا۔ اسلام سے ہماری قوم کی سچی محبت اور اس رہبر کبیر کی طرف سے دکھاۓ گۓ روشن راستے اور لوگوں کی بیداری کے عوض رب ذوالجلال نے ہماری مدد فرمائی۔ اگر ہم نےان چیزوں کا خیال رکھا تو اللہ تعالی آئندہ بھی ہماری مدد کرے گا۔استکبار ہمیشہ ہمارے لۓ مصیبت کھڑی کرنا چاہتا ہےمیں جس بنیادی نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ استکبار جو اسلام اور اسلامی انقلاب کا دشمن ہے ہمیشہ اور ہر دور میں کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے لۓ مصیبت کھڑی کرنا چاہتا ہے اور ہمیشہ ایسے افراد کو ڈھونڈ لیتا ہے جو ایسی مصیبتوں اور المیوں میں اس کے آلہ کار بنیں۔ کسی زمانے میں منافقین کو اپنا ایجنٹ بنایا جو شہید رجائی، شہید باہنر اور دوسری شخصیات کی شہادت کا باعث بنے۔ کبھی عراقی حکومت کو اپنا آلہ کار بنایا اور اس کے ذریعے ہم پر آٹھ سالہ جنگ ( 1980 تا 1988 ) مسلط کر دی۔ دونوں ہی مواقع پر استکباری طاقتوں بالخصوص امریکہ نے جو اسلام اور اسلامی انقلاب کا دشمن اور مخالف ہے بعض عناصر کو اپنا آلہ کار بنایا۔دنیا میں پست فطرت اور ضمیر فروش افراد کی تعداد کم نہیں ہے۔ دشمن تو ہر وقت دشمنی پر کمربستہ رہتا ہے اور وار کرنے کیلۓ آلہ کار بھی ہر دور میں مہیا رہتے ہیں۔ یعنی ( دشمن ) ضرب لگانے کیلۓ ہمیشہ ضروری وسائل حاصل کر لیتا ہے تو ایسی صورت حال میں ہماری ذمہ داری انقلاب کے اصول و اقدار کی پاسداری کرنا اور پوری طرح ہوشیار رہنا ہے۔ یہ ہے ہماری ذمہ داری۔ تو کبھی یہ مت سوچیں کہ دشمن کسی زمانے میں ایسے وار کرتا تھا اور آج وہ زمانہ گذر گیا ہے۔ نہیں، پچاس سال بعد بھی غافل پاکر دشمن اپنا وار کرنے سے نہیں چوکےگا۔ہمیں چاہئے کہ ہوشیار رہیں اور فریب نہ کھائیںاگر دشمن چاہتا ہے کہ کسی قوم کی تحریک اور مہم کا سد باب کرے تو اس کاطریقہ یہ ہے کہ وہ قوم کو میدان عمل سے ہٹا دے۔ دشمن اس طرح نقصان پہنچاتا ہے اور آئندہ پچاس سال میں بھی دشمن وار کرنے سے باز نہیں آۓ گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہوشیار رہیں اور فریب نہ کھائیں۔ ہمیں دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اسلامی نظام پر ایمان رکھنا چاہیے کیونکہ جب دشمن وار کرنا چاہے گا تو سب سے پہلے ہمارے ایمان کو متزلزل کرے گا تا کہ کاری ضرب لگا سکے۔سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون ) کے شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1991-6-19 سانحہ ہفتم تیر (اٹھائیس جون 1981 ) تاریخ انقلاب میں ناقابل فراموش واقعہہفتم تیر کا سانحہ ہمارے انقلاب کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے اور آج بھی عالمی اور سیاسی سطح پر اس سانحے کو چھیڑا اور اس پر احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ اس سانحے میں دو حلقے رسوا ہو گۓ ۔ پہلا حلقہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو عوام اور انقلاب کی طرفداری کا دعوی کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقاصد کو ریا کاری، جھوٹ اور فریب کے پردوں میں چھپایا ہوا تھا۔ سانحہ ہفتم تیر نے اس پردے کو چاک اور ان کے چہروں کو آشکارا کردیا ۔ان لوگوں نے اس سانحے کے بعد بہت پروپیگنڈے کۓ لیکن ایرانی قوم نے اس سانحے اور اس طرح کے بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی برکت سے منافقین اور فریب پیشہ گروہوں کی حقیقت کو پہچان لیا۔ عوام کو معلوم ہوگیا کہ یہ گروہ ہر قسم کی انسانی اقدار کے مخالف ہیں اور بڑے پیمانے پر انسان کشی سے ہچکچاتے نہیں۔ یہ اپنے مذموم مقاصد کیلۓ اسلامی انقلاب سے ( وہ انقلاب جسے اپنی عمر کے حساس موڑ پر ایک بھرپور جنگ کا سامنا تھا) لڑے اور اتنا بڑا مجرمانہ اقدام کرکےپوری ملت ایران کوغم و اندوہ کے دریا میں دھکیل دیا۔ دوسرے حلقے میں وہ عالمی طاقتیں تھیں جو انسانی حقوق کی حمایت اور دہشت گردی کی مخالفت کی داعویدار تھیں۔ البتہ اب بھی عالمی سیاست کے سرغنہ نہایت بے شرمی کے ساتھ یہی دعویٰ کر رہے ہیں اور آج بھی امریکی حکومت اور بیشتر یورپی ممالک کے حکام یہ دعوے کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے مخالف ہیں! لیکن پروپیگنڈہ اور بلند وبانگ دعوے کرنا الگ بات ہے اور وہ حقائق جو عالمی سطح پر دنیا کے آگاہ اور باشعور لوگوں کے سامنے آرہے ہیں وہ مختلف چیز ہے۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک دہشت گردی کے سرپرستیہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ جب امریکہ اور بعض یورپی حکومتیں ان دہشت گرد گروہوں کی جن کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے ہوۓ ہیں ، حمایت کرتی ہیں اور ان کو اپنے ممالک میں ٹھکانے فراہم کرتی ہیں اور سیاسی پناہ دیتی ہیں تو یہ حکومتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے میں سچی کیسی ہو سکتی ہیں۔ یہ دہشت گردی کو پھیلانے والی حکومتیں ہیں جو اپنے گھناؤنے اہداف کے لۓ دہشت گردوں کو اپنے دامن میں پالتی ہیں.وہ لوگ جوسانحہ ہفتم تیر اور انقلاب کے دوسرے واقعات میں شہید ہوۓ اور ان کا خون بہہ گیا معاشرے کے نمایاں اور پاکیزہ صفت افراد میں شمار ہوتے تھے۔ ان میں علماء، دانشور، اپنے زمانے کی عظیم انقلابی شخصیات، عام لوگ، سرفروش انسان اور ایسے لوگ شامل تھے جنہوں نے اپنے ملک و قوم اور انقلاب کیلۓ بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ ان کو مارنا کس معیار اور اصول کے تحت جائز ہے؟ کون ان کے قاتلوں کو دہشت گرد اور مجرم نہیں سمجھے گا اور ان کی مذمت نہیں کرے گا؟ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوے، محض جھوٹ اور فریب ہےہم انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوؤں پر جو بعض حکومتوں اور عالمی طاقتوں سے وابستہ تنظیموں اور اداروں کی طرف سے کئے جاتے ہیں بالکل یقین نہیں کرتے۔ ہم ان کو جھوٹ اور فریب سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد، امریکی حکومت اور بہت سی مغربی حکومتوں اور عالمی سطح پر زور زبردستی کرنے والی حکومتوں کی آغوش میں پلتے ہیں۔اگر کوئی قوم، کسی بھی عالمی طاقت کی پیروکار بننے پر تیار نہیں ہے، اپنے حقوق اور سرحدوں کا دفاع کرتی ہے، خود مختار رہنا چاہتی ہے اور تقدیر سازی کے اس کے اس جذبے کو پوری دنیا جانتی اور تسلیم کرتی ہے تو کیا جواز بنتا ہے کہ ایک تخریب کار گروہ اس ملک کے انقلابی اور گرانقدر انسانوں کو اتنے بہیمانہ طریقے سے قتل اور شہید کرے اور پھر مغربی حکومتیں بے شرمی و بے حیائی کا ثبوت دیتے ہوئے اس گروہ کو ایک تنظیم کا نام دے دیں۔ اس کو اپنے ملک میں بسائیں اور حتی ان کے ( ریڈیو) پروگراموں کو نشر کریں؟!شہدائے سانحہ ہفتم تیر(اٹھائیس جون) کے اہل خانہ، اعلی عدالتی کونسل کے ارکان ، جج صاحبان اور مختلف محکموں کے عہدہ داروں اور صوبہ لرستان کے عوام سے خطاب 1989-6-28ان حوادث سے انقلاب کمزور نہیں ہوسکتااگر چہ آج سانحہ ہفتم تیر کو کئی سال گذر چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف جہات سے اس واقعے کی یاد آج بھی تازہ ہے۔ اس مدت میں اس واقعے کی کچھ اور بھی جہتیں سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلے اس سانحے کی شخصیات بالخصوص ان میں سے بعض کی بات کرتے ہیں جو بلا شک وشبہ ایسی بڑی شخصیتیں تھیں کہ انقلاب کیلۓ جدوجہد اور تحریک کے دوران اور اس گھٹن کے زمانے اور اسلامی انقلاب کے بعد کی اس قلیل مدت میں کم نظیر تھیں۔ خاص طور پر ان میں شہید آیت اللہ بہشتی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) تھے جو حقا و انصافا ایک عظیم اور نمایاں شخصیت اور ناقابل فراموش انسان تھے۔ عملی لحاظ سے بھی اور اخلاق و کردار اور فکر و نظر کے لحاظ سے بھی ان کی شخصیت سیاسی اور تنظیمی امور، کارہائے مملکت میں نمایاں اور بے مثال تھی۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی شہادت ہمارے لۓ ایک بڑا نقصان تھا۔ البتہ یہ شہادت خود ان کیلۓ درجات اور مقام ومنزلت کی بلندی شمار ہوتی ہے جو کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ان کے علاوہ علماء تھے یا قدیمی انقلابی جو اس واقعے میں شہید ہوۓ یا وہ تعلیم یافتہ جوان اور روشن فکر افراد جو اس زمانے کے انقلابی ماحول اور جمہوری اسلامی پارٹی کے درخشاں ستارے تھے۔ ان سب کو مد نظر رکھتے ہوۓ بلا شبہ یہ ہمارے انقلاب کا ایک نایاب اور قیمتی مجموعہ تھا۔ لیکن وہ چیز جو ان سب سے اہم ہے وہ یہ ناقابل فراموش نکتہ ہے کہ اسلامی جمہوری حکومت کے یہ بڑے ستون گر گۓ لیکن یہ عمارت متزلزل نہیں ہوئی۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی کبھی کسی پارٹی ، کسی ملک یا کسی حکومت سے ایک رہنما جدا ہو جاتا ہے یا ہٹا دیا جاتا ہے تو اسی ایک شخص کا فقدان پورے سسٹم کو متزلزل کردیتا ہے لیکن آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ بہتر اہم ترین افراد کا یکبارگی فقدان بھی ہمارے نظام کی کمزوری اور تزلزل کا موجب نہیں بنا بلکہ اس واقعے سے اس کی بنیادوں کو اور بھی مضبوطی ملی۔ یہ وہ اہم اور ناقابل فراموش نکتہ ہے جو واقعا اس الہی حکومت کا خاصہ ہے۔البتہ اس میں شک نہیں ہے کہ ہمارے عظیم امام ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کا پر برکت اور پر فیض وجود جو ایک مضبوط پہاڑ کی طرح قائم تھا اس استقامت اور پائیداری کا سرچشمہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن حکومت اور امام ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا استحکام بذات خود ایک معجزہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔شہداء سانحہ ہفتم تیر کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب 1994-6-29شہید بہشتی، ایران کی عدلیہ کے معمار اور شہدائے انقلاب کے سردارسانحہ ہفتم تیراور مرحوم ایت اللہ بہشتی( رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بارے میں ایک جملہ عرض کرنا چاہوں گا۔اس عزیز اور عظیم شہید کا شمار بلا شک ملک کی بڑی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ ان کے وجود میں علم و تقوا، تدبیر اور انسانی اخلاق اپنی بہترین شکل میں جلوگر تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کی بنیاد اسی شخصیت نے رکھی، وہ شخصیت جو اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے بھرپور واقفیت رکھتی تھی اور بذات خود ایک فقیہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھی۔ شہید بہشتی عصر حاضر کے مسائل اور ملک کی ضرویات سے بھی پوری طرح با خبر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ملک کو کیسی عدلیہ کی ضرورت ہے۔ شہید بہشتی منجیمنٹ اور انتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی ایک بے مثال شخصیت کے حامل تھے۔اگر چہ باب شہادت میں خسارے اور نقصان کا تصور نہیں ہے اور کسی بھی شہید کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی شہادت دنیای اسلام کیلۓ ایک خسارہ ہے کیونکہ شہادت کی برکت اتنی عظیم ہوتی ہے کہ ہر بڑے سے بڑے نقصان کا ازالہ کر دیتی ہے لیکن حق یہ ہے کہ اس عظیم شہید (بہشتی) اور سانحہ ہفتم تیر کے دیگر شہیدوں اور عدلیہ کے شہداء کا فقدان ایک بہت بڑا فقدان تھا۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ان سب انسانوں کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرےگا اور ان عزیز شہیدوں کی برکت سے ملک کے سب اداروں بالخصوص عدلیہ پر اپنی رحمت و برکت نازل فرماۓ گا اور ہم سب کو ان کی برکتوں سے فیضیاب کرےگا۔شہدای سانحہ ہفتم تیر کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات سے اقتباس1997-6-28
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار انیس اکتبور کو آرمی کالجوں کے طلبا کی تقریب حلف برداری میں شرکت فرمائی۔ تقریب کا انعقاد امام علی علیہ السلام آرمی کالج میں ہوا جس کا آغاز اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی ترانے سے ہوا جس کے بعد امام علی علیہ السلام آرمی کالج کے کمانڈر نے قائد انقلاب اسلامی کا رسمی استقبال کیا۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے شہدا کی یادگار پر جاکر شہدا کی ارواح طیبہ کے لئے فاتحہ خوانی کی اور پھر وہاں موجود دستوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کو ملک کے مستحکم بازو قرار دیا اور فرمایا کہ قوم، مسلح افواج کی پشتپناہی کر رہی ہے اور افواج کو اپنا جز سمجھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس اکتوبر دوہزار آٹھ کو امام علی علیہ السلام یونیورسٹی سے وابستہ آرمی کالج کے طلبا کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کا معائنہ فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ظلم و بے انصافی کو انسانی معاشرے کی مشکلات کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے آج منگل چودہ اکتوبر کو تہران میں بین الاقوامی سیاسی اور مذہبی شخصیات سے ملاقات میں اپنے خطاب کے دوران گفتگو اور افہام و تفہیم کو ابہامات دور کرنے کا ضروری اور موثر عامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج دنیا میں جنگ، بھکمری اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے تلخ حقائق کی بنیاد تسلط پسندی اور زور زبردستی سے کام لینا ہے، بنابریں دنیا کے مسائل حل کرنے کی ہر تحریک ظلم کے خلاف جد وجہد اور انصاف پسندی پر استوار ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج پیر تیرہ اکتوبر کو پورے ملک کے ائمہ جمعہ سے ملاقات میں اصولوں اور امنگوں پر ایرانی قوم کی پائیداری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے دوام کا راز، استقامت اور پامردی کے جذبے کا تحفظ ہے۔ آپ نے زور دے کر کہا کہ ایسے حالات میں جب مارکسزم کے نظریے کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کے مکتب فکر کے زوال کی چیخیں بھی سنائی دینے لگی ہیں، اسلامی تحریک روز بروز پھیلتی جا رہی ہے اور اسلامی انقلاب کو اس عظیم مکتب فکر کے محرک کی حیثیت سے اپنی پیشرفت اور استقامت کے عناصر کی پہلے سے زیادہ حفاظت کرنی چاہیے۔
قائد انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج پیر تیرہ اکتوبر کو پورے ملک کے ائمہ جمعہ سے ملاقات میں اصولوں اور امنگوں پر ایرانی قوم کی پائیداری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے دوام کا راز، استقامت اور پامردی کے جذبے کا تحفظ ہے۔ آپ نے زور دے کر کہا کہ ایسے حالات میں جب مارکسزم کے نظریے کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کے مکتب فکر کے زوال کی چیخیں بھی سنائی دینے لگی ہیں، اسلامی تحریک روز بروز پھیلتی جا رہی ہے اور اسلامی انقلاب کو اس عظیم مکتب فکر کے محرک کی حیثیت سے اپنی پیشرفت اور استقامت کے عناصر کی پہلے سے زیادہ حفاظت کرنی چاہیے۔
قربانی امام حسین علیہ السلام ، عاشور کا واقعہ، اآپ کا چہلم اور دیگر مناسبتیں، تاریخ اسلام کا وہ اہم ترین موڑ ہے جہاں حق و باطل کا فرق پوری طرح نمایاں ہو گیا۔ اس قربانی سے اسلام محمدی کو نئی زندگی ملی اور اس دین الہی کو بازیجہ اطفال بنا دینے کے لئے کوشاں یزیدیت کی فیصلہ کن شسکت ہوگئی۔ اس واقعے میں بے شمار درس اور عبرتیں پنہاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر عاشورا اور قربانی امام حسین علیہ السلام سے ملنے والے درس اور عبرتوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ آپ کے خطابات کے متعلقہ اقتباسات ناظرین کے پیش خدمت ہیں؛ چہلم سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ دشمنوں کے تشہیراتی طوفان کے سامنے حقیقت اور شہادت کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے ۔ آپ دیکھیں انقلاب کے آغاز سے آج تک ، انقلاب ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ ، اسلام اور اس قوم کے خلاف پروپگنڈے کتنے وسیع رہے ہيں ۔ جنگ کے خلاف کیا کیا پروپگنڈے نہيں کئے گئے ۔ وہ بھی اس جنگ کے خلاف جو اسلام ، وطن اور عزت نفس کا دفاع تھی ۔ دیکھیں دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف کیا کیا جنہوں نے اپنی سب سے قیمتی شئے یعنی اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کر دی ۔ آپ دیکھیں کہ دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ، ریڈیو ، ٹی وی اخبارات رسالوں اور کتابوں کے ذریعے سادہ لوح افراد کے دل و دماغ میں کیسے کیسے خیالات بھر دئے ۔ یہاں تک تک کہ کچھ سادہ لوح اور نادان لوگ ہمارے ملک میں بھی ، جنگ کے ان ہنگامہ خیز حالات میں کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتے تھے جو در اصل نادانی اور حقیقت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہوتی تھی ۔ یہی سب باتیں امام خمینی کو آشفتہ خاطر کر دیتی تھیں اور آپ اپنی ملکوتی پکار کے ذریعے حقائق بیان کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔ اگر ان پروپگنڈوں کے مقابلے میں حقائق کو بیان نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے اور اگر ایرانی قوم ، مقررین ، رائٹروں اور فنکاروں کی آگاہی اس ملک کے حقائق کے لئے وقف نہ ہوگی تو دشمن پروپـگنڈوں کے میدان میں کامیاب ہو جائے گا ۔ پروپگنڈوں کا میدان بہت بڑا اور خطرناک ہے ۔ البتہ ، ہماری عوام کی بھاری اکثریت انقلاب کی برکتوں سے حاصل ہونے والی آگاہی کی وجہ سے ، دشمنوں کے پروپگنڈوں سے محفوظ ہے ۔ دشمن نے اتنے جھوٹ بولے اور عوام کے سامنے آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کے بارے میں ایسی غلط بیانی سے کام لیا کہ عوام میں عالمی تشہیراتی مشنری کی باتوں پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔ ظالم و جابر یزیدی تشہیراتی مشنری اپنے پروپگنڈوں میں امام حسین علیہ السلام کو قصور وار ٹھہراتی تھی اور یہ ظاہر کرتی تھی کہ حسین بن علی وہ تھے جنہوں نے عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کے خلاف ، حصول دنیا کے لئے قیام کیا تھا اور کچھ لوگوں کو اس پروپگنڈے پر یقین بھی آ گیا تھا! اس کے بعد بھی جب امام حسین علیہ السلام کو صحرائے کربلا میں اس مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیا گیا تو اسے فتح و کامیابی کا نام دیا گیا !! لیکن امامت کی صحیح تشہیرات نے ، اس قسم کے تمام پروپگنڈوں کا قلع قمع کر دیا۔89-9-20 آپ بھائیوں اور بہنوں اور ایران قوم کے تمام لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ کربلا ہمارے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے ۔ کربلا ہمارا مثالیہ ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہيں ہونے چاہئے ۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے ۔ صحیح ہے کہ صدر اسلام میں ، حسین بن علی علیہ السلام بہتر لوگوں کے ساتھ شہید کر دئے گئے لیکن اس کا معنی یہ نہيں ہے کہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے یا جو بھی قیام و جد و جہد کرے اسے شہید ہو جانا چاہئے ، نہيں ۔ ملت ایران ، بحمد اللہ آج امام حسین علیہ السلام کے راستے کو آزما چکی ہے اور سر بلندی و عظمت کے ساتھ اقوام اسلام اور اقوام عالم کے درمیان موجود ہے ۔ وہ کارنامہ جو آپ لوگوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل انجام دیا وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ جنگ کے دوران بھی ایسا ہی تھا ۔ ہماری قوم سمجھتی تھی کہ اس کے مقابلے میں مغرب و مشرق کی طاقتیں اور پورا سامراج کھڑا ہوا ہے لیکن وہ ڈری نہيں ۔ البتہ ہماری پیارے شہید ہوئے ۔ کچھ لوگوں کے اعضائے بدن کٹ گئے اور کچھ لوگوں نے برسوں جیلوں میں گزارے اور کچھ لوگ اب بھی بعثیوں کی جیل میں ہیں لیکن قوم ان قربانیوں کی بدولت عزت و عظمت کے اوج پر پہنچ گئ ۔ اسلام ہر دل عزیز ہو گیا ہے ، اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے یہ سب کچھ مزاحمت کی برکت سے ہے _92-7-1محرم و صفر کے ایام میں ہماری قوم کو اپنے اندر جد و جہد ، عاشور ، دشمن سے نہ ڈرنے ، خدا پر توکل اور خدا کی راہ میں جہاد و قربانی کے جذبے کو استحکام بخشنا چاہئے اور اس کے لئے امام حسین علیہ السلام سے مدد مانگنی چاہئے ۔ مجالس عزا اس لئے ہے تاکہ ہمارے دل حسین ابن علی علیہ السلام اور ان کے اہداف سے قریب ہوں ۔ کچھ کج فہم یہ نہ کہيں کہ امام حسین علیہ السلام ہار گئے کچھ کج فہم یہ نہ کہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی راہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام ایرانی قوم کو قتل ہو جانا چاہئے ۔ کون نادان اس قسم کی باتیں کر سکتا ہے ؟ قوموں کو امام حسین علیہ السلام سے درس حاصل کرنا چاہئے یعنی دشمن سے نہيں ڈرنا چاہئے ، خود پر بھروسہ رکھنا چاہئے ، اپنے خدا پر توکل کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر دشمن طاقتور ہے تو اس کی یہ طاقت زیادہ دنوں تک باقی نہيں رہنے والی ہے ۔ اسے یہ جاننا چاہئے کہ اگرچہ دشمن کا محاذ بظاہر وسیع اور مضبوط ہے لیکن اس کی حقیقی طاقت کم ہے کیا آپ دیکھ نہيں رہے ہیں کہ تقریبا چودہ برسوں سے دشمن اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کامیاب نہيں ہو پائے ہیں ! یہ ان کی کمزوری اور ہماری طاقت کے علاوہ اور کیا ہے ؟ ہم طاقتور ہیں ہم اسلام کی برکت سے طاقتور ہیں ۔ ہم اپنے عظیم خدا پر توکل اور بھروسہ کرتے ہيں یعنی ہمارے ساتھ الہی طاقت ہے اور دنیا اس طاقت کے سامنے ٹک نہيں سکتی۔ 92-7-1 یہ اہم نکتہ یہ درس ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام ، تاریخ اسلام کے ایک حساس دور میں مختلف فرائض میں اصلی فریضہ کی شناخت کی اور اس پر عمل در آمد کیا - انہوں اس چیز کی شناخت میں جس کی اس دور میں ضرورت تھی کسی قسم کا وہم و تذبذب نہيں کیا جبکہ یہ چیز مختلف زمانوں میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کا ایک کمزور پہلو ہے یعنی یہ کہ عالم اسلام کے عوام اور ان کے اہم رہنما کسی خاص دور میں اصل فریضے کے بارے میں غلطی کریں اور انہيں یہ نہ پتہ ہو کہ کون سا کام اصل ہے اور اسے کرنا چاہئے اور دوسرے کاموں کو اگر ضرورت ہو تو اس پر قربان کر دیا جائے انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ کون سا کام اہم اور کون سا کام دوسرے درجے کی اہمیت کا حامل ہے اور کس کام کو کتنی اہمیت دینی چاہئے اور کس کام کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے تحریک کے زمانے میں ہی بہت سے ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ اب قیام کا وقت ہے اور اگر وہ سمجھ جاتے کہ اس قیام کے اپنے مسائل ہیں تو وہ دوسرے درجے کے اپنے فرائض سے چپکے رہتے جیسا کہ ہم نے دیکھا کچھ لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ تحریک میں شامل نہ ہونے والوں میں مومن و پابند شرع افراد بھی تھے ۔ ایسا نہيں تھا کہ سب کے سب اہل دنیا تھے ۔ اس دور میں عالم اسلام کے برگزیدہ افراد اور اہم شخصیات میں مومن اور ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہتے تھے لیکن فریض کی شناخت نہيں کر پاتے تھے ، زمانے کے حالات کی سمجھ نہيں رکھتے تھے ، اصل دشمن کو نہيں پہچانتے تھے اور اہم اور پہلے درجے کی اہمیت کے حامل کاموں کے بجاۓ دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں کو اختیار کرتے تھے یہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت رہی ہے ۔ آج بھی ہم اس مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہيں اور زیادہ اہم چیز کے بدلے کم اہم کام کر سکتے ہیں ۔ اصل کام کو جس پر سماج ٹکا ہوا ہو ، تلاش کرنا چاہئے ۔ کبھی اسی ہمارے ملک میں سامراج و کفر و ظلم و جور کے خلاف جد و جہد کی باتیں ہوتی تھیں لیکن کچھ لوگ اسے فرض نہيں سمجھتے تھے اور دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کوئی درس دیتا تھا یا کتاب لکھتا تھا یا چھوٹا موٹا مدرسہ چلاتا تھا اگر کچھ لوگوں کے بیچ تبلیغ کا کام انجام دیتا تھا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر جد و جہد میں مصروف ہو جائے گا تو یہ کام بند ہو جائيں گے ! اتنی عظیم جد و جہد کو چھوڑ دیتا تھا کہ ان کاموں کو پورا کر سکے ! یعنی ضروری اور اہم کام کی شناخت میں غلطی کرتا تھا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے خطبوں سے یہ سمجھا دیا کہ عالم اسلام کے لئے ان حالات میں ظالم و جابر طافت کے خلاف جد و جہد اور شیطانی طاقتوں سے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے لڑائی سب سے زیادہ ضروری کام ہے ۔ ظاہر ہے حسین ابن علی علیہ السلام اگر مدینے میں ہی رہ جاتے اور عوام کے درمیان احکام اسلام اور علوم اہل بیت پھیلاتے تو کچھ لوگوں کی تربیت ہو جاتی لیکن جب اپنے مشن پر وہ عراق کی سمت بڑھے تو یہ سارے کام رہ گئے وہ لوگوں کو نماز کی تعلیم نہيں دے سکتے تھے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث لوگوں کے سامنے بیان نہیں ہو سکتی تھیں ، درس گاہ اہل بیت بند ہو جاتی اور مدینہ کے یتیموں اور بے نواؤں کی امداد بھی ممکن نہیں ہوتی ۔ یہ سب ایسے کام تھے جنہيں آپ انجام دیتے تھے لیکن آپ نے ان تمام کاموں کو ایک زيادہ اہم کام پر قربان کر دیا ۔ یہاں تک کہ حج جیسے فریضے کو بھی جس کے بارے میں تمام مبلغین بات کرتے ہيں اس فریضے پر قربان کر دیا وہ فریضہ کیا تھا ؟ جیسا کہ آپ نے فرمایا اس نظام کے خلاف جد و جہد جو بد عنوانی کی کی جڑ تھا ۔ آپ نے فرمایا : «اُریدُ اَن اَمُرَ بالْمَعْروف وَاَنْهى عَنِ الْمُنْكَر وَ اَسیرَ بِسیرة جَدّى.» میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور اپنے جد کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں اسی طرح آپ نے ایک دوسرے خطبے میں فرمایا کہ «اَیهاالنّاس! اِنَّ رَسولاللَّه، صلّىاللَّهعلیهوآله، قال مَنْ رأى سُلطاناً جائراً مُسْتَحِلّاً لِحُرَمِ اللَّه، ناكِثاً لِعَهْداللَّه [تا آخر] فَلَمْ یُغَیِّر عَلَیْهِ بِفِعْلٍ و َلا قَولٍ كانَ حَقاً عَلَىاللَّه اَنْ یَدخل یُدْخِلَهُ مُدْخِلَه.» یعنی ظالم و جابر سلطان کے مقابلے میں تبدیلی ، یعنی وہ طاقت بدعنوانی پھیلاتی ہے اور جو نظام انسانوں کو تباہی اور مادی و معنوی فنا کی سمت لے جاتی ہے ۔ یہ حسین ابن علی علیہ السلام کی تحریک کی وجہ ہے البتہ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی مصداق سمجھا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضے کی طرف رجحان میں ان نکتوں پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے آپ زیادہ اہم فریضے کے لئے آگے بڑھتے ہيں اور دوسرے فرائض کو بھلے ہی وہ بھی اہم ہوں ، اس زیادہ اہم فریضے پر قربان کر دیا۔ آج یہ واضح ہونا چاہئے کہ اہم کام کیا ہے ؟ ہر زمانے میں اسلامی سماج کے لئے ایک تحریک معین ہے ، ایک دشمن ، دشمن کا ایک محاذ عالم اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرے پیدا کرتا ہے اسے پہچاننا چاہئے اگر ہم دشمن کی شناخت میں غلطی کریں گے ، جس سمت سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچ رہا ہے اور ان پر حملہ ہو رہا ہے اگر اس کی شناخت میں ہم غلطی کر رہے ہيں تو اس سے نا قابل تلافی نقصان ہوں گے اور بڑے بڑے مواقع ہاتھ سے نکل جائيں گے _92-7-1ایک معروف جملہ جو جو امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہے - البتہ مجھے نہيں معلوم یہ نسبت صحیح ہے یہ نہیں - نہایت حکیمانہ جملہ ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے انما الحیاۃ عقیدۃ و جہاد یعنی کسی ہدف سے لو لگانا اور کسی مقصد کو متعین کرنا پھر اس کے لئے جد و جہد کرنا ۔ اسلام انسانوں کو مقصد عطا کرنے اور انہیں اعلی و خوبصورت انسانی مقاصد کی طرف بڑھانے کے لئے آیا ہے ایسے راستے پر اگر انسان ایک قدم بھی آگے بڑھتا ہے ، خلوص کے ساتھ کوشش کرتا ہے اور قربانی پیش کرتا ہے تو اگر اسے پریشانیوں ، دکھوں اور بظاہر ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے تو بھی وہ دلی طور پر اور اللہ کے نزدیک خوش ہوتا ہے کیونکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے فرض کے مطابق اعلی مقاصد کی سمت حرکت اور اس کے لئے کوشش کی ہے خود یہ کوشش بھی اہم ہے حالانکہ یہ کوشش ہمیشہ انسان کو اس کے ہدف سے نزدیک کرتی ہے یہ وہی چیز ہے جس نے ایرانی قوم کی جد و جہد کو شکل عطا کی اور آج بھی یہ جد و جہد بدستور جاری ہے ۔ اس انقلاب اور اس جد و جہد نے جس ہدف کا تعین کیا تھا وہ ایسا ہدف تھا جس کا فائدہ پوری انسانیت کو حاصل ہوتا ہے وہ ہدف عالمی سطح اور چھوٹے علاقے میں ایک ملک کی سطح پر ظلم و جور و امتیاز کے خلاف جد و جہد تھا اور اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ انسانیت کے سامنے اعلی اہداف پیش کئے جائيں_ فضائیہ کے جوانوں سے ملاقات میں93-2-8امام حسین علیہ السلام کا واقعہ ایک سبق ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت بھی ہے اس کا درس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے کیسا کارنامہ انجام دیا اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ امام حسین علیہ السلام نے تمام عالم انسانیت کو بہت عظیم درس دیا ہے جس کی عظمت سب پر عیاں اور واضح ہے _ سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں سے ملاقات میں95-1-5 بڑی عجیب بات ہے کہ ہماری پوری زندگی امام حسین علیہ السلام کی یاد سے لبریز ہے خدا کا شکر ہے ۔ اس عظیم ہستی کی تحریک کے بارے میں بھی بہت باتیں کہی جا چکی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انسان اس بارے میں جتنا بھی سوچتا ہے اسے غور و فکر و تحقیق و مطالعہ کا میدان اتنا ہی وسیع نظر آتا ہے ۔ اس عظیم و تعجب خیز واقعے کے بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیں کہ جن پر ہمیں غور کرنا چاہئے اور اس پر بات کرنی چاہئے ۔ اگر باریک بینی سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید یہ کہا جا سکے کہ انسان امام حسین علیہ السلام کی چند مہینوں پر محیط تحریک سے ، جس کی شروعات مدینے سے مکہ کی سمت سفر سے ہوئی اور اختتام کربلا میں جام شہادت نوش کرنے پر ہوا ، سو سے زیادہ اہم درس حاصل کر سکتا ہے میں ہزاروں درس کہہ سکتا ہوں اس تحریک سے ہزاروں درس حاصل کئے جا سکتے ہيں ۔ ممکن ہے ان کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی ایک درس ہو لیکن یہ جو میں کہتا ہوں کہ سو درس سے زیادہ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ان کے کاموں کو باریک بینی سے دیکھیں تو اس سے سو باب اور سو عنوان نکل سکتے ہيں جن میں سے ہر عنوان اور ہر باب ایک قوم ، ایک تاریخ اور ایک ملک کے لئے ، نظام چلانے اور خدا کی قربت کے حصول کا درس ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حسین ابن علی ارواحنا فداہ و اسمہ و ذکرہ دینا میں مقدس ہستیوں کے درمیان سورج کی طرح چمک رہے ہيں ۔ انبیاء ، اولیا ، ائمہ شہدا اور صالحین پر نظر ڈالیں ! اگر وہ لوگ چاند و ستاروں کی مانند ہیں تو امام حسین ان کے بیچ سورج کی طرح چمک رہے ہيں البتہ ان سو درسوں کے ساتھ ہی جن کی سمت میں نے اشارہ کیا ہے امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں ایک اہم و اصلی سبق بھی ہے جس کے بارے میں میں آج گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا اس کے علاوہ سب کچھ حاشیہ کی باتیں ہیں یہ اصل متن ہے اور وہ یہ ہے کہ امام حسین نے قیام کیوں کیا ؟ یہ ایک سبق ہے ۔ امام حسین علیہ السلام سے کہا گیا :مدینہ اور مکے میں آّپ کی بہت عزت کی جاتی ہے اور یمن میں شیعوں کی بڑی تعداد ہے کسی ایسی جگہ چلے جائيں جہاں آپ یزيد سے کوئی مطلب نہ رکھیں اور یزید بھی آپ سے کوئی مطلب نہ رکھے ! اتنے مرید ہیں آپ کے اتنے شیعہ ہیں ، جائيں زندگی گزاریں ، عبادت کریں تبلیغ کریں ! آپ نے قیام کیوں کیا ؟ معاملہ کیا ہے ؟ یہ وہی اصلی سوال ہے ۔ یہ وہی اصلی سبق ہے ۔ میں یہ نہيں کہتا کہ کسی نے اب تک یہ بات نہيں کہی ، کیوں نہيں انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں بہت محنت و کوشش کی گئ ہے بہت سی باتیں کہی گئ ہیں تاہم آج جو بات ہم کہہ رہے ہيں وہ خود ہماری نظر میں اس معاملے میں ایک نئ سوچ اور نظریہ ہے ۔ کچھ لوگ یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ امام یزید کی فاسد و بد عنوان حکومت کو گرا کر خود ایک حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔یہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا ہدف تھا۔ یہ بات ، آدھی صحیح ہے۔ میں یہ نہيں کہہ رہا ہوں کہ یہ بات غلط ہے اگر اس بات کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے حکومت کی تشکیل کے لئے قیام کیا وہ بھی اس طرح سے اگر یہ سمجھ میں آ جائے کہ نہيں یہ کام نہيں ہوگا اور انسان واپس ہو جائے تو یہ غلط ہے ۔ جی جو حکومت کی تشکیل کی غرض سے آگے بڑھتا ہے وہ وہیں تک جاتا ہے جہاں تک وہ یہ سمجھتا ہے کہ کام ہو جانے والا ہے ۔ جیسے ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کام کی انجام دہی کے امکان نہيں ہے تو اس کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ واپس لوٹ جائے اگر ہدف حکومت کی تشکیل ہو تو وہاں تک انسان کے لئے آگے بڑھنا جائز ہے اور جہاں سے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو وہیں وہيں سے واپس لوٹ جانا چاہئے ۔ اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام کے قیام کا مقصد حق پر مبنی علوی حکومت کا قیام تھا اگر ان کی مراد یہ ہے تو یہ صحیح نہيں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی پوری تحریک میں یہ چیز دکھائي نہيں دیتی ۔ دوسری طرف کہا جاتا ہے نہيں جناب ، حکومت کیا ہے ، امام کو علم تھا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں کامیاب نہيں ہوں گے بلکہ وہ تو قتل اور شہید ہونے کے لئے آئے تھے ! یہ بات بھی کافی مدت تک بہت سے لوگوں کی زبان پر جاری تھی ! کچھ لوگ شاعرانہ انداز میں بھی اسے بیان کرتے تھے بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے کچھ بڑے علماء نے بھی یہ بات کہی ہے ۔یہ بات کہ امام نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔انہوں نے سوچا کہ اب رک کر کچھ نہيں کیا جا سکتا تو چلو شہید ہوکر ہی کچھ کر دیا جائے ! یہ بات بھی ہماری اسلامی کتب و مدارک میں نہيں ہے کہ جاؤ خود کو موت کے منہ میں ڈال دو ۔ ہماری یہاں ایسا کچھ نہيں ہے ۔ مقدس شریعت میں ہم جس قسم کی شہادت سے آشنا ہیں اور جس کی نشاندہی قرآن مجید اور روایتوں میں کی گئ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کسی واجب یا اہم مقصد کے لئے نکلے اور اس راہ میں موت کے لئے بھی تیار رہے ۔ یہ وہی صحیح اسلامی شہادت ہے لیکن یہ صورت کہ آدمی نکل پڑے تاکہ مارا جائے اور شاعرانہ لفظوں میں اس کا خون رنگ لائے اور اس کے چھیٹے قاتل کے دامن پر پڑیں تو یہ ایسی باتیں نہيں ہیں جن کا تعلق اس عظیم واقعے سے ہو ۔ اس میں بھی کچھ حقائق ہيں لیکن امام حسین علیہ السلام کا یہ مقصد نہيں ہے ۔ مختصر یہ کہ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے تشکیل حکومت کے لئے قیام کیا تھا اور ان کا مقصد حکومت کی تشکیل تھا اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہ امام نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا تھا بلکہ بات کچھ اور ہے جسے میں پہلے خطبے میں انشاء اللہ بیان کروں گا اور آج میرے پہلے خطبے کا اصل موضوع یہی ہے ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مقصد حکومت تھا یا مقصد شہادت تھا تو ان لوگوں نے مقصد اور نتیجہ کو خلط ملط کر دیا ہے ۔ جی نہیں ، مقصد یہ سب نہیں تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کا دوسرا مقصد تھا لیکن اس دوسرے مقصد تک رسائی کے لئے ایک ایسے کام کی ضرورت تھی جس کا شہادت یا حکومت میں سے کوئی ایک نتیجہ سامنے آتا ۔ البتہ آپ دونوں کے لئے تیار تھے ۔ انہوں نے حکومت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے اور اسی طرح شہادت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے ۔ اس کے لئے تیار ہو رہے تھے اور اس کے لئے بھی ۔ جو بھی ہوتا صحیح ہوتا اور کوئی مسئلہ نہ ہوتا لیکن ان میں سے کوئی بھی ، مقصد نہيں تھا بلکہ دو نتائج تھے ۔ مقصد کچھ اور تھا ۔مقصد کیا تھا ؟پہلے تو میں اس مقصد کو مختصر طور پر ایک جملے میں بیان کرتا ہوں پھر تھوڑی سی وضاحت کروں گا ۔ اہم ہم امام حسین علیہ السلام علیہ السلام کے مقصد کو بیان کرنا چاہیں تو ہمیں اس طرح سے کہنا چاہئے کہ آپ کا مقصد تھا دینی واجبات میں سے ایک عظیم واجب پر عمل تھا اور وہ ایسا واجب عمل تھا جسے امام حسین علیہ السلام سے قبل کسی نے بھی _ یہاں تک کہ خود پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی _ انجام نہيں دیا تھا ۔ نہ پیغمبر اسلام نے اس واجب کو انجام دیا تھا ، نہ امیر المومنین نے اور نہ ہی امام حسن مجتبی نے ۔ یہ ایک ایسا واجب تھا جس کا اسلام کے اقدار ، افکار اور علم کے ڈھانچے میں نہایت اہم کردار ہے ۔ حالانکہ یہ واجب ، نہایت اہم اور بنیادی ہے لیکن پھر بھی امام حسین علیہ السلام کے زمانے تک اس واجب پر عمل نہيں ہوا تھا - میں عرض کروں گا کہ کیوں عمل نہیں ہوا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کو اس واجب پر عمل کرنا تھا تاکہ پوری تاریخ کے لئے ایک سبق ہو جائے ۔ مثال کے طور پر پیغمبر اعظم نے حکومت کی تشکیل کی اور تشکیل حکومت پوری تاریخ اسلام کے لئے درس بن گئ صرف اس کا حکم ہی صادر نہيں کیا یا پیغمبر نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور یہ تاریخ اسلام اور بشریت کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک درس بن گيا ۔ اس واجب پر بھی امام حسین علیہ السلام کے ذریعے عمل ہونا تھا تاکہ مسلمانوں اور پوری تاریخ کے لئے عملی سبق ہو جائے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں امام حسین علیہ السلام یہ کام کریں ؟ کیونکہ اس واجب پر عمل کے حالات ، امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہی فراہم ہوئے تھے اگر یہ حالات امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پیش نہيں آتے مثال کے طور پر امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں یہ حالات پیش آتے ۔ اگر امام حسن مجتبی یا امام صادق علیھما السلام کے زمانے میں بھی پیش آتے تو یہ لوگ اس واجب پر عمل کرتے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے سے قبل یہ حالات پیش نہیں آئے اور امام حسین علیہ السلام کے بعد بھی تمام ديگر ائمہ کے دور میں غیبت تک یہ حالات پیش نہيں آئے ! تو ہدف کا مطلب ہوا اس واجب پر عمل در آمد اب میں اس بات کی وضاحت کروں کا کہ یہ واجب کیا ہے ۔ اس وقت فطری طور پر اس واجب پر عمل در آمد کا ان دو میں سے کوئي ایک نتیجہ ہوتا : یا اس کا یہ نتیجہ ہوتا کہ وہ اقتدار و حکومت تک پہنچ جاتے ۔ خوش آمدید امام حسین علیہ السلام تیار تھے ۔ اگر آپ کو اقتدار حاصل بھی ہو جاتا تو آپ اسے مضبوطی سے تھام لیتے اور سماج کی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین کی طرح رہنمائی کرتے لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس واجب پر عمل در آمد سے حکومت حاصل نہيں ہوتی ، شہادت ملتی ، اس کے لئے بھی امام حسین علیہ السلام تیار تھے ۔خداوند عالم نے امام حسین علیہ السلام اور ديگر ائمہ کو کچھ اس طرح سے خلق کیا تھا کہ اس راہ میں شہادت جیسے سنگین بوجھ کو بھی اٹھانے پر قادر ہوں اور انہوں نے ایسا کرکے دکھایا بھی ۔ البتہ کربلا کے مصائب کا ذکر ایک مختلف قسم کا واقعہ ہے جس کی میں یہاں تھوڑی سی وضاحت کروں گا ۔ بھائیو اور بہنو! اور نمازیو! پیغمبر اکرم اور کوئي دوسرا پیغمبربھی جب آتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ احکام ہوتے ہیں ۔ یہ جو احکام پیغمبر لاتا ہے ان میں سے کچھ انفرادی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح کر سکے اور کچھ احکام اجتماعی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے انسانوں کی دنیا کو آباد کرے اور اسے چلائے اور انسانی سماجوں کو پائدار رکھے ۔ یہ وہ احکام ہیں جنہيں اسلامی نظام کہا جاتا ہے ۔ جی تو اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلب مقدس پر نازل ہوا ۔ وہ نماز لآئے ، روزہ ، زکات ، انفاق ، حج ، گھرانے کے قوانین ، ذاتی تعلقات کے اصول ، اللہ کی راہ میں جہاد ، حکومت کی تشکیل ، اسلامی معیشت ، عوام اور حکام کے تعلقات اور حکومت کے سلسلے میں عوام کے فرائض جیسے احکامات لے آئے ، اسلام نے یہ سب چیزیں بشریت کے سامنے پیش کیں اور یہ سب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا ۔ «ما من شىء یقربكم من الجنّة و یباعدكم من النّار الّا و قد نهیتكم عند و امرتكم به»؛ پیغبمر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تمام چیزوں کو بیان کیا جو ایک ایک اور ایک انسانی سماج کو سعادت و کامیابی سے ہمکنار کر سکتی تھیں ، صرف بیان ہی نہيں کیا بلکہ اس پر عمل بھی کیا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اسلامی حکومت اور اسلامی سماج کو تشکیل عمل میں آئي ، اسلامی معیشت کے اصولوں پر عمل ہوا ، جہاد کیا گيا اور اسلامی زکات لی گئ ۔ ایک اسلام ملک اور ایک اسلام نظام بنا ۔ اس نظام کا ناظم اور اس قافلے کا رہنما نبی اکرم اور وہ ہے جو ان کی جگہ پر بیٹھتا ہے ۔ راستہ بھی واضح ہے ۔ اسلامی سماج کو اور اسلامی فرد کو اس راستے پر اسی سمت میں حرکت کرنا چاہئے کہ اگر ایسا ہو جائے تو اس وقت انسان کمال کی منزل تک پہنچ جائے گا ، انسان صالح اور فرشتہ صفت ہو جائيں گے ، لوگوں کے درمیان سے ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا ، برائی ، فساد ، اختلافات ، فقر و جہالت کا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ انسان حقیقی خوشحالی میں زندگی گزارے گا اور خدا کا کامل بندہ بن جائے گا ۔ اسلام یہ نظام نبی اکرم کے ذریعے لایا اور اس دور کے انسانی سماج میں اس پر عمل در آمد کیا ۔ کہاں ؟ ایک ایسے گوشے میں جسے مدینہ کہا جاتا تھا اور پھر مکے اور کچھ دیگر شہروں میں یہ نظام پھیل گيا ۔یہاں پر ایک سوال باقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : اگر یہ گاڑی جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پٹری پر لگایا ہے ، عمدا یا حادثاتی طور پر پٹری سے اتر گئ تو کیا ہوگا ؟ اگر اسلامی سماج منحرف ہو گیا ، اگر یہ انحراف اتنا بڑھ گیا کہ پورے اسلام و اسلامی تعلیمات میں انحراف کا خوف پیدا ہو جائے تو کیا کیا جائے ؟ انحراف کی دو قسمیں ہیں : کبھی عوام منحرف ہوتے ہيں _ یہ بہت زیادہ ہوتا ہے _ لیکن اسلامی احکام کا خاتمہ نہيں ہوتا ، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام جب منحرف ہو جاتے ہیں تو حکومتیں بھی بد عنوان ہو جاتی ہیں اور علماء اور دینی مقررین بھی گمراہ ہو جاتے ہیں ! گمراہ آدمی سے ، صحیح دین حاصل نہيں کیا جا سکتا ۔ قرآن و حقائق میں تحریف کر دی جاتی ہے ، اچھائی کو برائی ، برائی کو اچھائی ، اچھوں کو برا اور بروں کو اچھا بنا دیا جاتا ہے ! اسلام نے مثال کے طور پر اگر کوئي لکیر اس طرف کھینچی ہے تو اسے ایک سو اسی درجے بدل کر اس طرف کھینچ دیا جاتا ہے ، اگر اسلامی نظام اور سماج اس قسم کے مسئلے میں پھنس جائے تو کیا کیا جائے ؟ البتہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ کیا کیا جائے ، قرآن مجید نے بھی فرمایا ہے : «من یرتد منكم عن دینه فسوف یأتى اللَّه بقوم یحبّهم و یحبّونه» _ آخر تک_ اور اسی طرح بہت سی آیتیں اور روایتیں بھی ہيں یا یہی روایت جو امام حسین سے نقل ہے اور میں آپ کو سنا رہا ہوں ۔ امام حسین علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس روایت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا ، لیکن کیا آنحضرت اس الہی حکم پر عمل کر سکتے تھے ؟ نہيں ، کیونکہ یہ الہی حکم اس وقت قابل عمل ہے جب سماج منحرف ہو چکا ہو ۔ اگر سماج منحرف ہو گیا ، تو کچھ کرنا چاہئے یہاں پر خدا کا حکم ہے ۔ جن سماجوں میں انحراف اس حد تک بڑھ جائے کہ اصل اسلام کے منحرف ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائےتو اس موقع کے لئے خدا نے کچھ فرائض عائد کئے ہيں ۔ خدا نے انسان کو کسی بھی معاملے میں یونہی نہيں چھوڑ تا ۔ پیغمبر اسلام نے اس فریضے کو بیان کیا ہے ۔ قرآن و حدیث میں بھی موجود ہے لیکن پیغمبر اسلام اس فریضے پر عمل نہيں کر سکتے تھے ۔ کیوں نہيں کر سکتے تھے ؟ کیوں کہ اس فریضے پر اس وقت عمل کیا جاتا ہے جب سماج منحرف ہو جائے ۔ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے دور میں اس طرح سے منحرف نہيں ہواتھا ۔ امام حسن علیہ السلام کے دور میں بھی کہ جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت تھی ، حالانکہ اس انحراف کی بہت سی علامتیں ظاہر ہو رہی تھی لیکن ابھی یہ انحراف اس حد تک نہيں پہنچا تھا کہ پورے اسلام کے لئے خطرہ لاحق ہو جاتا شاید کہا جا سکے کہ تھوڑے عرصے کے لئے یہ صورت حال بھی پیدا ہوگئ تھی لیکن اس وقت اس کام کو انجام دینے کا موقع نہيں تھا _ مناسب موقع نہيں تھا _ اس حکم کی اہمیت ، جو احکام الہی کا حصہ ہے ، خود حکومت سے کم نہیں ہے ۔ کیونکہ حکومت یعنی سماج کو چلانا ۔ اگر سماج دھیرے دھیرے پٹری سے اتر جائے ، منحرف ہو جائے بدعنوان ہو جائے اور خدا کے احکامات تبدیل کر دئے جائيں ، تو اگر حالات بدلنے اور تجدید حیات _ یا آج کے لفظوں میں انقلاب ، اگر انقلاب کا حکم _ نہ ہو تو یہ حکومت کس کام ہوگی ؟ تو سماج کو پٹری پر لانے سے متعلق جو حکم ہے اس کی اہمیت ، حکومت کی تشکیل کے حکم سے کم نہيں ہے ۔ شاید کہا جا سکتا ہو کہ اس کی اہمیت کفار سے جہاد سے کہیں زیادہ ہے ۔ شاید کہا جا سکے کہ اس کی اہمیت سماج میں عام سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زيادہ ہے بلکہ یہاں تک بھی شاید کہا جا سکے کہ اس حکم کی اہمیت بڑی عبادتوں اور حج سے بھی زیادہ ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کیونکہ در حقیقت یہ حکم ، موت کے دہانے پر پہنچنے یا مرنے کے بعد اسلام کی حیات نو کو یقینی بناتا ہے ۔ تو اب سوال یہ ہے کہ اس حکم پر عمل در آمد کون کرے گا ؟ اس واجب کی بجاآوری کس کی ذمہ داری ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس جانشین پر جس کے زمانے میں یہ انحراف سامنے آیا ہو ۔ لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ حالات سازگار ہوں کیونکہ خداوند عالم نے ایسا کوئی کام واجب نہيں کیا ہے جس کا کوئي فائدہ نہ ہو ، اگر حالات سازگار نہ ہوں تو آپ جو کام بھی کریں اس کا کوئی فائدہ اور اثر نہيں ہوگا ۔ حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے ۔ البتہ حالات کے سازگار ہونے کے بھی دوسرے معانی ہيں ، نہ یہ کہ ہم کہيں چونکہ خطرات ہیں اس لئے حالات سازگار نہيں ہیں یہاں پر یہ مراد نہيں ہے ۔ حالات سازگار ہوں یعنی انسان کو علم ہو کہ یہ جو کام کر رہا ہے اس کے نتائج بھی بر آمد ہوں گے یعنی عوام تک اس کا پیغام پہنچے گا ، لوگوں کی سمجھ میں بات آ جائے گی اور وہ غلط فہمی میں نہيں رہيں گے ۔ یہ ، وہی فرض ہے جسے کسی ایک کو بجا لانا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ، اس طرح کا انحراف بھی تھا اور حالات بھی سازگار تھے تو امام حسین کے لئے قیام ضروری ہو گیا تھا کیونکہ انحراف پیدا ہو چکا تھا ۔ کیونکہ معاویہ کے بعد اقتدار جس نے سنبھالا وہ ایسا شخص تھا جس ظاہری اسلام کا بھی خیال نہيں رکھتا تھا ! شراب پیتا تھا اور غلط کام انجام دیتا تھا ۔ علی الاعلان جنسی بد عنوانی کرتا تھا ، قرآن کے خلاف بات کرتا تھا قرآن اور دین کی رد میں اشعار پڑھتا تھا اور کھل کر اسلام کی مخالفت کرتا تھا لیکن چونکہ اس کا نام مسلمانوں کے سردار کے طور پر لیا جاتا تھا اس لئے اسلام کے نام کو ہٹانا نہيں چاہتا تھا ۔ وہ اسلام پر عمل کرنے والا تھا نہ اس کے دل میں اسلام سے ہمدردی تھی بلکہ وہ اپنے اعمال سے ، اس گڑھے کی طرح ، جس سے ہمیشہ گندہ پانی نکلے اور اطراف کے پانی کو آلودہ کرے ، اسلامی سماج کو گندہ کر رہا تھا اس کے وجود سے پورا اسلامی سماج گندگی سے پر ہو جاتا ! بد عنوان حاکم ایسا ہوتا ہے ۔ کیونکہ حاکم ، چوٹی پر ہوتا ہے اور اس سے جو کچھ نکلتا ہے ، وہیں پر نہيں ٹھہرتا _ عام لوگوں کے بر خلاف _ بلکہ نیچے گرتا ہے اور ہر جگہ چھا جاتا ہے ! عام لوگ ، اپنی جگہ پر ہوتے ہیں البتہ جس کا بالاتر مقام ہوتا ہے ، جس کی سماج میں زیادہ حیثیت ہوتی ہے اس کی بد عنوانی کا نقصان اتنا ہی زيادہ ہوتا ہے ۔ عام لوگوں کی بدعنوانی ، ممکن ہے خود ان کے لئے یا ان کے اطراف کے کچھ لوگوں پر موثر ہو لیکن جو آگے ہوتا ہے اگر وہ بدعنوان ہو جائے ، تو اس کی بدعنوانی پھیلتی اور پورے ماحول کو خراب کر دیتی ہے اسی طرح سے اگر وہ نیک ہوتا ہے تو اس کی نیکی پھیلتی ہے اور ہر جگہ اس کے اثرات دیکھے جاتے ہیں ۔ ایسا شخص اتنی بدعنوانیوں کے ساتھ ، معاویہ کے بعد پیغمبر اعظم کا خلیفہ بن بیٹھا ہے ! اس بڑا انحراف کیا ہو سکتا ہے ؟! ماحول بھی سازگار ہے ، ماحول سازگار اس کا کیا مطلب ؟ یعنی خطرہ نہيں ہے ؟ کیوں نہيں خطرہ ہے ۔ کیا یا ہو سکتا ہے کہ سماج کے سب سے بڑے عہدے پر جو شخص ہو ، وہ اپنے سامنے کھڑے ہونے والے کے لئے خطرہ نہ ہو ؟ یہ تو جنگ ہے ۔ آپ اسے تخت سلطنت سے نیچے کھینچنا چاہتے ہيں تو کیا وہ بیٹھا تماشا دیکھتا رہے گا ؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی آپ کو نقصان پہنچائے گا تو پھر خطرہ تو ہے ۔اور یہ جو ہم کہتے ہيں کہ حالات سازگار ہيں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی سماج کا ماحول ایسا ہے کہ جس میں امام حسین علیہ السلام کا پیغام اس دور کے انسانوں کے کانوں تک پہنچ اور تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو سکتا ہے ۔ اگر معاویہ کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام قیام کرنا چاہتے تو ان کا پیغام دفن ہو جاتا ۔ یہ معاویہ کے زمانے میں حکومت کے حالات کی وجہ سے ہے ۔ پالیسیاں کچھ اس طرح تھیں کہ عوام سچی بات کی سچائی کو سننے کی صلاحیت نہيں رکھتے تھے ۔ اسی لئے آپ حالانکہ معاویہ کے زمانے میں دس برسوں تک امامت کے عہدے پر فائز رہے لیکن کچھ نہیں بولے ۔ کوئي کام ، کوئی اقدام کوئي قیام نہيں کیا کیونکہ اس وقت کے حالات مناسب نہيں تھے ۔ آپ سے پہلے بھی امام حسن علیہ السلام تھے ۔ انہوں نے بھی قیام نہيں کیا کیونکہ حالات مناسب نہيں تھے اس کا یہ مطلب قطعی نہيں ہے کہ امام حسین اور امام حسن یہ کام کرنے کی صلاحیت نہيں رکھتے تھے ۔ امام حسن اور امام حسین میں کوئی فرق نہيں ہے ، امام حسین اور امام زین العابدین میں کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسین اور امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام میں کوئی فرق نہيں ہے ۔ ہاں لیکن چونکہ امام حسین علیہ السلام نے یہ عظیم کام انجام دیا ہے اس لئے ان کا مقام ان سے بالاتر ہے جنہوں نے یہ کام انجام نہيں دیا لیکن سب کے سب امامت کے عہدے میں برابر ہیں اور ان عظیم شخصیات میں سے جس کے سامنے بھی ایسے حالات پیش آتے وہ یہی کام کرتا اور اسی مقام پر پہنچتا ۔ تو امام حسین علیہ السلام بھی اس قسم کے انحراف کو دیکھ رہے ہيں تو پھر فریضے پر عمل در آمد ضروری ہے ۔ حالات بھی سازگار ہیں اس لئے کوئي عذر بھی باقی نہيں بچتا اس لئے عبد اللہ بن جعفر ، محمد بن حنفیہ اور عبد اللہ بن عباس _ یہ لوگ عام افراد نہيں تھے بلکہ سب کے سب دین کا علم رکھنے والے ، صاحب عرفان ، عالم اور با فہم تھے _ جب امام سے کہتے تھے کہ مولا ! خطرہ ہے ، نہ جائيں ، تو در اصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب خطرہ ہو تو فرض ختم ہو جاتا ہے وہ یہ نہيں سمجھ رہے تھے کہ یہ ایسا فریضہ نہيں ہے جو خطرہ کی وجہ سے ساقط ہو جائے ۔ اس فريضے کے ساتھ ہمیشہ خطرہ ہوتا ہے ۔ کیا یہ ہو سکتا انسان ، ظاہری اعتبار سے ایسی طاقت کے خلاف قیام کرے اور کوئي خطرہ نہ ہو ؟! کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟! اس فریضے پر عمل میں ہمیشہ خطرہ ہے وہی فریضہ جس پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عمل کیا ۔ آپ سے بھی کہا گیا کہ آپ نے بادشاہ سے لڑائی مول لی ہے خطرناک ہے ۔ امام خمینی کو علم نہيں تھا کہ اس میں خطرہ ہے ؟! امام خمینی کو نہيں معلوم تھا کہ پہلوی سیکوریٹی فورس لوگوں کو گرفتار کرتی ہے ، قتل کرتی ہے ، ایذائيں دیتی ہے ، آدمی کے دوستوں کا قتل کرتی ہے انہيں جلا وطن کرتی ہے ؟! امام خمینی رضوان اللہ کو ان سب باتوں کا علم نہيں تھا ؟! جو کام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہوا اس کا چھوٹا سا نمونہ امام خمینی رحمت اللہ کے زمانے میں بھی پیش آیا بس اس فرق کے ساتھ کہ وہاں پر نتیجہ شہادت کی شکل میں سامنے آیا اور یہاں حکومت کی شکل میں ۔ یہ وہی چیز ہے ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کا مقصد اور امام خمینی رضوان اللہ کا مقصد ایک ہی تھا ۔ یہ بات امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کی بنیاد اور شیعی نظریات و علوم کا ایک بڑا حصہ ہے یہ ایک اہم ستون اور اسلام کا ایک رکن ہے ۔ تو ہدف کا معنی ، اسلامی سماج کو اس کی صحیح پٹری پر لانا ہے ۔ کب ؟ جب راہ ، بدل دی جائے اور جہالت و ظلم و استبداد اور کچھ لوگوں کی غداری ، مسلمانوں کو گمراہ کردے اور حالات بھی سازگار رہیں ۔ البتہ تاریخی حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی حالات سازگار ہوتے ہیں اور کبھی سازگار نہیں ہوتے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں حالات سازگار تھے ہمارے زمانے میں بھی حالات سازگار تھے ۔ امام خمینی رضوان اللہ نے بھی وہی کام کیا ۔ مقصد ایک ہی تھا لیکن بات یہ ہے کہ جب انسان اس مقصد کی تکمیل کی راہ پر آگے بڑھتا ہے اور باطل حکومت و مرکز کے خلاف قیام کرنا چاہتا ہے ، تاکہ اسلام اور اسلامی نظام کو اس کے صحیح محور پر لے آئے ، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ حکومت تک پہنچ جاتا ہے ایک شکل تو یہ ہے _ ہمارے زمانے میں خدا کے شکر سے ایسا ہی ہوا _ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قیام حکومت پر منتج نہیں ہوتا ، شہادت ملتی ہے ۔ کیا اس صورت میں واجب نہيں ہے ؟ کیوں نہیں ؟ شہادت پر منتج ہو تب بھی واجب ہے ، کیا اگر قیام کا نتیجہ شہادت ہو تو اس صورت میں قیام کا کوئي فائدہ نہيں ہے ؟ کیوں نہيں ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ اس قیام اور اس تحریک کا دونوں صورتوں میں مفید ہے ۔ چاہے شہادت پر منتج ہو چاہے حکومت پر ، لیکن ہر ایک کا مختلف قسم کا فائدہ ہے ۔ اسے انجام دینا چاہئے ، آگے بڑھنا چاہئے ۔یہ وہی کام تھا جسے امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام وہ تھے جنہوں نے پہلی بار یہ کام کیا تھا ، ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہيں کیا تھا کیونکہ ان سے قبل _ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے زمانے میں _ نہ تو ایسا انحراف تھا اور نہ ہی مناسب حالات تھے ۔ یا اگر کچھ مقامات پر انحراف نظر بھی آتا تھا تو حالات مناسب نہيں تھے۔امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں دونوں چیزیں تھی امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں یہ بنیادی عنصر ہے۔تو اس طرح سے ہم مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں : امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تاکہ اس عظیم فریضے پر عمل کریں جس کا معنی اسلامی سماج میں بڑی گمراہی کے مقابلے میں قیام کرے اسلامی نظام اور سماج کی تعمیر نو ہے ۔ یہ کام قیام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے ہوتا ہے بلکہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک بڑا مصداق ہے البتہ اس فریضے پر عمل در آمد کبھی حکومت پر منتج ہوتا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اس کے لئے تیار تھے ۔ کبھی یہ شہادت پر منتج ہوتا ہے امام حسین علیہ السلام اس کے لئے بھی تیار تھے ۔ ہم کس دلیل کی بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ یہ نتیجہ ہم نے خود امام حسین علیہ السلام کی باتوں سے اخذ کیا ہے ۔ میں نے امام حسین علیہ السلام کے کلمات میں کچھ جملوں کا انتخاب کیا ہے _ البتہ ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے جو سب کے سب اسی معنی کو بیان کرتے ہيں _ پہلے مدینے میں ، جب مدینے کے حاکم ولید نے آپ کو بلوا کر کہا : معاویہ دنیا سے چلا گیا ہے اور آپ کو یزید کی بیعت کرنی ہے! امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: صبح تک انتظار کرو ، «ننظر و تنظرون اینا احق بالبیعة و الخلافه» ہم جاکر سوچيں گے دیکھیں ہمیں خلیفہ بننا چاہئے یا یزید کو خلیفہ بننا چاہئے ! دوسرے دن مروان نے آپ کو گلی میں دیکھا اور کہا : اے ابو عبد اللہ آپ خود کو موت کے حوالے کر رہے ہيں ! خلیفہ کی بیعت کیوں نہيں کرتے ؟ چلیں بیعت کریں ، خود کو موت کے منہ میں نہ ڈالیں ، خود کو پریشانی میں نہ ڈالیں ! امام حسین علیہ السلام نے اس کے جواب میں یہ جملہ فرمایا: : «اناللَّه و انا الیه راجعون و علىالاسلام السّلام، اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید»؛ اب اسلام کو رخصت کر دینا چاہئے جب یزید جیسا حاکم بر سر اقتدار ہو اور اسلام یزيد جیسے حاکم میں پھنس جائے ! معاملہ صرف یزید کا نہيں ہے ، جو بھی یزید کی طرح ہو ۔امام حسین علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں اب تک جو کچھ تھا قابل برداشت تھا لیکن اب دین اور اسلامی نظام کے اصولوں کی بات ہے جو یزید جیسے حاکم کی حکومت میں تباہ ہو جائے گا ۔ آپ اپنے اس قول سے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس انحراف کا خطرہ سنجیدہ ہے ۔ اسلام کی جڑوں کے لئے خطرہ ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے مدینے سے نکلتے وقت بھی اور مکے سے نکلتے وقت بھی محمد بن حنفیہ سے کچھ باتیں کی ہیں ۔ میرے خیال میں یہ باتیں اس وقت سے متعلق ہیں جب آپ مکے سے باہر نکلنا چاہ رہے تھے ۔ ذی الحجہ کے مہینے میں جب محمد بن حنفیہ بھی مکے گئے تھے اس وقت آپ نے ان سے کچھ باتیں کی تھیں ۔ آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کی شکل میں کچھ لکھ کر دیا تھا ۔اس میں آپ نے خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی وغیرہ کے بعد لکھا ہے : «و انى لم اخرج اشرا ولا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً»؛ یعنی کچھ لوگ غلطی نہ کریں اور یہ مشہور نہ کریں کہ امام حسین بھی ادھر ادھر سے قیام کرنے والے کچھ دوسرے لوگوں کی طرح اقتدار کے لئے قیام کر رہے ہیں ۔ خود نمائی ، عیش و عشرت ظلم و بدعنوانی کے لئے جد و جہد شروع کر رہے ہیں ! ہمارا کام اس قسم کا نہیں ہے ۔ «و انّما خرجت لطلبالاصلاح فى امّة جدّى»ہمارے کام کا عنوان اصلاح ہے ۔ میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ وہی فریضہ ہے جس پر امام حسین علیہ السلام سے قبل عمل نہيں ہوا تھا ۔ یہ اصلاح قیام و خروج کے ذریعے ہے ۔ خروج یعنی قیام ، حضرت نے اس وصیتنامے میں ، اس بات کا ذکر کیا ہے _ تقریبا اس بات کی صراحت کی ہے _ یعنی پہلی بات تو یہ کہ ہم قیام کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہمارا قیام اصلاح کے لئے ہے نہ اس لئے کہ ہم ہر صورت میں حکومت کو حاصل کر لیں نہ ہی اس لئے ہے کہ ہر حال میں ہم جاکر شہید ہی ہو جائيں ۔ نہيں ، ہم اصلاح کرنا چاہتے ہيں ۔ البتہ اصلاح کوئی چھوٹا کام نہیں ہے ۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہيں انسان حکومت تک پہنچ جاتا ہے اور خود ہی زمام حکومت سنبھال لیتا ہے لیکن کبھی وہ یہ نہيں کر سکتا _ یعنی ایسا ہوتا نہيں _ بلکہ وہ شہید ہو جاتا ہے لیکن ہر دو حالت ، اصلاح کے لئے قیام ہے ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہيں : «ارید ان آمر بالمعروف و انهى عن المنكر و اسیر بسیرة جدّى» یہ اصلاح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی مصداق ہے یہ بھی ایک مختلف بات ہے۔ حضرت نے مکے میں دو خطوط لکھے ہیں کہ جن میں ایک بصرہ کے سرداروں اور دوسرا کوفہ کے سرداروں کے نام تھا ۔ بصرہ کے سردارں کے نام آپ کے خط میں یہ لکھا ہے : «و قد بعث رسولى الیكم بهذا الكتاب و انا ادعوكم الى كتاب اللَّه و سنة نبّیه فان سنّة قد امیتت و البدعة قدا حییت فان تسمعوا قولى اهدیكم الى سبیل الرّشاد»؛ میں بدعت کو ختم اور ست کو حیات نو عطا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ سنت کو ختم اور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے! اگر میرے ساتھ آؤگے تو راہ راست میرے ساتھ ہے ۔ یعنی میں اسی عظیم فریضے پر عمل کرنا چاہتا ہو جو اسلام ، سنت پیغمبر اور نظام اسلامی کو حیات نو عطا کرنا ہے ۔ پھر آپ نے اہل کوفہ کے نام اپنے خط میں فرمایا : «فلعمرى ما الامام الا الحاكم بالكتاب والقائم بالقسط الدّائن بدین الحقّ الحابس نفسه على ذالك اللَّه والسلام»؛ اسلامی سماج کا پیشوا اور رہنما ایسا شخص نہيں ہو سکتا جو فسق و فجور و بدعنوانی و گناہ میں ڈوبا ہو بلکہ اس عہدے ایسے کے پاس ہونا چاہئے جو خدا کی کتاب پر عمل کرے ۔ یعنی سماج کے درمیان کتاب خدا پر عمل کرے نہ یہ کہ خود ہی اکیلے ایک کمرے میں نماز پڑھے بلکہ خدا کی کتاب پر عمل کو سماج میں رائج کرے ، عدل و انصاف سے کام لے اور حق کو سماج میں قانون بنائے ۔«الداّئن بدین الحق» یعنی سماج کے قوانین و ضوابط اور اصولوں کو حق قرار دے اور باطل کو دور کرے ۔«والحابس نفسه على ذالك للّه»؛ بظاہراس جملے کا معنی یہ ہے کہ خود ہر صورت میں اللہ کے حضور میں سمجھے اور شیطانی و مادی کششوں کے جال میں نہ پھنسے بس ، اس بنا پر آپ نے ہدف معین کر دیا ۔ امام حسین علیہ السلام مکے سے نکل گئے ، آپ نے راستے میں تمام منزلوں پر مختلف لہجوں میں کچھ باتیں کہیں ۔ بیضہ نامی منزل میں ایسے حالت میں کہ جب حر بن یزید بھی آپ کے ساتھ ہے ، آپ آگے چلتے ہيں تو وہ بھی آپ کے ساتھ چلتا ہے اس طرح سے آپ اس منزل پر پہنچتے ہيں اور قیام کرتے ہيں ۔ شاید آرام کرنے سے قبل یا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ کھڑے ہوتے ہيں اور دشمن کے لشکر کو مخاطب کرکے اس طرح سے فرماتے ہيں : «ایّهاالنّاس، انّ رسولاللَّه (صلّىاللَّهعلیهوآله) قال: «من رأى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرام اللَّه، ناكثاً لعهداللَّه، مخالفاً لسنّة رسولاللَّه یعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول و لا فعل كان حقّاً علىاللَّه ان یدخله مدخله»؛ یعنی اگر کوئي یہ دیکھے کہ سماج میں کوئي حاکم اقتدار میں ہے اور ظلم کرتا ہے ، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئي چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے ، الہی احکامات سے کنارہ کش ہوتا ہے یعنی ان پر عمل نہيں کرتا اور دوسروں کو بھی عمل کی جانب راغب نہيں کرتا یعنی عوام میں اس کی کارکردگی گناہ ، مخاصمت اور ظلم پر مشتمل ہوتی ہے ۔ حاکم فاسد اور جائر جس کا مکمل مصداق یزید تھا«و لمیغیّر بقول و لافعل»، اور زبان و عمل کے ذریعے اس کے خلاف اقدام نہ کیا جائے «كان حقّاً على اللَّه ان یدخله مدخله» قیامت کے دن خداوند عالم اس چپ رہنے والے لاپروا و بے عمل شخص کو بھی وہی سزا دے گا جو اس نے اس ظالم کو دی ہوگی یعنی ان دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرے گا ۔یہ بات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی ہے یہ جو ہم نے بات کہی ہے اس کا حکم پیغمبر اسلام نے دیا ہے یہ مختلف بیانات کا ایک نمونہ ہے ۔ پیغمبر نے واضح کر دیا تھا کہ اگر اسلامی سماج انحراف کا شکار ہو جائے تو کیا کیا جائے ۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی پیغمبر اعظم کے اسی قول کو پیش کیا ہے ۔ تو پھر فریضہ کیا ہوا ؟ فریضہ قول و فعل کے ذریعے مخالفت ہوا ۔ اگر انسان ایسے حالات میں پہنچ جائے _ البتہ حالات مناسب ہوں _ تو اس پر واجب ہے کہ اس عمل کے خلاف قیام و اقدام کرے نتیجہ جو بھی ہو ، مار ڈالا جائے ، زندہ بچ جائے ، ظاہری اعتبار سے کامیاب ہو نا نہ ہو - ہر مسلمان کو اس صورت حال میں قیام و اقدام کرنا چاہئے یہ وہ فریضہ ہے جس کی وضاحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی ہے ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «و انّى احق بهذا»؛ میں تمام مسلمانوں میں سب سے زيادہ مستحق ہوں اس بات کا کہ یہ اقدام کروں اس طرح سے قیام کروں کیونکہ میں فرزند رسول ہوں ۔ اگر پیغمبر اس تبدیلی کو ، یعنی اس اقدام کو مسلمانوں کے فرد فرد پر واجب کیا ہے تو ظاہر ہے کہ حسین ابن علی ، فرزند رسول ، پیغمبر اسلام کے علم و حکمت کے وارث پر دوسروں کے مقابل زیادہ واجب ہے کہ اقدام کریں اور میں نے اسی لئے اقدام کیا ۔ تو امام نے اس طرح سے اپنے قیام کا سبب واضح کر دیا ۔ ازید نامی منزل میں جہاں چار لوگ آپ سے ملحق ہوئے امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا ۔ آپ نے فرمایا : «اما واللَّه انّى لأرجو ان یكون خیراً ما اراد اللَّه بنا؛ قتلنا او ظفرنا». یہ اس بات کی دلیل ہے جو ہم نے کہی ہے کوئی فرق نہيں ہے کامیاب ہوں یا مار ڈالے جائيں ، کوئي فرق نہيں پڑتا ۔ فریضہ ، فریضہ ہے اسے انجام دیا جانا چاہئے آپ نے فرمایا : مجھے یہ امید ہے کہ خدا وند عالم نے ہمارے لئے جو فیصلہ کیا ہے وہ خیر ہے چاہے ہم مار ڈالے جائيں یا کامیاب ہوں ۔ کوئي فرق نہيں پڑتا ہم اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں ۔کربلا پہنچے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا: «قد نزل من الامر ما قد ترون ...» اس کے بعد فرمایا«الا ترون الحق لایعمل به و الى الباطل لایتناهى عنه لیرغب المؤمن فى لقاء ربه حقا» - اس خطبے کے آخر تک _ یہاں پر ہم اپنی گفتگو مختر کرتے ہيں ۔ تو یہ بات واضح ہو گئ کہ امام حسین علیہ السلام نے ایک فریضے پر عمل کے لئے قیام کیا تھا ۔ یہ فریضہ طول تاریخ میں تمام مسلمانوں پر ہے اس فریضے کا معنی یہ ہے کہ جب بھی آپ دیکھيں کہ اسلامی سماجی نظام میں ، بنیادی خرابی پیدا ہو گئ ہے اور اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ احکام اسلامی ممکل طور پر بدل دئے جائيں تو ہر مسلمان کو قیام کرنا چاہئے ۔ البتہ مناسب حالات میں ، جب اسے یہ علم ہو کہ اس قیام کا اثر ہوگا ۔ حالات میں ، زندہ بچ جانا ، مار ڈالا جانا یا تکلیف نہ اٹھانے جیسی چیزیں شامل نہیں ہیں ، ان کا شمار حالات میں نہيں ہوتا اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور اس واجب فریضے پر عمل کیا تاکہ سب سے لئے درس بن جائے ۔اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طول تاریخ میں مناسب حالات میں کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دور کے بعد ، کسی بھی امام کے زمانے میں ایسے حالات پیش نہيں آئے خود اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ کیوں ایسے حالات پیش نہيں آئے ؟ کیونکہ ديگر اہم کام تھے جن کو کرنا ضروری تھا اور ایسے حالات ، اسلامی سماج میں ائمہ کی موجودگی کے آخری دور اور غیبت کے آغاز تک پیش نہيں آئے ۔ طول تاریخ میں اسلامی ممالک میں اس قسم کے حالات کئ بار در پیش ہوئے ۔ آج بھی شاید عالم اسلام میں ایسے بہت سے علاقے ہوں کہ جہاں ایسے حالات ہيں کہ جن میں مسلمانوں کو اپنے فريضے پر عمل کرنا چاہئے ، اگر وہ یہ کام کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا اور اسلام کو وسعت دی اور اس کی بقا کو یقینی بنا دیا ۔ اس قیام میں ایک دو لوگوں کو شکست بھی ہوگی ۔جب اس تبدیلی و قیام و اصلاحی تحریک کا اعادہ ہوگا تو یقینی طور پر سماج سے انحراف و بدعنوانی جڑ سے ختم ہو جائے گی ۔ کسی کو بھی اس راستے کا علم نہيں تھا کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوا تھا ۔ خلیفہ اول کے زمانے میں بھی اس پر عمل نہيں ہوا ، امیر المومنین نے بھی جو معصوم تھے ، اس کام کو انجام نہیں دیا تھا اس لئے امام حسین علیہ السلام نے علمی لحاظ سے پوری تاریخ اسلام کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے اور در حقیقت اسلام کو اپنے اور دیگر تمام زمانوں میں محفوظ کر دیا۔ اب جہاں بھی اس قسم کی بدعنوانی ہوگی ، امام حسین وہاں زندہ ہیں اور اپنی روش اور عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ فریضہ یہ ہے ۔ اسی لئے امام حسین اور کربلا کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے کیونکہ کربلا کی یاد اس درس کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ دوسرے اسلامی ملکوں میں ، عاشور سے حاصل سبق کو اس طرح سے جیسا اس کا حق ہے ، پہچانا نہيں گیا ۔ یہ کام ہونا چاہئے ، ہمارے ملک میں اس کی معرفت تھی ۔ ہمارے ملک میں عوام ، امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے تھے اور انہیں امام حسین علیہ السلام کے قیام کی معرفت تھی اور ان میں حسینی جذبہ موجود تھا اسی لئے جب امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ محرم ایسا مہینہ ہے جس میں خون کو شمشیر پر فتح حاصل ہوتی ہے تو لوگوں کو تعجب نہيں ہوا ۔ اور ہوا بھی ایسا ہی خون کو تلوار پر فتح حاصل ہو گئ - میں نے کئ برسوں پہلے یہی بات ایک نشست میں کہی تھی _ البتہ انقلاب سے قبل _ ایک مثال میرے ذہن میں آئی جس کا ذکر میں نے اس نشست میں کیا تھا وہ مثال ، اس طوطے کی ہے جس کا ذکر مولوی نے اپنی مثنوی میں کیا ہے ۔ ایک آدمی کے گھر میں ایک طوطا تھا _ البتہ یہ ایک مثال ہے اور مثال حقیقت بیان کرنے کے لئے ہوتی ہے _ جب وہ ہندوستان جانے لگا تو اس نے اپنے گھر والوں سے رخصتی کے بعد طوطا کو بھی الوداع کہا ۔ اس نے طوطے سے کہا کہ میں ہندوستان جا رہا ہوں اور ہندوستان تمہاری سرزمین ہے ۔ طوطے نے کہا : فلاں جگہ جانا وہاں میرے دوست و رشتہ دار ملیں گے ۔ وہاں ان سے کہنا کہ تمہارے ایک ساتھی میرے گھر میں ہے ۔ ان سے میری حالت بیان کرنا اور کہنا کہ تمہارا ساتھی میرے گھر میں ایک پنجرے میں ہے ۔ بس تم سے مجھے اور کچھ نہيں چاہئے ۔وہ سفر پر روانہ ہو گیا اور جب اس جگہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے طوطے درختوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے ہيں ۔ اس نے انہیں پکار کر کہا : اے بولنے والے پیار طوطو! میں تمہارے لئے پیغام لایا ہوں ۔ تمہارا ایک ساتھی ہمارے گھر میں ہے ۔وہ بہت اچھی حالت میں ہے ، پنجرے میں ہے مگر بڑی اچھی حالت میں رہتا ہے اور اچھے اچھے کھانے ملتے ہیں اس نے تمہیں سلام کہا ہے ۔اس تاجر کی بات جیسے ہی ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ شاخوں پر بیٹھے تمام طوطے پھڑپھڑا کر زمین پر گر گئے ۔ جب وہ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ سب کے سب مر گئے ہيں ! اسے بڑا افسوس ہوا اور سوچنے لگا کہ میں نے آخر کیوں ایسی بات کہی یہ بیچارے سب کے سب مر گئے !! لیکن اب تو وقت گزر چکا تھا اور کچھ نہيں کیا جا سکتا تھا ۔ تاجر واپس چل پڑا اور جب اپنے گھر پہنچا تو فورا پنجرے کے پاس گیا اور طوطے سے کہا کہ میں نے تمہارا پیغام پہنچا دیا ۔ اس نے کہا : ان لوگوں نے کیا جواب دیا ؟ تاجر نے کہا : تمہارا پیغام سنتے ہی سارے طوطے پیڑوں پر پھڑاپھڑانے لگے اور پھر زمین پر گر کر مر گئے! جیسے ہی تاجر کی بات ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ اس کا طوطا بھی پھڑاپھڑا کر پنجرے میں گرا اور مر گیا ! اسے بہت دکھ ہوا ۔ پنجرہ کھولا تو دیکھا کہ طوطا مر چکا ہے ۔ اب اسے رکھنا ممکن نہيں تھا ۔ اس کا پیر پکڑ کر چھت پر پھینک دیا لیکن طوطے نے ہوا میں ہی پر پھڑپھڑانا شروع کر دیا اور اڑ کر دیوار پر بیٹھ گیا ! اس نے تاجر سے کہا : اے میرے پیارے دوست تمہارا بہت بہت شکریہ ، تم نے میری رہائی کی سبیل کی ۔ میں مرا نہيں تھا ، مرنے کا دکھاوا کر رہا تھا اور یہ وہ سبق تھا جو ان طوطوں نے مجھے سکھایا ! وہ سمجھ گئے کہ میں یہاں پنجرے میں قید ہوں لیکن وہ کس طرح سے مجھے بتاتے کہ میں رہائی کے لئے کیا کروں ؟ انہوں نے عملی طور پر مجھے بتا دیا کہ میں کیا کروں جس سے مجھے رہائی مل جائے ! _ مر جاؤ تاکہ زندگی مل جائے _ میں نے ان کا پیغام تہمارے ذریعے حاصل کیا اور یہ ایسا عملی سبق تھا جو اتنی دوری کے باوجود مجھ تک پہنچا اور ميں نے اس سبق سے فائدہ بھی اٹھایا ۔میں نے اس وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کس زبان میں یہ بتاتے کہ آپ کا فریضہ کیا ہے ؟ حالات وہی ہیں ۔ زندگی کی نوعیت وہی ہے ، اسلام بھی وہی ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے عملی طور پر تمام نسلوں کو سبق دیا ۔ اگر امام حسین علیہ السلام کی ایک بات بھی ہم تک نہ پہنچتی تو بھی ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ہمارا فریضہ کیا ہے ۔جو قوم قید میں ہو ، جس قوم کے رہنما بدعنوان ہوں ، جس قوم پر دین کے دشمن حکومت کر رہے ہوں اور اس کے مستقبل اور فیصلوں کے ذمہ دار ہوں تو اسے وقت کے ساتھ یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا فریضہ کیا ہے کیونکہ فرزند رسول ، ایک معصوم امام نے بتا دیا کہ ان حالات میں کیا کیا جانا چاہئے ۔زبان کے ذریعے ممکن نہيں تھا اگر وہ ہی بات سو زبانوں میں کہتے لیکن خود آگے نہ بڑھتے تو ممکن نہيں تھا کہ یہ پیغام تاریخ کو پار کرتا ہوا یہاں تک پہنچے ۔ صرف نصیحت کرنا اور زبان سے کہی باتیں تاریخ کو عبور نہيں کرتیں ۔ ہزاروں تفسیر و تاویلیں کر دی جاتی ہيں عمل ہونا چاہئے ۔ وہ بھی ایسا عظیم عمل ، ایسے سخت اور ایثار و قربانی کا عمل اتنا عظیم عمل ہونا چاہیے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ! حقیقت تو یہ ہے کہ عاشو ر کے جو مناظر ہماری نظروں کے سامنے ہيں اس کے سلسلے میں تو بہتر ہوگا ہم یہ کہیں کہ انسانی المیہ کی تاریخ میں اس کی کوئي مثال نہيں ملتی ۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، جیسا کہ امیر المومنین اور امام حسن علیھم السلام نے فرمایا _ جیسا کہ روایتوں میں ہے _ - «لایوم كیومك یا اباعبداللَّه»؛ کوئي دن تمہارے دن ، تمہارے روز عاشورا ، کربلا کے اور تمہارے ساتھ ہوئے واقعے کی طرح نہيں ہے. چودہ سو سولہ ہجری قمری کے عاشور کے دن جمعہ کا خطبہ 95-6-9
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج بدھ پہلی اکتوبر دو ہزار آٹھ عیسوی کو اعلی حکام اور مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں عالم اسلام کے مستقبل کو ماضی کی بنسبت اس وقت زیادہ تابناک، امید افزا اور امت مسلمہ کی پیشرفت کو نا قابل انکار حقیقت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ترقی اور اور یہ تابناک مستقبل روز بروز اور درخشاں ہوگا اور عالم اسلام کا اسلامی وقار بحال ہوگا۔
تہران میں مرکزی نماز عید الفطر آج پہلی اکتوبر دو ہزار آٹھ کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی گئي ـ آج عید کی نماز کے لئے تہران کی مرکزی عیدگاہ میں مومنین کا جم غفیر نظر آیا اور بڑے پر شکوہ انداز میں نماز عید ادا کی گئي ـ قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید کے خطبوں میں ملت ایران اور امت مسلمہ کو عید فطر کی مبارکباد پیش کی اور عوام سے تقوائے الہی اختیار کرنے اور ماہ مبارک رمضان کی پاکیزگي اور نورانیت کو انفرادی اور عمومی دونوں سطح پر بر قرار رکھنے کی سفارش کی ـ آپ نے دنیوی لذات سے دوری، تلاوت کلام پاک، قرآنی تعلیمات سے آگاہی و واقفیت، ذکر و دعا، تضرع و خشوع اور شبہای قدر میں پروردگار عالم کی جانب قلبی توجہ کو انسان کی پاکیزگی نفس اور طہارت باطن کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس با برکت مہینے کا ایک اہم درس نفسانی خواہشتات اور مادی لذات پر غلبہ کی توانائي کا درس ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر انسان عزم راسخ سے کام لے تو اپنی خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے اور خود کو بری عادتوں اور ناپسندیدہ خصلتوں سے نجات دلا سکتا ہے ـ قائد انقلاب اسلامی نے امداد باہمی اور جذبہ ایثار کو ماہ رمضان کا دوسرا اہم درس قرار دیا اور فرمایا کہ مساجد اور دیگر مقامات پر نا معلوم افراد کی جانب سے افطاری کے دسترخوان لگتے رہے، غریبوں کی مدد کی جاتی رہی اور ایک دوسرے کی مدد کے مناظر مسلسل نظر آتے رہے، یہ سب رمضان کے معنوی ثمرات ہیں اور اگر اس جذبے کو پورے سال جاری رکھا جائے تو بڑی مشکل کشائی ہوگی ـ قائد انقلاب اسلامی نے ذکر و دعا کی مجالس میں مختلف طرز فکر اور مختلف سن کے افراد کی ایک ساتھ شرکت کو ملت ایران پر اللہ تعالی کے لطف خاص کا نتیجہ قرار دیا اور قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان معنوی اعمال کو جاری رکھئے اور ماہ رمضان کی برکتوں سے پورے سال کو سجا دیجئے ـ قائد انقلاب اسلامی نے پورے ملک میں عید فطر کی نماز کے قیام کو قوم کی حقیقی اور قلبی یکجہتی کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اس عظیم اتحاد کو رمضان کے درس اور اس مہینے کے معنوی ثمرے کی حیثیت سے باقی رکھئے ـ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے ابتکار عمل سے شروع ہونے والے عالمی یوم قدس کو عالم اسلام کے اتحاد کا حقیقی مظہر قرار دیا اور ملت ایران کے یوم قدس کے جلوسوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سال عالم اسلام میں مشرق سے مغرب تک اور حتی یورپ میں جہاں کی حکومتیں صیہونیوں کے دباؤ میں ہیں مسلمانوں نے ملت فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا ـ آپ نے اس سال کے یوم قدس کو فلسطین کا نام و نشان مٹا دینے کی فلسطین کے غاصبوں اور ان کے حامیوں کی ساٹھ سالہ کوششوں کی ناکامی کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی بیداری کی برکت سے عالم اسلام اس وقت مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں بہت حساس ہو گیا ہے، اگر موجودہ اسلامی بیداری فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے وقت ہوتی تو یہ سر زمین کبھی بھی صیہونیوں کے قبضے میں نہ جاتی ـ قائد انقلاب اسلامی نے ملت فلسطین کی استقامت و پائیداری کو اس مسئلے کی جانب دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ مرکوز ہو جانے کا بنیادی سبب قرار دیا اور ملت فلسطین، اس ملک کی قانونی حکومت اور منتخب وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گی ـ قائد انقلاب اسلامی نے صیہونیوں کی جانب سے اپنی کمزوری کے اعتراف کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسرائيل کی شکست یقینی ہے اور امید ہےکہ ملت فلسطین کی موجودہ نسل ہی اپنی آنکھوں سے وہ عظیم دن دیکھے گی ـ آپ نے دشمنان اسلام کی جانب سے ہو رہے چو طرفہ حملوں کے سد باب کا واحد راستہ عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کو قرار دیا اور مسلم اقوام بالخصوص دانشور اور علما کے طبقے کی اس تعلق سے سنگین ذمہ داری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن امت مسلمہ کی بیداری کی لہر کو دیکھ کر گوناگوں سیاسی و تشہیراتی حربے اختیار کئے اور عرب و غیر عرب اور شیعہ سنی کی تفریق جیسے تقرقہ اندازی کے حربے استعمال کرتے ہوئے جھوٹ اور فریب کے سہارے تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور مسلم ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ہراساں کر رہے ہیں حالانکہ اسلامی نظام اور ملت ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی تمام ترقیوں اور سائنسی اختراعات کو پوری امت مسلمہ کا حق سمجھتی ہے اور ہر قدم پر عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر تاکید کرتی ہے ـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ پہلی اکتوبر دو ہزار آٹھ کوعید فطر کے دن ملک کے اعلی حکام کے اجتماع سے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کی اور اہم سیاسی، سماجی اور معنوی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں امت مسلمہ، پوری دنیا کے مسلمانوں، عزیز و قابل احترام ملت ایران اور آپ حاضرین کرام کو اس عظیم اسلامی عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ عید فطر کو امت مسلمہ کے لئے حقیقی عید قرار دے اور مسلمانوں کو اس درخشاں مستقبل سے جو اس کے انتظار میں ہے اور جس کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے قریب کرے۔
آپ حضرات، ہمارے ملک کے عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے ماہ رمضان میں الہی دسترخوان سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس مہینے میں ذکر و تسبیح، دعا و مناجات ، توبہ و استغفار، خضوع و خشوع اور تقرب الہی کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ روزے کے عالم میں ضبط نفس سے بندگان خدا کے لئے الہی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کی زمین ہموار ہوتی ہے۔ یہ ضیافت الہی ہے جس میں مسلمانوں کا وجود ذکر الہی اور مناجات کی لذتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ لوگ اپنی حقیقی فطرت سے نزدیک ہوتے ہیں، قوت ارادی بڑھتی ہے اور لوگوں کے تقوی میں اضافہ ہوتا ہے جو ان کا سب سے اہم اور ضروری توشہ راہ ہے۔
میں عرض کروں کہ اس وقت مسلمانوں اور امت مسلمہ کو تقوے کے ذخیرے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امت مسلمہ مستقبل سے نا امید تھی۔ عالم اسلام کے مفکرین بیٹھ کر مسلمانوں کے تاریک مستقبل اور بد بختی کا مرثیہ پڑھتے تھے۔ سید جمال الدین اور دیگر برجستہ مفکرین اور علمی شخصیات کی تصنیفات میں صاف نظر آتا ہے کہ یہ افراد بیدار ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی حالت زار پر حقیقی معنی میں مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ عالم اسلام کے افق پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کہیں سے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ تازہ دم سامراجی طاقتیں مسلمانوں کی سرزمین پرقدم جما چکی تھیں اور اسلامی حکومتوں کی نکیل ان کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان طاقتوں نے ہم مسلمانوں کی غفلتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کا مستقبل روز بروز تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔ تو ایک ایسے دور سے امت مسلمہ گزری ہے۔ لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔ وہ تاریک افق اس وقت روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے جس گوشے میں بھی مسلمان آباد ہیں خواہ ایک قوم کی حیثیت سے یا مذہبی اقلیت کی شکل میں، اپنے مستقبل کو پر امید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان میں یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ عالم اسلام کے دشمن یعنی وہی سامراجی طاقتیں، تسلط پسند عناصر اور خود غرض حکومتیں یعنی وہ لوگ جو پرکشش اور گمراہ کن نعروں کے ذریعے مسلم ممالک میں پیر جمائے ہوئے ہیں عالم اسلام کی بد بختی کے لئے شب و روز سازشوں میں مصرورف ہیں۔ یہ عناصر اور یہ طاقتیں یوں تو تکنیکی اور دفاعی ترقی، تباہ کن ہتھیاروں، تشہیراتی وسائل اور مواصلاتی نظام کے لحاظ سے بہت آگے ہیں لیکن امت مسلمہ میں اٹھنے والی بیداری کی عظیم لہر نے انہیں سراسیمہ کر دیا ہے اور انہیں اپنی شکست صاف نظر آنے لگی ہے۔ عالم اسلام کی اس وقت یہ صورت حال ہے۔ اگر کوئی اسے نہیں مانتا تو در حقیقت وہ اظہر من الشمس حقائق کا انکار کر رہا ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کے سامنے تابناک مستقبل ہے۔ دشمن عناصر اور سامراجی طاقتیں جو پوری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتی ہیں اس وقت امت مسلمہ میں پیدا ہونے والی حرکت اور نظر آنے والی بیداری سے بوکھلا گئی ہیں۔ ان کے راستے بند ہو گئے ہیں اور یہ صورت حال اس وعدہ الہی کے پورا ہونے کی نوید دیتی ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے؛ لينصرنّ اللَّه من ينصره انّ اللَّه لقوىّ عزيز» اسی طرح ارشاد ہوتا ہے و نريد ان نمنّ على الّذين استضعفوا فى الأرض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثين. تو یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے اور و اللَّه غالب على أمره
یہ وعدہ الہی ہے جو مسلمانوں کی بیداری اور پیش قدمی کی برکت سے بتدریج عملی جامہ پہن رہا ہے۔ ایک عظیم جہاد امت مسلمہ کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ فوجی جہاد نہیں ہے۔ یہ سیاسی جہاد ہو سکتا ہے، فکری جہاد ہو سکتا ہے، علمی جہاد ہو سکتا ہے سماجی و اخلاقی جہاد ہو سکتا ہے۔ امت مسلمہ اس جہاد کے مختلف پہلؤوں سے رفتہ رفتہ آشنا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ آج آپ مشرق وسطی کے نہایت حساس علاقے میں دیکھیں۔ آپ کو امت مسلمہ کی پیش رفت نظر آئے گی۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے لئے ایک غمناک مسئلہ تھا لیکن آج فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے وحشی پن میں کئی گنا اضافے کے باوجود ملت فلسطین کی پیشانی سے امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ فلسطین کے غاصب اپنی سازشوں کی جانب سے مایوسی کا شکار ہیں۔ اب وہ خود اعتراف کرنے لگے ہیں کہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں ہے۔ سابق سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد خود کو دنیا کا داروغہ اور بلا شرکت غیرے مالک تصور کرنے والی امریکی حکومت آج جگہ جگہ مشکلات سے دوچار ہے۔ ایسی پیچیدگیوں میں پھنس گئی ہے کہ ان سے نکلنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے وہ اس حساس علاقے میں آئے لیکن وہ افغانستان ہو کہ عراق، لبنان ہو کہ فلسطین جہاں بھی آپ دیکھئے امریکیوں کے منصوبے ایک ایک کرکے نقش بر آب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ نا امیدی کا اعلان اب وہ خود بھی کرنے لگے ہیں۔ خود اپنے منہ سے اعتراف کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال عید فطر ہی کا موقع تھا جب میں نے امت مسلمہ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ یہ لوگ جو ایناپولیس کانفرنس منعقدہ کرنا چاہتے ہیں جس میں علاقے پر زیادہ سے زیادہ تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں، شکست سے دوچار ہوگی، آج آپ خود دیکھ لیں کہ فلسطین، لبنان اور مشرق وسطی کے علاقے میں اس کانفرنس کا جو نشستند و گفتند و برخاستند کا مصداق تھی کہیں کوئی اثر دکھائی دیتا ہے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اور امت مسلمہ کی دشمنی کا سودا سر میں پالنے والی طاقتیں جو اس حساس علاقے پر غلبہ حاصل کرنے کے در پے تھیں اب خود محسوس کر رہی ہیں کہ ان میں ایک قدم بھی آگے بڑھنے کی سکت نہیں ہے۔
میں کسی حوش فہمی میں آپ کو مبتلا نہیں کرنا چاہتا، ان کے سامنے اس وقت واقعی دشوارترین اور سخت ترین حالات ہیں جس کا سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ طاقتیں قوموں کے ارادوں کے سامنے نہیں ٹک سکی ہیں اور آئندہ بھی قوموں کے آہنیں ارادوں کے سامنے ان کی ایک نہ چلے گی۔ عراق کی دلدل میں وہ پھنسی ہوئي ہیں، افغانستان میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ اور اب پاکستان میں بھی ان کی دخل اندازی شروع ہوئي ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ہمارے اس ہمسایہ ملک میں ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں لیکن یہاں بھی ہزیمت ہی ان کا مقدر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قوموں میں بیداری آ چکی ہے۔ انہیں اپنے اسلامی حقوق کا علم ہے، قوموں میں استقامت کا جذبہ جوش مار رہا ہے اور انشاء اللہ یہ ارادہ اور یہ جذبہ روز بروز قوی سے قوی تر ہوگا۔
ان حالات میں امت مسلمہ کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ التفات پروردگار، امداد الہی اور تقرب الہی ہے۔ جو دل، قدرت لا یزال سے وابستہ ہو جاتا ہے وہ دشمن کی گرج اور چمک سے مرعوب نہیں ہوتا۔ اس میں کبھی بھی ضعف کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ تو آزمائي ہوئی چیزیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران تیس سال تک طاقتور سامراج کی سازشوں اور دشمنیوں کا سامنا کرتا رہا ہے اور ایران کی مسلم قوم پوری ہمت اور قوی ارادے کے ساتھ مختلف میدانوں میں ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے اور روز بروز آگے بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالی کا لطف و کرم ہے کہ یہ پیش روی جاری ہے اور روز بروز اس میں سرعت پیدا ہو رہی ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی وہ دن آئے گا جب دنیا امت مسلمہ کی عظمت و وقار کی شاہد ہوگی۔
ہمیں چاہئے کہ الہی رہنمائی کی قدر کریں، الہی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں۔ عید فطر کی اہمیت کو سمجھیں، اس عظیم عوامی اجتماع کے مقام کو پہچانیں جس میں شریک افراد کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہیں اور وہ ایک مقررہ وقت پر اپنے پروردگار سے اپنے قلوب کا رشتہ برقرار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو مناجات کی لذتوں سے آگاہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اتحاد کی حفاظت کریں، اپنی ہمت و حوصلے کو برقرار رکھیں۔
دعا کرتا ہوں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہم سب کے شامل حال ہوں اور امت مسلمہ کا ہر آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے بدرجہا بہتر ہو۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یکم شوال چودہ سو انتیس ہجری قمری مطابق پہلی اکتوبر سن دو ہزار آٹھ عیسوی کو تہران کی مرکزی عیدگاہ میں نماز عید فطر کی قیادت فرمائی۔ آپ نے نماز عید کے خطبوں میں مسئلہ فلسطین سمیت اہم ترین سیاسی مسائل پر روشنی ڈالی اور دینی و معنوی نکات کی جانب بھی اشارہ فرمایا۔ نماز عید فطر کے خطبوں کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين. الحمد للَّه الّذى خلق السّموات و الأرض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الذّين كفروا بربّهم يعدلون.نحمده و نستعينه و نؤمن به و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه سيّدنا أبىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيةاللَّه فى الأرضين. و صلّ على أئمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو خلق کیا اور تاریکیاں اور نور قرار دئے۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم درود و سلام بھیجتے ہیں اس کے حبیب پر، تمام مخلوقات میں اس کے منتخب بندے اور اپنے سید و آقا حضرت ابو القاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اور ان کے پاک و مطہر، منتخب و برگزیدہ آل پر خصوصا روی زمین پر حجت خدا قرار پانے والے حضرت ولی عصر علیہ السلام پر ہم درود بھیجتے ہیں تمام مسلمانوں کے اماموں، مستضعفین عالم کے پشتپناہوں اور مومنین کے رہنماؤں پر۔
میں تمام بھائیوں، بہنوں اور عزیز و محترم نمازیوں کو عید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اسی طرح ایران کی پوری قوم، تمام مسلمان اقوام اور پوری دنیا میں پھیلی ہوئی عظیم امت اسلامیہ کو(تہنیت پیش کرتا ہوں)
عید فطر کا دن دو ممتاز خصوصیتوں کا حامل ہے۔ پہلی خصوصیت عبارت ہےطہارت و پاکیزگی اور نظافت و صفائی کی اس حالت سے جو ماہ رمضان المبارک کی الہی اور شرعی ریاضتوں کے زیر اثر ایک مومن کے یہاں پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ روزہ انہی ریاضتوں میں سے ایک ریاضت ہے جو انسان اپنے پورے اختیار و ارادے کے ساتھ کئی گھنٹوں تک تمام مادی لذتوں سے پرہیز کرکے انجام دیتا ہے اور روزہ رکھ کر طویل ایام کے دوران اپنی نفسانی خواہشوں اور ہوس پر قابو رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم سے انس، کلام پروردگار کی تلاوت، قرآنی مفاہیم اور تعالیمات سے واقفیت اور اس کے ساتھ ہی ذکر و دعا اور گریہ و زاری کی یہ حالت اور وہ عشق و انس جو ایک انسان خدا وند متعال کے ساتھ ماہ مبارک کے دنوں اور راتوں میں خصوصا قدر کی مبارک شبوں میں پیدا کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں دل کو نورانیت عطا کرتی ہیں اور انسان کی روح و جان کو ایک نظافت و پاکیزگی بخش دیتی ہیں۔ چنانچہ ماہ رمضان المبارک کے یہ اہم اعمال ہمارے لئے عظیم سبق رکھتے ہیں اور ہمیں ان اسباق سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ایک سبق یہ ہے کہ اپنے خدا کی جستجو رکھنے والے ایک انسان کا ارادہ، نفس انسانی کو اپنی جانب کھینچنے والی تمام مادی خواہشوں، لذتوں اور ہوس پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ نکتہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے اپنی نفسانی خواہشات پر غلبہ نہیں مل سکتا اور وہ خود کو ہوس اور خواہشات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ ماہ رمضان کے روزے انسان پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ کر سکتا ہے، بس ارادہ کرنے کی دیر ہے۔ اگر وہ قوی ارادے اور عزم راسخ کے ساتھ میدان عمل میں اتر جائے تو ہوس اور نفس پر اسے غلبہ مل سکتا ہے۔ دلوں کو اغوا کر لینے والی جلوہ سامانیاں، بری اور ناپسندیدہ عادتیں جو ہمارے اندر پائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور محکم ارادے کے ذریعے قابو میں رکھی جا سکتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ قوی و مستحکم ارادہ اور فیصلے ہمارے لئے جن کی تاثیر خود ایک بڑا سبق ہے خواہ وہ ذاتی قسم کی ناپسندیدہ عادتیں ہوں یا سماجی سطح کی برائياں ہوں جو مادی و معنوی میدانوں میں ہماری پسماندگی کا باعث ہوتی ہیں ہم کو ان سے الگ ہونے اور تمام رکاوٹوں پر غلبہ پانے کا درس دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ماہ مبارک میں انسانوں کی مدد کرنے کا جذبہ اور لوگوں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔ خود غرضی ایثار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خوش قسمتی سے ادھر کچھ برسوں کے دوران کس قدر افراد نے نام و نمود کے بغیر مسجدوں حتی مختلف علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں کے اندر روزہ داروں کی میزبانی کا اہتمام کیا۔ افطاری کے دسترخوان لگائے گئے اور لوگوں کو اس دسترخوان پر آنے کی دعوت عام دی گئی۔ یہ دعوتیں ہر طرح کے تکلفات سے عاری تھیں۔ تعاون و ہمدردی کی یہ کیفیت اور انسان دوستی کا یہ جذبہ بہت قابل قدر ہے جو انسان کی نفسانی طہارت پر منتج ہوتا ہے۔ اس مہینے میں حاجتمندوں کی بہت مدد کی گئی۔ حتی ماہ رمضان المبارک میں لوگوں نے خون کا عطیہ بھی دیا۔ جی ہاں جس وقت حکام نے اعلان کیا کہ بیماروں کے لئے تازہ خون کی ضرورت ہے، بڑی تعداد میں لوگوں نے ماہ مبارک میں خون کا عطیہ دیا۔ اسی کو کہتے ہیں خود غرضی پر جذبہ ایثار کا غالب آ جانا۔ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینا۔ یقینا یہ جذبہ بڑی حد تک ماہ رمضان المبارک کی ایجاد کردہ اس معنویت کا نتیجہ ہے جو بحمد اللہ اس سال بھی گزشتہ برسوں کی مانند پوری فضا میں رچی بسی رہی۔ بلکہ سننے میں یہاں تک آیا ہے کہ اس سال ملک کی فضا عام طور پر ذکر و دعا اور گریہ و مناجات سے معمور رہی۔ خاص طور پر شبہای قدر کے برکتوں سے سرشار لمحات میں تمام افراد خصوصا نوجوانوں نے ذکر الہی اور دعا و مناجات سے محفلوں کو گرم رکھا۔ مختلف سیاسی، سماجی اور دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے الگ الگ طرز فکر کے افراد نے ان محافل و اجتماعات کو رونق بخشی۔ سب آئے اور سب نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے بلند کئے اور قلوب کو خالق یکتا کی جانب متوجہ کیا۔ یہ توجہ اور یہ ارتکاز بھی اپنی جگہ پر لطف الہی ہے۔ یہ خود پروردگار کی نگاہ کرم کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ ماہ رمضان المبارک کی دعائے وداع میں امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ؛ تشکر من شکرک و انت الھمتھ شکرک یعنی جو تیرا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکر کی جزا دیتا ہے اگرچہ شکر کا یہ جذبہ تو ہی دل میں ودیعت کرتا ہے۔ و تکافی من حمدک و انت علمتھ حمدک اور جو بھی تیری حمد کرتا ہے اس کو تو بدلا دیتا ہے حالانکہ تونے ہی اسے حمد کی توفیق دی ہے اور حمد کرنا سکھایا ہے۔ شاعر کے بقول؛
گفت آن اللہ تو لیبک ماست وان نیاز و درد و سوزت پیک ماست
(تیرا وہ اللہ کہنا ہی تو ہے میرا جواب میرے ہی قاصد ہیں سب وہ تیرے سوز و اضطراب)
در حقیقت یہی کہ تم اللہ کو آواز دیتے ہو، یہی کہ انسان اللہ تعالی سے انس رکھتا ہے، خدا سے باتیں کرتاہے ایک طرح کا لطف الہی اور توفیق پروردگار ہے جو اللہ تعالی جانب سے انسان کو عطا ہوئی ہے۔ یا اللہ کی صدا جو منہ سے نکلتی ہے وہ اجابت پروردگار کی ضمانت ہے۔ یہ معنوی لذت آپ لوگوں خصوصا نوجوانوں نے حاصل کی ہوگی۔ یہ معنوی لذت آپ نے ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک اپنے نورانی قلوب کے ساتھ محسوس کی ہے۔ اس لذت اور ذائقے کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے گا۔ اس سے محرومی نہ ہونے پائے۔ پنج وقتہ نمازیں، قرآن کی تلاوت، مسجد میں آمد و رف، دعائیں، مناجاتیں اور صحیفہ سجادیہ سے استفادہ جاری رہنا چاہئے تاکہ نورانیت و طہارت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہ عید فطر کی ممتاز خصوصیت ہے جو ماہ رمضان المبارک کے نتیجے کے طور پر ہمیں ملتی ہے۔
دوسری خصوصیت آپ کی اسی نماز سے عیاں ہے۔ عید الفطر کا دن قوم کے حقیقی اتحاد اور قلبی یکجہتی کی نمائش کا دن ہے۔ قوم کا اتحاد اور اجتماعی شکل میں حبل اللہ سے تمسک اور وابستگی وہ چیز ہے جس کی بڑی قیمت ہے۔ اس کو رمضان المبارک کے ایک درس کی حیثیت سے ہم کو خود اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہئے۔ یہ بھی در حقیقت ماہ رمضان المبارک کے معنوی ثمرات ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی برکت سے ہم مسلمانوں اور ہم ایرانیوں کے لئے ماہ رمضان المبارک کے ساتھ ہی یوم قدس کی آمد ہوتی ہے۔
یوم قدس جو عالم اسلام کے حقیقی اتحاد و یکجہتی کی جلوہ گاہ ہے۔ اس سال یوم قدس کو ملت ایران کے عظیم مظاہروں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی جانب حتمی طور پر متوجہ کیا ہوگا۔ ملت ایران نے ایک آواز ہوکر ملت فلسطین کی حمایت میں نعرے بلند کئے۔ میں یوم قدس کو عظیم بیداری کا مظاہرہ کرنے والی ایرانی قوم کا فردا فردا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
محترم و معزز نماز گزار بھائيو اور بہنو! ایرانی قوم کے فرزندو! ماہ رمضان المبارک کی برکتوں کو خود اپنے سلسلے میں، اپنے متعلقین کےسلسلے میں، اسلامی معاشرے کے سلسلے میں، جہاں تک ممکن ہو باقی و جاری رکھئے اور اس الہی ذخیرے کی جو خدا کی بہت بڑی نعمت ہے حفاظت کیجئے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.
خطبهى دوم
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين و الحسن و الحسين سبطى الرّحمة و امامى الهدى و علىّبنالحسين و محمّدبنعلىّ و جعفربنمحمّد و موسىبنجعفر و علىّبنموسى و محمّدبنعلىّ و علىّبنمحمّد و الحسنبنعلىّ و الخلف القائم المهدىّ صلوات اللَّه و سلامه عليهم اجمعين و صلّ على أئمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين. اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه.
میں آپ سے خدا وند عالم کو پیش نظر رکھنے کی سفارش کرتا ہوں۔ جو کچھ بھی کہیں، سنیں اور انجام دیں، تمام حالات میں تقوائےالہی یعنی اللہ کو سامنے رکھیں، خداوند عالم سے اس کے لئے توفیق کی دعا کریں۔
اس سال کے یوم قدس کے سلسلے میں ایک بات یہ کہنی ہے کہ یہ عظیم اقدام عالم اسلام میں روز بروز جگہ بناتا جا رہا ہے اور اس میں اور زیادہ وسعت آتی جا رہی ہے۔ اس سال دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں مظاہرے ہوئے۔ عالم اسلام کے مشرقی حصے یعنی انڈونیشیا سے لیکر عالم اسلام کے مغرب یعنی افریقی ملک نائیجیریا تک مسلمان ملکوں میں ہر جگہ ایک ایک فرد کو یوم قدس میں اپنی خواہش اور ارادے کو ظاہر کرنے کا پورا موقع ملا۔ لوگوں کا جم غفیر آیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ قدس کے مسئلے میں عوام کے احساسات کیا ہیں۔ حتی وہ مسلمان جو یورپ میں رہ رہے ہیں، وہ اقلیتیں جو یورپی اداروں اور حکومتوں کے سخت دباؤ میں زندگی گزار رہی ہیں، انہوں نے بھی یوم قدس کے مظاہروں میں شرکت کی۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ فلسطین کے غاصبوں اور ان کے حامیوں کی خواہش کے برخلاف دنیائے اسلام میں روز بروز اور زیادہ زندہ اور تازہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے چاہا تھا کہ فلسطین کا نام مسلمان قوموں کے ذہنوں سے سے مٹا دیں۔ انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا اور ان کا مقصد یہی تھا کہ فلسطین کے نام سے کسی ملت اور ملک کا نقشہ عالم اسلام کے جغرافیا میں کہیں نظر نہ آئے۔ انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پورے ساٹھ سال کے دوران ، جو اس عظیم المئے کے وجود میں آنے کے بعد گزرے ہیں، اسی کام پر مرکوز رکھی ہیں۔ لیکن نتیجہ اس کے بالکل بر عکس نکلا ہے۔ آج عالم اسلام فلسطین کے مسئلے میں پہلے سے بہت زیادہ حساس اور بہت زیادہ پرجوش ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں بیداری آ گئی ہے۔ اگر یہ بیداری انیس سو اڑتالیس عیسوی میں، جب فلسطین پر با قاعدہ طور پر غاصبانہ قبضہ ہوا ہےاور اس کو صیہونیوں کے حوالے کیا گیا ہے، پیدا ہو گئی ہوتی تو یقینا حالات کا رخ کچھ اور ہوتا اور عالم اسلام کا یہ تلخ و ناگوار حادثہ اور امت اسلامیہ کے پیکر پر یہ کاری زخم نہ ہوتا۔ آج مسلمان بیدار ہیں اور متوجہ ہیں۔ توفیق پروردگار شامل حال رہی تو روز بروز اور زیادہ بیداری آتی جائے گی۔ میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عالمی سطح پر اس حمایت و پشتپناہی میں توسیع کا سبب خود ملت فلسطین کی شجاعانہ استقامت اور پائيداری ہے۔ ہم ملت فلسطین کو سلام کرتے ہیں۔ حق و انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسلمان اور زندہ قوم کہلانے کے قابل ہے۔ میں اسی جگہ سے تمام مسلمان ہستیوں کے سامنے فلسطینی عوام کو، فلسطین کی قانونی حکومت کو اور اپنے برادر مجاہد جناب ہنیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ سب اچھی طرح سمجھ لیں کہ ملت ایران نے آپ کو نہ تنہا چھوڑا ہے اور نہ کبھی تنہا چھوڑے گی۔
دوسری جانب صیہونی دشمن کے حوصلے پست ہو گئے ہیں اور اس کا ڈھانچہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج صیہونیوں کے بڑے بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کمزوری اور شکست و ریخت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عالم اسلام وہ دن ضرور دیکھے گا اور ہمیں توقع ہے کہ فلسطینی قوم کی یہی موجودہ نسل اس دن کا آنکھوں سے نظارہ کرے گی کہ فلسطین، فلسطینی عوام اور فلسطینی قوم کے ہاتھوں میں ہوگا جو اس کی اصلی مالک ہے اور فلیسطینی اپنی سرزمین پر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔
ایک اور بات یہ عرض کرنا ہے کہ آج عالم اسلام، دشمنان اسلام کی جانب سے ہمہ جہت سیاسی، ثقافتی اور تشہیراتی یلغار کے نشانے پر ہے۔ اس بات کو پورا عالم اسلام، لوگوں کی ایک ایک فرد، خصوصا ممتاز ہستیاں علی الخصوص روشن خیال دانشور اور علمائے دین ، سیاسی شخصیات ہرگز فراموش نہ کریں۔
آج ہر رخ سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات پر یلغار جاری ہے اور یہ اس لئے نہیں ہے کہ دشمن قوی ہو گیا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ دشمن عظیم اسلامی تحریکوں کے سامنے کمزوری کا احساس کر رہا ہے لہذا طرح طرح کی نفسیاتی جنگوں، طرح طرح کی یلغاروں اور مسلمان قوموں اور ملکوں کو ایک دوسرے سے ڈرانے اور ایک دوسرے کے خلاف پروپگنڈہ کرنے میں لگ گيا ہے۔ (اس سے مقابلے کی) راہ یہ ہے کہ عالم اسلام اپنا اتحاد قائم رکھے۔ میں ایک بار پھر ملت ایران کی جانب سے دنیا بھر میں پھیلے اپنے مسلمان بھائيوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اپنے اتحاد کو محفوظ رکھئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ مشترکہ دشمنوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائیں اور عرب و عجم کے نام پر یا شیعہ سنی کے نام پر آپ کو اختلافات سے دوچار کردیا جائے۔ وہ لوگ نہ شیعوں کے دوست ہیں اور نہ سنیوں کے۔ وہ تو اسلام کے دشمن ہیں اور اسلام کو کمزور کر دینے کے در پے ہیں۔ ان کے پاس ایک یہی راستہ ہےکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں۔ ملکوں کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کر دیں۔ یہاں جو اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے اور اسلامی نظام قائم ہے اس سے مختلف بہانوں کے ذریعے دیگر ملکوں اور حکومتوں کو ہراساں کریں۔
ہم سب آپس میں بھائی ہیں۔ ملت ایران اسلام کی ترقی و سربلندی کی راہ پر گامزن ہے اور پروردگار کی توفیقات سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ قوم اپنی پیشرفت کو تمام عالم اسلام کا حق سمجھتی ہے۔ اپنے شرف کو عالم اسلام کا شرف اور اپنی ترقیوں کو امت اسلامیہ کی ترقی شمار کرتی ہے۔
ایک بات میں اس ملک میں بسنے والے عزیز بھائیوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اتحاد و یکجہتی کی سفارش جس میں پورے عالم اسلام کو مخاطب قرار دیا جا رہا ہے ملک کے اندر بھی اس پر عمل آوری ضروری ہے۔ عظیم ملت ایران کو چاہئے کہ اس اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کرے۔ آج تک آپ کو جو کچھ حاصل ہوا ہےاسی اتحاد و یکجہتی کا نتیجہ ہے۔ اتحاد و یکجہتی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب لوگ ایک ہی انداز اور ایک ہی مزاج کے بن جائیں۔ اتحاد و اتفاق یہ ہے کہ مختلف ذوق اور طرز فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں، ہاتھ میں ہاتھ دیکر کام کریں، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں۔ خود غرضی کو اپنی زندگی اور سیاست میں داخل نہ ہونے دیں۔ ویسے اس سلسلے میں ماہ رمضان المبارک بہت معاون ثابت ہوگا جو خود غرضی اور نفس پرستی کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایام وہ ایام ہیں جن میں ملت ایران بڑے عظیم اقدامات انجام دے رہی ہے، ایسے بڑے کارنامے کر رہی ہے کہ دنیا کے انصاف پسند افراد عش عش کر رہے ہیں۔
بحمد اللہ اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے کے دہانے پر ملت ایران پورے سرور و نشاط اور تیاری و آمادگی نیز جوش و جذبے سے سرشار اور پوری طرح بیدار نوجوان انقلابی نسل کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔ ہر ایک کچھ کر دکھانے کے لئے آمادہ ہے اور آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ سائنس کے میدان میں ٹکنالوجی کے میدان میں، طرح طرح کی سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اور سیاست کے نشاط انگیز میدان میں (ہر جگہ ہمارے نوجوان موجود ہیں) ان سب کو غنیمت جانئے تاکہ ملت ایران کی ان کامیابیوں کی حفاظت ہو سکے۔ ایک ایک شحص کے لئے خصوصا سیاسی اور سماجی شخصیات اور ممتاز ہستیوں کے لئے لازم ہے کہ یاد رکھیں کہ اتحاد و یکجہتی کی حفاظت، ان تمام چیزوں سے جو ایک انسان کی نگاہ میں کسی گروہ اور جماعت کے دائرے میں اہم ہو سکتی ہیں، زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس اتحاد کو باقی رکھنا چاہئے۔ خد وند عالم فرماتا ہےکہ
تلك الدّار الاخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الارض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين
یعنی نیکیوں کا بدلا (آخرت کا گھر) ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جو پرہیزگار ہیں اور خود کو ان امور سے الگ رکھتے ہیں جن سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے۔ خود غرضی سے کنارہ کش ہوکر خدا کی راہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے قومی مفادات کی راہ میں کلمہ اسلام کی سربلندی و سرفرازی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔
پروردگارا! ہم سب کو کامیابی عطا فرما۔ پروردگارا! امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی روح پاک اور شہدا کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کر۔ پروردگارا! ہماری قوم کو روز بروز اور زیادہ سربلندی و کامیابی عطا فرما۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتھ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج اٹھائیس ستمبر دو ہزار آٹھ کوشام کے وقت یونیورسٹیوں کے طلبا کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ نوجوان نسل بالخصوص طلبا کی سرگرم تحریک کی سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے میں ترقی و مساوات کے ہدف کے حصول کے لئے پر جوش اور منطقی سعی و کوشش ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتوار اٹھائیس ستمبر دو ہزار آٹھ کو یونیورسٹی کے طلبا اور ممتاز علمی شخصیات کے ایک اجتماع سے خطاب میں اسلامی نظام کی انصاف و مساوات پر مبنی معاشی ترقی اور دیگر مادی نظاموں کی ترقی کے فرق کو واضح فرمایا اور طلباء کی خصوصیات و فرائض پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کل رات ستائيس ستمبر دو ہزآر آٹھ کو تہران میں قرآن کریم کی سولہویں عالمی نمائش کا معاینہ فرمایا۔ آپ نے نمائش میں دو گھنٹے گزارے اور مختلف حصوں کا معاینہ فرمایا۔ نمائش میں قرآن کی تفسیر، ترجمے، تلاوت، حفظ اور متعلقہ تحقیقات کے الگ الگ اسٹال لگائے گئے جبکہ ایک بڑے حصے میں بچوں کے لئے قرآن کی تعلیم سے متعلق سافٹ ویئر اور دیگر اشیاء رکھی گئیں۔ آپ نے نمائش کے معاینے کے دوران مختلف ناشروں سے قران کے سلسلے میں جاری کوششوں کے بارے مین دریافت کیا۔ اس موقع پر وزیر ثقافت و اسلامی رہنمائی بھی قائد انقلاب اسلامی کے ساتھ موجود تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب اور مقدس دفاع کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یوم شہید و جانباز کی مناسبت سے آج پچیس ستمبر دو ہزار آٹھ کو ایک پیغام جاری فرمایا ۔ عراق کی جانب سے آٹھ سالہ جنگ کے آغاز کی مناسبت سے ایران میں ہر سال ہفتہ دفاع مقدس منایا جاتا ہے جس کا ایک دن یوم شہید و جانباز کے نام سے موسوم ہے۔ پیغام مندرجہ ذیل ہے؛ بسم اللہ الرحمن الرحیم شہیدوں کا نام اور ہفتہ دفاع مقدس کے ایک دن کو ان کے نام سے منسوب کرنا ایک اہم پیغام کا حامل ہے۔ یہ علامتی عمل یہ پیغام دیتا ہےکہ کوئی بھی قوم قربانیوں کے بغیر اپنے تشخص، وقار، غیرت و حمیت، اقدار اور عقائد کا دفاع نہیں کر سکتی۔ ہماری دانشمند اور با شعور قوم نے دنیا کو یہ درس دیا اور اسے تاریخ میں ہمیشہ کے لئے رقم کر دیا۔ مظلوم فلسطینیوں کے خالی ہاتھ لڑے جانے والے جہاد سے آج سنگدل، بے رحم اور پوری طرح مسلح صیہونی خوفزدہ اور بے بس ہو گئے ہیں یہ اسی درس ابدی کا تسلسل ہے۔ اسی طرح عراق میں قابض قوتوں کی بے بسی اس ملک میں اسی سبق پر عمل آوری کا نتیجہ ہے۔ شہدا مقدس دفاع کے افق کے درخشاں ستارے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر پاکیزہ دل اور با ضمیر انسان ان کی تکریم و توقیرکو اپنا فریضہ سمجھتا ہے اور پرچم اسلام کی سربلندی کے آرزومند اور قرآنی بشارتوں پر ایمان و ایقان رکھنے والے افراد ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ پروردگارا! ان پر اپنی بہترین رحمتیں نازل فرما اور انہیں اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ محشور فرماسید علی خامنہ ای
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج بدھ چوپیس سمتبر دو ہزار آٹھ کو تہران میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور برجستہ علمی شخصیات سے ملاقات میں سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں پیشرفت و ترقی کو ملک کی اہم ترین ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ترقی مقامی سطح پر علوم کےاختراع اور خود اعتمادی، کامیابی کی پوری امید اور مجاہدانہ محنت کے ساتھ ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج چوبیس ستمبر کو یونیورسٹی کے اساتذہ اور علمی شخصیات سے خطاب میں اساتذہ اور دانشوروں کے مقام و منزلت اور اہم فرائض پر روشنی ڈالی، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین بدستور علاقے کا سب سے اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اور ایرانی قوم اس سال بھی یوم قدس پر سڑکوں پر نکل کر دنیا کی دیگر حریت نواز مسلمان قوموں کی آواز سے آواز ملا کر مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کا اعلان کرے گی۔ آج انتیس شہریور تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق انیس ستمبر دو ہزار آٹھ کو تہران یونیورسٹی میں قائد انقلاب اسلامی کی قیادت میں نماز جمعہ قائم کی گئی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اٹھارہ رمضان المبارک چودہ سو انتیس ہجری قمری، انتیس شہریور تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق انیس ستمبر دو ہزار آٹھ عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی قیادت فرمائی، آپ نے نماز جمعہ کے خطبوں میں مسئلہ فلسطین سمیت متعدد عالمی اور قومی موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
شب قدر، دعا و مناجات اور ذکر پروردگار میں ڈوب جانے کی شب ہے۔ پورا ماہ رمضان المبارک بالخصوص شبہائے قدر، ذکر پروردگار اور خضوع و خشوع کی بہار ہے۔ اسی طرح یہ بہترین موقع ہے اپنے ذہن و دل کو امیر المومنین، سید المتقین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ملکوتی مقام و منزلت سے آشنا کرنے اور درس لینے کا۔
فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کی شب ولادت قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے کہنہ مشق اور نوخیز شعرا سے ملاقات میں شعر کو ملک کے لئے پر ثمر عظیم قومی سرمایہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس ثروت میں روز افزوں اضافہ کرکے اسے ملک کی ضروریات کی تکمیل کے لئے بہترین اسلوب میں استعمال کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مجریہ مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں نیز مختلف محکموں کے اعلی حکام سے ملاقات میں اسلام اور انقلاب کے اصولوں پر پائیداری کے ساتھ عمل آوری کو مختلف شعبوں میں ترقی کا موجب قرار دیا اور اسلامی نظام کے شعبوں پر عقلی و منطقی معیاروں کی حکمرانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عقل و منطق کی یہ بالادستی اسلام و انقلاب کے اہداف کی تکمیل کے لئے سعی پیہم کا مقدمہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس شہریور 1387 مطابق نو ستمبر 08 کو مجریہ، مقننہ اور عدلیہ نیز مختلف حکومتی محکموں کے اعلی عہدہ داروں سے خطاب میں صبر و ضبط کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔