قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع (1980 تا 1988) کے واقعات کو تحریری، تصویری اور فلمی شکل میں محفوظ اور ناظرین کے سامنے پیش کرنے والے ماہر کیمرامین، فوٹوگرافروں اور ادبا سے ملاقات میں ان کی کاوشوں اور فنی تخلیقات کو نہایت اہم قرار دیا اور اس قسم کی سرگرمیوں کے جاری رہنے پر تاکید فرمائی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس مبارک اورعظیم دن کی تمام منتظرين( مہدی عج ) تمام عاشقوں اوراہلبیت کے شیدائیوں اوربالخصوص آپ بہن بھائیوں کی خدمت میں جویہاں تشریف فرماہیں مبارکباد پیش کرتاہوں
درحقیقت اس عظيم ہستی کی ولادت ایک حقیقی عید ہے لہذا اس روزکا جشن منانا اورپرمسرت گھڑی کی یاد منانا ہرگزمہدویت کے معتقدین فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ فقط شیعہ نہيں ہیں جومہدی موعود( سلام اللہ علیہ ) بلکہ منجی اور مہدی کا انتظار سبھی مسلمانوں کے عقید ے میں ہے ۔ صرف دوسروں اورشیعوں میں فرق یہ ہے کہ شیعہ اس عظیم ہستی کواس کے نام ونشان اورمختلف خصوصیات سے جانتے ہيں لیکن دوسرے مسلمان جو منجی کے معتقد ہیں وہ منجی کونہیں پہچانتے فرق یہاں پر ہے
وگرنہ اصل مہدویت پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔دوسرے ادیان کے لوگ بھی آخرزمان میں ایک منجی کی آمد اوراس کے انتظار پر عقیدہ رکھتے ہیں ان لوگوں نے بھی کم ازکم اس سلسلے میں ایک چیزپرتویقین رکھتےہیں کہ آخرزمان میں ایک منجی یا نجات دہندہ آئے گا اوریہاں تک وہ صحیح سمجھے ہیں لیکن اصل مطلب میں جو منجی کی معرفت کا مسئلہ ہے وہاں پر انھوں نےسمجھنے میں غلطی کی ہے ۔شیعہ اپنی قطعی اور مسلّمہ روایتوں کی بدولت نجات دہندہ اورمنجی کو اس کے نام ، نشان ، خصوصیات اورتاریخ ولادت سے پہچانتے ہيں ۔
اعتقاد مہدویت کے بارے میں چند نکات کو میں یہاں پر اجمالی طورپرعرض کررہاہوں ۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت بقیہ اللہ ( ارواحنافداہ )کاوجود مقدس اول تاریخ سے اب تک نبوتوں اورالہی دعوتوں کاہی تسلسل ہے ، یعنی جیساکہ ہم دعائے ندبہ پڑھتے ہيں ( فبعض اسکنتہ جنتک ) سے کہ جس سے مراد حضرت آدم ہيں ( الی ان انتہی الامر ) تک کہ جس سے مراد خاتم الانبیاء تک پہنچناہے - اوراس کے بعد وصایت اوراہل بیت کا مسئلہ یہاں تک کہ امام زمانہ تک یہ موضوع پہنچتاہے یہ سب کچھ ایک ہی سلسلہ ہے جو تاریخ بشریت میں بہم مرتبط اورمتصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ نبوت کی وہ عظیم تحریکيں اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کا وہ سلسلہ کھبی بھی متوقف نہيں ہوا ہے انسان کو پیغمبروں اوردعوت الہی اورداعیان الہی کی ہمیشہ ضرورت ہے اوریہ احتیاج آج تک باقی ہے اورجتنابھی زمانہ گذراہے انسان انبیاء الہی کی تعلیمات سے نزدیک ہواہے
آج انسانی معاشرہ اپنی فکرمیں ترقی وپیشرفت اورتہذیبوں میں بالیدگي اورمعرفت میں پختگي کی بدولت انبیاء الہی کی بہت سی تعلیمات کوجو دسیوں صدیاں قبل انسان کے لئے قابل درک نہیں تھیں درک کررہاہے ۔ اسی انصاف کے معاملے کولے لیجئے یا آزادی اورانسانی شرافت واحترام کے موضوع کولے لیجئے اورجوباتیں آج رائج ہیں دنیامیں یہ سب تعلیمات انبیاء ہيں ۔ اس دورمیں عام لوگ اوررائے عامہ ان مفاہیم کودرک نہیں کرتی تھی ۔پیغمبروں کا یکی بعد ديگری آنا اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کی ترویج نے ان افکارکولوگوں کے ذہنوں اورعوامالناس کی فطرت اورانسانوں کے دلوں میں نسل درنسل مستحکم کیابٹھایاہے اوران داعیان الہی کاسلسہ آج تک منقطع نہیں ہواہے اورحضرت بقیہ اللہ الاعظم ارواحنافداہ کا وجود مقدس داعیان الہی کے سلسلے کی ہی کڑی ہے جیساکہ زیارت آل یاسین میں بھی پڑھتےہیں ( السلام علیک یاداعی اللہ وربّانی آیاتہ ) یعنی آپ اسی جناب ابراہیم کی دعوت یاحضرت موسی کی دعوت حضرت عیسی کی اسی دعوت اورتمام پیغمبروں ومصلحان الہی کی دعوتوں اورپیغمبرخاتم کی دعوت کوحضرت بقیہ اللہ کے وجود میں مجسم دیکھ رہے ہیں یہ عظیم ذات ان تمام نبیوں اورمصلحان الہی کی وارث ہے اوران سب کی دعوت اوران پرچم کواپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اورپوری دنیاکوانہی تعلیمات سے روشناس کرارہی جوان نبیوں نے متعارف کرایاتھا یہ ایک اہم نکتہ ہے
باب مہدویت میں دوسرانکتہ انتظارفرج ہے ۔ انتظارفرج ایک بہت ہی وسیع وعریض مفہوم ہے ۔ایک انتظار، آخری فرج کا انتظارہے ،یعنی یہ ہے کہ اگرانسان دیکھے کہ طواغیت زمانہ ظلم وستم کررہے ہيں لوٹ مارکررہے ہیں اورکھلے عام لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں تواسے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ دنیااسی کانام ہے اوراس کا انجام بھی یہی ہے اسے یہ نہیں سمجھ لیناچاہئے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہيں ہے اوراسی صورت حال پر صبر کرکے بیٹھ جاناچاہئے نہیں ایساہرگزنہیں ہے بلکہ اسے یہ جانناچاہئے کہ یہ وقتی حالات ہیں جو گذرجائیں گے (للباطل جولہ ) اورجوچیزاس دنیاسے متعلق ہے اوراس عالم طبیعت سے متلعق ہے وہ عبارت ہے عدل وانصاف کی حکومت کے قیام سے ، اوروہ آئیں گے ۔انتظارفرج اورراحت وآرام اوربالآخروہ دورجس میں ہم زندگی گذاررہے ہيں اورانسان ظلم وستم کا شکارہے وہ انتظارفرج کا ایک مصداق ہے لیکن انتظارفرج کے اوربھی مصداق ہيں ۔ جب ہم سے کہتےہیں کہ فرج کاانتظارکرو تو اس کامطلب صرف یہ نہيں ہے کہ آخری فرج کا انتظارکرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمشکل کا حل ہے اورہرمشکل کوحل کیاجاسکتاہے فرج کا مطلب یہ ہے ۔ یعنی مشکلات کے بعد راحت وآرام ۔ مسلمان درس انتظارسے فرج کوسیکھتاہے اوراس سے تعلیم لیتاہے کہ انسان کی زندگي میں کوئی بھی ایسی مشکل نہیں ہے جو قابل حل نہ ہو یا اسے حل نہ کیاجاسکتاہو ۔ جب انسان کی زندگي کے آخری دورمیں ان تمام ظالمانہ اورستمگرانہ اقدامات کامقابلہ کرنے کے لئے خورشید فرج ظہورکرے گا تو اس جاری زندگي کے دوران بھی جومصائب ومشکلات ہيں ان کے مقابلے میں اسی طرح کے ایک فرج کی توقع رکھنی چاہئے ۔یہ تمام انسانوں کے لئے درس امید ہے ، یہ تمام انسانوں کےلئے حقیق انتظارکادرس ہے اسی لئے انتظارفرج کوسب سے افضل اعمال میں قراردیاگیاہے تواس سے یہ معلوم ہواکہ انتظار ایک عمل ہے بے عملی نہيں ہے اس سلسلے میں غلطی اورغلط فہمیوں کا شکارنہیں ہوناچاہئے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ انتظارکامطلب یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہيں اوراس بات کاانتظارکریں کہ کوئی حل نکل آئے گا اورخود سے سب ٹھیک ہوجائےگا
انتظارایک عمل ہے ،خود کوآمادہ کرنے کانام ہے اوردل اپنے باطن کی تقویت کانام ہے ایک جذبے اورتحرک کانام ہے جوتمام میدانوں سے متعلق ہوتاہے ۔ یہ درحقیقت قرآن کریم کی ان آیات کریمہ کی تفسیرہے کہ (ونریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم آئمہ ونجعلھم الوارثين ) یا ( ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبہ للمتقین ) یعنی کبھی بھی امتوں اورقوموں کوفرج اورراحت سے مایوس نہیں ہوناچاہئے ۔
جس دن ملت ایران نے قیام کیااورتحریک چلائی اس نے امید حاصل کی کہ قیام کیا اورآج وہ امید پوری ہوگئی ہے اسی قیام کے نتیجے میں ۔ اوراس نے وہ عظیم نتیجہ حاصل کرلیاہے اورآج بھی مستقبل کی بابت پرامیدہے اورپوری امید اورنشاط کے حرکت کررہی ہے ۔یہ نورامید ہے جوجوانوں کوحوصلہ عطاکررہاہے اوران کے اندر تحرک ونشاط پیداکررہاہے اوران کے حوصلوں کے پست اوران پر پژمردگی طاری ہونے سے روکتاہے اورمعاشرے میں تحرک وآگے بڑھنے کا جذبہ پیداکرتاہے یہ انتظارفرج کا نتیجہ ہے ۔بنابریں ہمیں آخری فرج کا بھی منتظررہناچاہئے اورزندگي کے تمام مراحل میں بھی فرج وآسانی کی امید اوراس کامنتظررہناچاہئے خواہ وہ انسان کی انفرادی زندگی ہویاپھر اجتماعی زندگي ہو ۔ آپ اپنے اوپر ہرگزمایوسی کوطاری نہ ہونے دیں اوریہ جان لیجئے کہ یہ مشکل حل ہوکررہے گی اورآسانی آپ کومیسرہوگی البتہ اس کے شرط یہ ہے کہ آپ کا انتظارحقیقی معنوں میں انتظارہو۔یہ انتظارعمل ہو، کوشش ہو، جذبہ ہو، اورتحرک ہو۔
مسئلہ مہدویت میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ امام زمانہ (ارواحنافداہ) ہمارے اعمال ورفتارپر ناظرہیں ، ہمارے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہيں ۔یہ ہمارے مومن جوجوان جومختلف میدانوں میں خواہ وہ معنویت معرفت کامیدان ہویا کام وکوشش کا میدان ،جدوجہدکامیدان ہویاسیاست کامیدان ، یاپھرجہاد کامیدان ہو جب اس کی ضرورت ہوئی تھی جب اس طرح سے اپنے اخلاص اورشادابی کامظاہرہ کرتے ہيں تو امام زمانہ خوش ہوتے ہيں ۔ یہ جو اسلامی ملک میں مثال کے طورپرہمارے مسلمان ملک میں اس بات کی کوشش ہورہی ہے کہ ملک کے نظم ونسق پرنگرانی رکھی جائے ، ملک کی پیشرفت پر دھیان دیاجائے،
اس سلسلے میں فیصلے کئے جائیں اوراقدامات کئے جائیں اوراس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ ملک کے اندر استکباری اورسامراجی مقاصد عملی جامہ پہن سکے ان تمام باتوں سے امام زمانہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ امام زمانہ ناظرہیں اوران کی خدمت میں ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہيں
آپ کے انتخابات کوامام زمانہ نے دیکھاہے آپ کے اعتکاف کوامام زمانہ نے دیکھاہے پندرہ شعبان کے موقع پر سڑکوں اورگھروں اورديگرمقامات پر چراغانی وسجاوٹ جو آپ لوگوں اورہمارے جوانوں نے کی ہے ان سب کوامام زمانہ نے ملاحظہ فرمایاہے ۔ آپ تمام خواتین وحضرات کی مختلف میدانوں میں بھرپورموجودگی کوامام زمانہ نے دیکھاہے اوردیکھتے ہيں ،
اسی طرح ہمارے ملک کے حکام کے اعمال اوران کی کارکردگي جومختلف میدانوں میں ہوتی ہے امام زمانہ کے سامنے پیش ہوتی ہے اوران کاموں میں ہمارے عزم راسخ کی اگرجھلک ہوتی ہے اورکوئی کام ایساہوتاہے جوایک مسلمان کے شایان شان ہوتو امام زمانہ اس سے خوش ہوتےہیں اوراگرخدانخواستہ اس کے برخلاف ہم سے کوئی کام اورغلطی سرزد ہوجائے تو امام زمانہ کوہم سے تکلیف پہنچتی ہے ۔آپ ذراملاحظہ کیجئے کہ یہ سب کتنابڑاعامل ومحرک ہے ۔
ایک اورنکتہ اورآخری بات یہ ہے کہ جومعاشرہ مہدویت پریقین رکھتاہے اسے قوت قلب حاصل ہوتی ہے ۔ قوموں کے لئے یہ قوت قلب بہت ہی اہم ہے ۔ آپ یہ جان لیجئے کہ اسلامی ملکوں پر سامراجی طاقتو ں کا تسلط اسی وقت ہواجب انھوں نے ان کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے عاری کردیا اورجب ان کے اندر ضعف وکمزوری کااحساس ہونے لگا جب ان کے اندر توانائی کے فقدان کا احساس پنپنے لگا ، اس کے بعد سامراجی طاقتوں آئیں اوران پر مسلط ہوگئیں ۔اورآج بھی ایساہی ہے ۔آج ہم دنیاکے سیاسی اورسفارتی تعلقات کے میدان میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہيں کہ عالمی استکبارکا ایک سب سے بڑاہتکنڈہ یہ ہے کہ مختلف ملکوں اوراب خاص طورپراسلامی ملکوں کے حکام کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے خالی کردے اوران کے اندریہ احساس پیداکرے کہ ان کی مددکرنے والاکوئی نہيں ہے تاکہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اورکوئی چارہ نہيں ہے کہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں ۔ یہ احساس کمزوری ایک بہت بڑی مصیبت ہے قومیں حرکت نہيں کررہي ہیں کیونکہ وہ خود کوکمزورمحسوس کررہی ہيں ۔فلسطینی قوم دسیوں سال خاموش اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کمزورہے اورکچھ بھی نہيں کرسکتی اورجس دن فلسطینی قوم میں کچھ کرگذر نے کا جذبہ پید ہوگيا وہ اٹھ کھڑی ہوئی اوراس انے اپنے اس قیام سے یہ تمام کامیابیاں حاصل کیں( فلسطینی قوم ) مشکلات ومصائب برداشت کررہی ہے مگرآگے بڑھ رہی ہے ۔اس قوم میںجوحرکت نہیں کررہیہے ،طمانچے بھی کھارہی ہے لیکن رووبروزپسماندگي کا شکارہورہی ہے اوربدبخت وزیردست ہورہی ہے اوراس بات پرخوش ہے کہ اس کوطمانچے نہيں لگ رہے ہيں اوراس قوم میں فرق ہے جو اپنے راستے کی سختیاں برداشت کررہی ہے اس کے راستوں میں کانٹے ہيں اورخونی بھی ہوجاتےہيں لیکن کامیابی اورسعاد ت وخوش بختی کی راہ کی جانب گامزن ہے اوراپنی عزت وسربلندی حاصل کررہی ہے ۔ ملت فلسطین نے آج اپنے دلوں میں امید کی شمع روشن کررکھی ہے اب وہ آگے بڑھ رہی ہے اورآگے کی سمت جارہی ہے اورآگے کی جانب یہ حرکت جب تک پائی جاتی رہے گی اس بات کاباعث بنتی رہے گی کہ فرج وآسانیوں کے دروازے اس کے سامنے کھلتے جائیں اوراس کے راستے آہستہ آہستہ طے ہوتے جائیں اوریہاں تک کہ انشاءاللہ اپنے آخری مقصد کوپہنچے ۔
کسی بھی قوم کے لئے احساس کمزوری ایک بہت ہی خطرناک احساس ہے اورزہرقاتل ہے ۔
مہدویت پراعتقاد کی ایک برکت یہ ہے کہ انسان احساس اطمینان کرتاہے ،اسے قوت قلب کااحساس ہوتاہے اسے قوت وطاقت کااحساس ہوتاہے اوربحمداللہ ہماری قوم اسی طرح ہے
ہم نے محاذجنگ پر اپنے جوانوں کودیکھاہے کہ انھیں امدادغیبی اورحضرت ولی عصر کے لطف وتوجہ پراعتقاد رہتاتھا اوراسی اعتقاد اوراسی قوت قلب سے استفادہ کرتےتھے اوران کے اندردوگنی قوت کا احساس پیداہوتاتھا اوراسی کے سہارے آگے بڑھتے ۔البتہ امداد غیبی کامطلب اگریہ لیاجائے کہ انسان بیکاربیٹھارہے تمام دروازے اپنے اوپربندکرلے اوراس انتظارمیں رہے کہ غیب سے اس کی مددہوجائے گی تواسے یہ معلوم ہوناچاہئے کہ غیب سے اس کی مدد نہیں ہوگی (وجعلہ اللہ الّا بشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ ) میدان جنگ میں ، سیاسی مشکلات کے میدان میں اورقوموں کے اٹھ کھڑے ہونے کی صورت میں غیبی مدد انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اگرانسان اٹھ کھڑاہوتو اس کی غیب سے مدد ہوتی ہے ۔ آج عالمی استکبار نے اپنی توجہ قوموں کے نقاط قوت یا مضبوط پوائنٹ کونشانہ بنارکھاہے تاکہ قوموں سے ان کا یہ مضبوط پوائنٹ چھین لے البتہ وہ کہیں کہیں پر کامیاب بھی ہواہے اورکہیں کہیں پر اسے منھ کی بھی کھانی پڑی ہے اورجن جگہوں پر اللہ تعالی کی مدد ونصرت کے طفیل عالمی استکبارکوکا میابی نصیب نہيں ہوسکی ان میں اسلامی جمھوریہ ایران ہے اورملت ایران ہے ۔بحمد اللہ اقوام متحدہ کے ڈائس سے اوردنیابھر کے سربراہان مملکت کی آنکھوں کےسامنے ہمارے محترم صدرصاحب نے ایرانی عوام کے دل کی بات بیان کردی ۔ استحکام ومتانت وقوت بیان اوراپنے موقف کا ستحکام اس عالمی اسٹیج سے ایرانی عوام کی نمائندگی میں پوری دنیاکی آنکھوں کے سامنے بیان کردیاگیا اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ ملت ایران دھونس ودھمکی اورکسی کے دباؤ میں نہيں آئے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملت ایران نے گذشتہ ستائیس برس سے جب سے اسلامی انقلاب کامیاب ہواہے دباؤ برداشت کرکے نہ صرف یہ کہ کمزوری کا احساس نہيں کیاہے اوراس کے عزم وارادے متزلزل نہیں ہوئے ہيں بلکہ آج وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط وتواناہے اورمضبوط عزم وارادے کے ساتھ اپنے اہداف ومقاصد کوآگے بڑھانےکے لئے کہ جن میں ان کے قومی مفاد ات پوشیدہ ہيں بدستورمستحکم اندازمیں ڈٹی ہوئی ہے
خداوندعالم کی ذات پربھروسہ اورقوم پر حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کے لطف وشفقتوں پر اعتقاد نے ہماری زندگی اورہمارے اعمال وکردارپر یہ اثرمرتب کیاہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے اندرقوت قلب پیداہوتی ہے جو مختلف قسم کی امواج کے مقابلے میں ہمیں استقامت وپائمردی عطاہوتی ہے ۔ملت ایران کوشکست نہیں دے سکتے ۔ خداوندعالم کی تائید ونصرت کی بدولت ملک کے حکام مومن وصابر ملکی عہدیداراپنی پوری کوشش و سعی جمیل کے ذریعہ یکی بعد ديگری تمام مشکلات کوحل کرلیں گے ۔ انھیں اپنے ملک کی علمی سطح کو اتنے اوپرلے جاناہوگا کہ دشمنوں کی حریصانہ نگاہيں کلی طورپر اس قوم اوراس ملک سے دورہوجائیں ۔
خداوندعالم سے دعاکرتاہوں کہ حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کی دعائیں ایرانی عوام اوردنیا کی تمام مستضعف قوموں کے شامل حال ہوں اورآپ لوگوں کوروزبروزاپنی عزت وجلال کے صدقے میں اوراپنے اولیاء کرام کی عزت کے طفیل باعزت ومقتدر قراردے
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عظیم عید کی پوری دنیاکے مسلمانوں، اقوام عالم، حکومتوں،اپنے ملک کے سربلند عوام ملک کےحکام اور حاضرین محترم اوربالخصوص معززمہمانوں اور یہاں موجود اسلامی ملکوں کے سفارتکاروں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتاہوں ۔
عید مبعث سب کی عید ہے ، یہ فقط مسلمانوں کی ہی عید نہیں ہے ۔ ہرپیغمبر کی ولادت اورہربعثت پوری انسانیت کے لئے ایک نیادن اورعید ہے ۔پیغمبران الہی جوبھی آئے انھوں نے بشریت کے سرگرداں اورپریشان قافلے کو ترقی وکمال علم واخلاق اورعدل وانصاف کی جانب رہنمائی کی اورانھیں انسانی کمال کی منزلوں کے قریب پہنچادیا ۔
پوری تاریخ میں انسانوں نے جوبھی علمی اورعقلی ترقی کی وہ سب پیغمبروں کی تعلیمات کا ہی نتیجہ ہے ۔نظریہ توحید اورعبودیت خداکی بندگي پیغمبران الہی کے ہی دروس سے عبارت ہے انسانی اقدارواخلاق اوراس کی قوت تخلیق جو انسانوں کی حیات کے آگے بڑھنے کی توانائي اسے عطاکرتی ہے اوراسی طرح اس کے اخلاقی فضائل سب کے سب پیغمبران الہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں ۔پیغمبران خدانے انسانوں کے زندگی آمادہ کی اور پھر اس زندگي کو ترقی وتحرک اورکمال میں تبدیل کیا ، اورنبی مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ ) خاتم رسل ،آخری الہی پیغام کے پہنچانے والے اورانسانیت کے لئے لامتناہی شخصیت کے حامل ہیں ۔ہم مسلمانوں کو البتہ اس بات کی قدرسمجھناچاہئے ،ہميں واقعہ بعثت میں غوروفکرکرناچاہئے ، اس سے درس لینے کی ضرورت ہے ہميں چاہئے کہ اس شانداراورپرفروغ ماضی کواپنے آنے والے دشوارمستقبل کےلئے مشعل راہ قراردیں ۔
آج دنیامیں کچھ حقائق ایسے ہيں جوناقابل انکارہيں ۔
پہلی حقیقت اسلامی دنیامیں بیداری ہے ، اس بات میں کوئي شک نہیں کرسکتا ۔ اورپوری دنیامیں مسلمانان عالم خواہ وہ مسلمان ملکوں میں رہتے ہوں یا ایسے ملکوں میں جہاں وہ اقلیت میں ہیں اسلام کی جانب رجحان کا احساس کررہے ہيں اوران کے اندر اسلامی تشخص کی جانب دوبارہ لوٹنے کا احساس پیداہورہاہے ۔آج اسلامی دنیاکے روشن خیال افراد سوشلزم اورمغربی مکاتب فکر سے دل برداشتہ اوربیزارہوکر اسلام کی جانب مائل ہورہے ہيں اوراسلام کی جانب کی ان کارجحان بڑھتاجارہاہے اوروہ انسانیت کے درد کا علاج اسلام میں تلاش کررہے ہيں ۔امت اسلامیہ کا دل آج گذشتہ کئی صدیوں کے مقابلے میں دیکھاجائے تو انتہائی غیرمعمولی سطح پر اسلام کی جانب راغب ومائل ہے ،گذشتہ دسیوں برسوں کے بعد اسلامی ملکوں پر مغرب اورمشرق کے وسیع تر غلیظ ثقافتی اورسیاسی تسلط کے بعد آج اسلامی دنیا کے جوانوں کی نگاہیں اسلام اوراسلامی تعلیمات پرلگی ہوئی ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے ، خود مغرب اورمستکبران عالم نے بھی اس کا اعتراف کیاہے انھوں نے بارہا اس بات کودوہرایاہے کہ کسی بھی ا سلامی ملک میں اگرآزادانہ انتخابات کرائے جائیں توعوام انھیں لوگوں کومنتخب کریں گے جو اسلامی احکامات اورتعلیمات کے پابند اور مروج اسلام ہوں گے ۔ اسی لئے آج مغرب کے ڈیموکریسی کے دعوؤں میں تضاد پیداہوگیاہے ۔ مغرب ایک طرف سے تو جمہوریت اورڈیموکریسی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے اوردوسری طرف اس بات کی بھی جرات نہیں کرپارہاہے کہ ڈیموکریسی کا یہ پرچم اس کے حقیقی معنوں میں اسلامی دنیامیں لوگ بلند کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں اگرعوام کے انتخاب اوران کی آراء کا احترام کیاجائے گا اور عوام کی رائے فیصلہ کن ہوگي تواس میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں کہ اس ملک کی زمام حکومت اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں آجائے گی اورعوام کے نمائندے مسلمان نمائندے ہوں گے ۔
آج مغربی دنیا ، امریکہ ، مغربی سیاستداں ، تھنک ٹینک - صیہونی اورمغرب کے سرمایہ دارحلقے یہ بات اچھی طرح جانتے ہيں کہ فلسطین کے عوام کی یہ عظیم تحریک اسلام کی جانب ان کے رجحان کا ہی نتیجہ ہے ۔ کیونکہ فلسطینی عوام نے اپنی تحریک کا محوراسلام کوقراردے رکھاہے ان کے اندرشجاعت پیداہوگئي ہے اورانھوں نے حقیقی معنوں میں جہاد اورمجاہدت کوگلے لگایاہے ۔جہاں بھی کسی قوم کے اندریہ جذبہ پیداہوگا وہاں کوئی بھی فوجی یاسویلین طاقت ان کا مقابلہ کرنے یاانھیں کچلنے کی توانائی نہیں رکھ سکے گی ۔ اس بات کووہ اچھی طرح جانتے ہيں ۔آج اسلامی دنیاکے واقعات ان تمام حقائق کی تصدیق کرتے ہيں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج عالم اسلام میں اسلامی بیداری ، اوراسلامی تحریک ایک روشن حقیقت ہے ، کوئی بھی اس سے انکارنہیں کرسکتا ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس بیداری اوراسلام کی جانب رجحان اوراس حریت پسندی کی دشمن نمبر ایک استکباری طاقتیں ہیں ۔وجہ بھی معلوم ہے ، کیونکہ اسلام تسلط کا مخالف ہے اغیارکی طاقتوں سے قوموں کی وابستگی کا مخالف ہے ،اسلام علمی وعملی پسماندگي کا جوپچھلی کئی صدیوں سے اسلامی ملکوں پر مسلط کی گئ ہے مخالف ہے ،اسلام اس بات کا مخالف ہے کہ قومیں محض اطاعت کریں اوردوسروں کی اندھی پیروی کرتی رہیں ۔یہ ساری اسلامی تعلیمات استعماری پالیسیوں سے بالکل متضاد ہیں یہ پالیسیاں گذشتہ تقریبا دوسوبرسوں سے استکباری طاقتوں اورمغرب کی طرف سے اسلامی دنیا پرمسلط کی گئیں ۔یہ طاقتیں آج بھی اس علاقے میں اپنے ہی مفادات کوتلاش کررہی ہیں انھیں حاصل کرناچاہتی ہیں ،اسلامی بیداری استکباری طاقتوں کی ان پالیسیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسی لئے یہ طاقتیں اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلامی بیداری کی مخالف ہيں اوروہ اس کی سیاسی اورتشہیراتی مخالفت کرتی ہیں ۔
آج اسلام کے خلاف تمام تشہیراتی ہتکنڈوں کااستعمال ہورہاہے ۔آپ دیکھیں کہ مغربی حکومتیں مسلمانوں اوراسلام کے خلاف جواقدامات کررہيں ان آپ غورکیجئے ۔ ان کی یہ کاروائیاں خواہ وہ امریکہ میں ہوں یا مغرب میں آپ دیکھیں کہ کس قدرپیچیدہ ہيں ۔فن وہنرکے تمام وسائل ان کے پاس ہیں مذموم مقاصد کےلئے انھیں استعمال کیا جارہاہے ۔البتہ اس اسلامی بیداری کے مظہر وہ لوگ نہيں ہیں جوآج اسلامی دنیامیں دہشت گردی کی تصویرپیش کررہے ہیں یا جولوگ عراق میں دہشت گردی اورجرائم کاارتکاب کررہے ہیں یا جولوگ اسلامی دنیامیں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہیں یاجولوگ اپناسب سے بڑامشن مسلمانوں کے درمیان سنی وشیعہ کے نام پر اختلاف اورتفرقہ ڈالناسمجھتے ہیں یہ لوگ کسی بھی قیمت پر اسلامی بیداری کے مظہر نہیں قرارپاسکتے ، یہ بات خود استکباری طاقتیں بھی سمجھتی ہیں جولوگ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام کومغرب کے سامنے ایک دہشت گرد اورشدت پسند ورجعت پسند گروہ کی شکل میں پیش کرتےہیں وہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ حقیقت کچھ اورہے ۔ وہ اسلام ،جس کی بیداری کا عالم اسلام میں آج احساس کیاجارہاہے وہ تفکروتدبر عقل ومنطق غوروفکر خلاقیت کا دین اسلام ہے ،وہ اسلام ہے جو انسانی زندگی کی گتھیوں کوسلجھانے کے لئے راہ حل پیش کرتاہے نہ کہ سخت گیراوررجعت پسند اسلام ، یہ چشم بستہ اسلام اورہرطرح کی آزادی فکرسے عاری اسلام نہیں ہے ، اس بات کواستکباری دنیابھی سمجھتی ہے ۔
آج اسلامی جمھوریہ ایران کا نعرہ فکری آزادی، علم ومعرفت کی توسیع ،انسانی حقوق واختیارات کا احترام اور اس پر توجہ اور لوگوں کےدرمیان مہربانی اورمحبت کارواج ہے ، یہ سب اسلام کا نعرہ اورپیغام ہے دنیااس کودیکھ رہی ہے اوراس کی تلاش میں ہے ۔
ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی منطق عقل وفکرکی منطق روشن بینی پر مبنی عمل کی منطق انسانیت وانسانی اقدارکی منطق انسانی اخلاق کی منطق اوراخلاقی فضائل کی منطق تھی ، دنیااس چیزکے پیچھے بھاگ رہی ہے اس کی تلاش میں ہے ۔اسلامی بیداری کے مظہروہ لوگ نہيں ہیں جواپنا کرخت اورسپاٹ چہرہ لئے ہوئے پوری دنیاسےملتے ہیں اورحتی مومنوں اورمسلمانوں سے بھی ان کے ملنے کا یہی اندازہوتاہے یہ وہ لوگ ہیں جوکچھ لوگوں کوکافرگردانتےہیں اوران کی تکفیر کرتے ہیں ، کچھ لوگوں پر قوم پرستی کاالزام لگاکرتوکچھ لوگوں پر قبائلی نظریات کا حامل ہونے کاالزام تھوپ کراورکچھ لوگوں پر بلا جواز حملہ کرتے ہيں ۔ان عناصرکا وجود پورے طورپر مشکوک ہے کہ کیا ان کا یہی نظریہ بھی ہے ، یا پھر وہ اسرائیل امریکہ اوربرطانیہ کے خفیہ اداروں کے ایجنٹ ہيں جواس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہيں۔ان عناصر نے غفلت کے شکارچند افراد کواپناآلہ کاربنالیاہے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکارنہیں کیاجاسکتا ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیااپنی پوری قوت کے باوجود بھی اسلامی بیداری پر غلبہ نہیں پاسکی ہے ، وہ اسلامی دنیا کےمختلف علاقوں میں اسلام ، اسلامی جمھوریہ ، عظیم اسلامی مصلحین اوراسلامی احکامات اورتعلیمات کے خلاف پروپیگنڈے کررہے ہیں ، مغربی ملکوں نے اسلام کوگالیاں دینے کےلئے کرائےکے ایجنٹوں کوخریداہے وہ اپنے ان ایجنٹوں کے ذریعہ اسلامی واسلامی احکامات کوموردالزام ٹھہراتےہيں ،انھوں نے فوجی طاقت کا بھی سہارالیا ،اقتصادی حربوں کوبھی آزمایا اورذرائع ابلاغ کے ذریعہ انتہائي عجیب وغریب اورحیرت انگیزطورپروسیع پروپیگنڈہ کیا لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہيں ہوئی ۔اسلامی ملکوں میں مسلمان جوانوں کازیادہ رجحان اسلام اوراسلامی آئیڈیالوجی کی جانب ہے اورمسلمانوں کے دلوں ميں ذوق وشوق روزبروزبڑھتاجارہاہے ۔اورجوچیزان حقائق کی متقاضی ہے وہ یہ کہ اسلامی دنیاکو ان حقائق کی قدرکرنی چاہئے ۔
آج اسلامی دنیا کے پاس امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے اس کے علاوہ اورکوئي چارہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے محورپر اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرے اوریہ کہ دشمنوں اورسامراجی طاقتوں کے مفادات اور عزائم کی نفی کی جائے ۔سامراجی طاقتوں کامقصداسلامی تشخص اورقومیت کونابود کرناہے اوروہ یہ کام خاص طورپر مشرق وسطی میں کرناچاہتی ہیں اوران کے عزائم کا مقابلہ مزید آپسی اتحاد مزید ہم آہنگی اسلام سے تمسک اسلام کی ترویج اورامریکہ وسامراجی طاقتوں کی توسیع پسندیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے سے ہی ممکن ہوسکتاہے اوراس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔آج امریکہ کوپوری دنیامیں نفرت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اس کادنیاوالوں کی نظروں میں ایک کریہہ چہرہ ہے آج امریکیوں نے اپنے ہی اعمال وکردارسے اپنے ہی نعروں کوپیروں تلے روند دیاہے آج عراقی عوام پرامریکیوں کادباؤ ، عراق میں پائی جانے والی بدامنی ، قاتل صیہونیوں کےلئے ان کی ہمہ جانبہ حمایت ، افغانستان میں امریکیوں کے مظالم اور اسلامی ملکوں پرامریکیوں کاپڑنےوالادباؤ ان ساری باتوں کی وجہ سے آج پوری دنیامیں امریکہ کاچہرہ ایک منفورچہرے میں تبدیل ہوچکاہے اورپوری دنیاکے عوام اس سے نفرت کرتے ہيں ۔آج اسلامی دنیا اس توسیع پسند طاقت کے مقابلے میں کھڑی ہوسکتی ہے اوراس کوکھڑابھی ہوناچاہئے اوراس کے علاوہ کوئی اورچارہ بھی نہيں ہے ۔
اسلامی حکومتوں کو اپنے قومی مفادات کے تحفظ ،اپنی قوموں کےاعتماد کوحاصل کرنے اوراپنی تاریخی ذمہ داریوں کواداکرنے کےلئے امت اسلامیہ کے تشخص کے بنیادی نقاط پر تکیہ کرناہوگا ملت فلسطین کا کھل کردفاع کرناہوگا ،عراق کی مکمل خودمختاری اورعراق کانظم ونسق اس ملک کے عوام کوہی سپردکئے جانے کے مطالبے کی حمایت کرنا ہوگي اسلامی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ افغانستان کے عوام کا دفاع کریں یورپ افریقہ اورایشیاء میں مظلوم مسلمان قوموں کی حمایت کرنی چاہئے اسلامی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ اپنے ملکوں میں قرآنی تشخص اورقرآنی احکام کادفاع کریں ایک دوسرے کےساتھ اپنے تعلقات مضبوط اوردوستانہ بنانے کی ضرورت ہے آپس میں مخلص ہونے کی ضرورت ہے انھیں چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی مددکریں پھرکہیں جاکرامت اسلامیہ خود کواستکباراورسامراج کے چنگل سے نجات دلاسکے گی اوران دھمکیوں اورخطرات کامقابلہ کرسکتی نجات پاسکتی ہے جوعالمی سامراج کی طرف سے اسے لاحق ہے
ہماری دعاہے کہ خداوندعالم ہمیں بیداری عطاکرے ، انشاءاللہ ہمیں ہمارے فرائض سے آشناکرے اورحضرت بقیہ اللہ( ارواحنافداہ )کی دعائیں پوری امت اسلامیہ بالخصوص ایران کی عظیم قوم کے شامل حال کرے ۔
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو چوراسی ہجری شمسی مطابق تیس اگست دو ہزار پانچ عیسوی کو ہفتہ حکومت کی مناسبت سے ملاقات کے لئے آنے والے صدر، کابینہ کے ارکان اور حکومتی عہدیداروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں صدرجمہوریہ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے نعروں کی تعریف کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں اساتذہ کو خوش آمدید کہتا ہوں، ہمارا یہ اجلاس ایک لحاظ سے علامتی اجلاس ہے اور ایک لحاظ سے ہمارے فریضے کا حصہ ہے۔ علامتی اس لحاظ سے کہ ہر سال اساتذہ کے ساتھ ہمارا اجلاس اس تعظیم اور احترام کی علامت ہے جو اسلامی نظام نے معاشرے میں اساتذہ کو دیا ہے۔ فریضے کی ادائگي اس لحاظ سے کہ یہ اجلاس آپ کا ہے اس میں آپ کو گفتگو کرنا ہے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جسے ہم نے تشکیل دیا ہے۔ اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہمارے اجلاس ہوتے رہے ہیں جن میں میں نے نہیں بلکہ اجلاس میں حاضر کسی فرد نے خطاب کیا ۔ اس کا بڑا اچھا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ کیوں کہ اہل نظر افراد کی زبانی ان کے پیش نظر اہم مسائل سننے کو ملے۔ ان اجلاسوں کی تفصیلات ٹیلی ویژن سے نشر کی جاتی ہیں انہیں عوام بھی دیکھتے ہیں اور عہدیداران بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ میرے لئے بھی بہت مفید ہے۔ اب تک اساتذہ کے ساتھ اس نوعیت کا کوئي اجلاس نہیں ہوا۔ ایک دو ہفتہ قبل کسی معلم نے خط ارسال کرکے یا پیغام بھیج کر اعتراض کیا تھا کہ فلاں صاحب اساتذہ کے ساتھ اس قسم کا اجلاس کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں یہ بات مناسب محسوس ہوئی اور اچانک اس اجلاس کا موقع آ گیا۔ ہم نے پہلے یہ منصوبہ نہیں بنایا تھا کہ یہ اجلاس کرمان میں ہو بلکہ اس علاقے کا سفر پیش آ گيا اور میں ہر سال ہفتہ اساتذہ کے موقع پر اساتذہ کےساتھ جلسہ کرتا ہوں تو اس بار یہ موقع یہاں پیش آیا۔ تو یہ جلسہ آپ حضرات کا ہے۔
ابتدا میں میں چند جملے عرض کر دوں جس کے بعد، احباب اجلاس کو آگے بڑھائیں گے ۔
اساتذہ کے ساتھ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے جو کہ میرے لئے بڑا عجیب اتفاق ہےکیوں کہ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں کرمان سے میرا خاص تعلق اور رشتہ ہے۔ البتہ دیگر شعبوں میں بھی کرمان کے باسیوں سے میرے روابط رہے ہیں، طالب علمی اور جد و جہد کے زمانے میں ہمارے بہت سے کرمانی رفقا تھے مثال کے طور پر جناب ہاشمی رفسنجانی، جناب حجتی کرمانی، جناب باہنر اور اسیطرح دیگر افراد کرمان کے ہمارے وہ احباب بھی تھے جو دینی مدرسے کے طالب علم نہیں تھے ان سے میرے بڑے گہرے تعلقات رہے مثال کے طور پر جناب اسلامیت اور بعض دیگر افراد۔ البتہ کرمان سے تعلیم و تربیت کا جو میرا رشتہ اور رابطہ ہے وہ ان سب سے پرانا ہے۔ میں مشہد میں جب اسکول جاتا تھا تو اس وقت ہمارے استاد مرحوم مرزا حسین تدین کرمانی تھے۔ مشہد میں یہی ایک اسکول تھا جس میں مذہبی اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔ اس اسکول کا نام دار التعلیم دیانتی تھا اور میں نے اس مدرسے میں چھے سال جناب تدین سے تعلیم حاصل کی ۔ مرحوم تدین واقعی ایک بڑی اہم شخصیت تھی ان کے سلسلے میں میرا یہ خیال طالب علمی کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ اس وقت بھی تھا جب میں صدر تھا اور وہ مجھ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے۔ میں نے ان پر نظر ڈالی مجھے ایک بڑی با وقار اور محترم شخصیت نظر آئی۔ آپ معلم بھی تھے اور منتظم بھی۔ وہ اسکول کے صحن میں ہاتھ میں ایک چھڑی لئے جب چلتے تو ان کے چہرے پر خاص رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ ان سے لوگ محبت کرتے تھے۔ میں اور دیگر بچے بھی ان سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ جب اس اسکول میں میری تعلیم مکمل ہو گئي تو میرے ایک بھائی نے اس اسکول میں داخلہ لے لیا، تاہم بعد میں بھی ان سے میرا رابطہ رہا۔ ہر مہینے میں اپنے بھائي فیس دینے اسکول جاتا تھا تو بھی میں ان کو اسی وضع قطع میں دیکھتا تھا وہی وقار اور وہی احترام۔ ان کی خاص ہیبت تھی۔ غرضیکہ تعلیم و تربیت کے تعلق سے کرمان اور کرمانیوں سے میرا جذباتی لگاؤ اور رشتہ بہت پرانا ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے۔
البتہ اس کے بعد بھی بعض کرمانی اساتذہ سے میرا رابطہ رہا ہے۔ سن انیس سو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور ستر کے عشرے کے اوائل میں جب میں مذہبی تقاریر کے لئے کرمان آتا تھا تو بعض مذہبی اور انتہائی فعال نوجوان میرے پاس رہتے تھے ان میں سے ایک جناب محمد رضا مشارزادہ تھے جو استاد تھے۔ بہرحال اساتذہ سے میرے اچھے روابط ہیں۔
آپ حضرات جو یہاں پر موجود ہیں وہ صوبے کے اساتذہ کے طبقے کے نمائندہ ہیں ورنہ صوبے کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں ہمارے نوجوان بہت زیادہ فعال ہیں لہذا صوبے کی سطح پر قومی اور عوامی امور کو آگے بڑھانے میں آپ اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔
میں اساتذہ کے طبقے کا دل سے احترام کرتا ہوں اور آپے کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔ میری تمنا یہ ہے کہ یہ احساس و ادراک پورے معاشرے بالخصوص منصوبہ ساز اداروں اور شعبوں میں موجود رہے اور سب کو اساتذہ اور تعلیم و تربیت کی اہمیت کا صحیح اندازہ رہے۔
اجلاس میں بعض اساتذہ اور دانشوروں نے اپنے خیالات پیش کئے جس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے دوبارہ حاضرین سے خطاب فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میری نظر میں یہ اجلاس بہت اچھا رہا۔ بعض احباب نے فرمایا کہ ان باتوں کو ہم جانتے ہیں یہاں ہم آپ کے خطاب سے محظوظ ہونے آئیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ نہیں اساتذہ ان باتوں سے آگاہ ہیں اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ اساتذہ کی باتیں ہیں جو دوستوں نے بیان کی ہیں۔ یہ باتیں متعلقہ حکام تک بھی پہنچیں گی اور عوام بھی انہیں سنیں گے۔ میرے لئے بھی یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان باتوں اور تجاویز کو نئی سمت ملے اور موثر اقدامات کئے جائیں۔
اساتذہ میں سے دس افراد نے خطاب کیا ۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اجلاس میں موجود ہمارے بہت سے بھائي بہن کچھ باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے یہ باتیں بہت اہم ہوں یا بہت اہم نہ ہوں لیکن ان کے خیال میں یہ باتیں بیان کرنے والی ہیں۔ البتہ دامن وقت تنگ ہے۔ اگر ہمارے سارے دوست اجلاس میں تقریر کرنا چاہیں تو ایک یا دو گھنٹے کا وقت کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ پینتیس چھتیس گھنٹے کے ایک پروگرام کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لہذا اگر آپ کی نظر میں کچھ ضروری باتیں ہیں تو آپ تحریر شکل میں مجھے دے دیں میں متعلقہ حکام سے کہوں گا کہ ان پر غور کریں۔
جو تجاویز اساتذہ نے پیش کیں ان میں بعض ایسی ہیں جن پر عملدرآمد تدریجی ہے۔ اساتذہ کی منزلت جیسا کہ بعض احباب نے فرمایا، حکم تقرری یا کسی قانون سے پیدا نہیں ہوتی یہ منزلت ایک تدریجی عمل کے تحت وجود میں آتی ہے بشرطیکہ اس پر پورا ایقان ہو۔ یہی کام جو ہم انجام دے رہے ہیں اس غرض سے ہے کہ معاشرے میں تعلیم و تربیت اور اساتذہ کی منزلت پہچانی جائے۔ لہذا کسی حکم اور قانون سے یہ ہدف حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں آسودہ بنانے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں خود اساتذہ کی ہیں کچھ تعلیمی شعبے کے عہدیداران کی اور کچھ ذمہ داریاں ملک کے منصوبہ ساز حکام کی ہیں۔
ریٹائرڈ اساتذہ اور تنخواہوں کے سلسلے میں جو تجاویز آپ نے پیش کیں ان کا ماہرین کے ذریعے جائزہ لئے جانا چاہئے اور پھر نتائج سے حکومت کے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ ایک استاد کو قانون قاعدے کے مطابق پورا حق ملنا چاہئے۔ البتہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے اس سے اصل کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہم مجریہ کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم یہ باتیں وزارت تعلیم و تربیت کو گوش گذار کریں گے پلیننگ و مینیجمنٹ ادارے کو اس سے آگاہ کریں گے۔ خود صدر محترم سے یہ بات کہیں گے۔ متعلقہ عہدیداران سے بھی سفارش کی جائے گی۔ صوبائی عہدیداروں سے بھی اس موضوع پر بات ہوگی۔ البتہ جہاں تک انتظامی امور اور مجریہ کے کام کا تعلق ہے قائد انقلاب کا اس میں کوئي رول نہیں ہوتا۔ یہ کام حکومت کا ہے، یہ حکومت کا فریضہ ہے اور صحیح روش یہ ہے کہ یہ کام حکومت انجام دے۔
جو تجاویز پیش کی گئيں بنیادی طور پر بہت اچھی تجاویز تھیں۔ ان سے تعلیم و تربیت کے امور میں آپ کی مہارت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں یہ تجاویز اپنے شعبے کے حوالے کروں گا کہ ان پر غور کیا جائے۔ انشاء اللہ جو تجاویز قابل عمل اور ممکن ہیں ان پر عمل کیاجائے گا۔
میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تعلیم و تربیت اور اساتذہ کے سلسلے میں میرا ایک بنیادی اور اصولی نظریہ ہے انگریزی نوازوں کے بقول آئيڈیالوجیکل نظریہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ سیاست کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کی مدد کی جائے اور ان کی ضروریات کی تکیمل کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں کوئي بھی مثبت یا منفی تبدیلی اس وقت تک نہیں آتی جب تک کہ اس میں اساتذہ اور شعبہ تعلیم و تربیت کا کردار نہ ہو۔ اگر کسی معاشرے کا تعلیم و تربیت کا شعبہ فعال، خلاقی صلاحیتوں کا حامل اور ذمہ دار ہے تو قومی سطح پر بڑے بنیادی اثرات مرتب ہوں گے۔ البتہ سیاسی جماعتیں اور حلقے بھی کوتاہ مدت اہداف مثلا فلاں انتخاب اور فلاں خواہش کے تحت تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں لیکن ان چیزوں کی اہمیت بہت کم ہے۔ یہ تعلیم و تربیت اور استاد کی تحقیر ہے۔
نئي نسل کے تشخص کا معمار استاد ہوتا ہے یعنی اس کا کردار خاندان اور والدین سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ آپ کے بچے بھی اسکول جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ آپ کے بچے کے لئے استاد کی بات وحی کا مقام رکھتی ہے۔ بچہ گھر آتا ہے تو کچھ کام کرتا ہے کچھ کام نہیں کرتا۔ ورزش کرتا ہے یا آرام کرتا ہے یا کوئي اور کام کرتا ہے، کیوں، اس لئے کہ اس کے استاد نے ایسا کہا ہے۔ ماں باپ یہی باتیں بارہا کہہ چکے ہیں لیکن اس کا کوئي اثر نہیں ہے لیکن استاد کی بات کا بڑا اثر ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کے ذہن میں بسا اوقات استاد کی بات والدین کی بات سے زیادہ اہم اور قابل ترجیح ہوتی ہے ۔ تو یہ ہے معلم کا کردار۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچے کی شخصیت سنورے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ خود اعتمادی اور سماجی اقدار سے سرشار ذمہ داریوں کا احساس کرنے والی با صلاحیت اور کارہای عظیم پر قادر تخلیقی صلاحیتوں کی حامل نسل جس میں انسیت و ہمدردی کا جذبہ ہو جو منفی جذبات سے پاک ہو، ایسی نسل جو قربانیاں دینے کو تیار ہو وہ نسل جو اسراف اور فضول خرچی کو ناپسند کرتی ہو، ہمارے معاشرے میں ستاروں کی مانند جگمگائے تو اس کا راستہ تعلیم و تربیت ہی ہے۔ ایسی نسل کے لئے تعلیم و تربیت کے شعبے کو چاق و چوبند ہونا پڑے گا۔
البتہ ہمارے احباب نے تعلیم و تربیت کے شعبے کی افرادی قوت، دفتری نظام اور مینیجمنٹ پر روشنی ڈالی، یہ سب بہت اہم ہے۔ اساتذہ کی مالی ضرورتوں کی تکمیل اور ان کو روزمرہ کی زندگی کی فکروں سے آزاد کرنا بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئي شک نہیں، اس سلسلے میں تجاویز پیش کی گئي ہیں اور کام ہو رہا ہے۔ البتہ میں یہاں موجود اپنے بھائيوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک دیندار اور اپنے فرائض سے آگاہ معلم کو مادی مسائل فرائض کی ادائگي سے روک نہیں سکتے۔ میری اس بات کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ اساتذہ کی زندگي کی ضروریات کے سلسلے میں کوئی کوتاہی کی جائے، حکومت کے اختیار میں جو کچھ ہے وہ انجام دیا جانا چاہئے لیکن میری خواہش یہ ہے کہ مشکلات آپ کے پختہ ارادوں اور تعلیمی جذبے کو متاثر نہ کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کوشش کرے ساتھ ہی آپ کو بھی اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ ملک کا مستقل آپ کے ہاتھوں میں ہے اساتذہ کو چاہئے کہ حقیقی معنی میں اپنے فرايض اور منزلت کی پاسداری کریں ۔ استاد کی منزلت یہ نہیں ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور لوگ اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیں، استاد کی منزلت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کے تاریخی اور علمی عمل میں موثر کردار ادا کرے۔
اگر اساتذہ یہ کام کر سکے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ٹیچنگ کے حقیقی فریضے کو ادا کیا ہے۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ اس شعبے کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ایک مشاورتی کمیٹی کی ضرورت ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں کسی ایک شخص کے ذاتی نظریات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ ورنہ ممکن ہے کہ اس شعبے میں کوئي مغربی ممالک کی پیروی کرتے ہوئے محسوس کرے کہ نوجوانوں کو جنسیات کی تعلیم دینا چاہئے اور اچانک اس موضوع پر کوئي کتابچہ بھی شائع ہو جائے۔ لیکن سوال یہ ہےکہ اس موضوع پر کہاں تبادلہ خیال کیا گيا۔ اس سلسلے میں کہاں فیصلہ کیا گیا۔ کہاں اس کا جائزہ لیا گيا۔ ہم کب تک مغرب کی تقلید کرتے رہیں گے۔ کیاں جنسی امور میں مخصوص روش اختیار کرکے مغرب والوں کو کوئي فائدہ ہوا ہے؟ اس مسئلے میں وہ آج پریشان ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں بوڑھوں، مردوں اور عورتوں پر دینی تعلیمات کے نتیجےمیں حیا و عفت کا پاکیزہ حصار ہے۔ تو کیا ہم اس پاکیزہ پردے کے اپنے ہاتھوں سے چاک کر دیں۔ اس کو کون سی عقل سلیم قبول کرےگی۔ البتہ اس کا تعلق آپ لوگوں سے نہیں ہے، میں آپ کی خدمت میں بیٹھ کر متعلقہ افراد کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی ہوتا کہ کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ بچوں کی پہلی کلاس سے ہی انگریزی کی تعلیم دی جائے۔ کیوں؟ جب یہ بڑے ہو جائیں گے تو جس کو ضرورت کا احساس ہوگا انگریزی زبان سیکھےگا۔ امریکہ اور برطانیہ کتنے وسیع پیمانے پر پیسے خرچ کر رہے ہیں، تاکہ کسی قوم میں اپنی زبان کو آسانی سے رائج کر دیں؟ زبانی فارسی کے لئے دنیا میں ہمارے سامنے کتنی مشکلات ہیں ؟ دنیا میں ہمارے کلچر ہاؤس کام کر رہیں، ہمارے ثقافتی مرکز کے عہدیدار کو قتل کر دیا جاتا ہے ہماری ثقافتی سرگرمیوں کے لئے متعدد مسائل پیدا کئے جاتے ہیں؟ کیوں کہ ہم فارسی سکھانا چاہتے ہیں۔ اور ہم آپنے ہاتھوں سے انگریزی زبان کی ترویج کرتے ہیں جو مغربی کلچر کی ترویج کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ البتہ میں غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے حق میں ہوں ۔ ایک ہی زبان نہیں آپ دس غیر ملکی زبانیں سیکھئے اس میں کوئي قابل اعتراض بات نہیں ہے لیکن یہ کام معاشرے کی ثقافت کا حصہ نہ بن جائے۔
آج کچھ ممالک ہیں جن کی قومی زبان ، سرکاری زبان نہیں۔ آج ہندوستان اور پاکستان کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔ ان ممالک کے عدالتی امور کی زبان انگریزی ہے۔ جبکہ ان کے پاس ہندی اور اردو کے علاوہ سیکڑوں اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان میں اردو اور ہندوستان میں ہندی رائج ہے۔ لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ کس طرح ایک غیر ملکی زبان آئي اور اس نے ان کی قومی زبان پر غلبہ پالیا؟ اسی طرح یہ لوگ داخل ہوتے ہیں۔ برطانیہ نے ہندوستان میں بے تحاشا پیسے خرچ کئے اور نتیجے میں حالات موجودہ صورت اختیار کر گئے۔ بعض افریقی ممالک کی زبان، پرتگالی یا اسپینش ہے۔ وہ اپنی سرکاری زبان پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ یہ مناسب ہے؟ ایک غیر زبان کا قومی زبان پر غالب ہو جانا ٹھیک ہے؟ زبان کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم اسی کو کمزور کر دیں؟ کیوں؟ اس لئے کہ فلاں صاحب کا نظریہ یہ ہے۔ مدارس اور بچے آزمائش گاہ کے چوہے نہیں ہیں کہ ہم ان پر تجربہ کریں اور دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لوگوں کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جا سکتا اس بنا پر دانشوروں اور مفکرین کا ایک مرکز قائم کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت کے شعبے میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
میں جس بات کی پوری سنجیدگي سے حمایت کرتا ہوں وہ استاذہ کی تعلیمی سطح کو جہاں تک ممکن ہو بہتر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں بعض تجاویز بھی پیش کی گئي ہیں مثال کے طور پر اساتذہ کے درمیان تحقیق، تصنیف کی ترویج۔
ان سب سے بڑھ کر دینداری ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی اور آئندہ نسل آپ سے راضی اور خوش ہو اور آپ کو اچھے نام سے یاد کیا جائے تو آپ بچوں کو دیندار بنائیے۔ بچوں کی دیندار بنانا صرف دینی تعلیم دینے والے استاد کا کام نہیں ہے بلکہ ریاضی کا استاد، فیزکس کا استاد اور ادبیات کا استاد بھی اپنے شاگردوں کے دلوں میں دینداری کی شمعیں روشن کر سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ دینیات کے استاد سے زیادہ موثر واقع ہوتا ہے۔ جب دینیات کا استاد کلاس میں آتا ہے تو دینی امور کی تعلیم اس کا فریضہ ہے، بچے بلکہ سبھی انسان فرائض کو اپنے شانوں پر بوجھ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہ استاد بچوں کو کچھ ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہے۔ اگر وہ اس انداز بیان اور اس کی زبان میں شیرینی ہو اور بہت اچھا استاد ہو تو کسی حد تک وہ اپنی بات شاگردوں کے دلوں میں اتار سکتا ہے، اور اگر یہ خصوصیات نہ ہوئيں تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔ لیکن فزکس کا استاد، کیمسٹری کا استاد، ریاضیات کا استاد، ادبیات فارسی کا استاد، تاریخ کا استاد اپنی گفتگو کے دوران صرف ایک لفظ سے بچے اور نوجوان کے دل و دماغ کو متاثر کر سکتا ہےاور اسے دیندار بنا سکتا ہے۔ آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں بھی اور بعد کے مراحل میں بھی۔ بچوں کو دیندار بنائيے۔ بچوں کو دیندار بنانا وہ اہم ہدف ہے جس سے ملک کا مستقبل سنور سکتاہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک صنعتی اور دیگر شعبوں میں ترقی کرے علمی پیش رفت کرے اور علاقے میں پہلے نمبر پر رہے تو یہ ہدف دینداری کے جذبے کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ جب ایمان ہوتا ہے تو انسان ایمان کی سمت حرکت کرتا ہے اور تمام مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے۔
انقلاب کی جدوجہد کے دوران جب جیل میں مجھے بہت زیادہ مشکل صورت حال در پیش ہوتی تھی تو مجھے کمیونسٹوں پر رحم آتا تھا میں کہتا تھا کہ ان کا تو کوئي خدا نہیں ہے۔ جب ہم بہت زیادہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہیں دعا کرتے ہیں اور دو آنسو بہا لیتے ہیں ہمارے دلوں میں امید کی کرن موجود ہے۔ لیکن ان کمیونسٹوں کے پاس یہ نہیں ہے۔ انسان کے پاس اگر خدا ہے تو امید اور تابناک مستقل بھی ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تیس فروردین تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق انیس اپریل انیس سو پچانوے عیسوی کو فوجیوں کے ایک اجتماع سے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی خصوصیات اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے ان کے گہرے لگاؤ پر روشنی ڈالی۔ آپ نے انقلابی تحریک اور فوج کے تعاون کا جائزہ لیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سولہ فروردین تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پانچ اپریل سن انیس سو پچانوے عیسوی کو ادارہ حج و زیارات کے عہدہ داروں اور کارکنان کے اجلاس سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں حج کے اہم دینی و سماجی نکات پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں خاص ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور اس دشمنی کی وجوہات کا بھی ذکر کیا۔
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد لللہ رب العالمین والصلاۃ و والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
میں خدا وند عالم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے نئے سال کے پہلے دن یہ توفیق عطا فرمائی کہ آپ جیسے با ایمان، خدا پرست، اور اہل بیت پیغمبر سے عقیدت رکھنے والے بھائي بہنوں کے ساتھ، فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ سب سے پہلے تو میں اپنے امام ہشتم کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انشاء اللہ جذبہ شوق سے سرشار آپ کے دل بھی اس عظیم بارگاہ میں فیوض و نور الہی کے مستحق قرار پائيں گے۔
حال و مستقبل کی تعمیر قوم نے کی ہے اور کر رہی ہے
اس اجتماع میں جو شہر مشہد کے معزز عوام اور ديگر شہروں سے آنے والے زائروں سے سال نو کے موقع پر منعقد ہورہا ہے، کچھ ایسے موضوعات پر روشنی ڈالنی ہے جو ملک اور قوم و ملت کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس پیغام پر بھی روشنی ڈالنی ہے جو سال نو کی مناسبت سے ایرانی قوم کی خدمت میں پیش کیا گيا اور اسی طرح دو دیگر موضوعات پر جن میں ایک مجوزہ صدارتی انتخابات ہیں اور دوسرے دشمنوں کی سازشوں اور چالوں کو نقش بر آب کرنا ہے جو وہ ہماری قوم کے خلاف آزما رہے ہیں۔
جہاں تک پیغام کا سوال ہے تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمام شعبوں میں اور ہر اس میدان میں جو ایرانی قوم کے شایان شان ہے پیش رفت و ترقی کے لئے ہماری قوم کو یکجہتی اور عمومی تعاون و شراکت کی ضرورت ہے۔ ملک، عوام کا ہے مستقبل ایرانی قوم کی ملکیت ہے۔ حال و مستقبل کی تعمیر قوم نے کی ہے اور کر رہی ہے، لہذا اس سال کو قومی یکجہتی و عوامی مشارکت کا سال قرار دیا جانا تمام امور میں قوم کے اہم ترین مسائل کی جانب اشارہ ہے، یعنی تعاون، بھائی چارہ، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ، دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور اس سمت میں قدم بڑھانا جو قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے لازم ہے۔
حکام کے درمیان عوامی خدمت کے لئے مقابلہ آرائي ہو
ہر سال کو کسی عنوان سے منسوب کرنا اور ہر سال کے لئے کسی مخصوص نصب العین کا تعین اور اسی ساتھ نئے سال کا آغاز، محض رسم کی ادائگی نہیں ہے، البتہ ناموں کی اہمیت نہیں ہوتی اہمیت ان کے مفاہیم کی ہوتی ہے لیکن سال کو منسوب کرنے کا یہ سلسلہ ہمیں، ہماری قوم کو اور حکام کو یہ بتاتا ہے کہ ہمارے اہداف کیا ہیں ہماری ضروریات کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ علوی کردار کا سال، ایرانی قوم کے عظیم مقصد اور حکام و عہدیداران کے عظیم فرائض کی نشاندہی کرتا ہے۔ خدمت کا سال ہمیں اس عملی خاکے کی جانب متوجہ کرتا ہے جس پر ہم سب کو عمل پیرا ہونا چاہئے۔ یہ اہداف در حقیقت ہم عہدیداران سے عوام کے مطالبات ہیں۔ اگرسماجی انصاف کی بات ہوتی ہے یا نئے علوم کی تخلیق اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی عوامی تحریک کا تذکرہ ہوتا ہے یا آزاد فکر و بیان کی بات ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام اور حکام یہ احساس کریں کہ اس شعبے میں ان کے کچھ فرائض ہیں۔ ملک کو ان اہداف کی ضرورت ہے۔ البتہ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ اہداف پورے طور پر عملی جامہ نہیں پہن سکے تاہم اس سمت میں کارہای نمایاں انجام پائے۔ ہر نیا سال، گزشتہ سال کے تجربات کے سہارے قوم اور حکومت کو بلند اہداف کی جانب لے جانے میں مددگار ثابت ہونا چاہئے اور ہمارے قدموں میں مزید استحکام و ثبات کا باعث بننا چاہئے۔
ہماری قوم اور ملک کی نگاہیں مسلسل علوی کردار اور سماجی انصاف کے قیام پر مرکوز رہی ہیں، اور ہونا بھی یہی چاہئے ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ہماری قوم کو اس بات کی ضرورت ہے کہ حکام کے درمیان عوامی خدمت کے لئے مقابلہ آرائي ہو ۔ ہماری قوم کی ضرورت یہ ہے کہ حکام اسے جواب دینے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہیں۔ عوام میں سوال اٹھانے کا جذبہ بیدار رہنا چاہئے۔ اہداف محض نعرے نہیں ہیں بلکہ یہ ہم عہدیداروں کے فرائض کے مختلف پہلوؤں اور اسی طرح عوامی تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
تخریبی اقدامات، بد گمانیاں اور ناامیدی پیدا کرنے کے بجائے سعی و کوشش اور عوامی خدمت کے سلسلے میں مقابلہ ہونا چاہئے۔ بعض افراد ہیں جو عوام کے سلسلے میں اپنے فرائض کا دار و مدار قوم کی ضروریات اور اعلی اہداف کو قرار نہیں دیتے۔ ہماری عظیم، شجاع اور مومن قوم اسی وقت اپنے عظیم اہداف تک رسائي حاصل کر سکتی ہے جب اس میں نامیدی اور مایوسی پھیلانے کے بجائے نوجوانوں کے سامنے تابناک مستقبل کا خاکہ کھینچا جائے اور امید کی کرن پیدا کی جائے۔ حکام کے درمیان بد گمانی اور غلط فہمی کے بجائے، اخوت، اتحاد ، مساوات اور تعاون کو فروغ دیا جائے اور پھر حکام یہ جذبہ عوام میں پھیلائیں۔
ہماری قوم اسی صورت میں اپنے اہداف تک پہنچ سکتی ہے اور اپنے راستے کی گوناگوں مشکلات کو دور کر سکتی ہے کہ جب حکام کے درمیان ایمان و جہاد کو اقدار کا درجہ حاصل ہو جائےگا۔ اس جہاد سے مراد علمی جہاد ہے،سماجی انصاف کا جہاد ہے ، اقتصادی جہاد ہے اور انتظامی صلاحیتوں کا جہاد ہے۔ ملک کے عہدیداران اور ذمہ داران اور پھر ان کے بعد عوام جب ان اہداف پر توجہ دیں گے تو اعلی مقاصد کی جانب ملک پوری رفتار سے آگے بڑھے گا۔ اس سال خاص طور پر قومی یکجہتی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو صدارتی انتخابات کے لئے کہ جو ہمارے سامنے ہیں اور دوسرے اس لئے کہ ایرانی قوم اپنی یکجہتی اور وسیع مشارکت سے ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائے گي۔ صدارتی انتخابات میں تین مہینے سے کم کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں جو اس مدت میں عوام کے سامنے پیش کی جائيں گي۔
ملک عوام کی خواہشات اور ان کے نظریات پر استوار ہے
آج میں اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ صدارتی انتخابات میں کھلی آنکھوں کے ساتھ شرکت اور عوام کے دانشمندانہ انتخاب، ملک کے مستقبل میں عوامی مشارکت اور تعاون کے مترادف ہے۔ ہمارا ملک عوام کی خواہشات اور ان کے نظریات پر استوار ہے۔ گذشتہ چھبیس سال کے عرصے میں دشمن اور موقع پرست عناصر وطن عزیز کو نقصان اور گزند پہنچانے میں اس لئے ناکام رہے ہیں کہ مختلف میدانوں میں عوام بھرپور انداز میں موجود رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے جشن یا یوم قدس کے جلوسوں میں آپ کی وسیع شرکت اسی طرح گزشتہ برسوں کے انتخابات میں آپ کی فعالیت ملک کی سلامتی کی ضامن بن گئی۔ ملک کے مستقبل کی تعمیر میں شرکت در اصل ملک کی قیادت میں عوامی کردار کا مقام رکھتی ہے اور ساتھ ہی بڑے بڑے دشمنوں کی طولانی مدت سازشیں بھی اس سے نقش بر آب ہو جاتی ہے۔
انتخابات حق بھی اور فریضہ بھی
دوسری بات یہ کہ انتخابات قوم کا حق بھی ہے اور ایک قومی فریضہ بھی۔ اسلامی جمہوری نظام نے سامراجی طاقتوں کے مسلط کردہ نظاموں پر خط بطلان کھینچ دیا اور ملک کے نظام میں عوام کے کردار کو نمایاں کیا، تو یہ ہر فرد کا حق ہے کہ انتخاب کرے اور ملک کے سربراہ کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کرے۔ دوسری جانب یہ ایک فریضہ بھی ہے ۔ اس لئے کہ اس شراکت سے سماج میں جوش و ولولہ اور ذمہ داری کا احساس ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور دشمن مایوسی کے ساتھ عوامی جوش و خروش اور وسیع شرکت کو دیکھتے ہیں۔ لہذا انتخابات نہ تو صرف فریضہ ہے اور نہ ہی صرف حق بلکہ حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔
ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے جو رکاوٹوں کو دور کرے
ایک اور بات یہ ہے کہ اس سال کے صدارتی انتخابات دیگر صدارتی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال سے ملک کا چوتھا ترقیاتی پروگرام شروع ہو رہا ہے۔ بیس سالہ منصوبے پر عملدرآمد کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ اس وقت ہمارا ملک اللہ کے فضل و کرم سے اس پوزیشن میں پہنچ گیا ہے کہ ایران کی آئندہ بیس سالوں کی منصوبہ بندی کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ بیس سالہ منصوبہ پانچ پانچ سالوں کے چار پروگراموں پر مشتمل ہے اور پہلا پروگرام اسی سال شروع ہو رہا ہے۔ منصوبے کے آغاز کے وقت ایک با صلاحیت اور جوش و جذبے سے سرشار مینیجمنٹ کی ضرورتی ہے جو اس منصوبے کی بنیادوں کو مضبوطی عطا کرے اور پوری کامیابی کے ساتھ اس کو عملی جامہ پہنائے۔ انتخابات کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ قوم کو ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے جو منصوبے پر عملدرآمد کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو دور کر سکتا ہو۔ جیسے بلڈوزر رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے راستہ ہموار کرتا ہے۔
ایک قابل، کام سے دلچسپی رکھنے والا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے والا انسان بیس سالہ پروگرام کے تحت، جو اس سال سے شروع ہو رہا ہے، مطلوبہ اہداف کی جانب پوری خود اعتمادی اور توانائي کے ساتھ قدم بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات میں قوم جس شخص کی حمایت کرے گی وہ اس نئي مہم کا آغاز کرے گا اور ملک کو ایک نئے دور میں پہنچائےگا ملک کو ان اہداف کی سمت گامزن کرے گا جو ایرانی قوم کا نصب العین ہے۔ گزشتہ برسوں میں جنگ کے بعد ( 80 ۔ 1988 ) سے اب تک ملک میں بہت وسیع پیمانے پر کام ہوا، جو بھی اس بات کا انکار کرے در حقیقت نا انصافی سے کام لے رہا ہے۔ ملک کی بنیادی تنصیبات کی تعمیر، ترقیاتی کام، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی الغرض ہر شعبے میں اہم پیش رفت ہوئي ہے۔
آج جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس مدت میں جو عمارت تیار کی گئی ہے وہ اب عوام کی زندگی کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے اثرات دکھائے ، اس بند کے پیچھے جو عظیم آبی ذخیرہ ہے وہ عوامی زندگی کی کھیتی کو سیراب کرے۔ اور اس طولانی سعی و کوشش کے ثمرات عوامی زندگی اور ان کے دسترخوان پر نظر آئیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے اس کے لئے بہت سی رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے با صلاحیت شخص کا انتخاب عوام کا اس سال کا سب سے اہم کام ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صدر کا ہمارے نظام میں بڑا اہم مقام ہے۔ قانونی اور آئینی لحاظ سے اسے بڑے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ ملک کا پورا بجٹ صدر کے اختیار میں ہوتا ہے۔ مختلف سطح کے عہدیداران اور اداروں کے سربراہ ،صدر کی ما تحتی میں کام کرتے ہیں۔ اس بنا پر صدر کے انتخاب کے معنی ایک ایسے سربراہ کے انتخاب کے ہیں کہ جو ملک کے بجٹ وسائل اور انتظامی امور میں اہم ترین کردار کا حامل ہو اور عوامی زندگی کے ہر شعبے میں ان وسائل کو اس انداز سے تقسیم کرے کہ اس عظیم ثروت کے ذریعے عوام کی ضروریات کی تکمیل ہو۔ ہمارے ملک اور ہماری قوم کے پاس گذشتہ سالوں کی سعی پیہم کے نتیجے میں وسائل کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ آئندہ ملک چلانے والی انتظامیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس ثروت میں اضافہ کرے اور اسے صحیح طور پر بروئے کار لائے ، بد عنوانی کے خلاف حقیقی جد وجہد کرے۔ اگر ہماری قوم معاشرے میں بد عنوانی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس وقت معلوم ہوگا کہ اسلامی انقلاب نے عوام کو کیا کیا عطا کیا ہے۔ اور کس طرح عوامی ضروریات کی تکمیل پر قادر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر جن کی جانب میں نے اشارہ کیا آئندہ انتخابات بہت اہم ہیں۔
عوام کو چاہئے کہ بہت ہوشیاری اور دانشمندی کے ساتھ انتخابات میں شرکت کریں اور مختلف امیدواروں میں سے اس شخص کا انتخاب کریں جو عوام کے نزدیک ان معیاروں پر پورا اترے۔ یہ ایک بڑا کام ہے اور یہ ملک کے عوام کا کام ہے۔ عوام کو چاہئے کہ اس میدان میں کھلی آنکھوں کے ساتھ قدم رکھیں۔ انشاء اللہ عوام کو الہی مدد حاصل ہوگی اور انہیں ہدایت ملے گي جس کی بنیاد پر وہ شجاع، مخلص ، عوام دوستی کے جذبے سے سرشار، انقلابی اقدار کے پابند، عوامی قوت پر اعتماد اور عوامی حقوق کا احترام کرنے والے شخص کا انتخاب کریں گے ۔ اس سال یہ سب سے اہم عوامی تعاون اور مشارکت ہے۔ ہر شعبے میں عوامی شراکت ضروری ہے اور یہ بھی ایسا ہی ایک موقع ہے۔
ابھی سے آپ ستائیس خرداد کی تاریخ کی تیاری میں رہیں جو انتخابات کی تاریخ ہے۔ابھی سے آپ تحقیق کا کام شروع کر دیں۔ ابھی حالانکہ با ضابطہ طور پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا گيا ہے، اس کا اعلان مقررہ وقت پر ہوگا۔ ملک کے دور دراز کے کسی علاقے میں یا کہیں بھی رہنے والے ہر شخص کا یہ حق ہے کہ انتخابات میں اپنی مرضی کا اظہار کرے۔ دور دراز کے علاقے میں رہنے والے شخص کا حق دارالحکومت میں رہنے والے شخص کے حق کے برابر ہے، لہذا ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے۔ انہیں افراد کے مجموعے سے ایرانی قوم کا عزم محکم اور ٹھوس ارادہ تشکیل پائے گا اور سامنے آئے گا۔ یہ وہی چیز ہے جو ملک کی ترقی اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اہم ہے۔
دشمنوں کی دھمکیاں فرائض سے توجہ نہ ہٹانے پائیں
اب رہا دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کرنے کا سوال، تو یہ بھی عوامی شراکت اور قومی یکجہتی کی دین ہے کہ اس میں اب تک کامیابی حاصل ہوئي ہے۔ اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنا ہیں۔
دشمن کا خطرہ ایک فطری چیز ہے۔ جو قوم بھی خود مختار رہنا چاہتی ہے اور عالمی طاقتوں کا تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اسے ان طاقتوں کی دھمکیوں اور ناراضگي کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہماری قوم ان دھمکیوں کی عادی ہو چکی ہے۔ چھبیس سال سے سامراجی طاقتیں امریکی قیادت میں ایرانی قوم سے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کر رہی ہیں اور بار بار ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔ ہماری قوم کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ہماری قوم دشمن کی ان دھمکیوں کو کوئي وقعت نہ دیتے ہوئے اپنے راستے پر گامزن ہے ،آج اسلامی جمہوری نظام اور انقلاب سے تشکیل پانے والی حکومت کی توانائياں اور طاقت اس وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں جب تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ آج ہماری قوم زیادہ طاقتور ہو چکی ہے۔ سائنسی، اقتصادی اور دفاعی اسی طرح دیگر شعبوں میں ہماری صلاحیت بہت بڑھ چکی ہے۔ دشمنوں کے خطرات بھی موجود ہیں۔
ملک کے حکام کے لئے میری سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ دشمنوں کی دھمکیاں سن کر اپنی توجہ اپنے فرائض سے نہ ہٹنے دیں، اپنا کام جاری رکھیں۔ قوم اور حکومت کو چاہئے کہ ہر وقت آمادہ رہے ایک لمحے کے لئے بھی بیرونی خطرات سے غافل نہ ہو، یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دشمنوں کی دھمکیوں سے ملک کے حکام کے کام میں کوئي خلل آئے اور فرائض کی انجام دہی میں ان سے کوئي کوتاہی ہو۔
آج امریکی حکام جو شور شرابا کر رہے ہیں وہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی اسلحہ بنانے کے الزامات سے متعلق ہے۔ امریکی صدر اور دیگر حکام نے بارہا ایران میں بنائے جانے والے ایٹمی اسلحے کے خطرات کی بات کی ہے۔ خود ان کو بخوبی معلوم ہے کہ ایٹمی اسلحہ بنانے کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، ان کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ایران نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایرانی قوم کی پیش رفت کے مخالف ہیں، ورنہ انہیں بخوبی آگاہی ہے کہ ہم ایٹمی اسلحہ نہیں بنا رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس حساس علاقے میں جہاں دنیا کے تیل کے ذخائر کا سب سے بڑا حصہ موجود ہے اور جسے دنیا کے حساس ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، یعنی مشرق وسطی میں کوئي ایسا ملک ہو جو خود مختاری کے ساتھ اسلام کے پرچم تلے آگے بڑھے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہو۔ مغربی ممالک کی دلی تمنا یہی ہے کہ ایران سمیت خطے کے ممالک ہمیشہ ان کے محتاج رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ آپ کو ایٹمی بجلی گھر رکھنے سے کون روکتا ہے، ہاں یہ ہے کہ آپ ایٹمی ایندھن ہم سے حاصل کریں۔
میں نے چند سال قبل مشہد مقدس میں نوروز کے موقع پر کہا تھا کہ وہ تیل جو آج ہمارا ملک اور مشرق وسطی کا خطہ پیدا کر رہا ہے، یورپیوں اور مغربی ممالک کے پاس ہوتا اور ہمیں ان سے یہ تیل خریدنا ہوتا تو وہ یہ تیل اس قیمت سے کہیں زیادہ ہمیں فروخت کرتے جس قیمت پر وہ آج ہم سے خرید رہے ہیں، وہ ہمیں تیل دینے کو تیار نہ ہوتے۔ وہ ہر اس چیز سے تشویش میں مبتلا ہیں جو اس خطے کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دے اور خود مختار بنا دے۔ وہ چاہتے ہیں کہ افرادی قوت اور زمین دوز ذخائر سے مالامال یہ خطہ ہمیشہ ان کے سامنے دست نیاز دراز رکھے۔ اسی لئے وہ ہماری ٹیکنالوجی کے مخالف ہیں ہمارے نوجوانوں کے سائنسداں بننے کے مخالف ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہو تو وہ اس پر بھی احتجاج کریں کہ ہمارے پاس موجود تیل کے ذخائر کیوں موجود ہیں۔ وہ لوگ ایک زمانے میں خطے کے ممالک کے حکام کی نااہلی کا غلط فائدہ اٹھایا کرتے تھے، وہ تیل کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ سالوں تک ایران کے تیل کے ذخائر برطانیہ کے اختیار میں تھے۔ اس وقت مقامی حکومت کو تھوڑا بہت دے دلا کر خوش کر دیتے تھے اور سارا کا سارا تیل اٹھا لے جاتے تھے، بعد میں امریکہ اور دیگر ممالک بھی ٹوٹ پڑے اور بندر بانٹ کا سلسلہ شروع ہو گيا۔ وہ ایران سے یہی چاہتے ہیں، اس ایران سے جو ایٹمی بجلی گھر چلانے اس کا ایندھن خود تیار کرنے اور یورپی ممالک کے آگے دست نیاز دراز نہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایٹم بم کا استعمال تو امریکیوں کا وطیرہ ہے
ایٹمی توانائي ایک قیمتی ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے اور عوامی زندگي کے لئے بہت اہم بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے بجلی گھر ایٹمی توانائی سے چلتے ہیں، بجلی کی پیداوار ایٹمی ٹیکنالوجی کی ایک افادیت ہے اور یہ ٹیکنالوجی ہر ملک کے لئے بڑے فخر کی بات بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم کو یہ افتخار حاصل نہ ہو ۔سارا جھگڑا اسی بات پر ہے۔ البتہ وہ جھوٹ سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ ایران ایٹم بم بنا لے گا۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ ایٹمی اسلحہ ہمارے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ ایرانی قوم کو بھی اس کا علم ہونا چاہئے نوجوانوں کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے۔
ایٹمی توانائي کے سلسلے میں مغربی بالخصوص امریکی تشہیراتی یلغار میں جو بات کہی جا رہی ہے اس کا ہدف یہ ہے کہ ایرانی قوم کو ایک اہم ترین پیش رفت اور ترقی سے محروم کر دیا جائے۔ یہ تو ہمارا حق ہے ہم کیوں محروم رہیں؟ بےشک یہ ایرانی قوم کا مسلمہ حق ہے۔ یہ علم بھی ہے ٹیکنالوجی بھی اور ماحولیات کے حفاظت کا اقدام بھی ہے۔ اس کے طبی فوائد بھی ہیں یہ ملک کے نوجوانوں کی ترقی کی ضمانت بھی ہے۔ تو یہ طے ہے کہ ہماری قوم کبھی بھی اس سے دست بردار نہیں ہوگي۔
سراپا نفاق جھوٹے امریکی سیاستداں اپنے مذموم عزائم کو پردہ راز میں رکھنے کے لئے ایران پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ایٹمی وارہیڈ بنا رہا ہے تاکہ اسے اپنے بیلسٹک میزائلوں پر نصب کرے اور پھر اسے فائر کر دے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں فائر کر دے؟ ہم تو اپنے دشمنوں سے یہ برتاؤ نہیں کرتے، بے گناہ انسانوں کو نابود کر دینے کے لئے ایٹم بم کا استعمال تو امریکیوں کا وطیرہ ہے۔ تاریخ میں صرف ایک امریکی حکومت ہی ہے جس نے یہ انسانیت سوز جرم انجام دیا ہے۔ مغربی ممالک نے ہی کیمیاوی ہتھیار بنائے، انہیں استعمال کیا اور آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے دوران یہ ہتھیار بعثی حکومت اور صدامیوں کو دیئے گئے اور پھر ان اسلحوں کے استعمال سے جو انسانی المیہ رونما ہوا اس پر انہوں نے اپنے منہ پر تالے لگا لئے، انہوں نے صدام کی مدد کی۔ اسلام نے ہمیں اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ ہم علم کا استعمال پیش رفت کے لئے کرتے ہیں، امریکی تو صرف بہانے تراشتے رہتے ہیں۔
البتہ یہ بھی عرض کر دوں کہ ملت ایران اس بات پر توجہ رکھے کہ بعض افراد جو یہ بے سر پیر کی بات کرتے ہیں کہ ہم ایٹمی ٹکنالوجی کو لے کر کیوں بیٹھ گئے ہیں وہ در حقیقت قوم کے دشمنوں کے حق میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں بھی یہ جان لینا چاہئے کہ اس وقت ایران کے خلاف ہنگامہ آرائي کے لئے امریکہ کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی ایک بہانہ ہے۔ تسلط پسند طاقتیں اپنی شان اسی میں سمجھتی ہیں کہ دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کریں، ایسی حکومتوں کا کام دھونس دھمکی سے ہی چلتا ہے۔ دنیا کی بہت سی قومیں اور حکومتیں بسا اوقات ان دھمکیوں سے متاثر بھی ہو جاتی ہیں نتیجتا ان طاقتوں کو ان پر مزید تسلط حاصل ہو جاتاہے۔ ان کا کام دھمکیاں دینا ہے اور آج ان دھمکیوں کے لئے ان کا بہانہ ایٹمی ٹیکنالوجی ہے، اگر ایٹمی ٹیکنالوجی نہ ہو تو وہ کوئي بہانہ تلاش کر لیں گے۔
عراق ، افغانستان ، امریکہ کے اندر واقع جیلیں امریکی جرائم کے گواہ
یہ وہ حکومتیں ہیں جو دہشت گردوں کی پرورش کرتی ہیں لیکن دہشت گردی کا الزام اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلمانوں پر لگاتی ہیں۔ امریکی فوجی اور سکیورٹی اہل کار عراق کے مقبوضہ علاقوں اور ابو غریب جیل میں بد ترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا ایک نمونہ ابو غریب کے واقعات ہیں جبکہ دوسری لاتعداد مثالیں بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ انسانوں کی توہین کرتے ہیں انہیں روند ڈالتے ہیں۔ عراق ہو، افغانستان ہو، امریکہ کے اندر واقع جیلیں ہوں یا پھر گوانتانامو، سب امریکی جرائم کے گواہ ہیں۔ اور عالم یہ ہے کہ دوسروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، دنیا کی کوئی بھی حکومت امریکی حکومت کے طرح انسانی حقوق کو پامال نہیں کرتی۔ میں حالیہ چند سالوں کے اعداد و شمار اور واقعات کا تجزیہ کرکے جو ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شائد ہی دنیا میں کوئي حکومت ہوگي جس نے امریکی حکومت کے جتنا انسانی حقوق کو پامال کیا ہو۔ یہ (بش) حکومت خود امریکہ کے اندر بھی انسانی حقوق کا مذاق اڑا رہی ہے۔ آج بھی ماضی کی طرح ہی سیاہ فام امریکی ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جب امریکہ میں جارج بش سینیئر کی حکومت تھی، بعض امریکی ریاستوں میں سیاہ فام افراد کے خلاف جاری مظالم کے خلاف شورش ہوئي جسے پولس قابو میں نہیں کر سکی تو فوج کو بلایا گيا۔ اس کے بعد والے صدر کے دورے میں داؤدیان فرقے کے اسی سے زائد افراد جو امریکی حکومت کی پالیسیوں کے مخالف عیسائي تھے، ایک گھر میں جمع تھے، وہ لوگ پولس کے انتباہ پر باہر نہیں نکلے تو انہیں زندہ جلا دیا گيا۔ لیکن ان حکام کی پیشانی پر بل نہ پڑے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا یہ امریکی انداز ہے۔ موجودہ صدر(بش) کے زمانے میں شمالی افغانستان میں جب افغانستان پر قبضے کی کاروائي جاری تھی، عوام پر جو بم برسائے گئے اور شہروں میں جو مجرمانہ کاروائیاں ہوئیں ان کے علاوہ ایک جیل میں بند بڑی تعداد میں قیدیوں پر اندھا دھند گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کر دیا گيا۔ یہ خبر دنیا میں پھیلی لیکن ذرائع ابلاغ کے شعبے پر مسلط سامراجی طاقتوں نے ان خبروں کو زیادہ دیر تک عوام کے سامنے نہیں رہنے دیا، فوری طرح پر اس خبر کو دبا دیا گيا۔ لیکن یہی امریکی حکام ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ فلاں قیدی کی توہین کر دی گئي۔ مثال کے طور اگر کسی قیدی کو اچھی چپلیں نہیں دی گئيں تو کہا جائے گا کہ اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہو گئی۔ امریکہ میں جس انداز سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں امریکی جس طرح انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں اس کی کوئي اور مثال کہیں نہیں ملتی ، لیکن مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ایران کو اور ایران کےاسلامی نظام کو۔ انسانی حقوق کا پرچم ان لوگوں نے اٹھا رکھا ہے جو خود انسانی حقوق کو پامال کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کی دھمکیاں ایٹمی مسئلے تک ہی محدود نہیں ہیں ایرانی حکام اور قوم کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ دشمنوں کی دھمکیوں پر ہرگز توجہ نہ کریں اپنے راستے پر گامزن رہیں اپنا کام آگے بڑھاتے رہیں۔ البتہ متعلقہ حکام کو ہوشیار بھی رہنا چاہئے اور ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔
امتحان کی گھڑی آ جائے تو ہم لباس جہاد پہننے میں پیش پیش ہوں گے
یہ بھی عرض کر دوں کہ ہم امریکی حکام کی مانند جنگ پسند نہیں ہیں۔ وہ جنگ پسند ہیں، لیکن جب ملک اور قوم کے مفادات کی حفاظت کی بات آ جائے گي تو ہم جان پر کھیل جائیں گے۔ قربانی صرف عوام نہیں دیں گے حکام بھی اس میں شامل ہوں گے۔ جب گيارہ ستمبر کا واقعہ ہوا اور نیویارک میں جڑواں ٹاوروں کو نشانہ بنایا گيا تو دو تین دنوں تک کسی اعلی رتبہ امریکی عہدیدار کا کہیں کوئي پتہ نہیں تھا۔ ہم ایسے نہیں ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم کے لئے امتحان کی گھڑی آ جائے تو ہم لباس جہاد پہننے میں پیش پیش ہوں گے اور جان کی بازی لگا دینے کے لئے آگے آئیں گے۔
خطرات کو پے اثر بنا دینے کا ایرانی قوم کا سب سے موثر حربہ قومی یکجہتی اور اخوت ہے۔ دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایرانی قوم کو ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہے، آپ عوام کا اتحاد و یکجہتی اور ایمان و دین کی رسی سے آپ کا مضبوط رشتہ ہی ایران کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد سے گزشتہ چھبیس برسوں کے دوران ہر موقع پر مؤثر واقع ہوا ہے اور آئندہ بھی کارگر ثابت ہوتا رہے گا۔
آپ اپنے اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھئے۔ دشمن نے عوام کے اتحاد کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ دشمن نے بڑے احمقانہ انداز میں اپنے ایجنٹوں سے امید باندھ رکھی ہے۔ یہ خام خیالی اور حماقت ہے۔
آج امریکی علی الاعلان اپنے عزائم کو بیان کر رہے ہیں۔ یہ بھی استبدادی طاقتوں پر خدا کی مار پڑنے کانتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران میں ہم ان لوگوں کی جو امریکی اہداف کی تکمیل کر رہے ہیں مالی مدد کریں گے۔ ان لوگوں نے ہماری قوم کو پہچانا ہی نہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ہم پیسے خرچ کرکے ایران میں اپوزیشن اور حزب اختلاف تشکیل دیں گے۔ سب کو جان لینا چاہئے کہ جو کوئي بھی امریکی پیسے سے اور امریکی حکام کی حمایت سے امریکی اہداف کی تکمیل کی کوشش کرے گا اور خود کو اپوزیشن اور حزب اختلاف کے پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کرے گا، ایرانی قوم کی نظروں میں ذلیل وخوار ہوگا۔ پوری ایرانی قوم، بالخصوص اہم شخصیات، نوجوان طبقہ، طلبا اور وہ افراد جو اپنے اطراف کے افراد پر اپنا اثر رکھتے ہیں، انہیں آگاہ ہو جانا چاہئے کہ آج تمام مسائل اور مشکلات کا حل صرف قومی یکجہتی اور عوامی مشارکت ہے۔
دلوں کو آپس میں قریب کیجئے۔ اللہ تعالی سے مدد مانگئے اور ہماری قوم کو اللہ تعالی نے جو توانائياں اور صلاحیتیں عطا فرمائي ہیں انہیں بروئے کار لائیے۔ اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔ ایرانی قوم کا مستقبل ماضی کے مقابلے میں یقینی طور پر بہتر ہوگا۔ انشاء اللہ تعالی امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال ہوں گي۔ میں اللہ تعالی سے شہدا کی پاک ارواح اور حضرت امام خمینی (رہ) کے لئے رحمت و مغفرت و لطف و فیض کی دعا کرتا ہوں اور آپ سب کو اللہ تعالی کی پناہ میں دیتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نئے شمسی سال1384 کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا خطاب
بسم اللہ الرحمان الرحیم
یا مقلب القلوب و الابصار، یا مدبر اللیل والنھار، یا محول الحول والاحوال، حول حالنا الی احسن الحال
معزز مہمانوں، ایرانی قوم شہدا کے اہل خانہ جانبازوں اور وطن کے دفاع میں اپنے اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے جاں نثاروں کو عید نوروز اور سال نو کی آمد کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اسی طرح ان تمام اقوام کی خدمت میں عید نوروز کی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو نوروز کا جشن مناتی ہیں۔ ہم ایسے عالم میں نئے شمسی سال تیرہ سو چوراسی میں داخل ہو رہے ہیں کہ جب گذشتہ سال کو ہم نے کچھ تلخ واقعات اور کچھ شیریں واقعات کے ساتھ گذارا۔ اس سال زلزلہ، سیلاب اور آگ لگنے جیسی قدرتی آفات نہ ہوتیں تو ہماری قوم اور بھی شادمانی کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرتی۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ نئے سال کو ایرانی قوم کے لئے امن و سلامتی، مسرت وشادمانی اور کامیابی و کامرانی کا سال قرار دے۔ گذشتہ سال جوابدہی کا سال تھا، عوامی مطالبات کے سلسلے میں ہمارے حکام کی جوابدہی کا سال، بعض حکام نے بہت مناسب انداز میں اپنے فرائض انجام دئے۔ بہرحال گذشتہ سال کے لئے جوابدہی کا جو ہدف مقرر کیا گيا تھا بنیادی طور پر وہ پورا ہوا، کیونکہ سکے کے دوسرے رخ پر سوالات و مطالبات ہیں، شمسی سال تیرہ سو تراسی کو جوابدہی کا سال قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ قوم کے ذہن میں سوالات پیدا ہوں اور حکام کویہ احساس ہو کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ جوابدہی اور سوالات و مطالبات کا جذبہ اور عوامی مطالبات کے سلسلے میں ہمارے حکام کی فرض شناسی اور فرائض کی ادائگي سن تیرہ سو تراسی سے ہی مخصوص نہیں تھی، ہر سال ایسا ہی ہونا چاہئے۔ البتہ عوام کے سامنے جوابدہی کی پالیسی کے تعلق سے حکام کی کارکردگي یقینی طور پر مستقبل میں عوام کے مزاج پر اثر انداز ہوگی۔ یہ جو سال آیا ہے، بڑا اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ اس سال کے دوران ایسے انتخابات ہونے والے ہیں جو ملت ایران کے لئے ایک چار سالہ دور میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اسی طرح اس بیس سالہ منصوبے کے لحاظ سے جسے اسلامی نظام نے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے تیار کیا ہے۔ اسی سال سے بیس سالہ منصوبے کے تحت آئندہ پانچ سال کے پروگرام طے کئے جائيں گے۔ اسی کی بنیاد پر بجٹ تیار کئے جائيں گے اور حکام اسی تناظر میں اپنی کاوشیں اور کوششیں کریں گے۔ اس بنا پر یہ نیا سال انتخابات کے لحاظ سے بھی اور بیس سالہ منصوبے کے تحت پانچ سالہ پروگراموں کے تعین کے لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکام اپنے فرائض کو پور ی ذمہ داری سے محسوس کریں اور مجریہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں، بیس سالہ منصوبے کے تحت عائد ہونے والی بڑی ذمہ داریوں کو ملک کے مستقبل کے لئے ایک عظیم فریضہ تصور کریں۔ اگرچہ اس بیس سالہ منصوبے کے تحت چار سالہ یا اس سے کم مدت کے پروگرام رکھے گئے ہیں تاہم ہر مرحلے کو وطن عزیز اور ملک کے مستقبل کے سلسلے میں فیصلہ کن اہمیت کے حامل سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے خاص کر ابتدائي برسوں میں اس منصوبے کے اقدامات مضبوطی سے انجام دئے جانے چاہئیں تا کہ ان کی بنیاد پر ایک مستحکم عمارت کھڑی کی جا سکے جو ملک و قوم کے لئے پیش رفت و ترقی کا زینہ ثابت ہو۔ ہمارے عوام اور حکام دونوں کو لئے جو بات اہم ہے وہ باہمی تعاون، قومی اتحاد اور حکام کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں عوامی یکجہتی ہے۔ اس عمل کا بحسن و خوبی آگے بڑھنے کا عمل اور عوام و حکام کے درمیان تعاون ، مطلوبہ اہداف تک رسائی میں ہماری مدد کر سکتاہے ۔ اس بنا پر نئے سال میں ایرانی قوم کا نعرہ ہے قومی یکجہتی اور عوامی تعاون ۔ انتخابات اور ان تمام امور اور منصوبوں میں جو موجودہ حکومت نے طے کئے ہیں یا جسے آئندہ حکومت اپنے ایجنڈے میں جگہ دے گي عوام کی شراکت اور یکجہتی، قومی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں حکومت و عوام کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی سے ایرانی قوم کی شادمانی و کامرانی اور حکام کے لئے قوم کی خدمت کی توفیق کی دعا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ایرانی قوم کے شامل حال ہوں ۔ میں درود بھیجتا ہوں اس قوم کے عظیم امام کی روح مقدسہ پر جس نے اس عظیم نظام کی بنیاد رکھی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں نے 19 / 11 / 1383 ہجری شمسی مطابق 7 / 2 / 2005 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ یہ سالانہ ملاقات انیس بہمن تیرہ سو ستاون ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں پر فضائيہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کی بیعت کی مناسبت سے ہوتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمیا قَومَنا اَِجیبُوا داِعیَ اللہ و آِمنُوا ِبہِ یَغْفرَلکُم ِمنْ ذُُنُو ِبکُم وَ یُجرکُم ِمن َعذاب اَلیماللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آؤ تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ دے الٰہی دعوت قبول کرنے والوں لبیک کہنے اور ہرولہ کرنے والوں نے ایک بار پھر خود کو اپنے محبوب کے گھر پہنچا دیا ہے۔ حج کا موسم آپہنچا ہے اور صفا و معنویت کے دلدادہ لوگوں کے لئے شوق اور آرزؤوں کے منظر کھل گئے ہیں۔ خدا کا گھر اور دلوں کا قبلہ آپ کےسامنے ہے۔ ذکر و معرفت کے چشمے جاری کرنے کے لئے عرفات و مشعر آراستہ ہیں۔ منیٰ و صفا قرب الٰہی حاصل کرنے اور شیطان پرکنکریاں مارنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ توحید اور اتحاد و یکجہتی کے شفاف چشمے سے سیراب ہوکر اپنا کردار سدھارنےکا موقع آ پہنچا ہے۔ احرام باندھتے وقت آپ نے جو صدائے لبیک اپنی زبان پر جاری کی ہے، اسے اپنے دل میں اتارئے اور اپنے محبوب کے حریم کی طرف سفر کی آپ نے جو دعوت قبول کی ہے، اس میں حج کے معنی و مقصد پر غور کر کے اس عبادت سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیجئے۔ فریضۂ حج جب معرفت و آگاہی کے ساتھ بجا لایا جائے تو حج کرنے والے مسلمانوں اور امت مسلمہ کو فائدہ پہنچاتا ہے، حاجی کو صفا و پاکیزگی اور معنویت کی طرف لے جاتا ہے اور اُمّت کو اتحاد و یکجہتی اور عظمت و شوکت سے نزدیک کرتا ہے۔ حاجیوں کے لئے پہلا قدم خودسازی ہے۔ احرام، طواف، نماز ، مشعر، عرفات، منٰی، قربانی، رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) اور حلق (سرمنڈانا) یہ سب کے سب خدا کے روبرو انسان کی انکساری، خشوع و فروتنی اور ذکر وگریہ و زاری اور تقرب الٰہی کے جلوے ہیں۔ ان پُر معنی مناسک و اعمال کو غفلت کے ساتھ انجام نہ دیجئے۔ حج کا مسافر اِن تمام اعمال میں خود کو اپنے محبوب کے ساتھ تنہا دیکھے۔ اس سے روزانہ راز و نیاز کرے، اس سے حاجت طلب کرے اور اسی سے لو لگائے۔ شیطانی اور نفسانی خواہشات کو دل سے نکال دے اور حرص و حسد، بزدلی اور نفسانی خواہشات کو خود سے دور کر دے۔ اپنی ہدایت اور اس کی عطا کردہ نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرے۔ دل کو خدا کی راہ میں جہاد کے لئے آمادہ کرے، مؤمنوں سے پیار و محبت نیز عناد رکھنے والوں اور حق کے دشمنوں سے دشمنی کو اپنے دل میں جگہ دے۔ اپنی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی اصلاح کے لئے مصمّم عزم کرلے اور دنیا و آخرت کی آبادی کےلئے اپنے خدا سے عہد و پیمان کرے۔ حج ایک گروہی و اجتماعی کام ہے۔ حج کی الٰہی دعوت اس لئے ہے کہ مؤمنین خود کو ایک دوسرے کے نزدیک دیکھیں اور مسلمانوں کے اتحاد کا مجسم نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حج اجتماعی طور سے خدا کا قرب حاصل کرنے اور شیاطین انس و جن سے برائت و بیزاری کا اظہار کرنےکے لئے ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کے اتحاد ویکجہتی کی مشق ہے اور امتِ مسلمہ کو آج سے زیادہ اس باہمی بھائی چارے اور مشرکین سے کھلم کھلا برائت و بیزاری کی کبھی ضرورت محسوس نہيں ہوئی۔ آج عالم اسلام سائنسی، اقتصادی، تشہیراتی اور اب فوجی محاصرے میں ہے۔ قدس اورفلسطین پر قبضہ ، عراق اور افغانستان پر قبضے کی شکل میں آگے بڑھا ہے۔ صیہونزم کا آ کٹوپس اور بےشرم اور نفرت انگیز امریکی سامراج، دونوں آج پورے مشرق وسطٰی، شمالی افریقہ اور پورے عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہيں اور بیداری کی اس لہر کو جس نے امتِ مسلمہ کے جسم میں ایک نئی جان ڈال دی ہے، اپنی معاندانہ اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہيں۔ آج امریکہ سمیت مغرب کی مستکبر طاقتیں اس نتیجے پر پہنچی ہيں کہ دنیا پر قابض ہونے پر مبنی اُن کے عزائم کے خلاف بیداری اور استقامت کے مراکز، مسلم اقوام وممالک خاص طور پر مشرقِ وسطٰی میں ہیں اور اگر وہ اقتصادی، سیاسی، تشہیراتی اور بالآخر عسکری ہتھکنڈوں کے ذریعے آئندہ چند برسوں کے دوران اسلامی بیداری کی تحریک کا راستہ روک کر اس کو کچلنے میں کامیاب نہ ہوئیں تو دنیا پر حاکمیت اور تیل اور گیس کے عظیم ذخائر پر قبضے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا، جو اُن کی صنعتی مشینری کو فعّال رکھنے اور پوری انسانیت پر برتری حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس طرح بڑے بڑے مغربی اور صیہونی سرمایہ دار جن کے ہاتھوں میں پسِ پردہ سامراجی حکومتوں کی باگ ڈور ہے اپنی جابرانہ طاقت کھو دیں گے۔ استکبار اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ میدان میں آگیا ہے۔ ایک جگہ سیاسی دباؤ، ایک جگہ اقتصادی ناکہ بندی کی دھمکی، کسی اور جگہ تشہیراتی فریب اور دوسرے مقامات مثلاً عراق اور افغانستان اور اس سے پہلے فلسطین اور بیت المقدس میں بموں، میزائیلوں، ٹینکوں اور فوجوں کے ذریعے فیصلہ کن جنگ کے لئے اترا ہے۔ ان آدم خور درندوں کا سب سے اہم ہتھیار نفاق اور فریب کی نقاب ہے جسے انہوں نے اپنے چہروں پر ڈال رکھا ہے۔ یہ لوگ دہشت گرد گروہ تیار کرتے اور انہیں اسلحوں سے لیس کر کے بے گناہوں کی جان لینے کے لئے روانہ کرتے ہیں اور خود دہشت گردی سے مقابلے کا دم بھرتے ہيں۔ اس دہشت گرد اور سفّاک حکومت کی کھل کر حمایت کرتے ہيں جس نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور جاں بلب فلسطینیوں کا دفاع کرنے والوں کو دہشت گرد کہتے ہيں۔ مہلک ایٹمی ، کیمیاوی اور جراثیمی اسلحے بناتے ہيں، انہیں تقسیم اور استعمال کرتے ہيں اور ان کے ذریعے ہیروشیما، حلبچہ اور ایران عراق جنگ کے دوران ایران کے دفاعی محاذوں پر قیامت ڈھاتے ہيں۔ ساتھ ہی مہلک ہتھیاروں پر کنٹرول کا نعرہ لگاتے ہيں۔ یہ لوگ خود منشیات کے مافیا کی پشت پر ہیں اور منشیات سے مقابلے کا دم بھرتے ہیں۔ یہ لوگ علمی رجحان اور سائنس کی عالمی حیثیت کی نمائش کرتےہيں، ساتھ ہی عالمِ اسلام کی علمی و سائنسی ترقی کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر روک لگاتے اور اسلامی ممالک میں صلح آمیز ایٹمی ترقی کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہيں۔ وہ اقلیتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا دم بھرتے ہيں ساتھ ہی مسلمان لڑکیوں سے اسلامی حجاب کی پابندی کے جرم میں تعلیم کا حق چھین لیتے ہيں۔ آزادی بیان اور آزادی عقیدہ کا نعرہ تو لگاتے ہيں لیکن صیہونزم کے سلسلے میں کسی نظرئیے کے اظہار کو جرم سمجھتےہیں اور بہت سے قیمتی فکری و قلمی اسلامی نسخے نیز تہران کے امریکی سفارت خانہ (جاسوسی کے اڈے ) کی دستاويزات کو امریکہ میں شائع نہیں ہونے دیتےہيں۔ انسانی حقوق کی آواز اٹھاتےہيں، لیکن گوانتانامو اور ابو غریب جیسی دسیوں شکنجہ گاہیں قائم کرتے ہیں یا ایسے کم نظیر بھیانک واقعات پر رضامندانہ خاموشی اختیار کرتےہيں۔ یہ لوگ تمام مذاہب کے احترام کی بات تو کرتے ہيں لیکن سلمان رشدی جیسے مرتد مہدورالدم (جس کا خون بہانا جائز ہے ) کی حمایت کرتےہیں اور برطانیہ کے سرکاری ریڈیو سے اسلامی مقدسات کے خلاف کفر آمیز باتیں نشر ہوتی ہيں۔ آج امریکی اور برطانوی حکام کی گستاخی اور بے حیائی کی وجہ سے ان کے چہروں پر پڑا ہوا دھوکے اور نفاق کا پردہ چاک ہوچکا ہے اور مستکبروں کی نفرت خود ان کے اپنے ہاتھوں مسلمان قوموں اور جوانوں کے دلوں میں بھر چکی ہے۔ آج جس اسلامی ملک میں بھی آزادنہ انتخابات ہوں، قومیں امریکہ اور برطانیہ کی آرزوؤں اور تقاضوں کے خلاف ووٹ دیں گی۔ اس وقت عراق کے انتخابات ہمارے سامنے ہیں، عراقی قوم اور اس کے حقیقی رہنما غاصب طاقتوں کے خلاف ہیں۔ عراق کے رہنما اور عوام انتخابات کو عوامی حکومت اور عوامی ارادہ پر مبنی خودمختار، متحد اور آزاد عراق کے لئے چاہتے ہيں۔ ان کی نظر میں انتخابات کو امریکہ کے فوجی قبضے اور سیاسی تسلط کے خاتمہ کی شکل میں تمام ہونا چاہئے۔ ان انتخابات کو صہیونیوں کی فتنہ انگیز موجودگي، جو امریکی اسلحوں کے سایہ ميں فرات کے کنارے تک پہنچ گئے ہيں اور نیل سے فرات تک کے خواب پریشاں کی ناقص تعبیر پوری ہوتے دیکھنے لگے ہیں ان کےخاتمہ پر تمام ہونا چاہئے۔ ان انتخابات کےذریعےان کے درمیان فرقہ واریت اور نسلی کدورتوں کو دور کرکے ان میں اتحاد و اخوّت پیدا کی جائے جو زیادہ تر مشترکہ دشمن کے ہاتھوں پھیلائی گئی ہيں لیکن یہی انتخابات قابض دشمنوں کے خیال میں ایک اور ہی مقصد رکھتےہیں۔ وہ چاہتے ہيں کہ عوامی انتخابات کے نام سے اپنے ان کارندوں کو عوام پر مسلط کریں جو بعث پارٹی سے سابقہ وابستگی کی بنا پر قابض طاقتوں کے آگے ذلیل اور رام ہيں۔ وہ چاہتے ہيں کہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی کا خرچ اپنی گردن سے اتار کر ان کارندوں کے کاندھوں پر ڈال دیں اور جو کچھ خرچ ہوا ہے، عراقی قوم کے خزانے اور عراق کے تیل کے ذریعہ پورا کريں۔ وہ لوگ استعمار کو بالکل نئی شکل میں عراق میں قائم کرنا چاہتے ہيں، جدید ترین سامراجی دور میں دشمن کے کارندے ماضی کی طرح براہ راست استعماریوں کے ہاتھوں معین نہيں کئے جاتے بلکہ انتخابات کے نام پر ایسے لوگ برسر اقتدار لائے جاتے ہيں جو بظاہر جمہوریت کا دم بھرتے ہيں لیکن بباطن وہ مظلوم عوام پر اغیار اور بیرونی دشمنوں کی مطلق العنان حاکمیت کی راہ ہموار کرتے ہیں، اس وقت عراقی انتخابات کو دو خطرے در پیش ہيں۔ ایک عوامی ووٹ کو جعل اور جا بجا کرنا کہ امریکی اس کام میں ماہر ہيں۔ اگر عراق کے اہم افراد، سیاسی شخصیات اور پڑھے لکھے جوان ہمت اور شب و روز کی محنت سے کام لیں اور اس طرح کی جعل سازي کو روکيں اور ایک عوامی و منتخب حکومت بر سر کار لائیں تو اس وقت دوسرا خطرہ یہ ہوگا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے ایک اور آمر عراق پر مسلط کردیا جائے۔ یہ خطرہ بھی عراق کے غیور و مومن عوام اور اس کے حقیقی و محترم قائدین کی ہوشیاری، موقع شناسی اور شجاعت سے دفع ہوسکتا ہے۔ یہ افراد اس تاریخی اور حسّاس وقت میں جس سے ان کے مستقبل کے دسیوں سال وابستہ ہيں، ایمان، شجاعت اور قومی یکجہتی سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ وسیع پیمانہ پر شفاف اور پر جوش انتخابات منعقد کریں اور اس کے نتائج کی پوری طاقت سے حفاظت کریں۔ شیعہ سنی، عرب وکرد یا ترک کا اختلاف اسی طرح دوسری تفرقہ انگیز گروہ بندیاں صرف دشمنوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ناامنی جو ہمیشہ آمریت کے وجود میں آنے کا مقدمہ بنتی ہے دشمن کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے۔ جو لوگ ظالمانہ و سفاکانہ دہشت گردی کے ذریعے عراقی شہریوں اور علمی و سیاسی شخصیتوں کو نشانہ بناتے ہيں، وہ ہرگز ان مجاہدوں کے زمرے میں شمار نہیں ہوسکتے جو اسلام کی شان و شوکت اور خود مختاری و آزادی کی راہ میں جارح اور ظالم دشمنوں سے لڑ رہے ہيں۔ اے حج ادا کرنے والے بھائیو اور بہنو! اے مسلمان قومو اور حکومتو! آج دنیائے اسلام کو اتحاد ویکجہتی اور قرآن سے تمسّک و وابستگی کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ دوسری طرف ترقی و پیشرفت اور عظمت و سر بلندی کے لئے عالم اسلام کی توانائیاں پہلے سے زیادہ آشکار ہوچکی ہيں اور امت مسلمہ کی عظمت وبزرگی آج پورے عالم اسلام کے جوانوں اور اہل علم افراد کی خواہش و آرزو بن گئی ہے۔ مستکبروں کے منافقانہ نعرے اپنا بھرم کھو چکے ہیں اور امتِ مسلمہ کے لئے ان کے ناپاک عزائم رفتہ رفتہ آشکار ہوتے جا رہے ہيں۔ دوسری جانب یہ استکباری آدم خور جو پوری دنیا پر حاکمیت کا سودا اپنے سر میں پال رہے ہيں، امت مسلمہ کی بیداری اور اتحاد سے خوفزدہ ہیں اور اسے اپنے تباہ کن ارادوں کے آگے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں نیزاس سے آگے بڑھ جانے اور اسے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہيں۔ آج ہر میدان میں اور ہر فتنے کے مقابل عملی اقدام اور اخوّت و برادری کا دن ہے۔ حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کے لئے زمین ہموار کرنے کا دن ہے۔ ہر میدان میں دعوت الٰہی پر لبیک کہنے کا دن ہے۔ وہ دن ہے کہ ہمیں ایک بار پھر قرآنی آیتوں انّما المؤمنون اخوۃ اور لا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مؤمنا اور اشدّ اء علی الکفار رحماء بینھم کو اپنے دلوں میں دہرانا چاہئے۔ چاہے نجف، فلوجہ اور موصل پر بمباری ہو یا بحر ہند کا سمندری زلزلہ جس نے دسیوں ہزار خاندانوں کو عمزدہ کردیا، عراق و افغانستان پر دشمنوں کا فوجی قبضہ ہو یا فلسطین کے ہر روز کے خونیں سانحے، ان سب کے سلسلے ميں ہمیں فریضۂ الٰہی کو اپنے کاندھوں پر محسوس کرنا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتےہيں۔ یہ اتحاد عیسائیوں یا دیگر تمام ادیان اور قوموں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد جارح طاقتوں، تسلط جمانے اور جنگ بھڑکانے والوں کے خلاف ہے۔ یہ اتحاد اخلاق و معنویت کو فروغ دینے، اسلامی عدل وانصاف اور عقلانیت کو زندہ کرنے نیز سائنسی اور اقتصادی ترقی اور اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے ہے۔ ہم دنیا والوں کو یاد دلاتےہیں کہ جب بیت المقدس خلفائے راشدین کے زمانہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا تو عیسائی اور یہودی پورے امن و سکون کے ساتھ رہتے تھے لیکن اس وقت جبکہ بیت المقدس اور دوسرے مراکز صیہونیوں یا صلیبی صیہونیوں کے قبضہ میں ہيں مسلمانوں کا خون بہانا کیوں جائز تصور کیا جارہا ہے؟ ہم حج ادا کرنے والے محترم افراد کوخشوع، ذکر خدا، توبہ و استغفار، تدبر اور توجہ کے ساتھ قرآن کی تلاوت، نماز جماعت میں شرکت، دوسرے ملکوں کے حاجیوں کے ساتھ پیار و محبت اسی طرح تضییع وقت سے پرہیز کی دعوت دیتے ہیں۔ خدائے متعال سے آپ سب کی کامیابی، عافیت و سلامتی اور عبادات کی قبولیت کے دعاگو ہیں اور آپ سب سے ذخیرۂ الٰہی یعنی حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ اور عالمی عدل و مساوات کی حکومت قائم ہونے کے لئے التماس دعا کرتے ہيں۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، السید علی الخامنہ ایذی الحجہ سنہ 1425مطابق 14 جنوری 2005
اسلامی جمہوریہ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں انیس دی مطابق آٹھ جنوری کا دن خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن قم کے عوام نے اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کی شاہی حکومت کے خلاف مظاہرے کئے جس سے تحریک انقلاب میں بڑا اہم موڑ پیدا ہو گیا۔ ہر سال اس دن اہل قم قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے 24/8/1383 ہجری شمسی مطابق 14/11/2004 عیسوی برابر پہلی شوال سنہ 1425 ہجری قمری کو ملک کے حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف عوامی طبقات کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی تلاوت و قرئت کلام پاک کے جلسوں اور محفلوں سے خاص انسیت رکھتے ہیں اور نہایت مصروفیت کے باوجود آپ ان محافل کے لئے وقت نکالتے ہیں، اسی ضمن میں پچیس مہر تیرہ سو تراسی ہجری شمسی مطابق 16/10/2004 عیسوی کو آپ نے قاریان قرآن سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات ماہ مبارک رمضان میں ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی تلاوت و قرئت کلام پاک کے جلسوں اور محفلوں سے خاص انسیت رکھتےہیں اور نہایت مصروفیت کے باوجود آپ ان محافل کے لئے وقت نکالتے ہیں۔ پچیس مہر تیرہ سو تراسی مطابق سولہ اکتوبر دو ہزار چار کو آپ نے قاریان قرآن سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات ماہ مبارک رمضان میں ہوئی۔
دین اسلام کی تاریخ میں ستائيس رجب المرجب کا دن بڑا اہم اور یادگار ہے، یہ وہ تاریخ ہے جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعوت اسلام کا آغاز کیا اور عالم انسانیت کو توحید کا پیغام دیا۔ اسی تاریخی دن کی سالگرہ پر قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اعلی حکام، عہدہ داروں اور غیر ملکی مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ کے جامع تصور اور اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر تاکید فرمائي اور بڑی طاقتوں کی جانب سے لاحق خطرات کے سلسلے میں خبردار کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے یوم ولادت با سعادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے قصیدہ گو شعرا اور مداحان اہل بیت اطہار سے ملاقات میں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اوصاف اور تعلیمات پر روشنی ڈالی اور موجودہ نسلوں کو ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی،آپ کے خطاب سے قبل شعرا نے اپنے کلام پیش کئے، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے جہاد دانشگاہی کے نام سے موسوم ادارے کے عہدہ داروں اور ماہرین کے اجتماع سے خطاب میں علم و دانش ، سائنس و ٹکنالجی اور دینی اقدار و روحانیت و معنویت کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی پرروشنی ڈالی۔ جہاد دانشگاہی ایران کا وہ قومی ادارہ ہے جو ملک بھر کی یونیورسٹیوں، وزارت خانوں اور دیگر اداروں کے لئے اہم علمی و سائنسی تحقیقات انجام دیتا ہے نیز علمی تحقیقات میں ان کےساتھ تعاون کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دورہ ہمدان کے دوران صوبے کی شہید نوژہ ہوائي چھاونی میں مسلح فورسز کے مشترکہ پروگرام اور پاسنگ آوٹ پریڈ کا معائنہ کیا، اس موقع پر آپ نے شہید نوژہ ہوائی چھاونی کی خدمات کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی مسلح افواج کے فرائض اور خصوصیات پر روشنی ڈالی، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ ہمدان کے دورے کے دوران اساتذہ، طلبہ اور نوجوانوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں نوجوان طبقے کی صلاحیتوں، اسے در پیش مسائل، ثقافتی یلغار اور دشمن کی سازشوں سمیت اہم ترین مسائل پر روشنی ڈالی نیز کچھ نہایت اہم اور کارآمد ہدایات دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے مغربی صوبے ہمدان کا دورہ کیا جس میں آپ نے مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ اہم تاریخی، ثقافتی اور سیاحتی شہر ہمدان میں قائد انقلاب اسلامی نے صوبے کے شعبہ انٹیلیجنس کے اہلکاروں اور بسیج (رضاکار فورس) کے اراکین سے ملاقات میں ملک کے لئے ان کی گرانقدر خدمات کا تذکرہ کیا اور علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔
جمہوریہ ایران کی تاریخ میں سات تیر تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی مطابق اٹھائيس جون سن انیس سو اکاسی عیسوی کو رونما ہونے والا واقعہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ اس دن تہران میں شام ساڑھے آٹھ بجے جہموری اسلامی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ تہران کے علاقے سرچشمہ میں واقع پارٹی کے مرکزی دفتر میں ہونے والے اس اجلاس میں افراط زر اور صدارتی انتخابات جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جانا تھا۔ حسب معمول تلاوت کلام پاک سے جلسے کا آغاز ہوا اور عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ بہشتی نے اپنی تقریر شروع ہی کی تھی کہ اچانک اجلاس ہال میں بڑا خوفناک دھماکہ ہوا جس سے عمارت کے پرخچے اڑ گئے۔ دھماکے میں آیت اللہ شہید بہشتی اپنے بہتر ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔ اس دن کو ایران میں یوم عدلیہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے آج عدلیہ کے حکام اور اہلکاروں نیز شہدای ہفتم تیر کے بازماندگان کےاجتماع سے خطاب کیا، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 1/4/1383 ہجری شمسی مطابق 21/6/2004 عیسوی کو جہاد دانشگاہی کے نام سے موسوم ادارے کے عہدہ داروں اور ماہرین کے اجتماع سے خطاب میں علم و دانش، سائنس و ٹکنالجی اور دینی اقدار و روحانیت و معنویت کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی پرروشنی ڈالی۔ جہاد دانشگاہی ایران کا وہ قومی ادارہ ہے جو ملک بھر کی یونیورسٹیوں، وزارت خانوں اور دیگر اداروں کے لئے اہم علمی و سائنسی تحقیقات انجام دیتا ہے نیز علمی تحقیقات میں ان کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں پارلیمنٹ کے ساتویں دور کے لئے ہونے والے انتخابات میں عوام نے مغربی ذرائع ابلاغ کے زہریلے پروپیگنڈوں اور تشہیراتی مہم کو ایک بار پھر ناکام بناتےہوئے بھرپور شرکت کی۔ انتخابات میں اصول پسند کہے جانے والے حلقے کو اکثریت حاصل ہوئی اور ڈاکٹر حداد عادل کو پارلیمنٹ کا اسپیکر چنا گیا۔ نو تشکیل شدہ پارلیمنٹ کے سربراہ اور اراکین نے 27/3/1383 ہجری شمسی مطابق 16/6/2004 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پارلیمنٹ، اس کی رکنیت اور اس ادارے اور ادارے کے اراکین کے فرائض کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بڑی بصیرت افروز نصیحت فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پندرہویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں امام خمینی (رہ) کے سیاسی مکتب فکر، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس نظام کے خلاف جاری سامراجی طاقتوں کی سازشوں کا ذکر کیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اٹھائيس اردیبہشت تیرہ سو تراسی ہجری شمسی مطابق سترہ مئی سن دو ہزا چار عیسوی کو ایران کے ریڈی اور ٹی وی کے ادارئے آئی آر آئی بی کے مختلف شعبوں کا معاینہ فرمایا اور عہدہ داروں اور اہلکاروں سے ملاقات کی۔ اس موقع آپ نے اپنے خطاب میں ریڈیو اور ٹی کے ادارے کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔
عراق میں مقدس شہر کربلا و نجف اور حضرت امام حسین و حضرت امام علی علیھما السلام کے روضہ ہای اقدس پر قابض امریکی فوجیوں کے حملے کے جانگداز واقعے سے تمام دوستداران اہل بیت اطہار علیھم السلام غمزدہ اور کبیدہ خاطر ہو گئے، قائد انقلاب اسلامی نے درس فقہ دینے کے بعد اپنے تاثرات بیان فرمائے، تفصیلی خطاب ملاحظہ فرمائیے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی سالگرہ پر قائد انقلاب اسلامی نے انتظامیہ کے عہدہ داروں اور اہلکاروں نیز اتحاد عالمی کانفرنس کے شرکاء کے اجمتاع سے خطاب کیا۔ تفصیلی خطاب ملاحظہ فرمائیے؛
قائد انقلاب اسلامی نے یکم مئی سن دو ہزار چار عیسوی کو عالمی یوم مزدور مطابق بارہ اردیبہشت سن تیرہ سو تراسی ہجری شمسی کو یوم استاد برابر گیارہ ربیع الاول سن چودہ سو پچیس ہجری قمری کو ہفتہ اتحاد کے موقع پر اساتذہ اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہےـ
اسلامی جمہوریہ ایران میں پارلیمنٹ کے ساتویں دور کے لئے ہونے والے انتخابات میں عوام نے مغربی ذرائع ابلاغ کے زہریلے پروپیگنڈوں اور تشہیراتی مہم کو ایک بار پھر ناکام بناتے ہوئے بھرپور شرکت کی۔ انتخابات میں اصول پسند کہے جانے والے حلقے کو اکثریت حاصل ہوئی اور ڈاکٹر حداد عادل کو پارلیمنٹ کا اسپیکر چنا گیا۔ نو تشکیل شدہ پارلیمنٹ کے سربراہ اور اراکین نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پارلیمنٹ، اس کی رکنیت اور اس ادارے اور ادارے کے اراکین کے فرائض کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسماللهالرّحمنالرّحيم
سب سے پہلے تمام بھائيوں اور بہنوں، ساتویں پارلیمنٹ کے اراکین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللہ تعالی کی عنایتوں کے طفیل ہونے والی اس ملاقات کو بہت مبارک سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی، قانون سازی کے اس مرکز میں آپ کی موجودگی، خود آپ اور پوری قوم کے لئے مبارک و با برکت ہو۔ میں انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت اور پوری آگاہی و دانشمندی کے ساتھ حق رای دہی کے استعمال پر ان کا شکر گزار ہوں۔ فہم و ادراک اور ذمہ داری کے احساس کی بنیاد پر (انتخابات کی شکل میں) بڑا اہم کام اختتام پذیر ہوا۔ عوام نے اسلامی نظام کے دشمنوں کو ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے اپنا فریضہ ادا کیا اور اسلامی جمہوری نظام کو ایک دن بھی بغیر پارلیمنٹ کے نہیں رہنے دیا۔
میں اس اجلاس کے آغاز میں پڑھی جانے والی قرآن کی آیت وما اوتیتم من شئ فمتاع الحیاۃ الدنیا و ما عند اللہ خیر و ابقی کے سلسلے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ کے پاس جو بھی دنیوی وسائل ہیں ان کا استعمال بہت کم وقت کے لئے ہے۔ پلک جھپکتے ہی سب کچھ ختم ہو جانے والا ہے۔ اسے دوام نہیں۔ وسائل میں ان مواقع اور عہدوں کا بھی شمار ہوتا ہے جو ہم اور آپ کے اختیار میں آتے ہیں۔ خود میرے عہدے کا تعلق اسی زمرے میں ہے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کا شمار بھی اسی میں ہوتا ہے۔ ما اوتیتم من شئ فمتاع الحیاۃ الدنیا اگر کاموں میں ہدف اللہ تعالی کی خوشنودی ہوئی تو پھر و ما عند اللہ خیر و ابقی للذین آمنوا و علی ربھم یتوکلون اگر پارلیمنٹ کی رکنیت، حکومتی ذمہ داریوں اور مختلف عہدوں تک، خواہ آپ کا عہدہ ہو یا میرا، اقتدار ہو یا دیگر شعبے، رسائی کا ہمارا مقصد ظاہری شان و شوکت ہے کہ جو در حقیقت کھوکھلی شان ہے اس کے اندر کچھ بھی نہیں ہے بظاہر بہت بڑی چیز نظر آتی ہے لیکن بباطن کوئی شان و شوکت نہیں، تب تو یقین جانئے کہ ہم خسارے میں چلے گئے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی چیز ملتی ہے تو اس کے عوض ہمیں بھی کچھ دینا پڑتا ہے۔ زندگی میں آپ کو کچھ بھی یکطرفہ طور پر نہیں ملے گا۔ ہمیں جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں ان میں یہی علم و معرفت، دولت و ثروت، عہدہ و مقام، عوامی مقبولیت اور ظاہری شان و شوکت وغیرہ ہے لیکن ان کے عوض جو چیز ہم دیتے ہیں وہ ان سب سے کہیں زیادہ با ارزش ہے۔ وہ ہے ہماری عمر اور زندگی۔ ان الانسان لفی خسر ہم جو کچھ بھی حاصل کر رہے ہیں اس کے عوض مسلسل ایک چیز دے رہے ہیں وہ ہے وقت اور مہلت جسے ہم مسلسل صرف کر رہے ہیں۔ وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اصلی سرمایہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے کسی کے ہاتھ میں برف مسلسل پگھلتی رہتی ہے۔ اس سرمائے سے ہمیں سرمایہ بنانا چاہئے۔ اہم اقتصادی اصولوں میں بتایا جاتا ہے کہ زمین سے نکالا گیا تیل قومی سرمایہ ہے، اسے روزمرہ کے خرچ میں نہیں لیا جا سکتا۔ اسے پائیدار سرمائے میں تبدیل کرنا چاہئے۔ یہی چیز ہمارے اور آپ کے سلسلے میں بھی صادق آتی ہے۔ ایک نا قابل تلافی سرمایہ ہمارے ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمیں دوسرا سرمایہ حاصل کرنا چاہئے جو ہمارے پاس محفوظ رہے۔ یہ جاہ و حشم، یہ مقبولیت و شہرت، یہ سیاسی پوزیشن اور مقام، یہ دولت و ثروت باقی رہنے والی چیزیں نہیں ہیں۔ جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ ما عند اللہ ہے وہی خیر و ابقی ہے۔ وہی پائیدار ہے۔ پارلیمنٹ میں رکنیت کا ہدف یہ ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کوئی خسارہ نہیں ہے۔ عوام میں آپ کی مقبولیت رہے یا چلی جائے۔ اگلی دفعہ آپ منتخب ہوں یا نہ ہوں، جو بھی ہو خیر ہے۔ در طریقت آنچہ پیش سالک آید خیر اوست جو کچھ بھی ہوگا آپ کے لئے بہتر ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ آپ ایک فائدے کا سودا کر رہے ہیں۔ اگر آپ اللہ تعالی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا قیام و قعود، آپ کی گفتگو، آپ کے دستخط، آپ کی منظوری، آپ کی مخالفت سب فریضے کی ادائیگی کے تحت ہو۔ چونکہ فریضے کی ادائیگی کے لئے ہے اس لئے دیوان الہی میں آپ کا عمل درج کر لیا جائے گا۔ لا یغادر صغیرۃ و لا کبیرۃ الا احصاھا ہر چیز پر محیط ہے۔ تو اگر شدید ضرورت کے وقت ہماری چیز ہمیں فائدے کے ساتھ مل گئی تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اور اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہوئے تو یقینا خسارے کا شکار ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں میں، آپ سب یکساں ہیں۔ اس لحاظ سے ہم میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جہاں تک سوال ہے اس فریضے اور ان چیزوں کے درمیان رابطے کا جو اس فریضے کے تحت آتی ہیں تو کہنا چاہئے کہ ہر انسان کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے فرائض کو بحسن وخوبی انجام دیا تو وہی نتیجہ ملے گا جس کی جانب ابھی میں نے اشارہ کیا۔ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ، دینی جمہوریت کا مظہر ہے۔ وہ نمونہ جو اسلامی نظام نے دینی جمہوریت کے سلسلے میں دنیا میں پیش کیا ہے اور عالمی سیاسی میدان میں جسے متعارف کرایا ہے وہ ایک کامیاب نمونہ ثابت ہوا ہے۔ اس کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں عوام کی مرضی اور خواہش معاشرے کے مستقبل کے تعین مین کلیدی کردار کی حامل اور ساتھ ہی یہ پورا عمل الہی اقدار کے تناظر میں طے پاتا ہے، اس کی ضرورت اب پوری انسانیت کو ہے اور اس کے فقدان کے نتیجے میں وہ رنج و آلام سے دوچار ہے۔ یہ جنگیں، یہ سامراجی اقدامات، یہ مظالم، یہ طبقاتی فاصلے، قوموں کی قدرتی دولت کی لوٹ مار اور بھیانک غربت جو دنیا کے عوام کی اکثریت پر مسلط ہے، یہ سب معنویت و روحانیت کے فقدان کی دین ہے۔ یہ بد عنوانیاں، یہ لا ابالی پن جو عالمی سطح پر مختلف انسانی نسلوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے، سب معنویت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ سو سال قبل، دو سو سال قبل، تین سو سال قبل اس سمت میں کام کیا گیا اور آج اس کے تلخ نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ جیسے دوسرے تاریخی واقعات ہوتے ہیں جن کے اثرات فورا ظاہر نہیں ہوتے بلکہ صعب العلاج یا لا علاج بیماریوں کی طرح رفتہ رفتہ ان کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ آج دنیا کے پیش رفتہ ممالک کے پاس بے پناہ دولت ہے لیکن یہ دولت، یہ ثروت، یہ سائنس، یہ ٹکنالوجی، یہ گوناگوں علمی باریکیاں انسان کو خوش بختی کا احساس عطا نہیں کر سکتیں۔ اس سے غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ تو معنویت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ ملت ایران نے آگے بڑھ کر معنویت کو اپنے نئے طرز زندگی میں بنیادی مقام دیا ہے۔ صرف دکھانے کے لئے نہیں بلکہ حقیقی معنی میں اس کی جڑوں کو مستحکم کیا ہے۔ اسی کو دینی جمہوریت کہتے ہیں اور اس جمہوریت کا مظہر پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی ہے۔ یہ شورا (مشورت گاہ) بھی ہے اور اسلامی بھی۔ اس میں عوام کا انتخاب بھی کارفرما ہے اور اسلامی رنگ کی پھبن بھی موجود ہے۔ یہ چیز آئين کی متعدد دفعات اور پارلیمنٹ کی رکنیت کی حلف میں صاف ظاہر ہے۔ یہ بے نظیر نمونہ ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس کے خلاف پروپیگنڈا بھی کیا جائے گا، اسے لوگوں کی نظروں سے گرانے کی کوشش بھی کی جائے گی، اسے بے ارزش بھی ظاہر کیا جائےگا۔ یہ تو بہت پرانا حربہ ہے۔ دنیا میں یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ کبھی کسی قوم کے عظیم ثقافتی ورثے کی ایسی تحقیر کی جاتی ہے کہ وہ قوم اس سے خود ہی بیزار ہو جائے۔ یہ بڑا جانا پہچانا حربہ ہے۔ حقیقت وہی ہے جس کا ہمیں بخوبی احساس ہے، پارلیمنٹ دینی جمہوریت کا سب سے اہم مظہر ہے۔ بنابریں آپ اپنے مقام کی اہمیت سے غافل نہ ہوئیے۔ اس پر ہر لمحہ توجہ رہے کہ آپ کس مقام پر ہیں اور مجلس شورای اسلامی یعنی کیا؟ اس پارلیمنٹ میں فیصلے اور موقف کے تعین کی اہمیت سے کوئي غفلت نہ برتئے۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کا مرکز اور نقطہ اوج ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہم بس اتنے سے ہی مطمئن نہیں ہیں کہ ہمارے پاس مجلس شورای اسلامی ہے۔ مجلس شورای اسلامی تو ہمارے پاس تقریبا پچیس سال سے ہے۔ ہمیں اس انداز سے کام کرنا چاہئے کہ یہ پارلیمنٹ اسی صحیح سمت میں بڑھتے ہوئے بلند اہداف سے قریب ہو۔ ملک میں اس کی افادیت اور تاثیر میں اضافہ ہو تاکہ حقیقی معنی میں اس کے ثمرات ظاہر ہوں اور مناسب قانون سازی، بھرپور نگرانی اور درست موقف کے ذریعے ملک کی پیش قدمی کے عمل میں روز بروز بہتری آئے۔ اسلامی نظام کے دشمن، پارلیمنٹ کو ہمیشہ غیر فعال اور ناکارہ دیکھنے کے خواہشمند رہے ہیں۔ ایسی پارلیمنٹ کے جو بے اثر ہو یا منفی اثرات کا سرچشمہ بن جائے۔ لہذا پارلیمنٹ کا موثر اور فعال کردار بہت ضروری ہے۔ ساری کوششیں اس نکتے پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ ہم بس اتنے اپر اکتفا نہیں کر سکتے کہ جناب ہمارے ہاں بھی ان ممالک کی مانند جن پر جمہوریت کا لیبل چسپاں ہے، پارلیمنٹ ہے۔ ان پارلیمانوں میں اگر کچھ مثبت پہلو ہیں، کیونکہ ہر مرکز میں کمزوریوں کے ساتھ مثبت پہلو بھی یقینی طور پر ہوتے ہیں، تو کچھ بڑی بنیادی کمزوریاں بھی ہیں۔ ہمیں ان بنیادی کمزوریوں سے بچنا چاہئے۔
مجھے یاد ہے، اوائل انقلاب میں امام (خمینی رہ) نے بارہا فرمایا کہ دنیا کی دیگر پارلیمانوں میں لڑائی جھگڑا اور مارپیٹ ہو جاتی ہے۔ آپ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہماری پارلیمنٹ میں یہ سب نہیں ہے۔ بحث ہوتی ہے اور خوب ہوتی ہے، یہ ضروری بھی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دوسروں میں خامیاں کیا ہیں تاکہ ہم ان خامیوں سے پرہیز کریں۔ بعض صنعتی ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے کہ رکن پارلیمنٹ اپنے قول و عمل سے آشکارہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ بڑی کمپنیوں اور انڈسٹریل گروپس اور سرمایہ داروں کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس میں اسے کوئی تامل بھی نہیں ہوتا۔ وہ کمپنیاں اور مالی ادارے جو دنیا پر سب سے زیادہ مظالم ڈھا رہے ہیں اپنے مفادات کا تعین کر دیتے ہیں اور یہ (اراکین پارلیمنٹ) ایوان میں ان کے امور انجام دیتے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی خامی ہے۔ عوامی نمایندے کو تو عوام کی نمایندگی کرنا چاہئے بالخصوص اگر وہ ایسے افراد کا نمایندہ ہے جو ملک میں اہم ترین امور سے متعلق فیصلوں کے عمل میں اپنے نمایندے کی شرکت کے متمنی ہوتے ہیں یعنی وہ افراد جن کے بس میں کچھ نہیں ہے اور جو سب سے زیادہ محرومیت کا شکار ہیں۔ تو سب سے پہلے مرحلے میں آپ محروم طبقات کی نمایندگی کے مفہوم کو سمجھئے۔ اس میں دو رای نہیں کہ آپ ہوری ملت ایران کے نمایندے ہیں۔ آپ کسی مخصوص علاقے، مخصوص آبادی اور مخصوص راہ دہندگان کی نمایندگی نہیں کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ پوری قوم کی نمایندہ ہے۔ لیکن بہرحال عوام کے بعض طبقے ایسے ہیں جن کے لئے اہم امور سے متعلق فیصلے کے عمل میں ان کے نمایندے کی موجودگی لازمی ہوتی ہے کیونکہ یہ محرومیت کا شکار ہیں، کیونکہ ان کے مسائل بہت زیادہ ہیں، کیونکہ وہ غربت، وسائل کے فقدان اور تفریق و امتیاز سے پریشان ہیں۔ دوسروں کے مالی غبن اور بد عنوانیوں کی مار انہی طبقوں پر پڑ رہی ہے۔ تو آپ سب سے پہلے تو خود کو انہی طبقات کا نمایندہ سمجھئے۔
دوسرا نکتہ جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ پارلیمنٹ کی تمام صلاحیتوں اور توانائيوں کو بروی کار لانے کی کوشش کیجئے۔ اگر کبھی کسی ادارے نے انقلاب کے بعد کی پارلیمانوں میں سب سے کامیاب پارلیمنٹ کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی تو یقینی طور پر سب سے کامیاب پارلیمنٹ وہی ہوگی جس نے فرائض کی انجام دہی میں تمام تر توانائیوں کو استعمال کیا ہوگا۔ قانون سازی کا اختیار بہت ہی اہم اختیار ہے۔ آپ کے پاس نظارت کا بھی اختیار ہے۔ احتساب بیورو کوئی معمولی چیز نہیں۔ میں نے گزشتہ پارلیمانوں کے عہدہ داروں سے بھی بارہا کہا کہ احتساب بیورو کو بہت سنجیدگی سے لیجئے۔ یہ آپ کے ہاتھ میں بہت اہم وسیلہ ہے۔ آپ کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ احتساب بیورو بہت ہی اہم ادارہ ہے۔ قوم کا سب سے بڑا بجٹ جو مختلف ادارہ جات کو دیا جاتا ہے اس کی تفصیلات معلوم ہونی چاہئیں کہ یہ کیسے صرف ہوا۔ کاموں کی خوبی اور خامی کو پرکھنے کے لئے یہ آپ کے پاس بہت اہم وسیلہ ہے۔ اس کی جانب سے ہرگز غفلت نہ کیجئے۔ اگر آپ ان نظارتی وسائل کو بروی کار لانا چاہتے ہیں تو اپ کی توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہئے کہ آپ کی نظارت میں کام کرنے والے مجریہ کے اداروں سے آپ کا رابطہ قانونی پیرائے کے اندر ہو۔ بعض رابطے غیر شفاف ہوتے ہیں جو بالکل صاف صاف آپ کے لئے ضرر رساں ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ پارلیمنٹ کے سیاسی مقام کا ہے۔ آپ ملت ایران کے نمایندے اور اس قوم کا ما حصل ہیں۔ سیاسی امور اور عالمی مسائل میں آپ کا موقف در حقیقت ملت ایران کے موقف کا ترجمان ہوگا۔ یہ موقف دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس سے داخلی امور میں مداخلت کی دشمن کی ہمت اور بڑھ جائے۔ وہ اسلامی نظام کے سلسلے میں اور بھی جری اور گستاخ ہو جائے اور اس کی تسلط پندی اور جاہ طلبی میں اور بھی اضافہ ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا موقف اس کے بالکل برعکس ہوـ دشمن کو اس سے یہ پیغام جائے کہ ملت ایران اور اس کے نمایندوں میں جو پختگی، جو استقامت، مفادات اور نفع و نقصان سے جو آگاہی اور قومی مفادات کے سلسلے میں جو مضبوط قوت ارادی ہے اس سے ان دشمنوں کو ہرگز کوئی موقع ملنے والا نہیں جو قومی مفادات کے سلسلے میں خیانت اور اس قوم پر غلبہ حاصل کرنے کی فکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جو ہمارے دشمن ہیں ان سے ہمارا سارا جھگڑا اس بات کا ہے کہ دنیا میں ایران کے نام سے ایک نہایت پر منفعت اور سیاسی و دفاعی اہمیت کا حامل ملک تھا جو برسوں سامراجی طاقتوں کے چنگل میں قید رہا، کبھی روس تو کبھی برطانیہ اور کبھی امریکہ کے چنگل میں۔ پھر ہوا یوں کہ اس ملک کی قوم نے اپنی فکری توانائيوں و قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے ملک کو ان طاقتوں کے چنگل سے آزادی دلائی۔ اب یہ طاقتیں پھر اسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح یہ علاقہ پھر سے ہاتھ لگ جائے۔ جبکہ ہمارا جواب ہے کہ ہرگز نہیں، ہم کسی بھی صورت میں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس نظام کے بد خواہوں سے ہمارا سارا جھگڑا یہی ہے۔ کوئي اور مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اگر لین دین اور رابطہ ہوتا ہے تو کچھ چپقلش اور مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جو فطری بھی ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات بھی نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملت ایران ثابت قدمی کے ساتھ اپنے تشخص، قومی وقار اور خود مختاری کی حفاظت کا تہیہ کئے آگے بڑھ رہی ہے۔ کچھ عناصر اسی قوت ارادی پر وار کرنا چاہتے ہیں۔ تو جھگڑے کی جڑ یہی ہے۔ اب اس بنیادی اور فیصلہ کن تنازعے میں پارلیمنٹ کی پوزیشن بالکل واضح رہنی چاہئے۔ کیوں؟ کیونکہ آپ ملت ایران کے نمایندے ہیں۔ انتخابات میں یہ قوم آپ کو پیش پیش نظر آتی ہے، مظاہروں اور جلوسوں میں ہر بار نئي تاریخ رقم کرتی ہے۔ اپنے نعروں اور مطالبات سے خود کو پہچنواتی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کیسی قوم ہے۔ پارلیمنٹ کو اسی قوم کی طاقت و اقتدار، عزت و وقار، اقتصادی مفادات کی پاسبانی و نگہبانی، تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں استقامت و پامردی کا مکمل آئینہ ہونا چاہئے۔ تو پارلیمنٹ کے پاس یہ سارے اہم ترین وسائل و ذرائع اور اختیارات ہیں۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ آپ ملک کے گوشہ و کنار سے منتخب ہوکر آنے والے دو سو نوے افراد ہیں۔ یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے دو سو نوے با صلاحیت نمایندے ایک چھت کے نیچے جمع ہیں اور چار سال ساتھ میں گذاریں گے۔ یہ بہت سنہری موقع ہے۔ ملک کے بنیادی مسائل پر بحث و مباحثے کا یہی اہم ترین پلیٹ فارم ہے۔ ایوان کے اندر بحث و مباحثے اور تکرار پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ میں تو اس سے پوری طرح متفق ہوں۔ امام (خمینی رہ) ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پارلیمنٹ، طالب علمی کے زمانے کے مباحثے جیسی بحث کا مقام ہے۔ دو طالب عالم کسی درس کے سلسلے میں مباحثہ کرتے ہیں تو کبھی کبھار ایک دوسرے پر چیخ بھی پڑتے ہیں لیکن یہ ڈانٹ اور چیخ نہ تو کسی سیاسی محرک کی وجہ سے ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں دشمنی کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ یہ شخص تو بس اس حقیقت کا دفاع کر رہا ہے جو اس کی نظر میں حق اور امر واقع ہے جبکہ دوسرا شخص اپنے موقف اور نظرئے کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔ غالبا یہ دونوں ہی آخر میں ایک مشترکہ نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ مفکرین کی بحث اہل علم و دانش، عقل و منطق اور تجربہ و مہارت کی بحث ایک الگ چیز ہے اور پرائمری کے بچوں کا شور و غل ایک الگ شئ۔ جب بچہ پرائمری میں داخل ہوتا ہے تو خوب شور شرابا کرتا ہے، ہنگامہ کرتا ہے۔ وہ کوئی علمی اور ادبی محفل ہی کیوں نہ ہو اور ادق موضوعات پر تبادلہ خیال ہی کیوں نہ ہو رہا ہے، اسے تو شور مچانے سے مطلب ہے۔ تو ان دونوں بحثوں میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اسکولی بچوں کا ہنگامہ، بین جماعتی ہنگامہ، معمولی سی چیز کے لئے لڑائی جھگڑا تو بہت ہی نا زیبا چیز ہے۔ یہ پارلیمنٹ کی شان کے منافی ہے۔ ہاں اگر علمی بحث ہے بالخصوص کمیشنوں کی سطح پر ہونے والی ماہرانہ بحث، تو وہ مستحسن اور لائق ستائش ہے۔ اس سے پارلیمنٹ کی رونق بڑھتی ہے اور یہ تو لازمی بھی ہے۔
اس وقت اقتصادی اور غیر اقتصادی بحثوں میں یہ نکتہ خاص طور پر زیر بحث آ رہا ہے کہ ہم کس طرح کی ترقی کرنا چاہتے ہیں؟ بعض افراد تو بس اس لئے بولتے ہیں کہ عوام کی توجہ اصل موضوعات سے ہٹ جائے مثلا چینی طرز کی ترقی، تو جاپانی طرز کی ترقی یا فلاں طرز کی ترقی کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ میں ترقی کی جو روش ہے وہ ہماے عوام کے ایمان و عقیدے اور ثقافتی و تاریخی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ ہمیں کسی کی تقلید کرنے اور نقل اتارنے کی ضرورت نہیں۔ نہ عالمی بینک، نہ فلاں ملک اور نہ فلاں علاقہ۔ ہر ملک اور علاقے کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے اور ان کی تلقین کردہ اور غالبا منسوخ ہو چکی روش کی پیروی میں بہت فرق ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اقتصادی اور ثقافتی شعبے میں بعض تجاویز ایسی ہوتی ہیں جو صد فیصد کہیں باہر سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ فلاں انگریز تو یہ نظریہ رکھتا ہے، فلاں مفکر نے یہ کہا ہے۔ جیسے کسی قرآنی آیت کا حوالہ دیا جا رہا ہو! ان میں سے بہت سے نظریات تو منسوخ ہو چکے ہوتے ہیں۔ تیس سال، چالیس سال، پچاس سال قبل اسے آزمایا گیا اور اب اس کی جگہ کوئی اور نظریہ آ چکا ہے لیکن ہم اسی منسوخ شدہ روش اور نظرئے کو اپنے شعبہ تعلیم و تربیت، علمی ماحول، یونیورسٹیوں، اقتصادی منصوبوں اور بجٹ کے تعین میں استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ تو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ دوسروں کے تجربات اور معلومات سے ضرور استفادہ کیا جائے لیکن روش خود اپنی ہونی چاہئے۔ یہ (ہجری شمسی) سال جس میں پارلیمنٹ اپنا کام شروع کر رہی ہے، جوابدہی کا سال قرار پایا ہے۔ جوابدہی کے سلسلے میں آپ کی دوہری ذمہ داری ہے۔ آپ خود تو جواب دیں گے ہی، دوسروں سے بھی آپ کو جواب طلب کرنا ہوگا۔ اگر حکومت جوابدہی کا فریضہ ادا کرنا چاہتی ہے تو وہ عوام کے سامنے یہ فریضہ ادا کرے گی، یہ بہت اچھی بات ہے اور میں نے اس چیز کے لئے ترغیب بھی دلائي ہے کہ عوام کے سامنے آپ پوری بات رکھئے۔ یہ تو اپنی جگہ۔ لیکن مجریہ کے جملہ اداروں کو تو پارلیمنٹ کے سامنے بھی قانونی جوابدہی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ تو آپ ان سے جواب طلب کیجئے اور ساتھ ہی اپنی کارکردگی کے سلسلے میں خود بھی جواب دیجئے۔ ترجیحات کیا ہیں؟ اس پر غور کیجئے۔ آپ میں ہر ایک کسی خاص علاقے سے منتخب ہوکر آیا ہے۔ آپ نے کچھ نعرے دئے ہوں گے، کچھ وعدے کئے ہوں گے، ان سب کو ایک ساتھ جمع کرکے غور کیجئے اور دیکھئے کہ ترجیحات کیا ہیں۔ حکومت کی جانب سے جو بل پیش کئے جائیں اسی طرح پارلیمنٹ کے اپنے جو منصوبے ہوں یا حکومتی اداروں سے جب جواب طلب کرنے کا موقع ہو تو ان میں ان ترجیحات کا آپ خیال رکھئے۔ ان کی درجہ بندی کیجئے بلکہ یہ بھی بہتر ہے کہ ٹائم ٹیبل تیار کر لیجئے اور پھر عوام کو مطلع کیجئے کہ ہم نے فلاں قانون بنانا چاہا یا فلاں مشکل کو حل کرنا چاہا اور اس کے لئے ہم نے چھے مہینے کا وقت مد نظر رکھا اور اب ہم فلاں مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ جو جناب ڈاکٹر حداد عادل صاحب کہتے ہیں کہ آئندہ سال ہم اپنی کارکردگی کی قابل قبول رپورٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوں تو یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آپ ترجیحات کا تعین کریں۔ ان کے لئے صحیح منصوبہ بندی کریں اور باریک بینی سےاس کے لئے ٹائم ٹیبل معین کریں۔ پھر آپ اعلان بھی کر سکتے ہیں کہ ہم ان ترجیحات کے لئے کوشاں ہیں۔ تمام کاموں کو ایک ہی دن میں توانجام نہیں دیا جا سکتا۔ ان میں کچھ ایسے کام ہوتے ہیں جو ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں۔ ان ترجیحات کا تعین ضروری اور اہم ہے۔ اس طرح آپ عوام کے سامنے خود بھی جواب دیجئے اور اپنے زیر نگرانی کام کرنے والے اداروں سے بھی جواب طلب کیجئے۔
آپ ایک دن بھی ضائع نہ کیجئے۔ میں یہ بات ان تمام بھائی بہنوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں جو مختلف شعبوں میں اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی خدمت میں بھی عرض کر رہا ہوں۔ بسا اوقات بہت سے افراد یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ ابھی تو چار سال کا وقت پڑا ہے، ان ابتدائی دو تین مہینوں میں بھلا کیا کیا جائے؟ نہیں جناب یہ ابتدائی دو تین دن بھی اہم ہیں۔ ایک دن بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ چار سال، اچھی خاصی مدت ہوتی ہے بشرطیکہ اس کے ہر دن اور ہر گھنٹے سے استفادہ کیا جائے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ حد سے زیادہ توقعات وابستہ کر لی جائیں۔ نہیں، بس اتنا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے ایک دور کے لئے جو وقت مقرر کیا گيا ہے اس کا پورا پورا استعمال کیا جائے تو پھر یہ چار سال اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کافی ثابت ہوں گے۔
ہماری تاریخ کی ایک مایہ ناز شخصیت، امیر کبیر کی شخصیت ہے۔ ہمارے ملک میں امیر کبیر کے ہاتھ میں تین سال حکومت رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تین سال کتنا طویل عرصہ تھا؟! امیر کبیر کے کارہای نمایاں اور ان کے یادگار اقدامات جو ہماری تاریخ اور ملت ایران کے ذہنوں میں محفوظ ہیں، سب کے سب انہی تین برسوں میں انجام پائے۔ بنابریں چار سال کا عرصہ کچھ کم نہیں۔ اچھا خاصا وقت ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس وقت کا پورا پورا استعمال کیا جائے۔ آپ عملی اہداف پر توجہ دیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے اہداف کا انتخاب کر لیں جن کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہی نہیں۔ آپ کم پر ہی قناعت کیجئے۔ ایسے اہداف کی فکر میں نہ پڑیئے جو آپکے بس میں نہیں ہیں۔ جو چیز ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہنی چاہئے وہ بیس سالہ ترقیابی منصوبہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ایک عملی منصوبہ ہے۔ یعنی اس میں بلند پروازی اور خوش فہمی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ اسے غور سے دیکھئے، اس کا باریک بینی سے جائزہ لیجئے، اس کا مطالعہ کیجئے۔ ملت ایران اس جامع آئين اور نظام کے ان شعبوں کے سہارے، اگر وہ ٹھیک سے کام کریں، بیس سال میں ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچ سکتی ہے جسے اس منصوبے میں متعارف کرایا گيا ہے۔ پالیسیاں ہمارے مد نظر رہیں اور یہ پالیسیاں اسی منصوبے کی بنیاد پر وضع کی جائیں۔ پالیسیوں سے مکمل ہم آہنگی کا خیال رکھتے ہوئے قانون سازی کیجئے یعنی قانون کو پالیسیوں کے قلب میں جگہ ملے اور پالیسیاں اسی مطلوبہ بلندی کی سمت بڑھیں۔ یہ منصوبہ اسلام کی بنیاد پر طے پایا ہے لہذا ہر آن ہم معینہ اہداف کی فکر میں رہیں، انہیں اہداف میں ضم ہو جائے، اسلام میں ضم ہو جائيں، اعلی اسلامی اہداف میں ضم ہو جائیں جو اللہ تعالی نے معین کئے ہیں۔ ان اہداف اور مطلوبہ بلندیوں پر آپ کی نظریں ٹکی رہیں۔ اسلام، قومی وقار، خود مختاری، سماجی مساوات، طبقاتی فاصلے میں کمی، آج یہ ہمارے اہم اہداف ہیں۔ آپ کا منظور کردہ کوئی قانون غریب اور دولت مند کے درمیان فاصلے کو اور بھی بڑھا سکتا ہے اسی طرح اسے کم بھی کر سکتا ہے۔ آپ کی کوشش یہ ہو کہ اس فاصلے میں کمی آئے اور یہ شگاف بھرے۔ اس سلسلے میں اہم ترین اقدامات میں ایک بد عنوانی کا مقابلہ ہے۔ چند سال قبل میں نے بد عنوانی سے مقابلے کے سلسلے میں حکام کو ایک خط لکھا تھا جس میں کثیر الجھات اور وسیع مطالعے اور طویل المیعاد کوشش مد نظر تھی۔ ہم جو بھی طریقہ اپنائیں جب تک بد عنوانیاں ختم نہ جائیں گی ہر کام ادھورا رہے گا۔ ملک میں بہت اچھے کام انجام دئے جا رہے ہیں اور اب تک جو کچھ انجام پایا ہے وہ بھی کم نہیں ہے لیکن بد عنوانیوں کی وجہ سے محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ کوششیں بے نتیجہ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی بڑا سا حوض ہے جس میں کئی پایپوں سے پانی آ رہا ہے لیکن حوض ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔ اب جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس میں تو کئی سوراخ ہیں۔ اس لئے اس میں جتنا بھی پانی ڈالا جاتا ہے حوض کے باہر چلا جاتا ہے۔ آپ جتنا بھی اس میں پانی ڈالیں دوسری جانب سے وہ بہتا ہی چلا جائے گا۔ معاشرے میں بد عنوانی بھی اسی طرح ہوتی ہے۔ مالی بد عنوانی ایڈز اور سرطان کی طرح ہوتی ہے اس کا بہت سختی سے مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ البتہ اس پر حد سے زیادہ واویلا مچانے اور مبالغہ آرائی کرنے سے گریز بھی کرنا چاہئے۔ بعض افراد تو اس طرح بات کرتے ہیں کہ گویا سرطان ہر جگہ پھیل چکا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے، اوپر سے نیچے تک مختلف اداروں میں کتنے سارے پاکیزہ صفت انسان ہیں، کتنے ایسے افراد ہیں جن کے دامن پر کوئی چھینٹ تک نہیں! اکثریت انہی افراد کی ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ اگر جسم کے کسی عضو میں کوئی تکلیف ہو جائے مثلا کوئی دانت خراب ہو جائے تو انسان ساری رات سو نہیں پاتا۔ حالانکہ اس کا دل، معدہ، پھیپھڑے، گردش خون، سب کچھ ٹھیک ہے لیکن اس ایک دانت نے انسان کی نیند حرام کر دی۔ بد عنوانی کی یہی مثال ہے۔ اس کا بہت سخت گیری کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس مہم کا ایک محاذ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
اگر انسان بد عنوانی سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو بہت زیادہ محتاط رہے کہ کہیں اس بد عنوانی کا داغ اس کے دامن پر بھی نہ لگ جائے۔ آپ پارلیمنٹ کے اندر اس سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہئے۔ آپ کے ہاتھ پاک رہیں، آپ کا دامن بے داغ رہے اور آپ کی زبان اور آنکھیں بے عیب۔ آپ اپنے دائرہ کار میں ہر چیز کوپاکیزہ بنائیے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لغزشوں سے ڈرئے۔ امام زین العابدین علیہ السلام جب صحیفہ سجادیہ میں لشکر اسلام کے سپاہیوں کے لئے دعا کرتے ہیں تو جن نکات پر خاص توجہ فرماتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدایا! ان کے دلوں سے فتنہ پرور مال کی محبت اور یاد مٹا دے۔ دولت بہت خطرناک اور فتنہ پرور ہوتی ہے۔ اس کے باعث بہتوں کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ ہم نے آہنیں ارادوں کے مالک بہت سے افراد کے بارے میں تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب اس مرحلے میں پہنچے تو ان کے قدم بھی لغزش سے محفوظ نہ رہ سکے۔ لہذا بہت ہوشیار اور محتاط رہئے۔ شریعت مقدسہ میں اس احتیاط کا نام کیا ہے؟ تقوا۔ قرآن میں شروع سے آخر تک جس تقوی پر اتنی تاکید ہے اس سے مراد یہی احتیاط ہے۔
اس کے بعد ایک اہم مسئلہ ہمہ گیر مفادات کو علاقائي مفادات پر ترجیح دینے کا ہے۔ یہ بھی انہیں چیزوں میں ہے جن کے بارے میں گفتگو تو آسان ہوتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کبھی میں بھی پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ مجھے پارلیمنٹ کی رکنیت کے سلسلے میں حالات کا پورا علم ہے۔ یوں بھی برسوں سے پارلیمنٹ سے مسلسل سابقہ ہے۔ آپ علاقائی مسائل کو قومی مسائل پر ترجیح دینے کی کوشش نہ کیجئے۔
آپ سے آخری بات نظم و ضبط کے تعلق سے کہنا ہے۔ میں ٹی وی پر جب پارلیمنٹ کی سیٹیں خالی دیکھتا تھا تو ٹی وی کے سامنے مجھے عوام سے شرم محسوس ہوتی تھی۔ ہم نے عوام سے درخواست کی تھی کہ آپ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچیں اور وہ پہنچے بھی اور انہوں نے اپنے نمایندے کا انتخاب بھی کیا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ایوان میں چار خالی نشستوں کے بعد کوئي ایک رکن پارلیمنٹ بیٹھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ٹی وی پر جب میں یہ منظر دیکھتا تھا تو واقعی مجھے شرم کا احساس ہوتا تھا۔ یہ تو بے ضابطگی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ وقت پر پہنچنا، کمیشن میں جانا، ایوان میں حاضر ہونا اور کارروائی میں حصہ لینا یہ سب بہت اہم ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ عوام نے جو توقعات آپ سے وابستہ کی ہیں، آپ کی کارکردگي اور الہی توفیقات ایسی ہوں کہ روز بروز عوام کی امیدوں میں اضافہ ہو اور انہیں محسوس ہو کہ بہت اچھے نمایندے پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔ اس صورت میں ہماری دعائيں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
21 مارچ سن دو ہزار چار کو نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے مقدس شہر مشہد میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب فرمایا، آپ نے اپنے خطاب میں انتہائی اہم اور حساس موضوعات پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی بیان پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرّحمن الرّحیمامّت مسلمہ نے ایک بار پھر اپنا عظیم الشان سالانہ اجتماع منعقد کیا ہے اور اس ندائے الہی پر شاندار طریقے سے لبیک کہا ہے: و اذّن فی النّاس بالحج ( اور لوگوں کو حج کی طرف بلاؤ )یہ بے مثال فریضہ بھی دیگر الہی فرائض کی طرح رحمتوں کا خزانہ ہے جس کے دروازے اپنے مقرّرہ وقت پر بندوں کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے خداوند عالم کے فیض و برکت کے بحر بیکراں سے سیرابی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔حج اس لحاظ سے ایک منفرد اور بے مثال فریضہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے دوران دل وجان کو جلا حاصل ہوتی اور ہر ایک حاجی اپنی توانائي اور گنجائش کے مطابق اس باران رحمت سے مستفیض ہوسکتا ہے ۔اس کے علاوہ ان ایام میں اتحاد و یکجہتی، جرات و بہادری اور بیداری و آگہی کے ذریعے امت مسلمہ کا اجتماعی تشخص بھی زیادہ اجاگر ہوکر سامنے آتا ہے جو مختلف قوموں، نسلوں، خطوں اور تہذیبوں سےتعلق رکھنے والے افراد سے مل کر تشکیل پائي ہے اور یہی آج کی دنیا کا اہم ترین تقاضہ ہے۔عالم اسلام طویل عرصے تک جمود اور خواب غفلت کا شکار رہا جو اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا اور بالآخر اغیار کی سیاسی اور علمی بالادستی پر منتج ہوا اور جس کی وجہ سے اس ( عالم اسلام ) کے مادی اور انسانی ذخائر دشمنوں کی ترقی و پیشرفت اور عزت وعظمت اور تسلّط کے استحکام میں استعمال کئےگئے لیکن اب وہ ( عالم اسلام ) بیدار ہوچکا ہے اور آہستہ آہستہ غارت گروں اور لیٹروں کے سامنے صف آرا ہورہا ہے۔اسلامی بیدری کی ہوا کے جھونکے عالم اسلام میں حرکت پیدا کر رہے ہیں اور علمی میدان میں اسلام کی کارکردگی کےمطالبے سنجیدگی سے کئے جارہے ہیں۔ اسلام کے سیاسی پہلو کو اہل نظر کے کے نزدیک ایک اہم مقام حاصل ہوچکا ہے اور ان کے سامنے ایک روشن اور امید افزا افق نمودار ہوا ہے ۔سوشلزم اور مارکسزم جیسے بیرونی متنازعہ نظریات کی ناکامی اور بالخصوص لبرل ازم پر مبنی مغربی جمہوریت کےمکرو فریب کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد، اسلام کا انصاف و مساوات اور حریت و آزادی پر مبنی چہرہ ہر دور سے زیادہ نمایاں ہوا اور یہ ایسے واحد مکتب فکر کے طور پر نمودار ہوا ہے جو عدل و انصاف اور آزادی و حریت کے متوالوں کی امنگوں کے مطابق ہونے کے علاوہ اہل فکر و نظر کے معیارات پر بھی کھرا اترسکتا ہے ۔بڑی تعداد میں اسلامی ممالک کے نوجوان اور بلند ہمت افراد اسلام کے نام پر اور عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کی آرزوئيں لئے ہوئے سیاسی، سماجی اور علمی میدانوں میں جد وجہد کرنے لگے ہیں اور اپنے معاشروں میں غیر ملکی سامراجی طاقتوں کےظلم و تسلط کے خلاف استقامت و ثابت قدمی کے عزم و ارادے کی تقویت کر رہے ہیں۔عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں جن میں مظلوم ملک فلسطین سر فہرست ہے، بہت سے مرد و زن اسلام کے پرچم تلے، خود مختاری اور سربلندی و آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے آئے دن زندۂ جاوید رزمیہ داستانیں رقم کررہے ہیں اور دنیا پرست سامراجی طاقتوں کو اپنی جرات و بہادری سے قعر مذلت میں پہنچا رہے ہیں ۔جی ہاں! اسلامی بیداری کی لہر نے سامراج کے اندازوں پر خط بطلان کھینچ دیا ہے، اور سامراجیوں کے وضع کردہ توازن کو بگاڑ کررکھ دیا ہے ۔دوسری طرف سیاست اور سائنس کے میدانوں میں اسلام کے زریں اصولوں اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جدید اسلامی نظریات اور ان کے ارتقا نے عملی طور ثابت کردیا ہے کہ اسلام ایک زندہ جاوید نظریہ حیات ہے جو عالم اسلام کے اہل نظر اور روشن فکر افراد کے لئے راہیں وضع اور مقرر کر سکتا ہے۔ کل کی استعماری اور آج کی سامراجی طاقتیں جو اپنی مکارانہ پالیسیوں کے ذریعے اسلامی معاشروں کو ایک طرف جمود و رجعت پسندی اور دوسری جانب غلامی اور اغیار کی نظریاتی تقلید کے درمیان الجھا کررکھنا چاہتی تھیں، آج وہ خود اسلامی فکر کے اس ارتقائی عمل کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں۔عالم اسلام میں نئے افکار و نظریات پروان جڑھ رہے ہیں، ان میں بہت زیادہ فعالیت اور سعی و کوشش نظر آ رہی ہے۔ لوگ ایمان اور نیک اعمال کی طرف راغب ہورہے ہیں اور یہ ایک با برکت تبدیلی ہے جس نے سامراجی طاقتوں کے مراکز کو لرزہ بر اندام کردیا ہے۔امّت مسلمہ کو چاہئے کہ اپنے آپ کو استعماری طاقتوں کے مراکز کی طرف سے در پیش خطرات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے جو وہ ( استعماری طاقتیں ) غم و غصہ اور شر پسندی کی عادت کے تحت اس عظیم تبدیلی کے رد عمل کے طور پر پیدا کررہی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حق و باطل کے معرکے میں، بالآخر حق کوہی فتح ہوتی اور شکست و زوال باطل کا مقدّر بنتا ہے، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ حق کی راہ میں لڑنے والے اپنی مادّی اور روحانی توانائیوں کو صحیح طریقے پر بروئے کار لائیں اور عقلمندی و پامردی، توکل بر خدا و شجاعانہ ثابت قدمی اور امید و اعتماد نفس کے ساتھ پہلے صحیح راستے کا انتخاب کریں پھر اس پر گامزن ہوجائیں ۔اس صورت میں خدا کی نصرت و مدد کے وہ مستحق ہوں گے جیسا قرآن میں وعدہ کیا گيا ہے۔ان تنصرواللہ ینصرکم و یثبّت اقدامکم( اگر تم خدا کی نصرت کروگے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرےگا )و لینصرنّ اللہ من ینصرہ( اورخدا اس کی مدد کرتا ہے جو اس کی نصرت کرے )انّ الارض یرثہا عبادی الصّالحون( بے شک زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے )صیہونزم کا سرطانی جال اور امریکی حکام کا شیطانی اور جنگ پسند ٹولہ جو آج سامراجیت کا خطرناک ترین اور سب سے بڑا جتھہ شمار ہوتا ہے، مختلف طریقوں سے امت مسلمہ کے خلاف برسر پیکار ہے۔ نفسیاتی و تشہیراتی جنگ سے لے کر معاشی جدال تک، معاندانہ سیاسی اقدامات سے لے کر تشدد، قتل اور فوجی یلغار تک، وہ صرف اور صرف اپنے ناجایز مفادات کے درپے ہیں اور اس راہ میں کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کرتے ۔فلسطین میں غاصب صیہونیوں کے ہولناک جرائم پر سرسری نظر جو حکومت امریکہ کے تعاون سے انجام پا رہے ہیں نیز عراق اور افغانستان میں غاصبوں کے وحشیانہ سلوک کا جائزہ ان لوگوں کی شقاوت و بربریت کو آشکارا کردیتا ہے جو دنیا میں انسانی حقوق، ڈیموکریسی اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جد وجہد کی آڑ میں بدترین قتل و غارتگری کا ارتکاب کررہے ہیں اور قوموں کو آزادی دلانے کے بہانے ان کو اپنی آمریت اور لوٹ مار کا نشانہ بنارہے ہیں ۔امریکا علی الاعلان مختلف ملکوں پر چڑھائی اور قوموں کے خلاف جارحیت میں خود کو حق بجانب تصور کرتا ہے۔ صیہونی حکومت نہایت ڈھٹائی کے ساتھ فلسطینی رہنماؤں کو قتل کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ صیہونی، فلسطین کے اندر پیر و جواں، مرد و زن اور بچوں کا خون بہا رہے ہیں اور ان کےگھروں کو مسمار کررہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ عراق کے اندر نہتے مظاہرین پر حملے کررہے ہیں، لوگوں کے گھروں اور ان کے خیموں اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیاجا رہا ہے اورابھی ان کی بھڑکائی ہوئي آگ کےشعلے خاموش نہیں ہوئے ہیں کہ عالم اسلام کو ایک اور جنگ کی نوید سنائي جا رہی ہے۔ان کا یہ اشتعال انگیز رویہ ان کی طاقت اور خود اعتمادی سے زیادہ ان کی سراسیمگی اور خوف و ہراس کا نتیجہ ہے۔ وہ اسلامی بیداری کا احساس کررہے ہیں اور اسلام کی سیاسی تعلیمات کے فروغ اور اسلام کی حاکمیت سے اپنے لئے سخت خطرہ محسوس کررہے ہیں، وہ اس دن سے ڈر رہے ہیں جب امت مسلمہ متحد ہوکر اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس روز ملت اسلامیہ اپنے قدرتی وسایل اور عظیم تاریخی ثقافتی ورثے، اپنی وسیع و عریض جغرافیایی قلمرو اور بےپناہ افرادی قوت کے ذریعے تسلط پسند طاقتوں کو جنہوں نے دو سو سال تک اس کا خون چوسا اور اس کی عزت و وقار کو مجروح کیا جارحیت و سرکشی بند کرنے پر مجبور کر دےگی۔ آج دنیاے اسلام کی سیاسی و نظریاتی شخصیات پر ایک اہم فریضہ عائد ہوتا ہے ۔مسلمان مفکروں کو اسلام کے حریت پسندی کے پیغام کو قابل فہم اور مناسب طریقے سے لوگوں کے مختلف طبقات تک پہنچانا چاہئے، انہیں مسلمان قوموں کے اسلامی تشخص کو صحیح طور سے بیان کرنا چاہئے نیز انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، حقوق نسواں، بد عنوانی کے خلاف اقدام، امتیازی سلوک کے خاتمے، غربت و افلاس اور علمی پسماندگی کے خلاف جد وجہد جیسے موضوعات سے متعلق اسلام کی روشن تعلیمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا چاہئے اور لوگوں کو دہشت گردی اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف جنگ کے دعوؤں کے پس پردہ کارفرما مغربی ذرائع ابلاغ کے ناپاک عزائم سے بھی آگاہ کرنا چاہئے ۔آج نظریاتی اور عملی لحاظ سے ان موضوعات کے بارے میں مغربی دنیا کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، اسے عالمی رائے عامہ کے مقابلے میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ مغربی دنیا کو فلسطین میں معصوم بچوں کے قتل عام، حقوق نسواں، عورتوں کی عزت واحترام اور قوموں کے حق خود ارادی کی پامالی اور قوموں کے ذخائر کی لوٹ مار اور حتی خود اپنے شہریوں کی آزادی کے بارے میں جواب دینا پڑےگا۔ کیا بعض یورپی ملکوں میں حجاب پر پابندی، آزادی کے ان کے بلند بانگ دعؤوں کی قلی نہیں کھول دیتے؟ اسلامی ملکوں کے سیاستدانوں اور اعلی سرکاری عہداروں کی اہم تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوموں پر بھروسہ کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں کے کبھی ختم نہ ہونے والے مطالبات کو ماننے سے انکار کردیں۔ یہ ان کا اہم ترین فریضہ ہے، وہ امت مسلمہ کے عظیم تشخص کو جو بہت سی مشکلات کا حل ہے فراموش نہ کریں ۔عالم اسلام کےمسائل کےحل میں فیصلہ کن امر ملت اسلامیہ کے مفادات کی تکمیل اوراس کے اقتدارکی برقراری ہونا چاہئے۔آج عراق سے غاصبوں کا انخلا، اور اس ملک میں قومی اقتدار اعلی کا استحکام، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء اور اس ملک کی خود مختاری و اسلامی ماہیت پر تاکید، فلسطین کی مظلوم قوم کی مدد اور ان لوگوں کی اخلاقی اور مادی حمایت جو اپنی جان و مال اور عزت و ناموس کے دفاع اور اپنی آزادی و خودمختاری کی راہ میں غاصبوں سے بر سر پیکار ہیں۔ عالم اسلام کے گوشے گوشے میں دینی اقدار ار ایمان و اعتقاد کی ترویج، مسلمان حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت، آپسی مسائل کا حل، اسلامی کانفرنس تنظیم کا خود کو موثر تنظیم بنانا اور سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل کرنےکی امت مسلمہ کے مفادات ہیں، لہذا مسلمان حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات میں انہیں شامل کیا جانا چاہئے اور قوموں کے دانشوروں اور دیگر افراد کواپنی حکومتوں سے اس کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔ایران کی قوم اور حکومت جو اپنے اسلامی جمہوری نظام کے قیام کی 25 ویں سالگرہ کا جش منا رہی ہے اس سلسلے میں کافی گرانبہا اور قابل فخر اقدامات کرنے کے علاوہ دنیا والوں کے سامنے مناسب نظام پیش کرچکی ہے ، ہم خدائے بزرگ و برتر پر بھروسے اور ایمان و معرفت سے سرشار قوم کی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے نیز اپنے عظیم نصب العین کی سمت گامزن رہتے ہوئے اس کی جانب ٹھوس قدم بڑھا چکے ہیں۔ دینی حدود ارو جمہوریت کے دائرے میں رہتے ہوئے معنویت اور آزادی و خود مختاری جیسے اقدار سے آمیختہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں جس کا سرچشمہ قرآنی تعلیمات ہیں۔اس دوران ہمارے ملک کو سامراج کی جانب سے دشمنی اور عناد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہماری قوم اس عرصے میں ایمان و استحکام اور افتخار کی اعلی منازل طے کر چکی ہے۔ ہم نے قرآنی تعلیمات پر عمل کیا ہے جو فرماتا ہے : ان کید الشّیطان کان ضعیفا( بے شک شیطان کی چال کمزور ہے )انّ اللہ مع الّذین اتّقوا و الّذین ہم محسنون( بے شک خدا ان کے ساتھ ہے جو تقوی و پرہیزگاری رکھتے اور جو احسان کرنے والے ہیں)و انّ اللہ علی نصرھم لقدیر(اور بےشک خدا ان کی مدد پر قادر ہے )ہم اپنی قوم اور عالم اسلام کے سامنے افق کو روشن دیکھ رہے ہیں اور الہی وعدوں پر یقین کامل رکھتے ہوئے اس راستے کو عزم راسخ کے ساتھ طے کررہے ہیں جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے معین کیا ہے۔والعاقبتہ للمتقین و السلام علی عباداللہ الصالحین سیّدعلی حسینی خامنہ ای ذی الحجہ 1424ھ مطابق جنوری 2004
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 18 دی سنہ 1382 ہجری شمسی مطابق 8 جنوری 2004 عیسوی کو اہل قم کے سالانہ اجتماع سے خطاب میں ان کی انقلابی خدمات کو سراہا۔ 19 دی کی تاریخ میں اہل قم نے بڑا اہم قیام کیا جسے ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اہل قم ہر سال اسی مناسبت سے تہران آکر قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کرتے ہیں۔ سالانہ اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اہل قم کی خصوصیات بیان کیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس موقعے پر زلزلے سے متاثرہ علاقے بم کا بھی ذکر کیا اور متاثرین کی امداد میں ایرانی قوم کی پیش قدمی کی تعریف کی۔ قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چودھ دی سن تیرہ سو بیاسی ہجری شمسی مطابق چار جنوری سن دو ہزار چار عیسوی کو ملک کے کسانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے زرعی شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ زراعت اور زرعی پیداوار کے میدان میں، پالیسیاں پائیدار، ٹھوس اور آزمودہ ہوں اور زرعی پیداوار کرنے والوں کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ آپ نے زرعی شعبے سمیت مختلف میدانوں میں ہونے والی ترقی و پیشرفت کو بھی ایک نمایاں حقیقت قرار دیا۔ آپ نے کاشتکاروں سے یہ سفارش کی کہ وہ اپنے پیشے کو ایک مقدس پیشے کی حیثیت سے دیکھیں اور ملک کی ترقی و پیشرفت اور معاشرے کے رفاہ و آسائش کے سلسلے میں اپنے کام کی اہمیت کا ادراک کریں اور اسی جذبے کے ساتھ کام کریں۔ آپ نے متعلقہ عہدہ داروں کو بھی ہدایت کی کہ وہ زراعتی مسئلے پر پوری توجہ رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے 25 آذر سنہ 1382 ہجری شمسی مطابق 16 دسمبر سنہ 2003 عیسوی کو اہل قزین سے خطاب میں اس علاقے کی اہم علمی شخصیات اور علم و دانش کے شعبے میں ان کی خدمات کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں عام انتخابات پر بھی روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں دشمنوں کی سازشوں اور پروپیگنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس تیر سن تیرہ سو بیاسی ہجری شمسی مطابق بیس جولائی سن دو ہزار تین کو سپاہ پاسداران انقلاب کی فضائیہ کی نئی سائنسی دفاعی ایجادات و مصنوعات کی نمائش کا معائنہ کیا اور سپاہ پاسداران انقلاب کے فضائي شعبے کی کارکردگی کی تعریف کی۔ آپ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں روحانیت و معنویت کو سپاہ پاسداران کی خاص خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ اعلی اہداف کے دفاع کے لیے ہر قوم کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط اور طاقتور بنائے۔ البتہ منطق، دین اور معنویت کی نظر میں جو طاقت کی تعریف ہے وہ مادی منطق کی تعریف سے بہت زیادہ الگ ہے۔