قائد انقلاب اسلامي نے درخت اور پودوں کو سبھي ملکوں اور انسانيت کے لئے برکت و خوشحالي کا باعث قرار ديا ہے قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے منگل کو شجرکاري اور قدرتي ذرائع کے ہفتہ کي مناسبت سے دو پودے لگانے کے بعد ایک انٹرویو ميں فرمايا کہ درخت اور پودے سبھي ملکوں اور پوري انسانيت کے لئے خوشحالي اور خير و برکت کا باعث ہيں اور دين مبين اسلام ميں شجرکاري درختوں اور پودوں کي حفاظت اور ان کو نہ کاٹنے کي بيحد تاکيد کي گئي ہے۔
پیشرفت و ترقی کے اسلامی ایرانی نمونے کا خاکہ تیار کرنے والے مرکز کی سپریم کونسل کے ارکان اور متعلقہ فکری مراکز کے عہدیداروں نے پیر کی صبح قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مرکز کے مختلف موضوعات کے اساتید، مفکرین اور دانشور شامل تھے۔ اس ملاقات میں اسلامی ایرانی ترقی کے نمونے کے خد و خال طے کرنے والی علمی و نظریاتی بحثوں کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے بروز بدھ سہ پہر کو انجام پانے والی اس ملاقات میں مسلمانوں ميں اختلافات اور فرقہ واريت کے پھيلاو کو بين الاقوامي سامراج اور عالمي صيہونيزم کا سوچا سمجھا منصوبہ قرار ديا ہے- قائد انقلاب اسلامی نے ایران اور پاکستان کے برادرانہ و دوستانہ روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، سیاسی، سماجی، تعمیراتی اور سکیورٹی تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر سنجیدہ اور ٹھوس اعتقاد ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہر ملک منجملہ پاکستان کے لئے انرجی کے قابل اعتماد اور پائیدار سرچشمے کو سب سے زیادہ ترجیحی مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس علاقہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس انرجی کا قابل اعتماد ذخیرہ ہے اور ہم پاکستان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مشکل کو حل کرنے کے سلسلے میں پاکستانی حکومت کی صلاحیتوں کو اطمینان بخش قرار دیا اور فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی حکومت قومی و مذہبی اتحاد کے سائے میں پاکستان کی ترقی و پیشرفت کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوگی۔ پاکستان کے صدر نے کہا کہ علاقائی اور عالمی کھلاڑیوں کی ایران اور پاکستان کے باہمی روابط کو فروغ دینے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے کیونکہ قوموں نے دشمن کے خلاف قیام کرنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے امريکي رہنماؤں کے قول و فعل ميں واضح تضاد اور ان کے غير منطقي طرز عمل پر سخت تنقيد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ايراني قوم ايٹمي اسلحہ بناناچاہتي تو امريکي ہر گز اس کو روک نہيں سکتے تھے-
قائد انقلاب اسلامی نے ممتاز عالم دین آیت اللہ خوش وقت کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آیت اللہ الحاج شیخ عزیزاللہ خوش وقت کے انتقال پرملال پر ان کے اہل خانہ، اعزہ اور ان کے عقیدت مندوں کو تعزیت پیش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے اسلامی انقلاب، مقدس دفاع، فلسطین اور اسلامی بیداری کو فلم سازی کے اہم موضوعات سے تعبیر کیا۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے امريکي رہنماؤں کے قول و فعل ميں واضح تضاد اور ان کے غير منطقي طرز عمل پر سخت تنقيد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ايراني قوم ايٹمي اسلحہ بنانا چاہتي تو امريکي ہر گز اس کو روک نہيں سکتے تھے-
قائد انقلاب اسلامی نے قم کی بین الاقوامی دینی درس گاہ کے اساتذہ کے فاؤنڈیشن کے آٹھویں اجلاس کے لئے اپنے پیغام میں اس ادارے کی پچاس سالہ مخلصانہ خدمات کی قدردانی کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتوار 22 بہمن مطابق دس فروری کو جشن انقلاب میں عوام کی پرشکوہ شرکت کی قدردانی کی اور فرمایا کہ عین اس وقت جب ملت ایران کے وقار اور خود مختاری کے دشمن اس آس میں تھے کہ عوام انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی آواز پر لبیک کہنے سے گریز کریں گے، پوری قوم نے صدائے لبیک بلند کرکے دشمن کو مایوس کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتوار 22 بہمن مطابق دس فروری کو جشن انقلاب میں عوام کی پرشکوہ شرکت کی قدردانی کی اور فرمایا کہ عین اس وقت جب ملت ایران کے وقار اور خود مختاری کے دشمن اس آس میں تھے کہ عوام انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی آواز پر لبیک کہنے سے گریز کریں گے، پوری قوم نے صدائے لبیک بلند کرکے دشمن کو مایوس کر دیا۔
اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کے ایام سے وابستہ یادیں؛
ان دنوں ہماری یہ حالت تھی کہ ہم مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ اس زمانے میں ہم تو تمام سرگرمیوں میں شریک تھے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہم انقلابی کونسل کے بھی رکن تھے لہذا دائمی طور پر ہر معاملے میں موجود رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم سب پر حیرانی کی کیفیت طاری تھی۔ میں ایک بات عرض کروں، اس پر شاید آپ کو بڑی حیرت ہوگی۔ 22 بہمن (مطابق گیارہ فروری) کا دن گزر جانے کے ایک عرصے بعد تک بارہا میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اگر خواب دیکھ رہا ہوں تو کسی صورت سے بیدار ہو جاؤں۔ یعنی اگر میں نیند میں یہ سنہری خواب دیکھ رہا ہوں تو اس خواب کا سلسلہ رکے۔ تو یہ معاملہ ہمارے لئے اس درجہ باعث حیرت تھا۔
سجدہ در راہ؛
اس لمحہ جب ریڈیو سے پہلی دفعہ نشر ہوا "صدائے انقلاب اسلامی" یا اسی سے مشابہ کوئی فقرہ، تو اس وقت میں ایک کارخانے کا دورہ کرکے گاڑی سے امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اقامت گاہ کی جانب جا رہا تھا۔ ایک کارخانہ تھا جہاں کچھ آشوب پسند عناصر نے جمع ہوکر ہنگامہ آرائی کی تھی۔ وہ انقلاب کے اوج کا زمانہ تھا، میرے خیال میں اس وقت بختیار ملک کے اندر ہی موجود تھا۔ شاید چھے یا سات فروری تھی، ابھی مشکلات جوں کی توں باقی تھیں اور کوئی کام مکمل نہیں ہو پایا تھا، ان عناصر نے باج خواہی کی کوشش کی۔ ایک کارخانے میں جمع ہوکر اشتعال انگیزی شروع کر دی تھی۔ ہم وہاں گئے کہ گفت و شنید کے ذریعے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ واپسی میں ریڈیو سے یہ فقرہ نشر
ہوا "صدائے انقلاب اسلامی"۔ میں نے وہیں گاڑی روکی اور نیچے اتر کر زمین پر سجدے میں گر گیا۔ یعنی یہ کامیابی ہمارے لئے اس درجہ ناقابل یقین اور ناقابل تصور تھی۔ اس وقت کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر تغیرات کا گویا ایک سمندر سموئے ہوئے تھا۔ میں اگر انقلاب کی فتح کے قبل و بعد کے بیس دنوں کی تمام یادیں بیان کرنا چاہوں تو ہرگز بیان نہیں کر پاؤں گا، ان چند دنوں کے دوران ہمارے ذہن اور ہماری زندگی میں جو کچھ گزر رہا تھا وہ قابل بیان نہیں ہے۔
امام خمینی کی آمد!
امام خمینی کی آمد والے دن، آپ کی آمد کے دن ہم یونیورسٹی سے جہاں ہم نے دھرنا دیا تھا، گاڑی میں جا رہے تھے آپ سے ملنے۔ یہ پورا ماجرا میں نے ایک دفعہ خود امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے بھی بیان کیا۔ سب مسرت میں ڈوبے ہوئے تھے، شادماں تھے۔ مجھے یہ تشویش
تھی کہ امام خمینی کے لئے کوئی ناگوار واقعہ نہ ہو جائے، اسی خیال سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل رہے تھے، معلوم نہیں تھا کہ امام خمینی کے ساتھ کیا واقعہ ہو سکتا ہے! کیونکہ کچھ خطرات تو تھے ہی۔ ہم ایئرپورٹ پہنچے اور پھر ان تمام مراحل کے بعد امام خمینی نے سرزمین وطن پر قدم رکھے۔ امام خمینی کے چہرے پر سکون و طمانیت دیکھ کر ساری تشویش اور سارا اضطراب ختم ہو گیا۔ امام خمینی نے اپنے اس پرسکون چہرے سے میری اور مجھ جیسے بہتوں کی ہر تشویش اور اندیشے کو دور کر دیا۔ برسوں کی طویل مدت کے بعد امام کو دیکھا تو اب تک کی ساری سختیاں اور جدوجہد کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ آپ کو دیکھ ایسا محسوس ہو رہا
تھا کہ ساری آرزوئیں اور ساری تمنائیں آپ کی صورت میں مجسم ہو گئی ہیں اور تمام آرزوئیں مقتدرانہ انداز میں پوری ہوئی ہیں۔ جب ہم ایئرپورٹ سے شہر کے اندر پہنچے اور اس درمیان جو کچھ ہوا اس کے آپ سب گواہ ہیں، بحمد اللہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں وہ سارے مناظر نقش ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ امام خمینی شام کے وقت بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) سے ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہو گئے۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ نام بھی ذکر کر دوں کہ برادر عزیز جناب ناطق نوری صاحب امام خمینی کو اغوا کرکے ایک محفوظ مقام پر لے گئے، کیونکہ عقیدتمندوں اور عشاق کا ایک بیکراں سمندر تھا جو امام خمینی کے ارد گرد متلاطم تھا۔ امام خمینی گزشتہ شب پیرس سے روانہ ہوئے تھے اور اس کے بعد پورے دن آپ نے بالکل آرام نہیں فرمایا تھا۔ لہذا ضرورت تھی کہ امام خمینی کو کچھ استراحت کا موقع ملے۔
امام خمینی مدرسہ رفاہ میں؛
ہم لوگ مدرسہ رفاہ گئے تھے جہاں ہمارے کام انجام پاتے تھے۔ امام خمینی کی تشریف آوری سے قبل ہم سب وہاں اپنے برادران گرامی کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور امام خمینی کے قیام اور آپ کی آمد کے بعد کے ضروری انتظامات کے بارے میں ہماری کچھ گفتگو بھی ہوئی تھی اور ایک پروگرام ترتیب دیا جا چکا تھا۔
ہم ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں کچھ خبریں وغیرہ شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ اسی مدرسہ رفاہ سے نکلا کرتا تھا۔ اس کے کچھ شمارے شائع ہوئے۔ البتہ ہڑتال کے زمانے میں ہم نے وہاں سے بھی ایک رسالہ نکالا اور اس کے بھی دو
تین شمارے شائع ہوئے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہم سب وہاں جمع تھے اور انتظار کا ایک ایک لمحہ گزار رہے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ امام خمینی کسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جہاں آپ تھوڑا آرام کریں گے۔ غالبا آپ نے ظہرین کی نماز نہیں پڑھی تھی اور غروب کا وقت ہونے والا تھا۔ لہذا آپ نماز وغیرہ سے فارغ ہونا چاہتے تھے۔ اندھیرا ہو گیا اور رات گزرنے لگی، میں آنے والے دن کے لئے رسالے کی خبریں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔ رات کے تقریبا دس بجے ہوں گے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ مدرسہ رفاہ کے داخلی صحن میں کہ جس کا ایک دروازہ بغل والی گلی میں کھلتا تھا، کچھ لوگوں کے بات چیت کرنے کی آواز آ رہی ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہے۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو میری نظر امام خمینی پر پڑی۔ آپ اکیلے دروازے سے اندر داخل ہوئے، آپ کے ہمراہ کوئی بھی نہیں تھا۔ محافظین، یعنی ہمارے یہی برادران عزیز جو اس وقت محافظت کے کام پر مامور تھے، انہوں نے امام خمینی کو اچانک اپنے سامنے پایا تو سب بوکھلا گئے، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا
تھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ سب نے امام خمینی کا حلقہ کر لیا۔ امام خمینی نے دن بھر کی تھکن کے باوجود سب سے، بڑی خوشروئی اور خندہ پیشانی سے گفتگو کی۔ سب آپ کے ہاتھوں کے بوسے لے رہے تھے۔ کل دس پندرہ لوگ رہے ہوں گے۔ اسی عالم میں صحن سے گزر کر سب زینے کے قریب پہنچے جو پہلی منزل پر جاتا تھا۔ یہ زینے اسی کمرے کے پہلو میں تھے جس میں میں موجود تھا۔ میں کمرے سے نکل کر ہال میں آ گیا کہ امام خمینی کو قریب سے دیکھ سکوں۔ امام خمینی ہال میں داخل ہوئے، وہاں کچھ بچے بھی تھے سب امام خمینی کی طرف دوڑے انہیں گھیر لیا اور ہاتھوں کے بوسے لینے لگے۔
میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ امام خمینی کے ہاتھ چوموں لیکن میں نے سوچا آپ تھکے ہوئے ہیں، اس تھکن میں مجھے اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لئے لاکھ دل چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنے جذبات کو دبایا اور کنارے کھڑا ہو گیا۔ امام خمینی دو میٹر کے فاصلے سے میرے سامنے سے گزرے۔
میں قریب نہیں گیا، کیونکہ آپ کے ارد گرد لوگ جمع تھے اور میں اس ازدہام میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہی خیال ایئرپورٹ پر بھی میرے ذہن میں تھا۔ ایئرپورٹ پر سب امام خمینی کی طرف جھپٹ جھپٹ کر آگے بڑھ رہے تھے، دل تو میرا بھی چاہ رہا تھا کہ دوڑ پڑوں لیکن میں نے اپنے آپ کو روکا، میں نے کچھ اور لوگوں کو بھی یہی بات سمجھائی۔
امام خمینی اندر آئے اور زینوں سے اوپر تشریف لے گئے، اسی اثنا میں زینے کے نیچے چالیس پچاس لوگ جمع ہو گئے تھے۔ امام خمینی زینے طے کر چکے تھے، اچانک آپ پلٹے اور زینے پر جمع لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، ان افراد میں سے کسی صاحب نے خیر مقدم کے چند جملے کہے۔ اس کے بعد امام خمینی نے مختصر گفتگو کی اور اوپر تشریف لے گئے اس کمرے میں جو آپ کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک ایک لمحہ بڑے یادگار انداز میں گزرا۔
عشرہ فجر کی مناسبت سے ہفتہ وار میگزین کے لئے دئے گئے انٹرویو کے اقتباسات؛ 24/10/1362ہجری شمسی مطابق 14/1/1984 عیسوی
اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کے ایام سے وابستہ یادیں؛ ان دنوں ہماری یہ حالت تھی کہ ہم مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ اس زمانے میں ہم تو تمام سرگرمیوں میں شریک تھے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہم انقلابی کونسل کے بھی رکن تھے لہذا دائمی طور پر ہر معاملے میں موجود رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم سب پر حیرانی کی کیفیت طاری تھی۔ میں ایک بات عرض کروں، اس پر شاید آپ کو بڑی حیرت ہوگی۔ 22 بہمن (مطابق گیارہ فروری) کا دن گزر جانے کے ایک عرصے بعد تک بارہا میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اگر خواب دیکھ رہا ہوں تو کسی صورت سے بیدار ہو جاؤں۔ یعنی اگر میں نیند میں یہ سنہری خواب دیکھ رہا ہوں تو اس خواب کا سلسلہ رکے۔ تو یہ معاملہ ہمارے لئے اس درجہ باعث حیرت تھا۔ سجدہ در راہ؛ اس لمحہ جب ریڈیو سے پہلی دفعہ نشر ہوا صدائے انقلاب اسلامی یا اسی سے مشابہ کوئی فقرہ، تو اس وقت میں ایک کارخانے کا دورہ کرکے گاڑی سے امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اقامت گاہ کی جانب جا رہا تھا۔ ایک کارخانہ تھا جہاں کچھ آشوب پسند عناصر نے جمع ہوکر ہنگامہ آرائی کی تھی۔ وہ انقلاب کے اوج کا زمانہ تھا، میرے خیال میں اس وقت بختیار ملک کے اندر ہی موجود تھا۔ شاید چھے یا سات فروری تھی، ابھی مشکلات جوں کی توں باقی تھیں اور کوئی کام مکمل نہیں ہو پایا تھا، ان عناصر نے باج خواہی کی کوشش کی۔ ایک کارخانے میں جمع ہوکر اشتعال انگیزی شروع کر دی تھی۔ ہم وہاں گئے کہ گفت و شنید کے ذریعے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ واپسی میں ریڈیو سے یہ فقرہ نشر ہوا صدائے انقلاب اسلامی۔ میں نے وہیں گاڑی روکی اور نیچے اتر کر زمین پر سجدے میں گر گیا۔ یعنی یہ کامیابی ہمارے لئے اس درجہ ناقابل یقین اور ناقابل تصور تھی۔ اس وقت کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر تغیرات کا گویا ایک سمندر سموئے ہوئے تھا۔ میں اگر انقلاب کی فتح کے قبل و بعد کے بیس دنوں کی تمام یادیں بیان کرنا چاہوں تو ہرگز بیان نہیں کر پاؤں گا، ان چند دنوں کے دوران ہمارے ذہن اور ہماری زندگی میں جو کچھ گزر رہا تھا وہ قابل بیان نہیں ہے۔ امام خمینی کی آمد! امام خمینی کی آمد والے دن، آپ کی آمد کے دن ہم یونیورسٹی سے جہاں ہم نے دھرنا دیا تھا، گاڑی میں جا رہے تھے آپ سے ملنے۔ یہ پورا ماجرا میں نے ایک دفعہ خود امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے بھی بیان کیا۔ سب مسرت میں ڈوبے ہوئے تھے، شادماں تھے۔ مجھے یہ تشویش تھی کہ امام خمینی کے لئے کوئی ناگوار واقعہ نہ ہو جائے، اسی خیال سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل رہے تھے، معلوم نہیں تھا کہ امام خمینی کے ساتھ کیا واقعہ ہو سکتا ہے! کیونکہ کچھ خطرات تو تھے ہی۔ ہم ایئرپورٹ پہنچے اور پھر ان تمام مراحل کے بعد امام خمینی نے سرزمین وطن پر قدم رکھے۔ امام خمینی کے چہرے پر سکون و طمانیت دیکھ کر ساری تشویش اور سارا اضطراب ختم ہو گیا۔ امام خمینی نے اپنے اس پرسکون چہرے سے میری اور مجھ جیسے بہتوں کی ہر تشویش اور اندیشے کو دور کر دیا۔ برسوں کی طویل مدت کے بعد امام کو دیکھا تو اب تک کی ساری سختیاں اور جدوجہد کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ آپ کو دیکھ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ساری آرزوئیں اور ساری تمنائیں آپ کی صورت میں مجسم ہو گئی ہیں اور تمام آرزوئیں مقتدرانہ انداز میں پوری ہوئی ہیں۔ جب ہم ایئرپورٹ سے شہر کے اندر پہنچے اور اس درمیان جو کچھ ہوا اس کے آپ سب گواہ ہیں، بحمد اللہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں وہ سارے مناظر نقش ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ امام خمینی شام کے وقت بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) سے ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہو گئے۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ نام بھی ذکر کر دوں کہ برادر عزیز جناب ناطق نوری صاحب امام خمینی کو اغوا کرکے ایک محفوظ مقام پر لے گئے، کیونکہ عقیدتمندوں اور عشاق کا ایک بیکراں سمندر تھا جو امام خمینی کے ارد گرد متلاطم تھا۔ امام خمینی گزشتہ شب پیرس سے روانہ ہوئے تھے اور اس کے بعد پورے دن آپ نے بالکل آرام نہیں فرمایا تھا۔ لہذا ضرورت تھی کہ امام خمینی کو کچھ استراحت کا موقع ملے۔ امام خمینی مدرسہ رفاہ میں؛ ہم لوگ مدرسہ رفاہ گئے تھے جہاں ہمارے کام انجام پاتے تھے۔ امام خمینی کی تشریف آوری سے قبل ہم سب وہاں اپنے برادران گرامی کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور امام خمینی کے قیام اور آپ کی آمد کے بعد کے ضروری انتظامات کے بارے میں ہماری کچھ گفتگو بھی ہوئی تھی اور ایک پروگرام ترتیب دیا جا چکا تھا۔ ہم ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں کچھ خبریں وغیرہ شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ اسی مدرسہ رفاہ سے نکلا کرتا تھا۔ اس کے کچھ شمارے شائع ہوئے۔ البتہ ہڑتال کے زمانے میں ہم نے وہاں سے بھی ایک رسالہ نکالا اور اس کے بھی دو تین شمارے شائع ہوئے۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہم سب وہاں جمع تھے اور انتظار کا ایک ایک لمحہ گزار رہے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ امام خمینی کسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جہاں آپ تھوڑا آرام کریں گے۔ غالبا آپ نے ظہرین کی نماز نہیں پڑھی تھی اور غروب کا وقت ہونے والا تھا۔ لہذا آپ نماز وغیرہ سے فارغ ہونا چاہتے تھے۔ اندھیرا ہو گیا اور رات گزرنے لگی، میں آنے والے دن کے لئے رسالے کی خبریں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔ رات کے تقریبا دس بجے ہوں گے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ مدرسہ رفاہ کے داخلی صحن میں کہ جس کا ایک دروازہ بغل والی گلی میں کھلتا تھا، کچھ لوگوں کے بات چیت کرنے کی آواز آ رہی ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہے۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو میری نظر امام خمینی پر پڑی۔ آپ اکیلے دروازے سے اندر داخل ہوئے، آپ کے ہمراہ کوئی بھی نہیں تھا۔ محافظین، یعنی ہمارے یہی برادران عزیز جو اس وقت محافظت کے کام پر مامور تھے، انہوں نے امام خمینی کو اچانک اپنے سامنے پایا تو سب بوکھلا گئے، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ سب نے امام خمینی کا حلقہ کر لیا۔ امام خمینی نے دن بھر کی تھکن کے باوجود سب سے، بڑی خوشروئی اور خندہ پیشانی سے گفتگو کی۔ سب آپ کے ہاتھوں کے بوسے لے رہے تھے۔ کل دس پندرہ لوگ رہے ہوں گے۔ اسی عالم میں صحن سے گزر کر سب زینے کے قریب پہنچے جو پہلی منزل پر جاتا تھا۔ یہ زینے اسی کمرے کے پہلو میں تھے جس میں میں موجود تھا۔ میں کمرے سے نکل کر ہال میں آ گیا کہ امام خمینی کو قریب سے دیکھ سکوں۔ امام خمینی ہال میں داخل ہوئے، وہاں کچھ بچے بھی تھے سب امام خمینی کی طرف دوڑے انہیں گھیر لیا اور ہاتھوں کے بوسے لینے لگے۔ میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ امام خمینی کے ہاتھ چوموں لیکن میں نے سوچا آپ تھکے ہوئے ہیں، اس تھکن میں مجھے اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لئے لاکھ دل چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنے جذبات کو دبایا اور کنارے کھڑا ہو گیا۔ امام خمینی دو میٹر کے فاصلے سے میرے سامنے سے گزرے۔ میں قریب نہیں گیا، کیونکہ آپ کے ارد گرد لوگ جمع تھے اور میں اس ازدہام میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہی خیال ایئرپورٹ پر بھی میرے ذہن میں تھا۔ ایئرپورٹ پر سب امام خمینی کی طرف جھپٹ جھپٹ کر آگے بڑھ رہے تھے، دل تو میرا بھی چاہ رہا تھا کہ دوڑ پڑوں لیکن میں نے اپنے آپ کو روکا، میں نے کچھ اور لوگوں کو بھی یہی بات سمجھائی۔ امام خمینی اندر آئے اور زینوں سے اوپر تشریف لے گئے، اسی اثنا میں زینے کے نیچے چالیس پچاس لوگ جمع ہو گئے تھے۔ امام خمینی زینے طے کر چکے تھے، اچانک آپ پلٹے اور زینے پر جمع لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، ان افراد میں سے کسی صاحب نے خیر مقدم کے چند جملے کہے۔ اس کے بعد امام خمینی نے مختصر گفتگو کی اور اوپر تشریف لے گئے اس کمرے میں جو آپ کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک ایک لمحہ بڑے یادگار انداز میں گزرا۔ عشرہ فجر کی مناسبت سے ہفتہ وار میگزین کے لئے دئے گئے انٹرویو کے اقتباسات؛ 24/10/1362ہجری شمسی مطابق 14/1/1984 عیسوی
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی جانب سے چونتیس سال سے جاری گوناگوں سختیوں اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکام کے مذاکرات پر آمادگی کے بیانات کو ان کی بدنیتی کی علامت قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی جانب سے چونتیس سال سے جاری گوناگوں سختیوں اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکام کے مذاکرات پر آمادگی کے بیانات کو ان کی بدنیتی کی علامت قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہ ربیع الاول کو پیغمبر اسلامۖ اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت کی وجہ سے بہار زندگی قرار دیا اور فرمایا کہ اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کا جشن، صرف خوشیاں منانے تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیائے اسلام کو چاہئے کہ نبی اکرمۖ سے اپنے قلبی و روحانی رشتے و رابطے کو روز بروز زیادہ مستحکم بنائے۔
اسلامي جمہوريہ ايران کے اعلي حکام تہران ميں متعين اسلامي ملکوں کے سفيروں اور وحدت اسلامي عالمي کانفرنس ميں شريک مہمانوں نے منگل 10 بہمن 1391 ہجری شمسی مطابق 29 جنوری سنہ 2013 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامي سے ملاقات کي۔ اس ملاقات ميں قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے اپنے خطاب ميں پيغمبر اسلام صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کے يوم ولادت باسعادت کي مبارکباد پيش کرتے ہوئے اسلامي دنيا بالخصوص شمالي افريقا کي اسلامي بيداري کو وعدہ الہي کے ایک حصے کي تکميل سے تعبير کيا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صابروں، اللہ پر توکل کرنے والوں اور دین الہی کی نصرت کرنے والوں کی مدد و اعانت کے وعدہ خداوندی کے یقینی ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے وعدے کے ایفاء کا ایک عینی مصداق اسلامی جمہوری نظام ہے جو دشمن کی تمام تر سازشوں اور دباؤ کے باوجود آج 34 سال بعد بھی ایک پروقار، مقتدر، علاقائی و عالمی امور میں موثر نظام اور عظیم، ذی فہم، دشمن شناس، موقع شناس، وقت شناس اور عظیم علمی ترقیوں سے مالامال قوم کا مالک نظام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کی نظر میں امریکا کی تسلط پسندانہ کارروائیوں کے خلاف ملت ایران کی جد و جہد کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ یہ مقابلہ 19 اگست سنہ 1953 سے شروع ہوا اور اسی سال 7 دسمبر کو طلبہ کے امریکا مخالف مظاہروں کی سرکوبی سے اس میں مزید شدت پیدا ہوئی۔ مندرجہ ذیل متن امریکی حکومت کے خلاف ملت ایران کی جدو جہد کے سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ اور موقف کا خلاصہ ہے۔ جسے ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے سوال و جواب کی شکل میں شائع کیا ہے۔
طلاب عزیز، آپ نوجوان حضرات ملک کے مستقبل کے ذمہ دار ہیں۔ کل کے ایران کا نظم و نسق علمی و عملی ذخیروں کی عظیم ثروت کے ذریعے عظیم اور با صلاحیت عہدیداروں کے ہاتھوں سے چلایا جانا چاہئے اور آپ جیسے افراد کی ہمت و بصیرت اور شجاعت و ایمان کے ذریعے طے شدہ منزلوں کی جانب برق رفتاری سے بڑے قدم اٹھائے جانے چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے قم سے ملاقات کے لئے آنے والے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب ميں فرمايا کہ ايراني قوم کی بصیرت اور اس کا شعور دشمن کے مکر و فریب کی رسائی سے بالاتر ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے منگل کو قم سے ملاقات کے لئے آنے والے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب ميں فرمايا کہ ايراني قوم کی بصیرت اور اس کا شعور دشمن کے مکر و فریب کی رسائی سے بالاتر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آیت اللہ مجتبی تہرانی کی وفات پر تعزیتی پیغام میں جلیل القدر عالم دین کی رحلت کو دینی علوم کے مرکز اور علمائے کرام کے لئے بہت بڑا خسارہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سیاست، معیشت، ثقافت، تعلیم و تربیت اور صحت و سلامتی جیسے تمام شعبوں میں عوام الناس کے کردار کو فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب بھی عوامی شراکت پر منحصر تھا چنانچہ اگر عوام الناس میدان عمل میں آکر اپنا کردار ادا نہ کرتے تو سیاسی رہنما اور سیاسی حلقے کچھ بھی نہ کر پاتے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا ہے کہ دشمن اسلامي بيداري سے خوفزدہ ہے اور اس کي کوشش ہے کہ يہ اصطلاح بروئے کار نہ لائی جائے۔ تہران ميں منعقدہ اساتذہ اور اسلامي بيداري کے زير عنوان عالمي کانفرنس کے شرکا نے منگل کو قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي سے ملاقات کي۔ قائد انقلاب اسلامي نے کانفرنس کے مہمانوں اور شرکا سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ اسلامي بيداري اور امت اسلاميہ ميں اس کا اثر و رسوخ آج کي دنيا کی ایک عظیم حقیقت ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا ہے کہ دشمن اسلامي بيداري سے خوفزدہ ہے اور اس کي کوشش ہے کہ يہ اصطلاح بروئے کار نہ لائی جائے۔ تہران ميں منعقدہ اساتذہ اور اسلامي بيداري کے زير عنوان عالمي کانفرنس کے شرکا نے منگل کو قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي سے ملاقات کي۔ قائد انقلاب اسلامي نے کانفرنس کے مہمانوں اور شرکا سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ اسلامي بيداري اور امت اسلاميہ ميں اس کا اثر و رسوخ آج کي دنيا کی ایک عظیم حقیقت ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا ہے کہ دشمن اسلامي بيداري سے خوفزدہ ہے اور اس کي کوشش ہے کہ يہ اصطلاح بروئے کار نہ لائی جائے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل 26 نومبر کو اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے کمانڈر اور عہدیداروں سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی اہداف اور اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد حاصل ہونے والی نمایاں کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ علاقے اور دنیا کے حالات پر گہری نظر ڈالنے سے ان تغیرات میں اسلامی جمہوریہ کی برتری اور بالادستی صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے غزہ کے عوام پر صيہوني حکومت کے وحشيانہ حملوں کو صيہوني حکام کي انتہائي درندگي کي علامت قرار ديا اور غزہ کے عوام کا قتل عام کرنے ميں اسرائيلي حکومت کي حمايت ميں امريکا برطانيہ اور فرانس کي نفرت انگيز اور انتہائي شرمناک حرکتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا کہ اسلامي ممالک خاص طور پر عرب حکومتيں اس مسئلے ميں اپني پاليسيوں ميں اصلاح کرکے غزہ کے مظلوم عوام کي جو درحقيقت شجاع و سربلند ہيں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ کا محاصرہ توڑنے کي کوشش کريں -
شام کے مسئلے کي حقيقت يہ ہے کہ سامراجي محاذ چاہتا ہے کہ علاقے ميں غاصب صہيوني حکومت کے پڑوس ميں پائي جا رہي مزاحمتي تحریک کي کڑيوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کی سامراجی حکومت کے خلاف ملت ایران کے ساٹھ سالہ عظیم جہاد میں امریکا کی سلسلہ وار شکستوں اور اس کے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور فکری تنزل جبکہ اس کے برخلاف اسلامی نظام کی حیرت انگیز مادی و روحانی پیشرفت پر رشنی ڈالی او فرمایا کہ استقامت و بصیرت، اللہ کی ذات پر توکل، سعی پیہم اور حکام کی یکجہتی و یگانگت اس جہاد کے عظیم دروس ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کی سامراجی حکومت کے خلاف ملت ایران کے ساٹھ سالہ عظیم جہاد میں امریکا کی سلسلہ وار شکستوں اور اس کے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور فکری تنزل جبکہ اس کے برخلاف اسلامی نظام کی حیرت انگیز مادی و روحانی پیشرفت پر رشنی ڈالی او فرمایا کہ استقامت و بصیرت، اللہ کی ذات پر توکل، سعی پیہم اور حکام کی یکجہتی و یگانگت اس جہاد کے عظیم دروس ہیں۔ آ
رحمتوں اور برکتوں سے معمور موسم حج آن پہنچا اور اس نے ان خوش قسمت لوگوں کو جنہیں اس نورانی منزل کی باریابی کا شرف حاصل ہوا ہے، فیض الہی سے روبرو کر دیا ہے۔
رحمتوں اور برکتوں سے معمور موسم حج آن پہنچا اور اس نے ان خوش قسمت لوگوں کو جنہیں اس نورانی منزل کی باریابی کا شرف حاصل ہوا ہے، فیض الہی سے بہرہ مند کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے صوبہ شمالي خراسان ميں کابينہ کے ارکان سے خطاب ميں عوام کے مسائل پر بھر پور توجہ دينے کي ضرورت پر تاکيد فرمائي ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے منگل کو صوبہ خراسان شمالي ميں دانشوروں، مختلف سماجی طبقات اور صوبے کے حکام پر مشتمل ايک عظيم الشان اجتماع سے خطاب ميں فرمايا کہ مغربي ذرائع ابلاغ کے پروپيگنڈوں کے بر خلاف ہم نے مختلف امور منجملہ ايٹمي معاملے ميں مذاکرات کا راستہ کبھي بھي ترک نہيں کيا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ خراسان شمالی کے بسیجیوں (رضاکاروں) سے خطاب میں فرمایا کہ بسیج ملت ایران کے لئے سونے کی کنجی اور تحفہ الہی ہے اور جس طرح اس تنظیم نے اب تک گوناگوں مشکلات کو برطرف کیا ہے آئندہ بھی ملک و معاشرے کی ضرورتوں کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا ہے کہ جو قوم سياسي ثبات و استحکام کي مالک ہوتي ہے اسي کو مقابلے کے مختلف ميدانوں ميں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔