ادارہ حج و زیارات کے عہدیداران اور کارکنان نے حج سے پہلے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں حجاج کرام کے لئے انجام دئے گئے انتظامات کی تشریح کی گئی اور رہبر انقلاب اسلامی نے ادارہ حج کے عہدیداران اسی طرح حجاج کرام کو کچھ ہدایات دیں۔ یہ ملاقات 1396/05/08 ہجری شمسی مطابق 30 جولائی 2017 کو انجام پائی۔ (۱)
عید الفطر کے دن اسلامی نظام کے اعلی عہدیداران، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں اور عوامی طبقات نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ 26 جون 2017 کی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں عالم اسلام کے مسائل کا ذکر کیا اور مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ (۱)
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نماز عید الفطر کے خطبوں میں تمام مسلمانوں کو عید فطر کی مبارکباد پیش کی۔ ماہ رمضان میں چھائے رہنے والے روحانی ماحول کا ذکر کیا۔ 26 جون 2017 کو رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں عالم اسلام کے مسائل کے سلسلے میں دو ٹوک انداز میں موقف بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 جون 2017 کو اساتذہ، محققین اور چنندہ علمی شخصیات سے خطاب میں یونیورسٹی کے مسائل، تعلیم و تربیت کے شعبے سے متعلق امور اور علمی پیشرفت کے تعلق سے کلیدی نکات کا جائزہ لیا۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 18 جون 2017 کو حرم اہل بیت علیہم السلام کی حفاظت کرتے ہوئے درجہ شہادت پر فائز ہونے والے مجاہدین اور ایران کی سرحدوں کی حفاظت کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے جوانوں کے اہل خانہ سے ملاقات میں شہادت کو اللہ اور بندے کے درمیان انجام پانے والا ایک تقدیر ساز سودا قرار دیا۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سترہ رمضان المبارک کو ملک کے اعلی حکام سے خطاب میں ماہ رمضان کی فضیلتوں اور اس مہینے کے بافضیلت لمحات سے کسب فیض کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ 12 جون 2017 کی اپنی اس تقریر میں رہبر انقلاب اسلامی نے داخلی و خارجہ امور پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ترجیحات کا ذکر کیا۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 10 جون 2017 کو نواسہ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے شعرا و ادبا سے خطاب میں فن شاعری کی خصوصیات اور اس کے درست استعمال کے تعلق سے اہم نکات بیان کئے۔ (1)
ملک کے یونیورسٹی طلبہ نے 7 جون 2017 کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ماہ رمضان المبارک میں حسینیہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ میں انجام پانے والی اس ملاقات میں طلبہ نے مختلف موضوعات پر اپنے نظریات بیان کئے جس کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تفصیلی گفتگو میں طلبہ کے سوالوں کے جواب دئے اور گوناگوں موضوعات پر روشنی ڈالی۔ (1)
اسلامی جمہوریہ ایران میں اتوار چودہ خرداد مطابق 4 جون 2017 کو بانی انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوری نظام کے معمار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ اس مناسبت سے مرکزی پروگرام دار الحکومت تہران کے جنوب میں واقع امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر منعقد ہوا جس میں عقیدت مندوں کے جم غفیر، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای، اسلامی نظام کے اعلی حکام اور غیر ملکی مہمانوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور ملکی و علاقائی و عالمی حالات کا جائزہ لیا۔
ماہ رمضان المبارک شروع ہوا تو حسینہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ میں محفل 'انس با قرآن' کا انعقاد ہوا جس میں ملک کے قاریان کرام نے شرکت کی۔ 27 مئی 2017 کی اس تقریب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای بھی شریک ہوئے اور آپ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد قرآن کی جانب عوام کے رجحان اور قرآنی مفاہیم کے ادراک کی کیفیت پر روشنی ڈالی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب 'مقدس دفاع کی یادوں کی رات' سے خطاب میں جنگ کے ایام کے حالات پر روشنی ڈالی۔ 24 مئی 2017 کو منعقدہ تقریب میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کچھ مقررین نے جنگ کے ایام کے اپنے تجربات بیان کئے۔
قرآن و بشریات (humanities) کے موضوع پر پہلا بین الاقوامی سیمینار ایران میں منعقد ہوا۔ سیمینار کی منتظمہ کمیٹی نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی اور آپ سے تجاویز و ہدایات کی درخواست کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 22 مئی 2017 کو ہونے والی اس ملاقات میں اس موضوع پر سیمینار کے انعقاد کی تعریف کی اور اہم تجاویز دیں۔ (۱(
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدارتی انتخابات اور شہری و دیہی کونسلوں کے انتخابات سے قبل اپنے ایک اہم خطاب میں الیکشن کے تعلق سے کلیدی نکات پر روشنی ڈالی۔ 17 مئی 2017 کے اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے انتخابات سے وابستہ حکام، امیدواروں اور رائے دہندگان کو اہم ہدایات دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب میں ماہ شعبان اور ولادت حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ذیل میں کلیدی نکات بیان کئے۔ 10 مئی 2017 کے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی کی خدمات کی قدردانی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہفتہ استاد کی مناسبت سے اساتذہ اور علمی شخصیات سے اپنی ملاقات میں کلیدی مسائل پر گفتگو کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے آئندہ نسل کی تربیت میں استاد کے کردار اور ذمہ داری کی کلیدی حیثیت اور اس کے ثمرات و نتائج پر روشنی ڈالی۔ یہ ملاقات 7 مئی 2017 کو انجام پائی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یوم محنت کشاں کی مناسبت سے اپنے خطاب میں محنت کش طبقے کی اہمیت اور اسلام کے نقطہ نگاہ سے اس طبقے کی فضیلت بیان کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 30 اپریل 2017 کے اپنے خطاب میں ملک کے محنت کش طبقے کے مسائل بھی بیان کئے اور انھیں حل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 30 اپریل 2017 کو فقہ کے درس خارج کے آغاز میں شکر نعمت اور کفران نعمت کے موضوع پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول حدیث کی تشریح کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید بعثت پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے ملک کے اعلی عہدیداروں، تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں اور عوامی طبقات سے خطاب میں مقصد بعثت پیغمبر پر روشنی ڈالی۔ 25 اپریل 2017 کے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے معروضی حالات و مسائل کا ذکر کیا اور راہ حل کی نشاندہی کی۔ (1)
یوم مسلح افواج کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فوجی کمانڈروں اور اہلکاروں سے خطاب کیا۔ مورخہ 19 اپریل 2017 کے اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال کی مبارکباد پیش کی اور یوم مسلح افواج کے تعین کے امام خمینی کے دور اندیشانہ فیصلے کی قدردانی کی۔ (1)
نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حسب معمول مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اہم ترین قومی مسائل، سیاسی، سماجی، ثقافتی و اقتصادی امور پر روشنی ڈالی۔ یہ تقریر 1 فروردین 1396 مطابق 21 مارچ 2017 کو ہوئی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مداحان اہل بیت سے خطاب میں بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کی اور ساتھ ہی مداحوں کی اہمیت اور ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔ ایران میں مداح ان افراد کو کہا جاتا ہے جو اپنی خوش الحانی کی مدد سے فضائل اہلبیت منظوم شکل میں پیش کرتے ہیں۔ (۱)
بسم الله الرّحمن الرّحیم
خدا کا شکر کہ اس سال بھی یہ توفیق ملی کہ ملت ایران کی جانب سے وسیع پیمانے پر کی جانے والی شجرکاری میں شرکت کروں۔ میں تقریبا ہر سال صنوبر، سرو (سائیپرس) یا چنار کے درخت لگاتا تھا۔ چنار کا درخت بہت اہم، لازم اور مفید ہے۔ لیکن جو عوامی تجاویز میرے پاس روزانہ آتی ہیں ان میں کسی صاحب نے لکھا تھا کہ آپ پھل دار درخت کیوں نہیں لگاتے؟ لہذا اس سال ہم نے پھل دار درخت لگایا ہے۔ ایک سیب کا درخت ہے اور ایک چیری کا درخت ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اس پر پھل لگیں، بار آور ہو اور اس کے پھل کھائے جائیں!
درخت اور سبزہ، قدرتی مناظر کی حفاظت وطن عزیز کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ موسم اور بعض شہروں میں آلودگی، نیز آکسیجن کی کمی جیسے مسائل اور دیگر مشکلات درختوں اور سبزے کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ سبزہ اور نباتات سے ملک کو بڑی مدد مل سکتی ہے۔ پھلدار درخت میں مزید ایک حسن یہ بھی ہے کہ وہ لذیذ پھل جو ایران سے مخصوص ہیں، عوام کو ملتے ہیں۔ ہمارے یہاں پھلوں میں تنوع بہت زیادہ ہے، ہمارے یہاں پیدا ہونے والے الگ الگ اقسام کے پھل، دیگر ملکوں میں پیدا ہونے والے پھلوں سے مختلف ہیں۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے؛ ہمارے یہاں پیدا ہونے والے پھل زیادہ شیریں، زیادہ رسیلے اور زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہیں۔ ویسے افسوس کی بات ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ملک میں پھل دیگر ملکوں سے امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ غلط کام ہے۔ حد درجہ ضرورت والے مواقع کے علاوہ دیگر ملکوں سے پھل امپورٹ کرنے کا سلسلہ عہدیداران کو چاہئے کہ فورا بند کروائیں۔
بہرحال ہریالی، درخت، چراگاہوں، جنگلات اور نباتات کا موضوع ہمارے ملک کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ معاملہ بعض دیگر ملکوں کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ریگزار ہیں، پانی کی کمی ہے، ساتھ ہی آب و ہوا کا تنوع اتنا زیادہ ہے کہ ہمیں ہریالی کی حفاظت کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ جنگلات کے امور جن عہدیداران کے ذمے ہیں، یا چراگاہیں کی نگہداشت جن عہدیداران کے ذمے ہے یا زرعی زمینوں کی ذمہ داری جن حکام کو سونپی گئی ہے وہ اپنی اس ذمہ داری کو بہت زیادہ اہمیت دیں اور اس عظیم قومی سرمائے اور عوام الناس کو اللہ تعالی سے ملنے والے اس عطیئے کی حفاظت کے لئے کام کریں۔
شہر تہران کے اطراف میں کچھ ایسے سبزہ زار ہیں کہ جہاں انواع و اقسام کی نباتات ہیں جن میں دوائیں بنانے کے کام آنے والی نباتات بھی شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں دواؤں میں کام آنے والی نباتات کا تنوع بہت زیادہ ہے۔ بعض صوبوں میں ان نباتات کا تنوع بہت زیادہ ہے۔ اسی تہران کے علاقے میں، مشرقی تہران کے دروں میں انھیں پہاڑوں کے دامن میں جنھیں البرز صغیر کہا جاتا ہے، ماہرین کی تحقیق اور ان کے بیان کے مطابق دواؤں میں کام آنے والی نباتات کثرت کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ بہرحال یہ سب عظیم قومی سرمایہ اور خدائی عطیہ ہے۔ اس کی قدر کرنا چاہئے، اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس کے مطابق ایران کے جنگلات اور خاص طور پر شمالی علاقہ جات کے جنگلات دنیا کے کمیاب جنگلات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں جنگلات ہیں لیکن ہمارے شمالی علاقہ جات میں جو جنگلات ہیں وہ دیگر ملکوں میں نہیں ہیں۔ تو ان جنگلات کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کچھ خود غرض تاجر قومی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان جنگلات اور چراگاہوں، اسی طرح دیگر قدرتی ذخائر کو تباہ کر رہے ہیں، ان کی نظر صرف اپنے منافع پر ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ یہ دن اور یہ شجرکاری کی یہ تقریب جو ملک کے سبزے اور نباتات کے احترام میں منعقد کی جاتی ہے ہمارے عوام کے لئے سبزے اور نیچر کی قدردانی کا ذریعہ بنے۔ سب اس کی قدر کریں اور حکام بھی اس سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کریں۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ بڑی عبرتوں اور بڑے اسباق کا ذخیرہ ہے۔ صدام کی آٹھ سالہ جارحیت کے جواب میں ملت ایران کے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے واقعات بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پاسداران انقلاب فورس اور دیگر اداروں کے تعاون سے مختلف عوامی طبقات کے لوگ ان علاقوں کے مشاہدے کے لئے جاتے ہیں جو آٹھ سالہ جنگ میں ملت ایران کی قربانیوں اور بے مثال شجاعتوں کے واقعات کا آئینہ ہیں۔ لوگ ان علاقوں کا دورہ بڑے اشتیاق اور جذبہ احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ راہیان نور کاروانوں کے ذمہ داران نے 6مارچ 2017 کو رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی جس میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بڑے اہم نکات بیان کئے۔ (۱)
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد للّه ربّ العالمین و صلوات اللّه و تحیّاته علی سیّد الانام محمّدٍ المصطفی و آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
قال الله الحكيم في كتاب المبين:
»وَلا تَهِنوا وَلا تَحزَنوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ» و قال عزّ مَن قائِلٌ:
»فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ. «
سب سے پہلے تو میں آپ تمام عزیز مہمانوں، پارلیمانی اسپیکروں، مختلف فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں، دانشوروں، عالم اسلام کی فرزانہ ہستیوں، نمایاں شخصیات اور تمام آزاد منش انسانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس اجلاس میں آپ کی شرکت کی قدردانی کرتا ہوں۔
فلسطین کا غمناک قصہ اور اس صابر، بردبار اور استقامت کی پیکر قوم کی جانکاہ مظلومیت، واقعی ہر حریت پسند، حق پرست اور انصاف پسند انسان کو آزردہ خاطر کر دیتی ہے اور دل کو درد و رنج کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔
فلسطین، اس پر غاصبانہ قبضے، دسیوں لاکھ انسانوں کی (جبری) نقل مکانی اور اس چیمپیئن قوم کی دلیرانہ استقامت کی تاریخ نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔ ہوشمندانہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کے کسی بھی حصے میں دنیا کی کوئی بھی قوم اس رنج و اندوہ اور ایسے ظالمانہ اقدامات سے روبرو نہیں ہوئی کہ علاقے سے باہر رچی جانے والی ایک سازش کے تحت ایک ملک پر مکمل طور سے قبضہ ہو جائے، پوری قوم کو اس کے گھر بار سے بے دخل کر دیا جائے اور اس کی جگہ پر دنیا میں چہار سو سے جمع کرکے ایک گروہ کو بسا دیا جائے۔ ایک حقیقی وجود کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ ایک جعلی وجود کو دے دی جائے۔ یہ تاریخ کے ناپاک اوراق میں سے ایک ورق ہے جو دیگر سیاہ ابواب کی طرح اذن پروردگار اور نصرت خداوندی سے بند ہو جائے گا۔ کیونکہ؛
«إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا و قال؛ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ»
آپ کی یہ کانفرنس دشوار ترین علاقائی اور عالمی حالات میں منعقد ہو رہی ہے۔ ہمارا علاقہ جو عالمی سازش کے خلاف فلسطینی قوم کی جدوجہد کا ہمیشہ پشت پناہ رہا ہے، ان دنوں بدامنی اور گوناگوں بحرانوں سے دوچار ہے۔ علاقے کے متعدد اسلامی ممالک میں موجودہ بحرانوں کی وجہ سے فلسطینی کاز اور قدس کی آزادی کی مقدس خواہش کی حمایت متاثر ہوئی ہے۔ ان بحرانوں کے نتیجے پر توجہ دینے سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان سے فائدہ اٹھانے والی طاقتیں کون ہیں؟ وہی جنھوں نے اس علاقے میں صیہونی حکومت کو وجود عطا کیا ہے تاکہ ایک طویل المیعاد تصادم مسلط کرکے اس علاقے کے استحکام، ثبات اور ترقی کا راستہ مسدود کر دیں۔ آج بھی موجودہ فتنوں کے پیچھے وہی کارفرما ہیں۔ ان فتنوں کے پیچھے جن کے باعث علاقے کی قوموں کی توانائیاں عبث اور بے معنی جھڑپوں میں ایک دوسرے کو بے اثر بنانے میں صرف ہو رہی ہیں اور جب ساری ریاستیں ناکام ریاستیں بن جائیں گی تو پھر صیہونی حکومت کو اپنی زیادہ سے زیادہ تقویت کا موقع مل جائے گا۔ اسی طرح ان حالات میں ہم امت مسلمہ کے خیر خواہوں، مدبروں اور دانشمندوں کی مساعی کے بھی شاہد ہیں جو پوری دلسوزی کے ساتھ ان اختلافات کو حل کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، لیکن افسوس کہ دشمن کی پیچیدہ سازشیں بعض حکومتوں کی غفلتوں کی وجہ سے قوموں پر خانہ جنگی مسلط کرنے، قوموں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں کرنے اور امت مسلمہ کے خیر خواہوں کی مساعی کی تاثیر کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں سب سے اہم چیز مسئلہ فسطین کی پوزیشن کو کمزور کرنے اور اسے ترجیحات سے خارج کر دینے کی کوشش ہے۔ مسلم ممالک میں جو آپسی اختلافات ہیں، جن میں بعض فطری اور بعض دشمن کی سازش کا نتیجہ اور بعض دیگر غفلت کی دین ہیں، ان تمام اختلافات کے باوجود مسئلہ فلسطین سب کے اتحاد کا محور ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے! اس اہم کانفرنس کا ایک ثمرہ عالم اسلام اور دنیا کے حریت پسندوں کی سب سے اہم ترجیح یعنی مسئلہ فلسطین کو زیر بحث لانا اور فلسطینی عوام اور ان کی حق بجانب اور انصاف پسندانہ جدوجہد کی حمایت کے اعلی ہدف کا حصول ہے۔ فلسطینی عوام کی سیاسی حمایت سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے جو آج کی دنیا میں خصوصی ترجیح رکھتی ہے۔ الگ الگ فکری رجحان اور مزاج کی مالک مسلم اقوام اور تمام حریت پسند ایک ہدف کے گرد مجتمع ہو سکتے ہیں اور وہ ہدف ہے فلسطین اور اس کی آزادی کی سعی و کوشش کی ضرورت۔ صیہونی حکومت کے سقوط کے آثار نمایاں ہو جانے اور اس کے حامیوں بالخصوص ریاستہائے متحدہ امریکا پر چھانے والی کمزوری کے بعد دیکھنے میں آ رہا ہے کہ رفتہ رفتہ عالمی ماحول بھی صیہونی حکومت کے معاندانہ، غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات سے مقابلے کی جانب مائل ہو رہا ہے۔ البتہ عالمی برادری اور علاقے کے ممالک اس انسانی مسئلے کے سلسلے میں اپنے فرائض پر ہنوز عمل نہیں کر سکے ہیں۔
فلسطینی عوام کی وحشیانہ سرکوبی، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، اس قوم کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں کالونیوں کی تعمیر، مقدس شہر قدس اور مسجد الاقصی، اسی طرح اس شہر میں واقع دیگر اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کی شناخت اور ماہیت تبدیل کرنے کی کوششیں، شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور دوسرے بہت سے مظالم بدستور جاری ہیں اور انھیں ریاستہائے متحدہ امریکا اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور افسوس کہ اس پر عالمی سطح پر مناسب رد عمل بھی سامنے نہیں آیا۔ ملت فلسطین کو یہ افتخار حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر احسان کیا اور اس مقدس سرزمین اور مسجد الاقصی کی حفاظت کی ذمہ داری اسے سونپی۔ اس قوم کے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اپنی ذاتی توانائيوں پر اعتماد کرتے ہوئے جدوجہد کے شعلوں کو اسی طرح قائم رکھے اور انصاف سے دیکھا جائے تو اس قوم نے اب تک یہ کام انجام بھی دیا ہے۔
تحریک انتفاضہ جو اس وقت مقبوضہ علاقوں میں تیسری دفعہ شروع ہوئی ہے، ماضی کی دونوں انتفاضہ تحریکوں سے زیادہ مظلوم ہے، لیکن درخشندگی اور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اذن پروردگار سے آپ دیکھیں گے کہ یہ تحریک انتفاضہ جدوجہد کی تاریخ میں بڑا اہم مرحلہ رقم کریگی اور غاصب حکومت کے ماتھے پر ایک اور شکست چسپاں کر دیگی۔ یہ سرطان شروع سے اب تک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ مصیبت میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کا علاج بھی مرحلہ وار ہے اور چند انتفاضہ تحریکوں اور بے وقفہ مزاحمت نے بڑے اہم مراحل کے اہداف حاصل کر لئے ہیں اور وہ اسی طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے تاکہ فلسطین کی مکمل آزآدی تک اپنے بقیہ اہداف بھی پورے کرے۔
عظیم ملت فلسطین جو عالمی صیہونزم اور اس کے غنڈہ صفت حامیوں سے مقابلے کا سنگین بوجھ اکیلے ہی اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے، صابر، بردبار ساتھ ہی مستحکم اور ثابت قدم ہے اور اس نے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو موقع دیا ہے کہ کہ وہ اپنے دعوؤں کو عملی طور پر صحیح ثابت کریں۔ جس زمانے میں 'حقیقت پسندی' کے دعوے کے نام پر اور کم ترین حقوق کو بھی ہاتھ سے نکل جانے سے بچانے کے لئے کم ترین حقوق پر رضامندی ظاہر کر دینے کی ضرورت کے دعوؤں کے ساتھ آشتی کی تجویز بڑی سنجیدگی کے ساتھ پیش کی گئی، ملت فلسطین یہاں تک کہ ان تنظیموں نے بھی جن کی نظر میں اس نظرئے کا غلط ہونا پہلے سے ہی مسلم الثبوت تھا، اسے ایک موقع دیا۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع ہی سے ساز باز کر لینے کی اس روش کو غلط قرار دیا تھا اور اس کے زیاں بار نتائج اور نقصانات گوشزد کر دئے تھے۔ ساز باز کی اس روش کو جو موقع دیا گیا اس سے ملت فلسطین کی استقامت و جدوجہد کے عمل پر تخریبی اثرات مرتب ہوئے، تاہم اس کا واحد فائدہ نام نہاد حقیقت پسندی کے تصور کے بطلان کا اثبات تھا۔ بنیادی طور پر صیہونی حکومت کی تشکیل کا طریقہ اور روش ایسی ہے کہ وہ توسیع پسندی، سرکوبی اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی سے باز نہیں آ سکتی۔ اس لئے کہ اس کا وجود اور تشخص فلسطین کے وجود اور تشخص کی بتدریج نابودی پر منحصر ہے۔ کیونکہ صیہونی حکومت کا نا جائز وجود اسی صورت میں جاری رہ سکتا ہے جب فلسطین کے وجود اور شناخت کے ویرانوں پر اس کی بنیاد رکھی جائے۔ اس لئے فلسطینی تشخص کی حفاظت اور اس فطری و برحق شناخت کی تمام نشانیوں کی پاسداری واجب، ضروری اور مقدس جہاد ہے۔ جب تک فلسطین کا نام، فلسطین کا ذکر اور اس ملت کی ہمہ جہتی استقامت کا شعلہ فروزاں دہکتا رہے گا، اس وقت تک غاصب حکومت کی بنیادوں کا مستحکم ہو پانا نا ممکن ہے۔
آشتی کی روش کی خرابی صرف یہ نہیں ہے کہ ایک ملت کے حقوق کو نظر انداز کرکے غاصب حکومت کو قانونی حیثیت دیتی ہے، البتہ یہ بھی اپنے آپ میں بہت بڑی اور ناقابل معافی غلطی ہے، بلکہ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کی موجودہ پوزیشن سے اس کی کوئی مطابقت نہیں ہے اور یہ روش صیہونیوں کی توسیع پسندانہ اور حریصانہ خصلتوں اور سرکوبی کی روش کو بھی نظرانداز کرتی ہے۔ تاہم اس ملت نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ساز باز کے طرفداروں کے دعوؤں کی نادرستگی کو ثابت کر دیا اور نتیجتا ملت فلسطین کے مسلمہ حقوق کی بازیابی کے لئے جد وجہد کی روش کی درستگی پر ملی اجماع قائم ہو گیا ہے۔
فلسطین کے عوام اپنی تین عشروں کی کارکردگی میں اب تک دو الگ الگ ماڈلوں کو آزما چکے ہیں اور اپنے حالات سے ان کی مطابقت کی سطح کو بھی سمجھ چکے ہیں۔ ساز باز کی روش کے مقابلے میں مقدس انتفاضہ کی پرافتخار اور مربوط مزاحمت کا ماڈل ہے جس نے اس ملت کو عظیم ثمرات سے بہرہ مند کیا ہے۔ بے وجہ نہیں ہے کہ ان دنوں ہم دیکھتے ہیں کہ ان مراکز کی طرف سے جن کی حقیقت سب جانتے ہیں، 'مزاحمت' پر حملہ ہوتا ہے یا 'انتفاضہ' پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ دشمن سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اسے بھی اس راستے کی درستگی اور اس کے نتیجہ بخش ہونے کا پورا علم ہے۔ لیکن بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ بعض حلقے، یہاں تک کہ بعض ممالک بھی جو بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت کے دعویدار بھی ہیں، ملت فلسطین کو صحیح راستے سے منحرف کر دینے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور مزاحمتی محاذ پر حملے کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ کئی عشرے گزر جانے کے بعد بھی مزاحمت کا راستہ اپنی آخری منزل یعنی فلسطین کی مکمل آزادی تک نہیں پہنچ سکا ہے، لہذا اس روش پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے! اس کے جواب میں کہنا چاہئے کہ یہ صحیح ہے کہ مزاحمت ہنوز اپنا آخری ہدف یعنی فلسطین کی مکمل آزادی حاصل نہیں کر سکی ہے، لیکن مزاحمت کی روش مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو آج ہم کن حالات میں ہوتے؟ مزاحمت کی سب سے بڑی کامیابی صیہونی پروجیکٹوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ مزاحمت کی روش دشمن پر ایک تھکا دینے والی جنگ مسلط کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یعنی اس روش نے پورے علاقے پر تسلط قائم کر لینے کے صیہونی حکومت کے منصوبے کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس عمل میں ہمیں بجا طور پر مزاحمتی روش اور ان جانبازوں کی قدردانی کرنا چاہئے جنھوں نے مختلف ادوار میں اور صیہونی حکومت کی تشکیل کے ابتدائی دور میں بھی مزاحمت کا راستہ اپنایا وار اپنی جانیں قربان کرکے مزاحمت کے پرچم کو بلند رکھا اور ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا۔ غاصبانہ قبضہ ہو جانے کے بعد کے ادوار میں مزاحمت کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اسی طرح سنہ 1352 ہجری شمسی مطابق 1973 عیسوی کی جنگ میں مختصر ہی سہی جو کامیابیاں ملیں ان میں مزاحمت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سنہ 1361 ہجری شمسی مطابق 1982 عیسوی سے عملی طور پر مزاحمت کی ذمہ داری فلسطین کے اندر موجود عوام کے دوش پر آن پڑی، اسی بیچ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک -حزب اللہ- کا طلوع ہوا جو فلسطینیوں کی جدوجہد میں ان کی مددگار بنی۔ اگر مزاحمت نے صیہونی حکومت کو زمیں بوس نہ کر دیا ہوتا تو آج ہم علاقے کی دیگر سرزمینوں، مصر سے لیکر اردن، عراق، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں تک اس کی جارحیت کا مشاہدہ کرتے۔ ہاں یہ بہت بڑا ثمرہ ہے، لیکن مزاحمت کا یہی واحد ثمرہ نہیں ہے، بلکہ جنوبی لبنان کی آزادی اور غزہ کی آزادی، فلسطین کو آزاد کرانے کے عمل کے دو اہم تدریجی اہداف کا حصول سمجھی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی جغرافیائی توسیع پسندی کا عمل برعکس سمت میں مڑ گیا۔ سنہ 60 ہجری شمسی مطابق 80 عیسوی کے عشرے کے اوائل سے لیکر بعد کے دور تک صیہونی حکومت نہ صرف یہ کہ نئی سرزمینوں پر قبضہ نہیں کر پائی بلکہ جنوبی لبنان سے اس کے ذلت آمیز انخلا سے صیہونی حکومت کی پسپائی کا عمل شروع ہوا اور غزہ سے اس کے انخلاء کی صورت میں پسپائی کا یہ عمل جاری رہا۔ کوئی بھی پہلی تحریک انتفاضہ میں مزاحمتی روش کے فیصلہ کن اور بنیادی کردار کا انکار نہیں کر سکتا۔ دوسری تحریک انتفاضہ میں بھی مزاحمت کا رول بنیادی اور نمایاں تھا، اس تحریک انتفاضہ میں جس نے سرانجام صیہونی حکومت کو غزہ سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ 33 روزہ جنگ لبنان اور 22 روزہ، 12 روزہ اور 51 روزہ غزہ کی جنگیں، سب مزاحمتی روش کے درخشاں صفحات ہیں جو علاقے کی تمام اقوام، عالم اسلام اور ساری دنیا کے حریت پسند انسانوں کے لئے باعث افتخار ہیں۔
33 روزہ جنگ میں ملت لبنان اور حزب اللہ کے شجاع مجاہدین کو کمک کی ترسیل کے تمام راستے عملی طور پر بند ہو گئے تھے، لیکن اللہ کی مدد سے اور لبنان کے مجاہد عوام کی عظیم توانائیوں کی مدد سے صیہونی حکومت اور اس کے اصلی حامی یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ کو شرمناک شکست اٹھانی پڑی اور اب وہ آسانی سے اس علاقے پر حملے کی ہمت نہیں کر پائیں گے۔ غزہ کے علاقے کی مستقل مزاحمت جو اب مزاحمتی محاذ کا ناقابل تسخیر قلعہ بن چکا ہے، پے در پے ہونے والی جنگوں میں یہ ثابت کر چکی ہے کہ صیہونی حکومت کے پاس ایک ملت کی قوت ارادی کے سامنے ٹکنے کی تاب نہیں ہے۔ غزہ کی جنگوں کے اصلی چیمپیئن وہ شجاع و ثابت قدم عوام ہیں جو کئی سال سے اقصادی محاصرے کا سامنا کرنے کے باوجود، ایمان کی طاقت پر تکیہ کرکے بدستور اس قلعے کا دفاع کر رہے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں، جہاد اسلامی کی القدس بریگيڈ، حماس کی عز الدین قسام بریگیڈ، الفتح کی شہدائے الاقصی بریگیڈ اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کی ابو علی مصطفی بریگیڈ کی قدردانی کی جائے جنھوں نے ان جنگوں میں بڑا قیمتی رول نبھایا۔
معزز مہمانو!
صیہونی حکومت کی موجودگی سے لاحق خطرات سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے، اس لئے مزاحمتی محاذ کو اپنا عمل جاری رکھنے کے لئے تمام لازمی وسائل سے بہرہ مند ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں علاقے کی تمام اقوام اور حکومتوں اور دنیا بھر کے تمام حریت نوازوں کا فریضہ ہے کہ اس مجاہد قوم کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کریں، کیونکہ مزاحمت کی اصلی بنیاد ملت فلسطین کی استقامت و پائیداری ہے جس نے خود غیور اور مجاہد فرزندوں کی پرورش کی ہے۔ فلسطین کے عوام اور فلسطین کے مزاحمتی محاذ کی ضرورتوں کی تکمیل بہت اہم اور حیاتی فریضہ ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے۔ اس عمل میں غرب اردن کے علاقے کے مزاحمتی محاذ کی بنیادی ضرورتوں کی طرف سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے جو اس وقت مظلومانہ تحریک انتفاضہ کا اصلی بوجھ اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے۔ فلسطین کے مزاحمتی محاذ کو بھی ماضی سے عبرت لیتے ہوئے اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ 'مزاحمت اور فلسطین' کا قضیہ اس سے کہیں زیادہ با ارزش اور بالاتر ہے کہ وہ اسلامی یا عرب ممالک کے آپسی اختلافات، ملکوں کے داخلی تنازعات یا قومیتی اور مسلکی اختلافات میں خود کو الجھائے! فلسطینیوں، بالخصوص مزاحمتی تنظیموں کو چاہئے کہ اپنی اہم پوزیشن کو سمجھیں اور ان اختلافات میں نہ پڑیں! تمام اسلامی اور عرب ممالک اور تمام اسلامی و ملی تحریکوں کا فریضہ ہے کہ فلسطین کے اہداف کی خدمت میں لگ جائیں۔ مزاحمتی محاذ کی حمایت ہم سب کا فریضہ ہے اور کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ اس حمایت کے عوض ان سے کوئی مخصوص توقع وابستہ کرے۔ البتہ حمایت کی واحد شرط یہ ہے کہ یہ مدد صرف اور صرف فلسطینی عوام کی بنیادوں اور مزاحتمی محاذ کے ڈھانچے کو تقویت پہنچانے پر صرف ہو۔ دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کے نظرئے کی پابندی اور تمام پہلوؤں سے استقامت، اس مدد و حمایت کے تسلسل کی ضامن ہے۔ مزاحمتی روش کے بارے میں ہمارا موقف ایک اصولی موقف ہے، یہ کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے۔ جو تنظیم بھی اس راہ میں ثابت قدم ہو ہم اس کے ساتھ ہیں اور جو گروہ بھی اس راستے سے ہٹا وہ ہم سے دور ہو گيا۔ اسلامی مزاحمتی تنظیموں سے ہمارے روابط کی گہرائی مزاحمت کے نظرئے کے تئیں اس گروہ کے التزام کی سطح پر منحصر ہے۔ ایک اور نکتہ جس کا ذکر کرنا ضروری ہے؛ وہ مختلف فلسطینی تنظیموں کا آپسی اختلاف ہے۔ گروہوں کے درمیان فکر و مزاج کے تنوع کی وجہ سے نظریات میں فرق ایک فطری اور سمجھ میں آنے والی بات ہے، البتہ اسی وقت تک جب تک یہ اختلاف اسی محدود دائرے میں باقی رہے، بلکہ ممکن ہے کہ یہ فلسطین کے عوام کی جدوجہد کی مزید تقویت اور امداد باہمی کا راستہ ہموار کرے۔ مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب یہ اختلاف رائے تنازعے اور خدانخواستہ تصادم کا باعث بننے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں مختلف تنظیمیں ایک دوسرے کی توانائی اور قوت کو بے اثر بنا کر عملی طور پر ایسی سمت میں آگے بڑھتی ہیں جو ان سب کے مشترکہ دشمن کی مرضی کے مطابق ہے۔ اختلاف رائے اور فکر و پسند کے فرق کو کنٹرول کرنا ایسا فن ہے جس پر تمام اصلی تنظیموں کو کاربند رہنا چاہئے، وہ اپنے مزاحمتی منصوبے اس طرح سے تیار کریں کہ اس سے صرف دشمن پر دباؤ بڑھے اور مزاحمت کو تقویت پہنچے۔ جہادی اسٹریٹیجی کی بنیاد پر قومی اتحاد، فلسطین کی ملی ضرورت ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ تمام تنظیمیں فلسطین کے سارے عوام کی مرضی کے مطابق اس ہدف کے حصول کے لئے کوششیں انجام دیں گی۔
مزاحمتی محاذ کو ان دنوں ایک نئی سازش کا بھی سامنا ہے اور وہ 'دوست نما' عناصر کی سرگرمیاں ہیں جو فلسطین کے عوام کی مزاحمت اور تحریک انتفاضہ کو اس کے راستے سے منحرف کر دینے اور اسے ملت فلسطین کے دشمنوں سے اپنی خفیہ سودے بازی کے نذرانے کے طور پر پیش کر دینے کے در پے ہیں۔ مزاحمتی محاذ اس سے کہیں زیادہ سمجھدار ہے کہ اس جال میں پھنسے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ جدوجہد اور مزاحمت کی قیادت خود ملت فلسطین کے ہاتھ میں ہے اور ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قوم حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اس طرح کے انحرافات کا سد باب کرتی ہے اور اگر خدانخواستہ مزاحمتی تنظیموں میں سے کوئی تنظیم اس جال میں پھنسی تو یہ ملت ماضی کی طرح ایک بار پھر اپنی ضرورت کے مطابق نئی تحریک پیدا کر لیتی ہے۔ اگر ایک تنظیم مزاحمت کا پرچم زمین پر رکھتی ہے تو یقینا دوسری تنظیم ملت فلسطین کے بطن سے باہر آئے گی اور اس پرچم کو پھر بلند کر دیگی۔
آپ حاضرین محترم اس اجلاس میں یقینا صرف فلسطین پر بحث کریں گے کہ بدقسمتی سے حالیہ چند برسوں میں جس پر ضروری اور لازمی توجہ کے تعلق سے کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ بے شک علاقے میں اور امت اسلامیہ کے اندر جگہ جگہ موجود بحرانوں پر توجہ دینا ضروری ہے لیکن اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد مسئلہ فلسطین ہے۔ یہ اجلاس ایک رول ماڈل بن سکتا ہے جس کی تقلید کرتے ہوئے رفتہ رفتہ تمام مسلمان اور علاقے کی اقوام اپنے اشتراکات کو بنیاد بناکر اختلافات کو کنٹرول کر سکتی ہیں اور ہر ایک تنازعے کو حل کرکے امت محمدی صلوات اللہ علیہ کی زیادہ سے زیادہ تقویت کے اسباب فراہم کر سکتی ہیں۔
آخر میں آپ تمام عالی قدر مہمانوں کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے محترم اسپیکر اور دسویں پارلیمنٹ میں ان کے رفقائے کار کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس کانفرنس کے انعقاد کی زحمت اٹھائی۔
عالم اسلام کے سب سے بنیادی مسئلے اور تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے اتحاد کے محور یعنی فلسطینی کاز کی خدمت کرنے میں آپ کی کامیابی کی درگاہ خداوندی میں دعا کرتا ہوں۔
درود و رحمت خداوندی تمام شہدائے اسلام، بالخصوص صیہونی حکومت کے مقابلے میں مزاحمت کرنے والے عالی مقام شہیدوں، مزاحمتی محاذ کے تمام سچے مجاہدین کی روحوں اور اسلامی جمہوریہ کے بانی کی روح مطہرہ پر نثار ہو، جو مسئلہ فلسطین پر خاص توجہ دیتے تھے۔ آپ سب کامیاب اور فتحیاب رہئے!
والسلام عليكم و رحمت الله و بركاته.
رہبر انقلاب اسلامی نے علمی و فکری صلاحیت و استعداد کو اللہ کا عطیہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ممتاز علمی صلاحیتوں کے مالک افراد کو چاہئے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ 2 جنوری 2017 کو ایران کی شریف صنعتی یونیورسٹی کے الیٹ طلبہ نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اہم نکات کی جانب اشارہ کیا۔ 4 مارچ 2018 کو شریف یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں رہبر انقلاب اسلامی کی اس گفتگو کو نشر کیا گيا۔
خطاب کا اردو ترجمہ؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے غیر ملکی مندوبین سے خطاب میں مسلمانوں کے اتحاد پر تاکید کی(1)۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے اشتراکات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اختلافات سے چشم پوشی کریں۔ ہفتہ 17 دسمبر کو اپنے اسے خطاب میں فرمایا کہ اگر ڈیڑھ ارب مسلمان، بے پناہ وسائل کے مالک اتنے سارے اسلامی ممالک، یہ غیر معمولی افرادی قوت، اگر یہ عظیم مجموعہ متحد ہو جائے اور اتحاد کے ساتھ اسلامی اہداف کی جانب بڑھنے لگے تو دنیا کی طاقتیں رجز خوانی نہیں کر پائیں گی۔ امریکا دیگر ملکوں، حکومتوں اور قوموں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر پائے گا، خبیث صیہونی نیٹ ورک گوناگوں حکومتوں اور طاقتوں کو اپنے پنجہ اقتدار میں نہیں جکڑ پائے گا اور انھیں اپنے مقصد اور ہدف کے تحت استعمال نہیں کر پائے گا۔ اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو یہ حالات ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے غیر ملکی مندوبین سے خطاب میں مسلمانوں کے اتحاد پر تاکید کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے اشتراکات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اختلافات سے چشم پوشی کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کی صبح اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی شہید ستاری ایروناٹیکل یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب میں ایمانی و عقیدتی، علمی و فنی، ادارہ جاتی اور ڈسپلن سے متعلق آمادگی میں روز افزوں اضافے اور مقدس دفاع کے تجربات نئی نسل کے فوجیوں کو منتقل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید غدیر کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عید غدیر خم کا سب سے بنیادی پیغام اسلام میں امامت کو حکومتی سسٹم اور نظام کے طور پر متعارف کرانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سانحہ منٰی اور مسجد الحرام میں کرین گرنے کے سانحے کی پہلی برسی کے موقع پر ان سانحوں میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ سے انتہائی جذباتی ملاقات میں سانحے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں عالم اسلام کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فقہ کے درس خارج کے آغاز میں عوام الناس اور خاص طور پر نوجوانوں کے ذہن و دل کو دین سے منحرف کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر بنائے گئے منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علماء کا اولیں اور سب سے اہم فریضہ دین و عفت سے معاشرے کو دور کرنے کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ دینی درسگاہوں اور علمائے کرام کو چاہئے کہ سائیبر اسپیس سے آشنائی حاصل کرکے اور اس کے امکانات کو بخوبی استعمال کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم کی ترویج کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نےعوام کے دینی ایمان و عقیدے کی تقویت پر ضرورت دیتے ہوئے اسے اسلامی نظام اور انقلاب کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا کہ در پیش مسائل کے بارے میں ذمہ داری کی تشخیص کے لئے ضروری ہے کہ دراز مدتی اور ثقافتی نقطہ نگاہ سے معاشرے کی مجموعی صورت حال کا تجزیہ کیا جائے اور رجحان شناسی کی جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر مملکت روحانی اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں حکومت کی محنت و مشقت کی قدردانی کی اور ہفتہ حکومت کو اب تک انجام پانے والے کاموں کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے کا اچھا موقع قرار دیا اور سات موضوعات؛ استقامتی معیشت، خارجہ پالیسی، سائنس و ٹیکنالوجی، سیکورٹی، ثقافت، چھٹے ترقیاتی منصوبے اور سائیبر اسپیس کے تعلق سے جو ملک کی اہم ترجیحات کا حصہ ہیں ہدایات دیں۔
1395/05/11 ہجری شمسی مطابق 1 اگست 2016
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1 اگست 2016 کو ملک کے مختلف صوبوں کے گوناگوں طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عوام الناس کی معیشتی مشکلات کو اپنی گہری اور دائمی تشوشی قرار دیا اور فرمایا کہ ان مشکلات کے ازالے کے سلسلے میں داخلی توانائیوں پر اعتماد واحد راہ حل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان نے ایک تجربے کی حیثیت سے امریکیوں سے مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے، ان کی عہد شکنی اور امریکا کے قابل اعتماد نہ ہونے کا ایک اور ثبوت پیش کیا ہے اور یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ملک کی پیشرفت اور عوام کے حالات زندگی کی بہبودی کا واحد راستہ داخلی توانائیوں پر توجہ دینا ہے نہ کہ ان دشمنوں پر جو علاقے اور دنیا میں ایران کے خلاف ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ملک کے مختلف صوبوں کے گوناگوں طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کی افراد کی موجودگی کو اس حقیقت کا آئینہ قرار دیا کہ ایران کے عوام قومیتی، لسانی اور مسلکی تنوع کے باوجود متحد ہوکر اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وطن عزیز ایران کو روحانی و مادی اعتبار سے نمونہ اسلامی مملکت کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف کرائیں، تاکہ دیگر اقوام بھی استکبار کی تفرقہ انگیز اور استعماری پالیسیوں کی مزاحمت کرتے ہوئے اسی پرافتخار راستے پر گامزن ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دشمن کبھی مشکلات کھڑی کرتا ہے جنھیں تدبر اور سوجھ بوجھ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، تاہم کسی بھی صورت میں ان کے حل کے سلسلے میں دشمن پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے جامع مشترکہ ایکشن پلان کو دشمنوں پر اعتماد نہ کرنے کی نظرئے کی درستگی کا نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ آج تو سفارتی شعبے کے حکام اور وہ لوگ بھی جو مذاکرات میں شریک تھے، اس حقیقت کا بار بار اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا وعدہ خلافی کر رہا ہے اور نرم گوئی اور چرب زبانی کے ساتھ ہی مشکلات کھڑی کرنے اور دیگر ممالک سے ایران کے اقتصادی روابط خراب کرنے میں مصروف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
مختلف صوبوں سے طویل مسافت طے کرکے یہاں تشریف لانے والے عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! آپ نے آج ہمارے اس حسینیہ کو شہیدوں کے نام، شہیدوں کی یادوں اور انقلابی جذبات سے معطر کر دیا۔ ان برادران عزیز کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ترانہ بھی پیش کیا اور اجتماعی طور پر تلاوت قرآن کی۔ البتہ نشست کے دوران تھوڑا شور تھا اور ان برادران گرامی کی انتہائی سماعت نواز تلاوت شاید بعض لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا، لیکن میں نے توجہ سے سنا اور مستفیض ہوا۔ قرآن کی آیات کریمہ اور قرآنی الفاظ کی تلاوت جس وقت بھی اور جس جگہ بھی کی جائے اس سے روحانیت و برکت ملتی ہے۔ خاص طور پر ان آیتوں کی تلاوت سے جن کا انتخاب ان برادران عزیز نے کیا تھا۔ سورہ احزاب کی آیتیں تھیں، جو سخت ادوار اور دشوار حالات میں اسلامی امت کے مستقیم اور روشن راستے کی عکاسی کرتی ہیں اور امت کے راستے کو واضح کرتی ہیں۔ یہ آیتیں بتاتی ہیں کہ اگر امت اسلامیہ کسی بھی دور میں اور کسی بھی موقع پر مشکلات سے دوچار ہو جائے، اس طرح کی مشکلات سے دوچار ہو جائے جن کا ذکر ان آیتوں میں تھا تو راہ حل کیا ہے۔ مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیه (۱)، جب اللہ تعالی سے کیا گيا میثاق اور مومن قلوب نے اللہ سے جو عہد کیا ہے وہ سچا ہو تو سارے کام انجام پائیں گے، ساری مشکلات برطرف ہوں گی۔ بے شک زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں، کسی بھی قوم کے قدموں کے سامنے پختہ سڑک نہیں ہوتی، شاہراہ خود اپنی محنت اور بلند ہمتی سے تعمیر کرنی ہوتی ہے، راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے، صاف کرنا ہوتا ہے اور پھر اپنی منزل کی جانب آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ جو قومیں، روحانیت، تمدن، رفاہ و آسائش اور سعادت و کامرانی کے اوج پر پہنچیں، انھوں نے اسی انداز سے اپنا سفر طے کیا ہے۔ یہ آیتیں ہمیں ان چیزوں کی تعلیم دیتی ہیں۔
ماہ ذیقعدہ جو نزدیک آن پہنچا ہے، حرام مہینوں میں سے پہلا مہینہ ہے۔ ماہ حرام یعنی احترام کے مہینے، یعنی وہ مہینے جو اللہ تعالی کی نظر میں محترم ہیں، «مِنهآ اَربَعَةٌ حُرُم» (۲)، چار مہینوں کو اللہ تعالی نے دیگر مہینوں سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ کچھ خاص احکام کے ذریعے واضح کیا ہے کہ یہ احترام کن چیزوں اور کن امور میں ہے۔ مسلمانوں کو ان تعلیمات الہیہ سے بھی سبق لینا چاہئے۔ معروف اور عظیم عارف الحاج میرزا علی آقا قاضی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بقول اللہ کی نظر میں محترم مہینے وہ مہینے ہیں جن میں مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ اللہ کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے، خود کو زندگی کے حساس اور اہم میدانوں میں وارد ہونے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔ آج ملت ایران کے سامنے، اس عظیم و سربلند قوم کے سامنے یہی صورت حال ہے کہ اس نے جو پرافتخار راستہ چنا ہے اس پر پوری توانائی کے ساتھ، پوری رفتار سے، پر وقار انداز میں اور سر بلندی کے ساتھ آگے بڑھے۔
ہماری آج کی یہ نشست بہت خاص قسم کی ہے۔ ملک کے چاروں گوشوں سے، کئی صوبوں سے ہمارے عزیز عوام تشریف لائے ہیں اور یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ملک کے جنوب مشرقی حصے سے لیکر شمال مغربی علاقے تک مختلف قومیتیں، فارس، ترک، کرد، بلوچ سب اس اجتماع میں موجود ہیں۔ اس کا خاص مفہوم ہے۔ وہ خاص مفہوم یہ ہے کہ مختلف اور متعدد قومیتوں والا متحدہ ایران ایک ہی ہدف رکھتا ہے اور ایک ہی راستے پر گامزن ہے۔ بے شک زبانیں الگ الگ ہیں، مسلک الگ الگ ہیں، لیکن اس قوم کے اعلی اہداف یکساں ہیں۔ یہ سب کی خواہش ہے کہ وطن عزیز ایران کو ایک مثالی اسلامی ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسلامی مملکت کا نمونہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس ملک میں سارے لوگ صرف نماز، روزے اور دعا و توسل میں مصروف ہیں۔ نہیں، یہ سب کچھ تو ہے ہی، یہی تو روحانیت و معنویت ہے، لیکن اس روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی پیشرفت، علمی نمو، مساوات کا فروغ، طبقاتی فاصلے میں کمی اور اشرافیہ کلچر کے نمونوں اور مظاہر کا تصفیہ بھی ہے۔ اسلامی معاشرے کی یہ خصوصیات ہیں۔ اس معاشرے میں عوام الناس خوش بختی کی زندگی بسر کرتے ہیں، احساس تحفظ کے ساتھ جیتے ہیں، آسودہ خاطر رہتے ہیں اور اپنے اعلی اہداف کی جانب رواں دواں ہیں۔ اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں، دنیاوی پیشرفت بھی انھیں حاصل ہو رہی ہے۔ ملت ایران ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جانے کے لئے کوشاں ہے۔ سب کی یہی خواہش ہے۔ شیعہ اور سنی کا فرق نہیں ہے۔ کرد، بلوچ، فارس اور ترک میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے سب اس ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک نمونہ عمل بن جائے گا اور جب یہ نمونہ عمل آنکھوں کے سامنے آ جائے گا تو دیگر مسلم اقوام بھی اسی راستے پر چل پڑیں گی۔
آج ہماری مشکل یہ ہے کہ عالمی استکبار اور استعماری طاقتوں کو ایک دو صدی سے اپنا مفاد اس میں نظر آیا کہ مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ ڈال دیں۔ انھیں اپنا مفاد اس میں نظر آتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ ایسی صورت حال ہو تو ان مسلم اقوام کی ثروت لوٹنا آسان ہوگا، انھیں اس پیشرفت سے جو ان کا حق تھی، دور رکھا جا سکے گا، ان کا استحصال کیا جا سکے گا۔ عالمی طاقتوں نے علم و سائنس کے میدان میں اپنی کامیابیوں کی مدد سے، حاصل ہونے والی ٹیکنالوجیوں کی مدد سے اور جدید اسلحے کی مدد سے اپنا یہ مقصد پورا کرنے کی کوشش کی اور افسوس کا مقام ہے کہ کافی حد تک انھیں کامیابی بھی ملی۔ ہم نے اوائل انقلاب سے لیکر آج تک ہمیشہ مسلمان اقوام کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا، سب کو اتحاد کی دعوت دی، سب کو وحدت کا پیغام دیا، دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں استقامت کی اپیل کی تو اس کی وجہ یہی تھی۔
جب ملت ایران خود کو اس مقام پر پہنچا لے جائے گی جہاں وہ حقیقی معنی میں ایک مسلم امت کے طور پر خود کو دنیا کے سامنے متعارف کرائے تو یہی اسلام کی سب سے بڑی تبلیغ ہوگی۔ دیگر اقوام بھی اسی سمت چل پڑیں گی اور عظیم مسلم امہ کی تشکیل ہو جائے گی جو باعث عزت اور ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کی بنیاد بنے گی۔ وہ اسلامی تمدن معرض وجود میں آ جائے گا جس کے بارے میں ہمیں یہ توقع ہے کہ مغرب کے گمراہ کن مادی تمدن پر غلبہ حاصل کر لے گا۔ اس کا مقدمہ یہی ہے، مقدمہ یہ ہے کہ ہم ملت ایران کی حیثیت سے خود کو مثالیہ بنانے کی سمت پیش قدمی کریں۔ سب کو کمر ہمت کسنا چاہئے، عہدیداران کو بھی بلند ہمتی سے کام لینا چاہئے اور عوام کو بھی ہمت دکھانی چاہئے۔ یہ کوئی ایک دو سال کی مہم نہیں ہے۔ یہ دراز مدتی مشن ہے۔ اس کے لئے وقت درکار ہے۔ چنانچہ اگر آپ دیکھیں تو اسلامی تمدن میں، جس کا اوج چوتھی اور پانچویں صدی میں نطر آیا، نمایاں علمی مقام حاصل ہوا، عالم اسلام میں مایہ ناز اور شہرہ آفاق علما، محققین، فلاسفہ اور سائنسداں نظر آئے جو دنیا کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوئے، چنانچہ مغرب کی بہت سے میدانوں کی پیشرفت انھیں کی شروع کی ہوئی مہم کی مرہون منت ہے۔ آج ان شاء اللہ ہماری رفتار تیز ہوگی اور ہم زیادہ جلدی اس منزل پر پہنچ جائیں گے، تاہم وقت تو لگنا ہی ہے۔
ہم نے ان 37، 38 برسوں میں جو انقلاب آنے کے بعد گزرے ہیں، اچھی پیشرفت حاصل کی ہے۔ واقعی اگر کوئی منصفانہ نظر سے جائزہ لے تو امریکا اور برطانیہ کے قدموں میں پڑا رسوا و گمنام، پسماندہ اور مجبور ایران آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک آکر صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں کہ علاقے میں موجود اسلامی جمہوریہ کے وسائل کو استعمال کریں، بلکہ کسی صورت سے ہڑپ لیں، مگر وہ ایسا نہیں کر پا رہے ہیں۔ یعنی اسلامی وقار، اسلامی نظام کا وقار اور اسلامی مملکت ایران کی شان و عظمت اس طرح چار سو پھیلی ہے کہ جو طاقتیں اب تک ملت ایران سمیت اقوام کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتی تھیں، آج اسے اپنے برابر کی قوت کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ملت ایران کی عمومی اور ہمہ گیر پیشرفت ہے۔ ہم نے علم و سائنس کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، سیاست کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، اسلام کو مطلوب دیگر میدانوں میں بھی پیشرفت حاصل کی۔ سماجی انصاف کے اعتبار سے بھی آج صورت حال ماضی کی نسبت بالکل الگ ہے۔ البتہ اسلامی مساوات کی منزل تک پہنچنے کے لئے ابھی کافی فاصلہ طے کرنا ہے، مطلوبہ سماجی انصاف کی منزل سے ابھی ہم کافی دور ہیں۔ البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بھی ہمارے معاشرے میں اشرافیہ کلچر کی علامات، تجملات اور بعض دیگر انحرافی چیزیں کم نہیں ہیں، لیکن جب ہم انقلاب سے قبل کے دور کو سامنے رکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ماضی کی نسبت اس وقت ملت ایران کی پیشرفت، اس اسلامی ملک کی پیشرفت کافی نمایاں ہے۔ آپ میں جو نوجوان ہیں، انھوں نے انقلاب سے قبل کا دور نہیں دیکھا ہے لیکن ہم نے اور ہماری عمر کے افراد نے وہ زمانہ دیکھا ہے۔
اگر ہم خود کو اس مطلوبہ منزل تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ میں اس کا جواب دو لفظوں میں اگر دینا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ اس کا طریقہ ہے داخلی توانائیوں اور وسائل پر تکیہ کرنا۔ ہمارے پاس صلاحیتوں اور توانائیوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ صلاحیتیں اور توانائیاں جو اب تک استعمال نہیں ہوئی ہیں کافی زیادہ ہیں۔ ہم نے تو پیشرفت کے منصوبے میں آٹھ فیصدی کی اقتصادی ترقی کو مد نظر رکھا ہے اور کہا ہے کہ ملک کو اس پروگرام کے دوران آٹھ فیصدی کی شرح ترقی تک پہنچنا ہے تو اس کی وجہ وہ بے شمار توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں جو ملک کے اندر موجود ہیں۔ شروع میں تو کچھ لوگ یہ کہتے تھے کہ اقتصادی میدان میں آٹھ فیصدی کی شرح نمو ممکن نہیں ہے۔ لیکن بعد میں حکام نے خود آکر ہم سے کہا کہ آپ نے جو لکھا ہے وہی درست ہے۔ آٹھ فیصدی کی اقتصادی شرح نمو امکان میں ہے۔ البتہ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔ صحیح اور منصوبہ بند اسٹریٹیجی کی ضرورت ہے۔ تساہلی، بے عملی اور دوسروں کی دست نگری کی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ اس کی بنیاد ملک کے اندر موجود صلاحیتیں ہیں۔ ملک کے پاس بے پناہ صلاحیتیں اور توانائياں موجود ہیں۔ ہماری آٹھ کروڑ کی آبادی میں تیس فیصدی سے زیادہ حصہ 20 سے 35 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ یعنی عنفوان شباب میں ہے۔ نوجوانی، تحرک اور امید و نشاط کا مظہر ہے۔ ہمارے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان موجود ہیں۔ ان نوجوانوں میں دسیوں لاکھ تعلیم یافتہ، ماہر اور اختراعی صلاحیت کے مالک نوجوان ہیں۔ گزشتہ 37 سال کے عرصے میں ہمارے ملک کا انفراسٹرکچر بہت اچھا ہو چکا ہے۔ ہم نے مختلف میدانوں میں بہت کارآمد اور موثر انفراسٹرکچر تیار کر لیا ہے۔ میں یہ جو عرض کر رہا ہوں کہ ہم نے یہ کام کیا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ کام ملک کے حکام نے انجام دیا ہے، اس سلسلے میں میرا کوئی رول نہیں ہے۔ سب کچھ تیار ہے تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کے لئے، پیشرفت کی منزلیں طے کرنے کے لئے۔
یہ پیشرفت بھی بحمد اللہ حاصل ہوئی۔ آپ اسلامی انقلاب کے بعد کے ان تیس برسوں کا موازنہ بعض دیگر ملکوں کی تیس سال کی پیشرفت سے کیجئے جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ ایسے ممالک جنھوں نے تیس سال تک امریکا کے تسلط میں زندگی بسر کی۔ امریکا سے نقدی بھی حاصل کرتے رہے۔ یعنی سالانہ کئی سو ملین یا کئی ارب ڈالر امریکا سے لیتے رہے، لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ تیس سال بعد جب اعداد و شمار پیش کئے تو پتہ چلا کہ ان کے دار الحکومت میں بیس لاکھ افراد بے گھر ہیں جو قبرستانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ کسی ملک پر امریکا کے اثر و نفوذ اور تسلط کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ بنابریں ضرورت اس بات کی ہے کہ داخلی توانائیوں کو بروئے کار لایا جائے۔
دشمن بسا اوقات مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جائے اپنی تدابیر سے ان مشکلات کو راستے سے ہٹائے، دشمن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک مثال یہی ایٹمی مذاکرات اور مشترکہ جامع ایکشن پلان ہے۔ آج ہمارے سفارتی شعبے کے حکام بھی، وہ لوگ بھی جو مذاکرات میں شروع سے آخر تک شامل رہے، یہ لوگ بھی کہہ رہا ہے کہ امریکا نے وعدہ خلافی کی ہے۔ پرسکون ظاہری وضع قطع، حکام، وزیر خارجہ اور دیگر عہدیداران کی نرم و شیریں گفتگو کی آڑ میں امریکا تخریبی اقدامات کرتا ہے۔ دیگر ممالک سے وطن عزیز کے اقتصادی تعلقات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ یہ بات مشترکہ جامع ایکشن پلان سے تعلق رکھنے والے حکام بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ بات میں ایک سال، ڈیڑھ سال سے مسلسل کہتا آ رہا ہوں کہ امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگوں کے لئے یہ بات قبول کر پانا بڑا دشوار تھا، لیکن آج خود ہمارے حکام یہی کہہ رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہمارے عہدیداران نے جو ایٹمی مذاکرات کار ہیں، یورپ میں دیگر فریقوں سے ملاقات کی۔ ہمارے عہدیداران نے یہی باتیں ان سے کہی ہیں اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ہمارے عہدیداران نے کہا کہ آپ نے عہد شکنی کی ہے، آپ نے یہ خلاف ورزی کی ہے، آپ کو یہ کام انجام دینا تھا اور آپ نے انجام نہیں دیا۔ پس پشت آپ نے یہ تخریبی اقدامات کئے۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کو چھے مہینے کا وقت گزر چکا ہے، مگر عوام کی معیشتی صورت حال میں کوئی قابل لحاظ بدلاؤ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ پابندیاں ہٹائی جائیں، اس کا ہدف ہی یہ تھا کہ ظالمانہ پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ اب تک پابندیاں نہیں ہٹائی گئی ہیں، اب کہتے ہیں کہ رفتہ رفتہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے! کیا تدریجی طور پر پابندیاں ہٹانے کی بات ہوئی تھی؟ اس وقت عہدیداران نے ہم سے بھی اور عوام سے بھی یہی کہا تھا کہ ان مذاکرات میں یہ طے پایا ہے کہ جس دن ایران نے اپنے وعدوں پر عمل کر دیا، پابندیاں یکبارگی اٹھا لی جائیں گی۔ یعنی امریکا نے ملت ایران کے راستے میں یہ جو ظالمانہ اور خباثت آمیز رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے گا۔ اس وقت سے اب تک چھے مہینے گزر چکے ہیں، لیکن پابندیاں نہیں ہٹی ہیں۔ آٹھ کروڑ کی آبادی والے ملک کے لئے چھے مہینے کی مدت کم وقت ہے؟ اگر امریکیوں کی یہ خباثتیں نہ ہوتیں تو حکومت اس چھے مہینے میں کتنے کام کر سکتی تھی؟ یہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ہمارے لئے ایک نمونہ ہے، ایک تجربہ ہے۔ میں نے گزشتہ سال یا ڈیڑھ سال قبل، مجھے تاریخ ٹھیک سے یاد نہیں ہے (3)، قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان اور یہ ایٹمی مذاکرات ہمارے لئے ایک نمونہ ہوگا۔ ہم دیکھیں گے کہ امریکی کیا کرتے ہیں؟ یہ جو بڑی شیریں کلامی کر رہے ہیں، میٹھی میٹھی باتیں کر رہے ہیں، کبھی خط لکھتے ہیں، محبت کا اظہار کرتے ہیں، تعاون کی باتیں کرتے ہیں، مذاکرات کی نشستوں میں ایرانی حکام سے بڑی نرمی سے گفتگو کرتے ہیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ عمل کے میدان میں کیا رخ اپناتے ہیں؟! اب واضح ہو گیا کہ عمل کے میدان میں ان کا کیا طریقہ کار ہے۔ بظاہر میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں، وعدے دیتے ہیں، لیکن جب عمل کا مرحلہ آتا ہے تو سازشوں میں لگ جاتے ہیں، تخریبی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں، ہمارے امور کی انجام دہی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ ہے امریکا اور یہ ہے عملی تجربہ۔ اب امریکی کہہ رہے ہیں کہ آئیے علاقائی مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مگر یہ تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکیوں سے مذاکرات مہلک زہر کی مانند ہے۔
اس تجربے سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہم کسی بھی معاملے میں امریکا کو قابل اعتماد فریق سمجھ کر گفتگو نہیں کر سکتے۔ انسان کبھی دشمن سے بھی بات کرتا ہے اور وہ دشمن اپنے قول کا پابند ہوتا ہے تو اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے قول سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور عہد شکنی نہیں کرے گا۔ ایسے دشمن سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ثابت ہو جائے کہ دشمن حد درجہ نابکار ہے، ایسا دشمن ہے جو عملی میدان میں وعدہ خلافی میں کوئی تامل نہیں کرتا، عہد شکنی کرتا ہے، اور جب آپ کہئے کہ تم نے عہد شکنی کیوں کی؟! تو بڑے مزے سے مسکراتا ہے، پھر وہی چرب زبانی شروع کر دیتا ہے اور اپنی حرکتوں کی توجیہ پیش کرنے لگتا ہے۔ ایسے دشمن سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ یہ جو میں برسوں سے کہتا آ رہا ہوں کہ امریکا سے ہم مذاکرات نہیں کریں گے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے میں اور علاقائی مسائل کے بارے میں، اسی طرح دیگر معاملات میں امریکا اور اس جیسی دیگر حکومتوں سے ہماری مشکل ایسی ہے کہ مذاکرات سے حل نہیں ہونے والی ہے۔ ہمیں اپنا راستہ منتخب کرکے اس پر گامزن ہو جانا چاہئے۔ دشمن کو پیچھے پیچھے دوڑنے دیجئے، اسے پیچھے پیچھے بھاگنے دیجئے! ہمارے سیاسی و سفارتی حکام صریحی طور پر کہہ رہے ہیں کہ امریکی ہم سے سب کچھ لے لینا چاہتے ہیں اور اس کے عوض کچھ بھی دینے پر آمادہ نہیں ہیں! اگر ایک قدم آپ نے پیچھے کھینچا تو وہ اسی مقدار میں آگے بڑھ آئیں گے۔ ہم جو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات نہیں کریں گے اور بعض افراد کہتے ہیں کہ جناب! مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تو مذاکرات کرنے حرج یہی ہے کہ فریق مقابل آپ کو آپ کے صحیح راستے سے ہٹا دےگا، آپ سے مراعات لے لیگا، کیونکہ جب آپ مذاکرات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کچھ مراعات دیجئے اور کچھ مراعات لیجئے! مذاکرات کا یہی تو مطلب ہے! مذاکرات کا مطلب یہ تو نہیں کہ ساتھ میں بیٹھیں، گپ شپ کریں، گفت و شنید اور ہنسی مذاق ہو، سب لطف اندوز ہوکر اٹھ جائیں! مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ کچھ دو اور کچھ لو! آپ کو جو دینا ہے اسے تو وہ فورا لے لیتے ہیں، لیکن جو آپ کو ملنا چاہئے اسے وہ دینے پر تیار نہیں! زور زبردستی کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ مستکبر اسی کو کہتے ہیں۔ عالمی استکبار کے یہی معنی ہیں، اس کے معنی ہیں زبردستی کی باتیں کرنا، خود کو برتر سمجھنا، اپنے قول کا پابند نہ رہنا، خود کو کوئی بھی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند نہ سمجھنا، استکبار سے مراد یہی ہے۔ وہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا؛ 'امریکا سب سے بڑا شیطان ہے۔' واقعی یہ تعبیر بالکل درست اور غیر معمولی تعبیر ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن شیطان اپنی پیروی کرنے والوں سے کہے گا کہ: اِنَّ اللهَ وَعَدَکُم وَعدَ الحَقِّ وَ وَعَدتُکُم فَاَخلَفتُکُم (۴) اللہ تعالی نے تم سے سچا وعدہ کیا اور تم نے اللہ کے اس سچے وعدے کی پیروی نہیں کی، اس کے پابند نہیں رہے اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا اور تم میرے پیچھے چل پڑے، میں نے وعدہ خلافی کی، میں نے تم سے وعدہ کیا اور پھر اس وعدے کو توڑ دیا۔ شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کی اس طرح ملامت کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے کہ شیطان اپنے پیروں کاروں سے کہے گا؛«فَلا تَلومونی وَلوموا اَنفُسَکُم» مجھے سرزنش نہ کرو بلکہ خود کو ملامت کرو۔ یہ چیز آج من و عن امریکا پر صادق آتی ہے۔ شیطان قیامت میں یہ باتیں کہے گا جبکہ امریکی آج اسی دنیا میں یہی باتیں کہہ رہے ہیں۔ وعدہ کرتے ہیں مگر اسے پورا نہیں کرتے، وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ مراعات لے لیتے ہیں، اور مراعات دینے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے۔ آج امریکا کی یہی حالت ہے۔ لہذا اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔
ملک کے بڑے مسائل کے بارے میں جو باتیں ہو رہی ہیں، اسی طرح ملک کی دراز مدتی پالیسیوں کے بارے میں ہمارے عزیز نوجوانوں کو چاہئے کہ غور کریں، اس کا جائزہ لیں۔ یہ تجربات کا نتیجہ ہیں، یہ دشمن کی مکمل شناخت کے بعد وضع کی جانے والی پالیسیاں ہیں۔ یہ ایسی چیزیں نہیں کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی دوسرا آکر اس کے جواب میں کہے کہ؛ 'نہیں جناب ایسا نہیں ہے۔' ان مسائل پر ہمارے نوجوان غور و خوض کریں۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں بڑے ذہین اور ذی فہم نوجوان موجود ہیں۔ انھیں چاہئے کہ جائز لیں، تجزیہ کریں تو راستہ واضح ہوگا۔
صحیح راستہ کیا ہے؟ صحیح راستہ وہی ہے جو ہم نے عرض کیا؛ اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں پر تکیہ کیا جائے، داخلی ظرفیت کو بنیاد بناکر کام کیا جائے، انھیں نوجوانوں کی استعداد کو بنیاد بنایا جائے، نوجوانوں کی اختراعی صلاحیتوں کی مدد لی جائے، جو اختراعات ہمارے نوجوان کرتے ہیں، وہ جو علمی کاوشیں کرتے ہیں، جو دانش حاصل کرتے ہیں، وہ دانش جو ٹیکنالوجی میں تبدیل ہوتی ہے، ان پر تکیہ کیا جائے، ہمارے پاس صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق البتہ یہ اعداد و شمار کئی سال قبل کے ہیں کہ ہمارے پاس کئی سو چھوٹی پیداواری یونٹیں ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے! میں نے اپنی تقاریر میں بارہا یہ بات کہی ہے، ملک کے عزیز حکام کو چاہئے کہ چھوٹی اور میانہ سطح کی پیداواری یونٹوں پر توجہ دیں۔ ہمارے ملک میں اس طرح کی کئی لاکھ یونٹیں موجود ہیں، ان کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئے، اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اختراعی صلاحیتیں سامنے آئیں گی۔
ہم نالج بیسڈ اکانومی پر زور دے رہے ہیں، اس سلسلے میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران خوش قسمتی سے بہت اچھا کام ہوا ہے، لیکن اس میں مزید وسعت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں داخلی پیداوار پر توجہ دینا چاہئے۔ میں نے داخلی مصنوعات کے استعمال پر بار بار تاکید کی۔ ایک بار پھر آپ کی خدمت میں، عزیز عوام کی خدمت میں، ملک کے حکام کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پیداواری سرگرمیوں کی جانب قدم بڑھائیے۔ داخلی پیداوار کو بڑھائیے، اس کی ترویج کیجئے۔ افسوس کی بات ہے کہ زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ مختلف شعبوں میں، مثال کے طور پر گھریلو سامان ملکی کارخانے بھی بنا رہے ہیں، بڑی معیاری، غیر ملکی مصنوعات کی ہم پلہ بلکہ بسا اوقات ان سے زیادہ بہتر مصنوعات بنا رہے ہیں، لیکن آپ جب بازار میں جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی سامان بھرا پڑا ہے۔ کیوں؟ یہ سارا سامان کہاں سے آیا؟ میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ ملک کے اندر جو مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں انھیں غیر ممالک سے امپورٹ نہ کیا جائے، اس کی یہی وجہ ہے۔
اسمگلنگ کے معاملے میں میں نے حکام سے کہا کہ جب آپ کسی گروہ کو پکڑیں اور اسمگلنگ کا سامان برآمد کریں جو کئی ہزار ٹن کی مقدار میں ملک کے اندر آ رہا ہے تو اسے سب کے سامنے آگ لگائیں۔ اسمگلروں پر اس طرح ضرب لگائیں۔ کیونکہ ظاہر ہے جب کوئی غیر ملکی سامان آ جاتا ہے، خواہ قانونی طریقے سے آیا ہو جیسے کسٹم وغیرہ ادا کرکے لایا گیا ہو، یا اسمگلنگ کے ذریعے لایا گیا ہو جس کی مقدار بہت زیادہ ہے، تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ داخلی پیداواری یونٹیں بند ہو جائیں گی۔ جب پیداواری یونٹیں بند ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں یہی حالات پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا، روزگار کے مواقع محدود ہو جائیں گے، ملک میں کساد بازاری کا ماحول پیدا ہوگا، عوام کی زندگی اور معیشت بہت دشواریوں سے دوچار ہو جائے گی۔ ان مسائل کو تو آپ یورپ اور امریکا سے تعلقات بڑھا کر حل نہیں کر سکتے۔ ان مسائل کو ہمیں خود حل کرنا ہے۔ یہ ذمہ داری تو خود ہمارے دوش پر ہے۔ اس کا راستہ یہی ہے۔
ملک کے پاس توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ اختراعی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ آٹھ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں، جس کے پاس پندرہ کروڑ آبادی کی گنجائش موجود ہے، ان شاء اللہ حکام جیسا کہ میں نے بار بار کہا ہے کہ مدد کریں اور نوجوانوں کی آبادی بڑھائیں، نوجوانوں کی تعداد کا یہ اچھا تناسب جو آج ہے اسے قائم رکھیں، اسے ختم نہ ہونے دیں، ایسا نہ ہو کہ رفتہ رفتہ ملک کی آبادی بڑھاپے کی جانب بڑھتی چلی جائے۔ یہ ملک، یہ آبادی، یہ صلاحیتیں، چار موسموں والی سرزمیں مادی اعتبار سے پیشرفت کے مراحل طے کر سکتی ہے اور عوام کی معیشتی مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔ اس کا یہی طریقہ ہے۔
عوام کے معاشی مسائل کی مجھے بہت فکر ہے۔ مجھے عوام کی معیشت کے بارے میں ہمیشہ فکر لگی رہتی ہے۔ تاہم میں جتنا بھی سوچتا ہوں، ماہرین اور باخبر افراد سے جب بھی مشاورت کرتا ہوں تو یہی پاتا ہوں کہ ہمارے پاس داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ غیر ملکی تاجروں کی آمد و رفت رہے اور حالات میں کوئی بہتری نہ آئے، چنانچہ اب تک نہیں آئی ہے تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ تقریبا ایک سال سے مسلسل یہ آنا جانا لگا ہوا ہے اور اب تک کچھ بھی نہیں ہو پایا ہے۔ وہ اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی نظر ایران کے بازار کو اپنے قبضے میں کر لینے پر ہوتی ہے اور یہ ہمارے نقصان میں ہے۔ وفود کی آمد و رفت کا فائدہ سرمایہ کاری کی صورت میں اور پیداوار میں اضافے کی صورت میں ہونا چاہئے، اس کے نتیجے میں ہمیں ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی ملنا چاہئے، نئی ٹیکنالوجی ملک میں آنا چاہئے، لیکن فی الواقع اس کا یہ نتیجہ یا تو بالکل نہیں ہے یا بہت محدود پیمانے پر ہے۔ محترم حکام کو چاہئے کہ ان چیزوں پر توجہ دیں، ان کا خیال رکھیں۔ ہم نے جو 'اقدام و عمل' (کے نعرے) کا اعلان کیا اس کا نمایاں نتیجہ سامنے آنا چاہئے، البتہ اس وقت کام ہو رہا ہے لیکن نتیجہ اتنا واضح ہونا چاہئے کہ عوام باقاعدہ محسوس کریں۔ یہ طریقہ ہے۔
ثقافتی اور روحانی امور کے بارے میں بھی کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اس وقت ان موضوعات کو نہیں چھیڑنا چاہتا، اس کا اپنا موقع و محل ہے۔ اس وقت بحث کا موضوع اقتصادی اور معیشتی مسائل ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوامی معیشت میں بہتری آئے، جو مشکلات ہیں، طبقاتی فاصلہ ہے، یہ سب حل ہو تو ہمیں یہ سارے کام کرنا چاہئے۔
ایک اور اہم ترین مسئلہ ہے داخلی بدعنوانی کی روک تھام۔ یہ جو ابھی بات ہوئی اور حکام نے بھی صریحی طور پر کہا ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کا سد باب کیا جا رہا ہے، اس کے بارے میں بحمد اللہ ہمیں بعض اداروں سے رپورٹ ملی ہے کہ موثر کارروائی ہوئی ہے۔ تمام اداروں میں اسی طرح اقدامات ہونے چاہئے۔ پوری توجہ سے کارروائی کی جانی چاہئے۔ اسے بیچ میں نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بدعنوانی کا سد باب ضروری ہے۔
اشرافیہ کلچر کی روک تھام ہونا چاہئے۔ یہ کلچر ملک کے لئے ایک مصیبت ہے۔ اگر ملک میں اونچی سطح پر اشرافیہ کلچر رائج ہو تو باقی جگہوں تک اس کا سرایت کر جانا فطری ہے۔ ایسی صورت میں آپ دیکھیں گے کہ جو گھرانہ مالی اعتبار سے بہت اچھی حالت میں نہیں ہے وہ بھی جب اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرتا ہے یا کوئی اور تقریب منعقد کرنا چاہتا ہے تو رئیسانہ انداز میں اخراجات برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب اشرافیہ کلچر رائج ہو جائے تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اشرافیہ کلچر کو روکنا چاہئے۔ حکام کی روش، ان کا طرز بیان، ان کی تعلیمات سب کچھ اشرافیہ کلچر کے خلاف ہونا چاہئے۔ اسلام نے یہی درس دیا ہے۔
یہ تو ملکی مسائل کے بارے میں میرے چند معروضات تھے۔ اقتصادی مسائل کے بارے میں میرا جو موقف ہے وہ یہی ہے جسے میں عوام کے سامنے بھی اور حکام کے سامنے بھی بیان کرتا رہتا ہوں۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اپنی داخلی توانائیوں پر بھروسہ کیا جائے۔ احتیاجات اور خامیوں کی نشاندہی کی جائے اور پھر ان کے ازالے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔
اب علاقائی مسائل کے تعلق سے کچھ باتیں؛ اس وقت علاقہ بڑی ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اگر اس کیفیت کا بھی باریکی سے جائزہ لیجئے تو امریکا کی ریشہ دوانیاں صاف نظر آتی ہیں۔ یہ جو سعودی حکومت صیہونی حکومت کے ساتھ اعلانیہ طور پر اظہار دوستی کرنے لگی ہے، علی الاعلان آمد و رفت ہو رہی ہے، یہ امت مسلمہ کی پشت میں خنجر گھونپنے کی مانند ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو حرکت سعودی حکام نے کی ہے اور صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط کو آشکارا کر دیا ہے تو یہ انھوں نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر مارا ہے، انھوں نے بہت بڑی خیانت کا ارتکاب کیا ہے، وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، تاہم اس قضیئے میں بھی امریکیوں کا ہاتھ ہے۔ سعودی حکومت تو امریکا کی تابعدار ہے، امریکا کے ہاتھ میں ہے، امریکا کے اشاروں پر کام کرتی ہے، اس نے جب یہ نہایت احمقانہ اقدام کیا ہے تو اس میں بھی امریکا کا اہم رول ہے۔
یا اگر آپ دیکھتے ہیں کہ یمن پر تقریبا ڈیڑھ سال سے بمباری ہو رہی ہے تو یہ کوئی معمولی بات ہے؟ ایک ملک پر، صرف عسکری مراکز پر نہیں نہیں بلکہ بازاروں، اسپتالوں، رہائشی مکانات، اجتماعات، چوراہوں اور اسکولوں پر اندھا دھند بمباری کر رہے ہیں! یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ نہ ماہ رمضان کا تقدس ان کی سمجھ میں آتا ہے، نہ ماہ حرام کا انھیں کوئی احساس ہے، نہ بچوں کا خیال ہے، کس بڑے پیمانے پر طفل کشی انھوں نے کی ہے؟! یہ بھی بہت سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب سعودی حکومت کر رہی ہے۔ تاہم یہ جرم بھی امریکا کی پشت پناہی سے انجام پا رہا ہے، امریکا سے گرین سگنل ملنے کے بعد انجام دیا جا رہا ہے، امریکی طیاروں کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے، امریکا سے امپورٹ کئے جانے والے ہتھیاروں کے ذریعے ان جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ سارے وسائل وہی فراہم کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی اگر اس بارے میں کچھ بولنا چاہتی ہے، وہ بھی ایک عرصہ دراز کے بعد ایک حق بات زبان پر لانا چاہتی ہے اور مذمت میں کچھ بولنا چاہتی ہے تو اس کا منہ پیسے سے، دھمکی سے، دباؤ سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس روسیاہ سکریٹری جنرل نے اعتراف بھی کیا اور کہا کہ مجھ پر دباؤ ڈالا گیا ہے! اگر دباؤ ڈالا گیا ہے اور آپ دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیجئے! اس عہدے پر بنے رہ کر آپ بشریت سے خیانت کیوں کر رہے ہیں؟ یہ ساری انسانیت کے ساتھ خیانت ہے۔ اس معاملے میں بھی امریکا ملوث ہے۔
بحرین کا قضیہ دیکھئے کہ وہاں ایک غیر ملک سے فوج آتی ہے عوام پر مظالم ڈھانے کے لئے۔ یہ بھی امریکا کے ہی گرین سگنل سے ہوا ہے۔ اس وقت سعودی حکومت کا یہ حال ہے کہ اسے 'بچے' چلا رہے ہیں، واقعی احمق بچوں کے ہاتھ میں یہ حکومت ہے، تاہم مسائل کا جائزہ لیکر انسان جو نتیجہ اخذ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے ذریعے اور امریکا کی پشت پناہی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ان تکفیری تنظیموں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ یہ (امریکی) دعوے کرتے ہیں کہ انھوں نے تکفیری تنظیموں کے خلاف اتحاد تشکیل دیا ہے، ویسے تو انھوں نے اب بھی ان گروہوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے، بلکہ ہمیں ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بعض اوقات وہ ان گروہوں کی مدد بھی کر رہے ہیں، تاہم ان گروہوں کی تشکیل بھی امریکا کی ہی دین ہے اور اس کا اعتراف بعض امریکا حکام نے بھی کیا ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا اور کہا کہ داعشی عناصر کی ہم نے مدد کی کہ وہ یہاں آئیں اور امت مسلمہ کے اندر اختلاف کی آگ بھی بھڑکائیں اور اموی و مروانی اسلام کی ترویج بھی کریں۔ یہ وہابی و تکفیری اسلام در حقیقت اموی اسلام اور مروانی اسلام ہے، یہ وہی اسلام ہے جو حقیقی اسلام سے کوسوں دور ہے، انھوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے۔ البتہ اب اس آگ کی لپٹیں خود ان تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے؛ «هر که باد بکارد، طوفان درو خواهد کرد» (جو ہوا بوتا ہے، طوفان کی فصل کاٹتا ہے۔) اب دھیرے دھیرے وہ اس طوفان کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ لیکن یہ خود ان کی غلطی کا نتیجہ ہے، یہ انھیں کا کیا دھرا ہے۔
دوسرے مسائل میں بھی یہی صورت حال ہے۔ امریکیوں کا دعوی ہے کہ وہ علاقے کی مشکلات کو حل کرنا چاتے ہیں، لیکن امر واقعہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ امریکا ہی مشکلات پیدا کر رہا ہے، یا ان میں شدت لا رہا ہے یا ان کے حل میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ اگر علاقے کی اقوام کے ہاتھ میں امور ہوں تو ان مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہم اسلامی حکومتوں کو، ان عرب حکومتوں کو جو ہمارے اطراف میں ہیں، ایک بار پھر دعوت دیتے ہیں کہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ امریکا قابل اعتماد نہیں ہے۔ امریکا انھیں ہتھکنڈے اور حربے کے طور پر دیکھتا ہے، صیہونی حکومت کو تحفظ دینے کے حربے اور علاقے میں امریکا کے استکباری مفادات کی حفاظت کے ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکا کو حقیقت میں ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی دولت استعمال کرتا ہے، ان کی توانائیوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے، حفاظتی دیوار کھڑی کرکے صیہونی حکومت کو تحفظ دینا چاہتا ہے، علاقے میں اپنے سامراجی اغراض و مقاصد کی حفاظت کرتا ہے۔ ان ملکوں سے وہ یہ کام کروا رہا ہے۔
علاقے کے مسائل کی راہ حل ہماری نظر میں یہ ہے کہ مسلمان اقوام متحد ہوں، مسلم حکومتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور استکباری اہداف اور امریکا کے عزائم نیز بعض یورپی حکومتوں کے مطالبات کے سامنے ڈٹ جائیں۔ بعض یورپی حکومتوں نے بھی امریکا کے نقش قدم پر چل کر علاقے کے عوام کی نگاہ میں خود کو گرا لیا ہے۔ بعض یورپی حکومتوں کا عوام کی نظر میں خود ہمارے ایرانی عوام کی نگاہ میں خاص احترام تھا، لیکن انھوں نے امریکا کی پیروی کرکے خود کو رسوا کر لیا۔ ان کے اہداف و مقاصد کی نشاندہی کی جانی چاہئے اور پھر ان اہداف کے سد باب کے لئے اقدام کرنا چاہئے۔ قومیں ایسا کر سکتی ہیں، ہماری قوم تو خیر ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔
میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ ان تمام باتوں کے باوجود علاقے میں امریکا روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے منصوبے طشت از بام ہوتے جا رہے ہیں، سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کس فکر میں ہے۔ وہ مختلف ملکوں کے امور میں مداخلت کے در پے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف ہم سے دشمنی کا برتاؤ کر رہا ہے اور دوسروں سے اس کی بڑی دوستی ہے۔ نہیں، آپ نے ترکی میں دیکھا۔ البتہ ابھی ہماری نظر میں اس کے ثبوت نہیں ہیں، لیکن محکم الزام ہے کہ ترکی میں جو فوجی بغاوت ہوئی وہ امریکیوں کی پشت پناہی اور ان کی تدابیر سے ہوئی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو امریکا کے لئے بڑی رسوائی کی بات ہوگی۔ ترکی وہ ملک ہے جس کے امریکا سے اچھے تعلقات تھے، وہ خود کو امریکا کا علاقائی اتحادی کہتا تھا۔ لیکن ان کی ترکی سے بھی نہیں بن سکی۔ اس لئے کہ اس ملک میں اسلامی رجحان موجود ہے۔ امریکا اسلام کا دشمن ہے۔ اسلامی رجحان کا دشمن ہے۔ لہذا اس ملک میں بھی فوجی بغاوت کرواتا ہے۔ البتہ اس بغاوت کو کچل دیا گيا، باغیوں پر غلبہ حاصل کر لیا گيا ہے اور وہ ترک عوام کی نگاہ سے بھی گر گئے۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی صورت حال ہے۔ عراق میں بھی، شام میں بھی، اسی طرح دوسرے خطوں میں بھی امریکا روز بروز زیادہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
اگر ہم ایرانی عوام اللہ کے وعدے پر یقین رکھیں اور اس کی تکمیل کے مقدمات فراہم کریں تو مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ: اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم (۵) اگر تم دین خدا کی نصرت کرو گے، الہی عزائم کو مستحکم بناؤں گے اور مدد کروگے تو یقینا اللہ تعالی بھی تمہاری نصرت فرمائے گا اور جس کی مدد اللہ کرتا ہے، دنیا کی کوئی بھی شئے اسے کمزور نہیں بنا سکتی، روز بروز اس کی طاقت بڑھتی ہی جائے گی اور اسے فتح ملے گی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ملت ایران کو تمام میدانوں میں، اقتصادی میدان میں، عسکری میدان میں، سیاسی میدان میں، ثقافتی میدان میں، علمی میدان اور سیکورٹی کے میدان میں فتحیاب کرے اور آپ عزیز ملت ایران کو کامیاب و کامران بنائے۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) سوره احزاب، آیت نمبر۲۳ کا ایک حصہ؛ «مومنین میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنھوں نے اللہ سے کیا ہوا میثاق سچ کر دکھایا۔»
۲) سوره توبه، آیت نمبر۳۶ کا ایک حصہ؛ «... ان (بارہ مہینوں) میں سے چار مہینے (ماہ) حرام ہیں۔»
۳) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ذاکرین اہل بیت سے خطاب مورخہ 9 اپریل 2015
۴) سوره ابراهیم، آیت نمبر22 کا ایک حصہ
۵) سوره محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف طلبہ تنظیموں کے نمائندوں سمیت ایک ہزار سے زائد طلبہ سے ملاقات میں مختلف موضوعات کے بارے میں گفتگو کی۔
فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مشہد مقدس میں واقع روضہ اقدس میں محفل مقاصدہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مشہد کے فارسی زبان شعرا نے اپنے اشعار پیش کئے۔ شعرا کا کلام سننے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختصر تقریر میں مشہد مقدس میں شعری فن و ذوق کی تاریخ اور ارتقا کا جائزہ لیا اور شعرا کی ذمہ داریوں کے تعلق سے اہم ہدایات دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے اعلی عہدیداران، اسلامی ملکوں کے سفیروں اور عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات میں فرمایا کہ استکباری طاقتیں اور ان میں سر فہرست امریکا، علاقے اور عالم اسلام میں پھیلی بد امنی اور دہشت گردی کا سرچشمہ ہے۔
کریم اہل بیت حضرت امام حسن علیہ السلام کی شب ولادت، ایران، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے کچھ شعرا و ادبا نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں، سائنس و ٹیکنالوجی کے پارکوں اور علمی و تحقیقاتی مراکز کے اساتذہ، محققین اور ممتاز علمی شخصیات سے ملاقات میں ایران کو مقتدر، باوقار، پوری طرح خود مختار، دولتمند، مساوات سے آراستہ، عوام دوست، پاکدامن، محنتی، ہمدرد اور پرہیزگار حکومت رکھنے والی ریاست بنانے کیلئے بیس سالہ اہداف کا خاکہ کھینچا۔