قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھبیس مہر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق اٹھارہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو سید الشہدا فوجی ڈویژن کی مارننگ اسمبلی سے خطاب میں فوج کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ملک اور قوم کے تعلق سے فوج کے فرائض بیان کئے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت پر قصیدہ گو شعرا اور منقبت خوانوں نے انیس جمادی الثانی مطابق گیارہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب نے محمد و آل محمد علیھم السلام کے قصیدے پڑھنے والوں کی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے مدح کے اشعار کے تعلق سے اہم ہدایات دیں۔
احمد سکوٹور نامی ایک افریقی لیڈر گنی کوناکری کے صدر جمہوریہ تھے میری صدارت کے دوران کئی مرتبہ ایران آئے۔
ایک مرتبہ جنگ کے زمانے میں آئے، کہنے لگے آپ کے اوپر یہ جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس پر تعجب نہ کیجیئے۔ سامراجی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہ جو کام کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کسی پڑوسی ملک کو انقلاب کی نابودی پر مامور کر دیتی ہیں۔
آپ کا مسئلہ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ لہذا تعجب نہ کیجئے۔
انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے اوپر ایک طرف سے (ایک سرحد سے) حملہ کیا گیا ہے لیکن ہم پر پانچ طرف سے(پانچ سرحدوں سے) حملہ کیا گیا، پانچ ملکوں نے حملہ کیا ہے۔ گنی کوناکری ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کے اطراف میں کئی ممالک واقع ہیں۔ سکوٹور بھی ایک انقلابی لیڈر تھے اور ایک انقلاب کے ذریعہ ہی آگے آئے تھے لہذا ان پر حملہ کیا گیا۔
) تہران یونیورسیٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران 12/5/1998)
بسم اللہَ الرّحمن الرّحيمالحمد للَّہ ربّ العالمين والصّلاۃ والسّلام على البشير النذير والسّراج المنير سيّدنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على آلہ الاطيبين الطاھرين و علىالخيرۃ من اصحابہ المنتجبينمسلمانوں کی سب سے بڑی سالانہ ملاقات کی خوشخبری کے ساتھ حج کے ایام آ گئے ہیں، اور بجا ہوگا کہ اشتیاق سے لبریز لاکھوں دل، جنہیں ان ایام میں اللہ تعالی کے فیض قربت سے استفادے کا موقع حاصل ہوگا، مسلسل جوش و خروش اور اپنے آپ کو تیار کرنے کے ہیجان میں رہیں، اور حج کے دسیوں لاکھ خواہشمند مسلمان، جن کا نام اس سال، اس موقع سے استفادہ کرنے والوں (حج سے مشرف هونے والوں) میں نہیں ہے، سعادت حاصل کرنے والوں کے ہر دن اور ہر لمحے کو یاد کرتے ہوئے اور ان کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرتے ہوئے اپنے دل و دماغ کو معطر کریں، اور تمام صاحبان دل مسلمان، حج کے ایام کو کسی نہ کسی طرح حج اور اس کے جلال و جمال کی نشانیوں کے ساتھ گزاریں۔ہر سال حج کے مناسک، ایک اہم واقعہ ہوتے ہیں اور بجا ہوگا کہ ان ایام میں پورے عالم اسلام کے لوگوں کے افکار، توجہ، غور و فکر اور احساسات کا اصلی مرکز یہی مناسک ہوں اور ہر کوئی اپنی معنوی، فکری اور سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے ان کے بارے میں کسی نہ کسی طرح غور و فکر کرے اور اسی ماحول میں پہنچنے کی کوشش کرے۔ بہت ہی واضح سی بات ہے کہ جن افراد کو حج سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے وہ اس ذمہ داری اور توقع کے مرکز میں ہیں اور چونکہ ان کے جسم، جان، افکار اور کوششیں حج اور اس کی برکتوں اور اثرات سے وابستہ ہیں لہذا بہتر ہے کہ وہ اس سے معنوی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔اگرچہ حج کی برکتیں، حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہیں اور لایزال رحمت کی یہ بارش، انسان کے دل اور افکار کی خلوتوں سے لے کر سیاست اور معاشرے، مسلمانوں کے ملی اقتدار اور مسلم اقوام کے درمیان تعاون کے میدان تک کو بارور اور زندگی کو اشتیاق سے شرابور کر دیتی ہے لیکن شاید کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور اپنی آنکھوں کو حقائق کی جانب کھولنے اور سوچنے سمجھنے کی خداداد صلاحیت سے استفادہ کرنے پر مائل شخص کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ، بے نظیر معرفت اور شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتا اور کوئی بھی دوسرا دینی موقع حج میں حاصل ہونے والے شناخت کے اتنے سارے مواقع کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا۔یہ معرفت، کچھ باتوں کی شناخت سے عبارت ہے؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں:ایک فرد کی حیثیت سے اپنی شناخت، اسلامی امت کے عظیم مجموعے کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، اس امت واحدہ کے نمونے کی شناخت، خدا کی عظمت و رحمت کی شناخت اور دشمن کی شناخت۔ایک فرد کی حیثيت سے اپنی شناخت، اپنے وجود کے بارے میں غور و فکر کرنے اور اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کی شناخت کرنے کے معنی میں۔جس جگہ مادی تشخص اور مال، عہدہ، نام، زیور اور لباس اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور انسان فرق و امتیاز کے ان اسباب سے علیحدہ ہوکر دوسرے لاکھوں انسانوں کے ساتھ طواف، سعی، نماز، افاضے اور وقوف کرتا ہے اور امیر اور غریب، حاکم اور رعیت، عالم اور جاہل، سیاہ اور سفید سب کے سب ایک لباس میں اور ایک انداز میں خدا کی جانب رخ کرتے ہیں، اس کی جانب دست نیاز بڑھاتے ہیں اور اپنے آپ کو جمال، عظمت، اقتدار اور رحمت کے مرکز میں پاتے ہیں، اس جگہ ہر انسان غور و فکر کرکے خداوند متعال کے مقابل اپنی کمزوری اور تہیدستی اور خدا سے تقرب کے سائے میں اپنی بلندی، اقتدار اور عزت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے، اپنے کمزور وجود کے بارے میں باطل اور غرور انگیز توہم کو دور پھینک سکتا ہے اور خودپسندی و نخوت کے شیشے کو چور چور کر سکتا ہے جو اس کی سب سے بری عادات اور اطوار کا سبب ہے۔ دوسری جانب وہ عظمت کے سرچشمے سے رابطے کی حلاوت کو چکھ سکتا ہے اور اس سے متصل ہو جانے نیز اپنے اندرونی بتوں سے دوری اختیار کرنے کو آزما سکتا ہے۔ یہ بنیادی شناخت، جو تمام عبادتوں کا جوہر اور اولیائے خدا کی دعا و مناجات کا مضمون ہے، انسان کو پاک و پاکیزہ بناتی ہے اور اسے اگلی شناخت کے لیے آمادہ اور کمال کی تمام راہیں طے کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ عام زندگی میں، دنیوی بکھیڑے، مادی جدوجہد کے لیے ضرورت سے زیادہ سرگرمیاں اور انسانوں کی روزمرہ کے زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والے جھنجٹ دل کو غافل بنا دیتے ہیں، اسے اس واضح و روشن معرفت سے باز رکھتے ہیں، باطل وہم و گمان کے جالوں میں پھنسا دیتے ہیں اور اس کے دل کو تاریکی اور ظلمت کی جانب کھینچ لے جاتے ہیں؛ حج ان تمام بیماریوں اور مسائل کا شافی علاج ہے۔ امت اسلامی کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، ان تمام حاجیوں حاجیوں، مسلمان اقوام اور اسلامی سرزمینوں کو دیکھنے کے مترادف ہے جنہوں نے اپنے لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف کے لیے روانہ کیا ہے۔ تمام حاجیوں پر نگاہ، اس عظيم اسلامی امت پر نگاہ ہے جو آج پوری دنیا میں دسیوں اقوام اور کروڑوں انسانوں سے مل کر تشکیل پائی ہے اور زندگی اور سماجی فلاح و بہبود کے اہم ترین مادی اور معنوی وسائل سے بہرہ مند ہے۔ نیز پوری انسانیت اور صنعتی تمدن اپنے تمام تر مادی وسعت کے ساتھ، اس کے اور اس کے بے پناہ وسائل و ذخائر نیز اس کی منڈیوں اور ثقافتی و علمی ورثے کے محتاج ہیں اور اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔اس عظیم حقیقت کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنے آپ کی شناخت، حاجی کو اپنے بھائیوں اور اقرباء کے ساتھ حقیقی اور جذباتی رشتوں سے متصل کرتی ہے اور جدائی اور تفرقے کے سحر کو باطل کر دیتی ہے جو برسوں سے کل کے استعمار اور آج کے سامراج کے ہاتھوں سے رنگ و نسل، زبان، مذہب اور قومیت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔طبقاتی دنیا کے سرغنہ یعنی وہ سیاستداں، جنہوں نے دنیا کو ہمیشہ طاقتور اور کمزور یا سامراجی اور پسماندہ جیسے دو طبقوں میں تقسیم کرنے اور پسماندہ اقوام کے خلاف طاقت اور اقتدار کے مرکز کو اپنے درمیان تقسیم کیے رکھنے کی کوشش کی ہے، گزشتہ دو صدیوں سے لے کر اب تک اسلامی اتحاد سے خوفزدہ رہے ہیں اور انہوں نے اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں! انہیں لوگوں نے جنہوں نے موجودہ عشرے میں بالکان کے مسلمانوں کے قتل عام یا یورپی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویے اور ناانصافی کے ذریعے یا ان باتوں کے سلسلے میں لاپرواہ رہ کر پورے یورپ کو عیسائي بنانے کا عزم ظاہر کیا اور عالم اسلام کے اتحاد کو مختلف قسم کے اہانت آمیز ناموں سے پکارا اور تبلیغ اور عمل کے ذریعے اس میں رکاوٹیں ڈالیں۔فرد فرد میں اس احساس کی تقویت کہ وہ ایک عظيم مجموعے کا جزو ہے اور اس کی صحیح ہدایت کو تفرقہ ڈالنے والے تمام ہتھکنڈوں پر غلبہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ کہ اس قومی اور مذہبی تشخص کو اسلامی امت کے مختلف میدانوں میں باقی رہنا چاہیے، اتحاد و یکجہتی کے فائدوں میں سے ہے اور اس پورے مجموعے کو بہرہ مند کرتا ہے اور اسلامی امت کے اتحاد میں پوشیدہ عزت و اقتدار، اس کے تمام اراکین اور اجزا کو حاصل ہوتا ہے۔حج میں طواف، سعی، نماز جماعت اور تمام اجتماعی عبادتیں اور مناسک، حاجی کو یہی سبق دیتے ہیں اور اسے اس کی روح کی گہرائیوں تک میں راسخ کر دیتے ہیں۔ اس امت واحدہ کے ایک نمونے کی شناخت کا مطلب ہے، اسلامی اتحاد کے عملی جامہ پہننے کی آرزو کی راہ میں ایک عملی قدم اور عالمی سیاست کے میدان میں ایک متحدہ اسلامی طاقت کا ظہور۔دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف زبانوں اور رنگوں کے ساتھ آنے والے حاجیوں کے جم غفیر کو دیکھنے سے مسلمان کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ذاتی، قومی اور ملی سرحدوں سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کا اسلامی فریضہ اس کے برادرانہ رویے کو ان کے ساتھ میل جول، ہمزبانی اور یکجہتی کی راہ پر آگے بڑھاتا ہے، اقوام کی خاص خبروں کو پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے اور دشمن کی تشہیراتی سازشوں کو جو ہمیشہ اور اس وقت ہمیشہ سے زیادہ حقائق کو تبدیل کرنے، جھوٹی خبریں تیار کرنے اور افواہیں پھیلانے میں مشغول ہے، ناکام بنا دیتا ہے اور علاقائیت، زبان اور اسی قسم کے خیالی فاصلوں کو ختم کر دیتا ہے۔ایک قوم کی کامیابی و کامرانی کی داستان سنا کر دوسری اقوام میں امید کی روح پھونک دیتا ہے اور ایک ملک کے تجربے کی تشریح کرکے ایک دوسرے ملک کو تجربہ کار بناتا ہے۔ افراد اور اقوام کے درمیان سے اکیلے پن اور تنہائی کے احساس اور ان کی نظروں سے دشمن کے رعب و دبدبے کو ختم کرتا ہے۔ ایک ملک کے اہم مصائب کو دوسروں سے بیان کرتا ہے اور انہیں ان کے حل کے لیے ترغیب دلاتا ہے۔حج کے ایام میں حاجیوں کا ایک جگہ پر قیام خصوصا عرفات اور مشعر میں وقوف اور منیٰ میں شب بسری یہ سب اس مفید اور کارساز شناخت کے بھرپور مواقع ہیں۔حج میں خداوند متعال کی عظمت و رحمت کی شناخت، اس گھر کی تعمیر پر غور کرنے کے مترادف ہے کہ جو خانۂ خدا ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کا بھی گھر ہے ؛ انَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكََّۃ مُبَارَكًا وَ ھُدًى لِّلْعَلَمِينَ.(1) (بلاشبہ (کعبہ) لوگوں کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے جو مکے میں ہے۔ یہ تمام عالمین کے لیے مبارک اور (باعث) رحمت ہے۔)اسی طرح یہ، وہ جگہ ہے جہاں کا رخ حاجت مند انسان کرتا ہے، اور وہ مقام بھی ہے جہاں دین الہی کی عظمت جلوہ افروز ہوتی ہے۔ یہ شکوہ و جلال، سادگی و عظمت کا ایک نمونہ، اولین صدائے توحید کی یادگار اور اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کا مقام بھی ہے، اور وہ جگہ بھی ہے جہاں قدم قدم پر صدر اسلام کے ان مجاہدین کے نقوش پا موجود ہیں جنہوں نے اس جگہ پر عالم غربت میں جہاد کیا، مظلومیت کے ساتھ یہاں سے ہجرت کی اور بڑے ہی مقتدرانہ اور فاتحانہ انداز میں یہاں واپس لوٹے اور اسے عربوں کی جاہلیت کی نشانیوں سے پاک کر دیا۔ اسی طرح یہ جگہ، خدا کے حضور گڑگڑانے والوں کے انفاس، عبادت کرنے والوں کے سجدوں کے نشانوں اور خدا کی مدح و ثنا کرنے والوں کے حاجت مند ہاتھوں کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ ابتدا میں خورشید اسلام کے طلوع اور آخر میں مہدی موعود کے ظہور کا مقام بھی ہے، مضطرب دلوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور تھک چکی روحوں کو امید عطا کرنے والا سرچشمہ بھی ہے۔فریضۂ حج کا وجوب اور اس کے مناسک کی ترتیب، عظمت کی علامت بھی ہے اور رحمت کی آیت بھی۔ اسی شناخت کے ذریعے ہی مسجدالحرام میں کعبۂ مکرمہ کا مشاہدہ کرتے ہی دل متغیر ہو جاتے ہیں، بڑی تیزی کے ساتھ صراط مستقیم سے ملحق ہو جاتے ہیں اور انسان تبدیل ہو جاتے ہیں۔ دشمن کی شناخت، ان تمام شناختوں کا نتیجہ اور ان کا تتمہ ہے۔ اس کے بغیر مسلمان کا دل اور ذہن، بغیر کسی حفاظت والے خزانے کی مانند ہے جو رہزنوں، دھوکے بازوں اور لٹیروں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہے۔ حج کے اعمال میں رمی جمرات، دشمن کی شناخت اور اس سے مقابلے کا مظہر ہے اور پیغمبر معظم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کے موقع پر مشرکین سے برائت و بیزاری کی آواز بلند کی اور حج کے دوران برائت کی آیتوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی آواز میں سنوایا۔ اگر کسی دن عالم اسلام اور اسلامی امت، جری دشمن کے وجود سے نجات حاصل کرلے اور یہ بات ممکن ہو سکے تو برائت کا فلسفہ بھی باقی نہیں رہے گا تاہم موجودہ دشمنوں اور دشمنیوں کی موجودگی میں دشمن کی جانب سے غفلت اور برائت کے سلسلے میں لاپرواہی بہت بڑی اور نقصان دہ غلطی ہوگی۔ اگر وہ قدیمی شناخت حاصل ہو جائے تو عالم اسلام کے دشمن بھی پہچانے جائيں گے۔ ہر وہ واقعہ یا شخص، یا حکومت و نظام کہ جو مسلمانوں کو ان کے اسلامی تشخص سے بیگانہ کردے یا انہیں بکھراؤ اور پراکندگی کی راہ پر ڈال دے یا انہیں اپنی اسلامی عزت و عظمت کے حصول کی جانب سے لاپرواہ یا مایوس کرے، وہ دشمنانہ کام کرے گا اور اگر وہ خود دشمن نہیں ہے تو دشمن کا آلہ کار ہے۔قرآن مجید میں شیطان کو برائی، شر اور انحطاط پیدا کرنے والی ایسی طاقتوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو انبیاء کے مخالف محاذ پر کھڑی ہیں۔وَكَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَياطِينَ الاِْنسِ وَالْجِنِّ.(2) (اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنات میں سے شیطانوں کو ہر نبی کے لیے دشمن بنایا۔) پورے قرآن مجید میں شیطان کے ذکر اور اس کی نشانیوں کو دہرایا گيا ہے اور نزول وحی کے پورے عرصے کے دوران شیطان کا نام لیا گيا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں کبھی بھی دشمن کے ذکر اور اس کی علامتوں کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔آج شیطان کی، جو وہی سامراج کا سیاسی محاذ ہے، پوری کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی جانب سے مایوس اور گرانقدر علم و ثقافت کے ذخیرے کے سلسلے میں لاپروا بنا دیا جائے۔ ہر وہ بات اور واقعہ جو مسلمانان عالم میں امید پیدا کرے اور انہیں اسلام کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر کے لیے ترغیب دلائے، سامراج کی نظر میں بہت بڑا دشمن اور قابل نفرت ہے۔ اسلامی ایران کے ساتھ بڑے شیطان کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل اور ایک بڑی آبادی نیز لامتناہی مادی و معنوی دولت و ثروت کے ساتھ ایک وسیع و عریض ملک کا انتظام بخوبی چلائے جانے سے مسلمانوں کو اسلامی عزت و عظمت کی نوید مل رہی ہے اور ان کے دلوں میں امید کے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ ایران میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کو انیس برس گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں پوری دنیا نے مسلم اقوام کے رویے میں امید کی علامتیں دیکھیں اور اب بھی دیکھ رہی ہیں اور جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا اور اس عظیم موج کے مقابلے میں سامراجی دنیا کی سازشوں کو شکست ہوتی گئی اور اس امید میں مزید اضافہ ہوتا گيا ہے۔ فلسطینیوں کی بیداری اور غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں اسلامی نعروں کے ساتھ ان کے حریت پسندانہ جہاد کے آغاز کے سبب یورپ میں مسلمان اقوام کی بیداری اور یورپ والوں کے ہاتھوں یا ان کی حامیانہ خاموشی کے سبب بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے پیش آنے والے خونریز المیے کے باوجود، ایک مسلمان بوسنیائی ملک کی تشکیل، ترکی اور الجزائر میں مغربی جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے مطابق اسلامی حاکمیت پر ایمان رکھنے والے افراد کا برسراقتدار آنا، البتہ دونوں ہی ملکوں میں بغاوت، غیر قانونی طاقتوں کی مداخلت اور اسلامی اقتدار کے عالمی دشمنوں کی عداوت کے سبب ان کی کامیابی ادھوری رہ گئی- سوڈان میں اسلامی بنیادوں پر حکومت کی تشکیل، کہ جو غیر ملکی سازشوں کے باوجود بحمد اللہ بدستور اسلامی اقتدار کی راہ پر گامزن ہے، ایسے بہت سے مسلمان ممالک میں اسلامی نعروں کا احیا، جہاں یہ نعرے طاق نسیاں کی زینت بن چکے تھےاور ایسی ہی دوسری متعدد مثالیں یہ سب کی سب پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ پر ایران میں اسلامی جمہوریہ کی پیدائش کے گہرے اور روز افزوں اثرات کی نشانیاں ہیں۔اسی وجہ سے اسلامی ایران سے سامراج کی دشمنی روز بروز زیادہ سخت اور کینہ آمیز ہوتی جا رہی ہے۔ فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی سازشوں کی مسلسل ناکامی کے بعد سامراج نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جو اس سے پہلے بھی ایران اسلامی کے خلاف سرگرم رہا ہے۔ یہ محاذ، ایک تشہیراتی جنگ کا محاذ ہے؛ اور اس کا مقصد ایرانی قوم اور حکومت پر الزام تراشی کرنا اور اس کے نتیجے میں مسلمان اقوام کے دلوں میں روشن امید کے چراغوں کو خاموش کرنا ہے!اس تشہیراتی جنگ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایرانی قوم، انقلاب کے سلسلے میں اپنی عظیم تحریک، اس کے نعروں اور اسلام و قرآن کی حاکمیت سے پشیمان ہو چکی ہے اور ملک کے حکام نے اسلام اور انقلاب سے منہ موڑ لیا ہے! مثال کے طور پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ایرانی حکومت، امریکی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ملک کے حکام کی جانب سے اس دعوے کی بار بار تردید اور اسلام، انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کی پابندی کے سلسلے میں ان کی مسلسل تاکید، اس بات میں رکاوٹ نہیں ہے کہ سامراج خصوصا امریکی سامراج کے تشہیراتی ادارے حتی سیاسی حکام، زبانوں سے اور مخلتف طریقوں سے اپنے دعوے کو دہراتے رہیں اور تبصروں، خبروں نیز عالمی رپورٹوں خصوصا عالم اسلام کی سطح پر پہلے سے زیادہ اس دعوے کی تکرار کرتے رہیں۔حج میں دشمن کی شناخت کا مطلب ان طریقوں اور ان کے محرکات کی شناخت، اور برائت کا مطلب دشمن کی سازش کا پردہ چاک کرنا اور اس سے بیزاری کا اظہار کرنا ہے۔ایرانی قوم اور حکومت نے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم الشان قیادت میں اپنے عظیم انقلاب کے ذریعے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اسلام و ایران کی عظمت کا پرچم لہرایا ہے اور اپنی عزت، قومی خودمختاری اور تاریخی حیات کو واپس حاصل کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایرانی قوم کو روز افزوں برائیوں، علمی و اخلاقی پستی، سیاسی آمریت اور امریکہ پر انحصار سے نجات حاصل ہوئی اور اس نے حیات اور تعمیر کے نشاط کو دوبارہ حاصل کیا۔ اسے اغیار کے پٹھو، نااہل، خیانت کار، بدکار، آمر اور ظالم مہروں سے نجات اور ایک عوامی حکومت، ہمدرد، ماہر، مومن اور امین حکام حاصل ہوئے۔ اس نے اپنے ملک کا اختیار اور اس کے قومی اور خداداد ذخائر کو، جنہیں اغیار لوٹ رہے تھے، اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے اندر موجود ماہر افرادی قوت کو، جو خیانت کار اور پٹھو بادشاہوں کی کمزوری اور بدعنوانی کے سبب برسوں تک عضو معطل بنی رہی تھی، زندہ کیا اور علم و عمل کے تمام میدانوں میں دو صدیوں کے پچھڑے پن کی تلافی کے لیے بڑے بڑے قدم اٹھائے۔ مستقبل کے لیے بھی اس نے اپنی بلند ہمتی، عزم مصمم اور روشن افکار کو اپنے انیس سالہ تجربے کے ساتھ، مشعل راہ بنا لیا ہے۔ایرانیوں اور ایران پر اسلام، اسلامی انقلاب اور اس کے عظیم قائد امام خمینی کا حق زندگی کا حق ہے اور ہماری قوم و حکومت اس حقیقت کو نہ تو کبھی فراموش کرے گی اور نہ ہی اس واضح راستے اور صراط مستقیم سے پیچھے ہٹے گی۔امریکی حکومت نے ابتدائی برسوں ہی سے، جب اس نے تقریبا پچاس برس قبل ایران کے سیاسی پلیٹ فارم پر قدم رکھا، ایران اور ایرانیوں کے ساتھ خیانت اور جفاکاری کی۔ بدعنوان اور غیر عوامی پہلوی حکومت کی حمایت کی۔ پٹھو، کمزور اور غلام ذہنیت والی حکومتوں کو اقتدار میں پہنچایا۔ ہماری قوم پر اپنے ارادوں کو مسلط کیا۔ ہمارے قومی ذخائر کی لوٹ مار کی۔ تیل اور اسلحوں کے زیاں بار سودوں کے ذریعے اس قوم کی بے پایاں دولت و ثروت کو لوٹا۔ ایران کی مسلح افواج کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ شاہ کی سکریٹ سروس اور اس کے ایذائیں پہنچانے والے افراد کو تربیت دی۔ ایران اور عربوں سمیت بہت سی مسلم اقوام کے درمیان اختلاف ڈالا۔ ایران میں برائیوں اور بے راہ روی کو ہوا دی۔ مختلف مراحل میں اسلامی تحریک کی سرکوبی کے لیے شاہ کی حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کی رہنمائی کی اور جب ظلمت و کفر و طاغوت کے اس محاذ کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا تو اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے ابتدائی ایام سے ہی ایران اور اس کی انقلابی قوم کے خلاف مختلف قسم کی دشمنیاں، حملے، سازشیں اور معاندانہ اقدام شروع کر دیئے۔ آٹھ سالہ جنگ میں عراقی حکومت کی بھرپور مدد سے لے کر ایران کے مکمل اقتصادی محاصرے کے لیے سرگرمیوں، خیانت کار اور فراری عوامل کی مدد، اس سے متعلق تمام تشہیراتی اداروں میں مستقل پروپیگنڈوں، علاقائي اختلافات میں اشتعال انگیزی، ایران اور اس کے ہمسایوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں، سی آئی اے کے ایجنٹوں کے توسط سے ایرانی حکومت کا تختہ پلٹنے اور ایران میں دہشتگردانہ کارروائیوں، ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان اقتصادی سمجھوتوں پردستخط کو روکنے کی جی توڑ کوششوں اور تمام ممکنہ محاذوں اور تمام شعبوں میں ایران کے خلاف موذیانہ اور دھمکی آمیز کارروائیوں تک ہر طرح کے معاندانہ اقدامات کیے گئے۔یہ ایران اور ایرانیوں کے ساتھ امریکی حکومت کی دشمنیوں کی طویل فہرست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ البتہ سبھی جانتے ہیں اور امریکی حکومت کے سرغنہ خود سب سے بہتر اور بڑی تلخی کے ساتھ جانتے ہیں کہ امریکی حکومت کو ان میں سے زیادہ تر میدانوں میں شکست ہوئی ہے اور وہ ناکام ہو کر الگ تھلگ ہو چکی ہے۔ ایرانی قوم خدائی امداد اور اسلام و انقلاب کی برکت سے حاصل ہونے والے قوت و عزت کے ساتھ ان میں سے بیشتر موقعوں پر اپنے دشمن کو شکست اور ناکامی کا تلخ مزہ چکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ان واضح حقائق کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت، اس دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے جو مسلسل شکستوں کے سبب کینے سے لبریز دل کے ساتھ بدستور ایران اور ایرانیوں پر وار کرنے کی کوشش میں ہے اور کس طرح ایرانی قوم اور حکومت اس دشمن کے زہر آگیں تبسم کے فریب میں آ سکتی ہے جس کے ہاتھ میں آج بھی زہر میں بجھا ہوا خنجر موجود ہے؟اسلامی جمہوریہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ خارجہ پالیسی میں عزت، حکمت اور مصلحت جیسے تین اصولوں پر مبنی مساوی تعلقات کا خواہاں ہے اور اس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان تعلقات میں ملک کے مادی اور معنوی مفادات، ایران کی عظیم الشان قوم کی مصلحت اور عزت کی حفاظت اور دنیا کے سیاسی ماحول میں امن و امان کا تحفظ اس کا اصل معیار اور رہنما اصول ہے۔ہمسایوں اور یورپی ملکوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک واضح اور ٹھوس دلیل ہے اور مسلمان ممالک کے ساتھ برادرانہ مذاکرات کے لیے ہماری دائمی کوشش، جن میں سے بعض کے بہترین نتائج کا بحمد اللہ ہم مشاہدہ بھی کر رہے ہیں، دنیا کے لوگوں کے سامنے ہے؛ تاہم ان سب کے باوجود دشمن کی شناخت اور اس کے مقابلے میں ہوشیاری اور مزاحمت کو بھی ایرانی قوم نے اپنا دائمی لائحۂ عمل بنا رکھا ہے اور وہ شیاطین کے فریب میں نہیں آئي ہے اور ان شاء اللہ آگے بھی نہیں آئے گی۔ایرانی قوم، صیہونی دشمن کو جس نے فلسطین کی اسلامی سرزمین میں ایک غاصب حکومت قائم کر دی ہے، کسی بھی صورت میں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی اس غاصب حکومت کے خاتمے اور خود فلسطینی ملک کے عوام کے ذریعے ایک حکومت کی تشکیل کی ضرورت کے اپنے عقیدے کو کبھی بھی پنہاں نہیں کرے گی۔ اسی طرح وہ امریکہ کو، جو شیطان بزرگ اور سامراجی فتنوں کا سرغنہ ہے، جب تک اپنی موجودہ روش پر باقی رہے گا، اپنا دشمن سمجھتی رہے گی اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گی۔پورے عالم اسلام کے محترم بھائیو اور بہنو اور عزیز ایرانی حجاج کرام! خداوند عالم سے مدد مانگ کر معرفت کو بیان کردہ وسعت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے کہ جو حج کا سب سے بڑا ثمرہ ہے اور مذکورہ میدانوں میں نئی شناخت حاصل کرکے اپنے ملک واپس لوٹئے اور اسے مستقبل کے لیے اپنی کوششوں اور جد و جہد کی بنیاد قرار دیجئے۔ اس بار خاص طور سے کوسوو کے مسلمانوں کے آلام ایک دوسرے سے بیان کیجئے جو بلقان کے علاقوں کی خونیں داستان کا تسلسل اور بوسنیا و ہرزے گووینا جیسا ہی ایک دوسرا تجربہ ہے۔ کوسوو کے لوگوں کی کامیابی اور نجات کے لیے دعا اور ان کی مدد کے لیے اقدام کیجئے۔ اسی طرح دیگر مصیبت زدہ اسلامی علاقوں کے مسلمان عوام کے لیے راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کیجئے، ان کے لیے دعا کیجئے اور مسلمانوں کے امور کی اصلاح کے لیے خداوند قادر و رحیم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو جائیے۔امید کہ آپ سبھی حج مقبول اور اس کے معنوی، اخلاقی اور سیاسی ثمرات کے ساتھ اپنےگھروں کو لوٹیں گے۔ والسّلام على بقيۃاللَّہ فى ارضہ و عجّلاللَّہ فرجہ۔والسّلام عليكم و رحمۃاللّہ و بركاتہ على الحسينى الخامنہ اى تین ذي الحجۃالحرام 1418 ہجری قمری مطابق بارہ فروردين 1377 ہجری شمسی
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 9 بہمن سنہ 1376 ہجری شمسی مطابق 29جنووری سنہ 1998 عیسوی کو عید سعید فطر کے موقعے پر ملک کے سویلین اور فوجی عہدیداروں سے خطاب میں عید کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 26 دی سنہ 1376 ہجری شمسی مطابق 16 جنوری سنہ 1998 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطبوں میں اہم ترین موضوعات پر سیر حاصل بحث کی۔ آپ نے توبہ و استغار کے خصوصیات کا ذکر کیا اور ماہ رمضان المبارک کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران امریکہ تعلقات کے سلسلے میں انتہائي اہم نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دلیلوں سے ثابت کیا کہ امریکہ کے سلسلے میں ایران کا موقف بالکل درست ہے اور ایران اپنے اسی موقف کی بنیاد پر مسلسل پیشرفت کر رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 24 مہر سن 1376 ہجری شمسی مطابق 16 اکتوبر 1997 عیسوی کو دار الحکومت تہران کے قریب واقع کرج کے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنی تقریر میں اسلامی انقلاب کے لئے کرج کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے تمام علمی و معاشی شعبوں میں جانفشانی کی ضرورت پر زور دیا اور اسے دنیا میں سامراجی طاقتوں کے سامنے بے نیازی او مضبوطی کا راز قرار دیا۔ آپ نے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران میں معاشی بد حالی سے متعلق پروپیگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے اس فریب سے محفوظ رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد فاتح امیدوار کو حاصل ہونے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی جاتی ہے۔ ایک آئینی تقریب میں قائد انقلاب اسلامی صدر جمہوریہ کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کرتے ہیں۔ چنانچہ صدر سید محمد خاتمی کی انتخابات میں کامیابی کے بعد بارہ مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق تین اگست سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو اس تقریب کا انعقاد ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس تقریب سے خطاب میں اہم ترین ملکی، علاقائي اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی راہ و روش کے بارے میں اہم نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نو مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق اکتیس جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو جناب علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے دوسرے دور صدارت کے اختتام پر جناب رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے اپنے خطاب میں حکومت کی کاوشوں کو سراہا۔ آپ نے اس حکومت کے افراد کی خصوصیات کو آئندہ حکومتوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔
پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں کے اجلاس سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی فرقوں کے اشتراکات اور خاص طور پر پیغمبر اسلام کی ذات اقدس کے محور پر اتحاد بین مسلمین کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس تیر سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق سولہ جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو محکمہ پولیس کے اہلکاروں اور کمانڈروں سے ملاقات میں اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام میں پولیس کو خاص کردار اور خصوصیات کا حامل قرار دیا۔ اس ملاقات میں کچھ پولیس کمانڈروں نے بھی تقریر کی اور محکمے کی کارکردگی اور پیشرفت کی تفصیلات بیان کیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ؛ سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین، الھداۃ المھدیین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صلّ علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
مسلمین عالم، بالخصوص ایران اسلامی کے مومن، مجاہد، باشرف اور عزیز عوام، آپ نمازیوں، خصوصا شہیدوں کے پسماندگان، فداکاروں، دفاع وطن میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے عزیز 'جانبازوں'، جنگی قیدی کی حیثیت سے دشمن کی جیلوں میں ایک عرصہ گزار نے کے بعد آزاد ہوکے وطن کی آغوش میں واپس آنے والے 'حریت پسندوں'، جنگ میں لاپتہ ہو جانے والے مجاہدین اور ان کے خاندان والوں کو عید الفطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
عید الفطر اور عید الاضحی کے بارے میں جو کچھ پایا جاتا ہے یعنی جو( آیات و روایات پائی جاتی ہیں)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طہارت، پاکیزگی اور تزکئے کا دن ہے۔
یہ دو سورے جو نماز عید میں پڑھے جاتے ہیں، ان میں سے ایک میں خداوند عالم فرماتا ہے کہ قد افلح من تزکّی (1) یعنی جس نے خود کو پاکیزہ بنا لیا اور اپنے دامن اور روح و دل کو آلودگیوں سے پاک کر لیا، اس نے فلاح پا لی۔ فلاح یعنی میدان زندگی میں کامیابی اور مقصد خلقت کا حصول۔
دوسری رکعت کے سورے میں فرماتا ہے کہ قد افلح من زکّیھا(2) بعینہ وہی مضمون ہے۔ یعنی جو اپنی روح کا تزکیہ کر سکا اور اس کو پاک بنا سکا، اس نے فلاح اور نجات حاصل کر لی۔ دونوں سوروں میں تزکئے، طہارت اور پاکیزگی کی بات کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس دن ایک مالی واجب بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ زکات فطرہ کی ادائیگی ہے۔ زکات وہ مالی طہارت ہے جو انسان کو پاکیزہ کرتی ہے۔ خذ من اموالھم صدقۃ تطھّرھم و تزکّیھم بھا(3) اس واجب (کی ادائیگی) اور مالی صدقے کا لوگوں سے لینا، پستی و رذالت، حرص و طمع، بخل اور دوسری برائیوں سے ان کی روح کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے۔
بنابریں میرے عزیزو! بھائیو اور بہنو! عزیز نمازیو! عیدالفطر پاکیزگی اور طہارت کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس لئے ہو کہ آپ نے ایک مہینہ روزہ رکھا ہے، ریاضت کی ہے اور خود کو آلودگیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس لئے بھی ہو کہ اس دن آپ نے میدان عبادت میں اجتماعی طور پر عبادت کی ہے۔ بہرحال، مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کو ایک مہینہ روزہ رکھنے کے بعد، عید الفطر کے دن طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی تطہیر اور تزکیہ کیا۔ اگر روزہ صحیح رکھا ہو اور نماز عید صحیح ادا کی ہو، اور یقینا ایسا ہی ہے، تو اس طہارت، اس پاکدامنی اور روح کی اس پاکیزگی کی قدر کیجئے! یہی پاکیزگی انسان کو نجات دلاتی ہے۔ جو چیز انسان کو (مصیبتوں میں) گرفتار کرتی ہے وہ آلودگی، شہوت، غضب، حرص و طمع ، بخل اور دیگر اخلاقی برائیوں سے حاصل ہونے والی آلودگی ہے۔ افراد بشر نے انھیں اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے دنیا کو تاریک کیا، روئے زمین کو آلودہ کیا اور خدا کی نعمتوں کے سلسلے میں ناشکری کی ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں، جو نظام الہی اور حکومت قرآنی ہے، لوگ دوسرے نظاموں کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح اپنے لئے طہارت اور پاکیزگی کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اس کی قدر کریں۔ آج دنیائے انسانیت کو آپ کے پیغام تطہیر و تزکیہ کی ضرورت ہے۔
یہ ظلم، زور زبردستی اور امتیازی سلوک جو عالمی سطح پر پایا جاتا ہے، بہت سے ملکوں میں انسانوں کو جس تیرہ بختی کا سامنا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں نوجوانوں کی سرگردانی، عورتوں اور مردوں کے ناجائز تعلقات، شہوانی آلودگی، سیاسی برائياں اور مالی بدعنوانیاں، یہ سب اس لئے ہے کہ لوگوں نے اپنی تطہیر اور تزکیہ نہیں کیا۔ قرآن تزکئے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کے مقدس پیغمبر انسانوں کی تطہیر کرتے ہیں۔ نماز سے، زکات سے، روزے سے اور عید الفطر سے تطہیر ہوتی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ موقع ہر ایک کو دستیاب ہے۔
میرے عزیز نوجوانو! قلب و روح کی نورانیت اور پاکیزگی کے دور سے گزرنے والے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! آپ دوسروں سے زیادہ اس طہارت کی قدر کریں اور اس کی حفاظت وپاسداری کریں۔ آپ کا ملک خدا کے فضل اور اسی طہارت کی مدد سے ترقی کرے گا، آزاد رہے گا، پیشرفت کرے گا، اس کی ویرانیاں دور ہوں گی، تفریق، پریشانیاں اور زندگی کی گوناگوں مشکلات ختم ہوں گی۔
سب کو خدا کی بارگاہ کی طرف آگے بڑھنا چاہئے۔ خدا کی طرف دست دعا دراز کرنا چاہئے۔ اس سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ اپنے دامن کو پاک رکھنے اور برائیوں سے پرہیز کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو لوگ مالی امور سے سروکار رکھتے ہیں، ان کو مالی بدعنوانیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ در پیش رہتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، ان کے سیاسی اور سماجی برائیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جو لوگ شہوتوں سے دوچار رہتے ہیں انھیں جنسی اور شہوانی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے ماتحت ہوتے ہیں، ان کے ظلم و ستم میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جن کے ہاتھ میں کوئی کام ہوتا ہے، ان کے لئے اپنے کام میں خیانت کے ارتکاب کا خطرہ رہتا ہے۔ سب اپنا خیال رکھیں۔ سب اپنے اعمال کا خیال رکھیں۔ یہ احتیاط اور توجہ ہی تقوی ہے جس کا نماز عید الفطر میں ہمیں خود کو اور اپنے سامعین کو سفارش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پالنے والے! ہم سب کو تقوی، طہارت، تزکئے، اپنے فرائض کی ادائیگی اور صراط مستیم طے کرنے کی توفیق عنایت فرما۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و العصر ان الانسان لفی خسر الّا الّذین آمنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر (4)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین؛ الھداۃ المھدییّن المعصومین۔ سیّما علی امیر المومنین و صدیّقۃ الطّاھرۃ سیّدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سبطی الرّحمۃ و امامی الھدی و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی و جعفربن محمد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی آئمّۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔
اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
عالم اسلام میں یہ بات عیاں ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو اٹھارہ سال گزرنے کے بعد ایسی حالت میں کہ اس انقلاب کے دشمن اور اس کے خلاف سازشیں تیار کرنے والے یہ توقع رکھتے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اس انقلاب کی یاد کم ہو جائے گی اور پھر اس کو فراموش کر دیا جائے گا، لیکن ان کے اس خیال اور آرزو کے بر خلاف، تاریخ کے اس بے نظیر انقلاب پر توجہ بڑھ رہی ہے اور ملکوں میں اسلامی بیداری عمیق تر ہو رہی ہے جو خود اسلام اور انقلاب کا ایک معجزہ ہے۔
البتہ عالمی سطح پر پائی جانے والی اس توجہ میں پہلا کردار ایرانی قوم کا ہے۔ میں اپنے لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ خدا کے شکرانے اور اپنے عزیز عوام کے شکریئے کے طور پر یہ بات عرض کروں کہ دشمن کی پوری کوشش یہ رہی ہے کہ عوام کو انقلاب کے میدان سے باہر نکال دے۔ لیکن آپ کا جواب ایسا تھا کہ اس انقلاب کے بعد گزرنے والے ان برسوں میں جن میدانوں میں عوام کی موجودگی نمایاں ہونی چاہئے تھی، ان مں آپ نے بھر پور شراکت سے عالمی سامراج کو ٹھوس، محکم اور دنداں شکن جواب دیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعے، یوم القدس کے عظیم مظاہروں میں آپ کی شرکت تھی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ یوم القدس کے اعلان کے اٹھارویں سال میں عوام کی شرکت سترہویں سال سے زیادہ رہی اور سترہویں سال میں سولہویں سال سے زیادہ تھی۔ یہ کیسی تحریک، کیسا اہتمام اور اس عظیم قوم پر خداوند عالم کا کیسا لطف و کرم ہے!
آپ کے اجتماعات، عید الفطر پر میدان عبادت میں آپ کا یہ اجتماع بے نظیر ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی نماز عید الفطر پوری اسلامی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں کہیں بھی مذہبی اور اسلامی رسومات میں اتنے زیادہ نوجوان، اتنے ذوق و شوق کے ساتھ شرکت نہیں کرتے۔
میرے عزیزو! یہ بھی جان لیجئے کہ اس انقلاب اور میدان میں آپ نوجوانوں کی بھرپور موجودگی کی برکت سے پوری اسلامی دنیا میں، دین اور دینی رسومات میں نوجوانوں کی دلچسپی پندرہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھی ہے۔
کل بائیس بہمن ( مطابق گیارہ فروری، یوم آزادی) ہے؛ ایک بار پھر تجزیہ نگاروں، مبصرین اور دیکھنے والوں کی آنکھیں، انقلاب اور ایرانی قوم کی قوت و طاقت کا مشاہدہ کریں گی۔ البتہ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ ریڈیو پر دوسری طرح بولتے ہیں۔ لیکن خود جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر انقلاب، اس قوم اور یوم القدس کے عظیم اجتماع کو دشمنی اور عداوت کی آنکھوں سے نہ دیکھتے اور ان کے دل بغض و کینے اور دشمنی سے پر نہ ہوتے تو بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں یہ اعلان نہ کیا جاتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم القدس کے پروگراموں کے لئے کچھ لوگوں کو بسوں سے لایا گیا۔ جب ایرانی قوم یہ باتیں سنتی ہے تو انقلاب کے خلاف عالمی پروپیگنڈوں کی حقیقت اس پر اور عیاں ہو جاتی ہے۔ یوم القدس کا دسیوں لاکھ کا یہ مجمع، چند بسوں کے مسافروں کا مجمع تھا؟! حکومت نے کچھ لوگوں کو جمع کیا تھا؟! دیکھئے ان کے دل بغض و کینے سے کس طرح پر ہیں۔ اگر نہ دیکھیں، غصے سے نہ تلملائیں تو یہ رد عمل نہ دکھائيں۔ یہ جھوٹی خبریں، آپ کی بھرپور شرکت سے ان کی تلملاہٹ اور بغض کا ردعمل ہے۔ خدا کے فضل، نصرت الہی اور خدا کی عنایت سے کل ایک بار پھر اس انقلاب کی نسبت بغض سے بھری ان کی آنکھیں اور کینے سے پر ان کے دل تلملائیں گے اور ان پر لرزہ طاری ہوگا۔ لیکن انقلاب اور ایران کی انقلابی قوم سے دنیا کی اقوام کی محبت اور اس بیداری کے ساتھ ہی دشمن کی سازشیں بھی روز بروز بڑھی ہیں، مگر بے اثر ہیں۔ دشمن کی سازشوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے فضل سے دشمن کی سازشیں ان کا مقصد پورا نہیں کر سکی ہیں۔ لیکن بہر حال وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کی ایک سازش اسلامی ملکوں میں اختلاف ڈالنا ہے۔ ایک سازش بہت سی حکومتوں کو چھوٹی اور غیر اہم باتوں میں الجھا کے عظیم اور اہم چیزوں کی طرف سے غافل کر دینا ہے۔ ایک سازش اسلامی ملکوں میں رنجش پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کے بہانے تراشنا ہے، تاکہ صیہونیوں کے تعلق سے، جو اسلامی دنیا کے حقیقی دشمن ہیں، عالم اسلام کی گہری نفرت سے مسلمانوں کے ذہنوں کو ہٹا سکیں۔ یہ بات صرف ہمارے خطے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی دنیا میں ہر جگہ یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے خطے میں اس سازش میں زیادہ شدت ہے۔
انقلاب کے پہلے دن سے ہی سامراج کے پروپیگنڈہ اداروں اور سیاسی کھلاڑیوں نے خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے ہاتھوں اپنے اسلحے بیچ سکیں۔ تاکہ وہاں اپنے فوجیوں کی تعیناتی جاری رہنے کو یقینی بنا سکیں۔ میں نہیں جانتا کہ کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ان ملکوں کے دل اور ذہن بیدار ہوں اور یہ سمجھیں کہ امریکا ان کی بھلائی نہیں چاہتا! یہ سمجھیں کہ امریکا اور پوری دنیا میں ان کے صیہونی ڈھنڈورچی، جو ان ملکوں میں اپنی مد نظر ذہنیت بنانا چاہتے ہیں، ان کی نیت یہ ہے کہ خلیج فارس میں آئيں، یہاں اپنی فوج رکھیں، اپنے ناجائز اقتصادی مفادات پورے کریں اور اگر ہو سکے تو اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم پر دباؤ ڈالیں۔
حکومت، عوام اور حکام بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران پڑوسی ملکوں کے تعلق سے جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ ایران نے ابتدائے انقلاب سے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ انقلاب کو آٹھارہ سال ہو رہے ہیں، ہم نے اب تک کس پر حملہ کیا ہے؟ ہم نے پڑوسیوں کی کس سرحد پر فائرنگ کی ہے؟ ہم پر گولیوں کی بارش ہوئی ہے۔ ہم نے اپنے دفاع کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا ہے۔
اگر چہ ایران ایک بڑا ملک ہے اور ایرانی قوم طاقتور ہے، سب جانتے ہیں اور سمجھ چکے ہیں کہ ایران کا کوئی بھی پڑوسی ملک دوسروں کی مدد سے بھی، اس عظیم قوم اور وسیع اور طاقتور ملک پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ڈال سکتا اور جو بھی آگے بڑھ کے جارحیت کرے گا منہ کی کھائے گا، اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت، قوم اور مسلح افواج نے کسی بھی قسم کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ اہداف رکھے ہیں نہ رکھتی ہیں اور آئندہ بھی نہیں رکھیں گی۔ توسیع پسندی ہمارے نظریات کے خلاف ہے۔ ہماری اسلامی سیاست میں توسیع پسندی اور جارحیت جیسی چیزوں کے لئے جو طاغوت سے تعلق رکھتی ہیں، کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ہم اپنی اور اپنے خطے کی سلامتی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
سب اس بات پر توجہ رکھیں کہ خلیج فارس بہت حساس علاقہ ہے۔ خیال رکھیں کہ اس خطے کے باہر سے جو دشمن ان ملکوں کے دوست بن کے خطے میں آتے ہیں، اس علاقے کے امن و سلامتی کو ختم نہ کر دیں! سب اس بات پر توجہ رکھیں۔ اگر خدا نخواستہ اس خطے میں بدامنی پیدا ہوئی تو سب سے زیادہ نقصان انھیں کو پہنچے گا، جو اس بدامنی کا باعث بنیں گے اور اس کے اسباب فراہم کریں گے۔ سب سے زیادہ نقصان ان ملکوں کو پہنچے گا، جنہوں نے اپنی دولت، اپنا ملک اور اپنی سرزمین، بیرونی جارحین کے اختیار میں دی ہوگی۔
البتہ ہماری دعا ہے کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو اور خدا کے فضل سے ان شاء اللہ پیدا نہیں ہوگی؛ لیکن اگر خدانخواستہ اس بیرونی طاقت نے جس کے فوجی خلیج فارس میں موجود ہیں، دیوانگی کی اور بغیر سوچے سمجھے کوئی حرکت کی تو سب سے پہلے یہ آگ انھیں ملکوں کو دامنگیر ہوگی، جنھوں نے مذکورہ طاقت کے فوجیوں کے غیر قانونی طور پر یہاں آنے اور رہنے کے اسباب فراہم کئے ہیں۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایرانی قوم تعمیر کے میدان میں پوری تن دہی کے ساتھ محنت اور کوشش کر رہی ہے۔ خدا کے فضل سے حکومت، قوم، ملک کے حکام، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ سبھی وسط مدتی اور طویل المیعاد منصوبوں کے ساتھ پوری توجہ سے اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ قوم ایک زندہ دل قوم ہے۔ یہ ملک ایک زندہ ملک ہے۔ دنیا کی سبھی زندہ اقوام ایسی ہی ہیں کہ اپنے کام اور امور کو تدریجی طور پر چند سال میں منظم کرتی ہیں اور یہ ملک بھی اپنے امور کو مںظم کرنے میں مصروف ہے۔
میں اپنی عزیز قوم سے عرض کرتا ہوں کہ اپنی اس شراکت کو قائم رکھیں تاکہ اس کی عزت، اقتدار اور اس کی مادی و معنوی قوت محفوظ رہے۔ یہ اتحاد جو الحمد للہ آپ کے درمیان پایا جاتا ہے اور دشمن اس کو ختم نہیں کر سکا ہے، اس کی حفاظت کریں تاکہ آپ کی عزت، اقتدار، آبرو اور حیثیت نیز دنیا میں اور دیگر اقوام پر آپ کا اثرانداز ہونا اسی قوت، شدت اورعظمت کے ساتھ باقی رہے۔
ان شاء اللہ ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی پاکیزہ روح آپ سے راضی ہو۔ شہیدوں کی ارواح طیبہ بھی آپ سے راضی ہوں۔ خدا کے فضل سے حضرت بقیۃ اللہ (امام زمانہ) ارواحنا فداہ کی دعائيں آپ کے شامل حال ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انّا اعطیناک الکوثر فصلّ لربّک و انحر۔ انّ شانئک ھو الابتر (5)
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- سورہ اعلی، آیت نمبر 14
2- سورہ شمس، آیت نمبر 9
3- سورہ توبہ، آیت نمبر 103
4- سورہ عصر، آیات 1 الی 4
5-سورہ کوثر، آیات 1 الی 3
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا اس میں مغرب و عشا کی نماز میں بڑا ازدحام رہتا تھا اور باہر تک صفیں لگتی تھیں۔
(نماز میں شرکت کرنے والے)اسی۸۰ فیصد جوان ہوتے تھے، وجہ یہ تھی کہ نوجوان طبقے سے ہمارا باقاعدہ رابطہ رہتا تھا۔
ان دنوں الٹی جیکٹ پہننے کا فیشن تھا لہذا نوجوان الٹی جیکٹ پہنے نظر آتے تھے۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک جوان الٹی جیکٹ پہنے پہلی صف میں میرے مصلے کے پیچھے بیٹھا ہے، ایک حاجی صاحب نے جن کا بڑا احترام تھا اور جو ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتے تھے، اس جوان کے کان میں کچھ کہا۔ میں نے دیکھا نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
میں نے فوراً حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کہہ دیا۔
ان سے قبل نوجوان نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں۔
میں سمجھ گیا کہ انہوں نے اس سے کہا ہے اس طرح کا لباس پہن کر پہلی صف میں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔
میں نے نوجوان سے کہا کہ، آپ کو پہلی ہی صف میں بیٹھنا ہے آپ یہاں سے کہیں اور مت جایئے۔
میں نے حاجی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نوجوان پیچھے چلا جائے، یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ الٹی جیکٹ پہننے والا جدیدیت پسند نوجوان بھی نمازی ہو سکتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔
برادران ایمانی اگر ہمارے پاس دولت اور وسائل نہیں ہیں اگر ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے تو کم از کم ہم اچھا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں۔
"فی صفۃ المومن بشرہ فی وجھہ و حزنہ فی قلبہ"
نوجوانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ذہن و دل متاثر ہو اور ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ (انجمن تبلیغات اسلامی کے عہدہ داران سے ملاقات کے دوران 16/6/1997)
سابق سویت یونین اور اس کے زیر انتظام شیعہ اکثریتی علاقے آذر بایجان کے امور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ جب کمیونسٹوں نے اس علاقے (آذربائیجان) پر قبضہ کیا تو تمام اسلامی علامتیں مٹا دیں۔
مسجدیں گوداموں میں تبدیل کر دی گئیں، دینی مراکز اور امام بارگاہوں کو کچھ اور بنا دیا گیا، دین اور شیعیت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا بس ایک چیز کی اجازت دی گئی تھی اور وہ تھی قمہ زنی۔
کمیونسٹ آقاؤں کی طرف سے کارندوں کو حکم تھا کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نماز پڑھیں، نماز جماعت قائم کریں، قرآن پڑھیں، عزاداری کریں، المختصر یہ کہ کوئی بھی دینی کام نہیں کر سکتے مگر ان کو قمہ زنی کا حق ہے، کیوں؟ صرف قمہ زنی ہی کیوں؟
اس لئے کہ یہ دین اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے لئے بہترین چیز تھی۔
لہذا کبھی کبھی دشمن اس طرح سے کچھ چیزوں کو دین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات آ جائیں دین بدنام ہو جائے گا۔
(نئے سال کے آغاز پر مشہد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب)21/03/1997
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 11 مارچ 1997 عیسوی کو ہویزہ کے شہیدوں کے قبرستان 'گلزار شہدا' میں اپنے خطاب میں شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کیا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراق کی جارح بعثی حکومت کی فوجی یلغار کے مقابلے میں ایرانی مجاہدین کی جاں نثاری کی قدردانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر چہ دشمن امریکا، مغرب اور مشرق پر انحصار کرتا تھا اور سب مادی لحاظ سے اس کی مدد کر رہے تھے لیکن معنوی لحاظ سے دشمن کے ہاتھ خالی تھے۔ ہماری قوم کے ہاتھ معنوی لحاظ سے خالی نہیں تھے۔ اس کے قلب عشق و ایمان سے مملو تھے اور وہ کامیاب ہوئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ خوزستان کے دورے میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کیا۔ 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 10 مارچ 1997 عیسوی کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نقطہ نگاہ سے عورتوں کے حقوق بیان کئے اور جاہلانہ رسومات سے دور رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ معاشرے میں عورت کے کلیدی تعمیری کردار کا جائزہ لیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے عورتوں کو اسلام میں دی گئی آزادی کی جانب توجہ مبذول کرائی اور خود خواتین پر زور دیا کہ وہ حقوق نسواں کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 10 فروری 1997 عیسوی کو عید الفطر کے دن ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں عید کی مبارکباد پیش کی اور اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے عید کے معنی و مفہوم سے بحث کی اور اس کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 18 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 7 فروری 1997 کو فضائیہ کے جوانوں اور افسران سے خطاب میں فضائیہ کے تاریخی فیصلے کی تعریف کی جو اسلامی انقلاب کی فتح سے تین دن قبل یعنی آٹھ فروری 1979 کو فضائیہ نے کیا اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بیعت کا اعلان کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 شہریور 1375 ہجری شمسی مطابق 18 ستمبر 1996 کو شہر ارومیہ میں خواتین کے اجتماع سے خطاب میں معاشرے کے اندر مختلف طرح کے حالات میں خواتین کے موثر کردار پر روشنی ڈالی ساتھ ہی خواتین کے تعلق سے کچھ اہم ہدایات دیں۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ مغربی آذربائیجان کے دورے کے دوران شہر ارومیہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اس خطاب میں صوبہ آذربائیجان کے عوام میں موجود اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تعریف کی اور مختلف ادوار میں اس صوبے کے عوام کی خدمات کا ذکر کیا۔
یونیورسٹیوں میں ولی فقیہ کے نمائندہ دفاتر کے سربراہوں سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیمی مراکز میں اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کی ترویج کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں ان نمائندہ دفاتر کے کردار کی افادیت بیان کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 29 اگست 1996 کو سرکاری عہدیداروں اور ملازمین کے اجتماع سے خطاب میں فرائض منصبی اور عوامی خدمات پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 اگست 1996 کو صدر رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے انجام پانے والے کاموں سے عوام کو مطلع کئے جانے پر زور دیا اور ساتھ ہی حکومت کو اہم سفارشات کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستائیسویں محمد رسول اللہ ڈویژن کے کمانڈروں سے خطاب میں انتہائی کلیدی نکات کا جائزہ لیتے ہوئے خواص کہے جانے والے طبقے کے مختلف ادوار کے فرائض اور ان کے موقف کی فیصلہ کن حیثیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے مہمانوں اور مختلف عوامی طبقات سے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ اس موقع پر امام خمینی کے روضے پر کثیر تعداد میں عقیدتمند جمع ہوئے اور قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 'ولایت' سے موسوم عظیم پیمانے کی فوجی مشقوں میں شرکت کرنے والے فوجیوں سے خطاب میں دفاعی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یوم مسلح افواج کے موقع پر فوج کے کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ہمہ جہتی ترقی کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 23 فروردین 1375 ہجری شمسی مطابق 11 اپریل 1996 عیسوی کو قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے عہدیداروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں قومی نشریاتی ادارے کی خدمات کی قدردانی کی اور اس ادارے کی کلیدی حیثیت کو بیان کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1375 کے آغاز پر 4 فروردین 1375 ہجری شمسی مطابق 23 مارچ 1996 عیسوی کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 بہمن سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 3 فروری سنہ 1995 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی امامت کی۔ آپ نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ماہ مبارک رمضان کی فضیلتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے اس مہینے کو اللہ کا مہینہ کہے جانے کی وجہ کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی انقلاب کے تعلق سے اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں آج اس انقلاب کے بعض پہلووں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ان نکات میں سے جن پر کم بحث ہوئی ہے ایک یہ ہے کہ ہمارا عظیم انقلاب، کامیابی کی کیفیت کے لحاظ سے استثنائی اور منفرد ہے۔ یعنی واقعی ایسے عظیم پہلوؤں کے حامل عوامی انقلاب کی کہ جس میں، سڑکوں پر عوام کی موجودگی، شہروں اور دیہی بستیوں میں شاہی حکومت کے خلاف تمام عوام کی مشارکت سے ایسی مجاہدت ہوئی ہو، کم سے کم اس زمانے تک ہمارے دور کے انقلابوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس زمانے میں دنیا کے گوشہ و کنار میں جو انقلابات آئے تھے، منجملہ لاطینی امریکا، افریقا، ایشیا اور دوسری جگہوں پر آنے والے کمیونسٹ انقلابات کے ان کی شکل اور نوعیت دوسری تھی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق تیس اگست سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ہفتۂ حکومت کی مناسبت سے صدر مملکت اور وزیروں سے ملاقات میں اہم ملکی، علاقائی اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ آپ نے قومی اقتدار اعلی کے تعلق سے اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی اقتدار کے، جو درحقیقت حکومت کی طاقت و توانائی ہے، دو ستون ہیں؛ ایک خدا سے رابطہ، یعنی یہ کہ کام خدا کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی بھی ذاتی مسائل کو مد نظر رکھ کے اور مادی پہلوؤں سے کام نہ کرے۔ دوسرا رکن؛ عوام پر توجہ ہے۔ من کان للہ کان اللہ لہ اور من اصلح ما بینہ و بین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس اگر انسان نے خدا سے اپنے رابطے کو ٹھیک کر لیا تو خداوند عالم عوام سے اس کے رابطے کو اچھا بنا دے گا۔ یہ تمام روابط، سوشیالوجی اور سائیکالوجی کے علمی میکینزم پر استوار ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چوبیس مرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پندرہ اگست سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ملاقات کے آنے والے ملک کے حکام، نظام کے ذمہ داروں اور بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے منتظمین سے سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ آج اسلامی دنیا میں پیسہ بہت ہے، فکر بھی کافی ہے، لائق افرادی قوت بھی ہے۔ علماء، شعراء، مصنفین، فنکار اور قابل سیاسی شخصیات، اسلامی دنیا میں موجود ہیں اور کانیں، نیز زیر زمین، خداداد مالی ذخائر کا بڑا حصہ بھی اسلامی ملکوں کے اختیار میں ہے۔ اگر یہ سب مل کے اپنے اندر یک جہتی پیدا کرلیں، یا کم سے کم ایک دوسرے کے خلاف کام نہ کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کیا ہوگا۔ دشمن ایسا کام کر رہا ہے کہ اسلامی دنیا کے یہ مالی اور افرادی قوت کے ذخائر ایک دوسرے کے مقابلے پر آجائیں۔ عراقی حکومت کو ورغلایا، اس علاقے میں آٹھ سالہ تباہ کن جنگ شروع کی اور کوشش کی کہ اس نئے پودے کو (اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کو) جڑ سے ختم کردیں، لیکن نہیں کر سکے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سات تیر تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق اٹھائیس جولائی سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ملاقات کے لیے آنے والے، عدلیہ کے عہدیداروں اور جج صاحبان سے خطاب میں عدلیہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہر گناہ حق کی خلاف ورزی ہے۔ نظام الہی و اسلامی قوانین، قوانین الہی ہیں اور ہر قانون کی ہر خلاف ورزی، حق کی خلاف ورزی ہے۔ ان حالات میں عدلیہ حق کی انواع و اقسام کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ عدلیہ کی اہمیت ہے۔ آپ باطل کو عوام کے نظام زندگی پر مسلط ہونے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ادارے میں، جس میں آپ ہیں، درحقیقت سبھی حق پر کمربستہ ہیں۔ یعنی سبھی اس چیز کے نفاذ کو یقینی بنانے میں کوشاں ہیں، جو آفرینش حق تعالی اور عالم ہستی کے قرار حقیقی کے مطابق ہے۔ یونہی نہیں ہے کہ ہماری مقدس شرع اور فقہ میں انصاف کے امور اور عدالتی امور کے ذمہ داروں کے سلسلے میں اتنی زیادہ باریک بینی اور دقت نظر پر زور دیا گیا ہے جبکہ دیگر حکومتی کاموں کے تعلق سے اتنی زیادہ توجہ اور تاکید سے کام نہیں لیا گيا ہے کہ یہ خصوصیت ہو اور یہ نہ ہو۔ یہ موضوع کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔