قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 9 اسفند سنہ 1379 ہجری شمسی مطابق 27 فروری سنہ 2001 عیسوی کو امیر کبیر صنعتی یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب میں مختلف علمی شعبوں میں نئی ایجادات کی ضرورت اور دائمی تقلید سے اجتناب کرتے ہوئے جدت عمل لانے کی احتیاج پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 29 مہر سنہ 1379 ہجری شمسی مطابق 10 اکتوبر سنہ 2000 عیسوی کو ایران میں بسیج کے نام سے معروف رضاکار فورس کے تربیتی کیمپ میں خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 مہر سنہ 1379 ہجری شمسی مطابق 5 اکتوبر سنہ 2000 عیسوی کو قم کے عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں مقدس شہر قم کی خصوصیات اور ممتاز صفات کا ذکر کیا۔
1 مارچ 2000
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں سبھی بہنوں اور بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ میں سے ہر ایک کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ بالخصوص ان لوگوں کو جو دور سے تشریف لائے ہیں، خصوصا شہدائے معظم کے خاندان والوں، معذور جانبازوں، جنگی قیدی کی حیثیت سے دشمن کی جیل میں ایک عرضہ گزارنے کے بعد آزاد ہونے والوں اور (راہ انقلاب میں) فداکاری کرنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہماری دعا ہے کہ خدا کا فضل و کرم اور حضرت امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی خاص عنایات آپ سبھی عزیزوں اور ایرانی عوام کے شامل حال ہوں۔
خداوند عالم نے ایرانی عوام پر فضل و کرم کیا اور ہمارے شجاع عوام نے کامیابی کے ساتھ عظیم اور پرشکوہ انتخابات منعقد کئے۔ اس عظیم اور مبارک واقعے میں بعض نکات ایسے ہیں جن پر توجہ دیتے ہوئے ملک کے حکام اور عوام کو خداوند عالم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور اس کا شکرگزار ہونا چاہئے، خاص طور پر حکام کو اور اس عظیم، صاحب عزت اور مومن قوم کو بھی عملی طور پر خدا کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ اس سال انتیس بہمن مطابق آٹھ فروری کا الیکشن اسلامی جمہوری نظام کے استحکام کے لئے ایک عوامی تحریک تھی۔ جو لوگ سرحدوں کے اس پار سے ہمیشہ ایرانی عوام اور اسلامی جمہوری نظام کو تشہیراتی یلغار کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس نظام پر بے بنیاد الزامات لگاتے رہتے ہیں، ان سب کو ہمارے عوام نے الیکشن میں مایوس کرتے ہوئے، دکھا دیا کہ اسلامی نظام عوامی نظام اور عوام کے عزم و ارادے اور ان کی آراء پر استوار ہے۔ اس نظام کو چلانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں عوام قبول کرتے ہیں، ( یعنی جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے) یہ الیکشن اسلامی نظام سے عوام کی عظیم بیعت تھی۔ اس الیکشن نے پوری دنیا میں آپ کے دوستوں کو جن کی نگاہیں اس ملک کے واقعات پر رہتی ہیں، خوش کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ عالمی طاقتیں اور سامراجی مراکز اگر چہ زبان پر اس کو نہیں لاتے اور اس کی تصدیق نہیں کرتے، لیکن وہ اس بات سے وحشت زدہ ہو گئے ہیں کہ ملک کے بعض علاقوں میں ووٹنگ کا تناسب نوے فیصد سے بھی زیادہ رہا ہے اور مجموعی طور پر پورے ملک میں پینسٹھ فیصد سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا، یہ اعلی عالمی تناسب ہے جس نے انہیں وحشت زدہ اور پریشان کر دیا ہے۔
ایرانی عوام نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ ایرانی عوام نے اپنے انتخابات میں دکھا دیا کہ وہ اسلامی نظام اور آئين کے، جو اسلامی اقدار کا مظہر ہے، وفادار ہیں۔ ثابت کر دیا کہ اسلام ان کے دل و جان میں بسا ہوا ہے۔ ثابت کر دیا کہ انہیں شہیدوں کے خون کی قدر ہے۔ ملک کے ہر شہر میں چاہے تہران ہو، چاہے دوسرے بڑے شہر ہوں، چاہے چھوٹے شہر ہوں اور چاہے دور دراز کے دیہی علاقے ہوں کتنے جوان اور نوجوان دشمن سے جنگ کے میدانوں میں گئے اور مظلومیت کے عالم میں ان کا خون بہایا گیا۔ ایرانی عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ ان کے خون کو فراموش نہیں کریں گے اور ان کے وفادار رہیں گے۔
پہلی چیز یہ ہے کہ حکام اس کامیابی کو اس نظام کے لئے ایک عظیم ہدیہ سمجھ کے اس کی قدردانی کریں۔ صرف زبانی قدردانی کافی نہیں ہے، بلکہ انہیں عملی طور پر قدردانی کرنی چاہئے۔ خود عوام کو بھی خدا کا شکر ادا کرنا چاہئےکہ ان کا نظام ایک مضبوط اور مستحکم نظام ہے اور ان کا ملک ایسا نہیں ہے کہ دشمن اس میں اختلافات کھڑے کرکے بحران پیدا کر سکیں۔
عوام پوری متانت کے ساتھ پولنگ کے مراکز پر گئے اور پوری تشخیص کے ساتھ عمل کیا۔ میں نے انتخابات سے پہلے سے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ جس نے بھی نظام کے استحکام کے لئے، اپنے فریضے کی انجام دہی کے لئے ووٹ دیا ہے، اپنی تشخیص کی بنیاد پر جس کو صحیح سمجھا اس کو ووٹ دیا ہے، اللہ اسے اجر دے گا۔ یہ قوم اور یہ ملک امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہی اس قوم اور اس ملک کے نگراں ہیں۔ جس نے بھی اس عظیم کام میں حصہ لیا، ووٹ دینے گیا، یا ووٹ دینے میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کی یا اس امر میں کوئی کام کیا، آپ ان سب کو اجر دیں گے اور خدا سے ان کا شکریہ ادا کریں گے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عوام نے پورے سکون اور امن و آشتی کے ساتھ انتخابات منعقد کئے۔ شاید خود ہمیں، جس نے ابتدائے انقلاب سے اب تک اکیس پر امن انتخابات دیکھے ہیں، اس بات کا صحیح ادراک نہ ہو کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے؟!
میرے عزیزو! آپ جان لیجئے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس طرح کے انتخابات میں پولنگ کے مراکز پر اور تشہیراتی مہم کے دوران لڑائیاں ہوتی ہیں، بحران کھڑا ہو جاتا ہے، نقصان پہنچتا ہے، قتل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے عوام ایسے ہیں کہ جہاں شجاعت دکھانی ہوتی ہے جیسے جنگ کے میدانوں میں، انھوں نے وہاں شجاعت دکھائی ہے اور جہاں قومی مصلحتوں کا تقاضا ہوتا ہے ، اس طرح امن وآشتی اور متانت کے ساتھ عظیم کارنامے انجام دیتے ہیں۔ حکام کو اس پہلو سے بھی عوام کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ دشمنوں کو ہمارا یہ امن و سلامتی منظور نہیں ہے۔ سامراجی طاقتوں کی جاسوسی ایجنسیوں کا ایک ہدف ہمارے ملک میں بدامنی پیدا کرنا ہے۔ لیکن وہ اپنے منصوبوں کو برملا نہیں ہونے دیتے، جب وہ اپنے کام میں کامیاب ہو جاتے ہیں تب پتہ چلتا ہے۔ جیسا کہ اس سال موسم گرما میں (1) دیکھا گیا کہ دشمن کس طرح ہمارے ملک میں آشوب اور بحران کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ بعد میں حکام کو معلوم ہوا اور ان کے لئے یہ بات ثابت ہو گئی۔ حالیہ عظیم اور پرشکوہ انتخابات کے بعد بھی امریکا کے ایک سینیئر فوجی افسر نے کہا ہے کہ ایران میں دو تین مہینے میں بدامنی اور بحران وجود میں آئے گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کوئی سازش اور کوئی منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ ہمارے عوام ہوشیار اور بیدار رہیں۔ البتہ امریکا کے اس فوجی افسر نے شیخی بگھاری ہے اور حماقت کی ہے کہ یہ بیان دے دیا۔ ان کے سیاستداں نہیں بولتے ہیں اور اپنے منصوبوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے؛ لیکن اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا کوئی منصوبہ ہے۔ اس قوم کا امن و استحکام ان کی آنکھوں میں خار کی طرح چبھتا ہے۔
ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ دنیا میں دوسری جگہوں پر نوجوان کیا کرتے ہیں؟ آپ دیکھیں کہ یورپی ملکوں میں نوجوان کیا کرتے ہیں۔ ہر کچھ عرصے کے بعد لوگوں کو مہذب دنیا میں بدامنی کی خبر ملتی ہے۔ دن کی روشنی میں اسکول اور کالج میں کسی نوجوان کو قتل کر دیا جاتا ہے! ریستوران میں انسان کا قتل ہو جاتا ہے! کسی پارٹی میں کوئی قتل کر دیا جاتا ہے! آپ دیکھیں کہ ہمارے ملک میں یہ سب نہیں ہوتا ہے۔ یہاں امن وسلامتی ہے۔ لیکن وہ اس کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں! جانتے ہیں کہ بدامنی نظام کے ستونوں کو متزلزل کر دیتی ہے۔ انہیں اس کی آرزو ہے۔ یقینا اس کے لئے منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔ ہمارے عوام ہوشیار رہیں۔ البتہ دشمنوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے حکام اور ہمارے عوام بحران اور آشوب بپا کرنے کی ان کی کوششوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔ اسلامی نظام اپنے عوام اور نوجوانوں کی سلامتی کی پوری قوت سے پاسداری کرے گا۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں اس بات کی اجازت دے دی جائے گی کہ ہمارے عوام کے درمیان دراندازی کریں اور ہمارے نوجوانوں اور اس قوم کے جیالوں کو بدامنی کی تیزوتند آندھیوں کے حوالے کر دیں اور اسلامی نظام خاموش تماشائی بنا رہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اگر دشمن اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ اس ملک میں کشیدگی اور بدامنی پیدا کرکے نظام کے ستونوں میں رخنہ اندازی کر سکیں گے تو جان لیں کہ ان کی یہ آرزو ان کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو جائے گی۔
تیسرا نکتہ حکام کے فرائض سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے درجے میں، اس بندہ حقیر کا اور اس کے بعد سرکاری حکام ، اراکین پارلیمنٹ، عدلیہ کے ذمہ دار عہدیداران اور دوسرے ذمہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ عوام کے اس کارنامے کا صلہ دیں۔ (یعنی ان کی قدردانی کریں اور ان کے لئے کام کریں) دو چیزیں عوام کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں؛ ایک ان کی زندگی کے مسائل ہیں جو ان کے لئے بہت اہم ہیں اور دوسرا مسئلہ دین اور اسلامی اقدار کا ہے جو ان کی نگاہ میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ عوام کو حق ہے۔ عوام کے کمزور طبقات کی پریشانیاں زیادہ ہیں۔ بعض لوگ جو کشیدگی پیداکرنے والی سیاسی بحثیں کرتے ہیں، وہ اس کو چھوڑیں اور بنیادی اور عملی کام کریں۔ یہی حکام سے عوام کی توقع ہے۔ ہر وقت سیاسی لڑائی۔ انتخابات تھے، ہو گئے۔ یہ اختلافات، یہ دھڑے بندیاں، یہ ایک دوسرے پر (لفظی) حملے، یہ ایک دوسرے کی جھوٹی اور بے بنیاد کمیاں پکڑنا، یہ بہانے تراشیاں، یہ ان کے خلاف وہ ان کے خلاف، چھوڑیں یہ باتیں! بالخصوص ذمہ دار حضرات، اراکین پارلیمنٹ اور اراکین حکومت، ان باتوں کو ترک کریں اور ملک و قوم کے لئے بنیادی کاموں کی انجام دہی میں مصروف ہو جائیں۔
ملک کے اندر ہماری مشکلات کم نہیں ہیں۔ تمام مشکلات و مسائل کی بنیاد دو چیزیں ہیں۔ ایک تو قومی دولت و ثروت کے تعلق سے، فیشن پرستی کے تعلق سے اور عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے تعلق سے مختلف اداروں میں غفلت، کوتاہی، سستی اور شاید ٹھیک طریقے سے کام نہ کرنا ہے۔ دوسری بنیادی مشکل وہ دشمن ہیں جو انہیں باتوں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے عوام کے لئے سختیاں پیدا کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اقتصادی ناکہ بندی کرتے ہیں۔
ہمارے عوام مومن اور متحد ہیں۔ ملک کے حکام اور لیڈران بھی متحد رہیں تو دشمن یہ جرائت نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں اس ملک اور اس قوم کے خلاف کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ ان اختلافات کو ترک کریں۔ ملک کے بڑے رہنما چھوٹوں کو سیدھے راستے پر لائیں۔ اگر وہ غلطی کر رہے ہیں تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی غلطیوں کو جائز ٹھہرائیں اور خود بھی ان کی پیروی کرنے لگیں یا انہیں غلطی کی طرف لے جائيں۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہی ہے۔ بعض لوگوں کو ساری فکر اس بات کی ہے کہ بیٹھیں اور اپنا دماغ، آنکھیں، ہاتھ اور قلم و زبان اختلاف کے شعلے بھڑکانے میں استعمال کریں اور پارٹی لائن اور جماعتی و گروہی خطوط کے مسائل کے نام پر دو دھڑوں کو آپس میں لڑائیں۔ بند کریں یہ کام!
حکام سے عوام کی توقع صحیح اور بجا ہے۔ حکام اقتصادی مسائل پر توجہ دیں۔ گرانی اور بے روزگاری کے مسائل کو حل کریں۔ اگر حکام شور و غل اور ہنگاموں سے دور رہتے ہوئے ضروری کوششیں کریں تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور مشکلات دور ہوں گی۔ اگر کوئی مشکل حل نہ ہو باقی رہ جائے تو عوام کے سامنے آئیں صداقت کے ساتھ انہیں بتائیں کہ ہم نے کوشش کی لیکن یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہو سکا ہے۔ آئندہ حل ہوگا۔ لوگ ان کی بات قبول کریں گے۔ اگر وہ عوام کی زندگی کے حقیقی مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کے بجائے مختلف ناموں سے مفروضاتی سیاسی مسائل میں الجھیں، تفرقے میں پڑ جائيں اور ملک کی سیاسی فضا کو کشیدہ بنائيں تو دشمن کو خوش کریں گے۔ یہ بری بات ہے۔ جو لوگ بھی عوام کی ہدایت اور ان کے سامنے سیدھا اور صحیح راستہ پیش کرنے میں کسی نہ کسی شکل میں کوئی کردار رکھتے ہیں، ان سب کے لئے میری نصیحت ہے کہ اپنے خدائی اور اسلامی فریضے کو سمجھیں اور اس ملک و ملت کے تئيں اپنے فرائض کو جانیں۔ حالیہ انتخابات کا صحیح صلہ اور ردعمل یہی ہو سکتا ہے۔
عوام کے دین کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ عوام دیندار ہیں لیکن کچھ لوگ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کو دین کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ وہی عوام ہیں کہ پہلوی حکومت نے پچاس سال تک اس ملک میں دین کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ پچاس سال کے بعد یہی عوام تھے جنہوں نے دین کے لئے اور دین کے نام پر ایک دینی پیشوا اور مرجع کی قیادت میں انقلاب برپا کیا۔ اسلامی نظام قائم کیا۔ پرچم اسلام سر بلند کیا۔ دنیا کو اسلام کی عظمت وعزت دکھا دی اور خود کو مسلمین عالم بلکہ غیر مسلم اقوام کی نگاہ میں بھی صاحب عزت و وقار بنا لیا۔ کیا یہ قوم دین سے دست بردار ہو جائے گی؟ یہ ان کا خیال خام ہے کہ یہ نوجوان بے دین ہیں۔ بعض امور میں یہ نوجوان اپنے والدین سے بھی زیادہ دیندار ہیں۔ یہ عظیم مظاہرے اور جلوس جو مذہبی مناسبتوں سے برآمد ہوتے ہیں، یہ عظیم مذہبی مجالس ، یہ دعاؤں کے اجتماعات، یہ سب ہمارے نوجوانوں کی دینداری کے ثبوت ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران مختلف شہروں میں یوم عرفہ (نو ذی الحجہ کو) دعائے عرفہ امام حسین پڑھنے کے اجتماعات میں دسیوں ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا گیا جن میں اکثریت نوجوانوں کی رہی ہے، جنہوں نے دعائے عرفہ کے دوران زار زار گریہ کیا اورآنسو بہائے۔ ان نوجوانوں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دل پاک اور منورہیں۔ یہ خدا سے بہت جلدی اور آسانی سے رابطہ پیدا کر لیتے ہیں۔ کیا یہ بے دین ہیں؟ ہمارے عوام کے درمیان اعتکاف کا رواج عام نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران اعتکاف کے ایام میں بہت سے شہروں میں اکثر مسجدیں اعتکاف میں بیٹھنے والوں سے مملو نظر آئیں۔ ان میں بھی اکثریت نوجوانوں کی رہی ہے۔ جی نہیں! ہمارے نوجوانوں کی اکثریت متدیّن ہے۔ ہمارے عوام دین اور دینی اقدار کے پابند ہیں۔
اس کو سبھی جان لیں، حکام جان لیں، اراکین پارلیمنٹ جان لیں، جو لوگ پہلی بار منتخب ہوئے ہیں وہ بھی جان لیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئي بیرونی ریڈیو اسٹیشنوں کے بے بنیاد پروپیگنڈوں کے زیر اثر عوام کے فہم وادراک کو غلط سمجھ بیٹھے اور ان کی دینی امنگوں، خواہشات اور عقائد کے برخلاف بولے۔ اس وقت عوام اس کو مسترد کر دیں گے۔ میں خداوندعالم کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ ایران کی عظیم اور صاحب عزت قوم پر اپنے تفضلات، الطاف اور رحمتیں نازل فرمائے۔ میں ایک چھوٹے سپاہی کی حیثیت سے حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ (حضرت امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کردتا ہوں کہ آپ کا دست قدرت اور ارادہ جو ارادہ الہی کا تابع ہے، ہمیشہ اس قوم کے سرپر رہا ہے۔ میں عوام اور افراد قوم کا بھی خلوص کے ساتھ شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ملک و قوم نیز اسلام و مسلمین کے عزت و وقار کی پاسداری کر رہے ہیں۔ آپ سب کے لئے خداوند عالم سے توفیق کا طالب ہوں ۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- تہران یونیورسٹی کے ہاسٹل کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام برادران محترم اور خواہران گرامی کا خیر مقدم کرتا ہوں اور فریضہ حج کی انجام دہی میں حجاج کو گوناگوں خدمات بہم پہنچانے والے سبھی کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ خداوند عالم توفیق عطا کرے کہ اس سال بھی یہ فریضہ واجب اپنی شرائط اور حدود کے ساتھ ، گزشتہ برسوں کی طرح بلکہ اس سے بہتر انداز میں ادا ہو اور ہمارے عوام اپنے وجود میں حج کے معنوی، سماجی اور سیاسی مفاہیم کو محسوس اور اسلامی دنیا کی فضا میں اس کو مجسم کریں۔
حج ایک طرف مظہر روحانیت ہے، خدا سے ارتباط، آیات الہی سے دل کی آشنائی اور انسان کی اللہ تعالی سے زیادہ سے زیادہ قربت کا ذریعہ اور دوسری طرف مظہر وحدت ہے- امت اسلامیہ کا اتحاد، بیچ سے دیواروں کا گرنا، دشمنوں کی پیدا کردہ یا تعصب اور بدگمانیوں سے وجود میں آنے والی خلیجوں کا پر ہونا اور اسلام کی امت واحدہ کی راہ میں قدم بڑھانا- حج اسی کے ساتھ دشمنان خدا، مشرکین اور شرک و کفر کے ایجنٹوں سے برائت کا مظہر بھی ہے۔ اگر ان شاء اللہ یہ تینوں پہلو مکمل اور مجسم ہو جائيں تو حج کا فائدہ ظاہر ہوگا۔
سب سے پہلے تو آپ اور عازمین حج ہیں جو حج کے فوائد سے بہرہ مند ہوں گے۔ اس کے بعد اسلامی دنیا، اسلامی معاشرے اور امت اسلامیہ کو بھی اس کا فائدہ پہنچےگا۔ حج کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس سے فضا معنوی اور روحانی ہو جاتی ہے۔ اس وقت ایام حج کے نزدیک آنے اور عازمین حج کی روانگی سے ملک کی فضا زیادہ معنوی اور روحانی ہو گئی ہے۔ جب عازمین حج واپس آئيں گے تو اپنے ساتھ معنویت اور روحانیت لائیں گے، یعنی اپنے ساتھ معنویت اور روحانیت کا تحفہ لائيں گے۔ جب بھی حج کی بات ہوتی ہے تو ماحول روحانی ہو جاتا ہے ۔ ایسا ہونا بھی چاہئے۔
ہمارے عوام کے سامنے، الحمد اللہ بائیس بہمن (گیارہ فروری، یوم آزادی) کا موقع آیا اور اس عظیم امتحان الہی کے بعد انتخابات ہیں، اس لئے میں آج یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معنوی اور روحانی فضا ملک کی ہر چیز کے لئے مفید ہے۔ صرف آخرت اور دینی امور کی بات نہیں ہے۔ روحانی اور دینی ماحول ملک کے دنیاوی امور کے لئے بھی مفید ہے۔ یہ ماحول ہمارے ملک میں انقلاب کی برکت سے وجود میں آیا اور آج ہمارے ملک کی فضا بہت حد تک معنویت اور روحانیت سے مملو ہے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ جب عوام کے میدان میں آنے کا مرحلہ آتا ہے تو لوگ خوشی خوشی کتنے جوش وخروش کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ دینی اور معنوی عنصر کے علاوہ اور کون سی چیز ہے جو ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کرتی ہے۔ میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ عوام نے اس سال بائيس بہمن ( گیارہ فروری، یوم آزادی) پر جس شکوہ و عظمت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے لئے ان کا شکریہ ادا کروں۔ یہ بہت اہم ہے۔
دشمن کے تشہیراتی مراکز کی کوشش ہے کہ ہمارے عوام کو ان کے ماضی، ان کے انقلاب اور ان کے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے جدا کر دیں ، عوام اپنے امام کو بھول جائيں، وہ اپنے خیال میں نئے اقدار ایجاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عوام میں اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب بائیس بہمن کا دن (گیارہ فروری، یوم آزادی) آتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ تہران میں، بڑے شہروں میں، چھوٹے شہروں میں حتی دور دراز کے دیہی علاقوں میں لوگ کس طرح باہر نکلتے ہیں؟! نہ کوئی انہیں دعوت دیتا ہے، نہ کوئی مادی سبب ہوتا ہے لیکن عوام باہر آتے ہیں۔ یہ اسی روحانی عنصر کا نتیجہ ہے۔
میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سازشیں تیار کرنے والے اور گھات لگاکے اس انتظار میں بیٹھنے والے تضاد کا شکار ہیں کہ عوام کے اندر کوئی ایسی بات ظاہر ہو جس سے ان دشمنوں کے اندر یہ امید پیدا ہو جائے کہ عوام انقلاب سے لگاؤ نہیں رکھتے اور وہ انقلاب سے الگ ہو چکے ہیں۔ ایک طرف وہ بعض بیانات اور بعض اخبارات کی سرخیاں دیکھتے ہیں جن میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں معنوی اور دینی باتیں ختم ہو چکی ہیں، اب انقلاب اور امام خمینی سے کوئی لگاؤ نہیں رہا، سب کچھ فراموش کر دیا گیا ہے! تو یہ خوش ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ لیکن پھر جب بائیس بہمن (گیارہ فروری، یوم آزادی) جیسے مواقع آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ عوام کا ایک عظیم سیلاب، اسلام اور انقلاب کے نعروں کے ساتھ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو یاد کرتے ہوئے سڑکوں پر آ جاتا ہے اور ماضی کی یاد تازہ کر دیتا ہے، تو وہ تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔ لہذا منصوبے تیار کرنے میں مستقل طور پر تردد میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایرانی عوام نے اپنی توانائیوں سے دشمن کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے بیانات پر نہ جائیں۔ اپنے بیانات میں بعض اوقات وہ لوگوں کو مرعوب کرنے کے لئے طاقت کی بات کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ ہمارے عوام زندہ ہیں، مومن ہیں، ان کے دل اسلام اور امام (خمینی) کے ساتھ ہیں۔ آج تک کوئی طاقت عوام کے دلوں سے امام کی محبت، امام کی یاد، امام کی تعظیم و تجلیل، جذبہ شہادت اور انقلابی اقدار کو نکال نہیں سکی ہے۔
انتخابات کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ میں اس مناسبت سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
الیکشن صرف ایک سیاسی روداد نہیں ہے۔ الیکشن عوام کی شراکت کا مظہر ہوتا ہے، حصول حق کا مظہر ہوتا ہے اور ملک کے قومی اقتدار اعلی کا مظہر ہوتا ہے۔ آج دنیا میں، ہمارے ملک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی اس بات کو کافی اہمیت دی جاتی ہے کہ ووٹ دینے کا حق رکھنے والوں میں کتنے فیصد لوگوں نے ووٹ دیئے ہیں۔ دنیا کے لوگوں، مبصرین اور سیاستدانوں کی نگاہ میں وہ نظام محکم ہوتا ہے جس میں الیکشن میں زیادہ لوگ پولنگ اسٹیشنوں پر جاکے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ نظام کے استحکام کی علامت ہے۔ الحمد للہ ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران مسلسل ہونے والے انتخابات میں ہمیشہ اس کو ثابت کیا ہے اور ہمارے عوام نے انتخابات میں بھر پور حصہ لیا ہے۔ یہ عوام کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی کہ انتخابات میں حصہ لیں اور اپنے ملک کی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ اس لئے کہ ملک عوام کا ہے۔ عوام آئيں، صحیح اور آزادانہ انتخابات میں حصہ لے کر اراکین پارلیمنٹ کا انتخاب کریں۔ اپنے ملک کے حکام کا اس روش سے تعین کریں جو آئين میں طے کی گئی ہے۔ یہ عوام کا حق ہے۔ یہ کام ان کا ہے؛ اسی کے ساتھ یہ ان کا فریضہ بھی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ ہم اپنا حق استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ نہیں ملک کی تقدیر اس حق کے استعمال اور اس فریضے کی ادائيگی پر منحصر ہے۔ سب کو انتخابات میں شرکت کرنی چاہئے۔ اسلامی جمہوری نظام نے یہ حق عوام کے اختیار میں دیا ہے۔ لیکن ماضی میں ہمیں یہ حق حاصل نہیں تھا۔ ماضی کے نظاموں میں عوام اس حق سے محروم تھے۔ اسلامی جمہوری نظام نے یہ حق دیا ہے۔ عوام الیکشن میں حصہ لیں اور اپنا یہ حق استعمال کریں۔ ایک ووٹ بھی موثر ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارے ایک ووٹ سے کیا اثر پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایک ووٹ یا چند ووٹ ہی ملک کی قسمت بدل دیتے ہیں۔ آپ ووٹ دے کے صالح اور مومن فرد کو پارلیمنٹ میں بھیج سکتے ہیں۔ جو پارلیمنٹ میں منتخب ہوکے پہنچتا ہے، حساس مواقع پر جب ایک رکن پارلیمنٹ کا ووٹ ملک و قوم کی تقدیر اور اقتصاد کا تعین کر سکتا ہو، اس کا ووٹ موثر ہوتا ہے۔ لہذا کبھی کسی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میرے ووٹ سے کیا فرق پڑے گا۔ اہم یہ ہے کہ انتخابات کے روز، سبھی عورت مرد، بوڑھے جوان جو بھی ووٹ دینے کا قانونی حق رکھتا ہو، وہ نکلے اور ووٹ دینے جائے اور انتخابات پرشکوہ انداز میں منعقد ہوں۔ جس کو بھی اس نظام میں دلچسپی ہوگی وہ انتخابات میں شرکت کرے گا۔ جو بھی اسلامی جمہوری نظام کی سربلندی چاہتا ہے وہ انتخابات میں شرکت کرے گا۔ میں اس باہوش اور آگاہ قوم کو پہچانتا ہوں، اب تک میں نے دیکھا ہے کہ عوام ہر موقع پر میدان میں موجود رہے ہیں، مجھے توقع ہے کہ ان شاء اللہ آئندہ انتخابات میں بھی پوری دلچسپی اور جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لیں گے اور در حقیقت، اسلام اور اسلامی نظام سے اپنے لگاؤ کا اعلان کریں گے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ انتخابات لڑائی جھگڑے، کشیدگی اور نفرت سے پاک اور پرامن و دوستانہ ماحول میں ہونے چاہئيں۔ ظاہر ہے کہ ہر جگہ امیدواروں کے نظریات، افکار اور طرزعمل میں فرق ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ عوام ان کو دیکھیں گے، پرکھیں گے، ان کی شناخت حاصل کریں گے اور تدبر کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یہ کام پر امن ماحول میں ہونا چاہئے۔ یہ ہمارا افتخارہے۔ ابھی چند روز قبل ہم نے اسلامی انقلاب کی اکیسویں سالگرہ کا جشن منایا اور چند روز بعد ہمارے ملک میں اکیسویں انتخابات منعقد ہوں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، بہت اہم ہے۔ ان حالات میں اغیار بیٹھ کے ہماری قوم کی فکر کریں اور کہیں کہ اس ملک کو ڈیموکریسی کی طرف جانا چاہئے؟! ڈیموکریسی کیا ہے؟! اگر ڈیموکریسی سے مراد انتخابات میں عوام کی شرکت ہے تو آئيے دیکھئے دنیا میں کہاں یہ بات پائی جاتی ہے؟ جن لوگوں نے امریکی سیاسی طاقت اور پیسے کے ذریعے برسوں اس ملک پر حکومت کی اور اس ملک کا سب کچھ برباد کر دیا، کیا انھوں نے حتی ایک بار بھی پورے ملک میں اس طرح کے انتخابات کرائے تھے؟ اکیس سال میں اکیس انتخابات، یہ معمولی بات ہے؟ ان تمام اکیس انتخابات میں ملک کی فضا آج تک پر سکون اور پر خلوص رہی ہے۔ البتہ بعض لوگ پروپیگنڈہ کرتے ہیں، فضول باتیں کرتے ہيں۔ سیاسی کشیدگی، تشدد اور نفرت کا ماحول مضر ہے۔ (یہ پروپیگنڈہ کرنے والے) کچھ لوگوں کو انتخابات سے بیزار کرتے ہیں، ان کے اندر شک و تردد پیدا کرتے ہیں، دلوں کو پژمردہ کر دیتے ہیں اور امیدیں کم کر دیتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ اپنے بیانات میں اور شائع ہونے والی تحریروں میں معاشرے میں نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بائیں بازو کو برا کہتا ہے وہ دائیں بازو کو۔ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ کہاں جا رہے ہو اور کیا چاہتے ہو؟ یہ اصطلاحات جو گڑھی ہیں، کیا ہیں؟ شاید یہ الفاظ اور اصطلاحات دشمن نے انہیں دی ہیں۔ دشمن نے تیار کی ہیں اور کچھ لوگ جو غافل ہیں، میں نہیں کہتا کہ وہ جان بوجھ کے ارادتا یہ کام کر رہے ہیں، لیکن بعض یقینا بالارادہ یہ کام کر رہے ہیں، دشمنوں سے یہ الفاظ اور اصطلاحات حاصل کیں اور مسلسل بولے جا رہے ہیں۔ انہیں الفاظ اور اصطلاحات کو دہرائے جا رہے ہیں۔ یہ دایاں بازو اور بایاں بازو کیا ہے؟ یہ قوم مسلمان، مومن اور متحد ہے۔ اس قوم کے افراد مل کے ایک ساتھ انقلاب لائے ہیں۔ ایک ساتھ مل کے اکیس سال سے اس انقلاب کی حفاظت کی ہے۔ ہمارے اوپر جو آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی تھی اس میں ایک ساتھ مل کے ملک کا دفاع کیا ہے۔ بنابریں عوام ایک ساتھ ہیں۔ یہ دیواریں کیوں کھینچی جا رہی ہیں؟ کچھ لوگ ایک نام سے اس گوشے میں اور کچھ لوگ دوسرے نام سے اس گوشے میں، عوام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ عوام نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ یہ بھی معلوم ہے۔ عوام اپنے راستے پر چل رہے ہیں۔ اپنا کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی جاکے اپنا کام کریں۔
ماحول پرامن رہنا چاہئے۔ بعض لوگ تشدد اور کشیدگی پھیلانے کے لئے ذہنوں کو خراب کر رہے ہیں۔ نہیں عوام یہ نہیں چاہتے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ دو تین دن جو ووٹنگ میں رہ گئے ہیں اور ممکن ہے کہ انتخابات دوسرے مرحلے میں بھی پہنچ جائیں، اس مدت میں ہمارے عزیز عوام بالخصوص نوجوان، اپنے جذبات کو کنٹرول کریں اور عقل سے کام لیں، اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیں اور انتخابات میں حصہ لیں۔ فکر اور طرز عمل الگ الگ ہیں، ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے، ہر ایک اپنی فکر کے مطابق اور اپنے طریقے سے عمل کرے۔ لیکن سب کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ انتخابات جو ہمارے سامنے ہیں، اس میں متحد ہوکے حصہ لیں۔ اس کے لئے ہمیں جواب دینا ہوگا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کہیں کہ ہم انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے یا کسی کو بھی ووٹ دے دیں گے کون سمجھے گا! جی ہاں، لوگ نہیں سمجھیں گے کہ ہم نے کس کو ووٹ دیا ہے؟ لیکن خدا کو تو معلوم ہوگا۔ ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔ ہمیں حساب کتاب کرنا چاہئے، تحقیق کرنی چاہئے، اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے، اصولوں اور معیاروں کو نظر میں رکھنا چاہئے تاکہ خدا کو اس کا جواب دے سکیں۔ اگر کوئی خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کون قابل اعتماد ہے، تو اہم مسائل میں، ان مسائل میں جن کے تعلق سے خدا کو جواب دہ ہے اس سے استفسار کرے جس پر اس کو اعتماد ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بنابریں ماحول کو پرامن رکھیں اور سب اس کا خیال رکھیں۔ جو لوگ کونے میں بیٹھ کے سیاسی کشیدگی اور بے بنیاد افواہیں پھیلاکے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، انہیں اپنا کام کرنے دیں۔ انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو، سب کو قبول ہوگا۔ کوئی عوام سے یا ملک کے حکام سے یہ نہیں کہے گا کہ انتخابات کا نتیجہ یہ کیوں نکلا؟ یا نتیجہ یہ کیوں نہیں نکلا؟ نہیں یہ لوگوں کے ووٹ ہیں۔ الحمد للہ اس ملک میں قانون محکم ہے معیار اور اصول واضح ہے اور قانون عوام کے سامنے ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ ایسی ہونی چاہئے جو عالمی طاقتوں کی زور زبردستی کی سیاست، تسلط پسندی، مرعوب کرنے اور غیر قانونی مطالبات کے سامنے ڈٹ جائے، ملک و قوم کی مصلحتوں کو سمجھے اور ان کے مطابق عمل کرے۔ مدرس کی خصوصیات کیا تھیں؟ مدرس سے بھی بڑے علما موجود تھے۔ مدرس کی اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ مرعوب کرنے، دھمکی دینے،لالچ دینے اور فریب دینے کا کوئی بھی حربہ ان پر اثرانداز نہیں ہوتا تھا۔
اس وقت بھی جب بظاہر ماحول اس حد تک ان کے خلاف ہو چکا تھا کہ ان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے، وہ کھڑے ہوئے اور اپنی بات کہی۔ پارلیمنٹ میں ایک اچھے عوامی نمائندے کی خصوصیت یہی ہے۔ بعض لوگ بہت جلد مرعوب ہو جاتے ہیں! میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ سامراجی طاقتیں، یعنی وہی تسلط پسند طاقتیں، جو تسلسل کے ساتھ کبھی اس ملک پر کبھی اس ملک پر دست درازی کرتی ہیں، حکومتوں اور اقوام کو اپنے تسلط میں لینا چاہتی ہیں، ان کا کام مرعوب کرنا ہے۔ وہ اتنی طاقتور نہیں ہیں جتنا زبان سے ظاہر کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس انقلاب اور اس ملک سے جتنی دشمنی رکھتی ہیں، اگر ان کے اندر توانائی ہوتی تو اب تک یہ انقلاب مسلسل پیشرفت نہ کرتا اور اس طرح باقی نہ رہتا۔ کیا یہ خود اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ تسلط پسند امریکی اور صیہونی، جتنا دعوی کرتے ہیں، ان کے اندر اتنی طاقت و توانائی نہیں ہے؟ یہ اپنے بہت سے کام دھمکیاں دے کے اور مرعوب کرکے نکال لیتے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ اس کو ہونا چاہئے جو مرعوب نہ ہو۔ کون مرعوب نہیں ہوتا؟ جو دل سے خدا پر توکل رکھتا ہو۔ جب انسان خدا پر توکل رکھتا ہے تو کسی سے مرعوب نہیں ہوتا۔ جو لوگ مرعوب نہیں ہوتے، ان کا ایک نمونہ ہم نے خود اپنے زمانے میں دیکھا ہے یعنی حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور ہزاروں نمونے جنگ اور سیاست کے میدانوں میں دیکھے ہیں۔ یہ مومن اور پاکیزہ نوجوان خوف خدا رکھتے تھے، خدا سے ڈرتے تھے اور غیر خدا سے نہیں ڈرتے تھے۔ "الذین قال لھم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل" گوشہ و کنار میں افراد اور اغیار کے ریڈیو اور دشمن کے مہرے انہیں خوفزدہ کرنے کے لئے، ان سے مسلسل کہتے تھے کہ تمھارے خلاف سازش تیار کر رہے ہیں، تم پر وار لگانے کا پروگرام تیار ہو رہا ہے، یہ کام کریں گے، طے کیا ہے کہ وہ کام کریں گے لیکن وہ کہتے تھے نہیں۔ ان کا ایمان اور قوی ہو گیا۔ وہ کہتے تھے "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" خدا ہمارے لئے کافی ہے۔ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے۔ ہمیں اس پر یقین ہے۔ اس وقت خداوند عالم فرماتا ہے کہ" فانقلبوا بنعمۃ من اللہ و فضل لم یمسسھم سوء" جی ہاں خدا پر بھروسہ کرنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے جنگ کا زمانہ دیکھا ہے اور ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ دنیا کی تمام مسلح طاقتیں متحد ہو گئیں تاکہ اس ملک کے تھوڑے سے حصے کو اس سے لے سکیں؛ یہ کہہ سکیں کہ ایران کی سرحد اس مرکز سے چند کلومیٹر پیچھے ہو گئی ہے ؛ لیکن نہ کر سکے۔ عوام ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ اس لئے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ خدا مدد کرتا ہے، وہ دشمن کو غالب نہیں ہونے دیتا۔ مرعوب ہوجانا بہت بری صفت ہے۔ کوئی اپنے گھر بیٹھا ہے اور مرعوب ہو جاتا ہے، وہ ایک انسان ہے۔ لیکن جو کسی ذمہ دارعہدے پر فائز ہو، جو پارلیمنٹ کا رکن ہو جو حکومت میں ہو، اگر وہ مرعوب ہو جائے تو مصیبت ہے۔ اس کے مرعوب ہو جانے کا مطلب قوم کے بہت سے وسائل کا ہاتھ سے نکل جانا ہوتا ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کو ہرگز مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔
رکن پارلیمنٹ کو اسی طرح دھوکے میں آکے کسی کا فریفتہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ بعض لوگ ظاہری باتوں کے فریب میں آکے اس طرح فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا منھ کھلا رہ جاتا ہے! یہ سادہ لوح لوگ ہیں۔ اقتصادی ، سیاسی یا سیکورٹی سے متعلق مسائل کے حل کی جو راہیں ان کے سامنے سجا سنوار کے آب و تاب کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں، وہ انہیں خود سے بے خود کر دیتی ہیں۔ برسوں کے تجربے کے بعد بھی وہ خود کو بھی اور دوسروں کو بھی مصیبت میں مبتلا کر بیٹھتے ہیں۔ بنابریں انہیں دوسروں کا شیفتہ نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ صحیح، مستقل اور ایسی راہ حل تلاش کرنا چاہئے جو اس ملک اور اس قوم کے خاص حالات سے مطابقت رکھتی ہو اور اس کی اساس اسلام ہو۔ اسلام میں تمام مسائل کی راہ حل موجود ہے۔ اگر ہمارے اندر کج فہمی ہے، اگر ہم غلط سمجھتے ہیں، اگر ہم اس کو تلاش نہیں کرتے اور اس تک نہیں پہنچ پاتے تو اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے، ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
رکن پارلیمنٹ کو لالچی بھی نہیں ہونا چاہئے۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ دشمن کی طرف سے معمولی سی پیشکش بھی ہوئی تو اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھتے ہیں! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا ایم پی مرعوب ہونے والا، دشمن پر فریفتہ ہونے والا اور لالچی نہ ہو تو امین اور متدین فرد کو منتخب کریں۔ مشہور ہے کہ جو لوگ خود امین نہیں ہوتے جب وہ اپنی دولت و ثروت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس کو کسی امین فرد کے پاس رکھتے ہیں۔ امانت داری بہت اہم ہے۔ ممکن ہے کہ متدین فرد سے کسی وقت غلطی ہو جائے لیکن جیسے ہی اس کو اپنی غلطی کا پتہ چلتا ہے پلٹ جاتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہوتا کہ غلطی کرتے ہیں، کھائی کی طرف بڑھتے ہیں، جہنم کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو یہ سمجھ جانے کے بعد بھی کہ غلط راستے پر جا رہے ہیں، اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ نہیں یہی صحیح ہے اور پھر گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں۔ بنابریں رکن پارلیمنٹ کا انتخاب بہت اہم ہے۔
انتخابی تشہیراتی مہم بھی ہے۔ افسوس کہ زندگی کے بہت سے امور میں مغربی روشیں جن میں یہ تشہیراتی مہم بھی ہے، اقوام کے نقصان میں ہیں۔ وہ خود بھی ان پروپیگنڈوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ۔ امریکا کے ایک حالیہ الیکشن میں اتنی تشہیراتی مہم کے باوجود بتایا گیا کہ تیس بتیس فیصد لوگوں نے ووٹنک میں حصہ لیا۔ وہ خود بھی ان پروپیگنڈوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔ لیکن بعض لوگ وہاں سے اس کو یہاں بھی لائے ہیں اور انہیں کے طریقے پر یہاں بھی پرپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔ ان پروپیگنڈوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دیکھنا چاہئے، تحقیق کرنا چاہئے، صالح لوگوں کی جستجو کرنی چاہئے، تفتیش کرنی چاہئے اور اس طرح صحیح فرد تک پہنچنا چاہئے۔ وہ کوئی بھی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ نے تحقیق کی اور تحقیق میں غلطی ہوئی تب بھی خداوندعالم آپ کو اس کا اجر دے گا۔ خدا اس کے لئے آپ سے مواخدہ نہیں کرے گا۔ تحقیق ضروری ہے اور یہ کام بہترین طریقے سے ہونا چاہئے۔ یہ عوام، حکومت اور متعلقہ حکام کا بڑا امتحان ہے۔
بعض امریکیوں نے ایک بار پھر مداخلت کی ہے اور انتخابات کے بارے میں بات کی ہے۔ ایک نے کہا ہے کہ ہم بہت توجہ کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ اس طرح کے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچیں گے۔ عوام کو چاہئے کہ ان کو دنداں شکن جواب دیں۔ دوسرے نے کہا ہے کہ جن لوگوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئے گئے ہیں ہم ان کا مسئلہ دیکھ رہے ہیں! ملک کے حکام کو اپنی آنکھیں بہت زیادہ کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہو رہا ہے کہ ہمارے دشمن، ایرانی عوام اور ایران کے دشمن ایک بار پھر اس ملک پر اپنا تسلط جمانے کے لئے متحرک ہو گئے ہیں۔ انہیں اس پر تشویش ہو رہی ہے کہ کس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے اور کس کے مسترد نہیں ہوئے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قانونی مراکز میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال اور قبول یا مسترد کئے جانے کا کام تسلط پسند طاقتوں کے مفادات کے منافی ہے؟ جو لوگ نہیں سمجھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی باتوں پر ان کی توجہ نہیں ہے وہ زیادہ دقت نظری سے کام لیں۔ دشمن کا منہ کھل گیا ہے۔ کسی وقت یہ ملک اپنے تمام وسائل کے ساتھ امریکا اور اس کے کارندوں کے اختیار میں تھا۔ انقلاب آیا، حالات متغیر ہو گئے، عوام آزاد اور خود مختار ہو گئے، ملک خود مختار ہو گيا، ملک کے ذخائر اور ذرائع خود مختار ہو گئے۔ یہ گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اس ملک پر اس کے ذخائر پر، اس کے حیاتی ذرائع پر اور اس قوم پر ایک بار پھر اپنا تسلط جمائیں۔ عوام کو ہوشیار اور بیدار رہنا چاہئے۔ خدا کے فضل سے انتخابات میں عوام کی شرکت اور وہ بہترین انتخابات جو عوام منعقد کریں گے، امریکا اور سامراجی و صیہونی مراکز کو ایک بار پھر شکست دے کے ان کی اوقات بتادیں گے۔
آپ نے یہ کام جو شروع کیا ہے، عازمین حج کی خدمت، یہ بہت عظیم فریضہ ہے۔ دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کو اس میں توفیق عنایت فرمائے گا۔ ان شاء اللہ آپ کا حج، حج مقبول ہو، اس راہ میں جو زحمتیں اور محنتیں آپ کر رہے ہیں، خداوند عالم انہیں قبول فرمائے اور آپ اپنی روانگی سے بھی، وہاں (حج کے دوران) بھی اور اپنی واپسی سے بھی ملک میں معنوی اور دینی فضا کی رونقیں بڑھائيں گے۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جن عزیزوں کے فارغ التحصیل ہونے کا جشن ہے اور جو عزیز نوجوان آج سے اپنے کندھوں پر بیج لگاکے علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے ان سب کو اور اسی طرح اس یونیورسٹی کے اساتذہ اور ذمہ دار عہدیداروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے محنتیں کی، زحمتیں برداشت کیں، پلاننگ کی اور اپنی ان تمام محنتوں کا نتیجہ آپ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ میں اسی کے ساتھ انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ یہ دن اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور فضائيہ کے لئے بہت ہی یادگار دن ہے۔ میں فضائیہ کے عظیم شہیدوں، شہید ستاری، شہید بابائی اور دوسرے تمام شہیدوں کو جو اس ملک کی تاریخ کی یادگار ہستیاں اور آسمان افتخار کے روشن ستارے ہیں، ان پر دورود و سلام بھیجتا ہوں۔
انیس بہمن (مطابق آٹھ فروری) اور اس دن فضائیہ نے جو کام کیا ہے اس کا صحیح جائزہ لیا جائے تو اس دن اور تحریک سے متعلق بہت سے مفاہیم سامنے آئيں گے۔ اس دن فوج آکے عوام کے ساتھ اگلے محاذ پر کھڑی ہو گئی۔ انہیں اہداف، انہیں امنگوں، انہیں جذبات اور انہیں طریقوں کے ساتھ ۔ عوام تکلیف میں تھے۔ یہ عظیم انقلاب تھا جو عوام نے رنج و الم اور تکلیفوں سے نجات پانے اور مستقبل کی تعمیر کے لئے برپا کیا تھا۔ اس ملک پر مسلط حاکم کے کالے استبداد سے عوام مصیبت میں تھے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ صورت حال سلطنت کا لازمہ تھی۔ اس لئے نظام بادشاہی، مالکیت اور عوام کی زندگی کے تمام ستونوں کو اپنے چنگل میں لینے کا نظام اور اس کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسرے یہ حکمراں طاغوتی خاندان استبداد اور خودسری کے ساتھ اخلاقی کجروی اور بدعنوانیاں پھیلانے میں مصروف تھا اور سب سے بدتر یہ تھا کہ اس نے ملک و قوم کو دشمنوں اور اغیار کے حوالے کر دیا تھا۔عوام کو اس کی بھی تکلیف تھی ۔ جب کوئی قوم کسی بیرونی طاقت کے ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور فوجی تسلط میں ہو تو ترقی کرنے اور اپنی امنگوں کی طرف آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہر زندہ مخلوق نمو کے مراحل طے کرنا چاہتی ہے۔ آپ کسی پودے کا نمو روکنے کی کوشش کریں تو اس کے اطراف میں جو چیزیں آپ رکھتے ہیں انہیں توڑ کے اور پتھر میں سوراخ کرکے وہ پودا نمو حاصل کرتا ہے۔ انسان اور سماج بھی ایسا ہی ہے۔ تسلط پسند طاقتوں نے قوم کے جذبات و احساسات کو ختم کرنے کے لئے جو راستے سوچے ہیں، وہ اقوام کو بے حس، بے خود اور بد مست رکھنا ہے۔ فاسد اور مفسد پہلوی حکومت تمام وسائل کو بروئے کار لاکر یہ کام کر رہی تھی۔ عوام میں بے حسی، بیخودی اور غفلت پھیلا رہی تھی اور انہیں توہمات میں غرق کر رہی تھی۔ البتہ بعض اوقات ملمع کاری اور 'میک اپ' کے ساتھ یہ کام کئے جاتے تھے۔ اس زمانے میں فوج کو بھی اسی مصیبت میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فوج نے اس کو برداشت نہیں کیا اور حصار توڑ دیا۔ اس دن فضائيہ کے جوانوں کا علوی کالج میں آنا حصار توڑنے کے ہی مترادف تھا۔ میں اس دن علوی کالج میں موجود تھا اور نزدیک سے فضائیہ کے جوانوں کے اس کارنامے اور جوش وجذبے کا مشاہدہ میں نے کیا تھا۔
فوج کو اندر سے کھوکھلا کر رہے تھے۔ فوج ان کے جاہ و جلال اور ظاہری شان و شوکت کے لئے تھی۔ فوج کو صرف ظاہری شان و شوکت دے رکھی تھی۔ لیکن علم، ٹیکنالوجی اور فوجی وسائل کی تیاری کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس کی اجازت ہی نہیں تھی۔ اس زمانے میں بھی فضائیہ کے جوانوں کی استعداد و صلاحیت اج کے جوانوں کی طرح ہی تھی لیکن انہیں ان کاموں کی اجازت ہی نہیں تھی۔ انہیں ایک مخصوص دائرے میں اور ملک سے باہر مخصوص ماحول میں ٹریننگ اور تعلیم دی جاتی تھی۔ صرف فوجی معاملات میں ہی نہیں بلکہ ان کی ثقافت اور ان کے اعتقادات و نظریات میں بھی معیارات اور طور طریقے غیر ملکیوں کے زیر اثر تھے۔ فوج کو جو چند فوجی وسائل دیئے جاتے تھے (وہ بھی ایسے تھے کہ خراب ہونے کی صورت میں فوجی انہیں ٹھیک نہیں کر سکتے تھے) جس فوج کے پاس ایسے اسلحے اور وسائل ہوں کہ ان کے پرزے ہل جائیں یا خراب ہو جائيں تو وہ انہیں ٹھیک نہ کر سکے تو وہ فوج کیا ہے اور کس حد تک خود مختار ہو سکتی ہے؟ صورتحال یہ تھی۔ اس زمانے میں یہ بات نہیں کی جاتی تھی کہ ایرانی فوج اپنے اسلحے اور وسائل خود تیار کرے اور اپنی تحقیقات کے نتائج سے استفادہ کرے۔ یہ بات ہرگز نہیں کی جاتی تھی۔ حتی یہ بات بھی نہیں کی جاتی تھی کہ جو جنگی طیارے یا راڈار یا جدید الیکٹرونک وسائل اس کے پاس ہیں انہیں اچھی طرح پہچانے۔ اس کی اجازت ہی نہیں تھی۔ یہ وہ پتھر، چٹانیں اور دیواریں تھیں جو فوج کی ترقی اور پیشرفت کو روکنے کے لئے کھڑی کی گئی تھیں۔ جس کے گرد بھی یہ حصار کھینچا جائے جب تک وہ بے حس اور بیخود ہے یہ حصار باقی رہے گا لیکن جب وہ ہوش میں آ جائے گا تو حصار توڑ دے گا اور رکاوٹیں ہٹا دے گا۔ یہی ہوا اور فوج حصار توڑ کے باہر آ گئی اور عوام کے ساتھ اگلے محاذ پر کھڑی ہو گئی ۔
عوام نے یہ حصار توڑ دیا اور وہ پردے ہٹا دیئے جو اس لئے لگائے گئے تھے کہ عوام حقیقت کو نہ دیکھ سکیں۔ جس چیز نے عوام کو بیدار کیا، وہ نام خدا، یاد خدا، اسلام اور وہ الہی و خدائی انسان (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اعلی اسلامی اہداف اور اسلامی امنگوں کا زندہ ہونا اور مستقبل کی امید تھی۔ یہ راستہ عوام کے سامنے کھل گیا۔ حق تو یہ ہے کہ مسلح افواج، فوج، پاسداران انقلاب فورس، عوام اور قوم کے مختلف طبقات گزشتہ بیس سال میں امتحان میں کامیاب رہے۔ ایرانی قوم آج تاریخ میں سرخ رو ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ یہی ختم ہونے والی بیسویں صدی انقلاب کی صدی تھی۔ اس صدی کے دوسرے عشرے سے بلکہ اس کے پہلے ہی عشرے سے سماجی اور سیاسی انقلابات شروع ہوئے اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ دسیوں حوادث رونما ہوئے، جو واقعی انقلاب تھے یا انہیں انقلاب کا نام دیا گیا۔ بعض فوجی بغاوتیں تھیں جن کو انقلاب کہا گیا۔ میں کسی ایسی قوم کو نہیں جانتا ہوں جس نے ایرانی قوم کی طرح پوری آگاہی، اصولوں اور امنگوں کے ساتھ، ایسی بیداری اور بہادری کے ساتھ اپنے راستے، اپنے کام اور اپنی امنگوں کا دفاع کیا ہو۔ یہ آپ سے مخصوص ہے۔ یہ مبالغہ اور بیجا تعریف نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جس کو بھی گزشتہ سو سال کی رودادوں کی اطلاع ہو وہ گواہی دے گا کہ ایرانی قوم، بہت عظیم، دلیر اور قابل فخر قوم ہے جس نے ترقی اور پیشرفت کی ہے۔ اسی طرح جس کو بھی اطلاع ہو وہ جانتا ہے کہ ایرانی قوم کی طرح کسی بھی قوم کو دشمنوں کی وحشیانہ اور ایسی روشوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے جو شرافت اور اخلاق کے تمام معیاروں اور اصولوں سے دور ہیں۔ دشمن ہمارے ساتھ اس طرح پیش آئے ہیں۔ ہم نے ان رکاوٹوں کو اپنے راستے سے ہٹا دیا اور پیشرفت کی۔
آج ہماری فوج ایک ترقی یافتہ، آگاہ اور صاحب علم و دانش فوج ہے۔ تحقیق و ریسرچ کی مالک ہے اور اسلحے نیز فوجی وسائل خود تیار کرتی ہے۔ آج ہماری فوج یک صالح فوج ہے۔ آج فوج میں ہمارے جوان مومن، صالح، فداکار، دلیر اور قابل فخر ہیں۔ جو قوم بھی اپنی مسلح افواج کو ایسا پائے گی ، وہ خوشیوں سے سرشار ہو جائے گی۔ وہ قید و بند، برائیاں اور رسوائیاں جو دوسری جگہوں پر دیکھنے میں آتی ہیں یا سنی جاتی ہیں، الحمد للہ ہماری فوج اور مسلح افواج میں نہیں ہیں یا بہت کم ہیں۔
ہمارے عزیز جوانو! عزیز کمانڈرو! اس حالت کو ختم نہ ہونے دیں۔ جہاں بھی ہوں، فضائیہ میں ہوں ، بری فوج میں ہوں یا بحریہ میں ہوں، یا دیگر مسلح فورسز میں، پاسداران انقلاب اسلامی فورس میں، یا پولیس فورس میں یا دوسری جگہوں پر، جہاں بھی ہوں، پاکیزگی اور تقدس کی یہ کیفیت جو ہماری مسلح افواج میں وجود میں آئی ہے، اس کو کم نہ ہونے دیں، ہر قیمت پر اس کی حفاظت کریں۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو علمی مراکز میں ہیں آپ کے معلمین اور کمانڈر، سب اس بات کا خیال رکھیں کہ اس خلوص، نورانیت اور طہارت میں روز افزوں اضافہ ہو۔ اس قوم کی مشکلات اس طرح دور ہوں گی، وہ اس راہ میں اپنے اہداف تک پہنچے گی اور سربلند و سرافراز ہوگی۔ کوئی بھی بڑی آرزو، صبر و تحمل، استقامت، انتھک کوششوں، توجہ، خدا پر توکل آلودگیوں سے دوری اور پاکیزگی و طہارت کے بغیر پوری نہیں ہوتی۔ آج دنیا میں جو ترقی و پیشرفت اور پسماندگی پائی جاتی ہے اگر ان کا تجزیہ کریں اور ان کے علل و اسباب کا پتہ لگائیں تو دیکھیں گے کہ حقیقت یہی ہے۔ جہاں بھی کسی گروہ یا جماعت نے کوئی بڑا ہدف حاصل کیا ہے، وہاں یہ ضروری چیزیں موجود رہی ہیں، جد و جہد، استقامت، پائیداری اور روز مرہ کی زندگی میں رکاوٹیں بننے والی چیزوں سے دامن کو پاک رکھنا۔ اجتماعی کاموں میں اس طرح کی چیزوں میں جو انفرادی زندگی میں بہت اچھی اور ضروری ہو سکتی ہیں، لیکن جب امنگوں اور اصولوں کی بات ہو تو رکاوٹ بن جاتی ہیں، ایسی چیزوں میں غرق نہیں ہونا چاہئے۔
خدا وند عالم آپ کو توفیق عنایت فرمائے۔ فضائیہ کے تعلق سے میں دیکھتا ہوں کہ میری بہت سے آرزوئيں پوری ہو گئی ہیں؛ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ابھی بہت سی آرزوئيں ایسی ہیں جو آپ پوری کر سکتے ہیں۔ یہ ذاتی آرزوئیں نہیں ہیں۔ یہ اس قوم کی آرزوئیں ہیں، مسلح افواج کی آرزوئيں ہیں۔ آپ کو بہت کام کرنے ہیں، بہت محنت کرنی ہے۔ جد و جہد اور راہ خدا کو ترک نہ کریں؛ اس راستے پر آگے بڑھتے رہیں۔ جس طرح اس وقت نظر آ رہا ہے، ان شاء اللہ اس کے بعد بھی جب بھی یہاں کا مشاہدہ ہوگا پہلے سے بہتر، زیادہ پیشرفت، زیادہ شکوہ اور معنوی لحاظ سے زیادہ عظمت کا مشاہدہ کیا جائے گا۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سبھی بہنوں اور بھائیوں، بالخصوص اس مجمع میں موجود شہیدوں کے لواحقین، جانبازوں ( ایران میں جانباز ان سپاہیوں کو کہا جاتا ہے جو انقلابی تحریک کے دوران یا جنگ میں جسمانی لحاظ سے معذور ہو گئے ہیں) آزادگان (آزادگان آزادہ کی جمع ہے اور آزادہ اس سپاہی کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے دوران دشمن فوج کے ذریعے قیدی بنالئے گئے تھے) اور ان تمام لوگوں کو جنہوں نے دوسرے شہروں سے اور دور دراز کی مسافتیں طے کرکے یہاں تشریف لانے کی زحمت کی ہے، خوش آمدد کہتا ہوں۔ آپ مومن، بیدار اور انقلابی نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں، خداوند عالم آپ کو اس ملک کے لئے، اسلام اور مسلمین کے لئے محفوظ رکھے اور آپ کے لئے اپنے لطف و کرم میں روز افزوں اضافہ کرے۔
عشرہ فجر آگیا۔ یہ ایام ایرانی قوم کے لئے ناقابل فراموش ہیں۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایران آنے سے لیکر اس وقت تک جب اس ملک میں طاغوت کی کمر پوری طرح توڑ دی گئی، ایرانی قوم نے انتہائی پرشکوہ اور یادگار انقلابی ایام گزارے ہیں۔ عشرہ فجر ایرانی قوم کی اسی فداکاری، عظمت اور شکوہ کا مظہر ہے۔ اس عشرے میں ایران کی بہادر، دلیر اور محکم و پائیدار قوم نے اپنی اور ایران بلکہ اسلام اور مسلمین کی عزت و عظمت کی بنیاد رکھی۔ بیس سال سے، عشرہ فجر شروع ہوتے ہی ایرانی قوم کی بے مثال مجاہدت کی یاد منائی جاتی ہے اور کتنا اچھا ہے کہ ان عظیم ایام میں باخبر اور وہ لوگ جو ان حوادث سے باخبر ہیں، انہیں مو بہ مو نئی نسل کے لئے بیان کرتے ہیں۔
میرے عزیزو! یہ بیس سال جو 1357 (ہجری شمسی مطابق 1979 عیسوی) کے عشرہ فجر سے شروع ہوئے، یہ بیس سال ایک طرف ایرانی قوم کے قابل فخر کارناموں اور اس کی صلاحیتوں میں نکھار آنے کے سال ہیں اور دوسری طرف اس بیس سال میں اس پر بے شمار مصیبتیں اور مشکلات بھی مسلط کی گئی ہیں۔ یہ مصیبتیں جو ہماری قوم پر مسلط کی گئيں، جن میں سے ایک آٹھ سالہ جنگ تھی اور اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی ناکہ بندی اور انواع و اقسام کے دباؤ ہیں جو بیس سال سے آج تک جاری ہیں، یہ کس لئے ہیں؟ سامراج، عالمی تسلط پسند حلقے اور دنیا کے بڑے سرمایہ دار جو بہت سے مغربی ملکوں پر حکومت کر رہے ہیں، ایرانی قوم کی جان کے درپے کیوں ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس دشمنی کی اصلی وجہ یہ ہے کہ ایرانی قوم نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر دیا اور بتا دیا کہ وہ اغیار کے تسلط میں نہیں رہنا چاہتی۔ اس لئے کہ یہ قوم برسوں اغیار کے تسلط کے دردناک نتائج دیکھ چکی ہے۔ آج ایرانی قوم کی بہت سی پریشانیاں اغیار کے دور تسلط کی ہی دین ہیں۔ جب کوئی حکومت اور طاقت کسی قوم پر مسلط ہو جاتی ہے تو اس کی کسی چیز پر رحم نہیں کرتی۔ اس کی دنیا پر، نہ دین پر، نہ عزت و شرف پر، نہ ناموس پر، نہ سرمائے اور قومی ذخائر پر، نہ تیل پر اور نہ افرادی قوت پر، کسی پر بھی رحم نہیں کرتی۔ ان سب کو غارت اور تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ انہیں بربادیوں کے نتیجے میں ایرانی قوم آج تک مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہے۔
ایرانی قوم نے اپنے انقلاب میں ایک بڑی بات کہی کہ ایران اور ایرانی اغیار کے تسلط میں نہیں جانا چاہتے۔ یہ غیر چاہے امریکا ہو، چاہے برطانیہ ہو اور چاہے روس ہو، کوئی بھی ہو، ایرانی آزاد اور خود مختار رہنا چاہتے ہیں۔ آزادی و خود مختاری چاہنے کی وجہ سے ہی وہ ایران کے دشمن ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایرانی قوم کی یہ حریت پسندی اسلام اور دینی جذبے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ جو بھی اسلام سے زیادہ نزدیک ہو، اس کے اندر خودمختار رہنے کا جذبہ زیادہ قوی ہو، اس سے ان کی دشمنی زیادہ ہوتی ہے۔ بیس سال سے جاری یہ دشمنی یہ کینہ اور یہ بدخواہی انہی باتوں کی وجہ سے ہے۔ لیکن ایرانی قوم نے اپنے استحکام، استواری اور استقامت سے دوسروں کو بھی درس دیا ہے۔
ہماری ایرانی قوم اور ہمارے عزیز نوجوان جان لیں کہ جو درس آپ نے دیا ہے وہ دوسری اقوام نے حاصل کر لیا ہے، صرف عوام نے ہی نہیں بلکہ ان کے دانشوروں نے بھی حاصل کر لیا ہے۔ ایرانی قوم کے رزمیہ کارنامے آج بہت سے ملکوں کی ادبیات، نثر و نظم اور آرٹ میں جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایرانی قوم نے اپنی استقامت اور شجاعت سے ثابت کر دیا کہ بڑی طاقتیں جتنا ظاہر کرتی ہیں، اتنی طاقتور نہیں ہیں۔ ان کی طاقت توپوں اور ٹینکوں کی طاقت ہے اور توپ اور ٹینک اقوام کے دل، جذبات اور ایمان سے جنگ نہیں کر سکتے۔ جب کوئی قوم استحکام کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو عالمی طاقتیں اس کے مقابلے کی تاب نہیں لا پاتیں۔ ایرانی قوم نے آج یہ بات ثابت کر دی ہے۔ ایرانی قوم نے بارہا اپنی استقامت اور پیشرفت سے دشمن کو عملی طور پر پسپا اور ناکام کیا ہے۔ آج بھی ہمارے تسلط پسند دشمنوں کا اصلی مقصد یہی ہے۔ آج ایرانی قوم کی حیثیت سے ہم پر افتخار راستے پر چل رہے ہیں، بڑے بڑے حوادث سے گزر رہے ہیں اور اپنی تاریخ کے اہم باب خود رقم کر رہے ہیں۔
مستقبل قریب میں ایرانی عوام کے سامنے پارلیمنٹ کے انتخابات ہیں۔ انتخابات کے بارے میں میں سب سے بالخصوص آپ نوجوانوں سے کچھ باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اگرچـہ ہمارے عوام بہت سے مسائل سے باخبر ہیں لیکن ان باتوں کی یاد دہانی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ الیکشن بہت اہم ہے۔ ایران قوم کے لئے بھی اہم ہے اور دشمن کے لئے بھی اہم ہے۔ ایرانی قوم کے لئے کون سی چیز اہمیت رکھتی ہے؟ ایرانی عوام کے لئے یہ بات اہم ہے کہ ثابت کر دیں کہ بیس سال گزرنے کے بعد بھی سیاسی میدان میں، پرشکوہ انداز میں اور جوش و خروش کے ساتھ موجود ہیں اور اپنے ووٹوں سے قانون ساز ادارے کے اراکین کو منتخب کریں گے۔ یہ الیکشن دشمن کے لئے کیوں اہم ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ الیکشن میں عوام کی مشارکت زیادہ نہ ہو تاکہ یہ کہہ سکے کہ عوام انقلاب اور اسلامی نظام سے نالاں ہیں۔ دوسرے دشمن چاہتا ہے کہ عوام اس کے شور شرابے، الزامات اور افواہوں سے متاثر ہو جائيں، دہشت زدہ ہو جائيں اور پارلیمنٹ میں اپنے حقیقی نمائندے نہ بھیج سکیں۔ پر فریب اور رنگارنگ پروپیگنڈوں کے زیر اثر اپنے دل پسند اور قابل اطمینان افراد کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجنے میں ناکام رہیں۔ اسی لئے آپ نے دیکھا کہ حال ہی میں ایک امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران کی پارلیمنٹ کیسی ہوگی۔ بہت خوب، دیکھو، انتظار کرو اور دیکھو کہ ایرانی قوم ایک بار پھر کس طرح تمہیں دنداں شکن جواب دیتی ہے! البتہ میں نے اس سے پہلے بھی سنا تھا کہ انھیں لوگوں نے، جن میں زیادہ تر امریکی تھے، اور ان کے بعض زرخرید افراد نے کسی نشست میں کہا ہے کہ ہم ایران کے انتخابات کے منتظر ہیں۔ لیکن یہ حضرت ایک بار پھر حماقت کر بیٹھے، خصوصی نشست کی بات برملا اور ایرانی عوام کے سامنے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی حقیقت بیان کر گئے۔ وہ مداخلت کرنا چاہتے ہیں، ان کی حریص نگاہیں گڑی ہوئی ہیں لیکن جان لیں کہ ایرانی عوام ہوشیار ہیں۔
سبھی ہوشیار رہیں؛ ذمہ دار افراد بھی، سیاسی شخصیات بھی اور عوام بھی۔ انتخابات سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار افراد پوری ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام اس طرح انجام دیں کہ ان کے کام میں معمولی سا بھی نقص نہ رہے۔ یعنی قانون کی پوری پوری رعایت کریں۔ میں وزارت داخلہ اور آئين کی نگراں کونسل، دونوں کا دفاع کروں گا۔ دونوں ہی اسلامی نظام کے اہم ادارے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے فرائض ہیں۔ وزارت داخلہ پوری طرح قانون کے مطابق عمل کرے اور عوام کے ووٹوں میں خیانت نہ ہونے دے۔ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ووٹ جمع کریں اور پوری امانت داری اور توجہ کے ساتھ ان کی گنتی کریں تاکہ نتیجہ معلوم ہو سکے۔ نگہبان کونسل بھی پوری توجہ اور دیانت داری کے ساتھ نگرانی کرے تاکہ انتخابات میں کسی بھی قسم کی کوئی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ نگہبان کونسل قوم کے بدخواہوں کو قانون ساز ادارے میں نہ پہنچنے دے۔ انقلاب کے بدخواہوں کو اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بدخواہوں کو ملک کے قانون ساز ادرے میں پہنچنے سے روکے۔ یہ وہ پارلیمنٹ ہے جس کے انتخابات امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی برسی کے موقع پر ہونے جا رہے ہیں۔ نگراں کونسل اور وزارت داخلہ، دونوں اداروں کو اس تعلق سے اپنے فرائض پر عمل کرنا چاہئے۔ ہم سب کو دعا کرنا چاہئے اور خداوند عالم سے ان کے لئے توفیق اور نصرت طلب کرنا چاہئے۔
سیاسی شخصیات اور عوام کے لئے یہ بات اہم ہے کہ انتخابات ایسے ماحول میں انجام پائيں جس میں جوش و خروش اور زندگی و نشاط کے ساتھ ہی سکون اور متانت بھی ہو۔ یعنی جوش و خروش ہو، کشیدگی نہ ہو، بلکہ متانت اور سکون ہو۔ انتخابات کے لئے یہ ماحول اچھا ہے۔ جو بھی اس طرح عمل کرے وہ خدمت کرےگا۔ جو بھی اس کے برعکس عمل کرے، یا عوام کو انتخابات سے بدظن کرے یا انتخابات کے نتائج کی جانب سے انہیں مایوس کرے، یا ماحول کو بے جا الزامات، افواہوں اور جھوٹے تنازعات کے ذریعے پرآشوب کرے امن و سکون ختم کرے، وہ خیانت کرے گا، وہ جو بھی ہو خائن ہوگا۔ سب اس کو جان لیں۔
عوام غور سے دیکھ رہے ہیں اور ان معاملات میں، دوستوں، دشمنوں، خیرخواہوں اور بدخواہوں کو پہچانتے ہیں۔ خیرخواہ وہ ہے جو ماحول میں جوش و خروش کے ساتھ ہی امن و سکون باقی رکھے۔ انتخابات کے لئے ماحول کو سازگار بنائے اور ایسا ماحول تیار کرے کہ عوام انتخابات میں شرکت کریں۔ ان شاء اللہ ان انتخابات میں اس سے پہلے کے انتخابات سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام شرکت کریں گے۔ بدخواہ وہ ہے جو طعنے دیتا ہے اور عوام کو بدظن کرنے کی کوشش کرتا ہے، ماحول کو کشیدہ بناتا ہے یعنی تہمت لگانے، بدگمانی پیدا کرنے اور سیاسی کشیدگی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بہت برے کام ہیں۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ لڑائی جھگڑا رہے۔ کیوں لڑائی رہے ؟ عوام آپس میں لڑکے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ عوام کی آرزوئیں اور خواہشات اتحاد، ہمدلی اور یک جہتی سے پوری ہوتی ہیں۔ بعض لوگ عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے برائی کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ دلوں میں کینہ کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ایک دوسرے کے خلاف مستقل طور پر الزام تراشی کی فضا کیوں وجود میں لانا چاہتے ہیں؟ اس سے خلوص، امانتداری اور صداقت سے ہاتھ خالی ہو جانے کے علاوہ عوام، مملکت، مستقبل اور ںظام کو کیا حاصل ہوگا؟ وہ لوگ کچھ بولنا چاہتے ہیں تو اس طرح بولتے ہیں اور اس طرح لکھتے ہیں۔ ملک کے ماحول میں جوش و جذبہ اور ہمدلی پیدا کریں؛ یہ سب کا فریضہ ہے۔
عوام کا بھی شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ انتخابات میں جو وقت باقی بچا ہے اس میں امیدواروں کے بارے میں جستجو کریں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کا انتخاب کریں تاکہ جب خدا کے سامنے ان سے سوال کیا جائے کہ تم نے قانون ساز ادارے میں ان صاحب یا اس خاتون کو اپنا نمائندہ بناکے کیوں بھیجا تھا تو جواب دے سکیں کہ میری نظر میں ان کو اپنا نمائندہ بنانا مناسب اور مصلحت کے مطابق تھا۔ الیکشن، فریضہ ہے۔ الیکشن ایک بہت بڑا کام، ایک شرعی اور خدا کے لئے انجام پانے والا کام ہے۔ جستجو کیجئے اور اس کام کے لئے مناسب افراد کا انتخاب کیجئے۔ مناسب فرد کیسا ہوتا ہے؟ کارآمد ہو۔ یہ میرا بیس سال کا تجربہ ہے۔ صرف کارآمد ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کو متدین بھی ہونا چاہئے۔ متدین انسان سے خیانت کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ متدین افراد سے اگر کبھی کوئی لغزش ہوتی ہے تو پہلے ان کا تقوی ختم ہوتا ہے اس کے بعد یہ لغزش ان کے پاس پہنچتی ہے۔ لہذا اس کو متدین اور متقی دونوں ہونا چاہئے تاکہ اس مملکت کے امور میں آپ اس پر اعتماد کر سکیں۔ اسی طرح اس کو دلیر اور بہادر بھی ہونا چاہئے جو لوگوں کے طعنوں، دھمکیوں، ملکی اور غیر ملکی متکبرین اور تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والا ہو۔ دھمکیوں سے جس کا دل لرز جائے، دستخط کرتے وقت جس کا ہاتھ کانپنے لگے، آگے بڑھنے میں جس کے پیر لرزنے لگیں اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندے کو شجاع، باشرف، امین اور کمزور طبقات کا طرفدار ہونا چاہئے۔ قانون کو ایسا ہونا چاہئے جو کمزوروں کا دفاع کر سکے۔ جس قانون سے پیسے والے مزید دولتمند بنیں وہ اسلامی مملکت کا قانون نہیں ہو سکتا۔ قانون ایسا ہونا چاہئے جو مشکلات اور محروم طبقات کے مسائل کو حل کر سکے۔ رکن پارلیمنٹ ایسا فرد ہونا چاہئے جو ان باتوں کو سمجھ سکے۔ حتی المقدور تجربہ کار افراد کا انتخاب کریں۔ ان بڑے کاموں میں تجربہ بہت اہم ہے۔ جستجو کیجئے، ان افراد کو تلاش کیجئے جن کے اندر یہ خصوصیات ہوں۔ متدین، پاکدامن، کارآمد، شجاع اور قوت استقامت کا مالک فرد اگر قانون ساز ادارے میں جائے تو ہمارا بیس سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ حساس مواقع پر عوام اور ملک کے مفاد میں کام کر سکتا ہے۔ اس طرح کے افراد اہم ہوتے ہیں۔ البتہ ملک میں کہیں سے بھی منتخب ہوکے کوئی فرد جب پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرتا ہے تو وہ پورے ایران کا نمائندہ ہوتا ہے صرف اس مخصوص جگہ کا نہیں جہاں سے اس کو منتخب کیا گیا ہے۔ لہذا اس کو پورے ملک کی مصلحت کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھیں۔ جستجو کریں اور ایسے افراد کو تلاش کریں اور ان کی شناخت حاصل کریں۔ اگر آپ خود اچـھی طرح جستجو کرنے اور پہچاننے سے قاصر ہوں تو امین اور متدین افراد سے جو آپ کے لئے قابل اعتماد ہوں، سوال کریں۔
خدا کے فضل سے مجھے امید ہے اور میں جانتا ہوں کہ انقلاب سے لے کے آج تک خدا نے اس قوم کو اس کے حال پر چھوڑا نہیں ہے۔ ایک بار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے مجھ سے فرمایا اور میں نے خود بھی بارہا تجربہ کیا ہے کہ دست قدرت اور اس کی نصرت کا سایہ اس قوم کے سر پر ہے۔ یہ خلوص، یہ نیتوں کی پاکیزگی، یہ تمام طبقات کے لوگوں کے دلوں کی نورانیت جو بالخصوص، پورے ملک کے نوجوانوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے، یہ رحمت الہی کے نزول کا ذریعہ بنتی ہے، حضرت بقیۃ اللہ (امام مہدی ) ارواحنا فداہ کی دعاؤں، عنایات اور نظر کرم کی برکت سے، خداوند عالم ان انتخابات کو بھی ان شاء اللہ اسلام اور مسلمین کے فائدے میں تکمیل کے مراحل تک پہنچائے گا، انقلاب کی سربلندی اور اسلامی انقلاب کے اہداف پورے ہونے کا سبب قرار دے گا اور ان شاء اللہ آئندہ پارلیمنٹ بہت اچھی ہوگی۔
جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ سب انتخابات میں شرکت کو اپنا فریضہ سمجھیں، ملک میں ہر جگہ عوام انتخابات میں بھر پور شرکت کریں اور ندائے انقلاب، ندائے اسلام اور ندائے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر لبیک کا ثبوت دیں تاکہ خداوند عالم شہیدوں کی ارواح پاک اور ان کے طیب و طاہر خون کی برکت سے اس قوم کی اس راہ پر چلنے کی ہدایت فرمائے جو صحیح اور اس کی مرضی کے مطابق ہے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین قال اللہ الحکیم فی کتابہ:اذ جعل الّذین کفروا فی قلوبھم الحمیّۃ حمیّۃ الجاھلیّۃ فانزل اللہ سکینتہ علی رسولہ و علی المومنین و الزمھم کلمۃ التّقوی و کانوا احقّ بھا و اھلھا و کان اللہ بکلّ شیء علیما۔
جلسہ بہت ہی معطر اور منور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کے ایام ہیں، رمضان میں ہماری زندگی کی فضا پر رحمت الہی کی بارش ہوتی ہے، جو ان آلودگیوں، گندگیوں اور برائیوں کے اس زنگ کو جو ہم خود اپنی زندگی اور اپنے دلوں میں پیدا کر دیتے ہیں، دھو دیتی ہے اور ہمارے دلوں کی صفائی کرکے اس کو منور کر دیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جلسے میں وہ لوگ ہیں جو یہ توفیق رکھتے ہیں کہ اگر ان شاء اللہ جو کام کر رہے ہیں، صحیح نیت کے ساتھ ہو، خدا سے امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا، تو خدا کے بہترین بندوں کی صف میں قرار پائیں گے۔ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ بہت اہم ہے۔ آپ کے کام کے اثرات بہت گہرے اور وسیع ہیں۔ لہذا ان شاء اللہ اگر نیت وہی ہو جو ہونی چاہئے تو آپ کا موازنہ اسی وجہ سے جو میں نے عرض کی، عام لوگوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ آپ موثر، مومن، اس ملک اور نظام کے مسائل کے ماہر ہیں، رمضان کے مبارک مہینے میں، روزے کی حالت میں، روزے داری کی معنویت سے معطر سانسوں کے ساتھ یہاں جمع ہوئے ہیں، لہذا یہ جلسہ بہت اہم ہے۔
میں نے گزشتہ سال اس جلسے میں "سکینہ" کے بارے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ حکام میں اس "سکینہ" یعنی اطینان، سکون، عدم اضطرات اور عدم تلاطم کا اثر یہ ہے کہ اگر کوئی مشکل در پیش ہو تو وہ اس سکون کے سائے میں صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں۔ حوادث کے موقع پر مضطرب، پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ سختیوں اور دشوار حوادث کا چٹان اور پہاڑ کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کوئی بڑی کامیابی مل جانے اور خوشیوں کے مواقع پر بھی ہوش و حواس بجا رکھتے ہیں۔ یہ موثر انسانوں کے لئے خطرناک بات ہوتی ہے کہ جیسے ہی کوئی مشکل یا کوئی مہم در پیش ہو یا کامیابی مل جانے کا احساس ہو تو انسان ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ جلد بازی میں فیصلے کرے۔ دوسروں کی تذلیل کرے، خود سری بڑھ جائے۔ اگر 'سکینہ' ہو یعنی اطمینان اور وقار الہی ہو تو انسان اس چیز سے بچتا ہے؛ یعنی اس سے ایسے کام سر زد نہیں ہونے دیتا جو چھوٹے اور ایسے انسانوں کا لازمہ اور علامت ہیں جو معمولی سی بھی ہوا سے سوکھی گھاس پھوس کی طرح اڑنے لگتے ہیں۔ جن انسانوں ميں 'سکینہ' ہوتا ہے وہ گہرے سمندر کی طرح ہوتے ہیں اور ہر نسیم اور ہر ہوا ان کے اندر طوفان نہیں پیدا کر سکتی۔ غربت میں، امیری میں، تنہائی کے عالم میں اور اس عالم میں بھی جب لوگوں کا اژدہام ساتھ ہو، یہ 'سکینہ' انسان کے کام آتا ہے۔
قرآن کریم میں بار بار 'سکینہ' کا ذکر آیا ہے اور میں نے گزشتہ سال بھی اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ یہ ہمارے حکام کا 'سکینہ' ہے جس نے اپنے وجود کا ثبوت دیا ہے۔ اقتصادی آمدنی میں کمی آئی، اقتصادی مشکلات در پیش ہوئيں، سیاسی مشکلات سامنے آئیں، سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ اس سال موسم گرما میں دشمنوں نے اسی تہران میں کیسا طوفان حوادث کھڑا کیا۔ اگر انسان میں 'سکینہ' اطمینان، سکون، خدا پر اعتماد اور توکل، مستقبل اور حق پر یقین نہ ہو تو اس قسم کے حوادث پر اس کے ہاتھ پاؤں پھول جائيں۔ خاص طور پر اگر اس کو معلوم ہو کہ یہ حوادث ایسے ہیں جن کی دشمن نے منصوبہ بندی کی ہے۔ جو بعید نہیں ہے اس کے قرائن موجود ہیں۔ دشمن نے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد دس سالہ منصوبہ بندی کی تاکہ ان دس برسوں میں نتیجے تک پہنچ جائے۔ شاید ہماری اقتصادی مشکلات، تیل کی قیمتوں کا گرنا، سیاسی مسائل، بعض ثقافتی مشکلات، اقتصادی پریشانیاں اور سیکورٹی سے متعلق بعض مسائل دشمن کی اس منصوبہ بندی سے کا حصہ ہوں۔ اگر یہ فرض کریں، جس کے شواہد بھی موجود ہیں، تو یہ آپ حکام کا، ان حضرات اور احباب کا جو یہاں موجود ہیں، 'سکینہ' ہی تھا (جو اس موقع پر ظاہر ہوا)۔ لیکن عوام کا 'سکینہ' کیا ہے؟ عوام کو بھی سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے۔ ممتاز لوگوں کا یہ 'سکینہ' عام لوگوں تک کیسے پہنچایا جائے؟ البتہ ہمارے بہت سے عوام کا ایمان بہت اچھا، شفاف اور روشن ہے۔ عوام نے ثابت کیا ہے کہ ان کے اندر مشکلات سے نمٹنے کی حقیقی توانائی موجود ہے۔ یہ وہ توانائی ہے جس کا سرچشمہ دین اور ایمان ہے۔ لیکن وہ جماعت جو امور مملک و ملت چلانے کی ذمہ دار ہے، وہ اس معاملے سے خود کو الگ نہیں کر سکتی۔ ہمارے تمام فرائض اقتصادی اور سیاسی فرائض تک ہی محدود نہیں ہیں۔ عوام کے معنوی امور سے متعلق بھی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اگر لوگ اخلاقی اور روحانی امور میں پیچھے کی طرف واپس جائيں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ معاشرے میں کوئی بھی اس کے لئے جواب دہ نہیں ہے۔ اب اگر یہ طے ہو کہ اس معاملے میں بھی کوئی جوابدہ ہے، تو یہ جوابدہی کس کی ہے؟ یقینا ملک کے حکام اس قضیے سے خود کو الگ نہیں کر سکتے۔ ہر ایک اپنے اپنے طور پر اس کا ذمہ دار ہے۔ بنابریں عوام نیچے سے لیکر اوپر تک عوام کے سبھی طبقات کے معنوی امور کی ذمہ داری بھی ملک کے حکام کے کندھوں پر ہے۔
یہاں ایک اور عنصر بھی سامنے آتا ہے اور میں نے جس آیہ کریمہ کی تلاوت کی ہے اس کے ذریعے اسی عنصر کی طرف اشارہ مقصود ہے جو 'سکینہ' سے جڑا ہوا ہے اور وہ ہے 'تقوا'۔ اس آیہ کریمہ میں محاذ کفر اور محاذ ایمان کے درمیان مقابلہ ہے۔ محاذ کفر کے لئے جاہلانہ حمیت اور تعصب کا ذکر کیا گيا ہے۔ یہ حدیبیہ اور اس کے بعد کے واقعات سے تعلق رکھتا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کے انتہائی اہم امتحانات میں شمار ہوتے ہیں۔ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور مسلمان مکہ جانے کے ارادے سے حدیبیہ گئے اور حدیبیہ میں قیام کیا تو دشمن ان پر جنگ مسلط کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تدبیر الہی نے اس کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ مسلمان بغیر جنگ کے واپس ہوئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشرکین سے ایک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ اتنا اہم تھا کہ بعض روایات کے مطابق آیہ کریمہ 'انا فتحنا' اسی معاہدہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی اور اس کو فتح مبین کہا گیا۔ 'انا فتحنا لک فتحا مبینا' یعنی یہی صلح حدیبیہ۔ خداوند عالم آیات قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے حالات کی وضاحت فرماتا ہے اور محاذوں کا تعین کرتا ہے۔
اسلامی نظام میں جس بات پر ہمشیہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے وہ محاذوں کا مشخّص ہونا ہے۔ محاذ حق اور محاذ باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے۔ ممکن ہے محاذ باطل سے صلح کی جائے، کوئی حرج نہیں ہے۔ ممکن ہے کسی موقع پر اس سے آشتی کی جائے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن زنہار! ان دونوں محاذوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والے خطوط کبھی نہیں مٹنے چاہئں۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ حق کون ہے اور کہاں ہے؟ وہ کیوں اور کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کا ہدف، روش، تدبیر اور طرز عمل کیا ہے؟ باطل کون اور کیا ہے؟ اس کا ہدف کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی طرف سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ حق اور باطل کے درمیان اس فرق اور حد بندی کی طرف سے غفلت محاذ حق کے فائدے میں نہیں ہے۔ کوئی بھی اہل حق کی اس بات پر تحسین اور تعریف نہیں کرےگا کہ انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ حق پر کیوں ہیں، انہیں کیا کرنا چاہئے اور ان کے مقابلے پر کون ہے؟ ان کے دشمن بھی اس بات پر ان کی تحسین نہیں کریں گے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے حق اور باطل کے درمیان فرق اور سرحدیں واضح کر دی ہیں۔ آپ پہلے کفار کی حالت واضح کرتے ہیں۔ یعنی اس مقابل محاذ کی حالت واضح کرتے ہیں کہ جس میں رخنہ ڈال کر اور جس کو پیچھے دھکیل کے اپنی حقانیت کا دائرہ وسیع کرنا آپ کی بعثت، آپ کے ظہور، آپ کے نظام اور آپ کے جہاد کا مقصد ہے۔ محاذ کفر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محاذ کفر کو جو دعوت حق کے مقابلے پر آنے والوں کا محاذ ہے، واضح ہونا چاہئے۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ حق، محاذ کفر کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ در اصل دیکھنا یہ چاہئے کہ حق کیوں آیا ہے؟ خداوند عالم نے اپنے پیغمبروں کو دعوت حق کا حکم کیوں دیا ہے؟ پیغمبران الہی دعوت حق کیوں دیتے ہیں؟ پیغام حق جو انسانوں کی نجات کا پیغام ہے، اگر اس کا کوئی فلسفہ، حکمت اور لازمہ ہے پیغام لانے والوں پر جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے بعد وہ سلسلہ ہے جو تا ابد باقی رہے گا، اگر اس پر اس پیغام کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس محاذ حق کا ہدف کیا ہے اور یہ محاذ اپنے ہدف تک کس طرح پہنچنا چاہتا ہے؟
انسانوں کو نجات کس چیز سے حاصل ہوگی؟ صرف نصیحت اور موعظے سے تو حاصل نہیں ہو سکتی۔ لہذا محاذ حق یعنی تمام انبیا جس دور میں بھی انہیں موقع ملا، (عوام کے درمیان) آئے، قدم آگے بڑھایا اور جو کام کیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے انسانوں کے اذہان میں اور ان کی زندگی میں ان حقائق کو مجسم کیا جن کا جاننا انسانوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ نجات اور فلاح سے نزدیک تر ہو سکیں۔ یہ محاذ حق کا کام ہے۔ اس کے لئے مجاہدت کی ضرورت ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ حق کی حقانیت کے مقابلے میں مخالف موجود ہے۔ اگر حق انسانوں کی نجات کی بات کرتا ہے تو کچھ ایسے بھی ہیں جو انسانوں کی گرفتاری اور اسیری بھی چاہتے ہیں۔ حق اگر عدل و انصاف کی بات کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں کچھ لوگ عدل و انصاف کے مخالف یا ظلم کے طرفدار ہیں۔ حق اگر خدا کی پرستش کی دعوت دیتا ہے تو کچھ لوگ خدائی کے دعویدار ہیں اور خدا کے وجود اور اس کے سامنے جھکنے کے منکر ہیں۔ فطری طور پر یہ سب مخالفت کریں گے۔ مخالفین کے مقابلے میں مجاہدت کے بغیر نہ اس پیغام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ذہنوں میں حقیقت کو مجسم کیا جا سکتا ہے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کفار کی صورتحال مشخص فرماتے ہیں۔ مومنین میں جو لوگ کمزور ہیں ان کی حالت بھی مشخص کرتے ہیں۔ یعنی جو آدھے راستے پر ہیں، چاہے منافق ہوں یا وہ لوگ حقیقی معنی میں منافق نہیں ہیں اور ایسا نفاق نہیں رکھتے کہ منافقت کریں، لیکن ان کی طبیعت میں تزلزل پایا جاتا ہے۔ اسلام ان لوگوں کو بھی مومن اور مستحکم مسلمانوں میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ مسلمان ڈر کی وجہ سے رسول کے ساتھ جنگ حدیبیہ میں شرکت کے لئے نہیں گئے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ہم گئے تو کفار رسول اور ان کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کو ختم کر دیں گے (اور ہم بھی مار دیئے جائيں گے)۔ جب رسول واپس آئے تو وہ لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ کچھ مشکلات آ گئی تھیں، کام پیش آ گیا تھا، اس وجہ سے ہم نہیں آ سکے۔ آپ خدا سے ہمارے لئے مغفرت طلب کریں! خود یہ الفاظ بھی ایک طرح سے دکھاوے کے لئے تھے۔ وہ در اصل خدا کی مغفرت بھی نہیں چاہتے تھے۔ سوچتے تھے کہ انھوں نے چالاکی کی ہے جو نہیں گئے۔ قرآن کریم کی آیہ کریمہ کہتی ہے 'سیقول لک المخلفون من الاعراب شغلتنا اموالنا و اھلونا فاستغفر لنا، یقولون بالسنتھم ما لیس فی قلوبھم' وہ زبان سے جو کہہ رہے ہیں وہ ان کے دل میں نہیں ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ منافق، کافر اور دشمن ہیں۔ نہیں، کمزور انسان، جن کا باطن کمزور ہو اور جن کا دل کمزور ہو وہ مشکلات کے وقت کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ یہ وہ معنوی اور دینی امور ہیں جن کے تعلق سے اسلامی نظام، اسلامی معاشرے، اسلامی حاکم اور اسلامی حکام پر کچھ ذمہ داریاں ہیں۔
میرے عزیز دوستو! بھائیو اور بہنو! ہم کب کچھ کر سکتے ہیں؟ جب 'والزمھم کلمۃ التقوا' تقوا اختیار کریں، تقوے کو کلمہ حق اور مستقل فریضہ سمجھیں۔ اپنے قول و فعل میں، اپنے فیصلوں میں اپنے ماتحت افراد کے ساتھ برتاؤ میں اور جہاں ہم کام کرتے ہیں (اپنے دفتر میں)، وہاں تقوے پر توجہ دیں۔ یہ ان کے لئے درس ہے اور ان کا طرز عمل عوام کے لئے درس ہے۔
جن امور میں ہم انقلاب کے بعد سے آج تک تمام تر کوششوں کے باوجود مناسب پیشرفت نہیں کر سکے ہیں، ان میں سے ایک اسلامی جمہوریہ کے اہداف سے مطابقت رکھنے والا دفتری نظام ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا مقصد یہ ہے کہ ایرانی عوام کم سے کم پہلے مرحلے میں نجات یافتہ ہوں۔ انہیں معنوی نجات، سیاسی نجات، سماجی نجات، انفرادی نجات اور بیرونی بندشوں سے نجات حاصل ہو۔ ان بندشوں سے انہیں نجات ملے جو انہیں آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ اس کے برعکس کچھ قید و بند اور بندشیں ایسی ہیں جو پیشرفت اور آگے بڑھنے میں ان کی مدد کرتی ہیں جیسے خدا کی عبادت اور بندگی، یہ باقی رہیں۔
نماز بھی ایک پابندی ہے، لیکن معراج المومن ہے۔ یہ بندگی اور اسیری انسان کو معراج عطا کرتی ہے اور گناہوں اور آلودگیوں سے پاک کرتی ہے۔ یہ نجات کب حاصل ہوگی؟ امور مملکت چلانے والا دفتری نظام اس میں موثر ہو سکتا ہے؟ بہت زیادہ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سلسلے میں ہم نے کم کام کیا ہے۔ نہیں بہت کام کیا ہے لیکن پیشرفت کم ہوئی ہے۔ حال حاضر میں بھی اگر چہ مسلسل کہا جا رہا ہے اور سبھی کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود عمل میں وہ سعی و کوشش نظر نہیں آ رہی ہے جو ہونی چاہئے۔ یہ ہمارے نقائص میں سے ہے۔ متعلقہ ذمہ دار عہدیداروں کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہئے۔ جہاں تک نصیحت اور یاد دہانی کا تعلق ہے وہ میں کر رہا ہوں۔ البتہ یہ کافی نہیں ہے۔ یہ نصیحت اور یاد دہانی خود میرے اپنے لئے اور آپ کے لئے ہے۔
بھائیو اور بہنو! آپ جہاں بھی ہیں جس عہدے پر بھی ہیں خیال رکھیں کہ آپ کا ایک چھوٹا سا عمل، ایک بات، ایک اقدام دائمی اثر مرتب کر سکتا ہے۔ عوام کی زندگی میں اس کی وسیع تاثیر ہو سکتی ہے۔
برسوں سے میں شان و شوکت کی زندگی کے تعلق سے مسلسل نصیحتیں کر رہا ہوں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو، پر تعیش زندگی کی عادت ہے۔ یہ بری بات ہے اور اعلا انسانوں کی شان کے خلاف ہے۔ یعنی انسان کسی غیر ضروری چیز کا پابند ہو جائے، یہ انسان کی شان کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اسراف بھی ہے۔ سرمائے اور دولت کی تضییع بھی ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے کہ اسراف ہے اور اسراف بری چیز ہے۔ یہ اسراف کے ساتھ تجمل پرستی اور بری چیز ہے۔ اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کی اہمیت پہلے سے کم نہیں ہے اور وہ عوام کی زندگی میں تجمل پرستی کا انعکاس ہے۔ بعض لوگ اس کی طرف سے غافل ہیں۔ جب آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اپنے کمرے، اپنے دفتر، اپنے آفس اور زندگی کی شان و شوکت پیش کریں گے تو یہ عملی درس ہوگا، جو بھی اس کو دیکھے گا، اس کا اثر قبول کرے گا۔ کم سے کم اس کا خیال رکھا جائے۔ تجمل پرستی اور تعیش کی عادت نہ ڈالی جائے، تجمل پرستی کا ماحول نہ پیش کیا جائے۔ کیونکہ اگر ہم نے معاشرے میں تجمل پرستی کو رواج دیا، افسوس کہ بہت حد تک یہ بات رائج ہو چکی ہے، تو اس صورت میں ملک کی بہت سی اقتصادی، سماجی اور اخلاقی مشکلات حل نہیں ہو سکیں گی۔ تجمل پرستی اور اشرافیہ کلچر کے رجحان کے نقصانات اور خطرات بہت زیادہ ہیں۔ اس صورت میں سماجی انصاف کبھی بھی قائم نہیں ہو سکے گا۔ برادری، باہمی الفت اور ہمدلی کا جذبہ جو ہر ملک اور معاشرے کے لئے بالخصوص ہمارے ملک کے لئے ہوا اور پانی کی طرح حیاتی اہمیت رکھتا ہے، پیدا نہیں ہو سکے گا۔ یہ عوام میں ہمارے اور آپ کے طرزعمل، باتوں اور اقدامات کے اثرات ہیں۔ یہ بات ہمارے لئے تقوے کی اہمیت بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔
یہ جو میں ان دنوں مسلسل حکام کی باہمی ہمدلی کی سفارش کرتا ہوں، یہ اس لئے ہے کہ مختلف دھڑے، تحریکیں اور ان کی پیروی کرنے والے، سب جان لیں کہ یہ باتیں جو ان کے درمیان ہیں، حکام میں نہیں ہیں۔ حکام کے کام کرنے کے طریقوں میں فرق ہو سکتا ہے، یہ نہیں ہے کہ نہ ہو، لیکن کام کرنے کے طریقے اور سلیقے کے فرق کو کشمکش کا بہانہ قرار دینا دوسری بات ہے۔ یہ دوسری بات یعنی کشمکش عوام کی زندگی میں تلخیاں گھول دے گی۔
بہرحال اس آیہ کریمہ اور بہت سی دوسری آیات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تقوا ایک وسیلہ بھی ہے اور راہ علاج بھی ہے۔ صرف فریضہ اور واجب نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں ہے کہ خداوند عالم حساب کتاب کے وقت ہم سے تقوے کے بارے میں سوال کرےگا۔ البتہ اگر ہم سمجھیں اور توجہ دیں تو یہ بھی بہت عظیم بات ہے۔ ہم جو ذمہ دار ہیں، حساب الہی، حساب الہی کی سختی اور یوم الحساب کے خوف سے غافل ہیں اور جتنی ہماری ذمہ داری بڑھے گی یہ خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ سںگین ہوگا۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اگر خداوند عالم اپنے فضل، رحمت اور مغرفت کے ساتھ ہم سے نہ پیش آیا تو ہمارا معاملہ بہت سخت ہو جائے گا۔ ہم جو خرچ کرتے ہیں، جو چيزیں استعمال کرتے ہیں، اپنے سامنے والے اور عوام سے جس طرح پیش آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا خدا کے سامنے حساب دینا ہوگا۔ حساب الہی اور خدا کے سامنے اپنے مواخذے کی فکر کے ساتھ ہی یہ بھی جان لینا چاہئے کہ تقوا راستہ بھی کھولتا ہے۔ 'و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب' تقوا اس بات کا باعث بنتا ہے کہ بہت سی مشکلات میں بالخصوص سماجی مشکلات میں آپ کو راہ نجات مل جائے۔ بڑی مشکلات میں تقوا حکام کے سامنے راہ نجات پیش کرتا ہے۔ 'و یرزقہ من حیث لا یحتسب' ہمارا اور آپ کا حساب کتاب ہمیشہ صحیح اور کامل نہیں ہوتا، بنابریں اصل چیز تقوا ہے۔ ہماری سفارش بھی تقوا ہے۔ اس مہینے کا روزہ بھی تقوے میں مدد کرتا ہے۔ عوام کی مشکلات کو اسی تقوے کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں۔
مجھے واقعی اس وقت بڑی خوشی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ جناب صدر نے اپنے بیان میں عوام کی اقتصادی مشکلات بیان کیں۔ یہ واقعی بہت اہم ہے۔ عوام واقعی اقتصادی مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہیں سختیوں کا سامنا ہے۔ مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ آپ کو اس کا علم نہ ہو۔ امید ہے کہ جانتے ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ آپ حکام کے درمیان ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی توجہ عوام کی مشکلات اور پریشانیوں پر نہیں ہوگی، ورنہ ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کوششیں ہوتیں۔ حکام جتنا زیاہ تنازعات میں الجھیں گے عوام کی مشکلات حل کرنے میں اتنا ہی پیچھے رہیں گے۔ حکام اور اعلی عہدیدار، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا تعلق حکومت سے ہو، عدلیہ سے ہو یا مقننہ سے ہو، یعنی وہ تمام لوگ جو امور مملکت چلانے میں دخیل ہیں، وہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور پورے وجود سے کام کریں۔ خوش قسمتی سے عوام اسلام، اسلامی نظام اور حکام کے عزم و ارادے سے پر امید ہیں۔ خدا نہ کرے کہ یہ امید کم اور کمزور ہو جائے، یہ نہ ہونے دیں۔ سب کچھ صرف کہنے سے نہیں ہوتا، عمل کرکے بھی دکھانا چاہئے۔ یہی 'اقتصادی نظم و ضبط کا منصوبہ' جو ہے اس نے عوام میں بڑی امیدیں پیدا کی ہیں۔ کوشش کریں کہ اس پر عمل ہو۔ اس منصوبے کا جو حصہ عوام کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، کوشش کریں کہ وہ عملی ہو۔ تیسرا منصوبہ بھی خوش قسمتی سے پاس ہو گیا ہے۔ لیکن اس کو لکھنا، اس کی تدوین، اس کی تنظیم اور اس کی منظوری ایک مسئلہ ہے اور منصوبے پر عمل درآمد دوسرا مسئلہ ہے۔ منصوبے میں روزگار کا جو مسئلہ شامل کیا گیا ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔ سب مل کے کوشش کریں تاکہ یہ کام ہو سکے۔ بے روزگاری واقعی بہت بڑی مشکل ہے۔ بہرحال امید ہے کہ خداوند عالم مدد کرے گا۔
میں یہ جملہ، جس کو بارہا میں نے اپنی گزارشات میں عرض کیا ہے، آخر میں عرض کروں گا: آپ جو ذمہ دار عہدے پر ہیں، بجٹ کا ایک حصہ آپ کے اختیار میں ہے، بجٹ خرچ کرنے میں بھی بہت دقت نظر سے کام لیں۔ تقوے کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم جو کام بھی کریں اس پر ایک خرچ لازم ہو۔ اسی پر اکتفا کریں کہ یہ اقدام مفید ہوگا۔ یہ کافی نہیں ہے۔ کام کا مفید ہونا ہی اس کے لئے کافی نہیں ہے کہ ہم اس پر خرچ کریں۔ ہمارے موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ وہ مفید کام ترجیحات کا بھی حصہ ہو۔ اگر ترجیح حاصل نہ ہو تو خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ اپنے کام کی جگہ پر، دفتر میں کچھ کام کرتے ہیں۔ سیمینار، نشستیں، دعوتیں وغیرہ کرتے ہیں۔ یقینا ان کاموں میں کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان فوائد کا ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ ایسی حالت میں کہ ہماری آمدنی محدود اور ضرورتیں زیادہ ہیں، ترجیحات کا خیال رکھنا چاہئے۔ بہرحال امید ہے کہ خداوند عالم مجھ حقیر اور کمزور بندے کو جس کے کندھوں پر سنگین ذمہ داریوں کا بوجھ ہے اور یہ نصیحتیں کر رہا ہوں اور اسی طرح تمام شعبوں میں، نیچے سے لیکر اوپر تک، آپ حکام کو یہ توفیق عنایت فرمائےگا کہ ہم اس کو اپنے عمل سے راضی کر سکیں۔
ان شاء اللہ آپ کے دل نور معرفت الہی اور رحمت الہی سے ساطع ہونے والے انوار سے منور ہوں، رمضان کی برکات آپ کے وجود، اذہان اور ہستی کی گہرائیوں میں اتریں اور اپنے اثرات مرتب کریں اور برکات الہیہ آپ کے اور اس شعبے کے شامل حال ہوں جو آپ کے زیر انتظام ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم ہمارے قصور اور تقصیروں کو اپنے لطف و کرم سے معاف کر دے، ہم کو نبی اکرم، امیر المومنین، اپنے اولیائے کرام اور اپنے اموال اور جانوں سے راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے رفتار و کردار سے نزدیک تر کر دے ، ہمارے صاحب عظمت امام (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مقدس کو اپنی اعلی ترین برکات سے سرافراز فرمائے اور ہمارے شہیدوں کی ارواح طیبہ، (راہ اسلام و انقلاب میں) فدکاری کرنے والوں، جانبازوں، مومنین، بسیجی (رضاکار) سپاہیوں اور ان تمام لوگوں کو اپنی رحمت و برکت عنایت فرمائے جنہوں نے راہ خدا میں سعی و کوشش کی اور اب بھی کر رہے ہیں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین۔ الحمد بجمیع محامدہ کلھا علی جمیع نعمہ کلھا الحمد علی حلمہ بعد علمہ و الحمد علی عفوہ بعد قدرتہ و الحمد للہ علی طول اناتہ فی غضبہ وھو قادر علی ما یرید و نحمدہ و نستعینہ و نستھدیہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ و حافظ سرّہ و مبلغ رسالاتہ سیدنا و نبینا و حبیبنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صل علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ قال اللہ تبارک و تعالی: یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم۔
خدوند عالم سے دعا ہے کہ یہ مہینہ جو ضیافت الہی کا مہینہ ہے پوری امت اسلامیہ، بالخصوص عزیز ایرانی قوم مخصوصا آپ نمازیوں کے لئے مبارک ہو۔ جس آیہ کریمہ کی میں نے تلاوت کی اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ روزہ اسلام سے پہلے کی امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا تھا۔ مختلف ادوار میں جن فرائض اور واجبات کی انسانوں کو ضرورت رہی ہے ان میں سے ایک روزہ ہے۔ نماز اور ذکر خدا بھی ایسا ہی ہے۔ تمام ادوار میں، تمام احوال میں، ہر تہذیب و تمدن میں، حیات بشری کے ہر دور میں اور ہر حال میں اپنی بشری خصوصیات کی وجہ سے انسان کو جن اعمال اور فرائض کی ضرورت ہے ان میں روزہ بھی شامل ہے۔ آج میں پہلے خطبے میں روزے کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا اور دوسرے خطبے میں اپنے ملک اور معاشرے کے بعض مسائل پر گفتگو کروں گا۔
روزہ جس کو ہم ایک فریضہ الہی کہتے ہیں، درحقیقت خدا کا عطا کردہ ایک شرف ہے، ایک نعمت خداوندی ہے اور جنہیں روزہ رکھنے کی توفیق ہوتی ہے ان کے لئے ایک بہت ہی قیمتی موقع ہے البتہ اس میں سختیاں بھی ہیں۔ ہر مبارک اور مفید کام میں سختی ہوتی ہے۔ انسان سختیاں برداشت کئے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ تھوڑی سی سختی جو روزہ رکھنے میں برداشت کرنی پڑتی ہے، اس اجر کے مقابلے میں بہت کم اور معمولی ہے جو اس کے بدلے میں انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ روزے میں بہت تھوڑا سا سرمایہ خرچ کرکے بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ روزے کے لئے تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے۔ تینوں مرحلے ان لوگوں کے لئے مفید ہیں جو اس کے اہل ہوں۔ ایک مرحلہ روزے کا یہی عمومی مرحلہ ہے یعنی کھانے پینے اور تمام حرام کاموں سے پرہیز۔ اگر روزے میں سب کچھ یہی امساک ( یعنی کھانے پینے اور حرام کاموں سے پرہیز) ہو تب بھی یہ فائدہ بہت زیادہ ہے۔ روزے میں ہم کو آزمایا بھی جاتا ہے اور ہم کو سکھایا بھی جاتا ہے۔ روزے میں ہمارے لئے درس بھی ہے اور زندگی کے لئے آزمائش بھی ہے۔ اس میں مشق اور ورزش بھی ہے اور یہ ورزش جسمانی ورزش سے زیادہ اہم ہے۔
ائمہ اطہار علیہم السلام سے روزے کے اس پہلو کے بارے میں بعض روایات منقول ہیں۔ ایک روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ "لیستوی بہ الغنی و الفقیر" یعنی خداوند عالم نے روہ اس لئے واجب کیا ہے کہ ان گھڑیوں اور ان ایام میں امیر اور غریب برابر ہو جائيں۔ ایک غریب اور تہی دست انسان دن میں جو بھی کھانا پینا چاہے نہیں کھا پی سکتا لیکن امیر لوگ جو بھی ان کا دل چاہے، ان کے لئے فراہم ہو جاتا ہے۔ امیر کا جو بھی دل چاہے وہ مل جاتا ہے، اس لئے وہ کسی غریب انسان کی بھوک اور تہی دستی کو محسوس نہیں کرتا۔ لیکن روزے کے عالم میں امیر اور غریب دونوں ہی اپنے اختیار سے خود کو خواہشات کی تکمیل سے محروم کر لیتے ہیں۔
ایک اور روایت میں جو حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے، ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس روایت میں فرمایا گیا ہے کہ "لکی یعرفوا الم الجوع و العطش و یستدلوا علی فقر الاخرۃ" اس روایت میں یوم قیامت کی بھوک پیاس اور تہی دستی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن انسان جن مصیبتوں میں مبتلا ہوگا ان میں سے ایک بھوک اور پیاس ہے اور اسی حالت میں اس کو خدا کے سوال و جواب کا سامنا ہوگا۔ انسان کو روزے کی بھوک اور پیاس کے عالم میں قیامت کی اس حالت اور انتہائی سخت اور دشوار لمحے پر توجہ دینا چاہئے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک اور روایت میں روزے کی بھوک اور پیاس کے ایک دوسرے پہلو پر توجہ دی گئی ہے۔ اس روایت میں فرمایا گیا ہے کہ" صابرا علی ما اصابہ من الجوع والعطش" یعنی انسان کو ایسی قوت صبر دی جاتی ہے کہ وہ بھوک اور پیاس کو برداشت کر سکے۔ جن لوگوں نے بھوک اور پیاس نہ دیکھی ہو، ان کے اندر صبر و تحمل کی طاقت بھی نہیں ہوتی۔ بہت سے میدانوں میں مشکلات کا سامنا ہونے پر ان کے پیر اکھڑ جاتے ہیں اور زںدگی کے گوناگون امتحان انہیں کچل ڈالتے ہیں۔ جس نے بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا ہو، وہ ان باتوں کو سمجھتا ہے اور دشواریوں کا سامنا ہونے پر اس کے اندر صبر و تحمل کی طاقت ہوتی ہے۔ ماہ رمضان سبھی کو یہ قوت صبر و تحمل عطا کرتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور روایت بیان کرتا ہوں۔ یہ روایت بھی حضرت امام علی رضا علیہ الصلواۃ و السلام سے منقول ہے۔ اس روایت میں فرمایا گیا ہے کہ " و رائضا لھم علی اداء ما کلّفھم"؛ یعنی رمضان میں بھوک اور پیاس کا تحمل اور خواہشات نفسانی سے پرہیز ایک طرح کی ریاضت ہے جو انسان کو زندگی کی گوناگوں ذمہ داریوں کی ادائیگی پر قادر بنا دیتی ہے۔ البتہ اس ریاضت سے مراد ریاضت شرعی، ریاضت الہی اور ریاضت اختیاری ہے۔ جو چیزیں انسان کو طاقتور بناتی ہیں اور زندگی کی سخت اور دشوار راہیں طے کرنے کی توانائی عطا کرتی ہيں ان میں سے ایک ریاضت ہے، جس کا بہت سے لوگ سہارا لیتے ہیں۔ یہ ایک شرعی ریاضت ہے۔
بنابریں انہیں چند حدیثوں میں جو بیان کی گئيں، آپ دیکھیں کہ روزے کا یہی مرحلہ، یعنی بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا مرحلہ، امیروں میں غریبوں کی برابری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یوم قیامت کی بھوک کا احساس پیدا کرتا ہے۔ انسان کے اندر سختیوں پر صبر و تحمل کی توانائی عطا کرتا ہے۔ ریاضت الہی کے عنوان سے فرائض کی ادائیگی میں سختیاں برداشت کرنے کی قوت دیتا ہے۔ یہ سارے فوائد اسی ایک مرحلے میں ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں سے پیٹ کے خالی ہونے اور مباح کاموں سے بھی پرہیز کرنے کی وجہ سے انسان کے اندر پاکیزگی، لطافت اور نورانیت پیدا ہوتی ہے جو بہت زیادہ اہم اور قیمتی ہے۔
روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے پرہیز یعنی آنکھ، کان، زبان اور دل حتی بعض روایات میں ہے کہ قیافہ انسانی، جسم کی جلد اور بال کو بھی گناہ سے بچانا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ "الصیام اجتناب بالمحارم کما یمتنع الرجل من الطعام و الشراب" یعنی جس طرح کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے پرہیز کرتے ہو، اسی طرح گناہوں سے بھی پرہیز کرو۔ یہ روزے دار کے لئے اعلی تر مرحلہ ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ انسان کو گناہوں سے بچنے کی مشق کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ بہت سے نوجوان، میرے پاس آتے ہیں اور دعا کی درخواست کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم گناہ نہ کریں۔ دعا کرنا بہت اچھا اور ضروری ہے اور ہم دعا کرتے ہیں، لیکن گناہ نہ کرنے کا تعلق انسان کے ارادے سے ہے۔ فیصلہ کریں کہ گناہ نہیں کریں گے اور جب فیصلہ کر لیں تو یہ کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔ گناہوں سے اجتناب، انسان کو پہاڑ جیسا بھاری اور بڑا لگتا ہے۔ لیکن فیصلہ کر لینے سے ایک ہموار زمین کی مانند ہو جاتا ہے۔ رمضان المبارک ان کاموں کی مشق کے لئے بہترین موقع ہے۔
ایک اور روایت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ"ما یصنع الصائم بصیامہ اذا لم یصن لسانہ و سمعہ و بصرہ و جوارحہ " یعنی اگر انسان اپنی زبان، آنکھ اور اعضا و جوارح کو گناہوں سے نہ روکے تو روزے سے کیا فائدہ حاصل کر پائے گا؟ ایک روایت میں ہے کہ کسی عورت نے اپنی خادمہ کی توہین کی۔ بظاہر یہ دونوں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پڑوس میں تھیں یا کسی سفر میں آپ کے ساتھ تھیں۔ پیغمبر کے دست مبارک میں کھانے کی کوئی چیز تھی ، آپ نے اس عورت کی طرف بڑھائی اور فرمایا کہ لو کھاؤ، اس عورت نے کہا میں روزہ ہوں۔ روایت میں ہے کہ پیغمبر نے فرمایا کہ "کیف تکونین صائمۃ وق دسببت جاریتک" تم کیسے روزہ ہو جبکہ تم نے اپنی خادمہ کو دشنام دیا ہے؟ "ان الصیام لیس من الطعام و الشراب" روزہ صرف کھانے پینے سے ہی پرہیز نہیں ہے۔ "وانما جعل اللہ ذلک حجابا عن سواھما من الفواحش من الفعل و القول" یعنی خدانے روزے دار انسان سے چاہا ہے کہ گناہوں اور آلودگیوں کی طرف نہ جائے۔ جملہ گناہوں میں گناہ زبان بھی ہے، دوسروں کو برا بھلا کہنا اور ان کی توہین کرنا بھی ہے۔ جملہ گناہوں میں گناہ دل یعنی دل میں دوسروں کے لئے کینہ اور دشمنی رکھنا بھی ہے۔ بعض گناہ وہ ہیں جو شرعی اصطلاح کے مطابق گناہ ہوتے ہیں۔ بعض گناہ اخلاقی ہیں۔ گناہوں کے مختلف مراتب ہیں۔ لہذا روزے داری کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان خود کو گناہوں سے دور رکھے۔ خاص طور پر آپ عزیز نوجوانوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آپ نوجوان ہیں۔ نوجوانوں میں طاقت و توانائی بھی ہوتی ہے اور دل میں پاکیزگی اور نورانیت بھی پائی جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں اس موقع سے فائدہ اٹھائيں اور گناہوں سے پرہیز کریں۔ یہ روزے داری کا دوسرا مرحلہ ہے۔ مشق کریں۔
روزے داری کا تیسرا مرحلہ، ہر اس چیز سے پرہیز ہے جو انسان کے ضمیر اور ذہن کو یاد خدا سے غافل کر دے۔ یہ روزےداری کا وہ اعلی مرحلہ ہے جس کے تعلق سے حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند عالم سے فرماتے ہیں: "یا رب و ما میراث الصوم" پالنے والے روزے کا فائدہ کیا ہے؟ خداوند عالم نے فرمایا" الصوم یورث الحکمۃ و الحکمۃ تورث المعرفۃ والمعرفۃ تورث الیقین فاذا استیقن العبد لا یبالی کیف اصبح بعسر ام بیسر" یعنی روزہ دل میں حکمت کے چشمے جاری کر دیتا ہے۔ جب دل پر حکمت کی حکمرانی قائم ہو جائے تو معرفت پیدا ہوتی ہے اور معرفت وہ یقین پیدا کر دیتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا سے طلب کرتے تھے۔ جس انسان کے اندر یقین پیدا ہو جائے زندگی کی سبھی مشکلات اور دشواریاں اس کے لئے آسان ہو جاتی ہیں اور وہ انسان حوادث کے مقابلے میں نا قابل شکست ہو جاتا ہے۔ دیکھئے کتنی اہمیت ہے اس کی؟! یہ انسان جو اپنی عمر ترقی اور تکامل کی راہیں طے کرنے میں گزارنا چاہتا ہے، زندگی کی مشکلات، حوادث اور دشواریوں کے مقابلے میں ناقابل شکست ہو جاتا ہے۔ یقین انسان کے اندر یہ حالت پیدا کر دیتا ہے۔ یہ روزے کا نتیجہ ہے۔ جب روزے سے دل میں یاد خدا زندہ ہو جائے، دل میں معرفت خدا کو فروغ حاصل ہو اور دل منور ہو جائے تو یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ ہر وہ چیز جو انسان کو یاد خدا سے غافل کر دے، روزے کے اس مرحلے کے لئے مضر ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو خود کو اس مرحلے تک پہنچا سکیں۔ البتہ ہمیں روزے کے اس مرحلے تک پہنچنے کے لئے آرزو کرنی چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہے ہمیں حقیقی روزے داروں میں قرار دے۔ پالنے والے! ہمیں روزے داری کے اعلی درجات تک پہنچنے کی توفیق عنایت فرما۔ اس فریضہ الہی کی تمام برکات سے ہمیں بہرہ مند فرما۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفوا احد
٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی القاسم المصطقی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما علی امیر المومنین و الصدیقۃ الطاھرۃ سیدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سّیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علی بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین و استغفر اللہ لی و لکم۔ اوصیکم و نفسی بتقوی اللہ۔
سبھی نمازی بہنوں اور بھائیوں اور اپنے نفس کو تقوا و پرہیزگاری کی پابندی کی سفارش اور نصیحت کرتا ہوں کیونکہ اس مہینے میں روزے کا سب سے ممتاز اثر تقوا ہے۔
بہت سے مسائل قابل بیان ہیں۔ میں آج کی ایک مناسبت یعنی آیت اللہ مفتح کی شہادت کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس کے بعد اس مسئلے اور موضوع پر گفتگو کروں گا جو میری نظر میں ملک کو در پیش اہم ترین مسائل میں ہے۔
آیت اللہ شہید مفتح مرحوم ایک ممتاز، فداکار، زمانے کی ضرورت سے باخبر اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنے والے عالم دین تھے۔ اس کے علاوہ ان کے اندر ایک خصوصیت ایسی تھی جو اس دور کے بہت کم علما اور فضلا میں پائی جاتی تھی، ان کی یہ ممتاز خصوصیت نوجوان نسل، یونیورسٹی کے طلبا اور ان لوگوں سے رابطہ پیدا کرنے کی صلاحیت تھی جو پیغام دین کو ایک عالم دین کی زبان سے سننا چاہتے تھے۔ لہذا انقلاب آنے سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی اس ممتاز عالم دین کی سرگرمیوں کا مرکز زیادہ تر نوجوانوں بالخصوص یونیورسٹی طلبا کا حلقہ ہوا کرتا تھا۔ جن مساجد میں وہ جایا کرتے تھے اور جہاں وہ تقاریر کیا کرتے تھے (وہاں یونیورسٹی طلبا اور نوجوان زیادہ ہوا کرتے تھے)۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ان کی شہادت، یوم اتحاد یونیورسٹی و حوزہ علمیہ یا دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبا کے اتحاد کے دن واقع ہوئی۔ حق یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کا حلقہ اتصال تھے جو ان کی اس ممتاز خصوصیت سے مناسبت رکھتا تھا۔ خداوند عالم نے انہیں انعام میں شہادت عطا کی۔ شہادت بہت بڑا انعام اور اجر عظیم ہے اور خداوند عالم نے اپنے صالح بندوں منجملہ اس بندہ صالح کو اس اجر سے محروم نہیں کیا۔ ہماری دعا ہے کہ ان کے درجات میں روز افزوں اضافہ ہو۔
اب اس بات کی طرف آتا ہوں جس سے میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے موجودہ حالات میں رائے عامہ کی واقفیت ضروری ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک زندہ اور ترقی پذیر قوم کو اپنے تعمیری کاموں، ترقی و پیشرفت اور بڑے کاموں کی انجام دہی کے ساتھ ہی ہر مرحلے میں دشمن کے اہداف کی طرف سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ یہ قوم کے زندہ ہونے کی علامت اور زندہ قوم کی خصوصیت ہے۔ ایسی کوئی قوم تصور نہیں کی جا سکتی جس کی امنگیں عظیم ہوں اور جو بڑے کام کرنا چاہتی ہو لیکن اس کا کوئی دشمن نہ ہو۔ جی ہاں، ہیں ایسی اقوام جو ایک گوشے میں پڑی ہوئی ہیں، انہیں اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے، اغیار ان پر مسلط ہیں، وہ بھیڑ بکریوں کی طرح چرنے میں مصروف ہیں اور اغیار گلہ بان کی طرح انہیں جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں اور ان سے جو فائدہ چاہتے ہیں اٹھاتے ہیں۔ اغیار جس طرح چاہتے ہیں یہ اقوام اسی طرح زندگی گزارتی ہیں وہ اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں اس لئے کہ ان کے لئے مستقبل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ آج کی دنیا میں ایسی اقوام کم ملتی ہیں۔ اگر ہیں بھی تو بہت کم ہیں۔ آخر کار اقوام بیدار ہو چکی ہیں۔ بہرحال ایرانی قوم نے اغیار کی مداخلت کے خلاف قیام کیا ہے، اغیار کا تسلط ختم کیا ہے، اپنے ملک میں اغیار کی مداخلت ختم کر دی ہے، یہ معمولی کام نہیں ہیں، ایسی قوم کے دشمن ہوتے ہیں۔ ایرانی قوم نے اپنے تیل کے ذخائر اور مختلف مادی ذخائر کی بیرونی طاقتوں کے ذریعے لوٹ مار اور غارتگری کا خاتمہ کر دیا ہے اور اس حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے جو بیرونی طاقتوں کے مفاد میں کام کرتی تھی۔ ان خصوصیات کی مالک قوم کے دشمن ہوتے ہیں، ایسی قوم بغیر دشمن کے نہیں ہو سکتی۔
آج بھی یہ امنگوں والی قوم ہے جو ظلم، زور زبردستی ، تسلط پسندی اور امتیازی سلوک کی مخالف ہے۔ وہ سب جو ظلم کرتے ہیں، وہ سب جو امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ سب جو زور زبردستی سے کام لیتے ہیں، وہ سب جو لوٹ مار کرتے ہیں، فطری طور پر اس قوم سے ان کا رابطہ اچھا نہیں ہوگا۔ البتہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہمیں بدگمانی ہے، یہ ہمارے خلاف شازش ہے، دشمن ہے! بہت اچھا جن لوگوں کا دل چاہتا ہے کہ اپنی آنکھیں بند رکھیں اور کہیں کہ کوئی دشمن نہیں ہے وہ اپنی آنکھیں بند رکھیں لیکن اس سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ ہمارے خواب غفلت میں چلے جانے سے دشمن کا وجود تو ختم نہیں ہو جائےگا۔ اگر دشمن ضرب لگانے کے لئے موقع کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھا ہے تو چاہے ہم جانیں یا نہ جانیں۔ یہ فرض کر لیں کہ کوئی دشمن نہیں ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ دشمن ہے وہ دشمنی تو کرے گا۔ ہمارے نہ جاننے سے یا یہ ظاہر کرنے سے کہ ہم نہیں جانتے، دشمن اپنی دشمنی سے تو دست بردار نہیں ہوگا۔ کچھ لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم کا کوئی دشمن نہیں ہے! اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرو اور مطمئن رہو کہ ہر جگہ امن و امان ہے! جی نہیں؛ یہ باتیں صحیح نہیں ہیں۔ کوئی زندہ قوم اس طرح نہیں سوچ سکتی۔ ہم ایسی اقوام اور حکومتوں سے بھی واقف ہیں کہ جو اس دور میں بھی جب ان کے دشمن زیادہ خطرناک نہیں تھے یا ان کے دشمن ان کے زیادہ نزدیک نہیں تھے، یہ ظاہر کرتی تھیں کہ ان کے دشمن ان کے گھر میں گھس آئے ہیں۔ یہ اس لئے ظاہر کرتی تھیں کہ اپنا اچھی طرح دفاع کر سکیں! مشرق اور مغرب کی سرد جنگ کے طولانی برسوں میں اکثر مغربی ملکوں اور زیادہ تر امریکا میں اسی طرح تھا۔ وہ حتی تصوراتی دشمن بھی بنا لیا کرتے تھے۔ وہ ان کو بھی دشمن فرض کرتے تھے جو دشمنی سے زیادہ قریب نہیں تھے، وہ عوام میں دشمن کے نزدیک ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے تھے تاکہ جو بڑے کام اور اقدامات ان کے مد نظر تھے وہ انجام دے سکیں ۔ یہ ان کی بات ہے جن کے دشمن ان کے زیادہ نزدیک نہیں ہیں۔ تو پھر ایران جیسا ملک جس کے خلاف سازشیں اور دشمنیاں اتنی آشکارا ہیں، جو کچھ ہم اپنے ملک کے اندر دیکھ رہے ہیں، جو اپنے ملک کے اطراف میں دیکھ رہے ہیں کہ مستقل طور پر ہمارے خلاف سازش اور دشمنی کی جا رہی ہے، یہ دانشمندی نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ "نہیں جناب ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے، ہمارے دشمن دشمن نہیں ہیں وہ ہمارے خلاف سازش کی فکر میں نہیں ہیں۔" یہ باتیں قابل اعتماد نہیں ہیں ۔ لہذا جو لوگ حماقت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتے اور یہ نہیں کہنا چاہتے کہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دشمنوں کے اہداف کی شناخت حاصل کریں اور یہ جانیں کہ دشمن کس بات کی فکر میں ہے۔
محاذ پر اچھا کمانڈر وہ ہوتا ہے جو یہ سمجھ سکے کہ دشمن کہاں حملہ کرنا چاہتا ہے اور یہ بات اپنے فوجیوں کو سمجھا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران جو نوجوان اس دور میں میدان جنگ میں تھے، اس نکتے سے اچھی طرح واقف تھے۔ آپ جہاں بھی ہیں اگر یہ سمجھ سکیں کہ دشمن کس فکر میں ہے تو بہت حد تک اس کے حملے کا تدارک اور خود کو محفوظ کر لیں گے اور جن کاموں کی انجام دہی آپ کے لئے ضروری ہوگی، انجام دیں گے۔ البتہ اس وقت ہم دشمن کو متعارف کرانا نہیں چاہتے۔ ایرانی عوام اپنے عالمی اور بین الاقوامی دشمنوں کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اس مرحلے میں دشمن کے اہداف کیا ہیں؟ اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے تو میں اس ملک اور قوم کے لئے اس زمانے اور دور میں دشمن کے دو تین اہداف کا نام لے سکتا ہوں۔ البتہ دشمن کے ریڈیو کے پروپیگنڈوں کے برخلاف میں یہ دعوا نہیں کرتا کہ جو میں سمجھتا ہوں وہ عین حقیقت ہے اور اس میں کوئی خامی نہیں ہے اور میں اپنی اس سوچ ميں معصوم ہوں۔ نہیں یہ میری سمجھ ہے؛ یہ وہ چیز ہے جو میں اس خدمتگزار کے عنوان سے جو اگرچہ بہت زیادہ حقیر بندہ ہے لیکن خداوند عالم نے اس کے کندھوں پر یہ سنگین ذمہ داری ڈالی ہے، احساس کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں اور لوگوں کے اذہان تک پہنچانا اور انھیں بتانا چاہتا ہوں۔ البتہ اگر کسی کے پاس زیادہ اطلاعات و معلومات ہیں، مسائل کو بہتر سمجھنے کی صلاحیت ہے اور اس بات کو دوسرے طریقے سے سمجھتا ہے تو اس کا فہم و ادراک اس کے لئے معتبر ہے لیکن جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے۔
اس دور میں دشمن تین اہداف کے در پے ہے اور ان کے لئے کام کر رہا ہے۔ پہلا ہدف، وحدت ملی کا خاتمہ ہے۔ دشمن ایرانی عوام کے اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا ہدف، عوام کے اس قلبی یقین کو ختم کرنا ہے جو کارساز ہے۔ یعنی دشمن عوام کے اس ایمان، یقین اور اعتقاد کو ختم کر دینا چاہتا ہے جس نے ایک پسماندہ قوم کو دنیا میں پیشرفتہ، شجاع اور میدان سر کر لینے والی کامیاب قوم میں تبدیل کر دیا۔ یہ تحریک ایمان اور اعتقاد کے ساتھ انجام پائی ہے۔ ایمان اور یقین کے بغیر نہ یہ تحریک چل سکتی تھی اور نہ ہی قوم آگے بڑھ سکتی تھی۔ دشمن ہماری قوم کے اس یقین اور ایمان کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ تیسرا ہدف عوام کے ذہن میں روشن مستقبل کی امید اور جذبے کو ختم کرنا ہے۔ لہذا تین تخریبیں دشمن کے مد نظر ہیں: وحدت ملی کی تخریب، استقامت پیدا کرنے والے کارساز ایمان اور یقین کی تخریب اور جذبہ امید کی تخریب۔ ان تخریبوں کا نام اصلاح رکھا ہے! میں غفلت کے شکار اپنوں اور دوستوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں دشمن کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو ان سرحدوں کے باہر سے یہ تحریک چلا رہا ہے۔ ملک کے اندر بھی بنیادی کام وہ لوگ کر رہے ہیں جو دشمنوں میں شامل ہیں جیسے محاذ قاسطین ہے۔ میں نے گزشتہ سال امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں عرض کیا تھا کہ حکومت علوی کے سامنے تین محاذ تھے۔ قاسطین، مارقین اور ناکثین۔ مارقین اور ناکثین کے محاذ اپنے لوگوں، اندر کے لوگوں پر مشتمل تھا البتہ یہ وہ اپنے لوگ تھے جو یا دشمن کے دام فریب میں آ گئے تھے، یا دولت و ثروت، جاہ طلبی اور نفسانی خواہشات کے جال میں پھنس گئے تھے یا اپنی حماقتوں، جہالتوں اور تعصبات کا شکار تھے۔ لیکن محاذ قاسطین دشمن کا محاذ تھا۔ یہ وہ محاذ تھا جس کو علی سے صلح و آشتی منظور نہیں تھی۔ قاسطین نے آکے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ "یا امیر المومنین کچھ دن جناب معاویہ کو حکومت میں باقی رہنے دیں۔" لیکن امیر المومنین نے فرمایا کہ نہیں، اگر میں حاکم ہوں تو وہ گورنر نہیں رہ سکتا، اس کو برطرف ہونا ہے۔ انھوں نے امیر المومنین علیہ السلام کو خطاکار قرار دیا اور کہا کہ سیاست سے کام نہیں لیا! لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود سیاست نہیں جانتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے بہت پختہ عمل کیا تھا۔ اس لئے کہ معاویہ ابن ابی سفیان طلحہ اور زبیر نہیں تھا کہ جو امتیاز وہ چاہتا تھا وہ اس کو دے دیا جاتا تو خاموش بیٹھ جاتا۔ نہیں۔ یہ قاسطین کا محاذ تھا۔ یہ وہ محاذ تھا جو علوی محاذ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ یہ محاذ کسی بھی حال میں محاذ علوی کے موافق نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ محاذ جتنا پیچھے ہٹتا تھا یہ اتنا ہی اگے بڑھتا تھا اور میدان جنگ کے علاوہ ان کے ملنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ امیر المومنین علیہ السلام اس کو جانتے تھے لہذا جب تک آپ حکومت ميں رہے قاسطین کا محاذ کچھ نہیں کر سکا، ہمیشہ شکست کھائی۔ لیکن جب امیر المومنین علیہ السلام شہید ہو گئے – امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو اپنوں سے الگ ہونے والے متعصب کج فہم اور کینہ پرور لوگوں کے گروہ نے شہید کیا تھا ،اغیار نے نہیں- آپ کی شہادت کے بعد اغیار، قاسطین نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور چند سال گزرنے کے بعد ثابت کر دیا کہ حکومت میں ان کا آئیڈیل کیا ہے! حجاج ابن یوسف کی حکومت اسی کوفے میں قائم ہوئی۔ یوسف بن عمر ثقفی کی حکومت قائم ہوئی، یزید ابن معاویہ کی حکومت قائم ہوئی! معلوم ہوا کہ وہ گروہ اور محاذ ایسا نہیں تھا جو علوی محاذ کے ساتھ کہیں مل سکتا۔
آج بھی بالکل وہی صورت حال ہے۔ اپنوں میں شامل، غفلت کا شکار فرد دشمن نہیں ہے، دشمن کوئی اور ہے لیکن وہ (غافل انسان) بیچارہ غفلت، غلطی اور فریب کا شکار ہے۔ کسی حادثے اور واقعے کے نتیجے میں اس کے دل میں کینہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ نظام کے مقابلے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ حق بات کے مقابلے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور راہ امام کے مقابلے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ اصلی دشمن نہیں ہے۔ ایک فریب خوردہ انسان ہے۔ وہ قابل رحم انسان ہے۔ اصلی دشمن وہ ہے جو اس کی پیٹھ پر ہے اور خود کو ظاہر نہیں کرتا۔ ملک کے اندر سامنے نہیں آتا، لیکن ملک سے باہر سامنے آتا ہے۔ عالمی اور بین الاقوامی محاذ پر امریکا کی جاسوسی تنظیم سی آئی اے اور صیہونیوں کی جاسوسی کی تنظیم موساد کے وفادار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اس کا چہرہ سامنے اور آشکارا ہے۔ بولتا بھی ہے حقائق بھی بیان کرتا ہے۔ اسلام اور مسلمین کے خلاف مہم کے محرکات بھی بیان کرتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر موجود اس کے دم چھلے سامنے نہیں آتے، حکومت کے سامنے نہیں آتے، کیونکہ جانتے ہیں کہ یہ طاقتور اور توانا حکومت ہے، یہ حکومت عوام کے ووٹوں پر استوار ہے۔ عوام کی محبت اور ان کا ایمان اس حکومت کی بنیاد ہے۔ اس لئے وہ اس حکومت سے ڈرتے ہیں اور خود کو سامنے نہیں لاتے۔ اپنی بات ایک دو اور تین واسطوں سے غافل لوگوں کی زبان پر جاری کرواتے ہیں۔ کبھی آپ دیکھیں گے کہ بولنے والا عالم دین ہے لیکن غافل، فریب خوردہ اور بے خبر انسان ہے۔ یا کوئی طالب علم ہے، لیکن اپنے جذبات کا اسیر ہو گیا ہے، سوچتا نہیں ہے۔ یا کوئی معمولی انسان یا انقلابی شخص ہے لیکن وقت کی شناخت نہیں رکھتا، دشمن کو نہیں پہچانتا، یا اس کے اندر بغض اور کینہ پیدا ہو گیا ہے۔ بات اس کی زبان سے نکلتی ہے لیکن یہ بات اس کی اپنی نہیں ہوتی۔ یہ بات دشمن کی ہوتی ہے! ہمارا دشمن وہ ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اس انقلاب کے لئے اپنا دل نہیں جلایا ہے بلکہ کسی زمانے میں اس انقلاب کا مقابلہ کیا ہے۔ اس کے مقابلے پر کھڑا ہوا ہے۔ بعض پہلوی دور حکومت میں اس انقلاب کے مقابلے پر کھڑے ہوئے اور بعض نے اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد تخریبی کارروائياں انجام دی ہیں۔ بعض کچھ عرصے تک ڈرتے رہے، کونے میں چلے گئے اور پوشیدہ ہو گئے۔ بعد میں جب ان کو موقع ملا تو اپنے خول سے باہر نکلے ہیں! سمجھتے ہیں کہ اب ان کے لئے موقع ہے۔
" گفت این مار است، او کی مردہ است از پی بی آلتی افسردہ است!" کہا کہ یہ سانپ ہے یہ مرا تھوڑی ہے بلکہ ناتوانی کی وجہ سے افسردہ ہے۔
یہ اپنی ناتوانی کی وجہ سے افسردہ تھے، اب سورج کی گرمی پہنچی ہے تو سمجھ رہے ہیں کہ اب وہ ڈسنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ میدان ميں آ رہے ہیں لیکن سانپ کی طرح! ان کا مقصد وحدت ملی کی تخریب اور عوام کا اتحاد ختم کرنا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہماری عظیم قوم میں اختلاف کے عوامل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ جغرافیائی اور لسانی اختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے عوام نے انقلاب آنے سے پہلے سے اور انقلاب کے دور سے آج تک اتحاد و یکجہتی کو تفرقے کے تمام عوامل پر ترجیح دی ہے اور دشمن کی خواہش کے برخلاف تمام میدانوں میں اپنے اتحاد و یکجہتی کو محفوظ رکھا ہے۔ اسی اتحاد و یکجہتی کی بدولت ہماری قوم جںگ میں کامیاب ہوئی۔ ہماری حکومتوں نے جو کام بھی کئے ہیں الحمد للہ آج تک تعمیری میدانوں میں جو پیشرفت کی ہے، اس کا بنیادی عامل عوام کا یہی اتحاد رہا ہے۔ دشمن اس کو نہیں دیکھ سکتا۔ عوام کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لانا دشمن کی آرزو ہے۔ علمائے کرام کو، یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو، تاجروں کو، محنت کشوں کو، کسانوں کو، نوجوانوں کو، پختہ اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کو سب کو خاص نعروں اور محرکات میں الجھا دے، ایک دوسرے سے بدظن اور بدگمان کر دے۔ اگر معاشرے میں سلامتی کے ایسے مراکز ہوں جن پر عوام اعتماد کرتے ہیں اور اختلافات اور تنازعات میں ان سے رجوع کرتے ہیں اور وہ مراکز اختلافات و تنازعات برطرف کر دیتے ہیں تو ان مراکز پر بمباری کرکے ان کو ختم کر دے۔ دشمن یہ چاہتا ہے۔
آپ دیکھیں کہ آج دشمن کے کارندے اپنے پروپیگنڈوں میں بیرونی ریڈیو اسٹیشنوں اور ملک کے اندر ان کے تشہیراتی مراکز اور بعض اندرونی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈوں میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ جن سے یہ احساس ہو کہ ملک کے اندر بہت بڑی سیاسی کشیدگی موجود ہے۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ آپ ان میں بعض ذرائع ابلاغ کو دیکھیں! البتہ ان میں سے سبھی اغیار کے ذرائع ابلاغ نہیں ہیں لیکن بعض کیوں نہں، بعض دشمنوں کے ہیں۔ البتہ آپ انہیں پہچانتے ہیں؛ سب شور مچا رہے ہیں کہ گھٹن ہے۔ لیکن نہیں سمجھ رہے ہیں کہ یہی ان کا شور شرابا گھٹن ہے۔ یہ بات انہیں زیادہ رسوا کر رہی ہے۔ اس لئے کہ وہ روزانہ وہ جھوٹ، حقیقت کے برعکس اور کشیدگی پھیلانے والی باتیں نشر کرتے ہیں؛ متعلقہ ادارے بھی ان کو دیکھ رہے ہیں۔ جب تک وہ کسی کھلے جرم کا ارتکاب نہیں کرتے، ان سے کسی کو کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ اپنی باتیں کرتے ہیں اور درحقیقت وہ خود کو جھوٹا اور خطاکار ثابت کرتے ہیں۔ لیکن وہ مسلسل فضا کو مکدر، آشفتہ اور کشیدہ بناکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ ایسی بات نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں میں طلبا اپنے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کلاسیں چل رہی ہیں۔ تجربہ گاہیں کام کر رہی ہیں۔ امتحانات وقت پر ہو رہے ہیں۔ تاجر اپنے کاروبار کی جگہ پر نظر دوڑاتا ہے، محنت کش اپنے کارخانے کو دیکھتا ہے، عالم دین اپنے مدرسے اور اپنے کام کی جگہوں پر نظر دوڑاتا ہے، دیکھتا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہے۔ لیکن جب فلاں اخبار کی سرخی پر نظر ڈالتا ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کشیدگی ہے! یہ بیرونی ماہرین بیچارے انھیں سرخیوں کو دیکھتے ہیں تو لالچ میں پڑجاتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں۔ وہ نزدیک تو نہیں ہیں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ حقیقت کیا ہے۔ آج دشمن کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ انہیں تشہیراتی روشوں اور زرخرید ریڈیواسٹیشنوں کے ذریعے امریکا، برطانیہ، اور صیہونیوں کے ریڈیو اسٹیشنوں اور ملک کے اندر موجود ان کے بے اہمیت دم چھلوں کے ذریعے ان کا کام ہوتا رہے۔
دشمن کا دوسرا ہدف یقین اور اعتقادات کی تخریب ہے۔ میرے عزیزوا! ہر انسان، کسی بھی مرحلے میں جو بھی فعالیت اور جسمانی و ذہنی کام کرتا ہے، اس کی بنیاد اور اساس یقین ہوتا ہے۔ فوجی جو میدان جنگ میں دشمن سے جنگ میں مصروف ہوتا ہے، اس کے اس کام کا باعث اس کا یقین ہوتا ہے۔ اگر اس کے اعتقاد اور یقین کو اس سے سلب کر لیں تو وہی فوجی جو ہمیشہ دشمن کے سینے پر آگ کے گولے کی طرح ٹکراتا تھا، ٹھنڈا ہوکے کسی گوشے میں پڑ جائے گا۔ یقین اور اعتقادات کی یہ حیثیت ہے۔ اسلامی اعتقادات، خدا کے انعام پر یقین، جارح دشمن اور امریکا کے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت کا یقین، یہ وہ عناصر تھے جنہوں نے اس قوم کو متحرک کیا۔ ظالم اور فاسد پہلوی حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ اسلامی نظام قائم کیا اور دشمن کے تسلط کو ختم کر دیا۔ انہیں اعتقادات اور یقین کی وجہ سے بیس سال سے یہ قوم دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کر سکی ہے۔ دشمن کا ہدف کیا ہے؟ دشمن کا ہدف یہ ہے کہ اس یقین اور اعتقادات کو عوام سے سلب کر لے۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ کچھ رنج و الم اور غم وغصے ہیں لیکن خدا کی بشارتیں بہت زیادہ ہیں اور میں آخر میں ان خدائی بشارتوں کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ وہ غلطی کر رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ یہ کام کر سکیں گے۔ نہیں۔ یہ وہ قوم ہے کہ تمام مسلم اقوام میں صدیوں اسلامی تعلیمات، فقہ اسلامی، حدیث اسلامی، فلسفہ اسلامی اور عرفان و تفسیر کی علمبردار رہی ہے۔ یہ ہماری قوم کی تاریخ اور حقائق ہیں۔ ہماری قوم وہ قوم ہے کہ پہلوی دور حکومت میں پچاس سالہ منصوبہ بند دین کی مخالفت، اس کو دین سے جدا نہ کر سکی۔ جب وہ سمجمھ رہے تھے کہ اس قوم کی نوجوان نسل کو فاسد، برباد اور بے دین کر دیا گيا ہے تو یہی نوجوان نسل، ایک مرجع تقلید اور سخنور، پارسا، اور خدا پر توکل کرنے والے عالم دین کی اقتدا میں اٹھ کھڑی ہوئی اور دشمنوں کی بساط لپیٹ دی۔ وہ سوچتے ہیں لیکن کوشش بھی کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ صیہونیوں کے تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کے بارے میں اتنی کوششیں وہ کر رہے ہیں تو یہ اس لئے ہے کہ وہ حقیقت سے انکار کرنا چاہتے ہیں۔ میں صیہونزم، صیہونی دشمن اور اپنے موقف کے بارے میں اگر موقع رہا تو کسی اور دن تفصیل سے گفتگو کروں گا۔ میں اس قضیے کو چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ یہ ان کا خیال خام ہے کہ انھوں نے چند نام نہاد اخباروں میں چند سرخیاں لگا دیں تو قضیہ ختم ہو جائے گا۔ فلسطینی قوم اور اسلام سے خیانت کرنے والوں کا گریبان یہ قوم پکڑے گی۔ امریکی بیس سال سے اس قوم کے خلاف بول رہے ہیں ، اقدام کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اس نظام، اس دین اور اس موقف کے مخالف ہیں کیونکہ اس سے خطے میں ہمارے مفادات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ہمارے مفادات، یعنی کیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن اس ملک میں ہر چیز ہمارے اختیار میں تھی، لیکن یہ اسلامی نظام، یہ مسلم نوجوان اور یہ مسلم علما آئے اور انھوں نے تیل، قدرتی ذخائر اور فوج وغیرہ ، ہر جگہ سے ہمارا نفوذ ختم کر دیا۔ ہم اس لئے ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں یہ کہنے میں بھی شرم نہیں آتی کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ایران میں اپنے مفادات دوبارہ حاصل کریں! کسی قوم کے خلاف اس سے زیادہ واضح اور بڑی دشمنی ہو سکتی ہے؟ اب کوئی اپنا ناقص قلم اٹھائے اور یہ لکھے کہ نہیں جناب! امریکا ایرانی قوم کا دشمن نہیں ہے۔ ایرانی قوم کے مفادات کا دشمن نہیں ہے۔ ہمارا دشمن نہیں ہے۔ ہم کو بھی دنیا کی دیگر حکومتوں کی طرح جو امریکا کی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی ہیں اور امریکی چوکھٹ پر جبہہ سائی کرتی ہیں، امریکا کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا چاہئے! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایرانی قوم ان چیزوں کو چھوڑ دے گی؟ کیا یہ فکر جو اس قوم پر حکمفرما ہے، ایک سطحی فکر ہے؟
اس نکتے پر سبھی توجہ دیں! ہمارے دشمن بھی اس نکتے پر توجہ دیں! میرا یہ خطاب دنیا کے اطراف و اکناف میں موجود اپنے دشمنوں سے ہے۔ وہ فکر جس نے اس قوم میں سمندروں کا طوفان پیدا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے یہ قوم کامیابی کے لئے بیس سال سے جدوجہد کر رہی ہے، اپنی اس بیس سالہ استقامت کی اساس پر اپنے لاکھوں نوجوانوں کو اس راہ میں قربان کر دیتی ہے، جس فکر نے اس قوم میں اتنی گہرائیاں پیدا کر دی ہیں، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کو تم آسانی کے ساتھ اس قوم سے سلب کر لوگے؟ تمہارے انٹیلیجنس ماہرین اتنے سادہ لوح اور اتنے احمق ہیں؟! جب اس قوم کی ہر چیز پر تمہیں تسلط حاصل تھا، یونیورسٹیاں تمھارے اختیار میں تھیں، حکومت تمھارے اختیار میں تھی، شاہ تمھارے تسلط میں تھا، حکومت، وزیر اعظم، وزرا سبھی تمھارے اختیار میں تھے، اس مملکت میں تم جو چاہتے تھے وہی اخبارات میں لکھا جاتا تھا، جو پالیسی تم چاہتے تھے وہی اپنائی جاتی تھی، کسی بھی عالم دین میں یہ ہمت نہیں تھی کہ کسی مسجد میں امریکا کے خلاف ایک لفظ بول دے، جو بولتا تھا اس کو جیل میں بند کر دیتے تھے، البتہ علما ہمت کرتے تھے، بولتے تھے اور یہ سلسلہ جاری رکھتے تھے، لیکن گھٹن بہت زیادہ تھی – اس دور میں یہی دین، انھیں علما، انھیں مسلمان عوام اور انھیں مومن نوجوانوں نے تم امریکیوں کو ایسے دردناک عذاب میں مبتلا کیا اور اس عظیم ملک کو تمھارے چنگل سے نکال لیا! آج تو اقتدار اسلام کے پاس ہے۔ ان نوجوانوں کے پاس ہے۔ ہر چیز اسلام کے اختیار میں ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اس ایمان اور اس دین کو عوام سے سلب کر سکتے ہو؟! یہ خیال خام ہے! یہ سوچ کی غلطی ہے! یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے دشمنوں نے ہمیشہ اپنی غلطیوں کا نتیجہ دیکھا ہے۔ اس بار بھی اپنی غلطی کا نتیجہ دیکھیں گے۔ لیکں ہمیں اور آپ کو اپنے حواس جمع رکھنے چاہئیں اور غفلت نہیں کرنی چاہئے۔ میری سفارش صرف یہ ہے کہ غفلت نہ کریں۔ دشمنوں کی سازشوں کی طرف سے ہمارے نوجوان غفلت نہ کریں۔ ہمارے علما غفلت نہ کریں۔ ہمارے بزرگ غفلت نہ کریں۔ ہمارے چھوٹے غفلت نہ کریں۔ مختلف طبقات غفلت نہ کریں۔ غفلت نہ ہو تو خداوند عالم ہدایت کرے گا اور راستہ واضح ہو جائے گا اور راستہ واضح ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کچھ غم وغصہ بھی ہے۔ میں غم وغصے بیان کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے کہ غم ہے تو غمگسار بھی ہیں۔ خداوند عالم اور اس کے اولیا بہترین غمگسار ہیں۔ زندگی کے سبھی مراحل میں یہی رہا ہے اور آج بھی یہی ہے۔ لیکن اگر میں اشارتا عرض کرنا چاہوں تو سب سے بڑآ غم یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا، بعض عناصر جن کا اس ملک پر امریکا کے تسلط میں کوئی فائدہ نہیں ہے، غفلت، غلطی، کمزوری اور کینے کی وجہ سے اس ملک پر امریکی تسلط کے لئے کام کر رہے ہیں! اشخاص مختلف ہیں۔ بعض بغض اور کینہ رکھتے ہیں، بعض کو کسی سے کوئی شکایت ہے، معمولی مقصد کے لئے سب کچھ برباد کرنے پر تیار ہیں، ذاتی دشمنی اور کینے کی وجہ سے، کوئی عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے، مثال کے طور پر وہ چاہتے تھے کہ کوئی ذمہ داری اور عہدہ انہیں دیا جائے لیکن نہیں دیا گیا اور سمجھنے میں غلطی کی وجہ سے بولتے ہیں، اقدام کرتے ہیں، موقف اختیار کرتے ہیں، ایسا کام کرتے ہیں جس سے نقصان پہنچتا ہے اور دشمن کی خدمت کرتے ہیں! آپ جان لیں کہ یہ اغیار کے ریڈیو اسٹیشن دسیوں لاکھ ڈالر کے خرچ سے چلتے ہیں۔ یہ خاص مقصد کے تحت پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ اپنے سامعین، جن ملکوں کے لئے پروگرام نشر کرتے ہیں، ان کے عوام پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ یہ بلا وجہ کسی فرد، کسی بات یا کسی تحریک کا دفاع نہیں کرتے! ہر عاقل انسان جب دیکھے کہ دشمن اس کی تعریف کر رہا ہے تو اس کو سوچنا چاہئے کہ اس سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ میں نے کیا کیا ہے کہ دشمن تعریف کر رہا ہے؟! اس کو ہوشیار ہو جانا چاہئے۔ بعض لوگ دشمن کی تعریف پر خوش ہو جاتے ہیں جبکہ یہ فکر کا مقام ہے۔ اگر فٹبال کے کھیل میں ہمارا کھلاڑی غلطی سے اپنے ہی پوسٹ میں گول مار دے تو کون تالیاں بجائےگا؟ مخالفین اور دوسری ٹیم کے طرفدار۔ اب جب آپ دیکھیں کہ دشمن آپ کے لئے تالیاں بجا رہا ہے تو آپ کو جان لینا چاہئے کہ آپ نے اپنے ہی پوسٹ میں گول مار دیا ہے۔ تو دیکھئے کہ یہ گول کیوں مار دیا؟ یہ کیسے کر دیا؟ سوچئے کہ آپ سے کیا غلطی ہوئی؟ دیکھئے کہ پرابلم کہاں ہے؟ غور کیجئے، اپنی غلطی کو سمجھئے اور توبہ کیجئے۔ میں اس ماہ رمضان میں ان تمام لوگوں سے جنہوں نے ایرانی قوم کے خلاف یہ غلطی کی ہے، چاہتا ہوں کہ خدا کے سامنے اور اسلام کے سامنے توبہ کریں۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ غلطی مجھ حقیر بندے کے سامنے ہوئی ہے۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کو جان لیں۔ میں کوئی دعوی نہیں کرتا ہوں۔ کسی عہدے اور اقتدار سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ البتہ جو بھی عوام کی خدمت کر سکے، یہ خدمت اس کے لئے باعث افتخار ہے لیکن اس سے وابستگی نہیں ہے۔ جن کو جاننا چاہئے وہ جانتے ہیں۔ انسان غمگین ہو جاتا ہے اور اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ بعض وہ لوگ جنہوں نے انقلاب کی روٹیاں کھائيں، اسلام کی روٹیاں کھائيں، امام زمانہ کی روٹیاں کھائیں، امام زمانہ کا دم بھرا، ائمہ معصومین کا دم بھرا، اب انھوں نے ایسی روش اپنائی ہے کہ امریکا، اسرائیل، سی آئی اے اور دنیا کے گوشہ و کنار میں جتنے بھی اسلام کے دشمن ہیں، وہ سب ان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں۔ اس سے دکھ ہوتا ہے۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ خدا کی بشارتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ دل سے ہر غم کو دور کر دیتی ہیں۔ خدا کی بشارتیں بہت زیادہ ہیں۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ چار انقلابی، کاروان انقلاب سے الگ ہو گئے تو انقلاب تنہا رہ گیا۔ نہیں جناب، سبھی انقلابات، سبھی افکار اور مختلف قسم کی سبھی تحریکوں میں سے کچھ لوگ نکلتے ہیں تو کچھ شامل ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کم ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ بڑھتے بھی ہیں۔
آپ صدر اسلام پر نظر ڈالیں۔ دیکھیں کہ اسلام کی تنہائی کے دور میں، علی کی تنہائی کے دور میں، جن لوگوں نے امیر المومنین کا دفاع کیا وہ کون تھے؟ یہ سابق الاسلام نہیں تھے۔ پرانے مسلمان، طلحہ، زبیر، سعد ابن ابی وقاص جیسے لوگ تھے۔ سابق الاسلام لوگوں میں سے بعض نے علی کو اکیلا چھوڑ دیا۔ ان میں بعض علی کے مقابلے پر آ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کم ہوئے۔ بڑھے کون لوگ؟ عبد اللہ ابن عباس، محمد ابن ابی بکر، مالک اشتر، میثم تمار۔ یہ نئے ابھر کے سامنے آنے والے لوگ ہیں۔ یہ پیغمبر کے زمانے میں تو نہیں تھے۔ یہ اسلام کی تنہائی کے دور میں سامنے آئے ہیں۔ یہ نو نہالان اسلام ہیں ۔ آپ دیکھیں کہ ایک مالک اشتر پوری تاریخ اسلام میں کتنا موثر ہے۔ جی ہاں، ممکن ہے کہ کچھ لوگ کم ہوجائيں۔ البتہ یہ بھی افسوس کا مقام ہے۔ جب امیر المومنین کے سامنے زبیر کی شمشیر پیش کی گئی تو آپ نے گریہ فرمایا۔ جیسا کہ میں نے کہا، دکھ ہوتا ہے۔ جو لوگ انقلاب کے دسترخوان پر، اسلام اور قرآن کے دسترخوان پر بیٹھ چکے ہیں اسلام کا نمک کھایا ہے ان میں سے کچھ لوگ کم ہو جائيں، نکل جائيں تو غم تو ہوگا، لیکن جہاں کچھ لوگ کم ہو گئے، نکل گئے وہیں، عبداللہ ابن عباس اور مالک اشتر جیسی ہستیاں بھی ہیں جن کا اضافہ ہوا ہے۔ جنگ کے میدانوں میں جب بھی امیر المومنین کو بولنے والے کی ضرورت ہوتی تھی تو عبداللہ ابن عباس امیر المومنین کی مدد کو پہنچ جاتے تھے اور جہاں شمشیر کی ضرروت ہوتی تھی وہاں مالک اشتر ہوتے تھے۔ مالک اشتر، عبداللہ ابن عباس اور محمد ابن ابی بکر جیسی ہستیاں، ایک دو، دس بیس اور ہزار نہیں بلکہ ہزاروں تھیں۔ چار آدمی راستے سے واپس ہو گئے، ان کی طاقت ختم ہو گئی تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس مرکز کی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ نہیں جناب! بعض لوگوں کی طاقت بیچ راستے میں ختم ہو جاتی ہے، جی ہاں، کمزور لوگوں کی طاقت بیچ راستے میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک شخص مشہد سے کارواں کے ساتھ کربلا جانے کے لئے نکلا۔ خواجہ اباصلت تک پہنچا، جو لوگ مشہد گئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خواجہ ابا صلت کہاں ہے، جب وہ اس جگہ پہنچا تو کہا کہ ہمارا زاد راہ ختم ہو گیا۔ بعض کا زاد راہ خواجہ اباصلت ( ابتدائے راہ ) میں ہی ختم ہو جاتا ہے، بعض کا بیچ راستے میں، بعض دو تین کلومیٹر آگے جاتے ہیں تو زاد راہ ختم ہو جاتا ہے! یہ وہی واپسی اور رجعت پسندی ہے۔ یہ قابل فخر نہیں بلکہ ننگ اور عار ہے۔ یہ کٹ جانا ہے۔ یہ راستے پر آگے بڑھنے سے رہ جانا ہے۔ لیکن "الم تر کیف ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء" جڑ مضبوط اور محکم ہے شاخیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ "توتی اکلھا کل حین باذن ربھا" نیا فروغ ہے۔ اس کمی اور فروغ کے بارے میں سماجی، نفسیاتی اور تاریخی نقطہ نگاہ سے بحث اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ بحثیں بہت مفید ہیں لیکن افسوس کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آج اس ملک کی حیاتی اہمیت کی قوتیں اور صلاحیتیں انقلاب اور اسلام کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اس ملک میں طاقت کے بنیادی ستون عوام ہیں جو اسلام، انقلاب، راہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور خدائی و اسلامی اقدار سے قلبی لگاؤ اور وابستگی رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان، ہمارے یونیورسٹیوں کے طلبا، دوسرے طبقات، علما، کاروباری لوگ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے، محنت کش، عوام کے مختلف طبقات کی اکثریت ایسی ہی ہے۔ ملک کو چلانے والے ادارے ایسے ہی ہیں۔ امور مملکت چلانے والے سربراہان ایسے ہی ہیں۔ الحمد للہ ملک کے تینوں شعبوں (مقننہ، مجریہ اور عدلیہ) کے سربراہان، اسلام کے خدمتگزار ہیں اور اسلام کے لئے کام کرتے ہیں۔ واقعی بعض لوگ بہت سی چیزیں نہیں جانتے ہیں۔ دشمن بھی چیزوں کو دوسری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ بہتر ہے کہ سبھی ان باتوں کو جانیں۔ اب سے دو سال قبل، بائیس مئی کو صدارتی الیکشن میں عوام نے بہت بڑا کارنامہ رقم کیا۔ تیس ملین، تین کروڑ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ الیکشن ہونے والے دن سے پہلے تک اغیار کے ریڈیو اسٹیشن جتنا بول سکتے تھے، انتخابات کے خلاف بولے۔ مسلسل کہا کہ دھاندلی ہوگی۔ لوگوں میں مایوسی پھیلانے کے لئے مسلسل کہا کہ یہ ہوگا، وہ ہوگا۔ ان کا مقصد لوگوں کو الیکشن سے ناامید کرنا تھا۔ اگر آپ بائيس مئی کے الیکشن سے پہلے اغیار کے ریڈیواسٹیشنوں کی تین چار مہینے کی خبروں کا جائزہ لیں تو بہت سے حقائق واضح ہو جائيں گے۔ اس طرح بولتے تھے کہ لوگوں میں ناامیدی پھیلے اور وہ ووٹ دینے نہ جائيں۔ لیکن عوام نے اپنے ہمدردوں کی باتیں سنیں۔ میدان میں آئے اور تیس ملین لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ واقعی یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ایران کی عظیم قوم اور اسلامی جمہوریہ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ جیسے ہی الیکشن ختم ہوا اور معلوم ہوا کہ بہت زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور صدر مملکت کا انتخاب عمل میں آیا تو اغیار کے ریڈیو اسٹیشنوں نے اس طرح اپنا لہجہ بدلا کہ جیسے بائیس مئی کا کارنامہ انھوں نے انجام دیا ہے۔ گویا بائيس مئی کا یہ کارنامہ ان کا ہے! اب تک بولتے چلے گئے ہیں۔ تقریبا ڈھائی سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک ان کی تحریک اور پروپیگنڈہ چلا ہے۔ اب تک ہمارے محترم صدر کے بارے میں بولے ہیں اور باتیں کی ہیں۔
میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انتخابات کے پہلے دوسرے ہی دن ہمارے عزیز صدر مملکت جناب خاتمی صاحب نے مجھ سے ملاقات کا وقت مانگا، آئے اور ملاقات کی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ان چند دنوں کے دوران جب آپ انتخابات میں مصروف تھے، اغیار کے ریڈیو سننے کا وقت آپ کو ملا یا نہیں؟ لیکن میں نے سنا ہے۔ یہ ریڈیو اسٹیشن یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بائیس مئی کا الیکشن انقلاب کے خلاف، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے خلاف اور اسلام کے خلاف تھا! یہ تشہیراتی روشیں ہیں اس طرح پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی پہلی ہی تقریر میں ان کو دنداں شکن جواب دیں اور بتا دیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارا راستہ وہی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور اسلام کا ہی راستہ ہے۔ تین چار دن کے بعد ان کی پریس کانفرنس تھی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ سے دوبارہ ملاقات کی اور کہا کہ میں نے اس پریس کانفرنس کے لئے کچھ چیزیں تیار کی تھیں کہ کہوں گا لیکن سب بھول گیا صرف آپ کی بات یاد تھی کہ انہیں منہ توڑ جواب دیں۔ انھوں نے اس پریس کانفرنس میں ان کو دنداں شکن جواب دیا۔ آج تک الحمد للہ صدر مملکت، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ اور ملک کے حکام کا موقف وہی انقلاب، امام اور اسلام کا موقف ہے۔ اسلامی اقدار کی پابندی کا ہر روز اعادہ کرتے ہیں۔ یہ باعث افتخار ہے۔ یہ بذات خود وحدت و اتحاد کا وسیلہ ہے۔ جو عوامل ملکی سطح پر دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کر سکتے ہیں، ان میں سے ایک یہی ہے۔ اسی لئے میں مسلسل عرض کرتا ہوں کہ دلوں میں انس و محبت پیدا ہو، وفاق پیدا ہو اور سیاسی دھڑے ایک دوسرے سے نزدیک ہوں۔
انتخابات سامنے ہیں۔ میں ان شاء اللہ انتخابات کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کروں گا۔ اس وقت میں انتخابات کے بارے میں صرف یہ عرض کروں گا کہ ان انتخابات کو بھی بائیس مئی کے الیکشن کی طرح قوم کے لئے باعث افتخار و سربلندی ہونا چاہئے۔ عوام پولنگ اسٹیشنوں پر جاکر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔
خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ اس کے الطاف، اس کا فضل، اس کی رحمت، اور اس کی نصرت عوام کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ملک کے حکام، عوام، امت حزب اللہ، یہ مومن نوجوان، یہ بسیجی (رضاکار) سپاہی، یہ مختلف طبقات کے لوگ، یہ سب اسلام کے خدمتگزار ہیں، اسلام اور مسلمین کی ضرورتوں پر ان کی نگاہیں ہیں، یہ وقت کے منتظر ہیں جیسے ہی ضرورت محسوس کریں گے میدان میں موجود ہوں گے۔ الحمد للہ آج اسلام اور اسلامی نظام کی توانائی فطری طور پر پہلے سے زیادہ ہے۔ یہ اسلامی نظام عوام کی توجہات، عوام کی محبت، عوام کی حمایت، عوام کی فکر اور عوام کے ووٹوں پر استوار ہے۔ خداوند عالم عوام کے لئے اس لطف و رحمت کو ان شاء اللہ جاری رکھے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اذا جاء نصر اللہ و الفتح و رایت النّاس یدخلون فی دین اللہ افواجا فسبّح بحمد ربّک و استغفرہ انّہ کان توّابا۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ وب رکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس کونسل کے محترم اراکین اور دوستان عزیز وقت دیتے ہیں، اور یہ جلسے منعقد کرتے ہیں، اس پر میں بہت زیادہ شکر گزار ہوں۔ اگر چہ اس کونسل کے کاموں پر کئے جانے والے بعض اعتراضات اور تنقیدیں صحیح ہیں لیکن جیسا کہ جناب خاتمی صاحب نے فرمایا ہے بعض معاملات میں اچھے فیصلے کئے گئے ہیں۔
یہ اعتراضات جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، قبل اس کے کہ اس مفید اور پربرکت کونسل کے باہر کے لوگوں کی طرف سے کئے جائيں، خود کونسل کے بعض اراکین نے پیش کئے ہیں۔ اس ایک سال میں، یعنی اس سے پہلے کے اجلاس میں جب میں آپ حضرات کی خدمت میں تھا اور ثقافت، تدیّن اور یونیورسٹیوں کے مسائل کے بارے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں، اس کے بعد سے اب تک، کونسل کے متعدد اراکین اور اس سے وابستہ افراد نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور کچھ یاد دہانیاں گرائی ہیں۔ مجموعی طور پر ان سبھی حضرات نے کونسل کے کاموں میں پیشرفت کے تعلق سے گلہ کیا ہے۔ البتہ جیسا کہ جناب آقائے خاتمی نے اشارہ کیا ہے، صحیح ہے، میں بھی تنقید کا خیر مقدم کرتا ہوں اور تنقید کو تکامل کا وسیلہ سمجھتا ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اپنی کارکردگی اور دوسرے لوگوں اور خود کونسل کے اراکین کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لینے کا بہترین مرکز خود یہ سپریم کونسل ہے۔ جن حضرات نے اعتراضات کئے ہیں ان میں سے بعض اس کونسل کی تشکیل کے وقت سے اور اس سے پہلے جب یہ ایک کمیٹی تھی، اسی وقت سے، بیس سال سے اس کے ساتھ اور اس کے رکن رہے ہیں۔ بہرحال ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ثقافتی، علمی، دینی اور انس و محبت سے مملو اس بہت اچھے اجلاس میں، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ثقافت کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے اسلامی جمہوری نظام میں ثقافت کو کم اہمیت دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کے انفرادی اور اجتماعی طرزعمل اور کردار کے تعیّن کے اصلی عامل کے عنوان سے بھی اور سیاسی اثرات اور سیاسی رجحانات کے حامل عنوان سے بھی ثقافت کی تاثیر کی طرف سے غفلت برتی گئی ہے اور جتنی توجہ اس پر دینے کی ضرورت تھی اتنی نہیں دی گئی ہے۔ باتیں کی جاتی ہیں، کچھ باتیں کہی جاتی ہیں، میں خود بھی کچھ باتوں کو بار بار کہتا ہوں، لیکن عمل میں دیکھتے ہیں کہ اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ میرا ایک خیال ہے جسے میں آپ دوستان عزیز کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ذمہ دار عہدیداروں کے عنوان سے بھی اور بحیثیت قوم بھی ہمارا انفرادی اور اجتماعی طرز عمل دو طرح کے عوامل کے زیر اثر ہے۔ عوامل کا ایک مجموعہ استعداد، صلاحیتوں اور وسائل، عوام کی توانائیوں اور استعداد پر مشتمل ہے۔ فرض کریں ہم کسی شخص کو نظر میں رکھیں، ہر میدان میں اس کی سرگرمیوں اور سعی و کوشش کا ایک حصہ اس کی اپنی استعداد، صلاحیتوں اور توانائیوں نیز اس ماحول سے تعلق رکھتا ہے جس سے وہ استفادہ کرتا ہے۔ دوسرا وہ عامل ہے جو اس پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کے اندر خیال پیدا کرتا ہے اور اس کو سمت دیتا ہے۔ ثقافت سے ہماری مراد وہی خیال پیدا کرنے والے اور جہت دینے والے عوامل ہیں۔ جہاں بھی میں لفظ ثقافت استعمال کرتا ہوں ثقافت کے عام معنی مراد ہوتے ہیں۔ یعنی انسان کے وجود پر حکمفرما وہی سوچ اور فکر جو اس کی رفتار اور طرز عمل کی کسی سمت میں ہدایت کرتی ہے۔ اس میں سرعت یا کندی پیدا کرتی ہے۔ یہ ہر طرز عمل اور رفتار کا تعین کرنے، جہت اور سمت دینے اور آگے بڑھانے والے عوامل کا کم سے کم نصف حصہ ہے۔ اس مسئلے اور اس تشویش کو جو میرے ذہن میں ہے مکمل طور پر واضح کرنے کے لئے کہ میں بعض اوقات اس مسئلے پر زیادہ کیوں بولتا ہوں، ایک محاذ جںگ فرض کریں جس میں کچھ فوجی ہیں جو فداکاری، اپنی قوت فیصلہ، عزم و ارادے اور استقامت کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے محاذوں پر آٹھ سال تک جو جنگ جاری رہی ہے، اس زمانے میں آپ کسی علاقے میں پہنچتے تھے، دیکھتے تھے کہ کچھ مومن، حزب اللّہی اور فداکار نوجوان ہیں جو اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں، استقامت سے کام لے رہے ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان میں سے جس سے بھی آپ سوال کرتے کہ یہ جدوجہد کیوں کر رہے ہو؟ وہ کہتا "میرا فریضہ ہے، امام نے کہا ہے، میرے دین کا حکم ہے۔ دشمن نے ہمارے ملک پر جارحیت کی ہے، ہماری سرحدوں اور ناموس کے لئے خطرات پیدا کئے ہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں، ہمیں اپنا دفاع کرنا چاہئے۔" وہ اپنے ذہنی عقائد آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، جس میں خدا پر اعتقاد، قیامت پر اعتقاد، شہادت پر اعتقاد، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے حکم پر اعتقاد، امام کی اطاعت کے لازمی ہونے پر اعتقاد، دشمن کے جارح ہونے کا یقین اور اس بات کا یقین کہ ہم ایسی قوم ہیں جس کو اپنا دفاع کرنا چاہئے، یہ سب اس میں شامل ہے۔ دینی اعتقادات سے آمیختہ یہ ساری باتیں اس کے بیان میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ اعتقادات اس بات کا باعث بنے ہیں کہ یہ نوجوان کھڑا ہو، اپنے گھر کا آرام و آسائش، اپنی زندگی، اپنی تعلیم، یونیورسٹی ہر چیز کو ترک کرکے محاذ پر جائے اور اپنی جان کی بازی لگائے، شہید یا زخمی ہو جائے اور پوری عمر معذوری کی حالت میں گزارے جیسا کہ آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہیں کہ وھیل چیئر پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اب اگر اسی حال میں کہ یہ نوجوان میدان جنگ میں پورے جوش و خروش کے ساتھ جنگ کر رہا ہے، کوئی آکے اس کے اعتقادات کو کمزور کرنے کی کوشش شروع کر دے، مثلا کہے کہ " یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ یہ دشمن جارح ہے، تو کیسی جارحیت؟ پہلے ہم نے حملہ کیا تھا!" وہ دشمن کے جارح ہونے کے بارے میں اس کے یقین اور شہادت کی اہمیت اور قدر و منزلت کو کم کرنے کی کوشش شروع کرتا ہے، اس کے اس اعتقاد کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا حکم ہے اور امام کے حکم کی تعمیل ضروری ہے، اس کے اس اعتقاد اور یقین کو کمزور کرتا ہے کہ انسان کو اپنے ملک، اپنی سرحدوں اور اپنے وطن کا دفاع کرنا چاہئے۔ اب آپ دیکھیں کہ وہی نوجوان جو اس طرح دشمن سے جنگ کے لئے پرعزم ہے، یقین اور اعتقاد کی اس تبدیلی سے کیا بن جاتا ہے؟ پشیمان، متزلزل، شک و تردد کا شکار ہو جاتا ہے اور شاید محاذ سے واپس ہو جائے۔ یعنی وہی شخص، وہی انسان، انہیں استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ، اسی جسمانی قوت اور ذہانت کے ساتھ، جسمانی اور ذہنی لحاظ سے انہیں توانائیوں کے ساتھ اسی قوت ارادہ اور قوت فیصلہ کے ساتھ ، ذہنی تصورات اور یقین کے بدل جانے سے ایک فعال، سرگرم، پیش قدم، اور موثر عنصر کے بجائے ایک پشیمان اور شکست خوردہ انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ بہت واضح بات ہے۔ اب ممکن ہے کہ کوئی جاکے اس کے احساسات و جذبات اور اس کے ایمان و یقین کی تقویت کرے یا جس کے اندر یہ ایمان اور یقین نہیں ہے، جو ان جذبات و احساسات سے عاری ہے، اس کے اندر یہ ایمان اور یقین پیدا کرے، تو اس کو ایک فعال اور پیش قدم انسان میں تبدیل کر دے گا۔ میں اس نکتے کی طرف متوجہ ہوا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ " مداد العلما افضل من دماء الشہدا"(1) اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عالم ہے وہ انسانوں کے ذہن میں جو کچھ ہے اس کو تبدیل کر سکتا ہے، اس جسم اور آج کی اصطلاح میں، اس بشری ہارڈ ویئر کو ایک اعلی، پیش قدم، فعال اور مضبوط انسان میں تبدیل کر سکتا ہے۔ ایک عالم یہ کام کرسکتا ہے۔ "مداد العلما" واقعی " دماء شہدا" سے افضل ہے۔ اس لئے کہ یہی نوجوان طلبا جنگی تبلیغاتی ٹیم میں، میدان جنگ میں جاتے تھے، میں نے بارہا خود وہاں مشاہدہ کیا ہے، یہ اپنی تبلیغ سے معمولی انسانوں کو مضبوط انسانوں میں تبدیل کر دیتے تھے۔ کمزور انسانوں کو محکم انسانوں میں اور متزلزل انسانوں کو استقامت کے ساتھ ڈٹ جانے والے انسانوں میں تبدیل کر دیتے تھے۔ یہ ثقافت کا کردار ہے۔ اب آپ اس کو پورے ملک کی سطح پر دیکھیں۔ اس وقت ہم ملک کے اندر ایک ایسے فوجی ہیں جس کو عوام کی استقامت، فکری توانائیوں، عزم راسخ اور ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دشمن سے متاثر نہیں ہوتے۔ یہ ذمہ داری کون پوری کرے؟ کون عوام کو سمجھائے کہ دشمن کون ہے، اس کی دشمنی کیسی ہے اور آج ملک کی ضرورت کیا ہے؟ کون دین کو جو قوم کی سرافرازی ، استقامت اور فداکاری کا سرچشمہ اور ان کی گوناگوں مادی کششوں کے سامنے نہ جھکنے کا باعث ہے، اس دین کو عوام، نوجوان نسل، یونیورسٹیوں کے طلبا اور افراد معاشرہ تک پہنچائے اور ان کو سمجھائے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم منتظر بیٹھیں کہ دینی مدارس اور علمائے کرام اسی پرانی روش اور روایتی تقاریر کے ذریعے یہ کام انجام دیں، یا نہیں بلکہ آج ہماری حکومت اسلامی ہے، نظام اسلامی ہے ہم پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور دینی شخصیتوں کی حیثیت سے ہمارے کچھ دینی فرائض ہیں۔ چاہے وہ لوگ ہوں جو صاحب عمامہ ہیں یا وہ لوگ جو صاحب عمامہ نہیں ہیں۔ جس نے بھی کوئی عہدہ قبول کیا ہے در اصل اس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے کہ اسلامی نظام اور اس ملک کو پائیدار اور محکم بنائے گا اور تکامل تک پہنچائے گا؟ ہمارے علاوہ اور کون اس بات کا ذمہ دار ہے کہ عوام اگر متزلزل ہیں تو انھیں محکم بنائے، اگر شک و تردد کا شکار ہوں تو ان کا شک دور کرے، اگر ان کے اعتقادات میں کمی ہو تو اس کی اصلاح کرے اور ان کے سامنے صحیح نیز محکم اعتقادات پیش کرے، اگر دشمن کے اہداف اور کاموں کے بارے میں ان کے اندر شک ہو تو اس شک اور تزلزل کو دور کرے، ان کے عزم و ارادے کو محکم اور مصمم بنائے، تاکہ عوام اس حق کا جس نے اس ملک کا پرچم اٹھایا ہے، بھرپور دفاع کریں؟ عوام کو اس سمت میں لانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ہمارے علاوہ، حکام کے علاوہ، خاص طور پر ثقافتی امور کے ذمہ داروں کے علاوہ، ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے علاوہ جو اسی مقصد سے قائم کی گئ ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟ اگر آج ہم عوام کو متدیّن، شرع کا پابند، دیندار، دینی اصولوں سے آگاہ بنا دیں، دینی تعلیمات سے آراستہ کر دیں تو جتنا بھی اس راہ میں آگے بڑھیں گے اس مملکت، اس ملک و قوم کے مستقبل کی اتنی ہی ضمانت فراہم کریں گے۔ جتنا بھی اس بات کی اجازت دیں گے کہ رخنہ اندازی کی جائے، عوام کے یقین اور اعتقادات، دینی مقدسات، مسئلہ شہادت، مسئلہ جہاد، اسلام اور مسلمین سے دشمنوں کی واضح دشمنی کے بارے میں ان کے یقین کو کمزور کیا جائے، عوام کے ذہنوں میں شک پیدا کریں، جتنا اس بات کی اجازت دیں گے، اس ملک و قوم کے مستقبل کو اتنے ہی خطرات سے دوچار کریں گے، اس سعادت اور کامرانی کے امکان کو اتنا ہی کم کریں گے جس کے لئے اس قوم نے قیام کیا اور انقلاب لائی اور دشمن کے غلبے کا امکان اتنا ہی زیادہ بڑھا دیں گے! یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا ہے جب تک ثقافتی امور کی تقویت نہ کی جائے۔ درحقیقت ملک کے ثقافتی امور کے سبھی ذمہ داروں کو، ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل، حکومتی ارکان جو اس کونسل میں ہیں، غیر سرکاری تنظمیں جیسے ادارہ تبلیغات اسلامی اور دوسرے ثقافتی ادارے سب کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا۔ آج کام کی بنیاد یہ ہے۔
آج حضرات (2) نے اس گفتگو کی رپورٹ پیش کی ہے جو ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران آپ بہنوں اور بھائيوں کے درمیان کی ہے۔ میں نے دیکھا کہ گزشتہ سال بھی تقریبا اسی قسم کی باتیں کی ہیں اور اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ معاشرے میں تدیّن کو غلبہ حاصل ہو اور عوام دینداری کی طرف آئيں۔ تدیّن سے مراد دین کا تظاہر اور تقدس مآبی نہیں ہے۔ البتہ ظواہر کی بھی بہت اہمیت ہے۔ ظواہر کا یقینا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ دینی سلوگن کے مسئلے کو غیر اہم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ چیزیں بہت موثر ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہی گہرے، بنیادی، فکر اور اعتقادی کام بھی انجام دنیا ضروری ہے۔ انقلاب سے پہلے جو لوگ تبلیغی اور دینی کاموں کی توانائی رکھتے تھے، اپنی وسعت بھر کام کرتے تھے۔ آج وہ کوششیں ہزاروں گنا زیادہ ہو جانی چاہئے۔ دس گنا اور سو گنا نہیں کہا جا سکتا۔ آج پوری حکومت اور اتنا عظیم نظام اتنے امکانات و وسائل کے ساتھ ہمارے اختیار میں ہے۔ عوام کو سیلاب کی طرح اسلام اور اسلامی اصولوں اور اسلامی اہداف کی طرف لانا چاہئے۔
اگر ہمارے اندر عزم ہو، فیصلہ ہو تو کون سی چیز ہمارے سامنے رکاوٹ بن سکتی ہے؟ لہذا درحقیقت مجھے بعض حکومتی اداروں سے گلہ ہے اور میں نے اپنا گلہ بیان کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کام کم کیا گیا ہے، سستی پائی جاتی ہے۔ میں نے ایک بار اس اجلاس میں، دو تین سال قبل یہ عرض کیا تھا کہ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مقابل تفکر کو ختم کر دیں، اس کا قلع قمع کر دیں۔ ہم قلع قمع کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم اس کی فکر میں نہیں ہیں۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ کسی فکر کا قلع قمع کرنا ممکن اور مفید ہے۔ ہمارا نظریہ ہے کہ فکر پیش کی جائے، تقریر و تحریر میں اس کو بیان کیا جائے، لیکن ہمارے پاس منطق، استدلال اور صحیح فکر ہے۔ ہم منطق اور استدلال سے ثابت کریں کہ یہ فکر غلط ہے۔ فکری بیانات و اظہارات کے مقابلے میں، سیاسی میدان میں، اسلامی میدان میں، مخالفین، دشمنان اسلام، اسلام، مسلمین اور اسلامی نظام کے مقابلے پر آنے والے، جو فکر پیش کرتے ہیں اس کے مقابلے میں کام کیا جائے۔ اگر دیکھا جائے کہ کچھ لوگ میدان میں آکے ثقافتی صف آرائی کر رہے ہیں تو مجھے خوشی ہوگی کہ وہ باتیں جو اب کہی جا رہی ہیں، اس سے زیادہ کہی جائيں، لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اس صف آرائی کا مشاہدہ کریں۔ وزارت ارشاد ( اسلامی ہدایت کی وزارت) اعلی تعلیم کی وزارت، وزارت صحت، وزارت تعلیم و تربیت، ادارہ تبلیغات اسلامی، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سب مل کے دکھائيں کہ ان کی صف آرائی ہے۔ ثقافتی مراکز اور قوتوں کی صف آرائی دینی، اسلامی اور انقلابی صف آرائی ہونی چاہئے۔ اس میں واپسی نہیں ہے۔ یہ غلط اور خطرناک ہے کہ ہم ناگہاں یہ احساس کریں کہ دشمن نے ہماری صف آرائی در برہم کر دی ہے اور ہم ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ میدان جنگ کی طرح، آپ ناگہاں دیکھیں کہ بجائے اس کے کہ آپ کے فوجی دشمن کے مقابلے پر مورچہ سنبھالیں، مورچہ بنائيں، آپ کے مورچے قلب دشمن تک چلے گئے ہیں اور دشمن کے مورچے آپ کے درمیان آ گئے ہیں، ایک دوسرے سے مل گئے ہیں! آپ نے اپنے ہی لوگوں کے مقابلے پر مورچے بنا لئے ہیں! یہ باعث تشویش ہے۔ مجھے آج اس کی تشویش ہے۔
میں نظر دوڑاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارے ثقافتی میدان میں اسلام کے نام پر بہت کم کام ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر وزارت ارشاد یہ اعلان نہیں کرتی ہے کہ ہم اسلامی فلمیں بنانا چاہتے ہیں! ہمیں کس بات کی ہچکچاہٹ ہے؟ کسی زمانے میں اس دنیا میں ایسے لوگ تھے جو بسم اللہ کہنے اور اسلام کا نام لینے میں شرم محسوس کرتے تھے۔ ہم نے دنیا میں اسلام کو رائج اور مقبول کیا۔ اب ہم اس بات میں شرم محسوس کریں کہ ہم اسلامی سنیما اور تھئیٹر پیش کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں یہ اعلان نہیں کرتے؟ صراحت کے ساتھ کہیں کہ ہم اپنے سنیما کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ اسلامی سنیما کا مطلب کیا ہے؟ یعنی یہ کہ ہم اس تکنیک، اس پیرائے اور اس ہنر کو جو بہت سی دوسری چیزوں کی طرح دوسروں سے لیا ہے، معانی اور مفاہیم کے لحاظ سے اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس قالب اور ہنر سے ہر اس چیز کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو اسلام سے منافات رکھتی ہو۔ یہ کہنے میں کیا حرج ہے؟ یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ہم اپنے اسٹیج آرٹ میں، یونیورسٹی میں، فلاں پروگرام میں مسلمان ہدایتکار چاہتے ہیں؟ اس کی تشریح کی جائے کہ ہم مسلمان ہدایتکار، مسلمان اسکرپٹ رائٹر اور مسلمان اداکار تیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم معاشرے کے ماحول کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟ یونیورسٹیوں میں اس بات کی تشریح کیوں نہیں کی جاتی کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں؟ میں نے چند سال قبل یہ بات پیش کی تھی۔ البتہ مجھے اطلاع ہے کہ آپ حضرات نے اس سلسلے میں میٹنگیں کی ہیں۔ ان شاء اللہ ان میٹنگوں کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ یہ کہنے میں شرم محسوس نہ کریں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں اسلامی ہوں۔ اس میں خوف محسوس نہ کریں۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے اس قوم نے قیام کیا ہے اور ہم آپ اس قوم کے ظاہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا ارادہ، ہماری فکر ، ہمارا تصور اور ہمارے جذبات اس قوم کے طبقات کی گہرائیوں کی عکاسی نہیں کرتے! قوم کے طبقات وہی ہیں جو انقلاب لائے، جنہوں نے جںگ لڑی اور اتنے شہید دئے۔ اب بھی تیار ہیں اگر اسی طرح کا امتحان درپیش ہو تو اسی طرح شہادتیں پیش کریں گے، بھوک اور سختیاں برداشت کریں گے، عوام مومن ہیں۔
جناب آقائے خاتمی سے ان کی تقریر کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی، شاید کل یا پرسوں، انھوں نے اپنی تقریر میں ایک جملہ کہا تھا جو مجھے بہت پسند آیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ "ایران کا تشخص اسلام کے ساتھ ہے" دیکھئے ہمارا ملک ایسا ملک ہے جس کا حصہ گزشتہ چند صدیوں کے دوران تمام اسلامی علوم میں سب سے زیادہ رہا ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے۔ تفسیر کی کتابیں، حدیث کی کتابیں، فقہ کی کتابیں، عربی ادب کی کتابیں، فلسفے اور عرفان کی کتابیں ایرانیوں نے زیادہ کیوں لکھی ہیں؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم جس کے ہم اور آپ آج حاکم ہیں اور اس کی زمام حکومت ہمارے ہاتھ میں ہے، یہ اپنے وجود کی گہرائیوں تک اسلامی اور مسلمان ہے۔ پہلوی آئے، کچھ نہ کر سکے۔ کمیونسٹوں نے اپنے طور پر کوشش کی لیکن اس قوم کو پلٹانے میں ناکام رہے۔ ایک چنگاری اٹھی، ایک فقیہ، ایک امام اور مرجع تقلید میدان میں اترا تو دیکھا کہ کیا ہوا؟! آپ سب تو شاہد تھے، آپ نے تو دیکھا ہے کہ عوام کس طرح آگے بڑھے، کیسا قیام کیا، کیسی استقامت دکھائی، کیسی فداکاری کی اور یہ نظام قائم کیا! یہ عوام مسلمان ہیں۔ اگر ہم اور آپ اسلام نہ چاہیں، اسلام کا نام لینے میں شرم محسوس کریں اور عوام جان لیں تو ہمیں کنارے لگا دینے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ ہمیں اسلام سے تمسک حاصل کرنا چاہئے۔ اسلام وہ چیز ہے جو اس ملک و قوم کی ترقی، پیشرفت، رشد، تکامل اور سربلندی کا عامل ہے اور اس کی جگہ یہی ثقافت ہے۔ مجھے وزارت ارشاد سے توقع ہے۔ البتہ جناب آقائے مہاجرانی بظاہر نہیں ہیں، انھوں نے یہاں آکے ہماری باتیں سننے کی زحمت سے خود کو بچا لیا! بہرحال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ رہیں یا نہ رہیں، میرا اعتراض یہ ہے اور اس اعتراض کو میں نے بارہا بیان کیا ہے، اس وقت ایک بار پھر آپ سے کہتا ہوں کہ وزارت ارشاد نے اس دو سال میں جب سے وہ اس کے سربراہ ہیں، اسلامی عنوان سے کوئی کام نہیں کیا ہے! یہ میرا پہلا اعتراض ہے۔ فرض کریں کہ ریڈیو ٹیلی ویژن کے بارے میں بہت کم ایسے ہفتے گزرتے ہوں کہ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا ہو اور کوئی تند پیغام نہ دیا ہو۔ لیکن ریڈیو ٹیلی ویژن نے بہت سے اسلامی کام کئے ہیں۔ اسلامی پروگرام، اسلامی آرٹ کے پروگرام تیار کئے ہیں۔ علمی اور رپورٹوں پر مبنی پروگرام تیار کئے ہیں۔ اگر غلطی اور کچھ خلاف ورزی ہوئی ہے تو دوسری طرف کام بھی کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ وزارت ارشاد نے اسلامی تفکر کی تقویت کے لئے کتنی کتابیں شائع کی ہیں؟ کتنی فلمیں اسلامی اور انقلابی فکری بنیادوں کی تقویت کے لئے تیار کی ہیں؟ کتنے ڈرامے اس تعلق سے تیار کئے ہیں۔ اس وقت وزارت ارشاد کے ہالوں میں مسلسل تھئیٹر اور ڈرامے اسٹیج کئے جا رہے ہیں، جن میں سے بعض سو فیصد دین اور انقلاب کے مخالف ہیں! کچھ لوگوں نے جاکے دیکھا اور اس کے بعد مجھے رپورٹ دی ہے۔ اب اگر ان ڈراموں اور تھئیٹروں کے ساتھ پانچ چھے نمونے مجھے دکھاتے کہ یہ ڈرامے اور تھئیٹر یا یہ فلمیں ہم نے تبلیغ اسلام کے لئے تیار کی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ تب میں کہتا "خلطوا عملا صالحا و آخر سیّئا، عسی اللہ ان یتوب علیھم"(3) لیکن ایسا نہیں ہے۔ جو بھی ہے اس طرف سے ہے! یہ میرا اعتراض ہے۔ میں وزارت ارشاد کے طرزعمل سے راضی نہیں ہوں۔
ناولوں کے بارے میں چند باتیں۔ میں ہمیشہ ناول پڑھتا تھا۔ آج بھی رابطے میں ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ ناولوں کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ آج خراب ترین ناول شائع ہو رہے ہیں۔ البتہ ان تین چار مہینوں میں کسی حد تک یہ سلسلہ رک گیا ہے۔ بظاہر پارلیمنٹ میں جو آواز اٹھائی گئی یا ادھر ادھر سے جو اعتراضات کئے گئے ہیں اس وجہ سے یہ ہوا ہے۔ وزارت ارشاد نے چند ناولوں کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے لئے پیسے اور وسائل ان لوگوں کے اختیار میں دیئے گئے جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ یقینی طور پر انھیں چاہئے کہ انقلاب اور جنگ کے بارے میں چند ناول شائع کریں۔ کتنے ناول اس قسم کے لکھے گئے؟ یہ ہمارا سوال ہے۔ کیا وزارت ارشاد کا فریضہ اس کے علاوہ کچھ ہے؟ وزارت ارشاد اسلام کی ترویج کے لئے ہے۔ البتہ ادارہ تبلیغات اسلامی پر بھی میرا یہ اعتراض ہے۔ لیکن چونکہ وسائل اور امکانات کے لحاظ سے اس کا دائرہ وزارت ارشاد کے مقابلے میں کم تر ہے اس لئے زیادہ اعتراض وزارت ارشاد پر ہے۔
یونیورسٹیوں کے تعلق سے بھی یہی صورتحال ہے۔ میں ابھی ڈاکٹر معین اور ڈاکٹر فرہادی سے عرض کرتا ہوں: برادران عزیز! میں آپ دونوں حضرات کو متدین اور انقلابی سمجھتا ہوں۔ یونیورسٹیوں میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مومن اور انقلابی افراد پر دباؤ بڑھایا جائے ان کو کنارے لگایا جائے۔ آپ یہ نہ ہونے دیں۔ اس دباؤ ڈالنے والے گروپ کا نام جو بھی ہو، چاہے یہ کام اسلامی انجمن کے نام پر ہی کیوں نہ کیا جا رہا ہو! بعض اسلامی انجمنیں صرف یہی نہیں کہ اسلامی نہیں ہیں بلکہ فاسد ہیں! اسلام مخالف ہیں! آپ اس قسم کی اسلامی انجمنوں کی حمایت اور ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ نہ حکومتی وسائل سے، نہ اس وزارت سے جو اسلامی نظام نے آپ کو دی ہے (ان کی حمایت نہیں ہونی چاہئے)۔ آپ کو اسلام، انقلاب اور امام کے راستے کا دفاع کرنا چاہئے۔ ان چیزوں کا دفاع کرنا چاہئے۔ آج عوام جس چیز کے لئے جان دینے پر تیار ہیں وہ اسلام ہے۔ تجربہ شاہد نہیں ہے کہ بعض لوگ کمترین آسائش بھی ترک کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن اس معاشرے میں ابھی ایسے لوگ ہیں اور الحمد للہ ان کی تعداد زیادہ بھی ہے، کم نہیں ہیں جو راہ خدا اور راہ اسلام میں اپنی جان نثار کرنے کے لئے تیار ہیں۔
بہرحال میرے خیال میں ثقافت کا کردار بنیادی اور فیصلہ کن ہے اور ہم آج یلغار کی زد پر ہیں۔ جو جناب خاتمی صاحب نے اشارتا کہا ہے صحیح ہے میں اس کی سو فیصد تائید کرتا ہوں۔ ثقافتی یلغار کے مسئلے کا ہمیں علمی اور اصولی طور پر جائزہ لینا چاہئے۔ البتہ جب میں نے یہ بات کہی تھی تو بعض لوگوں نے اس کو سیاسی محرکات پر محمول کیا تھا، لیکن خدا گواہ ہے کہ خدائی محرک کے علاوہ کوئی محرک نہیں تھا۔ کوئی سیاسی محرک نہیں تھا۔ حقیقت قضیہ مد نظر تھی۔ چونکہ میں جریدوں سے واقف ہوں، اس ملک کے پرنٹ میڈیا سے مجھے کافی انس اور لگاؤ ہے۔ اب بھی یہی حالت ہے۔ میں کھیل کود کے بعض جرائد بھی پڑھتا ہوں۔ ان دنوں، انیس سو بانوے ترانوے میں، میں نے دیکھا کہ کس طرح کی چیزیں ملک کی ثقافت میں داخل کر رہے ہیں۔ شروعات وہاں سے ہوئی تھی، یہ سازش کا آغاز تھا۔ میں نے اس وقت ثقافتی یلغار کا مسئلہ بیان کیا۔ البتہ اب معاشرے میں اس کے وسیع تر پہلو آشکارا ہو چکے ہیں۔ واقعی اس وقت ہمارے خلاف ثفافتی یلغار جاری ہے۔ البتہ یہ ثقافتی یلغار جس کی زد پر اس وقت یہ انقلاب، مومنین، اسلام اور متدیّن افراد ہیں اور اس یلغار میں جو بھی ان سے بن پڑ رہا ہے، کر رہے ہیں، اگرچہ یہ یلغار ایک چھوٹے سے گروہ کی طرف سے ہے کسی بڑے گروہ کی طرف سے نہیں ہے، لیکن یہ یلغار ایک سیاست کی حامل ہے! یہ ثقافت بھی نہیں ہے! کبھی انسان کسی فکر کو قبول نہیں کرتا ہے تو ایک فلسفے کے عنوان سے اس کو مسترد کر دیتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اس طرح کا نہیں ہے۔ اس وقت جو کچھ پایا جاتا ہے اس میں سیاسی ارادہ اور سیاسی جہت پائی جاتی ہے۔ بہرحال مجھے ان تمام دوستوں اور حضرات سے جو اس کونسل میں ہیں، یہ توقع ہے کہ ثقافت اور دشمن کے مقابلے میں ثقافتی صف آرائی کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ وہ امر ہے کہ اگر میں اس راہ میں قتل کر دیا جاؤں تو سمجھوں گا کہ راہ خدا میں قتل کیا گیا ہوں۔ جو بھی اس راہ میں محنت کرے گا وہ راہ خدا میں محنت کرے گا۔ یہ معمولی امر نہیں ہے۔ دشمن چاروں طرف سے ہمارا محاصرہ کر رہا ہے ۔ کتابیں، اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، نیوز ایجنسیاں، جعلی خبریں اور انواع و اقسام کے ثقافتی وسائل تیار کر رہے ہیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں اور بعض اوقات ان سے ہم آہنگ ہوکے ان کی آواز میں آواز ملائیں! یہ نہیں ہو سکتا۔ اسلامی نظام کو اپنا دفاع کرنا چاہئے۔ اس کے پاس حقیقت اسلام اور انقلاب کے دفاع میں بولنے کے لئے بہت کچھ اور کافی ثقافتی ذخائر موجود ہیں اور اس کا مرکز یہی کونسل ہے۔ میں اس کونسل کو بہت ہی اہم مرکز سمجھتا ہوں۔ اس قانونی مسئلے کے تعلق سے جس کا ذکر کیا گیا(4) میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کوئی قانونی ابہام نہیں پایا جاتا۔ میں محکم انداز میں کہتا ہوں۔ میں آئین سے ناواقف نہیں ہوں، یہ قانون کے مطابق ہے۔ اس لئے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کو منظوری دی ہے اور اس پر تاکید فرمائی ہے اور جس کو امام اور رہبر انقلاب منظور کرے اور اس پر تاکید کرے وہ آئين کے مطابق عین قانون ہے اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر آئین میں اور اس کے مفہوم میں کوئی شبہ اور ابہام ہے تو نگراں کونسل سے سوال کریں۔ اس کا جواب بھی یقنیا یہی ہوگا۔ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل اور دیگر مختلف کونسلیں سبھی، یا ایک واسطے سے یا براہ راست خود حضرت امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں پاس ہوئی ہیں۔ بہرحال رہبر کی منظور کردہ ہیں اور قانونی لحاظ سے ان میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ آج حکومت کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوتی ہیں جو اسی طریقے سے دور ہوتی ہیں۔ انہیں دور ہونا چاہئے، اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس لئے کہ اس میں کوئی شبہ اور ابہام نہ رہ جائے، ان شاء اللہ اس سلسلے میں سوچوں گا اور کوئی چارہ جوئی کروں گا کہ ان پہلؤوں سے کوئی شک و شبہ جو ممکن ہے کہ بعض حضرات کے اذہان میں ہو، باقی نہ رہے۔ بہرحال میری گزارش یہ ہے کہ جو حضرات ثقافتی امور کے ذمہ دار ہیں، وہ اس کونسل کے فیصلوں کو قانونی اور ایسے فیصلے سمجھیں جن پر عمل ضروری ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب دل چاہے اس کے مطابق کام کریں اور جب دل نہ چاہے نہ کریں۔ فرض کریں کہ کونسل کے اراکین متعدد نشستوں میں ثقافتی پالیسیاں منظور کریں، جو اچھی ثقافتی پالیسیاں ہوں، بعد میں مثال کے طور پر تشخیص مصلحت نظآم کونسل میں ان پر کوئی توجہ نہ دی جائے، یہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ ایک بنیادی اور اہم مرکز ہے۔ یہ کونسل ثقافتی امور میں یقینا تشخیص مصلحت نظام کونسل پر ترجیح رکھتی ہے۔ کم سے کم یہ ہے کہ یہ کونسل ثقافتی امور کے لئے تشکیل دی گئی ہے اور وہ ایسا مرکز ہے جہاں رہبر کے مشاورین ہیں۔ یہاں رہبر کے منصوب کردہ افراد ہیں جن کا کام ثقافتی مسائل اور پالیسیوں پر بحث کرنا ہے اور جب انھوں نے کوئی چیز پاس کرکے تشخیص مصلحت نظام کونسل میں بھیجی تو وہاں اس کو معتبر سمجھ کے اہمیت دی جانی چاہئے تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ اس کونسل میں منظور کیا گیا اس کو بعینہ وہاں پاس کیا جاتا، تشخیص مصلحت نظام کونسل کو اس میں فیصلے کا حق ہے لیکن اس کونسل کے فیصلوں پر معتبر سمجھ کے توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن یہ نہیں ہوا۔ البتہ اس کے بعد میرے دفتر میں کسی حد تک اس کی تلافی کی گئی اور جو ثقافتی پالیسیاں وہاں مد نظر رکھی گئی تھیں تیسرے ترقیاتی پروگرام میں نظام کی مجموعی پالیسیوں میں ان کو شامل کیا گیا۔
بہرحال، امید ہے کہ خداوند عالم آپ کی اور ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم اپنے فرائض پر عمل کر سکیں اور ان کے تعلق سے جواب دے سکیں۔ جو کام ہم کریں، ان کا جواب بھی دینا ضروری ہے؛ ہمیں یہ فکر بھی کرنی چاہئے کہ ان کاموں کے تعلق سے ہمیں جواب بھی دینا ہے۔ خداوند عالم ہم سے ان کے تعلق سے سوال کرے گا: "ثم لتسئلنّ یومئذ عن النعیم" (5) یہ نعمت عظیم ہے خداوند عالم یقینا اس کے تعلق سے سوال کرے گا۔ ہمیں جواب دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1-منہاج الصادقین، جلد 9، صفحہ 211
2- رہبر معظم کے دفتر کے عہدیداران
3- سورہ توبہ آیت نمبر 102
4-اجلاس کے آغاز میں صدر مملکت کی پیش کردہ رپورٹ
5- سورہ تکاثر آیت نمبر 8
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و آلہ الطیّبین الطاھرین المعصومین۔ سیّما الکھف الحصین غیاث المضطرّ المستکین ملجا الھاربین بقیۃ اللہ فی الارضین ارواحنا لہ الفداء۔
سب سے پہلے تو اس عید سعید کی تمام بسیجی (رضاکار) نوجوانوں اور ایرانی عوام، دنیا کے تمام حریت پسندوں، ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں، ظلم اور بے انصافی سے عاجز ہو جانے والوں اور دنیا بھر میں عدل و انصاف کے طرفداروں کو مبارک پیش کرتا ہوں۔
یوم ولادت حضرت مہدی موعود ارواحنا لتراب مقدمہ الفداء، درحقیقت دنیا کے تمام پاک طینت اور حریت پسند انسانوں کی عید کا دن ہے۔ اس دن صرف وہی لوگ خوشی کا احساس نہیں کر سکتے جو ظلم و ستم کی بنیادوں یا طاغوتوں اور ستمگران عالم کے پیروؤں میں شامل ہوں، ورنہ کون حریت پسند انسان ہے جو عدل و انصاف کے پھیلنے، پرچم عدل کے سربلند ہونے اور دنیا سے ظلم و ستم کے خاتمے پر خوش نہ ہو اور اس کی آرزو نہ رکھتا ہو۔ یہ بات مسلم ہے کہ تمام پیغمبران و اولیائے خدا اس لئے آئے ہیں کہ دنیا میں پرچم توحید بلند کریں اور انسانوں کی زندگی میں روح توحید کو زندہ کریں۔ انصاف کے بغیر، عدل و انصاف کے قیام کے بغیر توحید بے معنی ہے۔ توحید کی علامتوں یا بنیادوں میں سے ایک ظلم اور بے انصافی کا نہ ہونا ہے۔ اسی بناء پر آپ دیکھتے ہیں کہ پیغمبران خدا کا پیغام، عدل و انصاف کے قیام کا پیغام ہے۔ تاریخ میں اعلی انسانوں نے اس راہ میں محنتیں کی ہیں اور انسانیت کو اس حقیقت کے فہم و اداراک سے نزدیک تر کرنے کی کوشش کی ہے کہ عدل و انصاف انسانوں کی سب سے بڑی آروز ہے۔
انبیا تاریخ کے پاکیزہ ترین، مقدس ترین اور نورانی ترین انسان تھے۔ خدائی اور آسمانی روح کے مالک تمام پاکیزہ اور اعلی انسانوں میں خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اہل بیت اطہار جن کی طہارت اور پاکیزگی کا قرآن گواہ ہے، سب سے زیادہ اعلی و ارفع، پاکیزہ، مطہّر اور نورانی ہستیاں ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی خاتون پوری تاریخ میں کون ہے؟ پوری تاریخ بشریت میں علی مرتضی جیسا انسان کہاں مل سکتا ہے؟! اہل بیت نبی اکرم پوری تاریخ میں خورشید ضوفشاں رہے ہیں جنہوں نے روئے زمین پر بشریت کو عالم غیب اور عرش الہی سے متصل کیا ہے۔ "السبب المتصل بین الارض و السماء" (1) اہلبیت پیغمبر ہر دور اور ہر زمانے میں معدن علم، معدن اخلاق نیکو، معدن ایثار و فداکاری، معدن صدق و اخلاص اور تمام نیکیوں، اچھائیوں، زیبائیوں کا سرچشمہ رہے ہیں۔ ان کا ہر فرد خورشید تاباں ہے۔
میرے عزیز نوجوانوں اور بسیجیو! انہیں میں سے ایک خورشید ضوفشاں، خدا کے فضل و کرم اور ارادہ الہی سے، بقیۃ اللہ فی ارضہ کے عنوان سے، حجت اللہ علی عبادہ کے عنوان سے اور روئے زمین پر ولی مطلق الہی اور صاحب زمان کے عنوان سے موجود ہے۔ آپ کے وجود مبارک سے ساطع ہونے والے انوار اور برکات آج بھی بنی نوع انسان تک پہنچ رہی ہیں۔ آج بھی بشریت اپنی تمام تر کمزوریوں، گمراہیوں اور مشکلات کے باوجود اہلبیت اطہار کے اس آخری سلسلے اور اس خورشید معنوی و الہی کے انوار تابناک سے مستفید ہو رہی ہے۔ آج روئے زمین پر انسانوں کے درمیان حضرت حجت ارواحنا فداہ کا وجود مقدس برکت، علم، ترقی و پیشرفت، زیبائی اور تمام اچھائیوں کا سرچشمہ ہے۔ ہماری ناقص اور گناہگار آنکھیں نزدیک سے آپ کے ملکوتی چہرے کو نہیں دیکھ پاتی ہیں، لیکن آپ مثل خورشید درخشاں ہیں، دلوں سے نزدیک اور روحوں نیز باطنوں سے متصل ہیں اور صاحبان معرفت کے لئے اس سے بڑی عنایت اور کچھ بھی نہیں ہو سکتی کہ ولی خدا، امام برحق، عبد صالح، تمام بندگان عالم میں خدا کے برگزیدہ بندے اور روئے زمین پر خلیفتہ اللہ، ان کے ساتھ اور ان کے پاس ہیں، ان کے دیکھتے ہیں اور ان سے رابطے میں ہیں۔ آپ کا وجود مبارک ہر انسان کی آروز ہے۔ تمام افراد بشر کی آنکھیں اس افق پر لگی ہوئی ہیں کہ یہ اعلی انسان اور خدا کا برگزیدہ بندہ آئے اور ظلم و ستم کی بساط کو جو تاریخ کے شرپسندوں نے بچھا رکھی ہے، لپیٹ دے۔ آج بشریت تاریخ کے تمام ادوار سے زیادہ ظلم و ستم سے دوچار ہے۔ آج انسان نے پیشرفت بھی کر لی ہے اور علم ومعرفت نے زیادہ ترقی و پیشرفت کی ہے۔ ہم امام زمانہ ارواحنا فداہ کے ظہور کے وقت سے نزدیک ہو گئے ہیں کیونکہ علم و معرفت نے ترقی کر لی ہے۔
آج انسان کا ذہن یہ بات جاننے، سمجھنے اور یقین کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہے کہ وہ اعلی انسان آئے گا اور بشریت کو ظلم و ستم سے نجات دلائے گا۔ یہ وہی کام ہے جس کے لئے پیغمبران خدا نے کوششیں کی ہیں، یہ وہی کام ہے جس کی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے آیہ قرآن کے ذریعے لوگوں کو بشارت دی ہے؛"و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم" (2) دست قدرت الہی، ایک ملکوتی، آسمانی، خدائی اور غیب نیز معنوی عالموں سے، جس کا ادراک اور تشخیص ہم جیسے کوتاہ بیں انسانوں کے لئے ممکن نہیں ہے متصل انسان کے ذریعے، بنی نوع انسان کی یہ آروز پوری کر سکتا ہے۔ عشق و شوق اور قلوب روز بروز اس نقطے پر مرکوز ہوتے جا رہے ہیں ۔ ایرانی عوام کو آج یہ عظیم امتیاز حاصل ہے کہ ملک کی فضا 'امام زمانی' ہے۔ پوری دنیا کے شیعہ ہی نہیں بلکہ تمام مسلمین مہدی موعود کے انتظار میں ہیں۔ موعود الہی کا عقیدہ مسلمانوں کے تمام فرقوں اور بلکہ تمام ادیان میں پایا جاتا ہے۔ شیعوں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ موعود الہی کو آپ کے نام ، آپ کے القاب اور آپ کے اوصاف کے ساتھ جانتے ہیں اور آپ کی تاریخ ولادت سے بھی واقف ہیں۔ ہمارے بزرگوں میں سے بہت سوں نے زمانہ غیبت میں، اس محبوب قلوب عاشقان و مشتاقان کی نزدیک سے زیارت کی ہے۔ بہت سوں نے نزدیک سے آپ کی بیعت کی ہے۔ بہت سوں نے آپ کی امید افزا اور دلنواز باتیں سنی ہیں۔ بہت سوں نے آپ کی نوازشیں دیکھی ہیں اور بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو آپ کے لطف و کرم اور نوازشوں سے بہرہ مند ہوئے لیکن آپ کو پہچان نہ سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے محاذ پر بہت سے جوانوں نے حساس لمحات میں نورانیت و معنویت کا احساس کیا، غیب سے لطف و کرم کا احساس کیا، دل میں لمس کیا، لیکن آپ کو نہ پہچان سکے اور نہ سمجھ سکے کہ یہ آپ ہیں۔ آج بھی ایسے افراد بہت ہیں۔
یہ بسیجی رضاکاروں کا جلسہ ہے اور بسیجیوں کا شیعوں اور مسلمانوں کے قلبی لگاؤ کے اس مرکز سے خاص تعلق ہے۔ بسیجی بہت ہی اعلی اور قابل قدر عنوان ہے۔ بسیجی یعنی قلب مومن، مفکر اور ان تمام میدانوں کے لئے آمادگی جن میں انسانی فرائض اس کی موجودگی کے متقاضی ہوں۔ بسیجی کے معنی یہ ہیں۔ اس ملک کے سبھی نوجوانوں، سبھی مردوں اور خواتین کے قلوب نور ایمان سے منور ہیں، سبھی کو اس عظیم ذمہ داری کا احساس ہے جو اس قوم کے کندھوں پر ہے۔ آج یہ پر افتخار پرچم ایرانی قوم کو سونپا گیا ہے، یعنی اسلام کی سربلندی کا پرچم، عزت اسلام کا پرچم، شہرت اسلام کا پرچم اور اسلام کے ناقابل شکست ہونے کا پرچم آج ایرانی قوم کے پاس ہے۔ وہ تمام لوگ بسیجی ہیں جو اس سلسلے میں اپنی عظیم ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں۔ جہاں بھی کوئی فریضہ ہو بسیجی انسان اس فریضے کے میدان میں موجود ہوتا ہے۔
میرے عزیزو! ایک زمانہ وہ تھا جب دشمنان اسلام اور دشمنان دین خوشیاں منا رہے تھے کہ اسلام ختم ہو چکا ہے۔ اس زمانے میں جن لوگوں کے دل اسلام کے لئے دھڑکتے تھے، وہ دشمنوں کی یلغارے کے مقابلے میں اس گوشے یا اس گوشے میں روپوش ہونے پر مجبور تھے۔ مسلمانوں میں اتنی جرائت اور دلیری نہیں تھی کہ وہ کہتے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اسلامی ملکوں کے سربراہان خود کو ان لوگوں کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے جو چاہتے تھے کہ دنیا میں اسلام کا نام و نشان نہ رہے۔ انھوں نے عزت اسلام پر اپنی ذلتوں کا پردہ ڈال رکھا تھا اور اہل اسلام کو ذلیل و رسوا کر دیا تھا!
اسلامی انقلاب نے پوری دنیا کو عزت اسلام دکھا دی۔ اسلامی انقلاب نے ثابت کر دیا کہ اسلام قوم کو عزت و سرافرازی عطا کر سکتا ہے، اغیار کے تسلط اور دباؤ سے نجات دلا سکتا ہے اور اس ذلت و رسوائی کی حالت سے باہر نکال سکتا ہے جو اس پر مسلط کی گئی ہے۔ اسلام تمام میدانوں اور شعبوں میں قوم کی استعداد اور صلاحیتيں ابھار سکتا ہے، اسلام قوم میں اپنے عقائد، اپنے تشخص اور اپنی ہستی کے دفاع کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے یہ ثابت کر دیا۔ اسی لئے جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور اپنے وقت کی لاثانی ہستی امام خمینی نے اس قوم کی زبان میں بات کی تو مسلمین عالم نے زندگی اور افتخار کا احساس کیا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ وہ زندہ ہو گئے ہیں۔ یہ خون تازہ جب امت اسلامیہ کی رگوں ميں دوڑا تو دشمن بوکھلا گئے، سراسیمہ ہو گئے۔ انھوں نے اپنی تمام قوتیں اس عظیم انقلاب، اسلامی انقلاب، جو آج پوری ملت کی زبان پر ہے، اس کے مقابلے کے لئے مجتمع کیں۔ انھوں نے یوم اول سے آج تک، گزشتہ بیس سال کے دوران اسلامی انقلاب کا مقابلہ کیا! یہ کس چیز کا مقابلہ ہے؟ یہ ملت ایران کی عزت و خودمختاری کا مقابلہ ہے، ملت ایران کے تشخص کا مقابلہ ہے۔ لیکن چونکہ ایرانی قوم کو یہ عزت اور تشخص اسلام نے دیا ہے، چونکہ اسلام نے ایرانی قوم کو یہ قوت و توانائی عطا کی ہے کہ وہ اپنے مطالبات، اپنی آرزوؤں اور اپنی امنگوں کو آشکارا طور پر اپنی زبان پر لائے اور اس کے لئے سعی و کوشش کرے اور بڑی طاقتوں، ان کے پٹھوؤں اور فاسد حکومتوں سے نہ ڈرے، چونکہ اسلام نے یہ امتیازی شان ملت ایران کو دی ہے اس لئے وہ اسلام کے دشمن بن گئے ہيں۔ یہ دشمنی انقلابی اسلام سے ہے، امام خمینی کے اسلام سے ہے، حیات آفریں اسلام سے ہے، اس اسلام سے ہے جس کا پرچم بلند ہوتا ہے تو پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ چنانچہ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اسلام سے دشمنی اس لئے ہے کہ اسلام نے اس ملک سے اغیار کا تسلط ختم کر دیا اور اس ملک کے ذخائر کو ان کی دست برد سے بچا لیا۔ بنابریں آج ایران کی خدمت اور ایرانی قوم کی خدمت کا مطلب اسلام کی خدمت ہے۔ آج جو بھی انقلابی اسلام، امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے اسلام، حیات آفریں اسلام، ظلم وستم کے مخالف اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے اسلام کی قدر کرے، اس چیز کی نہیں جو اسلام کے نام پر، ظلم و ستم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتی ہے!، وہ اسلام نہیں ہے، فریب ہے، بلکہ حقیقی اسلام کی جس کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ حقیقی محمدی اسلام کہا کرتے تھے، تائید اور حمایت کرے، وہ ایران کے لئے، ایرانی قوم کے لئے، تاریخ ایران کے لئے، ایران کے مستقبل کے لئے اور ایرانی قوم کی ہر فرد کے لئے خدمت کر رہا ہے۔ بسیجیوں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اس خدمت کے میدان میں موجود ہیں۔ بسیج کا مطلب اس مرکز پر موجودگی اور آمادگی ہے جس کی اسلام، قرآن، امام زمانہ ارواحنا فداہ اور اس مقدس انقلاب کو ضرورت ہے۔ لہذا حضرت ولی عصر امام زمانہ ارواحنا فداہ اور بسیجیوں کا تعلق اٹوٹ اور دائمی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم ان شاء اللہ اس عید کو ایرانی قوم خاص طور پر آپ عزیز بسیجیوں کے لئے مبارک قرار دے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1-الاقبال سید ابن طاؤس ، جلد 1، صفحہ 509
2-سورہ اعراف، آیت نمبر 157
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ کی یونیورسٹی، اس معروف اور پر افتخار یونیورسٹی میں آنے کا موقع ملا۔ افسوس کہ اس سے پہلے، صدارت کے دور میں بھی اور اس کے بعد بھی آج تک یہاں آنے کا موقع نہ مل سکا۔ ہم نے کئی بار اس یونیورسٹی میں آنے اور یہاں کے طلبا سے ملنے کا پروگرام بنایا لیکن اپنے مسائل و مشکلات کی وجہ سے نہ آ سکے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج یہ توفیق نصیب ہوئی اور میں آپ کی یونیورسٹی میں آیا۔
ایک بات شریف ٹیکنیکل یونیورسٹی کے بارے میں عرض کروں گا: اس یونیورسٹی کے تاریخچہ میں دو ممتاز خصوصیات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک خصوصیت علمی ہے اور دوسری انقلابی اور دینی ہے۔ یعنی آپ کی یونیورسٹی علمی کاوشوں کے میدان میں بھی ایک پیش قدم اور کامیاب یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے اور انقلابی نیز دینی سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی پیشرفتہ اور کامیاب یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کے سربراہ نے اشارہ کیا کہ اس یونیورسٹی کے کچھ شہدا بہت ہی مشہور و معروف ہیں جیسے شہید عباس پور، شہید وزائی، شہید شوریدہ اور خود شہید شریف واقفی جو انقلاب سے پہلے شہید ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک، ایک شہید ہے، لیکن ہر ایک ممتاز اور درخشاں شخصیت کا مالک بھی ہے۔ تعمیری جہاد، مسلط کردہ جنگ، پاسداران انقلاب کی ابتدائی تشکیل، اسی طرح انقلاب کے ابتدائی برسوں کی انقلابی اور سیاسی سرگرمیوں میں اس یونیورسٹی کی ممتاز ہستیاں موجود رہی ہیں۔ یعنی یہ وہ یونیورسٹی ہے جس نے دین اور انقلاب کے پیغام کو نمایاں طور پر قبول کیا اور اس کو طلبا، اساتید اور فیکلٹیوں کے سربراہوں تک پہنچایا۔ علمی لحاظ سے بھی یہ یونیورسٹی اعلی سطح پر ہے۔ میں اس سے پہلے اساتذہ کے درمیان تھا، وہاں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے، ان میں سے بہت سے اعداد و شمار سے میں پہلے سے واقف تھا۔ عالمی علمی مقابلوں میں استعداد اور صلاحیتوں کی درخشندگی میں یہ یونیورسٹی بہت کامیاب رہی ہے۔
بنابریں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی یونیورسٹی، اس یونیورسٹی کے طلبا اور آپ کی اس یونیورسٹی کے اساتذہ دین اور علم کے اٹوٹ رشتے کے زندہ اور نمایاں مظاہر ہیں۔ اب کچھ لوگ بیٹھیں، باتیں بنائیں اور شور مچائیں کہ علم اور دین ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے! ان کی سو گھنٹے کی تقریر کی وہ علمی تاثیر نہیں ہے جو آپ کی ایک گھنٹے کی موجودگی کا اثر ہے۔ اس لئے کہ آپ حاضر اور موجود ہیں۔ آپ کے روبوٹ بنانے کے وہ کارنامے، ریاضی کے مقابلوں میں دنیا میں آپ کا پہلے نمبر پر آنا۔ یہ آپ کا قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ آپ کی علمی ہستیاں اور وہ آپ کا دینی سرمایہ ہے۔ اس وقت آپ کی یونیورسٹی کا قرآن اور دین کا مرکز اور آپ کے دین اور ہنر و آرٹ کے مرکز کا کام ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں سے زیادہ نمایاں ہے اور یہ مراکز دیگر یونیورسٹیوں کے مراکز سے زیادہ سرگرم اور فعال ہیں۔ ان میں بعض کاموں کی مجھے اطلاع ہے۔ بنابریں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ " ادلّ الدلیل علی امکان شیء وقوعہ" یعنی کسی چیز کے امکان کی بہترین اور محکم ترین دلیل یہ ہے کہ وہ چیز معرض وجود میں آ جائے۔ جب ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ یہ چیز ممکن ہے یا نہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ جس چیز کے امکان کے بارے میں ہم بحث کر رہے ہیں وہ موجود ہے تو بحث ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کے بعد بھی بحث کو جاری رکھیں گے۔ دنیا میں صرف خیالی بنیادوں پر بحث کرنے والے بیکار لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہاں، وہاں بیٹھیں اور باتیں کریں۔ یہ بحث کریں کہ انقلابی فکر، دینی رجحان اور دینی عمل علمی پیشرفت سے سازگار ہے یا نہیں! بہت خوب، بیٹھیں اور رات تک بحث کریں! اس یونیورسٹی کا وجود، یہاں اس علمی مرکز کا وجود اور یہاں آپ جیسے بہتریں طلبا اور آپ کے بہتریں اساتذہ کا وجود ان بحثوں کو بے سود، مہمل اور بے جا ثابت کر دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب میں آپ جیسے طلبا سے ملتا ہوں تو میرے ذہن میں بہت سی باتیں ہوتیں ہیں۔ ہماری بہت سی باتوں کے اصلی مخاطب بھی آپ یعنی نوجوان نسل کے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ جب "ہم" کہتے ہیں تو ہم سے مراد اسلامی جمہوری نظام میں ایک ذمہ دار عہدیدار کی حیثیت سے مراد میری ذات نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی "علی خامنہ ای" مراد ہوتا ہے بلکہ ایک طالب علم، ایک عالم دین اور وہ ذات مراد ہوتی ہے جو اسلامی، تاریخی اور سیاسی میدانوں میں علمی و فکری مسائل میں دلچسپی رکھتی ہے۔ البتہ ذمہ داری کا ماجرا اور مسئلہ الگ ہے۔ بہرحال میرے اصلی مخاطب نوجوان ہیں اور نوجوانوں میں بھی ذہین، جینئس، اہل علم و دانش، صاحبان ثقافت و معرفت، لکھنے پڑھنے والے، کہنے سننے والے اور آگے بڑھنے والے طلبا ہیں۔ البتہ حکومتی ذمہ داریوں کا حجاب ان میں سے بہت سی باتوں کو روک دیتا ہے اور ہم خود بھی اس حجاب کو ہٹا کے سخن دل کے اس مرکزی نقطے تک نہیں پہنچ سکتے۔ بنابریں کہنے کے لئے باتیں بہت زیادہ ہیں اور ہمارے ایک مشہدی شاعر کے بقول "یک سینہ حرف، موج زند در دہان ما" (یعنی ہمارے سینے میں باتوں کا یک سمندر موجزن ہے۔)
چونکہ میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو میری تقریر مختصر ہو تاکہ اس کے بعد آپ کے مکتوب سوالوں کو وقت دیا جائے اور میں آپ کے سوالوں کا جواب دوں، اس لئے میں نے ایک سو فیصد طلبا کا موضوع مد نظر رکھا۔ یہ موضوع طلبا کی تحریک ہے جس کو طلبا کی بیداری اور طلبا کا احساس ذمہ داری قرار دینا زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ بہت اہم موضوع ہے۔ سو فیصد طلبا کا موضوع ہے۔ اس کو سو فیصد طلبا کا موضوع کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ ممکن ہے کہ طلبا میں بہت سے احساسات، خواہشات و مطالبات اور جذبات ایسے ہوں جن کا طالب علمی کی خصوصیات سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہو۔ مثال کے طور پر روزگار کی فکر ہے۔ شاید ایسا کوئی طالب علم نہ ملے جسے روزگار اور اپنے مستقبل کی فکر نہ ہو۔ لیکن طالب علم کی یہ کیفیت اس کی طالب علمی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ کیفیت ہر نوجوان میں ہوتی ہے چاہے طالب علم ہو یا نہ ہو اس کو یہ فکر ہوتی ہے۔ یا مثال کے طور پر شادی کا مسئلہ ہے، البتہ یہ حاضرین کی اکثریت کی دلچسپی کا مسئلہ ہے۔ ہر طالب علم چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، اس کے اندر اس کی فکر اور خواہش ہوتی ہے۔ اس لئے کہ یہ زندگی کا مسئلہ ہے لیکن یہ فکر طالب علمی کا لازمہ نہیں ہے۔ لیکن جس چیز کو ہم 'طلبا کی بیداری' کہتے ہیں اور طالب علموں کے ساتھ ہی دوسرے طبقات میں بھی جو نام رائج ہے وہ 'طلبا کی تحریک' ہے۔ یہ تحریک طالب علموں کے طبقے سے مخصوص ہے۔ یعنی ہر نوجوان سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے ماحول میں قدم رکھنے سے پہلے، نوجوانوں سے تعلق نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کا تعلق یونیورسٹی میں طالب علمی میں گزرنے والے چار سال پانچ سال اور چھے سال کی مدت سے ہے۔ اس مدت سے تعلق رکھتی ہے جو آپ یونیورسٹی میں گزارتے ہیں۔ یہ سامنے موجود حقیقت ہے۔
طلبا کی تحریک بلکہ یہ کہیں کہ 'طلبا کی بیداری' کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایسی چیز بھی نہیں ہے جو ایران سے مخصوص ہو۔ اس لئے کہ جیسا کہ ہم نے کہا، یہ یونیورسٹی کے ماحول سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بیداری کی کچھ خصوصیات ہیں۔ اس میں کچھ محرکات ہوتے ہیں جن کے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان خصوصیات کو سمجھ جائيں تو ان سے، اس ماحول، ملک اور سماج کے لئے ایک اہم مالامال اور سرشار خزانے کے عنوان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کو اچھی طرح نہ سمجھا جا سکے تو ممکن ہے کہ یہ سرمایہ ضائع ہو جائے۔ بالکل اس دولت و ثروت کی طرح جس کی آپ کو اطلاع نہ ہو یا جس کی افادیت سے آپ واقف نہ ہوں۔ اس سے بدتر بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی دولت و ثروت ہے جس کے مالک آپ ہیں اور آپ کو پتہ نہیں ہے لیکن ایک چور اور فریبی کو معلوم ہے کہ یہاں ایک خزانہ پوشیدہ ہے اور اس سے یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ لہذا وہ آتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ دوہرا نقصان ہے!
سب سے پہلے خود طالب علموں کا، دوسرے طالب علموں کے امور کے ذمہ دار عہدیداروں اور یونیورسٹیوں کا اور تیسر ے ملک کے حکام کا پہلا فرض یہ ہے کہ طالب علموں کی اس تحریک یعنی طلبا کی بیداری، یا اس کو جو نام بھی دیں، اس کی شناخت حاصل کریں کہ یہ کیا ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبا کی اس تحریک کا سرچشمہ اور خصوصیات کیا ہیں۔ طالب علموں کی عمر، ان کی توانائی، نوجوانی کی طاقت اور وہ علم و دانش جن سے طالب عالم اس دور میں واقف ہوتا ہے، چاہے وہ علمی و سائنسی معلومات ہوں، سیاسی معلومات ہوں یا سماجی امور کی اطلاعات ہوں، طالب علم کا زندگی کی بندشوں اور روٹی کپڑے کی مشکلات سے آزاد ہونا، اس کو نسبتا آزادی حاصل ہوتی ہے ، کہیں کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، اسی کے ساتھ طلبا کا ایک خاص ماحول میں اکٹھا ہونا، معاشرے کے عام حالات سے ان کا متاثر ہونا اور اس پر ان کا ردعمل، چاہے مثبت ہو یا منفی، یہ بہت ہی اہم اور اسی کے ساتھ ہی طلبا کی مبارک تحریک بیداری کے کلیدی عوامل ہیں۔ اگر ان سے صحیح استفادہ نہ کیا گیا یا غلط استفادہ کیا گیا تو اس کے بہت ہی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ طلبا کے ماحول اور ان کی تحریک یا طلبا کی بیداری کی خصوصیات کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ تقریبا ہر جگہ یکساں ہوتی ہیں۔ ان میں فرق ہر ملک اور ہر قوم کی ثقافت، تاریخ اور بنیادی ڈھانچے کا ہوتا ہے لیکن بہر حال سبھی جگہ طلبا کی تحریک کی بعض باتیں مشترکہ ہوتی ہیں۔
اپنے ملک میں انقلاب سے پہلے، انقلاب کے دوران اور اس کے بعد طلبا کی تحریک کی خصوصیات کے بارے میں، میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
پہلی خصوصیت، مصلحت اندیشی کے بجائے امنگوں کو اہمیت دینا ہے۔ امنگوں سے محبت اور ان سے لگاؤ ہے۔ تلاش معاش اور زندگی کی معمول کی سرگرمیوں میں بعض اوقات انسان کی آنکھوں کے سامنے ایسی رکاوٹیں آ جاتی ہیں جو امنگوں کے حصول کو ناممکن ظاہر کرتی ہیں، یہ بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات امنگیں فراموش کر دی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کے ماحول میں امنگیں نمایاں، قابل فہم اور زندہ ہوتی ہیں اور ان کا حصول ممکن نظر آتا ہے اس لئے ان کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ خود یہ کوشش بہت مبارک ہے۔
دوسری خصوصیت صداقت، پاکیزگی اور خلوص ہے۔ طالب علموں کی تحریک میں دھوکہ، فریب، حیلہ اور وہ غیر انسانی طریقے جو عام طور پر زندگی میں رائج نظر آتے ہیں، بہت کم ہوتے ہیں یا فطری طور پر ہوتے ہی نہیں۔ معمول کی زندگی میں، سیاست، تجارت اور سماجی لین دین میں ہر ایک بولنے میں اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کو کیا ملے گا اور کیا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ وہ کیا پاتا ہے یا کیا کھوتا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کتنا چالاک، کتنا ہوشیار اور کتنا عقلمند ہے یا اس کے برعکس ہے۔ لیکن طالب علموں کی تحریک میں یہ بات نہیں ہے۔ یہاں کوئی بات، اچھی ہونے کی بنا پر، صحیح ہونے کی بنا پر، پرکشش ہونے کی بنا پر حقیقت کی بنیاد پر بیان کی جاتی ہے اور اس کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ ہر طالب علم جو بھی بولتا ہے ایسا ہی ہے۔ نہیں، لیکن اکثر یہی ہوتا ہے۔
تیسری خصوصیت مختلف قسم کی سیاسی، جماعتی اور نسلی وابستگیوں سے آزادی ہے۔ طلبا کی تحریک میں یہ خصوصیت دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ وابستگی بھی وہی مصلحت اندیشی کا ہی ایک حصہ ہے۔ طلبا کی تحریک میں عام طور پر وہ محدودیتیں جو مختلف سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں میں لوگ اپنے لئے وضع کرتے ہیں، نہیں پائی جاتی ہیں اور نوجوانوں میں ان محدودیتوں کو برداشت کرنے کا مادہ بھی نہیں ہوتا۔ لہذا ماضی میں انقلاب سے پہلے کچھ پارٹیاں تھیں جو خاص ضابطے کے ساتھ کام کرتی تھیں لیکن یونیورسٹیوں میں پہنچنے کے بعد یہ ضابطے ان کے ہاتھ سے نکل جاتے تھے۔ ان کے لئے یونیورسٹیوں میں کچھ لوگوں کو رکن بنانا تو ممکن تھا لیکن طالب علموں کے درمیان ان سخت اصول و ضوابط کا نفاذ ممکن نہیں تھا جو عام طور پر دنیا میں سیاسی جماعتوں میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ طالب علم سرانجام ایک مرحلے میں ریسرچ اور تحقیقات تک پہنچتا ہے۔ اس زمانے میں 'تودہ پارٹی' ایک سرگرم پارٹی تھی۔ بہت وسیع تنظیم تھی۔ روسیوں سے رابطے میں تھی بلکہ انہیں کے لئے کام کر رہی تھی۔ لیکن یونیورسٹیوں میں بہت سے جماعتی حقائق کو طالب علموں سے پنہاں رکھنے پر مجبور تھی۔
اس تحریک کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اشخاص پر منحصر نہیں ہوتی ہے۔ یعنی تحریک شریف ٹینیکل یونیورسٹی میں ہے، یہ آج بھی ہے، دس سال پہلے بھی تھی اور دس سال بعد بھی رہے گی۔ لیکن آپ نہ دس سال پہلے یہاں تھے اور نہ ہی دس سال بعد یہاں رہیں گے۔ یہ تحریک ہے لیکن افراد پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق موجودہ ماحول اور فضا سے ہے۔
اس کی پانچویں خصوصیت جو بہت اہم ہے یہ ہے کہ ان باتوں کے مقابلے میں جو فطرت انسانی کی نگاہ میں بری ہیں، جیسے ظلم ، زور زبردستی، امتیاز، بے انصافی، دھوکہ و فریب ، دوغلا پن اور نفاق، یہ تحریک ان باتوں کی مخالف ہوتی ہے۔ ابتدائے انقلاب میں منافقین کے گروہ (ایم کے او) نے انقلابی ماحول سے فائدہ اٹھا کے نوجوانوں اور طالب علموں میں دراندازی کر لی تھی لیکن جب معلوم ہو گیا کہ اس گروہ کے اراکین منافق ہیں تو اکثریت اس سے پلٹ گئی۔ ان کو منافق کیوں کہا؟ اس لئے کہ ان کا دعوی یہ تھا کہ ان کی تنظیم کی بنیاد دینی آئیڈیالوجی پر ہے اور اسی بنیاد پر جدوجہد اور مستقبل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے عمل سے معلوم ہوا کہ ان کے یہاں دینی آئیڈیالوجی ہے ہی نہیں بلکہ ان کی فکر اشتراکی اور مارکسی ہے اور وہ بھی خالص مارکسی بھی نہیں ہے بلکہ ایک مخلوط بکھری ہوئی اشتراکی فکر ہے اور عمل میں ان کی سرگرمیاں اور کوششیں اقتدار پرستی پر استوار ہیں۔ ان کی پوری کوشش اقتدار اور حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے تھی جس کے قیام میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ایک تنظیم اور گروہ کے عنوان سے کوئی کردار نہیں تھا۔ اگر چہ ممکن ہے کہ ان کے بعض افراد کا عوام میں کوئی کردار رہا ہو۔ لہذا چونکہ ان کی منافقت معلوم ہو گئی اور یہ پتہ چل گیا کہ ان کا ظاہر و باطن ایک نہیں ہے، جو وہ بولتے ہیں اور جو ان کے دل میں ہے ان میں مطابقت نہیں ہے، ان کا دعوی اور ان کا کام ایک نہیں ہے، اس لئے طالب علموں نے ان سے منہ موڑ لیا۔
یونیورسٹیوں سے مخصوص اس تحریک کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ اس تحریک میں صرف جذبات کی حکمرانی نہیں ہوتی بلکہ جذبات کے ساتھ ہی منطق، معقولیت، فکر، بصیرت، تعلیم اور سمجھنے کی خواہش اور تحقیق کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ البتہ ان میں کمی و زیادتی بھی ہوتی ہے کبھی کوئی چیز کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے خیال میں طالب علموں کی تحریک یا طالب علموں کی بیداری کی یہ خصوصیات ہیں۔ جو لوگ اہل نظر ہیں وہ جستجو کریں اور دیگر خصوصیات تلاش کریں جو یقینا ہیں لیکن میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔
میرے عزیزو! اس بات کو جان لیجئے کہ طالب علموں کی تحریک نے انقلاب کے لئے بہت کام کیا ہے۔ انقلاب سے پہلے بہت سی عوامی مجاہدتوں میں طلبا کی شرکت نمایاں رہی ہے۔ وہ ان مجاہدتوں میں موجود اور سرگرم رہے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا زیادہ مشاہدہ مشہد سے تعلق رکھتا ہے۔ مشہد میں طلبا کے ماحول میں میں سرگرم تھا۔ تہران آتا تھا تو یہاں بھی یہی تھا۔ مختلف یونیورسٹیوں میں جاتا تھا، طالب علموں کا مجھ سے رابطہ تھا اور میں قریب سے دیکھتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ موجودہ وقت ہمارے ملک کے بہت سے اعلی عہدیدار اس زمانے میں یونیورسٹیوں میں طالب علم تھے جو ہم سے رابطے میں تھے۔ انقلاب کے آغاز سے آج تک یہ کردار ختم نہیں ہوا ہے۔ جو لوگ طالب علموں کے امور سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں میں ذمہ دار عہدوں پر رہے ہیں، اگر اس موضوع میں ان کی دلچسپی ہوتی تو شاید بہت زیادہ فوائد سامنے آتے۔ لیکن اس کے باوجود طالب علموں کی اس تحریک، بیداری اور طالب علمی کے محرکات کے بہت فوائد ہیں جن میں سے چند کا بطور نمونہ میں ذکر کروں گا۔
اس کا ایک نمونہ تہران یونیورسٹی کا واقعہ ہے کہ الحادی گروہوں نے آکے تہران یونیورسٹی پر قبضہ کر لیا۔ اس کے کمروں، اس کے ہالوں اور اس کے مراکز کو انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف سازشوں کے مراکز، اسلحے کے گودام اور جنگ کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے پورے ماحول کو یرغمال بنا لیا تھا، یعنی خوف و وحشت کی ایسی فضا قائم کر دی تھی کہ اس دور کے حکام ہی نہیں، اس وقت عارضی اور عبوری حکومت تھی، اس کے حکام میں اس قسم کے میدانوں میں اترنے کی ہمت اور طاقت و توانائی نہیں تھی، وہ تو اپنی جگہ پر تھے، بہت سے انقلابی افراد کے دلوں پر بھی خوف طاری ہو گیا تھا۔ خود تہران یونیورسٹی کے اندر انھوں نے بہت زیادہ خوف و وحشت کی فضا قائم کر دی تھی۔ میں بھول نہیں سکتا کہ انہیں سخت ترین ایام میں ایک دن میں خود یونیورسٹی میں تھا اور میرا ہفتے وار پروگرام تھا۔ تہران یونیورسٹی کی مسجد میں اس دن معمول کے مطابق میرا پروگرام تھا۔ میں پہنچا تو دیکھا کہ یونیورسٹی بالکل خالی ہے۔ مسجد میں پہنچا تو شاید بیس تیس سے زیادہ لوگ مسجد میں نہیں تھے۔ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو کچھ لوگ آئے اور انھوں نے کہا کہ جناب! جلدی سے یہاں سے چلے جائيں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ معلوم ہوا کہ انھوں نے یونیورسٹی پر قبضہ کر رکھا ہے اور مارنے اور قتل کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کن لوگوں نے استقامت دکھائی؟ خود طلبا نے۔ طالب علموں کی بہت ہی پرجوش اور موثر فعالیت اور سرگرمی کی پہلی علامت اسی معاملے میں ظاہر ہوئی۔ یونیورسٹی میں نیم تعطیل کی کیفیت تھی لیکن طلبا، کچھ خالص انقلابی، زندہ دل اور پرجوش طالب علم آئے، یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور ان لوگوں سے اس کو پاک کر دیا۔ یہ واقعہ جو میں نے عرض کیا انیس سو اناسی کا تھا۔ یہ ایک نمونہ ہے۔
اگر طلبا کے تعلقات و روابط نہ ہوتے جو انقلاب کی برکت سے مستحکم تر ہو گئے تھے تو یہ کام اتنی اچھی طرح اور شفافیت کے ساتھ انجام نہ پاتا۔ اس زمانے میں طلبا انقلاب کے بنیادی شعبوں میں بھی فعال تھے۔ سپاہ پاسداران، تعمیری جہاد اور ملک کے مختلف شعبوں میں (یونیورسٹیوں کے طلبا فعال تھے) اس کے بعد جنگ شروع ہو گئی۔ یہ شہدا جن کا میں نے نام لیا، یہ سب طالب علم تھے۔ اہل علم و تعلیم تھے۔ ان میں سے بعض کی استعداد اور صلاحیتیں بہت اچھی تھیں لیکن انھوں نے اپنے وجود کو انقلاب اور اس کی ضروریات کے لئے وقف کر دیا تھا۔ میں اپنے دوستوں میں ہمیشہ اس جملے کو دہرایا کرتا تھا اور اس وقت آپ کے درمیان کہتا ہوں کہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ کوشش کرے، وقت کی ضرورت کو سمجھے اور اس کو پورا کرے۔ اگر آپ تاریخ کے اس لمحے کی ضرورت کو نہ سمجھے، اس کو پورا نہ کیا، کل سمجھے تو وقت گزر گیا، اب دیر ہو چکی ہے! ایک پروڈکشن لائن کی طرح جو چلتی رہتی ہے، ٹیکنیشیئن، محنت کش، انجینیئر اور ماہرین سب اپنی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ جب یہ پٹی آپ کے سامنے پہنچی تو جو کام آپ کے ذمہ ہے اس کو انجام دیں۔ اگر انجام نہ دیا تو اب وقت گزر گیا، اب وہ آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد جو پروڈکٹ آئے گا وہ دوسرا ہوگا۔ تاریخ، زمانہ اور معاشرے کی ضرورتیں بھی اسی طرح ہیں۔ یہ وہ کام ہے جس کو نوجوان خاص طور یونیورسٹیوں کے طلبا اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ وہ اس کو جان کے اور سمجھ کے اس کے مطابق کام کر سکتے ہیں اس لئے کہ ان کے اندر توانائی ہے، وہ فعال ہیں، ان کی آںکھیں کھلی ہیں، زبان گویا ہے۔ مستقبل کا تعلق بھی انہیں سے ہے۔ وہ اپنے لئے کام کرتے ہیں۔
مستقبل آپ کا ہے۔ آج انھیں نوجوانوں میں سے کچھ لوگ اہم عہدوں پر ہیں، حکومت میں مختلف شعبوں میں خدمت میں مصروف ہیں۔ طالب علمی کے زمانے کی سعی و جدوجہد، طلبا کی تحریک اور طلبا کی بیداری میں سرگرم فعالیت کا قابل افتخار ماضی اور یادیں ان کے ساتھ ہیں۔ یہ طلبا کی تحریک اور بیداری کی برکتیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ آج طالب علم ہیں، اگر اس ماحول میں، اس تحریک میں ان خصوصیات کے ساتھ جن کا میں نے ذکر کیا، اگر یہ خصوصیات نہ ہوں تو یہ کچھ اور چیز ہوگی اور اس کی یہ برکات بھی سامنے نہیں آئيں گی۔ اگر آپ اس تحریک میں ان خصوصیات کے ساتھ کام کریں تو آپ کے انقلاب، آپ کے ملک، آپ کی تاریخ اور خود آپ کے لئے، دنیا میں بھی اورعدل الہی کے روبرو بھی اس کی برکات نظر آئیں گی۔ اس صورت میں آپ بہت زیادہ اور عظیم کام انجام دیں گے۔ میں اس تحریک کو مثبت اور مبارک تحریک سمجھتا ہوں اور مجھے اس سے لگاؤ ہے۔ میں نے اس کے سرچشموں کو قریب سے پہچانا ہے۔ یہ سرچشمے پاک و طاہر ہیں۔ اس کی خصوصیات بھی وہی ہیں جو بیان کی گئیں۔ اگر امنگوں سے لگاؤ کی جگہ امنگوں سے بیزاری لے لے تو پھر یہ بات نہیں ہوگی بلکہ یہ کوئی اور چیز ہو جائے گی۔ اب چاہے اس کی شکل نئی ہو تب بھی اس کا باطن رجعت پسندی، بوسیدگی اور قدامت پرستی پر مبنی ہوگا۔ اس تحریک میں امنگوں کے لئے کام ہونا چاہئے۔ یعنی انصاف، مساوات، معنوی آزادی، سماجی آزادی، سماجی عزت و وقار اور دنیا میں قومی سربلندی کے لئے کام ہونا چاہئے۔ اگر یہ پاکیزگی اور خلوص کی کیفیت، سودے بازی اور رائج سیاسی بازیگری میں تبدیل ہو گئی، جو لوگ زیادہ عمر کے ہو گئے ہیں، وہ اس بازیگری سے اچھی طرح واقف ہیں، لیکن یہ نوجوان جو نئے نئے اس میدان میں اترے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ نئے کام ہیں اور کوئی نہیں سمجھتا، نہیں، یہ آزمائے ہوئے، پرانے حربے ہیں، اقتدار پرست پارٹیوں کے کام ایسے ہی ہوتے ہیں، اگر یہ سودے بازی اور بازیگری آ گئی تو پھر یہ تحریک وہ نہیں رہے گی۔
میں نے بہت سی طلبا تنظیموں کے اراکین سے جو میرے پاس آتے ہیں کہا ہے کہ طالب علموں سے میری محبت اور لگاؤ کی وجہ ان کی صداقت اور پاکیزگی ہے۔ ہر طالب علم میں یہ پاکیزگی اور صداقت محفوظ رہنی چاہئے۔ لیکن اگر فرض کریں کہ یہ کام عملا ممکن نہیں ہے کہ ایک ایک طالب علم میں، یہ صداقت، خلوص، اخلاص اور قلب و روح کی یہ پاکیزگی محفوظ رکھی جائے تو کم سے کم طلبا کی تحریک میں اس کو محفوظ رکھنا چاہئے۔
طلبا کی یہ تحریک اور یہ بیداری نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں، کبھی بھی اتنی ہمہ گیر نہیں رہی کہ یونیورسٹی کے سبھی طلبا اس میں شامل ہوں ۔ یونیورسٹی کے ماحول میں سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض میں فعالیت اور سرگرمی کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں ہمیں اپنا کام کرنے دو، ہمیں اپنی پڑھائی کرنے دو، ہم جلد سے جلد یہ ڈگری لے کے اپنے کام میں مشغول ہونا چاہتے ہیں! میری باتوں کا اطلاق ان پر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بہت اچھے نوجوان ہوں۔ میں ان کی برائی کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں یہ ان کے لئے نہیں ہیں۔ اس بیداری، اس تحریک، اس موومنٹ، طالب علموں کی اس تحریک میں یہ شامل نہیں ہیں۔ یونیورسٹی میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ طالب علمی سے زیادہ نوجوانی کے کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نوجوانی کے کاموں کے چکر میں رہتے ہیں اور وہ بھی 'الّا اللّمم' کے عنوان سے نہیں۔ 'لمم' جو قرآن میں کہا گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ بعض اوقات انسان سے یونہی کوئی کام اتفاقیہ طور پر بغیر توجہ کے سرزد ہو جاتا ہے۔ کون ہے جس سے گناہ اور خطا سرزد نہ ہوتی ہو؟ سوائے ان انسانوں کے جو بہت اعلی درجے پر فائز ہیں۔ بنابریں بعض اوقات اتفاقیہ طور پر کوئی کام ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ممکن ہے کہ کوئی انسان غلطی، غفلت اور جہالت کی وجہ سے کوئی نامناسب حرکت کر بیٹھے۔ اس کا حکم کچھ اور ہے لیکن بعض افراد ہیں کہ یہ حرکت، خطا اور نامناسب اقدام ان کا معمول کا کام ہوتا ہے۔ گویا ان کو ساری فکر اسی کی ہوتی ہے! یہ لوگ بھی میری بات سے تعلق نہیں رکھتے۔ البتہ ماضی اور انقلاب سے پہلے اس قسم کے افراد زیادہ تھے۔ لیکن انقلاب آنے کے بعد اس قسم کے افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ میری بحث ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے سامنے ہدف، امنگ اور احساس ذمہ داری ہے۔ طلبا کی تحریک انہیں افراد سے متعلق ہے۔ ورنہ وہ اگر کبھی کسی مظاہرے میں سامنے بھی آتے ہیں تو ان کی موجودگی مصنوعی، جھوٹی اور غیر حقیقی ہوتی ہے! بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اسی قسم کے افراد جنہیں ان کاموں کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں ہوتی، اجتماع میں بھی آتے ہیں۔ یعنی وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ سنجیدہ امور اور امنگوں سے متعلق کام ایسے نہیں ہیں جن میں اس قسم کے افراد کچھ کر سکیں۔
بنابریں دیکھئے! طالب علموں کی تحریک میں ان خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ مجھے یونیورسٹیوں کی مختلف قسم کی تنظیموں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی ایک حیثیت اور حالت رکھتی ہے۔ میری باتیں، تنظیموں سے بالاتر اور ان تمام لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جن کے اندر جذبات و احساسات پائے جاتے ہیں البتہ وہ جذبات و احساسات جن کے لئے میں نے کہا کہ اس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور بہت ہی اہم عناصر پر استوار ہیں جیسے نوجوانی، پاکیزگی، صداقت، توانائی، اصولوں اور امنگوں سے لگاؤ۔ ان خصوصیات کی حفاظت ضروری ہے۔ البتہ طلبا کی تحریک کے لئے کچھ خطرات بھی ہیں جن سے ڈرنا اور پرہیز کرنا ضروری ہے۔
طلبا کی تحریک کے لئے ایک خطرہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ ہے کہ نا پسندیدہ اور غلط عناصر اس پر قبضہ کرکے اس سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ایک دور میں جب ہم بھی نزدیک سے ان کے کاموں کو دیکھ رہے تھے اور ان سے واقف تھے، بعض لوگ تھے جو یہ چاہتے تھے کہ طلبا کی تحریک ختم ہو جائے! جہاں بھی نوجوانوں کی کوئی تحریک بالخصوص یونیورسٹی طلبا کی تحریک ہوتی تھی، یہ اس سے منھ موڑ لیتے تھے، اس تحریک کو دیکھنا انہیں گوارا نہیں تھا۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئي میدان ہے جہاں یونیورسٹی طلبا اور ملک کے نوجوان بولتے ہیں اور ان کی تحریک فیصلہ کن ہے تو پہلے سینے کے بل، بہت خاموشی اور چپکے سے اس طرح کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے، پھر تھوڑا بلند ہوکے، بہت معمولی سا ظاہر ہوکے اور اس کے بعد کھڑے ہوکے پوری طرح سامنے آکے ، میدان میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی ہیں! اگر کچھ اقتدار پرست، بد نیت اور غلط عناصر جن کا ماضی خراب ہے، طلبا کی تحریک کی طرف آئيں، اس میں شامل ہو جائيں اور اس پر اپنے پنجے گاڑ دیں تو یہ بات خطرناک ہوگی ۔ طلبا کی تنظیموں اور انجمنوں کے اراکین جو میرے پاس آتے ہیں میں نے ان سے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہ خطرناک عناصر کون ہیں؟! چونکہ ممکن ہے کہ یہ تقریر نشر ہو، یہاں آپ کے سامنے نام نہیں لوں گا۔ لیکن میں نے انہیں ان کے نام بھی بتائے ہیں۔ بعض اوقات برے اور بد نیت لوگ پاک اچھے اور صاف نیت کے افراد اور اچھی تحریک سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس پر انسان کا دل کڑھتا ہے۔ اگر اس کا بس چلے تو یہ نہ ہونے دے۔ یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ یونیورسٹی طلبا کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ افراد یونیورسٹیوں کے طلبا کا خیال رکھیں۔ اس سے مقصد فوت ہو جائے گا۔ خود طلبا کو اپنا خیال رکھنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے کہ بری نیت والے افراد اور عناصر، بری نیت والی تنظیمیں، بری نیت رکھنے والے افراد کا کوئی مجموعہ برے ماضی کے مالک اور بدنام عناصر ان کے قریب نہ آ سکیں۔ اگر وہ کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو جائيں خود نیک کام کریں طلبا کی انجمن اور تحریک سے سروکار نہ رکھیں۔
طلبا کی تحریک کے لئے ایک اور خطرہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، امنگوں سے دوری کا ہے۔
میرے عزیزو! دیکھئے! انقلاب سے برسوں پہلے ایک مجرمانہ واقعہ 16 آذر ( مطابق 6 یا 7 دسمبر) کو پیش آیا۔ ابتدائے انقلاب سے ایسا کام کیا جا سکتا تھا کہ سولہ آذر کے واقعے کو فراموش کر دیا جائے. اس لئے کہ بہت زیادہ حوادث رونما ہوئے تھے! لیکن نہیں، ملک کے حکام اور ملکی مسائل میں دلچسپی رکھنے والے چاہتے ہیں کہ اس دن کی یاد زندہ رہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس دن یونیورسٹی میں حق بات کی وجہ سے ایسا واقعہ رونما ہوا کہ بعد میں جلادوں کے محاذ نے نوجوانوں کے اسی ہدف کی وجہ سے، جو ایک اعلی ہدف تھا، ان سے مقابلہ کیا جو تین افراد کے مارے جانے پر منتج ہوا۔ اس دن کا مسئلہ کیا تھا؟ امریکا کی مخالفت۔ کس زمانے میں؟ اس زمانے میں جب امریکی سیاست، امریکی حکومت اور امریکا کے فوجی نیز انٹیلیجنس کے عناصرملک کے تمام شعبوں پر مسلط تھے۔ اس ملک میں آشکارا اور خفیہ طور پر سب کچھ امریکا کے ہاتھ میں تھا۔ آج جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی اس بات پر کہ ایران اسلامی ان کی طرف نہیں جا رہا ہے انگارے چبا رہے ہیں، یہ اسی زمانے کی یاد کی وجہ سے ہے۔ اس لئے کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ کھڑے ہوکے پورے علاقے پر، عرب ملکوں پر ترکی وغیرہ پر فخر کے ساتھ نظر دوڑاتے تھے اور ان پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے تھے۔ اس لئے کہ وہ خود کو اس جگہ کا مالک سمجھتے تھے! اس بات پر بھی توجہ رکھیں: جغرافیائی لحاظ سے آپ کا ملک بہت ہی حساس مرکز میں واقع ہے۔ البتہ اس دور میں سوویت یونین کے وجود کی وجہ سے امریکیوں کے لئے اس کی اہمیت اور زیادہ تھی۔ آج سوویت یونین نہیں ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وسطی ایشیا کے ملک ہیں جو بہت ہی اہم ہیں۔ دوسرے روس ہے جو مغرب اور بالخصوص امریکا کے لئے بہت اہم ہے۔ اس وقت روس زندگی اور موت کے درمیان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر روس جو دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، دنیا کے حساس ترین علاقے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا، طاقت و قدرت حاصل کر لی اور امریکا کے زیر اثر نہ رہا تو امریکا اور دنیا کے یک قطبی ہونے کے لئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ یعنی امریکیوں کے لئے وہی سابق سوویت یونین کی طرح ہو جائے گا۔ لہذا روس بھی اہم ہے۔ بنابریں آج اگر چہ سوویت یونین نہیں ہے، لیکن چونکہ وسطی ایشیا ہے، چونکہ روس ہے، چونکہ اس طرف عراق اور شام جیسے ممالک ہیں جو کسی زمانے میں سوویت یونین کے زیر اثر تھے اور آج امریکی انہیں اپنے تسلط میں لینا چاہتے ہیں، لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کی جغرافیائی اور جیوپولیٹیکل پوزیشن اس خطے میں منفرد اور بہت اہم ہے۔
امریکی دیکھ رہے ہیں۔ یہاں ان کے قدم جمانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حتی ایک معمولی سفارتخانہ، مفادات کا محافظ دفتر بھی نہیں ہے! آج حتی اس ملک میں امریکا کا کوئی کارندہ بھی نہیں ہے۔ ان کے مفادات کا محافظ دفتر سوئزرلینڈ کے سفارتخانہ کے پاس ہے۔ یہاں امریکیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کوشش بھی کی ہے۔ ایک عرصے سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ لیکن ہمارے حکام نے مزاحمت کی ہے اور اجازت نہیں دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ تہران میں مفادات کے محافظ دفتر میں تعینات ہوں۔ دراصل وہ چاہتے ہیں کہ خود کو فروخت کرنے والے عناصر سے رابطے کے لئے تہران کے بیچ میں ایک سیاسی اور انٹیلیجنس کا مرکز قائم کریں۔ یہ ان کا مقصد ہے! آج ان کی برہمی کی ایک وجہ وہ پوزیشن ہے جو انہیں انقلاب سے قبل یہاں حاصل تھی۔ ان حالات میں یونیورسٹی کے طلبا، امریکا کے اس وقت کے نائب صدر کے یہاں آنے پر برہم تھے اور انھوں نے اپنی برہمی کا اظہار سولہ آذر کو اس شکل میں کیا۔ آج اس واقعے کو تقریبا چالیس سال ہو رہے ہیں لیکن 16 آذر کا واقعہ اب بھی زندہ ہے۔
اسلامی انقلاب آیا اور اس نے ملک کا سیاسی نظام بالکل تبدیل کر دیا۔ سیاسی جہت ماضی سے یکسر مختلف ہو گئی۔ ایک خود مختار نظام، ایک دینی اور اسلامی نظام اور ایک سو فیصد عوامی نظام اقتدار میں آیا ہے۔ ایران ان تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا جو امریکا کے تسلط سے نالاں ہیں۔ بہت سی اقوام ہیں، ان کی تعداد کم نہیں ہے، جو ایران کے امریکا مخالف نعروں سے خوش ہوتی ہیں۔ میرے لئے اگر ممکن ہوتا تو ایسے ایسے نام لیتا کہ آپ کو تعجب ہوتا۔ مشہور اور بڑے ممالک ہیں جو اس بات پر کہ یہاں ایک ایسی قوم ہے جو پوری قوت سے امریکا کی تسلط پسندی کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے، خوش ہیں، ان کے اندر خوشی کے جذبات ہیں اور وہ صراحت کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں! اب ان حالات میں کچھ لوگ آئیں اور طالب علم کے عنوان سے سولہ آذر کی امریکا مخالف تحریک کے مقابلے میں کھڑے ہوں یعنی انتہائی کھوکھلے، کمزور، غیر منطقی اور غیر معقول بنیادوں پر امریکا کی طرف جھکاؤ پیدا کریں۔ یہ طلبا کی تحریک سے منھ موڑنا ہے۔ یہ طلبا کی تحریک نہیں ہے۔ بلکہ یہ کوئی اور چیز ہے۔ یہ یونیورسٹی طلبا کی تحریک کے برعکس ہے۔ امریکا کی مخالفت کے مسئلے کو بہت ہی معمولی، کمزور اور بے بنیاد جماعتی رجحانات کے قالب میں پیش کریں تاکہ یہ قضیہ ہی ختم ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی طلبا کی تحریک کو در پیش خطرات میں سے ہے۔ بنابریں طلبا کی تحریک کو در پیش ایک خطرہ، امنگوں سے دوری کا بھی ہے۔ یا مثال کے طور جب ملک میں سماجی انصاف کی بات ہو تو یونیورسٹیوں کے طلبا کو اس کی حمایت کرنا چاہئے۔ سماجی انصاف وہ چیز ہے کہ حتی وہ افراد بھی جو سیاسی وجوہات یا گوناگوں محرکات کے تحت اس بات پر مصر تھے کہ اس کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے وہ بھی اس کو نظر انداز نہ کر سکے اور سماجی انصاف کی بات کرنے پر مجبور ہو گئے۔ دنیا میں سامراجیوں، تسلط پسندوں اور عالمی لٹیروں کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو سماجی انصاف کا مخالف ہو اور اس سے منہ موڑ سکے۔ ملک میں سماجی انصاف کا نعرہ پیش کیا جا رہا ہے، اس نعرے کی حمایت کون کرے؟ کس کو اس بارے میں دوسروں سے زیادہ سوچنا چاہئے؟ اس کے لئے کس کو کام کرنا چاہئے؟ کس کو سماجی انصاف کے نفاذ اور اس کے عملی ہونے کی راہوں کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا چاہئے اور اس بارے میں سیمیناروں اور کانفرنسوں کا اہتمام کرنا چاہئے؟ یہ کام یونیورسٹیوں کے طلبا نہیں کریں گے تو کون کرےگا؟ بنابریں اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ یونیورسٹی طلبا کی تحریک اور طلبا کی بیداری مخالف سمت میں نہ جائے۔ لہذا طلبا کی تحریک کو در پیش خطرات میں سے ایک امنگوں کی فراموشی کا خطرہ ہے۔
طلبا کی تحریک کو در پیش ایک اور خطرہ ان کے معیار کا گر جانا اور سطحی ہو جانا ہے۔ میرے عزیزو! سطحی انداز میں سوچنے سے سختی سے پرہیز کریں۔ عمیق فکر اور گہرائی کے ساتھ سوچنا یونیورسٹی کے طالب علم کی خصوصیت ہے۔ جو بات بھی سنیں، اس پر غور و فکر کریں۔ اسلام میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ "تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ سبعین سنۃ" ایک لمحے اور ایک گھنٹے کی فکر برسوں کی عبادت سے بہتر ہے، اس لئے کہ اگر آپ نے فکر کی تو آپ کی عبادت بھی معنی و مفہوم کی حامل ہو جائے گی، آپ کی زندگی با معنی ہو جائے گی، آپ کی مجاہدت با معنی ہو جائے گی۔ آپ اپنے دوستوں کو پہچانتے ہیں اور دشمنوں کو بھی پہچانتے ہیں۔ فرض کریں کہ کسی محاذ پر کچھ لوگ ایسے آ جائیں جو اپنے محاذ اور دشمن کے محاذ کا فرق نہ سمجھ سکیں۔ حیران و پریشان اپنے ہی گرد گھومتے رہیں۔ کبھی ادھر فائرنگ کریں کبھی ادھر فائرنگ کریں، کبھی اوپر کی طرف فائرنگ کریں اور کبھی اپنے ہی اوپر فائرنگ کر لیں! دیکھئے اگر فکر نہ ہو تو انسان اس طرح ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ شور و غل مچاکے، ہلڑ ہنگامہ کرکے اور جھوٹے نیز بے بنیاد رنگا رنگ نعرے لگاکے طلبا کی انجمنوں اور ان کی تحریک کو اس سمت میں لانا چاہتے ہیں۔ یہ طلبا کی تحریک کے لئے خطرناک ہے۔ سوچنا چاہئے، غور و فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر کے ساتھ صحیح انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر اس نے غلط انتخاب بھی کر لیا تو چونکہ صاحب فکر ہے اس لئے اس سے آسانی سے بات کی جا سکتی ہے۔ جو شخص اہل فکر نہیں ہے، وہ جو بھی انتخاب کر لے، اس کے انتخاب میں اگر غلطی ہو تو اس سے منطقی بات نہیں کی جا سکتی۔ وہ اپنی نادانی، جہالت اور تعصب میں گرفتار ہے، لیکن اگر کوئی اہل فکر ہو اور اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو کوئی خیرخواہ اس سے بات کرکے اس کو بتا سکتا ہے کہ اس سے خطا ہوئی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے۔ سطحی سوچ نہیں ہونی چاہئے۔ ہر سلوگن، ہر نعرے اور ہر بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر سوچنا اور فکر کرنا چاہئے۔ تمام معاملات میں فکر بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ معقول اور عقلمند انسانوں سے فکر کی توقع رکھی جاتی ہے۔
یونیورسٹی طلبا کی تحریک کو در پیش ایک اور خطرہ پارٹیوں اور گروہوں کے دام فریب میں آنے کا ہے۔ اس بارے میں میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے۔ ہوشیار رہنا چاہئے، مختلف پارٹیوں اور گروہوں کے خطرناک آکٹوپس سے بچنا چاہئے، ان کے دام فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ اس لئے کہ اگر ان کے دام فریب ميں آ گئے تو وہ اس آزاد فکر رکھنے والے مجموعے اور تحریک کی مثبت خصوصیات سلب کر لیں گے اور اگر یہ ہو گیا تو پھر دشمنان انقلاب کے اختیار میں چلے جائيں گے۔ یہ اتنی خطرناک چیز ہوگی کہ زندگی، سرمایہ اور مستقبل سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف حسرت رہ جائے گی۔
میری تقریر تھوڑی طولانی ہو گئی۔ آخر میں میں صرف یہ سفارش کروں گا کہ آپ حضرات نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں۔ نہج البلاغہ بہت زیادہ بیداری اور ہوشیاری پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے اور اس پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اپنے جلسوں میں نہج البلاغہ اور امیر المومنین صلوات اللہ و سلامہ علیہ کے فرمودات کی بات کریں۔ اگر خداوند عالم نے توفیق عطا کی اور ایک قدم آگے بڑھے تو پھر صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کریں جو بظاہر صرف دعاؤں کی کتاب ہے لیکن نہج البلاغہ کی طرح یہ بھی درس، سبق، حکمت اور کامیاب زندگی کی رہنمائیوں کی کتاب ہے۔ بہت سی باتیں کہنے سے رہ گئیں لیکن چونکہ دوپہر کا وقت ہے اور زیادہ وقت بھی نہیں بچا ہے اور میں آپ کے سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں اس لئے اپنی بات یہیں پر ختم کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1 اکتوبر 1999 کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطبوں میں امام خمینی کی شخصیت کا جائزہ لیا اور تین اہم خصوصیات کو بیان کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے معروضی حالات پر تفیصیلی بحث کی۔
نماز جمعہ کے خطبوں کا اردو ترجمہ
میں، جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب اور ایک اورشخص جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا ایک ساتھ تہران سے قم گئے اور وہاں امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ آخر ان جاسوسوں کا کیا کریں؟ انہیں پکڑے رکھیں یا چھوڑ دیں؟ چونکہ عبوری حکومت کے اندر بھی اس سلسلے میں الگ الگ موقف تھے۔
رمضان المبارک کا مہینہ تھا، میں سوچ رہا تھا کہ لوگوں کے سامنے کیا بیان کیا جائے جو مفید ہو۔
اپنی دلچسپی کے لحاظ سے میں نے سوچا کہ سورہ کہف کی تفسیر بیان کی جائے۔
اس کے لئے میں مختلف تفاسیر اور تاریخی کتب کا مطالعہ کرتا اور رمضان المبارک کی راتوں میں با ذوق افراد کی نشست میں اس واقعے کو بیان کرتا تھا۔
میں نے اس کے علاوہ بھی کئی بار اصحاب کہف کا قصہ بیان بھی کیا ہے،سنا بھی ہے،پڑھا بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کو میں نے آپ لوگوں سے سمجھا ہے۔
جس رات آپ لوگوں نے یہ خوبصورت، پیچیدہ اور بہترین منظر پردے پر دکھایا اس رات میری سمجھ میں آیا کہ ''اذ قاموا فقالوا ربنا رب السموات والارض‘‘ کے معنی کیا ہیں۔
یعنی اس رات میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا آپ لوگوں نے واقعاً ایک قرآنی داستان کو مجسم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
یہ ایک عظیم کام ہے۔
(اصحاب کہف سیریل بنانے والے افراد سے ملاقات کے دوران 27/02/1999)
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پہلی آذر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق بائیس نومبر انیس سو اٹھانوے کو حفظ و قرائت قرآن کریم کے پندرہویں مقابلے کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا۔ آپ نے تلاوت کلام پاک کی برکتوں کا ذکر کیا اور الفاظ قرآن اور مفاہیم کلام پاک پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مختلف شعبوں میں ملت ایران کی ترقی و کامیابی اور عالمی سامراج کے تسلط سے آزادی کو قرآن پر عمل آوری کا ثمرہ قرار دیا۔ آپ نے شاہ کے طاغوتی دور میں قرآن کی تعلیم کے سلسلے میں بے توجہی اور اسلامی انقلاب کے بعد اس میدان میں ہونے والی پیش رفت کی جانب اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھبیس آبان تیرہ سو ستتر مطابق سترہ نومبر انیس سو اٹھانوے کو عید بعثت کے موقع پر ملک کے اعلی حکام اور کارکنوں سے ملاقات میں بعثت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ایران کے اسلامی انقلاب میں اسلامی تعلیمات کے اثرات کی نشاندہی کی۔
تیرہ آبان اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کا اہم دن ہے۔ اس دن ایرانی طلبہ نے تہران میں واقع امریکی سفارت خانے پر جو ایران کے خلاف جاسوسی کی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل ہو چکا تھا قبضہ کر لیاتھا۔ ایرانی طلبہ کے اس زیرکانہ اور دانشمندانہ اقدام سے ملک بہت بڑے خطرے سے محفوظ ہو گیا۔ اس دن کو ایران میں سامراج کے خلاف جد و جہد کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دو آذر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق تیئیس نومبر انیس سو اٹھانوے کو فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت اور ایران میں منائے جانے والے یوم پاسدار کے موقع پر اپنے خطاب میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے اخلاص، توکل بر خدا اور موقع شناسی کو آپ کی تحریک کی کامیابی کی تین اہم وجوہات قرار دیا اور فرمایا کہ یہ تینوں خصوصیات امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں بھی موجود تھیں لہذا ایران کا اسلامی انقلاب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ آپ نے اپنے خطاب میں عالمی سامراج کے مالی، فوجی اور تشہیراتی حربوں کا بھی تجزیہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس مہر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق اکیس اکتوبر انیس سو اٹھانوے عیسوی کو شہدا کے خاندانوں اور عوامی طبقات کے اجتماع سے خطاب میں ماہ رجب کی آمد اور اس مہینے کی برکتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی نظام کی تشکیل کے ثمرات کی جانب اشارہ کیا اور اس نظام کی تشکیل سے معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو ہمہ گیر قرار دیا۔ آپ نے ماہرین کی کونسل کے مجوزہ انتخابات اور عوام کے حق رائے دہی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھبیس مہر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق اٹھارہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو سید الشہدا فوجی ڈویژن کی مارننگ اسمبلی سے خطاب میں فوج کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ملک اور قوم کے تعلق سے فوج کے فرائض بیان کئے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت پر قصیدہ گو شعرا اور منقبت خوانوں نے انیس جمادی الثانی مطابق گیارہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب نے محمد و آل محمد علیھم السلام کے قصیدے پڑھنے والوں کی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے مدح کے اشعار کے تعلق سے اہم ہدایات دیں۔
احمد سکوٹور نامی ایک افریقی لیڈر گنی کوناکری کے صدر جمہوریہ تھے میری صدارت کے دوران کئی مرتبہ ایران آئے۔
ایک مرتبہ جنگ کے زمانے میں آئے، کہنے لگے آپ کے اوپر یہ جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس پر تعجب نہ کیجیئے۔ سامراجی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہ جو کام کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کسی پڑوسی ملک کو انقلاب کی نابودی پر مامور کر دیتی ہیں۔
آپ کا مسئلہ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ لہذا تعجب نہ کیجئے۔
انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے اوپر ایک طرف سے (ایک سرحد سے) حملہ کیا گیا ہے لیکن ہم پر پانچ طرف سے(پانچ سرحدوں سے) حملہ کیا گیا، پانچ ملکوں نے حملہ کیا ہے۔ گنی کوناکری ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کے اطراف میں کئی ممالک واقع ہیں۔ سکوٹور بھی ایک انقلابی لیڈر تھے اور ایک انقلاب کے ذریعہ ہی آگے آئے تھے لہذا ان پر حملہ کیا گیا۔
) تہران یونیورسیٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران 12/5/1998)
بسم اللہَ الرّحمن الرّحيمالحمد للَّہ ربّ العالمين والصّلاۃ والسّلام على البشير النذير والسّراج المنير سيّدنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على آلہ الاطيبين الطاھرين و علىالخيرۃ من اصحابہ المنتجبينمسلمانوں کی سب سے بڑی سالانہ ملاقات کی خوشخبری کے ساتھ حج کے ایام آ گئے ہیں، اور بجا ہوگا کہ اشتیاق سے لبریز لاکھوں دل، جنہیں ان ایام میں اللہ تعالی کے فیض قربت سے استفادے کا موقع حاصل ہوگا، مسلسل جوش و خروش اور اپنے آپ کو تیار کرنے کے ہیجان میں رہیں، اور حج کے دسیوں لاکھ خواہشمند مسلمان، جن کا نام اس سال، اس موقع سے استفادہ کرنے والوں (حج سے مشرف هونے والوں) میں نہیں ہے، سعادت حاصل کرنے والوں کے ہر دن اور ہر لمحے کو یاد کرتے ہوئے اور ان کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرتے ہوئے اپنے دل و دماغ کو معطر کریں، اور تمام صاحبان دل مسلمان، حج کے ایام کو کسی نہ کسی طرح حج اور اس کے جلال و جمال کی نشانیوں کے ساتھ گزاریں۔ہر سال حج کے مناسک، ایک اہم واقعہ ہوتے ہیں اور بجا ہوگا کہ ان ایام میں پورے عالم اسلام کے لوگوں کے افکار، توجہ، غور و فکر اور احساسات کا اصلی مرکز یہی مناسک ہوں اور ہر کوئی اپنی معنوی، فکری اور سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے ان کے بارے میں کسی نہ کسی طرح غور و فکر کرے اور اسی ماحول میں پہنچنے کی کوشش کرے۔ بہت ہی واضح سی بات ہے کہ جن افراد کو حج سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے وہ اس ذمہ داری اور توقع کے مرکز میں ہیں اور چونکہ ان کے جسم، جان، افکار اور کوششیں حج اور اس کی برکتوں اور اثرات سے وابستہ ہیں لہذا بہتر ہے کہ وہ اس سے معنوی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔اگرچہ حج کی برکتیں، حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہیں اور لایزال رحمت کی یہ بارش، انسان کے دل اور افکار کی خلوتوں سے لے کر سیاست اور معاشرے، مسلمانوں کے ملی اقتدار اور مسلم اقوام کے درمیان تعاون کے میدان تک کو بارور اور زندگی کو اشتیاق سے شرابور کر دیتی ہے لیکن شاید کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور اپنی آنکھوں کو حقائق کی جانب کھولنے اور سوچنے سمجھنے کی خداداد صلاحیت سے استفادہ کرنے پر مائل شخص کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ، بے نظیر معرفت اور شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتا اور کوئی بھی دوسرا دینی موقع حج میں حاصل ہونے والے شناخت کے اتنے سارے مواقع کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا۔یہ معرفت، کچھ باتوں کی شناخت سے عبارت ہے؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں:ایک فرد کی حیثیت سے اپنی شناخت، اسلامی امت کے عظیم مجموعے کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، اس امت واحدہ کے نمونے کی شناخت، خدا کی عظمت و رحمت کی شناخت اور دشمن کی شناخت۔ایک فرد کی حیثيت سے اپنی شناخت، اپنے وجود کے بارے میں غور و فکر کرنے اور اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کی شناخت کرنے کے معنی میں۔جس جگہ مادی تشخص اور مال، عہدہ، نام، زیور اور لباس اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور انسان فرق و امتیاز کے ان اسباب سے علیحدہ ہوکر دوسرے لاکھوں انسانوں کے ساتھ طواف، سعی، نماز، افاضے اور وقوف کرتا ہے اور امیر اور غریب، حاکم اور رعیت، عالم اور جاہل، سیاہ اور سفید سب کے سب ایک لباس میں اور ایک انداز میں خدا کی جانب رخ کرتے ہیں، اس کی جانب دست نیاز بڑھاتے ہیں اور اپنے آپ کو جمال، عظمت، اقتدار اور رحمت کے مرکز میں پاتے ہیں، اس جگہ ہر انسان غور و فکر کرکے خداوند متعال کے مقابل اپنی کمزوری اور تہیدستی اور خدا سے تقرب کے سائے میں اپنی بلندی، اقتدار اور عزت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے، اپنے کمزور وجود کے بارے میں باطل اور غرور انگیز توہم کو دور پھینک سکتا ہے اور خودپسندی و نخوت کے شیشے کو چور چور کر سکتا ہے جو اس کی سب سے بری عادات اور اطوار کا سبب ہے۔ دوسری جانب وہ عظمت کے سرچشمے سے رابطے کی حلاوت کو چکھ سکتا ہے اور اس سے متصل ہو جانے نیز اپنے اندرونی بتوں سے دوری اختیار کرنے کو آزما سکتا ہے۔ یہ بنیادی شناخت، جو تمام عبادتوں کا جوہر اور اولیائے خدا کی دعا و مناجات کا مضمون ہے، انسان کو پاک و پاکیزہ بناتی ہے اور اسے اگلی شناخت کے لیے آمادہ اور کمال کی تمام راہیں طے کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ عام زندگی میں، دنیوی بکھیڑے، مادی جدوجہد کے لیے ضرورت سے زیادہ سرگرمیاں اور انسانوں کی روزمرہ کے زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والے جھنجٹ دل کو غافل بنا دیتے ہیں، اسے اس واضح و روشن معرفت سے باز رکھتے ہیں، باطل وہم و گمان کے جالوں میں پھنسا دیتے ہیں اور اس کے دل کو تاریکی اور ظلمت کی جانب کھینچ لے جاتے ہیں؛ حج ان تمام بیماریوں اور مسائل کا شافی علاج ہے۔ امت اسلامی کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، ان تمام حاجیوں حاجیوں، مسلمان اقوام اور اسلامی سرزمینوں کو دیکھنے کے مترادف ہے جنہوں نے اپنے لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف کے لیے روانہ کیا ہے۔ تمام حاجیوں پر نگاہ، اس عظيم اسلامی امت پر نگاہ ہے جو آج پوری دنیا میں دسیوں اقوام اور کروڑوں انسانوں سے مل کر تشکیل پائی ہے اور زندگی اور سماجی فلاح و بہبود کے اہم ترین مادی اور معنوی وسائل سے بہرہ مند ہے۔ نیز پوری انسانیت اور صنعتی تمدن اپنے تمام تر مادی وسعت کے ساتھ، اس کے اور اس کے بے پناہ وسائل و ذخائر نیز اس کی منڈیوں اور ثقافتی و علمی ورثے کے محتاج ہیں اور اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔اس عظیم حقیقت کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنے آپ کی شناخت، حاجی کو اپنے بھائیوں اور اقرباء کے ساتھ حقیقی اور جذباتی رشتوں سے متصل کرتی ہے اور جدائی اور تفرقے کے سحر کو باطل کر دیتی ہے جو برسوں سے کل کے استعمار اور آج کے سامراج کے ہاتھوں سے رنگ و نسل، زبان، مذہب اور قومیت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔طبقاتی دنیا کے سرغنہ یعنی وہ سیاستداں، جنہوں نے دنیا کو ہمیشہ طاقتور اور کمزور یا سامراجی اور پسماندہ جیسے دو طبقوں میں تقسیم کرنے اور پسماندہ اقوام کے خلاف طاقت اور اقتدار کے مرکز کو اپنے درمیان تقسیم کیے رکھنے کی کوشش کی ہے، گزشتہ دو صدیوں سے لے کر اب تک اسلامی اتحاد سے خوفزدہ رہے ہیں اور انہوں نے اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں! انہیں لوگوں نے جنہوں نے موجودہ عشرے میں بالکان کے مسلمانوں کے قتل عام یا یورپی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویے اور ناانصافی کے ذریعے یا ان باتوں کے سلسلے میں لاپرواہ رہ کر پورے یورپ کو عیسائي بنانے کا عزم ظاہر کیا اور عالم اسلام کے اتحاد کو مختلف قسم کے اہانت آمیز ناموں سے پکارا اور تبلیغ اور عمل کے ذریعے اس میں رکاوٹیں ڈالیں۔فرد فرد میں اس احساس کی تقویت کہ وہ ایک عظيم مجموعے کا جزو ہے اور اس کی صحیح ہدایت کو تفرقہ ڈالنے والے تمام ہتھکنڈوں پر غلبہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ کہ اس قومی اور مذہبی تشخص کو اسلامی امت کے مختلف میدانوں میں باقی رہنا چاہیے، اتحاد و یکجہتی کے فائدوں میں سے ہے اور اس پورے مجموعے کو بہرہ مند کرتا ہے اور اسلامی امت کے اتحاد میں پوشیدہ عزت و اقتدار، اس کے تمام اراکین اور اجزا کو حاصل ہوتا ہے۔حج میں طواف، سعی، نماز جماعت اور تمام اجتماعی عبادتیں اور مناسک، حاجی کو یہی سبق دیتے ہیں اور اسے اس کی روح کی گہرائیوں تک میں راسخ کر دیتے ہیں۔ اس امت واحدہ کے ایک نمونے کی شناخت کا مطلب ہے، اسلامی اتحاد کے عملی جامہ پہننے کی آرزو کی راہ میں ایک عملی قدم اور عالمی سیاست کے میدان میں ایک متحدہ اسلامی طاقت کا ظہور۔دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف زبانوں اور رنگوں کے ساتھ آنے والے حاجیوں کے جم غفیر کو دیکھنے سے مسلمان کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ذاتی، قومی اور ملی سرحدوں سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کا اسلامی فریضہ اس کے برادرانہ رویے کو ان کے ساتھ میل جول، ہمزبانی اور یکجہتی کی راہ پر آگے بڑھاتا ہے، اقوام کی خاص خبروں کو پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے اور دشمن کی تشہیراتی سازشوں کو جو ہمیشہ اور اس وقت ہمیشہ سے زیادہ حقائق کو تبدیل کرنے، جھوٹی خبریں تیار کرنے اور افواہیں پھیلانے میں مشغول ہے، ناکام بنا دیتا ہے اور علاقائیت، زبان اور اسی قسم کے خیالی فاصلوں کو ختم کر دیتا ہے۔ایک قوم کی کامیابی و کامرانی کی داستان سنا کر دوسری اقوام میں امید کی روح پھونک دیتا ہے اور ایک ملک کے تجربے کی تشریح کرکے ایک دوسرے ملک کو تجربہ کار بناتا ہے۔ افراد اور اقوام کے درمیان سے اکیلے پن اور تنہائی کے احساس اور ان کی نظروں سے دشمن کے رعب و دبدبے کو ختم کرتا ہے۔ ایک ملک کے اہم مصائب کو دوسروں سے بیان کرتا ہے اور انہیں ان کے حل کے لیے ترغیب دلاتا ہے۔حج کے ایام میں حاجیوں کا ایک جگہ پر قیام خصوصا عرفات اور مشعر میں وقوف اور منیٰ میں شب بسری یہ سب اس مفید اور کارساز شناخت کے بھرپور مواقع ہیں۔حج میں خداوند متعال کی عظمت و رحمت کی شناخت، اس گھر کی تعمیر پر غور کرنے کے مترادف ہے کہ جو خانۂ خدا ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کا بھی گھر ہے ؛ انَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكََّۃ مُبَارَكًا وَ ھُدًى لِّلْعَلَمِينَ.(1) (بلاشبہ (کعبہ) لوگوں کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے جو مکے میں ہے۔ یہ تمام عالمین کے لیے مبارک اور (باعث) رحمت ہے۔)اسی طرح یہ، وہ جگہ ہے جہاں کا رخ حاجت مند انسان کرتا ہے، اور وہ مقام بھی ہے جہاں دین الہی کی عظمت جلوہ افروز ہوتی ہے۔ یہ شکوہ و جلال، سادگی و عظمت کا ایک نمونہ، اولین صدائے توحید کی یادگار اور اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کا مقام بھی ہے، اور وہ جگہ بھی ہے جہاں قدم قدم پر صدر اسلام کے ان مجاہدین کے نقوش پا موجود ہیں جنہوں نے اس جگہ پر عالم غربت میں جہاد کیا، مظلومیت کے ساتھ یہاں سے ہجرت کی اور بڑے ہی مقتدرانہ اور فاتحانہ انداز میں یہاں واپس لوٹے اور اسے عربوں کی جاہلیت کی نشانیوں سے پاک کر دیا۔ اسی طرح یہ جگہ، خدا کے حضور گڑگڑانے والوں کے انفاس، عبادت کرنے والوں کے سجدوں کے نشانوں اور خدا کی مدح و ثنا کرنے والوں کے حاجت مند ہاتھوں کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ ابتدا میں خورشید اسلام کے طلوع اور آخر میں مہدی موعود کے ظہور کا مقام بھی ہے، مضطرب دلوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور تھک چکی روحوں کو امید عطا کرنے والا سرچشمہ بھی ہے۔فریضۂ حج کا وجوب اور اس کے مناسک کی ترتیب، عظمت کی علامت بھی ہے اور رحمت کی آیت بھی۔ اسی شناخت کے ذریعے ہی مسجدالحرام میں کعبۂ مکرمہ کا مشاہدہ کرتے ہی دل متغیر ہو جاتے ہیں، بڑی تیزی کے ساتھ صراط مستقیم سے ملحق ہو جاتے ہیں اور انسان تبدیل ہو جاتے ہیں۔ دشمن کی شناخت، ان تمام شناختوں کا نتیجہ اور ان کا تتمہ ہے۔ اس کے بغیر مسلمان کا دل اور ذہن، بغیر کسی حفاظت والے خزانے کی مانند ہے جو رہزنوں، دھوکے بازوں اور لٹیروں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہے۔ حج کے اعمال میں رمی جمرات، دشمن کی شناخت اور اس سے مقابلے کا مظہر ہے اور پیغمبر معظم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کے موقع پر مشرکین سے برائت و بیزاری کی آواز بلند کی اور حج کے دوران برائت کی آیتوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی آواز میں سنوایا۔ اگر کسی دن عالم اسلام اور اسلامی امت، جری دشمن کے وجود سے نجات حاصل کرلے اور یہ بات ممکن ہو سکے تو برائت کا فلسفہ بھی باقی نہیں رہے گا تاہم موجودہ دشمنوں اور دشمنیوں کی موجودگی میں دشمن کی جانب سے غفلت اور برائت کے سلسلے میں لاپرواہی بہت بڑی اور نقصان دہ غلطی ہوگی۔ اگر وہ قدیمی شناخت حاصل ہو جائے تو عالم اسلام کے دشمن بھی پہچانے جائيں گے۔ ہر وہ واقعہ یا شخص، یا حکومت و نظام کہ جو مسلمانوں کو ان کے اسلامی تشخص سے بیگانہ کردے یا انہیں بکھراؤ اور پراکندگی کی راہ پر ڈال دے یا انہیں اپنی اسلامی عزت و عظمت کے حصول کی جانب سے لاپرواہ یا مایوس کرے، وہ دشمنانہ کام کرے گا اور اگر وہ خود دشمن نہیں ہے تو دشمن کا آلہ کار ہے۔قرآن مجید میں شیطان کو برائی، شر اور انحطاط پیدا کرنے والی ایسی طاقتوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو انبیاء کے مخالف محاذ پر کھڑی ہیں۔وَكَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَياطِينَ الاِْنسِ وَالْجِنِّ.(2) (اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنات میں سے شیطانوں کو ہر نبی کے لیے دشمن بنایا۔) پورے قرآن مجید میں شیطان کے ذکر اور اس کی نشانیوں کو دہرایا گيا ہے اور نزول وحی کے پورے عرصے کے دوران شیطان کا نام لیا گيا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں کبھی بھی دشمن کے ذکر اور اس کی علامتوں کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔آج شیطان کی، جو وہی سامراج کا سیاسی محاذ ہے، پوری کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی جانب سے مایوس اور گرانقدر علم و ثقافت کے ذخیرے کے سلسلے میں لاپروا بنا دیا جائے۔ ہر وہ بات اور واقعہ جو مسلمانان عالم میں امید پیدا کرے اور انہیں اسلام کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر کے لیے ترغیب دلائے، سامراج کی نظر میں بہت بڑا دشمن اور قابل نفرت ہے۔ اسلامی ایران کے ساتھ بڑے شیطان کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل اور ایک بڑی آبادی نیز لامتناہی مادی و معنوی دولت و ثروت کے ساتھ ایک وسیع و عریض ملک کا انتظام بخوبی چلائے جانے سے مسلمانوں کو اسلامی عزت و عظمت کی نوید مل رہی ہے اور ان کے دلوں میں امید کے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ ایران میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کو انیس برس گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں پوری دنیا نے مسلم اقوام کے رویے میں امید کی علامتیں دیکھیں اور اب بھی دیکھ رہی ہیں اور جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا اور اس عظیم موج کے مقابلے میں سامراجی دنیا کی سازشوں کو شکست ہوتی گئی اور اس امید میں مزید اضافہ ہوتا گيا ہے۔ فلسطینیوں کی بیداری اور غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں اسلامی نعروں کے ساتھ ان کے حریت پسندانہ جہاد کے آغاز کے سبب یورپ میں مسلمان اقوام کی بیداری اور یورپ والوں کے ہاتھوں یا ان کی حامیانہ خاموشی کے سبب بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے پیش آنے والے خونریز المیے کے باوجود، ایک مسلمان بوسنیائی ملک کی تشکیل، ترکی اور الجزائر میں مغربی جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے مطابق اسلامی حاکمیت پر ایمان رکھنے والے افراد کا برسراقتدار آنا، البتہ دونوں ہی ملکوں میں بغاوت، غیر قانونی طاقتوں کی مداخلت اور اسلامی اقتدار کے عالمی دشمنوں کی عداوت کے سبب ان کی کامیابی ادھوری رہ گئی- سوڈان میں اسلامی بنیادوں پر حکومت کی تشکیل، کہ جو غیر ملکی سازشوں کے باوجود بحمد اللہ بدستور اسلامی اقتدار کی راہ پر گامزن ہے، ایسے بہت سے مسلمان ممالک میں اسلامی نعروں کا احیا، جہاں یہ نعرے طاق نسیاں کی زینت بن چکے تھےاور ایسی ہی دوسری متعدد مثالیں یہ سب کی سب پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ پر ایران میں اسلامی جمہوریہ کی پیدائش کے گہرے اور روز افزوں اثرات کی نشانیاں ہیں۔اسی وجہ سے اسلامی ایران سے سامراج کی دشمنی روز بروز زیادہ سخت اور کینہ آمیز ہوتی جا رہی ہے۔ فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی سازشوں کی مسلسل ناکامی کے بعد سامراج نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جو اس سے پہلے بھی ایران اسلامی کے خلاف سرگرم رہا ہے۔ یہ محاذ، ایک تشہیراتی جنگ کا محاذ ہے؛ اور اس کا مقصد ایرانی قوم اور حکومت پر الزام تراشی کرنا اور اس کے نتیجے میں مسلمان اقوام کے دلوں میں روشن امید کے چراغوں کو خاموش کرنا ہے!اس تشہیراتی جنگ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایرانی قوم، انقلاب کے سلسلے میں اپنی عظیم تحریک، اس کے نعروں اور اسلام و قرآن کی حاکمیت سے پشیمان ہو چکی ہے اور ملک کے حکام نے اسلام اور انقلاب سے منہ موڑ لیا ہے! مثال کے طور پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ایرانی حکومت، امریکی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ملک کے حکام کی جانب سے اس دعوے کی بار بار تردید اور اسلام، انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کی پابندی کے سلسلے میں ان کی مسلسل تاکید، اس بات میں رکاوٹ نہیں ہے کہ سامراج خصوصا امریکی سامراج کے تشہیراتی ادارے حتی سیاسی حکام، زبانوں سے اور مخلتف طریقوں سے اپنے دعوے کو دہراتے رہیں اور تبصروں، خبروں نیز عالمی رپورٹوں خصوصا عالم اسلام کی سطح پر پہلے سے زیادہ اس دعوے کی تکرار کرتے رہیں۔حج میں دشمن کی شناخت کا مطلب ان طریقوں اور ان کے محرکات کی شناخت، اور برائت کا مطلب دشمن کی سازش کا پردہ چاک کرنا اور اس سے بیزاری کا اظہار کرنا ہے۔ایرانی قوم اور حکومت نے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم الشان قیادت میں اپنے عظیم انقلاب کے ذریعے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اسلام و ایران کی عظمت کا پرچم لہرایا ہے اور اپنی عزت، قومی خودمختاری اور تاریخی حیات کو واپس حاصل کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایرانی قوم کو روز افزوں برائیوں، علمی و اخلاقی پستی، سیاسی آمریت اور امریکہ پر انحصار سے نجات حاصل ہوئی اور اس نے حیات اور تعمیر کے نشاط کو دوبارہ حاصل کیا۔ اسے اغیار کے پٹھو، نااہل، خیانت کار، بدکار، آمر اور ظالم مہروں سے نجات اور ایک عوامی حکومت، ہمدرد، ماہر، مومن اور امین حکام حاصل ہوئے۔ اس نے اپنے ملک کا اختیار اور اس کے قومی اور خداداد ذخائر کو، جنہیں اغیار لوٹ رہے تھے، اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے اندر موجود ماہر افرادی قوت کو، جو خیانت کار اور پٹھو بادشاہوں کی کمزوری اور بدعنوانی کے سبب برسوں تک عضو معطل بنی رہی تھی، زندہ کیا اور علم و عمل کے تمام میدانوں میں دو صدیوں کے پچھڑے پن کی تلافی کے لیے بڑے بڑے قدم اٹھائے۔ مستقبل کے لیے بھی اس نے اپنی بلند ہمتی، عزم مصمم اور روشن افکار کو اپنے انیس سالہ تجربے کے ساتھ، مشعل راہ بنا لیا ہے۔ایرانیوں اور ایران پر اسلام، اسلامی انقلاب اور اس کے عظیم قائد امام خمینی کا حق زندگی کا حق ہے اور ہماری قوم و حکومت اس حقیقت کو نہ تو کبھی فراموش کرے گی اور نہ ہی اس واضح راستے اور صراط مستقیم سے پیچھے ہٹے گی۔امریکی حکومت نے ابتدائی برسوں ہی سے، جب اس نے تقریبا پچاس برس قبل ایران کے سیاسی پلیٹ فارم پر قدم رکھا، ایران اور ایرانیوں کے ساتھ خیانت اور جفاکاری کی۔ بدعنوان اور غیر عوامی پہلوی حکومت کی حمایت کی۔ پٹھو، کمزور اور غلام ذہنیت والی حکومتوں کو اقتدار میں پہنچایا۔ ہماری قوم پر اپنے ارادوں کو مسلط کیا۔ ہمارے قومی ذخائر کی لوٹ مار کی۔ تیل اور اسلحوں کے زیاں بار سودوں کے ذریعے اس قوم کی بے پایاں دولت و ثروت کو لوٹا۔ ایران کی مسلح افواج کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ شاہ کی سکریٹ سروس اور اس کے ایذائیں پہنچانے والے افراد کو تربیت دی۔ ایران اور عربوں سمیت بہت سی مسلم اقوام کے درمیان اختلاف ڈالا۔ ایران میں برائیوں اور بے راہ روی کو ہوا دی۔ مختلف مراحل میں اسلامی تحریک کی سرکوبی کے لیے شاہ کی حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کی رہنمائی کی اور جب ظلمت و کفر و طاغوت کے اس محاذ کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا تو اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے ابتدائی ایام سے ہی ایران اور اس کی انقلابی قوم کے خلاف مختلف قسم کی دشمنیاں، حملے، سازشیں اور معاندانہ اقدام شروع کر دیئے۔ آٹھ سالہ جنگ میں عراقی حکومت کی بھرپور مدد سے لے کر ایران کے مکمل اقتصادی محاصرے کے لیے سرگرمیوں، خیانت کار اور فراری عوامل کی مدد، اس سے متعلق تمام تشہیراتی اداروں میں مستقل پروپیگنڈوں، علاقائي اختلافات میں اشتعال انگیزی، ایران اور اس کے ہمسایوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں، سی آئی اے کے ایجنٹوں کے توسط سے ایرانی حکومت کا تختہ پلٹنے اور ایران میں دہشتگردانہ کارروائیوں، ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان اقتصادی سمجھوتوں پردستخط کو روکنے کی جی توڑ کوششوں اور تمام ممکنہ محاذوں اور تمام شعبوں میں ایران کے خلاف موذیانہ اور دھمکی آمیز کارروائیوں تک ہر طرح کے معاندانہ اقدامات کیے گئے۔یہ ایران اور ایرانیوں کے ساتھ امریکی حکومت کی دشمنیوں کی طویل فہرست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ البتہ سبھی جانتے ہیں اور امریکی حکومت کے سرغنہ خود سب سے بہتر اور بڑی تلخی کے ساتھ جانتے ہیں کہ امریکی حکومت کو ان میں سے زیادہ تر میدانوں میں شکست ہوئی ہے اور وہ ناکام ہو کر الگ تھلگ ہو چکی ہے۔ ایرانی قوم خدائی امداد اور اسلام و انقلاب کی برکت سے حاصل ہونے والے قوت و عزت کے ساتھ ان میں سے بیشتر موقعوں پر اپنے دشمن کو شکست اور ناکامی کا تلخ مزہ چکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ان واضح حقائق کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت، اس دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے جو مسلسل شکستوں کے سبب کینے سے لبریز دل کے ساتھ بدستور ایران اور ایرانیوں پر وار کرنے کی کوشش میں ہے اور کس طرح ایرانی قوم اور حکومت اس دشمن کے زہر آگیں تبسم کے فریب میں آ سکتی ہے جس کے ہاتھ میں آج بھی زہر میں بجھا ہوا خنجر موجود ہے؟اسلامی جمہوریہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ خارجہ پالیسی میں عزت، حکمت اور مصلحت جیسے تین اصولوں پر مبنی مساوی تعلقات کا خواہاں ہے اور اس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان تعلقات میں ملک کے مادی اور معنوی مفادات، ایران کی عظیم الشان قوم کی مصلحت اور عزت کی حفاظت اور دنیا کے سیاسی ماحول میں امن و امان کا تحفظ اس کا اصل معیار اور رہنما اصول ہے۔ہمسایوں اور یورپی ملکوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک واضح اور ٹھوس دلیل ہے اور مسلمان ممالک کے ساتھ برادرانہ مذاکرات کے لیے ہماری دائمی کوشش، جن میں سے بعض کے بہترین نتائج کا بحمد اللہ ہم مشاہدہ بھی کر رہے ہیں، دنیا کے لوگوں کے سامنے ہے؛ تاہم ان سب کے باوجود دشمن کی شناخت اور اس کے مقابلے میں ہوشیاری اور مزاحمت کو بھی ایرانی قوم نے اپنا دائمی لائحۂ عمل بنا رکھا ہے اور وہ شیاطین کے فریب میں نہیں آئي ہے اور ان شاء اللہ آگے بھی نہیں آئے گی۔ایرانی قوم، صیہونی دشمن کو جس نے فلسطین کی اسلامی سرزمین میں ایک غاصب حکومت قائم کر دی ہے، کسی بھی صورت میں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی اس غاصب حکومت کے خاتمے اور خود فلسطینی ملک کے عوام کے ذریعے ایک حکومت کی تشکیل کی ضرورت کے اپنے عقیدے کو کبھی بھی پنہاں نہیں کرے گی۔ اسی طرح وہ امریکہ کو، جو شیطان بزرگ اور سامراجی فتنوں کا سرغنہ ہے، جب تک اپنی موجودہ روش پر باقی رہے گا، اپنا دشمن سمجھتی رہے گی اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گی۔پورے عالم اسلام کے محترم بھائیو اور بہنو اور عزیز ایرانی حجاج کرام! خداوند عالم سے مدد مانگ کر معرفت کو بیان کردہ وسعت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے کہ جو حج کا سب سے بڑا ثمرہ ہے اور مذکورہ میدانوں میں نئی شناخت حاصل کرکے اپنے ملک واپس لوٹئے اور اسے مستقبل کے لیے اپنی کوششوں اور جد و جہد کی بنیاد قرار دیجئے۔ اس بار خاص طور سے کوسوو کے مسلمانوں کے آلام ایک دوسرے سے بیان کیجئے جو بلقان کے علاقوں کی خونیں داستان کا تسلسل اور بوسنیا و ہرزے گووینا جیسا ہی ایک دوسرا تجربہ ہے۔ کوسوو کے لوگوں کی کامیابی اور نجات کے لیے دعا اور ان کی مدد کے لیے اقدام کیجئے۔ اسی طرح دیگر مصیبت زدہ اسلامی علاقوں کے مسلمان عوام کے لیے راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کیجئے، ان کے لیے دعا کیجئے اور مسلمانوں کے امور کی اصلاح کے لیے خداوند قادر و رحیم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو جائیے۔امید کہ آپ سبھی حج مقبول اور اس کے معنوی، اخلاقی اور سیاسی ثمرات کے ساتھ اپنےگھروں کو لوٹیں گے۔ والسّلام على بقيۃاللَّہ فى ارضہ و عجّلاللَّہ فرجہ۔والسّلام عليكم و رحمۃاللّہ و بركاتہ على الحسينى الخامنہ اى تین ذي الحجۃالحرام 1418 ہجری قمری مطابق بارہ فروردين 1377 ہجری شمسی
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 9 بہمن سنہ 1376 ہجری شمسی مطابق 29جنووری سنہ 1998 عیسوی کو عید سعید فطر کے موقعے پر ملک کے سویلین اور فوجی عہدیداروں سے خطاب میں عید کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 26 دی سنہ 1376 ہجری شمسی مطابق 16 جنوری سنہ 1998 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطبوں میں اہم ترین موضوعات پر سیر حاصل بحث کی۔ آپ نے توبہ و استغار کے خصوصیات کا ذکر کیا اور ماہ رمضان المبارک کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران امریکہ تعلقات کے سلسلے میں انتہائي اہم نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دلیلوں سے ثابت کیا کہ امریکہ کے سلسلے میں ایران کا موقف بالکل درست ہے اور ایران اپنے اسی موقف کی بنیاد پر مسلسل پیشرفت کر رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 24 مہر سن 1376 ہجری شمسی مطابق 16 اکتوبر 1997 عیسوی کو دار الحکومت تہران کے قریب واقع کرج کے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنی تقریر میں اسلامی انقلاب کے لئے کرج کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے تمام علمی و معاشی شعبوں میں جانفشانی کی ضرورت پر زور دیا اور اسے دنیا میں سامراجی طاقتوں کے سامنے بے نیازی او مضبوطی کا راز قرار دیا۔ آپ نے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران میں معاشی بد حالی سے متعلق پروپیگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے اس فریب سے محفوظ رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد فاتح امیدوار کو حاصل ہونے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی جاتی ہے۔ ایک آئینی تقریب میں قائد انقلاب اسلامی صدر جمہوریہ کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کرتے ہیں۔ چنانچہ صدر سید محمد خاتمی کی انتخابات میں کامیابی کے بعد بارہ مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق تین اگست سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو اس تقریب کا انعقاد ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس تقریب سے خطاب میں اہم ترین ملکی، علاقائي اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی راہ و روش کے بارے میں اہم نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نو مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق اکتیس جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو جناب علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے دوسرے دور صدارت کے اختتام پر جناب رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے اپنے خطاب میں حکومت کی کاوشوں کو سراہا۔ آپ نے اس حکومت کے افراد کی خصوصیات کو آئندہ حکومتوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔
پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں کے اجلاس سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی فرقوں کے اشتراکات اور خاص طور پر پیغمبر اسلام کی ذات اقدس کے محور پر اتحاد بین مسلمین کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس تیر سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق سولہ جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو محکمہ پولیس کے اہلکاروں اور کمانڈروں سے ملاقات میں اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام میں پولیس کو خاص کردار اور خصوصیات کا حامل قرار دیا۔ اس ملاقات میں کچھ پولیس کمانڈروں نے بھی تقریر کی اور محکمے کی کارکردگی اور پیشرفت کی تفصیلات بیان کیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ؛ سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین، الھداۃ المھدیین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صلّ علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
مسلمین عالم، بالخصوص ایران اسلامی کے مومن، مجاہد، باشرف اور عزیز عوام، آپ نمازیوں، خصوصا شہیدوں کے پسماندگان، فداکاروں، دفاع وطن میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے عزیز 'جانبازوں'، جنگی قیدی کی حیثیت سے دشمن کی جیلوں میں ایک عرصہ گزار نے کے بعد آزاد ہوکے وطن کی آغوش میں واپس آنے والے 'حریت پسندوں'، جنگ میں لاپتہ ہو جانے والے مجاہدین اور ان کے خاندان والوں کو عید الفطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
عید الفطر اور عید الاضحی کے بارے میں جو کچھ پایا جاتا ہے یعنی جو( آیات و روایات پائی جاتی ہیں)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طہارت، پاکیزگی اور تزکئے کا دن ہے۔
یہ دو سورے جو نماز عید میں پڑھے جاتے ہیں، ان میں سے ایک میں خداوند عالم فرماتا ہے کہ قد افلح من تزکّی (1) یعنی جس نے خود کو پاکیزہ بنا لیا اور اپنے دامن اور روح و دل کو آلودگیوں سے پاک کر لیا، اس نے فلاح پا لی۔ فلاح یعنی میدان زندگی میں کامیابی اور مقصد خلقت کا حصول۔
دوسری رکعت کے سورے میں فرماتا ہے کہ قد افلح من زکّیھا(2) بعینہ وہی مضمون ہے۔ یعنی جو اپنی روح کا تزکیہ کر سکا اور اس کو پاک بنا سکا، اس نے فلاح اور نجات حاصل کر لی۔ دونوں سوروں میں تزکئے، طہارت اور پاکیزگی کی بات کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس دن ایک مالی واجب بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ زکات فطرہ کی ادائیگی ہے۔ زکات وہ مالی طہارت ہے جو انسان کو پاکیزہ کرتی ہے۔ خذ من اموالھم صدقۃ تطھّرھم و تزکّیھم بھا(3) اس واجب (کی ادائیگی) اور مالی صدقے کا لوگوں سے لینا، پستی و رذالت، حرص و طمع، بخل اور دوسری برائیوں سے ان کی روح کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے۔
بنابریں میرے عزیزو! بھائیو اور بہنو! عزیز نمازیو! عیدالفطر پاکیزگی اور طہارت کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس لئے ہو کہ آپ نے ایک مہینہ روزہ رکھا ہے، ریاضت کی ہے اور خود کو آلودگیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس لئے بھی ہو کہ اس دن آپ نے میدان عبادت میں اجتماعی طور پر عبادت کی ہے۔ بہرحال، مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کو ایک مہینہ روزہ رکھنے کے بعد، عید الفطر کے دن طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی تطہیر اور تزکیہ کیا۔ اگر روزہ صحیح رکھا ہو اور نماز عید صحیح ادا کی ہو، اور یقینا ایسا ہی ہے، تو اس طہارت، اس پاکدامنی اور روح کی اس پاکیزگی کی قدر کیجئے! یہی پاکیزگی انسان کو نجات دلاتی ہے۔ جو چیز انسان کو (مصیبتوں میں) گرفتار کرتی ہے وہ آلودگی، شہوت، غضب، حرص و طمع ، بخل اور دیگر اخلاقی برائیوں سے حاصل ہونے والی آلودگی ہے۔ افراد بشر نے انھیں اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے دنیا کو تاریک کیا، روئے زمین کو آلودہ کیا اور خدا کی نعمتوں کے سلسلے میں ناشکری کی ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں، جو نظام الہی اور حکومت قرآنی ہے، لوگ دوسرے نظاموں کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح اپنے لئے طہارت اور پاکیزگی کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اس کی قدر کریں۔ آج دنیائے انسانیت کو آپ کے پیغام تطہیر و تزکیہ کی ضرورت ہے۔
یہ ظلم، زور زبردستی اور امتیازی سلوک جو عالمی سطح پر پایا جاتا ہے، بہت سے ملکوں میں انسانوں کو جس تیرہ بختی کا سامنا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں نوجوانوں کی سرگردانی، عورتوں اور مردوں کے ناجائز تعلقات، شہوانی آلودگی، سیاسی برائياں اور مالی بدعنوانیاں، یہ سب اس لئے ہے کہ لوگوں نے اپنی تطہیر اور تزکیہ نہیں کیا۔ قرآن تزکئے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کے مقدس پیغمبر انسانوں کی تطہیر کرتے ہیں۔ نماز سے، زکات سے، روزے سے اور عید الفطر سے تطہیر ہوتی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ موقع ہر ایک کو دستیاب ہے۔
میرے عزیز نوجوانو! قلب و روح کی نورانیت اور پاکیزگی کے دور سے گزرنے والے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! آپ دوسروں سے زیادہ اس طہارت کی قدر کریں اور اس کی حفاظت وپاسداری کریں۔ آپ کا ملک خدا کے فضل اور اسی طہارت کی مدد سے ترقی کرے گا، آزاد رہے گا، پیشرفت کرے گا، اس کی ویرانیاں دور ہوں گی، تفریق، پریشانیاں اور زندگی کی گوناگوں مشکلات ختم ہوں گی۔
سب کو خدا کی بارگاہ کی طرف آگے بڑھنا چاہئے۔ خدا کی طرف دست دعا دراز کرنا چاہئے۔ اس سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ اپنے دامن کو پاک رکھنے اور برائیوں سے پرہیز کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو لوگ مالی امور سے سروکار رکھتے ہیں، ان کو مالی بدعنوانیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ در پیش رہتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، ان کے سیاسی اور سماجی برائیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جو لوگ شہوتوں سے دوچار رہتے ہیں انھیں جنسی اور شہوانی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے ماتحت ہوتے ہیں، ان کے ظلم و ستم میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جن کے ہاتھ میں کوئی کام ہوتا ہے، ان کے لئے اپنے کام میں خیانت کے ارتکاب کا خطرہ رہتا ہے۔ سب اپنا خیال رکھیں۔ سب اپنے اعمال کا خیال رکھیں۔ یہ احتیاط اور توجہ ہی تقوی ہے جس کا نماز عید الفطر میں ہمیں خود کو اور اپنے سامعین کو سفارش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پالنے والے! ہم سب کو تقوی، طہارت، تزکئے، اپنے فرائض کی ادائیگی اور صراط مستیم طے کرنے کی توفیق عنایت فرما۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و العصر ان الانسان لفی خسر الّا الّذین آمنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر (4)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین؛ الھداۃ المھدییّن المعصومین۔ سیّما علی امیر المومنین و صدیّقۃ الطّاھرۃ سیّدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سبطی الرّحمۃ و امامی الھدی و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی و جعفربن محمد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی آئمّۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔
اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
عالم اسلام میں یہ بات عیاں ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو اٹھارہ سال گزرنے کے بعد ایسی حالت میں کہ اس انقلاب کے دشمن اور اس کے خلاف سازشیں تیار کرنے والے یہ توقع رکھتے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اس انقلاب کی یاد کم ہو جائے گی اور پھر اس کو فراموش کر دیا جائے گا، لیکن ان کے اس خیال اور آرزو کے بر خلاف، تاریخ کے اس بے نظیر انقلاب پر توجہ بڑھ رہی ہے اور ملکوں میں اسلامی بیداری عمیق تر ہو رہی ہے جو خود اسلام اور انقلاب کا ایک معجزہ ہے۔
البتہ عالمی سطح پر پائی جانے والی اس توجہ میں پہلا کردار ایرانی قوم کا ہے۔ میں اپنے لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ خدا کے شکرانے اور اپنے عزیز عوام کے شکریئے کے طور پر یہ بات عرض کروں کہ دشمن کی پوری کوشش یہ رہی ہے کہ عوام کو انقلاب کے میدان سے باہر نکال دے۔ لیکن آپ کا جواب ایسا تھا کہ اس انقلاب کے بعد گزرنے والے ان برسوں میں جن میدانوں میں عوام کی موجودگی نمایاں ہونی چاہئے تھی، ان مں آپ نے بھر پور شراکت سے عالمی سامراج کو ٹھوس، محکم اور دنداں شکن جواب دیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعے، یوم القدس کے عظیم مظاہروں میں آپ کی شرکت تھی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ یوم القدس کے اعلان کے اٹھارویں سال میں عوام کی شرکت سترہویں سال سے زیادہ رہی اور سترہویں سال میں سولہویں سال سے زیادہ تھی۔ یہ کیسی تحریک، کیسا اہتمام اور اس عظیم قوم پر خداوند عالم کا کیسا لطف و کرم ہے!
آپ کے اجتماعات، عید الفطر پر میدان عبادت میں آپ کا یہ اجتماع بے نظیر ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی نماز عید الفطر پوری اسلامی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں کہیں بھی مذہبی اور اسلامی رسومات میں اتنے زیادہ نوجوان، اتنے ذوق و شوق کے ساتھ شرکت نہیں کرتے۔
میرے عزیزو! یہ بھی جان لیجئے کہ اس انقلاب اور میدان میں آپ نوجوانوں کی بھرپور موجودگی کی برکت سے پوری اسلامی دنیا میں، دین اور دینی رسومات میں نوجوانوں کی دلچسپی پندرہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھی ہے۔
کل بائیس بہمن ( مطابق گیارہ فروری، یوم آزادی) ہے؛ ایک بار پھر تجزیہ نگاروں، مبصرین اور دیکھنے والوں کی آنکھیں، انقلاب اور ایرانی قوم کی قوت و طاقت کا مشاہدہ کریں گی۔ البتہ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ ریڈیو پر دوسری طرح بولتے ہیں۔ لیکن خود جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر انقلاب، اس قوم اور یوم القدس کے عظیم اجتماع کو دشمنی اور عداوت کی آنکھوں سے نہ دیکھتے اور ان کے دل بغض و کینے اور دشمنی سے پر نہ ہوتے تو بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں یہ اعلان نہ کیا جاتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم القدس کے پروگراموں کے لئے کچھ لوگوں کو بسوں سے لایا گیا۔ جب ایرانی قوم یہ باتیں سنتی ہے تو انقلاب کے خلاف عالمی پروپیگنڈوں کی حقیقت اس پر اور عیاں ہو جاتی ہے۔ یوم القدس کا دسیوں لاکھ کا یہ مجمع، چند بسوں کے مسافروں کا مجمع تھا؟! حکومت نے کچھ لوگوں کو جمع کیا تھا؟! دیکھئے ان کے دل بغض و کینے سے کس طرح پر ہیں۔ اگر نہ دیکھیں، غصے سے نہ تلملائیں تو یہ رد عمل نہ دکھائيں۔ یہ جھوٹی خبریں، آپ کی بھرپور شرکت سے ان کی تلملاہٹ اور بغض کا ردعمل ہے۔ خدا کے فضل، نصرت الہی اور خدا کی عنایت سے کل ایک بار پھر اس انقلاب کی نسبت بغض سے بھری ان کی آنکھیں اور کینے سے پر ان کے دل تلملائیں گے اور ان پر لرزہ طاری ہوگا۔ لیکن انقلاب اور ایران کی انقلابی قوم سے دنیا کی اقوام کی محبت اور اس بیداری کے ساتھ ہی دشمن کی سازشیں بھی روز بروز بڑھی ہیں، مگر بے اثر ہیں۔ دشمن کی سازشوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے فضل سے دشمن کی سازشیں ان کا مقصد پورا نہیں کر سکی ہیں۔ لیکن بہر حال وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کی ایک سازش اسلامی ملکوں میں اختلاف ڈالنا ہے۔ ایک سازش بہت سی حکومتوں کو چھوٹی اور غیر اہم باتوں میں الجھا کے عظیم اور اہم چیزوں کی طرف سے غافل کر دینا ہے۔ ایک سازش اسلامی ملکوں میں رنجش پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کے بہانے تراشنا ہے، تاکہ صیہونیوں کے تعلق سے، جو اسلامی دنیا کے حقیقی دشمن ہیں، عالم اسلام کی گہری نفرت سے مسلمانوں کے ذہنوں کو ہٹا سکیں۔ یہ بات صرف ہمارے خطے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی دنیا میں ہر جگہ یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے خطے میں اس سازش میں زیادہ شدت ہے۔
انقلاب کے پہلے دن سے ہی سامراج کے پروپیگنڈہ اداروں اور سیاسی کھلاڑیوں نے خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے ہاتھوں اپنے اسلحے بیچ سکیں۔ تاکہ وہاں اپنے فوجیوں کی تعیناتی جاری رہنے کو یقینی بنا سکیں۔ میں نہیں جانتا کہ کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ان ملکوں کے دل اور ذہن بیدار ہوں اور یہ سمجھیں کہ امریکا ان کی بھلائی نہیں چاہتا! یہ سمجھیں کہ امریکا اور پوری دنیا میں ان کے صیہونی ڈھنڈورچی، جو ان ملکوں میں اپنی مد نظر ذہنیت بنانا چاہتے ہیں، ان کی نیت یہ ہے کہ خلیج فارس میں آئيں، یہاں اپنی فوج رکھیں، اپنے ناجائز اقتصادی مفادات پورے کریں اور اگر ہو سکے تو اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم پر دباؤ ڈالیں۔
حکومت، عوام اور حکام بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران پڑوسی ملکوں کے تعلق سے جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ ایران نے ابتدائے انقلاب سے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ انقلاب کو آٹھارہ سال ہو رہے ہیں، ہم نے اب تک کس پر حملہ کیا ہے؟ ہم نے پڑوسیوں کی کس سرحد پر فائرنگ کی ہے؟ ہم پر گولیوں کی بارش ہوئی ہے۔ ہم نے اپنے دفاع کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا ہے۔
اگر چہ ایران ایک بڑا ملک ہے اور ایرانی قوم طاقتور ہے، سب جانتے ہیں اور سمجھ چکے ہیں کہ ایران کا کوئی بھی پڑوسی ملک دوسروں کی مدد سے بھی، اس عظیم قوم اور وسیع اور طاقتور ملک پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ڈال سکتا اور جو بھی آگے بڑھ کے جارحیت کرے گا منہ کی کھائے گا، اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت، قوم اور مسلح افواج نے کسی بھی قسم کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ اہداف رکھے ہیں نہ رکھتی ہیں اور آئندہ بھی نہیں رکھیں گی۔ توسیع پسندی ہمارے نظریات کے خلاف ہے۔ ہماری اسلامی سیاست میں توسیع پسندی اور جارحیت جیسی چیزوں کے لئے جو طاغوت سے تعلق رکھتی ہیں، کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ہم اپنی اور اپنے خطے کی سلامتی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
سب اس بات پر توجہ رکھیں کہ خلیج فارس بہت حساس علاقہ ہے۔ خیال رکھیں کہ اس خطے کے باہر سے جو دشمن ان ملکوں کے دوست بن کے خطے میں آتے ہیں، اس علاقے کے امن و سلامتی کو ختم نہ کر دیں! سب اس بات پر توجہ رکھیں۔ اگر خدا نخواستہ اس خطے میں بدامنی پیدا ہوئی تو سب سے زیادہ نقصان انھیں کو پہنچے گا، جو اس بدامنی کا باعث بنیں گے اور اس کے اسباب فراہم کریں گے۔ سب سے زیادہ نقصان ان ملکوں کو پہنچے گا، جنہوں نے اپنی دولت، اپنا ملک اور اپنی سرزمین، بیرونی جارحین کے اختیار میں دی ہوگی۔
البتہ ہماری دعا ہے کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو اور خدا کے فضل سے ان شاء اللہ پیدا نہیں ہوگی؛ لیکن اگر خدانخواستہ اس بیرونی طاقت نے جس کے فوجی خلیج فارس میں موجود ہیں، دیوانگی کی اور بغیر سوچے سمجھے کوئی حرکت کی تو سب سے پہلے یہ آگ انھیں ملکوں کو دامنگیر ہوگی، جنھوں نے مذکورہ طاقت کے فوجیوں کے غیر قانونی طور پر یہاں آنے اور رہنے کے اسباب فراہم کئے ہیں۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایرانی قوم تعمیر کے میدان میں پوری تن دہی کے ساتھ محنت اور کوشش کر رہی ہے۔ خدا کے فضل سے حکومت، قوم، ملک کے حکام، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ سبھی وسط مدتی اور طویل المیعاد منصوبوں کے ساتھ پوری توجہ سے اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ قوم ایک زندہ دل قوم ہے۔ یہ ملک ایک زندہ ملک ہے۔ دنیا کی سبھی زندہ اقوام ایسی ہی ہیں کہ اپنے کام اور امور کو تدریجی طور پر چند سال میں منظم کرتی ہیں اور یہ ملک بھی اپنے امور کو مںظم کرنے میں مصروف ہے۔
میں اپنی عزیز قوم سے عرض کرتا ہوں کہ اپنی اس شراکت کو قائم رکھیں تاکہ اس کی عزت، اقتدار اور اس کی مادی و معنوی قوت محفوظ رہے۔ یہ اتحاد جو الحمد للہ آپ کے درمیان پایا جاتا ہے اور دشمن اس کو ختم نہیں کر سکا ہے، اس کی حفاظت کریں تاکہ آپ کی عزت، اقتدار، آبرو اور حیثیت نیز دنیا میں اور دیگر اقوام پر آپ کا اثرانداز ہونا اسی قوت، شدت اورعظمت کے ساتھ باقی رہے۔
ان شاء اللہ ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی پاکیزہ روح آپ سے راضی ہو۔ شہیدوں کی ارواح طیبہ بھی آپ سے راضی ہوں۔ خدا کے فضل سے حضرت بقیۃ اللہ (امام زمانہ) ارواحنا فداہ کی دعائيں آپ کے شامل حال ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انّا اعطیناک الکوثر فصلّ لربّک و انحر۔ انّ شانئک ھو الابتر (5)
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- سورہ اعلی، آیت نمبر 14
2- سورہ شمس، آیت نمبر 9
3- سورہ توبہ، آیت نمبر 103
4- سورہ عصر، آیات 1 الی 4
5-سورہ کوثر، آیات 1 الی 3
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا اس میں مغرب و عشا کی نماز میں بڑا ازدحام رہتا تھا اور باہر تک صفیں لگتی تھیں۔
(نماز میں شرکت کرنے والے)اسی۸۰ فیصد جوان ہوتے تھے، وجہ یہ تھی کہ نوجوان طبقے سے ہمارا باقاعدہ رابطہ رہتا تھا۔
ان دنوں الٹی جیکٹ پہننے کا فیشن تھا لہذا نوجوان الٹی جیکٹ پہنے نظر آتے تھے۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک جوان الٹی جیکٹ پہنے پہلی صف میں میرے مصلے کے پیچھے بیٹھا ہے، ایک حاجی صاحب نے جن کا بڑا احترام تھا اور جو ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتے تھے، اس جوان کے کان میں کچھ کہا۔ میں نے دیکھا نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
میں نے فوراً حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کہہ دیا۔
ان سے قبل نوجوان نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں۔
میں سمجھ گیا کہ انہوں نے اس سے کہا ہے اس طرح کا لباس پہن کر پہلی صف میں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔
میں نے نوجوان سے کہا کہ، آپ کو پہلی ہی صف میں بیٹھنا ہے آپ یہاں سے کہیں اور مت جایئے۔
میں نے حاجی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نوجوان پیچھے چلا جائے، یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ الٹی جیکٹ پہننے والا جدیدیت پسند نوجوان بھی نمازی ہو سکتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔
برادران ایمانی اگر ہمارے پاس دولت اور وسائل نہیں ہیں اگر ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے تو کم از کم ہم اچھا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں۔
"فی صفۃ المومن بشرہ فی وجھہ و حزنہ فی قلبہ"
نوجوانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ذہن و دل متاثر ہو اور ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ (انجمن تبلیغات اسلامی کے عہدہ داران سے ملاقات کے دوران 16/6/1997)
سابق سویت یونین اور اس کے زیر انتظام شیعہ اکثریتی علاقے آذر بایجان کے امور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ جب کمیونسٹوں نے اس علاقے (آذربائیجان) پر قبضہ کیا تو تمام اسلامی علامتیں مٹا دیں۔
مسجدیں گوداموں میں تبدیل کر دی گئیں، دینی مراکز اور امام بارگاہوں کو کچھ اور بنا دیا گیا، دین اور شیعیت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا بس ایک چیز کی اجازت دی گئی تھی اور وہ تھی قمہ زنی۔
کمیونسٹ آقاؤں کی طرف سے کارندوں کو حکم تھا کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نماز پڑھیں، نماز جماعت قائم کریں، قرآن پڑھیں، عزاداری کریں، المختصر یہ کہ کوئی بھی دینی کام نہیں کر سکتے مگر ان کو قمہ زنی کا حق ہے، کیوں؟ صرف قمہ زنی ہی کیوں؟
اس لئے کہ یہ دین اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے لئے بہترین چیز تھی۔
لہذا کبھی کبھی دشمن اس طرح سے کچھ چیزوں کو دین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات آ جائیں دین بدنام ہو جائے گا۔
(نئے سال کے آغاز پر مشہد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب)21/03/1997
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 11 مارچ 1997 عیسوی کو ہویزہ کے شہیدوں کے قبرستان 'گلزار شہدا' میں اپنے خطاب میں شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کیا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراق کی جارح بعثی حکومت کی فوجی یلغار کے مقابلے میں ایرانی مجاہدین کی جاں نثاری کی قدردانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر چہ دشمن امریکا، مغرب اور مشرق پر انحصار کرتا تھا اور سب مادی لحاظ سے اس کی مدد کر رہے تھے لیکن معنوی لحاظ سے دشمن کے ہاتھ خالی تھے۔ ہماری قوم کے ہاتھ معنوی لحاظ سے خالی نہیں تھے۔ اس کے قلب عشق و ایمان سے مملو تھے اور وہ کامیاب ہوئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ خوزستان کے دورے میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کیا۔ 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 10 مارچ 1997 عیسوی کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نقطہ نگاہ سے عورتوں کے حقوق بیان کئے اور جاہلانہ رسومات سے دور رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ معاشرے میں عورت کے کلیدی تعمیری کردار کا جائزہ لیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے عورتوں کو اسلام میں دی گئی آزادی کی جانب توجہ مبذول کرائی اور خود خواتین پر زور دیا کہ وہ حقوق نسواں کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 10 فروری 1997 عیسوی کو عید الفطر کے دن ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں عید کی مبارکباد پیش کی اور اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے عید کے معنی و مفہوم سے بحث کی اور اس کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 18 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 7 فروری 1997 کو فضائیہ کے جوانوں اور افسران سے خطاب میں فضائیہ کے تاریخی فیصلے کی تعریف کی جو اسلامی انقلاب کی فتح سے تین دن قبل یعنی آٹھ فروری 1979 کو فضائیہ نے کیا اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بیعت کا اعلان کر دیا۔