قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج شام آذربائیجان کے صدر الہام علی اف سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے اشتراکات کو کم نظیر قرار دیا اور تہران-باکو دوستانہ تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مختلف شعبوں میں یہ تعلقات زیادہ قریبی، گہرے اور دوستانہ ہو سکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج شام پاکستان کے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے عوام کے ما بین بہت گہرے ثقافتی اور تاریخی اشتراکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران و پاکستان کی مومن قوموں کی باہمی محبت و دوستی دونوں ملکوں کے باہمی روابط کے زیادہ سے زیادہ فروغ کا بنیادی عامل اور مقدمہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ شب ترکی کے صدر اور ان کے زیر قیادت تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں تعلقات کے فروغ کے لئے دونوں ملکوں کے وسائل اور مواقع کو بہت وسیع قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ای سی او معاشی تعاون کو بڑھانے کے لئے ایک اچھا نمونہ ہے لیکن علاقے کے دو اہم اور موثر ممالک کی حیثیت سے ایران اور ترکی سیاسی، سکیورٹی اور سروسز کے میدانوں میں باہمی تعلقات کو بھی وسعت دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ موجودہ حالات میں لبنان مشرق وسطی کے قلب میں تبدیل ہو گیا ہے اور بائیس روزہ جنگ میں غزہ کے عوام کی فتح تینتیس روزہ جنگ لبنان میں اسلامی استقامت کی فتح کا نتیجہ تھا۔ آج شام تہران میں لبنان کے پارلیمنٹ اسپیکر نبیہ بری سے ملاقات میں آپ نے اسلامی مزاحمت کی دو کامیابیوں کے بعد علاقے کی تازہ صورت حال کی جانب اشارہ کیا اور لبنان پر شدید دباؤ کو اس ملک کی اہمیت کی علامت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ علاقے کی صورت حال ایسی ہے جو امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے حامیوں کے محاذ کی سازشوں اور کوششوں کی شکست کی غمازی کرتی ہےـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران مین فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قفقاز، بالکان اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال تک اپنی حقیقی شناخت سے محرومی اور سابق سویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد اپنی شناخت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں تو فلسطین کی حقیقی شناخت کی بازیابی کیوں نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب پیش نظر ہے:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران مین فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قفقاز، بالکان اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال تک اپنی حقیقی شناخت سے محرومی اور سابق سویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد اپنی شناخت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں تو فلسطین کی حقیقی شناخت کی بازیابی کیوں نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب پیش نظر ہے:
اسلام میں روز اول سے ہی شروع ہونے والی علمی تحریک کی برکت سے اسلامی تہذیب و تمدن کو وجود ملا۔ اسلام کے ظہور کو ابھی دو صدیاں بھی نہیں گزری تھیں کہ اسلام کی برق رفتار علمی تحریک شروع ہو گئی، وہ بھی اس دور کے ماحول میں۔ اگر آپ اس وقت کی علمی تحریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں تو دنیا کے موجودہ علمی مراکز کو پیش نظر رکھئے اور پھر فرض کیجئے کہ کوئی ملک دنیا کے کسی دور دراز کے علاقے میں واقع ہے جو تہذیب و تمدن سے پوری طرح بے بہرہ ہے۔ یہ ملک یک بیک تہذیب و تمدن کے میدان میں وارد ہو اور سو یا ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں علمی لحاظ سے تمام تہذیبوں پر فوقیت حاصل کر لے۔ یہ چیز کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ اسلام نے علم، حصول علم، تعلیم و تدریس اور عالمانہ طرز زندگی کی بے پناہ ترغیب دلائی۔اسلامی تہذیب کا جوہر خود اس (دین اسلام) کے اندر سے نکلا۔ ویسے زندہ تہذیبیں دوسروں سے بھی کچھ چیزیں کسب کرتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پر رونق دنیا، علم کا یہ استعمال، عالم ہستی کے اچھوتے رموز کا یہ انکشاف جو مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا۔ افکار و نظریات اور اذہان و افکار کا یہ استعمال، عظیم علمی سرگرمیاں اور اس دور میں عالمی سطح کے تعلیمی مراکز کا قیام، اس زمانے میں دسیوں دولتمند ممالک کی تشکیل اور ایک بے نظیر طاقتور سیاسی نظام کا قیام، یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ آپ پوری تاریخ میں اسلام کے علاوہ کوئی ایسی سیاسی طاقت نہیں پائیں گے جس کی قلمرو قلب یورپ سے لیکر قلب بر صغیر تک پھیلی ہوئی ہو اور یہ (پورا علاقہ) ایک ملک بن گیا ہو اور اس میں ایک پائيدار حکومت قائم ہوئی ہو۔ قرون وسطی کا زمانہ یورپ کی جہالت و بد بختی کا زمانہ تھا۔ یورپ والے قرون وسطی کو سیاہی و تاریکی کا دور کہتے ہیں۔ یہی قرون وسطی کا زمانہ جو یورپ میں تاریکی و جہالت کا دور تھا ایران سمیت اسلامی ممالک میں علم و دانش کی ضوفشانی کا زمانہ تھا۔ وہ (بے مثال) سیاسی طاقت، وہ علمی دبدبہ، وہ نظام مملکت، وہ تمام تعمیری و حیاتی و فعال عناصر سے بھرپور استفادہ، اسلامی تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا۔چوتھی ہجری اسلامی تہذیب و تمدن کے عروج کی صدی ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں، یعنی گيارہویں صدی عیسوی، یعنی یورپ میں تاریکی جہالت کے اوج کے زمانے میں، ایران اسلامی شکوفائی و ترقی کے نقطہ کمال پر تھا۔ اس دور کے سارے علماء و دانشور معدودے چند کو چھوڑ کر سب ایرانی تھے۔ ایک زمانے مین مغرب والوں نے مشرق اور اسی ایران سے علم حاصل کیا ہے۔ اس وقت دنیا میں رائج بہت سے علوم کی بنیاد ایرانیوں کے ہاتھوں پڑی۔ یورپ کی نشآت ثانیہ اسلامی ممالک اور علاقوں میں انجام پانے والے ترجموں کی بنیاد پر عمل میں آئی اور یہ ایسے عالم میں ہوا کہ ایران میں دینداری یورپ سے کم نہیں بلکہ بہت زیادہ تھی۔ معلوم ہوا کہ دین، علم و دانش کے راستے میں رکاوٹ نہیں بلکہ کوئی اور ہی شئ ہے جو علم و دانش کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ وہ شئ کیا ہے؟ وہ لوگوں کی گوناگوں جہالتیں اور اس زمانے کی عیسائی مذہب کی خرافاتیں تھیں۔ عالم اسلام میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی عالم کی علم رکھنے کے جرم میں توہین کی گئی ہو، جبکہ یورپ میں کسی شخص کو علم رکھنے کی بنا پر قتل کر دیا گيا، کسی کو سنگسار کر دیا گيا، کسی کو سولی پر چڑھا دیا گیا تو کسی کو آگ میں ڈال دیا گيا۔ یعنی ان لوگوں نے اپنے یہاں رونما ہونے والی چیزوں کو جو تحریف شدہ عیسائيت اور جہالت زدہ خرافات کی آمیزش کا نتیجہ تھیں پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ آج مسلمانوں کا گناہ کیا ہے؟ اسلام کا جرم کیا ہے؟ مسلمان قوموں کا گناہ کیا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اسلام ایک روحانی و اخلاقی تحریک کا نام ہے لیکن علمی ارتقاء اور اقتصادی پیشرفت بھی اس کے بنیادی اہداف میں شامل ہے۔ اسلام کے ظہور کو ابھی پچاس سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس وقت کی متمدن اور مہذب دنیا کا پچاس فیصدی سے زائد حصہ پرچم اسلام کے سائے میں آ گيا اور ابتدائی دو صدیوں میں عالم اسلام، علم و دانش اور معاشی و سماجی ترقی کے لحاظ سے اوج پر پہنچ گیا۔ یہ نتیجہ تھا اسلامی تعلیمات کا جو روحانیت و معنویت کے ساتھ ہی ساتھ مادی ترقی پر بھی تاکید کرتی ہیں۔ مغرب کی مادی تہذیب مادہ پرستی کی جانب لے جاتی ہے۔ پیسہ، پیٹ اور شہوت ہی نصب العین بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں صفائے باطن، مساوات، درگذشت و ایثار کی جگہ نیرنگ و سازش، حرص و طمع، بغض و حسد، بخل و خست اور دیگر اوصاف رذیلہ نے لے لی ہے۔ آج اگر مغربی دنیا اور مغربی تہذیب کی پوسٹ ماڈرن سائنس و ٹکنالوجی انسانیت کو نجات دلانے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انسانیت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اگر کہیں علم و دانش تو ہو لیکن ضمیر و اخلاق و معنویت و احساسات ناپید ہوں تو انسان کو اس علم و دانش سے کوئی نفع پہنچنے والا نہیں ہے۔ اخلاق و روحانیت کا فقدان ہو تو علم ایٹم بم میں تبدیل ہو جاتا ہے، بے گناہوں کی زندگی دشوار کر دیتا ہے، اسلحہ میں تبدیل ہو جاتا ہے، مقبوضہ فلسطین و لبنان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں عام شہریوں کو نشانہ بناتا ہے، مہلک کیمیاوی مادے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حلبچہ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں عورتوں بچوں، پیر و جواں اور انسان و حیواں سب کو نابود کرکے رکھ دیتا ہے۔ اسلامی تہذیب اور اس کی جانب گامزن مقدس اسلامی جمہوری نظام کے تناظر میں ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم علم و دانش کو روحانیت و معنویت کے زیر سایہ آگے بڑھائیں۔ اگر آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ دین پر ہماری عمل آوری کی نسبت مغرب کو اعتراض ہے، ہماری دینداری کو تعصب اور رجعت پسندی کا نام دیا جاتا ہے اور اخلاقی و انسانی اصولوں سے ہماری دلچسپی کو انسانی حقوق کی مخالفت قرار دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری یہ روش ان کے طرز عمل کے بر خلاف ہے۔ ہمیں علمی و عملی کوششوں کے ثمرات اور کامیاب انسانی تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے مادی و روحانی پیشرفت و ارتقاء کا پودا خود لگانا چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ پھلے پھولے اور اغیار کا رنگ اختیار نہ کرے۔
انسانی حقائق اور ماہیت، زمانہ بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ ابتدائے تاریخ سے اب تک عدل و انصاف انسانوں کے لئے پسندیدہ چیز رہی ہے اور انہیں ہمیشہ اس کی ضرورت پڑی ہے۔ عدل و انصاف کسی ایک گروہ، ملک اور قوم کی خواہش و حاجت نہیں۔ یہ پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی فطری و تاریخی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے چلائی جانے والی تحریک کا بنیادی ترین عنصر عدل و انصاف ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کے تمام مصلحین اور انبیائے صالحین کے مشن کا جزو لا ینفک رہا ہے۔ یہ وہ شئ ہے جس کے لئے انسانیت ہمیشہ تشنہ رہی ہے اور انبیائے کرام یا حضرت امیر المومنین عیلہ السلام جیسے اوليائے عظام کے دور حکومت کے علاوہ کبھی اس پر حقیقی معنی میں عمل نہیں ہو سکا۔ اسلام میں عدل و انصاف بہت اہم مسئلہ ہے۔ وہ اصول جو کبھی بھی کسی بھی صورت میں متنازعہ نہیں رہا عدل و انصاف ہے۔ عدل و انصاف پیغمبروں کا ہدف و مقصد اور اسلامی انقلاب کا نصب العین رہا ہے۔ ذکر پروردگار اور انسانوں کی اصلاح کے ساتھ ہی ساتھ عدل و انصاف کی برقراری بھی تمام انبیاء کا ہدف رہا ہے۔ حقیقی عدل و انصاف کی برقراری عقل و منطق اور روحانیت و معنویت کے پیرائے میں انجام پاتی ہے۔ اگر عدل و انصاف عقل و منطق اور روحانیت و معنویت کے عنصر سے خالی ہو تو وہ ایسا عدل انصاف نہیں ہوگا جس کے آپ خواہاں ہے، بلکہ سرے سے وہ عدل و انصاف ہی نہیں ہوگا۔ عقل و منطق اگر نہ ہو تو انسان عدل و انصاف کے مصداق کے تعین میں غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ وہ ایسی باتوں کو بھی انصاف کا تقاضا محسوس کرے گا جو انصاف کا تقاضا نہیں ہے جبکہ حقیقت میں جو انصاف کا تقاضا ہے اسے محسوس نہیں کر پائے گا۔ بنابریں عقل و دانش اور صحیح اندازہ، عدل و انصاف کے قیام کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح اگر عدل و انصاف کو روحانیت و معنویت سے جدا کر دیا جائے اور عدل و انصاف معنویت سے تہی ہو تو یہ بھی عدل و انصاف نہیں ہوگا۔ جو انصاف روحانیت اور کائنات و عالم وجود کے روحانی افق کی شناخت سے خالی ہو ریاکاری، دروغ، انحراف اور تصنع میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس طرح اشتراکیت پر مبنی نظام میں انصاف کے بڑے دعوے کئے جاتے تھے، ہم عدل و انصاف اور آزادی کی بات کرتے تھے، لیکن ان(کمیونسٹ نظاموں میں) آزادی بنیادی نعروں کا جز نہیں تھی تاہم جہاں کہیں بھی بغاوت یا انقلاب کے نتیجے میں کمیونسٹ نظام نافذ ہوا ہے وہاں عدل و انصاف کا نعرہ تو ضرور سنا گیا لیکن ان سماجی زندگی میں عدل و انصاف ناپید رہا بلکہ اس کے بالکل برعکس صورت حال سامنے آئی۔عدل و انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر کسی کے پاس سب کچھ یکساں مقدار میں ہو۔ انصاف کے معنی یہ ہیں کہ سب کو یکساں مواقع فراہم ہوں۔ سب کے حقوق یکساں ہوں۔ ہر ایک کو پیش قدمی اور ترقی کے مواقع سے استفادے کا بھرپور موقع ملے۔ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہم سرمایہ کاری نہ کریں یا یہ کہ سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کی اجازت نہ دیں۔ ہمارا ہدف معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہ ہماری خواہش ہے۔ کوششیں اور کام اس وقت با ارزش اور اہم بنتے ہیں جب قیام عدل کے تناظر میں انجام پائیں۔ اگر معاشرے میں مساوات نہ ہو تو دولت کی فراوانی عوام کے کسی مخصوص طبقے اور گروہ تک محدود رہے گی۔ لیکن جس معاشرے میں مساوات ہو وہاں اس (فراوانی) کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔ البتہ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر چیز ہر جگہ مساوی و یکساں ہو۔ عدل و انصاف کے معنی ہیں ہر چیز کو اس کی جگہ اور مقام پر رکھنا۔ یہ ہیں عدل کےمعنی۔ انصاف کے معنی وہ نہیں جو بہت سے سادہ لوح افراد اور فکری گہرائی نہ رکھنے والے لوگوں کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی ہر فرد کو سب کچھ یکساں طور پر ملے۔ جی نہیں! ایک شخص ہے جو زیادہ کام کرتا ہے، کسی کی استعداد زیادہ ہے، ملک کی ترقی میں کسی کا کردار بہت زیادہ ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے۔ حق کے مطابق عمل کیا جائے۔ عدل کے معنی یہ ہیں اور معاشرے کو اسی کی ضرورت ہے۔بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ عدل کے معنی ہیں غربت کی تقسیم۔ جی نہیں! جو لوگ عدل و انصاف کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں ان کا ہدف غربت کی تقسیم ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کا ہدف وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ جو لوگ عدل و انصاف کو غربت کی تقسیم سے تعبیر کرتے ہیں ان کی پوری بات کا ماحصل یہ ہے کہ آپ عدل و انصاف کا چکر چھوڑئے، دولت و ثروت کی جانب بڑھئے تاکہ دولت تقسیم ہو سکے۔ عدل و انصاف کو نظر انداز کرکے دولت و ثروت کی جمع آوری کی سمت بڑھا جائے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو آج بہت سے دولتمند ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے سب سے امیر ملک یعنی امریکہ میں ایسے افراد بھی زندگی بسر کر رہے ہیں جو بھوک، سردی اور گرمی کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہیں، یہ نعرے نہیں وہ حقائق ہیں جو نظروں کے سامنے ہیں۔ عدل و انصاف سے بے بہرہ معاشرے میں اگر دولت کی فراوانی ہو جائے تو ایک مخصوص طبقے کے فائدے اور قبضے میں رہتی ہے لیکن یہی فراوانی اگر عدل و انصاف کے پابند معاشرے میں ہو تو اس کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے۔ عدل و انصاف کے معنی ہر چیز کو اس کے صحیح مقام و منزل پر رکھنے کے ہیں۔ عدل و انصاف کے تناظر میں زیادہ محنت، زیادہ استعداد اور ملک کی ترقی میں اہم شراکت جیسی باتوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدل کے معنی ہیں حق پر عمل کرنا اور ہر شخص اور ہر شئ کو اس کا حق دینا۔ عدل کے معنی ہیں حقوق اور فرائض کے سلسلے میں عدم تفریق و عدم امتیاز۔ عدل یعنی مستضعف اور کمزور طبقے کی مدد۔ عدل یعنی یہ کہ انسانی و سماجی حقوق اور الہی احکامات تمام لوگوں کے سلسلے میں یکساں طور پر فراہم اور نافذ ہوں۔ عدل یعنی یہ کہ کوئی ایک جماعت اپنے لئے مخصوص حقوق کی دعیدار نہ ہو۔ عدل و انصاف سے محروم انسانی زندگی تاریخ کے بد ترین دور میں نظر آتی ہے۔ معاشروں کی بد بختی اور مشکلات کی جڑ نا انصافی اور ظلم ہے۔ اگر انسانی زندگی میں عدل و انصاف کی بالا دستی ہوتی تو وہ عدل و انصاف کی مدد سے ماحول کو اس انداز سے تیار کرتا کہ اس کے لئے اس میں پر سکون زندگی گزارنا ممکن ہو۔ اسلامی جمہوری نظام کا آئیڈیل اسلامی طرز زندگی ہے۔ اس کا آئيڈیل مختلف طبقات کے درمیان عدل و انصاف، اخوت و محبت اور عطوفت و الفت کے زیر ساہ حاصل ہونے والی ترقی اور رفاہ عامہ ہے، غریب و امیر کے درمیان خلیج کو بھردینا ہے۔ روحانیت و معنویت کے سائے میں ملنے والی ترقی اسلام کو پسند ہے۔ عدل انصاف پر گفتگو تو آسان ہے لیکن اس کا نفاذ بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے طویل المیعاد منصوبوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور عدل و انصاف کی بنیاد پر مستقبل کا خاکہ کھینچنا چاہئے۔ اسلامی نظام میں عدل و انصاف تمام انتظامی فیصلوں کی بنیاد ہے۔ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے نمایندوں سے لیکر مختلف اجرائی شعبوں کے اعلی حکام تک تمام افراد بالخصوص پالیسی ساز اداروں، ججوں اور عدلیہ کے شعبوں کو چاہئے کہ پورے اخلاص، پوری تندہی اور پوری سنجیدگی کے ساتھ معاشرے میں قیام عدل و انصاف کی کوشش کریں۔ عوام بالخصوص نوجوان طبقے کی جانب سے عدل و انصاف کا مطالبہ اس انداز سے ہونا چاہئے کہ ہر عہدیدار، اپنی مرضی کے خلاف ہی سہی، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور ہو۔ عدل و انصاف کے مطالبے کے معنی یہ ہیں کہ نوجوان طبقے اور طلباء کی سطح پر عدل و انصاف زباں زد خاص و عام ہو جائے۔ سب عدل و انصاف کا مطالبہ کریں اور ہر عہدہ دار کے سامنے اپنا یہ مطالبہ پیش کریں۔ اللہ تعالی توفیق دے کہ اسلامی انقلاب کا چوتھا عشرہ انصاف و ترقی کا عشرہ ثابت ہو۔ یعنی ملکی سطح پر ترقی و انصاف دونوں بالکل نمایاں ہو جائیں۔ منصوبہ بندی اسی تناظر میں ہو۔ یہ چیز قوم اور ملک کو ہر خطرے سے محفوظ بنا دے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عراقی صدر جلال طالبانی اور ان کی زیر قیادت تہران آنے والے وفد سے ملاقات میں ایران و عراق کے عوام کے درمیان دیرینہ اور گہرے ثقافتی، تاریخی اور دینی تعلقات و اشتراکات کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: دونوں ملکوں کے ما بین اتنے زیادہ اور مناسب مواقع کا تقاضا ہے کہ مختلف میدانوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں فطری طور پر روز افزوں اضافہ ہو اور معاہدوں کو جامہ عمل پہنایا جائے۔
امام ہشتم فرزند رسول حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی زندگی کا اہم پیغام؛حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی زندگی کا سب سے اہم پیغام کیا ہے؟ ہمیں امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے روضہ اقدس پر اظہار عقیدت پر ہی اکتفا نہیں کر لینا چاہئے۔ وہ ہمارے امام ہیں، آپ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے، ہمیں آپ کی زندگی سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ آپ کی زندگی میں ہمارے لئے ایک پیغام ہے۔ وہ پیغام کیا ہے؟ میں اس پیغام کو ایک لفظ میں بیان کر دوں؛ امام علی ابن موسی الرضا علیھ الصلاۃ و السلام کی پرماجرا زندگی کا پیغام ہے بے تکان پائيدار استقامت
انسانی زندگی کی تمام تر تلخیوں کی وجہ اللہ تعالی سے اس کی غفلت اور ذاتی مفادات تک محدود ہو جانا ہے۔ نماز انسان کو اس ظلمانی اور تاریک حصار سے نجات دلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام الہی ادیان میں نماز بنیادی ترین دینی عمل اور ایمان کی سب سے عام اور واضح علامت رہی ہے جبکہ اسلامی نماز سب سے زیادہ جذاب اور کامل ہے۔ نماز کے تمام ذکر اور الفاظ دینی معرفتوں اور تعلیمات کا خلاصہ ہیں جو بار بار نمازی کو ان(تعلیمات) کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ نماز اگر قلبی توجہ کے ساتھ اور سھو و غفلت سے مبرا رہتے ہوئے ادا کی جائے تو انسان کو روز بروز الہی تعلیمات سے قریب اور زیادہ آشنا بناتی ہے۔ نماز اگر حضور قلب کے ساتھ پوری توجہ سے ادا کی جائے تو نمازی کے قلب و جان ہی نہیں بلکہ اس کے گرد و پیش کی فضا اور ماحول کو بھی لطیف و نورانی و معطر کر دیتی ہے اور اس کی ضو فشانی سے گھر، خاندان، کام کی جگہ، دوستوں کی محفلوں اور پورے ماحول میں اجالا ہو جاتا ہے۔ حضور قلب اور پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز جو ذکر الہی سے منور ہے، وہ نماز جو انسان کو بلند ترین اسلامی تعلیمات سے مسلسل روشناس کراتی رہتی ہے، ایسی نماز انسان کو بے مقصد اور عبث زندگی سے نجات دلا دیتی ہے۔ اسے حوصلہ، قوت ارادی اور ہدف عطا کرتی ہے اور اس کی نظروں کے سامنے زندگی کا افق روشن و تابناک کر دیتی ہے۔ اس کے دل کو کجروی اور پستی کی جانب انحراف سے محفوظ رکھتی ہے۔ بنابریں انسان کو ہمیشہ نماز کی ضرورت ہے جبکہ نازک اور پر محن مواقع پر اس احتیاج میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ در حقیقت نماز دین کا بہت عظیم سرمایہ ہے جس سے ہر شخص حتی الوسع استفادہ کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے عظیم کام کے لئے فن و ہنر اور جوش و جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نماز بارگاہ احدیت کی جانب ارتقاء کا پہلا قدم ہے۔ اس مقدس عمل میں اس بات کی گنجائش و توانائی ہے کہ نقطہ کمال پر پہنچ جانے کی صورت میں انسان کے لئے عالم ملکوت میں پرواز کے بال و پر میں تبدیل ہو جائے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد فرمائیں کہ نماز میری آنکھوں کی روشنی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نماز انسان کے معنوی کمال کے سفر میں ہر مرحلے و منزل پر کارساز، طاقت بخش اور راہنما ہے۔ نماز دین کا بنیادی رکن و ستون ہے۔ اسے لوگوں کی زندگی میں حیاتی اہمیت حاصل ہونا چاہئے۔ دین خدا کی حکمرانی کے زیر سایہ انسان کو حیات طیبہ اسی صورت میں نصیب ہوگی جب لوگ اپنے قلوب کو ذکر خدا سے بیدار رکھیں اور اسی کے سہارے فساد و شر کی دل آویز رنگینیوں سے مقابلہ کریں، تمام بتوں کو توڑ ڈالیں اور اپنے وجود کو تمام بیرونی و اندرونی شیطانی قوتوں کی دست برد سے بالاتر کر دیں۔ یہ دائمی ذکر و حضور قلبی نماز کی برکت سے میسر ہوگا۔ نماز سب سے بڑے شیطان یعنی نفس کے خلاف جنگ میں، جو انسان کو پستی کی جانب لے جاتا ہے، نیز ان شیطانی طاقتوں سے مقابلے میں جو طاقت اور زر جواہر کے ذریعے ذلت و حقارت قبول کرنے کے لئے ورغلاتی ہیں، انسان کے لئے بڑا مستحکم سہارا اور لا متناہی ذخیرہ ثابت ہوتی ہے۔ آج انسانی معاشرے پر مشینی زندگی کی آہنی گرفت کے دور میں انسان اور انسانیت سخت دباؤ اور کھنچاؤ میں ہے۔ اس ماحول میں انسان اپنی انفرادی و سماجی زندگی کو طاقت فرسا مشینی لے اور راگ کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں اللہ تعالی سے معنوی و روحانی رابطے کی ضرورت کا احساس بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے نماز بہترین وسیلہ و ذریعہ ہے۔ نماز میں تین بنیادی خصوصیتیں پائی جاتی ہیں؛ سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ نماز اپنی اس شکل میں جو اسلام نے اس کے لئے معین کی ہے یعنی اس میں رکھے گئے اذکار اور حالتیں نمازی کو فطری طور پر گناہ و آلودگی سے دور رکھتی ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہےکہ (نماز) اللہ تعالی کی بارگاہ میں جو ہر انسان کا حقیقی و فطری محبوب ہے عبادت و پرستش اور خضوع و خشوع کے جذبے کو زندہ رکھتی ہے۔ تیسری خصوصیت یہ کہ نمازی کے دل و جان کو وہ سکون و طمانیت عطا کرتی ہے جو تمام شعبہ ہای زندگی میں کامیابی و کامرانی کی بنیادی شرط و ضرورت ہے۔ یہ تزلزل و اضطراب کو جو اخلاقی تربیت کے لئے سنجیدہ اقدام کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے انسان سے دور کر دیتی ہے۔ انسان گوناگوں غلطتیوں او خطاؤں سے روبرو ہوتا ہے۔ ہر انسان سے کچھ غلطتیاں اور خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں، وہ گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اب اگر انسان زندگی کے سفر میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے نماز تلافی کا بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ نماز کو دن کے دونوں سروں(آغاز و اختتام) اور رات کے ایک حصے میں ادا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ نماز میں نورانی کیفیت پائی جاتی ہے جو ظلمانی کیفیت کو ختم کر دیتی ہے۔ برائیوں کو مٹا دیتی ہے اور گناہوں کے اثرات کو دلوں سے زائل کر دیتی ہے۔ انسان بہرحال (گناہوں سے) آلودہ ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نماز کے پابند ہیں تو آپ کی یہ نورانی کیفیت باقی رہے گی اور آپ کے دل میں گناہ کو راستہ نہیں مل سکے گا۔ مسجد صرف نماز کے لئے نہیں، متعدد عبادتوں کے لئے ہے جن میں ایک غور و فکر بھی ہے جو مسجد میں جانے والے افراد عالم دین کی گفتگو سن کر انجام دیتے ہیں۔ بنابریں مسجد مدرسہ بھی ہے، یونیورسٹی بھی ہے، مرکز فکر و نظر بھی ہے، مرکز طہارت روح بھی ہے، سرچشمہ اخلاص و تقرب الہی بھی ہے۔ یہ زمین و آسمان کے درمیان رابطہ بھی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان خود کو فیض و قدرت کے لا متناہی سرچشمے سے متصل کر سکتا ہے۔ مسجد میں انسان خود کو اللہ تعالی کی ذات سے وابستہ کر لیتا ہے۔ نماز کا قیام صالح بندوں کی حکمرانی کا اولین ثمرہ و علامت ہے۔ ہمارے امام بزرگوار(خمینی رہ) کے گراں قدر اقدامات میں سے ایک نماز جمعہ کا قیام تھا۔ آپ نے اس قوم کو نماز جمعہ کا تحفہ دیا۔ برسہا برس سے ہم نماز جمعہ سے محروم تھے۔ میری نظر میں لوگوں میں جذبہ ایمان اور جوش و خروش کی حفاظت و نگہداشت کا ایک بہترین ذریعہ یہی نماز جمعہ، نماز جمعہ کے خطبے، لوگوں کی نماز جمعہ میں روحانی شرکت اور یہ اہتمام ہے کہ ہر جمعے کو ایک امین و صادق شخص جسے عوام کا اعتماد حاصل ہے ان کے سامنے ملک کے حالات پر روشنی ڈالے انہیں نصیحت کرے اور صحیح سمت و رخ عطا کرے۔ نماز جمعہ تعلیم و نصیحت کا مرکز ہونا چاہئے۔ ائمہ جمعہ اور منتظمین کو مل کر اس سلسلے میں کوشش کرنا چاہئے۔
عوامی نظام، جس کے ڈھانچے میں عوام کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو، عوام کی آگاہی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، یعنی اس نظام کے عوام کو مطلع رکھنا ضروری ہے۔ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا چاہئے۔ انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات اور لازمی فہم و ادراک کا مالک بنانا چاہئے۔ ایسے نظام کے لئے اطلاع رسانی کا عمل پانی اور ہوا کی مانند لازمی ہوتا ہے۔ ہمارا نظام ایسا ہی نظام ہے۔ اس میں عوام کو جتنا زیادہ با خبر رکھا جائے گا اسلامی جمہوری نظام کو اتنا ہی زیادہ نفع پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام کی ضرورت ہے کہ عوام کو آگاہ و باخبر رکھا جائے۔ آپ یورپ اور امریکہ کے کسی ایک اخبار کا نام بتائیے جو سرمایہ داروں کی ملکیت نہ ہو۔ میرا یہ سوال ہے کہ کون سا اخبار ہے جو متوسط طبقے اور غریب طبقے سےتعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے انسان اس طبقے کی آزادی کا اندازہ کر سکے؟ اخبارات کس کی ملکیت ہیں؟ تمام (اخبارات ) کا تعلق بڑے ٹرسٹوں اور سرمایہ داروں سے ہے۔ یعنی یہ سرمایہ دار جب پوری آزادی سے کام کرتا ہے تو جب جس کی شبیہ کو چاہتا ہے خراب کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ رای عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق سمت اور رخ عطا کر دیتا ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے لئے اخبارات و جرائد اشرافیہ کا مشغلہ اور کوئی آرائشی چیز نہیں ہے۔ بنابریں اس میں اضافہ، اس میں تنوع، ان کا معیاری ہونا اس نظام کے بنیادی امور میں شامل ہے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ اور میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔ آزاد میڈیا قوم کی ترقی و بالندگی کی علامت بلکہ در حقیقت ترقی کی بنیاد ہے۔ یعنی جہاں ایک طرف معاشرے کی آزادی و ترقی میڈیا کو وجود میں لاتی ہے وہیں میڈیا بھی قوم کے نشو نما میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ کچھ قدریں اور حقائق ایسے ہیں جو آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی کے نام پر پامال نہ ہونا چاہئے۔ اب کمال کی بات یہی ہے کہ آزادی کی بھی حفاظت ہو اور حقیقت کا صحیح ادارک بھی عمل میں آئے۔ پرنٹ میڈیا آزاد بھی رہے اور ضرررساں پہلوؤں سے پاک بھی رہے۔ روش ایسی ہونا چاہئے۔ میڈیا کا حقیقی سرمایہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے جو اقدار اور لوگوں کے عقائد کے لحاظ، نظام کی عزت و شان کی حفاظت اور بیان میں صداقت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا، جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے، لوگوں کے ذہن کھولنے کا فریضہ ادا کرے، ملک کے مفادات کو ملحوظ رکھے، قلم کا استعمال عوام کے مفاد میں کرے، دین کے مفاد میں قلم کا استعمال کرے تو اس کی تعداد میں جتنا زیادہ اضافہ ہو بہتر ہے۔ اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کا سب سے اہم پہلو اس انقلابی قوم کے اقدار و اہداف کی حمایت و وضاحت اور عوام کی آگاہی کی سطح کو بلند کرنے کے سلسلے میں ثقافتی کردار کا ادا کرنا ہے۔ موجودہ دور میں، خاص طور پر مارکسزم کی شکست کے بعد مغربی سامراج انقلابی قوموں پر اپنا سیاسی و الحادی تسلط قائم کرنے کے لئے ثقافتی حربوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مغرب کی اس ثقافتی یلغار کا مختلف پہلوؤں سے مناسب جواب اور سد باب میڈیا کا اولیں مشن ہونا چاہئے۔ میں میڈیا سے جو بار بار سفارش کرتا ہوں کہ ملک کے معاملات کے سلسلے میں ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں دشمن کا حربہ نہیں بننا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے عمل سے دشمن کا کام آسان ہو جائے اور وہ حسب منشاء ہمارے معاشرے کی فکری و ثقافتی فضا میں جو چاہے تبدیلی کر دے اور آپ ملک کے اندر اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسے عوام کے حلق سے نیچے اتارنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اگر یہ عمل عمدا اور واقفیت کے ساتھ انجام پائے تو بہت بڑی خیانت ہے اور اگر غفلت میں ہو جائے تو بہت بڑی غلطی ہے۔ بہت زیادہ ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر پرنٹ میڈیا کی نگرانی بہت اہم اور ضروری فریضہ ہے۔ یہ آئین، پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین اور عام قوانین کا تقاضہ بھی ہے۔ نظارت کے بغیر پرنٹ میڈیا سے قومی مفادات اور تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رای عامہ ایک آزاد میدان ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے اس کے ساتھ جو دل میں آئے برتاؤ کیا جا سکتا ہے۔ رای عامہ تجربہ گاہ کا چوہا تو نہیں ہے کو جو جیسا چاہئے اس پر تجربہ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی سے لوگوں کے جذبات، عقائد اور مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ بنابریں نظارت لازمی ہے تاکہ یہ حرکتیں نہ ہوں۔ یہ (نظارت) ایک فریضہ ہے۔
جہاد یعنی عظیم مقدس ہدف کے لئے جد و جہد۔ اس کے مخصوص میدان ہیں۔ ایک میدان مسلح افواج کے شعبوں میں شمولیت ہے۔ اس کا سیاسی میدان بھی ہے، علمی میدان بھی ہے اور اخلاقی میدان بھی۔ جہاد کی صداقت و حقانیت کا معیار یہ ہے کہ یہ عمل جب انجام پائے تو خاص سمت اور رخ کا حامل ہو اور سامنے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اسی کو جد و جہد کہتے ہیں اور جہاد اسی کا نام ہے۔ اگر اس میں الہی ہدف اور پہلو ملحوظ ہوگا تو اس میں تقدس بھی پیدا ہو جائے گا۔ میں اپنے عزیز نوجوانوں کو حقیقی جہاد کی دعوت دیتا ہوں۔ جہاد صرف میدان جنگ میں جاکر لڑنے کا ہی نام نہیں ہے۔ میدان عمل و اخلاق میں سعی پیہم اور سیاسی و تحقیقاتی امور میں تعاون و شراکت بھی جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرے میں صحیح طرز فکر اور ثقافت کی ترویج بھی جہاد ہے، کیونکہ دشمن کی جانب سے گمراہ کن اقدامات کا خدشہ رہتا ہے۔ وہ ہماری فکریں منحرف کر سکتا ہے، ہمیں غلطیوں کا شکار بنا سکتاہے۔ جو شخص بھی عوام کی ذہنی بیداری و آگاہی کے لئے کام کرے، فکری انحراف کا سد باب کرے، غلط فہمی پھیلنے سے روکے، چونکہ وہ دشمن کے مد مقابل کھڑا ہے اس لئے اس کی یہ سعی و کوشش جہاد کہلائے گی۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس جہاد میں حریف سامراجی عناصر ہیں، دشمن وہ افراد ہیں جو ایران، اسلام، شناخت و تشخص، قومیت، اسلام نوازی اور اسلامی صفات و اوصاف سے عناد رکھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے سلسلے میں سختگیر ہونا چاہئے۔ یہ کفار کون لوگ ہیں؟ ہر اس شخص کے ساتھ تو سختگیری نہیں کی جا سکتی جسے اسلام سے نسبت نہیں۔ جو شخص آپ سے دشمنی کا برتاؤ نہیں کرتا، آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف نہیں ہے، آپ کی قوم اور ملت کی نابودی کے در پے نہیں ہے، وہ خواہ کسی اور دین کا ماننے والا ہی کیوں نہ ہو اس سے آپ اچھا سلوک کیجئے، نیک برتاؤ کیجئے۔ جس کافر سے سختی سے پیش آنے کا حکم ہے وہ یہ نہیں ہے۔ سختگیری ایسے افراد کے ساتھ کرنا چاہئے جو آپ کی شناخت و تشخص، اسلام، قومیت، ملک، ارضی سالمیت، خود مختاری، وقار، عزو شان، عزت و آبرو، آداب و روایات اور ثقافت و اقدار کے دشمن ہوں۔ یہ طرز عمل ہمارے معاشرے میں عام ہونا چاہئے۔ درگذشت اور رعایت مسلمانوں کے ما بین رائج ہونا چاہئے۔ اسلامی ثقافت کا ایک نمایاں نکتہ جس کا نمایاں مصداق صدر اسلام میں کچھ زیادہ اور بعد کی تاریخ میں بہت کم نظر آتا ہے، جہاد و عسکریت کی ثقافت ہے۔ جہاد کے معنی صرف میدان کارزار میں اتر جانا ہی نہیں ہے۔ دشمن کے مقابلے میں ہر کوشش جہاد سے عبارت ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بعض افراد کوئی کام انجام دیں اور اس کے لئے جد و جہد بھی کریں لیکن اس پر جہاد کا لفظ کا اطلاق نہ ہو۔ اس لئے کہ جہاد کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں انجام دیا جائے۔ کبھی تو یہ مقابلہ میدان جنگ میں مسلحانہ طور پر ہوتا ہے، کبھی یہ مقابلہ میدان سیاست میں انجام پاتا ہے جو سیاسی جہاد کہلاتا ہے، کبھی ثقافتی امور کے سلسلے میں انجام پاتا ہے جو ثقافتی جہاد کہا جاتا ہے، کبھی تعمیراتی شعبے میں انجام پاتا ہے اور تعمیراتی جہاد کہلاتا ہے۔ اسی طرح جہاد دوسرے میدانوں میں دوسرے ناموں سے بھی انجام دیا جاتا ہے۔ بنابریں معیار میدان جنگ اور شمشیر زنی نہیں ہے بلکہ معیار مقابلہ ہے۔ مقابلے میں بھی دو لازمی شرطیں ہیں ایک تو جد و جہد کا ہونا اور دوسرے دشمن کے مقابلے میں انجام پانا۔ جہاد میں دوسروں کے حقوق پر دست درازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاد میں بہانے بازی اور (عبث) قتل و غارتگری کی گنجائش نہیں، جہاد میں یہ نہیں ہوتا کہ جو بھی مسلمان نہیں اسے تہہ تیغ کر دیا جائے، جو بھی دین اسلام قبول نہ کرے اس کے ساتھ سختگیر رویہ رکھا جائے۔ سختگیری ایسے لوگوں کے ساتھ کی جانی چاہئے جو مسلم اقوام کی شناخت و تشخص، اسلام پسندی، خود مختاری، ناموس، ثقافت، ارضی سالمیت اور اقدار سے بر سر پیکار ہوں۔ اس سلسلے میں جہاد، حکم الہی کا درجہ رکھتا ہے جس کی بدولت قوموں کو سربلندی حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی انقلاب نے ہماری قوم کو جہاد کی ثقافت عطا کی۔ جہاد کی ثقافت ہر شعبے اور ہر موقع پر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اوائل انقلاب سے ہی زراعت اور جانوروں کی پروش سے متعلق بنیادی کاموں میں جہادی ثقافت شامل ہو گئی۔ کیونکہ انقلاب نے ایسی تنظیمیں پیدا کر دی تھیں جن کی ماہیت انقلابی جوش وجذبے اور جہاد و سرعت عمل سے عبارت تھی۔
ما تحت عملے کی نگرانی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اعلی حکام اور عہدہ داروں کے لئے میری تاکید یہ ہے کہ اپنے ما تحت عملے کی نظارت و نگرانی پر خصوصی توجہ دیں۔ آپ کی تیز بیں نگاہیں جب آپ کے دائرہ کار میں چکراتی رہیں گی تو کاموں کی صحیح انجام دہی اور پیشرفت کو یقینی بنایا جا سکےگا۔ اگر آپ سے کسی لمحے کوئی غفلت ہوئی تو ممکن ہے کہ اسی مخصوص لمحے میں کوئی گڑبڑ ہو جائے۔ اگر کوئی عہدہ دار اپنے وقت کی تقسیم کرنا چاہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا نصف وقت نظارت میں اور نصف وقت دیگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، حکمت عملی طے کرنے، احکامات صادر کرنے، میٹنگیں کرنے اور اسی طرح کے دیگر امور میں صرف کرنا چاہئے۔ ادارے کی نگرانی یعنی یہ کہ وہاں آپ کی موجودگی دائمی ہو۔ نظارت کے مسئلے میں معیار قوانین و ضوابط ہونا چاہئے، ذاتی خواہش اور منشاء نہیں۔ ہرگز ذاتی خواہش کے مطابق عمل نہ کیجئے۔ آپ کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ آپ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکیں۔ قوانین پر عملدرآمد کے سلسلے میں کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہئے۔ امور کے نظم و نسق پر حکومت کو مامور اور قادر بنانے والے قوانین وضع کرنا اور پھر قانونی طریقے سے اس پر عملدرآمد کے عمل کی نگرانی پارلیمنٹ کا اولین فریضہ ہے، جو حکومت و پارلیمنٹ کے ما بین تعاون و ہمفکری اور پارلیمنٹ کی جانب سے حکومت کی حمایت کا متقاضی ہے۔ مقننہ کا فریضہ قانون سازی اور حکام کی کارکردگی کی نظارت کرنا ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق پارلیمنٹ حکومت کی کارکردگی کی نگراں ہے۔ اگر کسی مرحلے پر حکومت کی کارکردگی میں کجی اور غلطی نظر آئے، وہ غلط اقدام کر دے یا خدا نخواستہ اختیارات کا بے جا استعمال کرے اور نتیجتا بد عنوانی پیدا ہو جائے تو ایسے میں اس بد عنوانی و فساد کو قابو میں کرنے کا کام پارلیمنٹ کا ہے۔ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کا بھی اولین فریضہ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب ہے اور دوسرے مرحلے میں اس کی ذمہ داری موجودہ قائد انقلاب کی کارکردگی پر نظر رکھنا اور اس بات پر توجہ رکھنا ہے کہ تمام شرائط اور اہلیت برقرار ہیں یا نہیں؟ اس کا علم، اس کا تقوی، اس کی انتظامی صلاحیت، اس کی مدبرانہ توانائی، اس کا خلوص اور صداقت باقی ہے یا نہیں، مطلوبہ سطح پر برقرار ہے یا اس سے نیچے آ گئی ہے؟ اس کی نگرانی لازمی ہے اور یہ اہم فریضہ ماہرین کی کونسل کے دوش پر ہے۔ اس اہم ترین فریضے کی ادائیگی کے لئے ملک میں کوئی اور ادارہ نہیں ہے جسے آئین نے اس کا کی اجازت اور ذمہ داری سونپی ہو۔ معلوم ہوا کوئی بھی، نظارت و نگرانی سے بالاتر نہیں ہے۔ خود قائد انقلاب اسلامی بھی نظارت سے مستثنی نہیں ہے تو قائد انقلاب اسلامی سے وابستہ اداروں کا کیا ذکر؟ بنابریں سب پر نگرانی ضروری ہے۔ ان افراد کی نگرانی جو حکومت کر رہے ہیں۔ کیونکہ حکومت کے فطری معنی طاقت و دولت تک رسائي کے ہیں۔ یعنی بیت المال اور سیاسی و سماجی اقتدار بعض حکام کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اب ایسے میں انہیں اختیارات کے غلط استعمال اور نفسانی خواہشات سے روکنے اور امانتداری پر کاربند رکھنے کے لئے نظارت لازم و واجب ہے۔ نظارت کا عمل سنجید گی اور بغیر کسی رو رعایت کے انجام پانا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے جسے میں نے ماہرین کی کونسل کے اراکین، دیگر اداروں کے اراکین اور افراد کے سامنے پیش کیا ہے۔ نظارت و نگرانی مجھے پسند ہے اور نظارت سے فرار، اگر کہیں ہو، مجھے نا پسند ہے۔ میری جتنی زیادہ نگرانی ہو اتنی ہی مجھے خوشی ہوگی۔ نظارت میرے لئے کوئی بوجھ نہیں ہے اور مجھے نظارت و نگرانی سے خوشی ہے۔ البتہ اگر کسی نے نظارت کا عمل انجام دیا اور اسے کچھ نظر آ گیا تو اسے چاہئے کہ ماہرین کی کونسل کو اس سے مطلع کر دے ماہرین کی کونسل یقینا اس پر عمل کرے گی۔ نظارت ایک قانون ہے۔ نگراں کونسل کی نظارت کا عمل آئین کے مطابق ہے۔ اس کی بنیادیں آئين کے اندر موجود ہیں عام قوانین میں بھی اس کی تائید و توثیق کی گئی ہے۔ عام شہریوں کے لئے بھی یہ نظارت معمولی بات نہیں ہے۔ نگرانی کا یہ عمل اس لئے ہے کہ اس حساس مرکز میں کوئی نااہل، برا اور ضرر رساں آدمی داخل نہ ہو جائے۔ یہ نظارت صرف پارلیمنٹ سے مختص نہیں بلکہ صدارت کے سلسلے میں بھی ہے۔ یہ نظارت اس لئے ہے کہ جو افراد پارلیمنٹ یا عہدہ صدارت کے اہل نہیں ہیں ان پر نظر رکھی جائے۔ انتخابات کی نگرانی بھی بہت اہم ہے جو نگراں کونسل انجام دیتی ہے۔ (نظارت کا) دوسرا حصہ عوام سے مربوط ہے جو سب سے پہلے مرحلے میں سماجی مسائل میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے عبارت ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک عمومی فریضہ ہے۔ اگر عوام کی نظروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مفہوم اور اس کی حدود واضح ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ سماجی تعلقات کے سلسلے میں جدید ترین، شیریں تریں، کارآمد ترین اور کار ساز ترین عمل یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ یہ عمومی نظارت ہے، یہ خیر و نیکی کی ترویج ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مختلف میدان ہیں۔ ان میں سب سےاہم میدان حکام اور عہدہ داروں کا ہے۔ یعنی عوام، حکام کے سلسلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضے پرعمل کریں۔ عوام کو چاہئے کہ حکام سے بہترین کارکردگی کا مطالبہ کریں، درخواست اور التجاء کی شکل میں نہیں بلکہ ان سے مطالبہ کریں۔ یہ بہت اہم میدان ہے۔ معاشرے کے عوام کو چاہئے کہ مختلف سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنی شراکت اور نظارت، اپنی بجا مداخلت اور رہنمائی کے ذریعے سب کو فرائض منصبی کی جناب متوجہ کریں۔ اس میں مجھے کوئی شک و شبہ نہیں کہ عوام اور حکام کے درمیان ذرائع ابلاغ بطور عام اور اخبارات و جرائد بطور خاص رابطے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کو چاہئے کہ عوام تک صحیح اطلاعات بر وقت پہنچانے کی کوشش کرے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔منصب کی ذمہ داریوں سے سابقہ پڑنے کے بعد میں عہدہ داروں کے سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں آخرت کو پیش نظر رکھیں اور اس کے کردار کو تسلیم کریں۔ بعض افراد عوام کی باتوں اور عوام کی جانب سے انجام پانے والی نگرانی کو اہمیت دیتے ہیں لیکن الہی نظارت و نگرانی پر کوئی توجہ نہیں دیتے جس پر ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالی کو ہر آن حاضر و ناظر جانئے۔ روز قیامت کے محاسبے کو سنجیدگی سے لیجئے۔ محاسبہ الہی برحق ہے۔ ہمارا معمولی سا عمل، لمحے بھر کی غفلت، ہماری چھوٹی سی کوتاہی بھی، اگر خدا نخواستہ سرزد ہو گئی تو، ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا ہم سے حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں آپ جو مشقتیں اور زحمتیں اٹھا رہے ہیں وہ بھی آپ کے نامہ اعمال میں لکھی جا رہی ہیں۔ یہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے اور وہ ان سب کے بارے میں ہم سے سوال کرے گا۔ بنابریں ہمیں چاہئے کہ آخرت کے حساب و کتاب، قیامت اور خوشنودی پروردگار کو اہمیت دیں۔ اگر یہ چیز عملی ہو گئی تو قدرت و طاقت، خیر کا سرچشمہ بن جائے گی۔ بعض افراد قوت و طاقت و دولت و ثروت کو شر اور قبیح تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ زندگی میں ملنے والی دیگر عطیات کی مانند طاقت و ثروت بھی عطیہ ہے۔ زندگی کی زینت ہےزینۃ الحیاۃ الدنیا اہم بات یہ ہے کہ ہم اس طاقت کو استعمال کیسے کرتے ہیں؟ اگر ہم نے اس سے اچھے کاموں کے لئے استفادہ کیا تو یہ خیر و نیکی کا سرچشمہ ہے۔ اگر اس سے عوام کی خدمت کی تو یہ موجب خیر و برکت ہے لیکن اگر اس سے ہم نے ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہی اور درندوں کی مانند اس کے ذریعے کبھی کسی پر تو کبھی کسی اور پر جھپٹہتے رہے تو یہی باعث شر بن جائے گی اور جتنی بڑھتی جائے گی اس کا شر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا جائے گا۔
انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ہجری شمسی مطابق اٹھارہ فروری انیس سو اٹھہتر عیسوی ایران کے اسلامی انقلاب کے تعلق سے یادگار تاریخ ہے۔ اس دن صوبہ مشرقی آذربائیجان کے شہر تبریز کے عوام نے چالیس روز قبل انیس دی کو قم میں شاہی کارندوں کے حملے میں شہید ہونے والے مظاہرین کا چہلم منایا۔ یہ چہلم در حقیقت انقلاب کی تحریک میں بہت موثر ثابت ہوا۔ اہل تبریز کے اس اقدام سے انیس دی کے واقعے کی یاد تازہ ہو گئی اور اس واقعے میں شہید ہونے والوں کا خون رائگاں جانے سے بچ گيا۔ اہل تبریز کے اس اقدام کا پورے ملک پر اثر پڑا اور تحریک انقلاب کو وسعت ملی۔ اسی یادگار اور تاریخ ساز واقعے کی مناسب سے قائد انقلاب اسلامی نے مشرقی آذربائیجان کے عوام سے اپنی ملاقات میں واقعے کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ملاقات حسب سابق تہران میں انجام پائی۔ تفصیلی خطاب پیش نظر ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
عزیز بھائيو اور بہنو! خوش آمدید۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں آج یہ توفیق نصیب ہوئی کہ اس حسینیہ میں (صوبہ) آذربائیجان اور (شہر) تبریز کے با پاکیزہ صفت عوام، عزیز نوجوانوں اور شہدا کے اہل خانہ کی روحانیت و معنویت اور صفائے باطنی نے حسین ابن علی علیہ الصلاۃ و السلام کے تذکرے سے ہمیں بھی صفائے باطنی عطا کر دی۔ اس صفا وپاکیزگی اور قلبی توجہ نے جو اہل تبریز میں ہمیشہ نمایاں رہتی ہے، ہماری زندگی و اس مقام و ماحول کو منور کر دیا۔
یہ بڑا با معنی حسن اتفاق ہے کہ آج چہلم(سید الشہدا) بھی ہے اور انتیس بہمن کا واقعہ بھی چہلم ہی کا ایک واقعہ ہے۔ کربلا کا چہلم ایک شروعات تھی۔ جب کربلا کا واقعہ رونما ہو گیا، وہ بھیانک المیہ سامنے آ گیا اور اس مقام پر امام حسین علیہ السلام، آپ کے اصحاب و اقربا نے بے مثال فداکاری و ایثار کا مظاہرہ کر دیا تو اب باری تھی اسیروں کی کہ وہ پیغام کو عام کریں اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی حق بیانی، خطبے اور انکشافات، طاقتور ذرائع ابلاغ کی مانند واقعے، اس کے اہداف، اس کے رخ اور (اس کے پیچھے کارفرما) فکر کو وسیع پیمانے پر مشتہر کرتے، اور ایسا ہی ہوا۔ گھٹن کے ماحول کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں عوام جن حقائق سے آگاہ ہو چکے ہیں انہیں عملی طور پر ظاہر کرنے کی جرئت و ہمت جٹا نہیں پاتے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ظالمانہ و استبدادی نظام اس کا موقع ہی نہیں دیتا کہ عوام کچھ سمجھ پائیں، اور اگر بات اس کے کنٹرول سے نکل جائے اور عوام اس سے باخبر ہو جائیں تو وہ عوام کو ہرگز یہ موقع نہیں دیتا کہ اس (حقیقت) پر عمل کریں۔ کوفے میں، شام میں اور راستے میں(دیگر مقامات پر) بہتوں نے حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا یا حضرت سید سجاد علیہ السلام یا دیگر اسیروں کو دیکھ کر بہت کچھ سمجھ لیا تھا۔ لیکن کس میں جرئت تھی اور کس میں یہ طاقت تھی کہ جو سمجھ گیا تھا اسے اس ظالمانہ، استکباری و استبدادی نظام اور رعونت کےسامنے (عملی طور پر) ظاہر کرتا؟ (حقیقت) گلے میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ چہلم کے دن پہلی بار یہ باہر نکلی۔
سید ابن طاؤس اور دیگر بزرگوں نے لکھا ہے کہ جب اسیروں کا قافلہ یعنی جناب زینب سلام اللہ علیھا اور بقیہ اہل حرم چہلم کو کربلا پہنچے تو وہاں صرف جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ عوفی ہی موجود نہیں تھے بلکہ بنی ہاشم کے کچھ مرد کچھ افراد اور کچھ عقیدتمند بھی سید الشہدا کی تربت پر جمع تھے۔ وہ زینب کبری کے استقبال کے لئے آئے تھے۔ حضرت زینب کبری نے شام سے واپسی کے سفر میں کربلا جانے پر جو تاکید فرمائی شائد اس کا مقصد یہی رہا ہو کہ اس مقام پر چھوٹا سا ہی سہی لیکن با معنی اجتماع ہو۔ بعض افراد نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اربعین تک کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ کربلا پہنچ جائیں۔ تاہم آیت اللہ قاضی شہید نے اپنی تفصیلی تحریر میں اسے ثابت کیا ہے۔ بہرحال بزرگوں کی کتابوں میں یہ ملتا ہے کہ جب حضرت زینب کبری اور اہل حرم کربلا پہنچے تو عطیہ عوفی، جناب جابر بن عبد اللہ انصاری اور بنی ہاشم کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ یہ اس ہدف کی تکمیل کی نشانی تھی جس کے لئے جام شہادت نوش کیا گيا۔ یعنی لوگوں میں جرئت(اظہار) پیدا کرنا۔ یہیں سے توابین کا ماجرا شروع ہوا۔ حالانکہ توابین کی تحریک کچل دی گئی لیکن کچھ دنوں میں حضرت مختار اور کوفہ کے دیگر دلاوروں کے قیام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نتیجتا ظالم بنی امیہ کی بساط سمیٹ دی گئی۔ ویسے اس کے بعد مروانیوں کا سلسلہ حکومت شروع ہو گیا لیکن جد و جہد اور قیام کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ کیونکہ راستہ کھل چکا تھا۔ یہ ثمرہ تھا چہلم کا۔ گویا چہلم میں انکشاف و افشاء بھی ہے، پیغام عمل بھی ہے اور افشاء کے اہداف کی تکمیل بھی اسی چہلم میں ہے۔
تبریز میں بھی یہ واقعہ بعینہ رونما ہوا۔ میں اس سے قبل بھی اہل تبریز کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر انتیس بہمن کا واقعہ رونما نہ ہوتا یعنی شہدائے قم کی یاد اہل تبریز کے ذریعے اس فداکاری و ایثار کے ساتھ تازہ نہ کر دی گئی ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ جد و جہد اور تحریک کا رخ کچھ اور ہو جاتا۔ بہت ممکن تھا کہ یہ عظیم واقعہ جو اس انداز سے رونما ہوا ، رونما نہ ہوتا۔ یعنی انتیس بہمن کا اہل تبریز کا قیام فیصلہ کن تھا۔ قم میں بہنے والے خون اور قم کی تحریک کے بنیادی مقصد کو تبریز کے واقعے نے تازہ و زندہ رکھا۔ ظاہر ہے عوام کو اس کی قیمت چکانی پڑی، عوام نے اپنی جانیں، اپنا چین و سکون، اپنی سلامتی و تحفظ، سب کچھ قربان کر دیا۔ ہاں اس کا ثمرہ ملک گیر بیداری کی صورت میں ملا۔ قم کی واقعے کا چہلم (تبریز میں) منایا گیا۔ انتیس بہمن کے شہدائے تبریز کے چہلم کے تسلسل میں کئی چہلم منائے گئے۔ اس سے تحریک کے پھیلاؤ اور ہمہ گيری کا اندازہ ہوتا ہے۔ صحیح تحریک کی یہی خاصیت ہے۔
خیر یہ تو ایک تاریخی گفتگو تھی جس کا تعلق ماضی سے ہے۔ انتیس بہمن سن تیرہ سو چھپن کو تبریز میں رونما ہونے والے اس واقعے کو اکتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اکتیس سال بہت ہوتے ہیں۔ اس وقت یہاں تشریف فرما حضرات میں بہت سے لوگ شائد اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے ہوں اور اگر موجود تھے تو بہت چھوٹے تھے، بچے تھے، سمجھنے سے قاصر تھے۔
جب کوئی واقعہ اچھی نیت اور صحیح طرز فکر کی بنیاد پر رونما ہوتا ہے تو اس میں کچھ سبق آموز باتیں ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتیس بہمن کے واقعے سے تین درس ملتے ہیں؛ نمبر ایک آگاہی و بیداری و عدم غفلت کی کیا تاثیر ہے۔ دوسرے جرئت عمل اور تیسرے مستقبل کے سلسلے میں بھرپور امید رکھنا اور سختیوں اور خطرات کو خاطر میں نہ لانا۔ یہ تین درس ہیں۔ سب سے پہلی منزل فہم و ادراک کی ہے۔ بہت سے افراد نے حالات کی اہمیت کو نہیں سمجھا، لیکن اہل تبریز نے حالات کی اہمیت و نزاکت کا ادراک اور پھر (مناسب) اقدام کیا۔ حالات کی اہمیت و نزاکت کا ادراک اور یہ عقلمندی بہت اہم چیز ہے۔ جب حالات کی نزاکت کا اندازہ ہو جائے تو جرئت عمل کی ضرورت پیش آتی ہے، یہ دوسرا نکتہ ہے۔ اس کے بعد یہ ضروری ہوتا ہے کہ اقدام پوری امید، ذات الہی پر توکل و اتکاء اور اللہ تعالی کی ذات سے بھرپور توقعات وابستہ کرکے انجام دیا جائے۔ یہ انتیس بہمن کی بعض سبق آموز باتیں ہیں۔
عوام میں اگر اللہ کی ذات پر ایمان نہ ہوتا، اگر دریائے ایمان لوگوں کے دلوں میں موجزن نہ ہوتا تو واقفیت و آگاہی پیدا ہوکر بھی رائگاں جاتی، اس سے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ کیونکہ عملی اقدام انجام نہ پاتا۔ لوگوں کی قوت ایمانی، عوام کی ہوشیاری، بر وقت اقدام، ان ساری چیزوں کا بڑا اہم کردار رہا۔ تو یہ ہمارے لئے درس ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ واقعات کا توجہ اور دانشمندی سے جائزہ لینا چاہئے۔ بہت سی قومیں حساس مواقع پر بر وقت نزاکتت کا ادراک نہ کر سکیں، ان پر حوادث کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، سانحے گزر گئے لیکن وہ غافل ہی رہیں اور حوادث نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ جس وقت رضاخان کی رعونت کے مقابلے مین بعض علما اٹھ کھڑے ہوئے تھے اگر عوام نے اس وقت ان کا ساتھ دے دیا ہوتا۔ اگر لوگوں کو اندازہ ہو جاتا کہ حالات کس رخ پر جا رہے ہیں اور وہ قیام کرتے تو شاید آج ہماری قوم پچاس سال آگے ہوتی ہے اور پٹھو طاغوتی پہلوی حکومت کے پچاس سالہ دور کے انحطاط و تنزلی کا سامنا ملک کو نہ کرنا پڑتا۔ غفلت کے نتیجے میں لوگ ان خساروں کو تحمل کر لیتے ہیں۔ بنابریں غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ جس وقت اس ملک میں امریکیوں نے بغاوت کروائی تھی، جو انیس سو ترپن میں امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں ہوئی تھی اگر وقت کی نزاکت کو سمجھ لیا گيا ہوتا اور مناسب اقدام کیا جاتا تو ملک کو یہ خسارہ نہ ہوتا۔ واقعات پر باریک بینی سے نظر رکھنا چاہئے۔
اس وقت ہماری قوم اپنے سامنے ایک بہت بڑے محاذ کا مشاہدہ کر رہی ہے جہاں سے پوری توانائی کے ساتھ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلامی انقلاب کی سامراج مخالف ماہیت کا خاتمہ ہو جائے۔ انقلاب کی کامیابی کے اوائل سے ہی اس محاذ کی یہ کوشش رہی کہ انقلاب کے بطن سے ظہور پذیر ہونے والا اسلامی نظام قائم و دائم نہ رہ سکے۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ اسلامی جمہوری نظام کا نشو نما نہ ہو سکے۔ البتہ یہ کوششیں ناکام رہیں۔ سیاسی کوششیں کی گئیں، اقتصادی ناکہ بندی کی گئی، اس قوم پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی، اس قوم کے دشمنوں کو مسلح کیا گیا، ساز و سامان دیا گيا، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف داخلی فتنے بھڑکائے گئے لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ وہ(دشمن) بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ اسلامی نظام کو سرنگوں کرنا ناممکن ہے، کیونکہ اس کی پشتپناہی اور حمایت کے لئے مومن عوام سینہ سپر ہیں۔ دسیوں لاکھ مومن عوام نے اس نظام کی پاسبانی کی ہے۔ یہ صرف حکام اور حکومت کا معاملہ نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نظام چند افراد پر قائم ہوتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کو اس سے فیض پہنچ رہا ہوتا ہے، ایسے نظام سے سامراج کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن کوئی نظام ایسا بھی ہوتا ہے جس کا پورا دارومدار عوام کے ایمان و ایقان پر ہوتا ہے، اس کی تکیہ گاہ عوام کے قلوب ہوتے ہیں، اسے عوام کی بھرپور پشتپناہی حاصل ہوتی ہے، ایسے نظام کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ سامراجی قوتوں کو بھی اس حقیقت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ یہی جلوس اور ریلیاں، یہی اس سال (بائيس بہمن مطابق گیارہ فروری) کی عوامی ریلیاں بڑے پر شکور اور عظیم پیغام کی حامل تھیں۔ سائنسی ترقی، مختلف میدانوں میں نوجوانوں کی پیش قدمی، ماضی سے بھی زیادہ جذاب اور موثر واقع ہونے والے انقلاب کے نعرے، اب کوئی بھی عہدہ دار اسلامی انقلاب کے نعروں کے تعلق سے کسی پشیمانی اور خفت کا احساس نہیں کرتا بلکہ حکام ان نعروں پر نازاں ہیں۔ خود مختاری، آزادی، اسلام، اس معتبر اور با معنی آئين پر افتخار کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نظام کو کوئی ہلا بھی نہیں سکتا۔ دشمن اس نتیجے پرپہنچ چکا ہے کہ اس نظام کو جہاں تک ممکن ہے اندر سے کھوکھلا کیا جائے۔ یہ ثقافتی یلغار جس کی جانب میں نے کئی سال قبل اشارہ کیا تھا، یہ ثقافتی شبخون جس کے آثار مختلف میدانوں میں محسوس کئے جاتے تھے اور آج بھی نظر آ رہے ہیں۔ ان کے پیچھے یہی نیت اور یہی خواہش کارفرما ہے کہ انقلاب کو اس کی روح اور اس کی دینی و اسلامی ماہیت سے تہی کر دیا جائے، جدا کر دیا جائے۔ یہ بھی ان نازک مواقع میں سے ایک ہے جس کے سلسلے میں عوام کی ہوشیاری و بیداری لازمی ہے۔ یہ بھی انتیس بہمن کے واقعے کی مانند ہے۔ بہت سے افراد انتیس بہمن کے واقعے کی نزاکت کو محسوس نہیں کر سکے تھے، لیکن آپ اہل تبریز نے اس کا ادراک کیا اور عملی طور پر بھی اپنے اس فہم و ادراک کو ثابت کیا۔ یہ چیز دائمی ہے۔ عوام کو واقعات و حالات کی حساسیت و نزاکت کا مکمل ادراک ہونا چاہئے اور بحمد اللہ آج قوم اس نزاکت سے پوری طرح واقف بھی ہے۔ عوام پوری طرح بیدار ہیں۔ یہ بھی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کا ثمرہ ہے۔ عوام بیدار ہو چکے ہیں، ان میں تجزیاتی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔
آپ یقین جانئے کہ اب اسلامی نظام کے دشمن اس کی مستحکم بنیادوں کے سامنے خود کو عاجز پاتے ہیں۔
ان کی کوشش یہ ہے کہ گوناگوں حربوں کے ذریعے اس انقلاب کا حصہ رہ چکے افراد کے توسط سے انقلاب کو اندر سے رفتہ رفتہ کھوکھلا کردیں۔ اسلامی جمہوریہ بس نام کا اسلامی جہموریہ رہ جائے، یہ برائے نام انقلابی نظام رہ جائے اس میں انقلاب و اسلام کی روح کا کہیں کوئی نام و نشان نہ رہے۔ خالی نام کی کیا ارزش؟ روح ضروری و لازمی ہے۔ میرا اور آپ سب کا فریضہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کی روح اور انقلاب کے با ارزش اصولوں کی حفاظت کریں اور ان با ارزش بنیادوں اور اعلی قدروں کو نظر انداز نہ ہونے دیں۔ یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کا یاور و مددگار ہے جو اس پر ایمان کے ساتھ قدم بڑھا رہے ہیں اور اپنی انسانی طاقت و توانائی کو کسی اہم ہدف کے لئے صرف کر رہے ہیں۔ مقدس اہداف کی راہ میں قدم بڑھانے والے افراد کی اللہ تعالی نصرت و اعانت کرتا ہے۔ جب بھی ہم نے شکست کھائی اور جب بھی ہم اللہ تعالی کی نصرت سے محروم ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے صحیح کام انجام نہیں دیا۔ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اگر ہم اپنا فریضہ ادا کریں گے تو اللہ تعالی بھی ہماری مدد کرے گا۔ وہ فرماتا ہے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم تم میرے ساتھ کیا گیا عہد و پیمان پورا کرو تو میں بھی اس عہد و پیمان کو پورا کروں گا۔ معلوم ہوا کہ مسئلہ دوطرفہ ہے۔ اللہ نے، جو ہماری جان کا مالک اور تمام عطیات کا سرچشمہ ہے، ہم سے دو طرفہ عہد و پیمان باندھا ہے کہ تم اس پر عمل کرو میں بھی اس پر عمل کروں گا۔ یعنی اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا ہے۔ اب اگر ہم نے اپنے فریضے پر عمل نہ کیا تو ہم اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی توقع بھی نہیں رکھ سکتے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ میدان عمل و اقدام میں پیش پیش رہنے والی قوم ہے۔ تیس سال تک ہمارے دشمن یہی آس لگائے رہے کہ یہ قوم انقلابی نعروں کو فراموش کر دے گی لیکن تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج آپ، عوام کے اجتماعات، ان کے خیالات اور ان کے نعروں کو دیکھئے تو یہ وہی اوائل انقلاب کے نعرے اور خیالات ونظریات ہیں۔ یہ صراط مستقیم پوری طرح محفوظ رہا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ تاریخ کے دیگر متعدد انقلابوں میں یہ خصوصیت نظر نہیں آتی۔ یہ اللہ تعالی اور اسلام پر ایمان و عقیدے کا ثمرہ ہے۔ انقلاب کے نعروں کی پاسداری و پاسبانی کی جانی چاہئے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر اس کی قدر کرنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہماری آج کی نوجوان نسل اوائل انقلاب کی نوجوان نسل کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار اور با صلاحیت ہے۔ اس وقت احساسات کا غلبہ تھا تو آج فکر و نظر کی بالادستی ہے، صرف احساسات نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ احساسات و جذبات نہ ہوں، جذبات بھی ہیں لیکن فکر و نظر کے ہمراہ، صحیح ادراک اور جذبہ عمل کے ہمراہ۔
پروردگارا! ہمارے شہدا کی ارواح کو پیغمبر اسلام کے ساتھ محشور فرما، ہمارے بزرگوار امام(خمینی رہ) کو جو اس عظیم تحریک کی روح رواں ہیں اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرمایا۔ ہمیں اسی راہ کے سپاہیوں اور اسی مقدس ہدف کے جاں نثاروں میں قرار دے۔ اللہ تعالی آپ سب بھائیوں بہنوں کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرمائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ادارہ وقف کے سربراہ اور دیگر عہدہ داروں سے ملاقات میں وقف کو بہترین اور مبارک عمل قرار دیا۔ آپ نے اسلام میں وقف کی سنت حسنہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وقف کو پہلے سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں وقف کردہ چیزوں کی متعدد اور مختلف قسموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ادارہ وقف اور متعلقہ ذمہ داروں کی اچھی کارکردگی وقف کی ترویج کا باعث بنے گی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح تہران میں صوبہ مشرقی آذربائیجان کے مومن و انقلابی عوام سے ملاقات میں ہوشیاری، حادثات اور مواقع کی حساسیت کے بر وقت ادراک اور مناسب شجاعانہ اقدام کو امام حسین علیہ السلام کے چہلم کا سب سے بڑا سبق قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ملت ایران حالات کی حساسیت کے ادراک کے ساتھ انقلاب اور نظام کو اسلامی و انقلابی روح سے تہی بنا دینے کی دشمنوں کی سازش کی جانب سے پوری طرح ہوشیار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج شام ترکمنستان کے صدر سے ملاقات میں ایران و ترکمنستان کے بے شمار تاریخی و ثقافتی اشتراکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ممالک گوناگوں وسائل اور تعاون کےمواقع کے پیش نظر باہمی تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے تہران کے دورے پر آنے والے ترکمنستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف اور ان کے وفد میں شامل افراد سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سائنسی، صنعتی، فنی اور ثقافتی توانائيوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کی یہ توانائياں ترکمنستان کی بہت سی ضرورتوں کی تکمیل کر سکتی ہیں اور باہمی تعاون سے دونوں ہی ملکوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ ا لعظمی سید علی خامنہ ای نے بر صغیر ہند میں ایرانی طلبہ کی اسلامی انجمنوں کی یونین کی سرگرمیوں کو چوتھائی صدی کا عرصہ گزر جانے اور یونین کے تیرہ اور چودہ فروری کے انتخابات کی مناسبت سے ایک پیغام صادر فرمایا۔ قائد انقلاب اسلامی کا یہ پیغام ایشیا پیسیفک ممالک میں زیر تعلیم ایرانی طلبہ کی تقریب میں قائد انقلاب اسلامی کے نمایندے حجت الاسلام محمد علی نظام زادہ نے پڑھا۔ پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے؛ بسم الله الرحمن الرحيم عزیز طالب علمو!جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اپنی تعلیم یافتہ اور قابل افتخار نوجوان نسل سے ملت ایران کی توقعات بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس قوم کے نوجوانوں نے ہر شعبے میں اپنی برتر صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے۔ آزاد و سربلند ایران کے دشمنوں کی گزشتہ پالیسیاں ملک کے اسی بازو کو شل کر دینے پر مرکوز رہی ہیں اور اس کے لئے مایوسی پھیلانے کی سازش اور بے راہروی کی ترویج جیسے مختلف حربے استعمال کئے گئے۔ یہ سازش اسلامی انقلاب کے بعد بھی جاری رہی اور اس کے لئے جدید مواصلاتی وسائل کا استعمال بھی کیا گیا لیکن انقلابی نوجوانوں کی بلند ہمتی اور فرض شناسی کی وجہ سے ایران کے دشمن اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے۔ ملک کی سائنسی، سماجی اور سیاسی ترقی اور نوجوان نسل میں نمایاں بلند ہمتی اور جوش و جذبے سے تابناک افق کی نوید ملتی ہے جو ملت ایران کے شایان شان ہے۔ عزیزو! خدائے حکیم و علیم پر توکل اور ہم سب بالخصوص نوجوان نسل پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کے صحیح ادراک کے ساتھ مستقبل کی راہ ہموار کیجئے۔ تحصیل علم، تحقیق اور نئی ایجادات کو اپنا فریضہ تصور کیجئے۔ آپ تعلیمی موضوع کے انتخاب اور اپنے دیگر پروگراموں میں ملک کی موجودہ اور آئندہ ضرورتوں کو مد نظر رکھئے۔ مستقبل آپ کا ہے۔ اسے سنوارنے کے لئے اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کیجئے اور اپنی توانائیوں کو بروئے کار لائیے۔ سيدعلي خامنه اي26/ بهمن/138714 فروری 2009
فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم کے جنرل سکریٹری رمضان عبد اللہ اور ان کی سربراہی میں ایران آنے والے وفد نے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات میں جنگ غزہ اور متعلقہ تبدیلیوں کی مکمل تفصیلات پیش کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے بیس روزہ جنگ غزہ میں اہل غزہ اور اسلامی استقامت کی فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کچھ غزہ میں رونما ہوا وہ کسی معجزے کی مانند تھا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں گزشتہ تیس برسوں کے دوران اللہ تعالی کی ذات پر ایمان، قومی خود اعتمادی کے تحفظ اور علمی و عملی جد و جہد کے ذریعے ملت ایران کو حاصل ہونے والی نمایاں کامیابی و ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر سال بائیس بہمن (مطابق 10-11 فروری) کے مظاہروں میں ملت ایران کی پر عزم اور پر جوش شرکت اسلامی انقلاب کے اہداف اور امنگوں پر کاربند رہنے کے سلسلے میں ملت ایران کی استقامت و پائيداری کی علامت ہے۔ اس سال بھی بائيس بہمن کے مظاہرے اللہ تعالی کی عنایتوں کے طفیل عظیم قومی نمائش ثابت ہوں گے۔
انیس بہمن تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق سات فروری دو ہزار نو عیسوی کو فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے اپنی ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے انیس بہمن کے یادگار دن اور اس دن انجام پانے والے فضائیہ کے دانشمندانہ اقدام پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی شام قم کے دینی علمی مرکز کی انتظامیہ اور اعلی کونسل کے اراکین اور سکریٹری سے ملاقات میں دینی تعلیمی مراکز کو بڑے عظیم اور مالامال ذخائر سے تعبیر کیا اور فرمایا : عصری تقاضوں اور ضرورتوں کی تکمیل اور منصوبہ بندی و عملدرآمد کے مراخل دینی تعلیمی مراکز میں اس طرح طے پانا چاہئے کہ اس عظیم اور عمیق شعبے کے ثمرات سے علما اور معاشرہ پہلے سے زیادہ بہرہ مند ہو سکے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی ساخت کے سیٹیلائیٹ امید کو کامیابی سے خلا میں بھیجے جانے پر فرمایا ہے کہ یہ کامیابی ان امیدوں کی حقانیت کا ثبوت ہے جو عظیم اسلامی انقلاب نے دلوں میں پیدا کی ہیں۔ خلائی شعبے میں اس گراں قدر کامیابی کے سلسلے میں صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے قائد انقلاب اسلامی کو ایک خط ارسال کیا تھا جس پر قائد انقلاب اسلامی نے جوابی پیغام جاری فرمایا۔
فلسطین کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نام اپنے ایک پیغام میں ملت ایران اور آپ کی جانب سے فلسطینیوں بالخصوص اہل غزہ اور اسلامی مزاحتمی تحریک کے جوانوں کی وسیع حمایت کی قدردانی کی ۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ میں اپنی، ملت فلسطین اور زخمی لیکن فاتح غزہ کی جانب سے آپ کے اور عظیم ملت ایران کے ممتاز اسلامی موقف پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
اسلامی مزاحتمی تحریک حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ خالد مشعل نے آج شام قائد انقلاب اسلامی سے اپنی ملاقات میں غزہ کی 22 روزہ جنگ، اسلامی مزاحمت کی کامیابی اور جنگ سے متعلق سیاسی حالات کی تفصیلات بیان کیں۔قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں غزہ جنگ میں صیہونی دشمن پر اسلامی استقامت و پائیداری کی فتح پر ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ غزہ کے عوام اور اسلامی مزاحمت نے ہم سب کو سرخرو کر دیا اور صبر و استقامت اور کامیابی کے ساتھ اس امتحان سے گزر گئی۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج اسرائیلی عقوبت خانوں سے آزاد ہونے والے بعض افراد سے ملاقات میں قید کے تلخ اور دشوار لمحات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جیل میں آپ نے اپنے صبر و استقامت کے ذریعے اسلامی بیداری کی عالمی اور عظیم تحریک کو کئی قدم آگے بڑھایا ہے اور آپ کی استقامت کے ہر لمحہ کے عوض آپ کو اللہ تعالی کی جانب سے اجر و و ثواب ملا ہے ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر آج بارہ بہمن مطابق اکتیس جنوری کو جو عشرہ فجر کا پہلا دن اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلا وطنی سے وطن واپسی کا یادگار دن ہے، بانی انقلاب اسلامی کے مرقد پر حاضر ہوکر فاتحہ خوانی کی ـ آپ نے اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کے معمار امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کیاـ آپ نے اسی طرح ہفتم تیر کے سانحے کے شہدا کے مزاروں نیز دیگر شہدا کی قبروں پر جاکر ان کی ارواح طیبہ کے لئے بلندی درجات کی دعا کی۔
26 جنوری کا دن اسلامی انقلاب کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض عناصر نے عوام کی حمایت کے نام پر قوم کو گمراہ کرنے اور اسلامی جمہوری نظام سے برگشتہ کرنے کی کوششیں کیں جبکہ عوام نے بے مثال اکثریت سے ملک کے لئے اسلامی جمہوری نظام کا انتخاب کیا تھا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےفلسطین کی قانونی حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے نام اپنے پیغام ميں غزہ کے مظلوم و دلیر جانبازوں کی جاں نثاری و صبر و شجاعت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی مسلح افواج کی شرمناک شکست کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہولناک تاریخی جنگی جرائم کے مقابلے میں آپ اور غزہ کے ایک ایک شخص کے ایمان اور با وقار استقامت و پائمردی نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے حامیوں اور اسی طرح امت مسلمہ سے غداری کرنے والے منافقوں کو رسوا کر دیا ہے اور امت اسلامیہ کی عزت و سربلندی کا پرچم بلند کرنے کے ساتھ ساتھ انسان دشمن عناصرکو پہلے سے بھی زیادہ ذلیل و رسوا کرے گی۔ رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ ایسے ہر سودے سے پرہیز کیا جائے جس سے اسرائيل کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فتوی دریافت کئے جانے پر اپنے جواب میں فرمایا کہ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچنے والے ضرر اور نقصان کے پیش نظر اسرائیل سے اشیاء کی درآمد اور خرید و فروخت نا جائز ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے نام ایک خط میں، بیس سالہ منصوبے کے تحت پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام کی بنیادی پالیسیوں کی نشاندہی فرمائی۔ ثقافتی، سائنسی، سماجی، معاشی، سیاسی، دفاعی اور سلامتی کے شعبوں سے متعلق ترقیاتی پروگرام کی بنیادی پالیسیاں پنتالیس نکات پر مشتمل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے نام ایک خط میں، بیس سالہ منصوبے کے تحت پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام کی بنیادی پالیسیوں کی نشاندہی فرمائی۔ثقافتی، سائنسی، سماجی، معاشی، سیاسی، دفاعی اور سلامتی کے شعبوں سے متعلق ترقیاتی پروگرام کی بنیادی پالیسیاں پنتالیس نکات پر مشتمل ہیں۔صدر مملکت کو ارسال کئے جانے والے اس خط کے نسخے پارلیمنٹ کے سربراہ، عدلیہ کے سربراہ اور تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ کو بھی ارسال کئے گئےـ خط کا متن مندرجہ ذیل ہے:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس دی 1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978 کے واقعے کی سالگرہ کے موقع پر مقدس شہر قم سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح تہران میں شہر قم کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں صیہونیوں کے ہاتھوں غزہ کے مظلوم عوام منجملہ عورتوں اور بچوں کے قتل عام کو بھیانک المیہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان شرمناک جرائم سے امریکہ اور اسرائیل کا حقیقی مقصد مزاحمت اور استقامت کو کچل کر مشرق وسطی کے انتہائی حساس علاقے پر قبضہ کرنا ہے لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم، فلسطینی مجاہدین کی شجاعانہ پائيداری اور عزم محکم اور قوموں کی بیداری اور میدان عمل میں ہر آن موجودگی کے باعث ان واقعات کا نتیجہ باطل پر حق کی فتح کی شکل میں نکلے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی سے ملاقات میں فرمایا کہ ملک میں عراقی حکومت کی جانب سے تمام مسلکوں کے پیروکاروں سے تعلقات میں توسیع، عوامی طاقت پر بھرپور اعتماد، ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں فروع عراق کی قوت و ثبات کے حقیقی عوامل ہیں لہذا عراقی حکومت کو چاہئے کہ اپنے اہداف کے حصول میں انہی عناصر پر تکیہ کرے اور عوام کے دینی جذبات اور حمیت و غیرت کو اپنے لئے عظیم سرمایہ تصور کرے۔ آپ نے عراقی حکومت اور وزیر اعظم پر اسلامی جمہوریہ ایران کے اعتماد اور اس ملک کے عوام کے ساتھ ایران کے گہرے تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا ہدف عراق کی پیشرفت و ترقی، امن و امان، عزت و وقار اور آزادی و خود مختاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج ادارہ حج کے عہدہ داروں سے خطاب میں فرمایا کہ انتظامات ایسے ہوں کہ حج کا جو حق ہے وہ ہر سال پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے ادا ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے ادارہ حج کی خدمات کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ حج ایک موثر اور گویا پیغام ہے اس سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جرائم پیشہ صیہونیوں کےہاتھوں غزہ کے مظلوم عوام کے قتل عام کے بھیانک اور دردناک سانحے پر اپنے پیغام میں صیہونیوں کے ساتھ جارج بش کی مجرم حکومت کی شرمناک سازباز کی مذمت کرتے ہوئے عالمی اداروں اور بعض عرب حکومتوں کے سکوت اور بے حسی کو ان جرائم میں ممد و معاون قرار دیا۔ آپ نے پیر کے دن عام سوگ کا اعلان کرتے ہوئے تمام فلسطینی مجاہدین، مسلم اور حریت پسند اقوام، علما و دانشوروں اور عالم اسلام کے ذرائع ابلاغ کو خونخوار صیہونزم کے جرائم کے سد باب کے سلسلے میں سنگين ذمہ داری اور فریضے کی ادائیگی کی دعوت دی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح مختلف شعبہ ہای زندگی سے وابستہ افراد کے اجتماع سے خطاب میں اسلام میں حکومت کے نظرئے اور اسلامی حکومت کے نمونے کی نشاندہی کو عید غدیر کا سب سے اہم پیغام اور درس قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ شیعہ، واقعہ غدیر کے سلسلے میں اپنے مدلل اور درخشاں عقیدے کے تحفظ کے ساتھ ہی اس بات کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ یہ عقیدہ عالم اسلام میں اختلافات کا باعث نہ بنےـ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ستائيس آذر تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق سترہ دسمبر دو ہزار آٹھ عیسوی کو عید سعید غدیر کی مناسبت سے مختلف شعبہ ہای زندگی سے وابستہ افراد کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے واقعہ غدیر کے رموز اور اس میں پوشیدہ درس کی جانب اشارہ کیا۔