قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 فروردین سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 12 اپریل سنہ 2011 عیسوی کو سیاسی و علمی شخصیات کی ایک نشست سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ستائیس دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق بارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس درس خارج سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دو اقوال مع تشریح بیان کئے۔ ان دونوں روایتوں میں دوستی کے پاس و لحاظ اور اس پر عطا ہونے والی جزا کا ذکر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 8/1/1390 ہجری شمسی مطابق 28/3/2011 عیسوی کو جنوبی پارس گیس فیلڈ میں انجینیئروں، ٹیکنیشینوں، دیگر اہلکاروں اور شہدا کے خاندانوں کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ ملت ایران بتیس سال سے دنیا کی جابر طاقتوں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے جبکہ اقتصادی میدان میں یہ جہاد اور مقابلہ زیادہ پیچیدہ اور عمیق ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پہلی فروردین سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی مطابق اکیس مارچ دو ہزار گيارہ عیسوی کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں حسب معمول سالانہ خطبہ دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس اسفند سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق دس مارچ سنہ دو ہزار گیارہ عیسوی کو ماہرین کی کونسل (مجلس خبرگان) کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں کونسل کی نئی صدارتی کمیٹی کے انتخاب میں ارکان کی مدبرانہ اور دانشمندانہ کارکردگی پر تشکر کرتے ہوئے علاقے میں پھیلی اسلامی بیداری کو اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت اور تسلسل سے متاثر بہت عظیم تبدیلی قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دوسری اسفند سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اکیس فروری سنہ دو ہزار گیارہ عیسوی برابر سترہ ربیع الاول سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو ملک کے حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف عوامی طبقات کے اجتماع سے خطاب میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی اور علاقے کی بعض قوموں میں پیدا ہونے والی بیداری کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے حیات بخش خورشید سے بہرہ مند ہونے کی انسانی لیاقت بڑھنے کی علامت قرار دیا۔
تہران میں چوبیسویں اسلامی اتحاد کانفرنس میں شرکت کرنے والے مفکرین اور دانشوروں نے پہلی اسفند سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق بیس فروری سنہ دو ہزار گیارہ عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں صوبہ آذربائیجان کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں عالم اسلام میں روز بروز پھیلتی جا رہی اسلامی بیداری کو گزشتہ تینتیس برسوں کے دوران جاری رہنے والی عظیم ملت ایران کی استقامت و پائيداری کا شیریں ثمرہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس بہمن سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق آٹھ فروی سن دو ہزار گیارہ عیسوی کو تہران کے حسینیہ امام خمینی میں فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اصولوں، اقدار اور خاص طور پر اسلام پر ملت ایران کی ثابت قدمی و استقامت کو اسلامی جمہوریہ کے دوام اور دیگر قوموں کے لئے اس کے نمونہ عمل بن جانے کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ بعض ممالک میں قوموں کی عظیم تحریکیں اور علاقے میں اسلامی بیداری یقینی طور پر بتیس سال قبل کی ایرانی عوام کی تحریک سے متاثر ہے اور اب بڑی طاقتوں اور ان کے تسلط کا زمانہ رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران کی مرکزی نماز جمعہ میں باایمان و انقلابی عوام کے عظیم الشان اجتماع میں اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کو ایک الگ ہی جوش و جذبے سے سرشار قرار دیا اور اسلامی انقلاب کے نتیجے میں انجام پانے والی بنیادی اور گہری تبدیلیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قوم کی پائيداری کی برکت سے یہ تبدیلیاں ان پورے بتیس برسوں کے دوران جاری رہیں اور ایرانی عوام برسوں کی جد و جہد کے بعد اب اپنی مظلومانہ لیکن مقتدرانہ آواز کی بازگشت کا، شمالی افریقہ کے تازہ واقعات اور خاص طور پر مصر اور تیونس کے عوام میں اسلامی بیداری کی شکل میں، مشاہدہ کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے پہلے خطبے میں تہران یونیورسٹی میں اور تمام ملحقہ سڑکوں پر صف نماز میں بیٹھے بے شمار نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے اسلامی انقلاب سے قبل کے حالات اور دنیا کے سیاسی امور پر اس انقلاب کے اثرات کا تجزیہ کیا اور فرمایا کہ دنیا کی استبدادی اور استکباری طاقتوں نے مشرق وسطی کے انتہائی اہم اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل علاقے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے بڑی باریک بینی سے منصوبے تیار کئے تھے اور برسوں انہوں نے اس منصوبے پر کامیابی سے عملدرآمد بھی کیا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی نے ان کے سارے منصوبوں کو درہم برہم کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج تہران میں مقدس شہر قم کے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب میں حالات کی صحیح شناخت و بصیرت، فرض شناسی اور بروقت اقدام کو اللہ کی جانب سے لئے جانے والے امتحانوں میں کامیابی کے تین بنیادی عوامل اور روحانی و مادی پیشرفت کی تمہید قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ دی سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق انتیس دسمبر سنہ دو ہزار دس عیسوی کو شمالی صوبے گیلان کے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں ہمت و شجاعت، بصیرت و آگہی اور ہوشیاری و دانشمندی کو بلند چوٹیوں کی جانب قوم کی پیش قدمی کے بنیادی عوامل قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران نے جس طرح آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اپنی خلاقی صلاحیتوں، فداکاری و جاں نثاری اور میدان عمل میں موجودگی کے ذریعے دشمن پرغلبہ حاصل کیا، آٹھ مہینے کی نرم جنگ میں بھی اللہ تعالی کی عنایتوں کے طفیل میں مثالی مہارت اور سمجھداری کا ثبوت دیا اور گزشتہ سال تیس دسمبر کو سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے ذکر کی برکت سے اور اپنی ہمت و شجاعت، بصیرت و آگہی اور ہوشیاری و دانشمندی کے ذریعے آشوب پسند عناصر کی بساط لپیٹ دی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دس آذر سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق پہلی دسمبر سن دو ہزار دس عیسوی کو ملک کے دانشوروں اور اہم ترین علمی شخصیات کے ساتھ ایک اجلاس میں ترقی کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین کے اہم ترین موضوع پر گفتگو کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار آذر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق پچیس نومبر سن دو ہزار دس عیسوی کو عید غدیر خم کے مبارک و مسعود موقعے اور رضاکار تنظیم (بسیج) کی تشکیل کی تاریخ چھبیس نومبر کی مناسبت سے ایک لاکھ دس ہزار رضاکاروں کے اجتماع میں غدیر کے عظیم واقعے کا حقیقی مضمون طول تاریخ میں انسانی معاشروں کے لئے سعادت بخش اور عادلانہ رہبری و امامت کی جلوہ افروزی قرار دیا
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس آبان تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق دس نومبر دو ہزار دس عیسوی کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ سے متعلق شہید ستاری ڈیفنس یونیورسٹی میں ملک کی کیڈٹ یونیورسٹیوں کے طلبہ کی حلف برداری کی چوتھی تقریب سے خطاب کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق2010 میں سفر قم کے دوران تاریخی جمکران مسجد کے خدام سے ملاقات میں اس مسجد کے بارے میں اور وہاں خدمت گزاری کی اہمیت کے تعلق سے کچھ نکات بیان کئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس مقدس مسجد کے تعلق سے انقلاب سے پہلے کے اپنے تاثرات اور اس مسجد پر اولیائے الہی اور عرفاء کی خاص توجہ کے بارے میں بتایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 5 آبان سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق 27 اکتوبر سنہ 2010 عیسوی کو صوبہ قم کے مختلف شعبوں کے حکام اور عہدہ داروں کے اجلاس سے خطاب میں عوام کی خدمت کو ایک توفیق قرار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ خدمت قم کے عوام کی مانند باایمان، مجاہد، سماجی اقدامات کے لئے جوش و جذبے سے سرشار اور امتحانوں میں پورے اترنے والے لوگوں کے لئے ہو تو یقینا اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 4 آبان سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق 26 اکتوبر سنہ 2010 عیسوی کو شہر قم میں صوبے کے نوجوانوں، طلبہ اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں یکتا پرستی کی آئيڈیالوجی اور رونما ہونے والے واقعات دونوں کی سطح پر بصیرت کو قومی قوت و توانائی کے تسلسل کے لئے دراز مدتی منصوبوں کی بنیاد قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مقدس شہر قم کے سفر کے دوران 17 ذىالقعده 1431 ہجری قمری مطابق 3 آبان 1389 ہجری شمسی برابر 25 اکتوبر 2010 عیسوی کو ہزاروں غیر ملکی طلبہ اور محققین نے آپ سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی حامنہ ای نے 29 مہر سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق 21 اکتوبر سنہ 2010 عیسو کو جمعرات کی صبح شہر قم میں علماء و فضلاء و اساتذہ و طلبہ اور دینی مدارس کے منتظمین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں دینی تعلیمی مراکز میں آنے والی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں اور اس تبدیلی کو انتظامی کوششوں کے ذریعے صحیح رخ دئے جانے پر تبصرہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 مہر سنہ 1389 ہجری شمسی مطابق 20 اکتوبر سنہ 2010 عیسوی کو مقدس شہر قم کے دورے کے دوران صوبہ قم کے شہیدوں کے اہل خانہ اور اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے جنگ کے دوران جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جانبازوں اور جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھانے والے ایثار پیشہ افراد سے ملاقات میں شہادت پر ایمان، ایثار پر عقیدے اور اللہ تعالی سے تجارت کو ملت ایران کی حقیقی قدرت و طاقت کا راز قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستائیس مہر سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق انیس اکتوبر سن دو ہزار دس عیسوی کو انیس شہر قم میں زبردست اور تاریخی عوامی استقبال اور پھر دختر رسول حضرت معصومہ کے روضہ اقدس کی زیارت کے بعد روضے سے ملحقہ وسیع و عریض میدان میں ٹھاٹھیں مارتے عوامی اجتماع میں پہنچ کر جذبہ مودت کے اظہار پر شکریہ ادا کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دوسری تیر تیرہ سو نواسی مطابق تیئیس جون دو ہزار دس کو ملک کی یونیورسٹیوں کے بسیجی اساتذہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں بسیج کی خصوصیات کا ذکر کیا اور اسے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حکیمانہ فکر و نظر کا نتیجہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای انیس شہریور تیرہ سو نواسی ہجری شمسی، دس ستمبر دو ہزار دس عیسوی مطابق پہلی شوال چودہ سو اکتیس ہجری قمری کو تہران کی مرکزی نماز عید کی امامت کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس شہریور تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق دس ستمبر دو ہزار دس برابر پہلی شوال چودہ سو اکتیس ہجری قمری کو اسلامی نظام کے حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں عالم اسلام کے اتحاد کو عید فطر کا سب سے بڑا سبق قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تیس اگست سنہ دو ہزار دس عیسوی کو صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے ارکان سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستائیس مرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق سات رمضان المبارک چودہ سو اکتیس ہجری قمری کو ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں اہم داخلی و بیرونی امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہ رمضان کو توبہ و طہارت، اخلاص اور تقوای کے سیاسی و سماجی پہلوؤں کی جانب توجہ کا بہترین موقع قرار دیا اور باہمی اتحاد و اخوت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکام کا اتحاد ایک اہم فریضہ ہے جسے نقصان پہنچانے کی عمدی کوشش خلاف شریعت اقدام ہے۔
فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت اور اس موقع پر ایران میں منائے جانے والے یوم پاسدار کی مناسبت سے پہلی مرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمی مطابق دوسری شعبان چودہ سو اکتیس ہجری قمری برابر تیئيس جولائی دو ہزار دس کو قائد انقلاب اسلامی کے دفتر اور سپاہ پاسداران انقلاب فورس کے اہلکاروں اور ارکان نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس تیر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی، دس جولائی 2010 عیسوی مطابق 27 رجب چودہ سو اکتیس ہجری قمری کو عید بعثت رسول کے موقع پر ملک کے حکام کے اجتماع سے خطاب میں بعثت رسول کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔
پانچ تیر تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تیرہ رجب المرجب چودہ سو اکتیس برابر چھبیس جون سن دو ہزار دس کو جانشین رسول حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر صوبہ بوشہر کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے تہران آکر حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاری جانی اور ارکان نے اٹھارہ خرداد سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق آٹھ جون سن دو ہزار دس کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پارلیمنٹ کے اسپیکر نے تقریر کرتے ہوئے ایوان کی کارکردگی کے بارے میں بتایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس جمادی الثانی سن چودہ سو اکتیس ہجری قمری مطابق چار جون دو ہزار دس عیسوی برابر چودہ خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوری نظام کے معمار امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کی اکیسویں برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر دسیوں لاکھ کی تعداد میں جمع ہونے والے عقیدت مندوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بارہ آبان سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تین جون سنہ تیرہ دو ہزار دس عیسوی کو ہزاروں طلبہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ کو امریکا کی طمع اور توسیع پسندی، شاہ کی طاغوتی حکومت کے غیروں پر انحصار، بصیرت پر مبنی جذبہ ایمانی کی مضبوطی، میدان عمل میں نوجوان نسل کی پیش قدمی اور انقلابی نوجوان نسل کی شجاعت و ہمت کا آئینہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت ملت ایران ماضی کے ہر دور سے زیادہ پرعزم ہوکر اور پوری مضبوطی کے ساتھ اعلی اہداف اور سعادت بخش بلندیوں کی جانب رواں رواں اور اس عظیم تحریک میں نوجوان نسل پیش پیش ہے۔
بنت رسول صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کے موقع پر شعرا، خطبا اور ذاکرین اہل بیت اطہار کی ایک بڑی تعداد نے تیرہ خرداد سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق تین جون سن دو ہزار دس عیسوی کو حسینیہ امام خمینی میں قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں بنت رسول کے فضائل و مناقب بیان کئے اور ساتھ ہی عصری سماجی و انقلابی مسائل پر روشنی ڈالی۔
تین خرداد تیرہ سو اکسٹھ ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی انیس سو بیاسی کا دن ایران اور اس ملک کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کا بے حد اہم دن ہے۔ یہ روحانیت و معنویت کی کرشمائی تاثیر کا آئينہ ہے۔ اس دن خرم شہر کو جارح عراقی فوج کے قبضے سے آزاد کرایا گیا۔ اس علاقے کو اپنے غاصبانہ قبضے میں رکھنے کے لئے عراق کی صدام حکومت ہی نہیں بلکہ اس کی پشتپناہی کرنے والی مشرقی و مغربی طاقتیں اور علاقائی ممالک بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے لیکن ایرانی نوجوانوں نے قوت ایمانی اور توفیق الہی سے اس علاقے کو آزاد کرا لیا۔ اسی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے تین خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی دو ہزار دس کو شمال مشرقی تہران میں واقع امام حسین علیہ السلام کیڈت یونیورسٹی میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے خرم شہر کی آزادی کے لئے ایرانی جیالوں کے بیت المقدس نامی فوجی آپریشن کا مطالعہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں آت تمام عزیز نوجوانوں اور مستقبل کی امیدوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی شروعات اور تعلیم کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کی مناسبت سے بھی اور تین خرداد (چوبیس مئی) کے عظیم دن کی مناسبت سے بھی جو انقلاب کی تاریخ ہی نہیں ہمارے ملک کی تاریخ کا بھی ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ آج کی یہ تقریب بہت اچھی اور مناسب نیز سپاہ پاسداران انقلاب کی مانند روحانیت اور ذہنی و جسمانی توانائیوں اور فکری و عملی آمادگي کا آمیزہ اور سپاہ پاسداران انقلاب کی پیشرفت و ترقی کا آئینہ معلوم ہوئی۔
میرے عزیزو! خرم شہر کی آزادی کا دن جو در حقیقت سن انیس سو بیاسی کے اپریل اور مئی مہینے میں بیت المقدس آپریشن کے نقطہ اوج پر پہنچ جانے کا دن ہے، ہم سب کے لئے، ہماری تاریخ کے لئے اور ہمارے مستقبل کے لئے سبق آموز اور عبرت آموز دن ہے۔ کیونکہ فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے اس دن جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک حیرت انگیز اور قابل تعریف ہم آہنگی اور ناقابل بیان شجاعت و فداکاری کے ذریعے بڑی کاری ضرب لگائی۔ عراقی فوج کے پیکر پر ہی نہیں بلکہ عالمی سامراجی نظام کے پیکر پر جو اپنے لمبے لمبے وعدوں کے ساتھ بعثی حکومت کی جنگی مشینری کی پشت پر کھڑا ہوا تھا۔ کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ یہ چیز (خرم شہر کی آزادی) ممکن ہو سکے گی۔ لیکن ایسا ہوا۔ اس کی اصلی وجہ کیا تھی؟ اس کے لئے چند عوامل کو موثر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سب سے بنیادی ترین عامل تھا اللہ تعالی پر توکل اور اپنی قوت بازو پر بھروسہ۔ اگر ہم اس دن عام اور رائج اندازوں کے مطابق عمل کرتے اور سوچتے تو کسی بھی صورت میں کوئی یہ نہیں سوچ پاتا کہ یہ چیز بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے با ایمان عوام نے، ہمت و شجاعت کے ساتھ، ایمان و ایقان کے ساتھ، اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے، جان ہتھیلی پر اور موت کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان میں قدم رکھے اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ خرم شہر کی آزادی افتخارات کا نقطہ کمال ہے، افتخارات کا ثمرہ ہے۔ تقریبا ایک مہینے تک چلنے والے بیت المقدس آپریشن کی پوری مدت میں فداکاری و جاں نثاری کی سیکڑوں حیرت انگیز نشانیاں اور مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
میرے عزیز نوجوانو! میرے فرزندو! میں گزارش کروں گا کہ آپ اس آپریشن کی تفصیلات کو جس کا ایک حصہ، صرف ایک گوشہ، ضبط تحریر میں آ چکا ہے بغور پڑھئے اور دیکھئے کہ کیا واقعات رونما ہوئے۔ دیکھئے کہ ہمارے جوانوں نے، ہمارے جیالوں نے، جن کے ناموں کا ذکر کرنے کے لئے ایک کتاب درکار ہوگی، کیا کارنامہ انجام دیا؟ اگر ہم نمونے کے طور کچھ نام لینا چاہیں تو شجاع و فداکار کمانڈر احمد متوسلیان جیسے افراد کا نام لے سکتے ہیں جنہوں نے اس انتہائی اہم اور بڑی لڑائی میں کیسا کارنامہ انجام دیا اور کون سی توانائی استعمال کی؟! یہ جو جملہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور آپ نے اسے بارہا سنا ہوگا کہ خرم شہر را خدا آزاد کرد اس سلسلے میں کہا جانے والا سب سے حکیمانہ اور سب سے حقیقت پسندانہ جملہ ہے۔ وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی (1) کی عملی تصویر ہے۔ اللہ تعالی کی قدرت جانبازوں کے دلوں میں، ان کے آہنی عزم و ارادے میں، ان کے صبر و ضبط میں، ان کے توانا بازوؤں میں، ان کی خلاقی توانائیوں میں جلوہ گر ہوئی۔ دشمن مادی طاقتوں پر تکیہ کئے بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے کہ مادی طاقت پختہ روحانیت و انسانیت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ چیز ہمیشہ رہے گی۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ میرے عزیزو! آج بھی مادی طاقتیں اپنی پوری توانائی کے ساتھ، اپنی دولت، اپنی صنعت، اپنی جدید ٹکنالوجی اور سائنسی ترقی کی مدد سے بھی ان انسانوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں جو ایمان و ایقان کو، عزم و ارادے کو، ہمت و شجاعت کو اور فداکاری و جاں نثاری کو اپنے فعل و عمل کا معیار قرار دیں۔
جو لوگ اس زمانے میں ملت ایران اور اس قوم کے سپاہیوں کے مد مقابل کھڑے ہوئے تھے یہ وہی لوگ ہیں جو آج ملت ایران کے مقابلے پر آئے ہیں۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں بھی امریکا، نیٹو، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تھے۔ صدام کو کیمیاوی اسلحہ دیتے تھے، فوجی ساز و سامان فراہم کرتے تھے، طیارے دیتے تھے، جنگی نقشے دیتے تھے، جنگ کے میدان کی تازہ اطلاعات دیتے تھے، اس کی پشت پر کھڑے ہوئےتھے تاکہ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو، توحید و روحانیت کے عظیم نظام کو، وحدانیت و انسانیت کے لہراتے اس پرچم ہو اور قوموں کی آزادی اور خود مختاری کی آواز کو شکست دے دیں۔ صدام کی پشت پر یہی لوگ کھڑے ہوئے تھے اور آج بھی یہی لوگ (مقابلے کے لئے) سامنے ہیں۔ آج بھی جو لوگ اپنی تشہیراتی مہم کے ذریعے حقائق کو برعکس شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ خود دنیا کے بیشتر علاقوں کی بد امنی کے ذمہ دار ہیں لیکن ایران کو خطرہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں، وہ لوگ جو پاکستان میں روزانہ مجرمانہ کارروائیاں کرتے ہیں، افغانستان میں برسوں سے قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، عراق میں کسی اور صورت میں اور فلسطین میں کسی اور انداز سے، وہ لوگ جو قدس کی غاصب حکومت کی شیطانی طاقت کی پشت پر کھڑے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں۔ انیس سو بیاسی میں یہی لوگ صدام کی حمایت و مدد کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہیں شکست ہوئی تھی اور آپ یقین رکھئے کہ اس دفعہ بھی انہیں شکست ہوگی۔
اسلامی جمہوری نظام دنیا کی دیگر جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کی مانند نہیں ہے۔ خاص پیغام کا حامل نظام ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کا پیغام وہ پیغام ہے کہ جس کے لئے دنیا کی قومیں بیتاب ہیں۔ یہ دنیا کے جغرافیا میں کسی نقطے پر واقع عام حکومت اور سیاسی نظام سے جس میں خواہشات نفسانی میں ڈوبے افراد شامل ہوتے ہیں، مختلف ہے۔ یہاں (اسلامی جمہوری نظام میں) قدروں کا معاملہ ہے، انسانیت کا موضوع ہے، مداخلت پسند اور تسلط پسند طاقتوں کے چنگل سے قوموں کو نجات دلانے کا مسئلہ ہے۔ انسانیت اور بشریت کے لئے ہمارے نظام کے پاس ایک پیغام ہے اور اسی پیغام کی وجہ سے دنیا کی حریص طاقتیں ملت ایران کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں۔ اگر یہ ٹکراؤ کا پہلا موقع ہوتا تو ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل دہل جاتے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ یہ ٹکراؤ تو اکتیس سال سے مختلف شکلوں میں چلا آ رہا ہے۔ سیاسی حملہ، فوجی لشکر کشی، اقتصادی ناکہ بندی اور مختلف دھمکیوں کی شکل میں۔ تسلط پسند ممالک میں مختلف حکام آئے اور چلے گئے لیکن ملت ایران ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ محکم عمارت روز بروز اور مضبوط ہوئی ہے اور پروقار بن گئی ہے۔ یہ ثمربخش خدائی پودا، اس سازگار اور آمادہ سرزمین پر اگنے والا یہ شجرہ طیبہ روز بروز اپنی جڑیں اور بھی گہرائی میں اتارتا جا رہا ہے۔ اگر روحانیت، اسلامی اقدار اور ایران کے دشمنوں کے اندر کبھی امید کی رمق تھی بھی تو آج یہ رمق بھی باقی نہیں رہی ہے، وہ مایوسی کے عالم میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ راستے سے واقف نہیں ہیں، وہ ملت ایران کو نہیں پہچانتے۔ وہ آج کے اندازوں اور تخمینوں کا قیاس تیس سال، چالیس سال اور پچاس سال قبل کی صورت حال سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑی طاقتوں کے بلا شرکت غیرے غلبے کا دور تھا۔ یہ قیاس غلط ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ قومیں بھی بیدار ہو چکی ہیں۔ لہذا آج آپ ایرانی عوام، آپ نوجوان حضرات جو اس قوم کے چنندہ اور نمایاں نوجوانوں میں ہیں، آپ سپاہ پاسداران انقلاب کے نوجوان قوموں کے دلوں میں امید کی کرن جگانے والے ہیں۔ بہت سی حکومتوں کی نظریں آپ پر لگی ہوئي ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مداخلت اور جارحیت پسند ملک نہیں ہے۔ یہ استقامت، یہ پیغام اور تمام شعبوں میں نمایاں یہ روحانی طاقت ان کی امیدیں بڑھا دیتی ہے، ان میں استقامت و پائیداری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ آج بر اعظم ایشیا، بر اعظم افریقا، بر اعظم امریکا میں حتی خود یورپ میں ایسی قوموں کی کمی نہیں ہے جن کی تعریفی تحسین آمیز نگاہیں آپ پر مرکوز ہیں۔ وہ آپ کی مداح ہیں۔
میرے عزیزوں! آپ نوجوانی کے اس سنہری موقع کی، اس توانائی کی اور استعداد کی قدر جانئے۔ خود کو نکھارنے کا یہ موقع جو آپ کو فراہم کیا گیا ہے اس کی اہمیت کو سمجھئے۔ آپ بھی، فوج کے جوان بھی، پولیس فورس کے اہلکار بھی اور مقدس و پاکیزہ رضاکار فورس بھی۔ آج اس الہی ملک میں انہیں ایسے وسائل دستیاب ہیں جو کبھی بھی برگزیدہ، با ایمان اور صالح نوجوانوں کو حاصل نہیں ہوئے تھے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھائيے۔ ان مواقع کا بھرپو استعمال سب سے بڑا شکر ہے۔
پالنے والے! اس گروہ پر اپنا لطف و کرم نازل فرما۔ پروردگارا! ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر جنہوں نے یہ درخشاں راہ ہمارے لئے کھولی اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پالنے والے! ہمارے عزیز شہداء کو جو تیرے فضل و کرم سے زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے بلندی درجات عطا فرما۔ ہمیں انہی عزیزوں کی صف میں شامل کر اور اس گروہ کا سلام امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی بارگاہ میں پہنچا۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) انفال، 17
آٹھ اردیبشہت سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اٹھائيس اپریل سن دو ہزار دس عیسوی کویوم محنت کشاں کے موقع پر ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1389/1/22 ہجری شمسی مطابق 2010/4/11 عیسوی کو فوج اور پولیس کے اعلی کمانڈروں اور افسران سے ملاقات میں مسلح فورسز کو ملک اور معاشرے کا حفاظتی حصار قرار دیا اور اس حصار کے ہمیشہ مضبوط اور مستحکم بنے رہنے کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1389/1/17 ہجری شمسی مطابق 2010/4/6 عیسوی کو ملک کے حکام، سیاسی شخصیات اور دانشوروں سے ملاقات میں ہجری شمسی سال کی آمد کی مبارکباد پیش کی اور اسے عوام کے لئے بابرکت بنانے کے لئے حکام سے محنت و تندہی سے کام کرنے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے16/1/1389 ہجری شمسی مطابق 5/4/2010 عیسوی کو ایران کی مجریہ، عدلیہ اور مقننہ کے عہدہ داروں سے ملاقات میں فرائض منصبی کی اہمیت اور ان کی ادائیگی میں لازمی دقت نظر کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے امور کی انجام دہی اور محکوموں کے مابین اتحاد و ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔